میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53450
ڈاؤنلوڈ: 4445

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53450 / ڈاؤنلوڈ: 4445
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۸

(۱) قرآنِ مجید

قرآن مجید

( ولقد اٰتینک سبعا من المثانی والقراٰن العظیم ) ۔ (مجر/ ۸۷)

ترجمہ۔ اور (اے رسول!) ہم نے تمہیں سبع مثانی اور قرآنِ عظیم عطا فرمایا ہے۔

ولقد لیسرنا القرآن لا ذکر فھل من مدکر (قمر/ ۱۷ ۔ ۲۲ ۔ ۳۲ ۔ ۴۰ ۔)

ترجمہ۔ اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا۔ پس کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے!

حدیث شریف

۱۶۴۰۸ ۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: "دنیوی زندگی میں کسی کے لئے بہتری نہیں سوائے اس شخص کے جو سنتا اور یاد رکھتا ہے، یا ایسے عالم کے لئے جو حق بات کہتا ہے۔ اے لوگو! تم اس وقت آرام اور سکون کے زمانے میں ہو، تمہاری رفتار بہت تیز ہے، تم دیکھ رہے ہو کہ رات و دن ہر نئی چیز کو بوسیدہ کر رہے ہیں، ہر دور کو نزدیک لا رہے ہیں اور ہر اس چیز کو لا رہے ہیں جس کا وعدہ کیا گیا ہے، لہٰذا تم دور کے سفر کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو سمیٹ لو۔"

اس پر حضرت مقداد نے عرض کیا: "اے اللہ کے نبی! آرام و سکون سے کیا مراد ہے؟" فرمایا: "بلائیں ہیں جو ختم ہونے والی ہیں، لہٰذ جب تم پر امور مشتبہ ہو جائیں، جیسے تاریک رات کے حصے ہوتے ہیں تو تم پر لازم ہو جاتا ہے کہ قرآن کے دامن سے تمسک اختیار کرو، کیونکہ قرآن ایک ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی، ایسا حریف ہے جس کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ جو اسے اپنا پیشوا قرار دے گا اسے وہ بہشت کی طرف لے جائے گا اور جو اسے پسِ پشت ڈال دے گا اسے وہ جہنم تک پہنچائے گا۔ یہ بہترین راستہ کا راہنما ہے اور یہ قول فیصل ہے، کوئی ٹھٹھا مذاق نہیں۔ اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، اس کا ظاہر حکم ہے اور باطن گہرا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کے عجائبات ان گنت ہیں۔ اور جسے جاننے والے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور صراط مستقیم ہےاس میں ہدایت کے چراغ، حکمت کے مینار ہیں اور حجت کی ایک دلیل ہے۔ (کنزالعمال، حدیث ۴۰۲۷)

۱۶۴۰۹ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "لوگو! تم اس وقت آرام و سکون کے گھر میں ہو، سفر کی سواری پر ہو اور تمہیں جلدی سے چلایا جا رہا ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ رات دن سورج اور چاند ہر نئی چیز کو بوسیدہ کر رہے ہیں، ہر دور کو نزدیک لا رہے ہیں اور ہر اس چیز کو لا رہے ہیں جس کا وعدہ کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا دور کے سفر کے لئے اپنی تیاری مکمل کر لو۔"

اس موقعہ پر حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور عرض کی: "یارسول اللہ! آرام و سکون کے گھر سے کیا مراد ہے؟" آنحضرت نے ارشاد فرمایا: "مراد دن کے حصول اور منقطع ہونے کا گھر! لہٰذا جب فتنے رات کے تاریک حصوں کی طرح مشتبہ ہو جائیں تو تمہیں قرآن سے تمسک کرنا ضروری ہو جائے گا کیونکہ قرآن ایک ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قابل قبول ہے اور یہ ایسا حریف ہے جس کی تصدیق کی گئی ہے۔ جو شخص قرآن کو اپنا پیشوا بنائے گا اسے وہ بہشت میں لے جائے گا اور جو اسے پسِ پشت ڈال دے گا اسے وہ جہنم تک پہنچائے گا۔ وہ ایسا راہنما ہے جو بہترین راستہ کی راہنمائی کرتا ہے، ایسی کتاب ہے جس میں تفصیل، بیان اور تحصیل ہے، ایسی فضلیت ہے جس میں ٹھٹھا مذاق نہیں۔ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ اس کا ظاہر حکم ہے اور باطن علم ہے۔ اس کا ظاہر خوبصورت اور باطن نہایت گہرا ہے۔ اس کے ستارے ہیں اور ستاروں کے اوپر ستارے ہیں۔ اس کے عجائبات لاتعداد ہیں، اور اس کے غرائب بوسیدہ ہونے والے نہیں۔ اس میں ہدایت کے چراغ اور حکمت کے مینار ہیں۔ جو جتنی صفت کی معرفت حاصل کرنا چاہے اس کے لئے معرفت کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ اس صفت پر اپنی نظریں دوڑائیں اور وہاں تک اپنی نگاہیں پہنچائے۔ اس طرح ہلاک ہونے والا ہلاکت سے بچ جائے گا اور دلدل میں پھنس جانے سے بچ جائے گا۔ کیونکہ اس میں غور و فکر کرنے سے صاحبان، بصیرت کے دلوں کو زندگی ملتی ہے، جس طرح تاریکیوں میں چلنے والے کو نور سے روشنی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ سے اچھے انداز میں نجات حاصل کرو اور دوسری کسی چیز کا انتظار نہ کرو۔"

۱۶۴۱۰ ۔ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: "یا امیر المومنین! جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ سے ایسی باتیں سنتے ہیں جن سے ہمیں دینی رہنمائی ملتی ہے اور جب آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو لوگوں سے مختلف قسم کی باتیں سنتے ہیں جن سے دل زخمی ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟"

امام علیہ السلام نے فرمایا: "کیا روہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟" راوی نے عرض کیا: "جی ہاں!"

امام نے فرمایا: "میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: "میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا کہ اے محمد! عنقریب آپ کی امت میں فتنہ کھڑا ہو گا۔" میں نے پوچھا: "پھر اس سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے؟" انہوں نے کہا "کتاب اللہ ہے، جس میں تم سے پہلے اور تمہارے بعد کے لوگوں کی خبریں اور تمہارے درمیان کھڑے ہونے والے تنازعوں کا فیصلہ ہے"

تفسیر عباسی جلد اول ص ۳

۱۶۴۱۱ ۔ حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں کہ "حضرت رسول خدا کو اللہ کی طرف سے بتایا گیا کہ عنقریب آپ کی امت فتنوں میں گھر جائے گی!" آنحضرت نے پوچھا کہ اس سے نکلنے کی کیا صورت ہو گی؟" جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب عزیز کہ: "لایا تیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ تنزیل من حکیم حمیدہ" باطل نہ تو اس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے اور حکمت والے ستودہ صفات اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے (حم سجدہ/ ۴۲) لہٰذا جو شخص اس سے ہٹ کر کسی اور سے علم حاصل کرے گا تو اللہ اسے گمراہی میں چھوڑ دے گا

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۷

۱۶۴۱۲ ۔ قرآن مجید کی تعریف میں فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے اسے عالموں کی تشنگی کے لئے سیرابی، فقیہوں کے دلوں کے لئے بہار اور نیکوں کی رہگزر کے لئے شاہراہ قرار دیا ہے، یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں ہوتا

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۱۹۹ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸

۱۶۴۱۳ ۔ یاد رکھو! قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا، اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بھی اس قرآن کا ہم نشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمراہی و ضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۱۸ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۶۴۱۴ ۔ بلاشبہ اللہ سبحانہ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو کیونکہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور امانتدار وسیلہ ہے۔ اس میں دل کی بہار اور علم کے سرچشمے ہیں اور اسی سے (آئینہ) قلب پر جلا ہوتی ہے

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۳۱ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۶۴۱۵ ۔ قرآن (نیکیوں کا) حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا (بظاہر) خاموش اور (بباطن) گویا ہے اور یہ اللہ کی مخلوقات پر اسی کی حجت ہے جس پر عمل کرنے کا اس نے بندوں سے عہد لیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنایا ہے

۱۶۴۱۶ ۔ افضل ترین ذکر قرآن ہے۔ اس کے ذریعہ سینے کشادہ اور دل روشن ہوتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۴۱۷ ۔ اللہ ان کے سامنے، بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو، قدرت کی (ان نشانیوں کی) وجہ سے جلوہ افروز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایا ں ہیں

(حضرت علی علیہ السلام شرح ابن الحدید، جلد ۹ ص ۱۰۲ نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷

۱۶۴۱۸ ۔ اگر مشرق سے لے کر مغرب تک سب لوگ مر جائیں لیکن صرف ایک قرآن میرے پاس ہو تو مجھے کسی قسم کی وحشت محسوس نہیں وہ گی۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۴۶ ص ۱۰۷

۱۶۴۱۹ ۔ جو شخص قرآن مجید سے حق کو نہیں پہچانتا وہ کسی طرح فتنوں سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۲۴۲

۱۶۴۲۰ ۔ قرآن دو ہدایتوں میں افضل تر ہدایت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

۱۶۴۲۱ ۔ قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں اس پر عمل کرکے تمہارے غیر تم سے سبقت نہ لے جائیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ وصیت نامہ ۴۷

۱۶۴۲۲ ۔ میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کا کلام اپنے کلام کو بھی منسوخ کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۶۱

۱۶۴۲۳ ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جس کے ذریعہ تمیں سجھائی دیتا ہے اور تمہاری زبان میں گویائی آتی ہے اور (حق کی آواز) سنتے ہو۔ اس کے بعض حصے بعض حصوں کی وضاحت کرتے اور بعض، بعض کی (صداقت کی) گواہی دیتے ہیں۔ یہ ذاتِ الٰہی کے متعلق الگ الگ نظریات نہیں پیش کرتا اور نہ اپنے ساتھی کو اس کی راہ سے ہٹا کر کسی اور راہ پر لگاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳

۱۶۴۲۴ ۔ قرآن کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کے بعض حصوں کے ذریعہ دوسرے بعض حصوں کی تکذیب نہ کرو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۶۱

( ۲) قرآن، امام اور رحمت

قرآن مجید

( ومن………………………للمحسنین ) (احقاف ۱۲)

ترجمہ۔ اور اس سے قبل موسیٰ کی کتاب امام (پیشوا) اور رحمت تھی، اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جو زبان میں اس کی تصدیق کرتی ہے تاکہ وہ ا سکے ذریعہ سے ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کے لئے (سرتاپا) خوشخبری ہے۔

( افمن کان علی بینة……………………ورحمة ) (ہود ۱۷)

ترجمہ۔ تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی کا ایک گواہ ہو اور ا س سے قبل موسیٰ کی کتاب پیشوا (امام) اور رحمت (اس کی تصدیق کرتی ہو)

حدیث شریف

۱۶۴۲۵ ۔ تم پر قرآن مجید سے تمسک لازم ہے۔ لہٰذا تم اسے اپنا امام (پیشوا) اور قائد بناؤ۔

(حضرت علی علیہ السلام) کنزالعمال حدیث ۴۰۲۹

۱۶۴۲۶ ۔ میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا۔ پس کتاب (یعنی قرآن) اور قرآن والے (اہلبیت) اس دور میں (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلک، ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق، اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ ایک جا ہوں۔ لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کر لیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں، گویا وہ کتاب کے پیشوا ہیں، کتاب ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط و نقوش کو پہچان سکتے ہیں

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷

( ۳) قرآن زیبا ترین کلام ہے

قرآن مجید

( الله نزل احسن الحدیث……………………الی ذکر الله ) (زمر/ ۲۳)

ترجمہ۔ اللہ نے بہت ہی اچھا کلام (یعنی اس) کتاب کو نازل فرمایا جس کی آیتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ اور ایک بات کئی کئی بات دہرائی گئی ہے۔ اس کے سننے سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے یں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کے جسم نرم ہو جاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کی طرف باطمینان متوجہ ہو جاتے ہیں

حدیث شریف

۱۶۴۲۷ ۔ سب سے اچھا اور زیبا کلام کتاب خدا (قرآن مجید) ہے، سب سے بہتر ہدایت حضرت محمد مصطفی کی ہدایت ہے۔ اور بدترین اور بدعتی امور ہیں

۱۶۴۲۸ ۔ سب سے اچھا قصہ، بلیغ ترین نصیحت اور سودمند ترین یادداشت خداوندِ عز و جل کی کتاب ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) فروغ کافی جلد ۸ ص ۱۷۵

۱۶۴۲۹ ۔ صادق ترین بات، بلیغ ترین وعظ و نصیحت اور احسن ترین قصہ کتابِ الٰہی (قرآن مجید) ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۴ ص ۲۸۷

۱۶۴۳۰ ۔ کتاب الٰہی کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ یہ بہترین کلام اور بلیغ ترین نصیحت ہے۔ نیز اس میں غور و فکر کرو کیونکہ یہ دلوں کی بہار ہے، اس کے نور سے شفا حاصل کرو کیونکہ یہ دلوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے اور اس کی اچھے انداز میں تلاوت کرو کیونکہ یہ سب سے پیارا قصہ ہے

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۹۰

۱۶۴۳۱ ۔ صادق ترین بات، بلیغ ترین موعظہ اور بہترین قصہ کتابِ الٰہی ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۱۴

۱۶۴۳۲ ۔ قرآن کی دوسری تمام کلاموں پر فضلیت ایسی ہے جیسے اللہ کی فضلیت اس کی مخلوق پر۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۹

۱۶۴۳۳ ۔ قرآن کی تلاوت اچھے انداز میں کیا کرو کیونکہ یہ سودمند ترین داستان ہے اور اس سے شفا حاصل کرو کیونکہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم

( ۵) قرآن ہر زمانہ میں نیا ہے

۱۶۴۳۴ ۔ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے (قرآن کو) پرانا نہیں کرتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح نہج البلاغہ جلد ۵ ص ۲۰۳ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۶

۱۶۴۳۵ ۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا: "آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید کی جس قدر نشر و اشاعت اور درس و تدریس کی جاتی ہے اسی قدر اس کی تروتازگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے؟" آپ نے فرمایا: "اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے کسی خاص زمانہ، کسی خاص قوم یا کسی خاص گروہ کے لئے نہیں بنایا بلکہ یہ سب زمانوں، سب قوموں اور سب لوگوں کے لئے ہے۔ لہٰذا یہ ہر زمانے میں جدید ہر قوم کے نزدیک ہمیشہ تروتازہ اور قیامت تک ایسے ہی رہے گا۔

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۵ جلد ۱۷ ص ۲۱۳

۱۶۴۳۶ ۔ ایک دن حضرت امام رضا علیہ السلام نے قرآنِ مجید کا ذکر کرکے اس کی حجت کی عظمت اور آیات کا معجزہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

"قرآن اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، اس کا ناقابلِ شکست دستہ، حق سے زیادہ مشابہ طریقہ، جنت تک لے جانے والا اور جہنم سے بچانے والا ہے، کسی زمانہ میں پرانا نہیں ہوتا، زبانوں پر (مسلسل استعمال سے) ناکارہ نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کسی ایک زمانہ کو چھوڑ کر دوسرے زمانہ کے لئے نہیں بلکہ (ہر زماہ کے لئے اسے) دلیل و برہان اور ہر انسان کے لئے حجت بنایا گیا ہے، باطل نہ تو اس کے آگے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے سے یہ صاحبِ حکمت اور قابلِ ستائش اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے،

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۴

( ۶) قرآن، بڑی سے بڑی بیماری کے لئے شفا ہے

قرآن مجید

( ونزل من القراٰن…………………الاخسار ) (بنی اسرائیل/ ۸۲)

ترجمہ۔ اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے (سراسر) شفا اور رحمت ہے، (مگر) ظالموں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھاتا ہی نہیں۔

( یٰا یهاالناس………………………رحمة للوٴمنین ) (یونس/ ۵۷)

ترجمہ۔ لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت (قرآن جیسی کتاب) آ چکی اور جو امراض دل میں ہیں ان کی دوا اور ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔

( قل هو للذین امنوا هدیٰ و شفاء ) ۔ (حٰم، سجدہ/ ۴۴)

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ ایمانداروں کے لئے یہ (قرآن) ہدایت اور (ہر مرض کی) شفا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۴۳۷ ۔ اس میں کفر و نفاق اور ہلاکت و گمراہی جیسے بڑے بڑے امراض کی شفا پائی جاتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح نہج البلاغہ جلد ۰ ة ص ۱۹ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۶۴۳۸ ۔ اس قرآن میں نور کے چراغ اور دلو کی شفا ہے، چلنے والے کو اسی کی روشنی میں ادھر ادھر چلنا چاہئے اور اپنی طرف سے بھی چال کو قابو میں رکھنا چاہئے کیونکہ قرآن سے بالمشافہ گفتگو کرنا، بابصیرت دلوں کی حیات ہے جیسے (رات کی) تاریکیوں میں چلنے کے لئے روشنی حاصل کرنے والے کے لئے روشنی ہوتی ہے۔

(امام حسن علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۱۲

۱۶۴۳۹ ۔ تمہیں کتاب الٰہی پر عمل کرنا چاہئے، اس لئے کہ وہ ایک مضبوط رسی، روشن و واضح نور اور نفع بخش شفا ہےجو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لے جانے والا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۲۰۳ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۶

۱۶۴۴۰ ۔ قرآن ہی دوا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۲۳۱۰

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو "دواء باب "دنیوی بیماریوں کا علاج")

( ۷) قرآن ہی تو نگری ہے

۱۶۴۴۱ ۔ قرآن ایسی تونگری ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی اس کے ہوتے ہوئے کوئی محتاج رہتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۹

۱۶۴۴۲ ۔ قرآن ایسی تونگری ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ کوئی محتاج ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ہوتے ہوئے کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۲۳۰۷

۱۶۴۴۳ ۔ جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے وہ غنی ہے اور اس کے بعد پھر اسے کسی قسم کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور اگر تلاوت نہیں کرتا تووہ غنی نہیں ہے،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۷

۱۶۴۴۴ ۔ جان لو کہ کسی کو قرآن (کی تعلیمات) کے بعد (کسی اور لائحہ عمل کی) احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے سے) پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۴ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۱۹ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۱۶۴۴۵ ۔ جس کو قرآن مجید کچھ دے اور وہ پھر بھی یہ سمجھے کہ اس سے افضل تر چیز کسی اور کو عطا ہوئی ہے تو اس نے حقیر شے کو عظیم اور عظیم چیز کو حقیر جانا۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۳ ۔ ص ۱۸۹

(قول مولف: ملاحظہ ہو: "تونگری، باب ۳۱۱۲ " تونگری کیا ہے؟" اور اس کے بعد کے باب)

( ۸) قرآن میں اولین و آخرین کا علم ہے

۱۶۴۴۶ ۔ قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں، تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے درمیانی حالات کے احکام موجود ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح نہج البلاغہ جلد ۱۹ ص ۲۲۰ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۱۳

۱۶۴۴۷ ۔ یا درکھو کہ اس (قرآن) میں آئندہ کے معلومات، گزشتہ واقعات، بیماریوں کا علاج اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بند ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۲۱۷ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۸

۱۶۴۴۸ ۔ جو اولین و آخرین کا علم حاصل کرنا چاہے اسے چاہئے کہ قرآن پڑھے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزل العمال حدیث ۲۴۵۴

۱۶۴۴۹ ۔ جو اولین و آخرین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ قرآن پڑھے اور اس کے معانی میں غور کرے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۵۴

۱۶۴۵۰ ۔ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے جس کے بارے میں دو آدمی اختلاف کریں اور اس کی اصل خداوند عز و جل کی کتاب (قرآن) میں نہ ہو، لیکن وہاں تک لوگوں کی عقلوں کی رسائی نہیں ہوسکتی۔

(امام جعفر صادق) کافی جلد اول ص ۶۰

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "امامت‘ ‘ باب "میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے")

( ۹) قرآن کی تعلیم حاصل کرنا

۱۶۴۵۱ ۔ مومن کو چاہئے کہ مرنے سے پہلے قرآن کی تعلیم حاصل کر لے یا اگر اسے موت آئے تو وہ قرآنی تعلیم حاصل کر رہا ہو،

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۹

۱۶۴۵۲ ۔ قرآن دعوتِ الٰہی کا دسترخوان ہے جتنا ہو سکے اس دسترخوان سے ریزہ چینی کر لو۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۹

۱۶۴۵۳ ۔ یقیناً یہ قرآن دعوتِ الٰہی کا دسترخوان ہے، مقدور بھر اس سے تعلیم حاصل کرو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۵۶

۱۶۴۵۴ ۔ قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے، اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے، اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں ( کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں کے لئے) شفا ہے۔ اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۳۶ نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۰

۱۶۴۵۵ ۔ اگر تم سعادت کی زندگی، شہادت کی موت، حسرت (قیامت) کے دن کی نجات، دھوپ کے دن کو سایہ اور گمراہی کے دن کے لئے ہدایت کے طلبگار ہو تو قرآن کا درس حاصل کرو کیونکہ یہ رحمان کا کلام ہے، شیطان سے بچاتا ہے اور میزانِ اعمال میں جھکاؤ کا موجب ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۹

۱۶۴۵۶ ۔ اے معاذ! اگر تم چاہتے ہو کہ عین سعادت کی زندگی، شہادت کی موت، حشر کے دن نجات، خوف کے دن امن، تاریکی کے دن نور، دھوپ کے دن سایہ، پیاس کے دن سیرابی، میزان کے ہلکا ہونے کے دن سنگینی اور گمراہی کے دن ہدایت ملے تو، قرآن کا درس حاصل کرو کیونکہ یہ رحمان ذکر، شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ اور میزانِ عمل میں جھکاؤ کا موجب ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۳۹

۱۶۴۵۷ ۔ تم میں بہتر وہ ہیں جو خود بھی قرآن کا علم حاصل کرتے ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۶

۱۶۴۵۸ ۔ تم میں بہتر انسان وہ ہے جو خود بھی قرآن کی تعلیم حاصل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۵۱

۱۶۴۵۹ ۔ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو خود قرآن پڑھتا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۵۴

۱۶۴۶۰ ۔ جو شخص ہمارے دوستوں اور شیعوں میں اس حالت میں مرتا ہے کہ اسے قرآن اچھی طرح پڑھنا نہیں آتا، تو اسے قبر میں اس کی تعلیم دی جائے گی، تاکہ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کے درجات کو بلند فرمائے کیونکہ بہشت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے مطابق ہیں اور روہاں قرآن کے قاری سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور اوپر چڑھتا جا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۸

۱۶۴۶۱ ۔ قرآن پڑھنے والے سے (قیامت کے دن) کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور (بہشت کے) درجات پر چڑھتا جا، اس کی ترتیل کے ساتھ اسی طرح تلاوت کر جس طرح دنیا میں کیا کرتا تھا اس لئے کہ تیری منزلت اس آخری آیت پر جا کر ختم ہو گی جسے پر تو قرآن کو ختم کرے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۳۰

۱۶۴۶۲ ۔ جب قرآن پڑھنے والا بہشت میں داخل ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور اوپر چڑھاتا جا۔ پس وہ قرآن پڑھتا جائے گا اور ہر آیتک ے بارے میں ایک درجہ اوپر چڑھتا جائے گا، یہاں تک کہ وہ آخری آیت بھی پڑھ ڈالے گا جو اسے یاد تھی۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۳۱

۱۶۴۶۳ ۔ تمہارے لئے قرآن کا علم حاصل کرنا اور اس کی کثرت سے تلاوت ضروری ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۶۸

۱۶۴۶۴ ۔ کلیب کہتے ہیں کہ میں حضرت علی کے ہمراہ تھا کہ آپ نے مسجد سے لوگوں کے بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کی آواز سنی آپ نے فرمایا: "ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے کہ یہی لوگ رسولِ خدا کے محبوب ترین افراد ہیں"

کنزل العمال حدیث ۴۰۲۵

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۵ باب ۲۰)

( ۱۰) قرآن مجید کی تعلیم

۱۶۴۶۵ ۔ جو شخص کسی کو قرآن پڑھاتا ہے وہ اس کا آقا بن جاتا ہے لہٰذا قرآن پڑھنے والا اسے نہ تو کسی موقع پر تنہا چھوڑے اور نہ ہی اس پر فوقیت جتائے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۸۲

۱۶۴۶۶ ۔ جو شخص کسی بندہ کو کتاب اللہ کی ایک آیت کی تعلیم دیتا ہے وہ اس کا آقا بن جاتا ہے۔ لہٰذا قرآن کا علم حاصل کرنے والا نہ تو کسی موقع پر اسے تنہا چھوڑے اور نہ ہی کبھی اس پر فوقیت جتائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسلام کے مضبوط سہاروں میں سے ایک سہارے کو توڑ ڈالے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۲۳۸۴

۱۶۴۶۷ ۔ جو لوگ اللہ کے گھروں میں گھر میں جمع ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے اور اس کا ایک دوسرے کو درس دیتے ہیں تو ان پر (اللہ کی طرف سے) تسکین نازل ہوتی ہے، انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان کی یاد اس ذات کے پاس بھی ہوتی ہے جس کے حضور میں یہ لوگ ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۲۰

۱۶۴۶۸ ۔ یاد رکھو! جو شخص قرآن کی تعلیم حاصل کرے، دوسروں کو اس کی تعلیم دے اور اس پر عمل بھی کرے تو میں اسے بہشت کی طرف لے جاؤں گا اور بہشت کی طرف اس کی رہنمائی کروں گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۷۵

۱۶۴۶۹ ۔ جو شخص اپنے بیٹے کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے (یا دلاتا ہے) تو قیامت کے دن اس کے گلے میں ایسا ہار ڈالا جائے گا جس سے اولین و آخرین کے لوگ تعجب کریں گے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۸۶

۱۶۴۷۰ ۔ بیٹے کا باپ پر حق ہے کہ اس کا نام اچھا تجویز کرے، اچھے اخلاق و آداب سے اسے آراستہ کرے اور اسے قرآن کی تعلیم دے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۹۹

۱۶۴۷۱ ۔ جو شخص بالغ ہونے سے پہلے قرآن پاک پڑھ لیتا ہے تو گویا اسے بچپن ہی میں حکمت عطا ہوتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۵۲

( ۱۱) قرآن مجید کا حفظ کرنا

۱۶۴۷۲ ۔ اللہ تعالیٰ جسے اپنی کتاب کے حفظ کی نعمت سے نوازے اور وہ یہ گمان کرے کہ کسی اور شخص کو اس سے بہتر نعمت عطا کی گئی ہے تو وہ اللہ کی افضل ترین نعمت کی ناشکری کرے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۱۷

۱۶۴۷۳ ۔ تم ان معلق مصاحب سے غفلت نہ برتو کیونکہ جو دل قرآن کو اپنے اندر جگہ دے گا اللہ تعالیٰ اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۰۰

۱۶۴۷۴ ۔ جس شخص کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی مانند ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۲۴۷۸

۱۶۴۷۵ ۔ قرآن کا حافظ اور اس پر عمل کرنے والا ان لکھنے والے (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا جو بزرگ اور نیکوکار ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۶ ص ۱۷۷ ۔ کافی جلد ۲ ص ۶۰۳

۱۶۴۷۶ ۔ حماد بن عیسیٰ نے سند مرفوع کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی دعا تعلیم نہ دوں جس سے تم قرآن کو کبھی نہ بھولو؟ وہ یہ دعا ہے۔ (ترجمہ)

"اے اللہ! جب تک تو مجھے زندہ رکھے ہمیشہ کے لئے میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرکے مجھ پر رحم فرمایا! جو چیز میرے لئے مفید نہیں ہے اس کے حصول سے باز رکھ کر، مجھ پر رحم فرما، جس چیز میں تیری رضامندی ہے ا س میں حسنِ نظر عنایت فرما، جس طرح تونے مجھے تعلیم فرمایا ہے اسی طرح اپنی کتاب کو یاد کرنے کے لئے میرے دل کو پابند بنا۔ مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے ویسے ہی پڑھوں جیسے تیری رضا ہے۔ بارالٰہا! میری نگاہوں کو اپنی کتاب کے ساتھ منور فرما!، اس کے ذریعہ میرے سینہ کو کشادہ کر دے، میری زبان کو اس (کی تلاوت) کے لئے رواں فرما، میرے جسم کو اسی کے لئے استعمال کر اور اس کے لئے مجھے قوت و طاقت عطا فرما اس کے لئے میری امداد فرما کیونکہ اس پر صرف تو ہی میری امداد کر سکتا ہے، تیرے علاوہ کوئی اور معبود برحق نہیں ہے"

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۰۹

۱۶۴۷۷ ۔ ابن صدقہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے آباؤاجداد علیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی دعا ہے کہ:

"اے اللہ! جب تک میں زندہ ہوں ہمیشہ کے لئے میرے گناہوں کے ترک کرنے کے ذریعہ مجھ پر رحم فرما، جس چیز میں تیری رضامندی ہے اس میں مجھے حسنِ نظر عنایت فرما، جس طرح تو نے مجھے تعلیم فرمایا ہے میرے دل کو اپنی کتاب یاد کرنے کا پابند بنا اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے اسی طرح پڑھوں جس میں تیری رضامندی ہو۔ اے اللہ! اپنی کتاب کے ذریعہ میری نگاہوں کو منور فرما، اسی کے ذریعہ میرے سینہ کو کشادہ کر دے! میرے دل کو وسیع (یا مسرور) کر دے، اس کے لئے میری زبان کو روانی دے، میرے جسم کو اس کے لئے استعمال فرما اور اس بات پر مجھے قوت و طاقت عطا فرما کیونکہ قوت اور طاقت تیرے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے۔

قرب الاسناد جلد ۵ ص ۱۶

قولِ مولف: ملاحظہ ہو کنز العمال جلد ۸ ص ۴۱۱ " حفظ قرآن کی نماز"

کنزالعمال جلد ۲ ص ۵۸ " حفظ قرآن کی نماز میں"

الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۳۶۰ " حفظ قرآن کی دعا"

( ۱۲) قرآن کو بار بار پڑھنے کی ترغیب

۱۶۴۷۸ ۔ قرآن مجید کو بار بار پڑو، کیونکہ یہ بدک کر بھاگ جانے والے جانوروں کی مانند ہے اور لوگوں کے دلوں سے اس طرح جلدی نکل جاتا ہے اونٹ بھی گھٹنے کو باندھے جانے والی رسی سے اتنی جلدی نہیں نکل پاتا۔ تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ یہ کہے کہ فلاں آیت بھلا دی گئی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۵۰

۱۶۴۷۹ ۔ کسی شخص کا یہ کہنا کہ اس نے فلاں فلاں آیت بھلا دی بری بات ہے، بلکہ وہ بھلا دی جاتی ہے لہٰذا قرآن کو بار بار پڑھا کرو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قرآن لوگوں کے دلوں سے اس قدر جلدی نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اپنے گھٹنے کی رسی سے اس قدر جلدی نکل کر نہیں بھاگتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۴۹

۱۶۴۸۰ ۔ جو شخص قرآن کو بار بار اور رات دن پڑھتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس اونٹ ہو، اگر اسے گھٹنے سے رسی کے ساتھ باندھ دیتا ہے تو موجود رہتا ہے، اور اگر اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے تو بھاگ جاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۵۴

۱۶۴۸۱ ۔ جو شخص قرآن مجید کی کوئی سورت بھلا دے گا تو وہ سورت قیامت کے دن ایک زیبا شکل میں اس کے سامنے آ جائے گی جو جنت کے بلند درجے پر ہو گی، وہ شخص اسے دیکھ کر کہے گا "تو کون ہے اور کس قدر حسین ہے؟ کاش تو میری ہوتی!!"

وہ سورت جواب دے گی کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں قرآن مجید کی وہی سورت ہوں جسے تونے بھلا دیا تھا، اگر مجھے نہ بھلاتا تو آج میں تجھے اس بلند مقام و مرتبہ پر لے آتی!"

(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۶۰۷

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ص ۸۴۵ باب ۱۲ ۔ کنزالعمال جلد ۱ ص ۶۲۵

کافی جلد ۲ ص ۵۷۶

(۱۳) حاملین قرآن کے فضائل

(حاملین قرآن سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھاتے ہیں۔ از مترجم)

۱۶۴۸۲ ۔ حاملینِ قرآن، رحمتِ خداوندی میں گھرے ہوئے اور نورِ الٰہی کی چادروں میں ملبوس ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) جامع الاخبار ص ۱۱۵ ، ص ۲۰۲

۱۶۴۸۳ ۔ حاملینِ قرآن، قیامت کے دن بہشت کے عارف لوگ ہوں گے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزل العمال حدیث ۔ ۲۲۸۸ ۔ ۲۲۸۹ ۔ ۲۲۹۰

۱۶۴۸۴ ۔ حاملینِ قرآن، بہشت کے عارف لوگ ہوں گے، راہِ خدا میں جہاد کرنے والے ان کے قائد ہوں گے اور اللہ کے رسول تمام اہلِ بہشت کے سردار ہوں گے۔

(حضرت رسول اکرم) مستدرک الوسائل جلد ۱۱ ص ۷ حدیث ۱۲۲۷۵

۱۶۴۸۵ ۔ میری امت کے اشراف، حاملینِ قرآن اور عابدانِ شب زندہ دار ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) انحصال جلد اول ص ۷ باب ۲۱

۱۶۴۸۶ ۔ قرآن پڑھا کر واور اسے اپنا حامی و پشتیبان سمجھو کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے دل کو عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جو قرآن کا ظرف ہو۔

(حضرت علی علیہ السلام) جامع الاخبار ص ۱۱۵ ، ص ۲۰۵

۱۶۴۸۷ ۔ شہدائے احد کے دفن کے موقعہ پر فرمایا: "دیکھو! ان میں سے جس کے پاس قرآن زیادہ اکٹھا تھا اسے قبر میں اس کے ساتھ سے آگے دفن کرو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزل العمال حدیث ۲۹۸۹ ۔

۱۶۴۸۸ ۔ جو قرآن کو اکٹھا کرے یعنی جامع القرآن بنے، اللہ تعالیٰ اسے مرتے دم تک اس کی عقل سے فائدہ پہنچاتا رہے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۲۳۱۸

۱۶۴۸۹ ۔ قرآن سے تعلق رکھنے والے، اللہ والے اور اس کے خصوصی بندے ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۲۳۱۸

۱۶۴۹۰ ۔ حامل قرآن دراصل پرچم اسلام کا حامل ہوتا ہے۔ جو اس کی عزت کرے گا، خدا اسے عزت عطا فرمائے گا اور جو اس کی توہین کرے گا اس پر خداوند عز و جل کی لعنت ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۴

۱۶۴۹۱ ۔ حاملینِ قرآن، کلامِ الٰہی کے معلم ہوتے ہیں، نور خداوندی سے ملبوس ہوتے ہیں جو ان سے محبت کرتا ہے وہ خدا سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۵

۱۶۴۹۲ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف ایک وفد روانہ فرمایا جس کا امیر خود ارکانِ وفد ہی سے مقرر فرمایا جو ان سے سن کے لحاظ سے چھوٹا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وفد وہیں پر رکا رہا اور سفر کے روانہ نہیں ہوا

ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ نے اسے ہمارا امیر مقرر فرمای ہے جو عمر میں ہم سب سے چھوٹا ہے؟" یہ سن کر آپ نے اسے اس کے قاری قرآن ہونے کی طرف متوجہ کیا۔

کنز العمال حدیث ۴۰۲۰

حامل قرآن کو کیا کرنا چاہئے؟

۱۶۴۹۳ ۔ حامل قرآن سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں خدا سے ڈرے۔ حاملِ قرآن ہی سب لوگوں سے زیادہ اس بات کا بھی مستحق ہے کہ ظاہر و باطن میں صوم و صلوٰة کا پابند ہو۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۰۲۰

۱۶۴۹۴ ۔ اچانک ایک دن رسول اکرم باہر تشریف لائے اور پکار کر فرمایا:

"اے حامل قرآن! جب بیکار اور نکمے لوگ ہنسنے میں مصروف ہوں تو تم اپنی آنکھوں میں گریہ و بکا کا سرمہ لگاؤ۔ جب رات کو سونے والے سو رہے ہوں تو تم شب بیداری کرو، جب کھانے والے کھا رہے ہوں تو تم روزے رکھو جو تم پر ظلم کرے اس سے درگزر کرو، جو تمہارے ساتھ کینہ رکھے اس سے کینہ نہ رکھو، جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے تم اس کے ساتھ نادانی کا ثبوت نہ دو۔

کافی جلد ۲ ص ۶۰۴ حدیث ۵

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "علم" باب ۲۸۸۶ " عقل" باب ۲۸۰۹ ۔

( ۱۵) جو باتیں حاملِ قرآن کے شایانِ شان نہیں

۱۶۴۹۵ ۔ حامل قرآن کو زیب نہیں دیتاکہ جو اس سے غصہ کرتا ہو وہ بھی اس کے ساتھ غصے سے پیش آئے اور جو اس کے ساتھ جاہلانہ سلوک کرے وہ بھی اس کے ساتھ جاہلانہ سلوک کرے، اس لئے کہ اس کے دل میں تو قرآن ہوتا ہے، (حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۷

۱۶۴۹۶ ۔ حامل قرآن کے شایانِ شان نہیں کہ جو اس کے ساتھ نادانی، غیظ و غضب اور غصہ سے پیش آئے وہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کرے۔ بلکہ اس کو چاہئے کہ قرآن کی عظمت کے پیش نظر اسے معاف کر دے اور درگزر سے کام لے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۹

( ۱۶) تلاوت قرآن مجید کی ترغیب

قرآن مجید

( ان الذین یتلون کتٰب الله واقاموالصلوٰة و انفقوا مما رزقنٰهم سرا و علانیة یرجون تجارة لن تبور ) (فاطر/ ۲۹)

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، انہوں نے نماز قائم کی ہے اور جو کچھ ہم نے بطور رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خفیہ و اعلانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں، یہ لوگ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کسی طرح کی تباہی نہیں ہے۔

حدیث شریف

۱۶۴۹۷ ۔ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے رب سے باتیں کرنے کا ارادہ کرے تو اسے قرآن کی تلاوت کرنا چاہئے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۲۵۷

۱۶۴۹۸ ۔ "ان دلوں پر اسی طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جس طرح لوہے پر رنگ چڑھ جاتا ہے۔" پوچھا گیا: "یارسول اللہ! پھر ان کی چمک کیونکر ہو گی؟" فرمایا: "قرآن کی تلاوت سے"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۴۱ ۔

۱۶۴۹۹ ۔ ایمان کی بارآوری، قرآن کی تلاوت (سے) ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم ۷۶۳۳

۱۶۵۰۰ ۔ جو قرآن کی تلاوت سے مانوس ہو جاتا ہے اسے بھائیوں اور دوستوں کی جدائی وحشت میں نہیں ڈالتی۔

(حضرت علی) غررالحکم) ۸۷۹

۱۶۵۰۱ ۔ تم سب کو قرآن پڑھنا چاہئے، کیونکہ قرآن کا پڑھنا گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، جہنم کے خلاف ڈھال ہوتا ہے اور عذاب سے امان دلاتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۷ ۔ ص ۱۸

۱۶۵۰۲ ۔ جب قرآن پڑھنے والا کوئی لفظی یا اعرابی غلطی کرتا ہے، یا وہ الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تو اس کی تلاوت کو فرشتہ اسی طرح لکھ دیتا ہے جس طرح قرآن نازل ہوا تھا۔

۱۶۵۰۳ ۔ فرزند عزیز! تلاوتِ قرآن سے غفلت نہ برتو کیونکہ قرآن مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے، برائیوں، ناپسندیدہ باتوں اور گناہوں سے روکتا ہے۔

(حضرت رسولِ اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۰۳۲

۱۶۵۰۴ ۔ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو گویا نبوت کو اپنے دونوں پہلوؤں کے قریب تر پاتا ہے البتہ اس پر وحی نہیں ہوتی۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۷

۱۶۵۰۵ ۔ جو قرآن پڑھتا ہے تو گویا نبوت اس کے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہوتی ہے مگر وحی نہیں ہوتی۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۴۹

۱۶۵۰۶ ۔ ختم قرآن ک وقت دعا: "خداوندا! قرآن کے ذریعے میرے سینے کو کشادہ کر دے، قرآن ہی کے لئے میرے بدن کو کام میں لا، قرآن کے ساتھ میری آنکھوں کو روشن کر دے قرآن کے صدقہ میں میری زبان کو چلاتا رہ اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے میری اس پر امداد فرما کیونکہ قوت صرف تیرے ہی پاس ہے۔

(حضرت علی) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۰۹ ۔ کنزالعمال جلد ۲ ص ۲۴۹

( ۱۷) قرآن کو اچھی آواز سے پڑھنا

۱۶۵۰۷ ۔ اچھی آواز، قرآن کی زینت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۶۹ ص ۱۹۰

۱۶۵۰۸ ۔ ہر چیز کے لئے ایک زیور ہوتا ہے اور قرآن کا زیور خوبصورت آواز ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۷۶۸

۱۶۵۰۹ ۔ قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ زینت دو۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۹۰ حدیث ۲

۱۶۵۱۰ ۔ جب آنحضرت سے پوچھا گیا کہ قرآن میں کس شخص کی آواز اچھی ہوتی ہے تو فرمایا "اس شخص کی آواز بہترین ہے کہ جب تم اس کی قرأت سنو تو یہ مان لو کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے۔"

(بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۱۹۵ حدیث ۱۰)

۱۶۵۱۱ ۔ لوگوں میں سب سے بہترین قرأت اس شخص کی ہے کہ جب تم اس کی قرأت سنو تو سمجھو کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے۔

(رسول اکرم) الترغیب و الترھیب جلد ۲ ص ۳۶۴ حدیث ۹

۱۶۵۱۲ ۔ قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ حسن عطا کرو کیونکہ اچھی آواز ہی قرآن کے حسن میں اضافہ کر سکتی ہے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۷۶۵

۱۶۵۱۳ ۔ میرے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بہترین آواز سے قرآن کی تلاوت کرتے۔ جب ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے تو ان کے دروازے پر کھڑے ہو کر ان کی قرأت سنتے رہتے۔ میرے بابا ابو جعفر محمد باقر علیہ السلام کی آواز بھی بہترین تھی۔

(امام جعفر صادق) کافی جلد ۲ ص ۶۱۶ حدیث ۱۱

۱۶۵۱۴ ۔ خداوند عالم نے ہمیشہ اچھی آواز والے کو ہی نبی بنا کر بھیجا۔

(رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۶۱۶ حدیث ۱۰

( ۱۸) حقِ تلاوت

قرآن مجید:

( الذین آتیناهم الکتاب یتلونه حق تلاوته اولئک یومنون به ومن یکفر به فاولئک هم الخاسرون ) (البقرہ/ ۱۲۱)

ترجمہ۔ جن لوگوں کو ہم نے قرآن (جیسی کتاب) دی ہے ہ لوگ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جو اس کے پڑھنے کا حق ہوتا ہے یہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں وہی گھاٹے میں ہیں۔

حدیث شریف

۱۶۵۱۵ ۔ میں خدا کے نزدیک اس گروہ کی شکایت کرتا ہوں جو جاہل ہو کر جیتے اور گمراہ ہو کر مرتے ہیں، جب قرآن کی تلاوت اس طرح ہو رہی ہو جس طرح تلاوت کا حق ہے تو اس گروہ میں ان کی مانگ نہیں ہوتی نیز جب قرآن کو بے محل استعمال کیا جائے تو اس سے زیادہ کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہوتی۔

(امام علی) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱ ص ۲۸۴

۱۶۵۱۶ ۔ میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق میں بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گااس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت شے نہ ہو گی۔ لہٰذا اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ کوئی مقبول و قیمتی چیز نہیں ہو گی جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، نہ ان کے شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہو گی، چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کر دیں گے اور حفظ کرنے والے اسے بھلا دیں گے۔ ان دنوں قرآن اور قرآن والے (اہلبیت) بے گھر و بے در ہوں گےاور اس آنے والے دور سے پہلے لوگ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے۔

(امام علی) نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷/ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۱۰۴ قولِ مولف ملاحظہ ہو مکمل خطبہ۔

۱۶۵۱۷ ۔ اللہ تعالیٰ کے قول"( الذین اتیناهم الکتاب یتلونه ) " کے بارے میں فرماتے ہیں: "وہ لوگ قرآنِ مجید کی آیتوں کی ترتیب کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، ان کے معانی کو سمجھتے ہیں، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اس کے وعدہ پر امید رکھتے ہیں، اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، اس کی داستانیں سناتے ہیں، اس کی مثالوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں، اس کے اوامر کو بجا لاتے ہیں اور اس کے نواہی سے بچتے ہیں (اسے کہتے ہیں تلاوت کا حق) خدا کی قسم تلاوت کا حق یہ نہیں ہے کہ اس کی آیات کو زبانی یاد کر لیا جائے، اس کے حروف کو اچھی طرح ادا کیا جائے، اس کی سورتوں کی تلاوت کی جائے اور قرآن کے دسویں و پانچویں حصہ کا سبق دیا جائے۔ ان لوگوں نے تو حروف کو یاد کر لیا اور حدود کو چھوڑ دیا جبکہ تلاوت کا حق اس کی آیتوں میں تدبر کرنا ہے۔ خداوند عالم کے اس قول "( کتاب انزلناه الیک مبارک لید بروا آیاته ) "یعنی" اے رسول ہم نے تمہاری طرف قرآن نازل کیا ہے۔ یہ بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔

(امام جعفر صادق) تنبیہ الخواطر جلد ۲ ص ۲۳۶

۱۶۵۱۸ ۔ خداوند عالم کے اس قول "( یتلونه حق تلاوته ) " کے بارے میں فرماتے ہیں: "اس کی اتباع کرتے ہیں جس طرح کہ اتباع کرنے کا حق ہے۔"

(رسول کریم) در منثور جلد ۱ ص ۲۷۲

۱۶۵۱۹ ۔ ختم قرآن کے وقت ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے تھے:

"خداوندا! اس وقت جبکہ تونے اس کی تلاوت کے لئے ہماری مدد فرمائی ہے اور اس کی حسنِ عبادت کے لئے ہماری زبانوں کے لئے آسانی کی راہیں ہموار کی ہیں، تو یہ مہربانی بھی فرما کہ ہمیں ان افراد میں قرار دے جو قرآن کی اسی طرح، پابندی اختیار کرتے ہیں، جو پابندی اختیار کرنے کا حق ہے، اور اس کی محکم آیات پر پختہ یقین رکھ کر تیرے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔"

(حضرت امام زین العابدین) صحیفہ کاملہ دعا ۴۲

۱۶۵۲۰ ۔ یقینی طور پر جان لو کہ تمکتاب (قرآن مجید) کی تلاوت کا حق ا س وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک یہ نہ پہچان لو کہ اس کے حروف کس نے مقرر کئے ہیں۔ جب یہ جان لو گے تو یہ بھی پہچان لو گے کہ بری علتیں اور تکلفات کیا ہیں؟

(امام حسین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۰۵ حدیث ۳

۱۶۵۲۱ ۔ کہاں گئی وہ قوم جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو انہوں نے قبول کر لیا اور قرآن کی تلاوت کی اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوئے۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۹

۱۶۵۲۲ ۔ آہ! میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اسے مضبوط کیا (اس پر عمل پیرا ہوئے) اپنے فرائض میں غور و فکر کیا تو انہیں ادا کیا سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جہاد کے لئے بلائے گئے تو انہوں نے لبیک کہی اور اپنے پیشوا پر یقین کامل کے ساتھ بھروسا کیا تو اس کی پیروی بھی کی۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۰

( ۱۹) قرآن کو پس پشت ڈال دینا

قرآن مجید

( واذا اخذالله میثاق الذین اتوا الکتاب لتبنیة للناس ولاتکتمونه فتبذوه ورآء ظهور هم و الشتروا به ثمناً قلیلا فلبئس ما یشترون ) " (آل عمران/ ۱۸۷)

ترجمہ۔ اور (اے رسول ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب خد ا نے اہلِ کتاب سے عہد و پیمان لیا تھا کہ کتابِ خدا کو صاف صاف بیان کریں اور (خبردار) اس کی کوئی بات چھپائیں نہیں مگر ان لوگوں نے (اس کا ذرا بھی خیال نہ کیا) کتاب خدا کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلہ میں تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ پس یہ کیا ہی برا سودا ہے جو یہ لوگ خرید رہے ہیں۔

قرآن مجید

( ولما جاء هم رسول من عندالهب مصدق لما معهم نبذ فریق من الذین اوتوا الکتاب کتاب الله وراء ظهور هم کانهم لایعلمون ) (بقرہ/ ۱۰۱)

ترجمہ۔ اور جب ان ے پاس خدا کی طرف سے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیااور وہ اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہے، تصدیق بھی کرتا ہے، تو ان اہل کتاب کے ایک گروہ نے کتابِ خدا کو ا س طرح پسِ پشت پھینک ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔

حدیث شریف

۱۶۵۲۳ ۔ جس امت نے بھی قرآن کو پسِ پشت پھینک دیا اللہ تعالیٰ نے ان سے علم کتاب کو اٹھا لیا اور جب بھی کوئی حاکم بنایا ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کی کتاب سے منہ موڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ صرف کتاب کے حروف پر ڈٹے رہے، اور اس کی حدود میں ردوبدل کرتے رہے۔ پس یہ اس کو بیان تو کرتے ہیں لیکن ان کی حدود کی رعایت نہیں کرتے۔ جاہل لوگ تو ان کے زبانی بیان کرنے کی وجہ سے تعجب میں پڑ جاتے ہیں جبکہ علماء ان کے حدود کو ترک کرنے سے غمگین اور پریشان رہتے ہیں۔

(امام محمد تقی علیہ السلام) کافی جلد ۸ ص ۸۳ حدیث ۱۶ ۔

۱۶۵۲۴ ۔ جس نے قرآن پڑھا اور مر کر جہنم میں گیا تو وہ شخص ان میں سے تھا جس نے خدا کی آیتوں کو مذاق سمجھ رکھا تھا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ، حکمت ۲۲۸ ، قولِ مولف دیکھئے موعظہ و نصحیت باب ۴۱۳۳

( ۲۰) قرأت کے آداب

۱ ۔ منہ کی پاکیزگی

۱۶۵۲۵ ۔ رسول کریم فرماتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے راستے کو صاف کیا کرو۔ پوچھا گیا "یا رسول اللہ! قران کی تلاوت کا راستہ کونسا ہے؟" فرمایا: "تمہارے منہ ہیں" پھر پوچھا گیا: "کس طرح صاف کیا جائے؟" فرمایا: مسواک کے ذریعہ سے۔

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۱۳ حدیث ۱۱

۱۶۵۲۶ ۔ تمہارے منہ قرآن کا راستہ ہیں۔ پس ان کو مسواک کے ذریعے صاف کیا کرو۔

(رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۲۷۵۱

۱۶۵۲۷ ۔ اپنے منہ کو پاک صاف رکھو کیونکہ تمہارے منہ قرآن کا راستہ ہیں۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۷۵۲

۲ ۔ استعاذہ (اعوذباللہ پڑھنا)

قرآن مجید:

( فاذا قرأت القرآن فاستعذبالله من الشیطان الرجیم ) " (نحل/ ۹۸)

حدیث شریف:

ترجمہ۔ پس جب تم قرآن پڑھو تو شیطان مردود (کے وسوسوں) سے خدا کی پناہ مانگو۔

۱۶۵۲۸ ۔ گناہوں کے دروازے استعاذہ کے ذریعے بند کرو اور اطاعت کے دروازے تسمیہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے ذریعے کھولو۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ حدیث ۶۴۹

۱۶۵۲۹ ۔ جب امام علیہ السلام سے ہر سورت کی ابتدا ء میں استعاذہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: "ہاں! پڑھو، شیطانِ مردود سے خدا کی پناہ مانگو اور یہ بھی یاد رکھو کہ رجیم خبیث ترین شیطان کو کہتے ہیں۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر عیاشی جلد ص ۲۸۰ حدیث ۶۸

قولِ مولف ملاحظہ ہو عنوان ۳۷۹ " استعاذہ"

۳ ۔ ترتیل

قرآن مجید

( او زد علیه ورتل القرآن ترتیلا ) " (مزمل/ ۴)

ترجمہ۔ اور قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

۱۶۵۳۰ ۔ "ورتل القرآن ترتیلا" کے بارے میں فرماتے ہیں: "قرآن مجید کو واضح کرکے پڑھو جس طرح کہ اس کا حق ہے۔ اس کے حروف کو سبزی فروشوں کی آواز کی طرح نثر کی صورت میں نہ پڑھو، نہ ہی اشعار کی لے میں بھی پڑھو کہ اس کے عجائبات پر رک جاؤ (عجیب باتوں میں غور کرو)، اس کے ساتھ ہی اپنے دلوں کو بھی حرکت میں لاؤ اور خبردار تم مں سے کسی ایک کا بھی مقصد سورت کا ختم کرنا نہیں ہونا چاہئے"

(رسول اکرم) نوادر راوندی حدیث ۳۰

۱۶۵۳۱ ۔ قرآن مجید کو خوبصورت انداز میں تلاوت کرو، اشعار کی لے میں بھی نہ پڑھو، ذکر عجائبات پر توقف کرو، قرآن کے مطابق اپنے دلوں کے زخموں کا قرآن کے ذریعہ علاج کرو اور تم میں سے کسی کا مقصد اختتام سورت نہیں ہونا چاہئے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۱۱۷

۱۶۵۳۲ ۔ قرآن کو اس خوبصورت انداز میں بیان کرو جس طرح بیان کرنے کا حق ہے اس کو اشعار کی لے میں نہ پڑھو، نہ ہی اس طرح جس طرح ریت کی مٹھی بھر کر ڈالی جاتی ہے (جو تیزی سے نیچے گر جاتی ہے) لیکن اپنے سخت دلوں کو مائل کرو اور کسی کا مقصد اختتام سورت نہیں ہونا چاہئے۔

(امام علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۶۲۴ حدیث ۱

۱۶۵۳۳ ۔ متقین کی صفات میں فرماتے ہیں:

بہرحال راتوں کو ان کے قدم سیدھے ہوتے ہیں نماز کے لئے، قرآن کے اجزاء کی ترتیل کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ خود غمگین ہو جاتے ہیں اور قرآن کے ذریعے ہی اپنے ہر درد کی دوا پاتے ہیں۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳

۴ تدبر

قرآن مجید

"( افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقضالها ) " (محمد ۲۴)

ترجمہ۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔

"( کتاب انزلنه الیک مابرک لید بروا آیاته ولیتذکرا ولو الالباب ) " (ص/ ۲۹)

ترجمہ۔ (اے رسول) کتاب (قرآن) جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔

"( افلم یدبروا القول ام جاء هم ما لم یأت آبائهم الاولین ) :" (مومنون/ ۶۸)

ترجمہ۔ تو کیا ان لوگوں نے ہماری بات (قرآن) پر غور نہیں کیا، یا ان کے پاس کوئی ایسی نئی چیز آئی ہے جو ان کے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟

"( افلایتدبرون القرآن و لوکان من عند غیرالله لوجدواقفیه اختلافاً کثیرا ) " (نساء/ ۸۲)

حدیث شریف

ترجمہ۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور (یہ خیال نہیں کرتے کہ) اگر قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو وہ ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے۔

۱۶۵۳۴ ۔ خبردار اس قرأت میں کوئی بہتری نہیں ہے جس میں غور و فکر نہ ہو اور یاد رکھو! اس عبادت میں بھی کوئی اچھائی نہیں جس میں معرفت نہ ہو۔

(حضرت امام علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۱۱ حدیث ۴

۱۶۵۳۵ ۔ قرآنی آیات علم کے خزانے ہیں۔ پس جب بھی کسی خزانے کا دروازہ کھلا ہو تو تمہیں چاہئے کہ تم اس میں غور کرو۔

(امام علی زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۱۶ حدیث ۳۲

۱۶۵۳۶ ۔ قرآنی آیت میں غور کرو اور ان سے عبرت حاصل کرو کیونکہ قرآن ہی بلیغ ترین عبرت ہے۔

(امام علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۴۴۹۳

۱۶۵۳۷ ۔ جو شخص قرآن مجید کو تین مرتبہ سے کم پڑھے گا وہ اسے نہیں سمجھ سکے گا۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۲۸

۱۶۵۳۸ ۔ ابن عمر سے فرماتے ہیں: "پورے قرآن مجید کو ہر ماہ ختم کیا کرو۔ " کہا " میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔" فرمایا: "پھر بیس راتوں میں کیا کرو۔" عرض کیا "میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔" فرمایا "ہر دس راتوں میں" عرض کیا "میں ا س سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں" تو فرمایا "ہفتہ میں ایک بار!" اس سے زیادہ نہ بڑھنا (تاکہ تم قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھ سکو (یہ صرف زبانی مسئلہ نہ ہو۔ از مترجم)

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۱۵

۱۶۵۳۹ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب ایک رات میں ختم قرآن کی تلاوت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی کہ تم قرآن مجید کو ایک ماہ سے کم میں ختم کرو۔" (کیونکہ اصل مقصد سمجھنا ہے۔ مترجم)

کافی جلد ۲ ص ۶۱۷ حدیث ۱

قول مولف: ملاحظہ ہو عبادہ

۵ ۔ خشوع

قرآن مجید

( الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبهم لذکر الله وما نزل من الحق ولا لکونوا کالذین اتوا الکتاب من قبل فاطل علیهم الامد فقست قلوبهم وکثیر منحم فاسقون ) (حدید/ ۱۶)

ترجمہ۔ کیا ایمانداروں کے لئے ابھی تک وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد اور قرآن کے لئے جو (خدا کی طرف سے) نازل ہوا ہے، ان کے دل نرم ہوں اور وہ ان لوگوں کے جیسے نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب (توریت و انجیل) دی گئی تھی۔ یعنی جب ایک طویل عرصہ گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے زیادہ بدکار ہیں۔

۱۶۵۴۰ ۔ امام رضا علیہ السلام خراسان کے راستے میں رات کو اپنے بستر میں قرآن مجید کی بہت زیادہ تلاوت فرماتے، جب کسی ایسی آیت تک پہنچتے جس میں جنت یا دوزخ کا ذکر ہوتا تو آنسو بہاتے اور خدا سے جنت کی دعاکرتے اور دوزخ سے پناہ مانگیت۔

عیون اضبار الرضا علیہ السلام جلد ۲ ص ۱۸۲ حدیث ۵

۱۶۵۴۱ ۔ جب میں قرآن کی تلاوت کرتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میں بوڑھا کیسے نہیں ہوا؟

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۶ ص ۲۵۸ حدیث ۴۲

۱۶۵۴۲ ۔ قرآن مجید کو حزہ کی صورت میں پڑھا کرو کیونکہ وہ نازل ہی اسی صورت میں ہوا ہے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۷۷۷

۱۶۵۴۳ ۔ قرآن کی تلاوت کرو اور آنسو بہاؤ۔ اگر رو نہیں سکتے تو رونے کی شکل بناؤ۔ جو شخص قرآن مجید کو راگ سے پڑھے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ( ۲۷۹۴

۱۶۵۴۴ ۔ جو آنکھ بھی قرآن کی تلاوت میں آنسو بہائے گی وہ قیامت کے دن ٹھنڈک پائے گی۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۳۴ ۔

۱۶۵۴۵ ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہح وسلم سے پوچھا گیا کہ کس شخص کی قرأت سب سے بہتر ہے تو فرمایا: "اس شخص کی قرأت بہترین ہے کہ جب تم اس کی قرائت سنو تو یہ دیکھو کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے!"

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۱۴۳

قول مولف، ملاحظہ ہو حدیث ۱۶۵۱۱

( ۲۱) تلاوت سے مانع امور

۱۶۵۴۶ ۔ قرآن کو عربوں کی آواز اور لب و لہجے میں پڑھو اور فاسق و فاجر لوگوں کے لب و لہجے میں نہ پڑھو کیونکہ میرے بعد ایسی قومیں آئیں گی جو قرآن مجید کو گانے کی، میت پر واویلا کرنے اور کمزور و لاتعلق قسم کی آوازوں میں تلاوت کریں گی، قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، ان کے دل الٹے ہوں گے، اور ان لوگوں کے دل بھی جو ان حالتوں سے خوش ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۶۱۴ حدیث ۳

۱۶۵۴۷ ۔ مجھے ڈر ہے کہ تم دین کو بے وقعت کرو دو گے اور قرآن کو گیت بنا لو گے"

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۹۴ حدیث ۸

۱۶۵۴۸ ۔ ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ قرآن کو جنب کی حالت میں پڑھیں۔

(عبداللہ بن رواحہ) کنزالعمال حدیث ۴۲۰۱

۱۶۵۴۹ ۔ جو شخص قرآن کی تلاوت کے ذریعہ لوگوں کو کھوکھلا کر دے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ ا س کا چہرہ ہڈی کا ڈھانچہ ہو گا جس پر گوشت نہیں ہو گا۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۴۳ قول مولف ملاحظہ ہو باب ۲۳ اور ۲۴

( ۲۲) جن پر قرآن لعنت کرتا ہے

۱۶۵۵۰ ۔ بہت سے ایسے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۴ حدیث ۱۹

۱۶۵۵۱ ۔ قرآن صرف تلاوت اور علم حرص حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ قرآن ہدایت اور علم و سمجھ بوجھ کے لئے ہے۔

(رسول اکرم) کنزل العمال حدیث ۲۴۶۲

۱۶۵۵۲ ۔ تو قرآن کی ایسی چیزیں پڑھتا ہے جو تجھے برائیوں سے روکتی ہیں پس جب تو برائیوں سے نہیں رکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو قرآن پڑھتا ہی نہیں۔

(رسول اکرم) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۲۳

۱۶۵۵۳ ۔ قرآن کی ایسی آیات پڑھو جو تمہیں برائیوں سے روکتی ہوں۔ پس اگر تم برائیوں سے رکتے نہیں تو گویا تم قرآن پڑھتے ہی نہیں۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۷۷۶

۱۶۵۵۴ ۔ دنیا میں صرف چار چیزیں بے محل اور مظلوم ہیں۔ ۱ ۔ ظالم کے اندر قرآن (جو صرف حفظ کرکے قرآن کی حدود بھول جائے) ۲ ۔ مسجد ایسے لوگوں کے درمیان جو اس میں جا کر نماز نہ پڑھتے ہوں۔ ۳ ۔ قرآنِ مجید ایسے گھر میں جس نہ پڑھا جاتا ہو اور ۴ ۔ نیک آدمی بری قوم میں۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۴۵

( ۲۳) فاجر قاری

۱۶۵۵۵ ۔ میری امت کے اکثر قاری منافق ہیں۔

(رسول اکرم) مصباح الشریعہ ۳۷۳

۱۶۵۵۶ ۔ دوزخ میں لوہے کا ایک گرز ہے جسے مجرم قاریوں اور علماء کے سر پر مارا جائے گا۔ (رسول اکرم) جامع الاخبار ص ۱۳۰ و ص ۲۵۴

۱۶۵۵۷ ۔ جو شخص ظالم حاکم کے حضور جا کر اس ارادے سے قرآن کی تلاوت کرے کہ اس دنیاوی عزت افزائی ہو تو سننے والے پر ہر حرف کے بدلہ ایک دفعہ لعنت کی جائے گی لیکن قاری کو ہر حرف کے بدلے دس لعنتیں پڑیں گی۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) الاختصاص ص ۲۶۲

۱۶۵۵۸ ۔ جو شخص قرآن کو دنیا اور اس کی زینتوں کے لئے سیکھے، خدا اس پر جنت حرام قرار دے دیتا ہے۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۱۰۰ حدیث ۱

( ۲۴) قاریوں کی قسمیں

۱۶۵۵۹ ۔ ایاس بن عامر سے مخاطب ہو کر فرمایا:

اے عکر کے بھائی! اگر تو زندہ رہا تو دیکھے گا کہ قرآن پڑھنے والوں کی تین قسمیں ہوں گی: ایک قسم خدا کے لئے، دوسری دنیا کے لئے اور تیسری لڑائی جھگڑے (ذاتی برتری) کے لئے قرآن پڑھے گی۔ اگر تو خدا کے لئے قرآن پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کام ضرور کر۔

(حضرت امام علی) کنزالعمال حدیث ( ۴۱۹۲

۱۶۵۶۰ ۔ قاری تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو اس لئے قرآن پڑھتے ہیں کہ بادشاہوں کا قرب حاصل کریں اور لوگوں پر احسان جتائیں۔ یہ قسم دوزخیوں کی ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو الفاظ کو یاد تو کر لیتے ہیں لیکن اس کے حدود و قیود کو ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ قسم بھی دوزخیوں کی ہے۔ تیسری قسم ایسے قاریوں کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں تو اپنے آپ کو اس کے سایہ میں چھپا دیتے ہیں پس ایسے قاری اس کی محکمات پر عمل کرتے اور متشابہات پر یقین رکھتے ہیں، اس کے فرائض بجا لاتے ہیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانتے ہیں۔ یہ قسم ایسی ہے جسے خدا نے بلاؤں اور گمراہیوں سے بچایا ہے اور یہ جنت والے ہیں اور جس کے بارے میں بھی چاہیں شفاعت کر سکتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) خصال صدوق جلد ۱ ص ۱۴۳ حدیث ۱۶۵

۱۶۵۶۱ ۔ قرآن کے قاری تین قسم کے ہیں۔ پہلا ایسا آدمی جو قرآن پڑھتا ہے اور اسے اپنا ذریعہ معاش بنا لیتا ہے، تو بادشاہ اس کی عزت کرتے ہیں۔ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ دوسرا ایسا آدمی ہے جو قرآن پڑھ کر اس کے حروف کو تو باقی رکھتا ہے لیکن اس کے حدود کو ضائع کر دیتا ہے۔ قرآن کے ایسے قاری بہت زیادہ ہیں۔ خدا انہیں برکت نہ دے۔ تیرا وہ شخص ہے جو قرآن پڑھ کر اسے اپنے دل کا مرہم بناتا ہے۔ اسی کے ذریعے راتیں گزارتا ہے۔ دنوں کو روزے رکھتا ہے اور مساجد میں اسے قائم رکھتا ہے۔ یہ لوگ اپنے کپڑوں کے نیچے سر چھپا کر گڑگڑاتے ہیں۔ پس انہی لوگوں کے ذریعہ خدا بلاؤں کو ٹالتا ہے، دشمنوں کو نیست کرتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے۔ خدا کی قسم، خدا کو ایسے قاری سرخ سونے سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۸۲

۱۶۵۶۲ ۔ لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اس لئے قرآن کا علم حاصل کرتے ہیں کہ انہیں یہ کہا جائے کہ یہ فلاں قاری ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کا مقصد آواز کا جوہر دکھانا ہوتا ہے تاکہ یہ کہا جاےء کہ فلاں شخص سریلا ہے جبکہ اس میں کوئی اچھائی نہیں ہے اور ان لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو قرآن کا علم اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ اپنا دن رات اس سے گزاریں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ کوئی انہیں قاری جانے یا نہ جانے۔ (پس ایسے لوگ ہی نجات یافتہ ہیں)۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۶۰۸ حدیث ۶

۱۶۵۶۳ ۔ جو شخص دکھاوے اور کسی چیز کی طلب کے لئے قرآن مجید پڑھتا ہے وہ قیامت کے دن خداوندِ عالم کی ملاقات ا س حالت میں کرے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گاجو شخص قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے خدا اسے قیامت کے دن اندھا محشور کرے گا۔ پس وہ کہے گا "اب لم حشر تنی اعمیٰ" (طہ/ ۱۲۵) ترجمہ: اے میرے رب تو نے مجھے اندھا محشور کیوں کیا؟ (رسول اکرم) توابالاعمال ص ۳۳۷ حدیث ۱

( ۲۵) قرآن مجید کا استماع

۱۶۵۶۴ ۔ آگاہ رہو جس کو بھی جنت کا شوق ہو اسے چاہے کہ وہ قرآن غور سے سنے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۷۲

۱۶۵۶۵ ۔ جس شخص نے قرآن کی ایک آیت کو بھی غور سے سنا تو یہ اس کے لئے ایک بلیر سونا حاصل کرنے سے بھی بہتر ہے اور بلیر یمن کے عظیم پہاڑ کا نام ہے۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۰ حدیث ۸ ة

۱۶۵۶۶ ۔ قاری قرآن سے دنیاوی مصیبت اور قرآن کو غور سے سننے والے سے آخرت کی مصیبت دور کی جائے گی۔

(رسول کریم) کنزالعمال حدیث ۴۰۳۱

۱۶۵۶۷ ۔ جس شخص نے قرآن مجید کی ایک آیت کو غور سے سنا اس کے لئے دوہری نیکی لکھی جائے گی اور جس نے کتابِ خدا کی ایک آیت کی تلاوت کی تو اس کے لئے قیامت کے دن ایک خاص نور ہو گا۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۳۱۶

( ۲۶) استماع کے آداب

قرآن مجید

( واذا قریٴ القرآن فاستمعوا له و انصتوا اعلکم ترحمون ) " (اعراف/ ۲۰۴)

ترجمہ۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کے سنو اور چپ چاپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

قرآن مجید

"قل آمنوا به الولا تو منوا ان الذین اوتوا العلم من قبله اذا یتلی علیهم یحزون للازقان سجدا و یقولون سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولا و یحزون للازقان یبکون و یزیدهم خشوعاً

(اسراء/ ۱۰۷ تا ۱۰۹)

ترجمہ۔ (اے رسول) کہہ دو کہ خواہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں کو اس کے قبل (آسمانی کتابوں کا) علم عطا کیا گیا ہے ان کے سامنے جب یہ پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل (منہ کے بل) سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار (ہر عیب سے) پاک و منزہ ہے۔ بیشک ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔ یہ لوگ (سجدہ میں) منہ کے بل گر پڑتے ہیں، روتے جاتے ہیں اور قرآن ان کی خاکساری کو بڑھاتا جاتا ہے۔

قرآن مجید

( اولئک الذین انعم الله علیهم من النبیین من ذریة آدم و من حملنا مع نوح و من ذریوه ابراهیم واسرائیل و ممن هدینا و اجبنا اذا تتلیٰ علیهم ایات الرحمٰن خروا سجده و بکیا ) (مریم/ ۵۸)

ترجمہ۔ یہ انبیاء جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی، آدم کی اولاد سے ہیں، ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کر لیا تھا، ابراہیم و یعقوب کی اولاد سے ہیں، ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا۔ جب ان کے سامنے خدا کی (نازل کی ہوئی) آیات پڑھی جاتی ہیں تو زار و قطار روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔

قرآن مجید

( الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبهم لذکرالله وما نزل من الحق ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتاب من قبل فطال علیهم الامد فقست قلوبهم وکثیر منهم فاسقون ) (حدید/ ۱۶)

ترجمہ۔ کیا ایمانداروں کے لئے ابھی تک کا وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد و قرآن کے لئے جو خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ان کے دل نرم ہوں اور وہ ان لوگوں کے سے نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب (توریت و انجیل) دی گئی تھی، تو جب ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے زیدہ تر بدکار ہیں۔

۱۶۵۶۸ ۔ جب زرارہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے قرآن مجید کو سننے والے پر دل لگا کے سننے اور چپ چاپ رہنے کے وجوب کے متعلق سوال کیا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "ہاں تمہارے نزدیک جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو تم غور سے سننا اور چپ رہنا واجب ہے۔"

بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۲۲ حدیث ۷

۱۶۵۶۹ ۔ خداوند عالم مومنین سے فرماتا ہے "( واذاقریٴ القرآن ) " یعنی جب قرآن پڑھا جائے، یعنی فرض نمازوں میں امام کے پیچھے تو "فاستمعوالہ" غور سے سنو

(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۲۱ حدیث ۳

۲۷) قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی

۱۶۵۷۰ ۔ خداوند عالم نے جو آیت بھی نازل فرمائی ہے اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور، ہر حرف کے علیحدہ حدود ہیں اور ہر حدبندی جدا و اعلیٰ ہے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۶۱

۱۶۵۷۱ ۔ کتاب خدا چار چیزوں پر مشتمل ہے: عبادت پر، اشاروں پر، لطیف باتوں پر اور حقائق پر۔ پس عبارت عام لوگوں کے لئے ہے، اشارے خواص کے لئے ہیں، لطیف باتیں اولیاء خدا کے لئے ہیں اور حقائق فقط انبیاء کے لئے مخصوص ہیں۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۰ حدیث ۱۸ ۔

۱۶۵۷۲ ۔ قرآن کا ایک باطن ہے اس باطن کا عنصر ایک باطن ہے اس کا ظاہر بھی ہے اور ا س ظاہر کا بھی ایک ظاہر ہے لوگوں کے عقل سے تفسر قرآن سے زیادہ اور کوئی چیز دور نہیں ہے کیونکہ ایک آیت کا پہلا حصہ کسی ایک چیز کے بارے میں ہے، تو آخری حصہ کسی دوسری چیز کے بارے میں ایسا متصل کلام ہے جو کئی صورتوں میں ڈھل سکتا ہے۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۹۲ ص ۹۵ حدیث ۴۸

۱۶۵۷۳ ۔ قرآن کا ظاہر بہت ہی خوبصورت اور باطن بہت ہی گہرا ہے۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸

۱۶۵۷۴ ۔ پورے کا پورا قرآن (ظاہراً) دہلا دینے والا ہے جبکہ قرآن کا باطن خدا سے نزدیک کرنے والا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) معانی الاخبار ص ۲۳۲ حدیث ۱۰

قول مولف، ملاحظہ ہو بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۶۸ باب ۸

( ۲۸) تفسیر بالراء کرنے کی ممانعت

۱۶۵۷۵ ۔ خداوند عزو جل فرماتا ہے: وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جس نے میرے کلام کی تفسیر اپنی طرف سے کی۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جدل ۹۲ ص ۱۰۸ حدیث ۱

۱۶۵۷۶ ۔ جس نے قرآن کی تفسیر بالرائی کی اگر حقیقت تک پہنچ بھی گیا تو اسے ثواب نہیں ملے گا اور اگر اس نے خطا کی تو اس کا گناہ خود اس پر ہی ہو گا۔

(امام جعف صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۱۰ حدیث ۱۱

۱۶۵۷۷ ۔ جس نے بھی قرآن کے بارے میں علم کے بغیر بات کی تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں تیار رکھے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۵۸

۱۶۵۷۸ ۔ جو شخص قرآن کی تفسیر بالرائی کرتا ہے وہ حقیقت تک پہنچ بھی جائے پھر بھی خطاکار ہے۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۱۱ حدیث ۲۰

۱۶۵۷۹ ۔ جو شخص قرآن کے بارے میں بغیر علم کے بات کرے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگاموں سے جکڑا ہوا لایا جائے گا۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۱۱ حدیث ۲۰

۱۶۵۸۰ ۔ میں اپنے بعد اپنی امت میں سے ان لوگوں سے زیادہ خوفزدہ ہوں جو قرآن کی بے محل تاویلیں کریں گے۔

(رسول اکرم) منیة المرید ص ۳۶۹

۱۶۵۸۱ ۔ معاویہ کی طرف ایک خط میں فرمایا: "تم نے قرآن کی غلط تاویل کرکے دنیا پر حملہ کو جائز قرار دے دیا۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خط ۵۵

قولِ مولف ملاحظہ ہو تفسیر المیزان جلد ۳ ص ۴۴ " تاویل کے کیا معنی ہیں؟"

اور اسی کتاب کے عنوان ۱۷۶ " رای عقیدہ ( ۲)

( ۲۹) قرآن کی معرفت رکھنے والے

۱۶۵۸۲ ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے قتادہ بن دعامہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: "اے قتادہ کیا تُو اہل بصرہ کا فقیہ ہے؟" کہا: "لوگ ایسا ہی گمان کرتے ہیں۔" فرمایا: "سنا ہے تم قرآن کی تفسیر بھی کرتے ہو؟" کہا: "جی ہاں" امام نے فرمایا: "علم کے ساتھ تفسیر کرتے ہو یا اپنی طرف سے" کہا: نہیں علم کے ساتھ تفسیر کرتا ہوں" یہاں تک کہ امام نے فرمایا: "اے قتادہ قرآن کی معرفت وہ لوگ رکھتے ہیں جن کے ساتھ وہ مخاطب ہو۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۸ ص ۳۱۱ حدیث ۴۸۵ ۔

۱۶۵۸۳ ۔ اے لوگو یہی قرآن ہے اس سے بات کرو جبکہ تم اس سے ہرگز بات نہیں کر سکتے۔ لیکن میں تمہیں اس کی خبریں دیتا ہوں۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۸ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۹ ص ۲۱۷

۱۶۵۸۴ ۔ اہلبیت علیھم السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے: "یہ لوگ حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچ کی زبان ہیں، جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکتے ہیں۔ وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو۔"

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۸۷

۱۶۵۸۵ ۔ خداوند عالم نے ہم اہلبیت کی ولایت کو قرآن کا بلکہ تمام آسمانی کتابوں کا محور قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی محکم آیتیں اسی کے اردگرد گھومتی ہیں، اسی کے ذریعے انبیاء کو آسمانی کتابیں عنایت کی گئی ہیں اور ان سے ایمان کا پتہ چلتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۷ حدیث ۲۹

( ۳۰) قرآنی آیتوں کی قسمیں

قرآن مجید

"ھوالذی انزل علیک التکاب منہ آیات محکمات ھین ام الکتاب واخر متشابھات فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنة واتبغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الا اولو الالباب" (آل عمران/ ۷)

ترجمہ۔ (اے رسول) وہی وہ (خدا) ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔ اس کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں، وہی (عمل کرنے کیلئے) کتاب کی اصل (اور بنیاد) ہیں۔ کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مجول ہیں جس کے معنی میں کئی پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (وہ) انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فساد برپا کریں اور اس خیال سے کہ انہیں اپنے مقلب کے مطابق ڈھالیں، حالانکہ خدا اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پایہ پر فائز ہیں، ان کا اصلی مطلب کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب (محکم ہو یا متشابہ) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور انہیں عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔"

حدیث شریف

۱۶۵۸۶ ۔ قرآن پانچ وجہوں پر نازل ہوا ہے۔ حلال حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ پس حلال پر عمل کرو، حرام کو چھوڑو، محکمات پر عمل کرو، متشابہات کو چھوڑو اور مثالوں سے عبرت حاصل کرو۔

(رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۱۸۶ حدیث ۳

۱۶۵۸۷ ۔ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے: حکم دینے والے، روکنے والے، شوق دلانے الے، ڈرانے والے، مقابلہ (تشابہ) کے لئے، قصوں کے لئے اور مثالوں کے لئے۔

(رسول اکرم) العمال حدیث ۳۰۹۶

۱۶۵۸۸ ۔ خداوند عالم نے قرآن کو سات اقسام پر نازل کیا۔ لن میں ہر ایک کافی و شافی ہے۔ وہ یہ ہیں: حکم، منع، تشویق، خوف دلانا، جدل، مثالیں اور قصے۔ قرآن میں ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، خاص و عام، مقدم و موخر آیات، واجب و رخصت والے سجدے، حلال و حرام، فرائض واحکام، منفطع و معطوف آیات۔ منفطع اور بغیر عطف والی آیتیں، بعض حروف دوسرے حروف کی جگہ ہیں۔ ان تمام میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے الفاظ خاص ہیں، بعض ایسے ہیں جن کے الفاظ عام اور کئی احتمالات کے حامل ہوتے ہیں، ان میں سے بعض کے الفاظ تو واحد ہیں لیکن معنی جمع کے ہیں، بعض اس کے الٹ ہیں اور، بعض ایسے ہیں جن کے الفاظ تو ماضی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن معنی مستقبل کے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جن کے الفاظ تو خبر کے انداز میں ہیں لیکن درحقیقت وہ دوسری قوموں کی حکایات ہوتی ہیں، بعض ایسے ہیں جو اپنی جہت سے ہٹ کر بھی اپنے معنی پر باقی ہیں، بعض ایسے ہیں جن کے معانی ان کی تنزیل کے خلاف ہیں، بعض کی تاویلیں اس کی تنزیل کے اندر چھپی ہوئی ہیں، بعض کی تاویلیں اس کی تنزیل سے پہلے اور بعض کی تاویلیں اس کی تنزیل کے بعد آئی ہیں، بعض ایسی آیتیں ہیں جن کا کھ حصہ ایک سورت میں اور باقی حصہ دوسری سورت میں ہے۔ ایسی آیات بھی ہیں جن کا آدھا حصہ منسوخ ہو چکا ہے اور باقی آدھا اپنی حالت پر باقی ہے۔ کچھ آیات کے الفاظ ایک جیسے لیکن معنی مختلف ہوتے ہیں، کچھ آیات اس کے الٹ ہیں اور کچھ آیتوں میں لزوم کے بعد رخصت و چھوٹ ہوتی ہے کیونکہ خداوند تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس کے عزائم اور لازمی باتوں کو لیا جائے اسی طرح رخصت والی باتوں کو بھی لیا جائے، کچھ آیات کے بارے میں اختیار ہے چاہے تو لینے والا ان پر عمل کرے، چاہے اس کو چھو ڑدے، کچھ آیات میں رخصت ہے۔ ان کا باطن ان کے ظاہر کے خلاف ہوتا ہے۔ تقیہ کے وقت اس کے ظاہر پر عمل کیا جائے گا، باطن پر نہیں۔ کچھ آیات میں خطاب ایک قوم سے ہے لیکن مراد دوسری قومیں ہیں۔ کچھ آیات میں خطاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے لیکن مراد ان کی امت ہے، کچھ چیزو ں کی حرمت فقط ان کی حلیت کے ذریعے معلوم ہوتی ہے، کچھ آیتوں کی تالیف اور تنزیل اس چیز کے الٹ ہے جس پر وہ آیت نازل ہوئی تھی۔ کچھ آیتوں میں خدا کی طرف سے تمام ملحد، زندیق، دہریہ، ثنویہ (دو خدا کے قائل) ، قدریہ، جبریہ، بت پرستوں اور آگ کی پوجا کرنے والوں کے دلائل کو رد کرکے ان پر حجت قائم کر دی گئی ہے۔ ان میں سے ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسیحیوں سے حضرت عیسیٰ کی ذات کے بارے میں مناظرہ کیا گیا ہے اور ان آیتوں میں یہودیوں کا رد بھی پیش کیا گیا ہے ان آیتوں میں سے بعض میں ان لوگوں کے گمان کو بھی رد کر دیا گیا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ ایمان اور کفر کا ایک ہی درجہ ہے یہ دونوں نہ ہی گھٹتے ہیں اور نہ ہی بڑھتے ہیں۔ کچھ میں اس گمان کا رد بھی ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ موت کے بعد اور قیامت سے پہلے سزا و جزا نہیں ہے۔

(امام علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۳ باب ۴ ( صفحہ ۴)

( ۳۱) محکم اور متشابہ آیات

۱۶۵۸۹ ۔ جب حضرت علی علیہ السلام سے قرآن مجید میں محکم اور متشابہ آیتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: "سب سے صریح اور محکم آیت جس کو قرآن کی کسی دوسری آیت نے نسخ بھی نہیں کیا خدا تعالیٰ کا یہ قول "ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن ام الکتاب و اخرمتشابھات" (آل عمران/ ۷)

ترجمہ: (یہ خدا) وہی ہے جس نے (اے رسول) تم پر قرآن نازل کیا جس میں محکم (صریح) اور متشابہ (کئی پہلو والی) آیات ہیں جن میں محکم آیات قرآن کا اصل ہیں۔ لوگ تو صرف متشابہ آیتوں میں ہلاکت میں پڑ گئے کیونکہ وہ ان کے معنی سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ پس ان آیتوں کے لئے انہوں نے اپنی طرف سے تاویلیں گھڑ لیں اور اس طرح سے آئمہ سے سوال کرنے سے بے نیاز ہو گئےقرآن میں متشابہ ترین آیت کہ جو انحراف کا باعث ہے وہ الفاظ میں تو متفق لیکن معنی میں مختلف ہے۔ وہ یہ ہے "یضل اللہ من یشاء و یھدی من یشاء" (مدثر/ ۳۱) یعنی "اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کر دیتا ہے۔" یہاں اللہ نے گمراہ کرنے کی اپنی طرف نسبت دی ہے حالانکہ یہ خود ان کی اپنی کرتوتوں کے ذریعہ جنت کے راستے سے گمراہی ہوتی ہے، جبکہ دوسری جگہ اسی گمراہی کو نسبت کافروں سے اور تیسری جگہ بتوں سے دی گئی ہے،

(امام علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۳ باب ۱۱

ملاحظہ ہو: مکمل کلام اور "گمراہی کے وجوہات" "قضاء (تقدیر) میں متشابہ" اور باب "فتنہ کی تفسیر"

۱۶۵۹۰ ۔ جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ محکم اور متشابہ کیا ہیں، تو فرمایا: "محکم وہ وہیں جن پر ہم عمل کرتے ہیں اور متشابہ وہ ہے جو اس سے ناواقف پر متشبہ ہو جائے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۸۲ حدیث ۱۵

۱۶۵۹۱ ۔ محکم وہ ہیں جن پر عمل کیا جائے اور متشابہ وہ ہیں جن کا بعض حصہ دوسرے بعض کے مشابہ ہو۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۸۳ حدیث ۱۹

۱۶۵۹۲ ۔ جو شخص قرآن کی متشابہ آیات کو محکمات کی طرف پلٹاتا ہے وہ سیدھے راستے کا راہی ہے۔

(امام رضا علیہ السلام) عیون اخبارالرضا علیہ السلام جلد ۱ ص ۲۹۰ حدیث ۳۹۰

قولِ مولف: علامہ طباطبائی آئمہ معصومین علیھم السلام سے مروی روایات کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں: "جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے یہ روایات جو متشابہ کی تفسیر میں آئی ہیں ایک جیسی ہیں اور ہماری ان پچھلی باتوں کی تائید کرتی ہیں جو ہم نے کہا تھا کہ تشابہ ابہام کے دور ہونے سے پہلے ہے (ایسا نہیں ہے کہ تشابہ کبھی بھی قابل حل نہ ہو بلکہ) محکمات کی طرف پلٹا کر اور انہی کی تفسی کے ذریعہ سے ان کا ابہام دور ہو سکتا ہے۔ منسوخ آیتوں کے متشابہ کی طرح ہونے کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کیونکہ منسوخ آیت کا ابہام اس میں ہوتا ہے کہ ان آیات کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس حکم کواس آیت نے بیان کیا ہے وہ دائمی ہے لیکن ناسخ آیت آ کر اس کی تفسیر کرتی ہے اور یہ سمجھاتی ہے کہ مذکورہ حکم دائمی نہیں بلکہ عارضی تھا۔ بہرحال جو روایت عیون اخبار الرضا علیہ السلام میں اس کی بابت آئی ہے کہ آئمہ کی روایات میں بھی قرآن کے محکم اور متشابہ کی طرح محکم اور متشابہ موجود ہوتے ہیں، (تو یہ ایک علیحدہ مسلم بات ہے کہ) جس کے بارے میں آئمہ علیھم السلام کی کئی مستفیض روایتیں بھی موجود ہیں۔ عقلی لحاظ سے بھی اس کی تقویت اور تصدیق ہوتی ہے۔ کیونکہ (روایات بھی قرآن مجید کی ساتھی ہیں اور) روایتوں میں صرف وہی چیزیں ہوں گی جو قرآن مجید میں پائی جائیں گی اور جن ابحاث کو قرآن مجید نے چھیڑا ہے روایتیں انہی کو بیان کرتی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ تشابہ معنی کے ان اوصاف میں سے ہے جنہیں لفظ سمجھاتا ہے اور وہ وصف یہ ہے کہ ایک لفظ کا ایسا معنی ہو جو کہنے والے کے مقصد کو بھی پہنچاتا ہو اور غیرمتعلقہ معنی بھی ذہن میں آتا ہو جو کہنے والے کا مقصد نہ ہو (جس کو اردو شاعری کی اصطلاح میں ابہام بھی کہا جاتا ہے جس طرح شاعر کا کہنا ہے:

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن رات کاٹی خدا خدا کرکے

یہاں پر شاعر کی مراد ذکر خدا اور عبادت و شب بیداری ہے وہ نہیں جو اس کے ظاہر سے سمجھ میں آتا ہے) تشابہ لفظ کے اوصاف سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ غرابت (لفظ کے کم استعمال ہونے کی وجہ سے تقریباً متروک ہونا) اور نہ ہی اجمال کی طرح ہے کہ جن کا تعلق لفظ کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ معنی کے ساتھ، نہ ہی لفظ اور معنی دونوں کے مجموعی و عام اوصاف سے اس کا تعلق ہے۔ (فقط اس کا تعلق معنی کے ساتھ ہے)۔ دوسرے لفظوں میں اگر بعض آیات متشابہ ہیں تو صرف اس لحاظ سے متشابہ ہیں کہ ان کے بیانات ان مثالوں کی طرح ہیں جو سچے خدائی معارف کی نسبت جاری ہوتے ہیں۔ اور یہی بات بعینہ روایتوں پر بھی صادق آتی ہے یعنی روایتوں میں بھی محکم و متشابہ پائی جاتی ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ ہم انبیاء کا گروہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرتے ہیں۔"

تفسیر المیزان جلد ۳ ص ۶۸ ( حدیث ۱۶۵۹۳ رہ گئی ہے) ملاحظہ ہو بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۷۳ باب ۱۲۷

( ۳۲) قرآنی اشارے

۱۶۵۹۴ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس مثال کے تحت بھیجا (اور قرآن نازل کیا) کہ بات تو تجھ سے کر رہا ہوں لیکن اے پڑوسن تو بھی سن (مخاطب تو رسول ہیں لیکن ارادہ امت کو سنانے کا ہے)

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۳۸۱ حدیث ۱۲

۱۶۵۹۵ ۔ قرآن مجید "تجھ سے مخاطب ہوں اور پڑوسن تو سن" والی مثال کے تحت نازل ہوا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۶۳۱ حدیث ۱۴

۱۶۵۹۶ ۔ اللہ تعالیٰ نے جو عتاب اور سرزنش رسولِ کریم کو کی ہے اس سے مراد گزشتہ لوگ ہیں جو قرآن میں مذکور ہو چکے ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے "ولو لا ان ثبناک لقد کدت ترکن الیھم شیئا قلیلا" (بنی اسرائیل/ ۷۴) ترجمہ: اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے تمہیں ثابت قدم رکھا ہے تو تم ان کی جانب کچھ نہ کچھ مائل ہو جاتے۔" خدا نے اس سے نبی کی ذات کے علاوہ دوسروں کو مراد لیا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر العباسی جلد ۱ ص ۱۰ حدیث ۵

۱۶۵۹۷ ۔ خداوندِ عالم کا یہ فرمانا: "( عفاالله عنک لم اذنت لهم ) " (توبہ/ ۴۳)

ترجمہ۔ (اے رسول) خدا تم سے درگزر فرمائے۔ تم نے انہیں اجازت ہی کیوں دی۔ نیز خداوند عالم کی یہ بات "( لئن اشرکت لیحبطن عملک ) " (زمر/ ۶۵) ترجمہ: اگر کہیں شرک کیا تو یقینا تمہارے سارے عمل اکارت جائیں گے۔ اور یہ فرمان بھی "( لا لو ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم ) " (بنی اسرائیل/ ۷۴) ترجمہ: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے تمہیں ثابت قدم رکھا تو تم ان کی طرف مائل ہو جاتے" یہ سب اس مثال کے تحت ہیں کہ مخاطب تجھ سے ہوں اور اے پڑوسن تو سن (یعنی مراد رسول کی ذات نہیں ہے بلکہ امت ہے)۔

(امام رضا علیہ السلام) علیون اخبارالرضا علیہ السلام جلد ۱ ص ۲۰۲ حدیث ۱۰

( ۳۳) قرآنی وجوہات

۱۶۵۹۸ ۔ عبداللہ بن عباس کو جب خوارج سے مناظرہ کے لئے بھیجتے ہیں تو حضرت علی علیہ السلام ان سے فرماتے ہیں: "قرآن کی مدد سے ان سے کبھی مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی وجوہات کا حامل ہے۔ اگر تم قرآن سے دلیل لاؤ گے تو وہ بھی قرآن ہی سے دلیل پیش کریں گے، لہٰذا تم ان سے سنت کی مدد سے مناظرہ کرو کیونکہ سنت سے وہ کبھی فرار نہیں کر سکتے۔

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خط نمبر ۷۷

۱۶۵۹۹ ۔ میں نے ابن عباس سے خوارج کے بارے میں جنہوں نے تحکیم اور حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کی خلافت سے انکار کر دیا تھا کہتے ہوئے سنا: "پس بارہ ہزار خارجی علیحدہ ہو گئے تو علی علیہ السلام نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ ان کی طرف جاؤں، مناظرہ کروں اور، انہی کتاب اور سنت کی طرف بلاؤں اور قرآن کی مدد سے ان کے ساتھ مناظرہ نہ کروں کیونکہ وہ کئی چہروں والا ہے لہٰذا سنت کے ذریعہ مناظرہ کروں۔

(عکرمہ) درمنثور جلد ۱ ص ۴۰

۱۶۶۰۰ ۔ قرآن کئی چہروں والا ہے پس اسے بہترین وجہ پر ہی حمل کرو۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۴۶۹

( ۳۴) ام القرآن (قرآن کی اصل)

۱۶۶۰۱ ۔ "( الحمد لله رب العالمین ) " ام القرآن بھی کتاب کی اصل اور سبع مثانی ہے۔

(رسول اکرم) در منثور جلد ۱ ص ۱۲

۱۶۶۰۲ ۔ "( الحمد لله رب العالمین ) " کی سات آیتیں جن میں "( بسم الله الرحمن الرحیم ) " بھی ایک ہے سبع مثانی اور قرآن عظیم ہیں اور یہی ام القرآن بھی ہیں۔

(رسول اکرم) درمنثور جلد ۱ ص ۱۲

۱۶۶۰۳ ۔ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعید بن معلیٰ کو اس کی نماز کی حالت میں پکارا اور اس نے جواب نہ دیا تو اس سے فرمایا: "کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا اور اس کا رسول تمہیں جب بھی پکاریں تو ان کا جواب دو؟"

پھر فرمایا: "میں تمہیں مسجد سے خارج ہونے سے پہلے قرآن کی عظیم ترین سورت کے بارے میں بتاؤں گا" انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا پھر جب ہم نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں عظیم ترین سورت کے بارے میں بتاؤں گا۔" حضرت نے فرمایا: "سورہ حمد! یہ سبع مثانی بھی ہے اور قرآنِ عظیم بھی جو مجھے دیا گیا ہے۔"

(رسول اکرم) در منثور جلد ۱ ص ۱۳

۱۶۶۰۴ ۔ ام القرآن (سورہ فاتحہ) جیسی کوئی بھی چیز توریت، انجیل اور زبور میں نازل نہیں ہوئی۔

(رسول اکرم) در منثور جلد ۱ ص ۱۳

۱۶۶۰۵ ۔ جس شخص نے فاتحہ الکتاب (سورت حمد) کی تلاوت کی گویا اس نے توریت، انجیل زبور اور قرآن چاروں کی تلاوت کر لی۔

(رسول اکرم) در منثور جلد ۱ ص ۱۶

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو شیطان: تفسیر المیزان جلد ۳

ص ۴۳ عنوان "محکمات کتاب خدا کا اصل ہیں" سے کیا مراد ہے؟

( ۳۵) قرآن مجید کی عظیم ترین، عدل سے بھرپور اور سب سے زیادہ ڈرانے و امید دلانے والی آیات

۱۶۶۰۶ ۔ قرآن مجید کی عظیم ترین آیت آیت الکرسی اور عدل سے بھرپور آیت "ان اللہ یامر بالعمل والاحسان"آخر تک (نحل/ ۹۰)

ترجمہ۔ خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنےکا حکم دیتا ہے) اسی طرح سب سے زیادہ ڈرانے والی آیت "( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره و من یعمل مثقال ذرة شراً یره ) ) (زلزال/ ۷, ۸) ( ترجمہ: تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی کہ وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ اس کا بدلہ بھی دیکھ لے گا)۔ سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت( قل یا عبادی الذین اسرنوا علی انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله یغفر الذنوب جمیعاً ) " (زمر/ ۵۳) ( ترجمہ: (اے رسول) "کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے (گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں تم لوگ خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا بے شک خدا (تمہارے) کل گناہوں کو بخش دے گا۔") ہے۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۵۳۹ قول مولف ملاحظہ ہو "رجاء