شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)0%

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

مؤلف: علی اصغررضوانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 7486
ڈاؤنلوڈ: 3468

تبصرے:

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7486 / ڈاؤنلوڈ: 3468
سائز سائز سائز
شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

مؤلف:
اردو

حدیث نمبر ۱: اہل بیت علیہم السلام ، مرکز حق ہیں

“الْحَقُ مَعَنٰا فَلَنْ یُوحِشَنٰا مَنْ قَعَدَ عَنّٰا، وَ نَحْنُ صَنٰائِعُ رَبِّنٰا، وَالْخَلْقُ بَعْدُ صَنٰائِعُنٰا” (۷)

”حق، ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ ہے، کچھ لوگوں کا ہم سے جدا ہونا ہمارے لئے وحشت کا سبب نہیں ہے، کیونکہ ہم پروردگار کے تربیت یافتہ ہیں، اور دوسری تمام مخلوق ہماری تربیت یافتہ ہیں“۔

شرح

اس حدیث مبارک کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے معتبر سند کے ساتھ ابوعمرو عمری سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے حدیث کے اس فقرہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

۱۔ مکمل حق و حقیقت، اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہے۔

توجہ رہے کہ ”الحقّ معنا“کا جملہ ”اہل البیت مع الحق“ کے جملہ سےلگ ہے؛ کیونکہ پھلے جملہ کا مفھوم یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام حق و باطل کے تشخص کا بنیادی معیار ہیں، اور حق و باطل کی ایک دوسرے سے پہچان کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و کردار کی طرف رجوع کیا جائے، برخلاف دوسرے جملہ کے، (کیونکہ دوسرے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام حق کے ساتھ ہیں) اور یھی (پھلے) معنی حدیث ”علیّ مع الحقّ والحق مع علیّ(۸) سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

۲۔ جس کے ساتھ حق ہو تو اسے دوسروں کی روگردانی اور اپنی تنھائی سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے، اور اپنے ساتھیوں کی کم تعداد یا کثیر تعداد پر توجہ نہیں کرنی چاہئے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا:

”اے ہشام! اگر تمھارے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور سب لوگ یہ کھیں کہ تمھارے ہاتھ میں درّ ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمھارے ہاتھ میں اخروٹ ہے، اور اگر تمھارے ہاتھ میں درّ ہو اور لوگ کہیں کہ تمھارے ہاتھ میں اخروٹ ہے تو اس میں تمھارا کوئی نقصان نہیں ہے؛ کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمھارے ہاتھ میں درّ ہے“۔(۹)

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”راہ (حق و) ہدایت میں لوگوں کی کم تعداد سے نہ گھبراؤ۔ “(۱۰)

۳۔ اس حدیث کے تیسرے جملہ میں جو چیز بیان ہوئی ہے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی گئی ہیں جن کو یکجا جمع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف۔ بے شک اہل بیت علیہم السلام عقائد اور دینی اعمال میں لوگوں کے محتاج نہیں ہیں، اور جو کچھ خداوندعالم کی طرف سے رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا ہے وہ ان حضرات کے لئے کافی ہے، جبکہ امت ان تمام چیزوں میں اہل بیت علیہم السلام کی محتاج ہے، اور صرف قرآن و سنت ان کے لئے کافی نہیں ہے، نیز اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کئے بغیر امت گمراہ اور ہلاک ہے۔

ب۔ اہل بیت علیہم السلام پر خدا وندعالم کی نعمتیں براہ راست او ربغیر کسی واسطہ کے نازل ہوتی ہیں، اور جب خداوندعالم دوسرے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے تو وہ اہل بیت علیہم السلام کے واسطہ کے بغیر نہیں ہوتیں۔

حدیث نمبر۲ : امام زمانہ(ع) زمین والوں کے لئے امان ہیں

“اِنّی لَاٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ الْاٴَرْضِ كَمٰا اَٴنَّ النُّجُومَ اٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ السَّمٰاءِ” (۱۱)

”بے شک میں اہل زمین کے لئے امن و سلامتی ہوں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امان کا باعث ہیں“۔

شرح

یہ کلام حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اس جواب کا ایک حصہ ہے جس کو امام علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں لکھا ہے، اسحاق نے اس خط میں امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ امام علیہ السلام نے غیبت کی علت بیان کرنے کے بعد اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ غیبت کے زمانہ میں امام کا وجود بے فائدہ نہیں ہے، وجود امام کے فوائد میں سے ایک ادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ امام زمین والوں کے لئے باعث امن و امان ہیں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دوسری صحیح روایات میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ جیسا کہ اُن روایات میں بیان ہوا ہے: اگر زمین پر حجت (خدا) نہ ہو تو زمین اور اس پر بسنے والے مضطرب اور تباہ و برباد ہوجائیں۔

امام زمانہ علیہ السلام کو اہل زمین کے لئے امن و امان سے اس طرح تشبیہ دینا جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے امن و امان ہوتے ہیں؛ اس سلسلہ میں شباہت کی چند چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں سے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱۔ جس طرح تخلیقی لحاظ سے ستاروں کا وجود اور ان کو ان کی جگھوں پر رکھنے کی حالت اور کیفیت، تمام کرّات، سیارات اور کھکشاوں کے لئے امن و امان اور آرام کا سبب ہے، زمین والوں کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کا وجود بھی اسی طرح ہے۔

۲۔ جس طرح ستاروں کے ذریعہ شیاطین آسمانوں سے بھگائے گئے ہیں اور اہل آسمان منجملہ ملائکہ کے امان و آرام کا سامان فراہم ہوا ہے اسی طرح حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا وجود، تخلیقی اور تشریعی لحاظ سے اہل زمین سے، مخصوصاً انسانوں سے شیطان کو دور بھگانے کا سبب ہے۔

حدیث نمبر۳ : فلسفہ امامت اور صفات امام

“اٴَحْییٰ بِهِمْ دینَهُ، َواَٴتَمَّ بِهِمْ نُورَهُ، وَجَعَلَ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ إِخْوٰانِهِمْ وَبَنِي عَمِّهِمْ َوالْاٴَدْنَیْنَ فَالْاٴَدْنَیْنَ مِنْ ذَوي اٴَرْحٰامِهِمْ فُرْقٰاناً بَیِّناً یُعْرَفُ بِهِ الْحُجَّةُ مَنِ الْمَحْجُوجِ، وَالاِْمٰامُ مِنَ الْمَاٴمُومِ، بِاٴَنْ عَصَمَهُمْ مِنَ الذُّنُوبِ، وَ بَرَّاٴَهُمْ مِنَ الْعُیُوبِ، وَ طَهَّرَهُمْ مِنَ الدَّنَسِ، َونَزَّهَهُمْ مِنَ اللَّبْسِ، وَجَعَلَهُمْ خُزّٰانَ عِلْمِهِ، وَ مُسْتَوْدَعَ حِكْمَتِهِ، وَمَوْضِعَ سِرِّهِ، وَ اٴَیَّدَهُمْ بِالدَّلاٰئِلِ، وَلَوْلاٰ ذٰلِكَ لَكٰانَ النّٰاسُ عَلیٰ سَوٰاءٍ، وَ لَاِدَّعیٰ اٴَمْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ كُلُّ اٴَحَدٍ، وَ لَمٰا عُرِفَ الْحَقُ مِنَ الْبٰاطِلِ، وَ لاٰ الْعٰالِمُ مِنَ الْجٰاهِلِ “ (۱۲)

”اوصیائے (الٰہی) وہ افراد ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم اپنے دین کو زندہ رکھتا ہے، ان کے ذریعہ اپنے نور کو مکمل طور پر نشر کرتا ہے، خداوندعالم نے ان کے اور ان کے (حقیقی) بھائیوں، چچا زاد (بھائیوں) اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان واضح فرق رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ حجت اور غیر حجت نیز امام اور ماموم کے درمیان پہچان ہوجائے۔ اور وہ واضح فرق یہ ہے کہ اوصیائے الٰہی کو خداوندعالم گناھوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کو ہر عیب سے منزہ، برائیوں سے پاک اور خطاؤں سے دور رکھتا ہے، خداوندعالم نے ان کو علم و حکمت کا خزانہ دار اور اپنے اسرار کا رازدار قرار دیا ہے اور دلیلوں کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو پہر تمام لوگ ایک جیسے ہوجاتے، اور کوئی بھی امامت کا دعویٰ کر بیٹھتا، اس صورت میں حق و باطل اور عالم و جاہل میں تمیز نہ ہوپاتی“۔

شرح

یہ کلمات امام مھدی علیہ السلام نے احمد بن اسحاق کے خط کے جواب میں تحریر کئے ہیں، امام علیہ السلام چند نکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام اور امامت کی حقیقت اور شان کو بیان کرتے ہوئے امام کی چند خصوصیات بیان فرماتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعہ حقیقی امام اور امامت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان تمیز ہوسکے:

۱۔ امام کے ذریعہ خدا کا دین زندہ ہوتا ہے؛ کیونکہ امام ھی اختلافات، فتنوں اور شبھات کے موقع پر حق کو باطل سے الگ کرتا ہے اور لوگوں کو حقیقی دین کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

۲۔ نور خدا جو رسول خدا (ص) سے شروع ہوتا ہے، امام کے ذریعہ تمام اور کامل ہوتا ہے۔

۳۔ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت میں امام کی پہچان کے لئے کچھ خاص صفات معین کئے ہیں، تاکہ لوگ امامت کے سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مخصوصاً اس موقع پر جب ذرّیت رسول کے بعض افراد امامت کا جھوٹا دعویٰ کریں۔ ان میں سے بعض خصوصیات کچھ اس طرح ہیں: گناھوں کے مقابلہ میں عصمت، عیوب سے پاکیزگی، برائیوں سے مبرّااور خطا و لغزش سے پاکیزگی وغیرہ، اگر یہ خصوصیات نہ ہوتے تو پہر ہر کس و ناکس امامت کا دعویٰ کردیتا، اور پہر حق و باطل میں کوئی فرق نہ ہوتا، جس کے نتیجہ میں دین الٰہی پوری دنیا پر حاکم نہ ہوتا۔

حدیث نمبر ۴: فلسفہ امامت

“اٴَوَ مٰا رَاٴَیْتُمْ كَیْفَ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَعٰاقِلَ تَاٴوُونَ إِلَیْهٰا، وَ اٴَعْلاٰماً تَهْتَدُونَ بِهٰا مِنْ لَدُنْ آدَمَ (علیه السلام) “ (۱۳)

”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوندعالم نے کس طرح تمھارے لئے پناہ گاھیں قرار دی ہیں تاکہ ان میں پناہ حاصل کرو، اور ایسی نشانیاں قرار دی ہیں جن کے ذریعہ ہدایت حاصل کرو، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک“۔

شرح

یہ تحریر اس توقیع(۱۴) کا ایک حصہ ہے جس کو ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعوں کے درمیان ہونے والے اختلاف کی وجہ سے امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیاہے، اور سلسلہ امامت آپ ھی پر ختم ہوگیا ہے۔ شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت امام مھدی علیہ السلام کو خط لکھا جس میں واقعہ کی تفصیل لکھی، جس کے جواب میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک خط آیا، مذکورہ حدیث اسی خط کا ایک حصہ ہے۔

امام زمانہ علیہ السلام امامت، وصایت اور جانشینی میں شک و تردید سے دوری کرنے کے سلسلہ میں بہت زیادہ سفارش کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وصایت کا سلسلہ ہمیشہ تاریخ کے مسلم اصول میں رہا ہے، اور جب تک انسان موجود ہے زمین حجت الٰہی سے خالی نہیں ہوگی، امام علیہ السلام نے مزید فرمایا:

”تاریخ کو دیکھو! کیا تم نے کسی ایسے زمانہ کو دیکھا ہے جو حجت خدا سے خالی ہو، اور اب تم اس سلسلہ میں اختلاف کرتے ہو“؟!

امام علیہ السلام نے حدیث کے اس سلسلہ میں امامت کے دو فائدے شمار کئے ہیں:

۱۔ امام، مشکلات اور پریشانیوں کے عالم میں ملجا و ماویٰ اور پناہ گاہ ہوتا ہے۔

۲۔ امام،لوگوں کو دین خدا کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

کیونکہ امام معصوم علیہ السلام نہ صرف یہ کہ لوگوں کو دین اور شریعت الٰہی کی طرف ہدایت کرتے ہیں بلکہ مادّی اور دنیوی مسائل میں ان کی مختلف پریشانیوں کو بھی دور کرتے ہیں۔

حدیث نمبر۵ : علم امام کی قسمیں

“عِلْمُنٰا عَلیٰ ثَلاٰثَهِ اٴَوْجُهٍ: مٰاضٍ وَغٰابِرٍ وَحٰادِثٍ، اٴَمَّا الْمٰاضِي فَتَفْسیرٌ، وَ اٴَمَّا الْغٰابِرُ فَموْ قُوفٌ، وَ اٴَمَّا الْحٰادِثُفَقَذْفٌ في الْقُلُوبِ، وَ نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ، وَهُوَ اٴَفْضَلُ عِلْمِنٰا، وَ لاٰ نَبيَّ بَعْدَ نَبِیِّنٰا” (۱۵)

”ہم (اہل بیت) کے علم کی تین قسمیں ہوتی ہیں: گزشتہ کا علم، آئندہ کا علم اور حادث کا علم۔ گزشتہ کا علم تفسیر ہوتا ہے، آئندہ کا علم موقوف ہوتا ہے اور حادث کا علم دلوں میں بہر ا جاتا اور کانوں میں زمزمہ ہوتا ہے۔ علم کا یہ حصہ ہمارا بہترین علم ہے اور ہمارے پیغمبر (ص) کے بعد کوئی دوسرا رسول نہیں آئے گا“۔

شرح

یہ الفاظ امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ہیں جس میں علی بن محمد سمری (علیہ الرحمہ) نے علم امام کے متعلق سوال کیا تھا۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کتاب ”مرآة العقول“ میں ان تینوں علم کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

”علم ماضی سے وہ علم مراد ہے جس کو پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے بیان کیا ہے؛ نیز یہ علم ان علوم پر مشتملہے جو گزشتہ انبیاء علیہم السلام اور گزشتہ امتوں کے واقعات کے بارے میں ہیں اور جو حوادثات ان کے لئے پیش آئے ہیں اور کائنات کی خلقت کی ابتداء اور گزشتہ چیزوں کی شروعات کے بارے میں ہیں۔

علم ”غابر“ سے مراد آئندہ پیش آنے والے واقعات ہیں؛ کیونکہ غابر کے معنی ”باقی“ کے ہیں، غابر سے مراد وہ یقینی خبریں ہیں جو کائنات کے مستقبل سے متعلق ہیں، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس کو ”موقوفہ“ کے عنوان سے یاد کیا ہے جو علوم کائنات کے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں وہ اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہیں، موقوف یعنی ”مخصوص“۔

”علم حادث“ سے مراد وہ علم ہے جو موجودات اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، یا مجمل چیزوں کی تفصیل مراد ہے۔ ۔ ۔ ”قَذْفُ في الْقُلُوبِ “، سے خداوندعالم کی طرف سے عطا ہونے والا وہ الھام مراد ہے جو کسی فرشتہ کے بغیر حاصل ہوا ہو۔

نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ “، سے وہ الٰہی الھام مراد ہے جو کسی فرشتہ کے ذریعہ حاصل ہوا ہو۔

تیسری قسم کی افضلیت کی دلیل یہ ہے کہ الھام (چاہے بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ) اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہے۔

الٰہی الھام کی دعا کے بعد ممکن ہے کوئی انسان (ائمہ علیہم السلام کے بارے میں) نبی ہونے کا گمان کرے، اسی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام نے آخر میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا“۔(۱۶)

حدیث نمبر ۶: امام کا دائمی وجود

“اٴَنَّ الْاٴَرْضَ لاٰ تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ ،إِمّٰا ظٰاهِراً وَ إِمّٰا مَغْمُوراً” (۱۷)

”بے شک زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی، چاہے وہ حجت ظاہر ہو یا پردہ غیب میں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جو آپ نے عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد کے لئے تحریر فرمائی ہے۔ امام علیہ السلام بہت زیادہ تاکیدوں کے بعد ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: روئے زمین پر ہمیشہ حجت خدا کا ہونا ضروری ہے اور کبھی بھی کسی ایسے لمحہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو امام معصوم کے وجود سے خالی ہو۔

انسان اور دیگر موجودات کے لئے امام کی ضرورت بالکل اسی طرح ہے جیسے پیغمبر اکرم (ص) کی ضرورت ہے۔ معصوم شخصیت کی ضرورت (چاہے پیغمبر ہوں یا امام) مختلف نظریات سے قابل تحقیق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا کی طرف سے قوانین کا ہونا اور اس کی تفسیر معصوم کے ذریعہ ہونا ضروری ہے۔ علم کلام کی کتابوں میں عقلی دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کو اپنی دنیوی زندگی کی بھلائی اور آخرت میں سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے لئے رسول کی ضرورت ہے، انسان کے لئے دین اور اس کی صحیح تفسیر کی ضرورت جاودانی ہے۔ پیغمبر اسلام(ص) دین اسلام کو خدا کے آخری دین کے عنوان سے لے کر آئے اور آپ نے تمام احکام و مسائل کو واضح کیا ۔ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد کے زمانہ کے لئے بھی انھیں عقلی دلائل کے ذریعہ ایسی شخصیات کا ہونا ضروری ہے جو علم اور عصمت وغیرہ میں پیغمبر اکرم (ص) کے مثل ہوں۔ اور ایسی شخصیتیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی نہیں ہیں۔

امام زمانہ علیہ السلام اس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس وجہ سے کہ لوگ حق کو قبول کرنے میں سستی اور کم توجھی کا شکار ہیں، ایسا نہیں ہے کہ تمام ائمہ (علیہم السلام) حکومت تک پھنچ جائیں یا لوگوں کے درمیان حاضر رھیں، جیسا کہ گزشتہ انبیاء اور اوصیائے الٰہی حکومت تک نہیں پھنچ پائے ہیں اور ان میں سے بعض حضرات ایک مدت تک غیبت کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔

حدیث نمبر ۷: مشیت الٰہی اور رضائے اہل بیت علیہم السلام

قُلُوبُنٰا اٴَوعِیَةٌ لِمَشِیَّةِ اللهُ، فاِذَا شَاءَ اللهُ شِئنَا، وَاللهُ یَقُولُ: ( وَ مٰا تْشٰاوٴُونَ إِلّا اٴَنْ یَشٰاءَ اللهُ ) (۱۸) (۱۹)

”ہمارے دل مشیت الٰہی کے لئے ظرف ہیں، اگر خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے اور اس کو چاہے تو ہم بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں اور اسی کو چاہتے ہیں۔ کیونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے: ”تم نہیں چاہتے مگر وھی چیز جس کا خدا ارادہ کرے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام اس کلام میں ”مقصِّرہ“(۲۰) و ”مفوِّضہ“(۲۱) کی تردیدکرتے ہوئے کامل بن ابراھیم سے خطاب فرماتے ہیں:

”وہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، بلکہ ہمارے دل رضائے الٰہی کے ظرف ہیں، جو وہ چاہتا ہے ہم بھی وھی چاہتے ہیں، اور ہم رضائے الٰہی کے مقابل مستقل طور پر کوئی ارادہ نہیں کرتے“۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ہے:

”بے شک خداوندعالم نے ائمہ (علیہم السلام) کے دلوں کو اپنے ارادہ کا راستہ قرار دیا ہے؛ پس جب بھی خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے، ائمہ بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں، اور یہ خداوندعالم کا فرمان ہے : ”تم نہیں چاہتے مگر وھی جس کا خداوندعالم ارادہ کرے“۔(۲۲)

امام مھدی علیہ السلام کی اس حدیث سے متعدد نکات معلوم ہوتے ہیں جن میں سے چند نکات کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

۱۔ دل، خداوندعالم یا شیطان کے ارادوں کا ظرف ہوتا ہے۔

۲۔ ائمہ علیہم السلام معصوم ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کا ارادہ وھی خداوندعالم کا ارادہ ہوتا ہے، اور جن کی ذات ایسی ہو تو ایسی ذات ھی صاحب عصمت ہوتی ہے۔

۳۔ اہل بیت علیہم السلام کا ارادہ خداوندعالم کے ارادہ پر مقدم نہیں ہوتا، نیز خدا کے ارادہ سے موخر بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اہل بیت علیہم السلام کی بنسبت ہمارا رویہ بھی اسی طرح ہونا چاہئے۔

۴۔ جب تک خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ نہ کرلے اہل بیت علیہم السلام بھی اس چیز کا ارادہ نہیں کرتے۔

حدیث نمبر ۸: نماز کے ذریعہ شیطان سے دوری

“مٰا اٴَرْغَمَ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ اٴَفْضَلُ مِنَ الصَّلاٰةِ، فَصَلِّهٰا وَاٴَرْغِمْ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ” (۲۳)

”نماز کی طرح کوئی بھی چیز شیطان کی ناک کو زمین پر نہیں رگڑتی، لہٰذا نماز پڑھو اور شیطان کی ناک زمین پر رگڑ دو“۔

شرح

یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام نے ابوالحسن جعفر بن محمد اسدی کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر شیطان کی ناک رگڑنے (یعنی شیطان بر غلبہ حاصل کرنے) کے لئے بہت سے اسباب پائے جاتے ہیں جس میں سب سے اہم سبب نماز ہے؛ کیونکہ نماز مخلوق سے بے توجہ اور خداوندعالم کی طرف مکمل توجہ اور اس کی یاد و ذکر کا نام ہے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( اٴَقِمْ الصَّلاَةَ لِذِكْرِى ) (۲۴)

”میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو“۔

وہ نماز جو ایسی ہو کہ انسان کو فحشاء اور برائیوں سے روکتی ہو، جس کے نتیجہ میں انسان ہوائے نفس اور شیطان پر غالب ہوجاتا ہے۔

حدیث نمبر ۹: اول وقت نماز پڑھنا

“مَلْعُونُ مَلْعُونُ مَنْ اٴَخَّرَ الْغَدٰاةَ إِلیٰ اٴَنْ تَنْقَضيِ الْنُجُومْ” (۲۵)

”معلون ہے ملعون ہے وہ شخص جو نماز صبح میں (جان بوجھ کر) اتنی تاخیر کرے جس کی وجہ سے (آسمان کے) ستارے ڈوب جائیں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو محمد بن یعقوب کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے اس توقیع میں اول وقت نماز پڑھنے پر بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، اور جو لوگ نماز صبح کو اجالا ہونے اور ستاروں کے غروب ہونے تک ٹالتے رہتے ہیں، ان پر امام علیہ السلام نے لعنت کی ہے۔

اس حدیث اور دوسری احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز کے تین وقت ہوتے ہیں:

۱۔ فضیلت کا وقت: فضیلت کا وقت وھی نماز کا اول وقت ہے، جس کو روایات میں ”رضوان اللہ“ (یعنی خوشنودی خدا) سے تعبیر کیا گیا ہے اور یھی نماز کا بہترین وقت ہوتا ہے؛ کیونکہ:

الف) اس وقت میں خداوندعالم کی طرف سے نماز بجالانے کا حکم صادر ہوا ہے اور احکام الٰہی کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے انجام دینا مطلوب (اور پسندیدہ) ہے۔

ب) نماز ، در حقیقت ایک محدود موجود اور بالکل محتاج وجود کا لامحدود موجود سے رابطہ اور خدا سے فیضیاب ہونے کا نام ہے، اور یہ انسان کے فائدے کے لئے ہے جس میں جلدی کرنا مطلوب (اور پسندیدہ) ہے۔

ج) امام زمانہ علیہ السلام اول وقت نماز پڑھتے ہیں، اور جو لوگ اس موقع پر نماز پڑھتے ہیں تو خداوندعالم امام زمانہ علیہ السلام کی برکت سے ان کی نماز کو بھی قبول کرلیتا ہے؛ البتہ تمام افق کا اختلاف اس سلسلہ میں اہمیت نہیں رکھتا؛ دوسرے لفظوں میں یہ کھا جائے کہ ایک وقت پر نماز پڑھنا مراد نہیں ہے بلکہ ایک عنوان کے تحت ”یعنی اول وقت نماز ادا کرنا“ مراد ہے، البتہ ہر شخص اپنے افق کے لحاظ سے اول وقت نماز پڑہے۔

۲۔ آخرِ وقت: جس کو روایت میں ”غفران اللہ“ (یعنی خدا کی بخشش) سے تعبیر کیا گیا ہے، نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک تاخیر کرنے کے سلسلہ میں مذمت وارد ہوئی ہے؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام ایسے شخص پر لعنت کرتے ہیں اور اس کو رحمت خدا سے دور جانتے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ہوا ہے:

”اول وقت پر نماز پڑھنا خوشنودی خدا کا باعث اور آخر وقت میں نماز ادا کرنا ایسا گناہ ہے کہ جسے خداوندعالم معاف کردیتا ہے“۔(۲۶)

۳۔ خارجِ وقت: نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنا جس کو اصطلاح میں ”قضا“ کھا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کو وقت کے اندر نہ پڑھ سکے، تو پہر اس کی قضا بجالانے کا حکم ہوا ہے؛ اور یہ نماز ایک جدید حکم کی بنا پر ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر آخر وقت تک نماز کو ٹالتا رہے تو اس نے خدا کی معصیت کی ہے، اور اس کو اسے توبہ کرنی چاہئے، ورنہ خداوندعالم کے عذاب کا مستحق قرار پائے گا؛ لیکن اگر بھولے سے نماز نہیں پڑھ سکا اور اس میں اس کی کوئی غلطی بھی نہ ہو تو پہر وہ عذاب الٰہی کا مستحق نہیں ہوگا۔

حدیث نمبر ۱۰: سجدہ شکر

“سَجْدَةُ الشُّكْرِ مِنْ اٴَلْزَمِ السُّنَنِ وَ اٴَوْجَبِهٰا فَإِنَّ فَضْلَ الدُّعٰاءِ وَالتَّسْبِیْحِ بَعْدَ الْفَرٰائِضِ عَلَی الدُّعٰاءِ بِعَقیبِ النَّوٰافِلِ، كَفَضْلِ الْفَرٰائِضِ عَلَی النَّوٰافِلِ، وَ السَّجْدَةُ دُعٰاءُ وَ تَسْبِیحْ” (۲۷)

”سجدہ شکر، مستحبات میں بہت ضروری اور مستحب موکد ہے۔ ۔ ۔ بے شک واجب (نمازوں) کے بعد دعا اور تسبیح کی فضیلت، نافلہ نمازوں کے بعد دعاؤں پر ایسے فضیلت رکھتی ہے جس طرح واجب نمازیں، مستحب نمازوں پر فضیلت رکھتی ہیں، اور خود سجدہ، دعا اور تسبیح ہے“۔

شرح

یہ حدیث مبارک امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ہے جو محمد بن عبد اللہ حمیری نے آپ سے سوالات دریافت کئے تہے۔ امام زمانہ علیہ السلام اس حدیث میں ایک مستحب یعنی سجدہ شکر کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، واجب نمازوں کے بعد دعا و تسبیح کی گفتگو کرتے ہوئے اور نافلہ نمازوں کی نسبت واجب نمازوں کی فضیلت کی طرح قرار دیتے ہیں، نیز سجدہ اور خاک پر پیشانی رکھنے کے ثواب کو دعا و تسبیح کے ثواب کے برابر قرار دیتے ہیں۔

قرآنی آیات اور احادیث کی تحقیق کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ تمام واجبات اور مستحبات برابر نہیں ہیں؛ مثال کے طور پر تمام واجبات میں نماز کی اہمیت سب سے زیادہ ہے؛ کیونکہ دیگر اعمال،نماز کے قبول ہونے پر موقوف ہیں۔ اسی طرح مستحبات کے درمیان (اس حدیث کے مطابق) سجدہ شکر کی اہمیت تمام مستحبات سے زیادہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سجدہ شکر، نعمتوں میں اضافہ کی کنجی ہے؛ یعنی جب انسان کسی نعمت کو دیکھنے یا پانے پر خدا کا شکر بجالاتا ہے تو اس کی نعمت باقی رہتی ہے اور دیگر نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ نکتہ قرآن مجید میں صاف صاف بیان ہوا ہے۔

( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّكُمْ ) (۲۸)

”اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں (نعمتوں میں) اضافہ کردوں گا“۔

امام مھدی علیہ السلام نے اس حدیث میں چند نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

۱۔ سجدہ شکر کے لئے کوئی خاص زمانہ اور خاص جگہ نہیں ہوتی، لیکن اس حدیث کے پیش نظر واجب اور مستحب نمازوں کے بعد اس کا بہترین موقع ہوتا ہے۔

۲۔ سجدہ، انسان کے کمال اور خداوندعالم کے سامنے نھایت خشوع و خضوع کا نام ہے، اس موقع پر انسان خود کو نہیں دیکھتا، اور تمام عظمت و کبریائی کو خداوندعالم سے مخصوص جانتا ہے؛ لہٰذا انسان کی یہ حالت بہترین حالت ہوتی ہے، مخصوصاً جبکہ انسان زبان و دل سے خداوندعالم کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

۳۔ واجب نمازوں کے بعد دعا اور تسبیح کا ثواب مستحب نمازوں کے بعد دعا او رتسبیح کے ثواب سے بہت زیادہ ہے ، جیسا کہ مستحب نمازوں سے کھیں زیادہ فضیلت واجب نمازوں کی ہے۔

۴۔ امام زمانہ علیہ السلام اس فقرہ سے کہ ”سجدہ ، دعا اور تسبیح ہے“، یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ خود سجدہ بھی ایک قسم کی تسبیح اور دعا ہے، جس طرح نماز کے بعد ذکر خدا پسندیدہ عمل اور مستحب ہے اسی طرح سجدہ کرنا بھی مستحب ہے؛ کیونکہ دعا اور تسبیح کا مقصد بھی خداوندعالم کے حضور میں خشوع و خضوع ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ھدف سجدہ میں کامل اور مکمل طور پر موجود ہے۔

____________________

۷. الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۸۵، ح۲۴۵؛ احتجاج، ج۲، ص۲۷۸؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۸، ح۹۔

۸. احتجاج، ج ۱، ص۹۷، بحار الانور، ج ۲۹، ص۲۴۳، ح ۱۱۔

۹. تحف العقول، ص۳۸۶؛ بحار الانور، ج۷۵، ص۳۰۰، ح۱۔

۱۰. نهج البلاغہ، حکمت ۲۰۱ ؛ بحارالانور، ج۶۴، ص۱۵۸، ح ۱ ۔

۱۱. کمال الدین، ج ۲، ص ۴۸۵، ح ۱۰؛ الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۲، ح۲۴۷؛ احتجاج، ج۲، ص۲۸۴؛ اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۲، کشف الغمة، ج ۳، ص ۳۴۰، الخرائج والجرائح، ج ۳، ص ۱۱۱۵، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۸۱، ح ۱۰۔

۱۲. الغیبة، طوسی، ص ۲۸۸، ح ۲۴۶، احتجاج، ج ۲، ص ۲۸۰، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۹۴۔ ۱۹۵، ح ۲۱۔

۱۳. الغیبة، شیخ طوسی، ص ۲۸۶، ح ۲۴۵، احتجاج، ج ۲، ص ۲۷۸، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۷۹، ح ۹۔

۱۴. توقیع ، امام زمانہ علیہ السلام کے اس خط کو کھا جاتا ہے جس کو آپ نے کسی کے جواب میں بقلم خود تحریر کیا ہو۔ (مترجم)

۱۵. دلائل الامامة، ص ۵۲۴، ح ۴۹۵، مدینة المعاجز، ج ۸، ص ۱۰۵، ح ۲۷۲۰۔

۱۶. دیکھئے: مرآة العقول، ج۳، ص ۱۳۶ تا۱۳۷۔

۱۷. کمال الدین، ج ۲، ص ۵۱۱، ح ۴۲، الخرائج والجرائح،ج ۳، ص ۱۱۱۰، ح۲۶، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۹۱، ح ۱۹۔

۲۰. ”مقصِّرہ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ولایت الٰہی میں سے کسی شئے کو بالکل نہیں مانتے۔

۲۱. ”مفوِّضہ“سے مسلمانوں کا وہ گروہ مراد ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے کائنات کو خلق کرنے کے بعد اپنے ارادہ کو ائمہ کے حوالہ کردیا ہے، ائمہ جس طرح چاھیں اس کائنات میں دخل و تصرف کرسکتے ہیں۔

۲۲. تفسیر علی بن ابراھیم، ج۲، ص ۴۰۹، بصائر الدرجات، ص۵۳۷، ح۴۷، بحار الانوار، ج۵، ص۱۱۴، ح ۴۴۔

۲۳. کمال الدین، ج ۲، ص ۵۲۰، ح ۴۹، فقیہ، ج ۱، ص۴۹۸، ح ۱۴۲۷، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۱۷۵، ح ۱۵۵، الاستبصار، ج ۱، ص ۲۹۱، ح ۱۰، الغیبة، طوسی، ص۲۹۶، ح ۲۵۰، احتجاج، ج۲، ص۲۹۸، بحار الانوار، ج۵۳، ص ۱۸۲، ح ۱۱، وسائل الشیعة، ج ۴، ص ۲۳۶، ح ۵۰۲۳۔

۲۴. سورہ طہ، آیت ۱۴۔

۲۵. الغیبة، طوسی، ص ۲۷۱، ح ۲۳۶، احتجاج، ج۲، ص ۲۹۸، بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۶، ح۱۲، وسائل الشیعة، ج ۴، ص۲۰۱، ح ۴۹۱۹۔

۲۶. من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۲۱۷، بحار الانوار، ج۷۹، ص۳۵۱، ح۲۳۔

۲۷. احتجاج، ج۲، ص ۳۰۸؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۶۱، ح۳؛ وسائل الشیعة، ج ۶، ص۴۹۰، ح ۸۵۱۴۔

۲۸. سور ہ ابراھیم، آیت۷۔