میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 56720
ڈاؤنلوڈ: 6033

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56720 / ڈاؤنلوڈ: 6033
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۹

( ۱) مقرب افراد

قرآن مجید

( ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبدنا فتمنهم ظالم لفنسه ومنهم مقتصدو منهم سابق بالخیرات باذن الله ذلک هوالفضل الکبیر ) (فاطر/ ۳۲)

ترجمہ۔ پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو بالخصوص قرآن کا وارث بنایا جنہیں (اہل جان کر) منتخب کیا کیونکہ بندوں میں سے کچھ تو (نافرمانی کرکے) اپنی جان پر ستم ڈھاتے ہیں، ان میں سے کچھ (نیکی اور بدی کے) درمیان میں ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکوں میں (اوروں سے) گویا سبقت لے گئے ہیں۔ یہی (انتخاب و سبقت) تو خدا کا بڑا فضل ہے۔

قرآن مجید

( والسابقون السابقون اولئک المقربون ) (واقعہ/ ۱۰, ۱۱)

ترجمہ۔ اور جو لوگ آگے بڑھنے والے ہیں (واہ کیا کہنا!) وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں۔ یہی لوگ (خدا کے) مقرب ہیں۔

قرآن مجید

( فاما ان کان من المقربین فروح و ریحان و جنة نعیم ) (واقعہ/ ۸۸, ۸۹)

ترجمہ۔ پس اگر وہ (مرنے والے) خدا کے مقربین ہیں تو ان کے لئے آرام و آسائش، خوشبودار پھول اور نعمت کے باغات ہیں۔

قرآن مجید

( عینا یشرب بها المقربون ) (مطففین/ ۲۹)

ترجمہ۔ وہ ایک چشمہ ہے جس سے مقربین مستفیض ہوں گے۔

۱۶۶۰۷ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس قول( ثم اور ثنا الکتاب ) " کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "ظالم اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور مقتصد اپنے دل کو خوش رکھنے میں لگا رہتا ہے (اپنے لئے پاکیزگی کی کوشش میں رہتا ہے) جبکہ سابق اپنے پروردگار کی رضا کے گرد گھومتا ہے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) معانی الاخبار ص ۱۰۴ حدیث ۱

۱۶۶۰۸ ۔ اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا: "سابق بالخیرات سے مراد امام معصوم ہے، مقتصد سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا ہے اور ظالم لنفسہ سے مراد وہ شخص ہے جو امام کی معرفت نہیں رکھتا۔"

(امام علیہ السلام) کافی جلد ۱ ص ۲۱۴ حدیث ۱

۱۶۶۰۹ ۔ ایضاً: پس ہم میں سے ظالم لفنسہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیک کام کرتے جبکہ دوسرے (ہمارے مخالف) برے لوگ ہیں۔ مقتصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو عبادت گزار، اپنے لئے پاکیزگی کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، السابق بالخیرات سے مراد (حضرات) علی اور حسن اور حسن اور حسین علیھم السلام اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو شہید ہوئے ہیں۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) مجمع البیان جلد ۸ ص ۶۳۹

۱۶۶۱۰ ۔ ایضاً: "اے ابو اسحاق! یہ آیت خاص ہمارے لئے نازل ہوئی ہے۔ پس سابق بالخیرات سے مراد علی بن ابی طالب، حسن اور حسین علیھم السلام ہم (اہل بیت) سے شہید افراد مراد ہیں، مقتصد سے مراد (پرہیزگار) دن کو روزے رکھنے والے تمام رات نماز پڑھنے والے ہیں اور ظالم لنفسہ سے مراد عوام الناس ہیں جن کے گناہ اللہ بخش دے گا۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر المیزان جلد ۱۷ ص ۴۹

۱۶۶۱۱ ۔ ایضاً: السابق بالخیرات وہ لوگ ہیں جو جنت میں بغیر کسی حساب کے داخل ہوں گے، مقتصد سے تھوڑا بہت حساب لیا جائے گا۔ اور الظالم لفنسہ کو حساب و کتاب کے مقام پر پابند کرنے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا۔ پس یہ وہی لوگ ہیں جو کہیں گے:( الحمد لله الذی اذهب عنا الحزن ) (فاطر/ ۳۴)

ترجمہ۔ خدا کا شکر ہے جس نے ہم سے (ہر قسم) کا رنج و غم دور کر دیا۔

(رسول اکرم) مجمع البیان جلد ۸ ص ۶۳۸

۱۶۶۱۲ ۔ خداوند عالم کے قول( والسابقون الاولون من المهاجرین والانصار ) " اور "( والسابقون السابقون اولئک المقربون ) " کے بارے میں آنحضرت فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کو انبیاء اور اوصیاء کے بارے میں نازل کیا ہے۔ پس میں اللہ کے نبیوں اور میرے وصی علی بن ابی طالب (علیھما السلام) وصیوں میں سب سے افضل ہیں۔

(رسول اکرم) اکمال الدین ص ۲۷۶ حدیث ۲۵

۱۶۶۱۳ ۔ انجیل میں مرقوم ہے: "لوگوں میں اصلاح کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہو۔ یہی افراد ہی قیامت کے دن مقربین سے ہوں گے۔"

(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) تحف العقول ص ۳۹۳

( ۲) مقرب افراد کی عبادت

۱۶۶۱۴ ۔ تم پر سچے دل سے خلوص اور حسنِ یقین لازم ہے کیونکہ یہ مقرب افراد کی سب سے افضل عبادت ہے۔

(امام علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۶۱۵۹۰

۱۶۶۱۵ ۔ خدا کی راہ میں سخاوت مقرب افرا دکی عبادت ہے۔

(رسول اکرم) غررالحکم حدیث ۱۷۵۶

۱۶۶۱۶ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے تین آدمیوں کے پاس سے گزرے جن کے جسم لاغر اور رنگ تبدیل ہو چکے تھے۔ ان سے پوچھا: "میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ تم پر کیا افتاد آن پڑی ہے؟" انہوں نے کہا: "دوزخ کے خوف نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔" انہوں نے فرمایا: "خدا کے اوپر یہ حق ہے کہ وہ دوزخ سے ڈرنے والے کو اس سے بچائے۔" پھر تین اور آدمیوں کے پاس آئے۔ وہ ان سے بھی زیادہ لاغر و زرد رنگت والے تھے۔ ان سے بھی وہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: "جنت کے شوق نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔" حضرت عیسیٰ نے فرمایا: "خدا پر حق یہ ہے کہ تمہیں وہ چیز عطا کرے جس کی تم آس لگائے بیٹھے ہو۔" ان سے گزر کر پھر تین اور آدمیوں کے قرب آئے۔ وہ اور بھی زیادہ نحیف اور زرد پڑ چکے تھے، گویا ان کے چہرے نور کے آئینہ دار ہیں۔ ان سے بھی وہی سوال دہرایا: "تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ "انہوں نے جواب دیا: "خدا کی محبت میں ہم اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ "حضرت نے فرمایا: "تم ہی مقرب افراد ہو، تم ہی مقرب افراد ہو۔"

تنبیہ الخواطر جلد ۱ ص ۲۲۴

قولِ مولف: ملاحظہ ہو عنوان "محبت ( ۲)"

( ۳) مخلوقات میں اللہ کے سب سے زیادہ مقرب افراد

۱۶۶۱۷ ۔ سب سے بہتر ایمان والے ہی خدا کے سب سے زیادہ مقرب ہیں۔

(امام علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۱۹۳

۱۶۶۱۸ ۔ تم میں سے دا کے قریب تر وسیع ترین اخلاق والا ہے۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) کافی جلد ۸ ص ۶۹ حدیث ۲۴

۱۶۶۱۹ ۔ خدا کا سب سے زیادہ مقرب بندہ بہت زیادہ حق بات کہنے والا ہے اگرچہ وہ اس کے خلاف ہی ہو اور حق پر عمل کرنے والا ہے اگرچہ ا س میں اس بندے کی ناپسندیدگی ہی ہو۔

(امام علی علیہ السلام) غررالحم حدیث ۳۲۴۳

۱۶۶۲۰ ۔ حضرت داؤد اعلیہ السلام کی طرف وحی میں یہ بات بھی ہے کہ اے داؤد! جس طرح متواضع افراد اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہیں اسی طرح متکبر آدمی اللہ سے سب سے زیادہ دور ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۱۲۳ حدیث ۱۱

۱۶۶۲۱ ۔ فرشتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یااللہ! وہ تمام مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں، سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتے ہیں اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں۔"

(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۹

قولِ مولف: ملاحظہ ہو محبت ( ۲)

( ۴) انسان کب خدا سے قریب تر ہوتا ہے؟

۱۶۶۲۲ ۔ جب انسان سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۸۹۳۵

۱۶۶۲۳ ۔ جب بندہ سجدہ میں میں اپنے رب سے دعا کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ سے زیاہ قریب ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۳ ص ۳۲۳

۱۶۶۲۴ ۔ انسان جب ہلکے پیٹ ہوتا ہے تو اس وقت وہ خدا سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مبغوض ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۶ ص ۲۶۹

قولِ مولف: ملاحظہ ہو بابا "سحود"

( ۵) قیامت کے دن اللہ سے نزدیک ترین بندہ

۱۶۶۲۵ ۔ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جو قیامت کے دن خداوند عالم کے نزدیک ترین ہوں گے یہاں تک (مخلوق) حساب کتاب سے فارغ ہو جائے گی۔

۱ ۔ قدرت رکھنے کے باوجود غیظ و غضب کی حالت میں اپنے زیردستوں پر ظلم کرنے سے بچنے والا۔

۲ ۔ دو انسانوں کے درمیان صلح کرانے والا بشرطیکہ اپنے قوم و قبیلہ کی وجہ سے کسی کی طرفداری میں حق و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

۳ ۔ حق بات کہنے والا، خواہ اس کے فائدہ میں جائے یا نقصان میں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) الخصال صدوق ص ۸۱ ۔ ص ۵

۱۶۶۲۶ ۔ "کاشتکار" مخلوق خدا کا خزانہ ہیں جو پاکیزہ روزی کاشت کرتے ہیں اور خدا اسے اگاتا ہے۔ یہی لوگ قیامت کے دن مقام و منزلت کے لحاظ سے خدا کے زیادہ مقرب ہوں گے، انہیں "مبارک" کہہ کر پکارا جائے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۵ ص ۲۶۱

( ۶) تقرب کی انتہا

۱۶۶۲۷ ۔ خداوند عزو جل فرماتا ہے: کوئی بندہ فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کرتا۔ وہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک تقرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں اور اگر مجھ سے سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرمات ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۳۵۲ حدیث ۷

۱۶۶۲۸ ۔ جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے اپنے رب سے سوال کیا: "پروردگارا! تیرے نزدیک مومن کی کیا حیثیت ہے؟" فرمایا: "اے محمد! میرے بندوں میں سے کوئی بھی بندہ فرائض سے بڑھ کر کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا، وہ نوافل کے ذریعہ اس قدر میرا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو اس وقت میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر مجھ سے دعا مانگتا ہے تو قبول کرتا ہوں اور اگر سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۳۵۲ حدیث ۸

۱۶۶۲۹ ۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "میرا بندہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض کی ادائیگی سے کرتا ہے۔ بندہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں، پھر جس سے میں محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان، اس کی آنکھ، اس کا ہاتھ اور اس کی پناہ گاہ بن جاتا ہوں۔ اگر وہ مجھے پکارتا ہے تو اس کو جواب دیتا ہوں اور اگر مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے عطا فرماتا ہوں"

(حضرت رسول اکرم) علل الشرائع ص ۱۲ حدیث ۷

۱۶۶۳۰ ۔ خداوند تبارک تعالیٰ فرماتا ہے: "میرا مومن بندہ جتنا فرائض کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ سے حاصل نہیں کرتا۔ میرا مومن بندہ اس قدر نوافل ادا کرتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جس سے میں محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان، اس کی آنکھ، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں اور اس کا موید بن جاتا ہوں، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں، اور اگر مجھے پکارتا ہوں تو اسے جواب دیتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۵۶

۱۶۶۳۲ ۔ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: "میرا بندہ، جتنا فرائض کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۱۳۲۷

( ۷) اللہ تعالیٰ تک رسائی

۱۶۶۳۳ ۔ "خداوند عالم تک رسائی" ایک ایسا سفر ہے جو رات کی سواری پر سوار ہوئے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔

(امام حسن عسکری علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۸۰ حدیث ۴

۱۶۶۳۴ ۔ بندوں سے کٹ کر ہی اللہ تک رسائی ہو سکتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم ص ۱۷۵

۱۶۶۳۵ ۔ جو شخص راہِ خدا میں (خدا کے لئے) صبر کرتا ہے وہ خدا تک پہنچ جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) دعوات راوندی ص ۲۹۲ حدیث ۳۹

۱۶۶۳۶ ۔ تم جب تک مخلوق سے قطع رابطہ نہیں کر لو گے خالق تک نہیں پہنچ پاؤ گے،

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۷۴۲۹

۱۶۶۳۷ ۔ (ائمہ اطہار کی مناجات شبانیہ سے اقتباس) "پروردگارا! تو ہم پر مہربانی فرما کہ میں تمام دنیا سے مکمل طو رپر کٹ کر صرف تیری ذات کی طرف متوجہ ہو جاؤں اور ہماری قلبی آنکھوں کو اپنی ذات کی روشنی سے منور فرما کہ تجھے دیکھیں، حتیٰ کہ دل کی نگاہیں تیرے نورانی پردوں کو شگافتہ کرکے تیرے سرچشمہ عظمت تک رسائی حاصل کر لیں"

کتاب اقبال الاعمال ص ۶۸۷

۱۶۶۳۸ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول"وانذربہ الذین یخافون ان یحشروا الی ربھم" یعنی اور اس کے ذریعہ سے تم ان لوگوں کو ڈراؤ جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ (مرنے کے بعد) اپنے رب کے سامنے جمع کئے جائیں گے (انعام/ ۵۱) کے بارے میں فرمایا کہ اس کے معنی ہیں "اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو ڈراؤ جو اپنے رب تک پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں اور انہیں رب کے پاس موجود چیزوں کی ترغیب دلاؤ، کیونکہ قرآن ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد اول ص ۷۲۰

۱۶۶۳۹ ۔ (مناجات کے الفاظ ہیں) : "خدایا! تیری ذات پاک ہے، اس شخص کے راستے کس قدر تنگ ہیں جس کا تو ہادی اور رہنما نہیں ہے۔ اور اس شخص کے لئے حق کس قدر واضح ہے جسے تو نے اس کے راستے کی ہدایت فرمائی ہے۔

بارِ الٰہا! ہمیں اس راستے پر چلا جو ہمیں تیری ذات تک پہنچائے، اور اس راہ پر گامزن رکھ جو تیری ذات تک حاضری دینے کے لئے زیادہ نزدیک ہو!"

(حضرت امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۷۴

۱۶۶۴۰ ۔ (مناجات کے الفاظ ہیں) "خداوندا! مجھے ایسے لوگوں میں قرار دے جنہوں نے تیرا قصد کیا ہے، اور اس میں جدوجہد سے باز نہیں آئے، تیری ذات تک پہنچنے کی راہ کو تو اختیار کیا، اس سے روگرداں نہیں ہوئے اور تجھ تک پہنچنے کے لئے تیری ذات پر اعتماد کیا اور تجھ تک پہنچ گئے۔"

( ۸) جو میری طرف ایک بالشت بڑھے----!

۱۶۶۴۱ ۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "جو شخص مجھ سے ایک بالشت بھر قرب حاصل کرتا ہے میں اس سے ایک ہاتھ کے برابر نزدیک ہو جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے میں دوہاتھوں کے برابر اس کی طرف بڑھتا ہوں، جو میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۳۳

۱۶۶۴۲ ۔ خداوند کریم فرماتا ہے: "جو ایک بالشت بھر میرا قرب حاصل کرتا ہے میں ہاتھ بھر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں، جو ہاتھ بھر میرے نزدیک ہوتا ہے میں دو ہاتھوں کے برابر اس کی طرف بڑھتا ہوں، اور جو میرے پاس چل کر آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑ کر جاتا ہوں۔"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۱۰۳ حدیث ۳۰

۱۶۶۴۳ ۔ جو شخص خداوند عز و جل سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے خدا اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، جو اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے وہ اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہے، جو خدا کی طرف چل کر جاتا ہے خدا اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ خدا کی شان بلند و برتر ہے، خدا کی شان بلند و بالاتر ہے اور خدا بلند و بالاتر ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۱۰۴ حدیث ۳۱

۱۶۶۴۴ ۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "اے فرزندِ آدم! تو میری طرف اٹھ، میں تیری طرف چل کر آؤں گا تو میری طرف چل کر آ، میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۳۸

۱۶۶۴۵ ۔ "اگر تم خدا کی طرف رخ کرو گے تو خدا کا رخ بھی تمہاری طرف ہو گا، اور اگر خدا کی طرف پشت کرو گے تو خدا کا رخ بھی تم سے پھر جائے گا۔"

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۸۵۲

( ۹) ذرائع جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے

۱۶۶۴۶ ۔ یا علی! جب بندے نیکی کے ذریعہ اپنے خالق کا قرب حاصل کرتے ہیں تو (گویا) وہ اپنی عقل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرتے ہیں جو ان سے سبقت لے جاتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مشکاة الانوار ص ۲۵۱

۱۶۶۴۷ ۔ بندہ کا اللہ کی ذات سے تقرب: اس کی خلوص نیت سے ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۴۴۷۷

۱۶۶۴۸ ۔ جو شخص فرائض و نوافل کی ادائیگی کے ذریعہ تقربِ خدا حاصل کرتا ہے وہ دوہرا منافع کماتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۲۰۵۶

۱۶۶۴۹ ۔ خدا کا تقرب، اس سے سوال کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور بندوں کا تقرب ان سے سوال نہ کرنے کے ذریعہ سے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۸۰۱

۱۶۶۵۰ ۔ کوہِ طور پر راز و نیاز کی باتوں میں اللہ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا: اے موسیٰ! اپنی قوم تک یہ بات پہنچا دو کہ میرا قرب حاصل کرنے والے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتے، جتنا گریہ و بکاکے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عبادت گزار اتنا قرب عبادت سے حاصل نہیں کر سکتے جتنا میری حرام کردہ چیزوں سے بچنے کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ زینت کرنے والے کسی اور چیز سے اتنی زینت حاصل نہی کر سکتے جتنی دنیا سے بے نیازی اختیار کرکے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیزوں سے بے رخی کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔"

حضرت موسیٰ علیہ السلام عرض کیا: "اے کریم ترین ذات! تونے ایسے لوگوں کے لئے کیا جزا مقرر فرمائی ہے؟"

خداوند عالم نے فرمایا: "موسیٰ! جو لوگ میرے خوف سے رو رو کر میرا قرب حاصل کرتے ہیں وہ لوگ رفیقِ اعلیٰ میں ہوں گے اور بلندی درجات میں ان کا کوئی شریک نہیں ہو گا۔"

(امام محمد باقر علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۲۰۵ حدیث اول

۱۶۶۵۱ ۔ (حضرت موسیٰ کے ساتھ راز و نیاز کی باتوں میں فرمایا): "اے موسیٰ! میرا قرب حاصل کرنے والے، میری حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرنے سے بڑھ کر کسی طرح میرا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی لئے میں انہیں اپنی ہمیشہ رہنے والی جنت عطا کروں گا اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) مشکوٰة الانوار ص ۴۵

۱۶۶۵۲ ۔ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "اے فرزند! میں تمہیں چھ خصلتیں اپنانے کی ترغیب دلاتا ہوں جن میں سے ایک خصلت تمہیں خدا سے قریب اور اس کی ناراضگی سے دور کر دے گی:"

۱ ۔ خدا کی عبادت کرتے رہو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔

۲ ۔ خدا کی قدر پر راضی رہو خواہ اسے پسند کرو یا پسند نہ کرو۔

۳ ۔ خدا کی خوشنودی کے لئے کسی سے محبت یا کسی سے دشمنی کیا کرو۔

۴ ۔ جو کچھ اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور جو اپنے لئے ناپسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرو۔

۵ ۔ غصے کو پی جایا کرو اور جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو۔

۶ ۔ خواہشات نفسانی کو ترک کر دو اور مہلک خواہشات کی مخالفت کرو۔

(حضرت لقمان) مستدرک الوسائل جلد ۱۱ ص ۱۷۸ حدیث ۱۲۶۸۴

۱۶۶۵۳ ۔ خدا کی قسم! اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح فریاد کرو جو اپنے بچوں کو کھو چکی ہوں، ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو (اپنے ساتھیوں سے) الگ ہو گئے ہوں، ان گوشہ نشین راہبوں کی طرح چیخو چلاؤ جو گھر بار چھوڑ چکے ہوں اور مال و اولاد سے بھی اپنا ہاتھ اٹھا لو، اس غرض سے کہ تمہیں بارگاہِ الٰہی میں تقرب حاصل ہو، درجہ کی بلندی کے ساتھ اس کے یہاں یا ان گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ جو صحیفہ اعمال میں درج اور کراماً کاتبین کو یاد ہیں، تو وہ تمام بے تابی اور نالہ و فریاد اس ثواب کے لحاظ سے کہ جس کا میں تمہارے لئے امیدوار ہوں، اور اس عتاب کے اعتبار سے جس کا مجھے تمہارے لئے خوف و اندیشہ ہے، بہت ہی کم ہو گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۵۲

۱۶۶۵۴ ۔ اس بات کو جان لو کہ جو چیز تمہیں اللہ کے قریب کرتی ہے وہ دوزخ سے دور کرتی ہے، اور جو اللہ سے دور کرتی ہے وہ دوزخ کے قریب کرتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۷۶

( ۱۰) خداوندِ عالم سے دورترین شخص

۱۶۶۵۵ ۔ دو شخص خدا سے بہت دور ہیں: ایک وہ انسان جو امراء کا ہم نشین ہوتا ہے، امراء جو بھی ظلم و جور کی باتیں کرتے ہیں، وہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ دوسرے بچوں کا وہ معلم، جو ان سے ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی تعلیم کے بارے میں خدا کو سامنے رکھتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۳۸۶۱

۱۶۶۵۶ ۔ جب کسی شخص کا مطمع نظر صرف اس کا شکم اور شرمگاہ ہوتے ہیں تو وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) اصول کافی جلد ۲ ص ۳۱۹

۱۶۶۵۷ ۔ جب بندہ اپنے شکم اور شرمگاہ ہی کو اپنا مطمع نظر بنا لیتا ہے تو وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) الخصال صدوق ص ۶۳ حدیث ۱۰

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "بغض"

فصل۔ ۱۰

( ۱) اقرار

۱۶۶۵۸ ۔ صاحبانِ عقل کا اپنے متعلق اقرار جائز ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۱۱۱ حدیث ۲

۱۶۶۵۹ ۔ یقیناً عقلمند کا اپنے بارے میں اقرار جائز ہوتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کتاب "الخلاف" جلد ۳ ص ۱۵۷

۱۶۶۶۰ ۔ میں فاسق کی شہادت کو قبول نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے خلاف شہادت دے۔

(امام جعف صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۹۵ حدیث ۵

۱۶۶۶۱ ۔ ایک مومن اپنی ذات کے بارے میں شہادت کے لحاظ سے شر مومنین کی گواہی سے زیادہ سچا ہوتا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) صفات الشیعہ ص ۱۱۶ حدیث ۶۰

۱۶۶۶۲ ۔ جب زکوٰة وصول کرنے والے کو کوفہ سے دیہاتی علاقوں کی طرف روانہ کیا تو بطور نصیحت فرمایا: "پھر ان سے کہو کہ "اے خدا کے بندو! مجھے تمہاری طرف ولی خدا نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے مالوں میں خدا کا بننے والا حق وصول کروں تو کیا تمہارے اموال میں خدا کا کوئی حق ہے جو تم مجھے ادا کرو؟" اگر کوئی شخص کہے کہ "نہیں!" تو پھر اس سے دوبارہ یہ بات نہ کہنا" کہو۔"

(حضرت علی علیہ السلام) کافی جلد ۳ ص ۵۳۶ حدیث اول

۱۶۶۶۳ ۔ اصبغ بن بناتہ کہتے ہیں کہ ایک شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا: "یاامیرالمومنین! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا مجھے (اس گناہ سے) پاک فرما! امیرالمومنین نے اپنا رخ موڑ لیا۔ پھر اس سے فرمایا: "بیٹھ جا! "اس کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کرکے فرمایا: "تم میں سے جو شخص اس قسم کی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا وہ اسے اسی طرح چھپانے سے عاجز ہوتا ہے جس طرح خدا نے اسے چھپایا ہے؟"

کتاب من لایحضرہ الفیتہ جلد ۴ ص ۳۱ حدیث ۵۰۱۷

قولِ مولف: ۱ ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار مطلقاً ناپسندیدہ اور قابلِ مذمت ہے۔

۲ ۔ ملاحظہ ہو "توبہ"

( ۲) مجبور انسان کااقرار ناقابل اعتبار ہوتا ہے

۱۶۶۶۴ ۔ جو شخص ڈرانے دھمکانے، قید کئے جانے یا مار پیٹ کی وجہ سے اقرار کرے گا تو اس کا یہ اقرار اس کی سزا کا سبب نہیں بن سکتا اور اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) مستدر الوسائل جلد ۱۶ ص ۳۲

۱۶۶۶۵ ۔ جو شخص تشدد، قید اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے اقرار کرے گا، اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔

(حضرت علی علیہ السلام) قرب الاسناد ص ۵۴ حدیث ۱۷۵

۱۶۶۶۶ ۔ حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: "جس سے مار پیٹ، نظربندی، قید و تشدد کے ذریعہ ڈرا کر اقرار لیا جائے اس پر ہاتھ کاٹنے کی (چوری کی سزا کی) حد جاری نہیں کی جائے گی، اگر اعتراف نہ کرے تو اس سے حد ساقط ہو جائے گی"

(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۴۹۸ حدیث ۳

۱۶۶۶۷ ۔ سلیمان بن خالد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے چوری کی تھی اور اس نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا اور اسے تھپڑ مارے تو وہ اصل مسروقہ اشیاء لے آیا۔ "کیا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟" آپ نے فرمایا: "ہاں! کاٹا جائے گا، لیکن اگر اعتراف تو کرے مگر اشیائے مسروقہ کی برآمدگی نہ ہو تو پھر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"

(امام جعفر صادق علیہ السلام)