میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 52958
ڈاؤنلوڈ: 4231

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52958 / ڈاؤنلوڈ: 4231
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۴۳

لوم (کمینہ پن)

۱۸۰۲۷ ۔ کمینگی برائیوں کی جڑ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۲۸ ۔ کمینہ پن تمام قابلِ مذمت چیزوں کا مجموعہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۲۹ ۔ کمینگی تمام فضلیتوں کی ضد اور تمام رذالتوں کا مجموعہ ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۰ ۔ کمینہ پن ایک برائی ہے، لہٰذا اسے اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بناؤ۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۱ ۔ مال کی محبت و ستائش و تعریف کی لذت کو ترجیح دینا کمینہ پن ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۲ ۔ بداخلاقی کمینہ پن کا ایک جزو ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۳ ۔ عہد و پیمان شکنی کمینہ پن کی علامت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۴ ۔ بری ہمسائیگی کا اظہار یعنی ہمسایوں سے برا سلوک، کمینہ پن کی علامت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۵ ۔ نیک لوگوں کی غیبت بدترین کمینگی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۶ ۔ جس کے پاس دو چیزیں اکٹھی ہو جائیں اسے کمینگی کے دو ستونوں کا سہارا مل جاتا ہے ایک تو دنیا کی حرص اور ایک بخل۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۳۷ ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کمینہ پن کیا ہے؟ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "سخاوت کم اور گفتگو کا فحش ہونا"

تحف العقول ص ۱۶۲

۱۸۰۳۸ ۔ کمینہ پن کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: انسان خود کو بچا لے اور اپنی بیوی (ناموس) کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔

(امام حسن علیہ السلام) تحف العقول ص ۱۶۳

(قول مولفی: ملاحظہ ہو: باب ۳ حدیث ۱۸۰۵۳

( ۲) کمینے شخص کی خصوصیات

۱۸۰۳۹ ۔ کمینہ شخص جب اپنی اوقات سے بڑھ جائے تو اس کے حالات بدل جاتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۰ ۔ کمینہ شخص ننگ و عار کی زرہ پہن کر شریف لوگوں کو ستاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۱ ۔ کمینے سے نہ تو خیر کی امید رکھی جا سکتی ہے، نہ اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے، نہ ہی اس کی چالوں و فریب کاریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۲ ۔ کمینہ شخص بے حیا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۳ ۔ کمینے کو جب اقتدار مل جاتا ہے تو برائیاں کرتا ہے اور جب وعدہ کرتاہے تو اس کے برخلاف کرتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۴ ۔ کمینہ آدمی جب کسی کو کچھ دیتا ہے تو دل میں اس کو چھپا لیتا ہے تاکہ موقع ملنے پر اسے منہ پر مارا جائے اور جب کسی سے لیتا ہے تو موقع پر اس کا انکار کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۵ ۔ کمینے کے ساتھ بھلائی بہت بڑی رذالت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۶ ۔ کمینے کی سب سے بڑی بھلائی یہ ہے کہ کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور شریف کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کسی کو کچھ نہ دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۷ ۔ کمینے پر کبھی اعتماد نہ کرو، کیونکہ جو اس پر اعتماد کرتا ہے اسے وہ وقت آنے پر چھوڑ دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۸ ۔ کمینے کا مرتبہ جوں جوں بلند ہوتا جائے گا لوگ اس کے پاس سے گھٹتے چلے جائیں گے جبکہ شریف اس کے برعکس ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۴۹ ۔ جو برے کام انجام دیتا ہے، بداخلاقی کا مظاہرہ اور بدترین بخل سے کام لے، سمجھ لو کہ یہ کمینہ شخص ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۵۰ ۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان جھگڑا ہو گیا، اس شخص نے حضرت سلمان سے کہا: "تو کونذ ہے، کیا ہے؟" انہوں نے جواب میں فرمایا: "میری اور تمہاری ابتدا ایک غلیظ نطفے سے ہوئی ہے اور انتہا ایک بدبودار مردار پر ہو گی۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور میزانِ اعمال نصب کی جائے گی تو جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا وہ صاحبِ عزت و شریف ہو گا اور جس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ بے عزت و کمینہ ہو گا۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۴ ص ۲۸۹

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب ( ۴)

( ۳) کمینہ ترین انسان

۱۸۰۵۱ ۔ غیبت کرنے والا کمینہ ترین آدمی ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۵۲ ۔ کمینہ ترین صفت کینہ پروری ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۸۰۵۳ ۔بہت بڑی کمینگی یہ ہے کہ انسان خود کو توبچا لے لیکن اپنی بیوی(ناموس) کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

( ۴) کمینہ پن

۱۸۰۵۴ ۔ کمینے جسمانی لحاظ سے صابر ہوتے ہیں او رشریف نفسانی لحاظ سے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۸۰۵۵ ۔ کمینے و سفلہ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ معزز و شریف لوگوں کو ایذا پہنچائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۸۰۵۶ ۔ کمینوں کے پاس اپنی آبرو لے کر جانا موت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۸۰۵۷ ۔ کمینوں سے رزق و روزی طلب کرنے والا محرومی کا شکار ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

۱۸۰۵۸ ۔ جب کبھی کمینوں کے پاس جانا پڑ جائے تو اپنے لئے روزہ کا بہانہ بنالو۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۸۰۵۹ ۔ کمینے پن سے سنگدلی پیدا ہوتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم

صفحہ نمبر ۴۱۵ ؟

(حضرت رسول اکرم) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۵ ۔ کنز العمال حدیث ۴۱۱۰۱ ( قدرے اختلاف کے ساتھ)

۱۸۰۶۵ ۔ سوتی لباس پہنا کرو، کیونکہ یہ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ہمار الباس ہے۔

(امام علی علیہ السلام) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۶

۱۸۰۶۶ ۔ لباس سوتی پہنا کرو کیونکہ یہ رسول اللہ اور ہمارا لباس ہے۔ آنحضرت کسی خاص وجہ کے بغیر کبھی اونی اور ریشمی لباس نہیں پہنتے تھے۔

(حضرت علی علیہ السلام) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۵۰

۱۸۰۶۷ ۔ سوت بھی انبیاء کا لباس ہے یہ گوشت کے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۹

( ۶) میانہ روی لباس

۱۸۰۶۸ ۔ متقین کے اوصاف میں فرمایا:۔۔۔ ان کی گفتگو جچی تلی اور پہناوا میانہ روی کا ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳

۱۸۰۶۹ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے کہ ان کے جسم پراونی کُرتے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ اس سے یہ قول و قرار کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا او رعزت بھی برقرار رہے گی۔

اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے) کہا "تم کو ان پر تعجب نہیں ہوتا کہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرار رہے گی او رملک بھی باقی رہے گا جبکہ یہ خود تنگدلی و ذلیل صورت میں ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ (اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھا تو پھر ) ان ک ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے، یہ اس لیے کہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا۔ اور بالوں سے بنے ہوئے کپڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲

۱۸۰۷۰ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصاف میں فرمایا : اگر چاہو تو عیسیٰ بن مریم کا حال کہوں جو (سر کے نیچے ) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے او رسخت و کھردار لباس پہنتے تھے۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰ ۔

۱۸۰۷۱ ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف میں فرمایا : حضرت رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے ، اپنے ہاتھ ہی سے اپنی جوتی گانٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے۔۔۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰

۱۸۰۷۲ ۔ میں موٹا لباس پہنتا ہوں، زمین پر بیٹھتا ہوں۔( کھانے کے بعد) اپنی انگلیوں کو چاٹتا ہوں، زین کے بغیر گدھے پر سوار ہوتا ہوں اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتا ہوں۔ پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۸۰

۱۸۰۷۳ ۔ اے ابوذر ! سخت و کھردار اور موٹا لباس پہنا کروتا کہ تمہارے اندر غرور راہ نہ پالے۔

(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۹۱

۱۸۰۷۴ ۔ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو خطبہ دیا ۔ اس وقت آپ کے جسم پر کھدر کا ایک بوسیدہ و پیوند دار جامہ تھا۔ آپعلیہ السلام سے اس کے بارے میں کہا گیا تو آپعلیہ السلام نے فرمایا: " اس سے دل متواضع ہوتا ہے اور مئومن اس کی تاشی کرتے ہیں"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوارجلد ۷۹ ص ۳۱۲

ایک اور روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیونددار جامہ دیکھا گیا تو آپعلیہ السلام سے اس بارے میں پوچھا گیا۔ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "اس سے دل متواضع، نفس، مطیع ہوتا ہے اور مومن اسی کی تاسی کرتے ہیں۔"

بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۳

۱۸۰۷۵ ۔ عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے سامنے کھٹا دودھ رکھا ہوا تھا، جس کی ترش بو میں برداشت نہ کر سکا۔ ساتھ ہی روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے بھی تھے۔ یہ دیکھ کر دریافت کیا: "امیرالمومنینعلیہ السلام! آپعلیہ السلام یہی غذا کھاتے ہیں؟" آپعلیہ السلام نے فرمایا: "اے ابوالجنود! میں نے تو حضرت رسول خدا کو اس سے بھی زیادہ خشک ٹکڑے کھاتے اور اس سے زیادہ کھردرا و سخت لباس پہنے دیکھا ہے۔ لہٰذا اگر میں آنحضرت کی سیرت کو اختیار نہیں کروں گا تو اندیشہ ہے کہ میں ان تک نہیں پہنچ سکوں گا۔"

بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۴

۱۸۰۷۶ ۔ حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو طرح کے لباس پہننے سے روکا ہے:

ایک تو وہ جو خوبصورتی و زیبائی میں مشہور اور دوسرا وہ جو برائی اور خرابی ہیں مشہور ہو۔

کنزالعمال حدیث ۴۱۱۷۱

۱۸۰۷۷ ۔ آنحضرت ہی سے روایت ہے کہ آپ نے دو طرح کی شہرت کے حامل کپڑوں سے روکا ہے۔ ایک وہ جو نہایت ہی باریک ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو نہایت ہی موٹا ، اسی طرح جو سختی و نرمی، نیز لمبائی و کوتاہی میں مشہور ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے ان دو صفات کے درمیان کی صفت کا انتخاب کیا جائے۔

کنزالعمال حدیث ۴۱۱۷۱

۱۸۰۷۸ ۔ مال، اللہ کا ہے جسے اللہ نے انسان کے پاس امانت کے طور پر رکھا ہے، اور اسے صرف اس حد تک اجازت دی ہے کہ اس سے درمیانی کیفیت کا کھانا کھائے اور درمیانی صفت کا لباس پہنے

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۰۴

۱۸۰۷۹ ۔ ایسا لباس پہنو جس سے نہ تمہاری شہرت ہو اور نہ ہی شکایت ہو۔

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: باب "شہرت" ، "لباس اور عبادت کی شہرت")

( ۳) بہترین لباس

۱۸۰۸۰ ۔ حماد بن عثمان کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ اس وقت ایک شخص نے آنجنابعلیہ السلام سے کہا: "خدا آپ کا بھلا کرے! آپعلیہ السلام تو فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام موٹا اور کھردرا لباس زیب تن فرماتے تھے، جس کے ایک پیراہن کی قیمت صرف چار درہم ہوئی تھی، وغیرہ، لیکن آپ خود اس قدر عمدہ جامہ زیبِ بدن کئے ہوتے ہیں!"

آپعلیہ السلامنے فرمایا: "علی بن ابی طالب علیہ السلام ایسا لباس اس وقت زیب تن کرتے تھے جسے ناپسند نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر وہی لباس آج پہن لیں تو انگشت نمائی ہو۔ لہٰذا ہر دور کا بہترین لباس وہی ہوتا ہے جو اس زمانہ والے استعمال کرتے ہیں، البتہ جب ہمارے قائم (قائم آل محمد عجل اللہ فرجی ظہور فرمائیں گے تو علیعلیہ السلام جیسا لباس پہنیں گے اور انہی کی سیرت پر چلیں گے۔"

فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۴

۱۸۰۸۱ ۔ برید بن معاویہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے عبید بن زیاد سے فرمایا: "خدا کی نعمتوں کا اظہار خدا کو زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ انہیں چھپایا جائے۔ لہٰذا تمہیں بھی اپنی قوم میں مروج بہترین لباس پہننا چاہئے" راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد عبید مرتے دم تک اپنی قوم میں مروج بہترین لباس پہنتے رہے۔

وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۲

۱۸۰۸۲ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے لباس کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: "لباس تو اسی قسم کا پہننا چاہئے، لیکن اس دور میں ہم نہیں پہن سکتے کیونکہ اگر ہم پہننے لگیں تو لوگ یا تو کہیں گے یہ دیوانہ یا کہیں گے کہ ریاکار ہے البتہ جب قائم آل محمد ظہور فرمائیں گے تو وہ ایسا لباس زیب تن کریں گے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۸۹ ص ۳۱۴

۱۸۰۸۳ ۔ "میں طواف میں مصروف تھا کہ ایک شخص نے میرا کپڑا کھینچنا شروع کر دیا، جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ "عباد بصری" تھا، اس نے کہا: "اے جعفر بن محمد! آپ حضرت علیعلیہ السلام کے مقام و مرتبہ پر ہوتے ہوئے ایسے کپڑے پہنتے ہیں؟" میں نے کہا: "افسوس ہے تجھ پر! یہ کرمان کے دیہات "کوہستان" کا تیارکردہ کپڑا ہے جسے میں نے ایک درہم سے کچھ زیادہ کے عوض خریدا۔ حضرت علی علیہ السلام ایک ایسے زمانہ میں تھے جس میں آپ جیسا بھی لباس پہنتے وہ ان کے مناسب حال ہوتا تھا اور اگر میں آج کے دور میں ان جیسا لباس پہننے لگوں تو لوگ کہیں گے "یہ عباد بصری کی طرح ریاکار ہے!"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۵ ، ص ۳۰۸ ۔ وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۷

فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۳

۱۸۰۸۴ ۔ میرے کمزور (عقیدہ کے) دوست اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں بوریا پر بیٹھوں اور موٹا لباس پہنوں جبکہ یہ دور اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

(امام رضا علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۴۹

۱۸۰۸۵ ۔ معمر بن خلاد کہتے ہیں: "میں نے حضرت ابوالحسن (امام رضا) علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے: بخدا! اگر میں بھی اسی دور میں ہوتا تو میں بھی عمدہ غذا کی بجائے سادہ غذا کھاتا، نرم کپڑے کی بجائے کھردرا لباس پہنتا اور راحت کی بجائے سختی اٹھاتا۔"

بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۴

۱۸۰۸۶ ۔ احمد بن محمد بن ابی نصر کہتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اچھے اور عمدہ لباس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟" میں نے کہا: "جہا ں تک مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام عمدہ لباس پہنتے تھے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نیاکپڑا خرید کر اسے پانی میں بھگونے کا حکم دیتے تھے۔" اس پر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "اچھا اور زیبا لباس پہنا کرو، کیونکہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام موسم سرما میں پانچ سو درہم کا ملائم پشمی کرتا اور پچاس دینار ملائم پشمی چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ جب سردیوں کا موسم گزر جاتا تو اسے آپ فروخت کرکے اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔" اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیٰبت من الرزق" یعنی اے رسول! (ان سے) پوچھو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اور کھانے کی پاک و پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں، کس نے حرام کر دیں؟ (اعراف/ ۳۲)

وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۱

۱۸۰۸۷ ۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا: "آپ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبعلیہ السلام موٹا اور کھردرا لباس پہنتے تھے، جبکہ آپ نے تو کوہستانی اور عمدہ لباس پہنا ہوا ہے!" اس پر انہوں نے فرمایا: "تم پر افسوس ہے۔ تمہیں نہیں معلوم کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تنگی کے زمانہ میں زندہ تھے۔ اب وہ دور نہیں رہا اور تنگی ختم ہو چکی ہے اس لئے زمانہ کے نیک لوگ ایسا لباس پہننے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔"

بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۰۹ ۔ ۳۱۵

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "جمال"، "خدا جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے")

نیز: باب "تواضع" ، "بلندی پر فائز ہونے کے باوجود تواضع")

( ۴) خدا کی خوشنودی اور بندوں کی خوشنودی

۱۸۰۸۸ ۔ ابی عباد کہتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام گرمیوں میں چٹائی پر اور سردیوں میں غالیچہ پر بیٹھا کرتے تھے، لباس موٹا ہوتا تھا، لیکن جب باہر لوگوں میں تشریف لے جاتے تو زینت کرکے جاتے۔

بحارالانوار جلد ۸۳ ص ۲۲۲

۱۸۰۸۹ ۔ روایت میں ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اونی لباس کے اوپر ملائم پشمی لباس زیب تن فرمایا ہوا تھا۔ چنانچہ ایک جاہل صوفی

نے جب آپ کا ملائم پشمی لباس دیکھا تو کہنے لگا: "آپ خود کو یہ کیسے گمان کرتے ہیں کہ آپ زاہد ہیں جبکہ ہم آپ کو نعمتوں بھرے ملائم پشمی لباس میں دیکھ رہے ہیں؟"

یہ سن کر امام علیہ السلام نے اندرونی لباس ظاہر فرمایا۔ انہوں نے دیکھا تو وہ اونی لباس ہے اس پر آپ نے فرمایا: "یہ اندرونی لباس اللہ (کو خوش کرنے) کے لئے ہے اور یہ اوپر والا لباس لوگوں کو دکھانے کے لئے ہے۔"

بحارالانوار جلد ۸۳ ص ۲۲۲

فہرست

فصل۔ ۱ ۴

قبر ۴

قرآن مجید ۴

حدیث شریف ۴

( ۲) قبر کا سوال ۶

( ۳) قبر میں کیا پوچھا جائے گا؟ ۶

( ۴) قبر میں کن لوگوں سے سوال ہو گا؟ ۸

( ۵) قبر میں فائدہ مند اعمال ۹

( ۶) قبر کا عذاب ۹

قبر سے متعلق متفرق احادیث ۱۰

فصل۔ ۲ ۱۱

قبلہ ۱۱

( ۱) تحویلِ قبلہ ۱۱

قرآنِ مجید: ۱۱

حدیث شریف۔ ۱۱

قبلہ کے بارے میں علمی بحث ۱۳

قبلہ کے بارے میں معاشرتی بحث ۱۶

قبلہ کی تاریخی بحث ۱۹

خانہِ کعبہ کی شکل و صورت ۲۱

غلافِ کعبہ ۲۳

خانہ کعبہ کی قدرو منزلت ۲۳

خانہ کعبہ کی تولیت ۲۵

فصل۔ ۳ ۲۷

تقبل (بوسہ) ۲۷

( ۱) بوسہ لینا ۲۷

( ۲ مومن کا بوسہ ۲۸

فصل۔ ۴ ۲۹

قتل ۲۹

(۱) قتلِ انسان ۲۹

قرآن مجید: ۲۹

حدیث شریف ۲۹

( ۲) مومن کا قتل ۳۳

قرآن مجید، ۳۳

حدیث شریف ۳۳

(۳) قتل کے جائز ہونے کی وجوہات ۳۵

قرآن مجید ۳۵

حدیث شریف ۳۵

( ۴) قاتل و مقتول دونوں جہنمی ۳۶

( ۵) کسی کو بگاڑ کر قتل نہ کرو ۳۶

( ۶) خودکشی کرنے والا ۳۷

قرآنِ مجید ۳۷

حدیث شریف ۳۸

( ۷) اسقاطِ حمل ۳۹

( ۸) صبر کے ساتھ قتل کرنا ۳۹

فصل۔ ۵ ۴۱

( ۱) قدر ۴۱

قرآن مجید: ۴۱

حدیث شریف ۴۱

(۲) قدر ایک تاریک راستہ ہے ۴۳

( ۳) تقدیرو تدبیر ۴۴

( ۴) تقدیراور عمل ۴۴

( ۵) کن چیزوں کا شمار تقدیر میں ہوتا ہے؟ ۴۵

( ۶) فرقہ قدریہ ۴۷

( ۷) قدریہ کون لوگ ہیں؟ ۴۸

( ۸) لیلة القدر ۴۸

قرآنِ مجید ۴۸

حدیث شریف ۴۹

فصل۔ ۶ ۵۰

اقتدار و قدرت ۵۰

فصل۔ ۷ ۵۱

( ۱) قذف (زنا کی تہمت) ۵۱

قرآن مجید: ۵۱

حدیث شریف ۵۱

فصل۔ ۸ ۵۴

(۱) قرآنِ مجید ۵۴

قرآن مجید ۵۴

حدیث شریف ۵۴

( ۲) قرآن، امام اور رحمت ۵۷

قرآن مجید ۵۷

حدیث شریف ۵۸

( ۳) قرآن زیبا ترین کلام ہے ۵۸

قرآن مجید ۵۸

حدیث شریف ۵۹

( ۵) قرآن ہر زمانہ میں نیا ہے ۵۹

( ۶) قرآن، بڑی سے بڑی بیماری کے لئے شفا ہے ۶۰

قرآن مجید ۶۰

حدیث شریف ۶۱

( ۷) قرآن ہی تو نگری ہے ۶۱

( ۸) قرآن میں اولین و آخرین کا علم ہے ۶۲

( ۹) قرآن کی تعلیم حاصل کرنا ۶۳

( ۱۰) قرآن مجید کی تعلیم ۶۴

( ۱۱) قرآن مجید کا حفظ کرنا ۶۵

( ۱۲) قرآن کو بار بار پڑھنے کی ترغیب ۶۷

(۱۳) حاملین قرآن کے فضائل ۶۸

حامل قرآن کو کیا کرنا چاہئے؟ ۶۹

( ۱۵) جو باتیں حاملِ قرآن کے شایانِ شان نہیں ۶۹

( ۱۶) تلاوت قرآن مجید کی ترغیب ۷۰

قرآن مجید ۷۰

حدیث شریف ۷۰

( ۱۷) قرآن کو اچھی آواز سے پڑھنا ۷۱

( ۱۸) حقِ تلاوت ۷۲

قرآن مجید: ۷۲

حدیث شریف ۷۲

( ۱۹) قرآن کو پس پشت ڈال دینا ۷۴

قرآن مجید ۷۴

قرآن مجید ۷۴

حدیث شریف ۷۵

( ۲۰) قرأت کے آداب ۷۵

۱ ۔ منہ کی پاکیزگی ۷۵

۲ ۔ استعاذہ (اعوذباللہ پڑھنا) ۷۶

قرآن مجید: ۷۶

حدیث شریف: ۷۶

۳ ۔ ترتیل ۷۶

قرآن مجید ۷۶

۴ تدبر ۷۷

قرآن مجید ۷۷

حدیث شریف ۷۸

۵ ۔ خشوع ۷۹

قرآن مجید ۷۹

( ۲۱) تلاوت سے مانع امور ۸۰

( ۲۲) جن پر قرآن لعنت کرتا ہے ۸۰

( ۲۳) فاجر قاری ۸۱

( ۲۴) قاریوں کی قسمیں ۸۱

( ۲۵) قرآن مجید کا استماع ۸۳

( ۲۶) استماع کے آداب ۸۳

قرآن مجید ۸۳

قرآن مجید ۸۳

قرآن مجید ۸۴

قرآن مجید ۸۴

۲۷) قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۸۵

( ۲۸) تفسیر بالراء کرنے کی ممانعت ۸۵

( ۲۹) قرآن کی معرفت رکھنے والے ۸۶

( ۳۰) قرآنی آیتوں کی قسمیں ۸۷

قرآن مجید ۸۷

حدیث شریف ۸۷

( ۳۱) محکم اور متشابہ آیات ۸۹

( ۳۲) قرآنی اشارے ۹۰

( ۳۳) قرآنی وجوہات ۹۱

( ۳۴) ام القرآن (قرآن کی اصل) ۹۲

( ۳۵) قرآن مجید کی عظیم ترین، عدل سے بھرپور اور سب سے زیادہ ڈرانے و امید دلانے والی آیات ۹۳

فصل۔ ۹ ۹۴

( ۱) مقرب افراد ۹۴

قرآن مجید ۹۴

قرآن مجید ۹۴

قرآن مجید ۹۴

قرآن مجید ۹۴

( ۲) مقرب افراد کی عبادت ۹۶

( ۳) مخلوقات میں اللہ کے سب سے زیادہ مقرب افراد ۹۶

( ۴) انسان کب خدا سے قریب تر ہوتا ہے؟ ۹۷

( ۵) قیامت کے دن اللہ سے نزدیک ترین بندہ ۹۷

( ۶) تقرب کی انتہا ۹۸

( ۷) اللہ تعالیٰ تک رسائی ۹۹

( ۸) جو میری طرف ایک بالشت بڑھے----! ۱۰۰

( ۹) ذرائع جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۱۰۱

( ۱۰) خداوندِ عالم سے دورترین شخص ۱۰۳

فصل۔ ۱۰ ۱۰۴

( ۱) اقرار ۱۰۴

( ۲) مجبور انسان کااقرار ناقابل اعتبار ہوتا ہے ۱۰۴

فصل۔ ۱۱ ۱۰۶

( ۱) قرض ۱۰۶

قرآن مجید ۱۰۶

حدیث شریف ۱۰۶

( ۲) تنگدست کو مہلت دینا ۱۰۹

حدیث شریف ۱۰۹

فصل ۱۲ ۱۱۱

( ۱) قرعہ ۱۱۱

قرآن مجید ۱۱۱

حدیث شریف ۱۱۱

فصل ۱۳ ۱۱۳