حج کا واجب ہونا
قَالَ عَلِیعليهالسلام
:
”فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلَهُ قِبْلَةً لِلْاٴَنْامِ “
۔
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ہے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے“۔
قال علیعليهالسلام
:
”فَرَضَ حَجَّهُ وَاٴَوْجَبَ حَقَّهُ وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَهُ فَقَالَ سُبْحَانَهُ
(
وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْهِ سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ
)
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ہے پس وہ فرماتا ہے:”لوگوں پر خدا کا حق یہ ہے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جائے اور وہ شخص جو کفر اختیار کرتا ہے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ہے “۔
حج کا فلسفہ
قال علیعليهالسلام
:
”جَعَلَهُ سُبْحَانَهُ عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهِ و َاِذعانَهُمْ لِعِزَّتِهِ“
۔
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ہے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھار کریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں “۔
قال علیعليهالسلام
:
”جَعَلَهُ سُبْحَانَهُ لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً“
۔
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ہے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ہے“۔
دین کی تقویت کا سبب
قال علیعليهالسلام
:
”وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ
“
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے“۔
دلوں کا سکون
قال الباقرعليهالسلام
:
”الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ“
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ہے“۔
حج ترک کرنے والا
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
”مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَهُودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً“
۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
”جو شخص حج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی “۔
یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادقعليهالسلام
سے بھی نقلهواھے۔
حج و کامیابی
”لوگوں نے امام محمد باقرعليهالسلام
سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:
”قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ اٴَيْ اٴَفْلَحَ فُلاٰنٌ“
۔
” فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیابهوا “۔
حج کی اھمیت
محمد بن مسلم کہتےہیں کہ :
امام محمد باقرعليهالسلام
یا امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”وَدَّ مَنْ في الْقُبُورِ لَوْ اٴَنَّ لَهُ حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیهَا
“۔
”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتےہیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ہے دیدیتے اور اس کے عوض انھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا “۔
حج کا حق
قال الإمام زَیْنُ العابِدِین
عليهالسلام
فِي رسالَةِ الحُقُوق: ”حَقُّ الْحَجِّ اٴَنْ تَعْلَمَ اٴَنَّهُ وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْهِ مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیهِ قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِ الَّذِي اٴَوْجَبَهُ اللّٰهُ تَعَالیَ عَلَیْکَ“
۔
امام زین العابدینعليهالسلام
اپنے رسالہ حقوق میں فرماتے ہیں:
”حج کا حق تم پر یہ ہے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ہے اوراپنے گناہوںسے اس کی جانب فرار ہے حج میں تمھاری توبہ قبولهوتی ہے اوریہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ہے“۔
خد اجوئی
قال الصادقعليهالسلام
:
”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِهِ رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰهُ لَهُ اَلْبَتَّةَ“.
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”جو شخص حج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاہواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاہو خدا وند عالم یقینا اسے بخش دے گا“۔
حج کا ثواب
قالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ “
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ہے“۔
حج کی تاثیر
ہشام بن حکم کہتےہیں :
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فر مایا:
”مَامِن سَفَرٍاٴَبْلَغَ فِي لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا اٴَحَدٌ یَبْلُغُهُ حَتَّی تَنَالَهُ الْمَشَقَّةُ“
۔
”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئی شخص سختی اور مشقت کے بغیر وہاں تک نھیں پہنچتا “۔
حج میں نیت کی اھمیت
قال الصادقعليهالسلام
:
”لَمَّا حَجَّ مُوسَیعليهالسلام
نَزَلَ عَلَیْهِ جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ مٰا لِمَنْ حَجَّ هَذَا الْبَیْتَ بَنِیَّهٍ صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰهِ
عَزَّ وَجَلَّ،فَاٴَوْحَی اللّٰهُ تَعَالیٰ إِلَیْهِ؛قُلْ لَهُ:اٴَجْعَلُهُ فِي الرَّفِیقِ الْاٴَعْلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ اٴُولَئِکَ رَفِیقاً“
”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیلعليهالسلام
ان پر نازلهوئے جناب موسیٰ نے ان سے پوچھا:
اے جبرئیلعليهالسلام
!
جو شخص اس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررهوئی ہے جبرئیل کچھ جواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدااور صالحین کا ہم نشین قرا ر دوں گااور وہ بہترین رفیق اور دوست ہیں“۔
نور میں واردهونا
عبد الرحمان بن سمرة کہتے ہیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں تھا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
”إِنِّي رَاٴَیْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ
“۔
میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔
ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
!ھماری جان ہمارا خاندان اور ہماری اولاد آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر فداہوں آپ نے کیا دیکھا ہم سے بھی بیان فرمایئے:
فقال
رَاٴَیْتُ رَجُلاً مِنْ اٴُمَّتِي مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِهِ ظُلْمَةٌ وَعَنْ یَمِینِهِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِهِ ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِهِ ظُلْمَةٌ ، مُسْتَنْقِعاً فِي الظُّلْمَةِ فَجَاءَ هُ حَجُّهُ وَعُمْرَتُهُ فَاٴَخْرَجَاهُ مِنَ الظُّلْمَةِ وَاٴَدْخَلاٰهُ فِي النُّورِ
”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیں سے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا “۔
حق کے حضور حاضری
قالَ عَلِیٌّعليهالسلام
:
اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰهِ،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰهِ اٴَنْ یُکْرِمَ وَفْدَهُ وَیَحْبُوَهُ بِالْمَغْفِرَةِ
حضرت علیعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرهونے والوں میں سے اور خدا پر ہے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ‘ ‘۔
خدا وند عالم کی میزبانی
قال الصّادقعليهالسلام
:
إِنَّ ضَیْفَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَهُوَ ضَیْفُ اللّٰهِ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِهِ
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ہے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہهو جائے ا س کا مھمان باقی رہتا ہے ‘ ‘ ۔
حج اور جھاد
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
جِهٰادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَراٴَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ہے“۔
حج عمرہ سے بہتر ہے
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ هِیَ الْحَجُّ الاٴصُغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیهٰا وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاص سے فرمایا:
”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ہے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے ان سب سے بہتر ہے ،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بہتر ہے“ ۔
گناہ دُھل جاتےہیں
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِه حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِهِ کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْهُ الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَهَّرَه اللّٰهُ مِنَ الذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰهُ لَهُ الْحَسَنٰاتِ و َاِذَا قَالَ:اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ، اٴَجٰابَهُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:”لَبَّیْکَ و َسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰهُ لَهُ الْخَیْراتِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ہے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ہے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتےہیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ہیں،
پس جب وہ شخص مدینہ میں واردهوتا ہے اور سلام کے
ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ہے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ہاتھ ملاتےہیں اور مصافحہ کرتےہیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردهو کر غسل کرتا ہے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ہے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ہے جب وہ ”لبیک اللھم لبیک “کھتا ہے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےہوئے فرماتا ہے ”لیبک و سعدیک“ میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رہاہوں اور جب وہ مکہ میں واردهوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ہے تو خد اوند عالم ہمیشہ کی نیکیاں اور خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ہے“۔
دعا کی قبولیت
قالَ رَسُولُ اللّٰهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَهُمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَهُمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:
اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِهِ،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَهُ، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”چار لوگ ایسےہیں جن کی دعا رد نھیںهوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتےہیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتیہیں :
۱ ۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،
۲ ۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،
۳ ۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔
۴ ۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔
دنیا بھی اور آخرت بھی
قالَ رَسُولُ اللّٰهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ هٰذَاالبَیْتَ،فَمٰا اٴتٰاهُ عَبْدٌ یَسْاٴَلُ اللّٰهَ دُنْیٰا اِلاَّ اٴَعْطٰاهُ اللّٰهُ مِنْهٰا،وَلایَسْاٴَلُهُ آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَهُ مِنْهٰا
رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا اور آخرت کو چاھتا ہے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا
سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا“۔
آگاھی کے ساتھ حج
قالَ رَسُولُ اللّٰه
صلىاللهعليهوآلهوسلم
:في خُطْبَتِهِ یَوْمَ الْغَدِیر: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّه، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ الْمَشٰاهِدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ
۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:
”اے لوگو! خانہ خدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو “۔
شرط حضور
قَالَ اٴَبُو عَبْدِاللّٰهِعليهالسلام
کاَنَ اٴَبِي یَقُولُ:
مَنْ اٴَمَّ هَذَاالْبَیْتَ حَاجّاً اٴَوْمُعْتَمِراًمُبَرَّاٴً مِنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَهَیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہهو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکهو جاتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاہو“۔
حج کی برکتیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِعليهالسلام
:
حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ اٴَبْدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ اٴَرْزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَوٴُونٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَهُ وَمَوْجُوبٌ لَهُ الْجَنَّةُ،وَمُسْتَاٴْنَفٌ لَهُ الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِي اٴَهْلِهِ وَمَالِهِ
امام جعفر صادقعليهالسلام
سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
” علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاوتاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراہو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ہے جنت اس پر واجبهو جاتی ہے ، اس کا نامہ
عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ہے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رہتے ہیں“۔
جو حج قبول نھیں
عَنْ اٴَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِعليهالسلام
قَالَ:
مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ اٴَرْبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْهِ فِي اٴَرْبَعٍ: مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ اٴَوْ رِبًا اٴَوْ خِیَانَةٍاٴَوْ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْهُ فِي زَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”جو شخص چار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ہے :
جو شخص آلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ہے ‘ ‘ ۔
مال حرام کے ذریعہ حج
قال اٴبو جعفرعليهالسلام
:
لا یَقْبَلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا “۔
حاجی کا اخلاق
عَنْ اٴَبي جَعْفَرٍعليهالسلام
قَالَ:
مَا یُعْباٴُ مَنْ یَسْلُکُ هَذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْهِ ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي اللّٰهِ،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِهِ غَضَبَهُ،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَهُ
امام محمد باقرعليهالسلام
نے فرمایا :
” جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ہے اگر اس میں تین خصلتیں نہهوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا :
۱ ۔تقویٰ وپرہیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔
۲ ۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔
۳ ۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔
کامیاب حج
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَنْ حَجَّ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَهَیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپسهوتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ہے“۔
حج کی قسمیں
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰهِ،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰهِ کَانَ ثَوَابُهُ عَلَی اللّٰهِ الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُهُ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
امام جعفر صادق ٍعليهالسلام
فرماتے ہیں:
حج کی دو قسمیں ہیں:
”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خدا
کے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ہے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ہے “۔
حاجیوں کی قسمیں
معاویہ ابن عمار کہتے کہ امام صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اٴَصْنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِي اٴَهْلِهِ وَمَالِهِ،فَذَلِکَ اٴَدْنَی مَا یَرْجِعُ بِهِ الْحَاجُّ
۔
” حاجی تین قسم کےہوتےہیں :
ایک گروہ جہنم کی آگ سے رہائی پاتا ہے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکهوتا ہے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداہواہو، اور تیسرا گروہ وہ ہے کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظهوجاتا ہے اور یہ وہ کمترین جزا ہے جس کے ساتھ حاجی واپسهوتے ہیں“۔
ناکام حاجی
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
یَاٴتي عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ اٴغنِیاءُ اٴمَتِّي لِلنُّزهَةِ،وَاٴَوْساطُهُمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاوٴُ هُمْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُهُم لِلمساٴلةِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے “۔
اپنے ہمراھیوں کے ساتھ سلوک
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
:
وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِي حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَاٴَقِلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ہمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاو،بیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیع کرو،اور سخا وت کرنے والے رہو“۔
راہ کی اذیت
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
مَنْ اٴَمَاطَ اٴَذًی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰهُ لَهُ حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَهْ حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْهُ
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ہے اور جس شخص کے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ہے اسے عذاب نھیں دیتا “۔
حج کی راہ میں موت
قال الصادقعليهالسلام
:
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ: مَنْ مَاتَ فِي طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاهِباًاَّوُ جَائِیاً اٴَمِنَ مِنَ الّفَزَعِ الّاٴَکْبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
عبد اللہ ابن سنان سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق ٍعليهالسلام
نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسهوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ہراس سے امان میں ر ہے گا “۔
حج میں انفاق کرنا
قال الصادقعليهالسلام
:
”دِرْهَمٌ فِي الْحَجِّ اٴَفْضَلُ مِنْ اٴَلْفِيْ اٴَلْفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰهِ “
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”حج کی راہ میں ایک درہم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درہم خرچ کرنے سے بہتر ہے“۔
احرام کا فلسفہ
عَنِ الرِّضَاعليهالسلام
:
فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِهِ وَلِئَلاّٰ یَلْهُوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْ اٴمُرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِهَا وَالَذَّاتِهَا وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا هُمْ فِیهِ قَاصِدِینَ نَحْوَهُ،مُقْبِلِینَ عَلَیْهِ بِکُلِّیِّتِهِمْ،مَعَ مَا فِیهِ مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰهِ تَعٰالی وَلِبَیْتِهِ،وَالتَّذَلُّلِ لِاٴَنْفُسِهِمْ عِنْدَ قَصْدِ هِمْ إِلَی اللّٰهِ تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِهِمْ إِلَیْهِ، رَاجِینَ ثَوَابَهُ،رَاهِبِینَ مِنْ عِقَابِهِ،مَاضِینَ نَحْوَهُ مُقْبِلِینَ إِلَیْهِ بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ
امام علی رضاعليهالسلام
نے فرمایا:
”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ اللہ کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردهونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجهوں ، امور دنیا ،اس کی لذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کرےں جس کام کے لئے آئے ہیںاور جس کا ارادہ رکھتےہیں اس پر صابر رہیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد
اور اس کے حضور واردهونا ہے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتےہیں اس کے عقاب اور سزا سے خوف زدہہیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےہوئے ہیں“۔
احرام کا ادب
قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
:
إِذَا اٴَحْرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰهِ،وَذِکْرِ اللّٰهِ کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ اٴَنْ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَهُ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا :
”جب محرمهو جاو تو تم پر لازم ہے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بہت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملهونا یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھو لے “۔
حقیقی لبیک
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
: مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِهِ وَشِمٰالِهِ مِنْ حَجَرٍاٴَوْ شَجَرٍاٴَْومَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُ مِنْ هٰا هُنَا وَهٰاهُنَا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کہتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کہتےہیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وہاں تک طے کر لے “۔
حج کا نعرہ
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
: اٴَتَانِي جَبْرَئِیلُعليهالسلام
فَقَالَ:
اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یَاٴْ مُرُکَ اَنْ تَاٴْمُرَ اٴَصْحَابَکَ اٴَنْ یَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَهُمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّهَا شِعَارُ الْحَجِّ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کہیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ہے “۔
معرفت کے ساتھ واردهونا
قَالَ الْبَاقِرُعليهالسلام
:
مَنْ دَخَلَ هَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما اٴَوْجَبَهُ اللّٰه عَلَیْهِ کٰانَ اٴَمِناً فِي الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جو شخص اس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخل ہو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ہے اس سے آگاہ رہے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا“۔
خدا کے غضب سے امان
عبد اللہ بن سنان کہتےہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :”کہ خدا وند عالم کا ارشاد(
ومن دخله کان آمناً
)
”یعنی جو شخص اس میں داخل هو وہ امان میں ہے اس سے مراد گھر ہے یا حرم ؟
قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِهِ فَهُوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰهِ
۔۔۔ ۔
”امامعليهالسلام
نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخل ہو اور وہاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رہے گا “۔
مکہ خدا و رسول کا حرم
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰهِ وَحَرَمُ رَسُولِهِ وَحَرَمَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَعليهالسلام
،الصَّلاٰةُ فِیهَابِمِائَةِ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْهَمُ فِیهَ ابِمِائَةِ اٴَلْفِ دِرْهَم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰهِ وَحَرَمُ رَسُولِهِ وَحَرَمُ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَیْهِمَاالصَّلاٰةُ فِیهَا بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَ الدِّرْهَمُ فِیهَا بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْهَمٍ
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
(پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
) اور امیر المومنین کا حرم ہے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ہے۔ ایک درہم انفاق کرنا ایک لاکھ درہم
خیرات کرنے کے برابر ہے۔ مدینہ (بھی)اللہ ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالبعليهالسلام
کا حرم ہے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درہم دس ہزار درہم کے برابر ہے “۔
مسجد الحرام میں داخل ہونے کے آدا ب
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْهُ حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة ِوَالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جب تم مسجد الحرام میں داخل ہوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخل ہو “۔
جنت کے محل
قَالَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَعليهالسلام
:
اٴَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِي الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِصلىاللهعليهوآلهوسلم
، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛
حضرت علی ابن ابی طالبعليهالسلام
فرماتےہیں :
”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محلہیں :
۱ ۔مسجد الحرام ، ۲ ۔مسجد النبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
، ۳ ۔مسجد الاقصیٰ، ۴ ۔مسجد کوفہ ،
حرمین میں نماز
عَنْ إِبْرَاهِیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:
کَتَبْتُ إِلَی اٴَبِي جَعْفَرٍعليهالسلام
اٴَسْاٴَلُهُ عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰه یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ فَاٴَکْثِرْفِیهِمَا وَاٴَتِم َّ
ابراہیم بن شیبہ کہتےہیں کہ:
میں نے امام محمد باقرعليهالسلام
کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میں دریافت کیا امامعليهالسلام
نے جواب میں تحریر فرمایا:
” رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو“۔
مکہ میں نماز جماعت
عَنْ اٴَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اٴَبِي نَصْرٍ،عَنْ اٴَبِيالْحَسَنِعليهالسلام
قَالَ:
سَاٴَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّي فِي جَمَاعَةٍ فِي مَنْزِلِهِ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ اٴَوْ وَحْدَهُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: وَحْدَهُ
احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتےہیں :
”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضاعليهالسلام
سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھر میں ادا کرے یہ افضل ہے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ہے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)“ ۔
اہل سنت کے ساتھ نماز
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:
”قَالَ لِي اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
:یَا إِسْحَاقُ اٴَ تُصَلَّي مَعَهُمْ فِي الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ:صَلِّ مَعَهُمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّي مَعَهُمْ فِي الصَّفِّ الْاٴَوَّلِ کاَلشَّاهِرِ سَیْفَهُ فِي سَبِیلِ اللّٰهِ“
اسحاق ابن عمار کہتےہیں :
”امام جعفر صادقعليهالسلام
نے مجھ سے فرمایاکہ: اے
اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اہل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےہو؟میں نے عرض کیا ہاں!حضرتعليهالسلام
نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخص ان لوگوں کے ہمراہ پہلی صف میں نماز پڑھے وہ اس مجاھد کے مانند ہے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رہاہواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررہاہو‘ ‘۔
کعبہ چوکور کیوں ہے؟
رُوِيَ اٴَنَّهُ إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِاٴَنَّهَا مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِاٴَنَّهَا بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَهُوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِاٴَنَّهُ بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَهُوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِاٴَنَّ الْکَلِمَاتِ الَّتِي بُنِیي عَلَیْهَا الْإِسْلاٰمُ اٴَرْبَعٌ:وَهِیَ :سُبْحَانَ اللّٰهِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ،وَلاٰ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، وَاللّٰهُ اٴَکْبَرُ
۔( ۱)
شیخ صدوق فرماتے ہیں:
”ایک روایت میں آیا ہے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ہے کہ وہ چوکور ہے اور وہ چوکو اس لئے بنا یاگیا ہے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ہے جو چوکور ہے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ہے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چار کلموں پر ہے اور وہ یہہیں :”سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اَکْبَرُ“۔
کعبہ کی طرف دیکھنا
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَهُ حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْهُ سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِهِ عَنْهَا
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرمایا :
”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ہمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتےہیں اور اس کے گناہ محو کئے جاتےہیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا “۔
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ
امام جعفرصادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ہے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ہے“۔
الٰھی لمحہ
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِي کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِهَا اٴَوْ حَنَّ قَلْبُهُ إِلَیْهَا اٴَوْ حَسَبَهُ عَنْهَا عُذْرٌ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”بلا شبہ کعبہ کے لئے ہر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ہے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاقہیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیںہیں ،بخش دیتا ہے“۔
برکتوں کا نزول
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِنَّ لِلّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْهَا سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَاٴَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتے ہیں:
”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ہے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےہوتی ہیں“۔
دین اور کعبہ کا ربط
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جب تک کعبہ قائم ہے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رہے گا“۔
یہ عمل منع ہے
محمد ابن مسلم کہتےہیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رہے تھے:
قال الصادقعليهالسلام
:
لاٰ یَنْبَغِي لِاٴَحَدٍ اٴَنْ یَاٴْخُذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ اٴَخَذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّهُ
” کسی شخص کے لئے یہ درست نھیں ہے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھا ئی ہے تواسے واپس کر دے“۔
کعبہ کا پردہ
عَنْ جَعفر،عَنْ اٴَبیهِ علیهما السلام:
اٴَنَّ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ في کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ
امام محمد باقرعليهالسلام
نے فرمایا:
”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالبعليهالسلام
ہر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے “۔
امام زمانہعليهالسلام
کعبہ میں
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ اٴَنَّهُ قَالَ: سَاٴَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ - فَقُلْتُ لَهُ:رَاٴَیْتَ صَاحِبَ هَذَا الْاٴَمْرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَهْدِي بِهِ عِنْدَ بَیْتِ اللّٰهِ الْحَرَامِ وَهُوَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ اٴَنْجِزْ لِي مَاوَعَدْتَنِي
عبد اللہ ابن جعفر حمیری کہتے ہیں:
”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہعليهالسلام
کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ہاں!میںنے آخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرتعليهالسلام
فرمارہے تھے اے میرے اللہ !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فر ما “۔
حجر اسود
قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰهِ فِي الاٴَرْضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَهُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰهَ اَنْ لاٰ یَعْصِیَهُ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ہاتھ کے مانند ہے پس جو شخص اپنا ہاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر اللہ کی بیعت کی ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا“۔
حجر اسود کو دور سے چومنا
عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:
قُلْتُ لِاٴَ بِي عَبْدِ اللّٰهِ اٴَتَیْتُ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْهِ زِحَاماً فَلَمْ اٴَلْقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ اٴَصْحَابِنَا فَسَاٴَلْتُهُ فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِ اسْتِلاٰمِهِ فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَهُ خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ
سیف ابن تمار کہتے ہیں”میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا :
”میں حجر اسود کے قریب آیا وہاں جمعیت بہت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک سے پوچھا کیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ہے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہهو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ہاتھ سے دور سے اشارہ کرو “۔
عدل کا ظہور
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
اٴَوَّلُ مَا یُظْهِرُ الْقَائِمُ مِنَ الْعَدْلِ اٴَنْ یُنَادِيَ مُنَادِیهِ اٴَنْ یُسَلِّمَ صَاحِبُ النَّافِلَةِ لِصَاحِبِ الْفَرِیضَةِ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَالطَّوَافَ
امام جعفر صاد قعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جو سب سے پہلی چیز امام زمانہعليهالسلام
اپنے عدل سے ظاھر کریں گے یہ ہے کہ ان کا منادی پکار کر کھے گا مستحبی طواف کرنے والے اور حجر اسود کو لمس کرنے والے حجر اسوداور اطواف کی جگہ کو واجبی طواف کرنے والوعليهالسلام
کے لئے خالی کردیں “۔
حرم میں ایثار وفدا کاری
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
اَبْلِغُوا اٴهْلَ مَکَّةَ وَالمُجاوِرینَ اَنْ یُخَلُّوا بَیْنَ الحُجّاجِ وَبَیْنَ الطَّوَافِ وَالْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَمَقامِ اِبراهِیمَ وَالصَّفِّ الاٴوَّلِ مِنْ عَشْرٍ تَبْقیٰ مِنْ ذِي القَعْدَةِ اِلی یَوْمِ الصَّدْرِ
رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اہل مکہ اور اس میں رہنے والوں تک یہ بات پہنچادو کہ ذی القعدہ کے آخری دس دن سے حاجیوں کی واپسی کے دن تک طواف کی جگہ ،حجر اسود ،مقام ابراہیمعليهالسلام
اور نماز کی پہلی صف کو حاجیوں کے لئے خالی کردیں “۔
جس بات سے روکا گیا ہے
عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ:
کَانَ بِمَکَّةَ رَجُلٌ مَوْلًی لِبَنِي اُمَیَّةَ یُقَالُ لَهُ:ابْنُ اٴَبِي عَوَانَةَ لَهُ عِنَادَةٌ،وَکَانَ إِذَادَخَلَ إِلَی مَکَّةَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
اٴَوْاٴَحَدٌ مِنْ اٴَشْیَاخِ آلِ مُحَمَّدٍ یَعْبَتُ بِهِ،وَإِنَّهُ اٴَتَی اٴَبَا عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
وَهُوَ فِي الطَّوَافِ فَقَالَ:یَا اٴَبَا عَبْدِ اللّٰهِ مَا تَقُولُ فِي اسْتِلاٰمِ الْحَجَرِ ؟ فَقَالَ:اسْتَلَمَهُ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
فَقَالَ لَهُ:مَا اٴَرَاکَ اسْتَلَمْتَهُ قَالَ:اٴَکْرَهُ اٴَنْ اٴَوذِيَ ضَعِیفاًاٴَوْ اٴَ تَاٴَذَّی قَالَ فَقَالَ قَدْ زَعَمْتَ اٴَنَّ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسْتَلَمَهُ قَالَ:نَعَمْ وَلَکِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ إِذَا رَاٴَوْهُ عَرَفُوا لَهُ حَقَّهُ وَاٴَنَا فَلاٰ یَعْرِفُونَ لِي حَقِّي( ۱)
حماد بن عثمان کہتے ہیں:
”مکہ میں بنی امیہ کے دوستداروں میں سے ابن ابی عوانہ نام کا ایک شخص رہتا تھا جو اہل بیت علیھم السلام سے کینہ رکھتا تھا اور جب بھی امام جعفر صادقعليهالسلام
یا پیغمبر کی اولاد میں سے کوئی
بزرگ مکہ آتا تھا وہ اپنی باتوں سے ان کی تحقیر کرتا تھا اور اذیت پہنچاتا تھا۔
ایک روز وہ طواف کی حالت میں امام جعفرصادقعليهالسلام
کی خدمت میں آیا اور آپعليهالسلام
سے پوچھنے لگا کہ حجر اسود پر ہاتھ پھیرنے سے متعلق آپعليهالسلام
کا نظریہ کیا ہے ؟حضرتعليهالسلام
نے فرمایا:رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسح واستلام کرتے تھے ، اس شخص نے کھا میں نے آپعليهالسلام
کو استلام حجر کرتےہوئے نھیں دیکھا ،امامعليهالسلام
نے جواب دیا :
میں اس بات کو پسند نھیں کرتا کہ کسی کمزور کو اذیت پہنچاوں یاخود اذیت میں مبتلاہوں اس شخص نے پھر پوچھا: آپعليهالسلام
نے فرمایا ہے کہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا استلام کرتے تھے ،امام نے فرمایا:ھاں!لیکن جب لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے تھے تو ان کے حق کی رعایت کرتے تھے (یعنی انھیںراستہ دے دیا کرتے تھے)لیکن میرے لئے ایسا نھیں کرتے اور میرا حق نھیں پہچانتے “۔
ھاتھ سے اشارہ
محمد بن عبیداللہ کہتےہیں :
لوگوں نے امام علی رضاعليهالسلام
سے پوچھا :اگر حجر اسود کے اطراف جمعیت زیادہهو تو کیا حجر اسودکو ہاتھ سے مسح کرنے کے لئے لوگوں سے زبردستی کرنا یا جھگڑنا چاہئے ؟
قَالَ:”إِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَاٴَوْمِ إِلَیْهِ إِیمَاءً بِیَدِکَ
“۔
”امامعليهالسلام
نے فرمایا :جب بھی ایسی صورتهو ،اپنے ہاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرو (اور گذر جاو)“۔
خواتین کے لئے
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِنَّ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ عَنِ النِّسَاءِ اٴرْبَعاً: الْإِجْهَارَ بِالتَّلْبِیَةِ ، وَالسَّعْیي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ یَعْنِي الْهَرْوَلَةَ وَدُخُولَ الْکَعْبَةِ وَاسْتِلاٰمَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”بلاشبہ خدا وند عالم نے چار چیزوں کو حج میں عورتوں سے معاف رکھا ہے:
۱ ۔بلند آوازسے لبیک کہنا،
۲ ۔صفاو مروہ کے درمیان سعی میں ہرولہ(آہستہ دوڑنا )
۳ ۔کعبہ کے اندر داخل ہونا ،
۴ ۔حجر اسود کو لمس کرنا “۔
____________________