میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53453
ڈاؤنلوڈ: 4447

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53453 / ڈاؤنلوڈ: 4447
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۔ ۳۳

کاروبار

( ۱) پاکیزہ ترین کاروبار

۱۷۶۲۲ ۔ پاکیزہ ترین کاروبار ایسے تاجروں کا ہے جو بات کرتے ہیں تو جھوٹ نہیں بولتے، جب انہیں امانت سوپنی جاتی ہے تو خیانت نہیں کرتے ، جب وعدہ کرتے ہیں تو اس کے خلاف نہیں کرتے ، جب کوئی سودا خریدتے ہیں تو اس میں نقص نہیں نکالتے ، جب کسی کو بیچتے ہیں تو بڑھا چڑھا کر تعریف نہیں کرتے ، جب مقروص ہوتے ہیں تو (قرض کی واپسی میں) ٹال مٹول سے کام نہیں لیتے او رجب قرض خواہ ہوتے ہیں تو (قرض واپس لینے میں) سختی سے کام نہیں لیتے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۹۳۴۰ ۔ ۹۳۴۱

۱۷۶۲۳ ۔ مسلمان کا پاکیزہ ترین کاروبار ، راہ خدا میں اس کا حصہ لینا ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۰۵۱۶

( ۲) حلال و حرام کاروبار

قرآن مجید:

( ولا تا کلوا اموالکم بینکم بالباطل ) (بقرہ ۱۸۸)

ترجمہ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ!

یایھا الذین امنوالا تا کلوا اموالکم بینکم بالباطل الاان تکون تجارة عن تراض منکم نساء ۲۹)

ترجمہ۔ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ البتہ حجارت باہمی رضا مندی ہو۔

(قول موئف : اس بارے میں مزید آیات کے لئے ملاخطہ ہو سورہ نساء ۱۶۱ ۔ مائدہ ۱

توبہ ۳۴ ۔ نور ۳۳)

حدیث شریف:

۱۷۶۲۴ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک سائل نے سوال کیا:

انسانی ذریعہ معاش کی کتنی قسمیں ہیں جن میں انسان باہمی طور پر کاروبار اولین دین کر سکتے ہوں ۔ نیز اپنے اموال کو کہاں کہاں خرچ کر سکتے ہیں"

؟علیہ السلام نے فرمایا: معاش کی تمام قسمیں معاملات اور کاروبار کے زمرے میں آتی ہیں۔انسان کے آپس میں لین دین و کاروبار کیلئے ان تمام اقسام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔

اس نے پھر پوچھا : کیا یہ چاروں قسمیں حلال ہیں یا حرام یا بعض حلال او ربعض حرام ہیں؟"

فرمایا: یہ تمام قسمیں ایک لحاظ سے حلال ہیں او رایک محاظ سے حرام ہیں۔ اپنے اپنے لحاظ سے حلال و حرام ہونے کے اعتبار سے بھی مزلوم و معروف ہیں۔

ان چاروں قسموں میں سے :

"پہلی قسم: ولایت اور تولیت ہے جو ایک دوسرے پر ولایت کی صورت میں ہے ۔ چناچہ سے سے پہلے کسی کو اپنی طرف سے دوسروں پر والی (حکمران ) بناتے ہیں۔ اسی طرح ان والیوں کی طرف سے والی ہوتے ہیں او رنیچے تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے۔

"دوسری قسم: تجارت ہے جو لوگوں کی ایک دوسرے سے خرید و فروخت کی صورت میں ہوتی ہے۔

"تیسری قسم: ہر قسم کی "صنعتیں " ہیں۔ اور

چوتھی قسم: ہر قسم کے" اجارے " (کرائے) ہیں۔ جن کی لوگو ں کو ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ مذکورہ چاروں قسمیں ایک لحاظ سے حلال ہوتی ہیں او رایک طرح سے حرام۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ مذکورہ اقسام کی حلال قسموں کو اپنائیں ان پرعمل کریں ، او رحرام اقسام سے اجتناب کریں۔

۱ ۔۔۔ولایت کیاہے؟

"ولایت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک عادل حکمرانوں کی ولایت جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے او رانہیں لوگوں پر حق ولایت و حکمرانی عطا فرمایا ہے۔ اس طرح ان عادل حکمرانوں کی طرف سے مقرر کردہ والیوں کی ولایت ہے۔ یہ سلسلہ نیچے تک جہاں تک بھی چلا جائے، ولایت بھی در حقیقت اسی کا ایک حصہ ہے۔

"دوسرے جابر و ظالم حکمرانوں کی ولایت ، او ران کی طرف سے مقر ر کردہ حکمرانوں کی ولایت ۔ یہ سلسلہ جہاں تک بھی نیچے چلا جائے اس ولایت کا حصہ ہے۔ چناچہ جائز و حلال ولایت اس عادل حکمران کی ولایت جس کی معرفت کا خد اوند نے حکم دیا ہے۔ نیز اس کی اپنی ولایت یا اس کے مقرر کردہ والیوں کی ولایت اسی طرح یہ سلسلہ جہاں تک نیچے چلا جائے ان سب کی ولایت میں سے کم و کاست اور بلاچوں و چراعمل کرنا ضروری ہے۔ وائی عادل کے علاوہ یہ حق کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا۔

جب اس لحاظ سے عادل والی ہو گا تو اس کے ساتھ کام کرنا ، اس کی اس بارے میں معاونت کرنا او راسے تقویت پہنچانا حلال و جائز ہو گا۔ اس کے ساتھ کاروبار کرنا بھی جائز و حلال ہو گا۔ اس لئے عادل حکمران او ر اس کے مقرر کردہ والیوں کے دو حکمرانی میں ہر قسم کے حق اور عدل کا احیاء ہوتا ہے ہر قسم کے ظلم و جور و فتنہ و فساد کی بیچ کنی ہوتی ہے۔ لہذا عادل حکمران کے دور حکمرانی میں اس تقویت بہم پہنچانا اس کے ساتھ تعاون کرنا ، خداوند عالم کی اطاعت شمار ہوگا او ردین خداوند ی کی تقویت کا موجب ہو گا۔

"ولایت کی قسم ہے وہ ظالم جابر شخص کی حکمرانی و ولایت ہے ۔ اسی طرح اس ظالم حکمران کی طرف سے مقرر کردہ افراد ان افراد کے مقرر کردہ لوگ جتنا نیچے چلے جائیں کی ولایت۔ چناچہ ان کی ولایت کی وجہ سے ان کے لئے کام کرنا او ران کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا ، حرام نا جائز اور موجب عذاب ہے چاہے کا م کم ہو یا زیادہ ۔ کیونکہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون گناہاں کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ ظالم و جابر والی(حکمران) کی ولایت کے دور حق سارے کا سارا مٹ جاتا ہے مکمل طور پر باطل کو فروغ حاصل ہوتا ہے، ظلم و جور و فتنہ وفساد کی ترویح ہوتی ہے، آسمانی کتابوں کی تکذیب انبیاء کرام و مومنین غطام کا قتل ہوتا ہے، مساجد کی تباہی ہوتی ہے او رخد اکی سنت و شریعت میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ اسی بناء پر ایسے حقام کے ساتھ مل کر کام کرنا، ان کی معاونت کرنا او ر ان کے ساتھ کاروبار کرنا حرا م ہے ۔ سوائے مجبوری کی صورت کے بالکل اسی طرح جیسے بوقت مجبوری مردار و جائز ہو جاتے ہیں۔

۲ ۔ کونسی تجارت؟

"تجارت کا اطلاق ہر قسم کی خرید و فروخت پر ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس کی خرید و فروخت جائز و حلا ل ہوتی ہے اور ایک وہ جو حلال و جائز نہیں ہوتی چناچہ جو چیزیں انسان کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہیں یا جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے جبکہ ان چیزوں میں انسان کی اچھائی و بہتری پائی جاتی ہو تو ان سب کی خریدو فروخت جائز وحلال ہے جیسے کھانے کی ‘ پینے کی اور پہننے کی چیزیں یا جن چیزوں سے انسان شادی و بیاہ کرتا ہے‘ یا اپنی ملکیت کی وجہ سے انسان کے قبضہ میں یا اس کے زیر استعمال ہوتی ہیں تو ان کا استعمال ہر قسم کے منافع کے لئے جائز ہے بشر طیکہ اس میں کسی لحاظ سے انسان کی بہتری و اچھائی پائی جاتی ہو۔ ان سب کا لین دین ، خرید و فروخت ، محفوظ رکھنا، استعمال کرنا، ہبہ کرنایا عاریة دینا جائز و حلال ہے۔

"اس کے برعکس ہر اس چیز کی خرید و فروخت حرام ہے جس میں انسان کے لئے خرابی و فساد کا اندیشہ ہو ۔ چاہے وہ کھانے کی چیزیں ہو ں یا پینے کی ، نکاح اور شادی بیاہ کی صورت ہو یا قبضہ اور ملکیت کی ، بہہ ہو یا عاریہ غرض ہر وہ چیز جس میں فساد خرابی پیدا ہوتی ہے سب حرام ہے۔ جسیے سودی کاروبار کہ اس سے فساد و خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یا جیسے مردار : خون ، خنزیر کے گوشت یا درندوں کے گوشت او رچمڑے کاروبار چاہے وہ درندے جانور وہوں یا پرندے ۔ اسی طرح شراب ہو یا کسی او ر نجس چیز کی خریدو فروخت ہے۔ یہ سب حرام اور ناجائز کاروبارہے۔ اس لئے کہ ان چیزوں کے کھانے ،پینے ،پہننے اپنی ملکیت میں رکھنے ، اپنے قبضہ میں رکھنے اور ان میں سے کسی قسم کے ردوبدل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں فساد و خرابی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ لہذا ان میں ہر قسم کا ردوبدل حرام ہے۔

ا س طرح ہر وہ کاروبار تجارت جس میں لہو ولعب پایا جاتا ہو وہ چیز جس کے اختیار کرنے سے رو کا گیا ہو کہ اس کے ذریعہ سے غیر اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہو یا پھر گناہوں کے ذریعہ سے کو شرک کو تقویت حاصل ہوتی ہو یا کسی قسم کا کوئی ایسا باب جس سے گمراہی یا باطل کا دروازہ کھلتا ہو یا جس باب سے حق کو کمزور کیا جا سکتا ہو سب حرام اور ناجائز ہیں۔ ان کی خریدوفروخت حرام ان کو اپنے پاس رکھنا ، انہیں اپنی ملکیت قرار دینا ، ان کا ہبہ کرنا، انہیں عاریتہ دینا اور ان میں کسی قسم کا ردو بدل کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ سوائے مجبوری کی حالت کے۔

۳ ۔ اجارے (مزدوری اور کرائے) کی تفصیل

انسان کا اپنے آپ کو یا اپنے زیر ملکیت کسی چیز کو‘ یا جن لوگوں کی اسے تولیت حاصل ہے مثلاً قریبی رشتہ داروں کو یا اپنی سواری کو یا اپنے کپڑوں کو مزدوری یا کرائے پر حلال طریقے سے دینا جائز ہے ایسی صورت کا تعلق اجارے (کرائے یا مزدوری) سے ہوتا ہے۔انسان اپنے آپ کو یا اپنے گھر کو یا اپنی زمین کو یا اپنی کسی مملوکہ چیز کو اجارے پر دیتا ہے جس سے کسی قسم کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔ یا خود کسی کا کام کرے یا اس کی اولاد یا غلام یا مزدور اور وہ کسی حکمران یا حکمران کے مقرر کردہ کسی حکمران کا وکیل نہ ہو۔ تو اس بات میں کوئی جرم نہیں ہے کہ خود کسی کی مزدوری کرے یا اس کی اولاد یا رشتہ دار یا غلام یا اجارے میں اس کا وکیل کسی کی مزدوری کریں۔ اس لئے کہ یہ اس کی اپنی طرف سے وکیل کی حثیت سے مزدور بنیں گے نہ کہ کسی حکمران کی وجہ سے۔ مثلاً جیسے کسی شخص کو مزدوری کے طور پر ، ہر ایک خاص اور معلوم چیز کسی معلوم اور مقررہ مقام تک اٹھا کر لے جاتا ہے ۔ تو جائز سے کہ اسے وہ خود اٹھائے یا اس کا غلام یا اس کا جانور اٹھائے وغیرہ مزدوری کی یہ تمام صورتیں اس شخص کے لئے حلال ہیں چاہے یہ کام لینے والا کوئی بادشاہ ہو یا بازار سے تعلق رکھنے والا م مومن ہو یا کافر ۔ اس قسم کی مزدوری حلال ہے او راس سے ملنے والی آمدنی بھی جائز ہے۔

اجارہ (مزدوری یا کرائے) کی جو حرا م صورتیں ہیں وہ یہ ہیں انسان اپنے آپ کو کسی چیز کی مزدوری پر لگاتا ہے جس کا کھانا ، پینا، پہننا حرام ہے یا ایسی ہی چیز وسکی تیاری یا حفاظت یا پہننے کے لئے مزدوری اور کام کرے۔ یا جیسے مسجدوں کو نقصان پہنچانے کے لئے گرادے یا کسی کو ناجائز قتل کرے یا تصویروں ، بتوں ،گانے بجانے کے آلات ، شراب ،خنزر ، مردار یا خون یا ایسی چیزوں کو اٹھائے جن میں کسی بھی طرح کا فساد و خرابی پائی جاتی ہو، تو ایسا کرنا اس پر حرام ہو گایہ اجارہ صحیح نہیں ہوگا۔

اس طرح جن جن چیزوں سے کسی طرح انسان کو روکا گیا ہے ان میں انسان نہ تو اپنے آپ کو اجارے پر دے سکتا ہے او رنہ ہی کسی کو اجارے پر لے سکتا ہے ۔ البتہ اگر اس میں اجرت پرکام لینے والے کے لیے کسی طرح کی کوئی منفعت اور فائدہ ہو تو پھر ایسا کر سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص کسی کو اس بات پر مزدور بنا سکتا ہے کہ وہ مردار کو اٹھا کر پھینک دے تا کہ وہ خود یا کوئی دوسرا اس کی اذیت و بدبو سے بچ سکے۔ اسی طرح کے اور بھی کئی دیگر امور ہیں۔

"ولایت " اور’ اجارے‘ میں فرق ہے اگر چہ دونوں صورتوں میں اجرت پر کام کیا جاتا ہے۔ ولایت کے سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی والی (حکمران) یا اس کی طرف سے مقرر کردہ والی یا اس کی طرف سے مقرر کردہ والی کی تولیت اور سر پرستی میں کام کرتا ہے۔ گویا وہ کسی اور بالا دست قوت کے زیر تسلط کام کرتا ہے اس کا امرونہی والی کا امرو نہی ہوتاہے او راس کی نیابت میں انجام پاتا ہے۔ یہ بات اس والی کی ولایت کو مستحکم کرنے کا سبب اور موجب ہوتی ہے۔ نیز حکمرانوں کا یہ سلسلہ اوپر سے نیچے تک ایک ہوتا ہے، چھوٹے سے چھوٹے حکمران کی ولایت در حقیقت بڑے والی حکمران کو مضبوط مستحکم کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ جو اس بڑے والی کی ولایت شمار ہوتی ہے۔ اس بارے میں ہونے والے پر قتل ظلم وجود اور فتنہ وفساد اسی کی حکمرانی میں ہوتا ہے جس میں وہ شخص بھی برابر کا شریک ہوتا ہے۔

’اجارہ‘ اس سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انسان اس سلسلے میں بذات خود اپنے آپ کو اجارے پر دیتا ہے یا جو چیز اس کی ملکیت میں ہوتی ہے اسے اجارے پردیتا ہے۔ کسی کو اجارے پر دینے سے پہلے وہ خود اپنی ذات کا یا اپنی زیر چیزوں کا مالک ہوتا ہے۔ جب تک وہ کسی کو اجارے میں نہ دیدے کوئی شخص ا س کا مالک نہیں بن سکتا ۔ لہذا جو شخص اپنے آپ کو یا اپنے کسی زیردست کو خواہ وہ مومن ہو یا کافر یا کسی چیز کو کسی کے اجارے میں دے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔۔۔۔تو اس قسم کا اجارہ حلال ہے او ر اس کا کسب کمائی جائز ہے۔

رہی صنعتوں کی بات ‘ تو ہر وہ چیز جسے انسان سیکھتا ہے یا کسی دوسرے کو سکھاتا ہے‘ خواہ وہ صنعت کی کوئی بھی قسم ہو‘ مثلاً کتابت ، حساب و کتاب ، تجارت ، رنگائی ، زین او رجوتوں کی تیاری ، تعمیرات، کپڑے کی صنعت، اس کی سلائی وغیرہ یا غیرذی روح چیزوں کی تصویر سازی یا جن آلات و اوزار کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کی صنعت جن کے ساتھ لوگوں کے فوائدو منافع وابستہ ہیں۔ان کی ضروریات کا ان پر دارومدار ہے۔ تو ایسی صنعتوں کا سیکھنا اور ان کا کام کرنا انسان کے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی حلال ہے۔ اگرچہ ایسی مصنوعات میں فساد کا ایک پہلو بھی ہے مثلاً یہ کہ مذکورہ چیزوں کو بعض اوقات فاسد کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے‘ یا گناہوں کے ارتکاب میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اور حق کے خلاف باطل کے لئے استعمال ہوتی ہیں‘ لیکن کلّی طور پران کے سیکھنے ، سیکھانے یا یاد کرنے میں کوئی جرح نہیں ہے۔ مثلاً کتابت ہی کو لے لیجئے کہ اس میں فساد کی ایک صورت موجود ہے کہ اس سے حکام جور کی ولایت کو لقویت پہنچ سکتی ہے اور ان کی معاونت کی جا سکتی ہے۔ لیکن کتابت کے سیکھنے اور یادکرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

اسی طرح چھری ، چاقو ، نیزہ اور تیر کمان وغیرہ ہیں، جنہیں بعض اوقات بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور بسا اوقات غلط مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ ان کے سیکھنے ، بنانے سکھانے اور اجرت لینے دینے میں کوئی جرح نہیں ہے۔ البتہ بہتری کے لئے استعمال کرنے پر اجرت لینا اور دینا یا سیکھنا اور سکھانا حلال و جائز ہے غلط و ناجائز مقاصد کے لئے ایسا کرنا حرام ہے۔ پس بہتری کے مقاصد کے لئے ان کا سیکھنا اور سکھانا نہ تو گناہ ہے اور نہ ہی حرام۔ صرف غلط و ناجائز کاموں میں ان کا استعمال ان مقاصد کے لئے سیکھنے او رسکھانے کے لئے جرم وگناہ او رحرام ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے صرف اسی صنعت کو حرام قرار دیا ہے جو کلّی طور پر حرا م ہے او ر اس میں سوائے برائی و غلط کاری کے اچھائی و بہتری کی کوئی بھی صورت نہیں ہوتی۔ جیسے بربط ، مزمار ، شطرنج اور اس قسم کے دوسرے آلات لہو و لعب ہیں۔ یا صلیب و صنم تراشی اور اس قسم کے دوسرے کام ہیں‘ یا حرام مشروبات کی تیاری وغیر ہ ہے جن میں صرف برائی ہی برائی کا عنصر پایا جاتا ہے، او راصلاح و بہتری کی کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ ایسی صنعتوں کا سیکھنا ، سکھانا ، کام میں لانا، ان کی اجرت لینا او رہر قسم کاتصرف حرام ہے۔

اگر کو ئی ایسی صنعت ہو جس میں گناہ و برائی کے سارے پہلو موجودہیں لیکن ممکن ہے کہ اس میں بہتری کا بھی کوئی عنصر موجود ہو توصرف حلال اور بہتر عنصرکو پیش نظر رکھ کر اس کے سیکھنے اور سکھانے کو حلال و جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ نا حق او رناجائز امور کی طرف لے جانا باطل اور غلط ہو گا۔

کاروبار کی وہ صورتیں جن کا حامل کرنا جائز اور حلا ل ہوتا ہے۔

مال و دولت کا خرچ کرنا

اب رہی مال و دولت کے صحیح و جائز طور پر خرچ کرنے کی صورت تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے فرض و مستحب طور پر خرچ کرنے کی چوبیس صورتیں ہیں۔ جن میں سے سات کا تعلق خود انسان کی اپنی ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔ پانچ کا تعلق اس کے متعلقین کے ساتھ تین صورتیں ایسی ہیں جو دینی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ پانچ صورتوں کا تعلق نیکی کے راہ میں صلہ رحمی کے طور پر خرچ کرنے سے ہے، او رچار صورتیں ایسی ہیں جن کا عمومی مفاد عامہ کے لئے خرچ کرنے سے ہے۔

جن چیزوں کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے، وہ اس کا کھانا، پینا ، لباس ، شادی، نوکر جاکر اور اپنے اموال کی مرمت ، نقل و حمل اور حفاظت ہے جس کے لئے انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ ضرورت سے مراد اس کا مکان او رایسے امذار و آلات ہیں جو اس کی ضروریات زندگی کے کام آتے ہیں۔

جن پانچ چیزوں کا تعلق اس کے متعلقین سے ہوتا ہے وہ اس کی اولاد ، والدین ، بیوی او رایسے ملازم ہیں جو اس کی تنگی و آسانی کے دنوں میں خدمت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

جو تین امور دین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ زکوة واجبہ ہے جوہر سال انسان کو ادا کرنا پڑتی ہے، فرض حج او رجہاد ہیں جو کسی بھی زمانہ میں واجب ہو جاتے ہیں۔

جو پانچ صورتیں نیکی کے راہ میں صلہ رحمی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کا شمار مستحبات میں ہوتا ہے ‘ وہ ہیں اپنے مافوق کے ساتھ نیکی‘ قرابت داروں کے ساتھ نیکی ‘ مومنین کے ساتھ نیکی ، صدقہ کے طور پر کسی کو کچھ دینا او رنیک راہوں میں خرچ کرنا اور غلاموں کو آزاد کرانا۔

جن چار چیزوں کا مفا د عامہ سے تعلق ہے وہ ہیں کسی مقروض کے قرض کا ادا کرنا‘ کسی کو عاریة کوئی چیز دینا ‘ کسی کو قرضہ دینا ور مہمان نوازی کرنا ۔ یہ چیزیں اگرچہ سخت ہیں لیکن سنت کے حساب سے واجب سمجھی جاتی ہیں۔

انسان کے لئے جائز و حلال چیزیں

زمین سے پیدا ہونے والی اشیاء میں سے جو چیزیں انسان کے لئے حلال ہوتی ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک قسم تو تما م اناج ہیں جیسے گندم ، جو ،چاول، چنا، یا تل وغیرہ۔ ہر وہ اناج جو انسان کی غذا کے طور پر اس کے جسم و جان کے لئے مفید اور مقوی ہوتا ہے او ر جو ضرررساں و صمت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے وہ حرام ہے۔

تیسری قسم جو زمین سے پیدا ہوتی ہے وہ سبزی وترکاری ہے۔ وہ سزی و ترکاری اور نباتات اسان کے لئے جائز اور حلال ہوتی ہے۔ جس میں انسان کا فائدہ ہوتا ہے اور اس کی غذا کا کام دیتی ہے۔ اور جن سبزیوں سے انسان کو ضررو نقصان ہوتا ہو ان کا کھانا اس کے لئے حرام و ناجائز ہے جیسے زہریلی بناتات و سبزی و ترکاری وغیرہ۔ جن کا استعمال انسان کے لئے کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

حلال جانوروں کا گوشت

پالتو جانوروں میں سے گائے ، بکری اور اونٹ کا گوشت حلال ہے اور جنگلی جانوروں میں ان کا گوشت حلال ہے جن کے پنجے اور نیچے کے دانت نہیں ہوتے۔

اسی طرح ان پرندوں کا گوشت بھی حلال ہوتا ہے جس کا پوٹا ہوتا ہے۔ جن کا پوٹا نہیں ہوتا ان کا کھانا حرام ہے، البتہ ٹڈی کے کھانے میں کوئی جرح نہیں۔

حلال انڈے

جن انڈوں کے دونوں اطراف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں وہ حلال اور جن کے اطراف یکساں ہوتے ہیں وہ حرام ہیں۔

حلال مچھلی

جن آبی جانوروں (مچھلیوں) کے چھلکے ہوتے ہیں وہ حلال ‘ باقی سب حرام ہیں۔

حلال مشروبات

پینے کی ہر وہ چیز جو کثیر مقدار کے باوجود تحصل میں تبدیلی پیدا نہ کرے اس کے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی کثیر مقدار تحصل میں فتور پیدا کردے اس کی قلیل مقدار کا استعمال بھی ناجائز و حرام ہوتا ہے۔

حلال ملبوسات

زمین سے اگنے والی ہر چیز سے تیار شدہ ملبوسات کا استعمال جائز او ر اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔ جن جانوروں کا گوشت حلال ہوتاہے‘ ان کی حلا ل طریقہ سے ذبح شدہ چمڑے اور بالوں سے تیار شدہ لباس کا استعمال صحیح ہے۔ اگر حرام جانور کا تذکیہ کیا جائے (اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا جائے) تو اس کے بالوں سے تیار شدہ لباس کے استعمال میں بھی کوئی حرام حرج نہیں ہے۔ اور اس میں نماز بھی صحیح ہے۔

جو چیزیں انسان کے کھانے پینے اور پہننے کے کام آتی ہیں ان پر نہ تو نماز جائز ہے اور نہ ہی سجدہ ۔ البتہ زمین سے اگنے والی چیزیں جو کھانے کے کام نہیں آتیں یا انہیں ابھی تک کاٹا نہیں گیا ان پر سجدہ جائز ہے ۔ کاٹنے کے بعد ا س پر سجدہ جائز نہیں ہے سوائے مجبوری کے۔۔

جن ذریعوں سے نکاح حلال ہے

چار ذریعوں سے نکاح حلال ہوتا ہے۔ ۱ ۔ میراث کی وجہ سے ۲ ۔ بغیر میراث کے ذریعہ سے ۳ ۔ قسم کی وجہ سے ۴ ۔ ایسے محلل کے حلال کر دینے کی وجہ سے جس کی ملکیت میں ہے۔

جن چیزوں کے ذریعہ سے ملکیت اور خدمت صحیح ہے

چھ ذریعوں سے ملکیت اور خدمت صحیح ہوتی ہے۔ ۱ ۔ غنیمت کا مال ۲ ۔ خریدا ہوا مال ۳ ۔ وراثت کا مال ۴ ۔ ہبہ کا مال ۵ ۔ عاریت کا مال اور ۶ ۔ اجارے کا مال۔

پس یہ ہیں وہ وجوہات جو حلال ہیں اور انسان کا ایسے اموال سے خرچ کرنا صحیح ہوتا ہے۔ اسے نکال کر حلال کی تمام راہوں میں خرچ کیا جا سکتا ہے او رفریضہ یا نافلہ صورتوں میں اس میں طرح کا تصرف و دو بدل جائز و حلال ہوتا ہے۔"

مجار الانوار جلد ۱۰۳ ۴۴ ء ۵۱ ء۔ تحف العقول ۲۴۴ ء ۲۵۰ ء وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ۵۴ ء باب ۲

۱۷۶۲۵ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: " مجھے اپنے بعد اپنی امت کے لئے سب سے زیادہ خوف جن چیزوں سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہیں: ۱ ۔ حرام کاکاروبار ۲ ۔ مخفی خواہشات شانفسانی اور ۳ ۔ سود خوری۔"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۱۲۴ ء

(قول موئف : ملاخطہ ہو: عنوان " حرام"

نیز: باب "اسلحہ" "دشمنان دین کے ہاتھوں اسلحہ کی فروخت"

نیز: مجار الانوار جلد ۳ ۔ ۱ ۴۲ ء باب ۴ " مجموعی حلال اور حرام کاروبار"

( ۴) ہاتھ کی کمائی

۱۷۶۲۶ ۔ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر نیک خوار کر کوئی نہیں کھاتا ۔ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۹۲۲۳

۱۷۶۲۷ ۔ اللہ کے نزدیک محبوب ترین شے جو انسان کھاتا ہے‘ اس کے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہوتی ۔ جو شخص دن بھر کے کام کاج سے تھک کر رات بسر کرے اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۹۲۲۸ ۔ ۹۲۲۹

۱۷۶۲۸ ۔ حضرت داؤد پیغمبرعلیہ السلام صرف اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کھاتا کرتے تھے۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۹۲۲۲

۱۷۶۲۹ ۔ سب سے پاکیزہ کام انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۹۲۲۰ ۔ ۹۲۳۴

۱۷۶۳۰ ۔ سب سے پاکیزہ کاروبار انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر جائز تجارت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۹۱۹۶

۱۷۶۳۱ ۔ سب سے بہتر کاروبار ، جائز تجارت اور اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۹۱۹۵

۱۷۶۳۲ ۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری جب بھوکے ہوتے تھے تو کہتے تھے) "اے روح اللہ! ہمیں بھوک لگی ہے" حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ زمین پر خواہ وہ نرم ہوتی تھی یا پتھریلی۔۔۔مارتے تجھے جس کی وجہ سے ہر شخص کے لئے کھانے کے واسطے دو روٹیاں زمین سے باہر آجاتی تھیں ، اور وہ انہیں کھا جا تے تھے۔ جب پیاسے ہوتے تھے تو کہتے تھے: یا روح اللہ ! ہمیں پیاس لگی ہے! اس پر آنجناب علیہ السلام صاف یا پتھریلی زمین پر ہاتھ مارتے تھے تو زمین سے پانی نکل آتا تھا۔ اور وہ لوگ اس سے سیراب ہو جاتے تھے۔ پھر کہتے تھے: "یا روح اللہ" ہم سے بڑھ کر اور کون صاحب فضیلت ہو سکتا ہیکہ جب ہمیں بھوک لگتی ہے تو سیر کر دئیے جاتے ہیں اور جب پیاس لگتی ہے تو سیراب کر دئیے جاتے ہیں، ساتھ ہی ہم آپ پر بھی ایمان لا چکے ہیں اورتابع فرمان ہیں۔

اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے "تم سے افضل وہ لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں ‘ اپنے ہاتھوں سے ترکاری سے کھاتے ہیں۔ اور دوسروں کے کپڑے مزدوری پر دھوتے ہیں"

مجارالانوار جلد ۱۴ جلد ۲۷۶

۱۷۶۳۳ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آکر کیا وجہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اصحاب (حواری) پانی کے اوپر چلا کرتے تھے، جبکہ اصحاب محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم میں یہ کیفیت نہیں پائی جاتی؟ " تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: " اس لئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواری فکر معاص سے بے نیاز تھی جبکہ اصحاب محمد کو فکر معاص دامن گیر تھی۔

تہذیب الاحکام جلد ۶ ۳۲۷

۱۷۶۳۴ خدا وند متعال نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی : "تم اچھے ضرور ہو لیکن کھانابیت المال سے کھاتے ہو اور اپنے ہاتھوں سے کما کر نہیں کھاتے"۔ اس پر حضرت داود علیہ السلام چالیس دن تک روتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے لوہے کی طرف وحی کی "تو میرے بندے داود علیہ السلام کے لئے نرم ہو جا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے داود علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا، جس سے وہ روزانہ ایک زرہ تیار کر کے ایک ہزار درہم کے بدلے میں فروت کیا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے تین سو ساٹھ زرہیں تیار کیں جس سے تین لاکھ ساٹھ ہزار درہم حاسل کئے اوتر بیت المال سے بے نیاز رہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) تصویر نور الثقلین جلد ۳ ۴۴۹

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۴ ۱۳ من الحفرہ الفتیہ جلد ۳ ۹۹

اس کتاب میں "چالیس دن "کا ذکر نہیں ہے، تہذیب الاحکام جلد ۶ ۳۳۶

۱۷۶۳۵ ۔ حضرت داود علیہ السلام ایک موچی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ فرمایا : اے فلاں! کماؤ اور کھاؤ‘ کیونکہ خدا وند عالم اس شخص کو پسند فرماتاہے جو کما کر کھاتا ہے او راسے پسند نہیں کرتا جو بن کمائے کھاتا ہے۔"

تنبیہ الخواطر ۳۵ ء

۱۷۶۳۶ ۔ تلاش معاش میں سستی کا مظاہرہ نہ کرو ، کیونکہ ہمارے بزرگ اس بارے میں بڑی دوڑ دھوپ سے کام لیتے اور روزی تلاش کرتے تھے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ۹۵ ء

۱۷۶۳۷ ۔ محمد بن منکدر کہا کرتا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے سے بہتر کوئی اولاد چھوڑی ہے، لیکن ایک مرتبہ میں نے ان کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا ، او رچاہاکہ انہیں وعظ و نصیحت کروں، مگر الٹا انہوں نے مجھے وعظ و نصیحت کر ڈالی!"

ساتھیوں نے پوچھا :"وہ کیسے ؟"اس نے کہا:" ایک مرتبہ میں سخت گرمیوں کے موسم میں مدینہ کے اطراف میں گیا تو وہاں پر میں نے (امام) محمد باقر (علیہ السلام) کو دیکھ لیا ، وہ بھاری بھر کم حبشہ کے مالک تھے، اس وقت وہ اپنے غلاموں یا دو نوکروں کے کندھوں کا سہار ا لئے ہوئے تھے، میں نے دل میں کہا: سبحان اللہ ! قریش کے سرداروں میں سے ایک سردار اس قدر شدید گرمی میں اس حالت میں دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہو! لہذا میں انہیں آج نصیحت کرتا ہوں‘

"چناچہ میں ان کے پاس گیا‘ ان پر سلام کیا ، انہوں نے سلام کا جواب دیا‘ وہ اس وقت نہر کے کنارے پسینے سے شرابور تھے۔ میں نے ان سے کہا: خدا آپ کا بھلا کرے قریش کا ایک سردار اس قدر سخت گرمی میں او ردنیا کی تلاش میں اس کی یہ کیفیت ہو!! کیا آپ نے یہ بھی سوچاہے کہ اگر آپ کو اس وقت اسی حالت میں موت آجائے تو آپ اس وقت کیا کریں گے؟"

یہ سن کر انہوں نے فرمایا: اگر مجھے اس حال او راس کیفیت میں موت آجائے تو مجھے خدا کی اطاعت پر ہی موت آئے گی‘ اس لئے کہ میں اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال کو تجھ سے او ردوسرے لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں۔ مجھے خطرہ تواس وقت لاحق ہوجب میں خد اکی نافر مانی کر رہا ہوں او رموت آجائے!!"

میں نے کہا: "آپ پر خد ارحم کرے‘ آپ نے سچ فرمایا ہے‘ میں چاہتاتھا کہ آپ کونصیحت کر وں‘ الٹا آپ نے مجھے نصیحت کر ڈالی"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تہذیب الاحکام جلد ۶ ۳۲۵ ء

۱۷۶۳۸ ۔ حسن بن علی بن ابی حمزہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالحسن (حضرت موسیٰ کا ظم)علیہ السلام کو ز مین پر کام کرتے دیکھا، اس وقت آپ کے دونوں بازو پسینے سے شرابور تھے۔ میں عرض کیا: " آپ کے قربان جاؤں‘ (کام کرنے والے)لوگ کہاں ہیں کہ آپ خود یہ کام کر رہے ہیں؟"

امام علیہ السلام نے فرمایا: "علی! اپنے ہاتھوں سے وہ لوگ کام کر گئے ہیں جو روئے زمین پر مجھ سے او رمیرے والد سے بہتر تھے"۔ میں نے عرض کیا: "وہ کون لوگ تھے؟ " فرمایا: "حضرت رسول خدا علیہ السلام! حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور میرے دیگر آباو اجداعلیہم السلام ان سے حضرات نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا‘ اور ایسا کرنا انبیاء و مرسین او راللہ کے نیک بندوں کا طریق کار ہے"

من لایحضرہ الفقیہ جلد ۳ ۹۸ ء

۱۷۶۳۹ ۔ فضل بن ابی قرہ کہتے ہیں: ہم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے او رآپ اس وقت اپنے گھر کی دیوار بنا رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا: " خداکرے ہم آپ کے قربان جائیں‘ یہ کام ہمارے لئے رہنے دیجئے، اے ہم انجام دیں گے یا دوسرے جواب!"

امام علیہ السلام نے فرمایا: نہیں !مجھے ہی مشغول رہنے دو‘ میں چاہتا ہوں کہ خدا مجھے ا س حال میں دیکھے کہ میں اپنے ہاتھوں سے کمار ہا ہوں او رجان کو جو کھوں میں ڈال کر حلا ل کی کمائی کر رہا ہوں"

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ۹۹ ء

۱۷۶۴۰ ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے سخت گرمی میں کام کرنے نکل جاتے۔ اور یہ چاہتے تھے کہ اللہ انہیں ا س حال میں دیکھے کہ رزق حلا ل کی تلاش میں جان کو جوکھوں میں ڈالے ہوئے ہیں۔

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ۹۹ ء

۱۷۶۴۱ ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں کی پاک کمائی سے ایک ہزار غلام آزاد کرائے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تہذیب الا حکام جلد ۶ ۳۲۶ ء

(قول موئف: ملا خطہ ہو :" باب رزق " "جو اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھائے")

( ۵) مکرو ہ پیشے

۔ حضرت امام موسیٰ کا ظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : "ایک شخص حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے اپنے اس لڑکے کو لکھنا (پڑھنا) سکھا دیا ہے،اب اسے کس کے سپرد کروں؟"آپ نے فرمایا": خدا تمہارا بھلا کرے، اسے چاہے جس کے سپرد کرو نہ تو اسے "سیاء" (کفن فروش) کے سپرد کرنا اور نہ ہی ’صائغ" (زکرگر) "قصاب" (جانور ذبح کرنے والے) "حناط " گہوں فروش " اور نہ ہی "نخاس "(بردہ فروش ) کے سپرد کرنا۔"

اس نے پوچھا : یا رسول اللہ ! "سیاء "کون ہوتا ہے؟ "فرمایا": جو کفن بیچتاہے اور میری امت کے مرنے کی آرزو میں رہتا ہے ۔ حالانکہ میری امت کا ایک بھی مولود میرے لئے ان تمام چیزوں سے بڑھ کر عزیز ہے ج پر سورج طلوع کرتا ہے۔ "زرگر"میری امت کے غبی لوگوں کو فریب دیتا ہے۔ اور "قصاب" جانوروں کو قدر ذبح کرتا ہے کہ اس دل میں رحم نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی "گندم فروش " میری امت کے کھانے کی اشیاء کو ذخیرہ کرتا ہے، حالانکہ بندہ اگر "چور" اللہ کے پیش ہو‘ میرے لئے اس کا چالیس دن کے ذخیرہ اندوز ہو کہ خد اکے پیش ہونے سے بہتر ہے۔ بردہ فروش کے بارے میں میرے پاس جبرائیل نے آکر مجھے بتایا: "یا محمد! آپ کی امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو فروشی کرتے ہیں"

مجار لانوار جلد ۱۰۳ ۷۷ ء من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ۹۶ ء

قول موئف : ملاخطہ ہو ، مجار الانوار جلد ۱۰۳ ۷۷ ء باب ۱۵

( ۶) کاروبار کے بارے میں متفرق احادیث

۱۷۶۴۳ ۔ محمد بن عذافر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : "امام جعفر صادق علیہ السلام نے میرے والد کو ایک ہزار سات سو دنیار دےئے اور فرمایا کہ ان کے ذریعہ میرے لئے تجارے کرو"

پھر فرمایا: "یاد رکھو! مجھے اس کے منافع میں دلچسپی نہیں ہے اگر چہ منافع ایک پسندیدہ چیز ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ اس کے فوائد کی طرف متوجہ دیکھے۔۔۔۔

تھذیب الاحکام جلد ۶ ۳۲۷ ء

۱۷۶۴۴ ۔ خوش نصیب اس شخص کے جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی‘ جس کی کمائی پاک و پاکیزہ ‘ نیت نیک اور خصلت و عادت پسندیدہ رہی‘ جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں خرچ کیا اور بیکار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا۔۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۲۳

۱۷۶۴۵ ۔ اے فرزند آدم! تو نے اپنی مقرر ہ خوراک سے زیادہ کمایا، اس میں تو دوسروں کا خزانچی (اور امین) ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۷۳ ۱۴۴ ء

۱۷۶۴۶ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے پوچھا گیا : آخر کیا وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب (حواری ) پانی کے اوپر چلا کرتے تھے جبکہ اصحاب محمد میں ایسی کوئی بات نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا:"اس لئے کہ اصحاب عیسیٰ علیہ السلامفکر و معاش سے بے نیاز تھے جبکہ اصحاب محمد کو معاش کی فکر دا منگیر رہتی تھی۔"

مجار الانوار جلد ۱۴ ۲۷۸ ء

۱۷۶۴۷ ۔ حرام کی کمائی آئندہ نسلوں میں بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ۵۳ ء

۱۷۶۴۸ ۔ میری امت کے تاجر "لاوالتہ" (خدا کی قسم ) اور "بلی والثہ" (ہاں خدا کی قسم ) (یعنی سچی جھوٹی قسموں) کی وجہ سے گرفتار بلاہوں گے جبکہ صاحبان صنعت آج کل کہنے (جھوٹے وعدے) کرنے کی وجہ سے قابل گرفت ہوں گے۔

(حضرت رسول اکرم) من لا یحضرہ الفقیہ ۹۷ ء

( ۱) کاہلی

۱۷۶۴۹ ۔ لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسند ، اللہ کو وہ بندہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیاہے ، اس طرح کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹاہواور بغیر راہنما کے چلنے والا ہے۔ اگر اسے دنیا کی کھیتی (بونے) کے لئے بلایا جاتاہے تو سر گرمی دکھاتا ہے اور اگر آخرت کی کھیتی (بونے) کے لئے کہا جاتا ہے تو کاہلی برتنے لگتا ہے۔۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۳)

۱۷۶۵۰ ۔ کاہل انسان دین اور دنیا دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام )مجار الانوار جلد ۷۸ ۱۸ ء)

۱۷۶۵۱ ۔ جب چیزوں کو جوڑا جوڑا بنایا جا رہا تھا تو کاہلی کو عجز کا جوڑا قرار دیا گیا جن کے باہمی ملاپ سے فقر و تنگدستی نے جنم لیا۔

(حضرت علی علیہ السلام)مجار الانوار جلد ۷۸ ۵۹ ء۔ فروع کافی جلد ۵ ۷۶ ء)

اس کتاب میں ہے کہ "انہوں نے فقر کو جنم دیا"۔

۱۷۶۵۶ ۔ کامیابی کی آفت سستی و کاہلی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)مجارالانوارجلد ۷۸ ۲۶ ء)

۱۷۶۵۳ ۔جو شخص اپنی طہارت (وضوو غسل) نیز نماز سے کاہلی کرتا ہے اس کے اضروی امور میں کوئی اچھائی نہیں ہوتی اور جو شخص اپنے معاشی میں سستی برتتا ہے اس کے لئے دینوی امور میں کوئی بہتری نہیں ہوتی۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۸۵ ء)

(امام محمد باقر علیہ السلام) تنبیہ الخواطر ۲۵۵ ء)

۱۷۶۵۴ ۔میں اس شخص سے سخت ناراض ہوں جو اپنے دینوی امور میں کاہلی برتتا ہے کیونکہ جو اپنے دینوی امور میں کاہلی سے کام لیتا ہے وہ اخروی امور کے بارے میں تو او ربھی زیادہ کاہل ہوتا ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۷۵ ء )

۱۷۶۵۵ ۔ مومن ان امور کی طرف راغب رہتا ہے جو باقی رہ جانے والے ہوتے ہیں اور ان سے رو گردان رہتا ہے جو فنا ہو جانے والے ہوتے ہیں۔۔۔۔سستی سے (کوسوں ) دور اور ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ۲۶ ء)

۱۷۶۵۶ ۔ سستی او رچستی ہر حالت میں اعمال بجالاتے رہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۶۵۷ ۔اگرثواب خد اکی طرف سے (ملنا) ہے (اور یقینا ملنا ہے) توپھر سستی کیسی؟

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ ۱۵۹ ء)

۱۷۶۵۸ ۔ کاہل انسان سے مدد نہ مانگو او رعاجز شخص سے مشورہ طلب نہ کرو۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۸۵ ء )

۱۷۶۵۹ ۔ اپنے امور میں کاہل شخص پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)

۱۷۶۶۰ ۔ جو دائمی طور پر سست رہتا ہے وہ اپنی آرزوؤں میں ناکا م رہتا ہے،

(حضرت علی علیہ السلام)مستدرک اموسائل جلد ۲ ۴۲۲ ء ۔ غرر الحکم)

۱۷۶۶۱ ۔ سستی اعمال کی دشمن ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۸۵ ء)

۱۷۶۶۲ ۔ کاہلی آخرت کو تباہ کر دیتی ہے،

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک اموسائل جلد ۲ ۴۲۲ ء

( ۲) سستی تنگدلی

۱۷۶۶۳ ۔یا علی علیہ السلام!۔۔۔ دو قسم کی عادتوں سے پرہیز کرو! ایک تو تنگدلی او ردوسری سستی ، کیونکہ اگر تنگدلی کا مظاہرہ کرو گے تو حق بات کو برداشت نہیں کر سکو گے او راگر سستی کا مظاہرہ کرو گے تو کوئی حق ادا نہیں کر پاؤ گے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ۴۸ ء)

۱۷۶۶۴ ۔ دو قسم کی عادتوں سے بچا کرو م تنگدلی اور سستی سے کیونکہ اگر تنگدلی اختیار کروگے تو حق بات پر صبر نہیں کر سکو گے او راگر سستی کرو گے تو کوئی حق ادا نہیں کر پاؤ گے۔

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ ۱۵۹ ء۔ جلد ۷۲ ۱۹۲ ء)

۱۷۶۶۵ ۔ کاہلی اور تنگدلی سے اجتناب کرو کیونکہ اگر کاہلی اختیار کرو گے تو کوئی کام نہیں کر سکو گے او راگر تنگدلی اختیار کرو گے تو حق ادا نہیں کر پاؤ گے۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ ۸۵ ء)

۱۷۶۶۶ ۔ سستی او رتنگدلی سے دور رہو، اس لئے کہ یہ ہر برائی کی چابہ ہیں۔ جو سستی اختیا ر کرے گا وہ کسی قسم کا حق ادا نہیں کر پائے گا اور جو تنگدلی کا مظاہرہ کرے گا وہ سکی حق پر صبر نہیں کر سکے گا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام)مجار الانوار جلد ۷۸ ۱۷۵ ء)

۱۷۶۶۷ ۔تنگدلی و سستی سے اجتناب کرو کیونکہ یہ دونوں تمہارے دینوی او راخروی حصوں کو روک دیتی ہیں۔

(حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) مجار جلد ۷۸ ۳۲۱ ء۔ جلد ۶۹ ۳۹۵ ء۔)

۱۷۶۶۸ ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار (حضرت امام جعفر صادق ) علیہ السلام نے اپنے ایک فرزند سے فرمایا :"کاہلی و تنگدلی سے بچو! کیونکہ یہ دونوں تمہارے دینوی او راخروی حصے کو روک دیتی ہیں۔"

(فروع کافی جلد ۵ ۸۵ ء )

۱۷۶۶۹ ۔ سستی و کاہلی مظاہرہ ہر گز نہ کرو کیونکہ جو سستی کرتا ہے وہ خداوند سبحانہ تعالیٰ کے حق کو ادا نہیں کر سکتا،

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ ۱۵۹ ء)

۱۷۶۷۰ ۔ سستی نہ کرو ! کیونکہ تمہار ارب ! بڑا مہربان ہے وہ قلیل سی چیز پر راضی ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خد اکی خوشنودی کی خاطر صرف دور رکعت نماز ادا کرتا ہے تو اللہ اسے بہشت میں بھیج دیتا ہے اور جو شخص اضائے الہٰی کے لئے درہم صدقہ دیتا ہے تو وہ اسے اس کے بدلے میں جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۸۲ ۲۱۶ ء)

( ۳) کاہلی سے اجتناب کرو

۱۷۶۷۱ ۔ ایسی کاہلی سے پرہیز کرو جس میں تمہارے لئے کوئی عذر نہ ہو کیونکہ پشیمان لوگ ہی کاہلی میں پناہ لیتے ہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ۱۶۴ ء)

۱۷۶۷۲ ۔جو سستی کرتا ہے وہ اپنے حقوق کو ضائع کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار جلد ۷۳ ۱۶۰ ء ۔ نہج البلاغہ۔ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۸ ۹۰ ء )

۱۷۶۷۳ ۔ہلاکت و بربادی ،سستی اور عاجزی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام)مجار الانوار جلد ۷۱ ۳۴۲ ء)

۱۷۶۷۴ ۔کاہلی محرومیت کے اسباب میں سے ایک ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۷ ۲۰۸ ء)

۱۷۶۷۵ ۔ کاہلی ہی سے سستی جنم لیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)

۱۷۶۷۶ ۔ کاہلی سے مناسب موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)

۱۷۶۷۷ ۔ کاہلی ہی سے مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۶۷۸ ۔ جو کاہلی اور خود پسندی کو ترک کر دے اس کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۶۷۹ ۔ سستی بے وقوفوں کی عادت ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۶۸۰ ۔ جو کاہلی کی اطاعت کرتا ہے وہ اپنے حقوق لٹا بیٹھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)شرح نہج البلاغہ جلد ۱۸ ۹۰ ء )

۱۷۶۸۱ ۔ سستی و کاہلی کی اطاعت کرنے والا پشیمانی میں گھر جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۶۸۲ ۔ عزم راسخ کے ساتھ سستی و کاہلی کو دور بھگاؤ۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

( ۴) کاہل کی علامتیں

۱۷۶۸۳ ۔۔۔۔کاہل کی چار علامیتں ہیں: کوتاہی کی حد تک سستی کرتا ہے، ضائع کر دینے کی حد تک کوتاہی کرتا ہے، گناہ کی حد تک ضائع کرتا ہے او رتنگ دل ہو جاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) تحف العقول ۲۳ ء)

۱۷۶۸۴ ۔حضرت لقمان نے اپنی فرزند سے فرمایا: "کاہل کی تین علامتیں ہیں: کوتاہی کی حد تک سستی کرتا ہے ‘ ضائع کر دینے کی حد تک کوتاہی کرتا ہے او رگناہ کی حد تک ضائع کر دیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ ۱۵۹ ء )

۱۷۶۸۵ ۔ اعمال بجا لانے میں تاخیر سے کام لینا سستی و کاہلی کا سر نامہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

( ۵) کاہلی سے بچنے کی دعا

ٰٰ ۱۷۶۸۶ ۔ دعائیہ کلمات: خدایا ! ہم پر قلبی خوشگواری کے ساتھ احسان فرما او رہمیں تاخیر سے کام لینے ،سستی کرنے ،عاجز آجانے ، لیت ولعل سے کام لینے ، نقصان پہنچانے یا نقصان پہنچنے ، تنگدل ہونے او ررنج و حلال ۔۔۔۔ سے اپنی پناہ میں عطا فرما۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۹۲ ۳۶۴ ء)

۱۷۶۸۷ ۔دعائیہ کلمات : خداوند ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رنج و غم ، عاجزی ، کاہلی۔۔۔سے۔

(حضرت رسول اکرم) سنن نسائی جلد ۸ ۳۶۴ ء)

۱۷۶۸۸ ۔ایضاً دعائیہ کلمات : پروردگار ا! میر لئے ایسے قول و عمل کو محبوب قرار دے جنہیں تو پسند فرماتا ہے تا کہ میں ان میں لذت وکامرانی کے ساتھ داخل ہوجاؤں، خوشی خوشی ان سے باہر آؤں ‘ اور ان میں رہ کر تجھ سے اس طرح دعا مانگوں کہ مجھ پر تیری نظر کرم مستقل رہے۔۔۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) مجار جلد ۹۵ ۲۹۸ ء)

۱۷۶۸۹ ۔ حضرت حجتہ بن الحسن عجل اللہ فرجہ کے لئے دعائیہ کلمات: خداوند ا ! تو ان کے بارے میں ہمیں اکتاہٹ ‘ کاہلی ‘ سستی او رکمزوری و بزدلی کا شکار ہونے سے بچائے رکھے او رہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن سے تو دین کی نصرت کا کام لیتا ہے۔۔۔۔!

(امام رضا علیہ السلام)مجار جلد ۹۵ ۳۳۵ ء)

۱۷۶۹۰ ۔ دعائے مکارم الاخلاق سے اقتباس : پروردگار ا! مجھے اپنی عبادت کے سلسلے میں کاہلی کا اپنے راستے سے اندھے پن کا اور اپنی محبت کے بارے میں اس کے خلاف ہونے کا شکار ہونے سے بچائے۔۔۔۔!

(امام زین العابدین علیہ السلام) صحیفہ کاملہ دعا ۲۰)