حدیث۱۱-۲۰
گیارہویں حدیث
حیاء کی فضیلت
قَالَ مُحَمَّدُ ابْن عَلِیٍّ اَلبَاقِرُ عَلَیْهُمَا السَّلامُ اَلْحَیَآءُ وَالْاِیْمَانُ مَقْرُوْنَانِ فِیْ قَرْنٍ وَاحِدٍ فَاِذَا ذَهَبَ اَحَدَ هُمَا تَبِعَه صَاحِبَه"
(تحف العقولصفحہ ۲۱۷)
ترجمہ:۔
حضرت امام محمد باقر- نے فرمایا کہ
"حیاء اور ایمان ایک ہی رسی میں اکٹھے ہیں اور یہ دونوں گرانبھا گوہر ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں جب ان میں سے ایک چلا جاتا ہے تو دوسرا بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے"۔
مولف (شیخ عباس قمی)فرماتے ہیں حیاء کی فضیلت میں بہت روایات ہیں اور حیاء کے حق میں یہی کافی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حیا کو اسلام کا لباس قرار دیا ہے اور فرمایا ہے
"اَلْاِسْلاٰمُ عُرْیَانٌ فَلِبَاسُه اَلْحَیَاْءُ"
یعنی "اسلام عریاں ہے اس کا لباس حیاء ہے "
جس طرح بدن کا ظاہری لباس شرمگاہیں اور جسم کے دیگر عیب چھپاتا ہے اسی طرح حیاء ایک باطنی لباس ہے جو قباحتوں اور بری خصلتوں کو دوسروں سے اوجھل رکھتا ہے امام جعفر صادق-کا ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ امام- نے جو قمیض پہن رکھی ہے اسے پیوند لگا ہے وہ ٹکٹکی لگائے پیوند کو تعجب سے دیکھ رہا تھا امام- نے اس تعجب کا سبب پوچھا تو عرض کرنے لگا میری نظر پیوند پر ہے جو آپ- کے گریبان پر لگا ہوا ہے حضرت- نے فرمایا اس کتاب کو اٹھا کر پڑھ ۔راوی کہتا ہے حضرت- کے پاس ایک کتاب پڑی ہوئی تھی اس نے اٹھا کر اس میں نظر کی تو لکھا ہوا تھا
"لااِیْمَانَ لِمَنْ لاحَیَآءَ لَه وَلا مَاَل لِمَنْ لا تَقْدِیْرَ لَه وَلا جَدِیْدَ لِمَنْ لا خَلْقَ لَه"
ترجمہ:۔
"جس میں حیاء نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو معاش میں حساب و کتاب اور اندازہ نہیں رکھتا اس کا مال نہیں ہوتا اور جس کے پرانا نہیں اس کے پاس نیا نہیں "۔
(اسکی تفصیل حدیث نمبر ۱۸ میں بیان ہو گی)
بارہویں حدیث
وصیت حضرت امام جعفر صادق-
شیخ ابو الفتوح رازی نے روایت کی ہے کہ جب حضرت امیر المومنین-‘حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمةالزہرا=اکے دفن سے فارغ ہوئے تو قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا:۔
" اَلسّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَهْلَ الْقُبُوْرِ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَ نَحْنُ لَکُمْ خَلَفٌ وَاِنَّا اَنْشَآءَ اللّٰهِ بِکُمْ لاٰحِقُوْنَ اَمَّا الْمَسَاکِنُ فَقَدْ سُکِنَتْ وَاَمَّا الْاَزْوَاجُ فَنُکِحَتْ وَاَمَّا الْاَمْوَالُ فَقُسِمَتْ هٰذَا خَبَرٌ مَا عِنْدَنَا فَلَیْتَ شِعْرِیْ مَا خَبَرٌ مَا عِنْدَکُمْ؟ ثُمَّ قَالَ اَمَّا اِنَّهُمْ اِنْ نَطَقُوْا لَقَالُوْا وَجَدْنَا التَّقْوٰی خَیْرَ زَادٍ
"
(میزان الحکمت ۔جلد ۹ ۔صفحہ ۲۵۳ ۔بحار الانوارجلد ۷۸)
ترجمہ:۔
"قبروں میں رہنے والو!تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے جا چکے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں اور انشاء اللہ تم سے جلد ملحق ہوں گے تمہارے اعمال تقسیم ہو چکے ہیں۔تمہارے گھروں میں دوسرے آباد ہو چکے ہیں۔تمہاری بیویوں کے نکاح کہیں اور پڑھ دیئے گئے ہیں۔یہ وہ خبر تھی جو ہمارے پاس تھی تمہارے پاس کیا خبر ہے۔کسی نے(جواب میں)کہا جو کچھ ہم نے کھایا وہ ہمارا
فائدہ تھا۔اور جو کچھ ہم نے آگے بھیجا اسے ہم نے پا لیا اور جو چھوڑ آئے ہیں نقصان کیا۔
( ۱) محدث قمینقل کرتے ہیں امام جعفر صادق-نے ایک وصیت کی خواہش رکھنے والے ایک شخص سے فرمایا :
"سفر آخرت کے لئے زاد راہ اکٹھا کرو ۔اور جانے سے پہلے اسے بھیج دو تا کہ تمہیں مرتے وقت دوسروں سے التماس اور وصیتّ نہ کرنی پڑے کہ وہ بعد میں تمہارے لئے یہ زاد راہ بھیج دیں"
۔
____________________
تیرھویں حدیث
نامحرم عورت کی طرف نگاہ کرنے کی مذمت
شیخ صدوقحضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کرتے ہیں ۔
"مَنْ مَلاءَ عَیْنَه مِنْ اِمْرَئَةٍ حَرَامًا حَشَرَهُ اللّٰه یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُسَمَّرًا بِمَسَامِیْرَ مِنْ نَارٍ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی بَیْنَ النَّاسِ ثُمَّ یُوْمَرُ بِه اِلَی النَّارِ"
(سفینةالبحارجلد ۲ صفحہ ۱۷۱)
ترجمہ:۔
"جو بھی نا محرم عورت کی طرف بھر پور نگاہ کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس طرح محشور فرمائے گا کہ آگ کی میخیں اس میں پیوست ہوں گی اور اللہ تعالیٰ تمام لو گوں کے حساب کتاب سے فارغ ہو کر حکم دے گا کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے (یعنی اتنی مدت اسے اذیت ناک انتظار میں گذارنا پڑے گی)۔"
شیخ صدوقنے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے۔
"جو شخص کسی نا محرم عورت سے مصافحہ کرے تو قیامت کے دن لوہے کا طوق اس کی گردن میں ہو گا اور زنجیر وں میں جکڑا ہوا ہو گا ۔پس حکم دیا جائے گا کہ اسے آگ میں پھینک دو۔اور جو شخص ایسی عورت کے ساتھ مذاق کرے جس کا وہ مالک نہ ہو یعنی اپنی بیوی اور کنیز کے علاوہ کسی عورت سے مذاق کرے تو ہر لفظ کے بدلے میں ہزار سال محبوس ہو گا"۔
اور فرمایا کہ:
" جو شخص کسی عورت یا کنیز کے ساتھ فعل حرام کر سکتا تھا مگرخوف خدا کی وجہ سے بچا رہا تو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔اور قیامت کے بڑے خوف سے اسے محفوظ رکھے گا بہشت میں داخل کر دے گا"۔
چودھویں حدیث
چار چیزوں کے چھپانے کے بارے میں
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ اَلْبَاقِرُعلَیْهِ السَّلامُ:
"اَرْبَعٌ مِنْ کُنُوْزِ الْبِرِّ
; کِتْمَانُ الْحَاجَةِ
; وَ کِتْمَانُ الصَّدَقَةِ
; وَ کِتْمَانُ الْوَجْعِ
; وَ کِتْمَانُ الْمُصِیْبَةِ
; (تحف العقول صفحہ ۲۱۶)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا:
"چار چیزیں نیکی اور اچھائی کے خزانوں میں سے ہیں
; اپنی حاجت،
; صدقہ،
; درد
; اور مصیبت کو چھپانا "۔
(محدث قمی )کہتے ہیں کہ کتاب مجموعہ ورام میں احنف سے روایت نقل ہوئی ہے جسے ذکر کرنا مناسب ہے (مصنف کہتے ہیں کہ)میں نے اپنے چچا صعصعہ سے شکم درد کی شکایت کی تو اس نے مجھے ڈانٹ کر کہا:
اپنے جیسے انسان کے سامنے اپنے درد کی شکایت نہ کر کیونکہ جس کے سامنے شکایت کرے گا۔اگ تو وہ شخص تیرا دوست ہو گا تو وہ پریشان ہو گا اور اگر دشمن ہوا تو سن کر خوش ہو گا اسی طرح تجھے کوئی درد عارض ہوا ہے تو اس کی شکایت مخلوق کے سامنے نہ کر۔جو اپنا درد دور کرنے سے قاصر ہے تو تیرا درد دور کرنا اس کے بس میں کیونکر ہو گا۔تجھے ایسی ذات کے سامنے عرض کرنا چاہیے جس نے تجھے اس درد میں مبتلا کیا ہے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تجھ سے وہ درد دور کرے اور کشائش عنایت فرمائے۔ اے بھتیجے چالیس سال ہو گئے ہیں کہ میری ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے۔اس آنکھ کے ذریعے کوہ وبیاباں کی کوئی چیز دکھای نہیں دیتی۔لیکن میں نے ابھی تک اس کا ذکر اپنے اہل وعیال سے نہیں کیا۔
پندرھویں حدیث
مومن کی حاجت پوری نہ کرنے کی مذمت
رَوَیَ اَبَانُ ابْنُ تَغْلِبُ عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ:
اَیُّمَا مُوْمِنٍ سَاَلَ اَخَاهُ الْمُوْمِنُ حَاجَةً وَهُوَ یَقْدِرُ عَلٰی قَضَائِهَا فَرَدَّه عَنْهَا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیْهِ شُجَاعًا فِیْ قَبْرِه یَنْهَشُ مِنْ اَصَابِعِه (عدةالداعیصفحه ۱۹۰)
ترجمہ:۔
شیخ اجل ابن فہد حلی نے ابان بن تغلب کے ذریعے امام جعفر صادق-سے روایت نقل کی ہے:
"جب کو ئی شخص اپنے مومن بھائی سے کوئی کام کہے اور وہ کر سکنے کے با وجود انجام نہ دے۔تو اللہ تعالیٰ قبر میں اس پر بہت بڑا سانپ مسلط کرے گا۔جس کا نام شجاع ہے ۔جو ہمیشہ اس کی انگلیوں کو ڈستا رہے گا"۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ
"وہ سانپ اس کی انگلی کو ڈستا رہے گا قیامت تک(یعنی اس آدمی کے بخشے جانے یا عذاب میں مبتلا ہونے تک)"۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں دینی بھائیوں کی حاجت روائی کے بارے میں بہت سی روایات ہیں۔امام باقر-سے مروی ہے:
"جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روا ئی کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر ہزار فرشتوں کا سایہ کرتا ہے اور حاجت روائی کے لئے اٹھائے جانے والے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک برائی مٹا دی جائے گی اور ایک درجہ بلند کر دیا جائے گا۔اور جب اس کے کام سے فارغ ہو گا تو اس کے لئے حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا"۔
حضرت امام جعفر صادق-سے منقول ہے:
"مومن بھائی کی حاجت پوری کرنا حج ،حج اور حج ہے۔حتیٰ کہ دس بار آپ نے تکرار فرمایا ہے"
روایت میں آیا ہے کہ
"جب بنی اسرائیل میں کوئی عابد عبادت کی حد کو پہنچ جاتا تھا۔ تو تمام عبادات سے لوگوں کی حاجت کے لئے کوشش کرنے کو اختیار کرتا تھا"۔
اور جناب شاذان ابن جبرائیل قمی نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ شب معراج حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جنت کے دوسرے دروازے پر یہ کلمات لکھے ہوئے دیکھے
"ہر چیز کا وسیلہ ہے اور آخرت میں خوشی کا وسیلہ چار چیزیں ہیں یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنا ،بیوہ عورتوں پر مہربانی کرنا ، مومنین کی حاجات پوری کرنا ، فقیروں اور مسکین لوگوں کی خبر گیری اور خدمت کرنا "۔
لہٰذا علماء ‘بزرگان دین اور مومنین کی حاجات پوری کرنے کے لئے بہت اہتمام کرتے تھے چنانچہ اس موضوع سے متعلق بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں جن کا ذکر یہاں پر طول کا سبب بنے گا۔
سولہویں حدیث
مومنین کو خوش کرنے کےبارے میں
شیخ کلینی و صدوق نے سدید صیرفی سے ایک طولانی حدیث نقول کی ہے۔
قَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰهِ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ
:
"اِذَا بَعَثَ اللّٰهُ الْمُوْمِنَ مِنْ قَبْرِه خَرَجَ مَعَهُ مِثَالُ یُقَدِمُه اَمَامَه کُلَّمَا رَاْیَ الْمُوْمِنُ هَوْلًا مِنْ اَهْوَالِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ قَالَ لَهُ الْمِثَالُ لاٰ تَفْزَعُ وَ لاٰ تَحْزَنْ وَاَبْشِرْ بِالسُّرُوْرِ وَ الْکَرَامَاتِ مِنَ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ حَتّٰی یَقِفَ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّفَیُحَاسِبُه حِسَابًا یَسِیْرًا وَ یَاْمُرُ بِه اِلَی الْجَنَّةِ وَ الْمِثَالُ اَمَامَه فَیَقُوْلُ لَهُ الْمُوْمِنُ یَرْحَمُکَ اللّٰهُ نِعْمَ الْخَارِجُ خَرَجْتَ مَعِیْ مِنْ قَبْرِیْ وَمَا زِلْتَ تَبْشِرُنِیْ بِالسُّرُوْرِ وَالْکَرَامَاتِ مِنَ اللّٰهِ حَتّٰی رَاَیْتَ ذَالِکَ فَیَقُوْلُ مَنْ اَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ اَنَا السُّرُوْرُ کُنْتَ اَدْخَلْتَ عَلٰی اَخِیْکَ الْمُوْمنِ فِی الدُّنْیَاخَلَقَنِیَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهُ"
(اصول کافیجلد ۳ صفحہ ۲۷۳)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا :
"جب اللہ تعالیٰ مومن کو قبر سے اٹھائے گا تو اس کے ساتھ ایک مثالی صورت بھی قبر سے نکلے گی جو اس کے آگے آگے ہو گی پس قیامت کی ہولناکی جب وہ مومن دیکھے گا۔تو مثالی صورت اسے کہے گی پریشان نہ ہو ڈر نہیں تجھے خدا کی طرف سے سرور اورعزت وکرامت کی خوشخبری ہو اسے لگا تار یہ حوصلہ و تسلی ملتی رہے گی۔یہاں تک کہ جب حساب کے مقام پر وہ مومن پہنچے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے آسان حساب لے گا۔ اس پر بھی وہ صورت خوشخبری دے گی۔اللہ تعالیٰ اسے جنت میں جانے کا حکم دے گا۔وہ مثالی صورت مومن کے آگے آگے ہو گی تو مومن اس سے کہے گا خدا تم پر رحمت کرے تم میرے لئے بہترین ساتھی تھے۔تم میری قبر سے میرے ساتھ نکلے ہو اور مسلسل مجھے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خوشی اور کرامت کی بشارت دیتے رہے ہو یہاں تک کہ میں نے وہ سرور و کرامت خود دیکھی ہے۔اب یہ بتاو تم کون ہو؟وہ کہے گی کہ تو نے دنیا میں اپنے مومن بھائی کو خوش کیا تھاتو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خوشی سے پیدا کیا ہے تا کہ تمہیں روز قیامت خوش رکھ سکوں"۔
سترھویں حدیث
صلہ رحمی اور امانت کے بارے میں
علامہ مجلسینے ثقہ جلیل حسین ابن سعید اہوازیسے اور انہوں نے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے کہ حضرت- نے فرمایا کہ ایک آدمی نے جناب ابوذر(رحمۃ اللہ علیہ) کو بکریوں کی بچے پیدا ہونے کی خوشخبری دی کہ تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری بکریوں نے بچے دیئے ہیں اور اب بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔جناب ابو ذر (رحمۃ اللہ علیہ)نے کہا ان کا زیادہ ہونا مجھے خوش نہیں کرتا اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے پس جو کم ہو لیکن کفالت کرے اس زیادہ سے بہتر ہے جو انسان کو اپنی طرف مشغول کر لے کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے:
"یَقُوْلُ عَلٰی حَافَتِی الصِّرَاطِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَلرِّحْمُ وَ الْاَمَانَةُ فَاِذَا مَرَّ عَلَیْهِ الْوُصُوْلُ لِلرَّحِمِ الْمُوٴَدِّی الْاَمَانَةِ لَمْ یَتَکَفَاءَ بِه فِی النَّارِ
"(سفینة البحارجلد ۱ صفحہ ۴۱)
ترجمہ:۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:
"پل صراط کے دونوں طرف قیامت کے دن رحم اور امانت ہوں گے پس جب قریب سے صلہ رحمی کرنے والا، امانت ادا کرنے والا گزرے گا تو وہ دونوں اس کو جہنم میں گرنے سے بچائیں گے"
اور ایک اور روایت میں ہے کہ
"اگر قطع رحمی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا گذرے گا تو اسے وہا ں کوئی عمل فائدہ نہ دے گا۔بلکہ پل صراط اسے جہنم میں گرا دے گی"۔
اٹھارہویں حدیث
روزگار زندگی میں حساب و کتاب رکھنے کے بارے میں
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ اَلْبَاقِرُ عَلَیْهِ السَّلامُ:
"اَلْکَمَالُ کُلُّ الْکَمَالِ اَلتَّفَقَّهُ فِیْ الدِّیْنِ وَ الصَّبْرُ عَلَی النَّائِبَةِ وَ تَقْدِیْرُ الْمَعِیْشَةِ"
(تحف العقولصفحہ ۲۱۳)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا:
"سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ دین کو اچھی طرح سے سمجھا جائے‘ مصیبت پر صبر کیا جائے‘اخراجات زندگی میں حساب و اندازہ گیری کو دخل حاصل ہے"۔
شیخ عباس قمیکہتے ہیں کہ آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ماہانہ آمدنی کا اندازہ لگائے اور اس کے مطابق خرچ کرے پس جب کسی کی آمدنی تین روپے ہو تو اسے چاہیے کہ روزانہ ایک روپیہ(یعنی اپنی آمدنی کا ایک تہائی) خرچ کرے اور اس سے زیادہ خرچ نہ کرے اگر اتفاقاً ایک دن زیادہ خرچ کرے تو دوسرے دن کم خرچ کرے۔تا کہ سوال کرنے اور قرض اٹھانے کی ذلت سے دو چار نہ ہو نا پڑے۔ استاد ثقة الاسلام نوری کتاب مستدرک الوسائل کے خاتمہ میں نقل کرتے ہیں :
ملا علامہ محمد تقی مجلسی کی والدہ عارفہ مقدسہ صالحہ تھی ان کے تقویٰ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب ان کے شوہر ملاّ مقصودعلی سفر پر جانے لگے تو اپنے بیٹوں ملا محمد تقی مجلسی اور ملا محمد صادق کو علامہ مقدس و پرہیز گار ملا عبداللہ شو شتری کے پاس تحصیل علم دین کے لئے لے آئے اور ان کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کی تعلیم کا خیال رکھیں اس کے بعد سفر پر چلے گئے۔
پس ان دنوں میں عید آئی جناب ملا عبداللہ نے تین تومان (ایرانی سکہ) ملا محمد تقی مجلسی کو دیئے اور فرمایا کہ انہیں اپنی معاشی ضروریات کے لئے خرچ کرے انہوں نے فرمایا کہ ماں کی اجازت اور اطلاع کے بغیر خرچ نہیں کر سکتے۔جب اپنی والدہ کی خدمت میں آئے تو ان کو سارا قصہ بتایا تو ماں نے بتایا کہ تمہارے باپ کی ایک دکان ہے جس کا غلہ چودہ روپے کا ہے اور وہ تمہارے اخراجات کے برابرہے۔جس طرح میں نے تمہارے لئے تقسیم اور معین کیا ہے اس عرصے میں تمہاری یہ عادت بن گئی ہے۔ اب اگر یہ تین تومان لے لوں تو تمہارے لئے معیشت میں خرابی پیدا ہو جائے گی۔یہ پیسے ختم ہو جائیں گے اور تم پہلی عادت بھلا دو گے۔پھر اپنے کم اخراجات پر صبر نہ کر سکو گے تو میں بھی مجبورہو جاوں گی کہ اکثر اوقات تمہاری تنگدستی کی شکایت ملا عبداللہ اور دوسروں کے پاس لے جاوں اور یہ کام ہماری شان کے لائق نہیں ہے۔
پس یہ بات ملا عبداللہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ان دونوں بھائیوں کے حق میں دعا کی اور ان کی دعا خدا نے قبول کی اور اس جلیل سلسلہ کو دین کے حامیوں اور شریعت سید المرسلین پیغمبر آخر الزمان(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مروجین اور پھیلانے والوں میں قرار دیا اور خدا ان میں سے علامہ مجلسی جیسی شخصیت کو سامنے لایا۔
فائدہ
آ پ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس حدیث میں سختیوں اور مصیبتوں میں صبر کی ترغیب دلا ئی گئی ہے صبر کی تعریف و مدح میں روایات اور حکایات بہت ہیں میں یہاں پر ایک روایت اور حکایت پر اکتفا کرتا ہوں ۔
امام جعفر صادق-سے منقول ہے:
" جب مومن کو قبر میں داخل کرتے ہیں تو نماز اس کے دائیں طرف اور زکوٰة اس کے بائیں طرف ہوتی ہے۔ اس کی نیکی ا س کے سر کی طرف اور صبر اس کے ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جب سوال کرنے والے دو فرشتے آتے ہیں تو صبر نماز ، زکوٰة اور نیکیوں کو کہتا ہے کہ اپنے ساتھی کا خیال رکھو اور اس کی حفاظت کرو جب تم عاجز ہو جاؤ تو اس کے ساتھ ہوں"۔
حکایت
بعض تاریخوں میں نقل ہوا کہ کسریٰ حکیم بزر جمہر پر غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ اسے ایک اندھیری جگہ پر قید کردیں اور زنجیروں اور طوقوں میں جکڑ دیں کچھ دن اسی حالت میں گزر گئے کسریٰ نے ایک دن کسی کو بھیجا کہ اس کی خبر لے آو اور اس کا حال معلوم کرو جب وہ آدمی دیکھنے کو آیا تو اس نے اس حکیم کو پر سکون و آرام اور خوشحال اطمینان کی حالت میں دیکھا تو وہ دیکھنے والا کہنے لگا تو اتنی تنگی اور سختی کی حالت میں ہے لیکن یوں لگ رہا ہے کہ تو بہترین آسائش و آرام میں زندگی گزار رہا ہے۔ (آخر وجہ کیا ہے) حکیم بزر گ نے کہا کہ میں نے چھ چیزوں کا ایک معجون تیار کیا ہے اسے استعمال کرتا ہوں اسی وجہ سے میرا وقت اس طرح خوشی میں گزر رہا ہے تو وہ کہنے لگا معجون ہمیں بھی بتاتا کہ سختیوں اور مشکلات کے وقت استعما ل کرکے ہم بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ تو حکیم نے کہا وہ چھ چیزیں یہ ہیں:۔
( ۱) اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ
( ۲) جو کچھ مقدر میں ہے وہ ہو کر رہے گا
( ۳) آزمائش میں مبتلا شخص کیلئے صبر سب سے بہترین چیز ہے
( ۴) اگر صبر نہ کروں تو کیا کروں
( ۵) اس مصیبت سے زیادہ سخت مصیبت بھی ہوسکتی ہے
( ۶) ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کشائش و آزادی کی امید ہے۔
جب یہ اطلاع کسریٰ بادشاہ کو دی گئی تو اس کی آزادی کا حکم دیا اور اس کا احترام کیا۔
انیسویں حدیث
جھوٹ کی مذمت
شیخ کلینی نے امام باقر-سے روایت ہے کہ حضرت- نے فرمایا:
ِانَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ لِلشَّرِّ اَقْفَالااًا وَ جَعَلَ مَفَاتِیْحَ تِلْکَ الْاَقْفَالِ الشَّرَابِ وَالْکِذْبُ شَرٌّ مِنَ الشَّرَابِ
(سفینہ البحارجلد ۲ صفحہ ۸۳ ۴)
ترجمہ :۔
امام باقر-نے فرمایا :
" خداوند عزوجل نے شر اور برائی کیلئے تا لے قرار دیئے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بدتر ہے"۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں جھوٹ کی مذمت میں بہت سی روایات ہیں اور اس کی مذمت کیلئے حضرت امیر المومنین-کا یہ فرمان کافی ہے۔ حضرت- نے فرمایا:
" اس وقت تک کوئی آدمی ایمان کا ذائقہ نہیں پاسکتا جب تک مکمل طور پر جھوٹ کو نہ چھوڑ دے"۔
یعنی سنجیدگی یا مذاق کسی حالت میں بھی جھوٹ نہ بولے۔
بیسویں حدیث
شراب پینے کی مذمت
شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ حضرت- نے فرمایا:
"اِنَّ شَارِبُ الْخَمْرِ یَجِیْءُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَسْوَدًّا وَجْهُه مُزَرَّقَةً عَیْنَاهُ مَائِلااًا شَدْ قُه سَائِلااًا لُعَابُه دَالِعًا لِسَانُه مِنْ قَفَاهُ"(
بحار۔جلد ۷۹ صفحہ ۱۲۶)
ترجمہ:۔
شراب پینے والا قیامت کے دن اس حال میں محشور ہو گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو گا اس کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی اس کا منہ ٹیڑھا ہو گا اور اس کی زبان سے رال(لعاب دہن)بہتی ہو گی اور گدی سے اس کی زبان باہر نکلی ہو گی۔
شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ شراب کی مذمت میں روایات بہت ہیں اور روایات میں آیا ہے کہ شراب ام الخبائث اور ہر برائی کی جڑ ہے اور شرابی پر ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس کی عقل ختم ہو جاتی ہے۔اس وقت وہ اپنے پروردگارکو نہیں پہچانتا ہر گناہ کرتا ہے۔اور ہر حرمت اور احترام کو پامال کرتا ہے۔اور ہر ایک سے قطع رحمی کرتا ہے۔اور ہر برا کام کرتا ہے۔مست آدمی کی باگ شیطان کے ہاتھ میں ہے اگر شیطان اس کو بتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دے تو سجدہ کرتا ہے۔شیطان اس کو جہاں لے جانا چاہے یہ اس کی اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے۔نیز روایت میں آیا ہے:
"شرابی سے کسی عورت کی شادی نہ کرو اگر تم نے ایسا کیا تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے تم نے زنا کے لئے کوئی عورت دی ہو‘جب شرابی بات کرے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو ‘اس کی گواہی قبول نہ کرو ‘اسے اپنے مال میں امانت دار نہ سمجھو یعنی اپنا مال اس کے ہاتھ میں نہ دو اس کے ساتھ دوستی نہ رکھو ‘اس کے سامنے نہ ہنسو اس سے ہاتھ نہ ملاو‘گلے نہ ملو‘اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرو‘اگر مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ نہ جاو‘شرابی کے ساتھ نہ جاو‘کیو نکہ اگر لعنت نازل ہو تو جو لوگ اس کے ساتھ بیٹھے ہوں گے سب کو گھیر لے گی‘ایسے دستر خوان پر بھی نہ بیٹھو جس پر شراب پی جا رہی ہو‘اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شرابی بت پرست کی طرح ہے۔اور جو شراب پیتا ہے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہو تی۔شرابی قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ کوزہ اس کی گردن میں اور پیالہ اس کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی بدبو ہر قسم کے مر دار سے بد تر ہو گی۔ مخلوقات میں سے جو بھی اس کے پاس سے گزرے گا اس پر لعنت بھیجے گا"۔