حدیث نمبر ۲۱: تعجیل فرج (ظھور) کے لئے د عا
“اٴَكْثِرُوْا الدُّعٰاءَ بِتَعْجیلِ الْفَرَجِ، فإِنَّ ذٰلِكَ فَرَجُكُمْ”
”میرے ظھورکے لئے کثرت سے دعا کیا کرو، کیونکہ اس میں خود تمھارے لئے آسائش ہے“۔
شرح
یہ کلام منجملہ ان مطالب میں سے ہے جن کو حضرت امام مھدی علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالوں کے جواب میں بیان کیا ہے۔ اس حدیث میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے تعجیل فرج کے لئے کثرت سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ امام علیہ السلام کا یہ حکم مطلب کی اہمیت کو واضح کرتا ہے؛ کیونکہ شیعوں کا مشکلات اور بلاؤں سے محفوظ رھنا حضرت امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کے زیر سایہ ھی ممکن ہے؛ جب تک امام علیہ السلام غیبت کی زندگی بسر کررہے ہیں، شیعہ بھی ظالم و جابر حكّام کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اس حدیث مبارک میں موجود چند نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ شیعوں کے لئے فرج اور آسانیاں ہیں، اور وہ ظلم و ستم اور آزار و اذیت سے ایک دن رہا ئی حاصل کریں گے۔ وہ سنہر ا دن ہوگا جب وہ اپنے مولا و آقا کی حکومت کے زیر سایہ آرام و سکون کے ساتھ روحانی زندگی بسر کریں گے۔
۲۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کے سلسلہ میں ”بداء“ واقع ہوتا ہے؛ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ آپ کے ظھور میں عجلت یا تاخیر ہوسکتی ہے، آپ کے ظھور میں تعجیل کا ایک سبب آپ کے ظھور کے لئے دعا کرنا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جب تک دل کی گہر ائیوں سے دعا نہ کی جائے تو پہر آپ کے ظھور کا راستہ ہموار کرنے میں موثر نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ دل و جان سے امام کے لئے دعا کریں اور ان کو پکاریں، اور میدان عمل میں بھی امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کا زمینہ فراہم کرنے کی کوشش کرتے رھیں۔
حدیث نمبر ۲۲: شیعوں کی رعایت
“إنّٰا غَیْرُ مُهْمِلِیْنَ لِمُرٰاعٰاتِكُمْ، وَ لاٰ نٰاسینَ لِذِكْرِكُمْ، وَ لَوْلاٰ ذٰلِكَ لَنَزَلَ بِكُمُ الَّلاٴْوٰاءُ وَاصْطَلَمَكُمُ الْاٴَعْدٰاءُ”
”ہم تمھاری سرپرستی اور دیکھ بھال میں کوتاھی نہیں کرتے، اور تمھاری یاد کو کبھی نہیں بھلاتے، اگر ہم ایسا نہ کرتے تو تم پر بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوجاتیں اور دشمن تم کو بالکل نیست و نابود کردیتے“۔
شرح
امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے دو توقیع بھیجی ہیں پھلی توقیع میں امام علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو بشارت دی ہے کہ ہم تم لوگوں پر ہمیشہ توجہ رکھتے ہیں اور تمھاری رعایت کرتے ہیںاور تم کو کبھی نہیں بھلاتے، اسی وجہ سے تم دشمن کے خطروں سے محفوظ ہو، شیعہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور ہمیشہ حق و حقیقت کی پیروی کرنے کی وجہ سے ظالم و ستمگر حكّام اور مخالفین کے ظلم کا نشانہ بنے رہے ہیں؛ لہٰذا ان کے لئے ایسی شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو سختیوں اور پریشانیوں میں ان کی مدد کرے، اور ان کو نابود ہونے سے نجات دے۔ اس توقیع میں امام زمانہ علیہ السلام اپنے شیعوں کو بشارت دیتے ہیں کہ اگرچہ میں غیبت کی زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن پہر بھی تمھاری حمایت کرتا ہوں، اور کبھی بھی دشمن کے نقشوں کو پورا نہیں ہونے دیتا، اور مذھب شیعہ اور شیعوں کو نابودی سے بچا لیتا ہوں۔ تاریخ کے دامن میں (بہت سے) ایسے واقعات موجود ہیں کہ امام علیہ السلام کی امامت کے زمانہ میں جب بھی کوئی مشکل اور پریشانی پیش آئی ہے تو امام زمانہ علیہ السلام نے مدد کی ہے، اور یہ تمام واقعات امام علیہ السلام کے وعدوں کی صداقت کے مکمل نمونے ہیں۔
حدیث نمبر ۲۳: شیعوں سے بلاؤں کا دور کرنا
“ اٴَنَا خٰاتَمُ الْاٴَوْصِیٰاءِ، وَ بِي یَدْفَعُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْبَلاٰءَ عَنْ اٴَهْلي وَ شیْعَتِى”
”میں خاتم الاوصیاء ہوں اور خداوندعالم میرے سبب اور وسیلہ سے میرے اہل اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے“۔
شرح
اس حدیث مبارک کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ اور شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے ابو نصر خادم سے نقل کیا ہے۔ ابونصر کہتے ہیں:
”جب میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام علیہ السلام نے مجھ سے سوال کیا: ”کیا مجہے پہچانتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ”جی ھاں“، پہر دریافت فرمایا: ”میں کون ہوں؟“ میں نے عرض کیا: ”آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے بیٹے ہیں“، امام علیہ السلام نے فرمایا: ”میں نے تم سے یہ سوال نہیں کیا ہے!“، میں نے عرض کیا: ”خداوندعالم مجہے آپ پر قربان کرے! آپ اپنا تعارف خود ھی فرما دیجئے۔ “، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”میں خاتم الاوصیاء ہوں اور خداوندعالم میرے سبب سے میرے اہل بیت اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے“۔
حدیث کے اس حصہ میں امام علیہ السلام نے دو نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
۱۔ امام علیہ السلام خاتم الاوصیاء ہیں اور وصایت و امامت آپ پر ختم ہوگئی ہے، ممکن ہے کہ یھاں پر وصایت سے مراد وہ وصایت ہو جو فرزند جناب آدم علیہ السلام، ھابیل یا شیث سے شروع ہوکر امام زمانہ علیہ السلام پر ختم ہوئی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ”وصایت کے خاتمہ“ سے مراد وہ وصایت ہو جو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے شروع ہوئی ہے۔ بہر حال آپ کے بعد کوئی امام نہیں ہوگا، جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ دعویٰ باطل اور ایسا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے۔
۲۔ ہمیشہ تاریخ میں امام علیہ السلام کے شیعہ مصائب اور بلاؤں میں مبتلا رھیں گے۔ امام زمانہ علیہ السلام اس حدیث مبارک میں فرماتے ہیں:
”صرف میری وجہ سے خداوندعالم میرے اہل بیت اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ہے“۔
اس کلام میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:
الف) اس سے مراد امام علیہ السلام کی غیبت کا زمانہ ہو؛ اس صورت میں مراد یہ ہے کہ شیعہ غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ علیہ السلام کے توسل سے بلاؤں اور مشکلات سے نجات پاسکتے ہیں۔
امام زمانہ علیہ السلام اپنی توقیع میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ سے فرماتے ہیں:
”ہم تمھاری سرپرستی اور دیکھ بھال میں کوتاھی نہیں کرتے، اور تمھیں کبھی نہیں بھلاتے، اگر ہم ایسا نہ کرتے تو تم پر بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوجاتیں اور دشمن تم کو بالکل نیست و نابود کردیتے“۔
ب) اس سے مراد آپ کے ظھور کا زمانہ ہو؛ اس صورت میں مقصود یہ ہے کہ خداوندعالم آپ کے ظھور سے اور تمام ظالموں پر غلبہ کے ذریعہ آپ کے اہل بیت اور شیعوں سے مصائب اور بلاؤں کو دور کرتا ہے۔
(اس کے علاوہ) ان دونوں احتمال کو ایک ساتھ جمع بھی کیا جاسکتا ہے؛ وہ اس طرح کہ امام زمانہ علیہ السلام غیبت اور ظھور کے زمانے میں اپنے شیعوں سے مشکلات اور بلاؤں کو دور کرتے ہیں۔
حدیث نمبر ۲۴: دعا قبول ہونے کی امید
“رَبِّ مَنْ ذَا الَّذي دَعٰاكَ فَلَمْ تُجِبْهُ، وَ مَنْ ذَا الَّذي سَاٴَلَكَ فَلَمْ تُعْطِهِ، وَ مَنْ ذَا الَّذي نٰاجٰاكَ فَخَیَّبْتَهُ، اٴَوْ تَقَرَّبَ إِلَیْكَ فَاٴَبْعَدْتَهُ”
”پروردگارا! کون ہے ایسا شخص جس نے تجھ سے دعائیں مانگی ہوں اور تونے اس کی حاجت روائی نہ کی ہو، اور کون ہے ایسا شخص جس نے تجھ سے درخواست کی ہو لیکن تو نے اس کو عطا نہ کیا ہو، اور کون ہے ایسا شخص جس نے تجھ سے مناجات کی ہو اور تو نے اس کو ناامید کیا ہو، یا خود کو تجھ سے نزدیک کرنے کی کوشش کی ہو اور تو نے اس کو دور کر دیاھو؟!“
شرح
یہ فقرہ مشھور و معروف ”دعائے علوی“ کا ایک حصہ ہے۔ محمد بن علی علوی حسینی مصری ایک مکاشفہ(غیبی اسرار کا ظاہر ہونا) میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوئے اور آپ سے یہ دعا حاصل کی جس کو پڑھنے سے انھوں نے اپنی مراد پالی۔
امام علیہ السلام نے اس دعا (جو انسان میں امید کی کرن پیدا کرتی ہے) میںانسان کو یہ سبق دیتے ہیں کہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا اور دعا کرنے سے ناامید نہ ہو؛ کیونکہ خداوندعالم کسی کو بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا اور کسی بھی دعا کو شر ف قبولیت کے بغیر نہیں چھوڑتا۔
ھاں پر ممکن ہے کہ کوئی یہ سوال کرے: ”(اگر ایسا ہے تو) انسان کی بہت سی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟ بہت سے انسان مرادیں مانگتے ہیں لیکن وہ پوری نہیں ہوتیں، وغیرہ وغیرہ، لہٰذا اس حدیث کا مقصد کیا ہے؟“
اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں:
پھلے یہ کہ انسان بعض اوقات کسی چیز کو پسند نہیں کرتا جبکہ اس میں اس کی بھلائی ہوتی ہے یا کسی چیز کو طلب کرتا ہے جس میںاس کی صلاح نہیں ہوتی؛ لیکن پہر بھی خداوندعالم سے اس چیز کو طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں خداوندعالم اس کی دعا ظاہری طور پر قبول نہیں کرتا، لیکن اس کے بدلے دوسری نعمتیں عطا کرتا ہے، یا اس کے گناھوں کو بخش دیتا ہے۔
دوسرے یہ کہ مرادوں کا پورا ہونا شرائط کے موجود ہونے اور موانع کے نہ ہونے سے وابستہ ہوتا ہے۔ شرائط نہ ہونے اور موانع ہونے کی صورت میں انسان چاہے جتنی دعا کرے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح دعا کے لئے بھی کچھ آداب ہیں جن کی رعایت بہت ضروری ہے، اور ان کی رعایت کئے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی۔ جس کی پھلی شرط ”عبدخدا“ ہونا ہے، دوسری شرط یہ ہے کہ انسان نے کسی کا دل نہ دکھایا ہو۔ جو شخص کسی کا دل دکھاتا ہے وہ کس طرح امید رکھتا ہے کہ اس کی دعائیں قبول ہوں؟ دل شکستہ کی بددعا بہت جلد بارگاہ خداوندی میں پھنچتی اور مستجاب ہوتی ہے۔
حدیث نمبر ۲۵: دوسروں کے مال کا احترام کرنا
“فَلاٰ یَحِلُّ لِاٴَحِدٍ اٴَنْ یَتَصَرَّفَ مِنْ مٰالِ غَیْرِهِ بِغَیْرِ إذْنِهِ”
”کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال کو استعمال کرے“۔
شرح
یہ حدیث امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ہے جس کو آپ نے اسدی کے سوالوں کے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔
امام علیہ السلام نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی طرف درج ذیل آیہ مبارکہ میں اشارہ ہوا ہے، اس آیت میں خداوندعالم نے حکم دیا ہے:
(
لاَتَاٴْكُلُوا اٴَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ اٴَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ
)
”(اے ایمان والو! ) آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو،مگر یہ کہ باہمی رضامندی سے معاملہ کرلو “۔
مسلمانوں کا مال، ان کی جان اور عزت کی طرح محفوظ رھنا چاہئے، دوسروں کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کے مال کی طرف بری نگاہ سے دیکہے۔ دوسرے کے مال کا مالک بن جانا اگر شرعی اور عرفی اسباب (جیسے تجارت، رضایت، عطا و بخشش، ارث، کرایہ یا شریعت میں بیان شدہ قوانین) کے تحت نہ ہو تو پہر مشکلات کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں ہوگا۔ اس آیہ مبارکہ اور حدیث شریفہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ دوسروں کے مال کو ان کی اجازت یا ان کی مرضی سے استعمال کرنا چاہئے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسروں کے مال پر قبضہ کرلے اور اس کا مالک بن جائے۔
حدیث نمبر ۲۶: حضرت زہر ا (ع) امام مھدی علیہ السلام کے لئے نمونہ
“وَ في إِبْنَةِ رَسُولِ اللهِ (ص) لِي اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”
”بنت پیغمبر اکرم (ص) (جناب فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا) میرے لئے بہترین نمونہ ہیں“۔
شرح
شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں شیعوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن ابی غانم قزوینی کے اختلاف کو بیان کرتے ہیں۔ ابن ابی غانم، امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔ بہت سے شیعوں نے امام زمانہ علیہ السلام کو خط لکھ کر ابن ابی غانم اور شیعوں کے مسئلہ کو بیان کیا۔
امام زمانہ علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے خط لکھا اور اپنے شیعوں کےلئے فتنہ و فساد اور ضلالت سے محفوظ رھنے، روح یقین اور سرانجام بخیر ہونے کی دعا کرتے ہوئے نیز چند چیزوں کی یاد دھانی کے بعد فرماتے ہیں:
”جناب فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا بنت رسول اس مسئلہ میں میرے لئے بہترین نمونہ ہیں“۔
اس سلسلہ میں کہ امام زمانہ علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا کی کس رفتار یا گفتار کو اپنے لئے سر مشق قرار دیا ہے، چند مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں۔ ہم یھاں پر ان میں سے صرف تین احتمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ حضرت زہر ا سلام اللہ علیھا نے اپنی بابرکت عمر کے آخر ی لمحات تک کسی ظالم کی بیعت نہ کی۔ اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام نے بھی کسی ظالم و ستمگر حاکم کی بیعت نہیں کی ہے۔
۲۔ اس خط کے لکہے جانے کا سبب یہ ہے کہ بعض شیعوں نے آپ کی امامت کو قبول نہیں کیا ہے۔ چنانچہ امام زمانہ علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اگر میں کرسکتا تھا یا مجہے اس چیز کی اجازت ہوتی تو ایسا کام کرتا کہ تم پر حق مکمل طور پر واضح ہوجاتا اور تمھارے لئے ذرا بھی شک باقی نہ رہتا؛ لیکن میرے لئے حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا نمونہ ہیں۔ آپ نے جب یہ دیکھ لیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو غصب کرلیا گیا تو بھی آپ نے خلافت کو حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی اسباب کا سھارا نہیں لیا۔ میں بھی انھیں کی پیروی کرتا ہوں، اور اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے غیر معمولی راستہ کو طے نہیں کرتا“۔
۳۔ امام زمانہ علیہ السلام نے اپنے جواب میں فرمایا:
”اگر تمھاری ہدایت اور امداد کی نسبت ہمارا شتیاق اور بہت محبت نہ ہوتی تو ہم نے جو ظلم برداشت کئے ہیں تم لوگوں سے منھ موڑ لیتے“۔
امام زمانہ علیہ السلام حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھنا چاہتے ہیں: جیسا کہ حضرت فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیھا پر دشمنوں نے ظلم و ستم کئے اور اس سلسلہ میں مسلمانوں نے بھی خاموشی اختیار کی، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی سبب نہ بنی کہ آپ نے مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر سے ہاتھ کھیچ لیا ہو، بلکہ آپ دوسروں کے لئے پھلے دعائیں کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح میں بھی ان تمام ظلم اور انکار کو برداشت کرتا ہوں، اور تمھارے لئے ہم دردی، رھنمائی اور دعا وغیرہ کو ترک نہیں کرتا۔
حدیث نمبر ۲۷: شک میں ڈالنے کی ممانعت
“لاٰ عُذْرَ لِاٴَحَدٍ مِنْ مَوٰالینٰا فی التَّشْكِیْكِ فیمٰا یُوٴَدِّیهِ عَنّٰا ثِقٰاتُنٰا”
”جو (چیزیں) موثق راوی تمھارے لئے ہم سے روایات نقل کرتے ہیں ان میں شک ڈالنے کے سلسلہ میں ہمارے شیعوں میں سے کسی کا کوئی عذر (قبول) نہیں ہے“۔
شرح
یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کاایک حصہ ہے جس کو آپ نے ”احمد بن ھلال عبرتائی“ کے بارے میں اور اس سے دوری کے سلسلہ میں ”قاسم بن علا“ کے لئے تحریر فرمایا ہے۔
فقھائے کرام نے اصول کی استدلالی کتابوں میں ”خبر واحد کی حجیت“ کو ثابت کرنے کے لئے اس روایت سے تمسک کیا ہے؛ کیونکہ حقیقت میں امام علیہ السلام نے اس روایت میں ان لوگوں کی روایت قبول کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی تاکید فرمائی جو ثقہ اور مورد اطمینان ہوں اور اہل بیت علیہم السلام کی سنت کو نقل کرتے ہوں۔
مضمون حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ جن روایات کو اہل بیت علیہم السلام کے ثقہ راوی بیان کریں ان میں شک کرے اور ان پر عمل نہ کرے، مگر اس صورت میں جب ان کے غلط ہونے کا علم ہوجائے، کیونکہ یہ ثقہ حضرات ان اصحاب میں سے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں واسطہ ہیں، اور ان کی روایات میں شک کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی جانب سے کوئی چیز ہم تک نہ پھنچے۔
قابل ذکر ہے کہ وثاقت کے مختلف درجے ہوتے ہیں جن میں سے بعض عدالت کے برابر بلکہ عدالت سے بھی بالاتر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کے نام خط میں حضرت مسلم بن عقیل کے لئے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ عدالت سے بھی مافوق ہیں؛ چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
”میں تمھاری طرف اپنے بھائی، چچا زاد اور اپنے خاندان کی مورد وثوق شخصیت مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں“۔
حدیث نمبر ۲۸: شک و شبھات میں مبتلا نہ ہونا
“لاٰ تَشُكَّنَّ فَوَدَّ الشَّیْطٰانُ اٴَنَّكَ شَكَكْتَ”
”ہرگز اپنے اندر شک و شبھات پیدا نہ ہونے دو، کیونکہ شیطان تو یھی چاہتا ہے کہ تم شک میں مبتلا ہوجاؤ“۔
شرح
شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ حسن بن نضر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیت الشرف میں داخل ہوا، ایک سانولے رنگ کے شخص کو دیکھا جو وھاں پر کھڑا ہوا تھا۔ اس نے مجھسے کھا: ”کیا تم حسن بن نضر ہو؟“ میں نے کھا: ”ھاں“، اس نے کھا: ”اندر آجاؤ“، چنانچہ میں امام علیہ السلام کے بیت الشرف میں وارد ہوگیا، اس کے بعد میں نے ایک کمرہ پر پردہ لٹکا دیکھا اور کمرے کے اندر سے آوزا آئی:
”اے حسن بن نضر! جو نعمتیں خداوندعالم نے تم کو عطا کی ہیں ان پر شکر گزار رھو، اور اپنے اندر شک و شبھات کو جگہ نہ دو، کیونکہ شیطان یھی چاہتا ہے کہ تمھارے اندر شک پیدا ہو۔ ۔ ۔ “۔
چونکہ حسن بن نضر اور شیعوں کی ایک جماعت آپ کی وکالت اور دوسرے امور میں شک کرتے تہے۔ (کیونکہ) امامت اور اسلامی معاشرہ کی رھبری (جو اعتقادی مسائل میں سے ہے) میں شک کرنا دین کی تباھی کا سبب ہوتا ہے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے شک و تردید سے ڈرایا ہے۔
اس حدیث مبارک سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں:
۱۔ چونکہ امام زمانہ علیہ السلام حسن بن نضر کے دل کی باتوں سے باخبر تہے ، جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امام علیہ السلام علم غیب جانتے ہیں۔
۲۔ امام زمانہ علیہ السلام اگرچہ غیبت کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں لیکن پہر بھی اپنے شیعوں کی نسبت فکر مند رہتے ہیں، اور شیعوں کو پریشانی، گمراھی اور بلاؤں سے نجات دیتے ہیں۔
۳۔ اعتقادی مسائل میں شک کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں؛ کیونکہ یہ کسی چیز پر پابند نہ رھنے اور دینی یقین نہ ہونے کا سبب ہوتا ہے، ہمیں اپنے اور دوسرے لوگوں کے ایمان کو مستحکم کرنا چاہئے اور اگر شک و شبھات پیدا ہوجائیں تو ان کو جوابات دے کر دور کرنا چاہئے۔
۴۔ شیطان کے بھکانے کا ایک راستہ لوگوں کے دینی عقائد کے سلسلہ میں شک و شبھات پیدا کرنا ہے، اس حدیث کے مطابق انسان کی اس حالت کو شیطان بہت پسند کرتا ہے۔
۵۔ انسان کو اپنی ذات اور معاشرہ کے لوگوں سے شک و شبھات کو دور کرنا چاہئے، جیسا کہ امام علیہ السلام نے بھی یھی کوشش کی ہے کہ حسن بن نضر اور شیعوں کے ایک گروہ سے شک و شبھات کو دور فرمائیں۔ قرآن کریم نے ۱۵ مقامات پر شک کی مذمت کی ہے، اور شک کرنے والے کو غور و فکر کی دعوت دی ہے، کیونکہ غور و فکر کے نتیجہ میں انسان سے شک دور ہوجاتا ہے اور وہ یقین کی منزل پر فائز ہوجاتا ہے۔
حدیث نمبر ۲۹: امام زمانہ علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کا حکم
“لَیْسَ بَیْنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَبَیْنَ اٴَحَدٍ قِرٰابَةٌ، وَمَنْ اٴَنْكَرَنِي فَلَیْسَ مِنِّی، وَسَبِیلُهُ سَبیلُ ابْنِ نُوحٍ”
”خداوندعالم کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے، جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اور اس کا راستہ فرزند نوح کے راستہ کی طرح ہے“۔
شرح
یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کے ان جوابات کا ایک حصہ ہے جن کو اسحاق بن یعقوب کے سوالوں کے جواب میں لکھا ہے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس شخص کا حکم کیا ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی نسل سے ہو نیز اس کا شمار امام زمانہ علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں میں ہوتا ہے لیکن وہ امام زمانہ علیہ السلام کا منکر ہے، موصوف نے سوال کیا: کیا جو شخص آپ کا منکر ہے اور نسل رسول سے ہے کیا وہ گمراہ ہے یا نھیں؟ امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
”خداوندعالم کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی کی رعایت کرے؛ لہٰذا اگر کوئی خدا کی نافرمانی کرے (چاہے وہ کوئی بھی ہو) اس کا سر انجام نار جھنم ہے۔
خدا کی نافرمانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے زمانہ کے امام کی امامت اور اس کے وجود کا انکار کرے۔ جو اس راستہ پر چلے اس نے فرزند نوح کا راستہ طے کیا ہے۔ وہ جس کی بھی پناہ حاصل کرے اس کو نجات نہیں مل سکتی؛ جس طرح پھاڑ کی بلند چوٹی فرزند نوح کو نجات نہ دے سکی“۔
اس حدیث کی وہ روایت بھی تائید کرتی ہے جس کو شیعہ و سنی کتب احادیث نے بیان کیا ہے، جس میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
”میرے اہل بیت کی مثال نوح کی کشتی جیسی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگرانی کی وہ غرق ہوگیا“۔
حدیث نمبر ۳۰: امام زمانہ علیہ السلام کو اذیت پھنچانے والے
“قَدْ آذٰانٰا جُهَلاٰءُ الشِّیْعَةِ وَحُمَقٰاوٴُهُمْ، وَمَنْ دِینُهُ جِنٰاحُ الْبَعُوضَةِ اٴَرْجَحُ مِنْهُ”
”کم عقل اور نادان شیعہ اور جن کی دینداری سے مضبوط مچہر کے بال و پر ہوتے ہیں، ہم کو اذیت اور تکلیف پہچاتے ہیں“۔
شرح
یہ کلام حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو آپ نے محمد بن علی بن ھلال کرخی کے لئے بھیجا ہے۔ یہ توقیع اس غالی گروہ کی ردّ میں ہے جو ائمہ علیہم السلام کو خداوندعالم کے علم اور اس کی قدرت میں شریک مانتے ہیں!
شیعوں کا ایک فریضہ یہ (بھی) ہے کہ ائمہ علیہم السلام کو اسی طرح مانیں کہ جس طرح سے ہیں، نہ عام لوگوں کی طرح، لہٰذا نہ ان کی عظمت گھٹائیں اور نہ خداوندعالم کی قدرت وغیرہ میں ان کو شریک قرار دیں۔
حضرات ائمہ علیہم السلام کی عظمت متعدد روایات میں بیان ہوئی ہیں، لہٰذا ان کا مطالعہ کریں اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کی اصلاح کریں۔
اہل غلو کی رفتار و گفتار اس بات کا سبب ہوئی ہے کہ مخالفوں نے شیعوں کو کافر کھنا شروع کردیا، اور بعض لوگوں نے شیعوں کے نجس اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دےا۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نهج البلاغہ میں ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”میرے سلسلہ میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے: ایک وہ جو مجھ سے دوستی میں زیادہ روی کرے، دوسرے وہ جو میری دشمنی میں میری عظمت گھٹائے“۔
____________________