میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 53433
ڈاؤنلوڈ: 4441

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53433 / ڈاؤنلوڈ: 4441
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۱۱

( ۱) قرض

قرآن مجید

( من ذاالذی لقرض الله قرضا حسنا فیضٰعفه له و له اجر کریم ) ۔

ترجمہ۔ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تو اللہ اس کے لئے (اجر کو) کئی گناہ کر دے اور اس کے لئے معزز صلہ اور عمدہ جزا ہے۔

حدیث شریف

۱۶۶۶۸ ۔ جو شخص خدا کو قرض دے گا اللہ اسے اجر عطا فرمائے گا۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۸۰۷۲

۱۶۶۶۹ ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے، جو کوئی اس سے مانگتا ہے اسے دے دیتا ہے، جو اسے قرض دیتا ہے وہ اسے ادا فرماتا ہے اور جو شکر کرتا ہے اسے بدلہ دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۹۰

۱۶۶۷۰ ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "( ان تنصروا الله ) اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا (محمد/ ۷) پھر فرمایا: "( من ذاالذی یقرض الله ) کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تو اللہ اس کے اجر کو دوگنا کر دے گا اور اس کے لئے عمدہ جزا ہے (حدید/ ۱۱) اللہ نے کسی کمزوری کی بنا پر تم سے مدد نہیں مانگی، نہ ہی بے مائگی کی وجہ سے تم سے قرض کا سوال کیا۔ اس نے تم سے مدد چاہی ہے باوجودیکہ "( وله جنود السموات… ) " اس کے پاس سارے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور وہ غلبہ و حکمت والا ہے (فتح/ ۷) اس نے تو یہ چاہا ہے "لیبلو کم ایکم احسن عملا" کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اعمال کے لحاظ سے کون بہتر ہے؟ (ملک/ ۲)

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۳

۱۶۶۷۱ ۔ ایک شخص بہشت کی طرف گیا تو اس کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا: "صدقے کا ثواب دس گنا ہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۰ حدیث ۳

۱۶۶۷۲ ۔ شب معراج میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا: "صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۱

۱۶۶۷۳ ۔ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے: "صدقہ دس اور قرضہ اٹھارہ گنا ہے"

(امام جعفر صادق) من لایھزہ الفقیہ جلد ۲ ص ۵۸

۱۶۶۷۴ ۔ صدقہ کا ثواب دس گنا، قرض کا ثواب اٹھارہ گنا، دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ بھلائی کا ثواب بیس گنا اور صلہ رحمی کا ثواب چوبیس گنا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) مکارم الاخلاق جلد اول ص ۲۹۳

۱۶۶۷۵ ۔ ایک قرضہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے اور اگر انسان مر جائے تو اس کو زکوٰة میں شمار کیا جائے گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۳

۱۶۶۷۶ ۔ میں بہشت میں گیا تو دیکھا کہ اس کے دروازہ پر تحریر تھا: "صدقہ کا دس گنا اور قرض کا اٹھارہ گنا ثواب ہے" میں نے جبرائیل سے پوچھا: "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صدقہ دس گنا ہو اور قرض اٹھارہ گنا؟" انہوں نے کہا: اس لئے کہ صدقہ غریب اور امیر ہر قسم کے لوگوں کو مل سکتا ہے جبکہ قرض صرف ضرورت مند اور صاحبانِ احتیاج کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۳

۱۶۶۷۷ ۔ جنت کے دروازہ پر مکتوب ہے "قرضہ کا اٹھارہ گنا ثواب ہے اور صدقہ کا دس گنا کیونکہ قرض صرف ضرورت مند لیتا ہے جبکہ صدقہ کبھی بے نیاز شخص کو بھی مل جاتا ہے۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۳۸ حدیث ۲

۱۶۶۷۸ ۔ میں نے شبِ معراج بہشت کے دروازہ پر لکھ ہوا دیکھا: "صدقہ کا دس گنا ثواب ہے اور قرض کا اٹھارہ گنا" میں نے کہا: "اے جبرائیل! کیا وجہ ہے کہ قرض صدقہ سے افضل ہے؟" انہوں نے کہا: "سائل سوال کرتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرضہ حاصل کرنے والا ضرورت کے بغیر کسی سے سوال نہیں کرتا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۴

۱۶۶۷۹ ۔ جنت کے دروازے پر تحریر ہے: "صدقہ کے دس ثواب ہیں اور قرض کے اٹھارہ ثواب ہیں" یہ اس لئے ہے کہ قرض حاصل کرنے والا ضرورت کے تحت قرض لیتا ہے جبکہ بعض اوقات صدقہ و خیرات وہ بھی مانگتا ہے جو مستحق نہیں ہوتا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۳۹ حدیث ۹

۱۶۶۸۰ ۔ روایت میں ہے کہ: قرض کا ثواب صدقہ سے اٹھارہ گنا زیادہ ہے، اس لئے کہ قرض وہ شخص حاصل کرتا ہے جو اپنے آپ کو صدقہ لینے کی پستی سے بچاتا ہے۔

(بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۴۰ حدیث ۱۱

۱۶۶۸۱ ۔ خداوند جل جلالہ فرماتا ہے: "میں نے اپنے بندوں کو دنیا لین دین کے لئے دے دی ہے۔ لہٰذا جو شخص اس سے مجھے قرض دے گا میں بھی اسے اس کا اجر ایک کے بدلے دس سے لے کر سات سو گناہ تک عطا کروں گا اور اس مقدار میں سے جتنا چاہوں دے دوں گا۔ جو مجھے قرض نہ دے میں اس سے مجبور کرکے لوں گا اور اسے وہ خصوصیات عطا کروں گا جو ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے فرشتوں کو عطا کر دوں تو وہ اس پر خوش ہو جائیں۔ یعنی ۱ ۔ صلوات ۲ ۔ ہدایت ۳ ۔ رحمت، جیسا کہ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "( الذین اذا اصابتهم مصیبة قالوا انا لله وانا الیه راجعون، اولئک علیهم صلوات من ربهم ) " یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو وہ بے ساختہ بول اٹھتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ انہی لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے "صلوات" ہے (بقرہ/ ۱۴۵ ۔ ۱۵۷) یہ ان تین خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہو گی۔ دوسری خصوصیت یہ ہے "و رحمة" (ایضا) یہ دوسری خصوصیت اور "( واولئک هم المهتدون ) " یعنی یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں، تو یہ تیسری خصوصیت ہوئی۔"

(حضرت رسول اکرم) الخصال ص ۱۳۰ ، ص ۱۳۵

۱۶۶۸۲ ۔ میرے نزدیک ہدیئے جتنا قرض دینا زیادہ محبوب ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۴

۱۶۶۸۳ ۔ جو شخص کسی مظلوم کو قرض دیتا ہے اور پھر بڑے اچھے طریقے سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو (اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لہٰذا) وہ تو ازسرنو اپنے اعمال کو بجا لاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے ہر درہم کے بدلے بہشت کا کثیر مال عطا فرمائے گا۔

(حضرت رسول اکرم صلی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثواب الاعمال ص ۳۴۱ حدیث اول

۱۶۶۸۴ ۔ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو نصیحت کے طور پر فرماتے ہیں"اور جب تمہیں ایسے فاقہ کش لوگ مل جائیں جو تمہارا توشہ اٹھا کر میدان حشر میں پہنچا دیں پھر کل کو جبکہ تمہیں اس کی ضرورت پڑے۔ تمہارے حوالے کر دیں تو اسے غنیمت جانو، اور جتنا ہو سکے اس کی پشت پر رکھ دو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پھر تم ایسے شخص کو ڈھونڈو اور نہ پاؤ جو تمہاری دولتمندی کی حالت میں تم سے قرض مانگ رہا ہے اس وعدہ پر کہ تمہاری تنگدستی کے وقت ادا کر دے گا تو اسے بھی غنیمت جانو!

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغة مکتوب ۳۱

۱۶۶۸۵ ۔ جس شخص کے پاس اس کا مسلمان ضرورت مند بھائی قرض لینے کے لئے اور وہ دے بھی سکتا ہو لیکن نہ دے تو اللہ تعالیٰ اس پر بہشت کی خوشبو کو حرام کر دیتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) امالی صدوق ص ۳۵ حدیث ۱

( ۲) تنگدست کو مہلت دینا

قرآن مجید:( و ان کان ذوعسرة فنظرة الیٰ میسرة و ان تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون ) ۔ (بقرہ/ ۲۸۰)

ترجمہ۔ اور اگر کوئی تنگدست (تمہارا قرضدار) ہو تو اسے خوشحالی تک مہلت دو، اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ (اصل بھی) بخش دو۔

حدیث شریف

۱۶۶۸۶ ۔ جو شخص کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے تو خدا پر حق ہو جاتا ہے کہ اس کو ہر روز صدقہ کا اتنا ثواب عطا فرمائے جتنا اس کا قرض ہے اور یہ سلسلہ اس کی مکمل ادائیگی تک جاری رہتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۵۱ حدیث ۱۷

۱۶۶۸۷ ۔ جو کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے گا، خداوندِ عالم اسے اس (قیامت کے) دن اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سایہ کے بغیر کوئی اور سایہ نہیں ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۸ ص ۹ حدیث ۱

۱۶۶۸۸ ۔ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو فرمایا: "تم میں سے کون ہے جسے یہ بات خوش کرتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ جہنم کی وسعت و کشادگی سے محفوظ رکھے؟" ہم سب نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہم سب کو یہی بات خوش کرتی ہے!" آپ نے فرمایا: "جو شخص کسی تنگدست مقروض کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دے، یا اس سے قرض کا بوجھ اتارے تو اللہ تعالیٰ اسے کشادہ اور وسیع جہنم سے بچا لے گا۔"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۶ حدیث ۱۵

۱۶۶۸۹ ۔ جو شخص کسی مومن کو قرض دے اور اسے اس کی خوشحالی تک ادائیگی کی مہلت دے تو اس کا قرض کا مال زکوٰة میں شمار ہو گا، قرض دینے والا ملائکہ کے درود و سلام میں شامل رہے گا اور قرض کی ادائیگی تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

(حضرت رسول اکرم) ثواب الاعمال ص ۱۶۶ حدیث اول

۱۶۶۹۰ ۔ جو شخص اپنے مقروض کی تکلیف کو دور کرے یا اپنے قرض پر قلم پھیر دے تو وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں ہو گا۔

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۹

۱۶۶۹۱ ۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ا س کی دعا منظور ہو اور اس کے دکھ دور ہوں تو اسے چاہئے کہ تنگدست مقروض کو مہلت دے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۹۸

۱۶۶۹۲ ۔ تم اپنے حق کو ضرور حاصل کرو لیکن مستحسن طریقے سے خواہ پورا ملے یا ادھورا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۴۰۵

۱۶۶۹۳ ۔ مفلوک الحال تنگدست کی بددعا سے بچو!

(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۴۲۴

۱۶۶۹۴ ۔ تم لوگوں سے پہلے کی بات ہے کہ ایک شخص کا محاسبہ کیا گیا تو اس کے اعمالنامہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ وہ ایک متمول انسان تھا اور لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا تھا، اپنے ملازمین سے کہتا تھا کہ تنگدست مقروض سے درگزر سے کام لیا جائے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ایسا کرنے کا تو ہم پر زیادہ حق بنتا ہے۔ لہٰذا اس شخص کے گناہوں سے درگزر کیا جائے!"

(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۴ حدیث ۷

۱۶۶۹۵ ۔ جس طرح تمہارے مقروض کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ مال کے ہوتے ہوئے تمہارے قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے، اسی طرح تمہارے لئے بھی جائز نہیں کہ اس کی تنگدستی کے بارے میں علم رکھتے ہوئے اس پر سختی کرو۔

(حضرت رسول اکرم) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۵

قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "ولایت" نیز "دین" (قرض)

فصل ۱۲

( ۱) قرعہ

قرآن مجید

( ذٰلک من انباء الغیب……………………یختصمون ) ( ۴۴/ آل عمران)

ترجمہ۔ (اے رسول!) یہ بات غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم تمہیں وحی کرتے ہیں۔ تم تو ان (مریم کے سرپرستوں) کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ لوگ اپنے قلم (پانی میں بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ کون مریم کی کفالت کرتا ہے اور تم اس وقت بھی ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

( فساهم فکان من المدحضین ) ۔ (صافات/ ۱۴۱)

ترجمہ۔ پس (اہلِ کشتی نے) قرعہ ڈالا تو (یونس کا) نام نکلا اور وہ اس کو دریا میں گرائے جانے والوں میں سے تھے۔

حدیث شریف

۱۶۶۹۶ ۔ جب معاملہ خدا کے سپرد کر دیا جائے تو قرعہ سے بڑھ کر اور کونسی صورت عدل و انصاف پر مبنی ہو سکتی ہے؟ کیا خداوند عالم نہیں فرماتا:( فساهم فکان من المدحصٰین )

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لایھزہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲ حدیث ۳۳۹۱

۱۶۶۹۷ ۔ جس معاملے میں قرعہ اندازی کی جائے اس سے بڑھ کر اور کونسا معاملہ عدل و انصاف پر مبنی ہو سکتا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "فساھم فکان من المدحضین"؟ پھر فرمایا: "جس معاملے میں دو انسان اختلاف کرتے ہیں اس کی اصل بھی کتاب اللہ (قرآن پاک) میں موجود ہے، لیکن وہاں تک لوگوں کی عقلوں کی رسائی نہیں ہوتی۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۱۴۸ حدیث ۱

۱۶۶۹۸ ۔ سب سے پہلے جس کے بارے میں قرعہ اندازی کی گئی وہ مریم بنت عمران ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے:( وما کنت لو هم ان یلقون اقلابهم ) " (آل عمران/ ۴۴)

۱۶۶۹۹ ۔ جس معاملہ میں چند لوگوں نے قرعہ اندازی کی اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تو صحیح معنی میں حقدار کے نام کا قرعہ نکلے گا۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲

۱۶۷۰۰ ۔ یمن میں حضرت علی علیہ السلام کے پاس ایسے تین لوگوں کو لایا گیا جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی وقت میں ہم بستری کی تھی اور اس سے بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ آپ نے ان میں سے دو آدمیوں کو اکٹھا بلا کر پوچھا: "کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ یہ بچہ اس شخص کا ہے؟" انہوں نے انکار کیا، پھر دوسرے دو کو اکٹھا کرکے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ اسی طرح تیسری مرتبہ پھر اور دو کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ اس پر آپ نے قرعہ اندازی فرمائی اور جس کے نام قرعہ نکلا بچہ اسے دیدیا۔ نیز اس کے ذمہ دو تہائی دیت مقرر فرمائی۔

چنانچہ جب یہ ماجرا حضرت رسول خدا کے سامنے ذکر ہوا تو آپ اس قدر مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔

(سنن ابن ماجہ حدیث ۲۳۴۸

۱۶۷۰۱ ۔ جب حضرت پیغمبر خدا نے حضرت علی سے یمن میں عجیب واقعات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ عجیب واقعہ بیان فرمایا: "میرے پاس کچھ افراد آئے جنہوں نے ایک لونڈی کو خریدا اور سب نے ایک ہی () میں اس سے ہم بستری کی، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کے بارے میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ لڑکا اس کا ہے۔ پس میں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جس کے نام کا قرعہ نکلا میں نے لڑکا اس کو دے دیا، لیکن ان سے اس کے حصہ کی ضمانت لی۔"

اس پر آنحضرت نے فرمایا: "چند لوگ جب آپس میں جھگڑا کریں اور پھر اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں تو حقدار کو اس کا حصہ مل جاتا ہے۔"

شیخ صدوق نے اس روایت کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے بیان کیا ہے، البتہ "جھگڑا کریں" کی جگہ پر "قرعہ ڈالیں" فرمایا ہے۔ (حضرت علی علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۸۸ حدیث ۵

۱۶۷۰۲ ۔ جب حضرت پیغمبرِ خدا سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو اپنی ازدواج کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے۔

(حضرت عائشہ) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۸۸ حدیث ۶

۱۶۷۰۳ ۔ ہر نامعلوم معاملے میں قرعہ اندازی کی جائے۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲

فصل ۱۳

صدی (سو سال)

( ۱) ہر سو سال میں دین کی تجدید ہوتی ہے

۱۶۷۰۴ ۔ میری امت میں ہر سو سال میں کچھ لوگ "سابقون" (سبقت کرنے والے) ہوتے ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۴۶۲۶

۱۶۷۰۵ ۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر سو سال کے آغاز میں کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو امت کے لئے دین کی تجدید کرتا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۴۶۲۳

۱۶۷۰۶ ۔ ہم اہلبیت میں گزشتہ لوگوں کے کچھ ایسے عادل جانشین ہوتے ہیں جو دین سے غالی لوگوں کی دین میں تحریف، جھوٹے لوگوں کی طرف سے دین میں داخل کی جانے والی چیزوں اور جاہلوں کی تاویل کا خاتمہ کرتے ہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۹۲ حدیث ۲۱

۱۶۷۰۷ ۔ ہر صدی میں اس دین کی ذمہ داری کچھ عادل لوگ اٹھا لیتے ہیں جو اس دین سے اور جھوٹے لوگوں کی طرف سے دین میں کی جانے والی تاویلوں، جاہلوں کی طرف سے دین میں داخل کی جانے والی چیزوں اور غالیوں کی طرف سے کی جانے والی تحریف کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ دین کو ایسا صاف کر دیتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کی آلائشوں کو صاف کر دیتی ہے۔

(حضرت رسول اکرم بحار الانوار جلد ۲ ص ۹۳ حدیث ۲۲

۱۶۷۰۸ ۔ خداوند عالم کے اس قول "ولکل امة رسول" یعنی ہر امت کے لئے خاص ایک (ایک) رسول ہے، (یونس/ ۴۷) کے بارے میں فرمایا: "اس کی باطنی تفسیر یہ ہے کہ اس امت کے لئے ہر صدی میں آلِ محمد سے خدا کا ایک بھیجا ہوا بندہ امت کی طرف آتا ہے اور ایسے لوگ خدا کے ولی اور خدا کے فرستادہ ہوتے ہیں۔

(امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر عباسی جلد ۲ ص ۱۲۳ حدیث ۲۳

۱۶۷۰۹ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "( یوم ندعوا کل اناس بامامهم ) " یعنی اس دن جب ہم تمام لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے (بنی اسرائیل/ ۷۱) کے بارے میں فرمایا: "خدا اس امت کو ہر سو سال بعد اس کے امام کے ساتھ پکارے گا۔" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا۔ "پھر تو حضرت رسول خدا اپنی صدی میں، حضرت علی اپنی صدی میں حضرت حسن کو اپنی صدی میں امام حسین اور ان کے بعد دوسرے ائمہ علیہم السلام اپنی اپنی صدیوں میں تشریف لائیں گے؟" فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے!!"

(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد ۳ ص ۱۹۰ حدیث ۳۲۵

۱۶۷۱۰ ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر صدی اور ہر زمانے کے لئے کچھ لوگوں کو اپنی ذات کے لئے مخصوص کیا ہے، پیغمبر کے بعد جنہیں اپنی مہربانی سے بلند درجہ اور عالی مرتبہ عطا فرمایا ہے، انہیں اپنی ذات کے لئے حق کی دعوت دینے والا اور حق کی ہدایت کرنے والا قرار دیا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۳ ص ۴۲۲ حدیث ۴۶

فصل۔ ۱۴

اقتصادیات

( ۱) اقتصاد

۱۶۷۱۱ ۔ اسلام اور مسلمانوں کی بقا اسی بات میں ہے کہ مالیات کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حق کو سمجھتے اور اموال کو نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہوں، اس لئے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی ا س بات میں ہے کہ مالیاتی نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے جو نہ تو حق کو سمجھتے ہوں، اور نہ ہی اموال، کو نیک راہوں میں خرچ کرتے ہوں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۴ ص ۲۵ حدیث ۱

۱۶۷۱۲ ۔ جن لوگوں کے حکمران عادل ہوں اور اشیاء کے نرخ سستے رکھیں تو سمجھ لیا جائے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔ جن کے حکمران ظالم اور نرخ مہنگے ہوں تو جان لیا جائے کہ خدا ان سے ناراض ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۵ ص ۱۶۲ حدیث اول

۱۶۷۱۳ ۔ مہنگائی بداخلاق بنا دیتی ہے، بددیانتی کا سبب بنتی ہے اور مسلمان کو سخت پریشان کرتی ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۵ ص ۱۶۴ حدیث ۶

۱۶۷۱۴ ۔ خداوند عالم کے اس قول "( انی ارا کم بخیر ) " یعنی شعیب نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم کو آسودگی میں دیکھ رہا ہوں (ہود/ ۸۴) اس لئے کہ ان کی اشیاء کے نرخ سستے تھے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۶۸

قولِ مولف: اسلامی اقتصادیات کے بارے میں میزان الحکمت کے مندرجہ ذیل ابواب کا مطالعہ کیا جائے،

عنوان "اجارہ کرایہ عنوان "حرفت" دستکاری

"ارض" زمین "حرام" حرام

"تبذیر" فضول خرچی "حقوق" حقوق

"تجارت" تجارت "احتکار" ذخیرہ اندوزی

"جزیہ" جزیہ "حلال" حلال

"بخل" بخل "حاجت" ضرورت

عنوان "اسراف" فضول خرچی عنوان "دین" قرضہ

"مسکن" ٹھکانہ، رہائش گاہ "ربا" سود

"خمس" خمس "رزق" رزق

"خیانت" خیانت "رشوة" رشوت

"دنیا" دنیا "زکوٰة" زکوٰة

"زھد" زہد "سوال" سوال

"سحت" حرام کمائی "مسرقہ" چوری

"شوق" بازار "سئح" بخل

"شرکت" شراکت "صدقہ" صدقہ خیرات

"صناعة" صنعت و حرفت "ضمان" ضمانت

"طمع" لالچ "ظلم" ظلم

"عدل" عدل "معروف" نیکی

"عیش" زندگی "غش" ملاوٹ

"غل" ملاوٹ "غنیٰ" تونگری

"فقر" تنگدستی "قرض" قرضہ

"قناعت" قناعت "قمار" جوا

"کسب" کمائی، کاروبار "مال" مال

"انفاق" خرچ کرنا "انفال" انفال

"ارشا" وراثت "وقف" وقف

( ۲) کاروبار میں میانہ روی کے فوائد

۱۶۷۱۵ ۔ میانہ روی گزر اوقات کی مقدار کو پورا کرتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوا جلد ۷۸ ص ۱۰ حدیث ۶۷

۱۶۷۱۶ ۔ میانہ روی اخراجات میں نصف کمی کر دیتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۵۶۵

۱۶۷۱۷ ۔ میانہ روی سے قلیل مال بڑھتا ہے اور اسراف (فضول خرچی) سے کثیر مال بھی ختم ہو جاتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۳۴ ، ۳۳۵

۱۶۷۱۸ ۔ اخراجات میں میانہ روی نصف معیشت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۵۴۳۴

۱۶۷۱۹ ۔ جو میانہ روی کو اپنا لیتا ہے اس پر اخراجات کا بوجھ نہیں پڑتا۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۴۲

۱۶۷۲۰ ۔ انسان اخراجات میں میانہ روی سے کبھی غریب نہیں ہوتا۔

(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۶۴

۱۶۷۲۱ ۔ جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی غریب نہیں ہو گا۔

(حضرت علی) فصل صدوق ص ۶۲۰

۱۶۷۲۲ ۔ جو اخراجات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے تونگری بھی اس کا ساتھ دیتی ہے اور یہی میانہ روی اس کی غربت و تنگدستی کی تلافی و نقصان کو پورا کرتی ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۹۶۵

۱۶۷۲۳ ۔ جو اخراجات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ غریب اور تنگدست نہیں ہو گا۔ خداوند عالم فرماتا ہے( لیسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو ) یعنی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں، تو تم کہہ دو کہ جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے (بقرہ/ ۲۱۹) چنانچہ "عفو" (ضرورت سے بچ جانے والی) درمیانی چیز ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے( والذین اذا انفقوا لم لیرفوا ولم تقتروا وکان بین ذلک قواماً ) یعنی وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں۔ ان کا خرچ اس کے درمیان ہوتا ہے (فرقان/ ۶۷) یہاں پر "قوام" سے مراد اوسط درجے کا خرچ ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۶۴

۱۶۷۲۴ ۔ فضول خرچی سے مال جاتا رہتا ہے اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے سے مال بڑھتا رہتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۴۷

۱۶۷۲۵ ۔ جو خوشحالی اور فاقہ مستی میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ اپنے آپ کو حوادث زمانہ کے (ساتھ مقابلہ کے) لئے تیار رکھتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۹۰۴۸

۱۶۷۲۶ ۔ اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: "بیٹا اپنے معاش میں اعتدال پسندی سے کام لیا کرو۔"

(حضرت علی علیہ السلام) امالی طوسی ص ۸ حدیث ۸

۱۶۷۲۷ ۔ جو اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔

(حضرت سول اکرم( تنبیہ الخواطر جلد اول ص ۱۶۷

قولِ مولف: ملاحظہ ہو باب "لباس"

( ۳) اقتصاد کے بارے میں متفرق احادیث

۱۶۷۲۸ ۔ اقتصاد (اعتدال اور میانہ روی) کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب وہ اس حد سے بڑھ جائے تو وہ بخل ہوتا ہے۔

(امام حسن عسکری علیہ السلام) الدرة الباہرہ ص ۴۳

۱۶۷۲۹ ۔ میانہ روی کی آخری حد قناعت ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۶۳۶۴

۱۶۷۳۰ ۔ مومن کی سیرت میانہ روی ہے اور اس کا کردار راہِ ہدایت پر چلنا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۵۰۱

۱۶۷۳۱ ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میانہ روی سے بڑھ کر کوئی اخراجات زیادہ محبوب نہیں ہیں۔

(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۶۹

۱۶۷۳۲ ۔ میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خداوند عز و جل پسند فرماتا ہے اور فضول خرچی ایسا معاملہ ہے جو خداوند عز و جل کو پسند نہیں۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) خصال صدوق ۳۶ ، ص ۱۰ حدیث ۳۶

۱۶۷۳۳ ۔ اعتدال پسندی، اچھی وضع قطع اور نیک ہدایت، نبوت کے بیس سے کچھ زیادہ اجزاء میں سے ایک ہے۔

(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر ص ۱۶۷