میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53464
ڈاؤنلوڈ: 4455

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53464 / ڈاؤنلوڈ: 4455
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۴۰

( ۱) کلام

قرآن مجید

( اليه یصعد الکلم الطیب ) (فاطر/ ۱۰)

ترجمہ۔ اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں

حدیث شریف

۱۷۸۲۳ ۔ کلام کی نشو و نما اور اگنے کا مقام دل ہے، اس کی امانت گاہ فکر ہے، اس کے قیام کا ذریعہ عقل ہے، اس کو ظاہر کرنے والی زبان ہے، اس کا جسم حروف ہیں، اس کی روح معانی ہیں، اس کا لشکر اعراب ہیں اور اس کا نظام بہتر انداز میں بیان کرنا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۲۴ ۔ وہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ جو چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۸

۱۷۸۲۵ ۔ انسان کی دو فضلیتیں ہیں: ایک عقل اور ایک گفتار۔ عقل کے ذریعہ وہ خود استفادہ کرتا ہے اور گفتار کے ذریعہ وہ افادہ کرتا (دوسروں کو فائدہ پہنچاتا) ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۲۶ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا: "اللہ تعالیٰ نے سب سے بہتر کس چیز کو خلق فرمایا ہے؟ " فرمایا: "کلام کو" پھر پوچھا گیا کہ: "سب سے بدتر کس چیز کو خلق فرمایا؟" فرمایا: "کلام کو" پھر فرمایا: "کلام ہی کے ذریعہ چہرے سفید ہوتے ہیں اور کلام ہی کے ذریعہ منہ کالے ہوتے ہیں۔

تحف العقول ص ۱۵۴ ، بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۵۵

۱۷۸۲۷ ۔ بعض اوقات انسان ایک ایسی بات کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی لیکن اس سے خدا راضی ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قیامت کے دن تک کے لئے اپنی رضا لکھ دیتا ہے، (بسا اوقات) انسان ایسی بات کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی کہ اس حد تک پہنچ جائے گی، لیکن اس سے خدا ناراض ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قیامت کے دن تک کے لئے اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷ ۔ اسے مالک، ترمذی، نسائی، ابن حاجہ، ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔

( ۲) حملے سے موثر تر بات

۱۷۸۲۸ ۔ بہت سی باتیں حملہ سے بھی زیادہ کارگر اور زیادہ اثر و نفوذ رکھتی ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۱ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۹۴

۱۷۸۲۹ ۔ عورت کی صورت اس کے چہرے میں اور مرد کی صورت اس کی گفتار میں ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۱

۱۷۸۳۰ ۔ بہت سی باتیں تلوار کی مانند ہوتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۱ ۔ بہت سی باتیں بہت بڑا گھاؤ لگاتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۲ ۔ بہت سی باتیں تیر سے زیادہ اثر اور نفوذ رکھتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "شعر"، "مومن اپنی زبان اور تلوار سے جہاد کرتا ہے"

باب "جہاد" ( ۱) " اپنے ہاتھوں، زبان اور دلوں کے ساتھ جہاد کرو"

نیز باب "معروف" (نیکی) "دل کے ساتھ انکار" اور باب "تلوار کے ساتھ انکار")

( ۳) بیہودہ باتوں سے اجتناب کرو

۱۷۸۳۳ ۔ بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرو کیونکہ اس طرح کمینے تو تمہارے پاس جمع ہو جائیں گے لیکن شریف نفرت کرنے لگیں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۴ ۔ بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرو کیونکہ دلوں میں کینہ پیدا کرتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۵ ۔ ایسی بات کا نہ کرو جس کا جواب تمہیں برا لگے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۶ ۔ جس کی باتیں بری ہوتی ہیں اس کے ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۷ ۔ جس کے الفاظ خراب ہوتے ہیں اس کا حصہ بھی بیکار ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۸ ۔ برے الفاظ استعمال نہ کرو خواہ تمہیں جواب دینے میں دشواری ہی ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۳۹ ۔ بری باتیں کرنا کمینوں کا شیوہ ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۴۰ ۔ بری گفتگو عزت و وقار اور مروت و مردانگی کو داغدار کر دیتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۴۱ ۔ بری گفتگو قدر و منزلت کو معیوب کر دیتی ہے اور دوستی میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔

( ۴) بے مقصد باتیں

۱۷۸۴۲ ۔ کم تر و بے مقصد گفتگو انسان کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷ ص ۲۷۸ ۔ مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۹۱

۱۷۸۴۳ ۔ انسان کے بہترین مسلمان ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو ترک کئے رکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۳۶

۱۷۸۴۴ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بے کار باتیں کر رہا تھا۔ آپعلیہ السلام وہیں رک گئے اور فرمایا: "اے فلاں! تم اپنے محافظ (فرشتوں) کو اپنے رب کے لئے تحریر لکھوا رہے ہو۔ لہٰذا ایسی بات کرو جو تمہارے مقصد (اور فائدہ) کی ہو اور ایسی باتوں کو چھوڑو جو تمہارے مقصد سے سازگار نہیں ہیں۔"

(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۶ جلد ۵ ص ۳۲۷

۱۷۸۴۵ ۔ حضرت ابوذر غفاری نے کہا: "دنیا کو دو کلموں پر تقسیم کرو، ایک کلمہ حلال کی تلاش کے لئے ہو اور دوسرا آخرت کے لئے، تیسری بات میں نقصان ہی نقصان ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے پیچھے نہ پڑو۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۸

۱۷۸۴۶ ۔ ایک دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب عبداللہ بن عباس سے فرمایا: "جو بات تمہارے مفاد میں نہیں اس کو اپنے منہ سے نہ نکالو، کیونکہ اس میں مجھے تمہارے لئے گناہ کا اندیشہ معلوم ہوتا ہے، اپنے مفاد کی بات بھی ہیں منہ سے نکالو جہاں اس کا موقع و محل ہو۔

بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۲۷

۱۷۸۴۷ ۔ سب لوگوں سے اس شخص کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں جو بے معنی باتیں زیادہ کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۴

۱۷۸۴۸ ۔ قیامت کے دن اس شخص کے گناہ سب سے زیادہ ہوں گے جس کی بے معنی باتیں زیادہ ہوں گی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸۲۹۳

( ۵) فضول باتیں نہ کیا کرو

۱۷۸۴۹ ۔ فضول باتیں نہ کیا کرو، کیونکہ اس سے تمہارے باطنی عیوب ظاہر ہوں گے اور تمہارے دشمن کی خوابیدہ دشمنی بیدار ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۵۰ ۔ ہر فضول چیز کو کسی نہ کسی فضول بات کی ضرورت ہوتی ہے۔

(امام رضا علیہ السلام) تحف العقول ص ۳۲۶ ۔ بحارالانوار جلد ۷ ص ۳۳۵

۱۷۸۵۱ ۔ عالم آدمی فضول بات نہیں کرتا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۹۱

۱۷۸۵۲ ۔ لائق تحسین ہے وہ شخص جو اپنے بچے ہوئے مال کو خرچ کر دیتا ہے اور اپنی زبان کو فضول باتوں سے روکے رکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۲۳

۱۷۸۵۳ ۔ ایسے شخص پر تعجب ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جو اسے دنیا میں فائدہ نہیں پہنچاتیں اور آخرت کے لئے اس کا اجر نہیں لکھا جاتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۵۴ ۔ ایسے شخص پر تعجب ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے کہ اگر اس کی طرف سے دوبارہ بیان کی جائیں تو اسے نقصان پہنچائیں اور اگر بیان نہ کی جائیں تو اسے فائدہ نہ دیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۵۵ ۔ فرزند آدمعلیہ السلام کی کوئی بات بھی اس کے فائدہ کے لئے نہیں ہے سوائے امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکرِ الٰہی کے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷

۱۷۸۵۶ ۔ انسان کبھی ایسی بات کرتا ہے جس سے اس کا مقصد صرف لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے ایسی بات اسے آسمان کی بلندیوں سے بھی بالاتر مقام سے نیچے گرا دیتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷

۱۷۸۵۷ ۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی بات سے اپنے ساتھیوں کو ہنساتا ہے؟ اس طرح وہ خدا کو اپنے آپ سے ناراض کر لیتا ہے اور وہ اس سے کبھی راضی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷

۱۷۸۵۸ ۔ ایک شخص جنت کے اس قدر قریب ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے اور بہشت کے درمیان صرف ایک نیزے کا فاصلہ رہ جاتا ہے، لیکن وہ کوئی ایسی کر دیتا ہے جس سے بہشت کا فاصلہ "صنعاء" کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۸

( ۶) لغو باتیں نہ کرو

۱۷۸۵۹ ۔ لغو باتیں نہ کرو کیونکہ ان کا کم از کم جرم لعنت و ملامت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۰ ۔ لغو باتیں نہ کرو کیونکہ جس کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کے گناہ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۱ ۔ بات نہ کر سکنے میں قباحت، لغو باتوں کے بیان سے بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۲ ۔ زیادہ لغو باتیں، ننگ و عار کا موجب ہوتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۳ ۔ زیادہ لغو باتیں، ہم نشین کو دل تنگ کر دیتی ہیں اور صاحبانِ ریاست کی توہین کا موجب ہوتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۴ ۔ لغو باتیں (اپنوں سے دور کرکے) اغیار کے قریب کر دیتی ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۵ ۔ لغو باتیں (دشمنی کی) آگ کو بھڑکاتی ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۷) کثرتِ کلام

۱۷۸۶۶ ۔ کثرتِ کلام میں بے مقصد الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور معانی بہت کم ہوتے ہیں نہ تو اس کی انتہا نظر آتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۷ ۔ زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ ان میں لغزشیں ہوتی ہیں ساتھ پھر یہ اکتاہٹ کا موجب ہوتی ہیں،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۶۸ ۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے: "زیادہ اور بے مقصد باتیں نہ کریں، اس لئے کہ زیادہ باتیں علماء کے لئے عیب کا سبب ہوتی ہیں اور بے سمجھ لوگوں کے عیوب کو ظاہر کر دیتی ہیں۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۴۱۷۶

۱۷۸۶۹ ۔ جو زیادہ باتیں کرتا ہے وہ بکنے لگ جاتا ہے اور جو غور و فکر سے کام لیتا ہے وہ بصیرت حاصل کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶ ص ۹۷

۱۷۸۷۰ ۔ طولانی گفتگو کلام کی آفت ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) غررالحکم

۱۷۸۷۱ ۔ جو غیرمتعلقہ باتوں کو طول دیتا ہے وہ اپنے آپ کو ملامت کا نشانہ بناتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۷۲ ۔ کثرت کلامی اکتاہٹ کا موجب ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۷۳ ۔ زیادہ باتیں سمجھدار انسان کو بھلا دیتی ہیں اور برباد شخص کے اکتانے کا موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا زیادہ باتیں نہ کرو کہ خود بھی تنگ آ جاؤ، نہ ہی اس قدر کم بولو جس سے تمہاری اہانت ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۸) کثرتِ کلام سے دل مردہ ہو جاتے ہیں

۱۷۸۷۴ ۔ خدا کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ ذکرِ الٰہی کے علاوہ کثرتِ کلام دل کو سخت کر دیتی ہے اور جس کا دل سخت ہوتا ہے وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحار جلد ۷۱ ص ۲۸۱ ، الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۸ ، اسے ترمذی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۷۸۷۵ ۔ جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ لغزشیں کرے گا، جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہو گا، جس میں تقویٰ کم ہو گا اس کا دل مردہ ہو جائے گا، اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۶ ۔ ص ۲۹۳ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹

۱۷۸۷۶ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: "ذکرِ خدا کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کرو، کیونکہ جو لوگ ذکرِ خدا کے علاوہ زیادہ باتیں کرتے ہیں ان کے دل پتھر ہو جاتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں جانتے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۱

۱۷۸۷۷ ۔ معراج کے موقع پر ہونے والی گفتگو میں یہ بھی تھا: "اے محمد! تمہارے لئے لازم ہے کہ خاموشی اختیار کرو، کیونکہ سب سے زیادہ آباد دل، صالح اور خاموش افراد کے ہوتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ ویران دل ایسے لوگوں کے ہوتے ہیں جو بے معنی باتیں کرتے ہیں۔"

بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۷

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "قلب" (دل) "جو چیزیں دل کو مردہ کر دیتی ہیں"

( ۹) کم گوئی

۱۷۸۷۸ ۔ کسی شخص کے اسلام کا حسن اس کی کم گوئی میں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

۱۷۸۷۹ ۔ جس کی باتیں کم ہوں گی اس کے عیب چھپے رہیں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۸۰ ۔ باتیں کم کرو اس طرح ملامت سے بچے رہو گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۸۱ ۔ جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہی۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۰ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۷۱

۱۷۸۸۲ ۔ مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں ہے کہ کسی شخص کی زبان اس کے علم سے طویل تر ہوجس طرح یہ بات بھی مجھے بالکل ناپسند ہے کہ اس کا علم اس کی عقل سے زیادہ ہو۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷ ص ۹۲

۱۷۸۸۳ ۔ عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا کہ اگر بولنے میں اس پر غلبہ پا لیا جاتا تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۸۹

۱۷۸۸۴ ۔ اگر اپنی جان کی سلامتی اور عیبوں کی پردہ پوشی چاہتے ہو تو باتیں کم کرو اور خاموشی زیادہ اختیار کرو۔ اس سے تمہاری فکر میں اضافہ ہو گا اور دل نورانی ہو گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۸۵ ۔ اللہ کو جب کسی بندے کی بھلائی مطلوب ہوتی ہے تو اسے کم گوئی، کم خوری اور کم خوابی کا الہام کر دیتا ہے،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۸۶ ۔ کم گوئی، عیوب کو چھپاتی اور گناہوں کو گھٹاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۸۷ ۔ کم گوئی، عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے اور لغزشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "کلام" ۱۳ " کلام دوا کی مانند ہے"

( ۱۰) کلام اس وقت تک تمہارے قابو میں ہے جب تک بولو نہیں

۱۷۸۸۸ ۔ جب تک منہ سے بات نہیں نکالو گے اس وقت تک کلام تمہارے قابو میں ہے۔ جب منہ سے بات نکال دیتے ہو تو پھر تم خود اس کے قابو میں آ جاتے ہو، لہٰذا زبان کو بھی اسی طرح سنبھال کے رکھو جس طرح اپنے سونے چاندی کو سنبھال کے رکھتے ہو، کیونکہ بعض اوقات بعض باتیں بڑی نعمت کو سلب کر دیتی ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۶ ، ص ۲۹۱ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۸۱

۱۷۸۸۹ ۔ جب کوئی بات منہ سے نکالتے ہو تو اس کے قبضہ میں آ جاتے ہو اور جب تک اسے روکے رکھتے ہو تو اپنے قبضہ میں کئے رکھتے ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۹۰ ۔ اپنی زبان کی حفاظت کرو، کیونکہ باتیں انسان کے قابو میں اس کی قیدی ہوتی ہیں، لیکن اگر اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود ان باتوں کے قابو میں آ کر ان کا قیدی بن جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۳

۱۷۸۹۱ ۔ جاہل خود اپنی زبان کا قیدی ہوتاہے۔

(امام علی نقی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۶۸

۱۷۸۹۲ ۔ خاموشی میں انسان پشیمان ہونے سے بچا رہتا ہے، خاموشی کی وجہ سے جو کمی رہ جاتی ہے اس کی تلافی اس فائدہ کے حصول سے زیادہ آسان ہے جو بات کرنے کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکا جیسے برتن میں موجود چیز کی حفاظت اس کے منہ بند رکھنے کے ساتھ ہوتی ہے۔

(امام علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۱۵

۱۷۸۹۳ ۔ خاموش رہنے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی اس فائدہ کے حصول سے زیادہ آسان ہے جو بولنے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ برتن میں موجود اشیاء کی حفاظت اس کا منہ بند رکھنے سے ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱

(۱ ۱) کلام کا شمار عمل میں ہے

۱۷۸۹۴ ۔ تیرا کلام، تیرے لئے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور تیرے نامہ اعمال میں ہمیشہ کے لئے ثبت کر دیا جاتا ہے، لہٰذا اپنے کلام کو ان چیزوں میں عمل میں لا ؤ جو تمہیں (اپنے رب کے) قریب کر دیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۸۹۵ ۔ جو یہ شخص یہ جانتا ہے کہ اس کے کلام کا شمار عمل میں ہے تو وہ باتیں کرنا کم کرتا ہے اور مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۹

۱۷۸۹۶ ۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام عمل کا جزو ہے وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۱ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹

۱۷۸۹۷ ۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام، عمل ہے تو وہ مطلب کی بات کے علاوہ نہیں بولتا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۸۹

۱۷۸۹۸ ۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام عمل کے مقام پر ہے تو وہ مطلب کی بات کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۶

۱۷۸۹۹ ۔ جو شخص اپنے کلام کو عمل میں شمار نہیں کرتا اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اور سزا اس کے سامنے ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۴

۱۷۹۰۰ ۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کی باتوں کا مواخذہ ہو گا تو اسے چاہئے کہ کم سے کم گفتگو کرے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۱۲) جو کچھ جانتے ہو سب کچھ نہ کہہ دو

۱۷۹۰۱ ۔ مجھ سے ایک بات سنو جو تمہارے لئے قیمتی چیزوں سے زیادہ بہتر ہے (وہ یہ کہ) تم میں سے کوئی شخص مطلب کی بات کے علاوہ کوئی کلام نہ کرے، مطلب کی باتوں میں بھی بہت سی باتیں نہ کہے، مگر صرف اس وقت جب ان کا موقع و محل دیکھے، کیونکہ بہت سے بولنے والے جو بے موقع بات کہہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو قصوروار بنا بیٹھتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۲ ۔ ص ۲۸۸ جلد ۲ ص ۱۳۰

۱۷۹۰۲ ۔ جو بات نہیں جانتے اسے منہ سے نہ نکالو، بلکہ ہر وہ بات بھی منہ سے نہ نکالو جو تم جانتے ہو کیونکہ خداوند سبحان نے تمہارے اعضا و جوارح پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں جن کے ذریعہ وہ قیامت کے دن تمہارے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۸۲ ۔ بحار جلد ۷۱ ص ۲۸۸ ۔ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۳۲۲

۱۷۹۰۳ ۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ جو چیزیں انسان کے علمی احاطہ میں ہیں ان سب کو منہ سے نہ نکال دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۰۴ ۔ جو کچھ جانتے ہو، سب منہ سے نہ نکال دو، ورنہ یہی بات تمہاری جہالت کے لئے کافی ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۰۵ ۔ ہر سنی ہوئی بات کو بیان نہ کرو، ورنہ تمہاری بے قوفی کے لئے یہی بات کافی ہو گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۰۶ ۔ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸۲۰۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "کذب"، "تھوڑا سا جھوٹ"

( ۱۳) کلام دوا کی مانند ہے

۱۷۹۰۷ ۔ کلام دوا کی مانند ہے۔ اگر کم (استعمال) ہو تو مفید ہوتی ہے اور اگر زیادہ (استعمال) ہو تو مہلک ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۰۸ ۔ جب گفتگو کم ہو تو بہتری زیادہ ہوتی ہے اور اگر جواب کثرت کے ساتھ ہوں تو حقیقت گم ہو جاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۰۹ ۔ عقلمند یا تو اپنی ضروریات کے مطابق بات کرتا ہے یا دلیل کے ساتھ۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۱۰ ۔ گفتگو دوہری صفات کے درمیان ہوتی ہے اور وہ ہیں کثرت و قلت کی عادتیں۔ کثرت کے ساتھ گفتگو بکواس ہوتی ہے اور قلت کے ساتھ گفتگو عاجزی و بات نہ کر سکنا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۱۱ ۔ دانا شخص کی بات اگر صحیح ہو تو دوا ہوتی ہے اور اگر غلط ہو تو بیماری ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۱۴) خاموشی سے بہتر باتیں

۱۷۹۱۲ ۔حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ "کلام افضل ہے یا سکوت؟" آپ نے فرمایا: "ان میں سے ہر ایک کے لئے کئی آفتیں ہیں۔ اگر دونوں اپنی آفات سے محفوظ ہوں تو کلام سکوت سے بہتر ہے۔" پھر سوال کیا گیا: "فرزندِ رسول! وہ کیسے؟" آپ نے فرمایا: "اس لئے کہ خداوند عز و جل نے انبیاء و اوصیأ کو سکوت کے ساتھ نہیں کلام کے ساتھ بھیجا ہے، نہ تو جنت کا استحقاق سکوت کے ساتھ ہے نہ ہی ولایتِ خداوندی کا حصول سکوت کے ساتھ ہے اور نہ جہنم سے اجتناب سکوت کے ساتھ ہے بلکہ ان سب چیزوں کا تعلق کلام کے ساتھ ہے"

بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۴۴ ، وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۵۳۲

۱۷۹۱۳ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد گرامی سے بیان فرماتے ہیں کہ آپعلیہ السلام نے ایک باتونی شخص سے فرمایا: "اے شخص! تم کلام کی توہین اور سبکی کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبروںعلیہ السلام کو بھیجا تو انہیں سونا چاندی دے کر مبعوث نہیں فرمایا بلکہ انہیں قوتِ گویائی کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مخلوق نے اپنا تعارف بھی کلام ہی کے ذریعہ فرمایا، اس پر دلائل و براہین قائم فرمائے۔"

فروع کافی جلد ۸ ص ۱۴۸ ۔ روضة الکافی حدیث ۱۲۸

۱۷۹۱۴ ۔ گفتگو سے روح کو سکون ملتا ہے اور خاموشی سے بدن کو راحت نصیب ہوتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۶

۱۷۹۱۵ ۔ خاموشی اور بات نہ کر سکنے کی نسبت حق بتا کہنا بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۱۵) خاموشی سونا اور گفتگو چاندی ہے

۱۷۹۱۶ ۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: "میرے بیٹے! اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ کلام چاندی ہے تو یہ بھی یاد رکھو کہ خاموشی سونا ہے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۹

۱۷۹۱۷ ۔ خاموشی سونا اور کلام چاندی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴

۱۷۹۱۸ ۔ مومن بندہ جب تک خاموش رہتا ہے اس وقت تک نیکوکار لکھا جاتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو پھر نیکوکار یا گناہ گار لکھا جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۷

۱۷۹۱۹ ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے فرزند جناب سلیمان علیہ السلام سے فرمایا: "بیٹے! تمہیں نیک باتوں کے علاوہ باقی طویل خاموشی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ طویل خاموشی پر پشیمانی ہوتی ہے جو کثرتِ کلام سے کئی مرتبہ پشیمانی کا سامنا کرنے سے کہیں بہتر ہے، فرزند من! اگر کلام کو چاندی قرار دیا جائے تو خاموشی کو سونا قرار دینا چاہئے۔"

بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۸

(قولِ مولف: مذکورہ متضاد احادیث کو باہم مربوط کرنے کے لئے غور کیا جائے)

( ۱۶) خاموشی ہمیشہ قابل ستائش نہیں ہوتی

۱۷۹۲۰ ۔ حکمت کی بات پر خاموش رہنے میں بہتری نہیں جیسا کہ جہالت کی بات پر زبان کھولنے میں بہتری نہیں ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۹۱ جلد ۲ ص ۸۱ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۹

۱۷۹۲۱ ۔ جس خاموشی میں غور و فکر نہ ہو وہ غفلت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۵

(امام جعفر صادق علیہ السلام) المحاسن، خصال صدوق ۔ معانی الاخبار۔

۱۷۹۲۲ ۔ خاموشی اس شخص کے لئے عبادت ہے جو خدا کو یاد کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴

۱۷۹۲۳ ۔ غور و فکر کے بغیر خاموشی گونگاپن ہے،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۲۴ ۔ عالم کو اپنے علم پر خاموشی اختیار نہیں کرنا چاہئے، نہ جاہل کے لئے مناسب ہے کہ وہ خاموش رہے۔ (یعنی عالم کو اپنا علم بیان کرنا چاہئے اور جاہل کو اس سے علم حاصل کرنا چاہئے) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فائلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمون" یعنی اگر تم نہیں جانتے تو علماء سے پوچھو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۲۶۵

۱۷۹۲۵ ۔ ہر (نیا) آنے والا سرگردان ہوتا ہے، لہٰذا اس سے کھل کر باتیں کرو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "بدعت"، "جب بدعتیں ظاہر ہونے لگیں"

نیز: عنوان "نیکی" ( ۲)

( ۱۷) کلام سے بہتر خاموشی

۱۷۹۲۶ ۔ جو خاموشی تمہارے وقار کا موجب بنے اس کلام سے بہتر ہے جو تمہیں ننگ و عار کا لباس پہنائے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۲۷ ۔ جس بات کے نتیجہ میں ملامت کا شکار ہونا پڑے اس سے وہ سکوت بہتر ہے جس کے نتیجے میں سلامتی حاصل ہو۔

(حضرت علیعلیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۲۸ ۔ جو خاموشی تمہیں شرافت کا لباس پہنائے وہ اس کلام سے بہتر ہے جو تمہیں پشیمانی کا شکار کر دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۲۹ ۔ (نامہ اعمال میں) برائی لکھوانے کی بجائے خاموشی بہتر ہے اور نیکی لکھوانے سے خاموشی بہتر نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴

۱۷۹۳۰ ۔ گونگاپن جھوٹ بولنے سے بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۳۱ ۔ بات نہ کر سکنا واہیات باتوں سے کہیں بہتر ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۱۸) اولیاء اللہ کی خاموشی

۱۷۹۳۲ ۔ اولیاء اللہ خاموش رہتے ہیں، ان کی خاموشی ذکر (الٰہی) ہوا کرتی ہے۔ وہ (تخلیقِ خداوندی میں) غور و فکر کیا کرتے ہیں، ان کا یہ غور و فکر عبرت ہوتا ہے۔ پھر جب باتیں کرتے ہیں تو ان کا باتیں کرنا حکمت ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۶۹ ص ۲۸۹ ۔ امالی شیخ مغید، اور اس کتاب میں ہے:

"ان کی خاموشی فکر پر مبنی ہوتی ہے، اور بولتے ہیں تو ان کا بولنا ذکرِ الٰہی ہوتا ہے۔"

۱۷۹۳۳ ۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے دل خوفِ خدا سے شکستہ ہو چکے ہیں، جن کی بنا پر وہ خاموش رہتے ہیں حالانکہ وہ بڑے فصیح و عقلمند ہوتے ہیں ، اپنے پاکیزہ اعمال کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے لئے جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ کثیر اعمال کو بھی کثیر نہیں سمجھتے اور قلیل اعمال پر ان کے دل راضی نہیں ہوتے"

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۰۹ ۔ جلد ۶۹ ص ۲۸۶

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "نظر" (غور و فکر) "جس غور و فکر کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا"

نیز: باب "خیر"

( ۱۹) احسن کلام

۱۷۹۳۴ ۔ احسن کلام وہ ہے جس کا سننا کانوں پر ناخوشگوار نہ گزرے اور ذہن جس کے سمجھنے سے تھک نہ جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۳۵ ۔ احسن کلام وہ ہے جسے حسنِ ترتیب سے مزین کیا جائے اور اسے ہر خاص و عام سمجھ لیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۳۶ ۔ بہترین اور احسن کلام وہ ہے جو نہ تو تھکا دے اور نہ ہی کم ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۳۷ ۔ احسن کلام (صرف) کلامِ الٰہی ہی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "قرآن" ، "قرآن سب سے احسن کلام ہے")

(۲۰)جامع کلام

۱۷۹۳۸ ۔ مجھے جامع کلام دے کر مبعوث کیا گیا ہے اور رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم

۱۷۹۳۹ ۔ رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے اور مجھے جامع کلام عطا کیا گیا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) اسے مسلم اور احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم

۱۷۹۴۰ ۔ عطاء بن سائب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام اپنے مقدس آباؤ اجداد کے ذریعہ حضرت رسول خدا سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ۱ ۔ میں ہر گورے اور کالے کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں ۲ ۔ زمین پر میرے لئے مقام سجدہ قرار دی گئی ہے ۳ ۔ رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ۴ ۔ مالِ غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا گیا ہے جومجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہیں تھا اور ۵ ۔ مجھے جامع کلام سے نوازا گیا ہے۔" عطا ابن سائب کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ: "جامع کلام سے کیا مراد ہے؟" فرمایا: "قرآن مجید"۔

بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۴ ۔ ۱۵

۱۷۹۴۱ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے سنا کہ حضرت رسول خدا کے پاس ایک بادیہ نشین عرب آیا اور عرض کیا: "میں دیہات میں رہتا ہوں، لہٰذا آپ مجھے کوئی جامع کلام تعلیم فرمائیے!" آنحضرت نے فرمایا: "میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ غصہ نہ کیا کر" اس شخص نے اپنی بات کو تین مرتبہ دہرایا اور تینوں مرتبہ یہی جواب سنا۔ آخر اسے سمجھ میں آ گیا اور کہنے لگا: "اس کے بعد میں کسی اور بات کا سوال نہیں کروں گا"

کافی جلد ۲ ص ۳۰۳

۱۷۹۴۲ ۔ یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں: "یا رسول اللہ ! میں نے آپ سے بڑی تعداد میں احادیث سنی ہیں جس سے مجھے خوف لاحق ہو گیا کہ آخری حدیث، پہلی حدیث کو فراموش نہ کر دے۔ لہٰذا مجھے ایسی بات بتائیں جو سب سے جامع ہو۔" آپ نے فرمایا: "جن باتوں کا تمہیں علم ہے ان میں خدا سے ڈرتے رہو۔"

(صحیح ترمذی جلد ۱ ص ۱۵۶

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "اسلام"، "جامع اسلام"

نیز: باب "خیر"، "ساری کی ساری خیر" اور باب "جن چیزوں سے دنیا و آخرت حاصل کی جاتی ہے")

( ۲۱) پاکیزہ کلام

قرآن مجید

( …وقولوا للناس حسنا ) (بقرہ/ ۸۳)

ترجمہ۔اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرو

( وقل لعبادی یقولوا التی هی احسن، ان الشیطٰن ینزغ بینهم ) (بنی اسرائیل/ ۵۳)

ترجمہ۔ اور اے پیغمبر! میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کریں تو اچھے طریقے سے کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے

( یٰا یهاالذین امنوا اتقوا وقولوا قولا سدیدا ) ۔ (احزاب/ ۷۰)

ترجمہ۔ ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہا کرو اور درست بات کیا کرو۔

( واذاسمعوا اللغو…………………………لا نبتغی الجهٰلین ) (قصص/ ۵۵)

ترجمہ۔ اور وہ جب کسی سے بری بات سنتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور (صاف) کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے واسطے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے واسطے تمہارے اعمال ہیں، تمہیں دور سے سلام ہے، ہم جاہلوں کے خواہاں نہیں ہیں۔

حدیث شریف

۱۷۹۴۳ ۔ ایک شخص نے حضرت رسول خدا کی سواری کی لگام پکڑ کر سوال کیا: "یارسول اللہ! کونسا عمل سب سے بہتر ہے؟" آپ نے فرمایا: "کھانا کھلانا اور پاکیزہ بات کرنا۔"

بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۲

۱۷۹۴۴ ۔ تین چیزیں نیکی کا دروازہ ہیں۔ ۱ ۔ دل کا سخی ہونا ۲ ۔ پاکیزہ کلام اور ۳ ۔ دکھوں پر صبر۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱

۱۷۹۴۵ ۔ جنت میں ایسے بالاخانے ہوں گے جن کے ظاہر سے باطن کو اور باطن سے ظاہر کو دیکھا جا سکے گا، اس میں میری امت کے وہ لوگ سکونت پذیر ہوں گے جن کی باتیں پاکیزہ ہوں گی، جو کھانے کھلاتے ہیں، سلام کو عام کرتے، روزے رکھتے اور رات کو جب سب لوگ سوئے ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھتے ہیں۔"

(حضرت رسول اکرم) معانی الاخبار ص ۲۳۸

۱۷۹۴۶ ۔( قولو اللناس حسنا ) (لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کیا کرو) کے بارے میں ہے کہ اس سے مراد ہے: "لوگوں سے ایسی بات کرو جس کا جواب سننے کے لئے اس سے بہتر کے خواہاں ہوتے ہو۔"

(امام محمد باقرعلیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۹

۱۷۹۴۷ ۔ سلیمان بن مہران کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ اس وقت آپ کی خدمت میں چند شیعہ حضرات تشریف فرما تھے۔ میں نے آپعلیہ السلام کو فرماتے سنا: "اے گروہِ شیعیان! تم ہمارے لئے زینت بنو، ہمارے لئے باعث ننگ و عیب نہ بنو لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کرو، اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور ان زبانوں کو فضول و بیہودہ باتوں سے بچا کر رکھو۔"

بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۰

۱۷۹۴۸ ۔ خدا سے ڈرو اور لوگوں کو اپنے کندھوں پر سوار نہ ہونے دو کیونکہ خداوندِ عزوجل اپنی کتاب میں فرماتا ہے۔ "لوگوں سے اچھی باتیں کیا کرو۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۳

۱۷۹۴۹ ۔ خوبصورت اور پیاری گفتگو، مال و ثروت میں اضافہ کرتی ہے، رزق میں برکت کا موجب ہوتی ہے۔ اجل (موت) کی تاخیر کا سب ہوتی ہے، اپنوں میں محبوب بناتی ہے اور (انجام کار) بہشت میں لے جاتی ہے۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۰

۱۷۹۵۰ ۔ اس ذات کی قسم میری جان جس کے قبضہ میں ہے، لوگ جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان سب میں نیک باتوں سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کو محبوب نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱

۱۷۹۵۱ ۔ اچھی گفتگو کرو کہ اس سے تمہاری پہچان ہوتی ہے اور اچھے کام کرو کہ اس سے تم اہل خیر بن جاؤ گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱

۱۷۹۵۲ ۔ اچھی بات کرو تاکہ اچھا جواب پاؤ۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۳ ۔ بری باتوں کا جواب بھی برا ملتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۴ ۔ جس کی گفتگو پیاری ہوتی فتح و کامرانی اس کے آگے آگے ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۵ ۔ قول و فعل (دونوں) میں اپنے نفس کو کھلی چھٹی نہ دے دو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۶ ۔ اپنی زبان کو اچھی گفتگو کا عادی بناؤ کہ اس طرح ملامتوں سے بچے رہو گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۷ ۔ اپنی زبان کو نرم گفتگو اور سلام کرنے کا عادی بناؤ کہ اس سے تمہارے دوست بڑھیں گے اور دشمن گھٹیں گے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۵۸ ۔ جس کی زبان شیریں ہوتی ہے اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۲۲) کلام کے بارے میں متفرق احادیث

۱۷۹۵۹ ۔ کلام کے لئے کئی آفتیں ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۰ ۔ کلام تین طرح کا ہوتا ہے۔ ۱ ۔ نفع اٹھانے والا۔ ۲ ۔ سالم و تندرست اور ۳ ۔ بیمار و لاغر۔ نفع اٹھانے والا کلام وہ ہے جو ذکر خدا میں ہوتا ہے، سالم و تندرست وہ ہے جس میں اللہ کی پسندیدہ گفتگو ہو اور لاغر و بیمار وہ کلام ہوتا ہے جو لوگوں کے بارے میں ہو۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۹

۱۷۹۶۱ ۔ بدترین بات وہ ہے جو ایک دوسرے کی نقیض ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۲ ۔ الفاظ معانی کے قالب ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۳ ۔ ہر بات کے لئے ایک موقع محل ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۴ ۔ جب بات کرنے کا موقع نہ ہو تو خاموش رہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۵ ۔ صاحبان (عقل و) فہم کے لئے باتوں کو الٹ پھیر کیا جا سکتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۶ ۔ زبانِ مقال (بولتی زبان) سے زبانِ حال، موجودہ کیفیت کی زبان، زیادہ سچی ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۷۹۶۷ ۔ جسے صرف اپنی باتیں ہی اچھی لگتی ہوں، سمجھو کہ اس کی عقل ڈوب چکی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم