میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 56732
ڈاؤنلوڈ: 6033

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56732 / ڈاؤنلوڈ: 6033
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۔ ۳۵

کفر

( ۱) کفر شرک سے بہت پہلے ہے

قرآن مجید:

( والذین کفروا اولیائهم--------------------------------الی الظلمات ) ۔ (بقرہ ۲۵۷)

ترجمہ۔۔۔اورجن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سر پرست سر کشی شیطان ہیں جو ان کو (ایمان کی)روشنی سے نکال کر کفر کی تاریکوں ڈال دیتے ہیں۔

( والذین کفروا------- سریع الحساب------ او کظلمت------ من نور ) ۔ (نور ۳۹ ۔ ۴۰)

ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی کارستانیاں ایسی ہیں جیسے چیٹل میدان کا چمکتا ہو بالو اس کو دور سے تو پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو کچھ بھی نہ پایا ۔ اور (پیاس سے تڑپ کر مر گیا) خدا کو اپنے پاس موجود پایا، اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔ او رخدا تو بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ یا ۔ کافروں (کے اعمال ) کی مثال اس بڑے گہرے دریا جیسی ہے ‘ جیسے ایک لہر کے اوپر دوسری لہر۔ اس کو اس (تہ تہہ ) ڈھانکے ہوئے ہو۔ (غرض) تاریکیاں ہیں کہ ایک کے اوپر ایک (امنڈی) چلی آتی ہیں ۔ اس طرح کہ اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ نکلالے تو( شدت تاریکی سے)اے دیکھ نہ سکے۔ او رجسے خود خدا ہی نے ہدایت کی روشنی نہ دی ہو تو (سمجھ لو کہ ) اس کے لئے کہیں کوئی روشنی نہیں ہے۔

( ان تکفروا ---------------- ولا یرضی لعباده الکفر-------- ) (زمر ۷)

ترجمہ۔ اگر تم نے اس کی ناشکری کی تو (یاد رکھو کہ) خدا تم سے بالکل بے پروا ہے‘ وہ اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں فرماتا،

( وقال موسیٰ---------------------------------- لغنی حمید ) (ابراہیم ۸)

ترجمہ۔ اور موسی علیہ السلامنے اپنی قوم سے)کہ دیا تھا کہ اگر تم اور (تمہارے ساتھ) جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب مل کر خد اکی نافرمانی کر یں تو (خدا کو ذرابھی پرواہ نہیں کیونکہ وہ تو) بالکل بے نیاز اور سزا دار حمد ہے۔

( ومن یکفر بالله ---------------------- ضلا لا مبنیا ) (نساء ۱۳۶)

ترجمہ۔ اور جو شخص خدا ‘ اس کے فرشتوں کی کتابوں ‘ اس کے رسولوں اور روز آخرت کا منکر ہو ا تو وہ راہ راست سے بھٹک کے بہت دور جا پڑا۔

حدیث شریف:

۱۷۶۹۱ ۔ ہر وہ چیز جسے انکار اور علم کے باوجود نافرمانی اپنی طر ف کھینچ لے جائے ،کفر ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۲ ۳۸۷ ء)

۱۷۶۹۲ ۔ کفر کا مطلب ہے‘ ہر وہ معصیت جس کی وجہ سی خد اکی نافرمانی کی جائے‘چاہے وہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے امر میں انکار اور علم کے باوجود نافرمانی ہو، یا اسے سبک سمجھا جائے، یا بے وقعت جانا جائے۔ اس کا انجام دینے والا کافر ہے۔۔۔۔

اگر وہ شخص اپنی خواہشات کی وجہ سے اسے انکار اور سبک سمجھنے کی بناء پر نافرمانی پر اتر آئے تو وہ کافر کہلائے گا۔ لیکن اگر اپنی نفسانی خواہشات کی بناء پر تاویل ، تقلید یا تسلیم و رضا کی بناپر اپنے اسلاف و آباد اجداد کے نقش قدم پرچل کسی چیز کو اپنا دین بنا لے تو وہ شرک ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد اول ۲۴ ء ۔ ۲۵ ء )

۱۷۶۹۳ ۔ نجدا کفر شرک سے زیادہ قدیمی ‘ زیادہ خبیث اور زیادہ سخت ہے۔ (پھرآپ نے اس موقع پر ابلیس کے کفر کا ذکرفرمایا جب خدا نے اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے انکار کر دیا پھر فرمایا) کفر، شرک سے زیادہ سخت ہے کیونکہ جو شخص خد اکی مرضی پر اپنی مرضی کو ترجیح دیتا ہے ‘ اطاعت کا منکر ہو جاتا ہے گناہاں کبیرہ پر ڈٹا رہتا ہے وہ کافر ہے۔ اور جو شخص مئو منین کے معروف دین کے علاوہ از خود نیا دین قائم کرتا ہے، وہ شرک ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۴ ء)

۱۷۶۹۴ ۔ ابن صدقہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسی شخص نے سوال کیا کہ کفر پہلے ہے یا شرک ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:"کفر " شرک سے مقد م ہے، اس لئے کہ ابلیس نے سب سے پہلے کفر کیا۔ اس وقت اس کا کفر ، شرک نہیں تھا کیونکہ اس نے اس وقت غیر اللہ کی عبادت کی طرف دعوت نہیں دی تھی، بلکہ اس نے اس کے بعد غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دی ا ور شرک ہو گیا،

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۶ ء)

۱۷۶۹۵ ۔ موسیٰ بن بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ کفر و شرک میں سے کونسی چیز پہلے اور مقدم ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "تم مجھ سے یہ کیوں پوچھتے ہو؟ کیا اس لئے کہ لوگوں سے اس بارے میں خصومت کرو؟"میں نے عرض کیا:" مجھے ہشام بن سالم نے حکم دیا ہے کہ اس بارے میں آپ سے دریافت کروں!" امام علیہ السلام نے فرمایا: "(کفر شر ک پر) مقدم ہے اور وہ انکار کا نام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کہ ابلیس کے بارے میں فرمایاہے "الا ابلیس ابی وا ستکبر وکان من للکافرین" مگر شیطان نے انکار کر کیا ‘ غرورمیں آگیا اورکافر ہو گیا (بقرہ ۳۴) ۔"

کافی جلد ۲ ۳۸۵ ء۔ مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء اس کتاب میں "ہشام بن سالم" کی جگہ پر"ہشام بن حکم"کا نام ہے۔

۱۷۶۹۶ ۔ ہشیم تمیمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے (مجھ سے) فرمایا: "ہشیم تمیمی! کچھ لوگ ظاہری طورپر تو ایمان لے آئے لیکن باطنی طور پر کافر رہے پس ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ لیکن ان کے بعد کچھ اور لوگ آئے جو باطنی طور پر مومن تھے لیکن ظاہر میں کفر کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا ۔ لہذا ایمان وہی کا رآمد ہے جوظاہر میں باطن کے او ر باطن میں ظاہر کے ہم آہنگ ہو۔

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)

۱۷۶۹۷ ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے:۔۔اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا‘ یہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے اطاعت کر لی تھی‘ او ردلوں میں کفر کو چھپائے رکھا تھا۔ اب جبکہ انہیں یارو مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کر دیا"

البلاغہ مکتوب ۱۶

( ۲) کفر کا موجب بننے والی چیزیں

۱۷۶۹۸ ۔ خداوند عزّو جّل اپنے بندوں پر کچھ فریضے عائد کئے ہیں ۔ پس جو شخص ان فریضوں میں سے کسی ایک کو ترک کر کے اس پر عمل پیرانہ ہو او ر اس کا انکار کر دے تو وہ کافر ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۳ ء)

۱۷۶۹۹ ۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۶ ء)

۱۷۷۰۰ ۔ منصور بن حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شخص حضرت رسول خدا کے بارے میں شک کرے (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا:"وہ کافر ہے! " میں نے پھر سوال کیا: "جو شخص اس کافر کے کفر میں شک کرے کیا وہ بھی کافر ہے" اس پر آپ خاموش ہو گئے۔ میں نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایاتو آپ کے چہرے پر غضب کے آثار نمایاں دیکھے۔

کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء

۱۷۷۰۱ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بائیں طرف اور زرارہ آپ کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ابو بصر آن پہنچے۔ انہوں نے آتے ہی امام علیہ السلام سے پوچھا: "یا ابا عبدعلیہ السلاماللہ ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو خدا کے بارے میں شک کرے؟ "امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابو محمد ! وہ شخص کافر ہے ! "انہوں نے پھر پوچھا: جو شخص رسول خد ا کے بارے میں شک کرے اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟"فرمایا : " وہ بھی کافر ہے! پھر آپ زرارہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کافر اس وقت ہو گا جب وہ ان کا انکار کرے گا"

کافی جلد ۲ ۳۹۹ ء

۱۷۷۰۲ ۔ ہر وہ چیز جسے اقرار و تسلیم اپنی طرف کھینچ کر لے جائے وہ "ایمان " ہے اور ہر وہ چیز جسے انکار اور نافرمانی اپنی طر ف کھینچ کر لے جائے وہ "کفر " ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء)

"اگر خدا کے بندے کسی بات سے جاہل ہوں ‘ اسی حد پر رکے رہیں اور انکار نہ کریں تو کافر نہیں ہوں گے"۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۸ ء)

۱۷۷۰۳ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارے کو دیکھ کر فرمایاتھا کہ یہ میرا رب ہے؟ کے بارے میں فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام رب کے متلاشی تھے او ریہ چیز کفر کی حد تک نہیں جاتی۔ یہ صرف ایک فکر کی حد تک تھی۔

(حضرت امام محمد باقر یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۱۱ ۸۷ ء)

(قول موئف : ملاخطہ ہو : باب "مرتد"" کفر کے موجبات"

نیز: باب"شبہہ" "شبہ کے وقت رک جاؤ)

( ۳) کافر

قرآن مجید:

( والکفرون هم الظٰلمون ) ۔ (بقرہ / ۲۵۴)

ترجمہ۔۔ اور کفر کرنے والے ہی تو ظالم ہوتے ہیں۔

( والله لا یهدی القوم الکٰفرین ) ۔ (بقرہ/ ۲۶۴)

ترجمہ۔۔ اور خدا کافر لوگوں کی ہدایت نہیں فرماتا۔

( ویجحد بٰایٰتنا الاا لکٰفرون ) ۔ (عنکبوت/ ۴۷)

ترجمہ۔۔ اور ہماری آیتوں کا تو بس کافر ہی انکار کرتے ہیں۔

( ویجحد بٰایٰتناالاالظمون ) ۔ (عنکبوت/ ۴۹)

ترجمہ۔۔ اور سرکشوں کے علاوہ ہماری آیتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا۔

( انه لا یفلح الکفرون ) ۔ (مومنون/ ۱۱۷)

ترجمہ۔۔ یقینا کفار ہر گز فلاح پانے والے نہیں۔

( وان جهنم لمحیطته بالکٰفرین ) ۔ (عنکبوت/ ۵۴)

ترجمہ۔۔ اور یقینی بات ہے کہ دوزخ کا فروں کو گھیر ے ہوئے ہے۔

( والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لهم ) ۔ (محمد/ ۱۲)

ترجمہ۔۔ اور جو کافر ہیں وہ دنیا میں چین کرتے ہیں او راس طرح (بے فکری سے) کھاتے (پیتے) ہیں جیسے چار پائے کھاتے (پیتے) ہیں۔ (آخر) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حدیث شریف:

۱۷۷۰۴ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں : "میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سورہ قلم / ۱۳

عتل بعد ذلک زینم " یعنی اور اس کے علاوہ بدذات (حرام زادہ ) بھی ہے‘ کے متعلق سوال کیاکہ اس سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا"عتل سے مراد بہت بڑے کفر کا حامل ہے اور" زینم" سے مراد کفر کا دلدار ہ و فریضتہ ہے۔"

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)

۱۷۷۰۵ ۔ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے بہشت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اے مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۷۰۶ ۔ کافر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ دنیا اس کے لئے بہشت ہوتی ہے، اس کی ساری کوششیں دنیا کے لئے ہوتی ہیں، موت اس کے لئے بد بختی ہوتی ہے او رجہنم اس کی منزل مقصود ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)

۱۷۷۰۷ ۔ کافر دغا باز ،حیلہ گر ، جفا کار اور بددیانت ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۷۰۸ ۔ کافردغاباز پست فطرت ، بددیانت اپنی جہالت کا فریب خوردہ اور نقصان اٹھانے والا ہو تاہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۷۰۹ ۔ کافر کی تمام کوششیں دنیا کے واسطے، اس کی تمام دوڑ دھوپ چند روزہ دینوی امور کے لئے ہو اور اس کی منزل مقصود خواہشات نفسانی کی تکمیل ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۷۷۱۰ ۔ کافر جاہل اور (فاسق و )فاجر ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام ) غرر الحکم

۱۷۷۱۱ ۔ کوئی کافر اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک وہ جاہل نہ ہو، (گویا جہالت ،کفر کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ مترجم)

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

(قول موئف : ملا خطہ ہو باب "امثال" کافر کی مثال"

نیز : باب "موت" "کافر کی موت"

نیز: باب "دنیا" "دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے:"

( ۴) کفر کا کمتر درجہ

۱۷۷۱۲ ۔ کفر کا کمتر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے (مومن )بھائی سے کوئی بات سنے اور اسے اس مقصد کے لئے یاد رکھے کسی موقع پر اسے اس بات کی وجہ سے رسوا کرے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے (دین اسلام میں) کوئی حصہ نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۸ ۲۷۶ ء )

۱۷۷۱۳ ۔ بندہ اس وقت کفر کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ کسی شخص سے دین کے نام پر دوستی کرے او راس کی خطاؤں و نفزشوں کو اس لئے جمع کرتا رہے کہ کسی دن اس کے منہ پر مارے گا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۵ ۲۱۵ ء )

۱۷۷۱۴ ۔ سب سے ادنیٰ بات جس سے انسان کافر ہو جاتا ہے یہ ہے کہ کسی چیز کو بزعم خود دین سمجھ کر اپنا لے خدا کی نہی کو سمجھ لے‘ اپنا نصیب العین قرار دے کر اپنے آپ کو بری اوزمہ سمجھتا رہے اور اسکا گمان یہ ہو کہ خد اکے امر کو امر سمجھ کر اس کی عبادت کر رہا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد اول ۶ ء)

۱۷۷۱۵ ۔ سب سے ادنیٰ بات بندہ جس سے کافر ہو جاتا ہے‘ یہ ہے کہ جس چیز سے خد انے نہی کی ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے دین سمجھ کر اپنا نصب العین قرار دے دیتا ہے اس پر کار بند رہتا ہے اور ا س کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جو عبادت کر رہا ہے، خدانے اس کا حکم دیا ہے ‘ حالانکہ وہ (خداوند رحمن کی نہیں بلکہ) مردود شیطان کی عبادت کر رہا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)کافی جلد ۲ ۴۱۵ ء )

۱۷۷۱۶ ۔ حبیب حکیم کہتے ہیں :"میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا : (کفرو) الحاد کا کمترین درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ تکبر ہے"

(معانی الاخبار ۲۷۵ ء)

۱۷۷۱۷ ۔ یزید صائغ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "ایک شخص کی حالت یہ ہے کہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘ وعدہ کرتا ہے تووعدہ خلافی سے کام لیتا ہے اور اگر امانت اس کے سپرد کی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے ‘ (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا : " کفر کے ادنیٰ مرتبہ میں شمار ہوتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا ۔"

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۶ ء۔ کافی جلد ۲ ۲۹۰ ء)

قول موئف : ملاخطہ ہو باب: "ایمان" "وہ ادنیٰ چیز جس سے انسان دائرہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے‘

نیز : باب "شرک " "ادنیٰ شرک"

نیز: عنوان" بذعت"

( ۵) کفر کے ارکان و ستون

۱۷۷۱۸ ۔ کفر کے چار ستوں نوپر قائم ہے: حد سے بڑھی ہوئی کاوش ، جھگڑا لوپن ،کجروی او راختلاف۔ شخص حوالے جا تعمق و کاوش کرتا ہے وہ حق کی طرف رجوع نہیں کرپاتا ، جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑا کرتا ہے وہ حق سے ہمیشہ نابینا رہتا ہے،حق سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے، گمراہی کے نشے میں مدہوش پڑارہتا ہے۔ اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے لیے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جن میں بچ کر نکلنے کی راہ اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۸ ۱۴۲ ء۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۱)

۱۷۷۱۹ ۔ کفر چار ستونوں پر قائم ہے: فق و فجور‘سرکشی اور شکوک و شبہات ۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۰ ء ۱۲۲ ء ۱۱۷ ء )

کتاب میں ہے: کفر کی بنیاد چار ستونوں پر قائم ہے، فسق ، غلو۔۔۔۔کافی جلد ۲ ۳۹۱ ء

۱۷۷۲۰ ۔ کفر کی بنیاد چار ستونو ں پر قائم ہے: جفا کاری ‘ اندھا پن‘ غفلت اور شک۔ پس جو جفا کرتا ہے وہ حق کو حقیر سمجھتا ہے باطل کو ظاہر کرتا ہے ، علماء کو غضبناک کرتا اور عظیم گناہوں پر مصرا ہتا ہے۔

جو شخص اندھا پن اختیار کر لیتا ہے وہ ذکر (خدا) کو بھول جاتا ہے‘ امیدوں و آرزووں کے دھوکے میں پڑ جاتا ہے‘ حسرت و ندامت و پشیمانی کے گھیرے میں آجاتا ہے اور اس کے لئے خداوند عالم کی طرف سے ایسی باتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

جو شخص خدائی امر میں سر کشی پر اتر آتا ہے تو وہ اس میں شک کرنے لگتا ہے، اور جو اس میں شک کرنے لگتا ہے ‘ خدا کے آگے خم ٹھونک کر آجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا اسے اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے ذلیل و حقیر فرما دیتا ہے۔ اور اپنے جلال و جرت کے ذریعے اسے پست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے خدائی امور میں کوتاہی ہوتی ہے۔ پس وہ اپنے کریم رب کے کرم کی وجہ سے د ھوکہ کھا جاتا ہے۔۔۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۴۴۲۱۶)

۱۷۷۲۱ ۔ نافرمانی کے تین اصول ہیں: حرص ، تکبر اور حسد۔ چناچہ حرص کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام درخت کے قریب جانے سے روکے جانے کے باوجود انہوں نے اس سے کھا لیا تھا، یہ حرص ہی کا شافسانہ تھاکہ آدم علیہ السلام کو اس بات پر آمادہ کیا،تکبر کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا لیکن تکبر نے اسے سجدہ کرنے سے روک دیا۔ تکبر کا شافسانہ تھا کہ اس نے سجدہ سے انکارکیا۔ حسد کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔ یہ حسد کا تھا جس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کیا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء ۱۲۱ ء)

۱۷۷۲۲ ۔ کفر کے ستون چار ہیں: رغبت ،خوف ،ناراضی اور غلیظ و غضب۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء باب ۹۹

نیز :باب "نفاق" "نفاق کے ستون"۔)

نیز : باب "حسد "حسد اور کفر")

( ۶) قرآن مجید میں کفر کی اقسام

۱۷۷۲۳ ۔ ابن عمرو صبری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے قرآن مجید کی رو سے کفر کے اقسام سے آگاہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: "کتاب خد امیں کفر کی پانچ قسمیں بتائی گئی ہیں ، جن میں سے ایک "کفر جحود" ہے او ر"حجود " کی دو صورتیں ہیں‘ ایک تو وہ کہ جن چیزوں کے بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں شرک کیا جائے اور ایک برائت اختیار کر کے کفر کیا جائے۔

دوسری قسم "نعمتوں کا کفر (کفران) نعمت)

پھر"کفر حجود" یہ ہے کہ خدا کی ربوبیت کا انکار کیا جائے، جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ نہ کوئی رب (خدا )ہے او رنہ کوئی جنت و دوزخ ہے۔ یہ قول زندیقوں کی دو قسموں کا ہے جنہیں "دہریہ" کہا جاتا ہے، جو اس بات کے قائل ہیں کہ "وما یھلکنا الا الدھر"یعنی ہم کو تو بس زمانہ ہی مارتا (اور جلاتا)ہے ۔ (جائیہ / ۲۳) ان لوگوں نے اپنے لئے ایک نیا دین گھڑلیا ہے۔ جس کو نہ تو کوئی پہلے سے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی کسی تحقیق پر مبنی ہے اسی لئے خداوند عالم فرماتا ہے " ان ھم الایظنون" (یہ صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں او راسے ہی صحیح سمجھتے ہیں۔)

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خد افرماتا ہے: "ان الذین کفروا سواء علیہم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا ےؤمنون"ان کے لیے برابر ہے (اے رسول خدا ) خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ ۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (بقرہ / ۶) یعنی وہ خدا کی توحید پر ایمان نہیں لائیں گے۔

کفر کی ایک قسم "معرفت کے باوجود انکار " ہے۔ اور وہ یہ ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ کاایک بات حق ہے او راسے اس کے برحق ہونے کا یقین بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کر دیتا ہے جیس کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :"وجد ا بھا وا ستیقنتھا انفسھم ظلما و علوا" اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان (معجزات کی) باتوں کا یقین تھا پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ (غسل/ ۱۴) یہ بھی فرماتا ہے : "وکانو من قبل یستفتحون علی الذین کفروافلما جاء ھم ماعر فو اکفرو بہ فلعنتہ اللہ علی الکفرین" اور اس سے پہلے وہ کافروں پر منتحیاب ہونے کی دعا ئیں مانگتے تھے، پس جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو لگے انکار کرنے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہے(بقرہ/ ۸۹) تو یہ ہے "کفر حجود" کے دونوں اقسام کی تفسیر۔

کفر کی تیسری قسم" کفر نعم" (کفرا ن نعمت) ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی قرآن مجید میں فرماتا ہے: "ھذا من فضل ربی یسلونیء اشکرام اکفرومن شکر فا نما یشکر لنفسہ ومن کفر فان ربی غنی کریم" یہ تو محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے کہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا نا شکری! اور جوکوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے شکر کرتا ہے ، وہ جو ناشکری کرتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) میرا پروردگار یقینا بے پروا اور سخی ہے (غل/ ۴۰) ایک او رمقام پر فرماتا ہے : "( لئن شکر تم لا زیدنکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید ) ۔" اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تم پر (نعمتوں کا) اضافہ کروں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (ابراہیم/ ۷) نیز فرماتا ہے"فاذ کرونی اذ کر کم واشکر والی ولا تکفرون" پس تم مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا، میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو(بقرہ/ ۱۵۲) یہ ہے کفر ان نعمت یا نعمتوں کی نا شکری۔

کفر کی چوتھی صورت یہ ہے کہ خد اکا حکم کردہ چیزوں کو ترک کر دیا جائے جیسا کہ خد اوند عالم فرماتا ہے:"( واذ اخذ میثاقکم---------------- فما جزاء من یفصل ذٰلک منکم ) اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریریاں نہ کرنا نہ اپنے لوگوں کو شہر بدر کرنا ، تو تم نے ( میثاق کا) اقرار کیا تھا اور تم اس بات کی گواہی بھی دیتے ہو۔ پھر تم وہی لوگ تو ہو جو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو۔ او راپنوں میں سے ایک گروہ کے ناحق و زبردستی حمایتی بن کر دوسرے کو شہر بدر کرتے ہو۔

پھر اگر وہی لوگ قیدی بن کر تمہارے پاس(مدد مانگنے) آئیں تو ان کو تاوان دے کر چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام کیا گیاتھا۔ تم کتاب خد اکی بعض باتوں پر ایمان رکھتے ہو او ربعض سے انکار کرتے ہو؟۔۔۔۔(بقرہ/ ۸۵) ا س آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے انہیں امر کردہ چیزوں کے ترک کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے۔ ان کو ایمان کی طرف تو منسوب کیا لیکن ان سے اس قسم کے ایمان کو قبول نہیں فرمایانہ ہی اس قسم کا ایمان انہیں کوئی فائد ہ دیتا ہے ، اس لئے تو فرمایا ہے( :"فما جز ا من یفصل ---- عما تعملون ) پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ زندگی بھر کی رسوائی ہو‘ پھر (آخر کار ) قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی طرف لوٹا دےئے جائیں، اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے۔ (بقرہ/ ۸۵)

کفر کی پانچویں قسم "کفر برائت" ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی یبان فرمایا ہے :( کفرنا بکم … بالله وحده ) ہمارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی پیدا ہو گئی ہے جب تک تم یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ (متحنہ/ ۴) یہاں پر"کفر نا" سے مراد "بہترانا" ہے یعنی ہم تم سے الگ اور جدا ہیں۔

ایک اور مقام پر قیامت کے دن ابلیس او راس کے انسانی دوستوں سے "تبرا" و "بیزاری" کر ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:( انی کفرت بما اشر کتمون من قبل ) میں اس سے پہلے ہی بیزار ہوں کہ تم نے مجھے خدا کا شریک بنایا (ابراہیم/ ۲۲) نیز اسی سلسلے میں فرماتا ہے: "( وقال انما اتخذ تم من دون الله او ثانا---- ویلعن بعضکم بعضا ) اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: تم لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو صرف دینوی زندگی میں باہم محبت کرنے کی وجہ سے (خدا ) بنا رکھا ہے، پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کا انکار کرے گا بزاری اختیار لگا اور ایک دوسرے پر لعنت لگا (عنکبوت/ ۲۵) ۔ یہاں "یکفر" کے معنی ہیں"یتبر" (بزاری اور تبرا کرفا)۔

اصول کافی جلد ۲ ص ۳۸۹ تا ۳۹۱

(قول موئف: ملا خطہ ہو: مجار الانوار جلد ۹۳ ص ۲۱ جلد ۷۲ ص ۱۰۰ مستدرک الوسائل جلد ۱ ص ۵ ۔

فصل ۔ ۳۶

( ۱) کفّارہ

۱۷۷۲۴ ۔ تین چیزیں (گناہوں کا) کفارہ ہوا کرتی ہیں ۱ ۔ اسلام کا عام کرنا ۲ ۔ (لوگوں کو) کھانا کھلانا اور ۳ ۔ جب لوگ رات کو محورام ہوں تو نماز تہجد کا ادا کرنا۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۵۲)

۱۷۷۲۵ ۔ صاحبان۔ اقتدار کے اقتدار کا کفارہ ، بھائیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہے۔

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ص ۲۰۶)

۱۷۷۲۶ ۔ مظلوم کی داد رسی اور ستمر رسیدہ سے ظلم کا دفعیہ بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن الحدید جلد ۱۸ ص ۱۳۵)

صفحہ نمبر ۳۵۱ اور ۳۵۲ ؟

۱۷۷۲۷ ۔ انسان کا اپنے اہل وعیال کی خدمت کو عیب نہ سمجھنا اس کے گناہان کبیرہ کا کفارہ ہوتا ہے اور رب العالمین کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۱۳۲)

۱۷۷۲۸ ۔ کسی کی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کے لئے طلبِ مغفرت کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳

۱۷۷۲۹ ۔ حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کسی کی غیبت کا کفارہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم نے جس انداز میں اس کی غیبت کی ہے اسی انداز میں اس کے لئے طلب مغفرت کرو"

۱۷۷۳۰ ۔ جو کسی پر ظلم کرے اور اس کی تلافی کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے طلب مغفرت کرے یہی اس بات کا کفارہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳

۱۷۷۳۱ ۔ موت مومنین کے لئے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۲ جلد ۱۷۸ ، جلد ۶ ص ۱۵۱

۱۷۷۳۲ ۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کرنا گناہوں کے کفارہ میں شمار ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجارالانوار جلد ۸۳ ص ۳۷۰

۱۷۷۳۳ ۔ موذن کی اذان (کے جملوں) کا جواب دینا گناہوں کا کفارہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۸۴ ص ۲۸۳

۱۷۷۳۴ ۔ جو شخص (نماز) مغرب کے لئے وضو کرتا ہے تو اس کی یہ وضو اس کے لئے اس رات کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے، سوائے گناہان کبیرہ کے۔

(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۸۰ ص ۲۳۱

۱۷۷۳۵ ۔ ایک رات کا بخار (گناہوں کا) کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۱ ص ۱۸۶

۱۷۷۳۶ ۔ صاحبانِ اقتدار کے کاموں کا کفارہ بھائیوں کی حاجت روائی ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۷

۱۷۷۳۷ ۔ ہنسنے کا کفارہ یہ ہے کہ یوں دعا مانگی جائے "اللھم لا تمقتنی" خدایا! مجھ سے ناراض نہ ہونا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴

۱۷۷۳۸ ۔ بدشگونی کا کفارہ یہ ہے کہ خدا پر توکل (کرکے کام کو انجام دے دیا) جائے۔

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴

۱۷۷۳۹ ۔ ابو برزہ اسلمی کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مجلس (یا محفل) سے اٹھنے کا ارادہ کرتے تو آخر میں یہی کہتے "( سبحانک اللهم… ) خدایا تو پاک و منزہ ہے اور میں تیری حمد کرتا ہوں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تجھ سے ہی مغفرت طلب کرتا ہوں، اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔

اس پر کسی شخص نے عرض کیا: "آپ نے ایسی بات کہی ہے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی!" آپ نے فرمایا: "یہ بات مجلس (یا محفل) کا کفارہ ہوتی ہے۔"

سنن الجاداود جلد ۴ ص ۲۶۵

۱۷۷۴۰ ۔ مجالسِ کا کفارہ یہ ہے کہ اٹھتے وقت کہو،"سبحان ربک العزة عما یصغون وسلام علی المرسلین و الحمدلله رب العالمین

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۵ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۸

۱۷۷۴۱ ۔ گناہ کا کفارہ اس پر ندامت و پشیمانی ہے،

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد ابن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

۱۷۷۴۲ ۔ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے یہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے ترمذی اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "مجلس"، "اٹھتے وقت خدا کی یاد"

۱۷۷۴۳ ۔ مسلمان کو جو بیماری یا تکلیف ہوتی ہے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۷۴۴ ۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کی بجاآوری،خطاؤں کا کفارہ ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

( ۲) ایسا گناہ جس کا کوئی کفارہ نہیں

قرآن مجید

( ومن عاد فینتهم الله منه والله عزیز ذوانتقام ) ۔ (مائدہ/ ۹۰)

ترجمہ۔ اور جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اس کی سزا دے گا، اور خدا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔

حدیث شریف

۱۷۷۴۵ ۔ حلبی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو احرام کی حالت میں شکار کرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ ہے" راوی کہتا ہے کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ نہیں ہے بلکہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے: "( ومن عاد فینتقم الله منه… ) " یعنی جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اسے سزا دے گا

وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۵

۱۷۷۴۶ ۔ جب کوئی شخص احرام کی حالت میں غلطی سے شکار کرے تو اس پر اس کا کفارہ ہے۔ اگر دوسری مرتبہ بھی غلطی سے شکار کرے پھر بھی اس پر کفارہ ہو گا۔ اسی طرح جتنی مرتبہ غلطی سے شکار کرتا رہے گا اس پر کفارہ ہوتا رہے گا لیکن اگر جان بوکھ کر پہلی مرتبہ شکار کرے گا تو اس پر کفارہ ہو گا۔ جب دوسری بار جان بوجھ کر شکار کرے گا تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جنہیں خدا سزا دے گا اور یہ سزا آخرت میں ہو گی۔ لہٰذا اس کفارہ اسی لئے نہیں ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴ باب ۴۸

نیز: باب "گناہ"، "جو گناہ ناقابل بخشش ہیں")