میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)7%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58931 / ڈاؤنلوڈ: 6922
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

فصل ۔ ۳۵

کفر

( ۱) کفر شرک سے بہت پہلے ہے

قرآن مجید:

( والذین کفروا اولیائهم--------------------------------الی الظلمات ) ۔ (بقرہ ۲۵۷)

ترجمہ۔۔۔اورجن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سر پرست سر کشی شیطان ہیں جو ان کو (ایمان کی)روشنی سے نکال کر کفر کی تاریکوں ڈال دیتے ہیں۔

( والذین کفروا------- سریع الحساب------ او کظلمت------ من نور ) ۔ (نور ۳۹ ۔ ۴۰)

ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی کارستانیاں ایسی ہیں جیسے چیٹل میدان کا چمکتا ہو بالو اس کو دور سے تو پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو کچھ بھی نہ پایا ۔ اور (پیاس سے تڑپ کر مر گیا) خدا کو اپنے پاس موجود پایا، اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔ او رخدا تو بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ یا ۔ کافروں (کے اعمال ) کی مثال اس بڑے گہرے دریا جیسی ہے ‘ جیسے ایک لہر کے اوپر دوسری لہر۔ اس کو اس (تہ تہہ ) ڈھانکے ہوئے ہو۔ (غرض) تاریکیاں ہیں کہ ایک کے اوپر ایک (امنڈی) چلی آتی ہیں ۔ اس طرح کہ اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ نکلالے تو( شدت تاریکی سے)اے دیکھ نہ سکے۔ او رجسے خود خدا ہی نے ہدایت کی روشنی نہ دی ہو تو (سمجھ لو کہ ) اس کے لئے کہیں کوئی روشنی نہیں ہے۔

( ان تکفروا ---------------- ولا یرضی لعباده الکفر-------- ) (زمر ۷)

ترجمہ۔ اگر تم نے اس کی ناشکری کی تو (یاد رکھو کہ) خدا تم سے بالکل بے پروا ہے‘ وہ اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں فرماتا،

( وقال موسیٰ---------------------------------- لغنی حمید ) (ابراہیم ۸)

ترجمہ۔ اور موسی علیہ السلامنے اپنی قوم سے)کہ دیا تھا کہ اگر تم اور (تمہارے ساتھ) جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب مل کر خد اکی نافرمانی کر یں تو (خدا کو ذرابھی پرواہ نہیں کیونکہ وہ تو) بالکل بے نیاز اور سزا دار حمد ہے۔

( ومن یکفر بالله ---------------------- ضلا لا مبنیا ) (نساء ۱۳۶)

ترجمہ۔ اور جو شخص خدا ‘ اس کے فرشتوں کی کتابوں ‘ اس کے رسولوں اور روز آخرت کا منکر ہو ا تو وہ راہ راست سے بھٹک کے بہت دور جا پڑا۔

حدیث شریف:

۱۷۶۹۱ ۔ ہر وہ چیز جسے انکار اور علم کے باوجود نافرمانی اپنی طر ف کھینچ لے جائے ،کفر ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۲ ۳۸۷ ء)

۱۷۶۹۲ ۔ کفر کا مطلب ہے‘ ہر وہ معصیت جس کی وجہ سی خد اکی نافرمانی کی جائے‘چاہے وہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے امر میں انکار اور علم کے باوجود نافرمانی ہو، یا اسے سبک سمجھا جائے، یا بے وقعت جانا جائے۔ اس کا انجام دینے والا کافر ہے۔۔۔۔

اگر وہ شخص اپنی خواہشات کی وجہ سے اسے انکار اور سبک سمجھنے کی بناء پر نافرمانی پر اتر آئے تو وہ کافر کہلائے گا۔ لیکن اگر اپنی نفسانی خواہشات کی بناء پر تاویل ، تقلید یا تسلیم و رضا کی بناپر اپنے اسلاف و آباد اجداد کے نقش قدم پرچل کسی چیز کو اپنا دین بنا لے تو وہ شرک ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد اول ۲۴ ء ۔ ۲۵ ء )

۱۷۶۹۳ ۔ نجدا کفر شرک سے زیادہ قدیمی ‘ زیادہ خبیث اور زیادہ سخت ہے۔ (پھرآپ نے اس موقع پر ابلیس کے کفر کا ذکرفرمایا جب خدا نے اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے انکار کر دیا پھر فرمایا) کفر، شرک سے زیادہ سخت ہے کیونکہ جو شخص خد اکی مرضی پر اپنی مرضی کو ترجیح دیتا ہے ‘ اطاعت کا منکر ہو جاتا ہے گناہاں کبیرہ پر ڈٹا رہتا ہے وہ کافر ہے۔ اور جو شخص مئو منین کے معروف دین کے علاوہ از خود نیا دین قائم کرتا ہے، وہ شرک ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۴ ء)

۱۷۶۹۴ ۔ ابن صدقہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسی شخص نے سوال کیا کہ کفر پہلے ہے یا شرک ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:"کفر " شرک سے مقد م ہے، اس لئے کہ ابلیس نے سب سے پہلے کفر کیا۔ اس وقت اس کا کفر ، شرک نہیں تھا کیونکہ اس نے اس وقت غیر اللہ کی عبادت کی طرف دعوت نہیں دی تھی، بلکہ اس نے اس کے بعد غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دی ا ور شرک ہو گیا،

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۶ ء)

۱۷۶۹۵ ۔ موسیٰ بن بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ کفر و شرک میں سے کونسی چیز پہلے اور مقدم ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "تم مجھ سے یہ کیوں پوچھتے ہو؟ کیا اس لئے کہ لوگوں سے اس بارے میں خصومت کرو؟"میں نے عرض کیا:" مجھے ہشام بن سالم نے حکم دیا ہے کہ اس بارے میں آپ سے دریافت کروں!" امام علیہ السلام نے فرمایا: "(کفر شر ک پر) مقدم ہے اور وہ انکار کا نام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کہ ابلیس کے بارے میں فرمایاہے "الا ابلیس ابی وا ستکبر وکان من للکافرین" مگر شیطان نے انکار کر کیا ‘ غرورمیں آگیا اورکافر ہو گیا (بقرہ ۳۴) ۔"

کافی جلد ۲ ۳۸۵ ء۔ مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء اس کتاب میں "ہشام بن سالم" کی جگہ پر"ہشام بن حکم"کا نام ہے۔

۱۷۶۹۶ ۔ ہشیم تمیمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے (مجھ سے) فرمایا: "ہشیم تمیمی! کچھ لوگ ظاہری طورپر تو ایمان لے آئے لیکن باطنی طور پر کافر رہے پس ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ لیکن ان کے بعد کچھ اور لوگ آئے جو باطنی طور پر مومن تھے لیکن ظاہر میں کفر کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا ۔ لہذا ایمان وہی کا رآمد ہے جوظاہر میں باطن کے او ر باطن میں ظاہر کے ہم آہنگ ہو۔

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)

۱۷۶۹۷ ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے:۔۔اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا‘ یہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے اطاعت کر لی تھی‘ او ردلوں میں کفر کو چھپائے رکھا تھا۔ اب جبکہ انہیں یارو مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کر دیا"

البلاغہ مکتوب ۱۶

( ۲) کفر کا موجب بننے والی چیزیں

۱۷۶۹۸ ۔ خداوند عزّو جّل اپنے بندوں پر کچھ فریضے عائد کئے ہیں ۔ پس جو شخص ان فریضوں میں سے کسی ایک کو ترک کر کے اس پر عمل پیرانہ ہو او ر اس کا انکار کر دے تو وہ کافر ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۳ ء)

۱۷۶۹۹ ۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۶ ء)

۱۷۷۰۰ ۔ منصور بن حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شخص حضرت رسول خدا کے بارے میں شک کرے (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا:"وہ کافر ہے! " میں نے پھر سوال کیا: "جو شخص اس کافر کے کفر میں شک کرے کیا وہ بھی کافر ہے" اس پر آپ خاموش ہو گئے۔ میں نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایاتو آپ کے چہرے پر غضب کے آثار نمایاں دیکھے۔

کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء

۱۷۷۰۱ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بائیں طرف اور زرارہ آپ کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ابو بصر آن پہنچے۔ انہوں نے آتے ہی امام علیہ السلام سے پوچھا: "یا ابا عبدعلیہ السلاماللہ ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو خدا کے بارے میں شک کرے؟ "امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابو محمد ! وہ شخص کافر ہے ! "انہوں نے پھر پوچھا: جو شخص رسول خد ا کے بارے میں شک کرے اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟"فرمایا : " وہ بھی کافر ہے! پھر آپ زرارہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کافر اس وقت ہو گا جب وہ ان کا انکار کرے گا"

کافی جلد ۲ ۳۹۹ ء

۱۷۷۰۲ ۔ ہر وہ چیز جسے اقرار و تسلیم اپنی طرف کھینچ کر لے جائے وہ "ایمان " ہے اور ہر وہ چیز جسے انکار اور نافرمانی اپنی طر ف کھینچ کر لے جائے وہ "کفر " ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء)

"اگر خدا کے بندے کسی بات سے جاہل ہوں ‘ اسی حد پر رکے رہیں اور انکار نہ کریں تو کافر نہیں ہوں گے"۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۸ ء)

۱۷۷۰۳ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارے کو دیکھ کر فرمایاتھا کہ یہ میرا رب ہے؟ کے بارے میں فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام رب کے متلاشی تھے او ریہ چیز کفر کی حد تک نہیں جاتی۔ یہ صرف ایک فکر کی حد تک تھی۔

(حضرت امام محمد باقر یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۱۱ ۸۷ ء)

(قول موئف : ملاخطہ ہو : باب "مرتد"" کفر کے موجبات"

نیز: باب"شبہہ" "شبہ کے وقت رک جاؤ)

( ۳) کافر

قرآن مجید:

( والکفرون هم الظٰلمون ) ۔ (بقرہ / ۲۵۴)

ترجمہ۔۔ اور کفر کرنے والے ہی تو ظالم ہوتے ہیں۔

( والله لا یهدی القوم الکٰفرین ) ۔ (بقرہ/ ۲۶۴)

ترجمہ۔۔ اور خدا کافر لوگوں کی ہدایت نہیں فرماتا۔

( ویجحد بٰایٰتنا الاا لکٰفرون ) ۔ (عنکبوت/ ۴۷)

ترجمہ۔۔ اور ہماری آیتوں کا تو بس کافر ہی انکار کرتے ہیں۔

( ویجحد بٰایٰتناالاالظمون ) ۔ (عنکبوت/ ۴۹)

ترجمہ۔۔ اور سرکشوں کے علاوہ ہماری آیتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا۔

( انه لا یفلح الکفرون ) ۔ (مومنون/ ۱۱۷)

ترجمہ۔۔ یقینا کفار ہر گز فلاح پانے والے نہیں۔

( وان جهنم لمحیطته بالکٰفرین ) ۔ (عنکبوت/ ۵۴)

ترجمہ۔۔ اور یقینی بات ہے کہ دوزخ کا فروں کو گھیر ے ہوئے ہے۔

( والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لهم ) ۔ (محمد/ ۱۲)

ترجمہ۔۔ اور جو کافر ہیں وہ دنیا میں چین کرتے ہیں او راس طرح (بے فکری سے) کھاتے (پیتے) ہیں جیسے چار پائے کھاتے (پیتے) ہیں۔ (آخر) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حدیث شریف:

۱۷۷۰۴ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں : "میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سورہ قلم / ۱۳

عتل بعد ذلک زینم " یعنی اور اس کے علاوہ بدذات (حرام زادہ ) بھی ہے‘ کے متعلق سوال کیاکہ اس سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا"عتل سے مراد بہت بڑے کفر کا حامل ہے اور" زینم" سے مراد کفر کا دلدار ہ و فریضتہ ہے۔"

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)

۱۷۷۰۵ ۔ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے بہشت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اے مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۷۰۶ ۔ کافر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ دنیا اس کے لئے بہشت ہوتی ہے، اس کی ساری کوششیں دنیا کے لئے ہوتی ہیں، موت اس کے لئے بد بختی ہوتی ہے او رجہنم اس کی منزل مقصود ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)

۱۷۷۰۷ ۔ کافر دغا باز ،حیلہ گر ، جفا کار اور بددیانت ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۷۰۸ ۔ کافردغاباز پست فطرت ، بددیانت اپنی جہالت کا فریب خوردہ اور نقصان اٹھانے والا ہو تاہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)

۱۷۷۰۹ ۔ کافر کی تمام کوششیں دنیا کے واسطے، اس کی تمام دوڑ دھوپ چند روزہ دینوی امور کے لئے ہو اور اس کی منزل مقصود خواہشات نفسانی کی تکمیل ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۷۷۱۰ ۔ کافر جاہل اور (فاسق و )فاجر ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام ) غرر الحکم

۱۷۷۱۱ ۔ کوئی کافر اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک وہ جاہل نہ ہو، (گویا جہالت ،کفر کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ مترجم)

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

(قول موئف : ملا خطہ ہو باب "امثال" کافر کی مثال"

نیز : باب "موت" "کافر کی موت"

نیز: باب "دنیا" "دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے:"

( ۴) کفر کا کمتر درجہ

۱۷۷۱۲ ۔ کفر کا کمتر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے (مومن )بھائی سے کوئی بات سنے اور اسے اس مقصد کے لئے یاد رکھے کسی موقع پر اسے اس بات کی وجہ سے رسوا کرے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے (دین اسلام میں) کوئی حصہ نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۸ ۲۷۶ ء )

۱۷۷۱۳ ۔ بندہ اس وقت کفر کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ کسی شخص سے دین کے نام پر دوستی کرے او راس کی خطاؤں و نفزشوں کو اس لئے جمع کرتا رہے کہ کسی دن اس کے منہ پر مارے گا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۵ ۲۱۵ ء )

۱۷۷۱۴ ۔ سب سے ادنیٰ بات جس سے انسان کافر ہو جاتا ہے یہ ہے کہ کسی چیز کو بزعم خود دین سمجھ کر اپنا لے خدا کی نہی کو سمجھ لے‘ اپنا نصیب العین قرار دے کر اپنے آپ کو بری اوزمہ سمجھتا رہے اور اسکا گمان یہ ہو کہ خد اکے امر کو امر سمجھ کر اس کی عبادت کر رہا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد اول ۶ ء)

۱۷۷۱۵ ۔ سب سے ادنیٰ بات بندہ جس سے کافر ہو جاتا ہے‘ یہ ہے کہ جس چیز سے خد انے نہی کی ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے دین سمجھ کر اپنا نصب العین قرار دے دیتا ہے اس پر کار بند رہتا ہے اور ا س کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جو عبادت کر رہا ہے، خدانے اس کا حکم دیا ہے ‘ حالانکہ وہ (خداوند رحمن کی نہیں بلکہ) مردود شیطان کی عبادت کر رہا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)کافی جلد ۲ ۴۱۵ ء )

۱۷۷۱۶ ۔ حبیب حکیم کہتے ہیں :"میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا : (کفرو) الحاد کا کمترین درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ تکبر ہے"

(معانی الاخبار ۲۷۵ ء)

۱۷۷۱۷ ۔ یزید صائغ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "ایک شخص کی حالت یہ ہے کہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘ وعدہ کرتا ہے تووعدہ خلافی سے کام لیتا ہے اور اگر امانت اس کے سپرد کی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے ‘ (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا : " کفر کے ادنیٰ مرتبہ میں شمار ہوتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا ۔"

(مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۶ ء۔ کافی جلد ۲ ۲۹۰ ء)

قول موئف : ملاخطہ ہو باب: "ایمان" "وہ ادنیٰ چیز جس سے انسان دائرہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے‘

نیز : باب "شرک " "ادنیٰ شرک"

نیز: عنوان" بذعت"

( ۵) کفر کے ارکان و ستون

۱۷۷۱۸ ۔ کفر کے چار ستوں نوپر قائم ہے: حد سے بڑھی ہوئی کاوش ، جھگڑا لوپن ،کجروی او راختلاف۔ شخص حوالے جا تعمق و کاوش کرتا ہے وہ حق کی طرف رجوع نہیں کرپاتا ، جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑا کرتا ہے وہ حق سے ہمیشہ نابینا رہتا ہے،حق سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے، گمراہی کے نشے میں مدہوش پڑارہتا ہے۔ اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے لیے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جن میں بچ کر نکلنے کی راہ اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام)شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۸ ۱۴۲ ء۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۱)

۱۷۷۱۹ ۔ کفر چار ستونوں پر قائم ہے: فق و فجور‘سرکشی اور شکوک و شبہات ۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۰ ء ۱۲۲ ء ۱۱۷ ء )

کتاب میں ہے: کفر کی بنیاد چار ستونوں پر قائم ہے، فسق ، غلو۔۔۔۔کافی جلد ۲ ۳۹۱ ء

۱۷۷۲۰ ۔ کفر کی بنیاد چار ستونو ں پر قائم ہے: جفا کاری ‘ اندھا پن‘ غفلت اور شک۔ پس جو جفا کرتا ہے وہ حق کو حقیر سمجھتا ہے باطل کو ظاہر کرتا ہے ، علماء کو غضبناک کرتا اور عظیم گناہوں پر مصرا ہتا ہے۔

جو شخص اندھا پن اختیار کر لیتا ہے وہ ذکر (خدا) کو بھول جاتا ہے‘ امیدوں و آرزووں کے دھوکے میں پڑ جاتا ہے‘ حسرت و ندامت و پشیمانی کے گھیرے میں آجاتا ہے اور اس کے لئے خداوند عالم کی طرف سے ایسی باتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

جو شخص خدائی امر میں سر کشی پر اتر آتا ہے تو وہ اس میں شک کرنے لگتا ہے، اور جو اس میں شک کرنے لگتا ہے ‘ خدا کے آگے خم ٹھونک کر آجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا اسے اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے ذلیل و حقیر فرما دیتا ہے۔ اور اپنے جلال و جرت کے ذریعے اسے پست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے خدائی امور میں کوتاہی ہوتی ہے۔ پس وہ اپنے کریم رب کے کرم کی وجہ سے د ھوکہ کھا جاتا ہے۔۔۔

(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۴۴۲۱۶)

۱۷۷۲۱ ۔ نافرمانی کے تین اصول ہیں: حرص ، تکبر اور حسد۔ چناچہ حرص کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام درخت کے قریب جانے سے روکے جانے کے باوجود انہوں نے اس سے کھا لیا تھا، یہ حرص ہی کا شافسانہ تھاکہ آدم علیہ السلام کو اس بات پر آمادہ کیا،تکبر کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا لیکن تکبر نے اسے سجدہ کرنے سے روک دیا۔ تکبر کا شافسانہ تھا کہ اس نے سجدہ سے انکارکیا۔ حسد کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔ یہ حسد کا تھا جس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کیا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء ۱۲۱ ء)

۱۷۷۲۲ ۔ کفر کے ستون چار ہیں: رغبت ،خوف ،ناراضی اور غلیظ و غضب۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء باب ۹۹

نیز :باب "نفاق" "نفاق کے ستون"۔)

نیز : باب "حسد "حسد اور کفر")

( ۶) قرآن مجید میں کفر کی اقسام

۱۷۷۲۳ ۔ ابن عمرو صبری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے قرآن مجید کی رو سے کفر کے اقسام سے آگاہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: "کتاب خد امیں کفر کی پانچ قسمیں بتائی گئی ہیں ، جن میں سے ایک "کفر جحود" ہے او ر"حجود " کی دو صورتیں ہیں‘ ایک تو وہ کہ جن چیزوں کے بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں شرک کیا جائے اور ایک برائت اختیار کر کے کفر کیا جائے۔

دوسری قسم "نعمتوں کا کفر (کفران) نعمت)

پھر"کفر حجود" یہ ہے کہ خدا کی ربوبیت کا انکار کیا جائے، جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ نہ کوئی رب (خدا )ہے او رنہ کوئی جنت و دوزخ ہے۔ یہ قول زندیقوں کی دو قسموں کا ہے جنہیں "دہریہ" کہا جاتا ہے، جو اس بات کے قائل ہیں کہ "وما یھلکنا الا الدھر"یعنی ہم کو تو بس زمانہ ہی مارتا (اور جلاتا)ہے ۔ (جائیہ / ۲۳) ان لوگوں نے اپنے لئے ایک نیا دین گھڑلیا ہے۔ جس کو نہ تو کوئی پہلے سے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی کسی تحقیق پر مبنی ہے اسی لئے خداوند عالم فرماتا ہے " ان ھم الایظنون" (یہ صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں او راسے ہی صحیح سمجھتے ہیں۔)

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خد افرماتا ہے: "ان الذین کفروا سواء علیہم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا ےؤمنون"ان کے لیے برابر ہے (اے رسول خدا ) خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ ۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (بقرہ / ۶) یعنی وہ خدا کی توحید پر ایمان نہیں لائیں گے۔

کفر کی ایک قسم "معرفت کے باوجود انکار " ہے۔ اور وہ یہ ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ کاایک بات حق ہے او راسے اس کے برحق ہونے کا یقین بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کر دیتا ہے جیس کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :"وجد ا بھا وا ستیقنتھا انفسھم ظلما و علوا" اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان (معجزات کی) باتوں کا یقین تھا پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ (غسل/ ۱۴) یہ بھی فرماتا ہے : "وکانو من قبل یستفتحون علی الذین کفروافلما جاء ھم ماعر فو اکفرو بہ فلعنتہ اللہ علی الکفرین" اور اس سے پہلے وہ کافروں پر منتحیاب ہونے کی دعا ئیں مانگتے تھے، پس جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو لگے انکار کرنے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہے(بقرہ/ ۸۹) تو یہ ہے "کفر حجود" کے دونوں اقسام کی تفسیر۔

کفر کی تیسری قسم" کفر نعم" (کفرا ن نعمت) ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی قرآن مجید میں فرماتا ہے: "ھذا من فضل ربی یسلونیء اشکرام اکفرومن شکر فا نما یشکر لنفسہ ومن کفر فان ربی غنی کریم" یہ تو محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے کہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا نا شکری! اور جوکوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے شکر کرتا ہے ، وہ جو ناشکری کرتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) میرا پروردگار یقینا بے پروا اور سخی ہے (غل/ ۴۰) ایک او رمقام پر فرماتا ہے : "( لئن شکر تم لا زیدنکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید ) ۔" اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تم پر (نعمتوں کا) اضافہ کروں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (ابراہیم/ ۷) نیز فرماتا ہے"فاذ کرونی اذ کر کم واشکر والی ولا تکفرون" پس تم مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا، میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو(بقرہ/ ۱۵۲) یہ ہے کفر ان نعمت یا نعمتوں کی نا شکری۔

کفر کی چوتھی صورت یہ ہے کہ خد اکا حکم کردہ چیزوں کو ترک کر دیا جائے جیسا کہ خد اوند عالم فرماتا ہے:"( واذ اخذ میثاقکم---------------- فما جزاء من یفصل ذٰلک منکم ) اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریریاں نہ کرنا نہ اپنے لوگوں کو شہر بدر کرنا ، تو تم نے ( میثاق کا) اقرار کیا تھا اور تم اس بات کی گواہی بھی دیتے ہو۔ پھر تم وہی لوگ تو ہو جو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو۔ او راپنوں میں سے ایک گروہ کے ناحق و زبردستی حمایتی بن کر دوسرے کو شہر بدر کرتے ہو۔

پھر اگر وہی لوگ قیدی بن کر تمہارے پاس(مدد مانگنے) آئیں تو ان کو تاوان دے کر چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام کیا گیاتھا۔ تم کتاب خد اکی بعض باتوں پر ایمان رکھتے ہو او ربعض سے انکار کرتے ہو؟۔۔۔۔(بقرہ/ ۸۵) ا س آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے انہیں امر کردہ چیزوں کے ترک کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے۔ ان کو ایمان کی طرف تو منسوب کیا لیکن ان سے اس قسم کے ایمان کو قبول نہیں فرمایانہ ہی اس قسم کا ایمان انہیں کوئی فائد ہ دیتا ہے ، اس لئے تو فرمایا ہے( :"فما جز ا من یفصل ---- عما تعملون ) پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ زندگی بھر کی رسوائی ہو‘ پھر (آخر کار ) قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی طرف لوٹا دےئے جائیں، اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے۔ (بقرہ/ ۸۵)

کفر کی پانچویں قسم "کفر برائت" ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی یبان فرمایا ہے :( کفرنا بکم … بالله وحده ) ہمارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی پیدا ہو گئی ہے جب تک تم یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ (متحنہ/ ۴) یہاں پر"کفر نا" سے مراد "بہترانا" ہے یعنی ہم تم سے الگ اور جدا ہیں۔

ایک اور مقام پر قیامت کے دن ابلیس او راس کے انسانی دوستوں سے "تبرا" و "بیزاری" کر ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:( انی کفرت بما اشر کتمون من قبل ) میں اس سے پہلے ہی بیزار ہوں کہ تم نے مجھے خدا کا شریک بنایا (ابراہیم/ ۲۲) نیز اسی سلسلے میں فرماتا ہے: "( وقال انما اتخذ تم من دون الله او ثانا---- ویلعن بعضکم بعضا ) اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: تم لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو صرف دینوی زندگی میں باہم محبت کرنے کی وجہ سے (خدا ) بنا رکھا ہے، پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کا انکار کرے گا بزاری اختیار لگا اور ایک دوسرے پر لعنت لگا (عنکبوت/ ۲۵) ۔ یہاں "یکفر" کے معنی ہیں"یتبر" (بزاری اور تبرا کرفا)۔

اصول کافی جلد ۲ ص ۳۸۹ تا ۳۹۱

(قول موئف: ملا خطہ ہو: مجار الانوار جلد ۹۳ ص ۲۱ جلد ۷۲ ص ۱۰۰ مستدرک الوسائل جلد ۱ ص ۵ ۔

فصل ۔ ۳۶

( ۱) کفّارہ

۱۷۷۲۴ ۔ تین چیزیں (گناہوں کا) کفارہ ہوا کرتی ہیں ۱ ۔ اسلام کا عام کرنا ۲ ۔ (لوگوں کو) کھانا کھلانا اور ۳ ۔ جب لوگ رات کو محورام ہوں تو نماز تہجد کا ادا کرنا۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۵۲)

۱۷۷۲۵ ۔ صاحبان۔ اقتدار کے اقتدار کا کفارہ ، بھائیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہے۔

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ص ۲۰۶)

۱۷۷۲۶ ۔ مظلوم کی داد رسی اور ستمر رسیدہ سے ظلم کا دفعیہ بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن الحدید جلد ۱۸ ص ۱۳۵)

صفحہ نمبر ۳۵۱ اور ۳۵۲ ؟

۱۷۷۲۷ ۔ انسان کا اپنے اہل وعیال کی خدمت کو عیب نہ سمجھنا اس کے گناہان کبیرہ کا کفارہ ہوتا ہے اور رب العالمین کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۱۳۲)

۱۷۷۲۸ ۔ کسی کی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کے لئے طلبِ مغفرت کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳

۱۷۷۲۹ ۔ حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کسی کی غیبت کا کفارہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم نے جس انداز میں اس کی غیبت کی ہے اسی انداز میں اس کے لئے طلب مغفرت کرو"

۱۷۷۳۰ ۔ جو کسی پر ظلم کرے اور اس کی تلافی کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے طلب مغفرت کرے یہی اس بات کا کفارہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳

۱۷۷۳۱ ۔ موت مومنین کے لئے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۲ جلد ۱۷۸ ، جلد ۶ ص ۱۵۱

۱۷۷۳۲ ۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کرنا گناہوں کے کفارہ میں شمار ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجارالانوار جلد ۸۳ ص ۳۷۰

۱۷۷۳۳ ۔ موذن کی اذان (کے جملوں) کا جواب دینا گناہوں کا کفارہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۸۴ ص ۲۸۳

۱۷۷۳۴ ۔ جو شخص (نماز) مغرب کے لئے وضو کرتا ہے تو اس کی یہ وضو اس کے لئے اس رات کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے، سوائے گناہان کبیرہ کے۔

(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۸۰ ص ۲۳۱

۱۷۷۳۵ ۔ ایک رات کا بخار (گناہوں کا) کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۱ ص ۱۸۶

۱۷۷۳۶ ۔ صاحبانِ اقتدار کے کاموں کا کفارہ بھائیوں کی حاجت روائی ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۷

۱۷۷۳۷ ۔ ہنسنے کا کفارہ یہ ہے کہ یوں دعا مانگی جائے "اللھم لا تمقتنی" خدایا! مجھ سے ناراض نہ ہونا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴

۱۷۷۳۸ ۔ بدشگونی کا کفارہ یہ ہے کہ خدا پر توکل (کرکے کام کو انجام دے دیا) جائے۔

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴

۱۷۷۳۹ ۔ ابو برزہ اسلمی کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مجلس (یا محفل) سے اٹھنے کا ارادہ کرتے تو آخر میں یہی کہتے "( سبحانک اللهم… ) خدایا تو پاک و منزہ ہے اور میں تیری حمد کرتا ہوں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تجھ سے ہی مغفرت طلب کرتا ہوں، اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔

اس پر کسی شخص نے عرض کیا: "آپ نے ایسی بات کہی ہے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی!" آپ نے فرمایا: "یہ بات مجلس (یا محفل) کا کفارہ ہوتی ہے۔"

سنن الجاداود جلد ۴ ص ۲۶۵

۱۷۷۴۰ ۔ مجالسِ کا کفارہ یہ ہے کہ اٹھتے وقت کہو،"سبحان ربک العزة عما یصغون وسلام علی المرسلین و الحمدلله رب العالمین

(امام جعفر صادقعلیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۵ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۸

۱۷۷۴۱ ۔ گناہ کا کفارہ اس پر ندامت و پشیمانی ہے،

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد ابن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

۱۷۷۴۲ ۔ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے یہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے ترمذی اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "مجلس"، "اٹھتے وقت خدا کی یاد"

۱۷۷۴۳ ۔ مسلمان کو جو بیماری یا تکلیف ہوتی ہے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۷۴۴ ۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کی بجاآوری،خطاؤں کا کفارہ ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

( ۲) ایسا گناہ جس کا کوئی کفارہ نہیں

قرآن مجید

( ومن عاد فینتهم الله منه والله عزیز ذوانتقام ) ۔ (مائدہ/ ۹۰)

ترجمہ۔ اور جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اس کی سزا دے گا، اور خدا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔

حدیث شریف

۱۷۷۴۵ ۔ حلبی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو احرام کی حالت میں شکار کرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ ہے" راوی کہتا ہے کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ نہیں ہے بلکہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے: "( ومن عاد فینتقم الله منه… ) " یعنی جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اسے سزا دے گا

وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۵

۱۷۷۴۶ ۔ جب کوئی شخص احرام کی حالت میں غلطی سے شکار کرے تو اس پر اس کا کفارہ ہے۔ اگر دوسری مرتبہ بھی غلطی سے شکار کرے پھر بھی اس پر کفارہ ہو گا۔ اسی طرح جتنی مرتبہ غلطی سے شکار کرتا رہے گا اس پر کفارہ ہوتا رہے گا لیکن اگر جان بوکھ کر پہلی مرتبہ شکار کرے گا تو اس پر کفارہ ہو گا۔ جب دوسری بار جان بوجھ کر شکار کرے گا تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جنہیں خدا سزا دے گا اور یہ سزا آخرت میں ہو گی۔ لہٰذا اس کفارہ اسی لئے نہیں ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴ باب ۴۸

نیز: باب "گناہ"، "جو گناہ ناقابل بخشش ہیں")

فصل ۱۸

قضا ( ۲)

فیصلہ

( ۱) فیصلہ یا نبی کر سکتا ہے یا اس کا وصی ---یا پھر----شقی انسان----

قرآن مجید

( یداؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ) (ص/ ۲۶)

ترجمہ۔ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب (حاکم و جانشین) مقرر کیا ہے۔ پس لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو

حدیث شریف

۱۶۷۹۸ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے (قاضی) شریح سے فرمایا: "اے شریح! تم ایک ایسی جگہ پر (قضا کے لئے) بیٹھے ہو جہاں نبی یا وصی یاپھر شقی (بدبخت) انسان ہی بیٹھ سکتا ہے۔"

(امام جعفر صادق) وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۷ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۰۶

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴ تہذیب و الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

۱۶۷۹۹ ۔ فیصلے کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ فیصلے کرنا اس امام عالم کا کام ہے جو مسلمانوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے جیسے نبی یا نبی کا وصی ہوتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائیل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۷ فروع کافی جل د ۷ ص ۴۰۶

من لا یحرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴ ، تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

( ۲) طاغوت کی طرف مقدمات کا لے جانا

قرآن مجید

( الم قراتی الذین یزعمون………………ان یکفروابه… ) (نسأ/ ۶۰)

ترجمہ کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گمان کرتے ہیں کہ وہ ان چیزوں پر ایمان لائے جو (اے پیغمبر!) آپ پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو آپ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں؟ پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مقدمات کو فیصلے کے لئے طاغوت کو حاکم بنائیں، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کر دیں

( الم ترا می الذین اوتوا…………………وهم معرضون ) (آل عمران/ ۲۳)

ترجمہ۔ کیا تونے ان ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ جب وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے تو (؟)گروہ روگردانی کرتے ہوئے حق سے پلٹ جاتا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۸۰۰ ۔ عمر بن حنطمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنے ان دو دوستوں کے متعلق سوال کیا جن کے درمیان کسی قرض یا میراث کے بارے میں جھگڑا ہو جائے اور وہ اپنا مقدمہ حاکم وقت یا قاضی کے پاس لے جائیں تو کیا یہ ان کے لئے جائز ہے؟ اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخض اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائے اور وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس کے فیصلے کے تحت لیا ہوا مال حرام ہو گا خواہ یہ اس کا حق بھی بنتا ہو کیونکہ وہ شخص وہ مال طاغوت کے فیصلے کے مطابق لے گا جس کے متعلق خدا کا حکم یہ ہے کہ اس کا انکار کیا جائے"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۲

۱۶۸۰۱ ۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو کسی مقدمے کے سلسلہ میں ظالم قاضی یا ظالم بادشاہ کے پاس لے جائے اور وہ خدائی فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو وہ مومن بھی اس کے گناہ میں اس کا شریک ہو گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۳ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

۱۶۸۰۲ ۔ ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول( ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلواتها الی الحکام بتکلوا فریقا اموال الناس بالاثم… ) اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق نہ کھا جایا کرو اور نہ ہی یہ اموال بطور رشوت حکام کو اس لئے پیش کرو کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرتے ہوئے اس دولت کا کچھ حصہ ہضم کر جاؤ (بقرہ ۱۸۸) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "اے ابو بصیر! خداوند عز و جل کو اس بات کا علم تھا کہ امت میں کچھ حکام جور بھی ہوں گے جو غلط فیصلے کریں گے، لہٰذا اس نے یہ اسی بنا پرفرمایا ہے، یہاں حکام عدل مراد نہیں ہیں جبکہ حکام جور مراد ہیں، اے ابومحمد! اگر تمہارا حق کسی کے ذمہ بنتا ہے اور تم اس مقدمہ کو عادل حاکم کے پاس لے جانا چاہتے ہو لیکن وہ شخص یہ مقدمہ ظالم حاکم کے پاس لے جانا چاہتا ہے تو اس کا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جو طاغوت کو اپنا حاکم بناتے ہیں۔ حق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( الم ترالی الذین یزعمون انهم… ) (نسأ/ ۶۰)

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

قولِ مولف: ملاحظہ ہو "وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲ باب ۱

( ۳) حق پر فیصلہ کرنے والے

قرآن مجید

( یداؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الهوی ) (ص/ ۲۶)

ترجمہ۔ "اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب (حاکم و جانشین) مقرر کیا ہے پس لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔"

( واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل… ) (نسأ/ ۵۸)

ترجمہ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو

( وان حکمت فاحکم بینهم بالقسط ان الله یحب المقسطین ) (مائدہ/ ۴۲)

ترجمہ۔ اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے،

حدیث شریف

۱۶۸۰۳ ۔ بہترین لوگ، حق پر فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۹

۱۶۸۰۴ ۔ مخلوق میں سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر حق پر فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین لوگ وہ ہیں جو سب سے بڑھ کر راست گوئی سے کام لیتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۰۵ ۔ "تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کسی ظالم کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے نہ لے جائے بلکہ یہ دیکھو کہ خود تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو ہمارے فیصلوں میں سے کوئی چیز جانات ہے، تو تم اسے ہی اپنا قاضی مقرر کر لو، کیونکہ میں نے ہی اسے قاضی بنایا ہے۔ لہٰذا اپنے مقدمات اسی کے پاس لے جایا کرو۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۲

۱۶۸۰۶ ۔ "مدعی اور مدعا علیہ اس بات کا خیال کریں کہ تم میں جو شخص ہماری احادیث کو بیان کرتا ہے، ہمارے مقررکردہ حلال و حرام کو پیشِ نظر رکھتا ہے اور ہمارے احکام کو سمجھتا ہے پس وہ اسے ہی اپنا حاکم بنانے پر راضی ہو جائیں، کیونکہ میں نے بھی اسے ہی تمہارے اوپر حاکم مقرر کیا ہے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۹۹

۱۶۸۰۷ ۔ ابی خدیجہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دوستوں کی طرف بھیجا کہ میں انہیں (امام کی طرف سے) جا کر کہوں کہ: "جب تمہارے درمیان کوئی جھگڑا ہو جائے یا لین دین کا کوئی معاملہ درپیش آ جائے تو تم میں سے کوئی بھی فاسق لوگوں میں سے کسی کے پاس اپنا مقدمہ لے کر نہ جائے، بلکہ تم اپنے میں سے کسی ایسے شخص کو فیصلہ کرنے والا مقرر کر لیا کرو جو ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہو، اس لئے کہ میں نے بھی اسے ہی تمہارے لئے قاضی مقرر کیا ہے، اور یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی، جابر حاکم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر نہ جائے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۰۰

( ۴) اسلامی فیصلے کو تسلیم کرنا

قرآن مجید

( فلا و ربک لا یوٴمنون……………………یسلموا تسلیما ) (نسأ/ ۶۵)

ترجمہ۔ ایسا نہیں ہے، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس اختلاف میں جو ان کے درمیان واقع ہوا ہے، تجھے حاکم نہ بنائیں، پھر تو جو بھی فیصلہ کر دے، اس پر اپنے دلوں میں ذرا بھی تنگی کااحساس نہ کریں اور اس (فیصلہ) کو اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے۔

حدیث شریف

۱۶۸۰۸ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول:( فلا و ربک… ) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: "تسلیم سے مراد، رسول خدا کے فیصلے پر راضی اور قانع ہونا ہے۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۲ ص ۲۰۴

۱۶۸۰۹ ۔ "جب قاضی ہمارے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرے اور پھر اس کے اس فیصلے کو نہ مانا جائے، تو اس سے خدا کے فیصلے کو سبک نہ سمجھا جائے گا اور ہماری بات کو ٹھکرا دیا جائے گا، جبکہ ہماری باتوں کو ٹھکرانے والا خدا کی باتوں کو رد کرنے والا ہوتا ہے۔ ایسا کرنا اللہ کے ساتھ شرک کی حد تک جا پہنچاتا ہے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۹۹

۱۶۸۱۰ ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر نے یہ بات بیان کی ہے کہ ایک انصاری حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں زبیر سے اس پانی کے سلسلے میں الجھ پڑا جس سے کھجوروں کی آبپاشی کی جاتی تھی، وہ یوں کہ انصاری نے زبیر سے کہا: "آپ پانی کو کھلا چھوڑ دیں تاکہ اس سے آب پاشی ہوتی رہے۔" لیکن زبیر نے اس کی بات کو نہ مانا، اور مقدمہ حضرت رسول خدا کی خدمت میں پیش کیا گیا۔

آنحضرت نے زبیر سے فرمایا: "زبیر! پہلے تم آب پاشی کر لو پھر اپنے ہمسایہ کے لئے جانے دو!" اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: "یارسول اللہ! آپ نے اس یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کیونکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد ہے!" اس پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ نے زبیر سے فرمایا: "زبیر! تم سیراب ہو تو پھر پانی کے آگے بند باندھ لو کہ وہ واپس لوٹ جائے!"

زبیر کہتے ہیں: ؟ "خدا کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے کہ: خدا کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے: "فلا و ربک لا یومنون" (/ ۷۵)

صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۸۲۹

قولِ مولف: ملاحظہ ہو عنوان "تسلیم" نیز "مشرک" بابا "ادنی شرک")

( ۵) خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا

قرآن مجید

( …ومن لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکفٰرون ) ۔ (مائدہ/ ۴۴)

ترجمہ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی تو ہیں جو کافر (منکر) ہیں۔

( و من لم یحکم بما انزل فاولئک هم الظلمون ) (مائدہ/ ۴۵)

ترجمہ۔ اور جو لوگ اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے جو اللہ نے نازل کیا ہے، پس وہی تو ظالم ہیں۔

( و من لا یحکم بما انزل الله فاولئک هم الفٰسقون ) ۔ (مائدہ ۴۷)

ترجمہ۔ اور جنہوں نے اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا جو اللہ نے نازل کیا ہے، پس وہی تو نافرمان ہیں۔

حدیث شریف

۱۶۸۱۱ ۔ "جو شخص دو درہموں کے بارے میں فیصلہ کرے اور اس فیصلے کو سختی سے منوائے تو وہ اس آیت کا اہل ہو گا:( و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکٰفرون ) (مائدہ/ ۴۴)

راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا "حضور فرزند رسول! سختی سے منوانے سے کیا مراد ہے؟" فرمایا: "اس کے پاس کوڑا (حکومت کا ڈنڈا) ہو اور قید کا اختیار بھی۔ پس اگر کوئی شخص اس فیصلے پر راضی ہو جائے تو بہتر ورنہ اسے ڈنڈے سے مارے اور قید کر دے۔

(حضرت امام جعفر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۵

۱۶۸۱۲ ۔ جو شخص خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق دو درہموں کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر (منکر) قرار پائے گا۔ اور جو شخص دو درہموں کے بارے میں غلط فیصلہ کرے گا وہ بھی کافر (منکر) ہو جائے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۵

۱۶۸۱۳ ۔ حکیم بین جبیر کہتے ہیں: پھر میں علی بن الحسین امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سورہ مائدہ کی ان آیات کے بارے میں دریافت کیا اور آپ کو وہ ساری باتیں بھی بتا دیں جو میں نے سعید بن جبیر اور مقسم سے پوچھی تھیں۔"

امام نے فرمایا: "مقسم نے کیا کیا؟" میں نے وہ بھی بتا دیا۔ امام نے فرمایا: "اس نے سچ کہا ہے لیکن آیت میں مذکور "کفر" وہ کفر نہیں جسے "شرک کا کفر" کہا جائے، اسی طرح نہ ہی "شرک کا فسق ہے" اور نہ ہی "شرک کا ظلم" ہے،

تفسیر در منثور جلد ۲ ص ۲۸۷

۱۶۸۱۴ ۔ خدا کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض دو شخص ہیںایک وہ جولوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے، اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے، اگر کوئی الجھا ہوا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کے لئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس پر یقین بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے۔ جس طرح مکڑی خود اپنے جالے کے اندر۔ وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط؟اس کے (ناروا) فیصلوں کی وجہ سے (ناحق بہائے ہوئے) خون چیخ رہے ہیں اور (غیرمستحق افراد تک پہنچی ہوئی) میراثیں چلا رہی ہیں

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۷ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷

( ۶) ظالم فیصلہ کرنے والے

۱۶۸۱۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ کو آنکھوں کی تکلیف ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی عیادت کی۔ اس وقت حضرت امیر (شدت درد کی وجہ سے) چیخ رہے تھے۔ آنحضرت نے فرمایا: "یا علی! گھبراہٹ ہے یا درد ہے؟" حضرت علی نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! جتنا شدید درد آج ہوا ہے اتنا کبھی نہیں ہوا۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جب ملک الموت کسی فاجر کی روح کو قبض کرنے کے لئے نازل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ جہنم کی آگ کی سیخ بھی نازل ہوتی ہے جس سے اس کی روح کو قبض کرتا ہے جس سے جہنم چیخ اٹھتا ہے۔"

حضرت علی یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! دوبارہ ارشاد فرمائیے کیونکہ آپ کے ارشادات نے مجھے سارے درد بھلا دیئے ہیں۔ کیا آپ کی امت میں سے بھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا؟"

فرمایا: "ہاں ظلم کے ساتھ فیصلہ کرنے والے، یتیم کا مال کھانے والے اور جھوٹی گواہی دینے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۶ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۲۴

( ۷) بغیر چھری کے ذبح کیا جانا

۱۶۸۱۶ ۔ جو شخص قضا کا عہدہ حاصل کر لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو بغیر چھری کے ذبح کر دیتا ہے،

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۹ ، ۱۵ ، ۱۲ ، ۱۵ ۔ ان سب کے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں۔

۱۶۸۱۷ ۔ ابن عباس حضرت رسول خدا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جسے قاضی بنایا جاتا ہے اسے چھری کے بغیر ذبح کر دیا جاتا ہے۔" اس پر آنحضرت سے سوال کیا گیا: "یارسول اللہ! ایسی ذبح سے کیا مراد ہے؟" "جہنم کی آگ "

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۷۳ ۔

۱۶۸۱۸ ۔ محمد بن محمد (شیخ مفسد) اپنی کتاب "مقنعہ" میں پیغمبر اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتنے فرمایا: "جو قاضی بنایا جاتا ہے اسے کسی چھری کے بغیر ذبح کیا جاتا ہے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۸

( ۸) ظالم قاضی کی نشست گاہ

۱۶۸۱۹ ۔ ایک پتھر نے اللہ کی بارگاہ میں فریا د کی: "اے میرے پروردگار! اور اے میرے سید و سردار! میں نے تیری اتنے سال اور اس قدر عبادت کی ہے لیکن تونے مجھے گندگی کے ڈھیر کی بنیادوں میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس سے ارشاد فرمایا: "کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ میں نے تجھے قاضیوں کی نشست گاہوں سے دور رکھا ہے؟"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۱

۱۶۸۲۰ ۔ آگ پر رکھے پتھر نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی گرمی کی حدت کی شکایت کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "چپ رہو! کیونکہ قاضیوں کی نشستگاہیں تجھ سے زیادہ گرم ہیں۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۰ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۴

۱۶۸۲۱ ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے محمد حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کا وہاں سے گزر ہوا۔ تو جب میں دوسرے دن امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے تمہیں کل جس مجلس میں بیٹھا ہوا دیکھا تھا وہ کس قسم کی مجلس تھی؟"

میں نے عرض کیا: "آپ کے قربان جاؤں، یہ قاضی میرے لئے نہایت ہی قابل عزت و احترام ہے میں کبھی کبھی اس کے پاس جا بیٹھتا ہوں" امام نے فرمایا: "اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب ایسی مجلس پر لعنت نازل ہو تو تم اس سے بچے رہو، کیونکہ لعنت تو تمام اہلِ مجلس کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۱

( ۹) قاضی کا حساب بہت سخت ہو گا

۱۶۸۲۲ ۔ بروزِ قیامت، عادل قاضی کو لایا جائے گا اور اس سے اس قدر حساب کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے دو آدمیوں کے درمیان کبھی کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۸

۱۶۸۲۳ ۔ قیامت کے دن عادل قاضی پر ایک ایسی سخت گھڑی بھی آئے گی جس میں وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے ایک دانے کے درمیان بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۹

۱۶۸۲۴ ۔ قیامت کے دن عادل قاضی کو لایا جائے گا اور اسے سخت حساب کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں وہ اس بات کی آرزو کرے گا کہ کاش اس نے دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸ ۔۔ ۱۵

۱۶۸۲۵ ۔ قیامت کے دن قاضی کو بلایا جائے گا اور حساب سے قبل اس قدر ہولناک حالات کا سامنا کرے گا جس سے وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ اے کاش اس نے کھجور کے ایک دانے کے بارے میں بھی دو آدمیوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۹ ۔۔ ۱۵

(قولِ مولف: اگر بالفرض یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو انہیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ یہ ایسے قاضی کے بارے میں نہیں جس پر قضا واجب نہیں ہوتی۔

نیز: ملاحظہ ہو عنوان "حساب" اور "ولایت" ، "ظالم لوگوں کی ولایت")

( ۱۰) قاضی بننے کی کوشش

۱۶۸۲۶ ۔ جو شخص قاضی بننے کی کوشش کرتا ہے اور سفارشیوں کے سہارے لیتا ہے تو خداوند عالم اسے اس کے اپنے سپرد کر دیتا ہے پھر جس شخص کو قضا کے لئے مجبور کیا جائے تو خداوندِ عالم اس کے لئے ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۴ و حدیث ۱۴۹۹۶

۱۶۸۲۷ ۔ جو شخص قاضی بننے کی از خود درخواست کرتا ہے، اسے اس کے اپنے سپرد کر دیا جاتا ہے، اور جسے اس کام کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اس پر ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے جو اسے سیدھے راستے پر چلاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۵

۱۶۸۲۸ ۔ حضرت رسول اکرم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص از خود حکم دے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرے، یہ بھی فرمایا کہ جو حکمرانی کی کوشش کرتا ہے اس کی اس بارے میں بھی کوئی امداد نہیں کی جاتی، بلکہ اسے اس کے اپنے سپرد کر دیا جاتا ہے لیکن جسے کسی قسم کی درخواست کئے بغیر حکمرانی مل جاتی ہے اس کی امداد بھی کی جاتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہوئے۔

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۰۸

۱۶۸۲۹ ۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قاضی بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس بارے میں لوگوں سے مدد کا طالب ہوتا ہے تو خدا اسے اپنے حوالے کر دیتا ہے لیکن جو شخص ایسا کرنے کی نہ تو کوشش کرتا ہے، نہ ہی اس بارے میں کسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔

سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۷۸

قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "ولایت" "والی پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے کام نہ لے"

نیز باب "خدا اس وقت تک قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ جان بوجھ کر فیصلہ نہیں کرتا")

( ۱۱) اسلام میں قاضی کی خصوصیات

۱۶۸۳۰ ۔ مالک اشتر کے نام مکتوب سے اقتباس، جب حضرت امیر نے انہیں مصر کا گورنر بنایا: "پھر یہ کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں علم، حلم، پرہیزگاری اور سخاوت کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو، جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق میں نہ پڑ جاتا ہو اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو، نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر کے اثبات پر اڑتا ہو، نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو، نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر چمک پڑتا ہو اور نہ ہی بغیر پوری طرح چھان بین کئے بغیر سرسری طور پر کسی معاملے کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو، شک و شبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ہو، دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو، فریقین میں بحث سے اکتا نہ جاتا ہو، معاملات کی تحقیق میں نہایت صبر وضبط سے کام لیتا ہو اور جب حقیقت واضح ہو جاتی ہو تو بے دھڑک فیصلہ کر دیتا ہو۔ وہ ایسا ہو جس کا ذہن اسے مغرور نہ بنائے، نہ ہی جنبہ داری پر آمادہ کرے، جو کسی قسم کے شور و غوغا پر کان نہ دھرتا ہو۔ لہٰذا فیصلوں کے لئے ایسے لوگوں کو ہی مقرر کرو، اگرچہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں۔ پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کا بار بار جائزہ لیتے رہو"

بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۵۱ بحار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۷ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۷ ص ۵۸ نہج البلاغہ مکتوب ۵۳ ( قدرے اختلاف کے ساتھ)

۱۶۸۳۱ ۔ جو فقہ سے کم واقف ہو اسے قاضی بننے کا لالچ نہیں کرنا چاہئے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۶۴

۱۶۸۳۲ ۔ حکم خدا کا نفاذ وہی شخص کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ برتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع میں نہ پڑے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۲ نہج البلاغہ حکمت ۱۱۰

( ۱۲) قضا کے آداب

۱ ۔ فریقین کو ایک نگاہ سے دیکھنا

۱۶۸۳۳ ۔ سلم بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت علی علیہ السلام شریح قاضی سے فرما رہے تھے: "مسلمانوں کے درمیان اپنے چہرے، اپنی گفتگو اور نشست و برخاست کے لحاظ سے برابری کا درجہ دو تاکہ جو شخص تمہارے قریب ہے اسے تمہاری طرف سے ظلم کی توقع نہ ہو اور تمہارے مخالف کو تمہارے عدل و انصاف کے بارے میں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"

وسائل الشیعہ جلد ۸ ة ص ۱۵۵

۱۶۸۳۴ ۔ حاکم (قاضی) کو چاہئے کہ فریقین میں سے کسی کی طرف کم اور کسی کی طرف زیادہ توجہ نہ کرے، اپنی نگاہ میں عدل و انصاف کے لحاظ سے سب کو برابر جانے، کسی فریق کو ایسے انداز سے نہ بلائے جس سے دوسرا یہ سمجھے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۳۵ ۔ جو مسلمانوں کے درمیان قضا کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہو اسے چاہئے کہ فریقین کے درمیان نگاہ، اشارے اور نشست و برخاست میں عدل سے کام لے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۲

۱۶۸۳۶ ۔ جو مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہا ہو اسے چاہئے کہ فریقین میں سے کسی ایک فریق کے لئے اس وقت تک آواز کو بلند نہ کرے جب تک کہ دوسرے کے لئے بھی ایسا ہی نہ کرے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۳

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷)

۲ ۔ فریق مقدمہ کی آواز پر آواز کو بلند نہ کرنا

۱۶۸۳۷ ۔ روایت میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ابوالاسود دوئلی کو قضا کے منصب پر فائز فرمایا، پھر اسے معزول کر دیا، اس پر ابوالاسود نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا: "نہ تو میں نے کسی قسم کی خیانت کی ہے اور نہ ہی کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر آپ نے مجھے کیوں معزول فرمایا ہے؟"

حضرت نے فرمایا "اس لئے کہ تمہاری آواز فریقِ مقدمہ کی آواز پر بلند ہوتی ہے۔"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۷

۳ ۔ مسند قضا پر اکتانا نہ چاہئے

۱۶۸۳۸ ۔ سلمہ بن کہل کہتے ہیں میں نے سنا کہ حضرت امیر علیہ السلام شریح سے فرما رہے تھے: "جس مسند قضا کے لئے اللہ نے حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کے لئے اجر کو واجب اور بہترین ذریعہ قرار دیا ہے اس پر بیٹھنے کو دل تنگی و تکلیف کا سبب نہ سمجھو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۵ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۴ ۔ فریقین کے دلائل سننے سے پہلے فیصلہ نہ کرنا

۱۶۸۳۹ ۔ مجھے پیغمبر اسلام صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاضی بنا کر یمن کی طرف بھیجا۔ میں نے عرض کیا: "یارسول اللہ! آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں جبکہ میں ابھی نوجوان ہوں اور فیصلے کرنا بھی نہیں جانتا!" آنحضرت نے فرمایا: "خدا تمہارے دل کی ہدایت فرمائے گا اور تمہاری زبان میں ثبات عطا کرے گا۔ پھر جب تمہارے سامنے مقدمہ کے دونوں فریق بیٹھ جائیں تو جب تک پہلے فریق کے بعد دوسرے فریق کی باتوں کو نہ سن لو اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ کرنا کیونکہ اس طرح تمہارے سامنے مقدمہ کے تمام پہلو کھل کر واضح ہوجائیں گے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ فیصلے کرتا رہا اوریااس کے بعد مجھے کسی فیصلے میں کبھی شک نہیں ہوا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۸۲

۱۶۸۴۰ ۔ جب حضرت رسول خدا نے مجھے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو کہا: "جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ لایا جائے تو کسی فریق کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے فریق کے دلائل نہ سن لو" اس کے بعد میں نے جو بھی فیصلہ کیا اس میں مجھے کبھی شک نہیں ہوا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

۱۶۸۴۱ ۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جناب رسول خدا نے فرمایا: "جب تمہارے پاس دو آدمی کوئی مقدمہ لے کر آ جائیں تو پہلے شخص کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک دوسرے کی باتوں کو نہ سن لو کیونکہ اس طرح تمہارے لئے مقدمہ کے تمام پہلو واضح ہو جائیں گے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ فیصلے کرتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی آپ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: "خداوندا! علی کو فیصلے کرنا سمجھا دے!"

من لا یحضرہ الفقہ جلد ۳ ص ۷

۱۶۸۴۲ ۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "جب تمہارے پاس مقدمہ کے دونوں فریق آ جائیں تو کسی کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرنا جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو، کیونکہ اس طرح تم حق کو اچھی طرح جان لو گے۔"

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۰ ص ۲۷۷ کنزالعمال حدیث ۱۵۰۲۴

۱۶۸۴۳ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: "جب تمہارے پاس دو شخص فیصلہ کروانے کے لئے آئیں تو کسی کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک دونوں فریقوں کی باتوں کو نہ سن لو، کیونکہ اس طرح تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کیونکر فیصلہ کرنا ہے۔"

حضرت علی فرماتے ہیں: "اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طرح فیصلے کرتا رہا۔"

کنزالعمال حدیث ۱۵۵۰۲۳

قولِ مولف: ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۸ باب ۴

۵ ۔ غصے میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۴ ۔ جسے قضا سے دوچار ہونا پڑے اسے چاہئے کہ غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرے۔

(حضرت رسول اکرم) فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۱۶۸۴۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام نے شریح قاضی سے فرمایا: "مسند قضا پر بیٹھ کر کسی سے مشورہ یا سرگوشی نہ کرو۔ اگر کسی بات پر غصہ آ جائے تو کھڑے ہو جاؤ اور غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۶

۱۶۸۴۶ ۔ غصہ کی حالت میں قاضی کو دو آدمیوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۳۰ حدیث ۱۵۰۲۸

۶ ۔ غنودگی کی حالت میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۷ ۔ روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے رفاعہ سے فرمایا: "غصہ کی حالت میں کبھی فیصلہ نہ کرو اور نہ ہی نیند کی وجہ سے غنودگی کی حالت میں فیصلہ کرو"

(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۴۸ ۔ رسول خدا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "قاضی کو نہ تو غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنا چاہئے، نہ ہی بھوکے پیٹ اور نہ ہی اونگھ کی حالت میں"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۷ ۔ بھوک اور پیاس کی حالت میں فیصلہ نہ کرو

۱۶۸۴۹ ۔ جب تک قاضی سیر اور سیراب نہ ہو اس وقت تک اسے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۰۴۰

۱۶۸۵۰ ۔ روایت ہے کہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا "جب تک کھانا نہ کھا لو اس وقت تک مسند قضا پر نہ بیٹھو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۸ تہذیب الاحکام ص ۲۲۹

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳ ۔ اور اسی کتاب میں ہے "ہرگز نہ بیٹھو"

۸ ۔ فریقین میں کسی کو اپنا مہمان نہ ٹھہراؤ

۱۶۸۵۱ ۔ ایک شخص حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس مہمان بن کر آیا اور کئی دن تک آپ کے گھر ٹھہرا رہا۔ ایک مرتبہ وہ ایسا مقدمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا اس نے اس سے پہلے آپ سے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ امام نے اس سے پوچھا: "تم فریقِ مقدمہ ہو؟" اس نے کہا: "جی ہاں!" آپ نے فرمایا: "ہمارے پاس سے چلے جاؤ کیونکہ رسول پاک نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی فریق کو مہمان ٹھہرایا جائے جب تک کہ اس کے ساتھ دوسرا فریق بھی موجود نہ ہو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۷ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳

۹ ۔ مسند قضا پر بیٹھ کر کسی سے سرگوشی نہ کرو

۱۶۸۵۲ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا: "مسند قضا پر بیٹھ کر کبھی کسی سے سرگوشی نہ کیا کرو۔"

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱۳ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷ تہذیب الاحکام ص ۲۲۷

۱۰ ۔ داہنی طرف سے کلام کا آغاز کرو

۱۶۸۵۳ ۔ حضرت رسول خدا نے حکم دیا ہے کہ مسند قضاکے داہنی طرف بیٹھنے والوں سے کلام کا آغاز کرنا چاہئے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

۱۶۸۵۴ ۔ حسن بن محبوب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب تم فریقِ مخالف کے ساتھ والی یا قاضی کے پاس جاؤ تو فریقِ مخالف کے داہنی طرف ہو جاؤ"

من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

۱۱ ۔ گواہوں کو لقمہ نہ دو

۱۶۸۵۵ ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قاضی فریقین میں سے کسی کو زیادہ دیکھے، ذہن کو حاضر رکھنے کی وجہ سے طرفداری سے کام لے۔ نیز گواہوں کو لقمہ دینے سے بھی منع فرمایا۔

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۲ ۔ فیصلہ سنانے سے پہلے خوف غور و فکر سے کام لو

۱۶۸۵۶ ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے قاضی شریح سے فرمایا: "جب تک تم منہ سے بات نہیں نکالو گے تب تک زبان تمہاری غلامی میں رہے گی لیکن جب بات کر لو گے تو پھر تم اس کے غلام بن جاؤ گے، لہٰذا اچھی طرح پیش نظر رہے کہ تم کیا فیصلہ کرتے ہو، کس بارے میں فیصلہ کرتے ہو اور کیونکر فیصلہ کرتے ہو؟"

کنز العمال حدیث ۱۴۴۳۲

۱۶۸۵۷ ۔ قاضی کی زبان دو انگاروں کے درمیان ہوتی ہے انجام کار یا جنت کی طرف یا پھر جہنم کی طرف!

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۲ ، ۱۵۰۰۷

(قولِ مولف: فقہاء کی کتابوں میں قضا کے بارے میں بہت سے آداب مذکور ہیں، اس بارے میں مزید تفصیلات کے لئے جواہرالکلام جلد ۴۰ ص ۷۲ " نظر دوم آداب کے بارے میں" کا مطالعہ کیا جائے)

( ۱۳) سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا

۱۶۸۵۸ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا! "پروردگارا! تیرا کون سا بند ہ سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے؟ "خداوند عالم نے فرمایا: "وہ جو لوگوں کے درمیان بھی اسی طرح فیصلے کرتا ہے جس طرح اپنی ذات کے لئے فیصلے کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۴۲۶۱)

۱۶۸۵۹ ۔ جو شخص اپنی ذات کے بارے میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے، غیروں کے بارے میں بھی اس کے فیصلے کو پسند کیا جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) محف العقول ص ۲۶۲ ، کافی جلد ۲ ص ۱۴۶ وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۱۵۸

۱۶۸۶۰ ۔ جب تیرا فیصلہ تیری ذات کے متعلق نافذ ہو گا تو لوگوں کے دل بھی تیری عدالت کی طرف کھنچ کر آئیں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قول مولف: ملاحظہ ہو! مساوات اور "انصاف" ، "اپنی ذات کے بارے میں انصاف سے کام لینا")

نیز: باب "رائے" "بہتری سے نزدیک ترین رائے"

نیز: باب "عدل" باب ("عادل ترین انسان")

( ۱۴) جب تک قاضی جان بوجھ کر ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے

۱۶۸۶۱ ۔ معقل بن یسار کہتے ہیں: "مجھے حضرت رسالتماب نے حکم دیا کہ میں اپنی قوم کے درمیان فیصلے کروں تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کس طرح اچھے انداز میں فیصلے کر سکتا ہوں؟ تو آنجناب نے فرمایا: "جب تک قاضی جان بوجھ کر ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے" آپ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

(کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۳)

۱۶۸۶۲ ۔ مسلمانوں قاضیوں میں سے ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو انہیں اس وقت تک راہِ حق پر چلاتے رہتے ہیں جب تک وہ ناحق کا ارادہ نہیں کرتا لیکن جب وہ ناحق کا ارادہ کر لے تو فرشتے اس سے دور ہٹ جاتے ہیں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۳)

۱۶۸۶۳ ۔ خداوند عالم قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ عمداً ظالمانہ فیصلے نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۶ ۔ ۱۴ ، ۱۵ ۔ ۱۶ ، ۱۵

۱۶۸۶۴ ۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم و جور سے کام نہیں لیتا۔ جب ظلم و جور سے کام لینے لگتا ہے تو اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور اسے شیطان اپنے قابو میں لے لیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۵ ۔ ۱۴۹۸۷

۱۶۸۶۵ ۔ اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت حاکم کے سر پر سایہ رحمت کئے ہوتا ہے، لیکن جب وہ فیصلے میں ظلم کرنے لگتا ہے تو اللہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور خود اس کے ہی حوالے کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۵ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۲۲ فروع کافی جلد ۷ ص ۴۱ ۔ اس کتاب میں "فیصلے میں" کے الفاظ نہیں ہیں۔

( ۱۵) درست و نادرست فیصلہ کرنے والوں کا اجر

۱۶۸۶۶ ۔ جب کوئی حاکم فیصلہ کرنے کے لئے کوشش اور اجتہاد سے کام لیتا ہے اور اس طرح صحیح اور درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لئے دو اجر ہوتے ہیں، اگر اجتہاد و کوشش کے باوجود صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا تو اس کے واسطے صرف ایک اجر ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۵۹۷ ۔ بروایت الٰہی ہریرہ و عمرو بن عاص

۱۶۸۶۷ ۔ خوب کوشش و جہاد سے کام لو۔ اگر اس طرح تم صحیح فیصلہ کرو گے تو تمہارے لئے دس نیکیاں ہوں گی اور اگر چوک جاؤ گے تو صرف ایک نیکی ہو گی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۹, ۱۵ ، بروایت عقبہ بن عامر۔

حدیث ۱۸ ۔ ۱۵ اور حدیث ۲۲ ۔ ۱۵ بروایت عمرو اور ابن عمرو، ۔

۱۶۸۶۸ ۔ عقبہ بن عامر کہتے ہیں: "ایک دن میں پیغمبر اکرم کے پاس حاضر تھا کہ آپ کے پاس مقدمہ کے دو فریق آ گئے آنجناب نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے درمیان فیصلہ کروں۔ میں نے عرض کیا: "اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں۔ اس بارے میں آپ سب سے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں!" آنجناب نے دوبارہ ارشاد فرمایا: "تم ہی ان کے درمیان فیصلہ کرو!" میں نے عرض کیا! "یارسول اللہ! میں کس بنا پر فیصلہ کروں؟" فرمایا: "کوشش کرو اگر صحیح فیصلہ کرو گے تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی، اور اگر صحیح فیصلہ نہیں دو گے تو صرف ایک نیکی ملے گی۔"

کنزالعمال حدیث ۱۴۴۲۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: عنوان "رائے" ( ۲) اور عنوان "فتویٰ")

قاضیوں کی اقسام

۱۶۸۶۹ ۔ قاضی چار قسم کے ہوتے ہیں، جن میں سے تین قسم کے لوگ جہنمی ہیں اور صرف ایک قسم کے لوگ جنتی ہیں۔

۱ ۔ ایک شخص وہ ہے جو ظلم کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔

۲ ۔ ایک وہ جو ظلم کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے لیکن اس جانتا نہیں یہ بھی جہنمی ہے۔

۳ ۔ ایک وہ جو حق کے ساتھ تو فیصلہ کرتا ہے لیکن اسے جانتا نہیں یہ بھی جہنمی ہے۔

۴ ۔ اور ایک وہ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اسے جانتا بھی ہے۔ ایسا شخص جنتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار جلد ۷۸ ص ۲۴۷ جلد ۱۰۴ ص ۲۶۳

ص ۲۶۴ ۔ فروع جلد کافی جلد ۷ ص ۴۰۷

۱۶۸۷۰ ۔ قاضی تین طرح کے ہیں، جن میں سے دو جہنمی اور صرف ایک جنتی ہے۔

۱ ۔ جو قاضی اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ جہنمی ہے۔

۲ ۔ جو قاضی علم کے بغیر فیصلہ کرتا ہے وہ بھی جہنمی ہے اور،

۳ ۔ جو قاضی حق کا فیصلہ کرتا ہے، وہ جنتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۱

۱۶۸۷۱ ۔ قاضی تین طرح کے ہیں جس میں سے دو جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔

۱ ۔ ایک وہ شخص جو حق کو جانتا اور اس کے تحت فیصلہ کرتا ہے وہ جنتی ہے۔

۲ ۔ ایک وہ جو لوگوں کے درمیان اپنی جہالت کی بنا پر فیصلے کرتا ہے، وہ جہنمی ہے۔

۳ ۔ اور ایک وہ جو حق کو جانتا تو ہے لیکن فیصلے میں ظلم سے کام لیتا ہے ایسا شخص بھی جہنمی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۰

(قول مولف: ملاحظہ ہو، کنزالعمال حدیث ۱۴۹۸۲ ۔ ۱۵۰۰۳ ۔ ۱۵۰۰۴ ۔)

( ۱۷) کیا عورت قاضی بن سکتی ہے؟

۱۶۸۷۲ ۔ عورت قاضی بن کر لوگوں کے درمیان فیصلے نہیں کر سکتی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۲۱)

۱۶۸۷۳ ۔ عورت نہ تو قاضی بن سکتی ہے اور نہ ہی حکمران!

(امام محمد باقر علیہ السلام)۔ (حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

۱۶۸۷۴ ۔ عورت نہ تو قضا کو اپنے ذمہ لے سکتی ہے اور نہ ہی حکمرانی کو۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۱۶۲

۱۶۸۷۵ ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت حوا کو بہشت سے نکل جانے کا حکم دیا تو فرمایا: "نہ تو میں عورتوں میں کسی کو حاکم بناؤں گا اور نہ ہی کسی کو نبی بنا کر بھیجوں گا"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۷۲

(قول مولف: ملاحظہ ہو: مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۲۷۲ ۔ بابا "عورت قاضی نہیں بن سکتی"

نیز: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۶ باب: "عورت قاضی نہیں بن سکتی۔"

نیز: امام مالک، شافعی اور احمد بن خبل فرماتے ہیں: "عورت کا قاضی بننا صحیح نہیں ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں، عورت ہر اس معاملے میں قاضی بن سکتی ہے جس میں عورتوں کی گواہی قابل قبول ہوتی ہو۔ یعنی ہر چیز میں قاضی بن سکتی ہے سوائے حدود ارو زخموں سے متعلق۔

ملاحظہ ہو: "دائرة المعارف فرید وجدی جلد ۷ ص ۸۴۵

( ۱۸) میں تمہارے درمیان ظاہر کے مطابق فیصلے کرتا ہوں

قرآن مجید

( ولاتاکلوا اموالکم………………………وانتم تعلمون ) (بقرہ/ ۱۸۸)

ترجمہ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق نہ کھا جایا کرو اور نہ ہی یہ اموال بطور رشوت حکام کو اس لئے پیش کرو کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرتے ہوئے اس دوات کا کچھ حصہ ہضم کر جاؤ۔

حدیث شریف

۱۶۸۷۶ ۔ میں بھی تو ایک بشر ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنی دلیل کو دوسروں کی نسبت اچھے انداز میں پیش کریں، جس کی بناء پر میں اس کے حق میں فیصلہ دے دوں (جبکہ یہ اس کا حق نہ بنتا ہو) ، اس طرح میں اس کے لئے جہنم کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔ (کیونکہ میں تو ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں)۔

کنزالعمال حدیث ۱۵۰۴۳

۱۶۸۷۷ ۔ دو شخص حضرت رسول خدا کے پاس کچھ ایسی میراثوں اور اشیاء کا مقدمہ لے کر حاضر ہوئے جن کے نشانات مٹ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا: "ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی شخص اپنا مدعا دوسرے، سے زیادہ اچھے انداز میں پیش کر سکتا ہو اور میں دوسرے کے مال سے اس کے حق میں (ظاہر کے پیش نظر) فیصلہ دے دوں جبکہ اس کا یہ حق نہ بنتا ہو۔ پس میں اس کو جہنم کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔"

اس پر دونوں افراد نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں نے اپنا حق اپنے ساتھی کو دے دیا۔" آپ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، بلکہ جاؤ اور آپس میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرکے ایک دوسرے میں تقسیم کر دو، پھر ہر ایک دوسرے کو خلال کرکے بخش بھی دے۔"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۳۲۴

۱۶۸۷۸ ۔ حضرت داؤد علیہ السلام ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے: "یا اللہ! مجھے لوگوں کے درمیان ایسے فیصلے کرنے کا الہام دیا کر جن کی اصل حقیقت تیری ذات کے نزدیک موجود ہے۔" اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی: "داؤد! لوگ اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۴ ص ۵ ، ص ۱۱ حدیث ۱۹

۱۶۸۷۹ ۔ جب حضرت قائمِ آل محمد ظہور فرمائیں گے تو لوگوں کے درمیان حضرت داؤد علیہ السلام کی مانند فیصلے کریں گے اور گواہوں کی ضرورت محسوس نہیں فرمائیں گے۔ خداوند عالم ان کی طرف الہام فرمائے گا اور وہ اسی علم کے مطابق فیصلے کریں گے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۴ ص ۱۴

۱۶۸۸۰ ۔ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں قاضی پر واجب ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلے کرے: ۱ ۔ ولایت و سرپرستی ۲ ۔ نکاح ۳ ۔ میراث ۴ ۔ ذبیح ۵ ۔ شہادتیں۔ اگر گواہ بظاہر قابل اطمینان ہوں تو ان کی گواہی قابل قبول ہو گی اور ان کے باطن کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۹۲

۱۶۸۸۱ ۔ امراؤ القیس اور حضر موت کا ایک شخص زمین کے بارے میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے، آنحضرت نے (امراؤ القیس سے) فرمایا: "کیا تمہارے پاس گواہ ہے؟" اس نے کہا: "نہیں! " آپ نے فرمایا: "تو پھر یہ شخص قسم کھائے گا!" امراؤ القیس نے کہا: "پھر تو یہ میری زمین لے جائے گا" آپ نے فرمایا: "اگر وہ تمہاری زمین اپنی قسم کی وجہ سے لے جائے گا تو پھر اس کا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جن کی طرف خداوند عالم بروز قیامت نظر (رحمت) نہیں فرمائے گا، نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔" یہ سن کر وہ شخص گھبرا گیا اور زمین امراؤ القیس کو لوٹا دی۔

تنبیہ الخواطر ص ۴۰۵

قول مولف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۹ باب ۲

( ۱۹) قاضی کے غلط فیصلہ کا خمیازہ

۱۶۸۸۲ ۔ اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حکم دیا کہ قاضی اگر قصاص اور دیت کے بارے میں قتل و عضو کاٹنے کے فیصلے میں غلطی کرے گا تو اس کی تلافی مسلمانوں کے بیت المال سے کی جائے گی۔

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۶۵ ، من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۵

۱۶۸۸۳ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآراء ہونے کی مذمت میں فرمایا: "جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کے متعلق حکم لگا دیتا ہے، پھر وہی مسئلہ بعینہ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے۔ پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہوتا ہے وہ سب کی رائے کو صحیح قرار دیتا ہے، حالانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے (انہیں غور تو کرنا چاہئے) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کرکے اس کا حکم بجا لاتے ہیں یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع فرمایا ہے اور یہ اختلاف کرکے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑ دیا تھا اور ان سے تکمیل کے لئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا؟

شرح ابن ابی الحدید جلد اول ص ۲۸۸ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۸

۱۶۸۸۴ ۔ عمر بن اذینہ جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں ایک عبدالرحمٰن بن ابی لیفیٰ کے پاس کوفہ گیا جو ان دنوں کوفہ کا قاضی تھا میں اس زمانہ میں بالکل نوجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا: "خدا آپ کا بھلا کرے، میں آپ سے چند مسائل پوچھنا چاہتا ہوں۔" اس نے کہا: "بھتیجے! جو تمہارا جی چاہے پوچھو!" کہا: "آپ مجھے اپنے جیسے قاضی صاحبان کے بارے میں بتائیں جن کے پاس مال، ناموس اور قصاص کے طور پر قتل کے بارے میں کوئی مقدمہ پیش ہوتا ہے، اس بارے آپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور یہی مقدمہ بعینہ مکہ کے قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو آپ کے فیصلہ سے مختلف ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ بصرہ کے قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ اس سے مختلف فیصلہ کرتا ہے۔ اسی طرح یمن اور مدینہ کے قاضیوں کے پاس جاتا ہے تو وہ ان سب کے برعکس فیصلہ دیتے ہیں۔ پھر جب تم سب اپنے خلیفہ کے پاس اکٹھے ہوتے ہو جس نے تمہیں قاضی بنایا ہے اور اپنے اپنے فیصلوں سے اسے باخبر کرتے ہو تو وہ تم سب کے فیصلوں کو درست قرار دیتا ہے۔ حالانکہ تمہارا خدا ایک، پیغمبر ایک اور دین ایک ہے۔ تو کیا خدا نے تمہیں اس اختلاف کا حکم دیا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کر رہے ہو؟ یا اس نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو، یا تم فیصلہ کرنے میں خدا کے شریک ہو کہ تم جو فیصلے کرتے جاؤ وہ ان پر راضی ہوتا رہے، یا پھر اللہ نے دین کو ناقص بھیجا ہے اور تمہارے ذمہ اس کی تکمیل کا کام لگایا ہے؟ اس نے تو دین کو کامل کر دیا ہے لیکن کیا رسول خدا اس کی بجاآوری میں کوتاہی کر چکے ہیں یا تم لوگ کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟"

اس نے مجھ سے پوچھا: "اے جوان! تم کہاں کے رہن والے ہو؟" میں نے کہا: "بصرہ کا" "کونسے قبیلے سے؟" میں نے کہا: "عبدالقیس سے!" پوچھا "عبدالقیس کی کونسی شاخ ہے؟" میں نے کہا: "بنی اذینہ سے!" فرمایا: "عبدالرحمن بن اذینہ سے تمہاری کیا رشتہ داری ہے؟" عرض کیا: "وہ میرے جد امجد ہیں!"

یہ سن کر اس نے بڑی آؤ بھگت کی، مجھے اپنے قریب بلا لیا، اور کہا: "جوان! تم نے بڑے سخت سوالات کئے ہیں اور کافی انہماک و حیران طریقے سے پوچھا ہے۔ میں بھی انشاء اللہ تمہیں ان کا جواب ضرور دوں گا سنو! تم نے فیصلوں کے اختلاف کے بارے میں سوال کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول میں کوئی اصل موجود ہے تو ایسے مسائل میں ہم کتاب و سنت سے روگردانی نہیں کر سکتے، لیکن جن کے بارے میں نہ تو کتاب میں کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی سنت میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، تو ہم وہاں اپنی رائے پر عمل کرتے ہیں۔"

میں نے کہا: "پھر تو آپ نے کچھ بھی نہ کیا، اس لئے کہ خداوند عالم عز و جل فرماتا ہے:( مافرطن فی الکتٰب من شیٴ ) یعنی ہم نے کتاب (قرآن) میں کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی (سب کا ذکر کردیا ہے)، اور آپ کہتے ہیں وہ کتاب میں نہیں ہے۔ اسی طرح خداوند عالم ہی فرماتا ہے( فیه تبیان کل شیٴ ) یعنی اس (قرآن) میں ہر چیز کو بیان کر دیا گیا ہے"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۰ ( مکمل کلام کا مطالہ کیا جائے)

۱۶۸۸۵ ۔ میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جو بھی فیصلہ کیا اس کی اصل سنت رسول میں ضرور موجود ہے۔ حضرت علی فرمایا کرتے تھے: "اگر میرے پاس دو آدمی کوئی مقدمہ لے کر آئیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کر دوں اور پھر وہی لوگ وہی مقدمہ ایک عرصہ دراز اور کئی سالوں کے بعد لے آئیں پھر بھی میں وہی فیصلہ کروں گا جو پہلے کر چکا ہوں، اس لئے کہ فیصلے کبھی بدلا نہیں کرتے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۷۲

۱۶۸۸۶ ۔ (حضرت علیہ السلام، محمد بن ابی بکر کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں)

"ایک ہی نوعیت کے کسی مقدمہ میں دو طرح کے مختلف فیصلے نہ کیا کرو، ورنہ تمہارا اپنا معاملہ مختلف ہو جائے گا اور تم راہِ حق سے ہٹ جاؤ گے"

بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۲۷۵

( ۲۱) قضا کے متعلق مجلس شوریٰ

۱۶۸۸۷ ۔ میں عرض کیا: "یارسول اللہ! اگر کوئی ایسا معاملہ مجھے درپیش ہو جس کے بارے میں کوئی حکم نہ نازل ہوا وہ اور نہ ہی سنت میں موجود وہ تو آپ کیا حکم دیتے ہیں؟" آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مومن فقہاء اور عابدین کی ایک مجلس شوریٰ تشکیل دو اور کسی ایک خاص رائے کے مطابق فیصلہ نہ کرو۔"

(حضرت علی علیہ السلام) کنزالعمال حدیث ۱۴۴۵۶

۱۶۸۸۸ ۔ "میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو قضا کے منصب پر فائز تو ہو جاتے ہیں لیکن جب ان کے لئے کوئی مقدمہ مشتبہ ہو جاتا ہے تو کسی سے مشورہ نہیں کرتے۔ اگر صحیح فیصلہ کرتے ہیں تو اترانے لگ جاتے ہیں۔ اور اگر غصہ کی حالت میں ہوتے ہیں تو سختی کا برتاؤ کرتے ہیں۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۴۹۹۰

۱۶۸۸۹ ۔ جس چیز کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا، اس لئے میں تمہارے درمیان اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) سنن ابی داؤد حدیث ۳۵۸۵

۱۶۸۹۰ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے رفاعہ کے نام مکتوب سے اقتباس جب آپ نے اسے اھواز کا قاضی مقرر فرمایا: "مقدمہ کا فیصل ہکرنے میں کسی سے مشورہ نہ لیا کرو کیونکہ مشورہ یا تو جنگ کے بارے میں ہوتا ہے یا فوری طور پر درپیش آنے والے مصلحت پر مبنی امور میں، جبکہ دین رائے کے ساتھ نہیں بلکہ اتباع کے ساتھ ہوتا ہے۔"

مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۱۹۵

۱۶۸۹۱ ۔ جب حاکم (فیصلہ کرنے والا) اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والوں سے پوچھتا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں یا اس سلسلہ میں ان کی کیا رائے ہے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے وہ خود مسند سے اٹھ کر انہیں اپنی جگہ پر کیوں نہیں بٹھا دیتا؟"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۷

قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "شوریٰ" "شوریٰ وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی فیصلہ نازل نہیں ہوا ہوتا۔"

( ۲۲) عدالتِ عالیہ

۱۶۸۹۲ ۔ جب حضرت امیر علیہ السلام نے شریح کو منصب قضا پر فائز کیا تو اس پر یہ خود حضرت کو شرط عائد فرمائی کہ اس وقت تک کسی فیصلہ کا اجرا نہیں کر سکتا جب تک وہ فیصلہ نہ دکھا دے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۶ ص ۱۸

فروع کافی جلد ۷ ص ۴۰۷ تہذیب الاحکام جلد ۶ ص ۲۱۷

۱۶۸۹۳ ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی سے سنا کہ آپ شریح قاضی سے فرما رہے تھے: "تم کسی قصاص یا حدودِ الٰہی میں سے کسی حد یا مسلمین کے حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے جب تک کہ اسے پہلے مجھے نہ دکھا دو۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۵۶

( ۲۳) قاضی کب سے بنائے جانے لگے!

۱۶۸۹۵ ۔ ابن شہاب، سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں: "نہ تو حضرت رسول خدا نے باقاعدہ محکمہ قضا کھول کر قاضی مقرر کیا تھا نہ حضرت ابوبکر  ، اور حضرت عمر  نے، لیکن جب ان کی خلافت کا نصف زمانہ گزر چکا تو یزیدین اخت نمر سے کہا کہ تم بعض یعنی چھوٹے چھوٹے امور میں میرا ہاتھ بٹایا کرو۔"

کنزالعمال جلد ۵ ص ۸۱۴ ، نیز ص ۱۵ بھی ملاحظہ ہو

( ۲۵) قضا کے متعلق متفرق احادیث

۱۶۸۹۶ ۔ طمع قضا کی آفت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۹۷ ۔ سب سے زیادہ دردناک چیز، قاضیوں کا ظن سے کام لینا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۸۹۸ ۔ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کرنا انصاف نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۴۲ نہج البلاغہ حکمت ۲۲۰

۱۶۸۹۹ ۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "گواہ مدعی کے ذمہ ہیں اور قسم مدعا علیہ کے اوپر"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۷۰

۱۶۹۰۰ ۔ غیرحاضر پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۱۷

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو، وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۷۰ باب ۳

نیز: وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۲۱۶ باب ۲۶


12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26