میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)7%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58874 / ڈاؤنلوڈ: 6909
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۳

تقبل (بوسہ)

( ۱) بوسہ لینا

۱۶۲۸۰ ۔ اولاد کا بوسہ لینا رحمت ہے، بیوی کا بوسہ لینا شہوت ہے، والدین کا بوسہ لینا عبادت ہے اور (دینی) بھائیوں کا، بوسہ دین داری ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۹۳

۱۶۲۸۱ ۔ منہ کے بوسے لینا صحیح نہیں ہیں سوائے بیوی کے یا چھوٹی اولاد کے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۱۸۶ ۔ بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۴۱

۱۶۲۸۳ ۔ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی کسی محرم خاتون مثلاً، بہن، پھوپھی یا خالہ کو بوسہ دے اور وہ اس وقت حیض کی حالت میں ہو تو اسے چاہئے کہ اس کی پیشانی، آنکھوں اور سر کے درمیان بوسہ دے۔ اس کے رخسار اور منہ پر بوسہ دینے سے اجتناب کرے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحار الانوار جلد ۷۶ ص ۴۲

۔۔۔جابر (بن عبداللہ انصاری) کہتے ہیں کہ میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ پر سلام کیا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بھینچا اور فرمایا: "انسان کا اپنے بھائی کے ہاتھ کو بھینچنا بھی بوسہ ہوتا ہے"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۳

۱۶۲۸۳ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جابر انصاری نے کہا: "رسول خدا نے "مکاعمہ" اور "مکامعہ" سے منع فرمایا ہے۔

اور "مکاعمہ" مرد کا مرد کے بوسے لینا ہے، اور "مکامعہ" مرد کا مرد کے ساتھ بغیر ضرورت کے ایک ہی چادر میں سونا ہے۔

بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۱

( ۲ مومن کا بوسہ

۱۶۲۸۴ ۔ یقیناً تمہیں ایک نور عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعہ تم دنیا میں پہچانے جاتے ہو حتیٰ کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے (مومن) بھائی کی ملاقات کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کی پریشانی پر نور کی جگہ کا بوسہ لے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۵۶۶ بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۳۷

۱۶۲۸۵ ۔ نہ تو کسی شخص کے سر کو بوسہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہاتھوں کو سوائے رسول اللہ کے سر اور ہاتھوں، یا پھر جس شخص کے ذریعہ رسول خدا کو بوسہ دینا مقصود ہو۔ (یعنی اس کی مراد یہ ہو کہ اس طرح گویا میں رسول خدا کے ہاتھوں یا سر کو چوم رہا ہوں)

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ص ۵۶۵ ، بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۳۷

۱۶۲۸۷ ۔ ۹; عبداللہبن عمر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان (حضرت رسول خدا) کے قریب پہنچے اور آپ کے ہاتھوں کے بوسے لئے۔

سنن ترمذی حدیث ۵۲۲۳ ۔

فصل۔ ۴

قتل

(۱) قتلِ انسان

قرآن مجید:

( من اجل ذالک…………………………جمیعاً ) (مائدہ/ ۳۲)

ترجمہ۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کر دیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ تو جان کے بدلہ اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو جلا لیا۔

( ولا تفتلوا النفس……………………………………سلطان ) (بنی اسرائیل ۳۳)

ترجمہ۔ اور جس جان کا مارنا اللہنے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا، مگر جائز طور پر اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) کا اختیار دیا ہے

(قولِ مولف مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساءء/ ۲۹ ۔ ۹۲ ۔ ۹۳

مائدہ/ ۲۸ ۔ ۳۲ ۔ انعام/ ۱۳۹ ۔ ۱۴۰ ۔ ۱۵۱ ۔ بنی اسرائیل/ ۳۱ ۔ ۳۳ الکھف/ ۷۴ فرقان/ ۶۸ ۔ تکویر/ ۹

حدیث شریف

۱۶۲۸۸ ۔ سب سے بڑا سرکش اور نافرمان وہ انسان ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا یا ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امالی صدوق ص ۱۲۶

۱۶۱۸۹ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا نافرمان اور اس کے آگے سرکشی کرنے والا شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا اور ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۲۹۰ ۔ بندہ اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۳۹۹۰۷

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ اور اس کتاب میں

"بندہ" کی بجائے "مومن" کا لفظ ہے۔ فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۲

۱۶۲۹۱ ۔ بندہ کا دل ہمیشہ اس وقت تک ترغیب اور خوف کو قبول کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہاتا۔ پھر جب وہ کسی کا ناحق بہاتا ہے تو اس کا دل الٹا ہو جاتا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کی رنگت ایسی سیاہ ہو جاتی ہے جیسے کالی تارکول ہوتی ہے، اس کے بعد وہ نہ تو نیکی کو نیکی جانتا ہے اور نہ ہی برائی کو برائی۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزل العمال حدیث ۳۹۹۵۱

۱۶۲۹۲ ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہو گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۷ ، الترغیب و الترہیب جلد، ۳ ص ۲۹۲ ۔ اسے بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۳۹۳ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ فرمائے گا وہ خون کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ فرزندان آدم (ہابیل و قابیل) کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پھر ان لوگوں کو پیش کیا جائے گا جو ان کے زمانہ سے قریب تر ہوں گے۔ اس سلسلہ میں کوئی شخص باقی نہیں بچے گا۔ پھر اس کے بعد دوسرے لوگ پیش ہوں گے، ہر مقتول اپنے قاتل کے ہمراہ ہو گا، اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گا اور بارگاہِ رب العزت میں عرض کرے گا: "خداوندا! اس نے مجھے قتل کیا: "اس پر اللہ تعالیٰ قاتل سے کہے گا "کیا تو نے اسے قتل کیا تھا؟" اس وقت وہ کوئی بات نہیں چھپا سکے گا۔

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴

۱۶۲۹۴ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی فرمائی: "اے موسیٰ! بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اے بنی اسرائیل! کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو کیونکہ تم میں سے جو شخص کسی کو دنیا میں قتل کرے گا اسے اس کے بدلہ میں ایک لاکھ مرتبہ اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہو گا۔"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۳۹۵ ۔ خون بہانے کے معاملہ میں تمہیں تمہارے دونوں ہاتھوں کا کھلا ہونا مغرور نہ کر دے اس لئے کہ قاتل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا قاتل بھی ہے جس میں اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: "یارسولاللہ! وہ کونسا ایسا قاتل ہے جسے موت نہیں آئے گی؟" فرمایا: "جہنم"!

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴

۱۶۲۹۶ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کا یکبارگی خاتمہ کر دینا ناحق خون بہائے جانے سے زیادہ آسان ہے۔

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳ اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۲۹۷ ۔ (قیامت کے دن) مقتول اپنے قاتل کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور رب العزت کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ بارگاہ رب العزت میں فریاد کرے گا کہ "اے پرورگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا تھا؟" وہ جواب دے گا: "میں نے اسے فلاں شخص کو عزت دینے کے لئے قتل کیا تھا! اسے جواب ملے گا: "عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے!"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۶

۱۶۲۹۸ ۔ جو شخص بھی ناحق یا برحق قتل کیا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور ہو گا کہ اپنے قاتل کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہو گا اور بائیں ہاتھ میں اس کا اپنا سر ہو گا، اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اگر تو اس نے اسے اطاعت خداوندی کے لئے قتل کیا ہو گا تو اسے ثواب ملے گا اور مقتول کو جہنم میں بھیج دیاجائے گا، اگر کسی انسان کو راضی کرنے کے لئے کیا تھا تو مقتول سے کہا جائے گا کہ تو بھی اسے ویسے ہی قتل کر جس طرح اس نے تجھے قتل کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق عمل فرمائے گا۔

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ ۔ فرغ کافی جلد ۷ ص ۲۷۲

۱۶۲۹۹ ۔ ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ تھامے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو گا اور عرض کرے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" قاتل جواب دے گا: پروردگارا! اسے میں نے تیری عزت کی خاطر قتل کیا تھا!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "بے شک عزت میرے ہی لئے ہے!" پھر ایک اور شخص ایک دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور کہے گا: "پروردگارا! اس نے مجھے قتل کیا ہے!" اللہ تعالیٰ قاتل سے پوچھے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا؟" قاتل جواب دے گا: "اس لئے کہ فلاں شخص کوعزت ملے!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "عزت (میرے سوال) کسی اور کے لئے نہیں ہے!" اس کے بعدوہ گناہوں میں جکڑ دیا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۹

۱۶۳۰۰ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے انسان کے قتل کے قتل کو اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اگر اس کا قتل حلال ہوتا تو مخلوق میں فساد پیدا ہو جاتا، دنیا تباہ ہو جاتی اور سارا نظام بگڑ جاتا۔

(امام رضا علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶

۱۶۳۰۱ ۔ حمران کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں: "من اجل ذالکتاقتل الناس جمیعاً" (مائدہ/ ۳۲)

"اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو صرف ایک انسان کو قتل کرے گا وہ گویا ساری انسانیت کا قاتل قرار پاتا ہے؟"

امام علیہ السلام نے فرمایا: "اسے جہنم کے ایسے مقام میں رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے عذاب کی آخری حد ہو گی۔ گویا اگر وہ ساری انسانیت ہی کو قتل کر ڈالے گا تو بھی اسی جگہ ہی اسے عذاب ملے گا۔" میں نے عرض کیا: "اگر ایک اور انسان کو قتل کر ڈالے تو پھر؟" آپ نے فرمایا: "اسے اس کادوگنا عذاب ملے گا"

فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۱

(قولِ مولف: تفسیرالمیزان میں ہے کہ حمران نے جو یہ پوچھا کہ اگر کسی اور شخص کو قتل کر ڈالے، اس اشکال کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آیت مجیدہ ایک انسان کے قتل کی سزا، کئی انسانوں کے قتل کی سزا کے برابر قرار دے رہی ہے اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس کا عذاب دوگنا ہو گا"

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہاں یہ اشکال کرے کہ امام علیہ السلام نے اس برابری سے دستکشی اختیار کر لی ہے، آیت نے جس کا حکم دیا ہے، یعنی آیت تو کہہ رہی ہے کہ"ایک شخص کا قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے" لیکن روایت کہہ رہی ہے کہ برابر نہیں ہے! لیکن حقیقت میں یہ اشکال وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ "منزلت کی برابری" یعنی ایک شخص کا قتل بمنزلت تمام لوگوں کے قتل کے ہےاس کا تعلق عذاب کی کیفیت سے ہے نہ کہ مقدار کی کیفیت سے۔ لہٰذا واضح ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا قاتل اور تمام لوگوں کا قاتل ہر دو جہنم کے ایک ہی مقام میں ہوں گے، لیکن ایک شخص سے زائد کے قاتل کا عذاب دوگنا ہو گا۔ اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی آدمی تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالے تو بھی اسی جگہ عذاب میں ہو گا۔

ہماری اس گفتگو کی شاہد وہ روایت ہے جسے عباسی نے اسی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں حمران کے ذریعہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے، امام علیہ السلام فرماتے ہیں: "جہنم میں ایک مقام ایسا ہے جہاں اہلِ جہنم کے عذاب کی شدت اپنی آخری حدوں تک ہوتی ہے اور قاتل کو اسی میں ڈالا جائے گا" حمران کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: "اگر وہ دو آدمیوں کو قتل کر ڈالے تو پھر کیا ہو گا؟" امام نے فرمایا "کیا تم یہ نہیں جانتے ہو کہ جہنم میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جس کا عذاب اس قدر شدید ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور جگہ کا عذاب اس سے شدید تر نہیں ہے" پھر فرمایا: "اسی جگہ پر اس قاتل کا عذاب اس کے قتل کے حساب سے دوگنا ہوتا جائے گا" پس امام علیہ السلام کا "نفی" اور "اثبات" میں جمع کرنا اس توجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں جو ہم نے روایات کی طرف دلائی ہے اور وہ یہ کہ برابری اور مساوات عذاب کی مقدار میں نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں ہے جس کی طرف لفظ "منزلت" اشارہ کر رہا ہے۔ البتہ اختلاف خود عذاب اور اس کی اذیتوں کے بارے میں ہے جن سے قاتل کو دوچار ہونا پڑے گا۔

ہماری گفتگو کا ایک اور شاہد فی الجملہ وہ روایت ہے جو خدان بن سدیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ امام نے اس آیت "( من قتل نفسافکا نما قتل الناس جمعیاً ) " کے ضمن میں ارشاد فرمایا: "جہنم میں ایک گہری وادی ہے کہ اگر کوئی شخص تمام لوگوں کو قتل کر ڈالے تو اسے اسی وادی میں جھونکا جائے گا اور اگر کوئی ایک شخص کو مار ڈالے تو بھی اسے وہیں ڈالا جائے گا"

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اس روایت میں آیت شریفہ بعینہ ذکر نہیں کی گئی بلکہ اس کے معنی کو ذکر کیا گیا ہے،

تفسیر المیزان جلد ۵ ص ۳۲۲

( ۲) مومن کا قتل

قرآن مجید،

( ومن یقتل موٴمنا متعمدا………………………………عذابا عظیما ) (نسأ/ ۹۳)

ترجمہ۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اس نے اپنا غضب ڈھایا، اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۳۰۲ ۔ حجة الوداع کے موقع پر پیغمبرِ اکرم کے خطبہ سے اقتباس: "لوگو! تمہارا خون اور تمہارا مال بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کے دن (عرفہ) کی، اس مہینہ (ذیحجہ) کی اور اس شہر )(مکہ) کی حرمت ہے، یہ حرمت (قیامت کے دن تک) برقرار رہے گی جس دن تم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۳

۱۶۳۰۳ ۔ ایک ایسے مقتول کے بارے میں ارشاد فرمایا جس کے قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا: "ایک مسلمان قتل ہو جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکے (تعجب کی بات ہے؟) ، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر تمام اہلِ آسمان و زمین مل کر بھی کسی ایک مومن کو قتل کر دیں یا اس کے قتل پر راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جو شخص کسی کو کوڑا مارتا ہے تو اسے کل (قیامت کے دن) جہنم کی آگ میں اس جیسا کوڑا مارا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) امالی طوسی  ص ۱۲۶

۱۶۳۰۴ ۔ اے لوگو! میرے ہوتے ہوئے کوئی شخص قتل ہو جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چلے (کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے؟)، اگر تمام (اہلِ) آسمان و زمین کسی ایک مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو بغیر تعداد و حساب سزا دے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۵۲

۱۶۳۰۵ ۔ جو شخص کسی مومن کے قتل کے لئے کسی کلمہ کی ایک جزو کے ذریعہ بھی کسی کی امداد کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) یہ لکھا ہوا ہو گا "الل کی رحمت سے مایوس"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۹۵

۱۶۳۰۶ ۔ ایک شخص بہشت کے دروازے پر پہنچ کر بہشت کو دیکھنے سے اس لئے ہٹا دیا جائے گا کہ اس نے ایک مسلمان کا پچھنے کے ذریعہ ناحق خون نکالا ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۲۱

۱۶۳۰۷ ۔ جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں ہوتی۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵

۱۶۳۰۸ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک مومن کے بارے میں پوچھا گیا جو دوسرے مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو کیا اس کی توبہ قبول ہو گی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر اس نے اسے مومن ہونے کی وجہ سے قتل کیا ہے تو اس کے لئے توبہ نہیں ہے اور اگر غصے یا کسی اور دنیوی سبب کی بنا پر قتل کیا ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ اس سے اس کا بدلہ لیا جائے۔

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۹

۱۶۳۰۹ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری دنیا کا فنا ہو جانا اس بات سے زیادہ آسان ہے کہ کسی ایک مسلمان کو قتل کر دیا جائے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳

اسے مسلم، نسائی اور ترمذی نے بھی روایت کیا ہے،

۱۶۳۱۰ ۔ ۹; اللہ کے نزدیک ایک مومن کے قتل ہونے کی عظمت ساری دنیا کے فنا ہو جانے سے زیادہ ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۴ ۔ کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۰ ۔ اسے نسائی اور () نے بھی روایت کیا ہے،

۱۶۳۱۱ ۔ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ قاتل کے نام لکھ دے گا اور مقتول ان گناہوں سے بری الذمہ ہو جائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں (ہابیل کی زبانی) فرماتا ہے: "( انی اریدان تبوء بائمی واثمک فتکون من اصحاب النار ) " (یعنی ہابیل نے قابیل سے کہا) میں تو ضرور یہ چاہتا ہوں کہ میرے گناہ اور تیرے گناہ دونوں تیرے سر جائیں، تو جہنمی بن جائے۔ (مائدہ/ ۲۹)

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۷

(۳) قتل کے جائز ہونے کی وجوہات

قرآن مجید

( من قتل نفسا بغیر نفس…………………………قتل الناس جمیعاً ) ۔ (مائدہ/ ۳۲)

ترجمہ۔ جو شخص کسی کو نہ نہ تو جان کے بدلہ میں اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

حدیث شریف

۱۶۳۱۲ ۔ کسی ایسے مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ معبودِ حقیقی کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں اور میں (محمد مصطفی) اللہ کا رسول ہوں، مگر تین وجوہات میں سے کسی ایک کے تحت:

۱ ۔ جس شخص نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا، تو اسے سنگسار کیا جائے گا۔

۲ ۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف لڑنے کے لئے خروج کیا، تو اسے یا قتل کر دیا جائے گا یا سولی پر لٹکایا جائے گا یا پھر ملک بدر کر دیا جائے گا۔

۳ ۔ جس نے کسی کو (بے گناہ) قتل کیا، تو اسے قتل کیا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۶۷ ۔ سنن ابوداؤد حدیث ۴۳۵۳

۱۶۳۱۳ ۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، جو شخص بھی لا الہ الا اللہ اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے اس کا قتل جائز نہیں ہے سوائے تین وجوہات کے: ۱ ۔ جماعت کا تارک ہو۔ ۲ ۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ ۳ ۔ کسی کو ناحق قتل کرے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۰ ۔ سنن ابوداؤد حدیث ۴۳۵۲

۱۶۳۱۴ ۔ کسی کا خون بہانا جائز نہیں سوائے تین صورتوں کے: ۱ ۔ جس نے کسی کو قتل کیا ہو۔ ۲ ۔ جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو اور ۳ ۔ جو ایمان سے مرتد ہو گیا ہو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۱ ، ۳۸۲ ، ۳۸۴ ، ۳۸۵

۱۶۳۱۵ ۔ جو شخص اپنے دین سے مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۸۶ ، ۳۸۷ ، ۳۹۱ ، ۳۹۲ ، ۳۹۳ ، ۳۹۴

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "باغی" باب "باغی قیدیوں کا قتل جائز ہے" باب "ان لوگوں کا قتل جائز ہے جنہیں امام المسلمین کی دشمنی پر مامور کیا جائے"

نیز: "خوارج" باب اگر ساری دنیا کے لوگ اسی طرح قتل کا اعتراف کریں تو بھی سب کو قتل کر دوں"

"ارتداد" باب "جو اپنا دین (اسلام) بدل دے اسے قتل کر دو"

"گالی دینا" باب ۳۱ ۱۷ " انبیاء اور اوصیاء کو گالی دینا"

"جادو" باب ۱۷۶۹" مسلمانوں میں جادو کرنے والے کو قتل کیا جائے گا")

( ۴) قاتل و مقتول دونوں جہنمی

۱۶۳۱۶ ۔ حضرت زید بن علی اپنے آباء کرام علیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا:

"جب دو مسلمان سنت کے طریقہ سے ہٹ کر ایک دوسرے کے سامنے تلواریں لے آئیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں"

کسی نے عرض کیا: "یارسول اللہ! یہ تو قاتل ہو گا (جو جہنم میں جائے گا لیکن) مقتول کس لئے؟

آپ نے فرمایا: اس لئے کہ اس نے بھی تو اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔"

وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۱۱۳

۱۶۳۱۷ ۔ جب دو مسلمان آپس میں اس حالت میں ملاقات کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہوں تو دونوں جہنم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں، پھر جب ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے تو دونوں مل کر جہنم میں جا پہنچتے ہیں،

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۹۹

۱۶۳۱۸ ۔ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتے ہیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم ) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۴

( ۵) کسی کو بگاڑ کر قتل نہ کرو

۱۶۳۱۹ ۔ یقیناً خدا محسن ہے اور احسان ہی کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اسے اچھے انداز میں قتل کرو، اگر کسی جانور کو ذبح کرو تو اسے بھی اچھے انداز سے ذبح کرو۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۳۳۸۲

۱۶۳۲۰ ۔ جب کسی بات کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، کسی کو قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو کیونکہ اللہ محسن ہے اور محسنین (نیکوکاروں) کو دوست رکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۱۳۳۸۱

۱۶۳۲۱ ۔ ۹; اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر نیکی اور اچھائی فرض کر دی ہے۔ لہٰذا جب کسی کو قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، کسی چیز کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، تمہارے ہتھیار کی دھار تیز ہو، نیز اپنے ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت تکلیف نہیں دینی چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۱۵۶ اسے مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۶۳۲۲ ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ایک شخص کے پاس سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہ اپنا پاؤں بکری کے سینے پر رکھے ہوئے چھری کی دھار کو تیار کر رہا تھا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی۔

یہ حالت دیکھ کر آپ نے اس سے کہا: کیا یہ کام اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ کیا تو چاہتا ہے کہ اسے دو طرح کی موت سے مارے؟"

الترغیب و الترغیب جلد ۲ ص ۱۵۶ اسے طبرانی نے اپنی کتاب "الکبیر" اور "الاوسط" میں اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ مگر اس نے کہا کہ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں،

"کیا تو چاہتا ہے کہ اسے کئی موتوں سے مارے، اسے زمین پر لٹانے سے پہلے چھری کی دھار کو تیز کیوں نہیں کر لیا؟"

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "الترغیب و االترہیب" جلد دوم ۱۵۶ باب "جانور کے مسئلہ کرنے اور جانور کو نہ کھانے کی غرض سے قتل کرنے سے ڈرانے کا بیان"

نیز: "احسان" (نیکی) باب "نیکی کیا ہے؟"

: "عمل" ( ۱) باب ۲۹۵۵ " عمل کی پختگی)

( ۶) خودکشی کرنے والا

قرآنِ مجید

( ولاتقتلوا انفسکم ان الله کان لکم رحیما ) ۔ (نساء/ ۲۹)

ترجمہ۔ اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ یقیناً تمہارے حال پر مہربان ہے۔

حدیث شریف

۱۶۳۲۳ ۔ جو شخص اپنا گلا گھونٹتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا، اور جو اپنے آپ کو نیزہ مارتا ہے وہ بھی جہنمی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۶۱

۱۶۳۲۴ ۔ جو شخص دنیا میں کسی چیز سے خودکشی کرتا ہے قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب ملے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۶۵

۱۶۳۲۵ ۔ جو شخص جان بوجھ کر خودکشی کرے گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۳

۱۶۳۲۶ ۔ تم سے پہلے ایک شخص تھا جو زخموں سے چور ہو گیا تو اس نے گھبرا کر چھڑی پکڑی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا جس کی وجہ سے خون تھمنے میں نہ آیا اور آخرکار وہ مر گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میرے بندے نے اپنے بارے میں مجھ سے پہل کی ہے۔ لہٰذا میں نے اس پر جہنم حرام قرار دے دیا ہے۔"

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۳۰۱

کنز العمال جلد حدیث ۳۹۹۶۰

۱۶۳۲۷ ۔ یقیناً مومن کو آزمائش سے آزمایا جا سکتا ہے۔ وہ ہر موت مر سکتا ہے لیکن خودکشی ہرگز نہیں کر سکتا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) فروع کافی جلد ۳ ص ۱۱۲

۱۶۳۲۸ ۔ روایت میں ہے کہ ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم غزوات (جنگوں) میں نو، نو اور دس، دس کے ٹولے بن کر جایا کرتے تھے، اور اپنے درمیان کام کو تقسیم کر لیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ بیٹھ رہتے اور کچھ لوگ اپنے ساتھیوں کے لئے کام کرتے تھے، پانی پلاتے تھے، کھانا تیار کرتے تھے اور کچھ لوگ پیغمبر کی خدمت میں رہتے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے ہمارے ساتھیوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو اکیلاتین لوگوں کا کام کر رہا تھا یعنی کپڑے بھی سی رہا تھا، پانی بھی پلا رہا تھا اور کھانا بھی پکا رہا تھا۔

جب اس شخص کا ذکر آنحضرت سے کیا گیا تو آنجناب نے فرمایا: "یہ شخص تو جہنمی ہے!" چنانچہ جب جنگ شروع ہوئی اور دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو وہ شخص بھی زخمی ہو گیا اور اس نے تیر اٹھایا اور اپنے آپ کو اس سے ختم کر لیا۔

یہ دیکھ کر پیغمبر نے فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں"

بحار الانوار جلد ۱۸ ص ۱۱۱

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو ! وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۳ باب اور خودکشی حرام ہے" مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۳۵۳ باب ۵ ۔ صحیح مسلم جلد اول ص ۱۰۳ باب ۷

( ۷) اسقاطِ حمل

۱۶۳۲۹ ۔ اسحاق بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا: "ایک عورت کو حمل کا خوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ دوا پی کر اسے گرا دیتی ہے۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں،

آپ نے فرمایا: "نہیں! یہ تو نطفہ ہوتا ہے" پھر فرمایا: "سب سے پہلے نطفہ ہی خلق ہوتا ہے"

وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۱۵

( ۸) صبر کے ساتھ قتل کرنا

۱۶۳۳۰ ۔ ابوغرہ حجمی کو جنگ بدر میں قیدی بنا لیا گیا۔ اس نے حضور اکرم کی خدمت میں عرض کیا؟ "اے محمد! میں ایک عیالدار شخص ہوں۔ آپ مجھ پر احسان کریں!" آنحضرت نے اس پر احسان کرکے اس شرط پر اسے چھوڑ دیا کہ دوبارہ جنگ کرنے نہیں آئے گا۔

پس وہ مکہ چلا گیا اور وہاں جا کر کہنے لگا: "میں نے تو محمد کے ساتھ مذاق کیا تھا اور انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔"

پھر وہ جنگ احد میں بھی لڑنے کے لئے آن پہنچا۔ اسے دیکھ کر آنحضرت نے بددعا کی کہ بچ کر نہ جائے۔ چنانچہ وہ اسی جنگ میں قیدی بنا لیا گیا، جب آنحضرت کے سامنے پیش ہوا تو وہی سابقہ بات کی: "میں عیالدار ہوں لہٰذا آپ مجھ پر احسان فرمائیں!" آپ نے فرمایا میں تم پر احسان کروں گا اور تو مکہ جا کر قریش کی محفلوں میں کہتا پھرے گا کہ میں نے محمد کے ساتھ مذاق کیا تھا! مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا" پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے ہی قتل کر دیا۔

مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۲۶۷

۱۶۳۳۱ ۔ حضرت علی علیہ السلام جب شامیوں میں سے کسی کو جنگ میں قیدی بناتے تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھیوں میں سے کسی کوقتل کیا ہوتا تو اسے اس کے بدلہ میں قتل کر دیتے۔ اسی طرح جسے چھوڑ دیتے تھے اگر وہ دوبارہ آتا تو اسے نہ چھوڑتے اور قتل کر دیتے

مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۲۵۱

۱۶۳۳۲ ۔ یزید بن بلال کہتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں مولا علی علیہ السلام کے ساتھ تھا، جب کبھی آپ کے پا س کوئی جنگی قیدی لایا جاتا تو اس سے فرماتے: "میں صبر کرتا ہوں اور تجھے قتل نہیں کروں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں" البتہ اس کے ہتھیار لے لیتے اور اس سے اس بات کا حلف لیتے کہ دوبارہ لڑنے کے لئے نہیں آئے گا، نیز اسے چار درہم بھی دیتے۔

کنزالعمال حدیث ۳۱۷۰۳

۱۶۳۳۳ ۔ حضرت رسول خدا نے صبر کی وجہ سے سوائے ایک شخص "عقبہ بن ابی معیط" کے کسی اور کو قتل نہیں کیا، اور ابی بن ابی خلف کو نیزہ مارا جس سے وہ بعد میں ہلاک ہو گیا،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۱۱۳

۱۶۳۳۴ ۔ ۹; عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے دن فرماتے ہوئے سنا: "صبر کے باعث آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔"

صحیح مسلم جلد ۳ ص ۱۴۰۹

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "جواہرالکلام" جلد ۲۱ ص ۱۳۲

"صبر سے قتل کرنا" کے معنی۔

نیز: سنن ابوداؤد جلد ۳ ص ۶۰ باب "قیدی کو قتل کرنے میں صبر سے کام لینا")

فصل۔ ۲

قبلہ

( ۱) تحویلِ قبلہ

قرآنِ مجید:

( سیقول السفاء ……………………صراط مستقیم ) (بقرہ/ ۱۴۲ تا ۱۴۴)

ترجمہ۔ بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے کہ مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کی طرف (پہلے سجدہ کرتے تھے) اس سے (دوسرے قبلہ کی طرف) مڑ جانے کا کیا باعث بنا؟ (اے رسول!) تم ان کے جواب میں کہو کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں، جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا ہے،

حدیث شریف۔

۱۶۲۷۶ ۔ معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ آنحضرت نے کعبہ کی طرف رخ کب کیا؟ آپ نے فرمایا: "جنگ بدر سے واپسی کے بعد"

بحارالانوار جلد ۱۹ ص ۱۹۹ ۔ تہذیب الاحکام جلد ۲ ۴۳

۱۶۲۷۷ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول"وان کانت لکبیرة الاعلی الذین ھدی اللہ" یعنی اگرچہ یہ بات، سوائے ان لوگوں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی ہے، سب پر شاق ضرور ہے، (بقرہ/ ۱۴۳) کے بارے میں فرمایا کہ اس زمانہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بہت سے لوگوں پر شاق تھا، لیکن جن لوگوں کی اللہ نے ہدایت فرمائی (ان پر شاق نہیں تھا)، تو اللہ تعالیٰ اس سے ان لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسی عبادت چاہتا ہے جس میں انسان کی ذاتی خواہشات شامل نہ ہوں اور آزمائش کرنا چاہتا تھا کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت کرکے کون صحیح معنوں میں اس کی اطاعت کرتا ہے۔

(امام حسن عسکری علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد اول ص ۱۳۶

۱۶۲۷۸ ۔ ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نگاہ کی اور جبرائیل سے فرمایا: "میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہودیوں کے قبلہ سے پھیر کر کسی اور طرف میرا رخ کر دے" جبرائیل نے کہا: "میں بھی آپ ہی کی طرح اس کا ایک بندہ ہوں۔ یہ بات میرے بس سے باہر ہے میں تو صرف حکم کا پابند ہوں۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اور اسی سے ہی درخواست کیجئے۔" پس حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے، اس امید پر کہ جبرائیل اللہ کی طرف سے اس بارے میں کیا حکم لاتے ہیں۔ لہٰذا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ آیت نازل فرمائی:( قدنری تقلب وجهک فی السماء… )

تفسیر درمنثور جلد اول ص ۱۴۲

۱۶۲۷۹ ۔ علی بنابراہیم اپنی اسناد کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: "بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک اور وہاں سے ہجرت کرنے کے بعد مدینہ میں سات ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تھے۔"

امام نے فرمایا: "پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی آنحضرت کو یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ ہمارے پیروکار ہیں کیونکہ آپ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔

"اس بات کا آپ کو بہت دکھ ہوتاتھا۔ چنانچہ ایک رات آنحضرت گھر سے باہر نکلے اور آفاقِ سماوی کی طرف نگاہیں اٹھا لیں، اس بات کے انتظار میں کہ اس بارے میں کوئی حکم آ جائے۔ چنانچہ جب دن ہوا اور ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ اس وقت بنی سالم کی مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے۔ ابھی ظہر کی دو ہی رکعتیں پڑھی تھیں کہ جبرائیل امین نے آپ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر خانہ کعبہ کی طرف آپ کا رخ کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "قدنریٰ تقلبک فی السماء فلنو لینک قبلة ترمنہا فول و جھک شطرالمجسد الحرام" یعنی "اے رسول! قبلہ بدلنے کے واسطے بیشک تمہارا بار بار آسمان کی طرف رخ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم ضرور تم کو ایسے قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔ لہٰذا تم (نماز ہی میں) مسجدالحرام (کعبہ)ا کی طرف رخ کر لو۔ (بقرہ/ ۱۴۴) چنانچہ آپ نے نمازِ ظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں۔ اس پر یہودی اور احمق لوگ کہنے لگے کہ انہیں اس قبلہ کی طرف سے رخ پھیر لنیے کا حکم کس نے دیا جس کی طرف وہ پہلے رخ کیا کرتے تھے؟"

تفسیر مجمع البیان جلد اول ص ۲۲۳

قولِ مولف: علامہ طباطبائی مرحوم فرماتے ہیں کہ جو روایات شیعہ او رسنی مکاتبِ فکر کی طرف سے اس داستان میں بیان ہوئی ہیں اور ان کی روایات کی جامع کتب میں موجود ہیں، بہت زیادہ اور مضامین کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ واقعہ کب رونما ہوا! ان میں سے اکثر و بیشتر یہ بتاتی ہیں کہ تحویلِ قبلہ کا یہ واقعہ ماہِ رجب ۲ ھ میں ہوا، یعنی ہجرت کے سترہ ماہ بعد، اور یہی روایات سب سے زیادہ صحیح بھی ہیں۔

تفسیرالمیزان جلد اول ص ۳۳۱

قبلہ کے بارے میں علمی بحث

قبلہ کی شرعی حیثیت اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا وجوبنماز جو کہ دنیا بھر کے عامة المسلمین کی عبادت ہے۔ اور اسی طرح جانوروں کا رو بقبلہ کرکے ذبح کرنا اور دوسرے کام جو حتماً قبلہ رخ ہو کر انجام دینا چاہئیں (یا جیسے قبلہ رخ ہو کر سونا یا بیٹھنا یا وضو کرنا جو کہ مستحب ہے اور جیسے بیت الخلاء میں روبقبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنا حرام ہے۔ از مترجم) ، اسی طرح کے دیگر احکام جن کا قبلہ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے، اس بات کا باعث بنیں کہ مسلمانوں کو قبلہ کی جستجو کی ضرورت ہوئی تاکہ وہ اس کی سمت کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (تاکہ نماز یا جانوروں کو ذبح کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام قبلہ کی طرف منہ کرکے انجام دیئے جائیں اور بیت الخلاء میں اس کی طرف رخ کرکے یا پشت کرکے نہ بیٹھیں۔ از مترجم)

ابتدائے امر میں چونکہ مکہ سے دور لوگوں کے لئے قبلہ کی قطعی پہچان ناممکن تھی لہٰذا گمان اور ایک طرح کی تخمین پر ہی اکتفا کیا گیا، لیکن رفتہ رفتہ اس عمومی ضرورت نے ریاضی دان علماء کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس گمان و تخمین کو قدرے تحقیق اور عینی تشخیص سے نزدیک کر دیں، لہٰذا وہ اس کام کے لئے ان جدولوں سے استفادہ کرنے لگے جو جنتریوں اور تقویموں میں بنے ہوئے تھے تاکہ اس طرح ہر شہر کا طول و عرض متعین کر سکیں۔ (کسی شہر کے عرض سے مراد وہ فاصلہ ہوتا ہے جو وہ شہر خط استوا سے رکھتا ہے اور طول سے مراد وہ فاصلہ ہوتا ہے جو شہر کے درمیان مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا ہے، اسی بنا پر زمین کا آباد اور آخری مغربی نقطہ "جزائر خالدات" کو گردانا جاتا تھا۔ البتہ اس بات کا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے کہ گزشتہ صدیو ں میں، امریکہ کی دریافت اور زمین کے گول ہونے کی تحقیق سے پہلے ریاضی دان بحر اوقیاس کے ساحل پر واقع مغربی یورپ میں "جزائر خالدات" ہی کو کرہ زمین کا آخری نقطہ سمجھتے تھے۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ جزائر ان آخری صدیو ں میں پانی میں غرق ہو چکے ہیں اور اس وقت ان کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔ (دور حاضر میں زمین کے مشرقی نیم کرہ میں واقع گرینوچ (لندن) کی رصدگاہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ از مترجم)

جب وہ اپنے شہر کے عرض البلد کو خط استوا سے معلوم کر لیتے تو پھر وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے۔ اس شہر کے جنوبی نقطہ سے کھڑے ہو کر چند درجہ مغرب کی طرف مڑ جائیں۔ (ہر شہر کے جنوبی نقطہ سے مراد یہ ہے کہ اگر اس نقطہ سے ایک فرضی خط شمال کی طرف تصور کریں تو وہاں تک پہنچنے کے لئے سورج کو "نصف النہار" کا فاصلہ طے کرنا پڑے جس کو اصطلاح میں دوپہر کا وقت کہتے ہیں۔ اسی طرح چند درجہ سے مراد جنوب اور مغرب کے درمیان نوے درجہ کا فاصلہ ہے۔ پھر مغرب کی طرف مڑنے کا طریقہ "مثلثات" کے تحت معین کرتے تھے۔ از مترجم)

پھر یہی طریقہ تمام اسلامی شہروں اور ان کے افق کے لئے "دائرہ ہندیہ" کے ذریعہ رائج کر دیا گیا۔ (اس کی صورت یہ تھی کہ اوائلِ خزاں میں جو موسم کے دو اعتدالی نقطے ہوتے ہیں، ہر افق میں سیدھی اور صاف زمین پر ایک دائرہ بنا لیتے تھے اور اس کے عین وسط میں کوئی سیدھی سی چیز مثلاً لکڑی وغیرہ گاڑ دیتے تھے جسے "شاخص‘ کہا جاتا ہے۔ صبح کے وقت جب سورج طلوع کرتا ہے، اس شاخص کا سایہ دائرہ سے باہر نکلا ہوا ہوتا تھا اور جوں جوں سورج اوپر آتا تھا سایہ گھٹتے گھٹتے دائرہ کے وسط میں پہن جاتا۔ اسی طرح زوال کے بعد جوں جوں سایہ مشرق کی طرف بڑھتا جاتا اور دائرہ سے باہر نکل جاتا تو مغرب و مشرق میں سایہ کے اوپر نشان لگا دیتے، مشرق سے مغرب تک کی لکیر دونوں سمتوں کو متعین کر دیتی، دائرہ بھی دو نیم دائروں میں تقسیم ہو جاتا۔ اسی طرح اس خطِ مستقیم پر ایک اور عمومی خط کھینچتے جس کا ایک سرا جنوبی نقطے کو اور دوسرا سرا شمالی نقطے کو ظاہر کرتا، اسی عمودی خط کو اس افق کا نصف النہار کہتے تھے اور اس دائرہ کو "دائرہ ہندیہ"کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ معلوم ہے کہ ان چاروں نقطوں کے درمیان کا فاصلہ نوے درجے کا ہوتا تھا۔ فرض کریں کہ اگر اس دائرہ کا کوئی شہر خط استوا سے تیس درجے کے فاصلہ پر ہو اور اس شہر کے باشندے نماز کے موقع پر نوے درجہ سے تیس درجے جنوب سے مغرب کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے تو وہ ٹھیک قبلہ رخ کھڑے ہوں گے۔ مترجم)

اس کے بعد کام کی سرعت اور سہولت کے لئے "قطب نما" کا استعمال ہونے

لگا، کیونکہ یہ آلہ اپنی سوئی کے ذریعہ شمال کی سمت کو ظاہر کرتا ہے، خواہ آپ کسی بھی افق میں ہوں۔ اسی طرح شمال سے جنوب کی سمت خودبخود ظاہر ہو جاتی، اور دائرہ ہندیہ کا کام بھی جلد ہی انجام پا جاتا۔ اگر کسی شخص کو اپنے شہر کے خطِ استوا سے مڑنے کی مقدار کا علم ہوتا تو اس کے لئے قبلہ کی سمت معلوم کرنا آسان ہو جاتا۔

لیکن ریاضی دان علماء کی یہ کوشش اگرچہ ایک شایانِ شان خدمت تھی خدا انہیں جزائے خیر دےلیکن دونوں صورتوں دائرہ ہندیہ اور قطب نما کے لحاظ سے نامکمل تھی جس سے لوگوں میں کافی اشتباہ و غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی۔

پہلا طریقہ اس لئے نامکمل تھا کہ اس دورِ آخر کے ریاضی دان اس طرف متوجہ ہوئے کہ قدیم ریاضی دانوں نے کسی شہر کے طول (طول بلد) کی تشخیص میں غلطی کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبلہ کی طرف کی تو مقدار انہوں نے مقرر کی تھی وہ بھی غلط تھی اور اس غلطی کے نتیجہ میں قبلہ کی تشخیص بھی غلط ہو گئی۔ اس طرح سارے کا سارا معاملہ خراب ہو گیا۔

اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ مثلاً تہران خط استوا سے عرض البلد اور چاروں موسموں میں اس کی سورج کے مساوی سمت معلوم کرنے کے لئے ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ پہلے قطبِ شمالی سے خط استوا کو متعین کرتے اور پھر اسے کئی درجوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ پھر کسی شہر کا خطِ استوا سے فاصلہ انہی درجوں سے متعین کرتے تھے۔ مثلاً کہتے تھے کہ تہران کا فاصلہ جزائر خالدات سے ۸۶ درجے، بیس منٹ کا ہے، اور خطِ استوا سے اس کا عرض البلد ۳۵ درجے، ۳۵ منٹ ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ تحقیق اور واقعیت کے زیادہ نزدیک تھا لیکن شہروں کے طول بلد کی تشخیص کا صحیح اور تحقیقی طریقہ نہی تھا کیونکہ، جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے، دو ایسے نقطں کی زمین سے درمیانی مسافت کو معین کیا جاتا تھا جو آسمانی حوادث میں مشترک تھے۔ (اگر سورج گہن ہوتا تو دونوں جگہوں پر ایک ہی وقت میں ہوتا، اور اگر کوئی دوسرا آسمانی واقعہ ہوتا تو دونوں نقطوں میں ایک ہی زمانہ میں رونما ہوتا) اسے سورج کی "حسی حرکت"، یا باالفاظ دیگر گھڑی کے ذریعہ ضبط کر لیتے اور کہتے کہ مثلاً فلاں شہر کا طول البلد فلاں درجہ، فلاں منٹ پر ہے۔ چونکہ زمانہ قدیم میں رسل و رسائل مثلا ٹیلی فون، تار یا دوسری قسم کے ذرائع موجود نہیں تھے لہٰذا وہ صرف اندازوں سے کام لیتے تھے اور ان کا یہ اندازہ ٹھیک طریقہ پر نہیں تھا۔ لیکن جب ذرائع رسل و رسائل عام ہو گئے، ہوائی جہازوں اور سفر کے دوسرے ذرائع کے عام ہو جانے سے فاصلے سمٹ کر رہ گئے تو یہ مشکل بھی مکمل طور پر ختم ہو گی۔ انہی ایام میں شیخ فاضل اور ریاضی کے مشہور استاد مرحوم سردار کابلی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی اور جدید اصولوں کے مطابق قبلہ کی سمت کو دریافت کر لیا، انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بنام "تحفة الاجلہ فی معرفة القبلہ" لکھ کر عوام تک پہنچائی۔

یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں ریاضی کے قواعد کے مطابق قبلہ کی جہت دریافت کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں اور ہر شہر کے قبلہ کی تعیین کے لئے جدول بنائے گئے ہیں۔

منجملہ دیگر امور کے، جو انہو ں نے دریافت کئے ہیںاور خدا انہیں جزائے خیر دےپیغمبر خدا کی وہ کرامت و واضح معجزہ بھی تھا، جو انہوں نے مدینہ کی مسجد کے محراب میں کھڑے ہو کر قبلہ کی صحیح سمت رخ کرکے نماز ادا فرمائی۔ سردار کابلی نے اپنے ریاضی قواعد کے ذریعہ اس کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔

اس کی وضاحت کے لئے عرض ہے کہ متقدمین کے حساب کے مطابق مدینہ منورہ کا عرض بلد، خط استوا سے ۲۵ درجے پر اور طول بلد ۷۵ درجے، اور ۲۰ منٹ پر قرار پاتا تھا۔ اس حساب کے تحت مدینہ میں مسجد نبوی کی محراب قبلہ کی طرف نہیں بنتی تھی، (چونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ حضرت رسول خدا رو بقبلہ کرنے اور مسجد کے بنانے میں اشتباہ کریں) لہٰذا ریاضی دان اس بارے میں مسلسل بحث کرتے آ رہے تھے اور بعض اوقات تو وہ ایسی وجوہات کو بھی بیان کرتے جو حقیقت الامر سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔

لیکن مرحوم سردار کابلی نے اس بات کو واضح کرکے بتا دیا کہ مذکورہ دانشوروں کے حساب ٹھیک نہیں تھے کیونکہ مدینہ منورہ کا خطِ استوا سے عرض بلد ۲۴ درجہ، ۵۷ منٹ پر اور مشرقی نیم کرہ کے نقطہ سے اس کا طول بلد ۳۹ درجہ، ۵۹ منٹ پر واقع ہے، اس حساب کی رو سے مسجدِ نبوی کی محراب ٹھیک قبلہ رخ واقع ہوتی ہے۔

ئٍُبس اب یہ بات واضح ہو گئی کہ صدیوں پہلے جب اس قسم کے حساب و کتاب نہیں تھے۔ لہٰذا آنحضرت جب نماز کی حالت میں تھے اور اسی حالت ہی میں کعبہ کی طرف مڑے تو اگر ایک فرضی خط کعبہ کی طرف کھینچا جائے تو وہ ٹھیک کعبہ تک ہی جا پہنچے گا۔ اور یہ چیز بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔ "( صدق الله و رسوله ) (اللہ بھی سچا اور اس کا رسول بھی سچا ہے)

سردار کابلی مرحوم کے بعد فاضل انجینئر بریگیڈیئر جنرل عبدالرزاق بغائری رحمة اللہ علیہ نے روئے زمین کے بہت سے نقاط کے لئے قبلہ کو دریافت کیا، اس بارے میں قبلہ کی پہچان کے لئے ایک کتاب بھی تحریر کی اور اس میں ایسے جدول بنائے جن میں روئے زمین کے ڈیڑھ ہزار مقامات کے قبلہ کی سمت متعین کی۔ اس کتاب کی تدوین سے بحمداللہ تشخیص قبلہ کی نعمت کمال تک پہنچ گئی۔ (اور تہران کا عرض بلد ۳۵ درجہ، اکتالیس منٹ، ۳۸ سیکنڈ اور طول بلد ۵۱ درجہ، ۲۸ منٹ، ۵۸ سیکنڈ تحریر کیا (از مترجم)

یہ تو تھی "دائرہ ہندیہ" کے نقص کی وجہ۔ اب آتے ہی دوسری قسم یعنی "قطب نما" کے ذریعہ قبلہ کی تشخیص، تو اس کے نقص کی وجہ یہ تھی کہ کرہ ارض کے دو مقناطیسی قطب زمین کے دو جغرافیائی قطبوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے چونکہ مقناطیسی قطبِ شمالی، مثلاً یہ کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ تبدیل ہونے کے علاوہ اس کے اور زمین کے جغرافیائی قطب شمالی کے درمیان ایک ہزار میل ( ۱۳۷۵ کلومیٹر) کا فاصلہ ہے،

اسی لئے قطب نما کی سوئی کبھی بھی زمین کے جغرافیائی قطبِ جنوبی پر نہیں ٹھہرتی: نہ ہی اس کی صحیح سمت کا تعین نہیں کرتی ہے، (کیونکہ سوئی کا دوسرا سرا صحیح معنو ں میں قطب شمالی واضح نہیں کرتا) بلکہ بعض اوقات تو فرق اس حد تک جا پہنچاتا ہے جس سے چشم پوشی ناممکن ہو جاتی ہے۔

اسی بنا پر فاضل انجینئر اور عالقیدر ریاضی دان جناب بریگیڈیئر جنرل حسین علی رزم آرا نے انہی آخری سالوں ( ۱۳۳۲ ہجری شمسی) میں اس مشکل کو بھی حل کر دیا اور مقناطیسی و جغرافیائی قطبوں کے درمیان فرق کو ختم کرکے روئے زمین کے ایک ہزار مقامات کے لئے قبلہ کی سمت کو متعین کر دیا۔ (کام کی آسانی کے لئے ایک قبلہ نما ایجاد کیا جس سے بڑی آسانی کے ساتھ ہر شخص قبلہ کی سمت کو معلوم کر سکتا ہے اور اس میں یقین کے زیادہ نزدیک تخمین سے کام لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

(المیزان جلد اول ص ۳۳۵ تا ۳۳۷)

قبلہ کے بارے میں معاشرتی بحث

دانشمند افرا دجو معاشرہ کی شناخت کے ماہر اور اس فن کے استاد ہیں اگر معاشرہ کے آثار و خواص کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں تو ان پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ اصولی طور پر معاشرہ کا وجود میں آنا اور انسانی طبیعتوں کے اختلاف کی وجہ سے معاشرہ کا مختلف قسمو ں میں تقسیم ہونا، صرف اور صرف ایک عامل کی وجہ سے ہے، جس کا نام "ادراک" ہے جسے خدا نے انسان کی طبیعت میں الہام کے طور پر ودیعت فرمایا ہے، ادراک اس معنی کے اعتبار سے کہ ان کی ضروریات، جو اتفاق سے ساری کی ساری انسانوں کی بقا اور ان کی کمال تک رسائی کے لئے موثر ہیں، ایک دو نہیں ہیں کہ ان ایک دو ضروریات کو وہ خد ہی پورا کر لیں، بلکہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس معاشرہ کے پابند رہ کر اس کی آغوش تربیت میں پروان چڑھ کے اور اس کی امداد کے ساتھ اپنے تمام افعال و حرکات و سکنات میں کامیاب ہوں، یا باالفاظ دیگر کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں، کیونکہ تالی ہمیشہ ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی۔

اس ادراک کے بعد اسے دوسرے ادراکات، یا دوسرے لفظوں میں انہیں کچھ ذہنی صورتوں کا الہام ہوا کہ وہ ادراکات اور ذہنی صورتیں مادی امور و ضروریات کے پورا کرنے کے لئے ایک معیار و کسوٹی قرار پائیں۔ حقیقت میں وہ ادراکات و معیارات انسانی طبیعت اور اس کے افعال و ضروریات کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بن گئے، مثلاً اس بات کا ادراک کہ کونسی چیز اچھی ہے، کونسی چیز بری ہے، کونسا کام کرنا چاہئے، کونسا نہیں کرنا چاہئے، کس کام کا کرنا اس کے نہ کرنے سے بہتر ہے؟ نیز اس چیز کا ادراک کہ انسان اجتماع و معاشرہ کے مرتب و منظم کرنے کے لئے سربراہ و عوام، ملک، ملکیت، خصوصی امور، مشترک و مخصوص معاملات اور قوموں کے دیگر آداب و رسوم (جو اقوام، علاقہ و زمانہ کے تبدیل ہونے سے بدلتے رہتے ہیں) کو معتبر سمجھے اور ان کا احترام کرے۔ یہ تمام معانی و قواعد ایسے امور ہیں کہ اگر انسانی طبیعتوں نے انہیں بنایا ہے تو یہ بھی قدرت کی طرف سے انسان کو ایک الہام تھا اللہ تعالیٰ نے جس کے ذریعہ انسانی طبیعت کو لطیف بنایا تاکہ دوسرے ہر کام سے پہلے جس چیز پر انسان کا ایمان و عقیدہ ہے اور وہ اسے خارج میں وجود میں لانا چاہتا ہے تو اسے تصور میں لا کر ذہنی نقشوں کو جامہ عمل پہنائے، یا اگر مناسب نہ سمجھے تو اسے ترک کر دے۔ اس طرح وہ اپنے لا ئحہ عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔

(جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب ہم کہتے ہیں کہ) کسی عبادت میں خداوند سبحان کی طرف توجہ اور رخ کرنا، (البتہ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ خداوندِ متعال مکان، سمت اور دوسرے تمام مادی امور سے منزہ و مبرا ہے، حتیٰ کہ اس بات سے بھی پاک و پاکیزہ ہے کہ کسی مادی حس کا اس سے کوئی تعلق ہے) اگر ہم چاہتے ہیں کہ قلب و ضمیر کی چار دیواری سے نکل کر افعال میں سے کسی فعل کی صورت اختیار کر لیں جبکہ فعل کا تعلق ہوتا ہی مادیات سے ہے تو مجبوراً یہی کہنا پڑے گا کہ یہ توجہ اور رخ کرنا بصورتِ تمثیل یا تمثل ہو گا۔

آسان و سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعہ ہم خدا کی طرف توجہ کریں اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ خدا کسی ایک طرف، جہت یا سمت میں موجود نہیں (بلکہ ہر طرف اور ہر جہت و سمت میں ہے) تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ہماری عبادت تمثیل و تجسم کی صورت میں ہو، وہ یوں کہ پہلے مرحلہ میں ہماری قلبی توجہات، ان اختلافات کے باوجود، جو ان کی خصوصیات (مثلاً خضوع و خشوع اور خوف و رجا اور عش و جذبہ) میں پائے جاتے ہیں، پیشِ نظر ہوں، دوسرے مرحلہ میں انہی خصوصیات کو ان کی مناسب شکل و صورت میں اپنے افعال میں منعکس کریں، مثلاً اپنے قلبی خضوع و خشوع اور اپنی ذات کی حقارت و ذلت کے اظہار کے لئے اس کی بارگاہِ اقٹدس میں سجدہ ریز ہو جائیں اور اس بیرونی عمل کے ذریعہ اپنے اندرون کی کیفیت کا اظہار کریں۔ یا اگر چاہیں کہ اپنا اندونی احترام اور اس کی بارگاہ میں اپنی تعظیم کا اظہار کریں تو رکوع میں چلے جائیں، نیز اگر چاہتے ہیں کہ اپنی جان کا نذرانہ اس کے حضور پیش کریں تو اس کے گھر )(خانہ کعبہ) کے اطراف میں طواف کریں، اگر چاہیں کہ اس کی بزرگی کو بیان کریں تو سیدھے کھڑے ہو کر قیام کو بجا لائیں، اگر چاہیں کہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے خود کو پاک و پاکیزہ کریں تو غسل و وضو کریں اور اس طرح کی دوسری تمثیلات ہیں۔

اس بات میں بھی ذرہ برابر شک نہیں کہ بندہ کی عبادت کی روح، اس کی وہی اندرونی و قلبی بندگی اور قلبی کیفیت ہے جو وہ اپنے معبود کے لئے ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو اس کی عبادت "بے روح" ہو گی بلکہو عبادت ہی شمار نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود یہ قلبی توجہ کسی نہ کسی صورت میں مجسم ہونی چاہئے۔ غرض عبادت کو اپنے کمال، ثبات اور استقرار میں متحقق ہونے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ کسی قالب میں ڈھالی جائے۔

جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین اپنی عبادت میں کیا کرتے تھے اور اسلام نے کیا کیا ہے؟ بس وثینوں، ستارہ پرستوں اور تمام دوسرے جسم پرستوں کا معبود یا تو کوئی انسان ہوتا یا کوئی اور جسم رکھنے والی چیز ہوتی، وہ اپنے لئے ضروری سمجھتے کہ عبادت کی حالت میں ان کا معبود ان کے نزدیک اور سامنے ہو، لہٰذا وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔

لیکن انبیاء کا دین، خصوصاً دینِ اسلام کہ فی الحال ہم اسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، (اور اس کے بارے میں گفتگو درحقیقت دوسرے ادیان کے بارے میں گفتگو بھی ہے کیونکہ اسلام نے تمام انبیاء کی تصدیق کی ہے) جس طرح کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ دین اسلام نے عبادت کی روح انسان کی اندرونی کیفیت اور قلبی توجہ کو قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان حالات کو مثالی صورت دینے کے لئے بھی ایک نقشہ پیش کیا ہے، وہ یہ کہ اس نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمام لوگ نماز کی حالت میں قبلہ رو کھڑے ہوں، کسی مسلمان کو خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطہ پر ہی کیوں نہ ہو، اس کے ترک کرنے کے اجازت نہیں ہے، اسی طرح بعض حالات (مثلاً بیت الخلا میں) اس کی طرف منہ کرکے یا پشت کرکے بیٹھنے سے منع کیا ہے، اس کے علاوہ دوسرے کئی ایسے حالات ہیں جن میں قبلہ رو ہونا بہتر ہے۔

پس اس طرح سے اسلام نے دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرکے طرہ پر ضبط کیا کہ جلوت و خلوت میں، قیام و قعود میں، خواب و بیداری میں، عبادت و مراسم میں، حتیٰ کہ پست ترین اور ناپسندیدہ ترین حالات میں بھی انسان اپنے پروردگار کو فراموش نہ کرے۔ یہ تو تھا انفرادی صورت میں"قبلہ" کو شرعی حیثیت دینے کا فائدہ۔

اب آتے ہیں اس کے اجتماعی فوائد کی طرف پس غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے فوائد تو انفرادی فائدہ سے بھی زیادہ عجیب، اس کے آثار زیادہ روشن اور زیادہ دلنشین ہیں، اسی لئے کہ تمام لوگوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی، ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ یہ ایک ایسی لطیف ترین روح ہے جو بشریت کے ڈھانچے میں پھونک دی گئی ہے، ایک ایسی روح جو اپنی لطافت کی وجہ سے افراد کے تمام مادی و معنوی امور میں نفوذ کر سکتی ہے جس سے ایک ترقی پذیر معاشرہ، زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے والا اتحاد اور طاقت ور ترین اجتماعی صورت وجود میں آ جاتی ہے۔ یہ ایک احسان ہے جو خداوندِ متعال نے اسلامی امہ کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ اسی کے ذریعہ اس نے دینی وحدت اور اجتماعی شوکت کو محفوظ رکھا ہے، جبکہ اس سے پہلے کئی قسم کے احزاب، گروہ، ٹولے اور جماعتیں تھیں جن کے رسوم و رواج جداگانہ اور طریقہ ہائے کار مختلف تھے، حتیٰ کہ دو انسان بھی ایسے نہیں تھے جو کسی ایک نظریہ پر متفق ہوں۔ یہ اللہ کا اسلامی امہ پر بہت بڑا احسان ہے جس کے لئے ہم کمال عاجزی کے ساتھ اس کے سپاس گزار ہیں۔

قبلہ کی تاریخی بحث

یہ بات متواتر اور قطعی ہے کہ خانہ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور اس کے بعد اطرافِ کعبہ میں رہنے والے ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قبائل عین میں سے ایک قوم بنا "جرہم" تھی۔ خانہ کعبہ کی عمارت تقریباً مربع کی صورت میں بنائی گئی جس کا ہر کونہ چاروں سمتوں (شمال، جنوب، مشرق اور مغرب) میں سے ہر ایک سمت کی طرف تھا، اس کی طرز تعمیر کچھ اس طرح کی تھی کہ ہوا جس طرف کی ہو، جس قدر بھی شدید ہو، اسے نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ اس تک پہنچنے کے ساتھ اس کا زور ٹوٹ جائے۔

حضرت ابراہیم کی بناکردہ یہ عمارت اپنی اسی حالت پر برقرار رہی یہاں تک کہ "عمالقہ" نے اسے ازسر نو تعمیر کیا اور پھر دوسری مرتبہ بنو جرہم نے (یا پہلے جرہم نے اور بعد میں عمالقہ نے) اسے بنایا۔

جب امورِ کعبہ کی زمام پیغمبرِ اکرم کے جد امجد جناب قصیٰ بن کلاب کے ہاتھوں تک پہنچی (ہجرت سے دو سو سال قبل) تو قضیٰ نے اسے گرا کر از سر نو تعمیر کیا اور اسے پہلے سے زیادہ مستحکم کیا، "دوم" (کھجور کے درخت سے ملتا جلتا درخت) کی شاخوں اور کھجور کی شاخوں سے اس پر چھت ڈالی، کعبہ مکرمہ کے ساتھ ہی ایک اور عمارت بنام "دارالندوہ" تعمیر کی جو درحقیقت ان کی حکومت اور اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورے کا مرکز تھی۔ پھر کعبہ کی اطراف کو قریش کے مختلف قبائل کے درمیان تقسیم کر دیا کہ ہر قبیلہ نے اس کے اطراف میں "مطاف" (مقام طواف) کے کنارے اپنے اپنے مکان بنا لئے جن کے گھروں کے دروازے مطاف کی طرف کھلتے تھے۔

بعض روایات کے مطابق بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے ایک زبردست سیلاب آیا جس کی وجہ سے خانہ کعبہ منہدم ہو گیا اور قریش کے قبائل نے اس کی تعمیر کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اس کی تعمیر کا کام ایک رومی باشندہ بنام "یاقوم" نے سرانجام دیا اور مصر کے ایک "بڑھئی" نے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا۔ جب تعمیر اس مرحلہ پر پہنچی جہاں "حجراسود" کو نصب کرنا تھا تو ان کے قبائل کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا کہ یہ شرف کون سا قبیلہ حاصل کرے! آخرکار سب کا متفقہ فیصلہ ہوا کہ اسے (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نصب کریں جبکہ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۳۵ سال کی تھی، اور ان لوگوں کو آپ کی عقلمندی و محکم سوچ کا پختہ یقین ہو چکا تھا۔

چنانچہ آنحضرت نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھائی جائے، اس پر حجر اسود کو رکھ دیا جائے اور قبائل کو حکم دیا کہ اس چادر کے چاروں کونوں کو پکڑ کر اٹھائیں اور حجر اسود کو اپنی جگہ یعنی کعبہ کے مشرقی رکن تک لے جائیں۔ جب حجر اسود کو اسی جگہ تک لے جایا گیا تو آپ ہی نے اسے اٹھا کر وہیں پر نصب فرما دیا۔

چونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے اخراجات کافی سنگین تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی ہمتیں جواب دے گئیں، لہٰذا اس کی بلندی کو اسی جگہ تک ہی رہنے دیا جو اس وقت ہے اور سابقہ عمارت کے حصہ سے حجر اسماعیل کی طرف سے ایک حصہ تعمیر ہونے سے رہ گیا جو حجر اسماعیل ہی کا حصہ بن گیا کیونکہ اسے سابقہ عمارت سے چھوٹا بنایا گیا تھا۔

یہ عمارت اسی طرح اپنے حال پر باقی رہی یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے دور میں عبداللہ بن زبیر حجاز پر مسلط ہوا۔ یزید نے اس کی سرکوبی کے لئے حصین (بن نمبر) ملعون کی کمان میں ایک لشکر بھیجا۔ فریقین کے درمیان زوروں کی جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں یزید کے لشکر نے منجنیقوں کے ذریعہ شہرِ مکہ پر پتھر برسانے شروع کر دیئے۔ اس طرح خانہ کعبہ کی تباہی ہوئی اور منجنیقوں کے ذریعہ شہر پر برسائی جانے والی آگ نے کعبہ کے پردے اور لکڑیوں کو جلا ڈلا۔

جب یزید کی ہلاکت کے بعد جنگ ختم ہو گئی تو ابنِ زبیر نے کعبہ کو ازسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم کے مطابق یمن سے اعلیٰ قسم کا گچ (جپسم) منگئوایا گیا، اسے گچ سے تعمیر کیا گیا، حجر اسماعیل کو بھی خانہ کعبہ کا جزو بنا دیا گیا اور کعبہ کا دروازہ جو پہلے بلندی پر نصب تھا، اسے سطح زمین پر نصب کیا گیا۔ پھر پرانے دروازے کے بالمقابل ایک اور دروازہ رکھا گیا تاکہ لوگ ایک دروازے سے اندر آئیں اور دوسرے سے باہر نکل جائیں۔ کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ (تقریبًا ساڑھے تیرہ میٹر) رکھی گئی اور جب کعبہ کی تعمیر سے فراغت ملی تو اسے مشک و عنبر کے ساتھ اندر و باہر سے معطر کر دیا گیا اس پر ریشم کا غلاف چڑھایا گیا اور ۱۷ رجب ۶۴ ھ میں اسے اس کام سے فراغت ہوئی۔

جب عبدالملک بن مروان تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے لشکر کے سردار حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی سرکوبی کے لئے مکہ جائے۔ چنانچہ حجاج نے اس شکست دی اور قتل کر دیا، پھر وہ خود بیت اللہ کے اندر گیا اور عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ کی جس قسم کی تعمیر کی تھی، اس نے اس سے عبدالملک کو اطلاع دی، عبدالملک نے حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی تعمیر کو ختم کرکے کعبہ کو اس کی پہلی صورت میں تعمیر کیا جائے۔ اس کے حکم کے مطابق حجاج کعبہ کی شمالی دیوار سے چھ ہاتھ اور ایک بالشت کے برابر گرا کر قریش کی رکھی ہوئی بنیاد تک جا پہنچا اور اپنی تعمیر کو اسی بنیاد پر استوار کیا، اس کے مشرقی دروازہ کو جسے ابن زبیر نے سطحِ زمین پر نصب کیا تھا، اوپر لے جا کر اس کی پہلی جگہ (سطحِ زمین سے تقریباً ڈیڑھ یا دو میٹر اوپر) نصب کیا، اس کے مقابل میں ابن زبیر کا رکھا ہوا مغربی دروازہ بھی اس نے بند کر دیا۔ اس کے بعد عمارت سے بچ جانے والے پتھروں سے کعبہ کی زمین کو فرش کر دیا۔

کعبہ کی یہی کیفیت سلطان سلیمان عثمانی (ترکی) کی حکومت تک باقی رہی۔ جب ۹۶۰ ھ میں سلطان عثمانی برسرِ اقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی چھت کو تبدیل کر دیا اور جب سلطان احمد عثمانی ۱۱۲۱ ھ برسراقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی مرمت کی۔

پھر چونکہ ۱۰۳۹ ھ میں ایک بہت بڑے سیلاب نے اس کی شمالی و مشرقی و مغربی دیواروں کو کافی نقصان پہنچایا تھا اس لئے سلطان مراد چہارم، ایک عثمانی بادشاہ، کے حکم کے مطابق اس کی مرمت کی گئی۔ اس کے بعد سے ۱۳۷۵ ھ (مطابق ۱۳۳۵ شمسی) تک اس میں کسی اور قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

خانہِ کعبہ کی شکل و صورت

خانہ کعبہ تقریباً مربع شکل کا ایک مکان ہے جو نیلے رنگ کے ٹھوس پتھروں سے بنایا گیا ہے اس کی بلندی سولہ میٹر ہے جبکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس سے کہیں کم بلندی تھی فتحِ مکہ کی روایات سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اس میں موجود بتوں کو تڑوایا جو چھت کے ساتھ تھے، اور یہ ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے۔

اس کا شمالی حصہ جہاں پر میزابِ رحمت اور حجرِ اسماعیل ہے، اسی طرح اس کے مقابل میں اس کا جنوبی حصہ دس میٹر اور دس سینٹی میٹر لمبے ہیں، جبکہ مشرقی حصے کی لمبا ئی جس میں کعبہ کا دروازہ بھی دو میٹر کی بلندی پر نصب ہے اور اس کے مقابل کے مغربی حصے کی لمبائی بارہ میٹر ہے۔ حجرِ اسود مطاف سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر اس کے جنوبی حصے کی ابتدا میں نصب ہے۔ حجر اسود ایک ٹھوس، بھاری اور بیضوی شکل کا غیرتراشیدہ سرخی مائل سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔ اس میں رنگ کے داغ اور زرد رنگ کی رگیں دکھائی دیتی ہیں، جو خودبخود جوش کھانے کی وجہ سے دراڑیں بن چکی ہیں

خانہ کعبہ کے چاروں کونے قدیم الایام سے چار ارکان کے نام سے موسوم چلے آ رہے ہیں، شمالی رکن کو "رکن عراقی" کہتے ہیں مغربی رکن کو "رکنِ شامی" کہتے ہیں، جنوبی رکن کو "رکنِ یمانی" اور رکنِ شرقی کو کہ جس میں حجر اسود نصب ہے، "رکنِ اسود" کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے دروازے سے لے کر حجر اسود تک کی درمیانی منزل کو "ملتزم" کہتے ہیں کیونکہ کعبہ کا زائر اور طواف کرنے والا دعا و استغاثہ کرتے وقت اسی حصے سے متوسل ہوتا ہے۔

شمالی حصے کی دیوار پر پرنالہ کو "میزابِ رحمت" (یا رحمت کا پرنالہ) کہتے ہیں۔ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے اسے ایجاد کیا اور بعد میں عثمانی بادشاہ سلطان سفیان ترکی نے اسے ۹۵۴ میں وہاں سے ہٹا کر چاندی کا پرنالہ لگایا۔ پھر عثمانی بادشاہ سلطان احمد نے ۱۰۲۱ ھ میں اس کی جگہ چاندی کا میناکاری شدہ پرنالہ لگایا۔ اس پر گہرے نیلے رنگ کی میناکاری کی گئی تھی اور اس کے فاصلوں میں سونا لگایا گیا تھا۔ ۱۲۷۳ ھ کے آخر میں سلطان عبدالمجید عثمانی (ترکی) نے اسے یکسر سونے میں تبدیل کر دیا، آج تک وہی پرنالہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔

اسی پرنالے کے مقابل میں قوس نما ایک دیوار ہے جسے "حطیم" کہتے ہیں۔ حطیم نیم دائرہ میں ہے یہ اس عمارت کا حصہ ہے جس کے دونوں اطراف اس کے شمالی (شرقی و جنوبی () اور مغربی کونے پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ ودونوں اطراف مذکورہ زاویہ سے متصل نہیں ہیں، بلکہ وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے دونوں اطراف سے دو راہرو ہیں جن کی لمبائی دو میٹر اور تیس سینٹی میٹر ہے۔ اس قوسی دیوار کی بلندی ایک میٹر اور چوڑائی ڈیڑھ میٹر ہے۔ اس کے اندر نقش و نگار سے مزین پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس قوس نما دیوار کا درمیانی فاصلہ اندر سے لے کر کعبہ کی دیوار کے درمیان تک ۸ میٹر اور ۴۴ سینٹی میٹر ہے۔

حطیم اور اس قوس نما دیوار کی درمیانی فضا کو "حجر اسماعیل" کہتے ہیں جس کا تقریباً تین میٹر کا حصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے کعبہ میں شامل تھا لیکن بعد میں اسے اس سے باہر نکال دیا گیا۔ اسی لئے اسلام میں واجب ہے کہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت حجر اسماعیل کو بھی اسی میں شامل کیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم کے زمانہ کا پورا کعبہ طواف میں شامل ہو جائے۔

اس فضا کا بقیہ حصہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کی گوسفندوں کا باڑہ ہوتا تھا۔ بعض حضرات کے بقول یہی جگہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کا مدفن ہے۔

یہ تھا خانہ کعبہ کا ہندسہ کے لحاظ سے ایک تفصیلی جائزہ۔ وہ تبدیلیاں جو اس میں رونما ہوتی رہیں اور وہاں پر انجام پانے والی رسومات، جو اسلام سے پہلے رائج تھیں، چونکہ ہمارے موضوع سے ان کا تعلق نہیں ہے، لہٰذا انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

غلافِ کعبہ

ہم سورہ بقرہ میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے بارے میں آیات کی تفسیر میں ان روایات کو بیان کر چکے ہیں جو سرزمینِ مکہ میں ان کے تشریف لانے کے بعد کے حالات کو بیان کرتی ہیں، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مکمل ہو جانے کے بعد حضرت ہاجرہ نے اس کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا دیا تھا۔

لیکن وہ غلاف جو کعبہ کے تمام اطراف پر چڑھایا جاتا تھا، اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز شاہانِ یمن میں سے ایک شخص بنام ابوبکر اسعد نے کیا۔ اس نے خانہ کعبہ کو چاندی کی تاروں سے بنے ہوئے غلاف کے ساتھ ڈھانپا۔ وہ ایک ایسا پردہ تھا جس کے حواشی کو نقرئی تاروں سے بنایا گیا تھا۔ مذکورہ بادشاہ کے بعد اس کے جانشینوں نے اسی سلسلے کو جاری رکھا۔ اس کے بعد لوگ آتے رہے اور مختلف انداز کے مطابق اس پر غلاف چڑھاتے رہے اور وہ یوں کہ غلاف کے اوپر غلاف چڑھایا جاتا رہا۔ یعنی جب ایک غلاف کہنہ ہو جاتا تو اس کے اوپر ایک نیا غلاف چڑھا دیتے یہاں تک قصیٰ بن کلاب کا زمانہ آ گیا۔ انہوں نے غلافِ کعبہ کے لئے عربوں کے ذمہ لگا دیا کہ باہمی چندہ کرکے اس پر سالانہ نیا غلاف چڑھایا جائے۔ (اور ہر قبیلہ کے ذمہ ایک حصہ مقرر کر دیا)۔ یہی سلسلہ ان کی اولاد میں چلتا رہا جن میں سے ابو ربیعہ بن مغیرہ ایک سال یہ غلاف چڑھاتے اور دوسرے سال قریش کے دیگر قبائل۔

حضرت رسول خدا کے زمانہ میں آنجناب نے خانہ کعبہ پر یمانی چادر کا غلاف چڑھایا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک عباسی خلیفہ مہدی بیت اللہ کی زیارت کے لئے آیا تو بیت اللہ کے خدام نے کعبہ کی چھت پر کپڑوں کے انبار کی شکایت کی اور کہا کہ پہلے ہی اس پر کپڑوں کا کافی بوجھ ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ چھت ہی زمین بوس نہ ہو جائے۔ مہدی عباسی نے حکم دیا کہ تمام غلافوں کو اتار لیا جائے اور ہر سال اس پر صرف ایک غلاف چڑھایا جائے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

البتہ کعبہ کے اندر بھی ایک غلاف ہے، اور سب سے پہلے جس نے اندر غلاف چڑھایا وہ حضرت عباس بن عبدالمطلب کی والدہ تھیں جنہوں نے اپنے بیٹے عباس کے لئے نذر مانی تھی اور اس کے پورا ہونے پر غلاف چڑھایا۔

خانہ کعبہ کی قدرو منزلت

خانہ کعبہ مختلف اقوام و امم میں احترام و عظمت کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل رہا ہے، مثلاً اہلِ ہند اس کا اس لئے احترام و تعظیم کرتے تھے کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ "سلیفا" جو ان کے عقیدہ کے مطابق اقانیم ثلاثہ میں سے ایک "اقنوم" ہے کی روح حجر اسود میں حلول کر چکی ہے اور حلول اس وقت ہوا جب "سلیفا" اپنی بیوی کے ہمراہ حجاز کی زیارت کی غرض سے حجرِ اسود کی زیارت کو آیا۔

اسی طرح فارسیوں میں "صابئن" اور کلدانی بھی اس کی تعظیم کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ "کعبہ" ان سات گھروں میں سے ایک ہے جن کا تقدس مسلم ہے۔ ان سات گھروں میں کی تفصیل یہ ہے:

۱ ۔ "خانہ کعبہ" ۲ ۔ "مارس" جو اصفہان کے پہاڑ کی ایک چوٹی پر واقع ہے۔

۳ ۔ "مندوسان" جو بلادِ ہند میں واقع ہے۔

۴ ۔ "نوبہار" جو بلخ میں ہے۔

۵ ۔ "بیت غمدان" جو یمن کے شہر صلفأ میں ہے۔

۶ ۔ "کاؤسان" جو صوبہ خراسان کے شہر، فرغانہ میں ہے۔

۷ ۔ وہ گھر جو چین کے ایک بلندترین شہر میں ہے۔

نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "کلدانیوں" کا یہ عقیدہ تھا کہ خانہ کعبہ ستارہ زخل کا گھر ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی گھر ہے اور اس کی عمر کافی طولانی ہے۔

قدیم فارس کے لوگ بھی اس کا احترام کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ "ھرمُز" کی روح اس میں حلول کر چکی ہے اور بعض اوقات وہ خانہ کعبہ کی زیارت بھی کیا کرتے تھے۔

یہودی بھی اس کی تعظیم کرتے تھے اور وہاں جا کر دینِ ابراہیمی کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے۔

خانہ کعبہ کے اندر کچھ تصویریں اور بتوں کے مجسمے بھی تھے جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصویروں کے مجسمے بھی شامل تھے۔ جن کے ہاتھوں میں "ازلام" کی چھڑیاں تھیں۔ انہی مجسموں میں "مریم عذرا" اور "عیسیٰ مسیح" کے مجسمے بھی تھے۔ یہ بات اس امر کی شاہد ہے کہ کعبہ کا احترام یہودی بھی کرتے تھے اور نصرانی بھی۔

عرب بھی اس کی مکمل تعظیم کرتے تھے اور اسے خداوند کا گھر سمجھتے تھے، اس کی زیارت کے لئے چاروں طرف سے سمٹ کر آتے تھے اور اسے ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا گھر جانتے تھے۔ اسی طرح حج کا مسئلہ بھی عربوں کے دین کا ایک جزو تھا جو وراثت کے طور پر ان کی نسلوں میں چلا آ رہا تھا۔

خانہ کعبہ کی تولیت

ابتدا ہی سے خانہ کعبہ کی تولیت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس تھی۔ ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس آ گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ "بنوجرھم" نے حضرت اسماعیل کے خاندان پر حملہ کرکے ان پر غلبہ حاصل کر لیا اور کعبہ کی تولیت بھی ان سے چھین کر اپنے ساتھ مخصوص کر لی۔ بنی جرہم کے بعد یہ تولیت "عمالقہ" کے قبضہ میں آ گئی۔ عمالقہ، بنی کرکر میں سے ایک قبیلہ تھا جو بنی جرہم کے ساتھ برسرِ پیکار رہتا تھا۔

عمالقہ ہر سال سردی اور گرمی میں اپنی منزلیں بدلتے رہتے تھے۔ ان کا خانہ بدوشی کا یہ سفر مکہ کے نشیبی علاقوں میں جاری رہتا جبکہ بنی جرہم کے لوگوں کی خانہ بدوشی کا سرمائی اور گرمائی سلسلہ مکہ کے بالائی علاقوں میں ہوتا۔

حوادثاتِ زمانہ کے تحت بنی جرہم کو ایک بار پھر عمالقہ پر غلبہ پانے کا موقع ملا تو خانہ کعبہ کی تولیت بھی ان کے قبضہ سے واپس لے لی اور تقریباً تین سو سال تک وہ اس کے متولی رہے، انہوں نے حضرت ابراہیم کے بنا کردہ گھر میں کچھ ترمیمات و اضافے کئے اور اس کی دیواروں کو بلند کیا،

جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل بڑھی، پھلی پھولی اور ان میں قدرت و شوکت پیدا ہوئی تو مکہ کی سرزمین ان کے لئے تنگ ہوتی نظر آئی، مجبوراً انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ بنی جرہم کو مکہ سے باہر نکال دیا جائے۔ بالآخر جنگ و جدال کے ذریعہ انہیں وہاں سے بھگا دیا گیا۔

ان دنوں حضرت اسماعیل کی اولاد کا سردار اور بزرگ "عمرو بن لحی" تھا۔ اس نے مکہ پر قبضہ کرکے خانہ خانہ کی تولیت خود سنبھال لی یہ وہی عمرو بن لحی تھا جس نے خانہ کعبہ کی چھت پر بت رکھ دیئے تھے اور لوگوں کو ان کی پرستش کی دعوت دی تھی، سب سے پہلا بت جو کعبہ کی چھت سے متصل ہوا اس کا نام "ہُبل" تھا۔ جسے وہ شام سے اپنے ساتھ مکہ لایا اور خانہ کعبہ کی چھت پر آ کر رکھ دیا تھا اس کے بعد رفتہ رفتہ دوسرے بت لانے لگا یہاں تک کہ ایک بہت بڑی تعداد میں بت جمع ہو گئے، بت پرستی کا رواج عربوں میں پھیل گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتایا ہوا "دین حنیف" اور "توحیدپرستی" کی بساط لپیٹ دی گئی۔

اسی مناسبت سے بنی جرہم کا ایک شاعر بنام "شحنہ بن حلف" عمرو بن لحی کو مخاطب کرکے کہتا ہے

یا عمرو انک قد احدثت الهة- شتی بمکة حول البیت انصابا

وکان البیت رب واحد ابدا- فقد جعلت له فی الناس او بابا

لتعرفن بان الله فی مهل- سیصطفی دونکم للبیت حجابا

یعنی۔ اے عمرو! یہ تو ہی تھا جس نے مختلف خدا گھڑ کر بیت اللہ کے اطراف میں نصب کر دیئے۔ خانہ کعبہ کا تو صرف ایک ہی ابدی رب ہے، مگر یہ تو تھا کہ لوگوں کو شرک و مختلف خداؤں (ارباب) کی طرف دعوت دی۔ تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ خداوندِ تعالیٰ مستقبل قریب میں تمہیں ہٹا کر اپنے گھر کے لئے دوسروں کو حاجب و نگہبان مقرر فرمائے گا۔

خانہ خدا کی تولیت "حلیل خزاعی" کے زمانہ تک اسی طرح بنی خزاعہ میں باقی رہی، اور حلیل نے اپنے بعد یہ تولیت اپنی بیٹی کو جو قصیٰ بن کلاب کی زوجہ تھیں، خانہ کعبہ کے کھولنے اور بند کرنے یا بااصطلاح "کلید برداری" کا اختیار بنی خزاعہ میں سے ایک شخص "ابوغبئان" خزاعی کو دے دیا۔ لیکن ابو غبئان نے ایک اونٹ اور ایک پیالہ شراب کے بدلہ یہ منصب قصی بن کلاب کے ہاتھوں بیچ دیا، ابو غبئان کا یہ اقدام عربوں میں ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا کہ جب بھی کوئی احمقانہ اور نقصان دہ معاملہ طے پاتا تو وہ کہتے "اخسر من صفتة ابی غبئان" یعنی یہ معاملہ تو ابی غبئان کے معاملہ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔

انجام کار کعبہ کی تولیت اور سرپرستی مکمل طور پر قریش میں منتقل ہو گئی، اور قصیٰ بن کلاب نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کی جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ یہ صورت حال اسی طرح باقی رہی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا اور خانہ کعبہ کے اندر جا کر حکم دیا کہ کعبہ میں موجود تمام تصویروں اور بتوں کو مٹا دیا جائے چنانچہ بتوں کو توڑ دیا گیا اور تصویریں مٹا دی گئیں، مقامِ ابراہیم کو جس پر آنجناب کے دونوں قدموں کے نشان ہیں اور اس وقت تک کعبہ کے نزدیک ایک طرف میں تھا، اٹھا کر اس کی اسی جگہ پر مدفون کر دیا جہاں پر اب ہے اور آج اس پر ایک قبہ سا بنا ہوا ہے جس کے چار ستون ہیں اور ان ستونوں پر چھت بنی ہوئی ہے۔ طواف کرنے کے بعد خانہ خدا کے زائر اس کے ساتھ نمازِ طواف پڑھتے ہیں۔

کعبہ اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں لیکن ہم نے صرف اسی پر اکتفا کیا ہے، وہ بھی صرف اسی لئے کہ قارئین کو حج اور کعبہ سے متعلق آیات پڑھنے کے وقت اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اس گھر کی جسے خدا نے بابرکت اور ہدایتِ خلق کا موجب قرار دیا ہے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اسلام کے کسی بھی فرقہ نے اس کی شان اور عظمت کے بارے میں آج تک اختلاف نہیں کیا۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26