حج کی منتخب حدیثیں

حج کی منتخب حدیثیں 75%

حج کی منتخب حدیثیں مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

حج کی منتخب حدیثیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5347 / ڈاؤنلوڈ: 4081
سائز سائز سائز
حج کی منتخب حدیثیں

حج کی منتخب حدیثیں

مؤلف:
اردو

حج کا واجب ہونا

قَالَ عَلِیعليه‌السلام :

”فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلَهُ قِبْلَةً لِلْاٴَنْامِ “ ۔( ۱ )

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:

”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ہے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے“۔

قال علیعليه‌السلام :

”فَرَضَ حَجَّهُ وَاٴَوْجَبَ حَقَّهُ وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَهُ فَقَالَ سُبْحَانَهُ ( وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْهِ سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ ) ( ۲ )

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ہے پس وہ فرماتا ہے:”لوگوں پر خدا کا حق یہ ہے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جائے اور وہ شخص جو کفر اختیار کرتا ہے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ہے “۔

حج کا فلسفہ

قال علیعليه‌السلام :

”جَعَلَهُ سُبْحَانَهُ عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهِ و َاِذعانَهُمْ لِعِزَّتِهِ“ ۔(۳)

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ہے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھار کریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں “۔

قال علیعليه‌السلام :

”جَعَلَهُ سُبْحَانَهُ لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً“ ۔(۴)

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:

”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ہے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ہے“۔

دین کی تقویت کا سبب

قال علیعليه‌السلام :

”وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ(۵)

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:

”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے“۔

دلوں کا سکون

قال الباقرعليه‌السلام :

”الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ“ (۶)

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ہے“۔

حج ترک کرنے والا

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

”مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَهُودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً“ ۔(۷)(۸)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

”جو شخص حج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی “۔

یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے بھی نقلهواھے۔( ۹ )

حج و کامیابی

”لوگوں نے امام محمد باقرعليه‌السلام سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:

”قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ اٴَيْ اٴَفْلَحَ فُلاٰنٌ“ ۔(۱۰)

” فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیابهوا “۔

حج کی اھمیت

محمد بن مسلم کہتےہیں کہ :

امام محمد باقرعليه‌السلام یا امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”وَدَّ مَنْ في الْقُبُورِ لَوْ اٴَنَّ لَهُ حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیهَا “۔(۱۱)

”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتےہیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ہے دیدیتے اور اس کے عوض انھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا “۔

حج کا حق

قال الإمام زَیْنُ العابِدِین عليه‌السلام فِي رسالَةِ الحُقُوق: ”حَقُّ الْحَجِّ اٴَنْ تَعْلَمَ اٴَنَّهُ وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْهِ مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیهِ قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِ الَّذِي اٴَوْجَبَهُ اللّٰهُ تَعَالیَ عَلَیْکَ“ ۔(۱۲)

امام زین العابدینعليه‌السلام اپنے رسالہ حقوق میں فرماتے ہیں:

”حج کا حق تم پر یہ ہے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ہے اوراپنے گناہوںسے اس کی جانب فرار ہے حج میں تمھاری توبہ قبولهوتی ہے اوریہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ہے“۔

خد اجوئی

قال الصادقعليه‌السلام :

”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِهِ رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰهُ لَهُ اَلْبَتَّةَ“.( ۱۳ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”جو شخص حج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاہواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاہو خدا وند عالم یقینا اسے بخش دے گا“۔

حج کا ثواب

قالَ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ “( ۱۴ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ہے“۔

حج کی تاثیر

ہشام بن حکم کہتےہیں :

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فر مایا:

”مَامِن سَفَرٍاٴَبْلَغَ فِي لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا اٴَحَدٌ یَبْلُغُهُ حَتَّی تَنَالَهُ الْمَشَقَّةُ“ ۔( ۱۵ )

”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئی شخص سختی اور مشقت کے بغیر وہاں تک نھیں پہنچتا “۔

حج میں نیت کی اھمیت

قال الصادقعليه‌السلام :

”لَمَّا حَجَّ مُوسَیعليه‌السلام نَزَلَ عَلَیْهِ جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ مٰا لِمَنْ حَجَّ هَذَا الْبَیْتَ بَنِیَّهٍ صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰهِ

عَزَّ وَجَلَّ،فَاٴَوْحَی اللّٰهُ تَعَالیٰ إِلَیْهِ؛قُلْ لَهُ:اٴَجْعَلُهُ فِي الرَّفِیقِ الْاٴَعْلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ اٴُولَئِکَ رَفِیقاً“( ۱۶ )

”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیلعليه‌السلام ان پر نازلهوئے جناب موسیٰ نے ان سے پوچھا:

اے جبرئیلعليه‌السلام !

جو شخص اس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررهوئی ہے جبرئیل کچھ جواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدااور صالحین کا ہم نشین قرا ر دوں گااور وہ بہترین رفیق اور دوست ہیں“۔

نور میں واردهونا

عبد الرحمان بن سمرة کہتے ہیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

”إِنِّي رَاٴَیْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ “۔

میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔

ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ھماری جان ہمارا خاندان اور ہماری اولاد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فداہوں آپ نے کیا دیکھا ہم سے بھی بیان فرمایئے:

فقال

رَاٴَیْتُ رَجُلاً مِنْ اٴُمَّتِي مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِهِ ظُلْمَةٌ وَعَنْ یَمِینِهِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِهِ ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِهِ ظُلْمَةٌ ، مُسْتَنْقِعاً فِي الظُّلْمَةِ فَجَاءَ هُ حَجُّهُ وَعُمْرَتُهُ فَاٴَخْرَجَاهُ مِنَ الظُّلْمَةِ وَاٴَدْخَلاٰهُ فِي النُّورِ( ۱۷ )

”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیں سے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا “۔

حق کے حضور حاضری

قالَ عَلِیٌّعليه‌السلام :

اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰهِ،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰهِ اٴَنْ یُکْرِمَ وَفْدَهُ وَیَحْبُوَهُ بِالْمَغْفِرَةِ( ۱۸ )

حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرهونے والوں میں سے اور خدا پر ہے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ‘ ‘۔

خدا وند عالم کی میزبانی

قال الصّادقعليه‌السلام :

إِنَّ ضَیْفَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَهُوَ ضَیْفُ اللّٰهِ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِهِ( ۱۹ )

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ہے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہهو جائے ا س کا مھمان باقی رہتا ہے ‘ ‘ ۔

حج اور جھاد

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

جِهٰادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَراٴَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ( ۲۰ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ہے“۔

حج عمرہ سے بہتر ہے

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ هِیَ الْحَجُّ الاٴصُغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیهٰا وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ( ۲۱ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاص سے فرمایا:

”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ہے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ہے ان سب سے بہتر ہے ،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بہتر ہے“ ۔

گناہ دُھل جاتےہیں

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِه حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِهِ کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْهُ الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَهَّرَه اللّٰهُ مِنَ الذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰهُ لَهُ الْحَسَنٰاتِ و َاِذَا قَالَ:اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ، اٴَجٰابَهُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:”لَبَّیْکَ و َسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰهُ لَهُ الْخَیْراتِ( ۲۲ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ہے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ہے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتےہیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ہیں،

پس جب وہ شخص مدینہ میں واردهوتا ہے اور سلام کے

ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ہے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ہاتھ ملاتےہیں اور مصافحہ کرتےہیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردهو کر غسل کرتا ہے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ہے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ہے جب وہ ”لبیک اللھم لبیک “کھتا ہے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےہوئے فرماتا ہے ”لیبک و سعدیک“ میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رہاہوں اور جب وہ مکہ میں واردهوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ہے تو خد اوند عالم ہمیشہ کی نیکیاں اور خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ہے“۔

دعا کی قبولیت

قالَ رَسُولُ اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَهُمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَهُمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:

اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِهِ،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَهُ، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ( ۲۳ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”چار لوگ ایسےہیں جن کی دعا رد نھیںهوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتےہیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتیہیں :

۱ ۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،

۲ ۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،

۳ ۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔

۴ ۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔

دنیا بھی اور آخرت بھی

قالَ رَسُولُ اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ هٰذَاالبَیْتَ،فَمٰا اٴتٰاهُ عَبْدٌ یَسْاٴَلُ اللّٰهَ دُنْیٰا اِلاَّ اٴَعْطٰاهُ اللّٰهُ مِنْهٰا،وَلایَسْاٴَلُهُ آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَهُ مِنْهٰا( ۲۴ )

رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جو شخص دنیا اور آخرت کو چاھتا ہے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا

سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا“۔

آگاھی کے ساتھ حج

قالَ رَسُولُ اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :في خُطْبَتِهِ یَوْمَ الْغَدِیر: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّه، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ الْمَشٰاهِدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ ۔( ۲۵ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:

”اے لوگو! خانہ خدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو “۔

شرط حضور

قَالَ اٴَبُو عَبْدِاللّٰهِعليه‌السلام کاَنَ اٴَبِي یَقُولُ:

مَنْ اٴَمَّ هَذَاالْبَیْتَ حَاجّاً اٴَوْمُعْتَمِراًمُبَرَّاٴً مِنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَهَیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ( ۲۶ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہهو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکهو جاتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاہو“۔

حج کی برکتیں

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِعليه‌السلام :

حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ اٴَبْدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ اٴَرْزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَوٴُونٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَهُ وَمَوْجُوبٌ لَهُ الْجَنَّةُ،وَمُسْتَاٴْنَفٌ لَهُ الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِي اٴَهْلِهِ وَمَالِهِ( ۲۷ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

” علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاوتاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراہو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ہے جنت اس پر واجبهو جاتی ہے ، اس کا نامہ

عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ہے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رہتے ہیں“۔

جو حج قبول نھیں

عَنْ اٴَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِعليه‌السلام قَالَ:

مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ اٴَرْبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْهِ فِي اٴَرْبَعٍ: مَنْ اٴَصَابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ اٴَوْ رِبًا اٴَوْ خِیَانَةٍاٴَوْ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْهُ فِي زَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ( ۲۸ )

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”جو شخص چار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ہے :

جو شخص آلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ہے ‘ ‘ ۔

مال حرام کے ذریعہ حج

قال اٴبو جعفرعليه‌السلام :

لا یَقْبَلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ( ۲۹ )

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا “۔

حاجی کا اخلاق

عَنْ اٴَبي جَعْفَرٍعليه‌السلام قَالَ:

مَا یُعْباٴُ مَنْ یَسْلُکُ هَذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْهِ ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي اللّٰهِ،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِهِ غَضَبَهُ،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَهُ( ۳۰ )

امام محمد باقرعليه‌السلام نے فرمایا :

” جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ہے اگر اس میں تین خصلتیں نہهوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا :

۱ ۔تقویٰ وپرہیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔

۲ ۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔

۳ ۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔

کامیاب حج

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

مَنْ حَجَّ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَهَیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ( ۳۱ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپسهوتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ہے“۔

حج کی قسمیں

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰهِ،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰهِ کَانَ ثَوَابُهُ عَلَی اللّٰهِ الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُهُ عَلَی النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ( ۳۲ )

امام جعفر صادق ٍعليه‌السلام فرماتے ہیں:

حج کی دو قسمیں ہیں:

”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خدا

کے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ہے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ہے “۔

حاجیوں کی قسمیں

معاویہ ابن عمار کہتے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اٴَصْنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ اٴُمُّهُ،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِي اٴَهْلِهِ وَمَالِهِ،فَذَلِکَ اٴَدْنَی مَا یَرْجِعُ بِهِ الْحَاجُّ ۔( ۳۳ )

” حاجی تین قسم کےہوتےہیں :

ایک گروہ جہنم کی آگ سے رہائی پاتا ہے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکهوتا ہے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداہواہو، اور تیسرا گروہ وہ ہے کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظهوجاتا ہے اور یہ وہ کمترین جزا ہے جس کے ساتھ حاجی واپسهوتے ہیں“۔

ناکام حاجی

قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

یَاٴتي عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ اٴغنِیاءُ اٴمَتِّي لِلنُّزهَةِ،وَاٴَوْساطُهُمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاوٴُ هُمْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُهُم لِلمساٴلةِ

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے “۔

اپنے ہمراھیوں کے ساتھ سلوک

قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام :

وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِي حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَاٴَقِلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ( ۳۴ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ہمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاو،بیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیع کرو،اور سخا وت کرنے والے رہو“۔

راہ کی اذیت

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

مَنْ اٴَمَاطَ اٴَذًی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰهُ لَهُ حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَهْ حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْهُ( ۳۵ )

امام جعفر صادق نے فرمایا:

”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ہے اور جس شخص کے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ہے اسے عذاب نھیں دیتا “۔

حج کی راہ میں موت

قال الصادقعليه‌السلام :

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام

قَالَ: مَنْ مَاتَ فِي طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاهِباًاَّوُ جَائِیاً اٴَمِنَ مِنَ الّفَزَعِ الّاٴَکْبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ( ۳۶ )

عبد اللہ ابن سنان سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق ٍعليه‌السلام نے فرمایا:

”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسهوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ہراس سے امان میں ر ہے گا “۔

حج میں انفاق کرنا

قال الصادقعليه‌السلام :

”دِرْهَمٌ فِي الْحَجِّ اٴَفْضَلُ مِنْ اٴَلْفِيْ اٴَلْفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰهِ “( ۳۷ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”حج کی راہ میں ایک درہم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درہم خرچ کرنے سے بہتر ہے“۔

احرام کا فلسفہ

عَنِ الرِّضَاعليه‌السلام :

فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِهِ وَلِئَلاّٰ یَلْهُوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْ اٴمُرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِهَا وَالَذَّاتِهَا وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا هُمْ فِیهِ قَاصِدِینَ نَحْوَهُ،مُقْبِلِینَ عَلَیْهِ بِکُلِّیِّتِهِمْ،مَعَ مَا فِیهِ مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰهِ تَعٰالی وَلِبَیْتِهِ،وَالتَّذَلُّلِ لِاٴَنْفُسِهِمْ عِنْدَ قَصْدِ هِمْ إِلَی اللّٰهِ تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِهِمْ إِلَیْهِ، رَاجِینَ ثَوَابَهُ،رَاهِبِینَ مِنْ عِقَابِهِ،مَاضِینَ نَحْوَهُ مُقْبِلِینَ إِلَیْهِ بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ( ۳۸ )

امام علی رضاعليه‌السلام نے فرمایا:

”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ اللہ کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردهونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجهوں ، امور دنیا ،اس کی لذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کرےں جس کام کے لئے آئے ہیںاور جس کا ارادہ رکھتےہیں اس پر صابر رہیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد

اور اس کے حضور واردهونا ہے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتےہیں اس کے عقاب اور سزا سے خوف زدہہیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےہوئے ہیں“۔

احرام کا ادب

قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام :

إِذَا اٴَحْرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰهِ،وَذِکْرِ اللّٰهِ کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ اٴَنْ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَهُ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ( ۳۹ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا :

”جب محرمهو جاو تو تم پر لازم ہے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بہت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملهونا یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھو لے “۔

حقیقی لبیک

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِهِ وَشِمٰالِهِ مِنْ حَجَرٍاٴَوْ شَجَرٍاٴَْومَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُ مِنْ هٰا هُنَا وَهٰاهُنَا( ۴۰ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کہتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کہتےہیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وہاں تک طے کر لے “۔

حج کا نعرہ

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : اٴَتَانِي جَبْرَئِیلُعليه‌السلام فَقَالَ:

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ یَاٴْ مُرُکَ اَنْ تَاٴْمُرَ اٴَصْحَابَکَ اٴَنْ یَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَهُمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّهَا شِعَارُ الْحَجِّ( ۴۱ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کہیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ہے “۔

معرفت کے ساتھ واردهونا

قَالَ الْبَاقِرُعليه‌السلام :

مَنْ دَخَلَ هَذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما اٴَوْجَبَهُ اللّٰه عَلَیْهِ کٰانَ اٴَمِناً فِي الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ( ۴۲ )

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتےہیں :

”جو شخص اس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخل ہو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ہے اس سے آگاہ رہے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا“۔

خدا کے غضب سے امان

عبد اللہ بن سنان کہتےہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :”کہ خدا وند عالم کا ارشاد( ومن دخله کان آمناً ) ( ۴۳ )

”یعنی جو شخص اس میں داخل هو وہ امان میں ہے اس سے مراد گھر ہے یا حرم ؟

قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِهِ فَهُوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰهِ ۔۔۔ ۔( ۴۴ )

”امامعليه‌السلام نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخل ہو اور وہاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رہے گا “۔

مکہ خدا و رسول کا حرم

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰهِ وَحَرَمُ رَسُولِهِ وَحَرَمَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَعليه‌السلام ،الصَّلاٰةُ فِیهَابِمِائَةِ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْهَمُ فِیهَ ابِمِائَةِ اٴَلْفِ دِرْهَم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰهِ وَحَرَمُ رَسُولِهِ وَحَرَمُ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَیْهِمَاالصَّلاٰةُ فِیهَا بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَ الدِّرْهَمُ فِیهَا بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْهَمٍ( ۴۵ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتےہیں :

”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) اور امیر المومنین کا حرم ہے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ہے۔ ایک درہم انفاق کرنا ایک لاکھ درہم

خیرات کرنے کے برابر ہے۔ مدینہ (بھی)اللہ ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کا حرم ہے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درہم دس ہزار درہم کے برابر ہے “۔

مسجد الحرام میں داخل ہونے کے آدا ب

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْهُ حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة ِوَالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ( ۴۶ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتےہیں :

”جب تم مسجد الحرام میں داخل ہوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخل ہو “۔

جنت کے محل

قَالَ اٴَمِیرِ الْمُوٴْمِنِینَعليه‌السلام :

اٴَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِي الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛( ۴۷ )

حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام فرماتےہیں :

”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محلہیں :

۱ ۔مسجد الحرام ، ۲ ۔مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۳ ۔مسجد الاقصیٰ، ۴ ۔مسجد کوفہ ،

حرمین میں نماز

عَنْ إِبْرَاهِیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:

کَتَبْتُ إِلَی اٴَبِي جَعْفَرٍعليه‌السلام اٴَسْاٴَلُهُ عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰه یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِي الْحَرَمَیْنِ فَاٴَکْثِرْفِیهِمَا وَاٴَتِم َّ( ۴۸ )

ابراہیم بن شیبہ کہتےہیں کہ:

میں نے امام محمد باقرعليه‌السلام کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میں دریافت کیا امامعليه‌السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:

” رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو“۔

مکہ میں نماز جماعت

عَنْ اٴَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اٴَبِي نَصْرٍ،عَنْ اٴَبِيالْحَسَنِعليه‌السلام قَالَ:

سَاٴَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّي فِي جَمَاعَةٍ فِي مَنْزِلِهِ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ اٴَوْ وَحْدَهُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ: وَحْدَهُ( ۴۹ )

احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتےہیں :

”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضاعليه‌السلام سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھر میں ادا کرے یہ افضل ہے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ہے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)“ ۔

اہل سنت کے ساتھ نماز

عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:

”قَالَ لِي اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام :یَا إِسْحَاقُ اٴَ تُصَلَّي مَعَهُمْ فِي الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ:صَلِّ مَعَهُمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّي مَعَهُمْ فِي الصَّفِّ الْاٴَوَّلِ کاَلشَّاهِرِ سَیْفَهُ فِي سَبِیلِ اللّٰهِ“( ۵۰ )

اسحاق ابن عمار کہتےہیں :

”امام جعفر صادقعليه‌السلام نے مجھ سے فرمایاکہ: اے

اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اہل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےہو؟میں نے عرض کیا ہاں!حضرتعليه‌السلام نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخص ان لوگوں کے ہمراہ پہلی صف میں نماز پڑھے وہ اس مجاھد کے مانند ہے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رہاہواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررہاہو‘ ‘۔

کعبہ چوکور کیوں ہے؟

رُوِيَ اٴَنَّهُ إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِاٴَنَّهَا مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِاٴَنَّهَا بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَهُوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِاٴَنَّهُ بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَهُوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِاٴَنَّ الْکَلِمَاتِ الَّتِي بُنِیي عَلَیْهَا الْإِسْلاٰمُ اٴَرْبَعٌ:وَهِیَ :سُبْحَانَ اللّٰهِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ،وَلاٰ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، وَاللّٰهُ اٴَکْبَرُ ۔( ۱)(۵۱)

شیخ صدوق فرماتے ہیں:

”ایک روایت میں آیا ہے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ہے کہ وہ چوکور ہے اور وہ چوکو اس لئے بنا یاگیا ہے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ہے جو چوکور ہے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ہے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چار کلموں پر ہے اور وہ یہہیں :”سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلاٰ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اَکْبَرُ“۔

کعبہ کی طرف دیکھنا

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَهُ حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْهُ سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِهِ عَنْهَا( ۵۲ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرمایا :

”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ہمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتےہیں اور اس کے گناہ محو کئے جاتےہیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا “۔

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ( ۵۳ )

امام جعفرصادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ہے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ہے“۔

الٰھی لمحہ

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِي کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِهَا اٴَوْ حَنَّ قَلْبُهُ إِلَیْهَا اٴَوْ حَسَبَهُ عَنْهَا عُذْرٌ( ۵۴ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”بلا شبہ کعبہ کے لئے ہر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ہے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاقہیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیںہیں ،بخش دیتا ہے“۔

برکتوں کا نزول

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

إِنَّ لِلّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْهَا سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَاٴَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ( ۵۵ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں:

”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ہے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےہوتی ہیں“۔

دین اور کعبہ کا ربط

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ( ۵۶ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتےہیں :

”جب تک کعبہ قائم ہے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رہے گا“۔

یہ عمل منع ہے

محمد ابن مسلم کہتےہیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رہے تھے:

قال الصادقعليه‌السلام :

لاٰ یَنْبَغِي لِاٴَحَدٍ اٴَنْ یَاٴْخُذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ اٴَخَذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّهُ( ۵۷ )

” کسی شخص کے لئے یہ درست نھیں ہے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھا ئی ہے تواسے واپس کر دے“۔

کعبہ کا پردہ

عَنْ جَعفر،عَنْ اٴَبیهِ علیهما السلام:

اٴَنَّ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ في کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ( ۵۸ )

امام محمد باقرعليه‌السلام نے فرمایا:

”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام ہر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے “۔

امام زمانہعليه‌السلام کعبہ میں

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ اٴَنَّهُ قَالَ: سَاٴَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ - فَقُلْتُ لَهُ:رَاٴَیْتَ صَاحِبَ هَذَا الْاٴَمْرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَهْدِي بِهِ عِنْدَ بَیْتِ اللّٰهِ الْحَرَامِ وَهُوَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ اٴَنْجِزْ لِي مَاوَعَدْتَنِي( ۵۹ )

عبد اللہ ابن جعفر حمیری کہتے ہیں:

”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہعليه‌السلام کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ہاں!میںنے آخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرتعليه‌السلام فرمارہے تھے اے میرے اللہ !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فر ما “۔

حجر اسود

قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰهِ فِي الاٴَرْضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَهُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰهَ اَنْ لاٰ یَعْصِیَهُ( ۶۰ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ہاتھ کے مانند ہے پس جو شخص اپنا ہاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر اللہ کی بیعت کی ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا“۔

حجر اسود کو دور سے چومنا

عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:

قُلْتُ لِاٴَ بِي عَبْدِ اللّٰهِ اٴَتَیْتُ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْهِ زِحَاماً فَلَمْ اٴَلْقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ اٴَصْحَابِنَا فَسَاٴَلْتُهُ فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِ اسْتِلاٰمِهِ فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَهُ خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ( ۶۱ )

سیف ابن تمار کہتے ہیں”میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا :

”میں حجر اسود کے قریب آیا وہاں جمعیت بہت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک سے پوچھا کیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ہے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہهو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ہاتھ سے دور سے اشارہ کرو “۔

عدل کا ظہور

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

اٴَوَّلُ مَا یُظْهِرُ الْقَائِمُ مِنَ الْعَدْلِ اٴَنْ یُنَادِيَ مُنَادِیهِ اٴَنْ یُسَلِّمَ صَاحِبُ النَّافِلَةِ لِصَاحِبِ الْفَرِیضَةِ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَالطَّوَافَ( ۶۲ )

امام جعفر صاد قعليه‌السلام فرماتےہیں :

”جو سب سے پہلی چیز امام زمانہعليه‌السلام اپنے عدل سے ظاھر کریں گے یہ ہے کہ ان کا منادی پکار کر کھے گا مستحبی طواف کرنے والے اور حجر اسود کو لمس کرنے والے حجر اسوداور اطواف کی جگہ کو واجبی طواف کرنے والوعليه‌السلام کے لئے خالی کردیں “۔

حرم میں ایثار وفدا کاری

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اَبْلِغُوا اٴهْلَ مَکَّةَ وَالمُجاوِرینَ اَنْ یُخَلُّوا بَیْنَ الحُجّاجِ وَبَیْنَ الطَّوَافِ وَالْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَمَقامِ اِبراهِیمَ وَالصَّفِّ الاٴوَّلِ مِنْ عَشْرٍ تَبْقیٰ مِنْ ذِي القَعْدَةِ اِلی یَوْمِ الصَّدْرِ( ۶۳ )

رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اہل مکہ اور اس میں رہنے والوں تک یہ بات پہنچادو کہ ذی القعدہ کے آخری دس دن سے حاجیوں کی واپسی کے دن تک طواف کی جگہ ،حجر اسود ،مقام ابراہیمعليه‌السلام اور نماز کی پہلی صف کو حاجیوں کے لئے خالی کردیں “۔

جس بات سے روکا گیا ہے

عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ:

کَانَ بِمَکَّةَ رَجُلٌ مَوْلًی لِبَنِي اُمَیَّةَ یُقَالُ لَهُ:ابْنُ اٴَبِي عَوَانَةَ لَهُ عِنَادَةٌ،وَکَانَ إِذَادَخَلَ إِلَی مَکَّةَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام اٴَوْاٴَحَدٌ مِنْ اٴَشْیَاخِ آلِ مُحَمَّدٍ یَعْبَتُ بِهِ،وَإِنَّهُ اٴَتَی اٴَبَا عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام وَهُوَ فِي الطَّوَافِ فَقَالَ:یَا اٴَبَا عَبْدِ اللّٰهِ مَا تَقُولُ فِي اسْتِلاٰمِ الْحَجَرِ ؟ فَقَالَ:اسْتَلَمَهُ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقَالَ لَهُ:مَا اٴَرَاکَ اسْتَلَمْتَهُ قَالَ:اٴَکْرَهُ اٴَنْ اٴَوذِيَ ضَعِیفاًاٴَوْ اٴَ تَاٴَذَّی قَالَ فَقَالَ قَدْ زَعَمْتَ اٴَنَّ رَسُولُ اللّٰهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسْتَلَمَهُ قَالَ:نَعَمْ وَلَکِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ إِذَا رَاٴَوْهُ عَرَفُوا لَهُ حَقَّهُ وَاٴَنَا فَلاٰ یَعْرِفُونَ لِي حَقِّي( ۱)

حماد بن عثمان کہتے ہیں:

”مکہ میں بنی امیہ کے دوستداروں میں سے ابن ابی عوانہ نام کا ایک شخص رہتا تھا جو اہل بیت علیھم السلام سے کینہ رکھتا تھا اور جب بھی امام جعفر صادقعليه‌السلام یا پیغمبر کی اولاد میں سے کوئی( ۶۴ ) بزرگ مکہ آتا تھا وہ اپنی باتوں سے ان کی تحقیر کرتا تھا اور اذیت پہنچاتا تھا۔

ایک روز وہ طواف کی حالت میں امام جعفرصادقعليه‌السلام کی خدمت میں آیا اور آپعليه‌السلام سے پوچھنے لگا کہ حجر اسود پر ہاتھ پھیرنے سے متعلق آپعليه‌السلام کا نظریہ کیا ہے ؟حضرتعليه‌السلام نے فرمایا:رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسح واستلام کرتے تھے ، اس شخص نے کھا میں نے آپعليه‌السلام کو استلام حجر کرتےہوئے نھیں دیکھا ،امامعليه‌السلام نے جواب دیا :

میں اس بات کو پسند نھیں کرتا کہ کسی کمزور کو اذیت پہنچاوں یاخود اذیت میں مبتلاہوں اس شخص نے پھر پوچھا: آپعليه‌السلام نے فرمایا ہے کہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا استلام کرتے تھے ،امام نے فرمایا:ھاں!لیکن جب لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے تھے تو ان کے حق کی رعایت کرتے تھے (یعنی انھیںراستہ دے دیا کرتے تھے)لیکن میرے لئے ایسا نھیں کرتے اور میرا حق نھیں پہچانتے “۔

ھاتھ سے اشارہ

محمد بن عبیداللہ کہتےہیں :

لوگوں نے امام علی رضاعليه‌السلام سے پوچھا :اگر حجر اسود کے اطراف جمعیت زیادہهو تو کیا حجر اسودکو ہاتھ سے مسح کرنے کے لئے لوگوں سے زبردستی کرنا یا جھگڑنا چاہئے ؟

قَالَ:”إِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَاٴَوْمِ إِلَیْهِ إِیمَاءً بِیَدِکَ “۔( ۶۵ )

”امامعليه‌السلام نے فرمایا :جب بھی ایسی صورتهو ،اپنے ہاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرو (اور گذر جاو)“۔

خواتین کے لئے

عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليه‌السلام قَالَ:

إِنَّ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ عَنِ النِّسَاءِ اٴرْبَعاً: الْإِجْهَارَ بِالتَّلْبِیَةِ ، وَالسَّعْیي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ یَعْنِي الْهَرْوَلَةَ وَدُخُولَ الْکَعْبَةِ وَاسْتِلاٰمَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ( ۶۶ )

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

”بلاشبہ خدا وند عالم نے چار چیزوں کو حج میں عورتوں سے معاف رکھا ہے:

۱ ۔بلند آوازسے لبیک کہنا،

۲ ۔صفاو مروہ کے درمیان سعی میں ہرولہ(آہستہ دوڑنا )

۳ ۔کعبہ کے اندر داخل ہونا ،

۴ ۔حجر اسود کو لمس کرنا “۔

____________________

[۱] نھج البلاغہ :خ۱۔

[۲] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۵۔نھج البلاغہ :خ۱۔

[۳] نھج البلاغہ :خ۱

[۴] وسائل الشیعہ:۱۱/۱۵۔نھج البلاغہ:خ۱۔

[۵] نھج البلاغہ :خ۱۔

[۶] بحار الانوار :۷۵/۱۸۳۔

[۷]وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[۸] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۹۔ثواب الاعمال:۲/۷۰۔

[۹]وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[۱۰] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۰۳۔علل الشرایع :۱/۴۱۱۔

[۱۱] وسائل الشیعہ :۱۱/۱۱۰۔تھذیب الاحکام :۵/۲۳۔

[۱۲] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۶۲۰/۳۲۱۴۔

[۱۳] مستدرک الوسائل :۸/۱۸۔،محجة البیضاء:۲/۱۴۵۔

[۱۴] سنن ترمذی:۳/۱۷۵/۸۱۹۰۔ محجة البیضاء:۲/۱۴۵۔

[۱۵] الکافی :۴/۲۶۲/۴۱۔

[۱۶] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۳۵/۲۸۷۔

[۱۷] امالی صدوق:۳۰۱/۳۴۲۔مستدرک الوسائل :۸/۳۹۔

[۱۸] وسائل الشیعہ:۴/۱۱۶۔تحف العقول :۱۲۳۔

[۱۹] خصال :۱۲۷/۔وسائل الشیعہ:۱۴/۵۸۶۔

[۲۰] سنن نسائی:۵/۱۱۴۔

[۲۱] معجم الکبیر طبرانی:۹/۴۴/۸۳۳۶۔

[۲۲] الحج العمرة فی القرآن والحدیث :۱۴۸/۳۲۵۔

[۲۳] کافی :۲/۵۱۰/۶

[۲۴] مسند الامام زید:۱۹۷۔

[۲۵] الحج العمرة فی القرآن والحدیث:۲۵۷/۷۱۸۔

[۲۶] کافی:۴/۲۵۲/۲۔

[۲۷] کافی:۴/۲۵۲/۱۔

[۲۸] امالی صدوق:۴۴۲۔وسائل الشیعہ:۱۱/۱۴۵۔

[۲۹] بحار الانوار:۹۳/۱۲۰۔

[۳۰] کافی:۴/۲۸۶/۲۔

[۳۱] سنن دار قطنی:۲/۲۸۴۔

[۳۲] ثواب الاعمال :۷۴/۱۶۔

[۳۳] تھذیب الاحکام :۵/۲۱/۵۹۔

[۳۴] کافی:۴/۲۸۶/۳۔

[۳۵] کافی:۴/۵۴۷/۳۴۔

[۳۶] تھذیب الاحکام :۵/۲۳/۶۸۔

[۳۷] تھذیب الاحکام :۵/۲۲۔

[۳۸] عیون اخبار الرضا:۲/۲۵۸۔وسائل الشیعہ:۲/۳۱۴۔

[۳۹] کافی:۴/۳۳۷/۳۔

[۴۰] سنن ابن ماجہ:۲/۹۷۵/۲۹۲۱۔

[۴۱] مستدرک الوسائل :۹/۱۷۷/۔سنن دارمی :۱/۴۶۲/۱۷۵۵۔

[۴۲] عوالی اللّآلی:۲/۸۴/۲۲۷۔

[۴۳] سورہ آل عمران آیت ۹۶۔

[۴۴] کافی:۴/۲۲۶/۱۔

[۴۵] کافی:۴/۵۸۶/۱۔

[۴۶] کافی :۴/۴۰۱۔

[۴۷] امالی طوسی:۳۶۹۔وسائل الشیعہ:۵/۲۸۲۔

[۴۸] کافی :۴/۵۲۴/۱۔

[۴۹] کافی:۴/۵۲۷۔

[۵۰] وافی:۲/۱۸۲

[۵۱] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۱۹۰۔علل الشرائع:۳۹۶و۳۹۸۔

[۵۲] کافی۴/۲۴۰/۴۔

[۵۳] کافی:۴/۲۴۰/۵۰۔

[۵۴] کافی:۴/۲۴۰/۳۔

[۵۵] کافی:۴/۲۴۰/۲۔

[۵۶] کافی:۴/۲۷۱/۴۔

[۵۷] وھی:۲۲۹۔

[۵۸] قر ب الاسناد:۱۳۹/۴۹۶۔

[۵۹] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۵۲۰۔غیبت شیخ طوسی:۳۶۳۔

[۶۰] الحج والعمرة فی القرآن والحدیث:۱۰۲/۱۸۵۔

[۶۱] تھذیب الاحکام :۵/۱۰۳/۳۳۔

[۶۲] کافی:۴/۴۲۷/۱۔

[۶۳] کنز العمال:۵/۵۴/۱۲۰۲۴۔

[۶۴] کافی:۴/۴۰۹/۱۷۔

[۶۵] کافی:۴/۴۰۵/۷۔

[۶۶] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۳۲۶/۲۵۸۰۔

فصل : ۳

من صلي علي واحدة صلي اﷲ عليه عشرا

(جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) درود بھیجتا ہے)

۲۱ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : من صلي عَلَيَّ واحِدَةً صلي اﷲ عليه عشرًا.

۱. مسلم، الصحيح، ۱ : ۳۰۶، کتاب الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، رقم : ۴۰۸

۲. ابو داؤد، السنن، ۲ : ۸۸، باب في الأستغفار، رقم : ۱۵۳۰

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۶۶، رقم : ۸۶۳۷

۴. نسائي، السنن الکبري، ۱ : ۳۸۴، رقم : ۱۲۱۹

۵. دارمي، السنن، ۲ : ۴۰۸، رقم : ۲۷۷۲، باب فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۶. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۷، رقم : ۹۰۶

۷. بخاري، الادب المفرد، ۱ : ۲۲۴، رقم : ۶۴۵

۸. ابو عوانه، المسند، ۱ : ۵۴۶، رقم : ۲۰۴۰

۹. بيهقي، شعب الإيمان، ۲ : ۲۰۹، رقم : ۱۵۵۳

۱۰. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۱ : ۳۹۷، رقم : ۱۵۶۹

۱۱. ابونعيم، المسند المستخرج، ۲ : ۳۱، رقم : ۹۰۶

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۲۲ (۲) عن شعبة عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي علي صلاة صلي اﷲ بها عشرا فليکثر علي عبدٌ من الصلاة أو ليقل.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۱، رقم : ۱۵۵۷

’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔ اب بندہ چاہے تو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے اور چاہے تو کم درود بھیجے۔‘‘

۲۳ (۳) عن أبي طلحة رضي الله عنه أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جاء يومًا و البشرُ يُري في وجهه، فقلنا : إنا لنري البشر في وجهک فقال صلي الله عليه وآله وسلم : إنه أتاني مَلَکٌ فقال : يا محمد، إنَّ ربک يقول : أما يُرضيک ألَّا يُصلِّي عليک أحدٌ من أُمِّتک، إلَّا صليت عليه عشرًا، ولا يُسلّم عليک إلّا سلمتُ عليه عشرًا‘‘.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۶۱۱، رقم : ۱۵۹۲۶

۲. نسائي، السنن الکبري، ۱ : ۳۸۰، رقم : ۱۲۰۵

۳. دارمي، السنن، ۲ : ۴۰۸، باب فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۲۷۷۳

۴. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۲ : ۴۵۶، رقم : ۳۵۷۵

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور خوشی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ایسی خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں (جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! ابھی میرے پاس جبرئیل امین تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب فرماتا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے تو میں اس کے بدلہ میں اس پر دس مرتبہ درود اور دس مرتبہ سلام (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہوں۔‘‘

۲۴ (۴) عن أبي طلحة رضي الله عنه قال دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و أسارير وجهه تبرق فقلت يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما رأيتک أطيب نفسًا و لا أظهر بشرا من يومک هذا قال و مالي لا تطيب نفسي و يظهر بشري و إنما فارقني جبرئيل عليه السلام الساعة فقال يا محمد من صلي عليک من امتک صلاة کتب اﷲ له بها عشر حسنات و محي عنه عشر سيئات و رفعه بها عشر درجات و قال له الملک مثل ما قال لک قلت يا جبرئيل و ماذاک الملک؟ قال : إن اﷲ عزوجل وکل بک ملکا من لدن خلقک إلي أن يبعثک لا يصلي عليک أحد من أمتک إلا قال و أنت صلي اﷲ عليک.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۰۰، رقم : ۴۷۲۰

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۱

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۵، رقم، ۲۵۶۷

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا درانحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کے خدوخال خوشی کے باعث چمک رہے تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے اس سے پہلے آپ کو اس طرح خوشگوار اور پُرمسرت انداز میں کبھی نہیں دیکھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اتنا زیادہ خوش کیوں نہ ہوں؟ حالانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جبرئیل علیہ السلام مجھ سے رخصت ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے نامہ اعمال سے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتاہے اور فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے پر اسی طرح درود بھیجتا ہے جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں) میں نے پوچھا اے جبرئیل اس فرشتے کا کیا معاملہ ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اﷲ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے وقت سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک ایک فرشتے کی یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی امت میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے وہ اس کے جواب میں یہ کہے کہ (اے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے) اﷲ تجھ پر درود (بصورتِ رحمت) بھیجے۔‘‘

۲۵ (۵) عن ابن ربيعة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يقول من صلي عَلَيَّ صلاة لم تزل الملائکة تصلي عليه ما صلي عَلَيَّ فليقل عبد من ذلک أو ليکثر.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۴۴۵، ۴۴۶

۲. ابو يعلي، المسند، ۱۳ : ۱۵۴، رقم : ۷۱۹۶

۳. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۱، رقم : ۱۵۵۷

۴. ابن مبارک، الزهد، ۱ : ۳۶۴

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۲۷، رقم : ۲۵۷۶

’’حضرت ابن ربیعۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دورانِ خطاب یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے تو (اب امتی کے اختیار میں ہے) چاہے تو وہ مجھ پر کم درود بھیجے یا زیادہ۔‘‘

۲۶ (۶) عن عبداﷲ بن عمرو رضي الله عنه يقول : من صلي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاةً صلي اﷲ عليه وسلم و ملائکته سبعين صلاةً فليقل عبد من ذلک أو ليکثر.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۱۷۲، رقم : ۶۶۰۵

۲. منذري، لترغيب والترهيب، ۲ : ۳۵۲، رقم : ۲۵۶۶

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ درود وسلام بھیجتے ہیں پس اب بندہ کو اختیار ہے چاہے تو وہ اس سے کم یا زیادہ درود بھیجے۔‘‘

۲۷ (۷) عن عبدالرحمٰن بن عوف أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج عليهم يومًا و في وجهه البشر فقال إن جبريل جاء ني فقال ألا أبشرک يا محمد بما أعطاک اﷲ من أمتک و ما أعطي أمتک منک من صلي عليک منهم صلاة صلي اﷲ عليه و من سلم عليک سلم اﷲ عليه.

مقدسي، الاحاديث المختارة، ۳ : ۱۲۹، رقم : ۹۳۲

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور خوشی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے بے شک جبرئیل علیہ السلام نے میرے پاس آ کر مجھے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی چیز کے بارے میں خوشخبری نہ سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپکی امت کی طرف سے اور آپکی امت کو آپ کی طرف سے عطا کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲتعالیٰ اس پر درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اللہ اس پر سلام بھیجتا ہے۔‘‘

۲۸ (۸) عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ صلاةً صلي اﷲ عليه عشرًا.

۱. ابن ابي شيبة، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۷۰۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۶۳

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۲۹ (۹) عن أنس بن مالک قال : قال أبو طلحة رضي الله عنه : إِنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج عليهم يومًا يَعْرفُون البشر في وجهه، فقالوا : إنّا لنعرف في وجهک البشر قال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أجل، أتاني آت من ربي فأخبرني أنه لن يصلي عليَّ أحدٌ من أمتي، إلَّا ردَّها اﷲ عليه عشر أمثالها‘‘.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۱۲۱، رقم : ۱۵۶۱

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار نمایاں دیکھے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار نمایاں دیکھ رہے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! ابھی تھوڑی دیر پہلے جبرئیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اور مجھے یہ خبر دی کہ میری امت میں سے جب بھی کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اس پر اس درود کے بدلہ میں دس گنا درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۳۰ (۱۰) عن ابن ربيعة رضي الله عنه قال : قال : رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ صلاةً صلي اﷲ عليه عشرًا فأکثروا أو أقلوا.

ابونعيم، حلية الأوليا، ۱ : ۱۸

’’حضرت ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے (پس اب تمہیں اختیار ہے) کہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجو یا کم۔‘‘

فصل : ۴

المجلس الذي لم يصل فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يکون يوم القيامة حسرة علي أهله

(جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا گیا وہ قیامت کے دن ان اہل مجلس پر حسرت بن کر نازل ہو گی)

۳۱ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : ما جلس قوم مجلسًا لم يذکروا اﷲ فيه و لم يصلوا علي نبيهم صلي الله عليه وآله وسلم إلّا کان مجلسهم عليهم ترة فإن شاء عذبهم وإن شاء غفرلهم قال أبو عيسي هذا حديث حسن صحيح.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۴۶۱، کتاب الدعوات، باب في القوم يجلسون ولايذکرون اﷲ، رقم : ۳۳۸۰

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۲۶۳، رقم : ۹۹۰۷

۳. بيهقي، السنن الکبري، ۳ : ۲۱۰، رقم : ۵۵۶۳

۴. ابن مبارک، کتاب الزهد، ۱ : ۳۴۲، رقم : ۹۶۲

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۲۶۲، رقم : ۲۳۳۰

۶. عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۹۹، رقم : ۲۷۳۳

۷. اندلسي، تحفة المحتاج، ۱ : ۴۹۸، رقم : ۶۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر وہ مجلس جس میں لوگ جمع ہوں اور اس میں نہ تو اللہ کا ذکر کریں اور نہ ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں تو وہ مجلس قیامت کے دن ان کے لیے وبال ہو گی اور پھر اگر اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور چاہے تو ان کو معاف فرما دے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح حسن ہے۔‘‘

۳۲ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما اجتمع قوم في مجلسٍ فتفرقوا من غير ذکر اﷲ والصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان عليهم حسرة يوم القيامة‘‘.

۱. ابن حبان، الصحيح، ۲ : ۳۵۱، رقم : ۵۹۰

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۶۶۸، رقم : ۱۸۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب چند لوگ کسی مجلس میں جمع ہوتے ہیں پھر اس مجلس سے بغیر اللہ کا ذکر کیے اور بغیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں تو ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان کے لئے حسرت کاباعث ہو گی۔‘‘

۳۳ (۳) عن أبي أمامة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما من قوم جلسوا مجلساً ثم قاموا منه ولم يذکروا اﷲ ولم يصلوا علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان ذلک المجلس عليهم ترة.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۸ : ۱۸۱، رقم : ۷۷۵۱

۲. طبراني، مسند الشاميين، ۲ : ۴۶، رقم : ۹۹۵

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۸۰

۴. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۴۳۹

۵. حنبلي، جامع العلوم والحکم، ۱ : ۱۳۵

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی گروہ ایسا نہیں جو کسی مجلس میں بیٹھے پھر اس مجلس میں نہ تو اللہ کا ذکر کرئے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے مگر یہ کہ ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان پر حسرت بن کر نازل ہو گی۔‘‘

۳۴ (۴) عن أبي سعيد رضي الله عنه قال : ’’ما جلس قوم مجلسا لم يصلوا فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان عليهم حسرة و إن دخلوا الجنة‘‘.

۱. ابن جعد، المسند، ۱ : ۱۲۰، رقم : ۷۳۹

۲. حنبلي، جامع العلوم والحکم، ۱ : ۱۳۵

۳. ابن کثير، تفسير القرآن، ۳ : ۵۱۳

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بھی لوگ کسی (مجلس) میں بیٹھتے ہیں پھر اس مجلس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے بغیر اٹھ جاتے ہیں۔ تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت کا باعث ہو گی اگرچہ وہ جنت میں ہی داخل ہو جائیں۔‘‘

۳۵ (۵) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : ما قعد قوم مقعدًا لا يذکرون اﷲ عزوجل فيه ويصلون علي النبي إلاّ کان عليهم حسرة يوم القيامة وإن دخلوا الجنة للثواب.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۶۳، رقم : ۹۹۶۶

۲. ابن حبان، الصحيح، ۲ : ۳۵۲، رقم : ۵۸۱، ۵۹۲

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۷۹، باب ذکر الله تعالي في احوال کلها والصلوٰة والسلام علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۴. هيثمي، موارد الظمأن، ۱ : ۵۷۷، رقم : ۲۳۲۲

۵. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۲۷۳، رقم : ۲۳۳۱

۶. شيباني، کتاب الزهد لابن ابي عاصم، ۱ : ۲۷

۷. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۲۱۴

’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر وہ مجلس جس میں لوگ بیٹھے ہوں اس حال میں کہ نہ تو اللہ عزوجل کا ذکر کیا او رنہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجا تو قیامت کے روز ان کی یہ مجلس ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گی، اگرچہ وہ بوجہ ثواب جنت میں ہی کیوں نہ چلے جائیں۔‘‘

۳۶ (۶) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ماإجتمع قوم في مجلسٍ فتفرقوا ولم يذکروا اﷲ عزوجل ويصلوا علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان مجلسهم ترة عليهم يوم القيامة.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۴۶، رقم : ۹۷۶۳

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۶۶۸، رقم : ۱۸۱۰

۳. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۴۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی لوگ کسی مجلس میں جمع ہوتے ہیں (اس حال میں کہ) اللہ تعا لیٰ کا ذکر کیے بغیر اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجے بغیر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں، تو ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان کیلئے حسرت کا باعث ہو گی۔‘‘

۳۷ (۷) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما اجتمع قوم ثم تفرَّقُوا من غير ذکر اﷲ عزوجل و صلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا قاموا عن أنتن من جيفة.

۱. طيالسي، المسند، ۱ : ۲۴۲، رقم : ۱۷۵۶

۲. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۱۵۷۰

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کچھ لوگ کسی مجلس میں جمع ہوئے اور (اس مجلس میں) اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے بغیر منتشر ہوگئے تو گویا وہ (ایسے ہیں جو) مردار کی بدبو سے کھڑے ہوئے۔‘‘

فصل : ۳

من صلي علي واحدة صلي اﷲ عليه عشرا

(جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) درود بھیجتا ہے)

۲۱ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : من صلي عَلَيَّ واحِدَةً صلي اﷲ عليه عشرًا.

۱. مسلم، الصحيح، ۱ : ۳۰۶، کتاب الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، رقم : ۴۰۸

۲. ابو داؤد، السنن، ۲ : ۸۸، باب في الأستغفار، رقم : ۱۵۳۰

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۶۶، رقم : ۸۶۳۷

۴. نسائي، السنن الکبري، ۱ : ۳۸۴، رقم : ۱۲۱۹

۵. دارمي، السنن، ۲ : ۴۰۸، رقم : ۲۷۷۲، باب فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۶. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۷، رقم : ۹۰۶

۷. بخاري، الادب المفرد، ۱ : ۲۲۴، رقم : ۶۴۵

۸. ابو عوانه، المسند، ۱ : ۵۴۶، رقم : ۲۰۴۰

۹. بيهقي، شعب الإيمان، ۲ : ۲۰۹، رقم : ۱۵۵۳

۱۰. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۱ : ۳۹۷، رقم : ۱۵۶۹

۱۱. ابونعيم، المسند المستخرج، ۲ : ۳۱، رقم : ۹۰۶

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۲۲ (۲) عن شعبة عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي علي صلاة صلي اﷲ بها عشرا فليکثر علي عبدٌ من الصلاة أو ليقل.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۱، رقم : ۱۵۵۷

’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔ اب بندہ چاہے تو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے اور چاہے تو کم درود بھیجے۔‘‘

۲۳ (۳) عن أبي طلحة رضي الله عنه أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جاء يومًا و البشرُ يُري في وجهه، فقلنا : إنا لنري البشر في وجهک فقال صلي الله عليه وآله وسلم : إنه أتاني مَلَکٌ فقال : يا محمد، إنَّ ربک يقول : أما يُرضيک ألَّا يُصلِّي عليک أحدٌ من أُمِّتک، إلَّا صليت عليه عشرًا، ولا يُسلّم عليک إلّا سلمتُ عليه عشرًا‘‘.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۶۱۱، رقم : ۱۵۹۲۶

۲. نسائي، السنن الکبري، ۱ : ۳۸۰، رقم : ۱۲۰۵

۳. دارمي، السنن، ۲ : ۴۰۸، باب فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۲۷۷۳

۴. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۲ : ۴۵۶، رقم : ۳۵۷۵

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور خوشی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ایسی خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں (جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! ابھی میرے پاس جبرئیل امین تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب فرماتا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے تو میں اس کے بدلہ میں اس پر دس مرتبہ درود اور دس مرتبہ سلام (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہوں۔‘‘

۲۴ (۴) عن أبي طلحة رضي الله عنه قال دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و أسارير وجهه تبرق فقلت يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما رأيتک أطيب نفسًا و لا أظهر بشرا من يومک هذا قال و مالي لا تطيب نفسي و يظهر بشري و إنما فارقني جبرئيل عليه السلام الساعة فقال يا محمد من صلي عليک من امتک صلاة کتب اﷲ له بها عشر حسنات و محي عنه عشر سيئات و رفعه بها عشر درجات و قال له الملک مثل ما قال لک قلت يا جبرئيل و ماذاک الملک؟ قال : إن اﷲ عزوجل وکل بک ملکا من لدن خلقک إلي أن يبعثک لا يصلي عليک أحد من أمتک إلا قال و أنت صلي اﷲ عليک.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۰۰، رقم : ۴۷۲۰

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۱

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۵، رقم، ۲۵۶۷

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا درانحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کے خدوخال خوشی کے باعث چمک رہے تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے اس سے پہلے آپ کو اس طرح خوشگوار اور پُرمسرت انداز میں کبھی نہیں دیکھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اتنا زیادہ خوش کیوں نہ ہوں؟ حالانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جبرئیل علیہ السلام مجھ سے رخصت ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے نامہ اعمال سے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتاہے اور فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے پر اسی طرح درود بھیجتا ہے جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں) میں نے پوچھا اے جبرئیل اس فرشتے کا کیا معاملہ ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اﷲ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے وقت سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک ایک فرشتے کی یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی امت میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے وہ اس کے جواب میں یہ کہے کہ (اے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے) اﷲ تجھ پر درود (بصورتِ رحمت) بھیجے۔‘‘

۲۵ (۵) عن ابن ربيعة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يقول من صلي عَلَيَّ صلاة لم تزل الملائکة تصلي عليه ما صلي عَلَيَّ فليقل عبد من ذلک أو ليکثر.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۴۴۵، ۴۴۶

۲. ابو يعلي، المسند، ۱۳ : ۱۵۴، رقم : ۷۱۹۶

۳. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۱، رقم : ۱۵۵۷

۴. ابن مبارک، الزهد، ۱ : ۳۶۴

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۲۷، رقم : ۲۵۷۶

’’حضرت ابن ربیعۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دورانِ خطاب یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے تو (اب امتی کے اختیار میں ہے) چاہے تو وہ مجھ پر کم درود بھیجے یا زیادہ۔‘‘

۲۶ (۶) عن عبداﷲ بن عمرو رضي الله عنه يقول : من صلي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاةً صلي اﷲ عليه وسلم و ملائکته سبعين صلاةً فليقل عبد من ذلک أو ليکثر.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۱۷۲، رقم : ۶۶۰۵

۲. منذري، لترغيب والترهيب، ۲ : ۳۵۲، رقم : ۲۵۶۶

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ درود وسلام بھیجتے ہیں پس اب بندہ کو اختیار ہے چاہے تو وہ اس سے کم یا زیادہ درود بھیجے۔‘‘

۲۷ (۷) عن عبدالرحمٰن بن عوف أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج عليهم يومًا و في وجهه البشر فقال إن جبريل جاء ني فقال ألا أبشرک يا محمد بما أعطاک اﷲ من أمتک و ما أعطي أمتک منک من صلي عليک منهم صلاة صلي اﷲ عليه و من سلم عليک سلم اﷲ عليه.

مقدسي، الاحاديث المختارة، ۳ : ۱۲۹، رقم : ۹۳۲

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور خوشی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے بے شک جبرئیل علیہ السلام نے میرے پاس آ کر مجھے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی چیز کے بارے میں خوشخبری نہ سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپکی امت کی طرف سے اور آپکی امت کو آپ کی طرف سے عطا کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲتعالیٰ اس پر درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اللہ اس پر سلام بھیجتا ہے۔‘‘

۲۸ (۸) عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ صلاةً صلي اﷲ عليه عشرًا.

۱. ابن ابي شيبة، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۷۰۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۶۳

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۲۹ (۹) عن أنس بن مالک قال : قال أبو طلحة رضي الله عنه : إِنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج عليهم يومًا يَعْرفُون البشر في وجهه، فقالوا : إنّا لنعرف في وجهک البشر قال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أجل، أتاني آت من ربي فأخبرني أنه لن يصلي عليَّ أحدٌ من أمتي، إلَّا ردَّها اﷲ عليه عشر أمثالها‘‘.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۱۲۱، رقم : ۱۵۶۱

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار نمایاں دیکھے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار نمایاں دیکھ رہے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! ابھی تھوڑی دیر پہلے جبرئیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اور مجھے یہ خبر دی کہ میری امت میں سے جب بھی کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اس پر اس درود کے بدلہ میں دس گنا درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۳۰ (۱۰) عن ابن ربيعة رضي الله عنه قال : قال : رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ صلاةً صلي اﷲ عليه عشرًا فأکثروا أو أقلوا.

ابونعيم، حلية الأوليا، ۱ : ۱۸

’’حضرت ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے (پس اب تمہیں اختیار ہے) کہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجو یا کم۔‘‘

فصل : ۴

المجلس الذي لم يصل فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يکون يوم القيامة حسرة علي أهله

(جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا گیا وہ قیامت کے دن ان اہل مجلس پر حسرت بن کر نازل ہو گی)

۳۱ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : ما جلس قوم مجلسًا لم يذکروا اﷲ فيه و لم يصلوا علي نبيهم صلي الله عليه وآله وسلم إلّا کان مجلسهم عليهم ترة فإن شاء عذبهم وإن شاء غفرلهم قال أبو عيسي هذا حديث حسن صحيح.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۴۶۱، کتاب الدعوات، باب في القوم يجلسون ولايذکرون اﷲ، رقم : ۳۳۸۰

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۲۶۳، رقم : ۹۹۰۷

۳. بيهقي، السنن الکبري، ۳ : ۲۱۰، رقم : ۵۵۶۳

۴. ابن مبارک، کتاب الزهد، ۱ : ۳۴۲، رقم : ۹۶۲

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۲۶۲، رقم : ۲۳۳۰

۶. عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۹۹، رقم : ۲۷۳۳

۷. اندلسي، تحفة المحتاج، ۱ : ۴۹۸، رقم : ۶۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر وہ مجلس جس میں لوگ جمع ہوں اور اس میں نہ تو اللہ کا ذکر کریں اور نہ ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں تو وہ مجلس قیامت کے دن ان کے لیے وبال ہو گی اور پھر اگر اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور چاہے تو ان کو معاف فرما دے ابو عیسیٰ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح حسن ہے۔‘‘

۳۲ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما اجتمع قوم في مجلسٍ فتفرقوا من غير ذکر اﷲ والصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان عليهم حسرة يوم القيامة‘‘.

۱. ابن حبان، الصحيح، ۲ : ۳۵۱، رقم : ۵۹۰

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۶۶۸، رقم : ۱۸۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب چند لوگ کسی مجلس میں جمع ہوتے ہیں پھر اس مجلس سے بغیر اللہ کا ذکر کیے اور بغیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں تو ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان کے لئے حسرت کاباعث ہو گی۔‘‘

۳۳ (۳) عن أبي أمامة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما من قوم جلسوا مجلساً ثم قاموا منه ولم يذکروا اﷲ ولم يصلوا علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان ذلک المجلس عليهم ترة.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۸ : ۱۸۱، رقم : ۷۷۵۱

۲. طبراني، مسند الشاميين، ۲ : ۴۶، رقم : ۹۹۵

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۸۰

۴. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۴۳۹

۵. حنبلي، جامع العلوم والحکم، ۱ : ۱۳۵

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی گروہ ایسا نہیں جو کسی مجلس میں بیٹھے پھر اس مجلس میں نہ تو اللہ کا ذکر کرئے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے مگر یہ کہ ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان پر حسرت بن کر نازل ہو گی۔‘‘

۳۴ (۴) عن أبي سعيد رضي الله عنه قال : ’’ما جلس قوم مجلسا لم يصلوا فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان عليهم حسرة و إن دخلوا الجنة‘‘.

۱. ابن جعد، المسند، ۱ : ۱۲۰، رقم : ۷۳۹

۲. حنبلي، جامع العلوم والحکم، ۱ : ۱۳۵

۳. ابن کثير، تفسير القرآن، ۳ : ۵۱۳

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بھی لوگ کسی (مجلس) میں بیٹھتے ہیں پھر اس مجلس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے بغیر اٹھ جاتے ہیں۔ تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت کا باعث ہو گی اگرچہ وہ جنت میں ہی داخل ہو جائیں۔‘‘

۳۵ (۵) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : ما قعد قوم مقعدًا لا يذکرون اﷲ عزوجل فيه ويصلون علي النبي إلاّ کان عليهم حسرة يوم القيامة وإن دخلوا الجنة للثواب.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۶۳، رقم : ۹۹۶۶

۲. ابن حبان، الصحيح، ۲ : ۳۵۲، رقم : ۵۸۱، ۵۹۲

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۷۹، باب ذکر الله تعالي في احوال کلها والصلوٰة والسلام علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۴. هيثمي، موارد الظمأن، ۱ : ۵۷۷، رقم : ۲۳۲۲

۵. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۲۷۳، رقم : ۲۳۳۱

۶. شيباني، کتاب الزهد لابن ابي عاصم، ۱ : ۲۷

۷. صنعاني، سبل السلام، ۴ : ۲۱۴

’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر وہ مجلس جس میں لوگ بیٹھے ہوں اس حال میں کہ نہ تو اللہ عزوجل کا ذکر کیا او رنہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجا تو قیامت کے روز ان کی یہ مجلس ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گی، اگرچہ وہ بوجہ ثواب جنت میں ہی کیوں نہ چلے جائیں۔‘‘

۳۶ (۶) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ماإجتمع قوم في مجلسٍ فتفرقوا ولم يذکروا اﷲ عزوجل ويصلوا علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا کان مجلسهم ترة عليهم يوم القيامة.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۴۴۶، رقم : ۹۷۶۳

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۶۶۸، رقم : ۱۸۱۰

۳. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۴۱۰

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی لوگ کسی مجلس میں جمع ہوتے ہیں (اس حال میں کہ) اللہ تعا لیٰ کا ذکر کیے بغیر اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجے بغیر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں، تو ان کی یہ مجلس قیامت کے روز ان کیلئے حسرت کا باعث ہو گی۔‘‘

۳۷ (۷) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما اجتمع قوم ثم تفرَّقُوا من غير ذکر اﷲ عزوجل و صلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلا قاموا عن أنتن من جيفة.

۱. طيالسي، المسند، ۱ : ۲۴۲، رقم : ۱۷۵۶

۲. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۱۵۷۰

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کچھ لوگ کسی مجلس میں جمع ہوئے اور (اس مجلس میں) اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے بغیر منتشر ہوگئے تو گویا وہ (ایسے ہیں جو) مردار کی بدبو سے کھڑے ہوئے۔‘‘


4