خدا کا فخر
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
ان الله یباهی بالطائفین
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتےہیں :
”بلا شبہ خد اوند عالم طواف کرنے والوں پر فخر ومباھات کرتا ہے‘ ‘ ۔
طواف اور رہائی
عَنْ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
قَالَ:
فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً کَانَ لَکَ بِذَلِکَ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدٌ وَذِکْرٌ یَسْتَحْیُيمِنْکَ رَبُّکَ اٴَنْ یُعَذِّبَکَ بَعْدَهُ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم نے اللہ کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرلیا تو اس کے ذریعہ خدا وند عالم کے نزدیک تمھارا عھد اور ذکر ہے کہ خداوند عالم اس کے بعد تم پر عذاب کرنے سے شرم کرے گا“۔
زیادہ باتیں نہ کرو
قَال رَسُولُ اللّٰهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلٰوةٌ،فَإِذَا طُفْتُمْ فَاٴَقِلُّوا الْکَلاٰمَ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اللہ کے گھر کا طواف نماز کے مانند ہے پس جب تم طواف کرتےہو تو باتیں کم کرو “۔
طواف کا فلسفہ
قَال رَسُول اللّٰهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
إِنَّمَاجَعَلَ الطَّوٰافُ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ وَرَمْیُ الْجِمٰارِ لإِقٰامَةِ ذِکْرِ اللّٰهِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اللہ کے گھر کا طواف،صفاو مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات خدا کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئےہیں ‘ ‘۔
عمل میں نیت کی تاثیر
عَنْ زیاد القندی،قال:قُلْتُ لاٴبي الحسنعليهالسلام
:جُعِلْتُ فِداک إنّي اٴَکونُ في الْمَسْجِدِ الْحرامِ، وَاٴنْظُرُ اِلی النّاسِ یَطوفونَ بالبَیْتِ واٴنا قاعِدٌ فاغْتَمُّ لِذلکَ،فقال:
یَازِیَاُد لاٰ عَلَیْکَ فَإِنَّ الْمُوٴْمِنَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِهِ یَوٴُمُّ الْحَجَّ لاٰیَزَالُ فِي طَوَافٍ وَسعْيٍ حَتَّی یَرْجِعَ
زیاد قندی (جو ایک مفلوج آدمی تھا)کھتا ہے کہ :
”میں نے امام موسیٰ کاظمعليهالسلام
سے عرض کیا آپعليهالسلام
پر قربانهو جاوں میں کبھی مسجد الحرام میںهوتاہوں اوردیکھتاہوںکہ لوگ کعبہ کا طواف کررہےہیں اور میں بیٹھاہوں (طواف نھیں کر سکتا )اس پر میں غم زدہهو جاتاہوں امامعليهالسلام
نے
فرمایا:اے زیاد!تم پر کوئی ذمہ داری نھیں ہے (غمگین نہهو) بلاشبہ مومن جس وقت سے حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلتا ہے اس وقت سے ہمیشہ طواف اور سعی کی حالت میں ہے یھاں تک کہ اپنے گھر واپس چلاجائے “۔
انسانی تھذیب کی رعایت
عَنْ سَمَاعَة بْنِ مِهْرَانَ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِ
عليهالسلام
:سَاٴلْتَهُ عَنْ رَجُلٍ لي عَلَیْهِ مالٌ فغابَ عَنّي زَماناً فَرَاٴَیْتُهُ یَطوفُ حَولَ الْکَعْبَةَ اٴفاٴتَقاضاهُ مالِي؟قَالَ:لاٰ،لاٰ تُسَلِّمْ عَلَیْهِ وَلاٰ تُرَوِّعْهُ حَتَّی یَخْرُجَ مَنْ الْحَرَمِ
۔
سماعة ابن مھران کہتےہیں کہ:
”میں نے امام جعفرصادقعليهالسلام
سے پوچھا :ایک شخص میرا مقروض ہے اور میں نے ایک مدت سے اسے نھیں دیکھا پس اچانک میں اسے کعبہ کے اطراف میں دیکھتاہوں کیا میں اس سے اپنے مال کا تقاضہ کر سکتاہوں؟فرمایانھیں،حتی اسے سلام بھی نہ کرو اور اسے نہ ڈراویھاں تک کہ وہ حرم سے خارجهو جائے “۔
نماز ،مقام ابراہیمعليهالسلام
کے نزدیک
عَن رَسُولِ اللّٰهِ قال:
فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً لِلزِّیَارَةِ وَ صَلِّیْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ضَرَبَ مَلَکٌ کَرِیمٌ عَلَی کَتِفَیْکَ فَقَالَ اٴَمَّا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَکَ فَاسْتَاٴْنِفِ الْعَمَلَ فِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِشْرِینَ وَمِائَةِ یَوْمٍ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم خانہ کعبہ کے گرد زیارت کا طواف کر لیتےہو اور مقام ابراہیمعليهالسلام
کے نزدیک نماز طواف ادا کر لیتےہو تو ایک کریم وبزرگوار فرشتہ تمھارے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے :جو کچھ گزر گیا اور تم نے جو گناہ پھلے انجام دیئے تھے خدا وند عالم نے وہ سب بخش دیئے پس اس وقت سے ایک سو بیس دن تک (تم پاک وپاکیزہ رہو گے اب )نئے سرے سے اپنے عمل کا آغاز کرو“۔
امام حسینعليهالسلام
مقام ابراہیمعليهالسلام
کے پاس
رُئِیَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ،ثُمَّ صٰارَ اِلَی الْمَقٰامِ فَصَلّٰی،ثُمَّ وَضَعَ خَدَّهُ عَلَی الْمَقٰامِ فَجَعَلَ یَبْکی وَیَقُولُ: عُبَیْدُکَ بِبٰابِکَ، سَائِلُکَ بِبٰابِکَ، مِسْکینُکَ بِبٰابِکَ، یُرَدِّدُ ذٰلِکَ مِرٰاراً
۔
”لوگوں نے امام حسینعليهالسلام
کو دیکھا کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے اس کے بعدانھوں نے مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کی پھر اپنا چھرہ مقام ابراہیم پر رکھا اور روتےہوئے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے ! تیرا حقیر بندہ تیرے دروازہ پر ہے ،تیرا فقیر تیرے دروازہ پر ہے،تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ہے،اور آپعليهالسلام
ان جملوں کو باربار دھرا رہے تھے“۔
ہمراہیوں کی مدد
عن اِبراهیم الخثعَمي قال:قُلْتُ لاٴبي عبد الله
عليهالسلام
:إِنَّاإِذَا قَدِمْنَا مَکَّةَ ذَهَبَ اٴَصْحَابُنَا یَطُوفُونَ وَیَتْرُکُونِّي اٴَحْفَظُ مَتَاعَهُمْ قَالَ اٴَنْتَ اٴَعْظَمُهُمْ اٴَجْراً
۔
اسماعیل خثعمی کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادقعليهالسلام
سے عرض کیا :
”ھم جب مکہ میں واردهوئے تو ہمارے ساتھی مجھے اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر طواف کے لئے چلے گئے تاکہ میں ان کے سامان کی حفاظت کروں ،امامعليهالسلام
نے فرمایا: تمھارا ثواب ان سے زیادہ ہے“۔
آب زمزم ہر درد کی دوا
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَاءُ زَمْزَمَ دَوَاءٌ لِمَا شُرِبَ لَهُ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”زمزم کا پانی ہر اس درد کی دوا ہے جس کی نیت سے وہ پیا جائے “ ۔
زمین کا بہترین پانی
قَالَ اٴَمِیرُ الْمُوٴْمِنِینَعليهالسلام
:
مَاءُ زَمْزَمَ خَیْرُ مَاءٍ عَلَی وَجْهِ الْاٴَرْضِ
حضرت علیعليهالسلام
نے فرمایا:
”آب زمزم روئے زمین پر بہترین پانی ہے “۔
حجر اسماعیل
عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
الْحِجْرُ بَیْتُ إِسْمَاعِیلَ وَفِیهِ قَبْرُ هَاجَرَ وَقَبْرُ إِسْمَاعِیلَ
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”حجر ،جناب اسماعیلعليهالسلام
کاگھر ہے اور اس میں آپعليهالسلام
کی اور آپ کی والدہ جناب ہاجرہعليهالسلام
کی قبر ہے “۔
عن اٴبي عبد اللهعليهالسلام
قال:
إن إسماعیلعليهالسلام
تُوُفّي وَهُوَ اِبنُ مائَةَ وَثَلاثِینَ سَنَة وَدُفِنَ بِالحِجْر مَعَ اٴُمِّه
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جناب اسماعیلعليهالسلام
نے ایک سو تیس سال کے بعد وفات پائی اور اپنی والدہ کے ہمراہ حجر میں دفن کئے گئے “۔
حطیم
معاویہ ابن عمار کہتے ہیں:میں نے حطیم کے بارے میں امام جعفرصادق ںسے دریافت کیا :
فَقَالَ هُوَ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَبَیْنَ الْبَابِ
“۔
”آپعليهالسلام
نے فرمایا :یہ حجر اسود اوردر کعبہ کے درمیان ہے“ میں نے سوال کیا کہ اسے حطیم کیوں کہتےہیں ؟
فَقَالَ لِاٴَ نَّ النَّاسَ یَحْطِمُ بَعْضُهُمْ بِعْضاً هُنَاکَ
۔
”فرمایا :اس لئے کہ لوگ اس جگہ ایک دوسرے کو (کثرت جمعیت کی وجہ سے ) دباتےہیں “۔
ملتزم
قٰال رَسُول اللّٰهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقٰامِ مُلْتَزَمٌ مٰایَدْعُوا بِهِ صٰاحِبُ عٰاهَةٍ اِلاّٰ بَرِیٴَ( ۲)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”رکن حجر اسود اور مقام ابراہیمعليهالسلام
کے درمیان ملتزم ہے کوئی بھی بیماری اور مشکل میں مبتلا شخص وہاں دعا نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کی حاجت پوریهوتی ہے “۔
مستجار
قَالَ الصَّادِقُعليهالسلام
:
بَنیٰ إِبْراهِیمُ الْبَیْتَوَجَعَلَ لَهُ بَابَیْنِ بَابٌ إِلَی الْمَشْرِقِ وَ بَابٌ إِلَی الْمَغْرِبِ،وَالْبَابُ الَّذِي إِلَی الْمَغْرِبِ یُسَمَّی الْمُسْتَجَارَ
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جنا ب ابراہیم خلیل ںنے کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اس کے لئے دو دروازے بنائے،ایک در مشرق کی طرف ،اور ایک در مغرب کی طرف،جودر مغرب کی طرف ہے اسے مستجار کہتے ہیں‘ ‘۔
رکن یمانی
رَاٴَیْنٰاکَ تُکْثِرُ اِسْتِلاٰمَ الرُّکْنِ الْمَیٰانیِّ فَقَالَ: مٰا اَتَیْتُ عَلَیْهِ قَطُّ اِلاّٰ وَجَبْرَئیلُ قٰائِمٌ عِنْدَهُ یَسْتَغْفِرُ لِمَنْ اسْتَلَمَهُ
۔
عطا کہتےہیں :
” لوگوں نے حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کھا ہم بہت دیکھتےہیں کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
رکن یمانی کا بوسہ لے رہےہیں فرمایا:میں ہر گز رکن یمانی کے پاس نھیں آیا مگر یہ کہ میں نے دیکھاکہ جبرئیلعليهالسلام
وہاں کھڑےہیں اور جولوگ اسے چوم رہےہیں ان کے لئے مغفرت کی دعا کر رہےہیں “۔
سعی کی جگہ
عَنْ اٴَبِي بَصِیرٍ قَالَ:
سَمِعْتُ اٴَبَا عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
یَقُولُ:
مَا مِنْ بُقْعَةٍ اٴَحَبَّ إِلَی اللّٰهِ مِنَ الْمَسْعَیٰ لِاٴَنَّهُ یُذِلُّ فِیهَا کُلَّ جَبَّارٍ
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:”کوئی بھی جگہ خدا وند عالم کے نزدیک سعی کی جگہ سے محبوب اور پسندیدہ نھیں ہے کیونکہ وہاں ہر جبار وستم گر ذلیل خوارهوتا ہے “۔
مقبول شفاعت
قَالَ عَلِيُّبْنُ الْحُسَیْنِعليهالسلام
:
السَّاعِي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَشْفَعُ لَهُ
الْمَلاٰئِکَةُ فَتُشَفَّعُ فِیهِ بِالإِیجَابِ
امام زین العابدینعليهالسلام
فرماتےہیں :
”فرشتہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی(خدا سے) شفاعت طلب کرتےہیں اور ان کی دعا قبولهوتی ہے ‘ ‘ ۔
ھرولہ
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
صَارَ السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِاٴَنَّ إِبْرَاهِیمَ عَرَضَ لَهُ إِبْلِیسُ فَاٴَمَرَهُ جَبْرَئِیلُعليهالسلام
، فَشَدَّ عَلَیْهِ فَهَرَبَ مِنْهُ،فَجَرَتْ بِهِ السُّنَّةُ - یعنی بالْهَرْوَلَة -
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان سعی میں (ھرولہ)اس لئے ہے کہ ابلیس نے خود کو وہاں جناب ابراہیمعليهالسلام
پر ظاھر کیا اس وقت جبرئیلعليهالسلام
نے جناب ابراہیمعليهالسلام
کو شیطان پر حملہ کا حکم دیا آپعليهالسلام
نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگااس وجہ سے ہرولہ سنت بن گیا “۔
صفا ومروہ کے درمیان بیٹھنا
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
:
لاٰ یَجْلِسُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلاَّ مَنْ جَهَدَ
امام جعفرصادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان نہ بیٹھے مگر وہ شخص جو تھک جائے ‘ ‘ ۔
اہل عرفات پر فخر
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
”إنّ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ یُباهي مَلائِکَتَهُ عَشِیَّةَ عَرَفَة بِاَهْلِ عَرَفَةَ فَیَقُولُ:
اُنْظُرُوا اِلی عِبادي اٴتَوْني شُعْثاً غُبْراً“
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”بلا شبہ خدا وند عالم روز عرفہ کے عصر کے وقت اہل عرفات کے سلسلہ میں فرشوں سے فخر ومباھات کرتا ہے اور فرماتا ہے :میرے بندوں کو دیکھو جو پریشاں حال اور غبار آلود میرے پاس آئے ہیں“۔
مشعر الحرام
قال رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
: - وَهُوَ بِمنیٰ -:
”لَوْ یَعْلَمُ اَهْلُ الجَمْعَ بِمَنْ حَلُّوا اٴَوْبِمَنْ نَزَلُوا لاَ سْتَبْشَرُوا بالفَضْلِ مِنْ رَبِّهِمْ بَعْدَ المَغْفِرَةِ“
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
جب منیٰ میںتشریف فرماتھے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: ”اگر اہل مشعر جان لیتے کہ کس کی بارگاہ میں آئےہیں اور کس لئے آئےہیں تو مغفرت اور بخشش کے بعد خدا کے فضل کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے “۔
منیٰ
قال الصادقعليهالسلام
:
”إِذَا اٴَخَذَ النَّاسُ مَوَاطِنَهُمْ بِمِنًی،نَادَی مُنَادٍمِنْ قِبَلِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ:إِنْ اٴَرَدْتُمْ اٴَنْ اٴَرْضَی فَقَدْ رَضِیتُ“
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”جب لوگ منیٰ میں اپنی جگہ ٹھھر جاتےہیں تو منادی
خداوند عالم کی جانب سے ندا دیتا ہے اگر تم یہ چاھتے تھے کہ میں تم سے راضیهو جاوں تو میں تم سے راضیهو گیا “۔
شیطا ن کو کنکریاں مارنا
قالَ الصَّادِقُعليهالسلام
:
”إنَّ عِلَّةَ رَمْيِ الْجَمَراٰتِ اٴَنَّ إِبْراهِیمعليهالسلام
تَراء یٰ لَهُ إِبْلِیسُ عِنْدهٰا فَاٴمَرهُ جَبْرائیلُ بِرَمْیِه بِسَبعِ حَصَیاتٍ وَاٴَنْ یُکَبِّر مَعَ کُلِّ حَصَاةٍ فَفَعَلَ وَجَرَتْ بِذلِکَ السُّنَةِ“
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”ان جمرات کوکنکریاں مارنے کی وجہ یہ ہے کہ ابلیس وہاں پر حضرت ابراہیمعليهالسلام
کے سامنے ظاھرهوا اس وقت جبرئیلعليهالسلام
نے جناب ابراہیمعليهالسلام
کو حکم دیا کے سات کنکریوں سے شیطا ن کو ماریں اور ہر کنکری پر تکبیر بھی کہیں جناب ابراہیمعليهالسلام
نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد سے یہ سنت بن گئی“۔
قربانی
عن اٴبی جعفرعليهالسلام
قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
إِنَّمَا جَعَلَ اللّٰهُ هَذَا الْاٴَضْحَی لِتَشْبَعَ مَسَاکِینُهُمْ مِنَ اللَّحْمِ فَاٴَطْعِمُوهُمْ“
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتےہیں :
”کہ رسو ل خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :خدا وند عالم نے اس قربانی کو واجب قرار دیا ہے تاکہ بے نوا اور مسکین لوگ گوشت سے استفادہ کریں اور سیرهوں پس انھیں کھلاو “۔
مغفرت طلب کرنا
قال الصادقعليهالسلام
:
”اِسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰهِ لِلْمُحَلِّقِینَ ثَلاٰثَ مَرَّاتٍ“
امام جعفر صادقعليهالسلام
فرماتےہیں :
”کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں سر مڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ استغفار کیا (اور خدا سے ان کے لئے بخشش طلب کی)ھے“۔
حج کے اسرار
عالم جلیل سید عبد اللہ مرحوم محدث جزائری کے پوتوں سے نقل کرتےہوئے کتاب شرح نخبہ میں تحریر کرتےہیں :
متعدد ما خذ میں جن پر میری تائید ہے بعض بزرگوں کی تحریر میں یہ حدیث مرسل اس طرح نقلهوئی ہے کہ شبلی حج انجام دینے کے بعد امام زین العابدین ںکی زیارت کو آئے تو حضرتعليهالسلام
نے ان سے فرمایا:
حَجَجْتَ یَا شَبْلِیُّ؟
قَالَ:نَعَمْ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰهِ فَقَالَعليهالسلام
:اٴَنَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَاغْتَسَلْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِیَةِ وَلَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ؟ قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ ثِیَابِکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالنِّفَاقِ وَالدُّخُولِ فِي الشُّبُهَاتِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ اغْتَسَلْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَمَا نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَلاٰ اغْتَسَلْتَ،
اے شبلی! کیا تم نے حج کر لیا؟عرض کیا ہاں اے فرزند رسول خدا! فرمایا:کیا تم میقات میں ٹھھرے اور اپنے سلےہوئے لباس کو جسم سے اتار کر غسل کیا؟ شبلی نے جواب دیا، ہاں۔امام نے پوچھا جب تم میقات میںداخل ہوئے تو کیا یہ نیت کی کہ میں نے گناہ اور نافرمانی کا لباس اتار دیا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا لباس پہن لیا ہے ؟
شبلی: نھیں۔امام نے پوچھا:جب تم نے اپنا سلاہوا لباس اتارا تو کیا یہ نیت کی تھی کہ خود کو ریا ،دوروئی اور شبھات وغیرہ سے دور کر رہےہو ؟شبلی نھیں:
امامعليهالسلام
: غسل کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خود کو خطاوں اور گناہوں سے پاک کر رہےہو؟شبلی نھیں :
امامعليهالسلام
:(پس در حقیقت تم ) نہ میقات میں واردهوئے اور نہ تم نے سلاہوا لباس اتارا اور نہ غسل کیا ہے “۔
ثُمَّ قَالَ:تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَعَقَدْتَ بِالْحَجِّ، قَالَ:نعمقَالَ: فَحِینَ تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّهٰ تَعَالیَ؟قَالَ لاٰ،قَالَ:فَحِینَ اٴَحْرَمْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَیْرِ اللّٰهِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ لَهُعليهالسلام
:مَا تَنَظَّفْتَ وَلاٰاٴَحْرَمْتَ وَلاٰ عَقَدْتَ الْحَجَّ ،
”اس کے بعد امامعليهالسلام
اس سے پوچھتے ہیں، کیا تم نے خودکو پاک صاف کیا اور احرام پہنا اور حج کا عھد وپیمان کیا (یعنی حج کی نیت کی)شبلی: ہاں
امامعليهالسلام
: کیا تم یہ نیت کی تھی کہ خود کو خالص توبہ کے نور ہ سے پاکیزہ کر رہےہو؟شبلی :نھیں
امامعليهالسلام
:احرام باندھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جو کچھ خدا نے تمھیں کرنے سے روکا ہے اسے اپنے آپ پر حرام سمجھو؟شبلی:نھیں۔ امام: حج کا عھد کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے ہر غیر الٰھی عھد وپیمان سے خودکو رہا کر لیا ہے؟ شبلی: نھیں۔
امامعليهالسلام
:پھرتم نے احرام نھیں باندھا پاکیزہ نھیںهوئے اور حج کی نیت نھیںکی “۔
قَالَ لَهُ: اٴَدَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَصَلَّیْتَ رَکْعَتَيِ الْإِحْرَامِ وَلَبَّیْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بِنِیَّةِ الزِّیَارَةِ؟قَالَ:لاٰ
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ الرَّکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَقَرَّبْتَ إِلَی اللّٰهِ بِخَیْرِ الْاٴَعْمَالِ مِنَ الصَّلاٰةِ وَاٴَکْبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ؟ قَالَ:لا،
قَالَ:فَحِینَ لَبَّیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ نَطَقْتَ لِلّٰهِ سُبْحَانَهُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَصُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟ قَالَ:لاٰ ،
قَالَ لَهُعليهالسلام
: مَا دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ صَلَّیْتَ وَلاٰ لَبَّیْتَ،
”اس کے بعد امامعليهالسلام
نے پوچھا :کیا تم میقات میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز احرام ادا کی اور لبیک کھی ؟شبلی:ھاں۔
امامعليهالسلام
:میقات میں داخل ہوتے وقت کیا تم نے زیارت کی نیت کی؟ شبلی: نھیں۔
امامعليهالسلام
:کیا دو رکعت نماز پڑھتے وقت تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم بہترین اعمال اور بندوں کے بہترین حسنات یعنی نماز کے ذریعہ خدا سے قریبهو رہےہو؟شبلی: نھیں۔
امامعليهالسلام
:پس لبیک کہتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خدا کی خالص فرمانبر داری کی بات کر رہےہواور ہر معصیت سے خاموشی اختیار کر رہےہو؟شبلی: نھیں ۔
امامعليهالسلام
نے فرمایا:پھر نہ تم میقات میں داخل ہوئے نہ نماز پڑھی اور نہ لبیک کھی “۔
ثُمَّ قَالَ لَهُ:اٴَدَخَلْتَ الْحَرَمَ وَرَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَ وَصَلَّیُتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ :فَحِینَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ غَیْبَةٍ تَسْتَغِیبُهَا الْمُسْلِمِینَ مِنْ اٴَهْلِ مِلَّةِ الْإِسْلاٰمِ؟قَالَ:لاٰ
قَالَ فَحِینَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَیْتَ بِقَلْبِکَ اٴَنَّکَ قَصَدْتَ اللّٰهَ؟ قَالَ:لاٰ
قَالَعليهالسلام
:فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَلاٰ رَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَوَلاٰ صَلَّیْتَ،
”امامعليهالسلام
نے پھر پوچھا :کیا تم حرم میں داخل ہوئے، کعبہ کو دیکھا اور نماز ادا کی ؟شبلی :ھاں۔
امامعليهالسلام
:حرم میں داخل ہوتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ اسلامی معاشرہ کے مسلمانوں کی غیبت کو اپنے اوپر حرام کرتےہو ؟ شبلی: نھیں۔
امامعليهالسلام
:مکہ پہنچتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی کہ صرف خدا کو چاھتےہو ؟شبلی:نھیں۔
امامعليهالسلام
:پھر نہ تم حرم میں واردهوئے اور نہ کعبہ کا دیدار کیا اور نہ نماز ادا کی “۔
ثُمَّ قَالَ:طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَمَسَسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَسَعَیْتَ؟قَالَ:نَعَمْ
قَالَعليهالسلام
:فَحِینَ سَعَیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ هَرَبْتَ إِلَی اللّٰهِ وَعَرَفَ مِنْکَ ذٰلِکَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ؟قَالَ:لاٰ
قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَلاٰ مَسِسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَلاٰ سَعَیْتَ
”پھر امام نے پوچھا :کیا تم نے خانہ خدا کا طواف کیا ارکان کو مس کیا اور سعی انجام دی ؟شبلی :ھاں۔
امامعليهالسلام
:سعی کرتے وقت کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ شیطان اور اپنے نفس سے بھاگ کر خدا کی پناہ حاصل کرتےہواور وہ غیب سے سب سے زیادہ آگاہ ہے وہ اس بات کو جانتا ہے ؟ شبلی:نھیں۔
امامعليهالسلام
:پھر نہ تم نے خانہ خدا کاطواف کیا نہ ارکان مس کئے اور نہ سعی کی،
ثُمَّ قَالَ لَهُ:صَافَحْتَ الْحَجَرَوَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاهِیمَعليهالسلام
وَصَلَّیْتَ بِهَ رَکْعَتَیْنِ؟قَالَ:نَعَمْ فَصَاحَعليهالسلام
صَیْحَةً کَادَ یُفَارِقُ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ:آهِ آهِ
ثُمَّ قَالَعليهالسلام
:مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللّٰهَ تَعَالَی،فَانْظُرْ یَامِسْکِینُ لاٰ تُضَیِّعْ اٴَجْرَ مَا عَظُمَ حُرْمَتُهُ،وَتَنْقُضِ الْمُصَافَحَةَ بِالْمُخَالَفَةِ،وَقَبْضِ الْحَرَامٍ نَظِیرَ اٴَهْلِ الْآثَامِ
ثُمَّ قَالَعليهالسلام
:نَوَیْتَ حِینَ وَقَفْتَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَعليهالسلام
اٴَنَّکَ وَقَفْتَ عَلَی کُلِّ طَاعَةٍ وَتَخَلَّفْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟قَالَ:لاٰ
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ فِیهِ رَکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ صَلَّیْتَ بِصَلاٰةِ إِبْرَاهِیمَعليهالسلام
،وَاٴَرْغَمْتَ بِصَلاٰتِکَ اٴَنْفَ الشَّیْطَانِ؟قَالَ:لاٰ
قَالَ لَهُ:فَمَا صَافَحْتَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ وَلاٰ صَلَّیْتَ فِیهِ رَکْعَتَیْنِ
”امامعليهالسلام
نے دریافت فرمایا:کیا تم نے حج اسود سے مصافحہ کیا، مقام ابراہیمعليهالسلام
کے نزدیک کھڑےہوئے اوردو رکعت نماز ادا کی ؟شبلی: ہاں،
پس امامعليهالسلام
:نے فریا د بلند کی ایسا لگتا تھا کہ آپعليهالسلام
دنیا سے ہی کو چ کرجانے والےہیں اس کے بعد فرمایا :آہ ،آہ۔۔۔۔
پھر فرمایا :جو حجر اسود کو لمس کرے اس نے خدا سے مصافحہ کیا پس اے مسکین !دیکھ اس عظیم حرمت وعزت کو ضائع نہ کر اور مصافحہ کو مخالفت اور گناہکاروں کے مانند حرام کاری کے ذریعہ نہ توڑ اس کے بعد پوچھا : جب تم مقام ابراہیمعليهالسلام
کے نزدیک گئے تو کیا تمھاری نیت یہ تھی کہ خدا کے تمام احکام وفرامین کی پابندی اور ہر معصیت ونافرمانی کی مخالفت کرو گے؟شبلی :نھیں
امامعليهالسلام
:جب تم نے طواف کی دور کعت نماز ادا کی تو کیا یہ نیت تھی کہ تم نے جناب ابراہیم کے ہمراہ نماز پڑھی ہے اور شیطان کی ناک کو خاک پر رگڑدیاھے ؟شبلی:نھیں۔
امامعليهالسلام
:پھر درحقیقت نہ تم نے حجر اسود کا مصافحہ کیا نہ مقام ابراہیم کے پاس کھڑےہوئے اور نہ وہاں دو رکعت نماز اداکی ۔
ثُمَّ قَالَعليهالسلام
:لَهُ اٴَشْرَفْتَ عَلَی بِئْرِ زَمْزَمَ وَ شَرِبْتَ مِنْ مَائِهَا؟ قَالَ:نَعَمْ
قَالَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْرَفْتَ عَلَی الطَّاعَةِ، وَغَضَضْتَ طَرْفَکَ عَنِ الْمَعْصِیَةِقَالَ:لاٰ
قَالَعليهالسلام
:فَمَا اٴَشْرَفْتَ عَلَیْهَا وَلاٰ شَرِبْتَ مِنْ مَائِهَا
پھرامامعليهالسلام
نے پوچھا :کیا تم چاہ زمزم پر گئے اور اس کا پانی پیا؟ شبلی: ہاں
امامعليهالسلام
نے فرمایا :کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے خدا کی فرماں برداری حاصل کر لی اور اس کے گناہوں اور معصیت سے آنکھیں بند کر لی ہیں؟شبلی:
نھیں
امامعليهالسلام
نے فرمایا :پھر درحقیقت نہ تم چاہ زمزم پر گئے اور نہ اس کا پانی پیا ہے “۔
ثُمَّ قَالَ لَهُعليهالسلام
:اٴَسَعَیْتَ بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَةِ وَمَشَیْتَ وَتَرَدَّدْتَ بَیْنَهُمَا؟قَالَ:نَعَمْ
قَالَ لَهُ:نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بَیْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ؟ قَالَ:لاٰ
قَالَ:فَمَاسَعَیْتَ وَلاٰمَشَیْتَ وَلاٰتَرَدَّدْتَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ:اٴَخْرَجْتَ إِلٰی مِنیٰ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: نَوَیْتَ اٴَنَّکَ آمَنْتَ النَّاسَ مِنْ لِسَانِکَ وَقَلْبِکَ وَیَدِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا خَرَجْتَ إِلٰی مِنًی
ثُمَّ قَالَ:لَهُ اٴَوَقَفْتَ الْوَقْفَةَ بِعَرَفَةَ،وَطَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ، وَعَرَفْتَ وَادِيَ نَمِرَةَ،وَدَعَوْتَ اللّٰهَ سُبْحَانَهُ عِنْدَالْمِیْلِ وَالْجَمَرَاتِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:هَلْ عَرَفْتَ بِمَوْقِفِکَ بِعَرَفَةَمَعْرِفَةَ اللّٰهِ سُبْحَانَهُ اٴَمْرَ الْمَعَارِف وَالْعُلُومِ وَعَرَفْتَ قَبْضَ اللّٰهِ عَلٰی صَحِیفَتِکَ وَ اطِّلاٰعَهُ عَلَی سَرِیرَ تِکَ وَقَلْبِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ نَوَیْتَ بِطُلُوعِکَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ اٴَنَّ اللّٰهَ یَرْحَمُ کُلَّ مُوٴْمِنٍ وَ مُوٴْمِنَةٍ وَیَتَوَلَّی کُلَّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ: فَنَوَیْتَ عِنْدَ نَمِرَةَ اٴَنَّکَ لاٰ تَاٴْمُرُ حَتَّی تَاٴْتَمِرَ،وَلاٰ تَزْجُرُ حَتَّی تَنْزَجِرَ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَمَا وَقَفْتَ عِنْدَ الْعَلَمِ وَالنَّمِرَاتِ، نَوَیْتَ اٴَنَّهَا شَاهِدَةٌ لَکَ عَلَی الطَّاعَاتِ حَافِظَةٌ لَکَ مَعَ الْحَفَظَةِبِاٴَمْرِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا وَقَفْتَ بِعَرَفَةَ،وَلاٰ طَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ،وَلاٰ عَرَفْتَ نَمِرَةَ، وَلاٰدَعَوْتَ، وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ النَّمِرَاتِ
”پھرامامعليهالسلام
نے کیا تم نے دریافت کیا، صفاو مروہ کے درمیان سعی انجام دی اور پید ل ان دو پھاڑوں کے درمیان راہ طے کی ہے ؟ شبلی :ھاں
امامعليهالسلام
: کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خوف ورجاء کے درمیان راہ طے کر رہےہو؟شبلی:نھیں
امامعليهالسلام
:پس تم نے صفاو مروہ کے درمیان سعی نھیں کی پھر فرمایا کیا تم منیٰ کی طرف گئے ؟شبلی:ھاں
امامعليهالسلام
:کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ لوگوں کو اپنی زبان اپنے دل اور اپنے ہاتھوں سے امان میں رکھو؟شبلی :نھیں
امامعليهالسلام
:پھر تم منیٰ نھیں گئےہو۔ اس کے بعد پوچھا :کیا تم نے عرفات میں وقوف کیا اور جبل رحمت کے اوپر گئے اور وادی نمرہ کو پہچانااور جمرات کے کنارے خدا سے دعاکی ؟شبلی:ھاں
امامعليهالسلام
نے فرمایا:آیا عرفات میں وقوف کے وقت تمھیں معارف و علوم کے ذریعہ اللہ کی معرفتهوئی اور کیا تم نے جانا کہ اللہ تمھارے نامہ عمل کولے گا اور وہ تمھاری فکر و خیال سے آگاھی رکھتا ہے ؟شبلی:نھیں
امام :کیا جبل رحمت کے اوپر جاتے وقت تمھاری یہ نیت تھی کہ خداوند عالم ہر با ایمان مرد وزن پر رحمت نازل کرتا ہے اور ہر مسلمان مردوزن کی سرپرستی کرتا ہے ؟شبلی:نھیں
امام :آیا وادی نمرہ میں تم نے یہ خیال کیا کہ کوئی حکم نہ دو جب تک خود فرمانبردار نہهوجاواور نھی نہ کرو جب تک خود کو نہ روکو؟ شبلی:نھیں
جب تم نشان اور نمرہ کے نزدیک ٹھھرے تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ وہ تمھاری عبادات اور طاعت پر گوا ہهوں اور خداوندعالم کے نگھبانوں کے ہمراہ اس کے حکم سے تیری حفاظت کریں؟ شبلی:نھیں
حضرت نے فرمایا:پھر نہ تم عرفات میں ٹھھرے نہ جبل رحمت کے اوپر گئے نہ نمرہ کو پہچانا نہ دعا کی اور نہ نمرہ کے نزدیک وقوف کیاھے۔
ثُمَّ قَالَ:مَرَرْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَصَلَّیْتَ قَبْلَ مُرُورِکَ رَکْعَتَیْنِ،وَمَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَل َقَطْتَ فِیهَا الْحَصَی،وَمَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَحِینَ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،نَوَیْتَ اٴَنَّهَا صَلاٰةُ شُکْرٍ فِي لَیْلَةِ عَشْرٍ،تَنْفِی کُلَّ عُسْرٍ، وَتُیَسِّرُ کُلَّ یُسْرٍ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَامَشَیْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَلَمْ تَعْدِلْ عَنْهُمَا یَمِیناً وَشِمَالاً،نَوَیْتَ اٴَنْ لاٰ تَعْدِلَ عَنْ دِینِ الْحَقِّ یَمِیناً وَشِمَالاً،لاٰ بِقَلْبِکَ،وَلاٰ بِلِسَانِکَ،وَلاٰبِجَوَارِحِکَ، قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ وَلَقَطْتَ مِنْهَا الْحَصَی،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَفَعْتَ عَنْکَ کُلَّ مَعْصِیَةٍ،وَ جَهْلٍ،وَثَبَّتَّ کُلَّ عِلْمٍ وَعَمَلٍ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْعَرْتَ قَلْبَکَ إِشْعَارَ اٴَهْلِ التَّقْویٰ وَالْخَوْفَ لِلّٰهِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا مَرَرْتَ بِالْعَلَمَیْنِ،وَلاٰ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،وَلاٰ مَشَیْتَ بِالْمُزْدَلِفَةِ،وَلاٰ رَفَعْتَ مِنْهَا الْحَصَی،وَلاٰ مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
پھرامام نے پوچھا کہ کیا تم دونشانوں کے درمیان سے گذرے اور وہاں سے گذرنے سے پھلے دورکعت نماز اداکی اور پیدل مذدلفہ گئے اور وہاں کنکریاں چنیں اور مشعر الحرام سے گذرے؟شبلی:ھاں
امام نے فرمایا:جب دورکعت نماز اداکی تو کیا یہ نیت کی تھی کہ یہ نماز شب دھم کی نماز شکر ہے جو ہر سختی کو دور اور کاموں کو آسان کرتی ہے ؟ شبلی:نھیں
امام :جب تم دو نشانوں کے درمیان سے گذرے اور دائیں اور بائیں منحرف نھیںهوئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ دین حق سے دائیں اور بائیں نہ دل سے نہ زبان سے اور نہ اپنے اعضاء بدن سے منحرف نھیںهوئےہو؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مذدلفہ گئے اور وہاں سنگریزے جمع کئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ ہر گناہ اور جھالت کو خود سے دور کیاھے اور ہر علم و نیک عمل کو اپنے آپ میں پائےدار کیا ہے؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مشعر الحرام سے گذرے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ اپنے دل کو اہل خدا کے تصور اور خدا کے خوف سے آراستہ کرو؟شبلی:نھیں
امام :پھر نہ تم دو پھاڑوں کے درمیان سے گذرےہو، نہ دورکعت نماز ادا کی ہے ،نہ مذدلفہ گئےہو ،نہ سنگریزے چنے ہیںاور نہ مشعر الحرام سے گذرےہو“۔
ثُمَّ قَالَ لَهُ:وَصَلَّتَ مِنٰی،وَرَمَیْتَ الْجَمْرَةَ، وَحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَذَبَحْتَ هَدْیَکَ،وَصَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ،وَرَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ،وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِفَاضَةِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَنَوَیْتَ عِنْدَ مَا وصَلْتَ مِنًی وَرَمَیْتَ الْجِمَارَ،اٴَنَّکَ بَلَغْتَ إلَی مَطْلَبِکَ،وَقَدْ قَضَی رَبُّکَ لَکَ کُلَّ حَاجَتِکَ؟قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا رَمَیْتَ الْجِمَارَنَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَمَیْتَ عَدُوَّکَ إِبْلِیسَ وَغَضِبْتَهُ بِتَمَامِ حَجِّکَ النَّفِیسِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَاٴْسَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَطَهَّرْتَ مِنَ الْاٴَدْنَاسِ، وَمِنْ تَبِعَةِ بَنْی آدمَ،وَخَرَجْتَ مِنَ الذَّنُوبِ کَمَا وَلَدَتْکَ اٴُمُّکَ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا صَلِّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ لاٰ تَخَافُ إِلاَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ وَذَنْبَکَ،وَلاٰ تَرْجُو إِلاَّ رَحْمَةَ اللّٰهِ تَعَالیَ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا ذَبَحْتَ هَدْیَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ ذَبَحْتَ حَنْجَرَةَ الطَّمَع بِمَا تَمَسَّکْتَ بِهِ مِنْ حَقِِیقَةِالْوَرَعِ،وَاٴَنَّکَ اتَّبَعْتَ سُنَّةَ إِبرَاهِیمَ بِذَبْحِ وَلَدِهِ،وَثَمَرَةِ فُوٴَادِهِ وَرَیْحَانِ قَلْبِهِ،وَحاَجَّهُ سُنَّتُهُ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَقَرَّبَهُ إِلَی اللّٰهِ تَعَالیٰ؟لِمَنْ خَلْفَهُ قَالَ:لاٰ، قَالَ: فَعِنْدَمَا رَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَفِضْتَ مِنْ رَحْمَةِ ۱ للّٰهِ تَعَالَی،وَرَجَعْتَ إِلَی طَاعَتِهِ وَتَمَسَّکْتَ بِوُدِّهِ وَاٴَدَّیْتَ فَرَائِضه،وَتَقَرَّبَتَ إِلَی اللّٰهِ تَعَالیٰ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ: لَهُ زَیْنُ العابدینعليهالسلام
فَمَا وَصَلْتَ مِنًی وَلاٰرَمْیَتَ الْجِمَارَ،وَلاٰحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَلاٰ اٴَدَّیْتَ نُسُکَکَ،وَلاٰ صَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ، وَلاٰ طُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ،وَلاٰ تَقَرَّبْتَاْرجِعْ فَإِنَّکَ لَمْ تَحُجَّ
”پھر امامعليهالسلام
نے پوچھا کیا تم منیٰ پہنچے اور جمرہ کو کنکریاں ماری ،سر کے بال اتارے،اور اپنی قربانی انجام دی؟ نیز مسجد خیف میں نماز ادا کی ، اور مکہ واپس آکر ”طواف افاضہ انجام دیا “؟شبلی:ھاں
امامعليهالسلام
نے فرمایا:جب تم منیٰ پہنچے اور رمی جمرات انجام دی تو کیا یہ محسوس کیا کہ تمھاری تمنا پوریهو گئی اور خدا وند عالم نے تمھاری تمام حاجتیں پوری کردیں ؟شبلی:نھیں
امامعليهالسلام
:جب جمرات کو کنکریاں ماریں تو کیا یہ نیت تھی کہ اپنے دشمن ابلیس کو کنکری ماررہےہواور اپنے قیمتی حج کو مکمل کرنے کے ساتھ تم نے اسے غضب ناک کر دیا ہے؟شبلی:نھیں
امامعليهالسلام
:جب تم نے اپنے سر کے بال اتارے توکیایہ نیت کی تھی کہ بنی آدم کے گناہوں اور آلودگیوں سے پاکهو گئے اور اپنے گناہوں سے یوںباھر آگئے جیسے تمھیں تمھاری ماں نے ابھی پیدا کیا ہے؟ شبلی:نھیں
امامعليهالسلام
:جب تم نے مسجد خیف میں نماز ادا کی تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ خدا ئے متعال اور گناہوں کے علاوہ کسی چیز سے نھیں ڈرتے اور خدا کی رحمت کے علاوہ کسی اور سے امیدوار نھیںهو؟شبلی:نھیں
امامعليهالسلام
:جب تم نے اپنی قربانی کو ذبح کیا تو کیا یہ نیت تھی کہ حقیقی تقویٰ وپرہیز گاری کے ذریعہ تم نے اپنی لالچ کا گلا کاٹ دیا ہے اور جناب ابراہیمعليهالسلام
کہ جنھوں نے اپنے میوہ دل اور لخت جگر بیٹے کو قربان گاہ میں لا کر خدا سے قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اپنے بعد کی نسلوں کے لئے سنت کے طور پر قائم کیا تھا،ان کی پیروی کر رہےہو؟ شبلی: نھیں
امامعليهالسلام
:جب تم مکہ واپسهوئے اور ”طواف افاضہ“ انجام دیاتو کیا یہ نیت کی تھی کہ خدا کی رحمت سے کوچ کر کے اس کی اطاعت کی طرف پلٹ رہےہو،اس کی محبت حاصل کر لی ہے الٰھی واجبات ادا کئےہیں اور خدا سے نزدیکهو گئےہو؟ شبلی: نھیں
امام :پھر نہ تم منیٰ پہنچے ،نہ شیطانوں کوسنگریزے مارے ہیں،نہ اپنے سر کے بال اتارے ہیں،نہ اپنے حج کے اعمال انجام دیئے ہیں،نہ مسجد خیف میںنماز ادا کی ہے،نہ طواف بجا لائےہواور نہ خدا کے قرب میں پہنچےہوواپس جاو کہ تم نے حج انجام نھیں دیا ہے ۔
فَطَفِقَ الشِّبْلِیُّ یَبْکِی عَلَی مَافَرَّطَهُ فِي حَجِّهِ،وَمٰا زَالَ یَتَعَلَّمُ حَتَّی حَجَّ مِنْ قَابِلٍ بِمَعْرِفَةٍ وَیَقینٍ
۔
”جنا ب شبلی اس با ت پر بُری طرح رونے لگے کہ جیسا حج کرناچاہئے تھا انجام نھیں دیا اور مناسک حج آگاھی کے ساتھ ادا نھیں کئے آپ اپنی حالت پر شدت سے غم زدہ تھے اور اس کے بعد سے حج کے اسرار ومعارف یاد کرنے میں مشغولهو ئے تاکہ اگلے سال پوری شناخت اور یقین کے ساتھ حج بجالائےں“ ۔
ختم قرآن
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِعليهالسلام
:
تَسْبِیحَةٌ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ مِنْ خَرَاجِ الْعِرَاقَیْنِ یُنْفَقُ فِي سَبِیلِ اللّٰهِ، وَقَالَ:مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَکَّةَ لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَریٰ رَسُولَ اللّٰهِ وَیَریٰ مَنْزِلَهُ فِي الْجَنَّةِ
امام زین العابدینعليهالسلام
:نے فرمایا:
”مکہ میں سبحان اللہ کہنے کا ثواب عراق اور شام کے مالیات کو خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے بہتر ہے، نیز فرمایا:جو شخص مکہ میں ایک قرآن ختم کرے وہ اپنی موت سے پھلے حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زیارت کر لیتا ہے اور جنت میں اپنی جگہ کا مشاھدہ کر لیتا ہے “َ
کعبہ سے وداع
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِذَا اٴَرَدْتَ اٴَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَکَّةَ وَتَاٴْ تِيَ اٴَهْلَکَ فَوَدِّعِ الْبَیْتَ وَطُفْ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً
معاویہ ابن عمار کہتے ہیں-کہ امام جعفر صادق ں نے فرمایا:
”جب تم مکہ سے نکل کر اپنے گھر والوں کی طرف واپس آنا چاہوتو کعبہ سے وداع کرو اور سات مرتبہ اس کے گرد طواف کرو“۔
قبولیت کی نشانی
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
آیَةُ قَبُولِ الْحَجِّ تَرْکُ مَا کَانَ عَلَیْهِ الْعَبْدُ مُقِیماً مِنَ الذُّنُوبِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج کے قبولیت کی نشانی یہ ہے کہ جو گناہ بندہ پھلے انجام دیتا تھا اسے ترک کردے “۔
حج کی نورانیت
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
الْحَاجُّ لاٰ یَزَالُ عَلَیْهِ نُورُ الْحَجِّ مَا لَمْ یُلِمَّ بِذَنْبٍ
امام جعفرصادقعليهالسلام
فرمایا:
”حج کرنے والا جب تک اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہ کرے ، حج کا نورہمیشہ اس کے ساتھ رہتاھے“۔
دوبارہ آنے کی نیت
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَنْ اٴَرَادَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ هَذَا الْبَیْتَ،وَ مَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّةَ وَهُوَ یَنْوِي الْحَجَّ مِنْ قَابِلٍ زِیدَ فِي عُمُرِهِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا وآخرت چاھتا ہے وہ اس گھر کی طرف آنے کا قصد کرے اور جو شخص مکہ سے واپسهو اوریہ نیت رکھے کہ اگلے سال بھی حج سے مشرفهوگا تو اس کی عمر میںاضافہهوتا ہے ‘ ‘ ۔
حج کی تکمیل
قالَ الصادِقُعليهالسلام
:
”اِذاحَجَّ اَحَدُکُمْ فَلْیَخْتِمْ حَجَّهُ بِزِیارَتِنَا لِاٴَ نَّ ذٰلِکَ مِنْ تَمامِ الحَجِّ“
امام جعفر صادقعليهالسلام
اسماعیل ابن مھران سے فرماتےہیں :
”جب بھی تم میں سے کوئی شخص حج انجام دے اسے چاہئے کہ اپنے حج کو ہماری زیارت پر تمام کرے کیونکہ یہ حج کے کاملهونے کی شرطوں میں سے ہے “۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَنْ حَجَّ فَزٰارَ قَبْری بَعْدَ مَوْتی کَانَ کَمَنْ زٰارَنی في حَیٰاتِی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے میری زندگی میں میر ی زیارت کی ہے“۔
پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ حج
”عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِنَّ زِیٰارَةَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰهِ صلی الله علیه و آله و سلم تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ مَبْرُورَةً
امام محمد باقرعليهالسلام
فرماتےہیں :
”بلا شبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قبر کی زیارت (کاثواب) آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ کئے جانے والے ایک مقبول حج کے برابر ہے “۔
عاشقانہ زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَنْ جٰاءَ نی زٰائِراً لایَعْمَلُهُ حٰاجَةً اِلاّٰ زِیٰارَتی، کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُونَ لَهُ شَفیعاً یَوْمَ الْقِیٰامَةِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
”جو شخص میری زیارت کو آئے اور میری زیارت کے علاوہ کوئی اور کا م نہ کرے تو مجھ پر یہ حق ہے کہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں“ ۔
فرشتوعليهالسلام
کی ماموریت
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
خَلَقَ اللّٰهُ تَعَالیٰ لَیْ مَلَکَیْنِ یَرُدَّانِ السَّلاٰمَ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ مِنْ شَرْقِ البِلاٰدِ وَغَرْبِهٰا،اِلاّٰ مَنْ سَلَّمَ :
عَلَیَّ فی دٰاری فَاِنّی اَرُدُّ عَلَیْهِ السَّلاٰمَ بِنَفْسی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے میرے لئے دو فرشتے خلق فرمائےہیں کہ جو شخص بھی مشرق ومغرب میں مجھے سلام کرتا ہے اور مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ اس کا جواب دیتےہیں مگر جو شخص میرے گھر آتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے تو میں خودا س کے سلام کا جواب دیتاہو ں “۔
مسجد النبی میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
صَلاٰةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ عَشَرَةَ آلاٰ فِ صَلاٰةٍ فِيغَیْرِهِ مِنَ الْمَسَاجِدِإِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلاٰةَ فِیهِ تَعْدِلُ مِائَةَ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ہے سوائے مسجد الحرام کے کہ
اس میں پڑھی جانے والے نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے “۔
جنت کا باغ
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِصلىاللهعليهوآلهوسلم
:
مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ،وَمِنْبَرِي عَلَی تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کے اوپر ہے “۔
حضرت فاطمہعليهالسلام
پرسلام
یزید ابن عبد الملک نے اپنے باپ سے سنا کہ اس کے دادا کہتے تھے کہ میں حضرت فاطمہ زھراعليهالسلام
کی خدمت میں حاضرهواآپعليهالسلام
نے مجھے سلام کیا اور اس کے بعد دریافت کیاکہ تم کس لئے یھاں آئےہو؟میں نے عرض کی،برکت کی درخواست کرنے ۔
قَالَتْ:اٴَخْبَرَنِي اٴَبِي وَهُوَ ذَا هُوَ اٴَنَّهُ مَنْ سَلَّمَ عَلَیْهِ وَعَلَيَّ ثَلاٰثَهَ اٴَیَّامٍ اٴَوْجَبَ اللّٰهُ لَهُ الْجَنَّةَ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
”میرے بابا نے مجھے خبر دی ہے کہ :جوشخص انصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اور مجھ پرتین روز سلام کرے خدا وند عالم اس پر جنت واجب کردیتا ہے “۔
قُلْتُ لَهَا:فِي حَیَاتِهِ وَحَیَاتِکِ قَالَتْ نَعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنَا
۔
”میں نے حضرتعليهالسلام
سے پوچھا :ان کی اورآپعليهالسلام
کی حیات میں ؟ فرمایا: ہاں اور ہماری موت کے بعد بھی “۔
ائمہعليهالسلام
پر سلام
قََالَ اٴَبُو جَعْفَرٍعليهالسلام
،وَنَظَرَ النَّاسَ فِي الطَّوَافِ قَالَ:
اٴُمِرُوا اٴَنْ یَطُوفُوا بِهَذَا ثُمَّ یَاٴْتُونَافَیُعَرِّفوُنَا مَوَدَّتَهُمْ ثُمَّ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نَصْرَهُمْ“
امام محمد باقرعليهالسلام
نے،اس وقت جب کہ آپ لوگوں کوطواف کرتےہوئے دیکھ رہے تھے فرمایا:
”ان کو حکم دیا گیا ہے کہ یھاں (کعبہ کے گرد)طواف کریں اور اس کے بعد ہمارے پاس آئیں اور اپنی دوستی اور محبت و نصرت ومدد کا ہم سے اظھارکریں اوراسے ہمارے سامنے پیش کریں “۔
شھیدوں پر سلام
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
إِنَّ فَاطِمَةَ علیها السلام کَانَتْ تَاٴْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ فِي کُلِّ غَدَاةِ سَبْتٍ فَتَاٴْتِي قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَیْهِ وَتَسْتَغْفِرُ لَهُ
امام جعفرصادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا:ھر سنیچر کی صبح کوشھیدا کی قبروں پر آتیں پھر جناب حمزہ کی قبر پر آتی تھیں اور ان کے لئے رحمت وبخشش کی دعا کر تی تھیں “ ۔
ائمہعليهالسلام
کی زیارت
قَال الرضاعليهالسلام
:
إِنَّ لِکُلِّ اِمامٍ عَهْداً في عُنُقِ اَوْلِیائِهِ وَشِیعَتِهِ
وَاِنَّ مِنْ تَمامِ الوَفاءِ بالعَهْدِ وَحُسْنِ الاٴدءِ زِیارَةُ قُبُورِهِمْ فَمَنْ زارَهُم رَغْبَةً في زیارَتِهِمْ وَ تَصْدیقاً بِما رَغبوا فیهِ کانَ ا ٴَئِمَّتُهُم شُفَعائَهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ
امام علی رضاعليهالسلام
نے فرمایا:
”ھر امامعليهالسلام
کاعھدان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ہے کہ اس عھد کی مکمل وفا ان کی قبروں کی زیارت ہے پس جو شخص عشق و محبت کے ساتھ اور اس کی تصدیق کے ساتھ جس کی طرف وہ رغبت کرتےہیں ان کی قبروں کی زیارت کرے تو ان کے ائمہعليهالسلام
بھی قیامت میں اپنے ان زائروں کی شفاعت کریں گے “۔
مسجد قبا میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه و آله و سلم :
الصَّلاٰةُ فی مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”مسجد قبامیں نماز پڑھنا ایک عمرہ انجام دینے کے مانند ہے “۔
دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک
زَیْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق
عليهالسلام
،اٴَنَّهُ قَالَ:”یَا زَیْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِاٴَخْلاٰقِهِمْ صَلُّوافِي مَسَاجِدِ هِمْ وَعُودُوا مَرْضَاهُمْ وَاشْهَدُوا جَنَائِزَ هُمْ وَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ اٴَنْ تَکُونُوا الْاٴَ ئِمَّةَ وَالمُوٴَذِّنِینَ فَافْعَلُوا فَإِنَّکُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا هَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ رَحِمَ اللّٰهُ جَعْفَراً مَا کَانَ اٴَحْسَنَ مَا یُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَهُ وَإِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا هَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ فَعَلَ اللّٰهُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ اٴَسْوَاٴَ مَایُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَهُ
۔
”امام جعفر صادقعليهالسلام
نے زید شحّام سے فرمایا :اے زید!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ہماہنگ کرو ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کی مسجد وں میں نماز اداکرو،ان کے پیماروں کی عیا دت کرو،ان کے جنازوں کی تشییع میں حاضرهو،اور اگربن سکو تو ان کے امام جماعت یا موذن بنو۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ لوگ جعفری(حضرت جعفر بن محمد علیھما السلام کی پیروی کرنے والے )ھیں خدا وند عالم جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کی کیا اچھی تربیت کی ہے اور اگر ایسا نہ کروگے تو وہ لوگ کہیں گے کہ یہ جعفریہیں ،خداوند عالم جعفر (ره)کے ساتھ ایسا ویسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کی کیا بُری تربیت کی ہے!!“۔
حاجیوں کا استقبال
عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
قَالَ:
”کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِعليهالسلام
یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ یَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوهُمْ وَ عَظِّمُوهُمْ فَإِنَّ ذَلِکَ یَجِبُ عَلَیْکُمْ تُشَارِکُو هُمْ فِي الْاٴَجْرِ“
امام جعفر صادقعليهالسلام
نے فرمایا:
”حضرت علی بن الحسین علیھما السلام ہمیشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھیں گئےہو حاجیوں کے استقبال کے لئے جاو، ان سے مصافحہ کرو،اور ان کا حترام کرو کہ یہ تم پر واجب ہے اس طرح تم ان کے ثواب میں شریکهوگے “۔
حاجیوں کے اہل خانہ کی مدد کا ثواب
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِعليهالسلام
:مَنْ خَلَفَ حَاجّاً
فِی اٴَهْلِهِ وَمَالِهِ کاَنَ لَهُ کَاٴَجْرِهِ حَتَّی کَاٴَنَّهُ یَسْتَلِمُ الْاٴَحْجَارَ
امام زین العابدینعليهالسلام
نے فرمایا:
”جو شخص حاجی کی عدم موجودگی میں اس کے اہل خانہ اور اس کے مال کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسی حاجی کے ثواب کے مانند ہے یھاں تک کہ گویا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ دیا ہے “۔
مبارک ہو
عَنْ یَحْیَی بْنَ یَسَارٍ قَالَ:حَجَجْنَا فَمَرَرْنَا بِاٴَبِی عَبْدِ اللّٰهِعليهالسلام
فَقَالَ:
”حَاجُّ بَیْتِ اللّٰهِ وَزُوَّارُ قَبْرِ نَبِیِّةِ صلی الله علیه و آله و سلم وَشِیعَةُ آلِ مُحَمَّدٍعليهالسلام
هَنِیئاً لَکُمْ
یحییٰ بن یسار کہتےہیں :
”ھم نے حج انجام دینے کے بعد امام جعفر صادقعليهالسلام
سے ملاقات کی، حضرت نے فرمایا:اللہ کے گھر کے حاجی قبر پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زائر اور شیعہ آل محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
(هونا تمھیں )مبارک ہو“۔
____________________