میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 56736
ڈاؤنلوڈ: 6033

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56736 / ڈاؤنلوڈ: 6033
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۳۲

( ۱) شرافت و فضیلت

۱۷۴۹۴ ۔ انسان کی شرافت اس کا دین ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن جنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۴۹۵ ۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ شرافت اور فضیلت کیا ہوتی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "کسی کو مانگنے سے پہلے عطا اور بخشش میں پہل کی جائے اور (ہر مناسب) موقع پر کھانا کھلایا جائے۔"

مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۰۲

۱۷۴۹۶ ۔ شرافت یہ ہے کہ رضا کا رانہ طور پر نیکیوں کو بجا لایا جائے اور کسی کے مانگنے سے پہلے اسے عطا کیا جائے۔

(امام حسن علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۴۴ صفحہ ۸۹

۱۷۴۹۷ ۔ تین چیزیں انسان کی شرافت اور اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ۱ ۔ حسنِ اخلاق ۲ ۔ غصے کو پی جانا اور ۳ ۔ ناشائستہ چیزوں سے آنکھوں کو بند کر لینا۔

(امام جعفرصادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحة ۲۳۲ تحف العقول صفحہ ۲۳۵

۱۷۴۹۸ ۔ کسی انسان کی خندہ پیشانی اور نیکیوں کی انجام دہی سے ہی اس کی شرافت کا پتہ چلتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۴۹۹ ۔ فضیلت اس میں ہے کہ سختیوں کو برداشت کیا جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۰ ۔ فضیلت یہی ہے کہ صبر کا اچھی طرح مظاہرہ کیا جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۱ ۔ تاوان کا بوجھ برداشت کرنے ہی سے فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۲ ۔ شرافت یہ ہے کہ مال پر عزت و ناموس کو ترجیح دی جائے اور کمینہ پن یہ ہے کہ مال کو افراد پر ترجیح دی جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۳ ۔ شرافت یہ ہے کہ سخاوت کا مظاہرہ کیا جائے اور وعدے کو پورا کیا جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۴ ۔ فضیلت اسی چیز کا نام ہے کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے اورنیکیوں کو عام کیا جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۵ ۔ (حضرت رسول خدا سے کسی نے پوچھا: "یارسول اللہ! صحبان شرافت و فضیلت کون ہیں؟")

فرمایا: ’ذکرِ (الہٰی) کی مجالس میں شرکت کرنے والے!"

(اسے احمد بن جنبل نے روایت کی اہے) العجم

۱۷۵۰۶ ۔ برائیوں سے اجتناب کا نام شرافت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۷ ۔ شرافت اچھی عادت اور پستی سے اجتناب کا نام ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۸ ۔ اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھو، جو چیزیں تمہارے لئے حلال نہیں ہیں ان کے بارے میں نجل سے کام لو کیونکہ ایسا کرنے ہی میں شرافت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۰۹ ۔ بلندی ہمت کا نتیجہ شرافت اور فضیلت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۱۰ ۔ جس کی نظر میں خود اپنے نفس کی عزت و فضیلت ہو گی وہ اپنی نفسانی خواہشوں کو بے وقعت سمجھے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجاالانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۳ نہج البلاغہ حکمت ۴۴۹

۱۷۵۱۱ ۔ جس کی نطر میں خود اپنے نفس کی شرافت ہو گی دنیا اس کی نگاہوں میں حقیر ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۱۲ ۔ نرم خوئی شرافت کی دلیل ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۰۸

۱۷۵۱۳ ۔ عہدوپیمان کو پورا کرنا شرافت کی دلیل ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) ماجر الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۰۹

۱۷۵۱۴ ۔ انسان کی شرافت و فضیلت اس بات میں ہے کہ اپنے ماضی ( کی خطاؤں) پر گر یہ کرے، اپنے طون کا متذاق ہو اور اسے پرانے دوستوں (کی دوستی) کی حفاظت کرے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۴ صفحہ ۲۶۴

۱۷۵۱۵ ۔ جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زیادہ لط و مہربانی کا سبب ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۴۷

۱۷۵۱۶ ۔ جذبہ شرافت و کرم بہترین عادت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۱۱

( ۲) عزت و شرافت

۱۷۵۱۷ ۔ اللہ نے تمہٰں اسلام کے لئے مخصوص کر لیا ہے اس کے لئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اس لئے کہ اسلام، سلامتی کا نام اور عزتِ انسانی کا سرمایہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاگہ خطبہ ۱۵۲

۱۷۵۱۸ ۔ اہل بہشت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: "وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ کی بخشش وعنایت ہمیشہ ان کے شامل حال رہی یہان تک کہ وہ اپنی جائے قیام میں اتر پڑے اور سفروں کی نقل و حرکت سے آسودہ ہو گئے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۵

۱۷۵۱۹ ۔ اہل بہشت ہی کی شان میں فرمایا "چنانچہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی آخرت اور عمدہ و پاکیزہ عزت و شرافت کو پا لیا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۶

۱۷۵۲۰ ۔ اہل جنت کے اوصاف میں فرمایا: "ان کے گرد ملائکہ حلقہ کئے ہوں گے تسلی و تسکین کا ان پر ورود ہو گا، آسمان کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے۔ عزت کی مسندیں ان کے لئے مہیا ہوں گی۔۔"

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاگہ خطبہ ۲۲۲

قول مولف: ملاحظہ ہو: باب "شہادت" حدیث ۹۷۸۲

( ۳) صاحب کرم و سخاوت

قرآن مجید:

( ومن کفر فان ابی غنی کریم ) ۔ (نمل/ ۴۰)

ترجمہ:

جو شخص ناشکری کرتا ہے میرا پروردگار یقینا بے نیاز اور سخی ہے۔

ی( ٰایها الانسان ماغرک بربک الکریم ) ۔ (انعظار/ ۶)

ترجمہ:

اے انسان! تجھے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں کس چیز نے دھوکہ دیا۔

( انه لقول رسول کریم ) ۔ (الحاقہ/ ۴۰ ۔ التکویر/ ۱۹)

ترجمہ:

یہ ایک معزز فرشتے لایا ہوا پیغام ہے۔

حدیث شریف:

۱۷۵۲۱ ۔ خداوندِ عالم کریم ہے اور کرم کو دوست رکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) اسے دلامی نے روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۵۲۲ ۔ یقینا تمہارا پروردگار شرم اور کرم والا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) سنن ابن ماجہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۷۱

۱۷۵۲۳ ۔ یقینا اللہ تعالیٰ سب صاحبانِ کرم سے زیادہ کرم والا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے مالک نے بھی روایت کیا ہے۔ العجم

۱۷۵۲۴ ۔ حضرت رسول خدا صاحب حیا وشرم اور صاحب کرم تھے۔

اسے احمد بن جنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ العجم

۱۷۵۲۵ ۔ یقینا کریم ابن کریم ابن کریم بن کریم کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام بن یعقوب علیہ السلام بن اسحاقعلیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) صحیح ترمذی جلد ۱۱ صفحہ ۲۸۱

۱۷۵۲۶ ۔ (یہ حدیث چھوتی ہوئی ہے)

۱۷۵۲۷ ۔ (صحیح معنی میں) کریم وہ ہوتا ہے جو اپن چہرے کو جہنم کی ذلت سے بچائے رکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۸۲ صفحہ ۹۰

۱۷۵۲۸ ۔ شریف انسان اپنی فضیلت پر خوش ہوتا ہے اور کمینہ شخص اپنے مال و دولت پر فخر کرتا ہے۔

(اما زین العابدینعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۴۳

۱۷۵۲۹ ۔ جب شریف سے رحم کی درخواست کی جاتی ہے تو اس کا دل نرم ہو جات اہے اور جب کمینے پر کوئی مہربانی کی جاتی ہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔

(امام حسن عسکری علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۴۱

۱۷۵۳۰ ۔ شریف کے ساتھ سختی کی جائے تو سخت دل ہو جاتا ہے اور اگر رحم کی درخواست کی جائے تو نرم دل ہو جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۱ ۔ شریف انسان کشادہ رو ہوتا ہے اور کمینہ شخص تروتازہ ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۲ ۔ شریف انسان محسن اور نیوک اکر بن جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۳ ۔ کریم وہ ہوتا ہے جو نیکی کا آغاز از خود کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۴ ۔ شریف آدمی قلیل کا بھی شکر ادا کرتا ہے۔ اور کمینہ شخص کثیر کو بھی ناکافی سمجھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۵ ۔ شریف آدمی نیکی پر نیکی کئے جاتا ہے اور کمینہ آدمی ہر نیکی کا احسان جتاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۶ ۔ کریم وہ ہوتا ہے جس کی بخشش سوال پر سبقت لے جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۷ ۔ کریم اور شریف وہ ہوتا ہے جو (گھر میں) موجود چیز کو (سخاوت کیلئے) لے آئے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۸ ۔ کریم و شریف وہ ہوتا ہے جو حرام سے اجتناب کرے اور عیوب سے دور رہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۳۹ ۔ شریف وہ ہوتا ہے جو براء کا بدلہ اچھائی سے دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۰ ۔ کریم وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بلند رکھے جو اسے اچھا بدلہ دینے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۱ ۔ جن چیزوں پر کمینہ شخص اتراتا ہے شریف ان سے کوسوں دور رہتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۲ ۔ شریف انسان جب اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو درگزر سے کام لیتا ہے، جب کسی چیز کا مالک بن جاتا ہے تو سخاوت سے کام لیتا ہے اور جب اس سے مانگا جاتا ہے تو مانگنے والے کا ناکام نہیں پلٹاتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۳ ۔ شریف آدمی عارفنگ کو ناپسند کرتا ہے اور ہمسایہ کی عزت کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۴ ۔ شریف آدمی نیک اعمال اپنے اوپر قرض سمجھتا ہے جنہیں وہ ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کمینہ شخص اپنے کئے ہوئے اچھے کاموں کو دوسروں پر قرض سمجھتا ہے جس کا وہ طلب گار رہتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۵ ۔ جب کسی شریف کو تمہاری ضرورت ہو گی تو وہ تمہیں پریشان نہیں کرے گا اور جب تمہیں اس کی ضرورت ہو گی تو وہ تمہاری حاجات کو پورا کرے گا جبکہ کمینے شخص کو اگر تمہاری ضرورت ہو گی تو تمہیں عاجز کر دے گا اور جب تمہیں اس کی ضرورت ہو گی تو تم سے بے اتمنائی برتے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۶ ۔ کریم وہ ہے جو قدرت رکھنے کے باوجود کر دے، حاکم ہوتے ہوئے عدل کرے، اپنی زبان پر قابو رکھے اور اپنی نیکیوں کو عام کرے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۷ ۔ کریم انسان اللہ کے نزدیک خوش و خرم اور ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبوب مابہیت ہو تاہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۸ ۔ کریم شریف اپنے مال کے ذریعہ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتا ہے لئیم (کمینہ) اپنی عزت و ناموس کے ذریعہ اپنے مال کو بچا کر رکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۴۹ ۔ کریم اپنی ملکیت کو اچھا انداز دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۰ ۔ کریم اور شریف انسان کا وعدہ دو ٹوک اور فوری ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۱ ۔ شریف جب وعدہ کرتا ہے تو اسبے پورا کرتا ہے اور جب اس سے وعدہ خلافی کی جاتی ہے تو درگزر سے کام لیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۲ ۔ شریف کی دشمنی، کمینے کی دوستی سے زیادہ پرامن ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۳ ۔ شریف کا عطیہ تمہیں اس کے دل میں محبوب بنا دیتا ہے اور کمینے کا عطیہ تمہیں اس کے نزدیک پست کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۴ ۔ ذلت کے باوجود شریف کی دوستی اچھائی کے ساتھ کمینے کی دوستی سے پھر بھی بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۵ ۔ کثرتِ احسان کے ذریعہ شریف کی پہچان ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۶ ۔ شریف کا عرصہ اقتدار اس کے فضائل و مناقب کا مظہر ہوتاہے اور کمینے کا عرصہ اقتدار اس کے عیوب و نقائص کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۷ ۔ اگر تم شریف ہو تو کبھی نہ بھلاؤ کہ جس نے تم پر احسان کیا ہے اس نے تمہیں زیربار کر دیا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۸ ۔ جو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وہی کریم ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۵۹ ۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان فارسی اور وہاں پر موجود ایک شخص کے درمیان پر واقعہ پیش آیا کہ اس نے حضرت سلمان فارسی سے کہا:

"تم کون ہو، کیا ہو؟" تو سلمان فارسی نے کہا:

"میری اور تمہاری ابتدا ایک گندے نطفے سے ہے اور میری اور تمہاری انتہا ایک بدبودار مردار ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور میزانِ اعمال نصب کیا جائے گاتو جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا وہی شریف بھی ہو گا اور مُعزز بھی، جس کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ پست بھی ہو گا اور کمینہ بھی۔"

(حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام) تفسیر نور الثقلین جلد ۵ صفحہ ۲۶۰

( ۴) شریفوں کے عادات و اطوار

قرآن مجید:

( واذامروا باللغومروا کراما ) ۔ (فرقان/ ۷۲)

ترجمہ:

اور وہ لوگ جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو بڑے بزرگانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔

حدیث شریف:

۱۷۵۶۰ ۔ خیر خواہی شریفوں کی عادت اور کھوٹ کی ملاوٹ کمینون کا وطیرہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۱ ۔ عفوودرگزر کے بارے میں جلد بازی سے کام لینا شریفوں کی عادت ہے اور انتقام کے لئے جلد بازی سے کام لینا کمینون کا شیوہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۲ ۔ نیک کاموں کی انجام دہی اور احسانات کی بجاآوری میں شریف انسان ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۳ ۔ شریفوں کا شیوہ یکے بعد دیگرے احسانات اور کمینوں کا شیوہ بدکلامی ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۴ ۔ شریفوں کا کام وعدہ وفاعی اور کمینوں کا کام وعدہ خلافی ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۵ ۔ سخاوت شریفوں کا شیوہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۶ ۔ شریفوں کا کام اچھے سے اچھے انداز میں نیکی کرنا اور کمینوں کا کام برے سے برے طریقے سے برائی کرنا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۷ ۔ شریفوں کی کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ معاف کر دیتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۸ ۔ کمینوں کی معافی سے شریفوں کی سزا بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۶۹ ۔ کمینے کی بخشش سے شریف کا نہ دینا بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۰ ۔ شریفوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سخاوت کی جائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۱ ۔ شریف صابر ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۲ ۔ زیادہ سے زیادہ بخشش کر کے شریفوں کو خوشی ہوتی ہے اور برے سے برا کام انجام دے کر کمینوں کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۳ ۔ شریفوں کو کھانا کھلانے میں لطف آتا ہے اورکمینوں کو کھانا کھانے میں مزہ آتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۴ ۔ شریف آدمی اتنا موت سے دور نہیں بھاگتے جتنا نجل اور کمینوں کے ساتھ میل و ملاپ سے دور بھاگتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۵ ۔ وہ شخص ہی شرافت کی سب سے زیادہ لیاقت رکھتا ہے جس کے ذریعہ شرفاء کو متعارف کرایا جائے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۴۳۶

شرح ابن ابی الحدید جلد ۲۰ صفحہ ۸۳ مجارالانوار جدل ۷۴ صفحہ ۱۶۴

ان دونوں کتابوں میں ہے: "جس کی جڑیں شرفاء میں مضبوط ہوں" یعنی جن کے آباؤ اجداد سے شرافت چلی آ رہی ہو اور شرافت سے ورثہ میں ملی ہو۔

۱۷۵۷۶ ۔ حوادثات زمانہ اور فتنوں کی پیش گوئی کے سلسلے میں فرمایا: "کمینے پھیل جائیں گے، شریف اس زمانے کے لوگ بھڑئیے ہوں گے اور حکمران درندے۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۸

۱۷۵۷۷ ۔ یوم عاشورا سید الشہدء اما حسین علیہ السلام کے خطاب سے اقتباس: "یاد رکھو کہ حرامی باپ کے حرامی بیٹیم (ابن زیاد) نے ہمیں دوراہے پر لا کھڑ اکیا ہے، ایک افرادی قلت اور دوسرے ذلت لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں پستی کو اختیار نہیں کروں گا۔ ہم شرفاء کی موت پر کمینوں کی موت کو ترجیح نہیں دیں گے۔۔

مجار الانوار جلد ۴۵ صفحہ ۹۱۸

( ۵) شرفاء کا شیوہ

۱۷۵۷۸ ۔ جھوٹ و بددیانتی شرفاء کا شیوہ نہیں ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۷۹ ۔ جو برائی کا بدلہ اچھائی سے نہ دے اس کا شمار شرفاء میں نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۰ ۔ ننگ و عار کی زدہ کو اختیار کرنا شریفوں کی عادات میں نہیں ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۱ ۔ شریف آدمی کینہ ور نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۲ ۔ انتقام میں جلدی کرنا شریفوں کی عادت نہیں ہوتی۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۳ ۔ جو اپنی نیکاین گنواتا ہے اس کا شرف مٹ جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۱۳

( ۶) شریف کے حملے سے بچو!

۱۷۵۸۴ ۔ شریف جب بھوکا ہو اور کمینہ جب پیٹ بھرا ہو تو ان کے حملوں سے بچو

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم۔ نہج البلاغہ حکمت ۴۹

۱۷۵۸۵ ۔ شریف کے حملے سے ڈرو جب وہ پستی کا شکار ہو اور کمینے کے حملے سے بچو جب وہ بلندیوں پر فائز ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۶ ۔ جب شریف کی توہین اور بے عزت کرو تو اس سے ڈرو بردباد کو جب کوئی زخم لگاؤ تو اس سے ڈرو اور بہادر کو جب دکھ پہنچاؤ تو اس سے ڈرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۷ ۔ شریف کی بے عزتی کرو تو اس سے ڈرتے رہو جب کمینے کی عزت کرو تو اس سے بچتے رہو اور جب برباد کو زخم پہنچاؤ اس سے سے محتاط رہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

۱۷۵۸۸ ۔ جب کمینے کی عزت کرو تو اس سے ڈرو، جب رذیل کو آگے بڑھاؤ (اور اس کی تعظیم کرو) تو اس سے ڈرو اور جب فرومایہ کو ملند کرو تو اس سے ڈرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) عذر الحکم

( ۷) ہر قوم کے شریف کی عزت کرو

۱۷۵۸۹ ۔ جب تمہارے پاس کسی قوم کا شریف آدمی آئے تو اس کی عزت کرو۔

(حضرت ر سول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۵۴۸۳ ۔ ۲۵۴۸۷

۱۷۵۹۰ ۔ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: "ہر قوم کے شریف کی عزت کرو"

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۵

۱۷۵۹۱ ۔ جرید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب سرکارِ رسالتمآب کی بعثت ہو گئی تو میں بیعت کے لئے آنجناب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: "جریر! کیسے آنا ہوا!؟ میں نے عرض کیا: "آپ کے ہاتھوں پر اسلام لانے کے لئے حاضر ہوا ہو" آنحضور نے میرے لئے اپنی عبا بچھا دی، پھر اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمیا: "جب تمہارے پاس کسی قوم کا شریف آدمی آئے تو اس کی عزت کرو۔"

مجار الانوار جلد ۱۶ صفحہ ۲۳۹

۱۷۵۹۲ ۔ جب فارس (ایران) کے قیدی مدینہ لائے گئے تو حضرت عمر بن خطاب نے ان کی عورتوں کو فروخت کرنے اور مردوں کو غلام بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: "حضرت رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ہر قوم کے شریف کی عزت کیا کرو۔

مجار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۵

قول موئف : ملا خطہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۸ ۴۶۸ ء باب ۶۸

نیز : کنز العمال جلد ۹ ۱۰۳ ء ۱۰۴ ء

نیز : "عنوان" "تعظیم"

عزت و تعظیم

۱۷۵۹۳ ۔ حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت رسالتہاب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ سرہانے سے تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ وہ تکیہ آپ نے میری طرف کر کے فرمایا: "سلمان! جو مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے پا س جائے او روہ ملنے والے کی عزت و تکریم کے پیش نظر اس کی طرف تکیہ بڑھادے تو خد اا سکے گناہ معاف کر دیتا ہے۔"

سحار الانوار جلد ۱۶ ۶۳۵ ء

۱۷۵۹۴ ۔ اے سلمان! جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی ملاقات کو جائے اور وہ اس کے احترام کے پیش نظر اس کی طرف تکیہ بڑھا دے تو خدا اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۴۹۳ ۲۵ ۔ ۲۵۴۹۴

۱۷۵۹۵ ۔ خداوند عالم اپنے عظمت او راپنے جلال کے باوجود تین قسم کے لوگوں کی عزت و تکریم کو پسند کرتا ہے، ۱ ۔ بوڑھا مسلمان ۲ ۔ عادل (منصوص من اللہ) امام ۳ ۔حامل قرآن جو نہ تو غلوسے کام لے او ر نہ ہی اس سے جفاکرے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوارجلد ۹۲ ۱۸۴ ء۔ کنز العمال حدیث ۸ ۔ ۲۵۵

اس کتاب میں ہے ۔ جلال خدا وند ی کی طرف سے تین قسم کے لوگوں کی تعظیم ہوتی ہے :

۱ ۔ عادل امام ۲ ۔ بوڑھا مسلمان او ر۔۔۔۔۔ ۱)

۱۷۵۹۶ ۔ جو اپنے (مسلمان) بھائی کا احترام کرتا ہے تو گویا وہ خدا کا احترام کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۲۵۴۸۸

۱۷۵۹۷ ۔ جب کوئی تمہیں ملنے آئے تو اس کی عزت کرو۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۲۵۴۸۵

۱۷۵۹۸ ۔ جو خدا او رقیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے ہم نشین کی عزت کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۲۵۴۹۰

۱۷۵۹۹ ۔ جو شخص کسی سے کوئی لالچ رکھے یا خوف کھائے بغیر اس کی رکاب کو تھامے ‘ تو اس کے گناہ معاف کر دےئے جاتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۲۵۵۰۱

ََِ ۱۷۶۰۰ ۔ باہر سے آنے والا حیران او رمدہوش ہوتا ہے لہذا "خوش آمدید " کہہ کر ا س سے ملو۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۲۵۴۹۹

۱۷۶۰۱ ۔ یتم کی عزت کرو او ر ہمسایہ کے ساتھ حق سلوک کرو۔

(حضرت رسول اکرم ) اے ابن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۷۶۰۲ ۔ اپنے اولاد کی عزت کیاکرو او ران کے آداب و اخلاق کو سنوارو۔

(حضرت رسوک اکرم ) اے ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

(قول موئف : ملا خطہ ہو باب "بھائی " بھائیوں کی عزت و تکریم"

نیز باب "بڑھاپا " "بڑوں کی عزت کرنا)

عزت افزائی کو ٹھکرانا

۱۷۶۰۳ ۔ گدھے کے علاوہ کوئی او رعزت افزائی کو نہیں ٹھکراتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۲۵۴۹۲

۱۷۶۰۴ ۔ جب تم میں سے کسی کی عزت افزائی کی جا رہی ہوتو اسے ٹھکراؤ نہیں،کیونکہ صرف گدھا ہی عزت و افزائی کو ٹھکراتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجا ر الانوار جلد ۷۵ ۱۴۰ ء

۱۷۶۰۵ ۔ حضر ت امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس دو شخص آئے۔ آپ نے ان میں سے ہر ایک کے لیے گاؤ تکیہ بچھایا۔ ایک تو اس پر بیٹھ گیا لیکن دوسرے نے اس سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا:"بیٹھ جاؤ کیونکہ عزت افزائی کو گدھے کے علاوہ کوئی نہیں ٹھکراتا"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوارجلد ۴۱ ۵۳ ء

۱۷۶۰۶ ۔ الی خلیفہ کہتے ہیں کہ میں اور ابو عبیدہ حذاء حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام علیہ السلام نے اپنے لونڈی سے فرمایا: کہ "گاؤ تکیہ لے آؤ!" میں نے عرض کیا: "نہیں جناب! ہم یونہی بیٹھ جائیں گے!" تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابو خلیفہ ! عزت افزائی کو نہ ٹھکرایا کرو ۔ کیونکہ اسے صرف گدھا ہی ٹھکراتا ہے،،

مجار الانوار جلد ۲۵ ۱۶۴ ء

۱۷۶۰۷ ۔ حسن بن جہم کہتے ہیں کہ: امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرما یا کرتے تھے کہ عزت افزائی کو صرف گدھا ہی ٹھکراتا ہے۔ میں نے امام رضا علیہ السلام سے پو چھا : عزت افزائی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا"بیٹھنے کی جگہ میں کشادگی پیدا کرنا اور خوشبو کو پیش کرنا عزت افزائی میں شامل ہیں"

مجار الانوارجلد ۷۵ ۱۴ ء

۱۷۶۰۸ ۔ عزت افزائی کو قبول کر لیا کرو سب سے افضل عزت افزائی خوشبو کا پیش کرنا ہے جس کا اٹھانا آسان اور جس کی ہوا پاکیزہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) مجار الانوار جلد ۷۷ ۱۶۴ ء

۱۷۶۰۹ ۔ کوئی مسلمان اپنے بھائی کی عزت اس طرح کر سکتا ہے کہ اس کے تحفے کو قبول کرے، یا اسے کوئی تحفہ پیش کرے او را س کے لئے کسی قسم کے تکلف میں نہ پڑے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانورار جلد ۷۵ ۴۵ ء

۱۷۶۱۰ ۔ جو شخص تمہارے عطیہ کو قبول کرتا ہے وہ عزت افزائی میں تمہاری اعانت کرتا ہے

(امام حسن علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ۱۲۸ ء

۱۷۶۱۱ ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ ان اوصاف کی ہذیرائی سے اپنے لئے شرف و عزت قبول کرے ، قیامت کے وارد ہونے سے پہلے اس سے ہر انسان رہے، او راسے چاہئے کہ (زندگی کے ) مختصر دنوں اور اس گھر کے تھوڑے سے قیام ہیں جو سب اتنا ہے کہ اس کو آخرت کے گھر سے بدل لے (آنکھیں کھولے او رغفلت میں نہ پڑے) او ر اپنی جائے باز گشت اور منزل آخرت کے جانے پہچانے ہوئے مرحلوں کے لئے نیک اعمال کرے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاء خطبہ ۲۱۴

(قول موئف : ملاخطہ ہو وسائل اشیعہ جلد ۸ ۴۶۹ ء باب ۶۹)

جسے عزت افزائی سیدھا نہ کر سکے

۱۷۶۱۲ ۔ جسے عزت افزائی سیدھا نہ کر سکے اسے توہین او ررسوائی سیدھا کر دیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرارالحکم

۱۷۶۱۳ ۔ عزت جس کو نہ سنوار سکے ذلت اسے درست کر دیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۶۱۴ ۔ جب کسی کو عزت فائدہ نہ پہنچائے تو تو ہین اس کے لئے بہتر علاج ہے۔ او ر جب آواز مفید ثابت نہ ہو توتلوار جڑے کاٹ دیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرار الحکم

۱۷۶۱۵ ۔ عزت افزائی جتنا شریف کی اصلاح کرتی ہے اتنا ہی کمینے کو بگاڑ دیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرار الحکم

(قول موئف : ملاخطہ ہو باب عفو در گزر" ( ۱) عفو کے ذریعہ کسی کی اصلاح کرنا"اور "عفو و در گزر کمینے کو بگاڑ دیتی ہے")

( ۱۱) معزز ترین انسان

۱۷۶۱۶ ۔ میں خدا کے نزدیک نبی آدم میں سب سے زیادہ معزز اور کلرم ہوں۔

(حضرت رسول خدا ) اے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۶۱۷ ۔ میں اولین و آخر ین سب سے زیادہ معزز و مکرم ہوں۔

(حضرت رسول اکرم) اے ترمذر نے روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۶۱۸ ۔ کسی شخص نے حضرت رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا : میں چاہتا ہوں کہ سب لوگوں سے زیادہ معزز انسان بنوں ۔ اسکے لیے کیا کروں؟" آنحضرت نے فرمایا:" خدا کی شکایت خلق خد اکے آگے نہ کرو ، معزز ترین انسان بن جاؤگے!"

کنز العمال حدیث ۴۴۱۵۴

۱۷۶۱۹ ۔ تقویٰ جیسی کوئی عزت نہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاء حکمت ۱۱۳

(قول موئف : ملاخطہ ہو باب ! تقویٰ شرافت کی چابی ہے،،

نیز: باب "امت" " بہترین امت"

نیز: باب "انسان"

( ۱۲) شریف انسان اپنی عزت آپ کرتا ہے

۱۷۶۲۰ ۔ اگر کسی وقت تم نے کسی کی عزت افزائی کی ہے، تواس طرح تم نے گویا اپنی عزت خود کی ہے‘اپنی شان کو زینت بخشی ہے۔ جو اچھائی تم نے اپنے ساتھ کی ہے ا س کے شکر یہ کی امید دوسروں سے نہ رکھو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۷۶۲۱ ۔ اپنے آپ کو بزرگی کے کاموں کا عادی بناؤ او ر دوسرں کے تاوان کا بوجھ خود اٹھاؤ ۔ اس طرح تم اپنی ذات کو شرف عطا کروں گے ۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررا لحکم

باب قول موئف : ملا خطہ ہو باب "جہاد" "مجاہد اپنے ہی لئے جہاد کرتاہے"

نیز: "احسان"محسن اپنی ذات کی عزت کرتا ہے: نیز باب" شکر" جو شکر کرتا ہے وہ اتنا شکریہ ادا کرتا ہے"