حدیث۱-۱۰
پہلی حدیث
اول وقت میں نمازکی فضیلت
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ(صلی الله علیه و آله وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰهِ؟
قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِهَا
ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ
قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: اَلْجِهَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ (وسا ئل الشیعه جلد ۳ صفحه ۸۲)
تر جمہ :۔
ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟
حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ
"مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔"
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :
" اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے"۔
ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں
حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاواور اسے کھانا کھلاو کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔
دوسری حدیث
ماں کے ساتھ نیکی کرنا
عَنْ ذَکَرِیَّا بِنْ اِبْرَاهِیْمَ قَالَ کُنْتُ نَصْرَانِیًّا فَاَسْلَمْتُ وَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ عَبْدِاللّٰهِ فَقُلْتُ اِنِّیْ کُنْتُ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ فَقَالَ وَ اَیُّ شَیْءٍ رَاِٴیْتَ فِیْ الْاِسْلامِ؟ قُلْتُ قَوْلَ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ
" مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنهُاٰا نُوْرًا نَّهْدِیْ بِه مَنْ نَّشَآءُ "
فَقَالَ لَقَدْْ هَدَاکَ اللّٰهُ ثُمَّ قَالَ:
اللّٰهُمَّ اِهْدِه ثَلاثًا
سَلْ عَمَّا شِئْتَ یَا بُنَیَّ
فَقُلْتُ اِنَّ اَبِیْ وَاُمِّیْ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَاَهْلَ بَیْتِیْ وَ اُمِّیْ مَکْفُوْفَةُ الْبَصْرِ فَاَکُوْنُ مَعَهُمْ وَاَکُلُ فِیْ آنِیَتِهِمْ
فَقَالَ یَاْکُلُوْنَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ؟
فَقُلْتُ لا وَ لا یَمَسُّوْنَهُ
فَقَالَ لا بَآسَ فَانْظُرْ اُمَّکَ فَبَرَّهَا فَاِذَا مَاتَتْ فَلا تَکِلْهَا اِلٰی غَیْرِکَ کُنْ اَنْتَ الَّذِیْ تَقُوْمُ بِشَاْنِهَا وَلا تُخْبِرَنَّ اَحَدًا اَنَکَ اَتَیْتَنِیْ حَتّٰی تَاْتِیَنِیْ بِمِنٰی اِنْشَآءَ اللّٰهُ قَالَ فَاَتَیْنُه بِمِنٰی وَالنَّاسُ حَوْلَه کَاَنَّه مُعَلِّمُ صِبْیَانٍ هٰذَا یَسْاَلُه وَ هٰذَا یَسْاَلُه فَلَمَّا قَدِمْتَ الْکُوْفَةَ الْطَفْتُ لِاُمِّیْ وَ کُنْتُ اُطْعِمُهَا وَ اَفْلِیْ ثَوْبَهَا وَ رَأْسَهَا وَاَخْدِمُهَا
فَقَالَتْ لِیْ یَا بُنَیَّ مَا کُنْتَ تَضَعُ بِیْ هٰذَا وَاَنْتَ عَلٰی دَنِیْ فَمَا الَّذِیْ اَرٰی مِنْکَ مُنْذُهَا جَرَتْ فَدَخَلْتَ فِیْ الْحَنِیْفِیَّةِ
فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ وَلَدٌ نَبِیِّنَا اَمَرَنِیْ بِهٰذَا
فَقَالَتْ هٰذَا الرَّجُلُ هُوَ نَبِیٌّ
فَقُلْتُ لا وَ ٰلکِنَّه اِبْنُ نَبِیٍّ
فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اِنَّ هٰذَا نَبِیٌّ اِنَّ هٰذِه وَصَایَا الْاَنْبِیَآءِ
فَقُلْتُ یَا اُمَّهُ اِنَّه لَیْسَ یَکُوْنُ بَعْدَ نَبِیِّنَا نَبِیٌّ وَٰلکِنَّه اِبْنُه
فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ دُیْنُکَ خَیْرُ دِیْنٍ اِعْرِضْهُ عَلَیَّ فَعَرَضْتُه عَلَیْهَا فَدَخَلَتْ فِیْ الْاِسْلامِ وَ عَلَمْتُهَا فَصَلَّتِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاْءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ عَرَضَ لَهَا عَارِضٌ فِیْ الَّیْلِ فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اَعِدْ عَلَیَّ مَا عَلَّمْتَنِیْ فَاَعَدْتَّه عَلَیْهَا فَاَقَرَّتْ بِه وَمَاتَتْ فَلَمَّا اَصْبَحَتْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ الَّذِیْنَ غَسَّلُوْهَا وَکُنْتَ اَنَا الَّذِیْ صَلَّیْتُ عَلَیْهَا وَ نَزَلَتْ فِیْ قَبْرِه
(اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۳۳)
ترجمہ:۔
ثقة الاسلام شیخ محمد ابن یعقوب کلینی قدس سرہ نے اپنی سند کے ساتھ زکریا ابن ابراہیم سے روایت کی ہے زکریا کہتا ہے کہ میں نصرانی تھا جو مسلمان ہو گیا اور حج کیلئے گیا وہاں امام جعفر صادق-کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں نصرانی سے مسلمان ہو گیا ہوں۔حضرت-نے فرمایا کہ اسلام میں تو نے کیا دیکھا ہے۔میں نے کہا خدا کا یہ قول
(
مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنهُاٰا نُوْرًا نَّهْدِیْ بِه مَنْ نَّشَآءُ
)
(سورہ شوریٰ آیت ۵۲)
(تو کیا جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کو ہی جانتا تھا لیکن ہم نے اسے نور قرار دیا ہے اس شخص کے لئے جسے ہم ہدایت کرنا چاہیں)
ظا ہر اً اس آیت کو ذ کر کرنے سے اس کی مراد یہ تھی کہ حضر ت- کی خد مت میں عر ض کر ے کہ میر ے اسلام کا سبب کو ئی چیز نہیں تھی سوا ئے اس کے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ہدایت کرنا چاہتا تھا۔ حضرت- نے فرمایا کہ خدا نے تجھے ہدایت کی پھر تین مرتبہ اس کے حق میں فرمایا:
اللّٰهُمَ اهْدِه
(خدایا اس کی ہدایت فرما)
اس کے بعد حضرت- نے فرمایا جو جی چاہے سوال کر۔
میں نے عرض کیا کہ میرے والدین اور گھر والے نصرانی ہیں اور میری ماں نابینا ہے میں انکے ساتھ رہتا ہوں انہیں کے برتنوں میں کھاتا ہوں
حضرت- نے فرمایا کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں؟
عرض کی نہ بلکہ سور کے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔
حضرت- نے فرمایاکہ ماں کی رعایت کر اور اس کے حق میں نیکی کر اور جب مرے تو اس کی میّت دوسروں کے حوالے نہ کرنا بلکہ خود اسے سنبھالنا اور اس ملاقات کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا اور منٰی میں مجھے دوبارہ ملنا اس وقت کسی کو نہ بتا نا کہ تو میرے پاس آیا ہے پس میں منٰی میں حضرت- کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہے میں نے دیکھا کہ لوگوں نے حضرت-کے ارد گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے جس طرح بچے استاد کے ارد گرد ہوتے ہیں ہر کوئی حضرت- سے سوال پوچھ رہا تھا پس جب میں کوفہ میں آیا تواپنی ماں کے ساتھ بہت نرمی کے ساتھ پیش آنے لگااور اس کی خدمت میں مصروف ہو گیا میں اسے کھانا کھلاتااور اس کے سر اور لباس کو صاف کرتا۔
میری ماں نے ایک دن مجھ سے کہا اے فرزند عزیز! جب تو میرے دین میں تھا تو اس طرح میری خدمت نہیں کرتا تھا۔کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد میرا اتنا خیال رکھتا ہے؟
میں نے کہا کہ میرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ایک فرزند نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔
میری ماں نے کہا کیا وہ پیغمبر ہے۔
میں نے کہا نہیں بلکہ پیغمبر کے فرزند ہیں ۔
میری ماں نے کہا ایسے شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے کیونکہ جو تعلیم اس نے تجھے دی ہے یہ تو پیغمبروں کی وصیت ہے۔
میں نے کہا: اماں جان ہمارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔
میری ماں نے کہا: اے بیٹا تیرا دین تمام ادیان میں سب سے بہتر ہے یہ دین میرے سامنے پیش کر اور بیان کر۔
پس میں نے دین اسلام بیان کیااور میری ماں بھی اسلام میں داخل ہو گئی۔میں نے اسے دین کے آداب سکھائے۔پھر اس نے نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشاء پڑھی۔اور اسی رات مرض المو ت اسے عارض ہوئی تو مجھے بلا کر کہنے لگی اے میرے بیٹے تو نے جو کچھ مجھے سکھایا ہے اسے دوبارہ میرے سامنے دہراو۔میں نے وہ سب کچھ دہرایا اور ماں نے اس کا اقرار کیا اور وفات پا گئی۔جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے اسے غسل دیا اور میں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو خود قبر میں رکھا۔
"نعم ما قیل"
(کسی نے کیا خوب کہا ہے۔)
آبادی میخانہ زویرانی ما است
جمعیت کفر از پریشانی ما است
اسلام بذات خود ندارد عیبی
ہر عیب کہ ہست در مسلمانی ما است
( ترجمہ اشعار)
شراب خانے کی آبادی ہماری ویرانی کی وجہ سے ہے۔کفر کی جمعیت اور تعداد میں روز افزوں اضافہ ہماری پریشان حالی اور دگر گونی کی وجہ سے ہے۔اسلام کی ذات میں کوئی عیب نہیں ہے جو بھی عیب ہے وہ ہماری مسلمانی میں ہے۔
تیسری حدیث
زکوٰة نہ دینے کا بیان
شیخ کلینی نے امام جعفر صادق- سے روایت کی ہے ۔
"قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْهِ السَّلامُ:
مَنْ مَّنَعَ قِراطًا مِنَّ الزَّکٰوةِ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَ اِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا"
(میزان الحکمتجلد ۴ صفحہ ۲۲۲)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا:
جو زکوٰة کی ایک قیراط مقدار روک لے (ادا نہ کرے)تو مرنے کے وقت چاہے یہودی کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے گا(ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں)۔
ایک قیراط اکیس دینار کاہے اور اسی مضمون کے قریب اس آدمی کے بارے میں روایت ہے کہ جو استطاعت رکھتا ہو اور حج نہ کرے حتیٰ اس کی موت واقع ہو جائے (یعنی مرنے تک حج نہ کرے ) وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرے گا (یعنی باوجود اس کے کہ وہ مسلمان تھا)۔
چوتھی حدیث
اصول اسلام
شیخ کلینینے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے ۔
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلامُ: بُنِیَ الْاِسْلامُ عَلٰی خَمْسٍ
اِقَامَ الصَّلٰوةَ،
وَ اِیْتَآءِ الزَّکٰوةَ،
وَحَجِّ الْبَیْتِ،
وَصَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانِ
وَ الْوِلایَةِ لَنَا اَهْلَ الْبَیْتِ (الخصال ص ۳۰۷)
ترجمہ:۔
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
( ۱) نماز قائم کرنا
( ۲) زکواةادا کرنا
( ۳) حج بیت اللہ
( ۴) ماہ رمضان کے روزے
( ۵) ہماری ولایت۔
پانچویں حدیث
روزہ کی فضیلت کےبارے میں
شیخ کلینیمرحوم نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنے آباء٪سے روایت کی کہ
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
اَلا اُخْبِرُکُمْ بِشَیءٍ اِنْ اَنْتُمْ فَعَلْتُمُوْهُ تَبَاعَدَ الشَّیْطَانُ عَنْکُمْ کَمَا تَبَاعَدَ الْمَشْرِقُ مِنَ الْمَغْرِبِ؟
قَالُوْا بَلٰی
قَالَ :
"اَلصَّوْمُ یُسَوِّدُ وَجْهَه
وَالصَّدَقَةُ تُکَسِّرُ ظَهْرَه
وَ الْحُبُّ فِی اللّٰهِ وَالْمَوَازَرَةُ عَلَی الْعَمَلِ الصَّالِحِ یَقْطَعُ دَابِرَه
وَالْاَسْتَغْفَارُ یَقْطَعُ وَ تِیْنَه"
(میزان الحکمت جلد ۵ صفحہ ۹۳)
ترجمہ:۔
کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاوں کہ اگر تم اسے بجا لاو تو شیطان تم سے اس طرح دور ہو جائے جس طرح سے مشرق مغرب سے دور ہے؟
اصحاب نے عرض کی جی ہاں(ضرور بیان کیجئے)
حضرت- نے فرمایا:
روزہ شیطان کا چہرہ سیاہ کرتا ہے،
صدقہ اس کی کمر توڑتا ہے،
خدا کیلئے دوستی رکھنا اور نیک اعمال پر باہمی تعاون اس کی جڑ کو اکھاڑتا ہے،
استغفار کرنااس کے دل کی رگ کو کاٹتا ہے،
اور ہر چیز کی زکوٰةہے اور زکوٰة بدن روزہ ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَ سَلَّمَ "اَلصَّومُ جُنَّةٌ مِّنَ النَّارِ"
ترجمہ:۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا "روزہ جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔"
چھٹی حدیث
والدین کے ساتھ نیکی کرنااور صلہ رحمی کرنا
شیخ صدوق مرحوم نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے۔
" قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْهِ السَّلامُ :
" مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّخِفِّفَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ فَلْیَکُنْ لِقَرَابَتِه وُصُوْلا وَ بِوَلِدَیْهِ بَارًا فَاِذَا کَانَ کَذٰلِکَ هَوَّنَ اللّٰهُ عَلَیْهِ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَ لَمْ یَصِبْهُ فِیْ حَیَاتِه فَقَرًا اَبَدًا"
(میزان الحکمت ۔ جلد ۹ ۔صفحہ ۲۶۰)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا :
" جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ اس پر سکرات موت کو آ سان کر دے تو اسے چاہئے کہ رشتہ داروں کے سا تھ صلہ رحمی کرے اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرے جب وہ ایسا کرے گا تو خداوندعالم موت کی دشواریوں کواس پر آسان کردے گا اور زندگی میں وہ کبھی غریب وتنگ دست نہ ہوگا "۔
ساتویں حدیث
نماز شب(تہجد) کی ترغیب
شیخ کلینی مرحوم نے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے ۔
عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلامُ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ دِیْکًا اَبْیَضَ عُنُقُه تَحْتَ الْعَرْشِ وَ رِجْلاهُ فِیْ تَخُوْمِ الْاَرْضِ السَّابِعَةِ جَنَاحٌ بِالْمَشْرِقِ وَ جَنَاحٌ بِالْمَغْرِبِ لا تَصِیْحُ الدَّیْکَةُ حَتّٰی تَصْبَحُ فَاِذَا صَاحَ خَفَقَ بِجَنَاحَیْهِ ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰهِ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظَیِْمِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِه شَیْءٌ فَیُجِیْبَهُ اللّٰهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی مَا اَمَنَ بِمَا تَقُوْلُ مَنْ یَحْلِفُ بِاِسْمِه کَاذِبًا
(عقاب الاعمال صفحہ ۲۷۱)
ترجمہ :۔
تحقیق اللہ تعالیٰ نے ایک سفید مرغ پیدا کیا ہے جس کی گردن عرش کے نیچے اور اس کے پاوں ساتویں زمین کے نیچے ہیں اس کا ایک پر مشرق میں اور ایک پر مغرب میں ہے ۔ جب تک مرغ آواز (آذان) نہ دے اس وقت تک دوسرے مرغ آواز نہیں دیتے پس جب آذان کہتا ہے۔ تو کہتا ہے:
"پاک و منزہ ہے خدا وند بزرگ کوئی چیز اس کی مثال نہیں"۔
پس اللہ تعالیٰ اس کو جواب دیتا ہے اور فرماتا ہے جو کچھ تو کہتا ہے اگر کوئی اس کی معرفت رکھتا ہے تو میری جھوٹی قسم نہیں کھاتا یعنی جو میری عظمت بزرگی سے آگاہ ہو وہ میرے نام کی جھوٹی قسم نہیں کھاتا۔
مولف فرماتے ہیں کہ جھوٹی قسم کی مذمت میں بہت روایا ت ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹی قسم اور قطع رحمی گھروں کو مکینوں سے خالی کرتے ہیں۔ اور جھوٹی قسم انسان کی آئندہ نسلوں اور اولاد کی تنگدستی اور غضب خدا کا باعث ہے اس عرشی مرغ کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔
ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ اما م محمد باقر-فرماتے ہیں کہ
" خدا کا ایک فرشتہ ہے جو مرغ کی شکل کا ہے اس کے پنجے زمین کے نیچے ہیں اور اس کے پر ہوا میں ہیں اس کی گردن عرش کے نیچے جھکی ہوئی ہے جب آدھی رات گزر جاتی ہے تو کہتا ہے۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلائِکَةِ وَ الرُّوْحُ رَبَّنَا لا اِلٰهَ غَیْرُه
بہت پاک و منزہ ہے بہت تقدیس اور تعریف والا ہے۔ فرشتوں اور روح (فرشتہ بزرگ ) کا پروردگار ہمارا پروردگار رحم کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں)
اس ذکر کے بعد کہتا ہے۔
لِیَقُمِ الْمُتْهَدُوْنَ
یعنی نماز شب پڑھنے والے بیدار ہو جائیں
پس اس وقت باقی مرغ آواز کرتے ہیں پس وہ فرشتہ جو مرغ کی شکل کا ہے خدا کے حکم سے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہتا ہے۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ لا اِلٰهَ غَیْرُه لِیَقُمِ الذَّاکِرُوْنَ
یعنی بہت پاک و منزہ ہے ہمارا پروردگار اس کے سوا کوئی معبود نہیں ذکر خدا کرنے والوں کو نیند سے اٹھنا چاہیے۔
اور جب صبح طلوع کرتی ہے تو کہتا ہے۔
رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ لا اِلٰهَ غَیْرُه لِیَقُمِ الْغَافِلُوْنَ
ہمارا پروردگار رحم کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں غافل لوگ نیند سے بیدار ہو جائیں"
(مرحوم شیخ عباسی قمی) فرماتے ہیں کہ میں نے اس روایت کے ذیل میں ان چند اشعار کو ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے۔
دلا تا کی در این کاخ مجازی
کنی مانند طفلان خاک بازی
توئی آند ست پرو مرغ گستاخ
کہ بودت آشیان بیرون ازاین کاخ
چرازان آشیان بیگانہ گشتی؟
چہ دونان مرغ این ویرانہ گشتی
بیفشان بال و پر ز آمیز ش خاک
بہ پر تاکنگرہ ایوان افلاک
ببین دررقص ازرق طیلسانان
ردائے نور بر عالم فشانان
ہمہ دور جہان روزی گرفتہ
بہ مقصد راہ فیروزی گرفتہ
خلیل آسادر ملک یقین زن
نوائے لا اَحَبُّ آفِلِیْنَ زن
ترجمہ اشعار
اے دل تو کب تک اس مجازی قصر میں بچوں کی طرح مٹی میں کھیلتا رہے گا تو وہ فالتو گستاخ پرندہے کہ ٹھکانہ اس محل سے باہر تھا کس لئے تو اپنے گھونسلے سے بیگانہ ہوگیا ہے کتناپست ہو کر اس ویرانہ کا مرغ بن گیا ہے خاک کی ملاوٹ سے اپنے پر وبال جھاڑ افلاک کے ایوان کے کنگرہ تک پرواز کر کشادہ لباس والوں کو آسمان کے رقص میں دیکھ جو جہان پر نور کی چادر پھیلا رہے ہیں تمام جہان والے اپنی روزی لے چکے ہیں اور اپنی کامیابی منزل کی طرف جارہے ہیں ابراہیم- خلیل اللہ کی طرح یقین کے دروازے کو دستک دے اور لا اَحُبُّ غافلین (یعنی میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ) کی آواز بلند کر۔
آٹھویں حدیث
غم نہ کرنے کے بارے میں
سَاَلَ الصَّادِقُ بَعْضِ اَهْلِ مَجْلِسِه فَقِیْلَ عَلِیْلٌ فَقَصََدَه عَائِدًا وَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِه فَوَجَدَه دَنِفًا فَقَالَ لَه اَحْسِنْ ظَنََّکَ بِاللّٰهِ قَالَ اِمَّا ظَنِّیْ بِاللّٰهِ فَحَسَنٌ وَٰلکِنْ غَمِّیْ لِبَنَاتِیْ مَا اَمَرَضَنِیْ غَیْرَ غَمِیْ بِهِنَّ فَقَالَ الصَّادِقُ عَلَیْهِ السَّلامُ الَّذِیْ تَرْجُوْهُ لِتَضْعِیْفِ حَسَنَاتِکَ وَ مَحْوَ سَیِّائِتِکَ فَاَرْجِه ِلااِاصْلاحِ حَالِبَنَاتِکَ اَمَّا عَمَلٌ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَاٰلِه وَ سَلَّمَ قَالَ:
" لَمَّا جَاوَزْتُ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی وَبَلَغْتُ قَضْبَانَهَا وَ اَغْصَانَهَا وَ رَأَیْتُ بَعْضَ ثِمَارِ قَضْبَانَهَا اَثْدَأُوْهُ مُعَلَّقَةٌ یَقْطُرُ مِنْ بَعْضِهَا اللَّبَنِ وَ مِنْ بَعْضِهَا الْعَسَلِ وَ مِنْ بَعْضِهَا الدُّهْنُ وَ مِنْ بَعْضِهَا شِبْهُ دَقِیْقِ السَّمِیَّدِ وَ مِنْ بَعْضِهَا الثِّیَابِ وَ مِنْ بَعْضِهَا کَالنَّبْقِ فَیَهْوِیْ ذَالِکَ کُلُّه نَحْوَ الْاَرْضِ فَقُلْتُ فِیْ نَفْسِیْ اَیْنَ مَقَرٌّ هٰذِهِ الْخَارِجَاتِ فَنَادَانِیْ رَبِّیْ یَا مُحَمَّد هٰذِه اُنْبِتُهَا مِنْ هٰذَا الْمَکَانِ لِاُغْذِ وَ مِنْهَا بَنَاتِ الْمُوْٴمِنِیْنَ مِنْ اُمَّتِکَ وَ بَنِیْهِمْ فَقُلْ لِآبَآءِ الْبَنَاتِ لا تُضِیْقَنَّ صُدُوْرُکُمْ عَلٰی بَنَاتِکُمْ فَاِنِّیْ کَمَا خَلَقْتُهُنَّ اَرْزُقُهُنَّ"
(سفینہ البحارصفحہ ۱۰۸ ،خرائج صفحہ ۲۸۴)
ترجمہ:۔
شیخ صدوق نے روایت کہ ہے کہ ایک دن امام جعفر صادق-نے اپنے صحابیوں میں سے ایک کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے ؟ بتایا گیا کہ وہ مریض ہے۔ حضرت- اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے۔ حضرت- نے دیکھا کہ وہ مرنے کے نزدیک ہے تو فرمایا کہ خدا کے باے میں اچھا گمان رکھ ۔وہ مرد کہنے لگا کہ میرا گمان خداکے بارے میں اچھا ہے۔لیکن بیٹیوں کے لئے غمناک ہوں ۔ اور مجھے فقط ان کے غم نے بیمار کیا ہے۔ حضرت- نے فرمایا: وہ خدا جس سے اپنی نیکیوں کے دگنا ہونے اور اپنے گناہوں کے مٹنے کی امید رکھتے ہو۔ اسی سے اپنی بیٹیوں کے حال کی اصلاح کی امید رکھو کیا تجھے معلوم نہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
"شب معراج جب میں سدرة المنتہی سے گزرا اور جب سدرة المنتہی کی شاخوں کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ان شاخوں کے ساتھ بعض میوے لٹکے ہوئے ہیں اور بعض سے دودھ نکل رہا ہے اور بعض سے شہد اور بعض سے گھی اور بعض سے بہترین قسم کا سفید آٹا بعض سے لباس اور بعض سے بیری کی مانند کوئی چیز نکل رہی تھی اور یہ تمام چیزیں زمین کی طرف جارہی تھیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ چیزیں کہاں اتر رہی ہیں ۔ جبرئیل- بھی اس وقت میرے ساتھ نہ تھے۔ پس میرے سر کے اوپر سے آواز پروردگار نے مجھے ندادی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں نے اس درخت کو اس مقام پر اگایا ہے۔ جوتمام مکانات سے بلند ہے۔ اور یہ تیری امت میں سے مومنین کے بیٹوں اور بیٹیوں کی غذا ہے پس تم ہر بیٹی کے باپ کو کہہ دوکہ بیٹیا ں پیدا ہونے پر تمہارا دل تنگ نہیں ہونا چاہیے جس طرح میں نے ان کو پیداکیا ہے ان کو روزی بھی دوں گا"۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ذیل میں سعدی مرحوم کے اشعار نقل کرنامناسب نظر آتا ہے۔
ترجمہ اشعار:۔
"ایک بچے کے دانت نکلنے لگے تو باپ سخت حسرت کر رہا تھا کہ اس کے لئے روٹی کہاں سے لاوں گا جب اس نے یہ بات اپنی عورت سے کہی تو اس عورت نے کیسا مردوں والا جواب دیا؟ کہ شیطان کے مرنے تک اس کے چکر میں نہ آنا جو دانت عطا کرتا ہے روزی بھی وہی دیتا ہے۔ جو خدا پیٹ کے اندر بچے کے نقش و نگار درست کرتا ہے وہ اس کی عمرمتعین کرنے اور اس کو روزی فراہم کرنے کا ذمہ دار بھی ہے اگر کوئی شخص غلام خرید لائے تو اس کو روٹی بھی کھلاتا ہے پس کس طرح ممکن ہے جو خدا غلام پیدا کرے اور اس کی روزی کا بندوبست نہ کرے تیرا خدا پر اتنا بھروسہ بھی نہیں جو غلام کو اپنے آقا پر ہوتا ہے"۔
نویں حدیث
وہ افراد جن سے دوستی اور رفاقت نہیں کرنی چاہئے
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَلَیْهِمُ السَّلامُ اَوْصَانِیْ اَبِیْ فَقَالَ یَا بُنَیَّ لا تَصْحَبَنَّ خَمْسَةً وَلا تُحَادِثْهُمْ وَلا تَرَافِقْهُمْ فِیْ طَرِیْقٍ
فَقُلْتُ: جَعَلْتُ فِدَاکَ یَا اَبَةَ مَنْ هٰوٴُلاءِ الْخَمْسَةَ؟
قَالَ: لا تَصْحَبَنَّ فَاسِقًا فَاِنَّه یَبِیْعُکَ بِاَکْلَةٍ فَمَا دُوْنَهَا
فَقُلْتُ: یَا اَبَةَ وَ مَا دُوْنَهَا
قَالَ: یَطْمَعُ فِیْهَا ثُمَّ لا یَنَالُهَا؟
قَالَ قُلْتُ: یَا اَبَةَ وَ مِنَ الثَّانِیْ؟
قَالَ:لاتَصْحَبَنَّ الْبَخِیْلَ بِکَ فِیْ مَالِه اَحْوَجُ مَا کُنْتُ اِلِیْهِ
قَالَ فَقُلْتُ: مِنَ الثَّالِثِ؟
قَالَ: لاتَصْحَبَنَّ کَذَّابًا فَاِنَّه بِمَنْزِلَةِ السَّرَابِ یُبَعِّدُ مِنْکَ الْقَرِیْبَ وَ یُقَرِّبُ مِنْکَ الْبَعِیْدَ
قَالَ: فَقُلْتُ وَمِنَ الرَّابِعِ؟
قَالََ: لاتَصْحَبَنَّ اَحْمَقَ فَاِنَّه یُرِیْدُ اَنْ یَنْفَعَکَ فَیَضُرُّکَ
قَالَ قُلْتُ: یَا اَبَةَ مِنَ الْخَامِسِ؟
قَالَ: لاتَصْحَبَنَّ قَاطِعَ رَحِمٍ فَاِنِّیْ وَجَدْتُه مَلْعُوْنًا فِیْ کِتَابَ اللّٰهِ فِیْ ثَلاٰثَةِ مَوَاضِعَ
(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ ۸۱ ۔ بحارالانوارجلد ۷۸ صفحہ ۱۳۷)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار نے مجھے ان کلمات کے ساتھ نصیحت فرمائی:
" اے بیٹا پانچ قسم کے آدمیوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔ان کے ساتھ بات نہ کرو۔ان کے ہمسفر نہ بنو۔
میں نے عرض کی آپ- پر قربان جاوں وہ کون ہیں؟
فرمایا فاسق کے ساتھ نہ بیٹھو کیونکہ وہ تجھے ایک لقمہ بلکہ اس سے بھی کم پر فروخت کر دے گا۔
میں نے عرض کی ابا جان ایک لقمہ سے کم کا کیا مطلب؟
فرمایا کہ لقمہ کے لالچ میں وہ تجھ کو فروخت کر دے گا لیکن اس لقمہ تک نہ پہنچ سکے گا۔
میں نے عرض کی اے اباجان دوسرا کون ہے؟
فرمایا کہ بخیل کے ساتھ دوستی نہ کر۔کیونکہ جب تجھے اس کے مال کی سخت ضرورت پڑے گی تو وہ تجھے اس وقت اس سے محروم رکھے گا۔
میں نے سوال کیا تیسرا کون ہے؟
فرمایا: بہت جھوٹ بولنے والے کے ساتھ نہ بیٹھ۔کیونکہ وہ سراب کی طرح ہے جو تجھے نزدیک کی چیز دور کر کے اور دور کی چیز نزدیک کر کے دکھائے گا(سراب یہ ہے کہ سورج کی دھوپ دوپہر کے وقت جب ہموار زمین پر پڑتی ہے تو اس زمین سے چمک دمک اس طرح نظر آتی ہے جیسے پانی موجیں مار رہا ہو۔گمان ہوتا ہے کہ وہاں پانی زمین پر جاری ہے حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی)۔
میں نے عرض کی کہ چوتھا شخص کون ہے؟
فرمایا: احمق ہے ۔کیو نکہ وہ تجھے فائدہ پہنچانا چاہے گا لیکن اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے تجھے نقصان پہنچادے گا۔
میں نے پوچھا پانچواں شخص کون ہے؟
فرمایا: قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ نہ بیٹھ ۔ کیونکہ قرآن میں تین مقامات پر میں نے اسے ملعون پایا ہے۔
دسویں حدیث
علم اور علماء کی فضیلت
قَالَ مُحَمَّدُ ابْنِ عَلِیٍّ عَلَیْهِمَا السَّلامُ عَالِمٌ یَنْتَفِعُ بِعِلْمِه اَفْضَلٌ مِنْ سَبْعِیْنَ اَلْفَ عَابِدٍ
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا"ایسا عالم جو اپنے علم سے فائدہ اٹھاتا ہے ستر ہزار عابد سے بہتر ہے"
مولف(محدث شیخ عباس قمی)فرماتے ہیں کہ علم اور علماء کی فضیلت میں بے شمار روایات ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے ۔
" ایک عالم افضل ہے ہزار عابد سے اور ہزار زاہد سے۔اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی سورج کی باقی ستاروں پر اور ایک رکعت نماز جو عالم فقیہ پڑھتا ہے عابد کی ستر ہزار رکعت سے افضل ہے اور علم کے ساتھ سو جانا جہالت کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے جب ایک مومن مرے اور ایک ورقہ چھوڑجائے جس پر علم لکھا ہوا ہو تووہ ورقہ قیامت کے دن اس شخص کے اور آگ کے درمیان پردہ بن جائے گا۔اور اللہ تعالیٰ ہر لفظ کے بدلے میں(جو ورقہ میں لکھا ہوا ہے)اسے ایک شہر عطا کرے گا۔جو دنیا سے سات گنا بڑا ہو گا۔اور جب عالم مرتا ہے تو اس پر فرشتے روتے ہیں،وہ زمین روتی ہے جہاں جہاں اس نے خدا کی عبادت کی تھی اور آسمان کے وہ دروازے روتے ہیں جن سے گزر کر اس کے اعمال اوپر جاتے تھے اور اسلام میں ایک ایسا رخنہ اور شگاف سا پڑ جاتا ہے۔جسے کوی چیز پر نہیں کر سکتی کیونکہ مومن علماء ان قلعوں کی طرح اسلام کے قلعے ہیں جو شہر کے ارد گرد بنائے جاتے ہیں۔اور علماء کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ثواب کئی گنا ہوتا ہے ۔اسی طرح علماء کو صدقہ دینا بھی کئی گنا ثواب رکھتا ہے۔
چنانچہ شیخ شہیدنے روایت نقل کی ہے۔کہ
"مسجدجامع کے علاوہ کسی جگہ پر عالم کے پیچھے نماز پڑھیں تو دو ہزار رکعت کا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھیں تو ایک لاکھ رکعت کا ثواب ملتا ہے"۔
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا فرمان ہے :
"علماء کو ایک روپیہ صدقہ دینا سات ہزار روپے کے برابر ہے اور علماء کے ساتھ بیٹھنا عبادت ہے"۔
مولا علی-کا فرمان ہے:
"ایک گھڑی علماء کے ساتھ بیٹھنا خدا کو ہزار سال کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے۔اور علماء کے گھر کے دروازے کی طرف دیکھنا عبادت ہے"۔
اور حضرت علی-کا فرمان ہے
"عالم کی طرف دیکھنا خدا کے نزدیک خانہ کعبہ میں اعتکاف سے زیادہ پسندیدہ ہے"
(مولف شیخ عباس قمی )فرماتے ہیں کہ یہ بات مخفی نہ رہے کہ علم کی فضیلت اس وقت ہے ۔کہ اس کے ساتھ عمل بھی ہو۔اور یہ دونوں گرانبھا موتی اکٹھے ہوں۔
قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ "اَشْقَی النَّاسَ مَنْ هُوَ مَعْرُوْفٌ عِنْدَ النَّاسِ مَجْهُوْلٌ بِعَمَلِه"
ترجمہ:۔
حضرت عیسیٰ- نے فرمایا کہ"لوگوں میں سب سے زیادہ شقی اور بد بخت وہ ہے جو لو گوں کے نزدیک علم میں معروف و مشہور ہو اور عمل میں مجہول (اور غیر معروف )ہو"۔