میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53454
ڈاؤنلوڈ: 4448

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53454 / ڈاؤنلوڈ: 4448
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۱۷

( ۱) قضا و قدر

قرآن مجید:

( قل لن یصبنا الاما کتب الله لنا هو مولنٰا وعلی الله فلیتو کل المومنون ) (توبہ/ ۵۱)

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دیجئے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں پڑ سکتی مگر وہی جو خدا نے ہمارے لئے (ہماری تقدیر میں) لکھ دی ہے، وہی ہمارا مالک ہے اور ایمانداروں کو چاہئے کہ خدا ہی پر بھروسہ کریں۔

( ولکن لیقضی الله امرا کان مفعولا ) ۔ (انفال/ ۱۴۲)

ترجمہ۔ مگر اس لئے تاکہ اللہ تعالیٰ وہ بات پوری کر دکھائے جسے ہو کر رہنا ہے۔

( ما کان علی النبی من حرج………………………قوله امقدودا ) (احزاب/ ۳۸)

ترجمہ۔ جو حکم خدا نے پیغمبر پر فرض کردیا ہے اس کے کرنے میں اس پر کوئی مضائقہ نہیں، جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم تو (ٹھیک) انداز سے مقرر ہوا ہوتا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۷۵۳ ۔ (خدا کی حمد کرتے ہوئے فرمایا) اس کے حکم کا درجہ بلند ہے، چنانچہ اس نے (گنہگاروں سے) درگزر کیا اور اس کا ہر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱

۱۶۷۵۴ ۔ اس کا حکم فیصلہ کن، حکمت آمیز اور اس کی خوشنودی امان و رحمت ہے، وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم سے عفو و مغفرت کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰

۱۶۷۵۵ ۔ دو آدمیوں میں اس کا حق اسی وقت ہوتا ہے جب دوسرے پر بھی اس کا حق ہو۔ پہلے شخص پر اس کا حق جب ہی ہوتا ہے، جب دوسرے کا حق بھی اس پر ہو۔ اگر کسی کا حق دوسروں پر ہو لیکن اس پر کسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کے لئے ہی مخصوص ہے نہ کہ اس کی مخلوق کے لئے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلط و اقتدار رکھتا ہے۔ اس نے تمام ان چیزوں پر جن پر اس کے فرمانِ قضا جاری ہوئے ہیں عمل کرتے ہوئے (ہر صاحب حق کا) حق دے دیا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۶

۱۶۷۵۶ ۔ خداوند تعالیٰ کائنات کے امور کو اپنی رضا اور تقاضوں کے مطابق چلاتا ہے، ایسے نہیں جیسے تم چاہتے ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۴۳۲

۱۶۷۵۷ ۔ قضا اور قدر، دونوں خدا کی مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) التوحید ۳۶۴ حدیث اول

۱۶۷۵۸ ۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو اکٹھا فرمائے گا تو ان سے اپنے لئے ہوئے عہد و میثاق کے بارے میں سوال کرے گا، ان کے بارے میں اپنی قضا و قدر کے متعلق ان سے سوال نہیں کرے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) الدرة الباہرہ ص ۳۵

۱۶۷۵۹ ۔ اپنے اس مکتوب کے آخر میں فرماتے ہیں جو اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کے لئے صفین سے پلٹتے وقت مقام "حاضرین" پر تحریر فرمایا تھا: "میں تمہارے دین اور تمہاری دنیا کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں اور اس سے حال و مستقبل اور دنیا و آخرت میں تمہارے لئے بھلائی کے فیصلہ کا خواستگار ہوں والسلام"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

۱۶۷۶۰ ۔ اولیاء اللہ کی تعریف میں فرماتے ہیں "اگر ان پر مصیبتیں پڑتی ہیں تو (خدایا!) وہ تیرے دامن میں پناہ لینے کے لئے تجھ سے استخارہ کے ذریعہ ملتجی ہوتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ سب چیزوں کی باگ دوڑ تیرے ہاتھ میں ہے اور ان کے نفاذپذیر ہونے کی جگہیں تیرے ہی فیصلوں سے وابستہ ہیں"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۷

۱۶۷۶۱ ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کے بارے میں فرماتا ہے تو اس کی تقدیر متعین فرما دیتا ہے، تو پھر اسے پورا کرتا ہے اور پورا کر لیتا ہے تو اسے کر گزرتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ص ۱۲۱

قولِ مولف: شیخ صدوق رضوان اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

قضا و قدر کے بارے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے زرارہ کے جواب میں فرمایا تھا، جب زرارہ نے اس بارے میں آپ سے پوچھا تو فرمایا: "خداوند عز و جل جب بروز قیامت اپنے بندوں کو جمع کرے گا تو ان سے کئے گئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کرے گا ان کے بارے میں اپنی قضا و قدر کے متعلق سوال نہیں کرے گا۔"

نیز قدر کے بارے میں قیل و قال سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ کسی شخص نے حضرت امیر علیہ السلام سے قدر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "یہ ایک گہرا سمندر ہے اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرو۔" اس نے پھر یہی سوال دہرایا تو فرمایا: "یہ ایک خدائی راز ہے اس (کو کھولنے) کی کوشش نہ کرو۔"

امیرالمومنین علی علیہ السلام ہی قدر کے بارے میں فرماتے ہیں: "یاد رکھو کہ مقدر خدائی رازوں میں سے ایک راز ہےاعتقدات صدوق میں ہے "یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور خدائی پردوں میں سے ایک پردہ ہے‘ذ جیسا کہ بحار کے حاشیہ میں ہےخدائی ڈھالوں میں سے ایک ڈھال ہے، جواب الٰہی میں اسے اٹھایا ہوا ہے، مخلوقِ خدا سے اسے لپیٹا گیا ہے، خدائی مہر اس پر لگی ہوئی ہے، خدا کے علم میں پہلے سے موجود ہے، اللہ نے اس کا علم اپنے بندوں سے روک لیا ہے اور ان کی نگاہوں سے بہت بلند کر دیا ہے کیونکہ بندے اس تک ربانیت کی حقیقت، صمدانیت کی قدرت، نورانیت کی عظمت اور وحدانیت کی عزت کے ساتھ رسائی حاصل نہیں کر سکتے،

اس لئے کہ وہ ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو صرف خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے جس کی گہرائی آسمان و زمین کے درمیانی حصے کے برابر ہے، چوڑائی مشرق سے مغرب تک کے درمیانی جیسی ہے۔ تاریک رات کی مانند ہے جس میں بڑی تعداد میں سانپ اور بچھو ہوتے ہیں، مدوجزر کی طرح کبھی اوپر چلی جاتی ہے کبھی نیچے چلی آتی ہے۔ اس کی اتھاہ گہرائی میں سورج جگمگا رہا ہے جس کی اطلاع خدا کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اس سے مطلع ہونے کی کوشش کرے گا وہ خدائی احکام میں اس کے مدمقابل آنے کی کوشش کرے گا، اس کی سلطنت میں اس کے ساتھ تنازع کرنذے کی کوشش کرے گا۔ اس کے پردوں اور رازوں کو کھولنے کی کوشش کرے گا۔ وہ خدائی غضب کا حقدار بن جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔

روایت میں ہے کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام ایک ایسی دیوار کے پاس سے گزر رہے تھے جو گرنے والی تھی تو آپ ادھر سے ہٹ گئے۔ اس پر کسی نے کہا: "امیرالمومنین! آپ خدا کی قضا سے فرار کر رہے ہیں؟" فرمایا: "خدا کی قضا سے فرار کرکے اس کی قدر کی طرف جا رہا ہوں#‘ذ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے "افسوں" کے بارے میں سوال کیا گیا کہ، کیا یہ خدا کی قدر کو ٹال سکتا ہے؟ فرمایا: "یہ بھی تقدیر کا ایک حصہ ہے۔"

اس کلام کی تشریح کرتے ہوئے شیخ مغید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابو جعفر صدوق نے اس باب میں شاذ حدیثوں کا سہارا لیا ہے، کہ اگر وہ صحیح بھی ہوں اور ان کی اسناد بھی ثابت ہو جائیں تو ان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کو صرف علماء ہی جانتے ہیں، اس باے میں انہوں نے کوئی تفصیلی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ اگر وہ قضا کے معانی نہیں جانتے تھے تو اس بارے میں بات کو ہی رہنے دیتے، جبکہ قضا کے لغوی معنی مشہور ہیں اور قرآن مجید میں بھی اس کے شواہد موجود ہیں۔

چنانچہ "قضا" کی چار قسمیں ہیں۔ ۱ ۔ تخلیق ۲ ۔ حکم ۳ ۔ اعلان اور ۴ ۔ فیصلہ۔

۱ ۔ پہلے معنی کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔( فقضٰهن سبع سموٰات ) یعنی اس نے سات آسمان بنائے (حم سجدہ/ ۱۲)

۲ ۔ دوسرے معنی کے بارے میں فرماتا ہے:( وقضی ربک الاتعبدوه الا الاایاه ) تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا۔ (بنی اسرائیل/ ۲۳)

۳ ۔ تیسرے معنی کے بارے میں فرماتا ہے:( و قضینا الی بنی اسرائیل ) اور ہم نے بنی اسرائیل کو واضح طور پر) اعلان کے ساتھ بتا دیا۔ (بنی اسرائیل/ ۳)

۴ ۔ چوتھے معنی کے بارے میں فرماتا ہے:( والله لیقضی بالحق ) اللہ برحق فیصلے کرتا ہے (مومن/ ۲۰)

اسی طرح فرماتا ہے:( وقضی بینهم بالحق ) اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (زمر/ ۶۹)

البتہ اس کے پانچویں معنی بھی بتائے گئے ہیں اور وہ ہیں "پورا ہو جانا" اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کے اس قول کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ( قضی الامر الذی فیه تستفیان ) وہ بات پوری ہو گئی جس کے بارے میں تم دونوں دریافت کرتے تھے (یوسف ۴۱) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معنی کی بازگشت بھی پہلے معنی ہی کی طرف ہوتی ہے۔

ہماری مذکورہ تصریحات کی روشنی سے قضا کے جو معانی بنتے ہیں اس سے جبریہ کا یہ قول باطل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے معصیت اور گناہوں کو لازم قرار دے دیا ہے کیونکہ ان کا یہ نظریہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہے، وہ یہ کہ یا تو ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں اور معصیت کو اپنی مخلوق میں خلق فرمایا ہے۔ اس طرح ان کا نظریہ یہ ہو گا کہ اللہ نے اپنی مخلوق کی سرشت میں گناہوں کو رکھ دیا ہے نہ کہ مخحلوق کے لئے گناہ مقرر کئے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان کے اس نظریہ کو ان الفاظ میں مسترد کر دیا ہے کہ:( الله الذی احسن کلی شیٴ خلقه ) یعنی اللہ وہ (قادر مطلق) ہے جس نے جو چیز بنائی اس کے حسن کے ساتھ بنائی (السجدة/ ۷) اس سلسلے میں پہلے بھی گفتگو ہو چکی ہے۔

اسی طرح جبریہ کے اس عقیدہ میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ "اللہ نے بندوں کے لئے گناہ مقرر کر دیئے ہیں، اس معنی کے ساتھ انہیں ان کے بجا لانے کا حکم دیا ہے، اس لئے کہ خداوند عالم نے ان کے اس نظریہ کی بھی نفی کی ہے جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:( ان الله لا یامر الفحشاء اتقولون علی الله ما لا تعلمون ) اللہ تعالیٰ ہرگز برے کاموں کو حکم نہیں دیتا، کیا تم لوگ خدا پر نقرا کرکے وہ باتیں کہتے ہو جو نہیں جانتے ہو؟ (اعراف/ ۲۸)

اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ "گناہوں کے بارے میں قضا کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنی مخلوق کو گناہوں کی پہچان کرائی اور ان سے مطلع فرمایا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ مخلوق کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ لوگ مستقبل میں خدا کی اطاعت کریں گے یا معصیت؟ انہیں مستقبل کا تفصیلی علم نہیں تھا لہٰذا ان کا یہ قول بھی مبنی بر صداقت نہیں ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے نظریہ میں کوئی صداقت نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ گناہوں کے بارے میں قضا کا مطلب ہے کہ خدا نے بندوں کے درمیان گناہوں کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اس لئے کہ خدا کے فیصلے حق ہوتے ہیں اور گناہ بندوں کی طرف سے انجام پاتے ہیں، لہٰذا جو لوگ خدا کے بارے میں گناہوں کے ارتکاب حکم یا فیصلے کی نسبت دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور ان کے یہ نظریات باطل ہیں۔

مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں قضا و قدر کے بارے میں ہمارے نزدیک صحیح توجیہ یہ ہے کہ: ۱ ۔ مخلوق کے بارے میں بھی خدا کی قضا و قدر ہے۔ ۲ ۔ مخلوق کے افعال کے بارے میں بھی قضا و قدر ہے، اس معنی میں کہ اس نے مخلوق کے افعال کے بارے میں یہ مقدر کر دیا ہے کہ نیک اعمال کو بجا لائیں اور برے اعمال سے باز رہیں۔ ۳ ۔ خود بندوں کے بارے میں قضا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے انہیں نعمت وجود عطا کی ہے۔ ۴ ۔ خدا کی تقدیر کا مقصد ہے کہ اس کے افعال برمحل اور برحق ہیں اور بندوں کے افعال کے بارے میں اس کی تقدیر کا مطلب ہے اس نے بندوں کے افعال میں امر و نہی اور ثواب و عتاب کو مقدر کر دیا ہے، لہٰذا ہر فعل اپنے مقام پر واقع ہوتا ہے، پس خدا کا کوئی فعل باطل و عبث نہیں ہے۔

ہماری مذکورہ تشریح کے مطابق اگر قضا و قدر کی تفسیر کی جائے تو اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے تمام شکوک و شبہات زائل ہو جاتے ہیں، حجت اور دلیل ثابت ہو جاتی ہے، صاحبان عقل کے نزدیک اس بارے میں تمام صورتیں واضح ہو جاتی ہیں اور کسی قسم کا خلل و فساد بھی واقع نہیں ہوتا۔

رہی ان روایات کی بات جنہیں شیخ صدوق نے قضا و قدر کے بارے میں گفتگو سے باز رکھنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے تو اس بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ ان کی دو صورتیں ہیں۔

۱ ۔ اس قسم کی روایات کسی خاص قسم کے گروہ کے متعلق ہیں جسے قضا و قدر کے بارے میں گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ اس طرح کی گفتگو سے ان لوگوں کے بگڑ جانے اور دین سے گمراہ ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، مصلحت اس بات میں ہوتی ہے کہ وہ ایسی گفتگو سے اجتناب کریں اور قضاو قدر کی گہرائیوں میں نہ اتریں یہ نہی عمومی حکم کی حامل نہیں ہوتی کہ عام لوگ بھی اس بارے میں گفتگو نہ کریں، کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی چیز سے بعض لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے جبکہ اسی چیز سے بعض افراد گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ائمہ اطہار علیہم السلام نے اپنے شیعوں کے بارے میں درواندیشی اور تدبیر سے کام لیتے ہوئے وہ تدبیر اختیار کی ہے جس سے ان لوگوں کی بہتری، بھلائی اور فائدہ ہو۔

۲ ۔ قضا و قدر کے بارے میں مطلقاً گفتگو سے نہیں روکا گیا بلکہ خدا کی تخلیق، اس کے علل و اسباب، اس کے اوامرو فرمانبرداری کے بارے میں قیل و قال سے منع کیا گیا ہے، اس لئے کہ تخلیق اور اوامر الٰہی کے علل و اسباب کی تلاش جستجو اور طلب ممنوع ہے کیونکہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اکثر مخلوق سے پوشیدہ رکھا ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کسی شخص کو اس لئے بات کی اجازت نہیں کہ وہ خدا کی ہر ایک مخلوق کے لئے تفصیل سے وجہ تخلیق معلوم کرتا پھرے اور کہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو کیوں خلق فرمایا، فلاں کوکیوں پیدا کیا، فلاں چیز کی غرض تخلیق کیا ہے، وغیرہ وغیرہ کہ ہر ایک مخلوق کے بارے میں ایک ایک کرکے دریافت کرتا پھرے!

اسی طرح کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ فلاں، فلاں چیز کا حکم خدا نے کیوں دیا ہے، یعنی اس کے ہر ایک امر کے بارے میں سوالات کرے۔ یہی صورتِ حال اس کی طرف سے احکامِ الٰہیہ کی پابندی کی بجاآوری کے بارے میں بھی ہے، نیز امر و نہی کے بارے میں بھی، اس لئے کہ وہ اپنی مخلوق کی مصلحتوں کو خود ہی بہتر سمجھتا ہے، اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنی تخلیق، امر و نہی اور بندوں پر احکامِ الٰہیہ کی پابندی اور اس کی مصلحتوں سے تفصیلی طور پر مطلع نہیں فرمایا، البتہ اجمالی طور پر یہی بتایا ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو عبث و بے فائدہ پیدا نہیں کیا، بلکہ انہیں کسی نہ کسی حکمت و مصلحت کے خلق فرمایا ہے، قوتِ عاقلہ و قوتِ سامعہ کے ذریعہ ان کی راہنمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:( وما خلقنا السماء و الارض و ما بینهما لعبین ) اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور، جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے بیکار و لغو پیدا نہیں کیا (انبیاء/ ۱۶) ۔ نیز فرمایا ہے کہ:( افحبتم انما خلقنٰکم عبثا و اکم الینا لا ترجعون ) کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بیکار اور عبث پیدا کیا ہے اور تم ہمارے حضور میں لوٹ کر نہ آؤ گے؟" (مومنون/ ۱۱۵) اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے: "انا کل شی خلقنٰہ لقدر" ہم نے یقیناً ہر چیز ایک انداز سے پیدا کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے ہر چیز کو برحق پیدا کیا ہے اور جو جس کا مقام تھا اسے وہیں پر رکھا ہے۔ پھر فرماتا ہے:( وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ) اور میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں (ذاریات/ ۵۶) جبکہ فرائض کی پابندی کے ساتھ ادائیگی کے بارے میں اور اپنی عبادت کے سلسلے میں فرماتا ہے:( لن ینال الله لحو مها و لا دمائها ولکن یناله التقوی منکم ) خدا تک نہ تو ہرگز ان (قربانی کے جانوروں) کے گوشت اور نہ ہی ان کے خون پہنچیں گے، بلکہ اس تک صرف تمہاری پرہیزگاری ہی پہنچے گی۔ (حج/ ۳۷)

اس مقام پر ایک اور بات جو زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ مثلاً اللہ تعالیٰ نے کسی جانور کو اس دنیا میں خلق فرمایا ہے اور اس کے علم میں ہے کہ اس کی تخلیق کی وجہ سے کافر مومن ہو جائیں یا اسے دیکھ کر فاسق تائب ہو جائیں گے، یا مومن فائدہ اٹھائیں گے، یا پھر اس کی وجہ سے ظالم نصیحت حاصل کریں گے، یا یہ زمین یا آسمان میں کسی ایک فرد اور عبرت حاصل کرنے والے کے لئے باعث عبرت ہو گا۔ یہ سب کچھ ہم سے مخفی اور پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ ان تمام مصالح کو صرف خدا ہی بہتر جانتا ہے اور اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ہم تو صرف اجمالی طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جمیع مخلوق اور اس کی تمام مصنوعات کی غرضِ تخلیق حکمت پر مبنی ہے۔ نیز کسی چیز کو اس خالق اور صانع نے عبث وفضول و بیکار پیدا نہیں فرمایا۔

اسی طرح فرائض کی پابندی کے ساتھ ادائیگی کے بارے میں بھی ہم یہی کہیں گے۔ مثلاً نماز و روزہ وغیرہ جیسی عبادات کی بجاآوری اس لئے فرض کی گئی ہے کہ ان سے ہم اس کی اطاعت کا قرب حاصل کرتے ہیں اور معصیت سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عبادتِ الٰہی تمام یا بعض عبادت گزاروں کے لئے لطفِ خداوندی اور اس کے احسان و مہربانی کا موجب بنتی ہے۔

جب یہ تمام وجوہات اور علل و اسباب ہم سے مخفی ہیں اور ان کی تفصیلات کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہےاگرچہ صرف اسی قدر ہمیں معلوم ہے کہ تخلیق کائنات میں حکمت خداوندی ہی کارفرما ہےتو قضا و قدر کے بارے میں گفتگو کرنے سے نہی کا مطلب یہ ہو گا کہ مخلوق کے بارے میں اس کے تفصیلی علل و اسباب اور وجوہات پر گفتگو یا بحث کرنے سے نہی کی گئی ہے جبکہ مطلقاً قضا و قدر کے معنی کے بارے میں گفتگو کرنے سے نہی نہیں کی گئی، یہ بھی اس صورت میں ہے جب ابو جعفر صدوق کی ذکرکردہ اخبار و روایات صحیح ہوں، ا گر صحیح نہ ہوں یا ان کی اسناد مخدوش ہوں تو پھر ایسی صورت میں قضا و قدر کے بارے میں گفتگو سے نہی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔

ان تمام مذکورہ روایات میں صرف زرارہ کی حدیث صحیح معلوم ہوتی ہے جس کے معنی عقلمند پر مخفی نہیں ہیں، یہ حدیث "عدل" کے عقیدے کی تائید بھی کرتی ہے اور وہ روایت ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کی گئی ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: "جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو محشور فرمائے گا تو ان سے اپنے لئے ہوئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کرے گا، ان سے متعلق اپنی قضا و تقدیر کے متعلق سوال نہیں کرے گا" قرآن مجید نے بھی بتایا ہے کہ "مخلوق اپنے اعمال کی جوابدہ ہو گی۔"

یہاں شیخ مغید کی گفتگو ختم ہو جاتی ہے اور علامہ مجلسی فرماتے ہیں: "جو شخص بندہ کے مختار اور مجبرو ہونے، جبر و اختیار اور قضا و قدر کے بارے میں وارد ہونے والے شکوک و شبہات کے بارے میں غور و فکر کرے گا، تو اسے اس بارے میں معصوم کے نہی کرنے کا راز اور فلسفہ اچھی طرح معلوم ہو جائے گا، کیونکہ بہت کم ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جس شخص نے اس بارے میں گہری نظر سے کام لیا ہو اور اس کے قدم نہ ڈگمگائے ہوںسوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ کریم نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا ہو"(بحارالانوار جلد ۵ ص ۹۷ ص ۱۰۱ حدیث ۲۲ ۔ ۲۴)

علامہ طبا طبائی کی قضا کے بارے میں تفصیلی گفتگو

عالم اسلام کے مشہور مفسر علامہ طباطبائی قضا کے بارے میں تین پہلوؤں سے تفصیلی گفتگو کے ضمن میں فرماتے ہیں: " ۱ ۔ قضا کے معنی کیا ہیں اور اس کی کیا حدود ہیں؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ظاہری حوادث اور تکوینی اموراپنے اسباب و علل کے پیش نظردو حالتوں سے خالی نہیں ہیں۔ الف: وہ علل و اسباب کی تکمیل اور تمام رکاوٹوں کے برطرف ہونے سے پہلے ہوتے ہیں۔ ب: ان علل و اسباب کی تکمیل اور رکاٹوں کے برطرف ہو جانے کے بعد ہوتے ہیں۔ پس جو امور پہلے ہوتے ہیں ان کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ ان کا نہ تو معرضِ وجود میں آنا حتمی اور یقینی ہوتا ہے اور نہ ہی عدم وجود متعین اور یقینی ہوتا ہے، بلکہ ان کے "وجود" اور "عدم وجود" کی طرف نسبت یکساں ہوتی ہے، یعنی ممکن ہے کہ وجود میں آ جائیں اور ممکن ہے کہ وجود میں نہ آئیں۔

لیکن اسباب و علل کی تکمیل اور موانع کے برطرف ہونے کے بعد جو واقعات وجود میں آتے ہیں ان کے بارے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں اور وہ ابہام کی حالت پر باقی نہیں رہتے بلکہ ان کا وجود حتمی اور متعین ہو جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر اسباب موجود نہ ہوں یا کوئی رکاوٹ موجود ہو تو پھر اس کا "عدم وجود" حتمی اور یقینی ہوتا ہے۔

ہمارے ظاہر افعال بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جب تک ہم کسی کام کی ادائیگی کا اقدام نہیں کریں گے اور اسے نہیں کر گزریں گے، اس وقت تک وہ کام "وقوع" اور "لاوقوع"واقع ہونے اور واقع نہ ہونےکے درمیان معلق اور شک و تردد کی حالت پر باقی رہتا ہے۔ لیکن جب تمام اسباب اور وسائل مہیا ہو جائیں اور ہمارا ارادہ بھی حتمی ہو جائے، کسی قسم کی رکاوٹ کی وجہ سے کسی اور بات کا انتظار بھی باقی نہ رہے تو پھر "امکان" و "تردد" کے دونوں اطراف میں سے ایک یعنی وجود کی صورت عمل میں آ جاتی ہے اور ہم اس کام کو کر گزرتے ہیں۔

ہمارے ظاہری اعمال و افعال و واقعات کی طرح ہمارے اعتباری واقعات و اعمال و افعال کی کیفیت ہے۔ مثلاً جب کسی چیز کی ملکیت کے بارے میں دواشخاص یا دو فریضوں کے درمیان کوئی تنازع کھڑا ہو جاتا ہے اور ایک اس پر اپنا حق ملکیت جتاتا ہے تو اس چیز کی ملکیت دونوں فریقوں کے بارے میں "ممکن" اور "مشکوک" ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ اس کا فیصلہ کسی حاکم یا قاضی سے کرایا جائے اور وہ بھی کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے۔ یعنی دوسرے فریق کواس سے محروم کر دیتا ہے تو لازمی طور پر "امکان" و "شک‘ کی دونوں اطراف میں سے ایک کا خاتمہ ہو جاتا ہے، یعنی ایک فریق مالک اور دوسرا محروم ہو جاتا ہے۔ گویا ایک کے ساتھ متعین اور دوسرے سے منقطع ہوجاتا ہے،۔

بنا بریں اس قسم کے مواقع میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں پر "مجاز" کے معنی کو استعمال کیا گیا ہے کیونکہ "قولی تعیین"حاکم اور، قاضی کے فیصلےکی مانند "تعیین عملی" بھی ہے جو ظاہر میں تنازع کے فیصلے کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ہم "قضا"یا فیصلہکہتے ہیں۔

چونکہ اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے حالات اپنے وجود کے لحاظ سے ذات خداوند متعال سے متعلق بلکہ درحقیقت اسی کا فعل ہوتے ہیں اسی لئے یہ دونوں کیفیتیں یعنی "امکان" اور "تعیین" بھی ان میں واقع ہوتے ہیں، بایں معنی کہ ہر موجود اور ہر واقعہ جس کے بارے میں خدا یہ نہ چاہے کہ وہ کتم عدم سے منصہ شہود پر آئے اور وجود کی دولت سے مالا مال نہ ہو تو وہ اسی طرح "امکان" اور "تردد" کی حالت میں "وقوع" اور "لاوقوع" یا "وجود" اور "عدمِ وجود" کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔

لیکن جونہی وہ کسی کو عالمِ وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے لئے تمام علل و اسباب فراہم کر دیتا ہے اور اس سے ہر طرح کی رکاوٹیں برطرف کر دیتا ہے، پھر "موجود ہونے" کی حالت کے سوا اس کے لئے اور کسی قسم کا انتظار نہیں رہتا۔ پس اسے عدم سے وجود میں لے آتا ہے اور وہ "موجود" ہو جاتا ہے۔ اس طرح مشیت حق اور اس کی طرف سے علل و اسباب کی فراہم آوری ان دو اطراف میں سے ایک طرف کا تعین ہوتا ہے اور اسی کو "قضائے الہٰی" کہا جاتا ہے۔

بعینہ یہی دونوں کیفیتیں "تشریح" کے معاملے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مسائل شرعیہ میں بھی اللہ کے قطعی حکم کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔ اسے بھی "قضائے الٰہی" کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں قضائے تکوینی اور قضائے تشریحی دونوں کا ذکر ہے اور ہر دو کو قضا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قضائے تکوینی کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: "واذ اقضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون" جب کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو اس کے لئے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے (بقرہ/ ۱۱۷) نیز فرماتا ہے "فقضھن سبع سموٰات" پھر اس نےسات آسمان بنائے (حم سجدہ/ ۱۲) اسی طرح فرماتا ہے: "قضی الامر الذی تستفیٰن" جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے تھے وہ پورا ہو چکا (یوسف/ ۴۱) یا فرماتا ہے: "وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتٰب لتفسدن فی الارض مرتین" اور ہم نے بنی اسرائیل سے اسی کتاب (توریت) میں مقرر کر دیا تھا کہ تم لوگ روئے زمین پر دو مرتبہ فساد پھیلاؤ گے (بنی اسرائیل/ ۴)

اسی طرح قضائے تکوینی سے متعلق دوسری کئی آیات ہیں۔

قضائے تشریحی کے متعلق اشاد فرماتا ہے: "وقضی ربک الاتعبدوا الا ایاہ" یعنی تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا (بنی اسرائیل/ ۲۳) یا فرماتا ہے: "ان ربک لیقضی بینھد یوم القیمٰة فیما کانوافیہ یختلفون" اس میں شک نہیں کہ جن باتوں میں یہ (دنیا میں) باہم اختلاف کیا کرتے تھے قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کا فیصلہ کر دے گا (یونس/ ۹۳) اسی طرح فرماتا ہے( : وقضی بینهم بالحق و قیل الحمدالله رب العالمین ) اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا، اور یہی صدا بلند ہو گی الحمد للہ رب العالمین (زمر/ ۷۵) ، البتہ اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں "قضا" ایک لحاظ سے تشریحی ہے اور ایک لحاظ سے تکوینی ہے۔

پس جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں مذکورہ آیات کریمہ ان دونوں عقلی کیفیتوں کے صحیح ہونے کی تصدیق کر رہی ہیں، ظاہری موجودات کو خدا کے افعال ہونے کی حیثیت سے خدائی "قضا"فیصلہکا نام دیتی ہیں، اور ان کی شرعی احکام کی حیثیت سے ان کو خدا کے "تشریحی افعال" سے موسوم کرتی ہیں۔ نیز ہر حکم کو جو اس کی ذات کی طرف منسوب ہے "قضا" کہتی ہیں، اس طرح ان دونوں عقلی کیفیتوں کی تصدیق کر رہی ہیں۔

اسی طرح بہت سے دوسرے مقامات پر اسی قضا کو "حکم" اور "قول" سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، البتہ اس صورت میں کئی دیگر وجوہات بھی کارفرما ہیں۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے: "الالہ الحکمہ" آگاہ رہو حکمفیصلہخاص اسی (خدا) کا ہی ہے (انعام / ۶۲) یا فرماتا ہے:( والله یحکم لا معقب لحکمه ) اور خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ اس کے حکم کا کوئی ٹالنے والا نہیں (رعد/ ۴۱) اسی طرح قول کے بارے میں ہے کہ( ما یبدل القول لدی ) میرے نزدیک قول بدلا نہیں جا سکتا (ق/ ۲۹) اور فرماتا ہے( والحق اقول ) اور میں کہتا ہوں (ص/ ۸۴)

۲ ۔ قضا کے معنی میں فلسفی نظریہ

اس میں شک نہیں ہے کہ "غلیت اور معلولیت" کا قانون اپنی جگہ پر اٹل اور ناقابل تردید ہے اور ہر موجود ممکن خداوندِ سبحان کا معلوم ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ معلول یا تو بلاواسطہ ہے یا پھر کئی واسطوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ جب معلول کو اپنی علت تامہ کی طرف نسبت دی جائے گی تو وہ اس علت کے لحاظ سے ضروری اور واجب بن جائے گااگرچہ وہ بذات خود امکان کی نسبت کا حامل ہوتا ہےاس لئے کہ جب تک کوئی موجود "واجب" نہیں ہو گا اس وقت تک "موجود" نہیں کہلا سکتا۔ لیکن اگر معلول کو اس علت کی طرف نسبت نہ دیں اور اس سے اس کا تقابل نہ کریں تو وہ صرف امکان ہی کی حد تک محدود رہے گا۔ اس کے علاوہ اسے اور کوئی نسبت نہیں دی جائے گی۔ خواہ وہ بذاتِ خود کسی اور چیز سے تقابل کے بغیر دیکھا جائے، جیسے ممکنہ کیفیتیں ہوتی ہیں، یا اس کی علت کے بعض اجزا سے اس کا تقابل کیا جائے۔ دونوں صورتوں میں "ممکن" ہی ہو گا۔ کیونکہ جب تک ا س کی علت کے تمام اجزا موجود نہ ہوں اس وقت تک وہ "واجب" نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ موجود ہو گا تو اس یقیناً اس کی علت کے اجزا مکمل اور اس کی علت "علت تامہ" کہلائے گی، اور یہ چیز اس فرض کے خلاف ہوگی۔

چونکہ "ضرورت" اور "وجوب"، "امکان" کے دو اطراف میں سے ایک طرف کے متعین ہونے کا نام ہے لہٰذا یہ بات ناگزیر ہو جاتی ہے کہ تمام ممکنات کے لئے وجوب اور ضرورت خداوند عالم کی طرف سے ایک "عمومی قضا" کہلائے گی، اس لئے کہ یہ ضرورت خداوند تعالیٰ کی طرف منسوب ہے اور اسی نسبت کے لحاظ سے سلسلہ ممکنات کے لئے خدا کی عمومی قضا کہلائے گی۔ نیز ہر موجودات کے ساتھ "ضرورت" خداوند متعال کی "قضائے خصوصی" ہو گی کیونکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ قضا سے مراد "امکان" اور "ابہام" کے دو اطراف میں سے ایک کا تعین ہے۔

اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ "قضا" کی صفت جو صفاتِ خداوادی میں سے ایک ہے، اس کی صفت ذاتی نہیں بلکہ صفتِ فعلی ہے کیونکہ ہم بتا چکے ہیں کہ یہ افعال خداوندی موجودات عالم سے ہے اور اس کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے جو کہ علت تامہ ہے اس سے جدا ہو سکتی ہے۔

۔ روایات کے لحاظ سے قضا کے معنی

ہمارے مذکورہ معنی کی تائید میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ جن میں سے ایک وہ روایت بھی ہے جو برقی نے اپنی کتاب "محاسن" میں اپنے والد سے نقل کی ہے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے اور انہوں نے ہشام بن سائم سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

"خداوند عالم جب کسی چیز کو ایجاد کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے مقدر فرماتا ہے، مقدر کرنے کے بعد اس کی قضا متعین کرتا ہے، جب قضا متعین کر لی جاتی ہے تو پھر اس کا اجرا فرماتا ہے"(محاسن برقی ص ۲۴۳)

اسی طرح برقی ہی نے محاسن میں اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے اور انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہی کہ: امام ابوالحسن علیہ السلام نے علی بن یقطین کے آزادکردہ غلام یونس سے فرمایا: "یونس! قدر کے مسئلہ کو نہ چھیڑو!" اس نے عرض کیا: "میں نے اس بارے میں زیادہ تو کچھ نہیں صرف اتنا کہا ہے کہ: صرف وہی چیز ہی وجود میں آتی ہے جس کا خدا ارادہ فرماتا ہے، اور اس کے ساتھ اس کی مشیت بھی کارفرما ہوتی ہے، قضا کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے اور تقدیر کا بھی تعلق ہوتا ہے"

امام نے فرمایا: "میں اس بات کا قائل نہیں ہوں، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی چیز اس وقت تک معرض وجود میں نہیں آتی جب تک کہ پہلے خدا کی مشیت میں نہ ہو، مشیت کے بعد اس کا ارادہ ہوتا ہے، ارادے کے بعد تقدیر متعین ہوتی ہے اور چوتھے مرحلے میں قضا کا تعلق ہوتا ہے۔"

پھر فرمایا: ’کیا تم جانتے ہو کہ "مشیت" سے کیا مراد ہے؟" عرض کیا: "نہیں!" فرمایا: "کسی کام کا عزم کر لینا مشیت کہلاتا ہے۔" پھر فرمایا: "جانتے ہو کہ "ارادہ" کا کیا مقصد ہے؟" عرض کیا: "نہیں جانتا۔" فرمایا: "اسی چیز کو اپنی مشیت کے مطابق مکمل کرنا!" پھر فرمایا: "معلوم ہے کہ "قدر" کیا ہوتی ہے؟" عرض کیا: "معلوم نہیں ہے!" فرمایا: "خدا کی قدرتقدیروہ ہندسہ ہے جس میں طول، عرض اور بقا کی مدت متعین کی جاتی ہے۔" پھر فرمایا: "جب خداوند عالم کسی چیز کو چاہتا ہے تو پہلے اس کا ارادہ کرتا ہے، پھر اس کی تقدیر متعین کرتا ہے، اس کے بعد اس کی قضا کو عمل میں لاتا ہے اور اس کی نوعیت کو واضح فرماتا ہے اور جب سب کچھ ہو جاتا ہے تو پھر اسے اجرا کے مرحلہ میں لے آتا ہے۔" (محاسن برقی ص ۲۴۴)

ایک اور روایت میں یونس کے ذریعہ آنجناب ہی سے نقل ہے کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "کوئی چیز اس وقت تک معرضِ وجود میں نہیں آتی جب تک اس کے بارے میں خدا کی مشیت، ارادہ قدر اور قضا واقع نہ ہو۔" میں نے عرض کیا: "مشیت کے کیا معنی ہیں؟" فرمایا: "ہر کام کی ابتدا" میں نے پھر پوچھا: "ارادہ کا کیا مطلب ہے؟" فرمایا: "اسے پایہ ثبوت تک پہنچانا۔" میں نے کہا: "قدر کیا ہوتی ہے؟" فرمایا: "اسی چیز کے طول و عرض کے خدوخال متعین کرنا۔" میں نے پھر عرض کیا: "قضا کیا ہوتی ہے؟" فرمایا: "اگر مشیت، ارادے اور قدر کے بعد اس پر قضا کو جاری کرتا ہے تو اسے اجرا کے مرحلے میں لے آتا ہے اور وہ چیز اپنا وجود اختیار کر لیتی ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔" (محاسن برقی ص ۲۴۴)

شیخ صدوق کی کتاب "التوحید" میں دقاق سے، انہوں نے کھینی سے، انہوں نے ابن ابی عامر سے اور انہوں نے معلیٰ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: امام علیہ السلام سے کسی نے پوچھا "خدا کا علم کس طرح کا ہوتا ہے؟" فرمایا: "خدا پہلے جانتا ہے پھر اس کی مشیت کا اس سے تعلق ہو جاتا ہے، پھر وہ ارادہ کرتا ہے، چوتھے مرحلے پر اس کی تقدیر متعین کرتا اور پھر قضا کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اسے کر گزرتا ہے۔ پس خداوند عالم اسی چیز کا اصرار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کی قضا ہوتی ہے اور اسی چیز کی قضا مقرر کرتا ہے جس کے بارے میں اس کی تقدیر مقرر کر دیتا ہے اور اسی چیز کو مقدر کرتا ہے جس کے بارے میں اس کاارادہ ہوتا ہے۔

لہٰذا اللہ کی مشیت اس کے علم کے ساتھ، اس کا ارادہ اس کی مشیت کے ساتھ، اس کی تقدیر اس کے ارادے کے ساتھ، اس کی (؟) کی تقدیر کے ساتھ اور اس کا اجرا اس کی قضا کے ساتھ مل کر عمل میں آتے ہیں۔"

نتیجة علم الٰہی کا مرتبہ مشیت پر مقدم ہوتا ہے اور مشیت دوسرے مرتبہ میں لیکن ارادے پر مقدم ہوتی ہے جبکہ ارادہ تیسرے مرتبہ پر لیکن تقدیر سے مقدم ہوتا ہے اور تقدیر، اجرأ کے ذریعہ قضا کو عمل میں لاتی ہے۔" (توحید صدوق ص ۳۳۴ حدیث ۹)

پس جب تک قضائے الٰہی اجرا کے مرحلہ تک نہیں پہنچتی اس وقت تک "بدا" کی منزلوں میں رہتی ہے، اور ایسی منزلوں میں یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ ایک چیز خدا کے علم، مشیت، ارادے اور تقدیر سے تو تعلق حاصل کر چکی ہو لیکن اجراء کے مرحلے تک نہ پہنچے اور خدا اسے معرض وجود میں نہ لے آئے، لیکن اگر اجرا، قضا کے مرحلے تک پہنچ جائے تو پھر "بدا" نہیں ہوتی۔

مذکورہ ترتیب جو کہ روایات میں بیان کی گئی ہے اور مشیت کو علم، اور ارادے کو مشیت پر اسی طرح ہر ایک کو دوسرے پر ترتیب کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے یہ عقلی ترتیب ہے، اس لئے کہ عقل اس کے علاوہ ترتیب کو صحیح نہیں جانتی۔

اس کتاب (التوحید) میں اسناد کے ساتھ نباتہ سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک ایسی دیوار کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے جو گرنے لگی تھی۔ کسی شخص نے کہا: "امیرالمومنین! آپ خدا کی قضا سے بھاگ رہے ہیں؟" فرمایا: "ہاں! خدا کی قضا سے فرار کرکے اس کی قدر کی طرف جا رہا ہوں۔"

مفسرالمیزان فرماتے ہیں: چونکہ خدا کی "قدر" اس کی تقدیر کو حتمی نہیں بناتی، اور ا س بات کا احتمال ہوتا ہے کہ تقدیر، واقع نہ ہو، لیکن قضائے الٰہی، اپنے تقاضوں تک پہنچ کر رہتی ہے، اس سے کوئی راہِ چارہ نہیں ہوتی، اور اس بارے میں "آئمہ اہل بیت" علیہم السلام سے وارد ہونے والی روایات بکثرت ملتی ہیں، (المیزان جلد ۱۳ ص ۷۲ تا ص ۷۵)

( ۲) انسان کیلئے قضا و قدر

۱۶۷۶۲ ۔ نطفہ کے شکم میں ٹھہر جانے کے چالیس دن بعد ایک فرشتہ اس کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے: "پروردگار! کیا لکھوں؟ بدبخت یا نیک؟ نر یا مادہ؟" حکمِ الٰہی کے مطابق وہ نیک یا بدبخت اور نر یا مادہ لکھ دیتا ہے، اسی طرح اس کے عمل، اثرات، مصیبت، رزق اور اجل۔ مدت زندگی کے بارے میں لکھ دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۵۲۲

۱۶۷۶۳ ۔ انسان کی رحم میں تکمیل کے بارے میں فرمایا: "جب شکم مادر میں بچے کے چار مہینے مکمل ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دو خلاق فرشتوں کو بھیجتا ہے جو عرض کرتے ہیں: "پروردگارا! اسے کیا پیدا کرنا چاہتا ہے، نر یا مادہ؟" پس جو حکم ملتا ہے (وہ لکھ دیتے ہیں) پھر پوچھتے ہیں: "پروردگارا! شقی (بدبخت) یا سعید (نیک بخت)؟ " پھر جو حکم ملتا ہے (لکھ دیتے ہیں)۔ اس کے بعد عرض کرتے ہیں: "خداوندا! اس کی اجل و رزق کیا ہونا چاہئیں؟" اس کے ہر قسم کے حالات اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتے ہیں اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میثاق کو لکھ دیتے ہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۶ ص ۱۳ حدیث ۳

۱۶۷۶۴ ۔ پھر دونوں فرشتوں کی طرف سے وحی ہوتی ہے: "اس کے لئے میری قضا و قدر اور میرے امر کا نفاذ لکھ دو بلکہ میری طرف سے "بدا" کو بھی مشروط کر دو۔" وہ عرض کرتے ہیں: "خداوندا! ہم کیا لکھیں؟" اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی فرماتا ہے: "تم دونوں اپنا سر اس کی ماں کے سر کی طرف اٹھاؤ۔ جب وہ اپنا سر اوپر اٹھاتے ہیں تو اس کی ماں کی پیشانی کے ساتھ ایک لوح کو لگتا ہوا دیکھتے ہیں جس میں ا س کی صورت، زینت، اجل اور میثاق کو لکھا دیکھتے ہیں، نیز یہ کہ وہ سعید ہے یا شقی، یہ بھی اس میں تحریر ہوتا ہے اسی طرح دوسرے تمام متعلقہ امور مکتوب ہوتے ہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۶ ص ۱۴ حدیث ۴

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: کافی جلد ۶ ص ۱۲ باب "انسانی تخلیق کی ابتداء"

نیز عنوان "سعادت" اور عنوان "بدبختی"

( ۳) اللہ کا ارادہ اور قضا

قرآن مجید

( وما تشآء ون…………………………علیما حکیما ) ۔ (دہر/ ۳۰)

ترجمہ۔ اور تم تو کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو اللہ چاہتا ہے۔ بے شک اللہ بڑا واقف کار، صاحبِ حکمت ہے۔

( وما تشآ ء ون ……………………………رب العالمین ) (تکویر/ ۲۹)

ترجمہ۔ اور تم تو کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو عالمین کا پروردگار اللہ چاہتا ہے۔

( ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیرو اما بانفسهم ) ۔ (رعد/ ۱۱)

ترجمہ۔ جو کسی قوم کو حاصل ہو جب تک لوگ خود اپنی حالت میں تغیر نہ ڈالیں، اللہ ہرگز تغیر نہیں ڈالتا۔

حدیث شریف

۱۶۷۶۵ ۔ خداوند عالم فرماتا ہے: "جب کسی آبادی میں رہنے والے یا کسی گھر کے مکین یا کسی گاؤں میں مقیم کوئی شخص معصیت پر قائم رہتا ہے جسے میں پسند نہیں کرتا، پھر وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرکے میری اطاعت کی طرف پلٹ آتا ہے جو مجھے محبوب ہے، تو میں بھی اسے اپنے عذاب سے پلٹا لیتا ہوں جو اسے ناپسند ہوتا ہے اور اپنی رحمت کی طرف لے آتا ہوں جو اسے محبوب ہوتی ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۴۱۶۶

۱۶۷۶۶ ۔ جیسے تم ہو گے ویسے ہی لوگ تم پر حکمرانی کریں گے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۷۲

۱۶۷۶۷ ۔ جب خداوند عالم کسی قوم کو خراب کرنا چاہتا ہے تو اس کے تمام امور ان کے دولتمندوں کے سپرد کر دیتا ہے

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۷۳

۱۶۷۶۸ ۔ اصحابِ رسول کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جب خداوندِ عالم نے ہماری (نیتوں کی) سچائی دیکھ لی، تو اس نے ہمارے دشمنوں کو رسوا ارو ذلیل کیا اور ہماری نصرت و تائید فرمائی یہاں تک کہ پختگی سے سینہ ٹیک کر اپنی جگہ پر جم گیا اور اپنی منزل پر برقرار ہو گیا،

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۵۶ ۔ شرح ابن ابی الحدید جلد ۴ ص ۳۳

۱۶۷۶۹ ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے سچے صبر کو دیکھ لیا تو ہمارے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا اور ہماری نصرت فرمائی۔

(حضرت علی علیہ السلام)، نہج السعاذدہ جلد ۲ ص ۲۵۹

۱۶۷۷۰ ۔ جب مدائن کے کھنڈرات کے قریب سے گزرے تو فرمایا: "یہاں کے رہنے والے لوگ ایک زمانہ میں اس جگہ کے مالک تھے لیکن اب دوسرے لوگ ان کے مالک ہیں، ان لوگوں نے خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھ لیا تھا جس کے نتیجے میں ان پر عذاب نازل ہوا لہٰذا تم ہرگز حرام کو حلال نہ سمجھنا ورنہ تم پر بھی عذاب نازل ہو گا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) کنزالعمال حدیث ۴۴۲۲۸

۱۶۷۷۱ ۔ مارقین کے فتنے کو کچلنے کے بعد فرمایا: ’؟’اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے اور اپنی نصرت و حمایت کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی ہے۔ لہٰذا اب تم فوراً دشمن کا رخ کرو اور اس کی طرف چل پڑو۔"

یہ سن کر ساتھیوں نے کہا: "یاامیرالمومنین! ہماری تلواریں کند ہو چکی ہیں، تیر ختم ہو چکے ہیں، نیزوں کی انیاں ٹوٹ چکی ہیں، لہٰذا اجازت دیں تاکہ ہم اچھی طرح تیاری کر لیں!" اس پر آپ نے فرمایا: "یقوم ادخلوا الارض المقدسة التی کتب اللہ لکم ولا ترتدوا علی ادبار کم فتنقلبوا خٰسرین" یعنی اے میری قوم اس مقدس زمین میں جاؤ جہاں خدا نے تمہاری تقدیر میں (حکومت) لکھ دی ہے، اور (دشمن کے مقابلے میں) پیٹھ نہ کرو۔ اس میں تم خود الٹا گھاٹا اٹھاؤ گے (مائدہ/ ۲۱)

(حضرت علی علیہ السلام) نہج السعادہ جلد ۲ ص ۴۲۰

۱۶۷۷۲ ۔ خدا کی قسم! مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ (معاویہ کی) قوم تم پر اس وجہ سے غالب نہ آ جائے کہ وہ تو اپنی سرزمین میں اصلاح کئے ہوئے ہے، جبکہ تم نے اپنی سرزمین پر فساد برپا کیا ہوا ہے۔ وہ امانتوں کو ادا کرتی ہے جبکہ تم امانتوں میں خیانت کرتے ہو، وہ اپنے پیشوا کی اطاعت کرتی ہے جبکہ تم اپنے امام کی نافرمانی کرتے ہو، وہ باطل پر مجتمع ہے اور تم حق پر اکٹھے نہیں ہو۔

(حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام) نہج السعادہ جلد ۲ ص ۵۸۰

۱۶۷۷۳ ۔ میں تو اس (معاویہ کی) قوم کو تم پر غالب آتے دیکھ رہا ہوںمیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اجتماعیت کی صوت میں رہ رہے ہیں اور تم پراگندہ و منتشر ہو۔ وہ اپنے پیشوا کی اطاعت کر رہے ہیں اور تم میری نافرمانی کر رہے ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج السعادہ جلد ۲ ص ۵۸۵

قولِ مولف: نہج السعادہ جلد ۲ ۲۰ کا تمام خطبہ ملاحظہ ہو۔

۱۶۷۷۴ ۔ "خبردار! میری یہ بات یاد رکھو کہ میرے بعد تم مصیبتوں اور آزمائشوں سے ہمیشہ دوچار رہو گے کہ حتیٰ کہ میرے چاہنے والے اور تابعدار اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان پرندے کے بچے سے بھی زیادہ ناتواں و رسوا ہوں گے!" آپ سے پوچھا گیا: "اس کی کیا وجہ ہو گی؟" فرمایا: "یہ سب تمہارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہو گا۔ تم دین کے معاملہ میں پستی پر راضی ہو جاؤ گے لیکن جس وقت ظالم رہنماؤں سے ظلم و جور عام ہو جائے، تم میں سے کوئی شخص کمر ہمت باندھ کر اپنی جان خدا کے ہاتھوں بیچ دے اور جہاد کے ذریعے اپنا حق حاصل کر لے تو دینِ خداوندی استوار اور پائیدار ہو جائے گا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج السعادہ جلد ۳ ص ۲۹۸

۱۶۷۷۵ ۔ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جان کو پیدا کیا، پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانا آسان ہے لیکن اختلاف کا ہٹانامشکل ہے۔ لہٰذا جب لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے تو مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ان پر بجو بھی جھپٹ پڑیں تو ان پر غالب آ جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) کنزالعمال حدیث ۳۱۴۵۲

۱۶۷۷۶ ۔ یہاں تک کہ جب حکم قضا نے مصیبت کا زمانہ ختم کر دیا تو انہوں نے بصیرت کے ساتھ تلواریں اٹھا لیں اور اپنے ہادی کے حکم سے اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے لگے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۰

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو! باب "قدر"، بحارالانوار جلد ۵ ص ۸۴ باب ۳

نیز باب "فساد"

اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے جو قضا مقرر کی ہے وہ اس کے لئے بہتر ہے

۱۶۷۷۷ ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ساتھ راز و نیاز کی باتوں میں فرمایا: "اے موسیٰ! میں نے اپنی کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو مجھے مومن بندے سے بڑھ کر محبوب ہو۔ میں نے اس کی بہتر سے بہتر چیزوں کے لئے آزمائش کی ہے، میں اپنے مومن بندے کی مصلحتوں سے واقف ہوں۔ اسے چاہئے کہ میری آزمائشوں پر صبر کرے، میری نعمتوں کا شکر کرے اور میری قضا پر راضی رہے، تو میں اسے اپنے "صدیقین" میں لکھ دوں گا۔"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۸۲ ص ۳۰ ة حدیث ۱۰

۱۶۷۷۸ ۔ ایک دن آپ اس قدر ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ پھر فرمایا: ’تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟" لوگوں نے عرض کیا: "یارسول اللہ! ارشاد فرمائیے!" فرمایا: "مجھے اس مسلمان شخص پر تعجب ہوا ہے جس کے بارے میں اللہ جو بھی قضا مقرر فرماتا ہے وہ اس کے انجام کے لئے بہتر ہی ہوتی ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) امالی صدوق ص ۴۳۹ حدیث ۱۵

۱۶۷۷۹ ۔ اللہ تعالیٰ کی ہر قضا میں مومن کے لئے سراسر بہتری ہوتی ہے۔

(رسول اکرم) عیون اخبار الرضا جلد اول ص ۱۴۱ حدیث ۴۲

۱۶۷۸۰ ۔ اللہ تعالیٰ کی قضا میں مومن کے لئے ہر طرح کی بہتری ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) التمیحص ص ۵۸ حدیث ۱۱۸

۱۶۷۸۱ ۔ مجھے مومن پر تعجب ہے کہ خداوند عالم اس کے لئے جو بھی قضا مقرر فرماتا ہے اس کے لئے بہتر ہوتی ہے خواہ اسے اس سے خوشی ہو یا غم۔ اگر اسے کسی مصیبت میں مبتلا فرماتا ہے تو یہ اس کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتا ہے اور اگر اسے عطا کرتا ہے یعنی عزت دیتا ہے تو یہ اس کی بخشش ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) تحف العقول ص ۴۸

۱۶۷۸۲ ۔ مجھے مسلمان پر تعجب ہوتا ہے کہ خداوندِ عالم اس کے لئے جو قضا بھی فرماتا ہے وہ ہر حالت میں اس کے لئے بہتر ہوتی ہے، خواہ اسے مقراضوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے، پھر بھی اس میں اس کی بہتری ہوتی ہے۔ اسی طرح خواہ وہ مشرق و مغرب کا مالک بن جائے تو پھر بھی اس کے لئے اس میں بہتری ہی ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۶۲ حدیث ۸

۱۶۷۸۳ ۔ مومن کے لئے ہر طرف سے بہتری ہی ہوتی ہے، اگر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں پھر بھی اس کے لئے بہتری ہتی ہے اور اگر وہ روئے زمین کا مشرق سے مغرب تک حاکم بن جائے پھر بھی اس کے لئے بہتری ہوتی ہے۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) التمحیص ص ۵ حدیث ۱۰۹

۱۶۷۸۴ ۔ اللہ تعالیٰ مومن کے لئے جو قضا مقرر فرماتا ہے اور وہ اس پر راضی ہوتا ہے تو خداوند عالم اس کے لئے اپنی قضا میں بہتری مقرر فرما دیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) التمحیص ص ۵۹ حدیث ۱۲۳

۱۶۷۸۵ ۔ بنی اسرائیل کے افراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ خدا سے دعا کریں کہ اس وقت بارش برساےء جب وہ چاہیں اور اس وقت روک دے جب وہ کہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی۔ اللہ نے فرمایا: "موسیٰ! جیساوہ کہتے ہیں اسی طرح ہو گا۔" چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یہ بات بتا دی۔ اس پر ان لوگوں نے خوب کھیتی باڑی کی اور زمین کا کوئی ٹکڑا خالی نہ چھوڑا۔ پھر انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق بارش کی درخواست کی اور مرضی کے مطابق ہی اس کے ختم ہونے کی استدعا کی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس مرتبہ ان کی فصلیں اس قدر کثرت سے ہوئیں جیسے پہاڑ اور جنگلات ہوتے ہیں۔

جب کاٹنے کا وقت آیا تو انہوں نے فصلوں کو کاٹنا، گاہنا اور دانے الگ کرنا شروع کیا لیکن ان میں ایک دانہ بھی موجود نہ پایا۔ یہ صورت حال دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں عرضداشت لے کر حاضر ہوئے، اور عرض کیا: "ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہماری مرضی کے مطابق بارش برسائے اور مرضی کے مطابق اسے روک دے، اللہ تعالیٰ نے بھی ہماری دعا قبول فرمائی، لیکن اس سے تو ہمیں نقصان ہوا ہے۔"

ان کی یہ شکایت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ تک پہنچائی، اور عرض کیا: "خداوندا! تو نے بنی اسرائیل کے ساتھ جو کیا ہے اس سے تو ان کی چیخیں نکل گئی ہیں۔" اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "کس لئے موسیٰ؟" عرض کیا: " انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں تجھ سے دعا کروں کہ ان کی مرضی کے مطابق بارش برسائے اور ان کی مرضی ہی سے بارش کو روک دے۔ تو نے ان کی یہ درخواست قبول بھی فرمائی لیکن اس سے تو ان کو نقصان ہوا ہے"

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "موسیٰ! میں ہی بنی اسرائیل کی تقدیر مقرر کرنے والا ہوں لیکن وہ اس تقدیر پر راضی نہیں ہوئے اور مجھ سے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی درخواست کی۔ پس میں نے ان کی درخواست قبول کر لی، جس کا نتیجہ وہی ہوا جو تم دیکھ رہے ہو،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۵ ص ۲۶۲ حدیث ۲

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "بلأ" (آزمائش)

( ۵) قضا پر راضی نہ ہونے والا

۱۶۷۸۶ ۔ قدرتِ خداوند کے بارے میں فرمایا: "جو تیری مخالفت کرتا ہے ایسا نہیں کہ وہ تیری فرمانروائی کو نقصان پہنچائے، جو تیری اطاعت کرتا ہے وہ ملک (کی وسعتوں) کو بڑھا نہیں دیتا اور جو تیری قضا و قدر پر بگڑ جائے وہ تیرے امر کو رد نہیں کر شسکتا۔

(حضرت علی علیہ اللام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۹

۱۶۷۸۷ ۔ خداوند عالم فرماتا ہے: "جو میری قضا پر راضی نہیں ہوتا اور میری تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ میرے علاوہ کوئی اور خدا تلاش کرے،

(حضرت رسول اکرم) عیون اخبارالرضا جلد اول ص ۱۴۱

۱۶۷۸۸ ۔ خداوندِ جل جلالہ فرماتا ہے: "جو شخص میری قضا اور قدر پر راضی نہیں ہوتا اسے چاہئے کہ میرے علاوہ کوئی اور رب تلاش کرے۔"

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۸۲

۱۶۷۸۹ ۔ ،خداوندِ متعال فرماتا ہے: "جو شخص میری قضا پر راضی نہیں ہوتا اور میری بلاؤں پر صبر نہیں کرتا اسے چاہئے کہ میرے علاوہ کوئی اور رب تلاش کرے۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۸۳

۱۶۷۹۰ ۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: " جو میری قضا پر راضی نہیں ہوتا، میری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اور میری بلاؤں پر صبر نہیں کرتا، اسے چاہئے کہ میرے علاوہ کوئی اور رب تلاش کرے۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال بحارالانوار جلد ۸۲ ص ۱۳۲ حدیث ۱۶

۱۶۷۹۱ ۔ قیامت کے دن سخت عذاب کا مستحق وہ گا وہ شخص جو خدا کی قضا پر بگڑ اٹھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۲۲۵

۱۶۷۹۲ ۔ جو شخص دنیا کے لئے مغموم ہوتا ہے وہ خدا کی قضا پر ناراض ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) البلاغہ حکمت ۲۲۸

۱۶۷۹۳ ۔ "خبردار! اپنے ان سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو کہ جو اپنی جاہ و حشمت پر اکڑتے ہوں، اپنے نسب کی بلندیوں پر غرور کرتے ہوں، بدنما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیتے ہوں، اس کی قضا و قدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کے لئے اس کے احسانات سے یکسر انکار کر دیتے ہوں۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو، بابا "رضا" ( ۱) باب "جو قضا پر راضی نہیں ہوتا"

( ۶) قضا کی اقسام

۱۶۷۹۴ ۔ جب آپ سے قضا کی اقسام کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : "قضا کی دس قسمیں ہیں۔"

۱ ۔ قضائے فراغ ۲ ۔ قضائے عہد ۳ ۔ قضائے اعلام ۴ ۔ قضائے فعل ۵ ۔ قضائے ایجاب ۶ ۔ قضائے کتاب ۷ ۔ قضائے اتمام ۸ ۔ قضائے فصل و حکم ۹ ۔ قضائے خلق اور ۱۰ ۔ قضائے نزول موسکہ

۱ ۔ قضائے فراغ یا کسی چیز کے پورا کر دینے کی قضا کے بارے میں ارشاد الٰہی ہوتا ہے: "( واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القران فلما حضروه قالوا الفتوا، فلما قضی ولوا الی قومهم منذرین ) " اور جیسا ہم نے جنوں میں سے کئی جنوں کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ دل لگا کر قرآن سنیں تو جب وہ اس کے پاس حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش بیٹھے سنتے رہو، پھر جب پڑھنا تمام ہوا تو اپنی قوم کی طرف واپس گئے کہ ان کو عذاب سے ڈرائیں۔ (احقاف/ ۲۹) چنانچہ یہاں پر "فلما قضی‘ کے معنی ہیں "فلما فرغ" یعنی جب فارغ ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔( فاذاقیصنم مناسککم فاذکروا الله ) جب تم اپنے مناسک بجا لاؤ، تو خدا کو یاد کرو (بقرہ/ ۲۰۰)

۲ ۔ قضائے عہد: خداوند عالم فرماتا ہے:( وقضی ربک الاتعبدوا الاایاه ) تیرے رب نے عہد لے لیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (بنی اسرائیل/ ۲۳) اسی طرح کی ایک اور آیت سورہ قصص میں ہے( وما کنت بجانب الطور اذ قضینا الی موسی الامر ) تم طور کے پاس موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ سے ایک امر کا عہد کیا (قصص/ ۴۴)

یعنی ہم نے اس سے عہد کیا۔

۳ ۔ قضائے اعلام یعنی مطلع کر دینا، جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:( قضینا الیه ذالک الامر ان دار هولاء مقطوع مصبحین ) اور ہم نے اس (لوط) کو اس امر سے مطلع کر دیا کہ صبح ہوتے ہی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی (حجر/ ۶۶)

اسی طرح خداوند عالم کا قول ہے( وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرضین ) اور ہم نے بنی اسرائل کے لئے کتاب میں اطلاع کر دی کہ تم لوگ روئے زمین پر ضرور دو مرتبہ فساد کرو گے (بنی اسرائیل/ ۴) یعنی ہم نے انہیں کتاب تورات میں مطلع کر دیا تھا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں؟

۴ ۔ قضائے فعل: خداوند عالم فرماتا ہے:( فاقض ما انت قاض ) تجھے جو کچھ کرنا ہے کر لے (طہ/ ۷۲) یعنی جو کچھ تو بجا لانا چاہتا ہے اسے بجا لا۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے( لیقضی الله امرا کان هولا ) یا کہ خداوند عالم وہ کام انجام دے جو ہو کر رہنا ہے (انفال/ ۴۲) یعنی جو کچھ خدا کے علم میں ہے اسے وہ سرانجام دے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں قرآنِ مجید میں موجود ہیں۔

۵ ۔ قضائے ایجاب یعنی عذاب کا واجب ہو جانا، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:( وقال الشیطٰن لما قضی الامر ) اور جب بات پوری ہو گئی تو شیطان نے کہا (ابراہیم/ ۲۲) یعنی جب عذاب واجب ہو چکا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ہے:( قضی الامر الذی فیه تستفیان ) اس معاملے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس کے بارے میں تم دونوں نے مجھ سے سوال کیا ہے (یوسف/ ۴۱) ، یعنی وہ امر واجب ہو چکا ہے جس کے متعلق تم دونوں سوال کرتے ہو۔

۶ ۔ قضائے کتاب اور قضائے حتم: اللہ تعالیٰ حضرت مریم کی داستان میں فرماتا ہے: "وکان امرا مقضیا" اور یہ امر تو طے شدہ ہے (مریم/ ۲۱) یعنی محکم ہے۔

۷ ۔ قضائے اتمام: یعنی مدت کی تکمیل، جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے( : فلما قضی موسی الاجل ) جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کر لی۔ (قصص/ ۲۹) یعنی جب حضرت موسیٰ نے وہ تمام شرائط پوری کر لیں جو ان سے طے ہوئی تھیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ کا قول ہے:( ایما الاجلین قضیت فلا عدوان علی ) دونوں مدتوں میں سے جو بھی پوری کروں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ (قصص/ ۲۸) یعنی جس مدت کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دوں۔

۸ ۔ قضائے فصل و حکم (فیصلہ)۔ ،خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:( وقضی بینهم بالحق و قیل الحمد لله رب العٰلمین ) ۔ ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ (زمر/ ۷۵) اسی طرح فرماتا ہے:( والله یقضی بالحق والذین یدعون من دونه لا یقضون لبی ان الله هو السمیع العیم ) اور اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور خدا کے علاوہ جن لوگوں کو وہ پکارتے ہیں وہ کسی شے کا فیصلہ نہیں کر سکتے، بیشک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے (مومن/ ۲۰) اسی طرح خداوند عالم فرماتا ہے:( والله یقضی الحق و هوخیرالفٰصلین ) ۔ وہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے (انعام/ ۵۷) اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے:( وقضی بینهم بالقسط ) اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا (یونس/ ۵۴)

۹ ۔ قضائے خلق: خداوند عالم فرماتا ہے:( فقضهن سبع سموات فی یومین ) پس اس نے سات آسمان دو روز میں پیدا کئے۔ (حٰم سجدہ/ ۱۲) یعنی ان کو دو دنوں میں خلق فرمایا۔

۱۰ ۔ قضائے نزول موت: جہنمی افراد کے قول کی قرآنِ مجید میں حکایت کی گئی ہے:( ونا دو ایملک لیقض علینا ربک قال انکم مکثون ) اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک! (دروغہ جہنم!) چاہئے کہ تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے! وہ کہے گا: "بے شک تم کو یونہی رہنا ہو گا" (زخرف/ ۷۷) یعنی تیرا رب ہمیں موت ہی دیدے، اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے:( لا یقضی علیهم فیموتوا ولا نحفیف عنهم من عذابها ) ۔ نہ تو ان کو قضا (موت) ہی آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ہی اس (جہنم) کے عذاب میں ان کے لئے تخفیف کی جائے گی۔ (فاطر/ ۳۶) یعنی انہیں موت نہیں آئے گی کہ وہ عذاب سے جان چھڑا سکیں۔

اسی طرح حضرت سلیمان بن داؤد علیہم السلام کی داستان میں ہے( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علی موته الا دابة الارض تا کل منساته ) ۔ پس جب ہم نے اس (سلیمان) کے لئے موت کا فیصلہ کر لیا تو اس کی موت پر کسی شے نے ان لوگوں کی رہنمائی نہیں کی، سوائے زمین پر ایک چلنے والی چیز کے جو ا س کے عصا کو کھا گئی (سب/ ۱۴) اس سے خدا کا مقصود ہے "اب جب ہم نے سلیمان پر موت کو نازل فرما دیا۔"

(بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۱۸ تا ص ۲۰

( ۷) قضا کے متعلق مختلف احادیث

۱۶۷۹۵ ۔ جب قضا نے پورا ہو کر رہنا ہے تو پھر یہ چیخ و پکار کیسی؟

(امام حسن عسکری علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸) ص ۳۷۸

۱۶۷۹۶ ۔ جب قضا نازل ہوتی ہے تو فضا تنگ ہو جاتی ہے۔

(امام علی نقی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۶۵ جلد ۷۷ ص ۱۶۵

۱۶۷۹۷ ۔ آٹھ چیزیں خدا کی قضا و قدر کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہیں۔

۱ ۔ نیند ۲ ۔ بیداری ۳ ۔ قوت ۴ ۔ کمزوری ۵ ۔ تندرستی ۶ ۔ بیماری ۷ ۔ موت ۸# حیات

(امام رضا علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۹۵