فصل۔ ۲
قبلہ
( ۱) تحویلِ قبلہ
قرآنِ مجید:
(
سیقول السفاء ……………………صراط مستقیم
)
(بقرہ/ ۱۴۲ تا ۱۴۴)
ترجمہ۔ بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے کہ مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کی طرف (پہلے سجدہ کرتے تھے) اس سے (دوسرے قبلہ کی طرف) مڑ جانے کا کیا باعث بنا؟ (اے رسول!) تم ان کے جواب میں کہو کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں، جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا ہے،
حدیث شریف۔
۱۶۲۷۶ ۔ معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ آنحضرت نے کعبہ کی طرف رخ کب کیا؟ آپ نے فرمایا: "جنگ بدر سے واپسی کے بعد"
بحارالانوار جلد ۱۹ ص ۱۹۹ ۔ تہذیب الاحکام جلد ۲ ۴۳
۱۶۲۷۷ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول"وان کانت لکبیرة الاعلی الذین ھدی اللہ" یعنی اگرچہ یہ بات، سوائے ان لوگوں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی ہے، سب پر شاق ضرور ہے، (بقرہ/ ۱۴۳) کے بارے میں فرمایا کہ اس زمانہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بہت سے لوگوں پر شاق تھا، لیکن جن لوگوں کی اللہ نے ہدایت فرمائی (ان پر شاق نہیں تھا)، تو اللہ تعالیٰ اس سے ان لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسی عبادت چاہتا ہے جس میں انسان کی ذاتی خواہشات شامل نہ ہوں اور آزمائش کرنا چاہتا تھا کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت کرکے کون صحیح معنوں میں اس کی اطاعت کرتا ہے۔
(امام حسن عسکری علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد اول ص ۱۳۶
۱۶۲۷۸ ۔ ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نگاہ کی اور جبرائیل سے فرمایا: "میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہودیوں کے قبلہ سے پھیر کر کسی اور طرف میرا رخ کر دے" جبرائیل نے کہا: "میں بھی آپ ہی کی طرح اس کا ایک بندہ ہوں۔ یہ بات میرے بس سے باہر ہے میں تو صرف حکم کا پابند ہوں۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اور اسی سے ہی درخواست کیجئے۔" پس حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے، اس امید پر کہ جبرائیل اللہ کی طرف سے اس بارے میں کیا حکم لاتے ہیں۔ لہٰذا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ آیت نازل فرمائی:(
قدنری تقلب وجهک فی السماء…
)
تفسیر درمنثور جلد اول ص ۱۴۲
۱۶۲۷۹ ۔ علی بنابراہیم اپنی اسناد کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: "بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک اور وہاں سے ہجرت کرنے کے بعد مدینہ میں سات ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تھے۔"
امام نے فرمایا: "پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی آنحضرت کو یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ ہمارے پیروکار ہیں کیونکہ آپ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔
"اس بات کا آپ کو بہت دکھ ہوتاتھا۔ چنانچہ ایک رات آنحضرت گھر سے باہر نکلے اور آفاقِ سماوی کی طرف نگاہیں اٹھا لیں، اس بات کے انتظار میں کہ اس بارے میں کوئی حکم آ جائے۔ چنانچہ جب دن ہوا اور ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ اس وقت بنی سالم کی مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے۔ ابھی ظہر کی دو ہی رکعتیں پڑھی تھیں کہ جبرائیل امین نے آپ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر خانہ کعبہ کی طرف آپ کا رخ کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "قدنریٰ تقلبک فی السماء فلنو لینک قبلة ترمنہا فول و جھک شطرالمجسد الحرام" یعنی "اے رسول! قبلہ بدلنے کے واسطے بیشک تمہارا بار بار آسمان کی طرف رخ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم ضرور تم کو ایسے قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔ لہٰذا تم (نماز ہی میں) مسجدالحرام (کعبہ)ا کی طرف رخ کر لو۔ (بقرہ/ ۱۴۴) چنانچہ آپ نے نمازِ ظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں۔ اس پر یہودی اور احمق لوگ کہنے لگے کہ انہیں اس قبلہ کی طرف سے رخ پھیر لنیے کا حکم کس نے دیا جس کی طرف وہ پہلے رخ کیا کرتے تھے؟"
تفسیر مجمع البیان جلد اول ص ۲۲۳
قولِ مولف: علامہ طباطبائی مرحوم فرماتے ہیں کہ جو روایات شیعہ او رسنی مکاتبِ فکر کی طرف سے اس داستان میں بیان ہوئی ہیں اور ان کی روایات کی جامع کتب میں موجود ہیں، بہت زیادہ اور مضامین کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ واقعہ کب رونما ہوا! ان میں سے اکثر و بیشتر یہ بتاتی ہیں کہ تحویلِ قبلہ کا یہ واقعہ ماہِ رجب ۲ ھ میں ہوا، یعنی ہجرت کے سترہ ماہ بعد، اور یہی روایات سب سے زیادہ صحیح بھی ہیں۔
تفسیرالمیزان جلد اول ص ۳۳۱
قبلہ کے بارے میں علمی بحث
قبلہ کی شرعی حیثیت اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا وجوبنماز جو کہ دنیا بھر کے عامة المسلمین کی عبادت ہے۔ اور اسی طرح جانوروں کا رو بقبلہ کرکے ذبح کرنا اور دوسرے کام جو حتماً قبلہ رخ ہو کر انجام دینا چاہئیں (یا جیسے قبلہ رخ ہو کر سونا یا بیٹھنا یا وضو کرنا جو کہ مستحب ہے اور جیسے بیت الخلاء میں روبقبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنا حرام ہے۔ از مترجم) ، اسی طرح کے دیگر احکام جن کا قبلہ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے، اس بات کا باعث بنیں کہ مسلمانوں کو قبلہ کی جستجو کی ضرورت ہوئی تاکہ وہ اس کی سمت کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (تاکہ نماز یا جانوروں کو ذبح کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام قبلہ کی طرف منہ کرکے انجام دیئے جائیں اور بیت الخلاء میں اس کی طرف رخ کرکے یا پشت کرکے نہ بیٹھیں۔ از مترجم)
ابتدائے امر میں چونکہ مکہ سے دور لوگوں کے لئے قبلہ کی قطعی پہچان ناممکن تھی لہٰذا گمان اور ایک طرح کی تخمین پر ہی اکتفا کیا گیا، لیکن رفتہ رفتہ اس عمومی ضرورت نے ریاضی دان علماء کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس گمان و تخمین کو قدرے تحقیق اور عینی تشخیص سے نزدیک کر دیں، لہٰذا وہ اس کام کے لئے ان جدولوں سے استفادہ کرنے لگے جو جنتریوں اور تقویموں میں بنے ہوئے تھے تاکہ اس طرح ہر شہر کا طول و عرض متعین کر سکیں۔ (کسی شہر کے عرض سے مراد وہ فاصلہ ہوتا ہے جو وہ شہر خط استوا سے رکھتا ہے اور طول سے مراد وہ فاصلہ ہوتا ہے جو شہر کے درمیان مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا ہے، اسی بنا پر زمین کا آباد اور آخری مغربی نقطہ "جزائر خالدات" کو گردانا جاتا تھا۔ البتہ اس بات کا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے کہ گزشتہ صدیو ں میں، امریکہ کی دریافت اور زمین کے گول ہونے کی تحقیق سے پہلے ریاضی دان بحر اوقیاس کے ساحل پر واقع مغربی یورپ میں "جزائر خالدات" ہی کو کرہ زمین کا آخری نقطہ سمجھتے تھے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ جزائر ان آخری صدیو ں میں پانی میں غرق ہو چکے ہیں اور اس وقت ان کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔ (دور حاضر میں زمین کے مشرقی نیم کرہ میں واقع گرینوچ (لندن) کی رصدگاہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ از مترجم)
جب وہ اپنے شہر کے عرض البلد کو خط استوا سے معلوم کر لیتے تو پھر وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے۔ اس شہر کے جنوبی نقطہ سے کھڑے ہو کر چند درجہ مغرب کی طرف مڑ جائیں۔ (ہر شہر کے جنوبی نقطہ سے مراد یہ ہے کہ اگر اس نقطہ سے ایک فرضی خط شمال کی طرف تصور کریں تو وہاں تک پہنچنے کے لئے سورج کو "نصف النہار" کا فاصلہ طے کرنا پڑے جس کو اصطلاح میں دوپہر کا وقت کہتے ہیں۔ اسی طرح چند درجہ سے مراد جنوب اور مغرب کے درمیان نوے درجہ کا فاصلہ ہے۔ پھر مغرب کی طرف مڑنے کا طریقہ "مثلثات" کے تحت معین کرتے تھے۔ از مترجم)
پھر یہی طریقہ تمام اسلامی شہروں اور ان کے افق کے لئے "دائرہ ہندیہ" کے ذریعہ رائج کر دیا گیا۔ (اس کی صورت یہ تھی کہ اوائلِ خزاں میں جو موسم کے دو اعتدالی نقطے ہوتے ہیں، ہر افق میں سیدھی اور صاف زمین پر ایک دائرہ بنا لیتے تھے اور اس کے عین وسط میں کوئی سیدھی سی چیز مثلاً لکڑی وغیرہ گاڑ دیتے تھے جسے "شاخص‘ کہا جاتا ہے۔ صبح کے وقت جب سورج طلوع کرتا ہے، اس شاخص کا سایہ دائرہ سے باہر نکلا ہوا ہوتا تھا اور جوں جوں سورج اوپر آتا تھا سایہ گھٹتے گھٹتے دائرہ کے وسط میں پہن جاتا۔ اسی طرح زوال کے بعد جوں جوں سایہ مشرق کی طرف بڑھتا جاتا اور دائرہ سے باہر نکل جاتا تو مغرب و مشرق میں سایہ کے اوپر نشان لگا دیتے، مشرق سے مغرب تک کی لکیر دونوں سمتوں کو متعین کر دیتی، دائرہ بھی دو نیم دائروں میں تقسیم ہو جاتا۔ اسی طرح اس خطِ مستقیم پر ایک اور عمومی خط کھینچتے جس کا ایک سرا جنوبی نقطے کو اور دوسرا سرا شمالی نقطے کو ظاہر کرتا، اسی عمودی خط کو اس افق کا نصف النہار کہتے تھے اور اس دائرہ کو "دائرہ ہندیہ"کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ معلوم ہے کہ ان چاروں نقطوں کے درمیان کا فاصلہ نوے درجے کا ہوتا تھا۔ فرض کریں کہ اگر اس دائرہ کا کوئی شہر خط استوا سے تیس درجے کے فاصلہ پر ہو اور اس شہر کے باشندے نماز کے موقع پر نوے درجہ سے تیس درجے جنوب سے مغرب کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے تو وہ ٹھیک قبلہ رخ کھڑے ہوں گے۔ مترجم)
اس کے بعد کام کی سرعت اور سہولت کے لئے "قطب نما" کا استعمال ہونے
لگا، کیونکہ یہ آلہ اپنی سوئی کے ذریعہ شمال کی سمت کو ظاہر کرتا ہے، خواہ آپ کسی بھی افق میں ہوں۔ اسی طرح شمال سے جنوب کی سمت خودبخود ظاہر ہو جاتی، اور دائرہ ہندیہ کا کام بھی جلد ہی انجام پا جاتا۔ اگر کسی شخص کو اپنے شہر کے خطِ استوا سے مڑنے کی مقدار کا علم ہوتا تو اس کے لئے قبلہ کی سمت معلوم کرنا آسان ہو جاتا۔
لیکن ریاضی دان علماء کی یہ کوشش اگرچہ ایک شایانِ شان خدمت تھی خدا انہیں جزائے خیر دےلیکن دونوں صورتوں دائرہ ہندیہ اور قطب نما کے لحاظ سے نامکمل تھی جس سے لوگوں میں کافی اشتباہ و غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی۔
پہلا طریقہ اس لئے نامکمل تھا کہ اس دورِ آخر کے ریاضی دان اس طرف متوجہ ہوئے کہ قدیم ریاضی دانوں نے کسی شہر کے طول (طول بلد) کی تشخیص میں غلطی کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبلہ کی طرف کی تو مقدار انہوں نے مقرر کی تھی وہ بھی غلط تھی اور اس غلطی کے نتیجہ میں قبلہ کی تشخیص بھی غلط ہو گئی۔ اس طرح سارے کا سارا معاملہ خراب ہو گیا۔
اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ مثلاً تہران خط استوا سے عرض البلد اور چاروں موسموں میں اس کی سورج کے مساوی سمت معلوم کرنے کے لئے ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ پہلے قطبِ شمالی سے خط استوا کو متعین کرتے اور پھر اسے کئی درجوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ پھر کسی شہر کا خطِ استوا سے فاصلہ انہی درجوں سے متعین کرتے تھے۔ مثلاً کہتے تھے کہ تہران کا فاصلہ جزائر خالدات سے ۸۶ درجے، بیس منٹ کا ہے، اور خطِ استوا سے اس کا عرض البلد ۳۵ درجے، ۳۵ منٹ ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ تحقیق اور واقعیت کے زیادہ نزدیک تھا لیکن شہروں کے طول بلد کی تشخیص کا صحیح اور تحقیقی طریقہ نہی تھا کیونکہ، جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے، دو ایسے نقطں کی زمین سے درمیانی مسافت کو معین کیا جاتا تھا جو آسمانی حوادث میں مشترک تھے۔ (اگر سورج گہن ہوتا تو دونوں جگہوں پر ایک ہی وقت میں ہوتا، اور اگر کوئی دوسرا آسمانی واقعہ ہوتا تو دونوں نقطوں میں ایک ہی زمانہ میں رونما ہوتا) اسے سورج کی "حسی حرکت"، یا باالفاظ دیگر گھڑی کے ذریعہ ضبط کر لیتے اور کہتے کہ مثلاً فلاں شہر کا طول البلد فلاں درجہ، فلاں منٹ پر ہے۔ چونکہ زمانہ قدیم میں رسل و رسائل مثلا ٹیلی فون، تار یا دوسری قسم کے ذرائع موجود نہیں تھے لہٰذا وہ صرف اندازوں سے کام لیتے تھے اور ان کا یہ اندازہ ٹھیک طریقہ پر نہیں تھا۔ لیکن جب ذرائع رسل و رسائل عام ہو گئے، ہوائی جہازوں اور سفر کے دوسرے ذرائع کے عام ہو جانے سے فاصلے سمٹ کر رہ گئے تو یہ مشکل بھی مکمل طور پر ختم ہو گی۔ انہی ایام میں شیخ فاضل اور ریاضی کے مشہور استاد مرحوم سردار کابلی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی اور جدید اصولوں کے مطابق قبلہ کی سمت کو دریافت کر لیا، انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بنام "تحفة الاجلہ فی معرفة القبلہ" لکھ کر عوام تک پہنچائی۔
یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں ریاضی کے قواعد کے مطابق قبلہ کی جہت دریافت کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں اور ہر شہر کے قبلہ کی تعیین کے لئے جدول بنائے گئے ہیں۔
منجملہ دیگر امور کے، جو انہو ں نے دریافت کئے ہیںاور خدا انہیں جزائے خیر دےپیغمبر خدا کی وہ کرامت و واضح معجزہ بھی تھا، جو انہوں نے مدینہ کی مسجد کے محراب میں کھڑے ہو کر قبلہ کی صحیح سمت رخ کرکے نماز ادا فرمائی۔ سردار کابلی نے اپنے ریاضی قواعد کے ذریعہ اس کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔
اس کی وضاحت کے لئے عرض ہے کہ متقدمین کے حساب کے مطابق مدینہ منورہ کا عرض بلد، خط استوا سے ۲۵ درجے پر اور طول بلد ۷۵ درجے، اور ۲۰ منٹ پر قرار پاتا تھا۔ اس حساب کے تحت مدینہ میں مسجد نبوی کی محراب قبلہ کی طرف نہیں بنتی تھی، (چونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ حضرت رسول خدا رو بقبلہ کرنے اور مسجد کے بنانے میں اشتباہ کریں) لہٰذا ریاضی دان اس بارے میں مسلسل بحث کرتے آ رہے تھے اور بعض اوقات تو وہ ایسی وجوہات کو بھی بیان کرتے جو حقیقت الامر سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔
لیکن مرحوم سردار کابلی نے اس بات کو واضح کرکے بتا دیا کہ مذکورہ دانشوروں کے حساب ٹھیک نہیں تھے کیونکہ مدینہ منورہ کا خطِ استوا سے عرض بلد ۲۴ درجہ، ۵۷ منٹ پر اور مشرقی نیم کرہ کے نقطہ سے اس کا طول بلد ۳۹ درجہ، ۵۹ منٹ پر واقع ہے، اس حساب کی رو سے مسجدِ نبوی کی محراب ٹھیک قبلہ رخ واقع ہوتی ہے۔
ئٍُبس اب یہ بات واضح ہو گئی کہ صدیوں پہلے جب اس قسم کے حساب و کتاب نہیں تھے۔ لہٰذا آنحضرت جب نماز کی حالت میں تھے اور اسی حالت ہی میں کعبہ کی طرف مڑے تو اگر ایک فرضی خط کعبہ کی طرف کھینچا جائے تو وہ ٹھیک کعبہ تک ہی جا پہنچے گا۔ اور یہ چیز بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔ "(
صدق الله و رسوله
)
(اللہ بھی سچا اور اس کا رسول بھی سچا ہے)
سردار کابلی مرحوم کے بعد فاضل انجینئر بریگیڈیئر جنرل عبدالرزاق بغائری رحمة اللہ علیہ نے روئے زمین کے بہت سے نقاط کے لئے قبلہ کو دریافت کیا، اس بارے میں قبلہ کی پہچان کے لئے ایک کتاب بھی تحریر کی اور اس میں ایسے جدول بنائے جن میں روئے زمین کے ڈیڑھ ہزار مقامات کے قبلہ کی سمت متعین کی۔ اس کتاب کی تدوین سے بحمداللہ تشخیص قبلہ کی نعمت کمال تک پہنچ گئی۔ (اور تہران کا عرض بلد ۳۵ درجہ، اکتالیس منٹ، ۳۸ سیکنڈ اور طول بلد ۵۱ درجہ، ۲۸ منٹ، ۵۸ سیکنڈ تحریر کیا (از مترجم)
یہ تو تھی "دائرہ ہندیہ" کے نقص کی وجہ۔ اب آتے ہی دوسری قسم یعنی "قطب نما" کے ذریعہ قبلہ کی تشخیص، تو اس کے نقص کی وجہ یہ تھی کہ کرہ ارض کے دو مقناطیسی قطب زمین کے دو جغرافیائی قطبوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے چونکہ مقناطیسی قطبِ شمالی، مثلاً یہ کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ تبدیل ہونے کے علاوہ اس کے اور زمین کے جغرافیائی قطب شمالی کے درمیان ایک ہزار میل ( ۱۳۷۵ کلومیٹر) کا فاصلہ ہے،
اسی لئے قطب نما کی سوئی کبھی بھی زمین کے جغرافیائی قطبِ جنوبی پر نہیں ٹھہرتی: نہ ہی اس کی صحیح سمت کا تعین نہیں کرتی ہے، (کیونکہ سوئی کا دوسرا سرا صحیح معنو ں میں قطب شمالی واضح نہیں کرتا) بلکہ بعض اوقات تو فرق اس حد تک جا پہنچاتا ہے جس سے چشم پوشی ناممکن ہو جاتی ہے۔
اسی بنا پر فاضل انجینئر اور عالقیدر ریاضی دان جناب بریگیڈیئر جنرل حسین علی رزم آرا نے انہی آخری سالوں ( ۱۳۳۲ ہجری شمسی) میں اس مشکل کو بھی حل کر دیا اور مقناطیسی و جغرافیائی قطبوں کے درمیان فرق کو ختم کرکے روئے زمین کے ایک ہزار مقامات کے لئے قبلہ کی سمت کو متعین کر دیا۔ (کام کی آسانی کے لئے ایک قبلہ نما ایجاد کیا جس سے بڑی آسانی کے ساتھ ہر شخص قبلہ کی سمت کو معلوم کر سکتا ہے اور اس میں یقین کے زیادہ نزدیک تخمین سے کام لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
(المیزان جلد اول ص ۳۳۵ تا ۳۳۷)
قبلہ کے بارے میں معاشرتی بحث
دانشمند افرا دجو معاشرہ کی شناخت کے ماہر اور اس فن کے استاد ہیں اگر معاشرہ کے آثار و خواص کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں تو ان پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ اصولی طور پر معاشرہ کا وجود میں آنا اور انسانی طبیعتوں کے اختلاف کی وجہ سے معاشرہ کا مختلف قسمو ں میں تقسیم ہونا، صرف اور صرف ایک عامل کی وجہ سے ہے، جس کا نام "ادراک" ہے جسے خدا نے انسان کی طبیعت میں الہام کے طور پر ودیعت فرمایا ہے، ادراک اس معنی کے اعتبار سے کہ ان کی ضروریات، جو اتفاق سے ساری کی ساری انسانوں کی بقا اور ان کی کمال تک رسائی کے لئے موثر ہیں، ایک دو نہیں ہیں کہ ان ایک دو ضروریات کو وہ خد ہی پورا کر لیں، بلکہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس معاشرہ کے پابند رہ کر اس کی آغوش تربیت میں پروان چڑھ کے اور اس کی امداد کے ساتھ اپنے تمام افعال و حرکات و سکنات میں کامیاب ہوں، یا باالفاظ دیگر کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں، کیونکہ تالی ہمیشہ ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی۔
اس ادراک کے بعد اسے دوسرے ادراکات، یا دوسرے لفظوں میں انہیں کچھ ذہنی صورتوں کا الہام ہوا کہ وہ ادراکات اور ذہنی صورتیں مادی امور و ضروریات کے پورا کرنے کے لئے ایک معیار و کسوٹی قرار پائیں۔ حقیقت میں وہ ادراکات و معیارات انسانی طبیعت اور اس کے افعال و ضروریات کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بن گئے، مثلاً اس بات کا ادراک کہ کونسی چیز اچھی ہے، کونسی چیز بری ہے، کونسا کام کرنا چاہئے، کونسا نہیں کرنا چاہئے، کس کام کا کرنا اس کے نہ کرنے سے بہتر ہے؟ نیز اس چیز کا ادراک کہ انسان اجتماع و معاشرہ کے مرتب و منظم کرنے کے لئے سربراہ و عوام، ملک، ملکیت، خصوصی امور، مشترک و مخصوص معاملات اور قوموں کے دیگر آداب و رسوم (جو اقوام، علاقہ و زمانہ کے تبدیل ہونے سے بدلتے رہتے ہیں) کو معتبر سمجھے اور ان کا احترام کرے۔ یہ تمام معانی و قواعد ایسے امور ہیں کہ اگر انسانی طبیعتوں نے انہیں بنایا ہے تو یہ بھی قدرت کی طرف سے انسان کو ایک الہام تھا اللہ تعالیٰ نے جس کے ذریعہ انسانی طبیعت کو لطیف بنایا تاکہ دوسرے ہر کام سے پہلے جس چیز پر انسان کا ایمان و عقیدہ ہے اور وہ اسے خارج میں وجود میں لانا چاہتا ہے تو اسے تصور میں لا کر ذہنی نقشوں کو جامہ عمل پہنائے، یا اگر مناسب نہ سمجھے تو اسے ترک کر دے۔ اس طرح وہ اپنے لا ئحہ عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
(جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب ہم کہتے ہیں کہ) کسی عبادت میں خداوند سبحان کی طرف توجہ اور رخ کرنا، (البتہ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ خداوندِ متعال مکان، سمت اور دوسرے تمام مادی امور سے منزہ و مبرا ہے، حتیٰ کہ اس بات سے بھی پاک و پاکیزہ ہے کہ کسی مادی حس کا اس سے کوئی تعلق ہے) اگر ہم چاہتے ہیں کہ قلب و ضمیر کی چار دیواری سے نکل کر افعال میں سے کسی فعل کی صورت اختیار کر لیں جبکہ فعل کا تعلق ہوتا ہی مادیات سے ہے تو مجبوراً یہی کہنا پڑے گا کہ یہ توجہ اور رخ کرنا بصورتِ تمثیل یا تمثل ہو گا۔
آسان و سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعہ ہم خدا کی طرف توجہ کریں اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ خدا کسی ایک طرف، جہت یا سمت میں موجود نہیں (بلکہ ہر طرف اور ہر جہت و سمت میں ہے) تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ہماری عبادت تمثیل و تجسم کی صورت میں ہو، وہ یوں کہ پہلے مرحلہ میں ہماری قلبی توجہات، ان اختلافات کے باوجود، جو ان کی خصوصیات (مثلاً خضوع و خشوع اور خوف و رجا اور عش و جذبہ) میں پائے جاتے ہیں، پیشِ نظر ہوں، دوسرے مرحلہ میں انہی خصوصیات کو ان کی مناسب شکل و صورت میں اپنے افعال میں منعکس کریں، مثلاً اپنے قلبی خضوع و خشوع اور اپنی ذات کی حقارت و ذلت کے اظہار کے لئے اس کی بارگاہِ اقٹدس میں سجدہ ریز ہو جائیں اور اس بیرونی عمل کے ذریعہ اپنے اندرون کی کیفیت کا اظہار کریں۔ یا اگر چاہیں کہ اپنا اندونی احترام اور اس کی بارگاہ میں اپنی تعظیم کا اظہار کریں تو رکوع میں چلے جائیں، نیز اگر چاہتے ہیں کہ اپنی جان کا نذرانہ اس کے حضور پیش کریں تو اس کے گھر )(خانہ کعبہ) کے اطراف میں طواف کریں، اگر چاہیں کہ اس کی بزرگی کو بیان کریں تو سیدھے کھڑے ہو کر قیام کو بجا لائیں، اگر چاہیں کہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے خود کو پاک و پاکیزہ کریں تو غسل و وضو کریں اور اس طرح کی دوسری تمثیلات ہیں۔
اس بات میں بھی ذرہ برابر شک نہیں کہ بندہ کی عبادت کی روح، اس کی وہی اندرونی و قلبی بندگی اور قلبی کیفیت ہے جو وہ اپنے معبود کے لئے ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو اس کی عبادت "بے روح" ہو گی بلکہو عبادت ہی شمار نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود یہ قلبی توجہ کسی نہ کسی صورت میں مجسم ہونی چاہئے۔ غرض عبادت کو اپنے کمال، ثبات اور استقرار میں متحقق ہونے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ کسی قالب میں ڈھالی جائے۔
جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین اپنی عبادت میں کیا کرتے تھے اور اسلام نے کیا کیا ہے؟ بس وثینوں، ستارہ پرستوں اور تمام دوسرے جسم پرستوں کا معبود یا تو کوئی انسان ہوتا یا کوئی اور جسم رکھنے والی چیز ہوتی، وہ اپنے لئے ضروری سمجھتے کہ عبادت کی حالت میں ان کا معبود ان کے نزدیک اور سامنے ہو، لہٰذا وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔
لیکن انبیاء کا دین، خصوصاً دینِ اسلام کہ فی الحال ہم اسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، (اور اس کے بارے میں گفتگو درحقیقت دوسرے ادیان کے بارے میں گفتگو بھی ہے کیونکہ اسلام نے تمام انبیاء کی تصدیق کی ہے) جس طرح کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ دین اسلام نے عبادت کی روح انسان کی اندرونی کیفیت اور قلبی توجہ کو قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان حالات کو مثالی صورت دینے کے لئے بھی ایک نقشہ پیش کیا ہے، وہ یہ کہ اس نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمام لوگ نماز کی حالت میں قبلہ رو کھڑے ہوں، کسی مسلمان کو خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطہ پر ہی کیوں نہ ہو، اس کے ترک کرنے کے اجازت نہیں ہے، اسی طرح بعض حالات (مثلاً بیت الخلا میں) اس کی طرف منہ کرکے یا پشت کرکے بیٹھنے سے منع کیا ہے، اس کے علاوہ دوسرے کئی ایسے حالات ہیں جن میں قبلہ رو ہونا بہتر ہے۔
پس اس طرح سے اسلام نے دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرکے طرہ پر ضبط کیا کہ جلوت و خلوت میں، قیام و قعود میں، خواب و بیداری میں، عبادت و مراسم میں، حتیٰ کہ پست ترین اور ناپسندیدہ ترین حالات میں بھی انسان اپنے پروردگار کو فراموش نہ کرے۔ یہ تو تھا انفرادی صورت میں"قبلہ" کو شرعی حیثیت دینے کا فائدہ۔
اب آتے ہیں اس کے اجتماعی فوائد کی طرف پس غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے فوائد تو انفرادی فائدہ سے بھی زیادہ عجیب، اس کے آثار زیادہ روشن اور زیادہ دلنشین ہیں، اسی لئے کہ تمام لوگوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی، ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ یہ ایک ایسی لطیف ترین روح ہے جو بشریت کے ڈھانچے میں پھونک دی گئی ہے، ایک ایسی روح جو اپنی لطافت کی وجہ سے افراد کے تمام مادی و معنوی امور میں نفوذ کر سکتی ہے جس سے ایک ترقی پذیر معاشرہ، زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے والا اتحاد اور طاقت ور ترین اجتماعی صورت وجود میں آ جاتی ہے۔ یہ ایک احسان ہے جو خداوندِ متعال نے اسلامی امہ کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ اسی کے ذریعہ اس نے دینی وحدت اور اجتماعی شوکت کو محفوظ رکھا ہے، جبکہ اس سے پہلے کئی قسم کے احزاب، گروہ، ٹولے اور جماعتیں تھیں جن کے رسوم و رواج جداگانہ اور طریقہ ہائے کار مختلف تھے، حتیٰ کہ دو انسان بھی ایسے نہیں تھے جو کسی ایک نظریہ پر متفق ہوں۔ یہ اللہ کا اسلامی امہ پر بہت بڑا احسان ہے جس کے لئے ہم کمال عاجزی کے ساتھ اس کے سپاس گزار ہیں۔
قبلہ کی تاریخی بحث
یہ بات متواتر اور قطعی ہے کہ خانہ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور اس کے بعد اطرافِ کعبہ میں رہنے والے ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قبائل عین میں سے ایک قوم بنا "جرہم" تھی۔ خانہ کعبہ کی عمارت تقریباً مربع کی صورت میں بنائی گئی جس کا ہر کونہ چاروں سمتوں (شمال، جنوب، مشرق اور مغرب) میں سے ہر ایک سمت کی طرف تھا، اس کی طرز تعمیر کچھ اس طرح کی تھی کہ ہوا جس طرف کی ہو، جس قدر بھی شدید ہو، اسے نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ اس تک پہنچنے کے ساتھ اس کا زور ٹوٹ جائے۔
حضرت ابراہیم کی بناکردہ یہ عمارت اپنی اسی حالت پر برقرار رہی یہاں تک کہ "عمالقہ" نے اسے ازسر نو تعمیر کیا اور پھر دوسری مرتبہ بنو جرہم نے (یا پہلے جرہم نے اور بعد میں عمالقہ نے) اسے بنایا۔
جب امورِ کعبہ کی زمام پیغمبرِ اکرم کے جد امجد جناب قصیٰ بن کلاب کے ہاتھوں تک پہنچی (ہجرت سے دو سو سال قبل) تو قضیٰ نے اسے گرا کر از سر نو تعمیر کیا اور اسے پہلے سے زیادہ مستحکم کیا، "دوم" (کھجور کے درخت سے ملتا جلتا درخت) کی شاخوں اور کھجور کی شاخوں سے اس پر چھت ڈالی، کعبہ مکرمہ کے ساتھ ہی ایک اور عمارت بنام "دارالندوہ" تعمیر کی جو درحقیقت ان کی حکومت اور اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورے کا مرکز تھی۔ پھر کعبہ کی اطراف کو قریش کے مختلف قبائل کے درمیان تقسیم کر دیا کہ ہر قبیلہ نے اس کے اطراف میں "مطاف" (مقام طواف) کے کنارے اپنے اپنے مکان بنا لئے جن کے گھروں کے دروازے مطاف کی طرف کھلتے تھے۔
بعض روایات کے مطابق بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے ایک زبردست سیلاب آیا جس کی وجہ سے خانہ کعبہ منہدم ہو گیا اور قریش کے قبائل نے اس کی تعمیر کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اس کی تعمیر کا کام ایک رومی باشندہ بنام "یاقوم" نے سرانجام دیا اور مصر کے ایک "بڑھئی" نے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا۔ جب تعمیر اس مرحلہ پر پہنچی جہاں "حجراسود" کو نصب کرنا تھا تو ان کے قبائل کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا کہ یہ شرف کون سا قبیلہ حاصل کرے! آخرکار سب کا متفقہ فیصلہ ہوا کہ اسے (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نصب کریں جبکہ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۳۵ سال کی تھی، اور ان لوگوں کو آپ کی عقلمندی و محکم سوچ کا پختہ یقین ہو چکا تھا۔
چنانچہ آنحضرت نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھائی جائے، اس پر حجر اسود کو رکھ دیا جائے اور قبائل کو حکم دیا کہ اس چادر کے چاروں کونوں کو پکڑ کر اٹھائیں اور حجر اسود کو اپنی جگہ یعنی کعبہ کے مشرقی رکن تک لے جائیں۔ جب حجر اسود کو اسی جگہ تک لے جایا گیا تو آپ ہی نے اسے اٹھا کر وہیں پر نصب فرما دیا۔
چونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے اخراجات کافی سنگین تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی ہمتیں جواب دے گئیں، لہٰذا اس کی بلندی کو اسی جگہ تک ہی رہنے دیا جو اس وقت ہے اور سابقہ عمارت کے حصہ سے حجر اسماعیل کی طرف سے ایک حصہ تعمیر ہونے سے رہ گیا جو حجر اسماعیل ہی کا حصہ بن گیا کیونکہ اسے سابقہ عمارت سے چھوٹا بنایا گیا تھا۔
یہ عمارت اسی طرح اپنے حال پر باقی رہی یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے دور میں عبداللہ بن زبیر حجاز پر مسلط ہوا۔ یزید نے اس کی سرکوبی کے لئے حصین (بن نمبر) ملعون کی کمان میں ایک لشکر بھیجا۔ فریقین کے درمیان زوروں کی جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں یزید کے لشکر نے منجنیقوں کے ذریعہ شہرِ مکہ پر پتھر برسانے شروع کر دیئے۔ اس طرح خانہ کعبہ کی تباہی ہوئی اور منجنیقوں کے ذریعہ شہر پر برسائی جانے والی آگ نے کعبہ کے پردے اور لکڑیوں کو جلا ڈلا۔
جب یزید کی ہلاکت کے بعد جنگ ختم ہو گئی تو ابنِ زبیر نے کعبہ کو ازسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم کے مطابق یمن سے اعلیٰ قسم کا گچ (جپسم) منگئوایا گیا، اسے گچ سے تعمیر کیا گیا، حجر اسماعیل کو بھی خانہ کعبہ کا جزو بنا دیا گیا اور کعبہ کا دروازہ جو پہلے بلندی پر نصب تھا، اسے سطح زمین پر نصب کیا گیا۔ پھر پرانے دروازے کے بالمقابل ایک اور دروازہ رکھا گیا تاکہ لوگ ایک دروازے سے اندر آئیں اور دوسرے سے باہر نکل جائیں۔ کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ (تقریبًا ساڑھے تیرہ میٹر) رکھی گئی اور جب کعبہ کی تعمیر سے فراغت ملی تو اسے مشک و عنبر کے ساتھ اندر و باہر سے معطر کر دیا گیا اس پر ریشم کا غلاف چڑھایا گیا اور ۱۷ رجب ۶۴ ھ میں اسے اس کام سے فراغت ہوئی۔
جب عبدالملک بن مروان تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے لشکر کے سردار حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی سرکوبی کے لئے مکہ جائے۔ چنانچہ حجاج نے اس شکست دی اور قتل کر دیا، پھر وہ خود بیت اللہ کے اندر گیا اور عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ کی جس قسم کی تعمیر کی تھی، اس نے اس سے عبدالملک کو اطلاع دی، عبدالملک نے حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی تعمیر کو ختم کرکے کعبہ کو اس کی پہلی صورت میں تعمیر کیا جائے۔ اس کے حکم کے مطابق حجاج کعبہ کی شمالی دیوار سے چھ ہاتھ اور ایک بالشت کے برابر گرا کر قریش کی رکھی ہوئی بنیاد تک جا پہنچا اور اپنی تعمیر کو اسی بنیاد پر استوار کیا، اس کے مشرقی دروازہ کو جسے ابن زبیر نے سطحِ زمین پر نصب کیا تھا، اوپر لے جا کر اس کی پہلی جگہ (سطحِ زمین سے تقریباً ڈیڑھ یا دو میٹر اوپر) نصب کیا، اس کے مقابل میں ابن زبیر کا رکھا ہوا مغربی دروازہ بھی اس نے بند کر دیا۔ اس کے بعد عمارت سے بچ جانے والے پتھروں سے کعبہ کی زمین کو فرش کر دیا۔
کعبہ کی یہی کیفیت سلطان سلیمان عثمانی (ترکی) کی حکومت تک باقی رہی۔ جب ۹۶۰ ھ میں سلطان عثمانی برسرِ اقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی چھت کو تبدیل کر دیا اور جب سلطان احمد عثمانی ۱۱۲۱ ھ برسراقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی مرمت کی۔
پھر چونکہ ۱۰۳۹ ھ میں ایک بہت بڑے سیلاب نے اس کی شمالی و مشرقی و مغربی دیواروں کو کافی نقصان پہنچایا تھا اس لئے سلطان مراد چہارم، ایک عثمانی بادشاہ، کے حکم کے مطابق اس کی مرمت کی گئی۔ اس کے بعد سے ۱۳۷۵ ھ (مطابق ۱۳۳۵ شمسی) تک اس میں کسی اور قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
خانہِ کعبہ کی شکل و صورت
خانہ کعبہ تقریباً مربع شکل کا ایک مکان ہے جو نیلے رنگ کے ٹھوس پتھروں سے بنایا گیا ہے اس کی بلندی سولہ میٹر ہے جبکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس سے کہیں کم بلندی تھی فتحِ مکہ کی روایات سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اس میں موجود بتوں کو تڑوایا جو چھت کے ساتھ تھے، اور یہ ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے۔
اس کا شمالی حصہ جہاں پر میزابِ رحمت اور حجرِ اسماعیل ہے، اسی طرح اس کے مقابل میں اس کا جنوبی حصہ دس میٹر اور دس سینٹی میٹر لمبے ہیں، جبکہ مشرقی حصے کی لمبا ئی جس میں کعبہ کا دروازہ بھی دو میٹر کی بلندی پر نصب ہے اور اس کے مقابل کے مغربی حصے کی لمبائی بارہ میٹر ہے۔ حجرِ اسود مطاف سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر اس کے جنوبی حصے کی ابتدا میں نصب ہے۔ حجر اسود ایک ٹھوس، بھاری اور بیضوی شکل کا غیرتراشیدہ سرخی مائل سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔ اس میں رنگ کے داغ اور زرد رنگ کی رگیں دکھائی دیتی ہیں، جو خودبخود جوش کھانے کی وجہ سے دراڑیں بن چکی ہیں
خانہ کعبہ کے چاروں کونے قدیم الایام سے چار ارکان کے نام سے موسوم چلے آ رہے ہیں، شمالی رکن کو "رکن عراقی" کہتے ہیں مغربی رکن کو "رکنِ شامی" کہتے ہیں، جنوبی رکن کو "رکنِ یمانی" اور رکنِ شرقی کو کہ جس میں حجر اسود نصب ہے، "رکنِ اسود" کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے دروازے سے لے کر حجر اسود تک کی درمیانی منزل کو "ملتزم" کہتے ہیں کیونکہ کعبہ کا زائر اور طواف کرنے والا دعا و استغاثہ کرتے وقت اسی حصے سے متوسل ہوتا ہے۔
شمالی حصے کی دیوار پر پرنالہ کو "میزابِ رحمت" (یا رحمت کا پرنالہ) کہتے ہیں۔ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے اسے ایجاد کیا اور بعد میں عثمانی بادشاہ سلطان سفیان ترکی نے اسے ۹۵۴ میں وہاں سے ہٹا کر چاندی کا پرنالہ لگایا۔ پھر عثمانی بادشاہ سلطان احمد نے ۱۰۲۱ ھ میں اس کی جگہ چاندی کا میناکاری شدہ پرنالہ لگایا۔ اس پر گہرے نیلے رنگ کی میناکاری کی گئی تھی اور اس کے فاصلوں میں سونا لگایا گیا تھا۔ ۱۲۷۳ ھ کے آخر میں سلطان عبدالمجید عثمانی (ترکی) نے اسے یکسر سونے میں تبدیل کر دیا، آج تک وہی پرنالہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔
اسی پرنالے کے مقابل میں قوس نما ایک دیوار ہے جسے "حطیم" کہتے ہیں۔ حطیم نیم دائرہ میں ہے یہ اس عمارت کا حصہ ہے جس کے دونوں اطراف اس کے شمالی (شرقی و جنوبی () اور مغربی کونے پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ ودونوں اطراف مذکورہ زاویہ سے متصل نہیں ہیں، بلکہ وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے دونوں اطراف سے دو راہرو ہیں جن کی لمبائی دو میٹر اور تیس سینٹی میٹر ہے۔ اس قوسی دیوار کی بلندی ایک میٹر اور چوڑائی ڈیڑھ میٹر ہے۔ اس کے اندر نقش و نگار سے مزین پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس قوس نما دیوار کا درمیانی فاصلہ اندر سے لے کر کعبہ کی دیوار کے درمیان تک ۸ میٹر اور ۴۴ سینٹی میٹر ہے۔
حطیم اور اس قوس نما دیوار کی درمیانی فضا کو "حجر اسماعیل" کہتے ہیں جس کا تقریباً تین میٹر کا حصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے کعبہ میں شامل تھا لیکن بعد میں اسے اس سے باہر نکال دیا گیا۔ اسی لئے اسلام میں واجب ہے کہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت حجر اسماعیل کو بھی اسی میں شامل کیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم کے زمانہ کا پورا کعبہ طواف میں شامل ہو جائے۔
اس فضا کا بقیہ حصہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کی گوسفندوں کا باڑہ ہوتا تھا۔ بعض حضرات کے بقول یہی جگہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کا مدفن ہے۔
یہ تھا خانہ کعبہ کا ہندسہ کے لحاظ سے ایک تفصیلی جائزہ۔ وہ تبدیلیاں جو اس میں رونما ہوتی رہیں اور وہاں پر انجام پانے والی رسومات، جو اسلام سے پہلے رائج تھیں، چونکہ ہمارے موضوع سے ان کا تعلق نہیں ہے، لہٰذا انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
غلافِ کعبہ
ہم سورہ بقرہ میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے بارے میں آیات کی تفسیر میں ان روایات کو بیان کر چکے ہیں جو سرزمینِ مکہ میں ان کے تشریف لانے کے بعد کے حالات کو بیان کرتی ہیں، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مکمل ہو جانے کے بعد حضرت ہاجرہ نے اس کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا دیا تھا۔
لیکن وہ غلاف جو کعبہ کے تمام اطراف پر چڑھایا جاتا تھا، اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز شاہانِ یمن میں سے ایک شخص بنام ابوبکر اسعد نے کیا۔ اس نے خانہ کعبہ کو چاندی کی تاروں سے بنے ہوئے غلاف کے ساتھ ڈھانپا۔ وہ ایک ایسا پردہ تھا جس کے حواشی کو نقرئی تاروں سے بنایا گیا تھا۔ مذکورہ بادشاہ کے بعد اس کے جانشینوں نے اسی سلسلے کو جاری رکھا۔ اس کے بعد لوگ آتے رہے اور مختلف انداز کے مطابق اس پر غلاف چڑھاتے رہے اور وہ یوں کہ غلاف کے اوپر غلاف چڑھایا جاتا رہا۔ یعنی جب ایک غلاف کہنہ ہو جاتا تو اس کے اوپر ایک نیا غلاف چڑھا دیتے یہاں تک قصیٰ بن کلاب کا زمانہ آ گیا۔ انہوں نے غلافِ کعبہ کے لئے عربوں کے ذمہ لگا دیا کہ باہمی چندہ کرکے اس پر سالانہ نیا غلاف چڑھایا جائے۔ (اور ہر قبیلہ کے ذمہ ایک حصہ مقرر کر دیا)۔ یہی سلسلہ ان کی اولاد میں چلتا رہا جن میں سے ابو ربیعہ بن مغیرہ ایک سال یہ غلاف چڑھاتے اور دوسرے سال قریش کے دیگر قبائل۔
حضرت رسول خدا کے زمانہ میں آنجناب نے خانہ کعبہ پر یمانی چادر کا غلاف چڑھایا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک عباسی خلیفہ مہدی بیت اللہ کی زیارت کے لئے آیا تو بیت اللہ کے خدام نے کعبہ کی چھت پر کپڑوں کے انبار کی شکایت کی اور کہا کہ پہلے ہی اس پر کپڑوں کا کافی بوجھ ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ چھت ہی زمین بوس نہ ہو جائے۔ مہدی عباسی نے حکم دیا کہ تمام غلافوں کو اتار لیا جائے اور ہر سال اس پر صرف ایک غلاف چڑھایا جائے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
البتہ کعبہ کے اندر بھی ایک غلاف ہے، اور سب سے پہلے جس نے اندر غلاف چڑھایا وہ حضرت عباس بن عبدالمطلب کی والدہ تھیں جنہوں نے اپنے بیٹے عباس کے لئے نذر مانی تھی اور اس کے پورا ہونے پر غلاف چڑھایا۔
خانہ کعبہ کی قدرو منزلت
خانہ کعبہ مختلف اقوام و امم میں احترام و عظمت کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل رہا ہے، مثلاً اہلِ ہند اس کا اس لئے احترام و تعظیم کرتے تھے کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ "سلیفا" جو ان کے عقیدہ کے مطابق اقانیم ثلاثہ میں سے ایک "اقنوم" ہے کی روح حجر اسود میں حلول کر چکی ہے اور حلول اس وقت ہوا جب "سلیفا" اپنی بیوی کے ہمراہ حجاز کی زیارت کی غرض سے حجرِ اسود کی زیارت کو آیا۔
اسی طرح فارسیوں میں "صابئن" اور کلدانی بھی اس کی تعظیم کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ "کعبہ" ان سات گھروں میں سے ایک ہے جن کا تقدس مسلم ہے۔ ان سات گھروں میں کی تفصیل یہ ہے:
۱ ۔ "خانہ کعبہ" ۲ ۔ "مارس" جو اصفہان کے پہاڑ کی ایک چوٹی پر واقع ہے۔
۳ ۔ "مندوسان" جو بلادِ ہند میں واقع ہے۔
۴ ۔ "نوبہار" جو بلخ میں ہے۔
۵ ۔ "بیت غمدان" جو یمن کے شہر صلفأ میں ہے۔
۶ ۔ "کاؤسان" جو صوبہ خراسان کے شہر، فرغانہ میں ہے۔
۷ ۔ وہ گھر جو چین کے ایک بلندترین شہر میں ہے۔
نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "کلدانیوں" کا یہ عقیدہ تھا کہ خانہ کعبہ ستارہ زخل کا گھر ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی گھر ہے اور اس کی عمر کافی طولانی ہے۔
قدیم فارس کے لوگ بھی اس کا احترام کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ "ھرمُز" کی روح اس میں حلول کر چکی ہے اور بعض اوقات وہ خانہ کعبہ کی زیارت بھی کیا کرتے تھے۔
یہودی بھی اس کی تعظیم کرتے تھے اور وہاں جا کر دینِ ابراہیمی کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے۔
خانہ کعبہ کے اندر کچھ تصویریں اور بتوں کے مجسمے بھی تھے جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصویروں کے مجسمے بھی شامل تھے۔ جن کے ہاتھوں میں "ازلام" کی چھڑیاں تھیں۔ انہی مجسموں میں "مریم عذرا" اور "عیسیٰ مسیح" کے مجسمے بھی تھے۔ یہ بات اس امر کی شاہد ہے کہ کعبہ کا احترام یہودی بھی کرتے تھے اور نصرانی بھی۔
عرب بھی اس کی مکمل تعظیم کرتے تھے اور اسے خداوند کا گھر سمجھتے تھے، اس کی زیارت کے لئے چاروں طرف سے سمٹ کر آتے تھے اور اسے ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا گھر جانتے تھے۔ اسی طرح حج کا مسئلہ بھی عربوں کے دین کا ایک جزو تھا جو وراثت کے طور پر ان کی نسلوں میں چلا آ رہا تھا۔
خانہ کعبہ کی تولیت
ابتدا ہی سے خانہ کعبہ کی تولیت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس تھی۔ ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس آ گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ "بنوجرھم" نے حضرت اسماعیل کے خاندان پر حملہ کرکے ان پر غلبہ حاصل کر لیا اور کعبہ کی تولیت بھی ان سے چھین کر اپنے ساتھ مخصوص کر لی۔ بنی جرہم کے بعد یہ تولیت "عمالقہ" کے قبضہ میں آ گئی۔ عمالقہ، بنی کرکر میں سے ایک قبیلہ تھا جو بنی جرہم کے ساتھ برسرِ پیکار رہتا تھا۔
عمالقہ ہر سال سردی اور گرمی میں اپنی منزلیں بدلتے رہتے تھے۔ ان کا خانہ بدوشی کا یہ سفر مکہ کے نشیبی علاقوں میں جاری رہتا جبکہ بنی جرہم کے لوگوں کی خانہ بدوشی کا سرمائی اور گرمائی سلسلہ مکہ کے بالائی علاقوں میں ہوتا۔
حوادثاتِ زمانہ کے تحت بنی جرہم کو ایک بار پھر عمالقہ پر غلبہ پانے کا موقع ملا تو خانہ کعبہ کی تولیت بھی ان کے قبضہ سے واپس لے لی اور تقریباً تین سو سال تک وہ اس کے متولی رہے، انہوں نے حضرت ابراہیم کے بنا کردہ گھر میں کچھ ترمیمات و اضافے کئے اور اس کی دیواروں کو بلند کیا،
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل بڑھی، پھلی پھولی اور ان میں قدرت و شوکت پیدا ہوئی تو مکہ کی سرزمین ان کے لئے تنگ ہوتی نظر آئی، مجبوراً انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ بنی جرہم کو مکہ سے باہر نکال دیا جائے۔ بالآخر جنگ و جدال کے ذریعہ انہیں وہاں سے بھگا دیا گیا۔
ان دنوں حضرت اسماعیل کی اولاد کا سردار اور بزرگ "عمرو بن لحی" تھا۔ اس نے مکہ پر قبضہ کرکے خانہ خانہ کی تولیت خود سنبھال لی یہ وہی عمرو بن لحی تھا جس نے خانہ کعبہ کی چھت پر بت رکھ دیئے تھے اور لوگوں کو ان کی پرستش کی دعوت دی تھی، سب سے پہلا بت جو کعبہ کی چھت سے متصل ہوا اس کا نام "ہُبل" تھا۔ جسے وہ شام سے اپنے ساتھ مکہ لایا اور خانہ کعبہ کی چھت پر آ کر رکھ دیا تھا اس کے بعد رفتہ رفتہ دوسرے بت لانے لگا یہاں تک کہ ایک بہت بڑی تعداد میں بت جمع ہو گئے، بت پرستی کا رواج عربوں میں پھیل گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتایا ہوا "دین حنیف" اور "توحیدپرستی" کی بساط لپیٹ دی گئی۔
اسی مناسبت سے بنی جرہم کا ایک شاعر بنام "شحنہ بن حلف" عمرو بن لحی کو مخاطب کرکے کہتا ہے
یا عمرو انک قد احدثت الهة- شتی بمکة حول البیت انصابا
وکان البیت رب واحد ابدا- فقد جعلت له فی الناس او بابا
لتعرفن بان الله فی مهل- سیصطفی دونکم للبیت حجابا
یعنی۔ اے عمرو! یہ تو ہی تھا جس نے مختلف خدا گھڑ کر بیت اللہ کے اطراف میں نصب کر دیئے۔ خانہ کعبہ کا تو صرف ایک ہی ابدی رب ہے، مگر یہ تو تھا کہ لوگوں کو شرک و مختلف خداؤں (ارباب) کی طرف دعوت دی۔ تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ خداوندِ تعالیٰ مستقبل قریب میں تمہیں ہٹا کر اپنے گھر کے لئے دوسروں کو حاجب و نگہبان مقرر فرمائے گا۔
خانہ خدا کی تولیت "حلیل خزاعی" کے زمانہ تک اسی طرح بنی خزاعہ میں باقی رہی، اور حلیل نے اپنے بعد یہ تولیت اپنی بیٹی کو جو قصیٰ بن کلاب کی زوجہ تھیں، خانہ کعبہ کے کھولنے اور بند کرنے یا بااصطلاح "کلید برداری" کا اختیار بنی خزاعہ میں سے ایک شخص "ابوغبئان" خزاعی کو دے دیا۔ لیکن ابو غبئان نے ایک اونٹ اور ایک پیالہ شراب کے بدلہ یہ منصب قصی بن کلاب کے ہاتھوں بیچ دیا، ابو غبئان کا یہ اقدام عربوں میں ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا کہ جب بھی کوئی احمقانہ اور نقصان دہ معاملہ طے پاتا تو وہ کہتے "اخسر من صفتة ابی غبئان" یعنی یہ معاملہ تو ابی غبئان کے معاملہ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔
انجام کار کعبہ کی تولیت اور سرپرستی مکمل طور پر قریش میں منتقل ہو گئی، اور قصیٰ بن کلاب نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کی جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ یہ صورت حال اسی طرح باقی رہی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا اور خانہ کعبہ کے اندر جا کر حکم دیا کہ کعبہ میں موجود تمام تصویروں اور بتوں کو مٹا دیا جائے چنانچہ بتوں کو توڑ دیا گیا اور تصویریں مٹا دی گئیں، مقامِ ابراہیم کو جس پر آنجناب کے دونوں قدموں کے نشان ہیں اور اس وقت تک کعبہ کے نزدیک ایک طرف میں تھا، اٹھا کر اس کی اسی جگہ پر مدفون کر دیا جہاں پر اب ہے اور آج اس پر ایک قبہ سا بنا ہوا ہے جس کے چار ستون ہیں اور ان ستونوں پر چھت بنی ہوئی ہے۔ طواف کرنے کے بعد خانہ خدا کے زائر اس کے ساتھ نمازِ طواف پڑھتے ہیں۔
کعبہ اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں لیکن ہم نے صرف اسی پر اکتفا کیا ہے، وہ بھی صرف اسی لئے کہ قارئین کو حج اور کعبہ سے متعلق آیات پڑھنے کے وقت اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اس گھر کی جسے خدا نے بابرکت اور ہدایتِ خلق کا موجب قرار دیا ہے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اسلام کے کسی بھی فرقہ نے اس کی شان اور عظمت کے بارے میں آج تک اختلاف نہیں کیا۔