میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 52942
ڈاؤنلوڈ: 4225

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52942 / ڈاؤنلوڈ: 4225
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۱۸

قضا ( ۲)

فیصلہ

( ۱) فیصلہ یا نبی کر سکتا ہے یا اس کا وصی ---یا پھر----شقی انسان----

قرآن مجید

( یداؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ) (ص/ ۲۶)

ترجمہ۔ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب (حاکم و جانشین) مقرر کیا ہے۔ پس لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو

حدیث شریف

۱۶۷۹۸ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے (قاضی) شریح سے فرمایا: "اے شریح! تم ایک ایسی جگہ پر (قضا کے لئے) بیٹھے ہو جہاں نبی یا وصی یاپھر شقی (بدبخت) انسان ہی بیٹھ سکتا ہے۔"

(امام جعفر صادق) وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۷ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۰۶

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴ تہذیب و الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

۱۶۷۹۹ ۔ فیصلے کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ فیصلے کرنا اس امام عالم کا کام ہے جو مسلمانوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے جیسے نبی یا نبی کا وصی ہوتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائیل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۷ فروع کافی جل د ۷ ص ۴۰۶

من لا یحرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴ ، تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

( ۲) طاغوت کی طرف مقدمات کا لے جانا

قرآن مجید

( الم قراتی الذین یزعمون………………ان یکفروابه… ) (نسأ/ ۶۰)

ترجمہ کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گمان کرتے ہیں کہ وہ ان چیزوں پر ایمان لائے جو (اے پیغمبر!) آپ پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو آپ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں؟ پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مقدمات کو فیصلے کے لئے طاغوت کو حاکم بنائیں، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کر دیں

( الم ترا می الذین اوتوا…………………وهم معرضون ) (آل عمران/ ۲۳)

ترجمہ۔ کیا تونے ان ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ جب وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے تو (؟)گروہ روگردانی کرتے ہوئے حق سے پلٹ جاتا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۸۰۰ ۔ عمر بن حنطمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنے ان دو دوستوں کے متعلق سوال کیا جن کے درمیان کسی قرض یا میراث کے بارے میں جھگڑا ہو جائے اور وہ اپنا مقدمہ حاکم وقت یا قاضی کے پاس لے جائیں تو کیا یہ ان کے لئے جائز ہے؟ اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخض اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائے اور وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس کے فیصلے کے تحت لیا ہوا مال حرام ہو گا خواہ یہ اس کا حق بھی بنتا ہو کیونکہ وہ شخص وہ مال طاغوت کے فیصلے کے مطابق لے گا جس کے متعلق خدا کا حکم یہ ہے کہ اس کا انکار کیا جائے"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۲

۱۶۸۰۱ ۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو کسی مقدمے کے سلسلہ میں ظالم قاضی یا ظالم بادشاہ کے پاس لے جائے اور وہ خدائی فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو وہ مومن بھی اس کے گناہ میں اس کا شریک ہو گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۳ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

۱۶۸۰۲ ۔ ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول( ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلواتها الی الحکام بتکلوا فریقا اموال الناس بالاثم… ) اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق نہ کھا جایا کرو اور نہ ہی یہ اموال بطور رشوت حکام کو اس لئے پیش کرو کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرتے ہوئے اس دولت کا کچھ حصہ ہضم کر جاؤ (بقرہ ۱۸۸) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "اے ابو بصیر! خداوند عز و جل کو اس بات کا علم تھا کہ امت میں کچھ حکام جور بھی ہوں گے جو غلط فیصلے کریں گے، لہٰذا اس نے یہ اسی بنا پرفرمایا ہے، یہاں حکام عدل مراد نہیں ہیں جبکہ حکام جور مراد ہیں، اے ابومحمد! اگر تمہارا حق کسی کے ذمہ بنتا ہے اور تم اس مقدمہ کو عادل حاکم کے پاس لے جانا چاہتے ہو لیکن وہ شخص یہ مقدمہ ظالم حاکم کے پاس لے جانا چاہتا ہے تو اس کا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جو طاغوت کو اپنا حاکم بناتے ہیں۔ حق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( الم ترالی الذین یزعمون انهم… ) (نسأ/ ۶۰)

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

قولِ مولف: ملاحظہ ہو "وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲ باب ۱

( ۳) حق پر فیصلہ کرنے والے

قرآن مجید

( یداؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الهوی ) (ص/ ۲۶)

ترجمہ۔ "اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب (حاکم و جانشین) مقرر کیا ہے پس لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔"

( واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل… ) (نسأ/ ۵۸)

ترجمہ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو

( وان حکمت فاحکم بینهم بالقسط ان الله یحب المقسطین ) (مائدہ/ ۴۲)

ترجمہ۔ اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے،

حدیث شریف

۱۶۸۰۳ ۔ بہترین لوگ، حق پر فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۹

۱۶۸۰۴ ۔ مخلوق میں سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر حق پر فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین لوگ وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر راست گوئی سے کام لیتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۰۵ ۔ "تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کسی ظالم کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے نہ لے جائے بلکہ یہ دیکھو کہ خود تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو ہمارے فیصلوں میں سے کوئی چیز جانات ہے، تو تم اسے ہی اپنا قاضی مقرر کر لو، کیونکہ میں نے ہی اسے قاضی بنایا ہے۔ لہٰذا اپنے مقدمات اسی کے پاس لے جایا کرو۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۲

۱۶۸۰۶ ۔ "مدعی اور مدعا علیہ اس بات کا خیال کریں کہ تم میں جو شخص ہماری احادیث کو بیان کرتا ہے، ہمارے مقررکردہ حلال و حرام کو پیشِ نظر رکھتا ہے اور ہمارے احکام کو سمجھتا ہے پس وہ اسے ہی اپنا حاکم بنانے پر راضی ہو جائیں، کیونکہ میں نے بھی اسے ہی تمہارے اوپر حاکم مقرر کیا ہے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۹۹

۱۶۸۰۷ ۔ ابی خدیجہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دوستوں کی طرف بھیجا کہ میں انہیں (امام کی طرف سے) جا کر کہوں کہ: "جب تمہارے درمیان کوئی جھگڑا ہو جائے یا لین دین کا کوئی معاملہ درپیش آ جائے تو تم میں سے کوئی بھی فاسق لوگوں میں سے کسی کے پاس اپنا مقدمہ لے کر نہ جائے، بلکہ تم اپنے میں سے کسی ایسے شخص کو فیصلہ کرنے والا مقرر کر لیا کرو جو ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہو، اس لئے کہ میں نے بھی اسے ہی تمہارے لئے قاضی مقرر کیا ہے، اور یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی، جابر حاکم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر نہ جائے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۰۰

( ۴) اسلامی فیصلے کو تسلیم کرنا

قرآن مجید

( فلا و ربک لا یوٴمنون……………………یسلموا تسلیما ) (نسأ/ ۶۵)

ترجمہ۔ ایسا نہیں ہے، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس اختلاف میں جو ان کے درمیان واقع ہوا ہے، تجھے حاکم نہ بنائیں، پھر تو جو بھی فیصلہ کر دے، اس پر اپنے دلوں میں ذرا بھی تنگی کااحساس نہ کریں اور اس (فیصلہ) کو اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے۔

حدیث شریف

۱۶۸۰۸ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول:( فلا و ربک… ) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: "تسلیم سے مراد، رسول خدا کے فیصلے پر راضی اور قانع ہونا ہے۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۲ ص ۲۰۴

۱۶۸۰۹ ۔ "جب قاضی ہمارے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرے اور پھر اس کے اس فیصلے کو نہ مانا جائے، تو اس سے خدا کے فیصلے کو سبک نہ سمجھا جائے گا اور ہماری بات کو ٹھکرا دیا جائے گا، جبکہ ہماری باتوں کو ٹھکرانے والا خدا کی باتوں کو رد کرنے والا ہوتا ہے۔ ایسا کرنا اللہ کے ساتھ شرک کی حد تک جا پہنچاتا ہے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۹۹

۱۶۸۱۰ ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر نے یہ بات بیان کی ہے کہ ایک انصاری حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں زبیر سے اس پانی کے سلسلے میں الجھ پڑا جس سے کھجوروں کی آبپاشی کی جاتی تھی، وہ یوں کہ انصاری نے زبیر سے کہا: "آپ پانی کو کھلا چھوڑ دیں تاکہ اس سے آب پاشی ہوتی رہے۔" لیکن زبیر نے اس کی بات کو نہ مانا، اور مقدمہ حضرت رسول خدا کی خدمت میں پیش کیا گیا۔

آنحضرت نے زبیر سے فرمایا: "زبیر! پہلے تم آب پاشی کر لو پھر اپنے ہمسایہ کے لئے جانے دو!" اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: "یارسول اللہ! آپ نے اس یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کیونکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد ہے!" اس پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ نے زبیر سے فرمایا: "زبیر! تم سیراب ہو تو پھر پانی کے آگے بند باندھ لو کہ وہ واپس لوٹ جائے!"

زبیر کہتے ہیں: ؟ "خدا کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے کہ: خدا کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے: "فلا و ربک لا یومنون" (/ ۷۵)

صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۸۲۹

قولِ مولف: ملاحظہ ہو عنوان "تسلیم" نیز "مشرک" بابا "ادنی شرک")

( ۵) خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا

قرآن مجید

( …ومن لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکفٰرون ) ۔ (مائدہ/ ۴۴)

ترجمہ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی تو ہیں جو کافر (منکر) ہیں۔

( و من لم یحکم بما انزل فاولئک هم الظلمون ) (مائدہ/ ۴۵)

ترجمہ۔ اور جو لوگ اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے جو اللہ نے نازل کیا ہے، پس وہی تو ظالم ہیں۔

( و من لا یحکم بما انزل الله فاولئک هم الفٰسقون ) ۔ (مائدہ ۴۷)

ترجمہ۔ اور جنہوں نے اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا جو اللہ نے نازل کیا ہے، پس وہی تو نافرمان ہیں۔

حدیث شریف

۱۶۸۱۱ ۔ "جو شخص دو درہموں کے بارے میں فیصلہ کرے اور اس فیصلے کو سختی سے منوائے تو وہ اس آیت کا اہل ہو گا:( و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکٰفرون ) (مائدہ/ ۴۴)

راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا "حضور فرزند رسول! سختی سے منوانے سے کیا مراد ہے؟" فرمایا: "اس کے پاس کوڑا (حکومت کا ڈنڈا) ہو اور قید کا اختیار بھی۔ پس اگر کوئی شخص اس فیصلے پر راضی ہو جائے تو بہتر ورنہ اسے ڈنڈے سے مارے اور قید کر دے۔

(حضرت امام جعفر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۵

۱۶۸۱۲ ۔ جو شخص خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق دو درہموں کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر (منکر) قرار پائے گا۔ اور جو شخص دو درہموں کے بارے میں غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی کافر (منکر) ہو جائے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۵

۱۶۸۱۳ ۔ حکیم بین جبیر کہتے ہیں: پھر میں علی بن الحسین امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سورہ مائدہ کی ان آیات کے بارے میں دریافت کیا اور آپ کو وہ ساری باتیں بھی بتا دیں جو میں نے سعید بن جبیر اور مقسم سے پوچھی تھیں۔"

امام نے فرمایا: "مقسم نے کیا کیا؟" میں نے وہ بھی بتا دیا۔ امام نے فرمایا: "اس نے سچ کہا ہے لیکن آیت میں مذکور "کفر" وہ کفر نہیں جسے "شرک کا کفر" کہا جائے، اسی طرح نہ ہی "شرک کا فسق ہے" اور نہ ہی "شرک کا ظلم" ہے،

تفسیر در منثور جلد ۲ ص ۲۸۷

۱۶۸۱۴ ۔ خدا کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض دو شخص ہیںایک وہ جولوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے، اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے، اگر کوئی الجھا ہوا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کے لئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس پر یقین بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے۔ جس طرح مکڑی خود اپنے جالے کے اندر۔ وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط؟اس کے (ناروا) فیصلوں کی وجہ سے (ناحق بہائے ہوئے) خون چیخ رہے ہیں اور (غیرمستحق افراد تک پہنچی ہوئی) میراثیں چلا رہی ہیں

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۷ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷

( ۶) ظالم فیصلہ کرنے والے

۱۶۸۱۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ کو آنکھوں کی تکلیف ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی عیادت کی۔ اس وقت حضرت امیر (شدت درد کی وجہ سے) چیخ رہے تھے۔ آنحضرت نے فرمایا: "یا علی! گھبراہٹ ہے یا درد ہے؟" حضرت علی نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! جتنا شدید درد آج ہوا ہے اتنا کبھی نہیں ہوا۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جب ملک الموت کسی فاجر کی روح کو قبض کرنے کے لئے نازل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ جہنم کی آگ کی سیخ بھی نازل ہوتی ہے جس سے اس کی روح کو قبض کرتا ہے جس سے جہنم چیخ اٹھتا ہے۔"

حضرت علی یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! دوبارہ ارشاد فرمائیے کیونکہ آپ کے ارشادات نے مجھے سارے درد بھلا دیئے ہیں۔ کیا آپ کی امت میں سے بھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا؟"

فرمایا: "ہاں ظلم کے ساتھ فیصلہ کرنے والے، یتیم کا مال کھانے والے اور جھوٹی گواہی دینے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۶ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۲۴

( ۷) بغیر چھری کے ذبح کیا جانا

۱۶۸۱۶ ۔ جو شخص قضا کا عہدہ حاصل کر لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو بغیر چھری کے ذبح کر دیتا ہے،

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۹ ، ۱۵ ، ۱۲ ، ۱۵ ۔ ان سب کے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں۔

۱۶۸۱۷ ۔ ابن عباس حضرت رسول خدا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جسے قاضی بنایا جاتا ہے اسے چھری کے بغیر ذبح کر دیا جاتا ہے۔" اس پر آنحضرت سے سوال کیا گیا: "یارسول اللہ! ایسی ذبح سے کیا مراد ہے؟" "جہنم کی آگ "

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۷۳ ۔

۱۶۸۱۸ ۔ محمد بن محمد (شیخ مفسد) اپنی کتاب "مقنعہ" میں پیغمبر اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتنے فرمایا: "جو قاضی بنایا جاتا ہے اسے کسی چھری کے بغیر ذبح کیا جاتا ہے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۸

( ۸) ظالم قاضی کی نشست گاہ

۱۶۸۱۹ ۔ ایک پتھر نے اللہ کی بارگاہ میں فریا د کی: "اے میرے پروردگار! اور اے میرے سید و سردار! میں نے تیری اتنے سال اور اس قدر عبادت کی ہے لیکن تونے مجھے گندگی کے ڈھیر کی بنیادوں میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس سے ارشاد فرمایا: "کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ میں نے تجھے قاضیوں کی نشست گاہوں سے دور رکھا ہے؟"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۱

۱۶۸۲۰ ۔ آگ پر رکھے پتھر نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی گرمی کی حدت کی شکایت کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "چپ رہو! کیونکہ قاضیوں کی نشستگاہیں تجھ سے زیادہ گرم ہیں۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۰ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴

۱۶۸۲۱ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے محمد حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کا وہاں سے گزر ہوا۔ تو جب میں دوسرے دن امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے تمہیں کل جس مجلس میں بیٹھا ہوا دیکھا تھا وہ کس قسم کی مجلس تھی؟"

میں نے عرض کیا: "آپ کے قربان جاؤں، یہ قاضی میرے لئے نہایت ہی قابل عزت و احترام ہے میں کبھی کبھی اس کے پاس جا بیٹھتا ہوں" امام نے فرمایا: "اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب ایسی مجلس پر لعنت نازل ہو تو تم اس سے بچے رہو، کیونکہ لعنت تو تمام اہلِ مجلس کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

( ۹) قاضی کا حساب بہت سخت ہو گا

۱۶۸۲۲ ۔ بروزِ قیامت، عادل قاضی کو لایا جائے گا اور اس سے اس قدر حساب کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے دو آدمیوں کے درمیان کبھی کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۸

۱۶۸۲۳ ۔ قیامت کے دن عادل قاضی پر ایک ایسی سخت گھڑی بھی آئے گی جس میں وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے ایک دانے کے درمیان بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۹

۱۶۸۲۴ ۔ قیامت کے دن عادل قاضی کو لایا جائے گا اور اسے سخت حساب کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں وہ اس بات کی آرزو کرے گا کہ کاش اس نے دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸ ۔۔ ۱۵

۱۶۸۲۵ ۔ قیامت کے دن قاضی کو بلایا جائے گا اور حساب سے قبل اس قدر ہولناک حالات کا سامنا کرے گا جس سے وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ اے کاش اس نے کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی دو آدمیوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۹ ۔۔ ۱۵

(قولِ مولف: اگر بالفرض یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو انہیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ یہ ایسے قاضی کے بارے میں نہیں جس پر قضا واجب نہیں ہوتی۔

نیز: ملاحظہ ہو عنوان "حساب" اور "ولایت" ، "ظالم لوگوں کی ولایت")

( ۱۰) قاضی بننے کی کوشش

۱۶۸۲۶ ۔ جو شخص قاضی بننے کی کوشش کرتا ہے اور سفارشیوں کے سہارے لیتا ہے تو خداوند عالم اسے اس کے اپنے سپرد کر دیتا ہے پھر جس شخص کو قضا کے لئے مجبور کیا جائے تو خداوندِ عالم اس کے لئے ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۴ و حدیث ۱۴۹۹۶

۱۶۸۲۷ ۔ جو شخص قاضی بننے کی از خود درخواست کرتا ہے، اسے اس کے اپنے سپرد کر دیا جاتا ہے، اور جسے اس کام کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اس پر ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے جو اسے سیدھے راستے پر چلاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۵

۱۶۸۲۸ ۔ حضرت رسول اکرم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص از خود حکم دے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرے، یہ بھی فرمایا کہ جو حکمرانی کی کوشش کرتا ہے اس کی اس بارے میں بھی کوئی امداد نہیں کی جاتی، بلکہ اسے اس کے اپنے سپرد کر دیا جاتا ہے لیکن جسے کسی قسم کی درخواست کئے بغیر حکمرانی مل جاتی ہے اس کی امداد بھی کی جاتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہوئے۔

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۰۸

۱۶۸۲۹ ۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قاضی بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس بارے میں لوگوں سے مدد کا طالب ہوتا ہے تو خدا اسے اپنے حوالے کر دیتا ہے لیکن جو شخص ایسا کرنے کی نہ تو کوشش کرتا ہے، نہ ہی اس بارے میں کسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔

سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۷۸

قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "ولایت" "والی پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے کام نہ لے"

نیز باب "خدا اس وقت تک قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ جان بوجھ کر فیصلہ نہیں کرتا")

( ۱۱) اسلام میں قاضی کی خصوصیات

۱۶۸۳۰ ۔ مالک اشتر کے نام مکتوب سے اقتباس، جب حضرت امیر نے انہیں مصر کا گورنر بنایا: "پھر یہ کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں علم، حلم، پرہیزگاری اور سخاوت کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو، جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق میں نہ پڑ جاتا ہو اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو، نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر کے اثبات پر اڑتا ہو، نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو، نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر چمک پڑتا ہو اور نہ ہی بغیر پوری طرح چھان بین کئے بغیر سرسری طور پر کسی معاملے کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو، شک و شبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ہو، دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو، فریقین میں بحث سے اکتا نہ جاتا ہو، معاملات کی تحقیق میں نہایت صبر وضبط سے کام لیتا ہو اور جب حقیقت واضح ہو جاتی ہو تو بے دھڑک فیصلہ کر دیتا ہو۔ وہ ایسا ہو جس کا ذہن اسے مغرور نہ بنائے، نہ ہی جنبہ داری پر آمادہ کرے، جو کسی قسم کے شور و غوغا پر کان نہ دھرتا ہو۔ لہٰذا فیصلوں کے لئے ایسے لوگوں کو ہی مقرر کرو، اگرچہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں۔ پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کا بار بار جائزہ لیتے رہو"

بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۵۱ بحار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۷ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۷ ص ۵۸ نہج البلاغہ مکتوب ۵۳ ( قدرے اختلاف کے ساتھ)

۱۶۸۳۱ ۔ جو فقہ سے کم واقف ہو اسے قاضی بننے کا لالچ نہیں کرنا چاہئے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۴

۱۶۸۳۲ ۔ حکم خدا کا نفاذ وہی شخص کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ برتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع میں نہ پڑے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۲ نہج البلاغہ حکمت ۱۱۰

( ۱۲) قضا کے آداب

۱ ۔ فریقین کو ایک نگاہ سے دیکھنا

۱۶۸۳۳ ۔ سلم بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت علی علیہ السلام شریح قاضی سے فرما رہے تھے: "مسلمانوں کے درمیان اپنے چہرے، اپنی گفتگو اور نشست و برخاست کے لحاظ سے برابری کا درجہ دو تاکہ جو شخص تمہارے قریب ہے اسے تمہاری طرف سے ظلم کی توقع نہ ہو اور تمہارے مخالف کو تمہارے عدل و انصاف کے بارے میں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۱۵۵

۱۶۸۳۴ ۔ حاکم (قاضی) کو چاہئے کہ فریقین میں سے کسی کی طرف کم اور کسی کی طرف زیادہ توجہ نہ کرے، اپنی نگاہ میں عدل و انصاف کے لحاظ سے سب کو برابر جانے، کسی فریق کو ایسے انداز سے نہ بلائے جس سے دوسرا یہ سمجھے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۳۵ ۔ جو مسلمانوں کے درمیان قضا کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہو اسے چاہئے کہ فریقین کے درمیان نگاہ، اشارے اور نشست و برخاست میں عدل سے کام لے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۲

۱۶۸۳۶ ۔ جو مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہو اسے چاہئے کہ فریقین میں سے کسی ایک فریق کے لئے اس وقت تک آواز کو بلند نہ کرے جب تک کہ دوسرے کے لئے بھی ایسا ہی نہ کرے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۳

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷)

۲ ۔ فریق مقدمہ کی آواز پر آواز کو بلند نہ کرنا

۱۶۸۳۷ ۔ روایت میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ابوالاسود دوئلی کو قضا کے منصب پر فائز فرمایا، پھر اسے معزول کر دیا، اس پر ابوالاسود نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا: "نہ تو میں نے کسی قسم کی خیانت کی ہے اور نہ ہی کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر آپ نے مجھے کیوں معزول فرمایا ہے؟"

حضرت نے فرمایا "اس لئے کہ تمہاری آواز فریقِ مقدمہ کی آواز پر بلند ہوتی ہے۔"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۷

۳ ۔ مسند قضا پر اکتانا نہ چاہئے

۱۶۸۳۸ ۔ سلمہ بن کہل کہتے ہیں میں نے سنا کہ حضرت امیر علیہ السلام شریح سے فرما رہے تھے: "جس مسند قضا کے لئے اللہ نے حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کے لئے اجر کو واجب اور بہترین ذریعہ قرار دیا ہے اس پر بیٹھنے کو دل تنگی و تکلیف کا سبب نہ سمجھو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۵ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۴ ۔ فریقین کے دلائل سننے سے پہلے فیصلہ نہ کرنا

۱۶۸۳۹ ۔ مجھے پیغمبر اسلام صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاضی بنا کر یمن کی طرف بھیجا۔ میں نے عرض کیا: "یارسول اللہ! آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں جبکہ میں ابھی نوجوان ہوں اور فیصلے کرنا بھی نہیں جانتا!" آنحضرت نے فرمایا: "خدا تمہارے دل کی ہدایت فرمائے گا اور تمہاری زبان میں ثبات عطا کرے گا۔ پھر جب تمہارے سامنے مقدمہ کے دونوں فریق بیٹھ جائیں تو جب تک پہلے فریق کے بعد دوسرے فریق کی باتوں کو نہ سن لو اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ کرنا کیونکہ اس طرح تمہارے سامنے مقدمہ کے تمام پہلو کھل کر واضح ہوجائیں گے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ فیصلے کرتا رہا اوریااس کے بعد مجھے کسی فیصلے میں کبھی شک نہیں ہوا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۸۲

۱۶۸۴۰ ۔ جب حضرت رسول خدا نے مجھے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو کہا: "جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ لایا جائے تو کسی فریق کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے فریق کے دلائل نہ سن لو" اس کے بعد میں نے جو بھی فیصلہ کیا اس میں مجھے کبھی شک نہیں ہوا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

۱۶۸۴۱ ۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جناب رسول خدا نے فرمایا: "جب تمہارے پاس دو آدمی کوئی مقدمہ لے کر آ جائیں تو پہلے شخص کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک دوسرے کی باتوں کو نہ سن لو کیونکہ اس طرح تمہارے لئے مقدمہ کے تمام پہلو واضح ہو جائیں گے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ فیصلے کرتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی آپ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: "خداوندا! علی کو فیصلے کرنا سمجھا دے!"

من لا یحضرہ الفقہ جلد ۳ ص ۷

۱۶۸۴۲ ۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "جب تمہارے پاس مقدمہ کے دونوں فریق آ جائیں تو کسی کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرنا جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو، کیونکہ اس طرح تم حق کو اچھی طرح جان لو گے۔"

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۰ ص ۲۷۷ کنزالعمال حدیث ۱۵۰۲۴

۱۶۸۴۳ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: "جب تمہارے پاس دو شخص فیصلہ کروانے کے لئے آئیں تو کسی کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک دونوں فریقوں کی باتوں کو نہ سن لو، کیونکہ اس طرح تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کیونکر فیصلہ کرنا ہے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طرح فیصلے کرتا رہا۔"

کنزالعمال حدیث ۱۵۵۰۲۳

قولِ مولف: ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۸ باب ۴

۵ ۔ غصے میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۴ ۔ جسے قضا سے دوچار ہونا پڑے اسے چاہئے کہ غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرے۔

(حضرت رسول اکرم) فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۱۶۸۴۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام نے شریح قاضی سے فرمایا: "مسند قضا پر بیٹھ کر کسی سے مشورہ یا سرگوشی نہ کرو۔ اگر کسی بات پر غصہ آ جائے تو کھڑے ہو جاؤ اور غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۶

۱۶۸۴۶ ۔ غصہ کی حالت میں قاضی کو دو آدمیوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۰ حدیث ۱۵۰۲۸

۶ ۔ غنودگی کی حالت میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۷ ۔ روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے رفاعہ سے فرمایا: "غصہ کی حالت میں کبھی فیصلہ نہ کرو اور نہ ہی نیند کی وجہ سے غنودگی کی حالت میں فیصلہ کرو"

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۴۸ ۔ رسول خدا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "قاضی کو نہ تو غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنا چاہئے، نہ ہی بھوکے پیٹ اور نہ ہی اونگھ کی حالت میں"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۷ ۔ بھوک اور پیاس کی حالت میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۹ ۔ جب تک قاضی سیر اور سیراب نہ ہو اس وقت تک اسے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۴۰

۱۶۸۵۰ ۔ روایت ہے کہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا "جب تک کھانا نہ کھا لو اس وقت تک مسند قضا پر نہ بیٹھو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۸ تہذیب الاحکام ص ۲۲۹

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳ ۔ اور اسی کتاب میں ہے "ہرگز نہ بیٹھو"

۸ ۔ فریقین میں کسی کو اپنا مہمان نہ ٹھہراؤ

۱۶۸۵۱ ۔ ایک شخص حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس مہمان بن کر آیا اور کئی دن تک آپ کے گھر ٹھہرا رہا۔ ایک مرتبہ وہ ایسا مقدمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا اس نے اس سے پہلے آپ سے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ امام نے اس سے پوچھا: "تم فریقِ مقدمہ ہو؟" اس نے کہا: "جی ہاں!" آپ نے فرمایا: "ہمارے پاس سے چلے جاؤ کیونکہ رسول پاک نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی فریق کو مہمان ٹھہرایا جائے جب تک کہ اس کے ساتھ دوسرا فریق بھی موجود نہ ہو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۹ ۔ مسند قضا پر بیٹھ کر کسی سے سرگوشی نہ کرو

۱۶۸۵۲ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا: "مسند قضا پر بیٹھ کر کبھی کسی سے سرگوشی نہ کیا کرو۔"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷ تہذیب الاحکام ص ۲۲۷

۱۰ ۔ داہنی طرف سے کلام کا آغاز کرو

۱۶۸۵۳ ۔ حضرت رسول خدا نے حکم دیا ہے کہ مسند قضاکے داہنی طرف بیٹھنے والوں سے کلام کا آغاز کرنا چاہئے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

۱۶۸۵۴ ۔ حسن بن محبوب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب تم فریقِ مخالف کے ساتھ والی یا قاضی کے پاس جاؤ تو فریقِ مخالف کے داہنی طرف ہو جاؤ"

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

۱۱ ۔ گواہوں کو لقمہ نہ دو

۱۶۸۵۵ ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قاضی فریقین میں سے کسی کو زیادہ دیکھے، ذہن کو حاضر رکھنے کی وجہ سے طرفداری سے کام لے۔ نیز گواہوں کو لقمہ دینے سے بھی منع فرمایا۔

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۲ ۔ فیصلہ سنانے سے پہلے خوف غور و فکر سے کام لو

۱۶۸۵۶ ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا: "جب تک تم منہ سے بات نہیں نکالو گے تب تک زبان تمہاری غلامی میں رہے گی لیکن جب بات کر لو گے تو پھر تم اس کے غلام بن جاؤ گے، لہٰذا اچھی طرح پیش نظر رہے کہ تم کیا فیصلہ کرتے ہو، کس بارے میں فیصلہ کرتے ہو اور کیونکر فیصلہ کرتے ہو؟"

کنز العمال حدیث ۱۴۴۳۲

۱۶۸۵۷ ۔ قاضی کی زبان دو انگاروں کے درمیان ہوتی ہے انجام کار یا جنت کی طرف یا پھر جہنم کی طرف!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۲ ، ۱۵۰۰۷

(قولِ مولف: فقہاء کی کتابوں میں قضا کے بارے میں بہت سے آداب مذکور ہیں، اس بارے میں مزید تفصیلات کے لئے جواہرالکلام جلد ۴۰ ص ۷۲ " نظر دوم آداب کے بارے میں" کا مطالعہ کیا جائے)

( ۱۳) سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا

۱۶۸۵۸ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا! "پروردگارا! تیرا کون سا بند ہ سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے؟ "خداوند عالم نے فرمایا: "وہ جو لوگوں کے درمیان بھی اسی طرح فیصلے کرتا ہے جس طرح اپنی ذات کے لئے فیصلے کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۴۲۶۱)

۱۶۸۵۹ ۔ جو شخص اپنی ذات کے بارے میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے، غیروں کے بارے میں بھی اس کے فیصلے کو پسند کیا جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) محف العقول ص ۲۶۲ ، کافی جلد ۲ ص ۱۴۶ وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۱۵۸

۱۶۸۶۰ ۔ جب تیرا فیصلہ تیری ذات کے متعلق نافذ ہو گا تو لوگوں کے دل بھی تیری عدالت کی طرف کھنچ کر آئیں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قول مولف: ملاحظہ ہو! مساوات اور "انصاف" ، "اپنی ذات کے بارے میں انصاف سے کام لینا")

نیز: باب "رائے" "بہتری سے نزدیک ترین رائے"

نیز: باب "عدل" باب ("عادل ترین انسان")

( ۱۴) جب تک قاضی جان بوجھ کر ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے

۱۶۸۶۱ ۔ معقل بن یسار کہتے ہیں: "مجھے حضرت رسالتماب نے حکم دیا کہ میں اپنی قوم کے درمیان فیصلے کروں تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کس طرح اچھے انداز میں فیصلے کر سکتا ہوں؟ تو آنجناب نے فرمایا: "جب تک قاضی جان بوجھ کر ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے" آپ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

(کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۳)

۱۶۸۶۲ ۔ مسلمانوں قاضیوں میں سے ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو انہیں اس وقت تک راہِ حق پر چلاتے رہتے ہیں جب تک وہ ناحق کا ارادہ نہیں کرتا لیکن جب وہ ناحق کا ارادہ کر لے تو فرشتے اس سے دور ہٹ جاتے ہیں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۳)

۱۶۸۶۳ ۔ خداوند عالم قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ عمداً ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۶ ۔ ۱۴ ، ۱۵ ۔ ۱۶ ، ۱۵

۱۶۸۶۴ ۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم و جور سے کام نہیں لیتا۔ جب ظلم و جور سے کام لینے لگتا ہے تو اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور اسے شیطان اپنے قابو میں لے لیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۵ ۔ ۱۴۹۸۷

۱۶۸۶۵ ۔ اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت حاکم کے سر پر سایہ رحمت کئے ہوتا ہے، لیکن جب وہ فیصلے میں ظلم کرنے لگتا ہے تو اللہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور خود اس کے ہی حوالے کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۵ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۲۲ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱ ۔ اس کتاب میں "فیصلے میں" کے الفاظ نہیں ہیں۔

( ۱۵) درست و نادرست فیصلہ کرنے والوں کا اجر

۱۶۸۶۶ ۔ جب کوئی حاکم فیصلہ کرنے کے لئے کوشش اور اجتہاد سے کام لیتا ہے اور اس طرح صحیح اور درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لئے دو اجر ہوتے ہیں، اگر اجتہاد و کوشش کے باوجود صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا تو اس کے واسطے صرف ایک اجر ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۵۹۷ ۔ بروایت الٰہی ہریرہ و عمرو بن عاص

۱۶۸۶۷ ۔ خوب کوشش و جہاد سے کام لو۔ اگر اس طرح تم صحیح فیصلہ کرو گے تو تمہارے لئے دس نیکیاں ہوں گی اور اگر چوک جاؤ گے تو صرف ایک نیکی ہو گی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۹, ۱۵ ، بروایت عقبہ بن عامر۔

حدیث ۱۸ ۔ ۱۵ اور حدیث ۲۲ ۔ ۱۵ بروایت عمرو اور ابن عمرو، ۔

۱۶۸۶۸ ۔ عقبہ بن عامر کہتے ہیں: "ایک دن میں پیغمبر اکرم کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس مقدمہ کے دو فریق آ گئے آنجناب نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے درمیان فیصلہ کروں۔ میں نے عرض کیا: "اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں۔ اس بارے میں آپ سب سے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں!" آنجناب نے دوبارہ ارشاد فرمایا: "تم ہی ان کے درمیان فیصلہ کرو!" میں نے عرض کیا! "یارسول اللہ! میں کس بنا پر فیصلہ کروں؟" فرمایا: "کوشش کرو اگر صحیح فیصلہ کرو گے تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی، اور اگر صحیح فیصلہ نہیں دو گے تو صرف ایک نیکی ملے گی۔"

کنزالعمال حدیث ۱۴۴۲۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: عنوان "رائے" ( ۲) اور عنوان "فتویٰ")

قاضیوں کی اقسام

۱۶۸۶۹ ۔ قاضی چار قسم کے ہوتے ہیں، جن میں سے تین قسم کے لوگ جہنمی ہیں اور صرف ایک قسم کے لوگ جنتی ہیں۔

۱ ۔ ایک شخص وہ ہے جو ظلم کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔

۲ ۔ ایک وہ جو ظلم کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے لیکن اس جانتا نہیں یہ بھی جہنمی ہے۔

۳ ۔ ایک وہ جو حق کے ساتھ تو فیصلہ کرتا ہے لیکن اسے جانتا نہیں یہ بھی جہنمی ہے۔

۴ ۔ اور ایک وہ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اسے جانتا بھی ہے۔ ایسا شخص جنتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار جلد ۷۸ ص ۲۴۷ جلد ۱۰۴ ص ۲۶۳

ص ۲۶۴ ۔ فروع جلد کافی جلد ۷ ص ۴۰۷

۱۶۸۷۰ ۔ قاضی تین طرح کے ہیں، جن میں سے دو جہنمی اور صرف ایک جنتی ہے۔

۱ ۔ جو قاضی اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ جہنمی ہے۔

۲ ۔ جو قاضی علم کے بغیر فیصلہ کرتا ہے وہ بھی جہنمی ہے اور،

۳ ۔ جو قاضی حق کا فیصلہ کرتا ہے، وہ جنتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۱

۱۶۸۷۱ ۔ قاضی تین طرح کے ہیں جس میں سے دو جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔

۱ ۔ ایک وہ شخص جو حق کو جانتا اور اس کے تحت فیصلہ کرتا ہے وہ جنتی ہے۔

۲ ۔ ایک وہ جو لوگوں کے درمیان اپنی جہالت کی بنا پر فیصلے کرتا ہے، وہ جہنمی ہے۔

۳ ۔ اور ایک وہ جو حق کو جانتا تو ہے لیکن فیصلے میں ظلم سے کام لیتا ہے ایسا شخص بھی جہنمی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۰

(قول مولف: ملاحظہ ہو، کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۲ ۔ ۱۵۰۰۳ ۔ ۱۵۰۰۴ ۔)

( ۱۷) کیا عورت قاضی بن سکتی ہے؟

۱۶۸۷۲ ۔ عورت قاضی بن کر لوگوں کے درمیان فیصلے نہیں کر سکتی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۲۱)

۱۶۸۷۳ ۔ عورت نہ تو قاضی بن سکتی ہے اور نہ ہی حکمران!

(امام محمد باقر علیہ السلام)۔ (حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

۱۶۸۷۴ ۔ عورت نہ تو قضا کو اپنے ذمہ لے سکتی ہے اور نہ ہی حکمرانی کو۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۱۶۲

۱۶۸۷۵ ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت حوا کو بہشت سے نکل جانے کا حکم دیا تو فرمایا: "نہ تو میں عورتوں میں کسی کو حاکم بناؤں گا اور نہ ہی کسی کو نبی بنا کر بھیجوں گا"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۷۲

(قول مولف: ملاحظہ ہو: مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۷۲ ۔ بابا "عورت قاضی نہیں بن سکتی"

نیز: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۶ باب: "عورت قاضی نہیں بن سکتی۔"

نیز: امام مالک، شافعی اور احمد بن خبل فرماتے ہیں: "عورت کا قاضی بننا صحیح نہیں ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں، عورت ہر اس معاملے میں قاضی بن سکتی ہے جس میں عورتوں کی گواہی قابل قبول ہوتی ہو۔ یعنی ہر چیز میں قاضی بن سکتی ہے سوائے حدود ارو زخموں سے متعلق۔

ملاحظہ ہو: "دائرة المعارف فرید وجدی جلد ۷ ص ۸۴۵

( ۱۸) میں تمہارے درمیان ظاہر کے مطابق فیصلے کرتا ہوں

قرآن مجید

( ولاتاکلوا اموالکم………………………وانتم تعلمون ) (بقرہ/ ۱۸۸)

ترجمہ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق نہ کھا جایا کرو اور نہ ہی یہ اموال بطور رشوت حکام کو اس لئے پیش کرو کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرتے ہوئے اس دوات کا کچھ حصہ ہضم کر جاؤ۔

حدیث شریف

۱۶۸۷۶ ۔ میں بھی تو ایک بشر ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنی دلیل کو دوسروں کی نسبت اچھے انداز میں پیش کریں، جس کی بناء پر میں اس کے حق میں فیصلہ دے دوں (جبکہ یہ اس کا حق نہ بنتا ہو) ، اس طرح میں اس کے لئے جہنم کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔ (کیونکہ میں تو ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں)۔

کنزالعمال حدیث ۱۵۰۴۳

۱۶۸۷۷ ۔ دو شخص حضرت رسول خدا کے پاس کچھ ایسی میراثوں اور اشیاء کا مقدمہ لے کر حاضر ہوئے جن کے نشانات مٹ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا: "ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی شخص اپنا مدعا دوسرے، سے زیادہ اچھے انداز میں پیش کر سکتا ہو اور میں دوسرے کے مال سے اس کے حق میں (ظاہر کے پیش نظر) فیصلہ دے دوں جبکہ اس کا یہ حق نہ بنتا ہو۔ پس میں اس کو جہنم کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔"

اس پر دونوں افراد نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں نے اپنا حق اپنے ساتھی کو دے دیا۔" آپ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، بلکہ جاؤ اور آپس میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرکے ایک دوسرے میں تقسیم کر دو، پھر ہر ایک دوسرے کو خلال کرکے بخش بھی دے۔"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۳۲۴

۱۶۸۷۸ ۔ حضرت داؤد علیہ السلام ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے: "یا اللہ! مجھے لوگوں کے درمیان ایسے فیصلے کرنے کا الہام دیا کر جن کی اصل حقیقت تیری ذات کے نزدیک موجود ہے۔" اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی: "داؤد! لوگ اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۴ ص ۵ ، ص ۱۱ حدیث ۱۹

۱۶۸۷۹ ۔ جب حضرت قائمِ آل محمد ظہور فرمائیں گے تو لوگوں کے درمیان حضرت داؤد علیہ السلام کی مانند فیصلے کریں گے اور گواہوں کی ضرورت محسوس نہیں فرمائیں گے۔ خداوند عالم ان کی طرف الہام فرمائے گا اور وہ اسی علم کے مطابق فیصلے کریں گے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۴ ص ۱۴

۱۶۸۸۰ ۔ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں قاضی پر واجب ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلے کرے: ۱ ۔ ولایت و سرپرستی ۲ ۔ نکاح ۳ ۔ میراث ۴ ۔ ذبیح ۵ ۔ شہادتیں۔ اگر گواہ بظاہر قابل اطمینان ہوں تو ان کی گواہی قابل قبول ہو گی اور ان کے باطن کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۹۲

۱۶۸۸۱ ۔ امراؤ القیس اور حضر موت کا ایک شخص زمین کے بارے میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے، آنحضرت نے (امراؤ القیس سے) فرمایا: "کیا تمہارے پاس گواہ ہے؟" اس نے کہا: "نہیں! " آپ نے فرمایا: "تو پھر یہ شخص قسم کھائے گا!" امراؤ القیس نے کہا: "پھر تو یہ میری زمین لے جائے گا" آپ نے فرمایا: "اگر وہ تمہاری زمین اپنی قسم کی وجہ سے لے جائے گا تو پھر اس کا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جن کی طرف خداوند عالم بروز قیامت نظر (رحمت) نہیں فرمائے گا، نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔" یہ سن کر وہ شخص گھبرا گیا اور زمین امراؤ القیس کو لوٹا دی۔

تنبیہ الخواطر ص ۴۰۵

قول مولف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۹ باب ۲

( ۱۹) قاضی کے غلط فیصلہ کا خمیازہ

۱۶۸۸۲ ۔ اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حکم دیا کہ قاضی اگر قصاص اور دیت کے بارے میں قتل و عضو کاٹنے کے فیصلے میں غلطی کرے گا تو اس کی تلافی مسلمانوں کے بیت المال سے کی جائے گی۔

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۵ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۵

۱۶۸۸۳ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآراء ہونے کی مذمت میں فرمایا: "جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کے متعلق حکم لگا دیتا ہے، پھر وہی مسئلہ بعینہ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے۔ پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہوتا ہے وہ سب کی رائے کو صحیح قرار دیتا ہے، حالانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے (انہیں غور تو کرنا چاہئے) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کرکے اس کا حکم بجا لاتے ہیں یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع فرمایا ہے اور یہ اختلاف کرکے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑ دیا تھا اور ان سے تکمیل کے لئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا؟

شرح ابن ابی الحدید جلد اول ص ۲۸۸ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۸

۱۶۸۸۴ ۔ عمر بن اذینہ جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں ایک عبدالرحمٰن بن ابی لیفیٰ کے پاس کوفہ گیا جو ان دنوں کوفہ کا قاضی تھا میں اس زمانہ میں بالکل نوجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا: "خدا آپ کا بھلا کرے، میں آپ سے چند مسائل پوچھنا چاہتا ہوں۔" اس نے کہا: "بھتیجے! جو تمہارا جی چاہے پوچھو!" کہا: "آپ مجھے اپنے جیسے قاضی صاحبان کے بارے میں بتائیں جن کے پاس مال، ناموس اور قصاص کے طور پر قتل کے بارے میں کوئی مقدمہ پیش ہوتا ہے، اس بارے آپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور یہی مقدمہ بعینہ مکہ کے قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو آپ کے فیصلہ سے مختلف ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ بصرہ کے قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ اس سے مختلف فیصلہ کرتا ہے۔ اسی طرح یمن اور مدینہ کے قاضیوں کے پاس جاتا ہے تو وہ ان سب کے برعکس فیصلہ دیتے ہیں۔ پھر جب تم سب اپنے خلیفہ کے پاس اکٹھے ہوتے ہو جس نے تمہیں قاضی بنایا ہے اور اپنے اپنے فیصلوں سے اسے باخبر کرتے ہو تو وہ تم سب کے فیصلوں کو درست قرار دیتا ہے۔ حالانکہ تمہارا خدا ایک، پیغمبر ایک اور دین ایک ہے۔ تو کیا خدا نے تمہیں اس اختلاف کا حکم دیا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کر رہے ہو؟ یا اس نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو، یا تم فیصلہ کرنے میں خدا کے شریک ہو کہ تم جو فیصلے کرتے جاؤ وہ ان پر راضی ہوتا رہے، یا پھر اللہ نے دین کو ناقص بھیجا ہے اور تمہارے ذمہ اس کی تکمیل کا کام لگایا ہے؟ اس نے تو دین کو کامل کر دیا ہے لیکن کیا رسول خدا اس کی بجاآوری میں کوتاہی کر چکے ہیں یا تم لوگ کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟"

اس نے مجھ سے پوچھا: "اے جوان! تم کہاں کے رہن والے ہو؟" میں نے کہا: "بصرہ کا" "کونسے قبیلے سے؟" میں نے کہا: "عبدالقیس سے!" پوچھا "عبدالقیس کی کونسی شاخ ہے؟" میں نے کہا: "بنی اذینہ سے!" فرمایا: "عبدالرحمن بن اذینہ سے تمہاری کیا رشتہ داری ہے؟" عرض کیا: "وہ میرے جد امجد ہیں!"

یہ سن کر اس نے بڑی آؤ بھگت کی، مجھے اپنے قریب بلا لیا، اور کہا: "جوان! تم نے بڑے سخت سوالات کئے ہیں اور کافی انہماک و حیران طریقے سے پوچھا ہے۔ میں بھی انشاء اللہ تمہیں ان کا جواب ضرور دوں گا سنو! تم نے فیصلوں کے اختلاف کے بارے میں سوال کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول میں کوئی اصل موجود ہے تو ایسے مسائل میں ہم کتاب و سنت سے روگردانی نہیں کر سکتے، لیکن جن کے بارے میں نہ تو کتاب میں کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی سنت میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، تو ہم وہاں اپنی رائے پر عمل کرتے ہیں۔"

میں نے کہا: "پھر تو آپ نے کچھ بھی نہ کیا، اس لئے کہ خداوند عالم عز و جل فرماتا ہے:( مافرطن فی الکتٰب من شیٴ ) یعنی ہم نے کتاب (قرآن) میں کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی (سب کا ذکر کردیا ہے)، اور آپ کہتے ہیں وہ کتاب میں نہیں ہے۔ اسی طرح خداوند عالم ہی فرماتا ہے( فیه تبیان کل شیٴ ) یعنی اس (قرآن) میں ہر چیز کو بیان کر دیا گیا ہے"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۰ ( مکمل کلام کا مطالہ کیا جائے)

۱۶۸۸۵ ۔ میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جو بھی فیصلہ کیا اس کی اصل سنت رسول میں ضرور موجود ہے۔ حضرت علی فرمایا کرتے تھے: "اگر میرے پاس دو آدمی کوئی مقدمہ لے کر آئیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کر دوں اور پھر وہی لوگ وہی مقدمہ ایک عرصہ دراز اور کئی سالوں کے بعد لے آئیں پھر بھی میں وہی فیصلہ کروں گا جو پہلے کر چکا ہوں، اس لئے کہ فیصلے کبھی بدلا نہیں کرتے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۷۲

۱۶۸۸۶ ۔ (حضرت علیہ السلام، محمد بن ابی بکر کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں)

"ایک ہی نوعیت کے کسی مقدمہ میں دو طرح کے مختلف فیصلے نہ کیا کرو، ورنہ تمہارا اپنا معاملہ مختلف ہو جائے گا اور تم راہِ حق سے ہٹ جاؤ گے"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

( ۲۱) قضا کے متعلق مجلس شوریٰ

۱۶۸۸۷ ۔ میں عرض کیا: "یارسول اللہ! اگر کوئی ایسا معاملہ مجھے درپیش ہو جس کے بارے میں کوئی حکم نہ نازل ہوا وہ اور نہ ہی سنت میں موجود وہ تو آپ کیا حکم دیتے ہیں؟" آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مومن فقہاء اور عابدین کی ایک مجلس شوریٰ تشکیل دو اور کسی ایک خاص رائے کے مطابق فیصلہ نہ کرو۔"

(حضرت علی علیہ السلام) کنزالعمال حدیث ۱۴۴۵۶

۱۶۸۸۸ ۔ "میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو قضا کے منصب پر فائز تو ہو جاتے ہیں لیکن جب ان کے لئے کوئی مقدمہ مشتبہ ہو جاتا ہے تو کسی سے مشورہ نہیں کرتے۔ اگر صحیح فیصلہ کرتے ہیں تو اترانے لگ جاتے ہیں۔ اور اگر غصہ کی حالت میں ہوتے ہیں تو سختی کا برتاؤ کرتے ہیں۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۰

۱۶۸۸۹ ۔ جس چیز کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا، اس لئے میں تمہارے درمیان اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۸۵

۱۶۸۹۰ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے رفاعہ کے نام مکتوب سے اقتباس جب آپ نے اسے اھواز کا قاضی مقرر فرمایا: "مقدمہ کا فیصل ہکرنے میں کسی سے مشورہ نہ لیا کرو کیونکہ مشورہ یا تو جنگ کے بارے میں ہوتا ہے یا فوری طور پر درپیش آنے والے مصلحت پر مبنی امور میں، جبکہ دین رائے کے ساتھ نہیں بلکہ اتباع کے ساتھ ہوتا ہے۔"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۹۱ ۔ جب حاکم (فیصلہ کرنے والا) اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والوں سے پوچھتا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں یا اس سلسلہ میں ان کی کیا رائے ہے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے وہ خود مسند سے اٹھ کر انہیں اپنی جگہ پر کیوں نہیں بٹھا دیتا؟"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "شوریٰ" "شوریٰ وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی فیصلہ نازل نہیں ہوا ہوتا۔"

( ۲۲) عدالتِ عالیہ

۱۶۸۹۲ ۔ جب حضرت امیر علیہ السلام نے شریح کو منصب قضا پر فائز کیا تو اس پر یہ خود حضرت کو شرط عائد فرمائی کہ اس وقت تک کسی فیصلہ کا اجرا نہیں کر سکتا جب تک وہ فیصلہ نہ دکھا دے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۶ ص ۱۸

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۰۷ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

۱۶۸۹۳ ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی سے سنا کہ آپ شریح قاضی سے فرما رہے تھے: "تم کسی قصاص یا حدودِ الٰہی میں سے کسی حد یا مسلمین کے حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے جب تک کہ اسے پہلے مجھے نہ دکھا دو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۶

( ۲۳) قاضی کب سے بنائے جانے لگے!

۱۶۸۹۵ ۔ ابن شہاب، سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں: "نہ تو حضرت رسول خدا نے باقاعدہ محکمہ قضا کھول کر قاضی مقرر کیا تھا نہ حضرت ابوبکر  ، اور حضرت عمر  نے، لیکن جب ان کی خلافت کا نصف زمانہ گزر چکا تو یزیدین اخت نمر سے کہا کہ تم بعض یعنی چھوٹے چھوٹے امور میں میرا ہاتھ بٹایا کرو۔"

کنزالعمال جلد ۵ ص ۸۱۴ ، نیز ص ۱۵ بھی ملاحظہ ہو

( ۲۵) قضا کے متعلق متفرق احادیث

۱۶۸۹۶ ۔ طمع قضا کی آفت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۹۷ ۔ سب سے زیادہ دردناک چیز، قاضیوں کا ظن سے کام لینا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۹۸ ۔ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کرنا انصاف نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۴۲ نہج البلاغہ حکمت ۲۲۰

۱۶۸۹۹ ۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "گواہ مدعی کے ذمہ ہیں اور قسم مدعا علیہ کے اوپر"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۷۰

۱۶۹۰۰ ۔ غیرحاضر پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۱۷

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو، وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۷۰ باب ۳

نیز: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۱۶ باب ۲۶