چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں0%

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

مؤلف: علامہ شیخ عباس قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10096
ڈاؤنلوڈ: 2767

تبصرے:

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10096 / ڈاؤنلوڈ: 2767
سائز سائز سائز
چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

مؤلف:
اردو

حدیث۲۱-۳۰

اکیسویں حدیث

سود کی مذمت

شیخ جلیل القدر علی ابن ابراہیم قمی نے اپنے باپ سے انہوں نے ابن ابی عمیر سے انہوں نے جمیل سے اور انہوں نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ

قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْهِ السَّلامُ:

"دِرْهَمُ رِبَا اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ سَبْعِیْنَ زَانِیَّةٍ کُلُّهَا بِذَاتِ مَحْرِمٍ فِیْ بَیْتِ اللّٰهِ الْحَرَامِ"

ترجمہ:۔

حضرت امام جعفر صادق-نے فرمایا:

"سود کے ایک درہم کی برائی خدا کے نز دیک خانہ کعبہ میں اپنی محرم عورتوں سے ستر بار زنا ء کرنے سے زیادہ ہے"۔

شیخ عباس قمی کہتے ہیں۔بہت سی آیات اور روایات سود کی مذمت اور اس کے گناہ کی سنگینی کے بارے میں ہیں۔اسی مضمون کی چند روایات شیخ صدوق نے نقل کی ہیں۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امیر المومنین- کو یہ وصیت کی تھی:

" یا علی- سود کے ستر( ۷۰) جز ہیں ان میں سے سب سے آسان یہ ہے کی انسان اپنی ماں کے ساتھ کعبہ میں نکاح(زنا) کرے۔"

نیز رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت نقل ہوئی ہے:

" جو سود کھائے اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو جہنم کی اس مقدار سے بھر دے گا جتنا اس نے سود کھایا ہو گا پس اگر اس نے سود کے ذریعے کوئی مال کمایا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا۔ جب اس کے پاس ایک قیراط سود کا ہو گا۔وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کی زد میں ہو گا۔"

اور فرمایا:

"بد ترین ذریعہ معاش سود کمانا ہے"۔

حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل ہوا ہے:

" جو شخص غیر حلال طریقے سے مال کمائے گا وہ جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب بنے گا "۔

بائیسویں حدیث

امام جعفر صادق- کی نصیحتوں کے بارے میں

شیخ صدوق نے ابان بن تغلب سے روایت نقل کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کونسی چیز انسان میں ایمان کو ثابت رکھتی ہے۔

قَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ :

"اَلَّذِیْ یُثْبِتُه فِیْهِ الْوَرْعُ وَالَّذِیْ یَخْرُجُه مِنْهُ الطَّمْعُ"

(میزان الحکمتجلد ۱ صفحہ ۳۲۱)

ترجمہ:۔

امام جعفر صادق-نے فرمایا:

" جو چیز انسان میں ایمان کو ثابت رکھتی ہے وہ پرہیز گاری ہے۔اور جو چیز انسان سے ایمان کو نکال دیتی ہے وہ لالچ ہے"۔

شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ اس باب میں بہت سی روایات ہیں پرہیز گاری اور(ورع)محرمات کو ترک کرنا‘حرام اور مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بچنا۔ عمرو ابن سعید ثقفی سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میں ہمیشہ آپ کی ملاقات نہیں کر سکتا۔پس آپ مجھے ایسی تعلیم فرمائیں کہ جس پر عمل کروں۔حضرت- نے فرمایا:

" میں تجھے اللہ سے ڈرنے اور پرہیز گاری اور نیکیوں کی کوشش کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ نیکیوں کی کو شش کرنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک پرہیز گاری ساتھ نہ ہو"۔

حضرت- نے حماد کو فرمایا :

" اگر تو چاہتا ہے کہ تیری آنکھیں روشن ہوں(تجھے خوشی حاصل ہو)اور تو دنیا اور آخرت کی بھلائی تک پہنچے تو جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس کا لالچ نہ کر اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر اور دل میں یہ نہ کہہ کہ تو لوگوں میں سے کسی سے بلند مرتبہ ہے اور اپنی زبان کی حفاظت کر جس طرح اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے"۔

اور امام زین العابدین-سے نقل ہوا ہے:

"میں نے دیکھا ہے کہ تمام اچھائی اور بھلائی لوگوں سے لالچ نہ رکھنے میں جمع ہو چکی تھی میری نظر میں اچھائی صرف اس میں ہے کہ لوگوں کو دیکھتے ہوئے لالچ دل میں نہ آنے دیا جائے"۔

تیسویں حدیث

زناء اور لواط کی مذمت

شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے یہ روایت نقل کی ہے۔

قَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ:

"لِلزَّانِیْ سِتُّ خِصَالٍ ثَلاثٌ فِیْ الدُّنْیَا وَثَلاثٌ فِیْ الْآخِرَةِ

فَاَمَّا الَّتِیْ فِیْ الدُّنْیَا

; فَاِنَّه یَذْهَبُ بِنُوْرِ الْوَجْهِ

; وَ یُوْرِثُ الْفَقْرَ

; وَ یُعَجِّلُ الْفَنَآءَ

وَ اَمَّا الَّتِیْ فِیْ الْآخِرَةِ

; فَسُخْطُ الرَّبِّ جَلَّ جَلالَه

; وَ سُوْءُ الْحِسَابِ

; وَ الْخُلُوْدِ فِی النَّارِ"

(المواعظ العددیہ صفحہ ۱۸۳)

ترجمہ:۔

حضرت امام جعفر صادق-نے فرمایا :

زانی کے لئے چھ سزائیں ہیں۔تین سزائیں دنیا میں اور تین سزائیں آخرت میں۔

وہ تین جو دنیا میں ہیں ۔

; ( ۱) زناء اس کا نور ختم کر دیتا ہے۔

; ( ۲) فقیری اور تنگدستی لاتا ہے

; ( ۳) اسکی فناء میں جلدی کرتا ہے یعنی اسکی عمر کم کرتا ہے۔

اور وہ تین سزائیں جوآخرت میں ہیں وہ یہ ہیں۔

; ( ۱) خدا کا غضب اور ناراضگی۔

; ( ۲ ) حساب میں بدی اور

; ( ۳) آگ میں ہمیشگی۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں اس مضمون کی روایات فراواں ہیں کہ نا محرم عورت کے رحم میں نطفہ ڈالنے کا عذاب بہت سخت ہے۔

شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے روایت نقل کی ہے کہ

"آدم- کافرزند اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بڑا (برا) عمل نہیں کرتا کہ کسی پیغمبر کو شہید کرے یا کسی امام کو شہید کرے یا خانہ کعبہ کو گرائے جس کو خدا نے اپنے بندوں کا قبلہ قرار دیا ہے یا اپنا پانی کسی ایسی عورت کے رحم میں خالی کرے جو اس پر حرام ہو"

(میزان الحکمت صفحہ ۲۳۸) ۔

روایت میں ہے کہ حرام زادے کی کچھ علامتیں ہیں۔

( ۱) اہل بیت٪ کا بغض۔

( ۲) بچہ اسی حرام کا شوق رکھتا ہے جس سے وہ پیدا ہوا یعنی زناء کا۔

( ۳) دین کو حقیر سمجھنا(بے پروائی کرنا)۔

( ۴) لوگوں کے ساتھ اس کا چال چلن رہن سہن برا ہو گا۔جس کا رہن سہن بھائیوں کے ساتھ برا ہو یا تو وہ زناء کے ساتھ پیدا ہوا ہے یا اس کی ماں حیض کی حالت میں حاملہ ہوئی ہے۔اور معلوم ہو نا چاہئے کہ لواط کے گناہ کی سنگینی زناء سے زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو لواط کرنے کی وجہ سے ہلاک کیا۔

روایت میں ہے :

" لواط دبر کے علاوہ ہے اور دبر میں داخل کرنا خدا کا انکار کرنا ہے اور جو شخص لڑکے کے ساتھ جماع( یعنی برا فعل) کرے۔ قیامت کے دن وہ جنابت کی حالت میں آئے گا اور دنیا کا پانی اسے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اس پر۔اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم تیار کرے گا جو بہت بری جگہ ہے"۔

ثقة الاسلام کلینی نے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے :

" جو شخص کسی لڑکے کو شہوت کے ساتھ بوسہ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں ڈالے گا۔"

چوبیسویں حدیث

غیبت کی مذمت

شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ امام- فرماتے ہیں کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:

"اَلْغِیْبَةُ اَسْرَعْ فِیْ دِیْنِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ مِنْ الْاَکِلَةِ فِیْ جَوْفِه "(سفینة البحار جلد ۲ صفحہ ۳۳۶)

ترجمہ:۔

حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا :

"غیبت آکلہ (وہ بیماری ہے جو عضو کو ختم کر دے)سے بھی زیادہ موذی مرض ہے۔ مسلمان کے دین کو فاسد اور تباہ کر دیتی ہے"۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ غیبت کی مذمت میں بہت سی روایات ہیں بعض روایات میں آیا ہے :

" غیبت زناء سے بھی بد تر ہے اور غیبت جہنم کے کتوں کا سالن ہے اور غیبت کرنے والا جہنم میں ہمیشہ اپنے بدن کا گوشت کھاتا رہے گا اور واویلا اور ہائے تباہی کہتا رہے گا اور یہ شخص ان چار آدمیوں میں سے ایک ہے کہ اہل جہنم کو اپنے عذاب سے زیادہ اس شخص کی وجہ سے تکلیف ہو گی۔"

پچیسویں حدیث

چل خوری کی مذمت

شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک طولانی حدیث میں روایت کی ہے کہ حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

"وَمَنْ مَشٰی فِیْ نَمِیْمَةِ بَیْنَ اثْنَیْنِ سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیْهِ فِیْ قَبْرِه نَارًا تُحْرِقُه اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَاِذَا خَرَجَ مِنْ قَبْرِه سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَیْهِ تَنِیْنًا اَسْوَدَ یَنْهَشُ لَحْمَهُ حَتّٰی یَدْخُلَ النَّارَ"

(تفسیر البصائرجلد ۴۸ صفحہ ۴۴۶)

ترجمہ:۔

حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :

"دو آدمیوں کے درمیان چغل خوری کرے تو اللہ تعالیٰ قبر میں اس پر ایک آگ مسلط فرمائے گا جو اسے قیامت تک جلاتی رہے گی۔پس جب اپنی قبر سے باہر آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک بڑا سیاہ سانپ مسلط فرمائے گا جو جہنم میں داخل ہونے تک اس کے گوشت کو اپنے دانتوں سے نو چتا رہے گا"۔

شیخ عباس قمیفرماتے ہیں کہ چغل خور کی مذمت میں بھی کافی روایات ہیں اور روایات میں آیا ہے:

"جنت چغل خور اور ہمیشہ شراب پینے والے اور دیوث (بے غیرت)پر حرام ہے"

اور روایت میں ہے:

"کَفَرَ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةُ عَشَرَةَ"

اس امت میں دس آدمی کافر ہیں ان میں سے ایک چغل خورہے۔

بد ترین چغل خوری کی قسم سعایت ہے یعنی حکومت کے پاس چغلخوری اور شکایت کرنا۔حدیث میں ہے :

"جو شخص لو گوں کی چغلی حکو مت کے پاس لے جائے تو قیامت کے دن آگ کی سو لی پر لٹکایا جائے گا"

اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں۔

چھبیسویں حدیث

اس گھر کے بارے میں جوامام جعفر صادق- نے اپنےایک صحابی کو جنت میںخرید کر دیا

عَنْ هِشَامُ بْنُ الْحَکَمُ قَالَ کَانَ رَجُلٌ مِنْ مُلُوْکِ اَهْلِ الْجَبَلِ یَاْتِیْ الصَّادِقَ عَلَیْهِ السَّلامُ فِیْ حِجَّةِ سِنَةٍ فَیَنْزُلُه اَبُوْ عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ فِیْ دَارٍ مِنْ دُوْرِه فِیْ الْمَدِیْنَةِ وَطَالَ حَجُّه وَ نَزُوْلُه فَاَعْطٰی اَبَا عَبْدِاللّٰه عَلَیْهِ السَّلامُ عَشْرَةَ اَلافِ دِرْهَمٍ لِیَشْتَرِیْ لَه دَارًا وَ خَرَجَ اِلَی الْحَجِّ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ جُعِلَتْ فِدَاکَ اِشْتَرَیْتَ لِیَ الدَّارَ؟ قَالَ نَعَمْ وَ اٰتٰی بِصَکٍ فِیْهِ:

"بِسْمِ ا للّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ هٰذَا مَا اِشْتَرٰی جَعْفَرِ بْنُ مُحَمَّدٍ لِفُلانِ بْنِ لِفُلانِ الْجَبَلِیْ لَه دَارٌ فِی الْفِرْدَوْسِ حَدُّهَا الْاَوَّلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ الْحَدُّ الثَّانِیْ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ اَلْحَدُّ الثَّالِثُ اَلْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ وَ الْحَدُّ الرَّابِعُ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ"

فَلَمَّا قَرَءَ الرَّجُلُ ذَالِکَ قَالَ قَدْ رَضِیْتُ جَعَلَنِیَ اللّٰهُ فَدَاکَ قَالَ فَقَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ :

اِنِّیْ اَخَذْتُ ذَالِکَ الْمَالُ فَفَرَّقْتُه فِیْ وُلِدِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَ اَرْجُوْ اَنْ یَّتَقَبَّلَ اللّٰهُ ذَالِکَ وَ یُثِیْبَکَ بِهِ الْجَنَّةِ"

قَالَ فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ اِلٰی مَنْزِلِه وَکَانَ الصَّکُّ مَعَه ثُمَّ اِعْتَلَّ عِلَّةَ الْمَوْتِ فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُجَمَعَ اَهْلَه وَ حَلَفَهُمْ اَنْ یَجْعَلُوْا الصَّکَّ مَعَه فَفْعَلُوْا ذَالِکَ فَلَمَّا اَصْبَحَ الْقَوْمُ غَدَوْا اِلٰی قَبْرِه فَوَجَدُوْ ا الصَّکَّ عَلٰی ظَهْرِ الْقَبْرِ مَکْتُوْبٌ عَلَیْهِ:

"وَفٰی وَلِیُ اللّٰهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ"

(مناقب ابن شھر اشوب صفحہ ۲۳۳)

ترجمہ:۔

قطب راوندی اور ابن شھر آشوب نے ہشام ابن الحکم سے روایت کی ہے کہ ملوک جبل کا رہنے والا ایک مرد جو امام جعفر صادق-کے دوستوں میں سے تھا اور ہر سال حج کے مو قع پر حضرت- کی ملاقات کے لئے جب مدینہ میں آتا تھا تو امام- اسے اپنے ایک گھر میں ٹھہراتے تھے۔بہت زیادہ محبت کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ حضرت کی خدمت میں ٹھرتا تھا۔حتیٰ کہ جب ایک مرتبہ مدینہ میں آیا تو حج پر جانے سے پہلے دس ہزار درہم امام- کو دیئے کہ اس کے لئے ایک گھر خریدیں تا کہ جب بھی وہ مدینہ آئے تو حضرت کے لئے باعث زحمت نہ ہو۔حج سے واپسی پر حضرت- کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ- نے میرے لئے گھر خریدا ہے ؟حضرت- نے فرمایا: ہاں اور ایک کاغذ اسے دیا اور فرمایا کہ یہ اس گھر کی ملکیت کا کاغذ ہے۔جب اس نے وہ کاغذ پڑھا تو اس میں لکھا تھا:

"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم"یہ قبالہ ہے اس مکان کا جو جعفر بن محمد نے فلاں بن فلاں جبلی کے لئے خریدا ہے وہ گھر جنت الفردوس میں ہے۔اور اس کی چار حدود ہیں پہلی حد رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے گھر کے ساتھ اور دوسری حد امیرالمومنین-کے گھر کے ساتھ ہے۔ تیسری حد حسن بن علی + کے گھر سے ملتی ہے اور چوتھی حد حسین-کے گھر سے ملتی ہے"

جب اس نے پڑھا تو کہا میں آپ پر قربان جاؤں میں اس گھر پر راضی ہوں حضرت- نے فرمایا :

"اس گھر کے پیسے میں نے امام حسن-اور امام حسین-کی اولاد میں تقسیم کر دیئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ خدا نے تجھ سے یہ پیسے قبول فرما لئے ہوں گے اور بدلے میں جنت عطا فرمائے گا"۔

جب اس شخص کی زندگی کے دن ختم ہو نے لگے اور مرض الموت عارض ہوئی تو اس نے اپنے تمام اہل وعیال کو جمع کیا اور انہیں قسم دی کہ میرے مرنے کے بعد یہ کاغذ میری قبر میں رکھیں انہوں نے بھی ایسا ہے کیا دوسرے دن جب اس کی قبر پر گئے تو دیکھا کہ وہ ہی کاغذ قبر کے اوپر پڑا ہوا ہے اس پر لکھا ہوا ہے:

"خدا کی قسم جعفر بن محمد+ نے جو کچھ مجھے فرمایا اور جو کچھ لکھا تھا اس کی وفا کی ہے"(یعنی پورا کیا ہے مجھے جنت الفردوس میں جگہ مل گئی ہے)۔

وضاحت:۔ قارئین محترم میں نے اصل عربی عبارت کو نقل کیا ہے عربی کا ترجمہ نہیں کیا ۔

ستائیسویں حدیث

ابو بصیر کے ہمسائے کی توبہ

عَنْ اَبِیْ بَصِیْرِ قَالَ کَانَ لِیْ جَارًا یَتْبَعُ السُّلْطَانَ فَاَصَابَ مَالااًا فَاَعَدَّ قِیَّانًا وَ کَانَ یَجْمَعُ الْجَمِیْعَ اِلَیْهِ وَ یَشْرَبُ الْمُسْکِرَ وَ یُوْذِیْنِیْ فَشَکَوْتُه اِلٰی نَفْسِه غَیْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ یَنْتَهِ فَلَمَّا اَنْ اَلْحَحْتُ عَلَیْهِ قَالَ لِیْ یَا هَدَّ اَنَا رَجُلٌ مُبْتَلَیْ وَاَنْتَ رَجُلٌ مَعَافِیْ فَلَوْ عَرَضْتَنِیْ لِصَاحِبِکَ رَجَوْتُ اَنْ یُنْقِذَنِیَ اللّٰهُ بِکَ فَوَقَعَ ذَالِکَ لَه فِیْ قَلْبِیْ فَلَمَّا صِرْتُ اِلٰی اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ ذَکَرْتُ لَه حَالَه فَقَالَ لِیْ اِذَا رَجَعْتَ اِلَی الْکُوْفَةِ سَیَاتِیْکَ فَقُلْ لَه یَقُوْلُ لَکَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِ السَّلامُ دَعْ مَا اَنْتَ عَلَیْهِ وَ اَضْمُنَ لَکَ عَلَی اللّٰهِ الْجَنَّةَ فَلَمَّا رَجَعْتَ اِلَی الْکُوْفَةِ اَتَانِیْ فِیْمَنْ اَتٰی فَاحْتَسَبْتُه عِنْدِیْ حَتّٰی خَلا مُنْزِلِیْ ثم قُلْتُ لَه یَا هٰذَا اِنِّیْ ذَکَرْتُکَ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِمَا السّلامُ فَقَالَ لِیْ اِذَا رَجَعْتُ اِلَی الْکُوْفَةِ یَاْتِیْکَ فَقُلْ لَه یَقُوْلُ لَکَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ دَعْ مَا اَنْتَ عَلَیْهِ وَ اَضْمَنُ لَکَ عَلَی اللّٰهِ الْجَنَّةِ قَالَ فَبَکٰی ثُمَّ قَالَ لِیَ اللّٰهُ لَقَدْ قَالَ لَکَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰهِ هٰذَا؟ قَالَ فَحَلَفْتُ لَه اِنَّه قَدْ قَالَ لِیْ مَا قُلْتُ فَقَالَ لِیْ مَا قُلْتُ فَقَالَ لِیْ حَسْبُکَ وَ مَضٰی فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ اَیَّامٍ بَعَثَ اِلَیَّ فَدَعَانِیْ وَ اِذَا هُوَ خَلَفَ بَابِ دَارِه عُرْیَانٌ فَقَالَ لِیْ یَا اَبَا بَصِیْرُ لا وَ اللّٰهُ مَا بَقِیَ فِیْ مَنْزِلِیْ شَیْءٌ اِلَّا وَ قَدْ اَخْرَجْتُه وَ اَنَا کَمَا تَرٰی قَالَ فَمَضِیْتُ اِلٰی اِنِّیْ عَلِیْلٌ فَاْتِنِیْ فَجَعَلْتُ اَخْتَلِفُ اِلَیْهِ وَ اَعَالِجُه حَتیّٰ نَزَلَ بَهِ الْمَوْتُ فَکُنْتُ عِنْدَه جَالِسًا وَ هُوَ یَجُوْدُ بِنَفْسِه فَغَشٰی عَلَیْهِ غَشْیَةً ثُمَّ قُبِضَ (رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهِ) فَلَمَّا حجَجْتُ اَتَیْتُ"یَا اَبَا عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْهِ فَلَمَّا دَخَلْتُ "قَالَ لِیْ اِبْتَدَاءً مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ وَ اِحْدٰی رِجْلِیْ فِیْ الصِّحْنِ وَالْاُخْرٰی فِیْ دِهْلِیْزِ دَارِه یَا اَبَا بَصِیْرِ قَدْ وَفِیْنَا لِصَاحِبِکَ"

(اصول کافیجلد ۲ ؛صفحہ ۳۸۱)

ترجمہ :

ابن شہر آشوب اور ثقة الاسلام کلینی نے ابو بصیر سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبصیر نے کہا کہ " میرا ایک ہمسایہ تھا جو حاکم کے مدد گاروں میں سے تھا اور مالدار تھا گانے والی کنیزیں لے رکھی تھیں اور ہمیشہ لہوولعب اور ساز وآواز والوں کے گروہ کی انجمن سجی رہتی تھی اور وہ شراب پیتاتھا اور عورتیں اس کے لئے گاتی تھیں اس کے ہمسایہ ہو نے کی وجہ سے میں ہمیشہ تکلیف اور صدمے میں رہتا تھا ان گناہوں کے سننے کی وجہ سے اس کے پاس چند دفعہ شکایت بھی کی لیکن وہ باز نہ آیا ۔

آخر میں نے اس معاملے میں اس کے ساتھ بے حد مبالغہ اور اصرار کیاتو اس نے کہا کہ اے ابو بصیر میں شیطان کا قیدی اور ہوا وہوس میں مبتلاہوں تو ان چیزوں سے آزاد ہے لیکن اگر تو میری حالت کو اپنے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کرے تو امید ہے کہ خدا مجھے خواہشات کی قید سے نجات بخش دے۔

ابوبصیر کہتاہے کہ اس کی بات نے مجھ پر اثر کیا۔جب میں مدینہ گیا اور امام-کی خدمت میں حاضرہواتو اپنے ہمسائے کا حال بیان کیا۔

امام-نے فرمایا: جب توکوفہ جائیگا تو وہ آدمی تجھے ملنے کیلئے آئے گا۔اسے کہنا اگر گناہ ترک کردے تو تیری بہشت کا میں ضامن ہوں ۔

ابوبصیر کہتا ہے ۔کہ جب واپس آیا تو لوگ میری ملاقات کیلئے آئے جب وہ آدمی آیا تو میں نے اسے روک لیا خلوت کے موقع پر میں نے اسے کہامیں نے تیرا حال امام جعفرصادق-کی خدمت میں عرض کیا ہے ۔حضرت نے فرمایا " اسے میراسلام کہنا جس حال میں تو ہے اسے چھوڑدے جنت کا میں ضامن ہوں۔ "وہ میری بات سن کر رونے لگا اور کہنے لگا تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا واقعی امام جعفر صادق-نے اسی طرح فرمایا ؟میں نے قسم کھا کر کہا اسی طرح فرمایا ہے کہنے لگا کہ یہی میرے لئے کافی ہے۔یہ کہا اور چل دیا۔

پس چند دن گزرنے کے بعد میرے پاس پیغام بھیجا جب میں اس کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دروازے کے پیچھے برہنہ کھڑا ہے۔مجھے کہنے لگا اے ابو بصیر جو مال بھی میرے گھر میں تھا میں نے اسے باہر نکال دیا ہے اب میں برہنہ و عریاں ہوں۔جب میں نے اس مرد کا یہ حال دیکھا تو اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور اس کے لئے لباس جمع کیا اور اسے پہنایا۔

چند روز بعد اس نے پھر میری طرف ایک آدمی بھیجاکہ میں بیمارہوگیا ہوں میرے پاس پہنچ۔پس میں مسلسل اس کے پاس جانے لگا اور اس کے علاج معالجے میں مشغول ہو گیا جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا۔تو میں اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔اچانک اسے غش آگیا جب ہو ش میں آیا تو کہنے لگا اے ابو بصیر تیرے صاحب حضرت امام جعفر صادق-نے اپنا وعدہ پورا کیا جو مجھ سے کیا تھا یہ کہا اور اس کے روح قبض ہو گئی۔

اس کے بعد میں حج پر گیا جب مدینہ پہنچاتو چاہتا تھا کہ اپنے امام-کی خدمت میں جاوں۔حضرت- کے دروازے پر اجازت طلب کی تو میرا ایک پاوں صحن میں تھا اور ایک پاوں ڈیوڑھی میں تھا کہ امام جعفر صادق-نے اپنے حجرے سے مجھے آواز دی کہ اے ابو بصیر تیرے ساتھی کی جس چیز کی ہم نے ضمانت لی تھی وہ پوری کر دی ہے( ۱)" ۔

( ۱) اس عبارت میں بھی تمام دوسری روایات کی طرح عربی دان حضرات کے لئے اصل عربی عبارت نقل کی گئی ہے لیکن تر جمہ فقط اس عبارت کا کیا گیا ہے جو جناب شیخ عباس قمینے ان روایات کا اپنی کتاب چہل حدیث میں فارسی میں نقل کیا ہے۔

اٹھائیسویں حدیث

حضرت علی- کا واعظ و نصیحت کرنا

عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلامُ قَالَ کَانَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عِنْدَ کُمْ یَغْتَدِیْ کُلَّ یَوْمٍ بُکْرَةً مِنَ الْقَصْرِ فَیَطُوْفُ فِیْ اَسْوَاقِ الْکُوْفَةِ سُوْقًا سُوْقًا وَ مَعَهُ الدُّرَّةُ عَلٰی عَاتِقِه وَکَانَ لَهَا طَرْفَانِ وَ کَانَتْ تُسَمَّی السَّبَیْبَةَ فَیَقِفُ عَلٰی اَهْلِ کُلِّ سُوْقٍ فَیُنَادِیْ یَا مَعْشِرَ التُّجَارِ اِتَّقُوْا اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَاِذَا سَمِعُوْا صَوْتَه عَلَیْهِ السَّلامُ اَلْقُوْا مَا بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَرْعَوْا اِلَیْهِ بِقُلُوْبِهِمْ وَ سَمِعُوْا بِاَذَانِهِمْ فَیَقُوْلُ عَلَیْهِ السَّلامُ قَدِّ مُوْا الْاِسْتِخَارَةُ وَ تَبَرَّکُوْا بِالسَّهُوْلَةِ وَ اقْتَرَبُوْا مِنَ الْمُبْتَاعِیْنَ وَ تَزِیْنُوْا بِالْحِلْمِ وَ تَنَاهُوْا عَنِ الْیَمِیْنِ وَ جَانِبُوْا الْکِذْبَ وَ تَجَافُوْا عَنِ الظُّلْمِ وَ انْصِفُوْا الْمَظْلُوْمِیْنَ وَ لاتَقْرَبُوْا الرِّبَا وَ اَوْفُوْا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَلاتَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَائَهُمْ وَلاتَعْثَوْا فِیْ الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ فَیَطُوْفُ عَلَیْهِ السَّلامُ فِیْ جَمِیْعِ اَسْوَاقِ الْکُوْفَةِ ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَقْعُدُ لِلنَّاسِ (فروع کافیجلد ۵ صفحہ ۱۵۱)

ترجمہ:۔

شیخ کلینی کی روایت ہے امام باقر محمد باقر-نے فرمایا :

امیر المومنین کوفہ میں ہر روز پہلے دارالامارہ سے نکل کر کوفہ کے بازاروں میں گردش فرماتے اور حضرت علی- کے کاندھوں پر تازیانہ ہوتاتھا ۔ جس کے دو سر تھے اور اسے سبیبہ کہتے ہیں۔ حضرت علی- ہر بازار کے سرے پر کھڑے ہو کر آواز دیتے :

"اے تاجرو خدا کے عذاب سے بچو"

جب لوگ حضرت علی- کی آواز سنتے تو جو کچھ ہاتھ میں ہوتا تھا اسے رکھ کر امام- کی طرف ہمہ تن گوش ہوجاتے ۔

حضرت علی- فرماتے :

" خیر کی طلب کو مقدم کرو اور اچھے معاملے کے ذریعہ برکت تلاش کرو اور خریداروں کے نزدیک (یعنی اپنی چیز کی قیمت اتنی زیادہ نہ بتاؤ جو خریدار کی سوچ سے زیادہ ہو) اپنے آپ کو بردباری و تحمل کے ساتھ مزین کرو قسم کھانے سے بچو اگرچہ حق ہی کیوں نہ ہو، جھوٹ سے بچو اور ظلم و ستم سے دور رہو، مظلوموں کے ساتھ انصاف کرو(یعنی اگر کسی خریدار کے ساتھ غبن ہو گیا ہو اور وہ معاملہ ختم کرنا چاہتا ہو تو اس کی بات مان لو) سود کے قریب نہ جاو (یعنی جہاں بھی سود کا احتمال ہو اس سے بچو) پیمانہ اور ترازو پورا رکھو اور لوگو ں کے حقوق کم نہ کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاو"۔

بازار سے واپس آکر لوگوں کے فیصلے کرتے تھے۔

ترجمہ فقط شیخ قمی فارسی عبارت کا کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے تمام حدیثیں فارسی میں نقل فرمائی ہیں۔

انتیسویں حدیث

امام جعفر صادق- نے ایک آدمی کو اس کےضمیر کی خبر دی

اِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْقَرْشِیْ قَالَ اَتٰی اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ رَجُلٌ فَقَالَ لَه یَا بْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ رَأَیْتُ فِیْ مَنَامِیْ کَاَنّٰی خَارِجٌ مِنْ مَدِیْنَةِ اَلْکُوْفَةِ فِیْ مَوْضِعٌ اَعْرِفُه وَکَانَ شِبْحًا مِنْ خَشَبٍ اَوْ رَجُلااًا مَنْحُوْتًا مِنْ خَشَبٍ عَلٰی فَرَسٍ مِنْ خَشَبٍ یَلَوِّحُ بِسَیْفَه وَانَا شَاهِدُه فَزِعًا مَرْعُوْبًا فَقَالَ لَه عَلَیْهِ السَّلامُ اَنْتَ رَجُلٌ تُرِیْدُ اِغْتِیَالَ رَجُلٍ فِیْ مَعِیْشَتِه فَاتَّقِ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَکَ ثُمَّ یُمِیْتُکَ فَقَالَ الرَّجُلُ اَشْهَدُ اَنَّکَ قَدْ اُوْتِیْتَ عِلْمًا وَ اسْتَنْبِطَتْهُ مِنْ مَعْدَنِه اُخِبْرُکَ یَا بْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ عَمَّا قَدْ فَسَّرْتُ لِیْ اَنَّ رَجُلااًا مِنْ جِیْرَانِیْ جَائَنِیْ وَ عَرَضَ عَلَیَّ ضَعَتَه فَهَمَمْتُ اَنَّ اَمْلِکَهَا بِوِکْسٍ کَثِیْرٍ لَمَّا عَرَفْتُ لَیْسَ لَهَا طَالِبٌ غَیْرِیْ فَقَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ وَ صَاحِبُکَ رَجُلٌ یَتَوَلَّانَا وَ یَبْرَءُ مِنْ عَدُوِّنَا؟ فَقَالَ نَعَمْ یَابْنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ رَجُلٌ جَیِّدُ الْبَصِیْرَةِ مُسْتَحْکَمُ الدِّیْنِ وَ اَنَا تَائِبٌ اِلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ اِلَیْکَ مِمَّا هَمَمْتُ بِه وَ نَوَیْتُه فَاَخْبِرْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ لَوْ کَانَ نَاصِبًا حَلَّ لِیْ اِغْتِیَالُه؟ فَقَالَ اَدِّ الْاَمَانَةَ لِمَنْ اِئْتَمَنَکَ وَ اَرَادَ مِنْکَ النَّصِحَةَ وَ لَوْ اِلٰی قَاتِلِ الْحُسَیْنِ عَلَیْهِ السَّلامُ ۔(روضة الکافی ۔ جلد ۸ صفحہ ۲۹۳)

ترجمہ:۔

شیخ کلینی کی روایت ہے کہ ایک مرد امام جعفر-کی خدمت میں آیا عرض کی یابن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کوفہ سے باہر نکل کر ایک جگہ آیا وہاں لکڑی کے بنے ہوئے شخص کو دیکھا جو لکٹری کے گھوڑے پر سوار ہے اور اپنی تلوار کو چمکا رہا ہے میں اسے دیکھتے ہوئے دلی طور پر ڈر بھی رہا ہوں اور مرعوب بھی ہوں۔ حضرت- نے فرمایا: تونے ایک مرد کو معاشی طور پر ہلاک کرنے کا ارادہ کیا اور تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کا سازوسامان اس سے چھین لے اس خدا سے ڈر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور تجھے موت دے گا۔ اس مرد نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو علم عطا ہوا ہے اور آپ نے علم کو اس کے معدن سے نکالا ہے۔ اے فرزند رسول- میرا ہمسایہ میرے پاس آیا اور اپنی تمام املاک بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا، میں نے چاہا کہ کم قیمت پر میں ان املاک کا مالک بن جاؤں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے علاوہ کوئی خریدار نہیں ہے۔

حضرت- نے فرمایا کیا وہ آدمی ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہے؟

میں نے عرض کیا: ہاں اے فرزند رسول اس شخص کی بصیرت اچھی ہے اور دین مستحکم ہے میں اللہ تعالیٰ اور آپ- کے حضور اس ارادہ اور نیت سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر اس مرد نے کہا کہ اے فرزند رسول- فرمائیے کہ اگر یہ آدمی ناصبی (آپ- کا دشمن ) ہوتا تو اس کے ساتھ دھوکا فریب کرنا جائز تھا؟حضرت- نے فرمایا کہ " جو تجھے امین سمجھے اور تجھ سے نصیحت چاہے اس کی امانت ادا کر اگر چہ امام حسین- کا قاتل ہی کیوں نہ ہو"۔

تیسویں حدیث

صلہ رحمی

عَنْ سَالِمَةَ مَوْلاةِ اُمِّ وَلَدٍ کَانَتْ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ قَالَتْ کُنْتُ عِنْدَ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ حِیْنَ حَضَرْتَهُ الْوَفَاةُ فَاُغْمِیْ عَلَیْهِ فَلَمَّا اَفَاقَ قَالَ اُعْطُوْا الْحَسَنَ بْنَ َعِلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَهُوَ الْاَفْطَسُ سَبْعِیْنَ دِیْنَارًا وَاُعْطُوْا بِالشَّفْرَةِ قَالَ وَیْحَکَ اَمَّا تَقْرَئِیْنَ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلٰی قَالَ اَمَّا سَمِعْتِ قَوْلَ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی اَلَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِه اَنْ یُوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ فَقَالَ تُرِیْدِیْنَ اَنْ لَّا اَکُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰی فِیْهِمُ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ……… نَعَمْ یَا سَالِمَةُ اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی خَلَقَ الْجَنَّةَ وَ طَیَّبَهَا وَ طَیَّبَ رِیْحَهَا وَ اِنَّ رِیْحَهَا لِیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفَیْ عَامٍ وَ لایَجِدُ رِیْحَهَا عَاقٌ وَ لاقَاطِعُ رَحِمٍ

(تفسیر عیاشیجلد ۲ صفحہ ۲۰۹ ، تھذیب الاحکام (قدیم) جلد ۲ صفحہ ۳۴۶)

ترجمہ:۔

شیخ طوسی (رحمۃ اللہ علیہ) امام جعفر صادق-کی کنیز سالمہ سے روایت کرتے ہیں میں امام جعفر صادق-کی وفات کے وقت ان کے پاس تھی کہ ایک دفعہ حضرت- پر غش کی حالت طاری ہوئی جب افاقہ ہوا تو فرمایاکہ حسن ابن علی ابن حسین افطس کو ستراشرفی دو اور فلاں فلاں کو اتنی مقدار دو۔

میں عرض کی کیا آپ ایسے مرد عطا کرتے ہیں جس نے آپ- پر خنجر سے حملہ کیا؟ اور آپ- کو قتل کرنا چاہتا تھا؟

فرمایا: تو چاہتی ہے کہ میں ان لوگوں سے نہ بنوں جن کی خدا نے صلہ رحمی کے ساتھ مدح کی ہے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ " جو لوگ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں جن کے ساتھ خدانے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور برے حساب سے ڈرتے ہیں" پس حضرت- نے فرمایا:

" اے سالمہ خدا نے بہشت کو پیدا کیا اور اسے معطر کیا اور اس کی خوشبو دو ہزار سال کی راہ تک پہنچی ہے لیکن یہ خوشبو عاقِ والدین اور قطع رحمی کرنے والا نہیں سونگھے گا"۔