چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں0%

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

مؤلف: علامہ شیخ عباس قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10201
ڈاؤنلوڈ: 2912

تبصرے:

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10201 / ڈاؤنلوڈ: 2912
سائز سائز سائز
چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں

مؤلف:
اردو

حدیث۳۱-۴۰

اکتیسویں حدیث

نماز کو اہمیت نہ دینےکی مذمت

عَنْ اَبِیْ بَصِیْرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی اُمِّ حَمِیْدَةَ اُعَزِّیْهَا بِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ فَبَکََتْ وَ بَکَیْتُ لِبَکَآئِهَا ثُمَّ قَالَتْ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ لَوْ رَاَیْتَ اَبَا عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ عِنْدَ الْمَوْتِ لَرَاَیْتَ عَجَبًا فَتَحَ عَنَیْهِ ثُمَّ قَالَ اِجْمَعُوْ لِیْ کُلَّ مَنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَه قَرَابَةٌ قَالَتْ فَلَمْ نَتْرُکَ اَحَدًا اِلَّا جَمَعْنَاهُ قَالَتْ فَنَظَرَ اِلَیْهِمْ ثَمَّ قَالَ اِنَّ شَفَاعَتَنَا لاتَنَالُ مُسْتَخِفًّا بِالصَّلٰوةِ ۔(عقاب الاعمالصفحہ ۲۸۲)

ترجمہ :۔

شیخ صدوق نے ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق-کی ام ولد حمیدہ(رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں امام- کی شہادت کی تعزیت کیلئے حاضر ہوا۔ْ پس وہ خاتون مجھے دیکھ کر رونے لگی۔ مجھے بھی رونا آگیا اس کے بعد کہنے لگیں۔ اے محمد (ابو بصیر) اگر تو امام جعفر صادق-کو وفات کے وقت دیکھتا توتُو عجیب چیز دیکھتا۔امام- نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا کہ ان تمام افراد کو جمع کرو جن کے ساتھ میری قرابت اور رشتہ ہے۔ پس ہم نے حضرت- کے تمام رشتہ داروں کو حضرت- کے پاس جمع کردیا۔ حضرت- نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا:

" ہماری شفاعت ایسے شخص کو نصیب نہ ہوگی جو نماز کو سبک شمار کرے (یعنی نماز کو کوئی اہمیت نہ دے اور اس کی پرواہ نہ کرے)"۔

بتیسویں حدیث

دینی بھائی کی حاجت برآری

عَنْ اَبِیْ حَمْزَةَ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلامُ قَالَ قُلْتُ لَه جَعَلْتُ فِدَاکَ مَا تَقُوْلُ فِیْ مُسْلِمٍ اَتٰی مُسْلِمًا زَائِرًا اَوْطَالِبٍ حَاجَةٍ وَ هُوَ فِیْ مَنْزِلِه فَاسْتَاذَنْ عَلَیْهِ فَلَمْ یَاْذَنْ لَه وَ لَمْ یَخْرُجْ اِلَیْهِ؟

قَالَ: یَا اَبَا حَمْزَةَ!اَیُّمَا مُسْلِمًا زَائِرًا اَوْ طَالِبُ حَاجَةٍ وَ هُوَ فِیْ مَنْزِلِه فَاسْتَاْذَنَ لَه وَ لَمْ یَخْرُجْ اِلَیْهِ لَمْ َیزَلْ فِیْ لَعْنَةِ اللّٰهِ حَتّٰی یَلْتَقَیَا

فَقُلْتُ جَعَلْتُ فِدَاکَ فِیْ لَعْنَةِ اللّٰهِ حَتّٰی یَلْتَقَیَا؟ قَالَ: نَعَمْ یَا اَبَا حَمْزَةَ(اصول کافی جلد ۴ صفحه ۸۱)

ترجمہ:۔

شیخ کلینی نے ابو حمزہ سے روایت نقل کی ہے میں نے امام باقر-کی خدمت میں عرض کی کہ آپ- پر قربان جاؤں ایسے مسلمان کے حق میں آپ- کیا فرماتے ہیں جو مسلمان کی طرف جائے اور اس سے ملاقات کرنے یا کسی اور غرص کے لئے اجازت طلب کرے لیکن وہ مسلمان گھر میں ہونے کے باوجود ملاقات کیلئے باہر نہ آئے۔

تو حضرت- نے فرمایا: اے ابو حمزہ جب تک ان کی ملاقات نہ ہوگی اس وقت تک اس مسلمان پر خداکی لعنت ہوتی رہے گی ۔

ابو حمزہ کہتا ہے کہ میں نے تعجب سے عرض کی آپ- پر قربان جاؤں ملاقات کرنے تک یہ مسلمان خدا کی لعنت میں رہے گا؟

فرمایا ہاں۔

تینتیسویں حدیث

خاموشی کی مدح

قَالَ (عَلِیٌّ) عَلَیْهِ السَّلامُ:

"اَلْکَلامُ فِیْ وِثَاقِکَ مَا لَمْ تَتَکَلَّمْ بِه فَاِذَا تَکَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِیْ وَثَاقِه فَاخْزَنْ لِسَانَکَ کَمَا تَخْزَنْ ذَهَبَکَ وَ وَرِقَکَ فَرُبَّ کَلِمَةُ سَلَبَتْ نِعْمَةً (وَجَلَبَتْ نِقْمَةً)"

(نھج البلاحہ کلمہ ۳۸۱ مفتی جعفر حسین صفحہ ۳۹۰

ابن اَبِیْ حدید۔ جلد ۱۹ اصل ۳۸۷ صفحہ ۳۲۲)

ترجمہ:۔

سید رضی رضوان اللہ علیہ نے حضرت امیر المومنین-سے نقل کیا ہے فرمایا:

" جب تک تم نے بات نہیں کہ وہ تمہارے کنٹرول میں ہے لیکن جب بات کہہ ڈالی تو تم اس کے اختیار میں چلے گئے۔ لہٰذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی بڑی نعمت کو چھین لیتی ہیں اور کسی عذاب کا موجب بنتی ہیں۔"

فقیر (شیخ عباس قمی) کہتا ہے کہ خاموشی کی مدح میں روایات بہت ہیں یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

چونتیسویں حدیث

ان لوگوں کے بارے میں جوانسانیت سےدور ہیں

اِنَّه قِیْلَ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ اَتَرٰی هٰذَا الْخَلْقَ کُلَّه مِنَ النَّاسِ؟

فَقَالَ:

اَلْقِ مِنْهُمُ التَّارِکَ لِلسِّوَاکَ

وَ الْمُتَرَبِّعَ فِیْ مَوْضِعِ الضِّیْقِ

وَ الدَّاخِلَ فِیْمَا لا یَعْنِیْهِ

وَالْمَمَارِیْ فِیْمَا لاعِلْمَ لَه بِه

وَ الْمُتَمَرِّضَ مِنْ غَیْرِ عِلَّةٍ

وَالْمُتَشَعِّثَ مِنْ غَیْرِ مُصِیْبَةٍ

وَالْمُخَالِفَ عَلٰی اَصْحَابِه فِیْ الْحَقِّ وَ قَدْ اِتَّفَقُوْا عَلَیْهِ

وَالْمُفْتَخِرَ بِاَبَائِه وَ هُوَ خَلَوٌ مِنْ صَالِحِ اَعْمَالِهِمْ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْخَلَنْجِ یُقْشَرُ لَحَا عَنْ لَحَا حَتّٰی یُوْصَلَ اِلٰی جَوْهَرِیَّتِه وَ هُوَ کَمَا قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ اِنَّ هُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلااًا

(بحار الانوارجلد ۷۰ صفحہ ۱۱)

ترجمہ:

شیخ صدوق نے روایت کہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق-سے پوچھا گیا یہ مخلوق جو آپ- دیکھ رہے ہیں کیا یہ تمام لوگ انسانیت اور آدمیت میں شمار ہوتے ہیں تو جواب میں فرمایا" ان افراد کو آدمیت کی صف سے خارج کردو" آپ- نے فرمایا :

" اس کو انسانوں اور آدمیوں کی صف سے نہ سمجھو جو مسواک نہ کرے ،

جو تنگ جگہ پر چوپڑی مار کر بیٹھے،

جو ایسی بات یا کام میں (خوا ہ مخواہ)دخل اندازی کرے جو اس کے مطلب کی نہ ہو،

جو ایسی بات پر جھگڑے جس کا اسے علم تک نہ ہو،

جو بغیر کسی وجہ کے بیمار بن جائے،

جو غیر مصیبت کے اپنے بالوں کو غبار آلود کرے اور بکھیرے،

حق میں اپنے ساتھیوں کی مخالفت کرے جبکہ آپس میں متفق ہوں،

اور جو اپنے آباء و اجداد پر فخر کرے حالانکہ ان کے اچھے کاموں سے خالی ہو وہ آرمی خلنج (جس کو فارسی میں خدنگ کہتے ہیں اس کے چھلکے) کی طرح ہے اس درخت کی لکڑی تیر بنانے کیلئے مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے چھلکے کو اتار دیتے ہیں تاکہ اس کے اصلی جوہر تک پہنچ جائیں پس جس طرح خدنگ کا درخت کا چھلکا اتار کر پھینک دیتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ اس لکڑی کے مغز اور جوہر کے بہت ہی قریب ہوتا ہے اسی طرح جو اپنے آباء واجداد کے فضائل سے خالی ہے اسے بھی دور پھینکتے ہیں۔ اور اس کی پرواہ نہیں کرتے "یہ اسی طرح ہے جس طرح خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ اور راہ سے دور ہیں"۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ بہترین بات کہی ہے جس نے کہا ہے۔

"اَلْعَاقِلُ یَفْتَخِرُ بِالْهِمَمِ الْعَالِیَةِ لا بِالرَّمَمِ الْبَالِیَةِ کُنْ اِبْنَ مَنْ شِئْتَ وَاکْتَسِبْ اَدَبًا یُغْنِیْکَ مَحْمُوْدُه عَنِ النَّسَبِ اِنَّ الْفَتٰی مَنْ یَقُوْلُ هَا اَنَاذَا لَیْسَ الْفَتٰی مَنْ یَّقُوْلُ کَانَ اَبِیْ"

"عقل مند انسان بلند ہمت پر فخر کرتا ہے نہ کہ (آباء و اجداد کی) بوسیدہ ہڈیوں پر جس کا بھی چاہے بیٹا بن جا۔لیکن ادب سیکھ اچھا ادب تجھے نسب سے بے نیاز کردے گا۔ جوان مرد وہ ہے جو یہ کہے کہ میں یہ ہوں (اتنے کمالات وفضائل کا مالک ہوں)نہ کہ کہے کہ میرا باپ ایسا تھا۔"

پینتیسویں حدیث

امیر المومنین- کی فرمائش

عَنْ عَبْدِالْعَظِیْمِ الْحَسَنِیْ قَالَ قُلْتُ لِاَبِیْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِیِّ الرَّضَا عَلَیْهِمَا السَّلامُ یَا بْنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ حَدَّثَنِیْ بِحَدِیْثٍ عَنْ اَبَآئِکَ فَقَالَ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَنْ جَدِّیْ عَنْ اَبَآئَه عَلَیْهِمُ السّلامُ قَالَ:

"قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلامُ: لا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا تَفَاوَتُوْا فَاِذَا اسْتَوَوْا هَلَکُوْا"

قَالَ قُلْتُ لَه زِدْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ قَالَ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَنْ جَدِّیْ اَبَآئِه عَلَیْهِمُ السّلامُ قَالَ:

" قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلامُ اِنَّکُمْ لَنْ تَسَعُوْا النَّاسَ بِاَمْوَالِکُمْ فَسَعَوْهُمْ بَطَلاقَةِ الْوَجْهِ وَ حُسْنِ اللِّقَاءِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّکُمْ لَنْ تَسَعُوْا النَّاسَ بِاَمْوَالِکُمْ فَسَعُوْهُمْ بِاَخْلافِکُمْ"

قَالَ قُلْتُ لَه زِدْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ فقَالَ:

"قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلامُ مَنْ عَتَبَ عَلَی الزَّمَانِ طَالَتْ مَعْتَبَتُه"

(سفیة البحار جلد ۲ صفحہ ۱۲۰)

ترجمہ:۔

شیخ صدوق نے جناب عبدالعظیم بن عبداللہ حسنی سے نقل کیا ہے۔ میں نے امام محمد تقی-کی خدمت میں عرض کی کہ اے فرزندِ رسول- مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ- کے آباء واجداد سے نقل کی ہوئی ہو۔حضرت- نے فرمایا کہ میرے باپ نے اپنے آباء٪ سے نقل کیا ہے :

" امیرالمومنین-نے فرمایا : لوگ اس وقت تک ہمیشہ خیر و خوبی اور بھلائی میں رہیں گے جب تک ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہوں گی۔ جب تمام ایک جیسے ہوگئے تو ہلاک ہو جائیں گے۔"

میں (جناب العظیم ) نے عرض کی فرزند رسول-کچھ اور فرمائیں پھر حضرت امام محمد تقی-نے آباء و اجداد کے ذریعے امیر المومنین-سے نقل کیا:

"اگر تمہیں ایک دوسرے کے عیب معلوم ہوجائیں تو ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرو گے"

میں (جناب العظیم) نے عرض کی فرزند رسول-اور فرمائیے پھر حضرت نے اپنے آباء اور امیر المومنین-سے نقل فرمایا:

" تمہارے مالوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ایک دوسرے کو دو (یعنی مال کے ذریعہ ایک دوسرے کو خوشحال نہیں کرسکتے ) لہٰذا ایک دوسرے کو کشادہ روئی اور خوش اخلاقی کے ذریعہ خوشحال کرو کیو نکہ میں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کو مال کے ذریعہ وسعت نہیں دے سکتے۔ پس اخلاق کے ذریعہ وسعت دو"۔

جناب عبدالعظیم فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی فرزند رسول-کچھ اور فرمائیے تو حضرت- نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے:

" جو زمانے پر غصہ و عتاب کرے تو اس کا یہ عتاب طولانی ہوگا"۔

یعنی زمانے کی مناسب باتیں ایک دو تو نہیں ہیں کہ جن کے ختم ہونے سے آدمی کا غصہ ختم ہوجائے بلکہ بہت زیادہ اور حدوشمار سے باہر ہیں پس نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا غصہ طولانی ہوگا۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں حضرت- کا فرمان نہج البلاغہ میں اسی معنی میں ہے کہ فرمایا:

" کانٹوں سے چشم پوشی کرو ورنہ کبھی خوش نہ رہو گے"

یعنی دنیا کی نا پسندباتوں ، رنج، بلاوں اور بے وفا دوستوں کی نا مناسب باتوں سے چشم پوشی کر اور انہیں برداشت کر، ورنہ کبھی بھی خوش نہ ہوگا اور ہمیشہ غصہ میں رہے گا اور تلخ زندگی گزارے گا کیونکہ دنیا کی طبیعت ہی نا پسند چیزوں کیے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

روایت میں ہے کہ امام زین العابدین- نے اپنے بیٹے کو فرمایا:

" اگر کسی نے تیرے دائیں طرف کھڑے ہو کر تجھے گالی دی اور پھر بائیں طرف آکر معذرت خواہی کرلی تو اسے معاف کردے اور اس کا عذر قبول کر لو"

جناب عبدالعظیم نے کہا کہ میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی کچھ اور بیان کیجئے۔

قَالَ "قَالَ اَمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ مُجَالِسَةُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ"

" آپ- نے فرمایا: حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے: برے لوگوں کی ہم نشینی اچھے لوگوں پر بد گمانی کا باعث بنتی ہے"

جناب عبدالعظیم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی مزید فرمائیں حضرت- نے فرمایا کہ امیر المومنین-کا ارشاد ہے

" بِئْسَ الزَّادِ اِلَی الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَی الْعِبَادِ "

"برا زاد(کمائی) یہ ہے کہ اللہ کے بندوں پر ظلم کیا جائے"

مرحوم شیخ عباس قمی فرماتے ہیں یہ بھی حضرت امیر المومنین-کے کلمات میں سے ہے۔

"اَلْبَغِیْ آخِرُ مُدَّةِ الْمَلُوْکِ"

"بغاوت بادشاہوں کی آخری مدت ہوتی ہے"

(جناب عبدالعظیم کہتے ہیں ) میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی مزید فرمائیں حضرت- نے فرمایا حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے۔

"قَیِّمَةُ کُلِّ امْرِیءٍ مَّایُحْسِنُه "

"یعنی ہر آدمی کی قیمت اور ہر شخص کا مرتبہ وہی علم وہنر اور عرفان ہے جسکو وہ اچھی طرح جانتا ہے"۔

مولا کے اس جملے کا مقصد یہ ہے کہ کمالات نفسانیہ کو حاصلہ کیا جائے نیز صناعات اور ان کی مثل حاصل کرنے کی رغبت و خواہش ہونا چاہیے خلیل ابن احمد نے کہا ہے کہ بہترین کلمہ جو آدمی کو طلب علم و مغفرت کی رغبت دلاتا ہے مولا کا یہ جملہ ہے جس میں فرمایا ہے کہ ہر مرد کی قدر و قیمت وہی چیز ہے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے۔

میں (جناب عبدالعظیم ) نے عرض کی حضور کچھ مزید فرمائیے۔ تو فرمایا کہ حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے

"اَلْمَرْءُ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِسَانِه"

"مرد اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے"

یعنی جب تک وہ بولے گا نہیں اس کی قدر و قیمت معلوم نہ ہوسکے گا۔ اسی لئے فرمایا ہے

"تُکَلَّمُوْا تُعْرَفُوْا"

"بولو تاکہ پہچانے جاؤ"۔

میں (جناب عبدالعظٰم ) نے عرض کی اے فرزند رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے حضرت نے فرمایا :

"مَا هَلَکَ امْرَءٌ عَرَفَ قَدْرَة"

"وہ آدمی ہلاک نہ ہوا جس نے اپنی قدر کو پہچانا "

میں (جناب عبدالعظیم) نے عرض کہ اے فرزند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین- نے فرمایا:

"اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْعَمَلِ یُوٴْمِنُکَ مِنَ النَّدَمِ"

"کام کرنے اور اقدام کرنے سے پہلے تدبیر (منصوبہ بندی) کرنا تجھے پشیمانی اور ندامت سے محفوط رکھے گا"۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق-یہی مطلب اپنی وصیت میں عبد اللہ ابن جندب کو بیان فرمایا :

" کسی بھی کام سے پہلے اس میں داخل ہونے اور خارج ہونے کی راہ کو پہچان ورنہ پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

(عبدالعظیم کہتے ہیں کہ) میں نے کہا کچھ اور فرمائیے یابن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔

حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے:

" خَاطَرَ بِنَفْسِه مَنِ اسْتَغْنٰی بِرَاْیِه"

"اس آدمی نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا جو اہم ترین کاموں میں اپنی رائے اور عقل و دانش پر بھرسہ کرتے ہوئے دوسروں سے مشورہ نہیں کرتا"۔

(عبدالعظیم کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کی فرزند رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے۔ حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے۔

"قِلَّةُ الْعَیَالِ اَحَدُ الْیَسَارَیْنِ"

"اہل و عیال کی کمی تو انگریوں میں سے ایک تونگری ہے مال میں"۔

کیونکہ جس کے عیال کم ہوں اس کی زندگی آسانی سے گزرتی ہے اور اس کی معیشت زیادہ وسیع ہوتی ہے جس طرح مال میں بھی یہ حالت ہوتی ہے۔

میں (جناب عبد العظیم ) نے عرض کہ فرزند رسول- مزید فرمائیے فرمایا امیر المومنین-کا ارشاد ہے

"مَنْ دَخَلَهُ الْعُجْبُ هَلَکَ"

"جس میں بھی خود پسندی داخل ہوئی وہ ہلا ک ہوا"۔

میں ( جناب عبدالعظیم ) نے عرض کہ فرزند رسول- مزید فرمائیے فرمایا امیر المومنین-کا ارشاد ہے۔

"مَنْ اَیْقَنَ بِالْخَلْفِ جَادَ بِالْعَطِیَّةِ"

"جو اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ دے رہا ہے اس کا عوض و بدلہ اس کی جگہ آئے گا تو وہ عطا کرنے میں جواں مردی سے کام لے گا۔ کیونکہ جانتا ہے کہ اس عطا کا بدلہ اسے ضرور ملے گا"

مصنف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں بعض شعراء نے حضرت امیر المومنین-کی مدح میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔

"جَادَ بِالْقُرْصِ مَلاءَ جَنْبَیْهِ

وَعَافَ الطَّعَامِ وَ هُوَ سَغُوْبٌ

فَاَعَادَ الْقُرْصُ الْمُنِیْرُ عَلَیْهِ

اَلْقَرْضَ وَالْمُقْرِضَ الْکِرَامَ کَسُوْبٌ"

حضرت امیر المومنین-نے جو کہ روٹی بخشی اس حال میں کہ حضرت کے پہلو بھوک سے پر تھے اور حضرت کھانا پسند نہ فرمارہے تھے سائل کی وجہ سے ، پس چونکہ روٹی ٹکیہ سائل کو دی اس کے بدلے میں سورج کی ٹکیہ آسمان پر حضرت- کیلئے پلٹ آئی پس قرض دینے والا کریم شخص کمانے والا اور نفع اٹھانے والاہے۔

نقل ہوا ہے کہ جناب امیر المومنین-نے کھجوروں کے درختوں کو پانی دیا اس کے عوض ایک مد (تقریباً ۱۴ چھٹانک) جو ملے ان کو پیساگیا اور روٹی پکائی گئی جب اس روٹی سے افطار کرنا چاہا تو سائل نے آواز دی حضرت نے وہ روٹی اس کو دے دی اور خود رات کو بھوکے سوئے۔

جناب عبدالعظیم نے کہا میں نے عرض کی فرزند رسول- مزید فرمائیے حضرت امام محمد تقی-نے فرمایا حضرت امیر المومنین-نے فرمایاہے۔

"مَنْ رَضِیَ بِالْعَافِیَةِ مِمَّنْ دُوْنَه رَزَقَ السَّلامَةَ مِمَّنْ فَوْقَه"

" جو اپنے سے کم( اپنے ماتحت) آدمے کی عافیت اور سلامتی پر راضی اور کواش ہوا تو اس کو اپنے سے اوپر والے آدمی (افسر) کی طرف سے سلامتی نصیب ہوگی"۔

عبدالعظیم نے فرمایا کہ میں نے اس وقت امام محمد تقی-کی خدمت میں عرض کیا کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے یہ کافی ہے۔

(امالی شیخ صدوق ۔ص ۳۶۲)

چھتیسویں حدیث

عقائد حضرت عبدالعظیم

رَوَیَ فِیْ کِتَابِ التَّوْحِیْدِ بِاَسْنَادِه عَنْ عَبْدِالْعَظِیْمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْحَسَنِیْ رَحْمَةُ اللّٰهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی سَیِّدِیْ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْهِمُ السّلامُ فَلَمَّا بَصَرَ بِیْ قَالَ لِیْ مَرْحَبًا بِکَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ اَنْتَ وَلُیُّنَا حَقًّا قَالَ فَقُلْتُ لَه یَابْنَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اَعْرَضَ عَلَیْکَ دِیْنِیْ فَاِنْ کَانَ مَرْضِیًّا مَشَیْتُ عَلَیْهِ حَتّٰی اَلْقَی اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ هَاتَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ فَقُلْتُ اِنِّیْ اَقُوْلُ:

اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَاحِدٌ لَیْسَ کَمِثْلِه شَیْءٌ خَارِجٌ مِنَ الْحَدِّیْنِ حَدِّ الْاَبْطَالِ وَ حَدِّ التَّشْبِیْهِ وَ اِنَّه لَیْسَ بِجِسْمِ وَ لا بِصُوْرَةٍ وَ لا عَرَضَ وَ لا جَوْهَرٍ بَلْ هُوَ مُجَسِّمٌ الْاَجْسَامِ وَ مُصَوِّرُ الصُّوَرِ وَ خَالِقُ الْاَعْرَاضِ وَ الْجَوَاهِرِ وَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَ مَالِکُه وَ جَاعِلُه وَ اِنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه وَ خَاتِمُ النَّبِیِّنَ فَلا نَبِیَّ بَعْدَه اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ

وَاَقُوْلُ: اِنَّ الْاِمَامَ وَ الْخَلِیْفَةَ وَ اِلَی الْاَمْرِ مِنْ بَعْدِه اَمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلامُ ثُمَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ عَلِیَّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ مُحَمَّدَ بْنِ عَلِیِّ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ جَعْفَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرٍ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسَی عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ مُحَمَّدَ بْنِ عَلِیٍّ عَلَیْهُمَا السَّلامُ ثُمَّ اَنْتَ یَامَوْلایَ

فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ: وَ مِنْ بَعْدِی الْحَسَنُ ابْنِیْ فَکَیْْفَ لِلنَّاسِ بِالْخُلْفِ مِنْ بَعْدِه؟

قَالَ فَقُلْتُ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ یَا مَوْلایَ؟

قَالَ:"لِاَنَّه لایُرٰی شَخْصُه وَلا یَحِلُّ ذِکْرُه بِاسْمِه حَتّٰی یَخْرُجُ فِیَمْلاءُ الْاَرْضَ قِسْطًا وَّعَدْلا کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّظُلْمًا"

قَالَ فَقُلْتُ اَقْرَرْتُ وَاَقُوْلُ اِنَّ وَلِیَّهُمْ وَلِیَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّهُمْ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ طَاعَتَهُمْ طَاعَةُ اللّٰهِ وَ مَعْصِیَّتَهُمْ مَعْصِیَّةُ اللّٰهِ

وَ اَقُوْلُ: اِنَّ الْمِعْرَاجَ حَقٌّ وَ اِنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ وَ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَ الْمِیْزَانَ حَقٌّ وَ اِنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لارَیْبَ فِیْهَا وَ اِنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِیْ قُبُوْرٍ

وَّ اَقُوْلُ: اِنَّ الْفَرَائِضَ الْوَاجِبَةَ بَعْدَ الْوَلایَةِ اَلصَّلٰوةُ وَ الزَّکٰوةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهِیُ عَنِ الْمُنْکَرِ

فَقَالَ: عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْهُمَا السَّلامُ یَا اَبَا قَاسِمٍ هٰذَا وَ اللّٰهِ دِیْنُ الَّذِیْ ارْتَضَاهُ الْعِبَادِ فَاثْبُتْ عَلَیْهِ ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَا لْاَخِرَةَ

(اکمال الدین واتمام النعمة کتاب التوحید جلد ۲ ۳۷۹)

ترجمہ :

شیخ صدوق وغیرہ نے حضرت عبدالعظیم سے روایت کی ہے میں نے اپنے آقا حضرت امام علی نقی-کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: مرحبا اے ابو قاسم تو ہمارا حقیقی ولی ہے۔

میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں چاہتا ہوں کہ اپنا دین آپ کے سامنے پیش کروں اگر آپ کو پسند ہوا تو قیامت تک اس پر ثابت قدم رہوں گا۔

حضرت امام نقی-نے فرمایا: اپنا دین بیان کر۔

میں نے کہا :میں کہتا ہوں کہ خدا یکتا و یگانہ ہے اس کی مثل کوئی چیز نہیں خداابطال اور حدتشبیہ سے خارج ہے (یعنی نہ اس طرح ہے کہ کچھ بھی ہو اور نہ اس طرح ہے کہ کسی چیز کا مشابہ ہو)جسم و صورت اور جوہر و عرض نہیں ہے بلکہ ان کو پیدا کرنے والا ہر چیز کا پالنے والا اور مالک ہے اور ہر چیز کو اس نے عدم سے وجود عطا کیا ہے۔

اور میں کہتا ہوں کی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اور قیامت تک کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شریعت تمام شریعتوں کی آخری شریعت ہے اور اس کے بعد قیامت تک کوئی شریعت نہیں ہے

اور میں اقرار کرتا ہوں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد امام، خلیفہ اور ولی امیر المومنین علی-ابن ابی طالب ہیں ان کے بعد امام حسن- ان کے بعد امام حسین-ان کے بعد ابن الحسین زین العابدین- ان کے بعد محمد ابن علی الباقر+ ان کے بعد جعفر ابن محمد صادق + پھر موسی ابن جعفر کاظم+ ان کے بعد علی ابن موسیٰ رضا-پھر محمد ابن علی + ہیں اور ان بزرگوکے بعد اے میرے مولا آپ ہیں۔

پس امام نے فرمایا کہ میرے بعد میرا بیٹا امام حسن عسکری- ہے پھر فرمایا(معلوم ہے) اس امام کے بعد اس کے خلیفہ کے زمانے کے لوگ کس طرح ہوں گے؟

میں نے عرض کی مولا کس طرح ہوں گے؟

حضرت نے فرمایا: "زمین ظلم و جور سے پرہو چکی ہوگی کیونکہ لوگ اپنے امام کو دیکھ نہ سکیں گے۔ اور نہ ان کیلئے امام کا نام لینا جائز ہوگا( کہ کہیں ذات امام- کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے) یہ سلسلہ جارہی رہے گا یہاں تک کہ امام کا ظہور ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے"۔

میں عرض کیا کہ میں امام حسن عسکری-اور ان کے خلف (فرزندو جانشین) کا اقرار کرتا ہوں اور قائل ہوتا ہوں ان بزرگواروں کا دوست خدا کا دوست ہے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے ۔

اور یہ(اقرار کرتا ہوں) کہ معراج حق ہے قبر میں سوال ہونا حق ہے اور یہ کہ جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور صراط حق ہے اور میزان حق ہے اور قیامت کے آنے میں شک نہیں ہے اور خداوند عالم قبر والوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا۔

اور میں قائل ہوں کہ ولایت (یعنی خدا، رسول اور آئمہ٪ کی دوستی) کے بعد نماز، زکوة،روزہ،حج، جہاد، خمس، امر بالمعروف، اور نہی عن المنکر سب کے سب فرض ہیں۔

پس امام علی نقی-نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کا دین ہے جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے اور تو اسی عقیدے پر ثابت قدم رہ خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور اسی عقیدے پر ثابت قدم رہ خداوند عالم تمہیں دنیاوی اور آخروی زندگی میں قول ثابت (وحق) پر ثابت قدم رکھے۔

سینتیسویں حدیث

قناعت کی فضیلت

عَنْ اَبِیْ هَاشِمِ الْجَعْفَرِیْ قَالَ اَصَابَتْنِیْ ضَیْقَةً شَدِیْدَةً فَسِرْتُ اِلٰی اَبِیْ الْحَسَنِ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهُمَا السَّلامُ فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْهِ فَاَذِنَ لِیْ فَلَمَّا جَلَسْتُ قَالَ یَا اَبَا هَاشِمٍ اَیُّ نِعَمِ اللّٰهِ عَلَیْکَ تُرِیْدُ اَنْ تُوٴَدِّیْ شُکْرَهَا قَالَ اَبُوْ هَاشِمٍ فَوَجَمْتُ فَلَمْ اَدْرِ مَا اَقُوْلُ فَابْتَدِئَنِیْ عَلَیْهِ السَّلامُ فقَالَ رِزْقُکَ الْاِیْمَانَ فَحَرَّ مَ بَدَنَکَ عَلَی النَّارِ وَ رَزَقَکَ الْعَافِیَّةِ فَاَعَانَتَکَ عَلَی الطَّاعَةِ وَ رَزَقَکَ الْقُنُوْعَِ فَصَنَکَ عَنِ التَّبَذُّلِ یَا اَبَا هَاشِمٍ اِنَّمَا اِبْتَدَئْتُکَ بِهٰذَا لِاَنِّیْ ظَنَنْتُ اَنَّکَ تُرِیْدُ اَنْ تَشْکُوَ اِلٰی مَنْ فَعَلَ بِکَ هٰذَا وَ قَدْ اَمَرْتُ لَکَ بِمِائَةِ دِیْنَارٍفَخُذْهَا

(الدمعة اساکبة جلد ۸ صفحہ ۱۳۷ ،

امالی شیخ صدوقصفحہ ۳۳۶ حدیث ۱۱)

ترجمہ:۔

شیخ صدوق نے ابو ہاشم جعفری سے روایت نقل کی ہے جس وقت مجھ پر فقر و فاقہ (غربت و تنگدستی) نے سختی کی توامام علی نقی- کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے فرمایا: اے ابو ہاشم تو خدا کی عطا کی ہوئی کون سی نعمت کا شکر ادا کر سکتا ہے؟

ابو ہاشم کہتا ہے کہ مجھے سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دوں؟ پس خود حضرت نے ابتدا فرمائی اور فرمایا کہ اس نے تجھے ایمان نصیب کیا جس کی وجہ سے اس نے تیرے بدن کوآگ پر حرام کیا اور تجھے عافیت عطا کی جس نے اطاعت کرنے میں تیری مدد کی اور تجھے قناعت عطا کی جس کی وجہ سے تیری عزت آبرو محفوظ رکھی۔اے ہاشم اس لئے میں نے ابتدا کرتے ہوئے تجھے یہ کہا ہے میرا گمان تھا کہ تو ایسی ذات کی میرے سامنے شکایت کرنا چاہتا ہے جس نے تجھے یہ سب نعمتیں دی ہیں اور میں نے حکم دیا ہے کہ ایک سو سرخ دینار تجھے دیئے جائیں اور انہیں لے لے۔

مرحوم مصنف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان خدا کی نعمتوں سے عظیم نعمت ہے اورہے بھی اسی طرح کیونکہ تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمان پر ہے اور اس کے بعد عافیت ہے۔ روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کسی نے پوچھا اگر میں شب قدر کوپا لوں تو خدا سے اس رات کیا مانگوں تو حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کہ:

" عافیت مانگو اور عافیت کے بعد قناعت کی نعمت"

اس آیت شریفہ کے ذیل میں روایت ہوئی۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّه حَیٰوةً طَیِّبَةً (سورہ نحل ۹۷)

اس آیت شریفہ کا ظاہری معنی یہ ہے کہ جو عمل صالح (یعنی شائستہ کردار) رکھتا ہو (چاہے مرد ہو یا عورت ) اور مومن ہو بغیر ایمان کے جزاء کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا) تو یقینا ہم اسے دنیا میں اچھی زندگی دیں گے۔

معصوم-سے سوال پوچھا کہ یہ حیات طیبہ کیا ہے؟ فرمایا: قناعت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق-سے بھی نقل ہوا ہے کہ

" تھوڑی چیز پر قناعت کرنے سے زیادہ فائدہ مند مال اور کوئی نہیں ہے"۔

نقل ہوا ہے کہ کسی دانا سے پوچھا گیا تو نے سونے سے بہتر کوئی چیز دیکھی ہے؟ اس نے کہا ہاں! قناعت ۔

اسی لحاظ سے حکماء کا کلام ہے کہ

" اِسْتَغْنَائَکَ عَنِ الشَّیْءِ خَیْرٌ مِنْ اِسْتَغْنَاکَ بِه"

"کسی چیز کے ملنے کی وجہ سے تیرا بے نیاز ہونا اس سے بہتر ہے کہ تو خود اس چیز سے بے نیاز ہوجائے"۔

دیو جانس یونان کے بزرگ حکماء میں سے تھا اور ایک فقیر قسم کا اور زاہد قسم کا آدمی تھا اس نے کوئی چیز جمع نہیں کی تھی حتی کہ اپنے رہنے کیلئے گھر تک نہیں بنایا تھا ایک دفعہ جب سکندر نے اسے اپنی محفل میں آنے کی دعوت دی تو حکیم نے سکندر کے ایلچی سے کہا کہ سکندر سے کہنا کہ جس چیز نے تجھے میرے پاس آنے سے روکا ہے وہ تیری سلطنت اور بادشاہت ہے اور مجھے میری قناعت نے روکا ہے۔

مرحوم نوری کے اشعار کا ترجمہ

میں نے دیکھا کی تونگری کی جڑ قناعت ہے تو میں نے اس کا دامن پکڑلیا نہ کوئی مجھے کسی کے دروازے پر دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی دروازے پر لیچڑپن (سوال و جواب) کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پس میں نے بغیر درہم و دینار کے امیروں جیسی زندگی گزاری ہے اور لوگوں کے پاس سے بادشاہوں کی طرح (بے پرواہ ہو کر)گزرتا ہوں۔

امام رضا-کے اشعار کا ترجمہ:

میں نے لوگوں کے پاس حاجت کے لے جانے سے دامن بچا کر تو نگری کا لباس پہنا ہے اور سربلندی کے ساتھ شام کی۔ اور دن گزارا ہے۔ میں انسانوں کے ساتھ مشابہ لوگوں سے انس ہے۔ جب میں نے مال دار کو تکبر کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے بھی اس کے حال سے مایوسی اور بے پرواہی کے ساتھ اس سے متکرانہ سلوک کیا ہے (مشہور ہے کہ متکبر کے ساتھ تکبر سے پیش آنا عبادت ہے)۔ نہ ہی میں نے نادار شخص پر اس کی غربت کی وجہسے فخر و مباہات کیا ہے اور نہ ہی اپنی ناداری کی وجہ سے کسی کے سامنے سر جھکاہوں۔

اڑتیسویں حدیث

گالی غلوچ اور بدزبانی کی مذمت میں

عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلامُ قَالَ:

"اِنَّ مِنْ عَلامَاتِ شِرْکِ الشَّیْطَانِ الَّذِیْ لایُشَکُّ فِیْهِ اَنْ یَکُوْنَ فَحَاشًا لَّا یُبَالِیْ مَا قَالَ وَلا مَا قِیْلَ فِیْهِ"

(اصول کافی جلد ۴ صفحہ ۱۴)

ترجمہ :۔

مرحوم شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:

"بے شک شیطان کی شرکت کی علامت یہ ہے کہ انسان بہت زیادہ بد زبان ہو۔ اس کو پروا نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا اسے کیا کہا جارہا ہے (وہ کسی کو گالی دے یا کوئی اسے گالی دے تو اس کوئی پرواہ نہ ہو)"۔

مولف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں بد زبان آدمی کے بارے میں بہت سی روایات ہیں بلکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم نے ہر زبان ، بے شرم و بے حیاء پر بہشت کو حرام کیا ہے جسے پرواہ نہ ہو کہ وہ لوگوں کو کیا کہہ رہا ہے اور لوگ اسے کیا کہہ رہے ہیں۔ پس اگر آپ ایسے آدمی کی تفتیش کریں تو آپ اسے یا حرا مزادہ پائیں گے یا اس میں شیطان کا حصہ ہوگا اور حدیث میں ہے

"خدا وند عالم گالی دینے والے بے شرم کو دشمن رکھتا ہے اور یہ کہ اگر گالی کسی شکل و صورت میں آجائے تو بری شکل والی ہوگی اور مسلمان کو گالی دینا سبب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں برکت ختم کردے اور خداوند عالم اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیتا ہے اور اس کی معیشت کو خراب کردیتا ہے"۔

روایت ہے کہ امام جعفر صادق-کا ایک دوست تھا جو ہمیشہ حضرت کے ساتھ رہتا اور جدانہ ہوتا تھا ایک دن اس نے اپنے غلام سے کہا اے زناء کار عورت کے بچے تو کہاں تھا؟

جب حضرت نے یہ بات سنی تو اپنے ہاتھ کو پیشانی پر مارا اور فرمایا کہ سبحان اللہ تو اس کی ماں کو زناء کی نسبت دے رہا ہے ؟ میں توتجھے پرہیز گار آدمی سمجھتا تھا اور اب دیکھتا ہوں کہ تو تقویٰ و پرہیز گاری نہیں رکھتا ۔

اس نے عرض کی آپ- پر قربان جاؤں ا س کی ماں سندیہ مشرکہ ہے۔

حضرت امام- نے فرمایا :تجھے معلوم نہیں کہ ہر قوم میں نکاح ہوتا ہے؟ مجھ سے دور ہو جا۔

راوی کہتا ہے اس کے بعد میں نے اس کو حضرت امام- کی شہادت تک حضرت امام- کے ساتھ نہ دیکھا ۔ حتیٰ کہ موت نے حضرت اور اس شخص کے درمیان جدائی ڈال دی۔

انتالیسویں حدیث

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر صلوٰة بھیجنےکے بارے میں

عَنِ الصَّادِقِ عَلَیْهِ السَّلامُ اِنَّه قَالَ:

"اِذَا ذَکَرَ النَّبِیْ (صلی الله علیه و آله وسلم) فَاَکْثَرُوْا الصَّلٰوةَ عَلَیْهِ فَاِنَّه مَنْ صَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ (صلی الله علیه و آله وسلم) وَ اَلْفَ صَلٰوةٍ فِیْ اَلْفِ صَفٍّ مِنَ الْمَلائِکَةِ وَ لَمْ یَبْقِ شَیْءٌ مِّمَّا خَلَقَهُ اللّٰهُ اِلَّا صَلّٰی عَلَی الْعَبْدِ لِصَلٰوةِ اللّٰهِ وَ صَلٰوةِ مَلائِکَتِه فَمَنْ لَمْ یَرْغَبُ فِیْ هٰذَا فَهُوَ جَاهِلٌ مَغْرُوْرٌ قَدْ بَرَءَ اللّٰهُ مِنْهُ وَ رَسُوْلُه وَ اَهْلُ بَیْتِه"

(اصول کافی جلد ۴ صفحہ ۲۴۹)

ترجمہ :۔

شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا :

" جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ذکر ہو توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بہت زیادہ صلوٰةبھیجو ۔ پس تحقیق جو بھی حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایک مرتبہ صلوٰة بھیجے گا اس شخص پر فرشتوں کی ہزار صفوں میں ہزار مرتبہ صلوٰة بھیجے گا۔ پس خدا اور فرشتوں کی صلوٰة کی وجہ سے کوئی مخلوق باقی نہیں رہے گی مگر یہ خدا اور فرشتوں کی صلوٰةکی وجہ سے اس شخص پر صلوٰة بھیجے گی۔ پس جو آدمی اس میں رغبت نہ کرے گا وہ جاہل اور مغرور ہوگا اس شخص سے خدا او اس کا رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اہل بیت رسول٪ بیزار ہیں"۔

مولف (شیخ قمی) فرماتے ہیں شیخ صدوق نے کتاب معافی الاخبار میں نقل کیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق-نے"اِنَّ اللهَ وَ مَلٰٓئِکَتَه یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا" (سورہ احزاب ۵۶)" کے معنی کے بارے میں فرمایا :

"خدا کی طرف سے صلوٰة ایک رحمت ہے اور ملائکہ کی طرف سے صلوٰةایک تزکیہ اور لوگو ں کی طرف سے صلوٰة ایک دعاہے"۔

اور اسی روایت میں ہے کہ راوی نے کہا کہ ہم کس طرح محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) واٰلِ محمد٪ پر صلوٰة بھیجیں حضرت- نے فرمایا کہ اس طرح کہو۔

"صَلٰوتُ مَلائِکَتِه وَ اَنْبِیَائِه وَ رُسُلِه وَ جَمِیْعُ خَلْقِه عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ السّلامُ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُه"

" اللہ تعالیٰ لہ صلوٰة ،فرشتوں ، انبیاء رسولوں اور تمام مخلوقات کی صلوٰة ہو محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وال محمد٪ پر۔ اور پیغمبر اور ان کی آل پر سلام ہو اور رحمت و برکات ہو"۔

راوی نے عرض کیا جو آدمی یہ صلوٰة پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھیجے اس کا ثواب کیا ہے؟ حضرت- نے فرمایا: اس کا ثواب گناہوں کو اس طرح پاک کرتا ہے جس طرح ماں سے پیدا ہوا تھا۔

چالیسویں حدیث

امام موسیٰ کاظم- کا معجزہ

عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَقْطِیْنٍ قَالَ اِسْتَدْعَی الرَّشِیْدُ رُجُلااًا یُبْطِلُ بِه اَمْرَ اَبِیْ الْحَسَنِ مُوْسٰی عَلَیْهِ السَّلامُ وَ یُخْجِلُه مُعْزِمٌ

فَلَمَّا اُحْضِرَتِ الْمَائِدَةُ عَمِلَ نَامُوْسًا عَلَی الْخُبْزِ فَکَانَ کُلَّمَا رَامٍ اَبُوْ الْحَسَنِ عَلَیْهِ السَّلامُ رَغِیْفًا مِنَ الْخَبْزِ طَارَ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ اسْتَقَرَّ هَارُوْنُ الْفَرْحُ وَ الضِّحْکُ لِذَالِکَ فَلَمْ یَلْبَثْ

اَبُوْ الْحَسَنِ عَلَیْهِ السَّلامُ اَنْ رَفَعَ رَاسَه اِلٰی مُصَوِّرٍ عَلٰی بَعْضِ السُّتُوْرِ فَقَالَ لَه یَا اَسَدَ اللّٰهِ خُذْ عَدُوَّ اللّٰهِ

فَوَثَبَتْ تِلْکَ الصُّوْرَةُ کَاَعْظَمِ مَا یَکُوْنُ مِنَ السَّبَاعِ فَافْتَرَسَتْ ذَالِکَ الْمُعْزِمَ فَخَرَّ هَارُوْنُ وَ نُدَمَائُه عَلٰی وُجُوْهِهِمْ مَغْشِیًّا عَلَیْهِمُ وَ طَارَتْ عُقُوْلُهُمْ خَوْفًا مِنْ حَوْلِ مَا رَاَوْهُ

فَلَمَّا اَفَاقُوْا مِنْ ذَالِکَ بَعْدَ حِیْنٍ قَالَ هَارُوْنُ اَبِیْ الْحَسَنِ عَلَیْهِ السَّلامُ اِسْئَلَکَ بِحَقِّیْ عَلَیْکَ لَمَّا سَأَلْتَ الصُّوْرَةَ اَنْ تَرُدَّ الرَّجُلَ

فَقَالَ اِنْ کُنْتَ عَصَا مُوْسٰی رَدَّتْ مَا اِبْتَلَعَتْهُ مِنْ حِبَالِ الْقَوْمِ وَ عَصِیْهِمْ فَاِنْ هٰذِهِ الصُّوْرَةُ تَرُدُّ مَا اِبْتَلَعَتْهُ مِنْ هٰذَا الرَّجُلِ

(مناقب شھر آشوب جلد ۴ صفحہ ۲۹۹ ،

القطرہ صفحہ ۲۲۲)

ترجمہ:۔

علی ابن یقطین کہتے ہیں کہ ہارون الرشید نے ایک جادو گر بلایا تاکہ امام موسیٰ کاظم-کی امامت کے مسئلے کو باطل کر دکھائے اور امام- کو اس مجمع میں شرمندہ کرے تو ایک جادوگر نے یہ قبول کرلی کہ میں ایسا کروں گا۔

جب دسترخوان اور کھانا لایا گیا تو اس نے مرد نے حیلہ گری اور جادو سے کام لیا حضرت- جب بھی روٹی کا لقمہ لینے کا ارادہ فرماتے تو وہ روٹی کا لقمہ لینے کا ارادہ فرماتے تو وہ روٹی حضرت- کے سامنے اڑجاتی (غائب ہو جاتی) ہارون اس بات سے خوش ہوا اور ہنسنے لگا اتنا خوش ہوا کہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔

پس حضرت-نے فوراً اپنے سر کو شیر کی تصویر کی طرف بلندفرمایا جو اس مکان کے پردوں پر بنی ہوئی تھی اور فرمایا اے اللہ کے شیر اللہ کے دشمن کو پکڑ لے۔

پس وہ بہت بڑے شیر کی طرح جھپٹی اور اس جادوگر کو پھاڑ ڈالا۔ ہارون اور اس کے ساتھی اس عظیم امر کو دیکھ کربے ہوش ہو کر منہ کے بل گر پڑے اور اس کی ہولناکی کی وجہ سے ان کی عقلیں اڑ گئیں۔

جب کچھ دیر بعد ہوش میں آئے تو ہارون نے امام- کی خدمت میں عرض کی کہ میں آپ- سے درخواست کرتا ہوں اس حق کی وجہ سے جو میر اآپ کے ذمہ ہے کہ آپ-اس تصویر کو فرمائیں کہ وہ اس مرد کو واپس کردے۔

حضرت- نے فرمایا کہ اگر موسیٰ- کا عصا جادوگروں کی نگلی ہوئی رسیاں اور عصاء واپس کردیتا تو یہ بھی اس مرد کو واپس کرے گی۔

اس معجزے کے نقل کرنے والوں میں ایک شیخ بہائی بھی تھے جنہوں نے اس کو نقل کرنے کے بعد امام موسیٰ کا ظم-اور امام محمد تقی-کی شان میں تین شعر کہے ہیں ۔ جن کا مفہوم یہ ہے۔

اے زوراء (مکان) کی طرف جانے والے تو مغرب کی طرف اس سر سبز باغ کی طرف جا،جب تجھے دو گنبد نظر آئیں تو اپنے جوتے اتار دے اور خضوع کا سجدہ کر انہی گنبدوں کے نیچے موسیٰ- کی آگ اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا نور ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔

تمت بالخیر

والحمد اللّٰہ

ہفتہ کی رات ۱۱ بجے ۶ مارچ ۱۹۹۹ ءء

جامعہ علمیہ ڈیفنس سوسائٹی فیز ۴ کراچی