میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)11%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58892 / ڈاؤنلوڈ: 6918
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

فصل ۲۳

قنوط (ناامید)

( ۱) خدا کی رحمت سے ناامیدی

قرآن مجید:

( لایایئس من روح الله الاالقوم الکٰفرون ) ۔ (یوسف/ ۸۷)

ترجمہ:

بے شک کافروں کے سوا اللہ کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا۔

( قال ومن --- من رحمة ربه الاالضالون ) ۔ (حجر/ ۵۶)

ترجمہ:

(ابراہیم علیہ السلام نے) کہا: "اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگوں کے علاوہ اور کون مایوس ہوتا ہو؟"

( وان مسه الشرفیو س قنوط ) ۔ (حم سجدہ/ ۴۹)

ترجمہ:

اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس و ناامید ہو جاتا ہے۔

حدیث شریف:

۱۷۱۰۷ ۔ اس شخص پر تعجب ہے جو (توبہ و) استغفار کی گنجائش ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابی البلاغہ حکمت ۸۷

۱۷۱۰۸ ۔ جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے اپنے گناہوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار نہ بنو۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۷۸ صفحہ ۵۳ تحف العقول صفحہ ۱۵۳

۱۷۱۰۹ ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس عبادت گزار کی نسبت وہ گناہگار اللہ کے زیادہ قریب ہے تو اپنے اللہ کی رحمت کا امیدوار ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) کنز العمال حدیث ۵۸۶۹

۱۷۱۱۰ ۔ اللہ کی رحمتت سے مایوسی اور ناامیدی کوتاہی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۱۱

۱۷۱۱۱ ۔ دعائی کلمات: "بار الہٰی! میں تیرے بارے میں اپنے حسن ظن پر ناامیدی کی مایوسی کو غالب نہ آنے دوں، اور نہ میری امیدیں تیرے پیارے کرم سے منقطع ہونے پائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۹۴ صفحہ ۹۹

۱۷۱۱۲ ۔ خداوند عالم فرماتا ہے: "میرے اطاعت گزار (بندے) میرے مہمان ہوتے ہیں۔ (میری نعمتوں کے) شکر گزار میری نعمتوں کے اضافے سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ میں اپنے نافرمانوں کو بھی اپنی رحم سے مایوس نہیں کرتا۔ اگر وہ کر لیں گے تو میں ان کا دولت ہوں گا اور اگر مجھ سے دعا مانگیں گے تو میں قبول کروں گا۔۔۔

مجار لانوار جلد ۷۷ صفحہ ۴۲

۱۷۱۱۳ ۔ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام ایک دانا قول لعل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

"خدائی رحمت سے مایوسی، کرہ زمہرے سے زیادہ سرد ہوتی ہے۔"

مجار الانوار جلد ۷۲ صفحہ ۳۳۸

۱۷۱۱۴ ۔ دعائے طلب باران کے سلسلے میں بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں۔ "بارالہٰی! (خشک سالی سے) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل خشک کر دیا گیا ہے۔ ہم تجھ سے اس وقت دعا کر رہے ہیں جبکہ لوگ بے آس ہو چکے ہیں اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو چکا ہے۔ کیونکہ تو ہی تو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اپنی رحمت کے دامن کو پھیلا دیتا ہے اور تو ہی والی و وارث بہترین صفتوں والا ہے۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۵

۱۷۱۱۵ ۔ طلب باراں ہی کے بارے میں دعائیہ کلمات: "دربار الہٰی! ہمیں اپنی بارانِ رحمت سے سیراب فرما اور ہمیں مایوس نہ ہونے دے۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ ۱۱۵

۱۷۱۱۶ ۔ یقین رکھو کہ جس کے قبضہ قدرت میں آسمان و زمین کے خزانے ہیں، اس نے تمہیں سوال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔۔ ہاں بعض اوقات قبولیت میں دیر ہو تو اس سے امید نہ ہو، اس لئے کہ عطیہ نیت کے مطابق ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

۱۷۱۱۷ ۔ تمام حمد اس میں اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت سے ناامیدی نہیں جس کی نعمتوں سے کسی کا دامن خالی نہیں اس کی مغفرت سے کوئی مایوس نہیں۔۔۔۔

( ۲) خدا کی رحمت سے کسی کو مایوس نہ کرو

۱۷۱۱۸ ۔ خداوند عالم فرماتا ہے: "اے فرزند آدم! ۔۔ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرو جبکہ تم اس کی اپنے لئے امید رکھتے ہو۔"

(حضرترسول اکرم ) عیون اخبار الرضا صفحہ ۲۸

۱۷۱۱۹ ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی رحمت سے مایوس کرنے والوں کو ایسی حالت میں مبعوث فرمائے گا کہ ان کے چہروں پر سیاہی کا سفیدی پر غلبہ ہو گا۔ ان سے کہا جائے گا: "یہی وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو خدائی کی رحمت سے مایوس کیا کرتے تھے۔"

مجار لانوار جلد ۲ صفحہ ۵۵ جلد ۷۲ صفحہ ۳۳۸

۱۷۱۲۰ ۔ صحیح عالم و دانا وہ ہو جو رحمتِ خدا سے مایوس اور اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے دوسروں کو ناامید نہ کرے اور نہ انہیں اللہ کے عذاب کی طرف سے بالکل مطمئن کر دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۹۰

۱۷۱۲۱ ۔ امیر المومنین کی اپنے فرزند امام حسنعلیہ السلام کو وصیت سے اقتباس: "اے فرزند! کسی گناہگار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرو، کیونکہ بہت سے گناہوں میں بچتے ہوئے لوگ ایسے بھی ہیں۔ جن کا انجام نجر ہوتا ہے۔ جبکہ بہت سے ایسے عامل گزرے ہیں جنہوں نے اپنی آخری عمر میں اپنے اعمال کو برباد کر دیا ہے اور سیدھے جہنم میں چلے گئے خدائی کی پناہ!

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۳۹

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "فقہ" صحیح معنی ہیں فقیہ‘

نیز: باب "توبہ" "خدا کی قسم کھانا"

( ۳) ایسے لوگ خدائی رحمت سے محروم ہیں

قرآن مجید:

( والذین کفروا بایات الله ولقائهِ اولئک ئیسوا من رجمتی ) (عنکبوت/ ۲۳)

ترجمہ:

جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہی ہیں جو میری رحمت سے مایوس ہیں۔۔۔

حدیث شریف:

۱۷۱۲۲ ۔ سوچ سمجھ کر گناہ کرنے والا، عفو پروردگار کا مستحق نہیں ہے۔ بغیر علم کے گناہ کرنے والا گناہ سے بری الذمہ ہو گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "گناہ" "جو گناہ ناقابل معافی ہیں"

نیز: باب "توبہ" "توبہ کب تک قبول ہو سکتی ہے"

--------------------------چند روایات نہیں ہیں -----------------------------

۱۷۱۲۸ ۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ۔۔۔۔ ایسی قسم جس میں اللہ کی ؟؟؟؟؟؟؟؟ کے علاوہ کسی چیز کا استثناء نہیں۔۔۔ کہ میں اپنے نفس کو ایسا سدھاؤں گا کہ وہ کھانے میں ایک روتی کے ملنے پر خوش ہو جائے اور اس کے ساتھ صرف نمک پر قناعت کر لے۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۴۵

۱۷۱۲۹ ۔ انبیاء علیہم السلام کی توصفی میں فرماتے ہیں۔۔۔۔ لیکن اللہ سبحانہ نے اپنے رسولوں کو ارادہ میں قوی، آنکھوں کو دکھائی دینے والے ظاہری حالات میں کم زور و ناتواں قرار دیا ہے نیز انہیں ایسی قناعت سے سرفراز فرماتا ہے جو دیکھنے اور سننے والوں کے دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہیں۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲

۱۷۱۳۰ ۔ اپنے نفس کو قناعت سکھاؤ۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۹

۱۷۱۳۱ ۔ قناعت، انسان کا بہترین سرمایہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۷۷ صفحہ ۲۳۱

۱۷۱۳۲ ۔ جان لو کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے و قناعت اختیار کرنے کی صفت ، عطیہ اور بخشش کی صفت سے بہت بہتر ہے۔

(امام حسنعلیہ السلام ) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۱

۱۷۱۳۳ ۔ جس طرح تم قصاص لے کر اپنے دشمن سے بدلہ لے لیتے ہو اسی طرح قناعت اختیار کر کے حرص سے اپنا بدلہ لے لو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۳۴ ۔ لوگوں میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گزار وہ ہے جو سب سے زیادہ قناعت کرتا ہے۔ اور خدا کی نعمتوں کا سب سے بڑا ناشکراہ بہت بڑا لالچی شخص ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۴۲۲

۱۷۱۳۵ ۔ قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آرام نہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۱ صفحہ ۲۴۵ نہج البلاغہ حکمت ۲۲۹

۱۷۱۳۶ ۔ انسان کے لئے یہ بات کتنی اچھی ہے کہ وہ "قلیل" پر قناعت کر لے اور "عظیم" کے ساتھ سخاوت کہ

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۱۳۷ ۔ انسان کے نفس کی قناعت اس کی پرہیزگاری و پاکیزگی کے لئے معاون و مددگار ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزر الحکم

۱۷۱۳۸ ۔ ہمت کی سربلندی کا راز قناعت اختیار کرنے میں ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۳۹ ۔ نفس کی عزت اسی میں ہے کہ قناعت کو اختیار کیا جائے

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۴۰ ۔ قناعت ایسی تلوار ہے جس کاوار کبھی خطا نہیں جاتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۱ صفحہ ۹۶

۱۷۱۴۱ ۔ میری امت کے شریف لوگ قناعت پسند اور شرید لوگ لالچی ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۰۹۵

۱۷۱۴۲ ۔ قناعت پسند مومن شریف اور لالچی شریر ہوتے ہیں۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۴۳ ۔ حضرت ابوجعفر (امام محمد باقرعلیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت علیعلیہ السلام گھٹیا قسم کی کھجوروں کو تناول فرمانے کے بعد پانی نوش فرمایا، پھر اپنے شکم پر ہاتھ پھیر کر فرمانے لگے "جس کا شکم اسے جہنم میں ڈالے خدا اسے اپنی رحمت سے دور رکھے" پھر آپ نے کسی شاعر کے اس شعر کو پڑھا

ترجمہ:

"جب تم اپنے شکم و شرم گاہ کو ان کی مرضی کے مطابق مطلوبہ چیزیں فراہم کرو گے، تو وہ ہر قسم کی برائیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیں گے"

کنز لاعمال حدیث ۸۷۴۱

( ۲) قناعت ہی میں تو نگری ہے

۱۷۱۴۴ ۔ قناعت ختم نہ ہونے والا سرمایہ ہے۔

(حضر ت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۰۸۰

(حضرت علیعلیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۴۷۵

۱۷۱۴۵ ۔ قناعت تو نگر بنا دیتی ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۴۶ ۔ میں نے تو نگری کو تلاش کیا تو اسے قناعت میں پایا۔ تم پر بھی لازم ہے کہ قناعت اختیار کرو تاکہ تو نگر بن جاؤ۔

(حضر ت علی علیہ السلام) مجا رالانوار جلد ۶۹ صفحہ ۳۹۹

۱۷۱۴۷ ۔ قناعت تونگری اور میانہ روی منزل مقصود ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۰

۱۷۱۴۸ ۔ قناعت کرنے والا تونگر ہوتا ہے خواہ بھوکا برہنہ ہو۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۴۹ ۔ قناعت ہی تو نگری کا سرمایہ ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۵۰ ۔ کوئی خزانہ قناعت سے زیادہ بے نیاز کرنے والا نہیں۔

(حضر ت علی علیہ السلام) مجار الوانوار جلد ۶۹ صفحہ ۳۹۹

۱۷۱۵۱ ۔ جو شخص خدا کی دی ہوئی روزی پر قانع ہوتا ہے وہ بہت بڑا غنی ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۴۵

(حضرت جعفر صادقعلیہ السلام) کافی جلد ۲ صفحہ ۱۳۹

۱۷۱۵۲ ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی ۔۔۔ میں نے تونگری کو قناعت کے اندر رکھا جبکہ لوگ اسے مال کی کثرت میں تلاش کرتے ہیں جسے نہیں پا سکیں گے۔

مجار الوانوار جلد ۷۸ صفحہ ۴۵۳

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "تونگری" "بہت بڑا غنی"

( ۳) قناعت کے اسباب

۱۷۱۵۳ ۔ حرص سے جان چھڑ اکر قناعت کے میدان میں ڈیرے ڈال لو اور قناعت کو اختیار کر کے بڑے سے بڑے حرص و لالچ کو دور بھگاؤ۔

(امام محمد باقرعلیہ السلام ) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۶۳

۱۷۱۵۴ ۔ قدرت کے لحاظ سے اپنے کم درجہ کے لوگوں کی طرف نگاہ کرو، کیونکہ یہی چیز تمہیں خدا کی تقسیم پر قانع رکھے گی۔

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) سجارالانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۹۸ ۔ فروع کافی جلد ۸ صفحہ ۲۴۴

۱۷۱۵۵ ۔ عفت و پاکدامنی کے مطابق ہی قناعت ہوتی ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۵۶ ۔ جب تک حرص کا خاتمہ نہ کیا جائے اس وقت تک قناعت میسر نہیں آتی۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۵۷ ۔ جو عقل مند اسے کام لیتا ہو وہ قناعت کرتا ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۵۸ ۔ جس نے اپنی آپ کو پہچان لیا اسے چاہئے کہ قناعت و پرہیز گاری کو اختیار کرے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

( ۴) قناعت کا ثمرہ

۱۷۱۵۹ ۔ قناعت کا ثمرہ کاروبار کو اچھے انداز میں چلاتا اور مانگنے سے کنارہ کشی ہوتا ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۰ ۔ قناعت کا ثمرہ عزت ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۱ ۔ نفس کے سدھارنے کے لئے قناعت بہت بڑی معاون ہے۔

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۲ ۔ جو قلیل پر قناعت نہیں کرتا وہ اپنی نفس کی اصلاح کیونکر کر سکتا ہو؟

(حضر ت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۳ ۔ قنات میں جسمانی راحت ہو۔

(امام حسینعلیہ السلام) مجار الانوارا جلد ۷۸ صفحہ ۱۲۸

۱۷۱۶۴ ۔ قناعت کرنے وال غمگین نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۵ ۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے قناعت کے بارے میں پوچھ اگیا تو آپ نے فرمایا: قناعت نفس کی حفاظت، قدر کی عزت، زیادہ ططی کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور اہل دنیا کو اپنا غلام بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ قناعت کے راستے کو صرف و ہی شخص ہی اختیار کرتے ہین، ایک تو وہ جو پاکیزہ نفس کا مالک۔ یا خدا کا عبادت گزار ہو اور آخرت کے اجر کا امیدوار ہو دوسرا وہ شریف انسان جو کمینوں سے کنارہ کش رہتا ہو۔

سجا الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۳۴۹ ۔ ۳۵۳

۱۷۱۶۶ ۔ قناعت ہی سے عزت ملتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۶۷ ۔ قاضی شریح نے حضرت امیرعلیہ السلام کے خلافت میں ایک مکان خرید جب حضرتعلیہ السلام کو خبر ہوئی تو آپ اس کے لئے ایک دستاویز تحریر فرمائی جس میں لکھا۔۔ اس فریب خوار دئہ امیدو آرزو نے اس ؟؟؟؟؟؟ موت دھکیل رہی ہے اس گھر کو خریدا ہے اس قیمت پر کہ اس نے قناعت عزت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طلب و خواہش کی ذلت میں جا پڑا!۔۔۔۔۔۔

نہج البلاغہ دستاویز ۳

۱۷۱۶۸ ۔ جو کچھ تمہیں مل چکا ہو اس پر قناعت کرو اس طرح تمہارا حساب آسان ہو گا۔

(حضرترسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۱۸۷

۱۷۱۶۹ ۔ جو اللہ کی طرف سے کم تر معاش پر راضی رہتا ہے اللہ بھی اس کے کم تر عمل سے راضی ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) کافی جلد ۲ صفحہ ۱۳۸

۱۷۱۷۰ ۔ اپنے دین کے سالم رکھنے کے لئے دنیا کے قلیل سال پر قناعت کرو کیونکہ دنیا میں مومن کو مختصر سی چیز بھی مانع رکھتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۷۱ ۔ حضرت سیدعلیہ السلام کی اپنی فرزند امام حسنعلیہ السلام کے نام وصیت سے اقتباس۔۔ ضروری مقدار میں رزق پر راضی رہنے سے بڑھ کر کوئی ایسا مال نہیں جو تنگدستی کو دور کرے جو شخص بقدر کفایت پر راضی ہو رہتا ہے۔ اسے جلد ہی راحت حاصل ہو جاتی ہے سختی سے بچا رہتا ہے اور آسودہ زندگی گزارتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۳۸

۱۷۱۷۲ ۔ جس کا نفس فانع ہوتا ہے وہ سختیوں میں بھی معزز ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۷۳ ۔ وہ شخص آسودہ زندگی گزارتا ہے جسے اللہ نے قناعت کی نعمت سے نوازا ہو اور اس کا شریک زندگی صالح ہوتا ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۷۴ ۔ قناعت آسودہ تربیت زندگی ہو

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

( ۵) جو تھوڑے پر تانع نہیں اسے زیادہ بھی کوئی فائدہ نہں پہنچتا

۱۷۱۷۵ ۔ جو تھوڑے پر قناعت نہیں کرتا اسے زیادہ بھی کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۷۸ صفحہ ۷۱

۱۷۱۷۶ ۔ جو دنیا کے کم مال پر قانع نہیں ہوتا اسے زیادہ کا بھی فائدہ نہیں پہناتا خواہ وہ کتنا ہی جمع کر لے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۷۷ ۔ حجرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "اے فرزند آدم! اگر تم دنیا سے اس قدر حاصل کرنا چاہتے ہو جو تمہیں کافی ہو رہے تو دنیا میں کم سے کم بھی تمہارے لئے کافی ہے۔ اور اگر وہ تمہیں کافی نہیں ہے تو دنیا کی ؟؟؟؟ بھی تمہارے لئے ناکافی ہے۔

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) کافی جلد ۲ صفحہ ۱۳۸ صفحہ ۱۴۰

۱۷۱۷۸ ۔ ایک شخص نے امام جعفر صادقعلیہ السلام سے اس بات کی شکایت کی وہ تلاش میں لگا رہتا ہے اور اسے مل بھی جاتا ہے، لیکن اس پر وہ قانع نہیں ہوتا بلکہ اس کا نفس اس سے اس بات پر لڑتا رہتا ہے کہ اس سے زیادہ ملے اس نے کہا "مجھے ایسی چیز تعلیم فرمائیے جو میرے لئے مفید ہو" امام علیہ السلام نے فرمایا: "جو تیرے لئے کافی ہو وہ تجھے تونگر بنا دیتا ہے تو اس کا کم سے کم بھی تجھے بنا سکت اہے، لیکن اگر تجھے کافی ہونے والا تجھے بے نیاز نہیں کرتا تو دنیا کی تمام چیزیں بھی تجھے تونگر نہیں بنا سکتیں۔

کافی جلد ۲ صفحہ ۱۳۹

۱۷۱۷۹ ۔ اللہ نے جو تمہارے لئے تقسیم کر دیا ہو اسی پر قناعت کرو اور دوسرے کے پاس موجود مال کی طرف مت دیکھو اور اس چیز کی خواہش بھی نہ کرو جو تم حاصل نہیں کر پائے۔ کیونکہ قناعت کرتا ہو وہ سیر ہو جاتا ہے اور جو قناعت نہیں کرتا کبھی سیر نہیں ہوتا۔ پس آخرت کے حصے کو حاصل کرنے میں لگے رہو۔

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) فروع کافی جلد ۸ صفحہ ۲۴۳

۱۷۱۸۰ ۔ آسمان سے نازل شدہ ایک وحی میں ہے کہ :

"اگر آدم کے بیٹے کے لئے سونے اور چاندی کی دو وادیاں بھر دی جائیں پھر بھی وہ تیری وادی کی خواہش کرے گا۔

اے آدم کے بچے! تیرا پیٹ سمندروں میں ایک سمندر اور وادیوں میں سے ایک وادی ہے جسے صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے"

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) من لایحضرہ الفقیلہ جلد ۴ صفحہ ۳۰۰

(قول مولف: ملاحطہ ہو: باب "حرص" "حریص ایک ہباب ہوتا ہے جو کبھی سر نہیں ہوتا۔

فصل ۲۵

( ۱) استقامت (ثابت قدمی

قرآن مجید:

( فلذلک فادع واستقم کما امرت ) (شوری/ ۱۰)

ترجمہ:

پس اس کی طرف دعوت دے اور اسی پر قائم رہ جب کہ تجھے حکم دیا گیا ہے۔۔

( فاستقم کما امرت ومن تاب معک ) (حود/ ۱۱۲)

ترجمہ:

پس تو اور وہ لوگ جو تیرے ساتھ نائب (مستوجہ) ہوئے ثابت قدم رہو۔۔

حدیث شریف:

۱۷۱۸۱ ۔ تفسیر در مشور میں ہے کہ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے جن سے روایت کی ہے :

"جب یہ آیت فاستقم ۔۔۔ نازل ہوئی تو سرکارِ رسالت نے فرمایا کہ آستینیں چڑھا لو اور کمر بستہ ہو جاؤ! اس کے بعد کسی نے آپ کو ہنستا ہوا نہیں دیکھا۔

درمنشور جلد ۳ صفحہ ۳۵۱

۱۷۱۸۲ ۔ سُفین بن عبداللہ ثقفی نے روایت کی ہے کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میں عرض کیا: "یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیے کہ اسے ہلے باندھ لوں!"

فرمایا: "کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر کاربند رہو"

الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۲۷ اسے ترمذی، ابن ماجہ، ابن حیان اور حاکم نے روایت کیا ہے

۱۷۱۸۳ ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ: مجھے کوئی نصیحت فرمائیے" آپ نے فرمایا: "یہ کہو کہ میرا رب اللہ ہے اس پر ثابت قدم رہو"

میں نے کہا: "میرا رب اللہ ہے، میری توفیق خدا ہی سے وابستہ ہے، میرا اسی پر توکل ہے اور میں اسی کی طرف لوٹ کر جاؤں گا۔"

یہ سن کر آنحضرت نے فرمایا: "ابوالحسن علیہ السلام! تمہیں علم مبارک ہو، کیونکہ تم علم کے سرچشموں سے سیراب ہو چکے ہو!

۱۷۱۸۴ ۔ مومن کے دین میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ نیکی میں ثابت قدم رہتا ہے۔

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجاالانوار جلد ۶۷ صفحہ ۲۷۱

۱۷۱۸۵ ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے اس شخص کو سخت ناپسند فرماتا ہے جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے، لہٰذا اہل حق کی ولایت (کی راہ) سے کبھی نہ ہٹو۔ کیونکہ جو شخص ہمارے ساتھ کسی اور کا تبادلہ کرتا ہے وہ ہلاک ہو جائے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۱۰ صفحہ ۱۰۵

۱۷۱۸۶ ۔ عمل کرو، عمل کرو اور عاقبت و انجام کو دیکھو، استوار و برقرار رہو۔

دیکھو! جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا جو فیصلہ خدا وندی تھا وہ سامنے آ گیا میں الہٰی وعدہ و برہان کی رو سے کلام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "بے شک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس (عقیدے) پر ماتم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور یہ کہتے ہیں) تم خوف نہ کھاؤ اور غمگین نہ ہو۔ تمہی اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اب تمہارا قول تو یہ ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے تو اس کی کتاب اس کی شریعت کی راہ اور اس کی عبادت کے نیک طریقہ پر ماتم رہو۔ اس سے نکل نہ بھاگو اور نہ ہی اس میں بدتمہیں پیدا کرو اور نہ اس کے خلاف چلو۔۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۷۱۸۷ ۔ سب سے بڑا سعادت، دین میں پائیداری ہے

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

۱۷۱۸۸ ۔ جس کا دین ناپائیدار ہے وہ خود کیونکر پائیدار ہو سکتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم

نزدیک دو شخصوں میں سے ایک زیادہ محبوب ہو تو استقامت کو نہیں پا سکو گے۔

(حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )) کنز العمال حدیث ۵۴۷۸

( ۲) استقامت کا ثمرہ

قرآن مجید:

( وان بواستقاموا ---------------- ماع غدقا ) ۔ (جن/ ۱۶)

ترجمہ:

اور اگر وہ سیدھے راستے پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے۔

( ان الذین قابواربنا الله ------------------------- یحزنون ) ۔ (احقاف/ ۱۳)

ترجمہ:

یقینا جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر قائم بھی رہے۔ انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی مھزون لگے۔

( ان الذین قابوا ربنا الله ---------------------- ولا تحزنوا ) ۔ (حم سجدہ / ۳۰)

ترجمہ:

تحقیق جن لوگون نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے نازل ہوں گے (اور کہیں گے) بالکل خوف نہ کھاؤ نہ ہی مخرون ہو۔

حدیث شریف:

۱۷۱۹۰ ۔ اگر ثابت قدم رہو گے تو کامیابی حاصل کرو گے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۵۴۷۹

۱۷۱۹۱ ۔ جو ثابت قدم رہے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو ڈگمگا جائے گا وہ جہنم میں جا پڑے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہی البلاغہ خطبہ ۱۱۹

۱۷۱۹۲ ۔ ثابت قدمی میں سلامتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عزر الحکم

۱۷۱۹۳ ۔ جو ثابت قدمی کو اختیار کرے گا سلامتی اسے اختیار کرے گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار لانوار جلد ۷۸ صفحہ ۹۱

۱۷۱۹۴ ۔ سولامتی استقام ہی سے وابستہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۱۳ صفحہ ۱۷۳

۱۷۱۹۵ ۔ جو سلامتی کا طلبگار ہے اسے ثابت قدمی اختیار کرنا چاہئے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

۱۷۱۹۶ ۔ استقامت کی راہوں کو اختیار کرو کہ اس سے تمہیں عزت و شرف حاصل ہو گا اور ہر طرح کی ملامت سے بچے رہو گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

۱۷۱۹۷ ۔ استقامت سے بڑھ کر کوئی اور راستہ پرامن نہیں نہ ہی استقامت سے بڑھ کر کوئی عزو شرف ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

۱۷۱۹۸ ۔ جسے سلامتی مطلوب ہے اسے چاہئے کہ استقامت و ثابت قدمی کو اختیار کرے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

۱۷۱۹۹ ۔ جو استقامت کو اختیار کئے رہے گا کبھی سلامتی سے محروم نہیں ہو گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذرالحکم

فصل ۲۶

قیاس

( ۱) دین میں قیاس

۱۷۲۰۰ ۔ دین میں قیاس سے کام نہ لو، کیونکہ دین میں قیاس آرائی کی اجازت نہیں ہے اور جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۰۴۹

۱۷۲۰۱ ۔ جس شخص نے میری حدیث کو اپنی رائے میں قیاس کیا اس نے مجھ پر تہمت لگائی۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۰۵۰

۱۷۲۰۲ ۔ بنی اسرائیل اکتیرفرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت میں ایک اور فرقے کا اضافہ ہو گا ان تمام فرقوں میں سے میری امت کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ وہ فرقہ ہو گا جو دین کو اپنی رائے پر قیاس کرے گا جس سے وہ خدا کی حرام کردہ کو حلال اور حلال کردہ کو حرام قرار دیدیں گے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۰۵۲

۱۷۲۰۳ ۔ زرارہ! ان لوگوں سے دور رہو جو دین میں قیاس آرائی سے کام لیتے ہیں اس لئے کہ ان لوگوں نے اس علم کو ترک کر دیا ہے جو انہیں دیا گیا ہے اور جس کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے اس کے لئے متکلف میں پڑے ہوئے ہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) امالی منید صفحہ ۳۱

۱۷۲۰۴ ۔ ابن شرمہ اور ابوحنیفہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام علیہ السلام نے ابوحنیفہ سے فرمایا: کوفِ خدا کرو اور دین میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس سے کام نہ لو کیونکہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا تھاوہ شیطان ہے کہ جب اللہ نے سجدے کا حکم دیا تو اس نے کہا میں اس (آدمعلیہ السلام) کے افضل ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے" امام عبدالسلام نے ابوحنیفہ سے پوچھا: "پیشاپ نجس ہے یا منی؟ "انہوں نے جواب دیا "پیشاپ" امام نے فرمایا: پھر تو تمہارے قیاس کے مطابق پیشاپ کے اخراج پر غسل واجب ہونا چاہئے تھا نہ کہ منی کے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے منی کے اخراج پر غسل واجب قرار دیا ہے نہ کہ پیشاپ کی وہ سے۔

مجار الانوار جلد ۱۰ صفحہ ۲۱۳

۱۷۲۰۵ ۔ جو شخص اپنے آپ کو قیاس کے ساتھ مختص کر لے تو وہ ساری عمر شکوک وشبہات میں پڑا رہے گا۔ اور جو دین خداوندی کو اپنی رائے کے مطابق اپنائے وہ ساری زندگی میں مضطرب رہے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۲ صفحہ ۲۹۹

بارہویں فصل

انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ہے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ہے :

۱۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ مؤمن آپس میں جمع ہو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ہے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ہوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔

کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وہاں پر جمع ہوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟

اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نہیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارہے ہیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ہوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کھا جاسکتا ہے ؟

کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اہم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اہم موضوع کے بارے میںکئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اہم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اہم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟

اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کہتے تھے:

کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّها فمن دعاکم الی مثلها فاقتلوه(۵۱)

”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نہیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نہیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“

۲۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اہل سقیفہ کی منطق ہے ۔

گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رہا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ہونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یہی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ہی سھارا نہیں لینا چاہئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بہت پہلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ہی آپ کے دامن مبارک میں تربیت پائے ہوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ہوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ہمراہی ، اور پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔

دولت مند ہونے کے بارے میں کیا کھا جائے ، یہ وہی ایام جاہلیت کی منطق ہے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نہیں ہوا(۵۲)

اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ہمسفر ہونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ہوسکتا ہے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ہونا چاہئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ھجرت اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ہے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ہوئی ہے :

( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَه ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰه وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ )

اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ہے ۔(۵۳)

آنحضرت کی بیماری کے دوران پیغمبر کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ہے اور یہ بات ثابت ہی نہیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ہوئے کہ نھیں؟اور یہ کام پیغمبر کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! ( اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)

بھر حال اگر یہی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ہو ، تو پیغمبر بارہا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رہے ہیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر کی تاریخ میں ملتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟

۳۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ہونا اور گناہ و خطا سے پاک ہونا ، امامت و رسول خدا کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ہیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نہیں ہوئی تو وہ یہی دو موضوع تھے۔

کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ہو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ؟ اس طرح خود خواہی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟

۴۔ ان دونوں گروہوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ پیغمبر کی خلافت و جانشینی سے ظاہری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ہوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔

یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میںمعصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاہری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔

اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ہے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انھیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاہی بہت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ہی دیر پہلے پیغمبر اسلام کی وفات کا منکر ہوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت ۱# سننے کے بعد خاموش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پہلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرہیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ہو؟!

اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :

جب ایک شخص نے امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رہے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

۱۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ ) ( آل عمران ۱۴۴)

”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے کھا ہے کہ ہم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کہتے تھے ہمارا تعلق رسول خدا کے خاندان سے ہے اور ہمارا اور آپ کا قبیلہ ایک ہی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پہل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ہیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ہیں اور میں اس درخت کا پہل اور آنحضرت کا چچیرا بھائی ہوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نہیں ہوں(۵۴)

امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ہونے کی منطق

سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پہنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باہر نکلے ، کچھ لوگ انھیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ہاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ہاتہ پر رکھتے تھے۔

ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یہاں پرہم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں ، حضرت علی کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔

امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ہے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ہم اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔ ہمارے درمیان ایسے افراد موجود ہیں جو قرآن مجید کے مفاہیم کا مکمل علم رکھتے ہیں ۔ دین کے اصول اور فروع کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ہیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ہیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ہیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ہیں ۔

جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں دوسروں کی باری نہیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت سے باہر کہیں نہیں مل سکتا ۔ خبردار ! ہویٰ و ہوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ہوجاؤ گے !(۵۵)

شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین بنی ہاشم کے ایک گروہ کے ہمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :

” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ہوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ہوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہوں ۔

میں پہلا شخص ہوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ہوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ہو ۔(۵۶)

اسی طرح امیر المؤمنین اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ہیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰہی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو :

( ایها الناس انّ احق الناس بهذا الامر اقواهم علیه و اعلمهم بامر الله فیه فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل ) (۵۷)

یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد وہ ہے جو ، سماج کا نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ہو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ہوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔

یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نہیں ہے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ہیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔

جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے میں آگاہ ہوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :

” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رہے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ہوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب سے شائستہ ہیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے( ۵۸)

____________________

۵۱۔سیرہ ابن ہشام ، ج۴، ۳۰۸۔ ارشاد شیخ مفید ، ص ۲۶۰

۵۲۔(لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ ) ( زخرف / ۳۱) و نیز رجوع کریں اسراء /۹۰ ۔۹۱)

۵۳۔ بقرہ / ۲۰۷۔

۵۴۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ ۶۴)

۵۵۔الله الله یا معشر المهاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن داره و قعر بیته الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اهله عن مقامه فی الناس و حقّه ، فو الله یا معشر المهاجرین لنحن احق الناس به ، لانا اهل البیت و نحن احقّ بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیه فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنهم الامور السیئّة القسم بینهم با لسویة، و الله انّه لفینا ، فلا تتبعو الهوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج۱ ، ص ۱۲ ، احتجاج طبرسی ، ج۱ ، ص ۹۶)

۵۶۔انا اولی برسول الله حیاً و میّتاً و انا وصیّه و وزیره و مستودع سرّه و علمه ، و انا الصّدیق الاکبر و الفاروق الاعظم، اوّل من آمن به و صدّقه ، واحسنکم بلاءً فی جهاد المشرکین، و اعرفکم بالکتاب و السنة ، افقهکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الامور و اذر بکم لساناً و اثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی هذا الامر ( احتجاج طبرسی ، ج ۱۲ ، ص ۹۵)

۵۷۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ ۱۶۸۔

۵۸۔لامامة و السیاسة، ج ۱ ص ۱۲

تیرہویں فصل

نماز کی امامت ، خلافت کےلئے دلیل نھیں!

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رہا ہے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام کی نص کے مطابق عمل میں آئی ہے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔

حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ہیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم کی نص کے مطابق نہیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ہمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاہر اور واضح ہوجاتی ہے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر کی طرف سے کوئی نص موجود ہوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ہاتہ پکڑ کر ہر گز یہ نہ کہتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ہوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ہوں۔

اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰہی نص موجود ہوتی ، تو سقیفہ میں قریش کی پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعہ استدلال نہیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ہم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر کے ساتھ غار ثور میں ہم سفر ہونے اور نماز میں پیغمبر کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔

خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ہوئے کھا:

ان العرب لا تعرف هذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً “، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ہیں __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نہیں جانتا ۔

اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ہوا ہوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کہتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔

یہ کیسے کھا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر نے معین فرمایا ہے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام سےیہ پوچہ لیا ہوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ہے؟

عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” جب ابو بکر بیمار ہوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:

میری تکلیف کی پہلی وجہ وہ تین چیزیں ہیں جن کو میں نے انجام دیا ہے ، کاش میں نے انھیں انجام نہ دیا ہوتا ! اور تین چیزیں اور ہیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ہوتا ۔

وہ تین چیزں جنھیں کاش میں نے انجام نہ دیا ہوتا حسب ذیل ہیں :

۱۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا چاہے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔

۲۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ہوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رہتا ۔

۳۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راہزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔

اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم سے پوچہ لیاہوتا یہ ہیں :

۱۔ کاش میں نے پوچہ لیا ہوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ہے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ہے؟

۲۔ کاش میں سوال کرلیا ہوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ہے؟

۳ کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ہوتا!(۵۹)

نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی

اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاہا کہ جب پیغمبر نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہئے جو ایک دنیوی امر ہے ۔

جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ہے :

۱۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ہے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر کی اجازت سے انجام پائی ہو ۔ بعید نہیں ہے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ہو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔

اہل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں : ایک دن پیغمبر قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ہوگیا ابو بکر پیغمبر کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ہوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میںکھڑے ہوئے۔(۶۰)

۲۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ہوگی تو نماز میں امامت کرنا ہرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اہم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نہیں بن سکتا ۔

نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ہونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نہیں ہے ( اور اہل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نہیں ہے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ہیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاہی رکھنا۔

احکام اور حدود الٰہی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔

گناہ اور خطا سے مبرّا ہونا

اس استدلال سے پتا چلتا ہے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ہے اور اس سے پیغمبر کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا ہے اسی لئے وہ کھتا ہے کہ : جب پیغمبر نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ہوں ، جو ایک دنیوی امر ہے۔

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وہی معنی مراد لیا ہے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے ۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاہری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ہوتا ہے جو عام حکمراں میں نہیں پائے جاتے اور ہم اس سلسلے میں اس سے پہلے مختصر طور پر بحث کرچکے ہیں۔

۳۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ہاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ہاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ہوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نہیں کھاتا۔اگر چہ اہل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی(۶۱)

واضح ہے کہ یہ توجیہ بہت بعید اور ناقابل قبول ہے ، کیونکہ اگر یہی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ہوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاہتے تھے۔

۴۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ہوئی ہے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ہی اسامہ بن زید کے ہاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :

”جھّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔

اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کررہے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی دعا فرماتے تھے(۶۲)

ان حالات میں پیغمبر ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!

۵۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاہتے تھے ، پیغمبر اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ہو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاہئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ہے، اور اس سے پیغمبر کا مقصد کیا تھا؟

یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ہوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ہوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔

جس خیانت کے بارے میں یہاں پر تصور کیا جاسکتا ہے ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔

اہل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

پیغمبر اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نہیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “

کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل ( مسجد میں حاضر ہوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ہے؟!!

یہاں پر میں اپنی بات تمام کرتے ہوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں۔

____________________

۵۹۔ تاریخ طبری ،ج۳ ، ص ۲۳۴ ۔

۶۰۔ صحیح بخاری ج ۲، ص ۲۵۔

۶۱۔ صحیح بخاری ، ج ۲، ص ۲۲۔

۶۲۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج ۶، ص ۵۲ ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوہری۔

بارہویں فصل

انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ہے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ہے :

۱۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ مؤمن آپس میں جمع ہو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ہے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ہوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔

کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وہاں پر جمع ہوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟

اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نہیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارہے ہیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ہوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کھا جاسکتا ہے ؟

کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اہم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اہم موضوع کے بارے میںکئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اہم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اہم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟

اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کہتے تھے:

کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّها فمن دعاکم الی مثلها فاقتلوه(۵۱)

”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نہیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نہیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“

۲۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اہل سقیفہ کی منطق ہے ۔

گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رہا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ہونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یہی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ہی سھارا نہیں لینا چاہئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بہت پہلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ہی آپ کے دامن مبارک میں تربیت پائے ہوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ہوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ہمراہی ، اور پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔

دولت مند ہونے کے بارے میں کیا کھا جائے ، یہ وہی ایام جاہلیت کی منطق ہے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نہیں ہوا(۵۲)

اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ہمسفر ہونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ہوسکتا ہے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ہونا چاہئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ھجرت اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ہے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ہوئی ہے :

( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَه ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰه وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ )

اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ہے ۔(۵۳)

آنحضرت کی بیماری کے دوران پیغمبر کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ہے اور یہ بات ثابت ہی نہیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ہوئے کہ نھیں؟اور یہ کام پیغمبر کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! ( اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)

بھر حال اگر یہی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ہو ، تو پیغمبر بارہا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رہے ہیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر کی تاریخ میں ملتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟

۳۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ہونا اور گناہ و خطا سے پاک ہونا ، امامت و رسول خدا کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ہیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نہیں ہوئی تو وہ یہی دو موضوع تھے۔

کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ہو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ؟ اس طرح خود خواہی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟

۴۔ ان دونوں گروہوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ پیغمبر کی خلافت و جانشینی سے ظاہری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ہوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔

یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میںمعصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاہری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔

اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ہے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انھیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاہی بہت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ہی دیر پہلے پیغمبر اسلام کی وفات کا منکر ہوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت ۱# سننے کے بعد خاموش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پہلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرہیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ہو؟!

اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :

جب ایک شخص نے امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رہے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

۱۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ ) ( آل عمران ۱۴۴)

”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے کھا ہے کہ ہم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کہتے تھے ہمارا تعلق رسول خدا کے خاندان سے ہے اور ہمارا اور آپ کا قبیلہ ایک ہی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پہل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ہیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ہیں اور میں اس درخت کا پہل اور آنحضرت کا چچیرا بھائی ہوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نہیں ہوں(۵۴)

امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ہونے کی منطق

سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پہنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باہر نکلے ، کچھ لوگ انھیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ہاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ہاتہ پر رکھتے تھے۔

ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یہاں پرہم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں ، حضرت علی کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔

امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ہے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ہم اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔ ہمارے درمیان ایسے افراد موجود ہیں جو قرآن مجید کے مفاہیم کا مکمل علم رکھتے ہیں ۔ دین کے اصول اور فروع کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ہیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ہیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ہیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ہیں ۔

جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں دوسروں کی باری نہیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت سے باہر کہیں نہیں مل سکتا ۔ خبردار ! ہویٰ و ہوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ہوجاؤ گے !(۵۵)

شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین بنی ہاشم کے ایک گروہ کے ہمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :

” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ہوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ہوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہوں ۔

میں پہلا شخص ہوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ہوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ہو ۔(۵۶)

اسی طرح امیر المؤمنین اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ہیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰہی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو :

( ایها الناس انّ احق الناس بهذا الامر اقواهم علیه و اعلمهم بامر الله فیه فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل ) (۵۷)

یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد وہ ہے جو ، سماج کا نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ہو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ہوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔

یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نہیں ہے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ہیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔

جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے میں آگاہ ہوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :

” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رہے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ہوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب سے شائستہ ہیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے( ۵۸)

____________________

۵۱۔سیرہ ابن ہشام ، ج۴، ۳۰۸۔ ارشاد شیخ مفید ، ص ۲۶۰

۵۲۔(لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ ) ( زخرف / ۳۱) و نیز رجوع کریں اسراء /۹۰ ۔۹۱)

۵۳۔ بقرہ / ۲۰۷۔

۵۴۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ ۶۴)

۵۵۔الله الله یا معشر المهاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن داره و قعر بیته الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اهله عن مقامه فی الناس و حقّه ، فو الله یا معشر المهاجرین لنحن احق الناس به ، لانا اهل البیت و نحن احقّ بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیه فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنهم الامور السیئّة القسم بینهم با لسویة، و الله انّه لفینا ، فلا تتبعو الهوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج۱ ، ص ۱۲ ، احتجاج طبرسی ، ج۱ ، ص ۹۶)

۵۶۔انا اولی برسول الله حیاً و میّتاً و انا وصیّه و وزیره و مستودع سرّه و علمه ، و انا الصّدیق الاکبر و الفاروق الاعظم، اوّل من آمن به و صدّقه ، واحسنکم بلاءً فی جهاد المشرکین، و اعرفکم بالکتاب و السنة ، افقهکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الامور و اذر بکم لساناً و اثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی هذا الامر ( احتجاج طبرسی ، ج ۱۲ ، ص ۹۵)

۵۷۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ ۱۶۸۔

۵۸۔لامامة و السیاسة، ج ۱ ص ۱۲

تیرہویں فصل

نماز کی امامت ، خلافت کےلئے دلیل نھیں!

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رہا ہے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام کی نص کے مطابق عمل میں آئی ہے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔

حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ہیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم کی نص کے مطابق نہیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ہمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاہر اور واضح ہوجاتی ہے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر کی طرف سے کوئی نص موجود ہوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ہاتہ پکڑ کر ہر گز یہ نہ کہتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ہوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ہوں۔

اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰہی نص موجود ہوتی ، تو سقیفہ میں قریش کی پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعہ استدلال نہیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ہم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر کے ساتھ غار ثور میں ہم سفر ہونے اور نماز میں پیغمبر کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔

خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ہوئے کھا:

ان العرب لا تعرف هذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً “، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ہیں __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نہیں جانتا ۔

اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ہوا ہوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کہتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔

یہ کیسے کھا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر نے معین فرمایا ہے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام سےیہ پوچہ لیا ہوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ہے؟

عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” جب ابو بکر بیمار ہوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:

میری تکلیف کی پہلی وجہ وہ تین چیزیں ہیں جن کو میں نے انجام دیا ہے ، کاش میں نے انھیں انجام نہ دیا ہوتا ! اور تین چیزیں اور ہیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ہوتا ۔

وہ تین چیزں جنھیں کاش میں نے انجام نہ دیا ہوتا حسب ذیل ہیں :

۱۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا چاہے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔

۲۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ہوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رہتا ۔

۳۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راہزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔

اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم سے پوچہ لیاہوتا یہ ہیں :

۱۔ کاش میں نے پوچہ لیا ہوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ہے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ہے؟

۲۔ کاش میں سوال کرلیا ہوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ہے؟

۳ کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ہوتا!(۵۹)

نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی

اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاہا کہ جب پیغمبر نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہئے جو ایک دنیوی امر ہے ۔

جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ہے :

۱۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ہے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر کی اجازت سے انجام پائی ہو ۔ بعید نہیں ہے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ہو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔

اہل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں : ایک دن پیغمبر قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ہوگیا ابو بکر پیغمبر کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ہوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میںکھڑے ہوئے۔(۶۰)

۲۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ہوگی تو نماز میں امامت کرنا ہرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اہم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نہیں بن سکتا ۔

نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ہونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نہیں ہے ( اور اہل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نہیں ہے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ہیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاہی رکھنا۔

احکام اور حدود الٰہی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔

گناہ اور خطا سے مبرّا ہونا

اس استدلال سے پتا چلتا ہے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ہے اور اس سے پیغمبر کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا ہے اسی لئے وہ کھتا ہے کہ : جب پیغمبر نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ہوں ، جو ایک دنیوی امر ہے۔

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وہی معنی مراد لیا ہے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے ۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاہری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ہوتا ہے جو عام حکمراں میں نہیں پائے جاتے اور ہم اس سلسلے میں اس سے پہلے مختصر طور پر بحث کرچکے ہیں۔

۳۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ہاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ہاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ہوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نہیں کھاتا۔اگر چہ اہل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی(۶۱)

واضح ہے کہ یہ توجیہ بہت بعید اور ناقابل قبول ہے ، کیونکہ اگر یہی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ہوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاہتے تھے۔

۴۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ہوئی ہے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ہی اسامہ بن زید کے ہاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :

”جھّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔

اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کررہے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی دعا فرماتے تھے(۶۲)

ان حالات میں پیغمبر ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!

۵۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاہتے تھے ، پیغمبر اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ہو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاہئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ہے، اور اس سے پیغمبر کا مقصد کیا تھا؟

یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ہوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ہوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔

جس خیانت کے بارے میں یہاں پر تصور کیا جاسکتا ہے ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔

اہل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

پیغمبر اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نہیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “

کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل ( مسجد میں حاضر ہوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ہے؟!!

یہاں پر میں اپنی بات تمام کرتے ہوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں۔

____________________

۵۹۔ تاریخ طبری ،ج۳ ، ص ۲۳۴ ۔

۶۰۔ صحیح بخاری ج ۲، ص ۲۵۔

۶۱۔ صحیح بخاری ، ج ۲، ص ۲۲۔

۶۲۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج ۶، ص ۵۲ ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوہری۔


10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26