میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 56738
ڈاؤنلوڈ: 6033

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56738 / ڈاؤنلوڈ: 6033
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۱۹

قلب (دل) ( ۱)

۱۶۹۰۱ ۔ "دل تر" کو "قلب" اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے، اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک بیابان میں کسی پرندے کا پر کسی درخت کے تنے کے ساتھ لٹکا ہوا ہو اور ہوا اسے اوپر نیچے یا آگے پیچھے کرتی رہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۲۱

۱۶۹۰۲ ۔ دل آنکھوں کا صحیفہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۲۰ ص ۴۶ ۔ بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۲۸ ۔ جلد ۷۸ ص ۱۳

۱۶۹۰۳ ۔ دل زبان کا خزانچی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۰۴ ۔ دل حکمت کا سرچشمہ اور کان حکمت کو وہاں تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۰۵ ۔ جب دل (حکمت سے) خالی ہو تو جسم کی لمبائی چوڑائی بیکار ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۰۶ ۔ عقل کا ٹھکانہ دماغ ہوتا ہے اور سختی اور نرمی دل میں ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۵۴

(از مترجم۔ اس مقام پر علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ کی تفسیر "المیزان" سے ایک طویل فلسفی گفتگو نقل کی گئی ہے، اختصار کی غرض سے ہم یہاں پر اسے ذکر نہیں کر رہے۔ جو حضرات مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ جلد ۲ ص ۲۲۳ تا ص ۲۲۵ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں)۔

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو، بحارالانوار جلد ۷ ص ۳۴ و ص ۳۷ " قلب کے معنی کے بارے میں علامہ مجلسی کا بیان"

نیز: ملاحظہ ہو: المجحة البیضأ جلد ۵ ص ۴ " نفس، روح، عقل اور قلب کے معانی اور ان اسماء سے کیا مراد ہے!"

( ۲) دل جسم کا امام ہے

۱۶۹۰۷ ۔ دل کو جسم سے وہی نسبت ہے جو امام کو عوام سے ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷ ص ۵۳

۱۶۹۰۸ ۔ جب کسی انسان کا دل پاکیزہ ہوتا ہے تو اس کا جسم بھی پاکیزہ ہوتا ہے، اور جب دل پلید ہوتا ہے تو جسم بھی پلید ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۲۲۲ ، خصائل صدوق  حدیث ۱۱۰ بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۰

۱۶۹۰۹ ۔ انسان کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ اگر یہ صحیح سالم ہو تو باقی جسم بھی صحیح سالم ہوتا ہے، اگر یہ بیمار ہو تو باقی جسم بھی بیمار ہوتا ہے۔ وہ ہے "دل"،

(حضرت رسول اکرم) خصال صدوق ص ۱۰۹

۱۶۹۱۰ ۔ یقیناً انسان کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو باقی جسم بھی صحیح رہتا ہے اور اگر یہ بیمار ہو جائے تو پھر باقی جسم بھی تندرست نہیں رہتا۔ وہ اس کا دل ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۲۲۳

۱۶۹۱۱ ۔ دل بادشاہ ہے اور اس کا ایک لشکر ہے۔ جب بادشاہ صحیح و سالم ہو تو باقی لشکر بھی صحیح و سالم ہوتا ہے اور اگر بادشاہ بگڑ جائے تو لشکر میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۰۵ ، ۲۰۶ ،

( ۳) انسان کا دل نہایت تعجب انگیز شے ہے

۱۶۹۱۲ ۔ انسان میں سب سے زیادہ عجیب چیز، اس کا دل ہوتا ہے جس میں حکمت کے مواد پائے جاتے ہیں۔ اس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں، نیز اس کے برخلاف بھی صفات پائی جاتی ہیں۔ اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کے لئے جان لیوا بن جاتے ہیں۔ ااگر غضب اس پر طاری ہو تو غم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے، اگر وہ خوش ہوتا ہے تو حفظِ ماتقدم کو بھول جاتا ہے، اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو فکر و اندیشہ، دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔ اگر امن و امان کا دور دورہ ہو تو فریب و دھوکہ اس پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اگر اسے کوئی جدید نعمت ملتی ہے تو تکبر اسے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے۔ اگر وہ مال ودولت حاصل کر لے تو دولت اسے سرکش بنا دیتی ہے۔ اگر فقر و فاقہ میں مبتلا ہو تو مصیبت و ابتلا اسے جکڑ لیتے ہیں۔ اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی۔ اگر شکم پری زیادہ ہو جائے تو یہ اس کے لئے کرب واذیت کا باعث ہوتی ہے۔ ہر کوتاہی اس کیلئے نقصان رسان اور اعتدال سے زیادتی اس کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۲

قولِ مولف: یہی حدیث قدرے اختلاف کے ساتھ نہج البلاغہ حکمت ۱۰۸ ، نہج السعادہ جلد ۱ ص ۲۸۲ ،

فروع کافی جلد ۸ ص ۲۱ ، غررالحکم اور بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۸۴ میں تحف العقول سے نقل کی گئی ہے۔

( ۴) دل خداوند سبحان کا ظرف ہے

۱۶۹۱۳ ۔ زمین میں اللہ تعالیٰ کے کچھ ظروف ہیں، اور یاد رکھو کہ وہ دل ہیں، لہٰذا خداوند سبحان و تعالیٰ کے محبوب ترین دل وہ ہیں جو سب سے زیادہ نرم، سب سے زیادہ صاف اور سب سے زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ دل نرم ہوتے ہیں دوستوں کے لئے، صاف ہوتے ہیں گناہوں سے اور سخت ہوتے ہیں ذاتِ خداوندِ ذوالجلال کے بارے میں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۲۰۷ ، ۱۲۲۴ ، ۱۲۲۵

۱۶۹۱۴ ۔ زمین میں خداوندِ عالم کے کچھ ظروف ہیں جن میں سے خدا کے نزدیک محبوب وہ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ صاف، سب سے زیادہ نرم اور سب سے زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ وہ ہیں "دل" ان میں سب سے زیادہ نرم اپنے دوستوں اور بھائیوں کے لئے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ سخت وہ ان کے لئے ہوتے ہیں جو حق کی راہ میں خدا کے لئے کام کرتے ہیں اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتے سب سے زیادہ صاف وہ ہیں جو گناہوں سے صاف ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷ ص ۶ ، ص ۵۶

( ۵) دل ہی سے اللہ تعالیٰ کا قصد کیا جاتا ہے

۱۶۹۱۵ ۔ دلوں کے ذریعہ اللہ کی ذات کا قصد زیادہ مناسب ہوتا ہے، اعمال کے ذریعہ اعضا کو تھکا کر اللہ تک رسائی حاصل کرنے کی نسبت۔

(امام علی نقی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۶۲ جلد ۷۰ ص ۶۰ لیکن اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث حضرت رسول خدا سے مروی ہے،

۱۶۹۱۶ ۔ دلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قصد، بدن کے ذریعہ اللہ تک رسائی کے لئے زیادہ بہتر ہے، نیز دلوں کی حرکتیں زیادہ مناسب ہوتی ہیں اعمال کی حرکتوں سے،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مشکواة الانوار ص ۲۵۷

۱۶۹۱۷ ۔ اللہ تعالیٰ نہ تو صورتوں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہارے اموال یا تمہارے اقوال کی طرف، بلکہ صرف تمہارے قلوب اعمال کو دیکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحار الانوار جلد ۷۷ ص ۸۸ مکارم الاخلاق، امالی شیخ اور تنبیہ الخواطر

۱۶۹۱۸ ۔ خداوند عالم اپنی رحمت سے ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو نیک بندوں کی منزل تک پہنچنے کے لئے دل کے ساتھ کوشش کرتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۵

( ۶) دل کی قسمیں

۱۶۹۱۹ ۔ دل چار طرح کے ہوتے ہی، ۱ ۔ وہ دل جس میں ایمان ہوتا ہے لیکن قرآن نہیں ہوتا۔ ۲ ۔ وہ دل جس میں ایمان بھی ہوتا ہے اور قرآن بھی۔ ۳ ۔ وہ دل جس میں قرآن ہوتا ہے ایمان نہیں ہوتا۔ ۴ ۔ وہ دل جس میں نہ ایمان ہوتا ہے نہ قرآن۔

پہلی قسم اس کھجور کے پھل کی مانند ہے جس کا ذائقہ تو مزیدار ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی دوسری قسم کستوری کی اس تھیلی کی مانند ہے جسے کھولا جائے یا بند رکھا جائے تو پھر بھی خوشبو سے نوازتی ہے۔ جو تیسری قسم ایمان کے پودے کی مانند ہے جس کی خوشبو تو ہوتی ہے لیکن ذائقہ تلخ ہوتا ہے۔ اور جو چوتھی قسم حنطل کے پھل کی مانند ہے جس کی بو بھی خراب اور ذائقہ بھی تلخ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۶۰

۱۶۹۲۰ ۔ دل چار قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس میں ایمان بھی ہوتا ہے اور نفاق بھی۔ ایک وہ جو الٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن پر مہر لگی ہوتی ہے۔ اور۔ ایک وہ جو تروتازہ اور نورانی ہوتے ہیں۔

جس دل پر مہر لگی ہوتی ہے وہ منافق کا دل ہوتا ہے۔

جو شاداب و نورانی ہوتا ہے وہ مومن کا دل ہے۔

جو الٹا ہوتا ہے وہ مشرک کا دل ہے۔

جو دل ایمان اور نفاق دونوں کا حامل ہوتا ہے وہ طائف کے باشندوں کے دل تھے، اگر ان میں سے کسی کی موت نفاق کی حالت میں ہوء تو وہ تباہ و برباد ہو گیا اور اگر ایمان کی حالت میں ہوئی تو وہ نجات پا گیا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۱ کافی جلد ۲ ص ۴۲۲ حدیث ۲

۱۶۹۲۱ ۔ دل چار طرح کے ہوتے ہیں۔

ایک چٹیل زمین کی طرح، روشن چراغ کی مانند!

ایک وہ جس پر غلاف پڑے ہوتے ہیں اور وہ غلافوں میں لپٹا ہوتا ہے۔

ایک وہ جو الٹا جھکا ہواور ایک وہ جو چوڑا ہوتا ہے

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۲۲۶

۱۶۹۲۲ ۔ دل تین طرح کے ہوتے ہیں۔

ایک وہ جو الٹے جھکے ہوئے ہوتے ہیں جو خیر کی کسی بھی بات کو یاد نہیں رکھتے اور یہ کافروں کے دل ہیں۔

ایک وہ جن میں سیاہ نقطے ہوتے ہیں جن میں خیر اور شر باہم دست بگریبان رہتے ہیں، جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسرے پر غالب آ جاتا ہے اور

ایک وہ جو کھلے ہوئے ہوتے ہیں جن میں ہمیشہ ایسے چراغ روشن رہتے ہیں جو قیامت تک بجھنے میں نہیں آتے۔ یہ دل مومنین کے دل ہوتے ہیں۔

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۱ کافی جلد ۲ ص ۴۲۳ حدیث ۳

۱۶۹۲۳ ۔ مومن کا دل ہر طرح سے پاک و صاف ہوتا ہے۔ اس میں چراغ روشن رہتا ہے جبکہ کافر کا دل سیاہ اور الٹا ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۹

( ۷) بہترین دل

۱۶۹۲۴ ۔ یہ دل (اسرار و حکم کے) ظروف ہیں۔ ان میں بہترین دل وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۴۷ ۔ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۸ ص ۲۴۶ بحار الانوار جلد ۷۸ ص ۱۱

۱۶۹۲۵ ۔ یہ جان لو کہ خداوندِ عالم نے صرف ان دلوں کی تعریف کی ہے جو حکمت کی سب سے زیادہ نگہداشت کرنے والے ہوتے ہیں، نیز کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق کی بات پر جلد لبیک کہتے ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۲۶ ۔ دل (اسرار و حکم کے) ظروف ہیں جن میں بہترین دل وہ ہے جو خیر کی زیادہ نگہداشت کرتا ہے،

(حضرت علیہ علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۲۷ ۔ بافضلیت دل وہ ہوتا ہے جس کی آبیاری فہم و ذکا سے کی جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۸) دلوں کے اعراب

۱۶۹۲۸ ۔ دلوں کے اعراب چار قسم کے ہیں، "رفع" (پیش) "فتح" (زبر) "خفض" (زیر) اور وقف (ٹھہراؤ) چنانچہ ان کا "رفع" ذکر الٰہی میں ہے، "فتح" رضائے الٰہی میں ہے "خفض" غیراللہ سے کٹ کر رہنے میں ہے اور ان کا "وقف" خدا کی ذات سے غافل ہو جانے میں ہے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۵

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "نحو" "اعمال کے اعراب")

( ۹) دل کی سلامتی

قرآن مجید:

( ولا تخزنی یوم یبعثون- یوم لا ینفع مال ولا نبون- الامن اتی الله بقلب سلیم ) ۔ (شعرأ/ ۸۷ تا ۸۹)

ترجمہ۔ اور تو اس دن مجھے رسوا نہ کرنا، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے، جس دن مال و اولاد کچھ نفع نہ پہنچائیں گے سوائے اس کے جو اللہ کے پاس (بے عیب اور ہر طرح سے صحیح و سالم دل لے کر آئے گا)

( وان من مثیعته لا برٰهیم- اذجاء ربه بقلب سلیم ) ۔ (صافات/ ۸۳ ۔ ۸۴)

ترجمہ۔ اور بے شک ابراہیم بھی اس کے پیروکاروں میں سے تھا۔ جب وہ اپنے پروردگار کے حضور صحیح و سالم دل (قلب سلیم) کے ساتھ حاضر ہوا۔

حدیث شریف

۱۶۹۲۹ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ "قلب سلیم" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایسا دل جس میں شک و نفسانی خواہشات نہیں ہوتیں اور ایسا عمل ہے جس میں شہرت طلبی اور ریا نہیں ہوتا۔"

مستدرک الوسائل جلد اول ۱۲

۱۶۹۳۰ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول:( الا من اتی الله بقلب سلیم ) (شعرأ/ ۸۹) کے بارے فرمایا : "قلب سلیم وہ ہے جو اپنے رب سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ اس میں خدا کے سوا کوئی اور چیز نہ ہو۔ جس دل میں شک یا شرک ہوتا ہے وہ (خدا کی نظروں سے) ساقط ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۹ ص ۲۳۹

۱۶۹۳۱ ۔ اسی آیت کے بارے میں فرمایا: "وہ دل ہوتا ہے جو دینوی محبت سے سالم ہو۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۵۸

۱۶۹۳۲ ۔ سچی نیت والا شخص ہی قلب سلیم کا مالک ہوتا ہے کیونکہ ذکر ہونے والے وسوسوں اور اندیشوں سے دل کا بچا رہنا، تمام امور میں نیت کو خدا کے لئے خالص کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( یوم لا ینفع مال ولا نبون… ) جس دن مال اور اولاد کچھ نفع نہ پہنچائیں گے، سوائے اس کے جو اللہ کے پاس بے عیب اور ہر طرح سے صحیح و سالم دل لے کر آئے گا۔ (شعرأ/ ۸۸/۸۹)

(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۵۸

۱۶۹۳۳ ۔ سلامتی کی تلاش جیسا کوئی علم نہیں اور دل کی سلامتی جیسی کوئی سلامتی نہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۶۴

۱۶۹۳۴ ۔ قلب سلیم سے ہی سیدھے معانی ظاہر ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۳۵ ۔ جن دلوں کو خواہشات شگافتہ نہ کر سکیں، لالچ داغدار نہ کر سکے اور نعمتیں سنگدل نہ بنا سکیں وہ دل اس قابل ہوتے ہیں کہ حکمت کے ظروف قرار پائیں۔

(حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۴ ص ۳۲۷

۱۶۹۳۶ ۔ تمہارا دل اس وقت تک سالم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم مومنین کے لئے بھی وہی کچھ پسند نہ کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۸

۱۶۹۳۷ ۔ صحیح اور سالم ترین قلب وہ ہے جو شبہات و شکوک سے پاک ہو۔

۱۶۹۳۸ ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہو تو اسے قلبِ سلیم اور اچھا خلق عطا فرما دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "دل کی بیماری"

( ۱۰) اطمینانِ قلب

قرآن مجید

( الذین امنوا………………………تطمئن القلوب ) (رعد/ ۲۸)

ترجمہ۔ جو لوگ ایمان لے آئے ان کے دل یادِ الٰہی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ خوب جان لو کہ ذکرِ الٰہی سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔

( هوالذی انزل…………………………مع ایمانهم ) (فتح/ ۴)

ترجمہ۔ وہ وہی (خدا) ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں تسکین نازل فرمائی تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان کو اور بڑھا لیں

( یاتیها الفنس المطمئنة……………………رافیة مرضیة ) (فجر/ ۲۷ ۔ ۲۸)

ترجمہ۔ اے اطمینان پانے والے نفس! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا، ایسی حالت میں کہ تو راضی اور خوشی اور پسندیدہ ہے

۱۶۹۳۹ ۔ دل حق کی تلاش میں تڑپتا رہتا ہے جب اسے حق مل جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو کر قرار پا لیتا ہے" پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "فمن یرداللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ الاسلام" یعنی جب خداوند عالم کسی کی ہدایت چاہتا ہے تو اسلام کے لئے اس کے دل کو کشادہ کر دیتا ہے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مشکوٰة الانوار ص ۲۵۵ ۔ بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۷ نورالثقلین جلد اول ص ۷۶۶

۱۶۹۴۰ ۔ "دل کو جب تک حق حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اپنے مقام سے گردن تک الٹ پیر کا شکار رہتا ہے۔ جب حق اسے حاصل ہو جاتا ہے تو وہ قرار پا لیتا ہے۔" پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا کر فرمایا "اس طرح" اس کے بعد اس آیت کو تلاوت فرمایا: "فمن یرداللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ الاسلام"

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۷

۱۶۹۴۱ ۔ مومن کی روح کے قبض کرنے کے بارے میں فرمایا: "اور اس کو حضرت محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسین اور ان کی ذریت سے باقی آئمہ اطہار علیہم السلام کو مثالی صورت میں دکھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے: "یہ رسول خدا، امیرالمومنین، فاطمہ زہرا، حسن و حسین اور باقی آئمہ تمہارے دوست ہیں‘ذ جس پر دل اپنی آنکھوں کو کھول دیتا ہے ، پھر رب العزت کی طرف سے ایک ندا دینے والا اس کی روح کو ندا دیتا ہے: "اے وہ نفس کہ جسے محمد و اہل بیتِ محمد سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تُو، ولایت کے ساتھ خوش ہے۔ اس طرح میری جنت میں داخل ہو جا۔"

اس وقت مومن کے لئے اس بات سے بڑھ کر کوئی اور بات محبوب نہیں ہوتی کہ اس کی روح کو قبض کر لیا جائے اور وہ ندا دینے والے سے جا ملے۔

فروع کافی جلد ۳ ص ۱۲۸

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "ذکر" ( ۲) باب "ایمان" ، "ایمان اور تسکین" نیز: باب "دین" حدیث ۶۱۸۴)

(۱ ۱) دل کی آنکھیں

۱۶۹۴۲ ۔ بندہ کے چہرے پر دو آنکھیں ہوتی ہیں جن سے وہ دینوی امور کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح دل میں بھی دو آنکھیں ہوتی ہیں جن سے وہ اخروی امور کو دیکھتا ہے۔ لہٰذا جب خداوند عالم کو کسی بندے کی بھلائی مقصود ہوتی ہے تو اس کی ان آنکھوں کو کھول دیتا ہے جو اس کے دل میں ہوتی ہیں، اس طرح اسے وہ چیز دکھاتا ہے جن کا اس سے غیب میں وعدہ کر رکھا ہے، اسی لئے وہ عیب کے ذریعے غیب پر ایمان لے آتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۰۴۳

۱۶۹۴۳ ۔ یاد رکھو کہ ہر بندہ کی چار آنکھیں ہوتی ہیں: دو آنکھیں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے دین و دنیا کے امور کو دیکھتا ہے، اور دوسری دو آنکھوں سے اپنی آخرت کے امور کو دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ان کے ذریعہ غیب اور اپنی آخرت کے امور کو دیکھتا ہے۔ لیکن اگر وہ ان کے ذریعہ کسی اور چیز کو دیکھتا ہے تو پھر دل اس کو چھوڑ دیتا ہے۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۳ ، خصال صدوق  ص ۲۴۰ التوحید ص ۳۶۷

۱۶۹۴۴ ۔ ہمارے شعبوں کی چار آنکھیں ہوتی ہیں، دو سر میں اور دوسری دو دل میں، یہ بھی یاد رکھو کہ باقی دوسرے لوگ بھی اسی طرح ہیں لیکن اللہ نے تمہاری آنکھوں کو کھول دیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۸ نورالثقلین جلد ۳ ص ۵۰۸ ۔

۱۶۹۴۵ ۔ اگر شیاطین اولاد آدم کے دلوں پر نہ منڈلائیں تو وہ بھی حکومت کی زیارت کریں۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۹

۱۶۹۴۶ ۔ (دعائیہ کلمات) "بارالٰہا! مجھے مکمل طور پر مخلوق سے منقطع کرکے اپنی طرف متوجہ فرما! ہمارے دلوں کی آنکھوں کو اپنی ذات کی طرف نگاہ کرنے کی روشنی سے منور فرما! یہاں تک کہ دل کی نگاہیں، نور کے حجابوں کو شگافتہ کرکے تیری عظمت کے معاون تک پہنچ جائیں، اور ہماری روحیں تیری مقدس عزت سے معلق ہو جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۹۸ ، ص ۹۹

۱۶۹۴۷ ۔ (دعائیہ کلمات) خداوندا! ہمارے دلوں پر پڑے ہوئے شک اور حجاب کے پردے ہٹا دے۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۴۷

۱۶۹۴۸ ۔ کچھ بعید نہیں کہ دلوں میں چھپی ہوئی خوبیاں غیب کے اسرار پر مطلع ہو جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۴۹ ۔ دل (کی آنکھوں) سے دیکھنے والے اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے ہی) جان لیتا ہے کہ کوئی عمل اس کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے اور مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۴

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "زہد" ، "زہد کے فوائد" ( ۳)

نیز: باب "شیعہ" ، "شیعوں کی صفات" ( ۳)

نیز: باب "موت" ، "جانکنی کے وقت انسان دیکھ رہا ہوتا ہے کہ دو ٹھکانوں میں سے کسی کی طرف جا رہا ہے۔" باب "مرنے والوں کے پاس پیغمبر آتے ہیں"

نیز: باب "معرفت" ( ۳) باب "دل (کی آنکھوں) سے دیکھنا"

نیز: عنوان " ۴۹۶ " ملکوت"

( ۱۲) دل کے کان

۱۶۹۵۰ ۔ دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ایمانی روح اس سے نیکی کی سرگوشی کرتی ہے اور دوسرے میں شطان اس سے برائی کی سرگوشی کرتا ہے۔ ان میں سے جو بھی طاقتور ہوتا ہے دوسرے پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۳)

۱۶۹۵۱ ۔ دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ایمانی روح اس سے نیکی کی سرگوشی کرتی ہے اور دوسرے میں شیطان اس سے برائی کی سرگوشی کرتا ہے۔ ان میں سے جو بھی طاقتور ہوتا ہے دوسرے پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۳

۱۶۹۵۱ ۔ دل کے دو کان ہوتے ہیں جب بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو ایمانی روح اسے کہتی ہے کہ "ایسا مت کرو" لیکن شیطان کہتا ہے، ایسا کر ڈال" اگر وہ ایمانی روح پر غالب آ جاتا ہے تو پھر انسان سے وہ روح سلب کر لی جاتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۴۴

۱۶۹۵۲ ۔ ہر ایک دل کے دو کان ہوتے ہیں جن میں ایک پر راہنما فرشتہ مقرر ہوتا ہے اور دوسرے پر فتنہ پرور شیطان۔ ایک کسی کام کا حکم دیتا ہے تو دوسرا اسے روکتا ہے۔ شیطان اسے گناہوں کا حکم دیتا ہے تو فرشتہ اسے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے، خداوند عالم بھی اسی بارے میں فرماتا ہے: "عین الیمین وعن الشمال قعید۔ ما یلفظ من قول الالدیہ رقیب و عتید" دو لینے والے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے لیتے جاتے ہیں۔ ایک بات بھی تو وہ اپنے منہ سے نہیں نکالتا مگر یہ کہ اس کے پاس ہی نگران تیار و موجود ہوتا ہے (ق/ ۱۱)

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۲۳

۱۶۹۵۳ ۔ ہر مومن کے دل کے دو کان ہوتے ہیں۔ ایک کان میں "وسواس خناس" (شیطان) پھونکیں مارتا ہے اور دوسرے میں ایک فرشتہ پھونکتا ہے، اللہ تعالیٰ اسی فرشتہ کے ذریعے مومن کی تائید فرماتا ہے، اور یہی خداوندِ عالم کا قول ہے: "وایدھم بروح منہ" اور اپنی روح کے ساتھ ان کی تائید کی ہے۔

۱۶۹۵۴ ۔ ہارون بن خارجہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "بعض اوقات میں بلا کسی وجہ کے اپنے دل میں خوش ہوتا ہوں۔ یہ خوشی نہ تو مال کے بارے میں ہوتی ہے، نہ ہی کسی دوست کے بارے میں۔ اسی طرح اپنے دل میں غم و اندوہ کا احساس کرتا ہوں جو بغیر کسی وجہ کے حاصل ہوتا ہے یعنی نہ تو مال کے بارے میں ہوتا ہے نہ ہی دوست کے سلسلے میں اس کی کیا وجہ ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: "ہاں! اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شیطان، دل کے پاس جا کر کہتا ہے کہ: اگر اللہ کے نزدیک تیری کوئی اچھائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ تیرے دشمن کو تجھ پر برتری نہ دیتا، نہ ہی تجھے اس کا محتاج بناتا، کیا تو بھی ان جیسے لوگوں سے توقع رکھتا ہے جن کی میں نے تجھ سے پہلے لوگوں سے توقع رکھی تھی۔ انہوں نے اس بارے میں کوئی بات کی تھی؟"

یہی وجہ ہے کہ انسان کسی وجہ کے بغیر غمگین ہو جاتا ہے۔

اسی طرح خوشی کے بارے میں یہ ہے کہ ایک فرشتہ انسان کے دل کے پاس جا کر کہتا ہے:

"اگر اللہ نے تیرے دشمن کو تجھ پر برتری عطا کی ہے اور تجھے اس کا محتاج بنایا ہے، تو یہ صرف چند دنوں کی بات ہے، اور تجھے خدا کی طرف سے اس کی مغفرت و فضل و کرم کی خوشخبری ہو"

یہی خداوندِ عالم کا فرمان ہے:( الیشطٰن یعدکم الفقر و یا مرکم بالفحشأ والله یعدکم مغفرة منه و فضلا )

بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۵۶

۱۶۹۵۵ ۔ تمہارا ایک دل ہے جس کے کان ہیں۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کو کسی بندہ کی ہدایت مطلوب ہوتی ہے تو اس کے دل کے کان کھول دیتا ہے، اور جب اس کے علاوہ چاہتا ہے تو دل کے کانوں پر مہر لگا دیتا ہے جس سے اس کی صلاحیت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے، یہی ہے خداوند عالم کے قول کا مطلب:( ام علی قلوب اقضالها ) کیا ان کے دلوں پر قفل، پڑے ہوئے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۲۰۳

۱۶۹۵۶ ۔ اگر تمہارے دلوں میں تردد اور گفتگو میں مبالغہ آرائی نہ ہوتی تو تم بھی وہی کچھ سنتے جو میں سنتا ہوں۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۴۹۷ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

۱۶۹۵۷ ۔ "میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔ جب آپ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا: "یا رسول اللہ! یہ آواز کیسی ہے؟" آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔ (اے علی!) جو میں سنتا ہوں تم بھی وہی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں وہی تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو۔"

۱۶۹۵۸ ۔ تمہارے درمیان میری مثال ایسے ہے جیسے اندھیرے میں چراغ، کہ جو اس میں داخل ہو وہ اس سے روشنی حاصل کرے۔ اے لوگو! سنو اور یاد رکھو، اور دل کے کانوں کو کھول کر سامنے لاؤ، تاکہ سمجھ سکو۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۷

( ۱۳) خوش دلی اور بددلی

۱۶۹۵۹ ۔ دلوں کے لئے رغبت و میلان آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہوتا ہے، لہٰذا ان سے اس وقت کام لو جب ان میں خواہش و میلان ہو، کیونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگایا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۱۷ ، جلد ۷۰ ص ۶۱ ، شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۱۱

نہج البلاغہ حکمت ۱۹۳

۱۶۹۶۰ ۔ دل کبھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی اچاٹ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جب مائل ہوں تو اس وقت انہیں مستحبات کی بجاآوری کے لئے آمادہ کرو، اور جب اچاٹ ہوں تو واجبات و فرائض پر اکتفا کرو،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم، شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۲۱۹ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۱۲

۱۶۹۶۱ ۔ دل کبھی زندہ ہوتے ہیں اور کبھی مر جاتے ہیں، جب زندہ ہوں تو انہیں مستحبات کے لئے سدھاؤ اور جب مر چکے ہوں تو صرف فرائض کو ہی کافی سمجھو،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۷۸

۱۶۹۶۲ ۔ دل کبھی مائل ہوتے ہیں کبھی اچاٹ ہو جاتے ہیں، کبھی ہشاش بشاش ہوتے ہیں اور کبھی سست ہو جاتے ہیں۔ جب مائل ہوتے ہیں تو بصیرت حاصل کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ جب اچاٹ ہو جاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں اور ملول پڑ جاتے ہیں۔ جب مائل و ہشاش بشاش ہوں تو ان سے کام لو، اور جب اچاٹ و سست ہوں تو انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔

(امام رضا علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۵۴ و ص ۳۵۷

۱۶۹۶۳ ۔ جب دل ہشاش بشاش ہوں تو امانتوں کو ان کے سپرد کرو، ارو جب بدکے ہوئے ہوں تو انہیں جانے دو،

(امام حسن عسکری) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۷۷ جلد ۷۰ ص ۶۰

۱۶۹۶۴ ۔ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں لہٰذا (جب ایسا ہو تو) ان کے لئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۹۱ بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۶۱

( ۱۴) دل کی پاکیزگی

قرآن مجید

( انما یریدالله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهرا ) ۔ (احزاب/ ۳۳)

ترجمہ۔ اے اہل بیت! اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک رکھے جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے۔

(قولِ مولف: مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو: سورہ احزاب/ ۵۳ ، مائدہ/ ۴۱ اور توبہ/ ۱۰۸)

حدیث شریف

۱۶۹۶۵ ۔ اپنے دلوں کو گناہوں کی میل کچیل سے پاک کر دو۔ اس طرح تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا۔

(حضرت علی) غررالحکم

۱۶۹۶۶ ۔ خواہشاتِ نفسانی کی میل سے اپنے دلوں کو پاک رکھو، اس طرح تم بلند درجوں تک جا پہنچو گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۶۷ ۔ اپنے دلوں کو کینے سے صاف کر دو کیونکہ یہ وبا پھیلانے والی بیماری ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۶۸ ۔ حضرت موسیٰ بنعمران نے عرض کیا: "پروردگارا! تیرے وہ مخصوص بندے کون ہیں جن پر تو اس دن عرش سے سایہ کرے گا جس دن تیرے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہو گا؟" اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: "جن لوگوں کے دل پاک ہوں گے"

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۶۹ ص ۳۹۱)

۱۶۹۶۹ ۔ بندوں کے پاکیزہ دل ہی نگاہِ پروردگار کا مقام ہوتے ہیں، لہٰذا جن کے دل پاک ہوتے ہیں اللہ بھی انہی کی طرف دیکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۷۰ ۔ جسم کو یہ بات فائدہ نہیں پہنچاتی کہ وہ بظاہر ہو تو اچھا لیکن باطن میں خراب ہو، اسی طرح تمہارے جسموں کے لئے بھی وہ چیز بے فائدہ ہے جس سے تم خوش ہو جبکہ تمہارے دل خراب ہو چکے ہوں، تمہیں یہ بات ہرگز فائدہ نہیں پہنچائے گی کہ اپنی جلد کو تو صاف ستھرا رکھو لیکن دلوں کو میلا کچیلا رہنے دو۔

(حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۰۸

۱۶۹۷۱ ۔ دعائیہ کلمات: بارِ الٰہا! محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کے لئے تُونے عصمت اولیاء کے پردے بھیجے ہیں، ان کے دلوں کو صفائے باطن کی پاکیزگی سے مخصوص فرمایا ہے، اپنے برگزیدہ بندوں کے مقام و منزلت میں انہیں فہم و حیا سے مزین فرمایا ہے، اور ان کے دل کے تمام ارادوں کو ملکوتِ سماوی کی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ ایک حجاب سے دوسرے حجاب میں داخل ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ان کا منتہائے مقصود تیری ذات ہی ہوتی ہے

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۲۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "طہارت" ، "معنوی طہارت")

( ۱۵) کشادہ دلی

قرآن مجید

( فمن یرد الله……………………فی السماء ) (انعام/ ۱۲۵)

ترجمہ۔ پس جسے اللہ تعالیٰ ہدایت فرمانا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے تو اس کے سینے کو تنگ بنا دیتا ہے، گویا وہ زور لگا کر آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو،

( الم نشرح لک صدرک…………………… ) (انشراح/ ۱)

ترجمہ۔ کیا ہم نے تیرے لئے سینے کو کشادہ نہیں کر دیا؟

حدیث شریف

۱۶۹۷۲ ۔ تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ صحیح روایت کے مطابق جب یہ آیت "( فمن یردالله ان یهدیه… ) نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا سے پوچھا گیا: "شرح صدر کیا چیز ہے؟" آپ نے فرمایا: "یہ ایک خدائی نور ہے جسے اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ڈال دیتا ہے جس سے اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے۔"

لوگوں نے عرض کیا: "کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے؟" فرمایا: "ہاں! دارالخلا (بہشت) کی طرف رغبت، دارالغرور (دنیا) سے بے رغبتی اور موت کے آ جانے سے پہلے اس کے لئے آمادگی"

(تفسیر مجمع البیان جلد ۴ ص ۳۶۳

۱۶۹۷۳ ۔ عبداللہ بن مسعود کو آنحضرت کی وصیتوں میں سے ایک یہ ہے: "اے ابن مسعود! اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے وہ شخص اپنے رب کے نور کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ جب دل میں نور آ جاتا ہے تو دل کھلا اور کشادہ ہو جاتا ہے۔"

آپ سے پوچھا گیا: "یارسول اللہ! اس کی کوئی علامت بھی ہے؟" فرمایا: "ہاں! دارالغرور (فریب کے گھر یعنی دنیا) سے کنارہ کشی، دارالخلا یعنی بہشت بریں کی طرف رغبت اور موت کے آن پہنچنے سے پہلے اس کے لئے آمادگی۔ پس جو شخص دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے وہ اپنی آروزوؤں کو تازہ کر دیتا اور اسے دنیا کے طلبگاروں کے لئے رہنے دیتا ہے۔

بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۹۳

۱۶۹۷۴ ۔ مناجات کے الفاظ ہیں: بار الٰہا! ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جن کے سینوں کے باغات میں تیرے اشتیاق کے درخت بڑی خوبصورتی کے ساتھ اگے ہیںجن کے باطنی عقیدوں سے شک کی تاریکی زائل ہو چکی ہے، جن کے دلوں سے شکوک و شبہات کی خلش دور ہو چکی ہے اور جن کے سینے حقیقی معرفت سے کشادہ و فراخ ہو چکے ہیں۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۵۰

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "حق"، "حق کے قبول کرنے کے لئے سینے کی کشادگی"۔

نیز: باب "زہد"، "زہد کامل"، باب "خیر"، "اللہ جب کسی بندہ کے لئے بہتری چاہتا ہے" حدیث ۵۳۷۵ ۔ ۵۳۷۶ ، باب "نور"، "بصیرت کا نور" ، "عقل" باب "عقل کی کچھ علامتیں" نیز: باب "اطمینانِ قلب"

نیز: تفسیر "در منثور" جلد ۳ ص ۴۴ : " فمن یرداللہ" کی تفسیر۔

( ۱۶) دلوں پر مہر

قرآن مجید

( کذٰلک یطبع الله علی کل قلب متکبر جبار ) (مومن/ ۳۵)

ترجمہ۔ اسی طرح اللہ ہر متکبر سرکش دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

( کذٰلک نطبع علی قلوب المعتدین ) (یونس/ ۷۴)

ترجمہ۔ اسی طرح ہم حد سے گزرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

( کذٰلک یطبع الله علی قلوب الذین لا یعلمون ) ۔ (روم/ ۵۹)

ترجمہ۔ جو لوگ نہیں جانتے (یا جاننا نہیں چاہتے) اللہ ان کے قلوب پر اسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔

( کذٰلک یطبع الله علی قلوب الکفٰرین ) (اعراف/ ۱۰۱)

ترجمہ۔ اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔

(قولِ مولف: اس بارے میں مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نسأ/ ۱۵۵ ، نحل/ ۱۰۸)

حدیث شریف:

۱۶۹۷۵ ۔ مہر عرش کے ایک پائے کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے لہٰذا جب بھی کسی طرح کی ہتکِ حرمت ہوتی ہے، گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور اللہ پر جرات کا مظاہرہ ہوتا ہے تو خداوند عالم مہر کو روانہ فرماتا ہے اور اس شخص کے دل پر لگا دیتا ہے جس سے وہ پھر کبھی کسی کو نہیں سمجھ پاتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال، حدیث ۱۰۲۱۳

۱۶۹۷۶ ۔ طبع کو اپنا شعار بنانے سے اجتناب کرو کیونکہ یہ دل کے ساتھ شدید حد تک حرص کو ملا دیتا ہے اور دلوں پر دنیا کی محبت کی مہر لگا دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۸۲

۱۶۹۷۷ ۔ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکریوں کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے یکجا آمادہ کیا، اور لشکر نے امام کو ہر طرف سے گھیر لیا تو اس دوران آپ باہر تشریف لائے اور لشکریوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: "خاموش ہو کر میری بات سنو!" لیکن وہ چپ نہ ہوئے تو آپ نے فرمایا: "تم پر افسوس ہے، تم خاموش ہو کہ میری بات کیوں نہیں سنتے؟ میں تو تمہیں ہدایت کے رستوں کی طرف بلا رہا ہوں، جبکہ تم میں سے ہر شخص میری نافرمانی کر رہا ہے اور میری بات کو نہیں سنتا، اس لئے کہ تمہارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے"

(بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۸)

( ۱۷) دلوں پر مہر

قرآن مجید

( افرأیت من اتخذ…………………………افلاتذکرون ) (جاثیہ/ ۲۳)

ترجمہ۔ کیا تُو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور اللہ نے دانستہ اسے گمراہی میں رہنے دیا ہے اس کی سماعت، اس کے دل پر مہر لگا دی، اور اس کی بصارت پر پردہ ڈال دیا ہے۔" پھر اللہ کے سوا اس ہدایت دینے والا کون ہے؟ تو کیا تم پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرو گے؟"

( ختم الله علی قلوبهم……………………………عشاوة ) (بقرہ/ ۷)

ترجمہ۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ہیں۔

حدیث شریف

۱۶۹۷۸ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "ختم اللہ" کے بارے میں فرمایا: "ختم" سے مراد کفار کے دلوں پر مہر ہے، جو ان کے کفر کی وجہ سے لگائی جاتی ہے، جیسا کہ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "بل طبع اللہ علیہا بکفرھم فلایومنون الاقلیلا" بلکہ اللہ نے ان(دلوں) پر ان لوگوں کے کفر کی وجہ سے مہر لگا دی ہے اور ان میں سوائے چند لوگوں کے ایمان نہیں لاتے۔"

(امام رضا علیہ السلام) نورالثقلین جلد اول ص ۳۳

( ۱۸) ان کے دل تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں

قرآن مجید

( ولقدذرا نا لجهنم…………………………هم الغٰفلون ) (اعراف/ ۱۷۹)

ترجمہ۔ اور تحقیق ہم نے بہت سے جن و انس جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں، ان کے دل ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں، ان کے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ وہی تو ہیں جو غافل ہیں،

( والذین کذبوا……………………………صراط مستقیم ) ۔ (انعام/ ۳۹)

ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں جو ظلمتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جسے اللہ چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے،

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو سورہ بقرہ/ ۱۷۱ ، انعام/ ۲۵ ۔ یونس/ ۴۲)

حدیث شریف

۱۶۹۷۹ ۔ ہر صاحبِ دل عاقل نہیں ہوتا، نہ ہی ہر کان رکھنے والا، گوش شنوا اور نہ ہر آنکھ والا چشمِ بینا رکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۸۸ ۔ فروع کافی جلد ۸ ص ۶۴

( ۱۹) دل کا نابیناپن

قرآن مجید

( فانها لا تعمی الابصار ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور ) (حج/ ۴۶)

ترجمہ۔ پس بے شک آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں کے اندر ہیں جو نابینا ہو جاتے ہیں۔

( ومن کان فی هذه اعمیٰ فهم فی الاخرة اعمیٰ واضل سبیلا ) ۔ (بنی اسرائیل/ ۷۲)

ترجمہ۔ اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گم کردہ راہ ہے۔

حدیث شریف

۱۶۹۸۰ ۔ بدترین اندھاپن، دل کا اندھا ہونا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۱۴

۱۶۹۸۱ ۔ اندھے کا اندھاپن ہدایت سے گمراہی کا اندھاپن ہے۔ بدترین اندھاپن، دل کا اندھا ہونا ہے

(حضرت رسول اکرم) نورالثقلین جلد ۳ ص ۱۹۷ ۔ ثواب العمال ص ۵۰۸

۱۶۹۸۲ ۔ اندھا تو درحقیقت وہ ہے جس کا دل اندھا ہے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھا ہوتا ہے جو سینوں میں ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۳ ص ۵۰۸

۱۶۹۸۳ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول:( ومن کان فی هذه اعمیٰ فهم فی الاخرة اعمیٰ ) کے بارے میں فرمایا: "آسمان زمین کی تخلیق، رات و دن کا آنا جانا، فلک کا شمس و قمر کے ساتھ گردش کرنا اور عجیب و غریب آیات الٰہی، جس شخص کی اس بات کی طرف راہنمائی نہ کر سکیں کہ ان کے پیچھے ایک ایسا عظیم امر پنہاں ہے جو ان سب سے زیادہ عظیم ہے، تو( فهم فی الاخرة اعمیٰ ) وہ آخرت میں بھی اندھا ہے "اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو نابینا و گمراہ ہوتے ہیں اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۳ ص ۲۸

۱۶۹۸۴ ۔ ایضا، اسی آیت کے بارے میں فرمایا: "یعنی وہ حقائقِ موجودہ سے نابینا ہے"

(امام رضا علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۳ ص ۱۹۵

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "دل کی آنکھیں"

نیز: باب "خوش دلی و بددلی")

( ۲۰) دل کے پردے

قرآن مجید

( کلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون کلاانهم عن ربهم یومئذلمحجوبون ) ۔ (مطففین/ ۱۴ ۔ ۱۵)

ترجمہ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے قلوب ان کے اعمال (بد) کی وجہ سے جو انہوں نے کئے ہیں، زنگ آلود ہیں سچ تو یہ ہے کہ بے شک اس دن وہ اپنے پروردگار سے حجاب میں ہوں گے۔

حدیث شریف

۱۶۹۸۵ ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: "اے داؤد! خود بھی خبردار رہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی خواہشات نفسانی سے خبردار کر دو کیونکہ جن کے دل دنیوی خواہشات سے وابستہ ہوں گے وہ مجھ سے حجاب میں رہیں گے۔

(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۱۳

۱۶۹۸۶ ۔ جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو ایک سیاہ نکتہ اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے دور ہو جائے، استغفار کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، اگر گناہوں میں اضافہ کرتا جائے تو دل کا زنگ آلود نکتہ بھی بڑھتا جاتا ہے، اور اسی چیز کو اللہ تعالٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں یوں ذکر فرمایا ہے:( کلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون ) (مطففین/ ۱۴)

(حضرت رسول اکرم) تفسیر نورالثقلین جلد ۵ ص ۵۳۲

۱۶۹۸۷ ۔ تمہاری باگ ڈور ہلاکتوں کے ہاتھ میں ہے اور تمہارے دلوں کے دروازوں کو زنگ کے تالوں نے بند کر رکھا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۹۸۸ ۔ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نکتہ پیدا ہو جاتا ہے، اگر اس گناہ سے توبہ کر لے تو وہ دھل جاتا ہے لیکن اگر گناہ دوبارہ کرے تو وہ نکتہ پھیل جاتا ہے اور اس کے دل میں بہت بڑا ہو جاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۰۲۸۷

۱۶۹۸۹ ۔ معاویہ کے نام حضرت امیر علیہ السلام کے مکتوب سے اقتباس "اور خدا کی قسم! جیسا میں جانتا ہوں تم ایسے ہو جس کے دل پر تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور جس کی عقل بہت محدود ہے"

نہج البلاغہ مکتوب ۵۸

۱۶۹۹۰ ۔ "اور جو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے گمراہی میں دھنستا جائے گا وہ عہدشکن ہو گا، جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلاتے رہیں گے۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۵۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "معرفت" ( ۲) باب "نور کے حجاب"

نیز: باب "گناہ" ، "گناہوں کے اثرات")

( ۲۱) دل کی کجی

قرآن مجید

( ربنا لا تزغ قلوبنا……………………………انک انت الوهاب ) (آل عمران/ ۸)

ترجمہ۔ اے ہمارے پالنے والے ہمارے دلوں کو کج نہ فرما: بعد اس کے تُونے ہمیں ہدایت کی ہے، اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا فرما، بے شک تُو بڑا بخشنے والا ہے۔

( فلمازاغوا ازاغ الله قلوبهم ) (صف ۵)

ترجمہ۔ پس جب انہوں نے کج روی اختیار کر لی تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا

( فاما الذین فی قلوبهم زیغ فیستبعون ما تشابه منه ) (آل عمران/ ۷)

ترجمہ۔ پس وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں

حدیث شریف

۱۶۹۹۱ ۔ خداوند عز و جل نے صالح لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ربنا لا تزغ قلوبنا" کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور اندھے پن و ہلاکتوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۰۲

۱۶۹۹۲ ۔ فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: "اس دور کے بعد ایک ایسا فتنہ آئے گا جو امن کی سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا، تباہی مچانے والا اور خلقِ خدا پر سختی کے ساتھ حملہ کرنے والا ہو گا۔ پس بہت سے دل ٹھہراؤ کے بعد ڈانواڈول اور بہت سے لوگ (ایمان کی) سلامتی کے بعد گمراہ ہو جائیں گے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۱

۱۶۹۹۳ ۔ عورتوں کے ساتھ دل لگی کی باتیں کرنا بلاؤں کا داعی ہوتا ہے اور دلوں کو ٹیڑھا کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۹۱

۱۶۹۹۴ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے: "یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک" اے دلوں کے الٹ پھیر کرنے والے میرے دل کو اپنے دین (کے امور) میں ثابت اور برقرار فرما

(جابر بن عبداللہ انصاری) کنزالعمال حدیث ۱۶۸۲

(قولِ مولف: اسی چیز پر کنزالعمال کی مندجہ ذیل احادیث بھی دلالت کرتی ہیں: ۱۶۸۴ ۔ ۱۶۸۶ ۔ ۱۶۸۷ ۔ ۱۶۹۴ ۔ ۱۶۹۵ ۔)

( ۲۲) دلوں کا سخت ہو جانا

قرآن مجید

( ثم قست قلوبکم…………………………عما تعملون ) (بقرہ/ ۷۴)

ترجمہ۔ پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت پتھر کی مانند ہو گئے یا اس سے بھی زیادہ سخت، حالانکہ بلاشبہ پتھروں میں سے کچھ (پتھر) ایسے بھی جن سے نہریں جاری ہو جاتی ہیں، اور یقیناً ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جب وہ شق ہوتے ہیں تو ان سے (پانی بہہ) نکلتا ہے، ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو خوفِ خدا سے گر پڑتے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

(قولِ مولف: مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو: سورہ آل عمران/ ۱۳ ، انعام/ ۴۳ اور زمر/ ۲۱)

حدیث شریف

۱۶۹۹۵ ۔ خدا کی طرف سے کچھ سزائیں ایسی ہیں جو دلوں اور جسموں کو ملتی ہیں، چنانچہ معیشت میں تنگی، عبادت میں کمزوری بھی سزائیں ہیں، لیکن بندے کو دل کے سخت ہونے کی جو سزا ملتی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور سزا نہیں ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۶۴

۱۶۹۹۶ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "کسی دانا کا قول ہے کہ کافر کا دل تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے"

بحارالانوار جلد ۷ صفحہ ۵۳ ۔ ۷۸ ص ۳۱ ( اسی کتاب میں پوری روایت موجود ہے)

۱۶۹۹۷ ۔ "مگر دل اب بھی حظ و سعادت سے بے رغبت و ہدایت سے بے پروا ہیں اور غلط میدان میں جا رہے ہیں، گویا ان کے علاوہ کوئی اور مراد ان کی مخاطب ہے، گویا ان کے لئے دین سمیٹ لینا ہی صحیح راستہ ہے"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۸۳

۱۶۹۹۸ ۔ حضرت امیر علیہ السلام کی اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو وصیت سے اقتباس "کیونکہ کم سن کا دل اس خالی زمین کے مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالا جاتا ہے اسے قبول کر لیتی ہے، لہٰذا قبل اس کے کہ دل سخت ہو جائے، تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے، میں نے تمہیں تعلیم دینے کے لئے قدم اٹھایا ہے"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ وصیت نامہ/ ۳

( ۲۳) سنگدلی کے اسباب

قرآن مجید:

( فما لقفهم میثاقهم لعنهم وجعلنا قلو هم قاسیة ) (مائدہ/ ۱۳)

ترجمہ:

پس ان کی عہد شکنی کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کو سنگدل بنا دیا۔۔۔

( الم یان للذین----------------------------- منهم فسقون ) ۔ (حدید/ ۱۶)

ترجمہ:

کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وت آیا کہ ان کے دل عاجزی کے ساتھ اللہ کی یاد اور اس کے نازل کردہ حق کی جانب جھک جائیں؟ اور وہ ان لوگوں کی مانند ہو جائیں جنہیں اس سے قبل کتاب دی گئی تھی ایک عرصہ دراز کے بعد جن کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں؟

حدیث شریف:

۱۶۹۹۹ ۔ آنکھوں سے آنوشکدی سنگدلی کی وجہ سے ہوتے ہین۔ اور دل کثرت گناہی کی وجہ سے سخت ہو جاتے ہیں۔

(حضرت علی) مجاز الانوار جلد نمبر ۵۵

۱۷۰۰۰ ۔ حضرت علی سے روزونیاز کی باتوں میں فرمایا "موسیٰ! دنیا میں اپنی آرزوؤں کو دراز نہ کرو کہ اس طرح سے تمہارا دل سخت ہو جائے گا، اور سنگدل انسان مجھ سے دور ہوتا ہے"

کافی جلد نمبر ۳۹

۷۰۰۰۱ گھوڑے پر اگر سواری نہ کیا جائے، اسے مشقتوں میں نہ ڈالا جائے اور کام میں نہ لایا جائے تو منہ زور ہو جاتا ہے اور اس کی عادات بگڑ جاتی ہیں۔ اسی طرح دلون کو اگر موت کی یاد سے نرم اور عبادت کی عادات سے آشنا نہ کیا جائے تو سخت ٹھوس ہو جاتے ہیں۔

(حضرت عیسیٰ ) مجارالانولا جلد ۵ نمبر ۳۰۹

۱۷۰۰۲ ذکر الہٰی کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ ذکرِ الہٰی کے علاوہ کثرت کلام دل کو سخت کر دیتی ہے جبکہ اللہ سے زیادہ دور وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل سخت ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجازالانوار جلد ۷۱ نمبر ۲۸۱ جلد ۳ وجب ۱۶۴ کنزالعمال حدیث ۱۸۴۰ ۔ ۱۸۹۶۰

۱۷۰۰۳ تین چیزیں دل کو سکت بنا دیتی ہی: ۱ ۔ لغویات کا سننا۔ ۲ ۔ شکار کے پیچھے جانا اور۔ ۳ ۔ صاحبان اقتدار کے دروازے پر حاضری دینا۔

(حضرت رسول اکرم) مجازالانوار جلد ۷۵ صفحہ ۳۷۰

۱۷۰۰۴ ۔ اپنی آرزووں کو لمبا نہ ہونے دو ورنہ تمہارے دل پتھر بن جائیں گے۔

(حضرت رسول اکرم) مجاز الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۸۳

۱۷۰۰۵ ۔ ترکِ عبادت دلوں کو سخت بنا دیتی ہے اور ترک یاد الہٰی دلوں کو مردہ کر دیتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر صفحہ ۳۶۰

۱۷۰۰۶ ۔ جو یہ توقع رکھتا ہے کہ کل تک زندہ رہے گا اس کی توقع یہ بھی ہوتی ہے کجہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا جس کو یہ توقع ہو کہ ہمیشہ زندہ رہے گا اس کا دل سخت اور دنیا کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔

(حضرت علی ) مقدر کرالو سائل جلد نمبر ۳۴۱

۱۷۰۰۷ ۔ مال کی فراوانی دین کو بگاڑنے اور دل کو سخت کر دینے کا سبب ہوتی ہے۔

(حضرت علی ) مستدلکالوا سائل جلد نمبر ۳۴۱

۱۷۰۰۸ ۔ جو شخص سستی کی بنا پر (مسلسل) تین جمعے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزز العمال حدیث ۲۱۱۳۳

۱۷۰۰۹ ۔ نجیل کی طرف دیکھنے سے دل سخت ہو جاتے ہیں۔

(حضرت علی) مجاز الانوار جلد ۷۸ نمبر ۵۳

۱۷۰۱۰ ۔ میں تمہیں قریبی رشتہ داروں کی قرید مٹی ڈالنے سے منع کرتا ہون، اس لئے کہ اس سے دل سخت ہو جاتے ہیں اور جس کا دل سخت ہو جائے وہ اپنے رب عزوجل سے دور ہو جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق) مجار الانوالا جلد ۱۲ صفحہ ۳۵

(قول موئف: ملاحظہ ہو: مجار النوالا جلد ۷۳ صفحہ ۳۹۶ باب ۱۴۵ " سختی داشتی

( ۲۴) دل کی بیماری

قرآن مجید:

( فی قول بهم مرض ------------- بما کانو ایکذبون ) ۔ (البقرہ/ ۱۰)

ترجمہ:

ان کے دلوں میں مرض ہے اللہ نے ان کے مرض کو اور زیادہ کر دیا ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔

حدیث شریف:

۱۷۰۱۱ ۔ فقروفاقہ بہت بڑی بلا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر جسمانی بیماری ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر دل کی بیماری ہے۔ جبکہ مانی وسعت اور تونگری ایک نعمت ہے۔ لیکن اس نے بہتر جسما نی تندرستی ہے مگر اسے بھی زیادہ بہتر دل کا تقوی ہے۔

(حضرت علی) مجار الانوالہ جلد ۷۰ صفحہ ۵۱ نہج الاغہ حکمت ۳۸۸

۱۷۰۱۲ ۔ اگر لوگ اس کی عظیم الشان قدرتوں اور بلندپایہ نعمتوں میں غور و فکر کریں تو سیدھی راہ کی طرف پلٹ آئیں اور دوزخ کے عذاب سے خوف کھانے لگیں۔ لیکن دل بیمار اور بصیرتیں کھوئی ہوئی ہیں۔

(حضرت علی) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۵

( ۲۵) دل کی بیماری کے اسباب

۱۷۰۱۳ ۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ چیزیں بھائیوں (اور دوستو) کے بارے میں دلوں کو بیمار ی کر دیتی ہیں۔ اور انہی ر نفاق کی کھتی اگتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۹۹

۱۷۰۱۴ ۔ دلوں کے لئے گناہ کے درد سے بڑھ کر کوئی اور درد نہیں ہے۔

(حضرت علی) مجار جلد ۷۳ صفحہ ۴۳

۱۷۰۱۵ ۔ گناہ سے بڑھ کر کوئی اور چیز دلوں کو فاسد نہیں کرتی اس لئے کہ جب دل گناہوں میں پڑ جاتے ہیں تو پھر ان میں پڑے ہی رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ان کے اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا حصہ اوپر ہو جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۱۲

۱۷۰۱۶ ۔ فتنے بار بار دلوں پر بوریا کی مانند پیش کئے جاتے ہیں پس جس دل نے انہیں قبول کر لیا اس میں سیاہ نکتہ پیدا ہو گیا اور جس نے انہیں ناپسند کیا تو اس میں سفید نکتہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ دونوں دلوں میں دونوں طرح کے نکتے پیدا ہو جائیں گے ایک میں تو صاف میدان کی طرح کہ جب تک زمین و آسمان موجود میں اسے کوئی بھی فتنہ نقصان نہین پہنچا سکے گا اور دوسرا خاکستری رنگ کا سیاہ نکتہ اور دل الٹے کوزے کی مانند ہو ۔ نہ تو معروف (نیکی) کو جانتا ہے اور نہ ہی منکر (بدکاری) سے بے تعلق ہے بری خواہشات سے اس کا تعلق جڑا رہتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) اترغیب واتریب ۳۴ صفحہ ۲۳۱ اسے مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے۔

۱۷۰۱۷ ۔ مصر کے گورنر مالک اشتر کے نام امیرالمومنین کے مکتوب سے اقتباس ۔۔۔ یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں لہٰذا میرے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہئے کیونکہ یہ دل میں فساد پیدا کرنے اور دنیا کو کمزور کرنے کا سبب ہے۔ ۔۔

نہج البلاغہ دستاویز (مکتوب) ۵۳

۱۷۰۱۸ ۔ بدترین چیز جو دلوں میں ڈالی جاتی ہے، کینسر ہے۔

(حضرت علی) عزر الحکم

(قول مولف: ملاحظہ ہو باب "گناہ" "گناہوں کے اثرات"

نیز: باب "دلوں کو مردہ کرنے کے اسباب"

نیز: "کامیابی" ایسے لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے"

( ۲۶) دلوں کی شفایابی

قرآن مجید:

( یٰایها الناسُ قد جاء لکم موعظة من ربکم وشفاء لما فی الصدود ---------------- ) (یونس/ ۵۷)

ترجمہ:

لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ چکی ہے جو اُن دلمریض کے لئے شفا ہے جو سینوں میں ہیں۔

حدیث شریف:

۱۷۰۱۹ ۔ پیغمبر اسلام کی توصیف میں فرمایا وہ ایسے طبیت کی ماند تھے جو اپنی حکمت اور طب کو لئے ہوئے چکر لگا رہا اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لئے ہوں اور داغنے کے آلات گرم کر لئے ہوں۔ وہ اندھے دلوں بہرے کانوں اور گونگی زبانوں (کے علاج) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور وہ ایسے غفلت زدہ و حیرانی وپریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔"

(حضرت علی) نہج البلاء خطبہ ۱۰۸

۱۷۰۲۰ ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تم نے مشرق سے رونما ہونے والے کی اتباع کی تو وہ تمہیں رسول خدا کے بتائے ہوئے رستوں پر چلائے گا، جس سے تم اپنی نابیائی اور گونگے پن کا علاج کر لو گے۔۔

(حضرت علی ) فروع کافی جلد ۸ صفحہ ۶۶

۱۷۰۲۱ ۔ دل میں اللہ کا خوف رکھو کیونکہ خوف خدا ہی تمہارے دلوں کے روگ کا علاج فکر و شعور کی تاریکیوں کے لئے اجالا، جسموں کی بیماریوں کے لئے شفا، سینے کی تباہ کاریوں کے لئے اصلاح ، نفس کی کثافتوں کے لئے پاکیزگی اور آنکھوں کی تیرگی کے لئے جلا ہے۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸

قول مولو: ملاحظہ ہو باب دوا "دنیوی ادویات کے ساتھ علاج معالجہ"

نیز: باب "ذکر" "ثمرات ذکر" ( ۶)

نیز: باب "تقویٰ" تقویٰ دلوں کی دواہے"

نیز: جن چیزوں سے دل زندہ ہوتے ہیں"

( ۲۷) دلوں کو مردہ کرنے والی اشیاء

۱۷۰۲۲ ۔ جو شخص کسی سے بے تحاشا محبت کرتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو نابینا اور دل کو مریج کر دیتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے اور سنتا ہے تو نہ سننے والے کانوں سے شہو تو نے اس کی عقل کا دامن چاک کر دیا ہے اور دنیا سے اس کے دل کو مردہ بنا دیا ہے۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۹)

۱۷۰۲۳ ۔ چار چیزیں دلوں کو مردہ کرد یتی ہیں۔ ۱۔ گناہ ہر گناہ (کا ارتکاب) ۲۔ عورتوں سے زیادہ باتیں۔ ۳۔ احمق سے الجھاؤ کہ تم اپنی بات کہو اور وہ اپنی کہے جائے، لیکن بھلائی کی طرف رجوع نہ کرے اور ۴۔ مُردوں کے ساتھ ہم نشینی۔"

کسی نے پوچھا "یارسول اللہ! مُردوں سے کیا مراد ہے؟ "فرمایا ہر صاحب آسائش تو نگر"۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوالا جلد ۷۳ صفحہ ۳۴۹ جلد ۴ صفحہ ۱۹۵

۱۷۰۲۴ ۔ "چار چیزیں دلوں کو خراب کر دیتی ہیں۔ ۱ ۔ عورتوں کے ساتھ خلوت۔ ۲ ۔ عوتوں کی باتوں کو غور سے سننا۔ ۳ ۔ ان کی رائے کو اختیار کرنا اور ۴ ۔ مُردو ں کی ہم نشینی۔"

کسی نے سوال کیا: "یارسول اللہ! مُردوں کے ساتھ ہمنشینی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا ہر اس شخص کے ساتھ ہم نشینی جو ایمان سے گمراہ اور فیصلوں میں ظلم سے کام لیتا ہو۔"

(حضرت رسول اکرم) امالی شیخ مفید  صفحہ ۱۸۶ مجار الانولا جلد اول صفحہ ۲۰۳

وسائل رشید جلد ۱۱ صفحہ ۵۰۸

۱۷۰۲۵ ۔ تین سم کے لوگوں کی ہم نشینی دلون کو مردہ کر دیتی ہے ۔ ۱ ۔ پست لوگوں کے ساتھ بیٹھنا۔ ۲ ۔ مالداروں کے ساتھ نشست و رخاست رکھنا اور ۳ ۔ عوروتوں کے ساتھ باتیں کرنا۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوارجلد ۷۷ صفحہ ۴۵ ۔ صفحہ ۵۲

۱۷۰۲۶ ۔ زیادہ نہ بنا کرو کہ اس سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوالا جلد ۷۷ صفحہ ۵۹

۱۷۰۲۷ ۔ مناجات کے کلمات ہیں "خداوندا! گناہوں نے مجھے ذلت کا جامہ پہنا دیا ہے، تجھ سے دوری نے مجھے بے چارگی کا لباس پہنا دیا ہے۔ میرے دل کو بڑے جرائم بڑی خیانت نے مردہ کر دیا ہے اے میری آرزوؤں اور امیدوں کی پناہ گاہ! میرے دل کو اپنی توبہ کے ساتھ زندہ کر دے۔۔۔"

(امام زین العابدین مجار جلد ۹۴ صفحہ ۱۴۲

۱۷۰۲۸ ۔ جس کا تقوی کم ہوا اس کا دل مردہ ہو گیا اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ جہنم میں جا پڑا۔"

(حضرت علی ) نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹

قول موئف: ملاحظہ ہوا "کلام" زیادہ باتیں دل کو مردہ کر دیتی ہیں"

نیز: با "معت" "زندوں میں مردہ"

نیز: باب "معروف" (نیکی۔ ۲) باب "دل سے انکار کرنا"

نیز: باب ’دنیا" "لوگ دنیا کے بندے ہیں"

( ۲۸) دلون کو زندہ کرنے والی اشیاء

۱۷۰۲۹ ۔ وعظ و ہندے دل کو زندہ رکھو اور زہدے اس (کی خواہشوں) کو مردہ۔۔"

(حضرت علی ) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱ مجار الانوالا جلد ۷۸ صفحہ ۱۱۵

۱۷۰۳۰ ۔ لازم ہے کہ غور و فکر سے کام لیا کرو، کیونکہ یہ صاحب بصری انسان کے دل کی حیات اور حکمت کے دروازوں کی کنجی ہے۔

(امام حسن ) بوارالانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۱۵

۱۷۰۳۱ ۔ اے بنی اسرائیل! علماء کی مجالس میں زیادہ سے زیادہ شرکت کیا کرو خواہ تمہیں وہاں گھٹنوں کے بل چل کر ہی جانا پڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ مردہ دلون کو نور حکمت کے ساتھ اس طرح زندہ کرتا ہے جس طرح موسلادھار بارش سے بنجر زمینوں کو۔

(حضرت عیسٰی ) مجار جلد ۸۷ صفحہ ۳۰۸

۱۷۰۳۲ ۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا: پیارے بیٹے! علماء کے ساتھ نشست و خاست رکھو ان کے پاس گھٹنوں کے بل چل کر جاؤ اور زبانی سے زیادہ لف کی محفل میں شرکت کرو۔ چونکہ خداوندش عزّوجّل مردہ دلون کو حکمت کے نواسے اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح بنجر زمین کو موسلادھار بارش سے۔

مجار الانوراجلد اول صفحہ ۲۰۴

۱۷۰۳۴ ۔ صاحبان فضیلت کے ساتھ معاشرت رکھنا دلوں کی حیات (کا سبب ہوتا) ہے۔

(حضرت عیٰسی ) عزرالحکم

۱۷۰۳۵ ۔ جاننا چاہئے کہ فرشتے سے آدمی کبھی بکھی سیر ہو جاتا ہے اور اکتا جاتا ہے پورے زندی کے کہ وہ کبھی مرنے میں راحت محسوس نہیں کرتا یہ اس حکمت کی طرح ہے کہ جو قلبِ مردہ کے لئے حیات، اندھی آنکھوں کیلئے بینائی اور بہرے کانوں کے لئے شنوائی ہے۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳

۱۷۰۳۶ ۔ میرے بندوں کے درمیان ایسے علم کا مذکرہ کرو کہ جس سے مردہ دل زندہ ہو جائیں۔۔۔"

(حضرت رسول اکرم) کافی جلد اول صفحہ ۴۱ یجاد جلد اول صفحہ ۲۰۳ اور اس کتاب میں ہے "خداوند عزوجل فرماتا ہے۔۔۔"

۱۷۰۳۷ ۔ بلاشبہ اللہ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو۔۔۔ اس میں دل کی بہادر اور علم کے سرچشمے ہیں۔۔۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "ذکر کے فوائد"

نیز: بارے "دوا" "دنیوی بیماریوں کا علاج"

نیز: باب تفویٰ "تفویٰ دلوں کی دواہے"

( ۲۹) دلو کو آباد کرنے والی اشیاء

۱۷۰۳۷ ۔ اہل خیر کی ملاقات سے دل آباد ہوتے ہیں۔

(حضرت علی ) مجار الانولہ جلد ۷۷ صفحہ ۲۰۸

۱۷۰۳۹ ۔ اہل معرفت کی ملاقات سے دل آباد اور حکمت کے فوائد حاصل ہوتے ہین۔

(حضرت علی ) عزرالحکیم

۱۷۰۴۰ ۔ حضرت علی کی اپنے فرزند امام حسن مجتبی کو وصیت سے امتناعی فرزند عزیز میں تجھے خدا کے تقویٰ ، اس کے اس امر کو لازم پکڑنے اوراس کے ذکر کے ساتھ دل کو آباد کرنے کی فضیلت کرتا ہوں۔"

نہج السلام مکتوب ۳۱

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب زیارت "زیارت کرنے سے دل آباد ہوتے ہیں")

جن چیزوں سے دل نرم ہوتا ہے

۱۷۰۴۲ ۔ دل کو نرم کرنے کے لئے خلوتوں میں خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کیا کرو۔ (اور اسے کثرت سے یاد کیا کرو)

(امام محمد باقر ) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۴۶

۱۷۰۴۳ ۔ ایک شخص نے حضرت رسول خدا کی خدمت میں اپنی سنگدلی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: "اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو مسکینوں کو کھانا کھلایا کرو اور یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو۔"

مشکواة الانوار صفحہ ۱۶۷

۱۷۰۴۴ ۔ اپنے دلوں کو رقت کا عادی بناؤ اور خوفِ خدا کی وجہ سے زیادہ غور و فکر اور گر یہ بکا کیا کرو۔

(حضرت رسول اکرم) مجار لانوار جلد ۸۳ صفحہ ۳۵۱

۱۷۰۴۵ ۔ وعظ وپند سے دل کو زندہ رکھنا۔ موت کی یاد سے اسے قابو میں رکھنا۔۔ دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا۔ گردش روز گارے اسے ڈرانا اور گزرے ہوؤں کے واقعات اس کے سامنے رکھنا۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

۱۷۰۴۶ ۔ حضرت امیر کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دارجامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا "اس سے دل متواضع نفس رام ہوتا ہے۔ اور مومن اس کی تالسی کرتے ہیں۔"

نہج البلاغہ حکمت ۱۰۳

( ۳۱) جن چیزوں سے دل کو جلا ملتی ہے

۱۷۰۴۷ ۔ اللہ سبحانہ نے بلاشبہ کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو۔ اور اسی ہی سے ( آئینہ) قلب ہر جلا وہئی ہے۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۷۰۴۸ ۔ بے شک اللہ سبحانہ نے اپنی یاد کو دل کی صیقل قرار دیا ہے۔ جس کے باعث وہ (اور امرونواہی سے) بہرا ہونے کے بعد سننے لگے۔۔"

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۲

۱۷۰۴۹ ۔ یہ دل بھی اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح لوہا پانی لگنے کے بعد زند آلود ہو جات اہے۔" کسی نے عرض کیا کے صیقل کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا: "کثرت سے موت کی یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت"

(حضرت رسول اکرم) کنزالمحال حدیث ۴۲۱۳

۱۷۰۵۰ ۔ بوک کے سالن اور قناعت کے "ادب" کے ساتھ اپنے دل کی سستی کا علاج کرو کہ اس طرح سے تمہارے دل میں پختگی پیدا ہو گی اور آنکھوں میں غفلت کی نیند کی بجائے بیداری ہو گی۔

(حضرت علی ) عزر الحکم

۱۷۰۵۱ ۔ جس طرح تانبے کو زند لگ جاتا ہے اسی طرح دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا دلوں کے زنگ کو استغفار کے ذریعے دور کرو۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانور جلد ۹۳ صفحہ ۲۸۴ الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ ۴۶۹ اسے بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس میں ہے: "اس صیتل استغفار ہے۔

۱۷۰۵۲ ۔ ان دلون کی صقیل ذکر الہٰی اور تلاوت قرآن مجید ہے۔

(حضرت رسول اکرم) تثبیہ الخواطر صفحہ ۳۶۲

( ۳۲) جن چیزوں سے دل نورانی ہوتا ہے۔

۱۷۰۵۳ ۔ اپنے دل کو پندونصیحت کے ساتھ زندہ کرو۔۔۔ اور اسے حکمت کے ساتھ منور کرو۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

۱۷۰۵۴ ۔ ایمان ایک نقطہ کی صورت سے دل میں ظاہر ہوتاہے۔ جوں جوں ایمان بڑھتا ہے تو وہ نقطہ بھی بڑھتا جات اہے۔ سید رضی فرماتے ہیں: اس کو سفید نقطہ یا اس کے مانند "سفید نشان" کہتے ہیں۔

(حضرت علی ) نہج البلاغہ کلمات عجیبہ ۵

۱۷۰۵۵ ۔ ِْٰٰ یقین، نور ہے۔

(حضرت علی ) غررالحکم

۱۷۰۵۶ ۔ (نہی عن المنکر کے متعلق فرماتے ہیں) ۔۔۔ اور جو شخص شمشیر بکف ہو کر اس برائی کے خلاف کھڑا ہوتا کہ اللہ کا بول بالا ہو، اور ظالموں کی بات گر جائے، تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پا لیا سیدھے راستے پر ہو لیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔"

(حضرت علی ) نہج البلاغہ حکمت ۳۷۳

۱۷۰۵۷ ۔ دعائی کلمات: اے دلوں کے الٹ پھر کرنے والے! اے دلوں کے طیب! اے دلون کو نورانیت عطا کرنے والے! اے دلون کے ساتھ انس کرنے والے!

(حضرت رسول اکرم) مجاز الانوار جلد ۹۴ صفحہ ۹۸۵

(قول موئلف: ملاحظہ ہو: باب "ذکر" "ذکر کے ثمرات ۴"

نیز: باب جن چیزوں سے دل زندہ ہوتا ہے"

نیز: عنوان "نور"

نیز: عنوان "یقین"

( ۳۳) جن چیزوں سے دل کی اصلاح ہوتی ہے

۱۷۰۵۸ ۔ دل کی اصلاح اس طرح ہوتی ہے کہ اسے یاد خدا میں مشغول رکھا جائے۔

(حضرت علی ) غرزالحکم

۱۷۰۵۹ ۔ مناجات کے کلمات "میری بیماری کو صرف تیری طب ہی شفا عطا کر سکتی ہے۔ میرے غم کو صرف تیرا قرب ہی زائل کر سکتا ہے، میرے زخموں کو صرف تیری بخشش ہی مذمل کر سکتی ہے اور میرے دلکے زنگ کو صرف تیری درگزر ہی جلا دے سکتی ہے"

(حضرت امام زین العابدین) مجار الانور جلد ۴ صفحہ ۱۰

۱۷۰۶۰ ۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے "کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک اس کا دل مستحکم نہ ہو اور دل اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک زبان مستحکم نہ ہو۔‘

(حضرت علی ) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۷۰۶۱ ۔ صالح شخص کی چار علامتیں ہیں۔ ۱ ۔ اس کا دل صاف ستھرا ہوتا ہے ۲ ۔ اس کے اعمال اصلاح شدہ ہوتے ہیں۔ ۳ ۔ اس کا کاروبار صالح ہوتا ہے اور ۴ ۔ اس کے تمام امور اصلاح شدہ ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) تحف العقول صفحہ ۲۲

( ۳۴) جن چیزوں سے دل کو تقویت ملتی ہے

۱۷۰۶۲ ۔ دل کی اصل قوت خدا ہر توکل ہے۔

(حضرت علی ) عزر الحکم

۱۷۰۶۳ ۔ اپنے دل کو وعظ و نصیحت کے ساتھ زندہ رکھنا، زُہدے اس (کی خواہشوں) کو مردہ اور یقین کے ساتھ تقویت پہنچانا۔۔۔"

(حضرت علی ) نہج البلاغہ مکتوب/ ۳

۱۷۰۶۴ ۔ یقینا مومن کی طاقت اس کے دل میں ہوتی ہے دیکھتے نہیں ہو کہ اس کا جسم کمزور اور بدن لاغر ہوتا ہے لیکن وہ رات کو (عبادت کے لئے) کھڑا ہوتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔

(قول مولف: ملاحضظہ ہوا ہوا عنوان "توکل" اور عنوان "یقین"

نیز: "ایمان" باب "مومن پتھر سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے"

( ۳۵) اللّٰہ تعالی انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے

قرآن مجید:

( واعلموا ان الله مجول بین المرعوقلبه وانه الیه تشرون ) ۔ (انفال / ۲۴)

ترجمہ:

اور خوب جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور بے شک تم اس کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے۔

حدیث شریف:

۱۷۰۶۵ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "( ان الله یحول------- ) کے بارے میں فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی چیز کو اپنی سماعت، بصارت، زبان یا ہاتھ کی وجہ سے چاہتا ہے۔ لیکن خداوند عالم اسے چھپا دیتا ہے اگر کسی وقت انسان کے پاس وہ آبھی جائے تو اس کا دل اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا جس سے وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس میں حق نہیں ہے۔"

ہشام کی روایت کے مطابق: "خداوندِ عزوجل انسان اور اس کی چاہت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ "باطل، حق نہیں ہے"

مجار الانورا جلد ۷۰ صفحہ ۵۸

۱۷۰۶۶ ۔ (ایضا) فرماتے ہیں: "انسان کسی چیز کو اپنے کان، اپنی آنکھ ، زبان یا ہاتھ کے ذریعہ چاہتا ہے لیکن اسے چاہتے ہوئے بھی اگر وہ چیز اسے مل جائے تو اس کا دل اسے ماننے پر تیار نہیں ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ حق اس میں نہیں ہے۔"

(امام جعفر صادق ) مجار الانوار جلد ۷۰ صفحہ ۵۸

۱۷۰۶۷ ۔ اسی آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: "ایک چیز کو انسان اپنے دل کان اور آنکھ سے چاہتا ہے اوراس کا دل اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف نہیں جاتا لیکن اس کے اور اس کے دل کے درمیان خدائی پردہ حائل ہو جاتا ہے۔

(امام محمد باقر ) مجار الانوار جلد ۷۰ صفحہ ۵۸

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "باطل" "باطل کے حق ہونے پر ہر دل یقین نہیں کرتا"

نیز: باب "خالق"

( ۳۶) دل کے بارے میں متفرق احادیث

۱۷۰۶۸ ۔ دل کے کچھ ایسے مشاہدات بھی ہیں جن کو انسان تفریط کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

(حضرت علی ) نہج العادہ جلد اول صفحہ ۵۶ مجار جلد ۷۷ صفحہ ۲۸ فروغ کافی جلد ۸ صفحہ ۲۲

۱۷۰۶۹ ۔ انسان کی قوتِ بیان اس کی قوتِ قلبد کو ظاہر کرتی ہے۔

(حضرت علی ) عذر الحکم

۱۷۰۷۰ ۔ دلوں کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ جوان سے احسان کرتا ہے اس کی ساتھ دوستی کرتی ہیں اور جو ان سے برائی کرتا ہے ان کی دشمن ہوتی ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۱۴۰

۱۷۰۷۱ ۔ دل لیت و لعل سے کام لیتا رہتا ہے۔

(حضرت علی ) مجار الانوارا جلد ۷۸ صفحہ ۱۱

۱۷۰۷۲ ۔ کم سے کم غلطیاں کر کے دلون کو آرام پہنچاؤ۔

(امام محمد باقر ) مجار جلد ۷۸ صفحہ ۱۱

۱۷۰۷۳ ۔ انجام ہر نگاہ رکھتے رہنے سے دلوں کی بار آمدی ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۹۷

۱۷۰۷۴ ۔ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانا آسان ہے لیکن دلوں کو اپنے مقام سے ہٹانا مشکل ہے۔

(امام جعفر صادق) مجارالانوارا جلد ۷۸ صفحہ ۲۴۰

۱۷۰۷۵ ۔ دل کے ساتھ شریک رہنے کے لئے ہمیشہ اسے اپنے قریب رکھو۔

(امام جعفر صادق) مجار الانوارا جلد ۷۸ صفحہ ۲۸۳

۱۷۰۷۶ ۔ جس شخص کے حلم نے اس کے دل کو غیظ و غضب کے گھونٹ نہیں پلائے وہ دل کی راحت کو نہیں جان سکتا۔

(امام حسن عسکری) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۳۷۹

۱۷۰۷۷ ۔ ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن مجید کا دل (سورہ) یٰس ہے۔

(امام جعفر صادق) مجارالانور جلد ۹۲ صفحہ ۲۸۸

۱۷۰۷۸ ۔ دلوں میں برے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ جنہیں عقول ہی باز رکھتے ہیں۔

(حضرت علی ) عذرالحکم

۱۷۰۷۹ ۔ دلوں کو تقویٰ کا گھر قرار دو اور انہیں خواہشاتِ نفسانی کا مرکز نہ بناؤ۔

(حضرت عیسٰی ) مجار لانوار جلد ۷۸ صفحہ ۳۰۸