میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53458
ڈاؤنلوڈ: 4454

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53458 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۳۷

مکافات

( ۱) احسان کا بدلہ احسان

قرآن مجید

( واذا حیتیم تجیة فحیوا باحسن منها اور دوها ) ۔ (نسأ/ ۸۶)

ترجمہ۔ اور جب تمہیں کسی طرح کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں اس سے بہتر طریقہ سے سلام کرو یا وہی الفاظ جواب میں کہہ دو۔

( هل جزاء الاحسان الا الاحسان ) ۔ (الرحمن/ ۶۰)

ترجمہ۔ بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور بھی کچھ ہے!

حدیث شریف

۱۷۷۴۷ ۔ حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان حقوقِ انسانی کو بھی، جنہیں ایک کے لئے دوسرے پر قرار دیا ہے، اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں۔ ان میں سے بعض حقوق دوسروں کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک ان کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۶

۱۷۷۴۸ ۔ کسی کا حق ادا کر دینا غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکنا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۴۹ ۔ کسی کے ساتھ بھلائی اس کے گلے میں طوق ہوتا ہے جو شکریہ یا حق ادا کئے بغیر نہیں اتر سکتا۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳

۱۷۷۵۰ ۔ جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اگر اس کے بس میں ہو تو اسے چاہئے کہ ویسی ہی بھلائی کرے اور اگر بس میں نہیں ہے تو اس کی ستائش ضرور کرے، کیونکہ اس طرح اس نیکی کا شکریہ ادا کر دے گا۔ لیکن اگر اسے چھپا دے گا تو وہ اس کی ناشکری کرے گااور منکر سمجھا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۶۵۶۷

۱۷۷۵۱ ۔ جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ اگر اس جیسا سلوک نہیں کر سکتے تو اس کے لئے خدا کی ذات سے اس قدر دعا مانگو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ اس کا بدلہ چکا دیا گیا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳

۱۷۷۵۲ ۔ جو شخص تمہارے ساتھ احسان کرے تم بھی اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے اپنا ہاتھ لمبا کرو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کا شکریہ ضرور ادا کرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۵۳ ۔ جس شخص نے تمہاری نیکی کے بدلہ میں تمہارا شکریہ ادا کیا تو سمجھ لو کہ اس نے تمہیں اس سے زیادہ دے دیا جو اس نے تم سے لیا تھا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۵۴ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول( هل جزاء الاحسان الا الاحسن ) (بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور بھی کچھ ہے رحمن/ ۶۰) ، کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم مومن و کافر، نیک و بد، غرض ہر ایک کے لئے یکساں ہے۔ لہٰذا جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اس کا بدلہ دے۔ بدلہ یہ نہیں ہے کہ جو نیکی تمہارے ساتھ کی گئی ہے تم بھی اسی طرح کی نیکی اس کے ساتھ کرو، بلکہ اس سے بڑھ کر کرو۔ اگر تم بھی اسی ہی کی طرح نیکی کرو گے، تو پھر فضلیت پہل کرنے والے کے حصے میں چلی جائے گی۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۱۱

(امام جعفر صادقعلیہ السلام)بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳ ۔ مجمع البیان

۱۷۷۵۵ ۔ جب تم پر سلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقے سے جواب دو، اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ کر احسان کا بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضلیت پہل کرنے والے کے لئے ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۶۲

۱۷۷۵۶ ۔ جو کوئی ویسی ہی نیکی کرے گا جس طرح اس کے ساتھ نیکی کی گئی ہے تو وہ اس نیکی کا بدلہ دیدے گا، اور جو اس سے دوگنی نیکی کرے گا وہ اس کی سپاس گزاری کرے گا

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۲

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "شکر" ، "جو مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا خالق کا شکر بھی ادا نہیں کرتا")

( ۲) برائی کا بدلہ برائی کے ساتھ

قرآن مجید

( فمن اعتدٰی علیکم فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدیٰ علیکم ) (بقرہ/ ۱۹۴)

ترجمہ۔ پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو

( وان عاقبتم فعاتبوا…………………خیرللصابرین ) ۔ (نحل/ ۱۲۶)

ترجمہ۔ اور اگر (مخالفین کے ساتھ) سختی کرو بھی تو ویسی ہی سختی کرو جیسی سختی ان لوگوں نے تم پر کی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یہ بات صبر کرنے والوں کے واسطے بہتر ہے۔

( ذلک و من عاقب…………………………ان الله لغفو غفور ) (حج/ ۶۰)

ترجمہ۔ یہی (ٹھیک) ہے۔ اور جو شخص اپنے دشمن کو اتنا ہی ستائے جتنا یہ اس کے ہاتھوں ستایا گیا تھا، اس کے بعد پھر دوبارہ دشمن کی طرف سے اس پر زیادتی کی جائے تو خدا اس مظلوم کی ضرور مدد کرے گا۔ خدا بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔

( الاالذین امنوا…………………………من بعد ماظلموا ) (شعراء/ ۲۲۷)

ترجمہ۔ مگر ہاں جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اچھے کام کئے، کثرت سے خدا کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم کیا جا چکا اس کے بعد انہوں نے بدلہ لیا

( والذیناذا اصابهم……ینتصرون و جزاء سیئة… لا یحب الظلمین و لمن انتصر…من سبیل انما السبیل………لمن عزم الامور ) ۔ (شوریٰ/ ۳۹ تا ۴۳)

ترجمہ۔ اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر کسی قسم کی زیادتی ہوتی ہے تو وہ بس واجبی سا بدلہ لیتے ہیں ارو برائی کا بدلہ تو ویسی ہی برائی ہے۔ اس پر بھی جو شخص معاف کر دے اور معاملہ کی اصلاح کرے تو اس کا ثواب خدا کے ذمہ ہے۔ بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا پھر جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ الزام تو بس انہی لوگوں پر ہو گا جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں، انہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ نیز جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو بے شک یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔

حدیث شریف

۱۷۷۵۷ ۔ جو بغاوت کا راستہ اختیار کرے گا، اسے اسی ذریعہ سے بدلہ دیا جائے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو عنوان "عقوبت (سزا)" اور عنوان "قصاص"

نیز: باب "کرم" (شرافت) ، "جسے شرافت سیدھا نہ کر سکے"

نیز: باب "جیسی کرنی ویسی بھرنی")ے

( ۳) بے وقوفی کے بدلہ میں بے وقوفی نہ کرو

۱۷۷۵۸ ۔ جو شخص بے وقوف کو بے وقوفی کا بدلہ دے گا اسے ہر بات پر راضی ہونا پڑے گا جو بے وقوف سرانجام دے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۲۹۹

۱۷۷۵۹ ۔ بدترین بدلہ برائی کے ساتھ سزا دینا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۵۳

۱۷۷۶۰ ۔ جو تمہارا احترام کرے تم اس کا احترام کرو، اور جو تمہاری توہین کرے تم اس کی بجائے خود اپنا احترام کرو۔

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۷۸

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "بے وقوفی"، "بے وقوف کا مقابلہ" اور باب "بے وقوف کے مقابلہ میں بردباری اختیار کرو"

نیز: باب "درگزر" ، "عفو و درگزر کرنے کے ذریعہ اصلاح کرنا"

( ۴) انتقام اور سرداری برابر نہیں

۱۷۷۶۱ ۔ انتقام سرداری کے برابر نہیں ہوتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۲ ۔ انتقام میں جلدی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۳ ۔ جو اچھی طرح معاف کرنا نہیں جانتا، وہ بری طرح انتقام لینا ضرور جانتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۴ ۔ برے طریقہ سے سزا دینا کمینہ پن کی دلیل ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۵ ۔ صاحبانِ اقتدار کا بدترین کارنامہ انتقام لینا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۶ ۔ غصہ کے وقت بردباری سے کام لینا، انتقام کی طاقت سے کہیں بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۷ ۔ جو کسی قصوروار سے انتقام لیتا ہے وہ دنیا میں اپنی فضلیت ضائع کر دیتا ہے اور آخرت کے ثواب سے بھی محروم رہتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۶۸ ۔ اپنے کسی (مومن) بھائی کی سزا کے درپے نہ ہو، خواہ وہ تمہارے منہ میں مٹی بھی ڈال دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۰۹

۱۷۷۶۹ ۔ تورات میں ہے: "جب تم پر کسی قسم کا ظلم کیا جائے تو میری طرف سے اس کا بدلہ لینے کو پسند کر لو، کیونکہ تمہارے لئے میری طرف سے بدلہ لیا جانا، تمہاری اپنی طرف سے بدلہ لئے جانے سے کہیں بہتر ہے۔"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۳۰۴

( ۵) نیکی کا برائی سے بدلہ

۱۷۷۷۰ ۔ نیکی کا بدلہ برائی سے دینا کمینوں کی عادت ہے۔

۱۷۷۷۱ ۔ بدترین انسان ہے، وہ جو اچھائی کا بدلہ برائی سے دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۷۲ ۔ جو شخص اچھائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے اس کی مردانگی و مروت ختم ہو جاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "شکر" ( ۲) " مومن کفارہ ادا کرتا ہے" اور باب "خدا لعنت کرے نیکی کی راہیں بند کرنے والوں پر")

( ۶) برائی کا نیکی سے بدلہ

۱۷۷۷۳ ۔ دعائے مکارم الاخلاق سے اقتباس: "خدایا محمد آل محمد پر رحمت نازل فرما، مجھے توفیق عطا فرما کہ اس شخص کا خیرخواہی کے ساتھ سامنا کروں جو مجھ سے دھوکا کرتا ہے، اس کو نیکی کی جزا دوں جو مجھ سے قطع تعلق کرتا ہے، اس کو بخشش دوں جو مجھے محروم کرتا ہے، اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں، جو مجھ سے قطع رحمی کرتا ہے اور اس کا ذکر اچھے الفاظ سے کروں جو میری غیبت کرتا ہے۔"

(امام زین العابدین علیہ السلام) صحیفہ کاملہ دعا ۲۰

۱۷۷۷۴ ۔ برائی کا بدلہ نیکی سے دینا، کمالِ ایمان کی نشانی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۷۵ ۔ اس شخص کا شمار شرفاء میں نہیں ہوتا جو برائی کا بدلہ اچھائی سے نہیں دیتا،

حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "احسان" (نیکی) ، "برائی کرنے والے کے ساتھ نیکی کرنا"

باب "رحم" (رشتہ دار) "قطعی رحمی کرنے والے کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرو‘ذ

باب "خیر" (اچھائی) "دنیا و آخرت کے اچھے اخلاق"

باب "انصاف" ، "جو تم سے انصاف نہ کرے تم اس سے ضرور انصاف کرو‘ذ

نیز: باب "ھدیہ"، "اس کو بھی ہدیہ دو جو تمہیں ہدیہ نہیں دیتا"

( ۷) جیسی کرنی ویسی بھرنی

۱۷۷۷۶ ۔ جو دوسروں کی پردہ داری کرے گا، اس کے اپنے گھر کے عیب ظاہر ہو جائیں گے، جو بغاوت کی تلوار کھینچے گا وہ اسی کے ساتھ مارا جائے گا جو اپنے بھائی کے لئے کنواں کھودے گا خود اسی میں گرے گا، جو احمقوں میں داخل ہو گا وہ بے عزت ہو گا، جو علماء کے ساتھ میل جول رکھے گا باوقار ہو گا اور جو برائی کے مقامات میں جائے گا تہمتوں کا شکار ہو گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۰۴

۱۷۷۷۷ ۔ جو اپنے بھائی کے لئے کنواں کھودے گا خود ہی اس میں گرے گا، جو دوسروں کی پردہ داری کرے گا اس کے اپنے عیب ظاہر ہوں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۳۶

۱۷۷۷۸ ۔ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو گے تو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے گی، دوسرے لوگوں کی عورتوں کی عزت بچاؤ گے تو تمہاری عورتوں کی عزت محفوظ ہو گی۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار جلد ۷۸ ص ۲۴۲ ۔ جلد ۷۹ ص ۱۸

۱۷۷۷۹ ۔ جو دوسروں کی عیب جوئی کرے گا، اس کی اپنی عیب جوئی ہو گی، جو دوسروں کو گالیاں دے گا اسی انداز میں اسے جواب ملے گا جو تقویٰ کا درخت کاشت کرے گا وہ نیک آرزوؤں کا پھل چنے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۷۹

۱۷۷۸۰ ۔ انجیل مقدس میں ہے: "خود خطاکار ہو کر دوسروں کی خطاؤں پر سزا نہ دو ورنہ تمہیں عذاب کے ساتھ سزا دی جائے گی، ظلم پر مبنی فیصلے نہ کرو ورنہ تمہارے لئے عذاب پر مبنی فیصلے کئے جائیں گے، جس ترازو کے ساتھ تولو گے اسی ترازو کے ساتھ تمہارے لئے تولا جائے گا اور جس قسم کا فیصلہ تم کرو گے اسی قسم کا فیصلہ تمہارے لئے کیا جائے گا۔

بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۴۳

۱۷۷۸۱ ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

فصل ۳۸

( ۱) تکلیف

۱۷۷۸۲ ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جو فرائض تم پر عائد کئے گئے ہیں وہ کم ہیں جبکہ ان کا ثواب زیادہ ہے۔ خدا نے ظلم و سرکشی سے جو روکا ہے اس پر سزا کا خوف نہ بھی ہو جب بھی اس سے بچنے کا ثواب ایسا ہے کہ اس کی طلب سے بے نیاز ہونے میں کوئی عذر نہیں کیا جا سکتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۵۱

۱۷۷۸۳ ۔ خداوندِ عالم نے تو بندوں کو خودمختار بنا کر مامور کیا ہے اور عذاب سے ڈرتے ہوئے نہی کی ہے۔ اس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچا کر رکھا ہے، تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے، اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا، نہ ہی اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے۔ اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا، بندوں کے لئے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاریں، نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا، "یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا۔ پس افسوس ہے ان پر جنہوں نے کفر اختیار کیا آتشِ جہنم کے عذاب سے" (ص/ ۲۷)

(حضرت علی علیہ السلام ) نہج البلاغہ حکمت ۷۸

۱۷۷۸۴ ۔ یاد رکھو! وہ تم سے کسی ایسی چیز پر رضامند نہ ہو گا جس پر تمہارے اگلوں سے ناراض ہو چکا ہو، نہ کسی ایسی چیز پر غضبناک ہو گا جس پر پہلے لوگوں سے خوش رہ چکا ہو۔ تمہیں تو بس یہی چاہئے کہ تم واضح نشانوں پر چلتے رہو، اور تم سے پہلے لوگوں نے جو کہا ہے اسے دہراتے رہو/

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۳

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: بحارالانوار جلد ۵ ص ۳۱۸ باب ۱۶ " عمومی تکلیف")

تکلف کے فلسفہ" کے بارے میں علامہ طباطبائی کا نظریہ

تکلیف کے فلسفہ کے بارے میں علامہ سید محمد حسین طباطبائی قدس سرہ، ارشاد فرماتے ہیں:

"نبوت کی بحث کے سلسلہ مں گزر چکا ہے کہ اس کائنات میں موجود ہر ایک نوع کے لئے کمال کا ایک ہدف مقرر ہے جس کی طرف وہ اپنی تخلیق کے روزِ اول ہی سے رواں دواں ہوتی ہے، اپنی حرکتِ وجودی کے ساتھ اس کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔ اسی لئے اس کی تمام حرکتیں اس طرح منظم ہیں جو اس کمال کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں۔ جب تک وہ اپنی منزل ِ مقوصد تک نہ پہنچ جائے چین حاصل نہیں کر پاتی۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران کوئی مانع پیش آ جائے جو اسے اس حرکت سے روک دے اور اسے اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کر دے جیسے ایک درخت پر مصائب و آفات حملہ آور ہو کر اسے نشو و نما سے روک دیتی ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ منزلِ مقصود تک نہ پہنچنے کا تعلق بعض مخصوص افراد کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ تمام نوع کے ساتھ جو بطورِ نوع کے اس سے محفوظ ہے۔

ان موجودات میں سے ایک موجود، انسان بھی ہے جس کی اپنی غایتِ وجودی ہے۔ وہ اس تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اجتماعی و معاشرتی زندگی کے ساتھ وابستہ نہ ہو۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ انسان کی ساخت و پرداخت ہی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہم نوع دوسرے افراد سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا جیسے اس کا نر یا مادہ ہوتا ہے، اس کے اندر جذبات و احساسات و مہر و محبت کا پایا جانا، مختلف قسم کی ضروریات و احتیاجات کا حامل ہونا وغیرہ۔

یہی معاشرتی و تمدنی زندگی لوگوں کو احکام و قوانین کی پابندی پر مجبور کرتی ہے۔ جن کے احترام و عمل درآمد سے وہ اپنی زندگی کے مختلف امور کو منظم کرتے، اپنے باہمی اختلافات کو جو ناقابل اجتناب ہوتے ہیںدور کرتے ہیں اور ہر شخص جس مقام کے لائق ہے اسی کا حامل ہوتا ہے۔ اسی ذریعہ ہی سے اپنے کمال وجودی و سعادت کو حاصل کرتا ہے۔ یہ احکام اور قابل عمل قوانین درحقیقت انسان کی اپنی ضروریات ہی کی بدولت معرضِ وجود میں آتے ہیں کیونکہ اس کی جسمانی و روحانی ساخت پرداخت ہی اس قسم کی ہے کہ ان احکام و قوانین کا اجرا اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔

اسی طرح اس کی ان وجودی تخلیقی خصوصیات کا تعلق ان اسباب و علل کے ساتھ ہے جو کائنات کے عمومی نظام میں کارفرما ہیں۔ خدا کے دین کے فطری ہونے کا یہی مطلب ہے کیونکہ خدا کا دین بھی تو ان احکام و قوانین کے مجموعہ سے عبارت ہے جن کی طرف انسان کا وجود خود انسان کو راہنمائی کرتا ہے۔

باالفاظ دیگر خدا کے دین کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین ایسے امور کا مجموعہ ہے کہ عالمِ کون و مکان کا وجود خود ان امور کے وجود کا متقاضی ہوتا ہے، یعنی اگر یہ امور عمل میں آ جائیں تو انسانی معاشرہ و انسانی افراد کی اصلاح ہو جائے اور فرد و معاشرہ اپنے کمال کی آخری حد تک پہنچ جائیں جبکہ اس کے برعکس اگر یہ امور ناقابل اعتنا سمجھ کر نظرانداز کر دیئے جائیں تو عالم بشریت تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے اور کائنات کے عمومی نظام سے ٹکرا جائے جس سے عالمِ بشریت تباہ و برباد ہو جائے۔

مذکورہ احکام و قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کا تعلق اجتماعی و معاشرتی امور سے ہوتا ہے، جن کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح ہوتی اور اسے منظم کیا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جن کا تعلق عبادات سے ہوتا ہے جن کے ذریعہ فرزند آدم اپنی معرفت کے درجہ کمال تک پہنچتا ہے، وہ صالح معاشرے کا صالح فرد بن کر ابھرتا ہے۔ احکام و قوانین عبادات کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبوت اور آسمانی وحی کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ملیں اور انسان بھی صرف انہی قوانین کی پابندی کرے نہ کہ کسی قسم کے دوسرے قوانین کی۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ "خدائی تکالیف" ایسے امور ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کے ساتھ لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں یعنی جب تک انسان اس دنیا میں زندہ و موجود ہے اس وقت تک انہیں اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ خواہ انسان فی نفسہ ناقص اور اپنے کمالِ وجودی کی حد تک ابھی نہ پہنچا ہو، یا اپنے علم و عمل کے اعتبار سے حدِ کمال تک رسائی حاصل کر چکا ہو۔

خلاصہ کلام بشر جب تک بشر ہے اور اس عالم فانی کے اندر موجود ہے اسے دین کی ہر حالت میں ضرورت ہے خواہ ابھی تک انسانی تمدن سے آشنا نہ ہو یا تمدن اور پیشرفت کے آخری درجہ تک پہنچ چکا ہواگر وہ تمدن سے ناآشنا اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑا ہوا ہے تو ایسی صورت میں اسے دین کی احتیاج و ضرورت اظہر من الشمس ہے لیکن اگر علم و عمل کے لحاظ سے کمال کے آخری درجہ تک پہنچ چکا ہے تو بھی وہ دین سے ہرگز بے نیاز نہیں ہوتا، اس لئے کہ کمال کے معنی یہ ہیں کہ انسان علم و عمل کے لحاظ سے ایسے کئی قسم کے فاضل ملکہ کا حامل ہو چکا ہو کہ ان کی وجہ سے اس سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو معاشرتی و اجتماعی حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں اور عبادت پر مبنی ایسے افعال بھی اس سے ظاہر ہوتے ہیں جو اس کی معرفت کے غماز ہوتے ہیں اور جو عنایتِ خداوندی کے عین مطابق ہوتے ہیں اور اس سعادت و خوش بختی کے لئے ہدایت کا موجب ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی اپنی جگہ پر اچھی طرح واضح ہے کہ اگر ہم یہ قرار دیں کہ خدائی قوانین صرف ان لوگوں اور ان معاشروں کے ساتھ مخصوص ہیں جو نامکمل و پسماندہ ہیں۔ انسان کامل کے لئے ان قوانین کی پابندی ضروری نہیں ہے تو گویا ہم خود ہی اس بات کو جائز قرار دے رہے ہوں گے کہ ترقی ترقی یافتہ و متمدن افراد احکام و قوانین کی خلاف ورزی کریں، ناجائز و ناروا قسم کے افعال بجا لائیں جن سے عام معاشرتی نظام درہم برہم ہو جائے، حالانکہ یہ عنایتِ الٰہی کے تقاضوں کے بالکل برعکس ہے۔

اسی طرح ہم خود ہی اس بات کو جائز قرار دے رہے ہوں گے کہ متمدن افراد، بلکہ فاضلہ روزگار اور ان کے احکام کی مخالفت کریں، حالانکہ تمام افعال ملکہ فاضلہ کے حصول کا مقدم ہیں، جب ملکہ فافضلہ پیدا ہو جاتا ہے تو تمام افعال و آثار کے لئے مجالِ انکار نہیں ہوتی۔ یعنی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جب کسی کے اندر "معرفتِ الہٰی" کا ملکہ پیدا ہو جائے اور وہ خدا کی عبادت نہ کرے، یا کسی میں سخاوت کا ملکہ پیدا ہو جائے اور وہ عطا و بخشش نہ کرے۔

اس مقام پر پہنچ کر ان لوگوں کے افکار کو غلط قرار دیا جائے گا جو یہ موہوم نظریہ رکھتے ہیں کہ: تکلیفِ عملی کا اصل مقصد انسان کی تکمیل اور اسے درجہ کمال تک پہنچانا ہے، اور جب انسان، کامل بن گیا تو پھر اسے تکلیف کی ضرورت نہیں رہتی یعنی ایسے شخص کے لئے تکلیف کا باقی رہنا بے معنی سی بات ہو گی۔

ا نظریہ کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان خواہ کمال کے آخری درجہ تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے لیکن اگر تکالیف الٰہی سے منہ پھیر لے گا، معاشرتی احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ پورے معاشرے کی خرابی کا سبب بن جائے گا، انسانوں کے لئے عنایتِ خداوندی کے بطلان کا موجب بن جائے گا اور اگر عبادتی احکام پر عمل کرنے سے روگردانی کرے گا تو اپنے انسانی ملکہ فاضلہ کے خلاف قدم اٹھائے گا جو محال ہے کیونکہ انسان کا طرزِ عمل اس کے ملکہ کے آثار کاآئینہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر بالفرض اسے جائز بھی قرار دیدیں پھر بھی اس بات کا موجب ضرور ہو گا کہ اس کے ملکہ کا خاتمہ ہو جائے۔ اور ملکہ کا خاتمہ اس بات کا موجب ہو گا کہ نوعِ بشر کے لئے عنایتِ پروردگار کا خاتمہ ہو گیا ہے، جو محال ہے۔

البتہ افعال کے صادر ہونے کے لحاظ سے کامل و غیرکامل انسانوں میں فرق ضرور ہے اس لئے کہ انسانِ کامل و ملکہ فاضلہ کا حامل انسان خلاف ورزی سے محفوظ ہوتا ہے، اس کے اندر موجود راسخ ملکہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی ناشائستہ کام انجام دے اور اس کی خلاف ورزی کرے جبکہ ناقص و غیرکامل انسان کے اندر اس طرح کے مانع موجود نہیں ہوتے لہٰذا وہ کامل انسان کی مانند خلاف ورزیوں سے محفوظ نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملکہ فاضلہ کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تفسیرالمیزان جلد ۱۲ ص ۱۹۹ ۔ ص ۲۰۰

( ۹) خداوندِ عالم طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا

قرآن مجید

( لا یکلف الله نفسا الا و سعها ماکسبت و علیها ما اکتسبت ) (بقرہ/ ۲۸۶)

ترجمہ۔ خدا کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: سورہ انعام ۱۵۲ ۔ اعراف/ ۴۲ ۔ مومنون/ ۶۲ ۔ طلاق/ ۷ ۔ بقرہ/ ۲۲۳ ۔)

حدیث شریف

۱۷۷۸۵ ۔ میری امت سے غلطی، بھول اور زبردستی سے انجام دلائے جانے والے کاموں (کی سزا) کو اٹھا لیا گیا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۰۳۰۷ ۔ ۱۰۳۰۶ ۔ ۱۰۳۲۱

۱۷۷۸۶ ۔ تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے (ان کا گناہ نہیں لکھا جاتا):

۱ ۔ ایسا مجنون جس کی عقل پر جنون غالب آ جائے، جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے۔

۲ ۔ سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ نیند سے بیدار نہ ہو جائے۔

۳ ۔ نابالغ بچہ جب تک احتلام کے ذریعہ بالغ نہ ہو جائے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۰۳۰۹ ۔ ۱۰۳۲۲ ۔ ۱۰۳۲۳

صفحہ نمبر ۳۷۰ نہیں ہے

فصل ۳۹

( ۱) تکلف

قرآن مجید

( قل ما اسئلکم علیه من اجر وما انا من المتکلفین ) ۔ (ص / ۸۶)

ترجمہ۔ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ میں تم سے نہ تو اس (تبلیغِ رسالت) کی مزدوری مانگتا ہوں اور نہ میں تکلف سے کام لینے والا ہوں۔

حدیث شریف

۱۷۷۹۳ ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین باتوں سے دور رکھا ہے، ۱ ۔ اپنی طرف سے باتیں بنا کر خدا کی طرف منسوب کرنے سے ۲ ۔ اپنی خواہشاتِ نفسانی کے مطابق بات کرنے سے اور ۳ ۔ تکلف برتنے سے۔

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۷۸

۱۷۷۹۴ ۔ ہم انبیاء و اولیاء کے گروہ تکلف سے دور ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۳ ص ۳۹۴

۱۷۷۹۵ ۔ تکلف برتنے والا خواہ ٹھیک کر رہا ہو، پھر بھی خطاکار ہے اور بے تکلف خواہ غلطی کر رہا ہو پھر بھی بے خطا ہے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۳ ص ۳۹۴

۱۷۷۹۶ ۔ ایک موقع پر مسلمانوں نے حضرت رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا: "یارسول اللہ! آپ جن لوگوں پر غلبہ اور قابو پاتے ہیں انہیں اسلام لانے پر مجبور کریں تو ا سے ایک تو ہماری تعداد میں کثرت ہو گی اور دوسرے ہمیں دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔"

آنحضرت نے فرمایا: "ایسا کام کرکے میں ایسی بدعت کے ساتھ اللہ کے حضور پیش نہیں ہونا چاہتا جسے مجھ سے پہلے کسی نے انجام دیا، نہ ہی میں تکلف سے کام لینے والا ہوں"

(حضرت علی علیہ السلام) التوحید ص ۳۴۲

۱۷۷۹۷ ۔ تیرے بدترین دوست وہ ہیں جن کے لئے تجھے تکلف سے کام لینا پڑے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۷۹۸ ۔ بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے تجھے زحمت اٹھانا پڑے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۴۷۹

۱۷۷۹۹ ۔ تکلفات کو برطرف کرنے سے زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۰ ۔ تکلف و بناوٹ، منافقین کا شیوہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۱ ۔ تکلف کی برطرفی الفت (و محبت) کی شرط ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۲ ۔ بہت بڑا تکلف یہ ہے کہ تم ایسی مشقت کو اپنے ذمہ لے لو جو تمہارے شایان شان نہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۳ ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "تکلف" کیا ہوتا ہے؟ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا جو تمہارے شایانِ شان نہیں!"

تحف العقول ص ۶۳

۱۷۸۰۴ ۔ تکلف کو پسِ پشت ڈال دینا بہت بڑی تونگری ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۵ ۔ جس کسی نے تمہیں ایسی زحمت میں ڈالا جس کی تم استطاعت نہیں رکھتے تو گویا اس نے تمہیں اپنی نافرمانی میں شریک کر لیا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۰۶ ۔ جو اپنے علم کے بارے میں تکلف سے کام لیتا ہے، وہ اپنے اعمال کو برباد اور اپنی آرزوؤں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد اول ص ۲۱۸

۱۷۸۰۷ ۔ دس قسم کے لوگ خود کو اور دوسروں کو بھی زحمت میں ڈالتے ہیں (جن میں سے ایک) وہ کم علم شخص ہے، وہ اس بات کے لئے تکلف برتتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۵۱

۱۷۸۰۸ ۔ تمہاری محبت، تکلف پر اور دشمنی ہلاکت پر مبنی نہیں ہونی چاہئے، اپنے دوست کے ساتھ دوستی بھی ایک خاص حد تک رکھو اور دشمن سے دشمنی بھی ایک محدود اندازے پر۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد

۱۷۸۰۹ ۔ لوگوں کے جسموں میں نقص، عقلوں میں فتور آنے والا ہےمگر وہ جسے اللہ بچائے رکھےاس میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب دینے میں زحمت اٹھاتا اور تکلف سے کام لیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۴۳

۱۷۸۱۰ ۔ دعائیہ کلمات: "خدایا! مجھ پر رحم فرما کہ میں ایسی باتوں میں تکلف سے کام لوں جو میرے شایانِ شان نہیں ہیں۔"

(حضرت رسول اکرم) اسے ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

( ۲) تکلف سے کام لینے والے کی علامات

۱۷۸۱۱ ۔ تکلف سے کام لینے والے کی تین علامتی ہیں: ۱ ۔ اپنے مافوق سے تنازعہ کرکے اس کی نافرمانی کرتا ہے۔

۲ ۔ اپنے زیردست پر قابو پا کر ظلم کرتا ہے اور ۳ ۔ ظالموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) کافی جلد اول ص ۳۷

۱۷۸۱۲ ۔ تکلف برتنے والے کی چار نشانیاں ہیں: بے فائدہ باتوں کے لئے جھگڑتا ہے، اپنے مافوق سے لڑتا رہتا ہے، ناقابلِ حصول کاموں کے لئے سر کھپاتا ہے اور اپنی توانائیاں ایسی چیزوں میں ضائع کر دیتا ہے جو اسے نہیں بچا سکتیں۔

(حضرت رسول اکرم) تحف العقول ص ۲۳

۱۷۸۱۳ ۔ تکلف کرنے والے کی تین علامتیں ہیں: جب سامنے ہو تو چاپلوسی کرتا ہے، جب سامنے نہ ہو تو غیبت کرتا ہے اور (دوسروں کی) مصیبت پر خوش ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳

۱۷۸۱۴ ۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا: "تکلف برتنے والے کی تین نشانیاں ہیں: اپنے مافوق سے جھگڑتا ہے، جو باتیں نہیں جانتا بیان کرتا ہے اور ناقابلِ حصول چیزوں کے لئے سر کھپاتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳

۱۷۸۱۵ ۔ کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو "مفتی" ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھو! جبکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک حرف بھی صحیح نہ کہتے ہوں، لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے تکلف برتنے والوں کو دوست نہیں رکھتا

(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳

۱۷۸۱۶ ۔ قصاص یا تو امیر لے سکتا ہے، یا اس کے حکم پر چلنے والا، یا پھر تکلف برتنے والا۔

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۸۱۷ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: "تکلف کسے کہتے ہیں؟"

انہوں نے عرض کیا: "کسی ایسے شخص کے ساتھ تمسک کرنا جو کسی کو امن و امان نہیں دے سکتا، اور کسی ایسی چیز کے بارے میں غور و فکر کرنا جو بے مقصد ہوتی ہے!"

بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۰۱

۱۷۸۱۸ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے قضأ و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپعلیہ السلام نے فرمایا: "یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ۔ ایک گہرا سمندر ہے اس میں نہ اترو اور اللہ کا ایک راز اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ۔"

نہج البلاغہ حکمت ۲۸۷

۱۷۸۱۹ ۔ جو چیز جانتے نہیں ہو اس کے متعلق بات نہ کرو اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

۱۷۸۲۰ ۔ اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ اور پختہ لوگ وہی ہیں جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی تمام چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے ہیں، (ان پر اعتقاد رکھتے ہیں)، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے۔ یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پردوں میں گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں، یعنی اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے درک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۹۱

۱۷۸۲۱ ۔ اللہ نے چند فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرواور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا، لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۰۵

۱۷۸۲۲ ۔ آدمی کا اس کام کو نظرانداز کر دینا جو اسے سپرد کیا گیا ہے اور جو کام اس کے بجائے دوسروں سے متعلق ہے اس میں خواہ مخواہ گھسنا، ایک کھلی ہوئی کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۶۱