میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53470
ڈاؤنلوڈ: 4456

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53470 / ڈاؤنلوڈ: 4456
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۳

تقبل (بوسہ)

( ۱) بوسہ لینا

۱۶۲۸۰ ۔ اولاد کا بوسہ لینا رحمت ہے، بیوی کا بوسہ لینا شہوت ہے، والدین کا بوسہ لینا عبادت ہے اور (دینی) بھائیوں کا، بوسہ دین داری ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۹۳

۱۶۲۸۱ ۔ منہ کے بوسے لینا صحیح نہیں ہیں سوائے بیوی کے یا چھوٹی اولاد کے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۱۸۶ ۔ بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۴۱

۱۶۲۸۳ ۔ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی کسی محرم خاتون مثلاً، بہن، پھوپھی یا خالہ کو بوسہ دے اور وہ اس وقت حیض کی حالت میں ہو تو اسے چاہئے کہ اس کی پیشانی، آنکھوں اور سر کے درمیان بوسہ دے۔ اس کے رخسار اور منہ پر بوسہ دینے سے اجتناب کرے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحار الانوار جلد ۷۶ ص ۴۲

۔۔۔جابر (بن عبداللہ انصاری) کہتے ہیں کہ میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ پر سلام کیا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بھینچا اور فرمایا: "انسان کا اپنے بھائی کے ہاتھ کو بھینچنا بھی بوسہ ہوتا ہے"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۳

۱۶۲۸۳ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جابر انصاری نے کہا: "رسول خدا نے "مکاعمہ" اور "مکامعہ" سے منع فرمایا ہے۔

اور "مکاعمہ" مرد کا مرد کے بوسے لینا ہے، اور "مکامعہ" مرد کا مرد کے ساتھ بغیر ضرورت کے ایک ہی چادر میں سونا ہے۔

بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۱

( ۲ مومن کا بوسہ

۱۶۲۸۴ ۔ یقیناً تمہیں ایک نور عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعہ تم دنیا میں پہچانے جاتے ہو حتیٰ کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے (مومن) بھائی کی ملاقات کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کی پریشانی پر نور کی جگہ کا بوسہ لے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۵۶۶ بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۳۷

۱۶۲۸۵ ۔ نہ تو کسی شخص کے سر کو بوسہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہاتھوں کو سوائے رسول اللہ کے سر اور ہاتھوں، یا پھر جس شخص کے ذریعہ رسول خدا کو بوسہ دینا مقصود ہو۔ (یعنی اس کی مراد یہ ہو کہ اس طرح گویا میں رسول خدا کے ہاتھوں یا سر کو چوم رہا ہوں)

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ص ۵۶۵ ، بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۳۷

۱۶۲۸۷ ۔ ۹; عبداللہبن عمر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان (حضرت رسول خدا) کے قریب پہنچے اور آپ کے ہاتھوں کے بوسے لئے۔

سنن ترمذی حدیث ۵۲۲۳ ۔

فصل۔ ۴

قتل

(۱) قتلِ انسان

قرآن مجید:

( من اجل ذالک…………………………جمیعاً ) (مائدہ/ ۳۲)

ترجمہ۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کر دیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ تو جان کے بدلہ اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو جلا لیا۔

( ولا تفتلوا النفس……………………………………سلطان ) (بنی اسرائیل ۳۳)

ترجمہ۔ اور جس جان کا مارنا اللہنے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا، مگر جائز طور پر اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) کا اختیار دیا ہے

(قولِ مولف مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساءء/ ۲۹ ۔ ۹۲ ۔ ۹۳

مائدہ/ ۲۸ ۔ ۳۲ ۔ انعام/ ۱۳۹ ۔ ۱۴۰ ۔ ۱۵۱ ۔ بنی اسرائیل/ ۳۱ ۔ ۳۳ الکھف/ ۷۴ فرقان/ ۶۸ ۔ تکویر/ ۹

حدیث شریف

۱۶۲۸۸ ۔ سب سے بڑا سرکش اور نافرمان وہ انسان ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا یا ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امالی صدوق ص ۱۲۶

۱۶۱۸۹ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا نافرمان اور اس کے آگے سرکشی کرنے والا شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا اور ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۲۹۰ ۔ بندہ اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۳۹۹۰۷

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ اور اس کتاب میں

"بندہ" کی بجائے "مومن" کا لفظ ہے۔ فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۲

۱۶۲۹۱ ۔ بندہ کا دل ہمیشہ اس وقت تک ترغیب اور خوف کو قبول کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہاتا۔ پھر جب وہ کسی کا ناحق بہاتا ہے تو اس کا دل الٹا ہو جاتا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کی رنگت ایسی سیاہ ہو جاتی ہے جیسے کالی تارکول ہوتی ہے، اس کے بعد وہ نہ تو نیکی کو نیکی جانتا ہے اور نہ ہی برائی کو برائی۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزل العمال حدیث ۳۹۹۵۱

۱۶۲۹۲ ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہو گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۷ ، الترغیب و الترہیب جلد، ۳ ص ۲۹۲ ۔ اسے بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۳۹۳ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ فرمائے گا وہ خون کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ فرزندان آدم (ہابیل و قابیل) کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پھر ان لوگوں کو پیش کیا جائے گا جو ان کے زمانہ سے قریب تر ہوں گے۔ اس سلسلہ میں کوئی شخص باقی نہیں بچے گا۔ پھر اس کے بعد دوسرے لوگ پیش ہوں گے، ہر مقتول اپنے قاتل کے ہمراہ ہو گا، اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گا اور بارگاہِ رب العزت میں عرض کرے گا: "خداوندا! اس نے مجھے قتل کیا: "اس پر اللہ تعالیٰ قاتل سے کہے گا "کیا تو نے اسے قتل کیا تھا؟" اس وقت وہ کوئی بات نہیں چھپا سکے گا۔

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴

۱۶۲۹۴ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی فرمائی: "اے موسیٰ! بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اے بنی اسرائیل! کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو کیونکہ تم میں سے جو شخص کسی کو دنیا میں قتل کرے گا اسے اس کے بدلہ میں ایک لاکھ مرتبہ اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہو گا۔"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۳۹۵ ۔ خون بہانے کے معاملہ میں تمہیں تمہارے دونوں ہاتھوں کا کھلا ہونا مغرور نہ کر دے اس لئے کہ قاتل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا قاتل بھی ہے جس میں اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: "یارسولاللہ! وہ کونسا ایسا قاتل ہے جسے موت نہیں آئے گی؟" فرمایا: "جہنم"!

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴

۱۶۲۹۶ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کا یکبارگی خاتمہ کر دینا ناحق خون بہائے جانے سے زیادہ آسان ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳ اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۲۹۷ ۔ (قیامت کے دن) مقتول اپنے قاتل کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور رب العزت کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ بارگاہ رب العزت میں فریاد کرے گا کہ "اے پرورگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا تھا؟" وہ جواب دے گا: "میں نے اسے فلاں شخص کو عزت دینے کے لئے قتل کیا تھا! اسے جواب ملے گا: "عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے!"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۶

۱۶۲۹۸ ۔ جو شخص بھی ناحق یا برحق قتل کیا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور ہو گا کہ اپنے قاتل کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہو گا اور بائیں ہاتھ میں اس کا اپنا سر ہو گا، اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اگر تو اس نے اسے اطاعت خداوندی کے لئے قتل کیا ہو گا تو اسے ثواب ملے گا اور مقتول کو جہنم میں بھیج دیاجائے گا، اگر کسی انسان کو راضی کرنے کے لئے کیا تھا تو مقتول سے کہا جائے گا کہ تو بھی اسے ویسے ہی قتل کر جس طرح اس نے تجھے قتل کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق عمل فرمائے گا۔

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ ۔ فرغ کافی جلد ۷ ص ۲۷۲

۱۶۲۹۹ ۔ ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ تھامے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو گا اور عرض کرے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" قاتل جواب دے گا: پروردگارا! اسے میں نے تیری عزت کی خاطر قتل کیا تھا!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "بے شک عزت میرے ہی لئے ہے!" پھر ایک اور شخص ایک دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور کہے گا: "پروردگارا! اس نے مجھے قتل کیا ہے!" اللہ تعالیٰ قاتل سے پوچھے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا؟" قاتل جواب دے گا: "اس لئے کہ فلاں شخص کوعزت ملے!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "عزت (میرے سوال) کسی اور کے لئے نہیں ہے!" اس کے بعدوہ گناہوں میں جکڑ دیا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۹

۱۶۳۰۰ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے انسان کے قتل کے قتل کو اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اگر اس کا قتل حلال ہوتا تو مخلوق میں فساد پیدا ہو جاتا، دنیا تباہ ہو جاتی اور سارا نظام بگڑ جاتا۔

(امام رضا علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۳۰۱ ۔ حمران کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں: "من اجل ذالکتاقتل الناس جمیعاً" (مائدہ/ ۳۲)

"اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو صرف ایک انسان کو قتل کرے گا وہ گویا ساری انسانیت کا قاتل قرار پاتا ہے؟"

امام علیہ السلام نے فرمایا: "اسے جہنم کے ایسے مقام میں رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے عذاب کی آخری حد ہو گی۔ گویا اگر وہ ساری انسانیت ہی کو قتل کر ڈالے گا تو بھی اسی جگہ ہی اسے عذاب ملے گا۔" میں نے عرض کیا: "اگر ایک اور انسان کو قتل کر ڈالے تو پھر؟" آپ نے فرمایا: "اسے اس کادوگنا عذاب ملے گا"

فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۱

(قولِ مولف: تفسیرالمیزان میں ہے کہ حمران نے جو یہ پوچھا کہ اگر کسی اور شخص کو قتل کر ڈالے، اس اشکال کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آیت مجیدہ ایک انسان کے قتل کی سزا، کئی انسانوں کے قتل کی سزا کے برابر قرار دے رہی ہے اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس کا عذاب دوگنا ہو گا"

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہاں یہ اشکال کرے کہ امام علیہ السلام نے اس برابری سے دستکشی اختیار کر لی ہے، آیت نے جس کا حکم دیا ہے، یعنی آیت تو کہہ رہی ہے کہ"ایک شخص کا قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے" لیکن روایت کہہ رہی ہے کہ برابر نہیں ہے! لیکن حقیقت میں یہ اشکال وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ "منزلت کی برابری" یعنی ایک شخص کا قتل بمنزلت تمام لوگوں کے قتل کے ہےاس کا تعلق عذاب کی کیفیت سے ہے نہ کہ مقدار کی کیفیت سے۔ لہٰذا واضح ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا قاتل اور تمام لوگوں کا قاتل ہر دو جہنم کے ایک ہی مقام میں ہوں گے، لیکن ایک شخص سے زائد کے قاتل کا عذاب دوگنا ہو گا۔ اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی آدمی تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالے تو بھی اسی جگہ عذاب میں ہو گا۔

ہماری اس گفتگو کی شاہد وہ روایت ہے جسے عباسی نے اسی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں حمران کے ذریعہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے، امام علیہ السلام فرماتے ہیں: "جہنم میں ایک مقام ایسا ہے جہاں اہلِ جہنم کے عذاب کی شدت اپنی آخری حدوں تک ہوتی ہے اور قاتل کو اسی میں ڈالا جائے گا" حمران کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: "اگر وہ دو آدمیوں کو قتل کر ڈالے تو پھر کیا ہو گا؟" امام نے فرمایا "کیا تم یہ نہیں جانتے ہو کہ جہنم میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جس کا عذاب اس قدر شدید ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور جگہ کا عذاب اس سے شدید تر نہیں ہے" پھر فرمایا: "اسی جگہ پر اس قاتل کا عذاب اس کے قتل کے حساب سے دوگنا ہوتا جائے گا" پس امام علیہ السلام کا "نفی" اور "اثبات" میں جمع کرنا اس توجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں جو ہم نے روایات کی طرف دلائی ہے اور وہ یہ کہ برابری اور مساوات عذاب کی مقدار میں نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں ہے جس کی طرف لفظ "منزلت" اشارہ کر رہا ہے۔ البتہ اختلاف خود عذاب اور اس کی اذیتوں کے بارے میں ہے جن سے قاتل کو دوچار ہونا پڑے گا۔

ہماری گفتگو کا ایک اور شاہد فی الجملہ وہ روایت ہے جو خدان بن سدیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ امام نے اس آیت "( من قتل نفسافکا نما قتل الناس جمعیاً ) " کے ضمن میں ارشاد فرمایا: "جہنم میں ایک گہری وادی ہے کہ اگر کوئی شخص تمام لوگوں کو قتل کر ڈالے تو اسے اسی وادی میں جھونکا جائے گا اور اگر کوئی ایک شخص کو مار ڈالے تو بھی اسے وہیں ڈالا جائے گا"

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اس روایت میں آیت شریفہ بعینہ ذکر نہیں کی گئی بلکہ اس کے معنی کو ذکر کیا گیا ہے،

تفسیر المیزان جلد ۵ ص ۳۲۲

( ۲) مومن کا قتل

قرآن مجید،

( ومن یقتل موٴمنا متعمدا………………………………عذابا عظیما ) (نسأ/ ۹۳)

ترجمہ۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اس نے اپنا غضب ڈھایا، اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۳۰۲ ۔ حجة الوداع کے موقع پر پیغمبرِ اکرم کے خطبہ سے اقتباس: "لوگو! تمہارا خون اور تمہارا مال بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کے دن (عرفہ) کی، اس مہینہ (ذیحجہ) کی اور اس شہر )(مکہ) کی حرمت ہے، یہ حرمت (قیامت کے دن تک) برقرار رہے گی جس دن تم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۳

۱۶۳۰۳ ۔ ایک ایسے مقتول کے بارے میں ارشاد فرمایا جس کے قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا: "ایک مسلمان قتل ہو جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکے (تعجب کی بات ہے؟) ، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر تمام اہلِ آسمان و زمین مل کر بھی کسی ایک مومن کو قتل کر دیں یا اس کے قتل پر راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جو شخص کسی کو کوڑا مارتا ہے تو اسے کل (قیامت کے دن) جہنم کی آگ میں اس جیسا کوڑا مارا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) امالی طوسی  ص ۱۲۶

۱۶۳۰۴ ۔ اے لوگو! میرے ہوتے ہوئے کوئی شخص قتل ہو جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چلے (کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے؟)، اگر تمام (اہلِ) آسمان و زمین کسی ایک مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو بغیر تعداد و حساب سزا دے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۵۲

۱۶۳۰۵ ۔ جو شخص کسی مومن کے قتل کے لئے کسی کلمہ کی ایک جزو کے ذریعہ بھی کسی کی امداد کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) یہ لکھا ہوا ہو گا "الل کی رحمت سے مایوس"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۹۵

۱۶۳۰۶ ۔ ایک شخص بہشت کے دروازے پر پہنچ کر بہشت کو دیکھنے سے اس لئے ہٹا دیا جائے گا کہ اس نے ایک مسلمان کا پچھنے کے ذریعہ ناحق خون نکالا ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۲۱

۱۶۳۰۷ ۔ جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں ہوتی۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵

۱۶۳۰۸ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک مومن کے بارے میں پوچھا گیا جو دوسرے مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو کیا اس کی توبہ قبول ہو گی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر اس نے اسے مومن ہونے کی وجہ سے قتل کیا ہے تو اس کے لئے توبہ نہیں ہے اور اگر غصے یا کسی اور دنیوی سبب کی بنا پر قتل کیا ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ اس سے اس کا بدلہ لیا جائے۔

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۹

۱۶۳۰۹ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری دنیا کا فنا ہو جانا اس بات سے زیادہ آسان ہے کہ کسی ایک مسلمان کو قتل کر دیا جائے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳

اسے مسلم، نسائی اور ترمذی نے بھی روایت کیا ہے،

۱۶۳۱۰ ۔ ۹; اللہ کے نزدیک ایک مومن کے قتل ہونے کی عظمت ساری دنیا کے فنا ہو جانے سے زیادہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۴ ۔ کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۰ ۔ اسے نسائی اور () نے بھی روایت کیا ہے،

۱۶۳۱۱ ۔ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ قاتل کے نام لکھ دے گا اور مقتول ان گناہوں سے بری الذمہ ہو جائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں (ہابیل کی زبانی) فرماتا ہے: "( انی اریدان تبوء بائمی واثمک فتکون من اصحاب النار ) " (یعنی ہابیل نے قابیل سے کہا) میں تو ضرور یہ چاہتا ہوں کہ میرے گناہ اور تیرے گناہ دونوں تیرے سر جائیں، تو جہنمی بن جائے۔ (مائدہ/ ۲۹)

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۷

(۳) قتل کے جائز ہونے کی وجوہات

قرآن مجید

( من قتل نفسا بغیر نفس…………………………قتل الناس جمیعاً ) ۔ (مائدہ/ ۳۲)

ترجمہ۔ جو شخص کسی کو نہ نہ تو جان کے بدلہ میں اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

حدیث شریف

۱۶۳۱۲ ۔ کسی ایسے مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ معبودِ حقیقی کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں اور میں (محمد مصطفی) اللہ کا رسول ہوں، مگر تین وجوہات میں سے کسی ایک کے تحت:

۱ ۔ جس شخص نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا، تو اسے سنگسار کیا جائے گا۔

۲ ۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف لڑنے کے لئے خروج کیا، تو اسے یا قتل کر دیا جائے گا یا سولی پر لٹکایا جائے گا یا پھر ملک بدر کر دیا جائے گا۔

۳ ۔ جس نے کسی کو (بے گناہ) قتل کیا، تو اسے قتل کیا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۶۷ ۔ سنن ابوداؤد حدیث ۴۳۵۳

۱۶۳۱۳ ۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، جو شخص بھی لا الہ الا اللہ اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے اس کا قتل جائز نہیں ہے سوائے تین وجوہات کے: ۱ ۔ جماعت کا تارک ہو۔ ۲ ۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ ۳ ۔ کسی کو ناحق قتل کرے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۰ ۔ سنن ابوداؤد حدیث ۴۳۵۲

۱۶۳۱۴ ۔ کسی کا خون بہانا جائز نہیں سوائے تین صورتوں کے: ۱ ۔ جس نے کسی کو قتل کیا ہو۔ ۲ ۔ جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو اور ۳ ۔ جو ایمان سے مرتد ہو گیا ہو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۱ ، ۳۸۲ ، ۳۸۴ ، ۳۸۵

۱۶۳۱۵ ۔ جو شخص اپنے دین سے مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۶ ، ۳۸۷ ، ۳۹۱ ، ۳۹۲ ، ۳۹۳ ، ۳۹۴

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "باغی" باب "باغی قیدیوں کا قتل جائز ہے" باب "ان لوگوں کا قتل جائز ہے جنہیں امام المسلمین کی دشمنی پر مامور کیا جائے"

نیز: "خوارج" باب اگر ساری دنیا کے لوگ اسی طرح قتل کا اعتراف کریں تو بھی سب کو قتل کر دوں"

"ارتداد" باب "جو اپنا دین (اسلام) بدل دے اسے قتل کر دو"

"گالی دینا" باب ۳۱ ۱۷ " انبیاء اور اوصیاء کو گالی دینا"

"جادو" باب ۱۷۶۹" مسلمانوں میں جادو کرنے والے کو قتل کیا جائے گا")

( ۴) قاتل و مقتول دونوں جہنمی

۱۶۳۱۶ ۔ حضرت زید بن علی اپنے آباء کرام علیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا:

"جب دو مسلمان سنت کے طریقہ سے ہٹ کر ایک دوسرے کے سامنے تلواریں لے آئیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں"

کسی نے عرض کیا: "یارسول اللہ! یہ تو قاتل ہو گا (جو جہنم میں جائے گا لیکن) مقتول کس لئے؟

آپ نے فرمایا: اس لئے کہ اس نے بھی تو اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۱۱۳

۱۶۳۱۷ ۔ جب دو مسلمان آپس میں اس حالت میں ملاقات کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہوں تو دونوں جہنم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں، پھر جب ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے تو دونوں مل کر جہنم میں جا پہنچتے ہیں،

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۹۹

۱۶۳۱۸ ۔ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتے ہیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم ) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۴

( ۵) کسی کو بگاڑ کر قتل نہ کرو

۱۶۳۱۹ ۔ یقیناً خدا محسن ہے اور احسان ہی کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اسے اچھے انداز میں قتل کرو، اگر کسی جانور کو ذبح کرو تو اسے بھی اچھے انداز سے ذبح کرو۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۳۳۸۲

۱۶۳۲۰ ۔ جب کسی بات کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، کسی کو قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو کیونکہ اللہ محسن ہے اور محسنین (نیکوکاروں) کو دوست رکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۱۳۳۸۱

۱۶۳۲۱ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر نیکی اور اچھائی فرض کر دی ہے۔ لہٰذا جب کسی کو قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، کسی چیز کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، تمہارے ہتھیار کی دھار تیز ہو، نیز اپنے ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت تکلیف نہیں دینی چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۱۵۶ اسے مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۳۲۲ ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ایک شخص کے پاس سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہ اپنا پاؤں بکری کے سینے پر رکھے ہوئے چھری کی دھار کو تیار کر رہا تھا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی۔

یہ حالت دیکھ کر آپ نے اس سے کہا: کیا یہ کام اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ کیا تو چاہتا ہے کہ اسے دو طرح کی موت سے مارے؟"

الترغیب و الترغیب جلد ۲ ص ۱۵۶ اسے طبرانی نے اپنی کتاب "الکبیر" اور "الاوسط" میں اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ مگر اس نے کہا کہ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں،

"کیا تو چاہتا ہے کہ اسے کئی موتوں سے مارے، اسے زمین پر لٹانے سے پہلے چھری کی دھار کو تیز کیوں نہیں کر لیا؟"

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "الترغیب و االترہیب" جلد دوم ۱۵۶ باب "جانور کے مسئلہ کرنے اور جانور کو نہ کھانے کی غرض سے قتل کرنے سے ڈرانے کا بیان"

نیز: "احسان" (نیکی) باب "نیکی کیا ہے؟"

: "عمل" ( ۱) باب ۲۹۵۵ " عمل کی پختگی)

( ۶) خودکشی کرنے والا

قرآنِ مجید

( ولاتقتلوا انفسکم ان الله کان لکم رحیما ) ۔ (نساء/ ۲۹)

ترجمہ۔ اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ یقیناً تمہارے حال پر مہربان ہے۔

حدیث شریف

۱۶۳۲۳ ۔ جو شخص اپنا گلا گھونٹتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا، اور جو اپنے آپ کو نیزہ مارتا ہے وہ بھی جہنمی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۶۱

۱۶۳۲۴ ۔ جو شخص دنیا میں کسی چیز سے خودکشی کرتا ہے قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب ملے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۶۵

۱۶۳۲۵ ۔ جو شخص جان بوجھ کر خودکشی کرے گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۳

۱۶۳۲۶ ۔ تم سے پہلے ایک شخص تھا جو زخموں سے چور ہو گیا تو اس نے گھبرا کر چھڑی پکڑی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا جس کی وجہ سے خون تھمنے میں نہ آیا اور آخرکار وہ مر گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میرے بندے نے اپنے بارے میں مجھ سے پہل کی ہے۔ لہٰذا میں نے اس پر جہنم حرام قرار دے دیا ہے۔"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۳۰۱

کنز العمال جلد حدیث ۳۹۹۶۰

۱۶۳۲۷ ۔ یقیناً مومن کو آزمائش سے آزمایا جا سکتا ہے۔ وہ ہر موت مر سکتا ہے لیکن خودکشی ہرگز نہیں کر سکتا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) فروع کافی جلد ۳ ص ۱۱۲

۱۶۳۲۸ ۔ روایت میں ہے کہ ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم غزوات (جنگوں) میں نو، نو اور دس، دس کے ٹولے بن کر جایا کرتے تھے، اور اپنے درمیان کام کو تقسیم کر لیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ بیٹھ رہتے اور کچھ لوگ اپنے ساتھیوں کے لئے کام کرتے تھے، پانی پلاتے تھے، کھانا تیار کرتے تھے اور کچھ لوگ پیغمبر کی خدمت میں رہتے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے ہمارے ساتھیوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو اکیلاتین لوگوں کا کام کر رہا تھا یعنی کپڑے بھی سی رہا تھا، پانی بھی پلا رہا تھا اور کھانا بھی پکا رہا تھا۔

جب اس شخص کا ذکر آنحضرت سے کیا گیا تو آنجناب نے فرمایا: "یہ شخص تو جہنمی ہے!" چنانچہ جب جنگ شروع ہوئی اور دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو وہ شخص بھی زخمی ہو گیا اور اس نے تیر اٹھایا اور اپنے آپ کو اس سے ختم کر لیا۔

یہ دیکھ کر پیغمبر نے فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں"

بحار الانوار جلد ۱۸ ص ۱۱۱

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو ! وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۳ باب اور خودکشی حرام ہے" مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۳۵۳ باب ۵ ۔ صحیح مسلم جلد اول ص ۱۰۳ باب ۷

( ۷) اسقاطِ حمل

۱۶۳۲۹ ۔ اسحاق بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا: "ایک عورت کو حمل کا خوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ دوا پی کر اسے گرا دیتی ہے۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں،

آپ نے فرمایا: "نہیں! یہ تو نطفہ ہوتا ہے" پھر فرمایا: "سب سے پہلے نطفہ ہی خلق ہوتا ہے"

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۵

( ۸) صبر کے ساتھ قتل کرنا

۱۶۳۳۰ ۔ ابوغرہ حجمی کو جنگ بدر میں قیدی بنا لیا گیا۔ اس نے حضور اکرم کی خدمت میں عرض کیا؟ "اے محمد! میں ایک عیالدار شخص ہوں۔ آپ مجھ پر احسان کریں!" آنحضرت نے اس پر احسان کرکے اس شرط پر اسے چھوڑ دیا کہ دوبارہ جنگ کرنے نہیں آئے گا۔

پس وہ مکہ چلا گیا اور وہاں جا کر کہنے لگا: "میں نے تو محمد کے ساتھ مذاق کیا تھا اور انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔"

پھر وہ جنگ احد میں بھی لڑنے کے لئے آن پہنچا۔ اسے دیکھ کر آنحضرت نے بددعا کی کہ بچ کر نہ جائے۔ چنانچہ وہ اسی جنگ میں قیدی بنا لیا گیا، جب آنحضرت کے سامنے پیش ہوا تو وہی سابقہ بات کی: "میں عیالدار ہوں لہٰذا آپ مجھ پر احسان فرمائیں!" آپ نے فرمایا میں تم پر احسان کروں گا اور تو مکہ جا کر قریش کی محفلوں میں کہتا پھرے گا کہ میں نے محمد کے ساتھ مذاق کیا تھا! مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا" پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے ہی قتل کر دیا۔

مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۲۶۷

۱۶۳۳۱ ۔ حضرت علی علیہ السلام جب شامیوں میں سے کسی کو جنگ میں قیدی بناتے تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھیوں میں سے کسی کوقتل کیا ہوتا تو اسے اس کے بدلہ میں قتل کر دیتے۔ اسی طرح جسے چھوڑ دیتے تھے اگر وہ دوبارہ آتا تو اسے نہ چھوڑتے اور قتل کر دیتے

مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۲۵۱

۱۶۳۳۲ ۔ یزید بن بلال کہتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں مولا علی علیہ السلام کے ساتھ تھا، جب کبھی آپ کے پا س کوئی جنگی قیدی لایا جاتا تو اس سے فرماتے: "میں صبر کرتا ہوں اور تجھے قتل نہیں کروں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں" البتہ اس کے ہتھیار لے لیتے اور اس سے اس بات کا حلف لیتے کہ دوبارہ لڑنے کے لئے نہیں آئے گا، نیز اسے چار درہم بھی دیتے۔

کنزالعمال حدیث ۳۱۷۰۳

۱۶۳۳۳ ۔ حضرت رسول خدا نے صبر کی وجہ سے سوائے ایک شخص "عقبہ بن ابی معیط" کے کسی اور کو قتل نہیں کیا، اور ابی بن ابی خلف کو نیزہ مارا جس سے وہ بعد میں ہلاک ہو گیا،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۱۱۳

۱۶۳۳۴ ۔ ۹; عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے دن فرماتے ہوئے سنا: "صبر کے باعث آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔"

صحیح مسلم جلد ۳ ص ۱۴۰۹

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "جواہرالکلام" جلد ۲۱ ص ۱۳۲

"صبر سے قتل کرنا" کے معنی۔

نیز: سنن ابوداؤد جلد ۳ ص ۶۰ باب "قیدی کو قتل کرنے میں صبر سے کام لینا")