تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87173 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عمار كو گرفتار كر كے خليفہ كے گھر لے جايا گيا ، جب خليفہ ائے تو فرمان صادر كيا كہ عمار كو حاضر كر كے ميرے سامنے كھڑا كيا جائے پھر انھيں اتنا مارا كہ بيہوش ہو كر زمين پر ڈھير ہو گئے ، پھر اسى بيہوشى كى حالت ميں عثمان كے گھر سے باہر نكال ديا گيا ، دوسرے لوگوں نے انھيں اٹھا كر زوجہ رسول ام سلمہ كے گھر پہونچا ديا _

ظہر عصر اور مغرب كى نماز كا وقت نكل گيا ليكن عمار بيہوش تھے جب ہوش ميں ا ئے تو وضو كر كے نماز پڑھى ، اس وقت كہا :

الحمد للہ ، يہ پہلا دن نہيں ہے كہ خشنودى خدا كى راہ ميں مجھے شكنجہ و عذاب ديا گيا _

ہم يہ جانتے ہيں كہ عمار ياسر قبيلہ بنى مخزوم كے ہم پيمان تھے جب ھشام بن وليد مخزومى كو عمار ياسر پر ڈھا ئے گئے مصائب كى خبر ملى تو انھوں نے عثمان پر اعتراض كيا _

تم على اور بنى ہاشم كو تو ٹالتے ہو ، انھيں چھيڑتے بھى نہيں ليكن ہمارے اوپر زيادتى كرتے ہو ، ميرے بھائي كو مارتے مارتے ادھ موا كرديا ہے خداكى قسم اگر عمار مرگئے تو اس گندے پيٹ والے ( عثمان ) كو قتل كر دوں گا _

عثمان نے غصے ميں انھيں گالى ديتے ہوئے كہا :

اے قسريہ كے بيٹے(۱۲) تيرى اتنى ہمت بڑھ گئي ہے؟

ھشام نے جواب ديا _

اچھا تو سمجھ لو كہ ميں دو مائوں سے قسريہ تك پہونچتا ہوں _

عثمان نے حكم ديا كہ ھشام كو گھر سے نكال ديا جائے ، ھشام خليفہ كے گھر سے سيد ھے ام سلمہ كے گھر گئے ، انھيں معلوم ہوا كہ ام سلمہ بھى عمار پر ڈھائے گئے ظلم و ستم سے سخت برہم ہيں _

____________________

۱۲_قسريہ عرب كا ايك قبيلہ تھا جسے قريش سے نہيں سمجھا جاتا ،اسى لئے عثمان نے انھيں ماں كى طرف سے سرزنش كى ، ليكن ھشام كے باپ قريش سے سادات بنى مخزوم كى فرد تھے ، جواب ميں كہنا چاہتے تھے كہ قسريہ كى طرف نسبت باعث ننگ نہيں، ميرى ماں اور نانا دونوں قسريہ ہيں اسى لئے كہا كہ ميں دو مائوں سے قسريہ ہوں

۱۴۱

عمار كى مدد ميں عائشه

جب عائشه كو عمار كے واقعہ كى خبر ملى تو سخت برھم ہوئيں اور عثمان كى روش پر اعتراض كرتے ہوئے رسول خدا كا بال ، لباس اور جوتياں نكاليں ، ہاتھ ميں ليكر چلّانے لگيں _

كتنى جلدى تم لوگوں نے اس بال ، لباس اور جوتيوں والے رسول كى سنت نظر انداز كردى ،حالانكہ رسول خدا كے يہ اثار ابھى پرانے بھى نہيں ہوئے ليكن تم لوگوں نے انكى سنت ترك كردي_

مسجد ميںعوام كا موجيں مارتا سمندر امنڈ پڑا ،اور سبحان اللہ كى صدائيں بلندكرنے لگا _

عمرو عاص ، جنھيں عثمان حكومت مصر سے معزول كركے عبداللہ بن ابى سرح كو حكومت ديدى تھى اسوجہ سے وہ سخت برہم تھے ، دوسروں سے زيادہ سبحان اللہ كى صدائيں بلند كررہے تھے ،تعجب اور حيرت كے عجيب عجيب كرتب دكھا رہے تھے اسى درميان عثمان غصے ميں اسقدر بد حواس ہو گئے كہ سمجھ ميں نہيں اتا تھا وہ كيا كہيں(۱۳)

ابن مسعود اور مقداد كى تدفين

عبداللہ بن مسعود كى تدفين كا واقعہ بھى عمار سے برہمى كا سبب بنا بن مسعود نے مرتے وقت وصيت كى تھى كہ عمار ان كى نماز جنازہ پڑھائيں اور عثمان كو خبر نہ كى جائے كہ وہ نماز جنازہ ميں حاضر ہو جائيں ، عمار نے وصيت پر عمل كيا جب عثمان كو اس واقعے كى خبر ملى تو عمار پر بہت غصہ ہوئے _

ليكن دير نہيں گذرى كہ مقداد نے بھى انتقال كيا ، انھوں نے بھى ابن مسعود كى طرح وصيت كى تھى كہ عثمان ميرى نماز جنازہ نہ پڑھائيں عمار نے مقداد كى نماز جنازہ پڑھائي اور دفن كر ديا ، عثمان كو خبر نہيں كى ،اب تو عثمان اور بھى زيادہ عمار سے غصہ ہوئے ، حالت يہ ہوئي كہ چلّانے لگے ، مجھ پر افسوس جو اس كنيز زادے سے جھيلا ، ميں نے اسكو خوب اچھى طرح پہچان ليا(۱۴)

____________________

۱۳_ بلاذرى ج۵ ص ۴۸

۱۴_ بلاذرى ج۵ ص ۴۹ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۷

۱۴۲

ان تمام واقعات ميں جو بات سب سے زيادہ اپنى طرف متوجہ كرتى ہے وہ يہ كہ عثمان نے عمار ياسر كو گالياں ديں ، يابن المتكاء يا عاض ايرابيہ ، كتب صحاح و مسانيد ميں ام المومنين عائشه كى حديث نقل كى گئي ہے كہ عثمان بہت شرميلے ، با حيا اور مہذب ہيں ، يہ بھى حديث ہے كہ خدا كى قسم ، عثمان كے سامنے فرشتے بھى شرم و حيا كا لحاظ كرتے ہيں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قسم ، عثمان كے شرم وحيا كى وجہ سے ان سے بہت حيا فرماتے اسطرح كى اور بھى باتيں جو ان كے شرم و حيا كا ڈھنڈورا پيٹتى ہيں _

ضمنى طور سے ہم نے ام المومنين عائشه كو ديكھا كہ عقلمند حكمراں كى طرح مشتعل عوام كو عثمان كے خلاف بھڑكاتى ہيں وہ اچھى طرح سمجھ رہى ہيں كہ كن باتوں سے عوام كے احساسات و جذبات بھڑكيں گے _

انھوں نے پہلى بار عثمان كے خلاف عوامى جذبات بھڑكاتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں دكھا كر انھيں چونكايا ، پھر جيسا وہ چاہتى تھيں لوگوں كے جذبات كو اپنے كنٹرول ميں كيا وہ اچھى طرح جانتى تھيں كہ وہ سادہ انداز دوسرى بار لوگوں كے جذبات بھڑكانے ميں اتنا كار گر نہيں ہو گا _

ليكن اس بار انھوں نے اس سے اگے بڑھكر لباس ، بال اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں بھى نكال ليں ،يہ رسول كى تين سادہ يادگار يں لوگوں كے جذبات كو مشتعل كرنے اور عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجانے كيلئے كافى تھيں _

يہ دوسادے انداز بڑے اہم ثابت ہوئے ، ام المومنين عائشه نے اپنى مہارت و زيركى سے عثمان كا تيّا پانچہ كرديا جبكہ وہ اہم ترين اسلامى شخصيت تھے ، مسلمانوں كى نگاہ ميں رسول كے جانشين كى حيثيت سے محترم تھے _

عائشه نے بڑا اچھا ذريعہ اپنايا جسميں دليل و برہان كى ضرورت نہيں تھى ،انھوں نے خليفہ كى شخصيت كو ايك جانب اور سنت رسول اور انكى ياد گاروں نيز ازواج رسول كو دوسرى جانب كر كے بالكل محاذ پر كھڑا كر ديا ، اس طرح انھوں نے معاشرے كى نظر سے خليفہ كو اس قدر گراديا كہ عوام كو ان كے خلاف بغاوت كرنے ميں ذرا دقت نہيں ہوئي _

خليفہ كا ذليل ہونا يا محترم ہونا خود خليفہ كى ذاتى چيز نہيں تھى ، بلكہ وہ خلافت كے حدود سے تجاوز كر بيٹھے تھے ، ان زيادتيوں كى وجہ سے ان كا احترام ختم ہوگيا ، وہ بہت كمتر اور ذليل سمجھے جانے لگے اسى وجہ سے لوگوں كى جسارت اور زيادتى عثمان كے بعد خلفاء سے زيادہ تر ديكھى گئي _

۱۴۳

اسى طرح ان حوادث سے واضح ہوتا ہے كہ دن بدن ام المومنين عائشه اور عثمان كے تعلقات خراب تر ہوتے جاتے رہے تھے _

وہ ايك دن عثمان كى شديد حمايتى سمجھى جاتى تھيں ، اور اج مضبوط ترين دشمنوں كى صف ميں نظر اتى ہيں ، جيسے جيسے وقت گذرتا گيا ، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے ، دشمنى كى اگ دونوں كے دامن كو زيادہ بھڑكاتى گئي _

شايد يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان دونوں كا لفظى جھگڑا اسى وقت شروع ہو گيا تھا جب عثمان نے ان كے وظيفے ميں كٹوتى كى تھى _

بعد ميں جيسے جيسے حالات اور حوادث پيدا ہوتے گئے ، اعتراضات عائشه اور عثمان كے جوابى الزام كا لہجہ بھى تلخ و تند ہوتا گيا ، اخر كار وہى ام المومنين جو عثمان كى دوسروں سے زيادہ دفاع كرتى تھيں انھيں اپنے كينہ و عناد كى زد پر ركھ ليا ،ان كو خليفہ كے زبردست دشمنوں ميں شمار كيا جانے لگا _

اس بار ام المومنين عائشه كا عثمان سے پيكار و مخالفت كا مسئلہ صرف اپنے يہ مفادات و مصالح كے لئے نہ تھا ، بلكہ ان كى عظمت اور شخصيت زيادہ سے زيادہ ہمارى نظر كو موہ ليتى ہے_

۱۴۴

فصل چھارم

عائشه نے انقلاب كى قيادت كي

يہاں تك جو كچھ بيان كيا گيا وہ اہم ترين عوامل تھے جنھيں ام ا لمومنين عائشه نے عثمان كى مخالفت اور لوگوں كو ان كے خلاف شورش بر پا كرنے كيلئے ہتھيار كے طور پر استعمال كيا ورنہ عثمان اور ان كے حاشيہ نشينو ں كے خدا سے غافل غير شرعى حركات اور نا پسنديدہ اعمال ان سے كہيں زيادہ ہيں جنھيں بيان كيا گيا ، ان ميں سے ہر ايك روش بجائے خود اقتدار و خلافت اور شخصيت عثمان كے خلاف انقلاب اور شورش بر پا كرنے كيلئے لوگوں كے دلوں ميں جمى ہوئي تھى واضح بات ہے كہ يہ تمام عوامل لوگوں كو شورش سے ابھارنے اور اصحاب كو ان سے بد ظن كرنے كيلئے بہت موثر تھے _

ليكن وہى عوام (شايد انھيں كى ساختہ پر داختہ احاديث كى وجہ سے )خود اپنے اندر اتنى جرات نہيں ركھتے تھے كہ خود كو ايسى شخصيت كے خلاف جسے جانشين رسول اور خليفہ كيلئے پكارتے ہيں ،اعتراض كريں ، تلوار اٹھانے كى بات تو بہت دور كى ہے _

ليكن يہ جسارت و جرات ابن مسعود ، عمار ياسر ، ابوذر غفارى اور جندب جيسے عظيم اصحاب رسول كى شديد مخالفت اور شجاعانہ اقدامات نے پيدا كى ، بنابر يں عوامى انقلاب كيلئے با رودكا ڈھير بس ايك چنگارى كا منتظر تھا يہ اگ ام المومنين كے تاريخى فتوے نے بھڑكا دى اور اخر كار عثمان اپنے تمام اقتدار و عظمت كے ساتھ زميں بوس ہو گئے ، خاك و خون ميں غلطاں ہوگئے _

عائشه كے پاس بڑى ذہانت و فراست تھى انھوں نے اپنى صلاحيتوں سے عثمان كے خلاف عوامى شورش برپا كركے سب كچھ اپنے مفاد ميں كرنے كيلئے بھر پور استفادہ كيا ، كيونكہ انھوں نے ديكھا كہ لوگ عثمان كى ناكام حكومت سے تنگ اگئے ، ان كے مطلق العنان حاشيہ نشينوں كا ظلم عوام كى ہڈيوں ميں سرايت كر گيا تھا ، يہى وہ بات تھى جس پر توجہ كرتے ہوئے انھوں نے اپنى سيادت كا تحفظ كرتے ہوئے تمام لوگوں كو ہيجان ميں لانے اور عثمان كے خلاف بغاوت پر امادہ كرنے كى قيادت خود انھوں نے سنبھال لى ،اور وہ بھى اسطرح كہ جيسا وہ خود چاہيں ويسا ہى نتيجہ نكلے _

عوام عثمان كے ظلم و ستم كى وجہ سے انقلاب كے پياسے تھے ام المومنين عائشه كى تقريروںاور كاروائيوں نے نشاط تازہ بخشى _ انہيں كاميابى كى اميدوں سے نہال كيا عثمان كے كرتوتوں كے خلاف ام المومنين عائشه كا نام اور تقرير

۱۴۵

يں نہ صرف مدينہ اور اسكے مضافات ميں ، بلكہ حجاز كے باشندوں اور پھر تمام مملكت اسلامى كے عوام كى زبان پر تھا خاص طور سے اس لئے كہ ان كا خاندان تيم بھى ان كى حمايت ميں تھا اور يہ انقلاب حساس ترين كردار نبھا رہا تھا _

بلاذرى جو خود مكيت خلفاء كا وقيع عالم ہے ، اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتا ہے _

خاندان تيم كے افراد محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ كى حمايت ميں عثمان كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے _

عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر نے تيميوں كى استقامت كے لئے مصر سے بغاوت كا اغاز كيا اور يہ اس وجہ سے ہوا كہ محمد بن ابى بكر اور محمد بن ابى حذيفہ نے گورنر مصر عبداللہ بنابى سرح كى چند غير شرعى باتوں كى وجہ سے بغاوت كى اخر مصر يوں نے وہاں اپنا قبضہ جما ليا اب يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ان تينوں تاريخى چہروں كا تعارف كرايا جائے جو اس عہد كے سيا سى حالات كے حساس كردار ہيں _

تين چہرے

۱_ عبد اللہ بن سعد بن ابى سرح

عبداللہ بن سعد قريش كے قبيلہ عامر كے اس خانوادے سے تعلق ركھتا تھا جو ابى سرح كاتھا اسكى ماں نے عثمان كودودھ پلايا تھا اس بناء پر عثمان اور عبداللہ رضاعى بھائي تھے _

عبداللہ فتح مكہ سے پہلے اسلام لايا ،اور مدينہ ہجرت كى اسے رسول كے كاتبوں ميں شمار كيا جاتا ہے ،ليكن كچھ دن بعد مرتد ہو كر مكہ واپس چلا گيا ،اس نے وہاں سرداران قريش سے كہا _ محمد ميرى خواہشات اور ارادوں كے پابند تھے ميں جو كچھ كہتا وہ عمل كرتے مثلا وہ كہتے لكھو عزيز حكيم ميں ان سے پوچھتا ، كيا لكھ دوں عليم حكيم ،وہ جواب ديتے _

كوئي ہرج نہيں ، دونون ٹھيك ہے _

۱۴۶

خدا وند عالم نے عبداللہ بن ابى سرح كے بارے ميں يہ آيت نازل كى _

ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا سورة انعام آيت ۹۳

اور اس شخص سے بڑا ظالم اور كون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گڑے ،يا كہے كہ مجھ پر وحى ائي ہے حالانكہ اس پر كوئي وحى نازل نہيں كى گئي ہو ،يا جو اللہ كى نازل كردہ چيز كے مقابلے ميں كہے كہ ميں بھى ايسى چيز نازل كركے دكھا دوں گا _

كاش تم ظالموں كو اس حالت ميں ديكھ سكو جبكہ وہ سكرات موت ميں ڈبكياں كھا ر ہے ہوتے ہيںاور فرشتے ہاتھ

بڑھا بڑھا كر كہہ رہے ہوتے ہيں لائو نكالو اپنى جان ، اج تمہيں ان باتوں كى پاداش ميں ذلت كا عذاب ديا جائے گا _

جو تم اللہ پر تہمت ركھ كر نا حق بكاكرتے تھے ،اور اسكى ايات كے مقابلے مين سركشى دكھاتے تھے _ جب مكہ مسلمانو ںكے ہاتھوں فتح ہوا تو رسول خدا نے عبداللہ بن ابى سرح كے قتل كا فرمان صادر كيا ،اور حكم ديا چاہے وہ لباس كعبہ ہى سے چپكا ہوا ہو اسے قتل كردو _ عبداللہ اپنى موت سے ڈرا اور عثمان كى پناہ پكڑى ،عثمان نے اسے چھپا ديا ، پھر اسے خدمت رسول ميں لائے اور اسكے لئے امان طلب كى _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك خاموش رہے ، اپ نے اپنا سر بلند نہيں كيا اخر اپ نے عثمان كى تائيد كردى جب عثمان چلے گئے تو انحضرت نے لوگوں كى طرف رخ كر كے فرمايا :

ميں اس لئے خاموش تھا كہ تم ميں سے كوئي اٹھكر اسكا سر تن سے جدا كر ديتا _ جواب ديا گيا ، اپ نے ہميں ذرا بھى اشارہ كيا ہوتا ،رسول خدا نے فرمايا ،پيغمبر كيلئے انكھ كا اشارہ مناسب نہيں _ جب عثمان خليفہ ہوئے تو ايسا پاپى شخص برادرى كے حوالے سے ۲۵ھ ميں وہاں كے گورنر عمر وعاص كو معزول كر كے مصر كى حكومت ديدى گئي _ عبداللہ نے افريقہ كے بعض علاقے فتح كئے ، عثمان نے اسكے انعام ميں افريقہ كى غنيمت كا تما م خمس اسى كو بخش ديا _ وہ ۳۴ھ تك حكومت مصر پر باقى تھا ، محمد بن ابى بكر اور ابن ابى حذيفہ كى شورش سے عسقلان بھاگ گيا ، وہ وہيں تھا كہ عثمان قتل كردئے گئے ، عبداللہ كى موت ۵۷ھ ميں ہوئي(۱۵)

____________________

۱۵_ استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، ا نساب الاشراف ، مستدرك ،تفسير قرطبى وديگر تفاسير ، ابن ابى الحديد

۱۴۷

۲_ محمد بن ابى بكر

محمد خليفہ اول ابو بكر كے فرزند تھے ، انكى ماں اسماء بنت عميس قبيلہ خثعم سے تھيں ،ان كے پہلے شوہر جعفربن ابى طالب تھے انكى شھادت كے بعد ابوبكر كے عقد ميں ائيں ، ان سے محمد كى پيدائشی مكّے كے راستے ميں حجة الوداع كے موقع پر ہوئي _

جب ابوبكر نے انتقال كيا حضرت علىعليه‌السلام نے اسماء سے شادى كى اسطرح محمد كى نشو ونما حضرت علىعليه‌السلام كے گھر پر ہوئي ،حضرت علىعليه‌السلام ہى نے انكى تربيت فرمائي ، نتيجے ميں وہ حضرت علىعليه‌السلام كے جاں باز اور ثابت قدم صحابى تھے ، محمد نے حضرت عليعليه‌السلام كے ركاب ميں جنگ جمل ميں اپنى بہن عائشه كے خلاف جنگ كى ، پھر امام نے حكومت مصر كيلئے ان كا انتخاب فرمايا _

محمدپندرہ رمضان ۳۵ھ ميں وارد مصر ہوئے اور وہاں كے انتظامى امور سنبھالے ليكن ۳۸ھ ميں معاويہ نے عمر وعاص كى سر كر دگى ميں ايك بڑى فوج بھيجى ، عمرو نے محمد پر غلبہ پايا اور مصر فتح كر ليا ، اور معاويہ بن خديج نے انھيں قتل كيا پھر عمروعاص كے حكم سے گدھے كى كھال ميںانكى لاش ركھ كر جلا دى گئي(۱۶)

۳_ محمد بن ابى حذيفہ

ابو القاسم كنيت تھى ، محمد نام تھا ، ابو حذيفہ بن عتبہ كے فرزند تھے ، قريش كے قبيلہ عبد الشمس سے تھے ، انكى ماں سھلہ بنت سھيل بن عمر قبيلہ عامر سے تھيں ، محمد كے ماں اور باپ دونوں ہى حبشہ كے مہاجر تھے ، محمد وہيں حبشہ ميں پيدا ہوئے ، ابوحذيفہ جنگ يمامہ ميں مسيلمہ كذاب كے ہاتھوں شھيد ہوئے اور عثمان نے محمد كو اپنى فرزندى ميں لے كر انكى تربيت كى ، وہ عثمان ہى كے سايئہ عاطفت ميں پلے اور بڑھے _

____________________

۱۶_ حالات محمد بن ابى بكر كيلئے استيعاب ج۳ ص۳۲۸ ، اصابہ ج۳ ص۴۵۱ اور ديگر تاريخيں ديكھى جا سكتى ہيں

۱۴۸

جب عثمان خليفہ ہوئے تو محمد نے عثمان سے اجازت مانگى كہ كفار سے جھاد كيلئے مصر جائيں ، عثمان نے ان كا مطالبہ مان ليا محمد مصر چلے گئے ، جس زمانے ميں مسلمانوں نے عثمان كے خلاف شورش بر پا كى تو وہ بھى لوگوں كو حساس ترين لہجے ميں عثمان كے خلاف بھڑكانے لگے ،اخر كا رايك حملے ميں عبداللہ بن سرح پر قابو پا ليا اور اسے مصر سے بھگا ديا اور وہاں كے حكمراں بن گئے _ مصريوں نے محمد كى حكومت كو جان و دل سے مان ليا ، انكى بيعت كى اسطرح مصر كى زمام امور ان كے ہاتھ اگئي _ جب حضرت علىعليه‌السلام خلافت كى مسند پر بيٹھے تو انھيں مصر پر باقى ركھا وہ حضرت على كى طرف سے بھى مصر كے انتظامى كام كاج ديكھتے رہے جب معاويہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كيلئے صفين كى طرف چلا تو ان كا سامنا ہوا ،محمد معاويہ سے مقابلے كيلئے نكلے ، اور اسے شام كى طرف سے مصر كے پہلے شھر فسطاط ہى ميں روكا ، ليكن انھوں نے معاويہ سے مقابلے كى تاب نہيں ديكھى اسلئے اس سے صلح كر لى _ صلح كى شرائط ميں ايك شرط يہ بھى تھى كہ محمد اور ان كے ساتھى مصر سے نكل جائيں اور يہ لوگ امان ميں رہيں گے ، ليكن جب محمد اپنے تيس ساتھيوں كے ساتھ مصر سے نكلے تو معاويہ نے بزدلانہ طريقے سے اپنے معاہد ے كے خلاف انھيں قيد كر ليا اور دمشق كے زندان ميں بھيج ديا اخر كار معاويہ كے غلام رشديں نے انھيں قتل كرديا _ محمد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صحبت بھى پائي تھى(۱۷)

____________________

۱۷_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۰۸

۱۴۹

اب اس سے پہلے كہ ہم فرزند ابو بكر اور محمد بن حذيفہ كى شورش كا تذكرہ كريں يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ عمر وعاص جو خود فاتح مصر اور عمر كے زمانے سے وہاں كے گورنر تھے وہاں انكى ذمہ داريوں ميں امور ماليات اور امام جماعت دونوں باتيں شامل تھيں ، ليكن اسطرح انكى حكمرانى دير تك باقى نہيں رہى ، عثمان نے ماليات كے امور ميں ان كے ہاتھ كوتاہ كر ديئے اور يہ عہد ہ عبداللہ بن ابى سرح كو ديديا ، اور عمر وعاص كو حكم ديا كہ صرف لوگوں كو نماز پڑھائيں ليكن دير نہيں گذرى كہ يہ بھى ان سے چھين ليا ، اور يہ عہدہ بھى عبداللہ كو ديكر دونوں عہدے اپنے رضاعى بھائي كو ديديئے ، اسطرح ايك بار انھوں نے عمروعاص كے ہاتھ سے مصر كا اقتدار چھين ليا(۱۸)

مصريوں كى شورش

بلاذرى لكھتا ہے :

اسكے بعد كہ تمام مملكت اسلاميہ اور اس پاس كے علاقے عثمان كے خلاف ايك رائے ہو گئے ،چاروں طرف سے اعتراض كى اواز يں بلند ہونے لگيں ،اسى زمانے ميں جبكہ عبداللہ سرح عثمان كى طرف سے مصر كا حكمراں تھا ،محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر مصر ميں وارد ہوئے اور محمد بن طلحہ كے ساتھ اپنے منصوبے ميں ايك رائے ہوگئے ،ان كے مصر ميں انے كى پہلى صبح تھى كہ محمد بن ابى حذيفہ نماز جماعت ميں تاخير سے انے كى وجہ سے مجبور ہو كر اس نے بلند اواز سے كہا ، عبداللہ سرح وہاں موجود تھا ، جب اس نے فرزند ابو حذيفہ كى اواز نماز سنى ، فرمان صادر كيا كہ جس وقت يہ نما ز پڑھ لے ميرے پاس حاضر كيا جائے _

جب محمد كو عبداللہ كے سامنے بٹھا يا گيا تو اس نے فرزند ابو حذيفہ سے پو چھا ،يہاں كيوں ائے ہو ؟

_ كفار سے جنگ ميں شركت كى غرض سے تمہارے ساتھ كون كون ہے ؟

_محمد بن ابى بكر

____________________

۱۸_ استيعاب ج۳ ص۳۲۱ ، اسد الغابہ ج۴ ص ۳۱۵ ، اصابہ ج۳ ص۵۴ اور تاريخ طبرى ابن اثير در ذكر حوادث سال ۳۰ تا۳۶ھ

۱۵۰

ميں قسم كھاتا ہوں كہ ايسا نہيںہے ، بلكہ تم لوگ بلوہ اور فساد كرانے ائے ہو ، پھر حكم ديا كہ دونوں كو قيد خانے ميں ڈال ديا جائے _ مجبور ہو كر ان دونوں نے محمد بن طلحہ كا ذريعہ پكڑ ا اور اس سے تقاضہ كيا كہ حاكم كے پاس سفارش كرے كہ ہميں كفار كے خلاف جنگ سے نہ رو كے _ اس تركيب سے عبداللہ نے ان دونوں كو ازاد كر ديا _ اور خود جنگ كيلئے روانہ ہو گيا ، ليكن چونكہ يہ دونوں مشكوك تھے اسلئے حكم ديا كہ ان كے لئے الگ كشتى تيار كى جائے ، اور اسلئے بھى كہ لوگوں سے ان كا ميل جول نہ بڑھے اس سے بھى روكنا تھا _ ليكن فرزند ابو بكر بيمار پڑ گئے ،اور وہ اس موقع پر حاكم مصر كے ساتھ نہيں جاسكے ،مجبورا محمد بن حذيفہ بھى انكى عيادت ميں رك گئے ، جب محمد بن ابى بكر شفاياب ہو گئے تو يہ دونوں مسلمانوں كے ايك گروہ كے ساتھ جھاد كيلئے نكلے _

اس مدت ميں سپاہيوں سے مسلسل ميل جول كى وجہ سے ان سے بات چيت ہوئي ،سپاھيوں نے انھيں ضرورى اطلاعات فراہم كرديں ،اسطرح يہ لوگ خارجى دشمنوں سے جنگ كرنے كے بعد واپس ہوں تو لوگوں كے دلوں ميں عثمان كے خلاف نفرت پيدا كريں ان كے كر توت بيان كر كے غم و غصہ بھر ديں(۱۹)

بلاذرى دوسرى جگہ لكھتا ہے :

جس وقت حاكم مصر نے محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كو حراست ميں ليا تھا ، محمد بن حذيفہ نے لوگوں كو مخاطب كر كے تقرير كى مصر والوں كو جان لينا چايئے كہ ہم نے جہاد فى سبيل اللہ يعنى عثمان كے خلاف جنگ كو ملتوى كر ديا ہے _

تاريخ طبرى ميں ہے _

اسى سال كہ جب عبداللہ كفار سے جنگ كيلئے نكلا ، محمد بن حذيفہ اور محمد بن ابى بكر بھى اسكے ساتھ جنگ كرنے نكلے ،راستے ميں انھوں نے عثمان كى خلاف شرع حركتوں اور برے اعمال كے لوگوں سے تذكرے كرتے رہے _

كہ كس طرح انھوں نے سنت ابو بكر و عمر كو بھى پس بدل ڈالا ہے اب يہى ديكھئے كہ عبداللہ جيسا شخص جسكا خون رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباح قرار ديا تھا ، قران نے اسكے كفر كى گواہى دى ہے ، ايسے شخص كو عثمان نے مسلمانوں كے جان و مال كا حكمراں بنا ديا ہے ، پھر يہ كہ طريد رسول كو اپنى پناہ ميں لے ليا ہے (جسے رسول نے دھتكار ديا تھا اسے انھوں نے پناہ ديدى ہے )رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جسے جلا وطن كيا تھا اپنے پاس بلايا ہے ، انھيں بنيادوں پر عثمان كا خون حلال ہے ، اور اسى طرح كى باتيں اسلامى

____________________

۱۹_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۵۰ و تاريخ طبرى در بيان غزوہ ذات الصوارى سال ۳۱

۱۵۱

سپاہيوں سے كہہ ڈاليں تاكہ ان كے دل سے حكومت كى ہمدردى ختم ہو جائے _

نيز يہ بھى لكھا ہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے كہا :

خدا كى قسم ،ہم نے حقيقى جھاد چھوڑ ديا ہے ، پوچھا گيا ، كس جھاد كو كہہ رہے ہو ؟ جواب ديا ، عثمان سے جنگ اور جہاد پھر ان سے بيان كيا كہ عثمان كى كارستانياں كيا كيا ہيں ، يہاں تك كے ان كے دل خلافت سے اسقدر منحرف كر ديئےہ جب جہاد سے واپس اكر اپنے شہر و دربار ميں گئے تو تمام لوگ عثمان كے كرتوتوں كى ايسى ايسى برائياں بيان كرنے لگے كہ اس سے پہلے كبھى نہيں كى تھى(۲۰)

محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كے پر چار ميںاسقدر تاثير تھى كہ لوگ عبداللہ سرح كى حكومت اور اسكے كرتوتوں كے سخت مخالف ہو گئے جو انھيں مصريوں پر حكومت كر رہا تھا ، اس نے كوئي ظلم باقى ، نہيں ركھا تھا ، يہاں تك كہ عبداللہ نے مصر كے بعض ايسے معزز حضرات جنھوں نے عبداللہ سرح كى شكايت عثمان سے كى تھى انھيں اسقدر مارا تھا كہ ہلاك ہو گئے تھے _

مصريوں نے عثمان سے عبداللہ سرح كى جو داد فرياد كى تھى طبرى اور ديگر تاريخ نگاروں نے اسكى تما م تفصيل لكھى ہے منجملہ ان كے مصر والوں نے اپنى شكايت ميں عثمان كے سامنے ابن عديس كو بات كرنے كيلئے اگے كيا _

اس نے بھى عثمان كے سامنے عبداللہ كے خلاف بيان ديا ، اور ياد دلايا كہ كسطرح مسلمانوں اور ديگر اقليتوں كے ساتھ يہ شخص مظالم ڈھاتا ہے ، مال غنيمت كى تقسيم ميں انصاف نہيں كرتا ، خود اپنے پاس ركھ ليتا ہے ، جب اسكى نا انصافيوں پر اعتراض كيا جاتا ہے تو امير المومنين كا خط دكھاتا ہے كہ خليفہ نے ايسا ہى حكم ديا ہے(۲۱)

اتش فتنہ بجھانے كيلئے امام كى مساعي

ابن اعثم اپنى تاريخ ص۴۶ ميں لكھتا ہے :

مصر كے كچھ معزز افراد عبداللہ بن سعد بن سرح كى شكايت ليكر مدينہ ميں ائے اور مسجد رسول خدا ميں اترے

____________________

۲۰_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۷۰_ ۷۱

۲۱_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۱۸ و ابن اثير ج۳ ص ۷۰

۱۵۲

وہاں انھوں نے مہاجر ين و انصار كے گروہ سے ملاقات كى ، اصحاب نے جب ان كے مدينے انے كى وجہ پوچھيں تو انھوں نے كہا :

اپنے گورنر كى شكايت ليكر ائے ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے كہا :

اپنے كاموں اور انصاف طلب كرنے ميں جلدى نہ كرو اپنى شكايت خليفہ كے سامنے پيش كرو ، سارا واقعہ ان سے بيان كرو كيونكہ ممكن ہے كہ مصر كے حكمراں نے خليفہ كے حكم كے بغير يہ سارے كام كئے ہوں ،تم لوگ خليفہ كے پاس جائو ، اور اپنے مصائب ان كے سامنے دہرائو تو عثمان اسكى سختى سے باز پرس كريں گے اسے معزول كرديں گے ، اسطرح تمہارا مقصد حاصل ہو جاے گا ، اگر عثمان نے ايسا نہ كيا اور عبداللہ كے كر توتوں كى تائيد كى تو تم خود سمجھ جائو گے _

مصر والوں نے ان كا شكريہ ادا كيا اور دعائے خير كے بعد كہا صحيح يہى ہے جسے اپ نے بيان كيا ، ليكن ہمارى استدعا ہے كہ اپ خود ہم لوگوں كے ہمراہ وہا ں چليں _ حضرت على نے جواب ديا ، وہاں ميرى موجودگى كى ضرورت نہيں ، تم لوگ خود جائو اور سارا واقعہ ان سے بيان كرو يہى كافى ہے مصر والوں نے كہا :

اگر چہ يہى ہے ليكن ہمارى خواہش ہے كہ اپ بھى ہمراہ چليں اور جو كچھ پيش ائے اسكے گواہ رہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا :

جو ذات ہم سب سے قوى تر ہے تمام خلاق پر مسلط ہے اور بند و ں پر سب سے زيادہ مہربان ہے وہ تم سب كا گواہ اور نگراں ہو گا _

اشراف مصر عثمان كے گھر گئے اور اندر انے كى اجازت طلب كى ،جب يہ عثمان كے سامنے پہونچے تو عثمان نے ان كا بڑا احترام كيا ،انھيںاپنے پہلو ميں بٹھايا ، پھر پوچھا _

كس لئے ائے ہو ؟ كون سى مصيبت اپڑى كہ تم بغير ميرے گورنر يا ميرى اجازت كے مصر سے نكل پڑے _

ہم اسلئے ائے ہيں كہ ا پ كے كاموں كى شكايت كريں اور اپ كا گورنر جو ہمارے اوپر ظلم ڈھارہا ہے اسكا مداوا چاہيں _

اسكے بعد ابن اعثم نے اس گروہ كے دلائل جو عبداللہ كے خلاف عثمان كے سامنے پيش كئے اور جو كچھ عثمان اور ان كے درميان واقعہ پيش ايا سارى تفصيل لكھى ہے _

۱۵۳

عثمان كے خلاف مدينے والوں كى شورش

عثمان اور ان كے كارمندوں اور حاشيہ نشينوں كى غلط حركات بڑھتى ہى گئيں ،لوگوں كى شكايات اور اعتراض كى كوئي شنوائي نہيں تھى مخالفت و اعتراض كا سيلاب تمام اسلامى مملكت ميں پھيل گيا اخر اس سيلاب نے مدينے كو بھى اپنى لپيٹ ميں لے ليا _

بلاذرى ان حوادث كى اسطرح تشريح كرتا ہے_

جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو اكثر اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان سے خوش نہيں تھے ، كيو نكہ عثمان ميں اقربا پرورى بہت زيادہ تھى ، اپنى بارہ سالہ مدت خلافت ميں اپنے خاندان كے اكثر ايسے لوگوں كو ولايت و حكومت ديدى تھى ، جنھوں نے رسول كى صحبت بھى نہيں پائي تھى ، ان سے خلاف توقع كام سرزد ہوئے ، اسلئے اصحاب رسول خفا ہوتے اور اعتراض كرتے ، ليكن عثمان ان تمام باتوں كو نظرانداز كرتے ، كسى كا رندے كى سر زنش نہيں كرتے نہ انھيں معزول كرتے تھے ،خليفہ نے اپنے اخر چھہ سالہ دور حكومت ميں اپنے چچيرے بھائي كو تمام مسلمانوں پر برترى ديدى تھى ، انھيں حكومت ديكر لوگوں كى گردنوں پر مسلط كر ديا تھا _

منجملہ ان كے عبداللہ بن ابى سرح كو مصر كى حكومت ديدى تھى اس نے كئي سال مصر پر حكومت كى وہاں كے باشندوں نے بار بار اسكے ظلم و ستم كى شكايت كر كے داد چاہى ،يہاں تك كہ عثمان نے مجبور ہو كر عبداللہ كو خط لكھا اور ڈرايا دھمكايا ، ليكن عبداللہ نے نہ صرف يہ كہ اپنى گھنائو نى حركتيں نہيں چھوڑيں بلكہ ايك شكايت كرنے والے كو اسقدر مارا كہ وہ ہلاك ہو گيا(۲۲)

جب مصائب حد سے زيادہ بڑھ گئے كہ مسلمانوں كو عثمان اور اسكے كارندوں كى غلط حركات برداشت سے باہر ہو گيا تو مدينے كے اصحاب رسول نے تمام شہروں كے مسلمان بھائيوں كو خطوط لكھے اور انھيں عثمان كے خلاف جھاد كرنے پر ابھارا _

طبرى نے اس خط كا متن يوں درج كيا ہے _

تم لوگ جھاد فى سبيل اللہ اور تبليغ دين كے لئے مدينے سے باہر ہو حالانكہ جو شخص تم پر حكومت كررہا ہے وہى دين محمد كو تباہ كر رہا ہے _

____________________

۲۲_ انساب الاشراف بلاذرى ج ۵ ص ۲۵ _ ۲۶

۱۵۴

ابن اثير كى روايت ميں خط كا فقرہ يہ ہے ،تمھارا خليفہ دين محمد كو تباہ كر چكاہے _

شرح بن ابى الحديد ميں ہے كہ خط كے اخر ميں لكھا گيا تھا ، اسكو خلافت سے خلع كردو (اسكى خلافت كا جوا اتار پھينكو )اسكے بعد تو چاروں طرف سے ناراض لوگوں كا ہجوم پہونچ گيا اور اخر كار انھيں قتل كر ڈالا(۲۳) بلاذرى لكھتا ہے : ۳۴ھ ميں كچھ اصحاب رسول نے اپنے تمام صحابہ دوستوں كو خط لكھ كر عثمان كى روش بيان كى يہ كہ انھوں نے قوانين اور سنت رسول كو بدل ڈالا ہے اس كے كارندوں نے جو مظالم ڈھائے ہيں انكى چاروں طرف سے شكايتيں ارہى ہيں اگر تم راہ خدا ميں جہاد كے خواہاں ہو توجلد مدينے پہونچو _ اس سال اصحاب رسول ميں ايك شخص بھى عثمان كى طرف سے صفائي دينے والا اور جانبدارى كرنے والا نہيں تھا ،سوائے زيد بن ثابت(۲۴) ابو اسيد انصارى اور حسان بن ثابت(۲۵) اور كعب بن مالك كے_

____________________

۲۳_ طبرى ج۵ ص۵۱ ،ابن اثير ج۵ ص۷۰ ، شرح بن ابى الحديد ج۱ ص۱۶۵

۲۴_زيد بن ثابت بن ضحاك انصارى ، انكى ماں كا نام نوار بنت مالك تھا ، يہ پہلے كاتب رسول تھے ، پھر يہى خدمت عمرو ابوبكر كى بھى كى ، جب عمر و عثمان مدينے سے مكہ جاتے تو انھيں كو جانشين بناتے زيد عثمان كے زمانے ميں بيت المال كے خزانچى تھے ، ايك دن عثمان زيد سے ملنے گئے تو زيد كا غلام وھيب گيت گارہا تھا ، عثمان كو اواز پسند ائي اسكا ہزار درہم سالانہ وظيفہ مقرر كر ديا ، زيد عثمان كے شديد حمايتى تھے ، انكى موت كى تاريخ ميں اختلاف ہے ۴۲،سے ۵۵ تك لكھا گيا ہے ، مروان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي ، ابو اسيد ساعدى اور كعب بن مالك بھى ان اصحاب ميں ہيں جنھوں نے بدر اولى اور ديگر غزوات ميں شركت كى ، صرف تبوك اور بدر ميں شركت نہيں كى ، ابو اسيد قتل عثمان سے پہلے اندھے ہو گئے تھے ، انكى تاريخ انتقال كے بارے ميں اختلاف ہے

۲۵ _ حسان بن ثابت انصارى كى كنيت ابو عبدالرحمن تھى ، مشھور شاعر قبيلہ خزرج سے تھے ، ان كى ماں كا نام فريعہ بنت خالد انصارى تھا ، حسان كے بارے ميں رسول خدا نے فرمايا تھا ، خدا حسان كى اسوقت تك تائيد كرے جب تك وہ رسول كى مدح كرتا رہے ، حسان نے خوبصورت اسلوب ميں اشعار كہے رسول كى تعريف كى ، اور كفار كى ہجو كى ، حسان بہت بزدل تھے ، جنگ خندق كے موقع پر رسول خدا نے حسان كو بچو ں اور عورتوں كا نگراں بنايا تھا تاكہ دشمنوں كى نظر سے پوشيدہ رہيں ، عورتوں ميں صفيہ بھى تھيں ، اسى درميان ايك يہودى قلعہ كى ديوار سے جاسوسى كرنے لگا ، صفيہ نے حسان سے كہا اسے موقع نہ دو كہ ہمارى خبر ہو ، رسول خدا ھم سے مطمئن ہو كر جھاد كر رہے ہيں جاكر اس يہودى كو قتل كر دو ، حسان نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب ، تم خوب جانتى ہو كہ ميں اس ميدان كا انسان نہيں ہوں ، ميرے پاس حوصلہ نہيں ، صفيہ نے يہ سنكر خيمے كا ستون ليا اور قلعہ سے نكل كر يہودى كے سر پر مارا اور فاتحانہ قلعے ميں داخل ہوئيں ، حسان سے كہا ، اب جاكر اسكے كپڑے اتار لو ، حسان كو جيسے ڈر لگ رہا تھا كہ يہودى مقتول كے ساتھى ہجوم كركے اجائيں ، انھو ں نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب مجھے ان كپڑوں كى ضرورت نہيں حسان اسى بزدلى كى وجہ سے كسى جنگ ميں شريك نہيں ہوئے اور اس سعادت سے محروم رہے رسول خدا نے ماريہ كى بہن شيريں حسان كو بخش دى تھى جس سے عبدالرحمن تولد ہوئے ،يہ عبدالرحمن رسول خدا كے فرزند ابراہيم كے خالہ زاد بھائي تھے ، حسان نے اپنے باپ دادا كى طرح طويل عمر پائي ۴۰ يا ۵۰ يا۵۴ ،ميں ايكسوبيس سال كى عمر ميں مرے ، اسد الغابہ استيعاب اصابہ ديكھئے كعب بن مالك انصارى قبيلہ خزرج سے تھے ، كنيت ابو عبداللہ يا ابو عبد الرحمن تھى ، ماں كا نام ليلى بنت زيد بن ثعلبيہ خزرجى تھا ، كعب نے عقبہ كى رات مكّے ميں (بيعت عقبہ ) كے موقع پر بيعت كرتے ہوئے رسول خدا كا ہاتھ دبايا تھا كعب نے تما م غزوات ميں شركت كى سوائے بدر و تبوك كے ، يہ ان تين افراد ہى تھے جنھوں نے تبوك نہ جانے ميں پشيمانى جھيلى اور توبہ كى اور قبوليت توبہ كى آيت اترى ، كعب شاعروں كى بڑى عزت كرتے ، بيت المال سے بخشش زيادہ كرتے بلا سبب مسلمانوں كا مال دے ڈالتے ، اسى لئے يہ دونوں عثمان كے زبردست حمايتى تھے

۱۵۵

تما م مہاجرين اور دوسرے لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوئے اور ان سے مطالبہ كيا كہ عثمان سے گفتگوكريں اور وعظ و نصيحت كر كے انھيں راہ راست پر لائيں _

حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس گئے اور انھيں نصيحت كى _

لوگ ميرے پاس اكر تمھارے بارے ميں باتيں كرتے ہيں ، خدا كى قسم ميں نہيں جانتا كہ تم سے كيا كہوں، كوئي بات تم سے ڈھكى چھپى نہيں ، جسے ميں بتائوں ، تمھيں راستہ سو جھانے كى ضرورت نہيں جو كچھ ميں جانتا ہوں تم بھى جانتے ہو تم سے زيادہ نہيں جانتا كہ تمھيں اگاہ كروں _

تم نے رسول كى صحبت پائي ہے ، ان سے باتيں سن كر اور ديكھ كر ميرى طرح بہرہ حاصل كيا ہے ، ابو قحافہ اور خطاب كے بيٹے تم سے زيادہ نيك اور شائستہ تر نہيں تھے ، كيو نكہ تم رسول سے دامادى اور رشتہ دارى كى قربت ركھتے ہو ، تم رسول كے داماد ہو اسلئے اپنے اپ ميں ائو اور اپنى جان سے ڈرو تم اسطرح اندھے ہو كر چل رہے ہو كہ تمھيں بينا كرنا بہت مشكل ہے ، اور اسطرح جہالت و نادانى كے كنو يں ميں گر چكے ہو كہ تمھيں باہر نكالنا مشكل ہے _

عثمان نے جواب ديا _

خدا كى قسم ، اگر تم ميرى جگہ پر ہوتے تو اپنے رشتہ داروں كو نوازنے اور صلہ رحم كرنے كى بنا پر ميں تمھيں سر زنش نہيں كرتا ، اگر تم اپنے پريشان حالوں كو پناہ ديتے اور جنھيں عمر نے كاموں پر لگايا تھا انھيں ہٹا كر انھيں مقرر كرتے تو ميں تمھارى ملامت نہ كرتا _

تمھيں خدا كى قسم ہے ، اخر تمھيں بتائو كيا مغيرہ بن شعبہ كو جو كسى طرح بھى لائق نہ تھا ، عمر نے حكومت نہيں دى تھى _

كيوں صحيح ہے

تب اخر كيو ں اب جبكہ ميں نے اپنے رشتہ دارفرزند عامر كو گورنر ى ديدى ہے تو مجھے ملامت كررہے ہو ؟

۱۵۶

تمھيں يہ بتا نا ضرورى ہے كہ جب عمر كسى كو حكومت ديتے تھے تو پورے طور سے اس پر حاوى رہتے تھے ، پہلے اسے اپنے پائوں تلے روند ليتے تھے ، جب اسكے خلاف شكايت ملتى تو اس پر سختى كرتے ، اسے حاضر ہونے كا نوٹس ديتے، اور اس بار ے ميں سخت كاروائي كا مظاہرہ كرتے تھے ، ليكن تم نے يہ سب كچھ نہيں كيا ، بلكہ اپنے رشتہ داروں كے سامنے ضعف نفس اور نرمى كا مظاہرہ كر رہے ہو _

كيا يہ لوگ ميرے رشتہ دا ر تمھارے بھى رشتہ دار اور اپنے نہيں ہيں (بيان كيا جا چكا ہے كہ بنى اميہ اور بنى ہاشم چچيرے بھائي ہيں )

ہاں ، اپنى جان كى قسم ، يہ ميرے قريبى رشتہ دار ہيں ليكن ان كے پاس فضيلت و تقوى نام كى چيز نہيں _

ان كے مقابل دوسر و ں كو ميرے نزديك امتياز حاصل ہے _

كيا عمر نے معاويہ كو حكومت نہيں دى تھى ؟

معاويہ اپنے سارے وجود سے عمر سے لرزتا تھا ، ان كا مطيع و فرمان بر دار تھا ، وہ عمر كے غلام ير فا سے اتنا ڈرتا تھا جتنا عمر سے نہيں ڈرتا تھا ليكن وہ بھى اج كل من مانى كررہا ہے ، كاموں ميں بے اعتنائي برت رہا ہے جدھر چاہتا ہے خواہشات كے گھوڑے دوڑاتا ہے اور تمھارى اطلاع كے بغير جو چاہتا ہے كر ڈالتا ہے اور لوگوں سے كہتا ہے كہ يہى عثمان كا حكم ہے اس كسمپرسى كى عوام شكايت كرتے ہيں تو تم ميں ذرا بھى جنبش نہيں ہو تى ، اور نہ كوئي اقدام كرتے ہو(۲۶)

____________________

۲۶_قارئين كى توجہ ان دونوں سابقين اسلام كى باتوں كى طرف موڑنا چاہتا ہوں ، خاص طور سے عثمان كے دلائل كى طرف جو مسلمانوں كے خليفہ ہيں اورحضرت على كے اعتراضات كے جواب ميں كہتے ہيں كہ مغيرہ بن شعبہ نا لائق تھا ليكن اسے عمر نے حكومت دى ، فرزند عامر كو خود عثمان اور دوسرے تمام لوگ نالائق سمجھ رہے ہيں ، ليكن اسے حكومت ديدى ، معذرت ميں صلہء رحم كا حوالہ دے رہے ہيں ، معاويہ كو حكومت ديدى جبكہ پورے طور سے جانتے ہيں كہ مسلمان كے بيت المال كو لوٹ رہا ہے ، مسلمانوں پر ظلم و تعدى كر رہا ہے (سردار نيا )

۱۵۷

حضرت علىعليه‌السلام نے يہ فرمايا اور عثمان كے پاس سے اٹھكر چلے گئے ،حضرت على كے جانے كے بعد عثمان منبر پر گئے اور تقرير كے درميان كہا ، ہر چيز كے لئے افت ہے اور ہر كام كے لئے نقصان ہے ، اس امّت كى افت اور نقصان ہے پارٹى بندى اور عيب جوئي كرنے والے لوگ جو ظاہر دارى ميں وہ كام كرتے ہيں جو تم پسند كرتے ہو اور چھپے چورى ايسى حركتيں كرتے ہيں جسے تم پسند نہيں كرتے ، شتر مرغ كى طرح ہر اواز پر دور پڑتے ہيں اور بہت دور كے گھاٹ كو پسند كرتے ہيں _

خدا كى قسم تم لوگ ايسے ہو كہ انھيں چيزوں كوعمر كے زمانے ميں مان ليتے تھے ميرے زمانے ميں تنقيد كرتے ہو ، اور حكم سے سر تابى كرتے ہو ، حالا نكہ عمر تمھيں پيروں سے روند تے تھے ، اپنے ہاتھو ں سے تمھارے سر كو ٹتے تھے ، اپنى زبان كى تيزى سے تمھارى جڑ اكھا ڑ پھينكتے تھے تم لوگ بھى جان كے خوف سے ان كے فرماںبردار رہتے _

ليكن ميں ہوں كہ تمھارے ساتھ نرمى اور ملائمت كا برتائو كرتا ہوں ، اپنى زبان اور ہاتھ كوتاہ كر لئے ہيں ، تو ميرے اوپر سختى كررہے ہو ميرى نا فرمانى كررہے ہو_

اس موقع پر مروان نے بھى كچھ كہنا چاہا ليكن عثمان نے كہا ، چپ رہو(۲۷)

مروان حكم

چونكہ ان تفصيلات ميں مروان كا نام كئي جگہوں پر ايا ہے اسلئے مناسب ہے كہ اس مشھور شخصيت كا تعارف كر ديا جائے كيو نكہ اسكے بعد بنى اميہ كى سلطنت اسى كو ملى _

يہ مروان اس حكم بن ابى العاص كا بيٹا ہے جسكا ہم نے ( وليد كى گورنرى ) كے ذيل ميں تعارف كرايا ہے ، مروان كى كنيت ابو عبدالملك تھى ، جب اسكے باپ حكم كو فرمان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق طائف جلا وطن كيا گيا يہ بچہ ہى تھا ، يہ اپنے باپ اور بھائيوں كے ساتھ عثمان كى خلافت كے زمانے تك جلا وطنى كى زندگى گذارتا رہا ، ليكن جب عثمان خليفہ ہوئے تو ان سب كو مدينہ بلا ليا ، مروان كو اپنے سے قريب كر ليا اور كتابت ديوان (سكر يٹرى ) كا عہدہ بھى ديديا مروان كا خليفہ كے يہاں رسوخ ہى اصل وجہ ہے عثمان كى بد بختى اور لوگوں كى رنجش كى ، بالا خر لوگوں نے بغاوت كر دى _

____________________

۲۷_ بلاذرى ج۵ ص۶۰ ، تاريخ طبرى ج۵ ص۹۶ ، ابن اثير ج۳ ص۶۳ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص۳۰۳ ، ابن كثير ج۷ ص۱۶۸

۱۵۸

جس زمانے ميں بلوائيوں نے عثمان كا محاصرہ كر ركھا تھا ، مروان باغيوں سے نرمى كے بجائے پيكار پر امادہ ہو گيا ، اس جھڑپ ميں اسكى گردن پر شديد چوٹ ائي اور گردن كى ايك رگ ٹوٹ گئي وہ اخر عمر تك اس چوٹ كى وجہ سے گردن كى كجى جھيلتا رہا ، لوگ تمسخر كے طور پر خيط باطل كہتے تھے _

اسكے بھائي نے مروان كى بيوى كيلئے يہ اشعار كہے ہيں :

فوالله ما ادرى وافى لسائل

حليلة مضروب القفا كيف تصنع

لجا الله قوما امر و اخيط باطل

على الناس يعطى ما يشاء و يمنع

ايك دن حضرت علىعليه‌السلام نے مروان كو ديكھ كر فرمايا :

( تجھ پر افسوس ہے ، او ر امت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو كچھ تيرے بچوں سے جھيلے گى اس پر افسوس ہے )

مروان جنگ جمل ميں ، حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف لشكر عائشه ميں شامل تھا جب معاويہ كو حكومت ملى تو اسے مدينہ مكّہ اور طائف كا گورنر بنا ديا ، ليكن ۴۸ھ ميں اس كو ہٹا كر سعد بن ابى العاص كو گورنر بنا ديا _

جس وقت معاويہ بن يزيد بن معاويہ كا شام ميں انتقال ہو گيا اور اس نے كسى كو اپنا جانشين نہيں بنايا تو شام والوں نے مروان كى بيعت كر لي، ليكن ضحاك بن قيس فہرى اور اسكے دوستوں نے عبداللہ بن زبير كى بيعت كرلى ، نتيجے ميں مروان اور ضحاك كے درميان ( مرج راھط دمشق)ميں گھمسان كى جنگ ہوئي ضحاك قتل كيا گيا اور شام و مصر مروان كے زير نگين اگئے ، اسكے بعد تمام مملكت اسلامى پر قبضہ كرنے كيلئے اس نے يزيد كى زوجہ سے شادى كر لي

۱۵۹

ايك دن مروان نے يزيد كے بيٹے خالد كو غصہ ميں ( يا ابن رطبتہ الاست(۲۸) )كہكے پكارا ، خالد نے جواب ديا تو امانت ركھنے والوں كے لئے خائن ہے ، پھر جا كر اپنى ماں سے شكايت كر كے سارا مسئلہ بيان كيا خالد كى ماں نے اسكو خود اپنى توہين سمجھ كر بيٹے سے كہا:

يہ بات اپنے ہى تك ركھو ، خاص طور سے مروان نہ سمجھے كہ تم نے مجھ سے كہا ہے اس نے گالى كے بدلے ميں اپنى كنيز وں سے تنہائي ميں منصوبہ بيان كر كے ان سے مدد چاہى اور انتظار كرنے لگى ، جيسے مروان كمرے كے دروازے پر ايا اس نے زمين پر پٹك ديا ، خالد كى ماں نے خود كمبل اسكے منھ پر ڈال ديااور بيٹھ گئي ، اتنى دير بيٹھى رہى كہ مروان مر گيا _

مورخوں نے لكھا ہے كہ مروان ان چند لوگوں ميں ہے جو بيوى كے ہاتھوں مارا گيا(۲۹) اسكے اخلاق ، معتقد ات اور طرز تفكر كى سارى باتيں اگلے صفحات ميں ائينگي_

___________________

۲۸_ انتہائي غير مہذب اور گندى گالى ہے

۲۹_ حالات مروان كے لئے اسد الغابہ ج۴ ص۳۸۴ اور اسيتعاب و اصابہ ديكھئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216