تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 89595 / ڈاؤنلوڈ: 4574
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس باغ سے جو چاہو کھائو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائوگے۔

اور آدم کے گوش گز ار کیا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ہوشیار رہنا کہیں تمہیں وہ اس بہشت سے باہر نہ کر دے۔

حضرت آدم شیطان کے باربار خدا کی قسم کھانے اور اس کے یہ کہنے سے کہ میں تمہارا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اپنے اختیار سے حو اکے ساتھ شیطان کے وسوسے کا شکار ہو گئے اور خدا وند عالم کے فرمان کے مطابق اپنی اطمیان بخش اور مضبوط حالت سے نیچے آگئے اور وسوسہسے متاثرہوگئے؛ اس کی سزا بھی اطمینان بخش بہشت رحمت سے دنیائے زحمت میں قدم رکھنا تھا، ایسی دنیا جو کہ رنج و مشقت ، درد و تکلیف اور اس عالم جاوید کا پیش خیمہ ہے ،کہ جس میں بہشتی نعمتیں ہیں یا جہنمی عذاب۔

اس طرح سے انسان نے امانت کا با ر قبول کیا ایسی امانت جس کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( انا عرضنا الامانة علیٰ السمٰوات و الارض و الجبال فأَبین ان یحملنها و وأشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولاً، لیعذب الله المنافقین و المنافقات و المشرکین و المشرکات و یتوب الله علیٰ المؤمنین و المؤمنات و کان الله غفوراً رحیماً ) ( ۱ )

ہم نے بارامانت (تعہد و تکلیف) کوآسمان، زمین اور پہاڑوںکے سامنے پیش کیاانہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خوفزدہ ہوئے ، لیکن انسان نے اسے اپنے دوش پر اٹھا لیا، وہ بہت جاہل اور ظالم تھا، ہدف یہ تھا کہ خد اوند عالم منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے اور با ایمان مردوں و عورتوں پر اپنی رحمت نازل کرے، خدا وند عالم ہمیشہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

امانت سے اس آیت میں مراد(خداوند عالم بہتر جانتا ہے) الٰہی تکالیف اور وہ چیزیں ہیںجو انسان کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں۔

آسمان و زمین پر پیش کرنے سے مراد مخلوقات میں غیر مکلف افراد پر پیش کرنا ہے ، یہ پیشکش اور قبولیت انتخاب الٰہی کامقدمہ تھی تاکہ مخلص اور خالص افراد کو جدا کر دے ۔

اس لحاظ سے آدم کا گناہ بار امانت اٹھانے میں تھا، ایسی امانت جس کے آثار میں سے وسوسۂ شیطانی

____________________

(۱)احزاب ۷۲۔۷۳

۱۲۱

سے متاثر ہونا ہے ۔ یہ تمام پروگرام حضرت آدم کی آفرینش سے متعلق ایک مرحلہ میں تھے جو کہ ان کی آخری خاکی زندگی سے کسی طرح مشابہ نہیں ہیں نیز عالم تکوین و ایجاد میں تھے قبل اس کے کہ اس خاص بہشت سے ان کا معنوی ہبوط ہوا اور اس سے خارج ہو کر اس زمین مین تشریف لائے ۔

کیونکہ انبیاء اس عالم میں معصوم اور گناہ سے مبرا ہیںاور حضرت آدم اپنے اختیار اورانتخاب سے جس عالم کے لئے خلق کئے گے تھے اس میں تشریف لائے،اس اعتبار سے حضرت آدم کا عصیان اس معنوی امر سے تنزل ہے (خدا وند عالم بہتر جانتا ہے) ۔

۱۲۲

آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر

پہلے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول روایات:

۱۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔( ۱ )

۲۔ ابن سعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔( ۲ )

۳۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے :

آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔( ۳ )

____________________

(۱)سنن ترمذی ، ج ۱۱، ص ۱۶، سنن ابی داؤد ج ، ۴، ص ۲۲۲، حدیث ۴۶۹۳،مسند احمد ج ، ۴، ص ۴۰۰، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ۱، حصہ اول ص۵۔ ۶

(۲) طبقات ابن سعد ، ج ، ۱حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ۱۰.

(۳)نقل از بحار الا نوار ج ۱۱، ص ۱۴۲.

۱۲۳

دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات

الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں

کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:

....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔

اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔( ۱ )

ب:۔آغاز آفرینش

خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۵۹ ، ص ۱۷۵، ۱۷۶.

۱۲۴

خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

ج:۔ انسان کی خلقت

امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔

۱۲۵

پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔( ۱ )

د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت

حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔

جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ۱، ص ۳۲.

۱۲۶

قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میں جن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس( ۱ ) کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے( ۲ )

ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( تنزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔( ۳ )

نیز فرمایا:

( لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة و الروح فیها بِأِذن ربهم ) ( ۴ )

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :

____________________

(۱) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳ص۸۲۔۸۳، علل الشرائع سے منقول.

(۳)نحل۲(۴)قدر۳۔۴

۱۲۷

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً ) ( ۱ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:

( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین )

میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ( ۲ ) کیا۔

اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأَرسلنا الیها روحنا فتمثّل لها بشراً سویاً ) ( ۳ )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک )

تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔

پھر فرمایا:

( لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین ) ( ۴ )

تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔

لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔( ۵ )

امام کی گفتگو کا خاتمہ۔

اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔

____________________

(۱)نبأ۳۸(۲)ص۷۱۔۷۲(۳)مریم۱۷(۴)شعرائ۱۹۴۔۱۹۵(۵)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ۱۸۴۔۱۸۵

۱۲۸

یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ) ( ۱ )

تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔

خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔

و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی

امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :

فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔

امام علی کے کلام کی تشریح:

امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :

پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔

تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔

چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت

سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔

____________________

(۱)اسرائ۸۵

۱۲۹

تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات

امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:

یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔( ۱ )

اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :

خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:

میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔( ۲ )

یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔

دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :

امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟

فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔( ۳ )

چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات

حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:

ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔( ۴ )

امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:

____________________

(۱)بحار الانوار ، ج۴ ص ۱۲، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(۲) بحار الانوار ج۴ ،ص۱۲، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(۳) بحار الانوار ج۴ ،ص ۱۳(۴) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۰، نقل از تفسیر قمی ص ۲۳۱

۱۳۰

جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔( ۱ )

امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:

جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات

امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:( ۳ )

آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟

____________________

(۱ ) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۷. (۲) تفسیر نور الثقلین ج۴ ص ۴۷۲ بہ نقل عیون اخبار الرضا (۳)بحار الانوار ج۱۱ص ۱۶۷

۱۳۱

امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا( فعصی آدم ربه فغویٰ ) اس کے معنی کیا ہیں؟

فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا( ۱ ) ، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔

بحث کا خلاصہ

اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔

۲۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:

الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.

ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.

۳۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱۱، ص ۱۶۴، بہ نقل عیون اخبار الرضا

۱۳۲

۴۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔

ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میں ایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟

یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۱۳۳

۴

ربوبیت کی بحثیں

۱۔ رب اور پروردگار

۲۔ رب العالمین کون ہے ؟

۳۔ مخلوقات کے بارے میں رب العالمین کی اقسام ہدایت

۱۔رب

اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی

''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی

''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں ، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔( ۱ )

''رب'' قرآن کریم میں کہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی

____________________

(۱)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔

۱۳۴

ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:

۱۔( أ أرباب متفرقون خیرأَم الله الواحد القهار ) ( ۱ )

آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟

۲۔( وقال للذی ظن انه ناجٍ منهما اذکرنی عند ربک ) ( ۲ )

جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔

جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :

( بلدة طیبة ورب غفور ) ( ۳ )

''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال( ۴ ) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:

کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔

''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال

____________________

(۱)یوسف ۳۹(۲) یوسف ۴۲.(۳)سبا۱۵

(۴) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے

۱۳۵

ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:

( اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) ( ۱ )

(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔

____________________

(۱)توبہ ۳۱

۱۳۶

۲۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:

''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔

الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔

ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔

ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :

۱۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔

۲۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

۳۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔

۴۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی

خدا وند متعال نے فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فهدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعله غثاء اَحوی )

خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے

۱۳۷

اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔( ۱ )

۲۔( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی )

ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔( ۲ )

۳۔( خلق کل شیء فقدره تقدیرا )

اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔( ۳ )

۴۔( وعلّم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء هٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )

اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!

فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔( ۴ )

۵۔( شرع لکم من الدین ما وصیٰ به نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیه... )

اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۵ )

۶۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعده و اوحینا الیٰ ابراهیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و هارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصهم علیک وکلم الله موسیٰ

____________________

(۱)اعلیٰ ۱۔۵(۲)طہ۵۰(۳) فرقان ۲(۴)بقرہ۳۱۔۳۲(۵)شوریٰ۱۳

۱۳۸

تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...( ۱ )

۷۔( نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه و انزل التوراة والأِنجیل من قبل هدیً للناس... )

اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔( ۲ )

۸۔( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

میں نے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔( ۳ )

۹۔( یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیوٰة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!

ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!( ۴ )

۱۰۔( و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به یغفرلکم

____________________

(۱)نسائ۱۶۳۔۱۶۵(۲)آل عمران۳۔۴(۳)ذاریات ۵۶(۲)انعام۱۳۰

۱۳۹

من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی الله فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس له من دونه أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین ) ۔

اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔( ۱ )

۱۱۔( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یهدی الیٰ الرشد فامنا به ولن نشرک بربنا احدا٭ و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انه کان یقول سفیهنا علیٰ الله شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ الله کذبا٭و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبهم ربهم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هرباً٭ و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یومن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقاً٭ لنفتنهم فیه و من یعرض عن ذکر ربه یسلکه عذاباً صعداً )

کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب

____________________

(۱)احقاف ۲۹۔۳۲

۱۴۰

عمار كو گرفتار كر كے خليفہ كے گھر لے جايا گيا ، جب خليفہ ائے تو فرمان صادر كيا كہ عمار كو حاضر كر كے ميرے سامنے كھڑا كيا جائے پھر انھيں اتنا مارا كہ بيہوش ہو كر زمين پر ڈھير ہو گئے ، پھر اسى بيہوشى كى حالت ميں عثمان كے گھر سے باہر نكال ديا گيا ، دوسرے لوگوں نے انھيں اٹھا كر زوجہ رسول ام سلمہ كے گھر پہونچا ديا _

ظہر عصر اور مغرب كى نماز كا وقت نكل گيا ليكن عمار بيہوش تھے جب ہوش ميں ا ئے تو وضو كر كے نماز پڑھى ، اس وقت كہا :

الحمد للہ ، يہ پہلا دن نہيں ہے كہ خشنودى خدا كى راہ ميں مجھے شكنجہ و عذاب ديا گيا _

ہم يہ جانتے ہيں كہ عمار ياسر قبيلہ بنى مخزوم كے ہم پيمان تھے جب ھشام بن وليد مخزومى كو عمار ياسر پر ڈھا ئے گئے مصائب كى خبر ملى تو انھوں نے عثمان پر اعتراض كيا _

تم على اور بنى ہاشم كو تو ٹالتے ہو ، انھيں چھيڑتے بھى نہيں ليكن ہمارے اوپر زيادتى كرتے ہو ، ميرے بھائي كو مارتے مارتے ادھ موا كرديا ہے خداكى قسم اگر عمار مرگئے تو اس گندے پيٹ والے ( عثمان ) كو قتل كر دوں گا _

عثمان نے غصے ميں انھيں گالى ديتے ہوئے كہا :

اے قسريہ كے بيٹے(۱۲) تيرى اتنى ہمت بڑھ گئي ہے؟

ھشام نے جواب ديا _

اچھا تو سمجھ لو كہ ميں دو مائوں سے قسريہ تك پہونچتا ہوں _

عثمان نے حكم ديا كہ ھشام كو گھر سے نكال ديا جائے ، ھشام خليفہ كے گھر سے سيد ھے ام سلمہ كے گھر گئے ، انھيں معلوم ہوا كہ ام سلمہ بھى عمار پر ڈھائے گئے ظلم و ستم سے سخت برہم ہيں _

____________________

۱۲_قسريہ عرب كا ايك قبيلہ تھا جسے قريش سے نہيں سمجھا جاتا ،اسى لئے عثمان نے انھيں ماں كى طرف سے سرزنش كى ، ليكن ھشام كے باپ قريش سے سادات بنى مخزوم كى فرد تھے ، جواب ميں كہنا چاہتے تھے كہ قسريہ كى طرف نسبت باعث ننگ نہيں، ميرى ماں اور نانا دونوں قسريہ ہيں اسى لئے كہا كہ ميں دو مائوں سے قسريہ ہوں

۱۴۱

عمار كى مدد ميں عائشه

جب عائشه كو عمار كے واقعہ كى خبر ملى تو سخت برھم ہوئيں اور عثمان كى روش پر اعتراض كرتے ہوئے رسول خدا كا بال ، لباس اور جوتياں نكاليں ، ہاتھ ميں ليكر چلّانے لگيں _

كتنى جلدى تم لوگوں نے اس بال ، لباس اور جوتيوں والے رسول كى سنت نظر انداز كردى ،حالانكہ رسول خدا كے يہ اثار ابھى پرانے بھى نہيں ہوئے ليكن تم لوگوں نے انكى سنت ترك كردي_

مسجد ميںعوام كا موجيں مارتا سمندر امنڈ پڑا ،اور سبحان اللہ كى صدائيں بلندكرنے لگا _

عمرو عاص ، جنھيں عثمان حكومت مصر سے معزول كركے عبداللہ بن ابى سرح كو حكومت ديدى تھى اسوجہ سے وہ سخت برہم تھے ، دوسروں سے زيادہ سبحان اللہ كى صدائيں بلند كررہے تھے ،تعجب اور حيرت كے عجيب عجيب كرتب دكھا رہے تھے اسى درميان عثمان غصے ميں اسقدر بد حواس ہو گئے كہ سمجھ ميں نہيں اتا تھا وہ كيا كہيں(۱۳)

ابن مسعود اور مقداد كى تدفين

عبداللہ بن مسعود كى تدفين كا واقعہ بھى عمار سے برہمى كا سبب بنا بن مسعود نے مرتے وقت وصيت كى تھى كہ عمار ان كى نماز جنازہ پڑھائيں اور عثمان كو خبر نہ كى جائے كہ وہ نماز جنازہ ميں حاضر ہو جائيں ، عمار نے وصيت پر عمل كيا جب عثمان كو اس واقعے كى خبر ملى تو عمار پر بہت غصہ ہوئے _

ليكن دير نہيں گذرى كہ مقداد نے بھى انتقال كيا ، انھوں نے بھى ابن مسعود كى طرح وصيت كى تھى كہ عثمان ميرى نماز جنازہ نہ پڑھائيں عمار نے مقداد كى نماز جنازہ پڑھائي اور دفن كر ديا ، عثمان كو خبر نہيں كى ،اب تو عثمان اور بھى زيادہ عمار سے غصہ ہوئے ، حالت يہ ہوئي كہ چلّانے لگے ، مجھ پر افسوس جو اس كنيز زادے سے جھيلا ، ميں نے اسكو خوب اچھى طرح پہچان ليا(۱۴)

____________________

۱۳_ بلاذرى ج۵ ص ۴۸

۱۴_ بلاذرى ج۵ ص ۴۹ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۷

۱۴۲

ان تمام واقعات ميں جو بات سب سے زيادہ اپنى طرف متوجہ كرتى ہے وہ يہ كہ عثمان نے عمار ياسر كو گالياں ديں ، يابن المتكاء يا عاض ايرابيہ ، كتب صحاح و مسانيد ميں ام المومنين عائشه كى حديث نقل كى گئي ہے كہ عثمان بہت شرميلے ، با حيا اور مہذب ہيں ، يہ بھى حديث ہے كہ خدا كى قسم ، عثمان كے سامنے فرشتے بھى شرم و حيا كا لحاظ كرتے ہيں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قسم ، عثمان كے شرم وحيا كى وجہ سے ان سے بہت حيا فرماتے اسطرح كى اور بھى باتيں جو ان كے شرم و حيا كا ڈھنڈورا پيٹتى ہيں _

ضمنى طور سے ہم نے ام المومنين عائشه كو ديكھا كہ عقلمند حكمراں كى طرح مشتعل عوام كو عثمان كے خلاف بھڑكاتى ہيں وہ اچھى طرح سمجھ رہى ہيں كہ كن باتوں سے عوام كے احساسات و جذبات بھڑكيں گے _

انھوں نے پہلى بار عثمان كے خلاف عوامى جذبات بھڑكاتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں دكھا كر انھيں چونكايا ، پھر جيسا وہ چاہتى تھيں لوگوں كے جذبات كو اپنے كنٹرول ميں كيا وہ اچھى طرح جانتى تھيں كہ وہ سادہ انداز دوسرى بار لوگوں كے جذبات بھڑكانے ميں اتنا كار گر نہيں ہو گا _

ليكن اس بار انھوں نے اس سے اگے بڑھكر لباس ، بال اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں بھى نكال ليں ،يہ رسول كى تين سادہ يادگار يں لوگوں كے جذبات كو مشتعل كرنے اور عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجانے كيلئے كافى تھيں _

يہ دوسادے انداز بڑے اہم ثابت ہوئے ، ام المومنين عائشه نے اپنى مہارت و زيركى سے عثمان كا تيّا پانچہ كرديا جبكہ وہ اہم ترين اسلامى شخصيت تھے ، مسلمانوں كى نگاہ ميں رسول كے جانشين كى حيثيت سے محترم تھے _

عائشه نے بڑا اچھا ذريعہ اپنايا جسميں دليل و برہان كى ضرورت نہيں تھى ،انھوں نے خليفہ كى شخصيت كو ايك جانب اور سنت رسول اور انكى ياد گاروں نيز ازواج رسول كو دوسرى جانب كر كے بالكل محاذ پر كھڑا كر ديا ، اس طرح انھوں نے معاشرے كى نظر سے خليفہ كو اس قدر گراديا كہ عوام كو ان كے خلاف بغاوت كرنے ميں ذرا دقت نہيں ہوئي _

خليفہ كا ذليل ہونا يا محترم ہونا خود خليفہ كى ذاتى چيز نہيں تھى ، بلكہ وہ خلافت كے حدود سے تجاوز كر بيٹھے تھے ، ان زيادتيوں كى وجہ سے ان كا احترام ختم ہوگيا ، وہ بہت كمتر اور ذليل سمجھے جانے لگے اسى وجہ سے لوگوں كى جسارت اور زيادتى عثمان كے بعد خلفاء سے زيادہ تر ديكھى گئي _

۱۴۳

اسى طرح ان حوادث سے واضح ہوتا ہے كہ دن بدن ام المومنين عائشه اور عثمان كے تعلقات خراب تر ہوتے جاتے رہے تھے _

وہ ايك دن عثمان كى شديد حمايتى سمجھى جاتى تھيں ، اور اج مضبوط ترين دشمنوں كى صف ميں نظر اتى ہيں ، جيسے جيسے وقت گذرتا گيا ، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے ، دشمنى كى اگ دونوں كے دامن كو زيادہ بھڑكاتى گئي _

شايد يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان دونوں كا لفظى جھگڑا اسى وقت شروع ہو گيا تھا جب عثمان نے ان كے وظيفے ميں كٹوتى كى تھى _

بعد ميں جيسے جيسے حالات اور حوادث پيدا ہوتے گئے ، اعتراضات عائشه اور عثمان كے جوابى الزام كا لہجہ بھى تلخ و تند ہوتا گيا ، اخر كار وہى ام المومنين جو عثمان كى دوسروں سے زيادہ دفاع كرتى تھيں انھيں اپنے كينہ و عناد كى زد پر ركھ ليا ،ان كو خليفہ كے زبردست دشمنوں ميں شمار كيا جانے لگا _

اس بار ام المومنين عائشه كا عثمان سے پيكار و مخالفت كا مسئلہ صرف اپنے يہ مفادات و مصالح كے لئے نہ تھا ، بلكہ ان كى عظمت اور شخصيت زيادہ سے زيادہ ہمارى نظر كو موہ ليتى ہے_

۱۴۴

فصل چھارم

عائشه نے انقلاب كى قيادت كي

يہاں تك جو كچھ بيان كيا گيا وہ اہم ترين عوامل تھے جنھيں ام ا لمومنين عائشه نے عثمان كى مخالفت اور لوگوں كو ان كے خلاف شورش بر پا كرنے كيلئے ہتھيار كے طور پر استعمال كيا ورنہ عثمان اور ان كے حاشيہ نشينو ں كے خدا سے غافل غير شرعى حركات اور نا پسنديدہ اعمال ان سے كہيں زيادہ ہيں جنھيں بيان كيا گيا ، ان ميں سے ہر ايك روش بجائے خود اقتدار و خلافت اور شخصيت عثمان كے خلاف انقلاب اور شورش بر پا كرنے كيلئے لوگوں كے دلوں ميں جمى ہوئي تھى واضح بات ہے كہ يہ تمام عوامل لوگوں كو شورش سے ابھارنے اور اصحاب كو ان سے بد ظن كرنے كيلئے بہت موثر تھے _

ليكن وہى عوام (شايد انھيں كى ساختہ پر داختہ احاديث كى وجہ سے )خود اپنے اندر اتنى جرات نہيں ركھتے تھے كہ خود كو ايسى شخصيت كے خلاف جسے جانشين رسول اور خليفہ كيلئے پكارتے ہيں ،اعتراض كريں ، تلوار اٹھانے كى بات تو بہت دور كى ہے _

ليكن يہ جسارت و جرات ابن مسعود ، عمار ياسر ، ابوذر غفارى اور جندب جيسے عظيم اصحاب رسول كى شديد مخالفت اور شجاعانہ اقدامات نے پيدا كى ، بنابر يں عوامى انقلاب كيلئے با رودكا ڈھير بس ايك چنگارى كا منتظر تھا يہ اگ ام المومنين كے تاريخى فتوے نے بھڑكا دى اور اخر كار عثمان اپنے تمام اقتدار و عظمت كے ساتھ زميں بوس ہو گئے ، خاك و خون ميں غلطاں ہوگئے _

عائشه كے پاس بڑى ذہانت و فراست تھى انھوں نے اپنى صلاحيتوں سے عثمان كے خلاف عوامى شورش برپا كركے سب كچھ اپنے مفاد ميں كرنے كيلئے بھر پور استفادہ كيا ، كيونكہ انھوں نے ديكھا كہ لوگ عثمان كى ناكام حكومت سے تنگ اگئے ، ان كے مطلق العنان حاشيہ نشينوں كا ظلم عوام كى ہڈيوں ميں سرايت كر گيا تھا ، يہى وہ بات تھى جس پر توجہ كرتے ہوئے انھوں نے اپنى سيادت كا تحفظ كرتے ہوئے تمام لوگوں كو ہيجان ميں لانے اور عثمان كے خلاف بغاوت پر امادہ كرنے كى قيادت خود انھوں نے سنبھال لى ،اور وہ بھى اسطرح كہ جيسا وہ خود چاہيں ويسا ہى نتيجہ نكلے _

عوام عثمان كے ظلم و ستم كى وجہ سے انقلاب كے پياسے تھے ام المومنين عائشه كى تقريروںاور كاروائيوں نے نشاط تازہ بخشى _ انہيں كاميابى كى اميدوں سے نہال كيا عثمان كے كرتوتوں كے خلاف ام المومنين عائشه كا نام اور تقرير

۱۴۵

يں نہ صرف مدينہ اور اسكے مضافات ميں ، بلكہ حجاز كے باشندوں اور پھر تمام مملكت اسلامى كے عوام كى زبان پر تھا خاص طور سے اس لئے كہ ان كا خاندان تيم بھى ان كى حمايت ميں تھا اور يہ انقلاب حساس ترين كردار نبھا رہا تھا _

بلاذرى جو خود مكيت خلفاء كا وقيع عالم ہے ، اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتا ہے _

خاندان تيم كے افراد محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ كى حمايت ميں عثمان كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے _

عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر نے تيميوں كى استقامت كے لئے مصر سے بغاوت كا اغاز كيا اور يہ اس وجہ سے ہوا كہ محمد بن ابى بكر اور محمد بن ابى حذيفہ نے گورنر مصر عبداللہ بنابى سرح كى چند غير شرعى باتوں كى وجہ سے بغاوت كى اخر مصر يوں نے وہاں اپنا قبضہ جما ليا اب يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ان تينوں تاريخى چہروں كا تعارف كرايا جائے جو اس عہد كے سيا سى حالات كے حساس كردار ہيں _

تين چہرے

۱_ عبد اللہ بن سعد بن ابى سرح

عبداللہ بن سعد قريش كے قبيلہ عامر كے اس خانوادے سے تعلق ركھتا تھا جو ابى سرح كاتھا اسكى ماں نے عثمان كودودھ پلايا تھا اس بناء پر عثمان اور عبداللہ رضاعى بھائي تھے _

عبداللہ فتح مكہ سے پہلے اسلام لايا ،اور مدينہ ہجرت كى اسے رسول كے كاتبوں ميں شمار كيا جاتا ہے ،ليكن كچھ دن بعد مرتد ہو كر مكہ واپس چلا گيا ،اس نے وہاں سرداران قريش سے كہا _ محمد ميرى خواہشات اور ارادوں كے پابند تھے ميں جو كچھ كہتا وہ عمل كرتے مثلا وہ كہتے لكھو عزيز حكيم ميں ان سے پوچھتا ، كيا لكھ دوں عليم حكيم ،وہ جواب ديتے _

كوئي ہرج نہيں ، دونون ٹھيك ہے _

۱۴۶

خدا وند عالم نے عبداللہ بن ابى سرح كے بارے ميں يہ آيت نازل كى _

ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا سورة انعام آيت ۹۳

اور اس شخص سے بڑا ظالم اور كون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گڑے ،يا كہے كہ مجھ پر وحى ائي ہے حالانكہ اس پر كوئي وحى نازل نہيں كى گئي ہو ،يا جو اللہ كى نازل كردہ چيز كے مقابلے ميں كہے كہ ميں بھى ايسى چيز نازل كركے دكھا دوں گا _

كاش تم ظالموں كو اس حالت ميں ديكھ سكو جبكہ وہ سكرات موت ميں ڈبكياں كھا ر ہے ہوتے ہيںاور فرشتے ہاتھ

بڑھا بڑھا كر كہہ رہے ہوتے ہيں لائو نكالو اپنى جان ، اج تمہيں ان باتوں كى پاداش ميں ذلت كا عذاب ديا جائے گا _

جو تم اللہ پر تہمت ركھ كر نا حق بكاكرتے تھے ،اور اسكى ايات كے مقابلے مين سركشى دكھاتے تھے _ جب مكہ مسلمانو ںكے ہاتھوں فتح ہوا تو رسول خدا نے عبداللہ بن ابى سرح كے قتل كا فرمان صادر كيا ،اور حكم ديا چاہے وہ لباس كعبہ ہى سے چپكا ہوا ہو اسے قتل كردو _ عبداللہ اپنى موت سے ڈرا اور عثمان كى پناہ پكڑى ،عثمان نے اسے چھپا ديا ، پھر اسے خدمت رسول ميں لائے اور اسكے لئے امان طلب كى _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك خاموش رہے ، اپ نے اپنا سر بلند نہيں كيا اخر اپ نے عثمان كى تائيد كردى جب عثمان چلے گئے تو انحضرت نے لوگوں كى طرف رخ كر كے فرمايا :

ميں اس لئے خاموش تھا كہ تم ميں سے كوئي اٹھكر اسكا سر تن سے جدا كر ديتا _ جواب ديا گيا ، اپ نے ہميں ذرا بھى اشارہ كيا ہوتا ،رسول خدا نے فرمايا ،پيغمبر كيلئے انكھ كا اشارہ مناسب نہيں _ جب عثمان خليفہ ہوئے تو ايسا پاپى شخص برادرى كے حوالے سے ۲۵ھ ميں وہاں كے گورنر عمر وعاص كو معزول كر كے مصر كى حكومت ديدى گئي _ عبداللہ نے افريقہ كے بعض علاقے فتح كئے ، عثمان نے اسكے انعام ميں افريقہ كى غنيمت كا تما م خمس اسى كو بخش ديا _ وہ ۳۴ھ تك حكومت مصر پر باقى تھا ، محمد بن ابى بكر اور ابن ابى حذيفہ كى شورش سے عسقلان بھاگ گيا ، وہ وہيں تھا كہ عثمان قتل كردئے گئے ، عبداللہ كى موت ۵۷ھ ميں ہوئي(۱۵)

____________________

۱۵_ استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، ا نساب الاشراف ، مستدرك ،تفسير قرطبى وديگر تفاسير ، ابن ابى الحديد

۱۴۷

۲_ محمد بن ابى بكر

محمد خليفہ اول ابو بكر كے فرزند تھے ، انكى ماں اسماء بنت عميس قبيلہ خثعم سے تھيں ،ان كے پہلے شوہر جعفربن ابى طالب تھے انكى شھادت كے بعد ابوبكر كے عقد ميں ائيں ، ان سے محمد كى پيدائشی مكّے كے راستے ميں حجة الوداع كے موقع پر ہوئي _

جب ابوبكر نے انتقال كيا حضرت علىعليه‌السلام نے اسماء سے شادى كى اسطرح محمد كى نشو ونما حضرت علىعليه‌السلام كے گھر پر ہوئي ،حضرت علىعليه‌السلام ہى نے انكى تربيت فرمائي ، نتيجے ميں وہ حضرت علىعليه‌السلام كے جاں باز اور ثابت قدم صحابى تھے ، محمد نے حضرت عليعليه‌السلام كے ركاب ميں جنگ جمل ميں اپنى بہن عائشه كے خلاف جنگ كى ، پھر امام نے حكومت مصر كيلئے ان كا انتخاب فرمايا _

محمدپندرہ رمضان ۳۵ھ ميں وارد مصر ہوئے اور وہاں كے انتظامى امور سنبھالے ليكن ۳۸ھ ميں معاويہ نے عمر وعاص كى سر كر دگى ميں ايك بڑى فوج بھيجى ، عمرو نے محمد پر غلبہ پايا اور مصر فتح كر ليا ، اور معاويہ بن خديج نے انھيں قتل كيا پھر عمروعاص كے حكم سے گدھے كى كھال ميںانكى لاش ركھ كر جلا دى گئي(۱۶)

۳_ محمد بن ابى حذيفہ

ابو القاسم كنيت تھى ، محمد نام تھا ، ابو حذيفہ بن عتبہ كے فرزند تھے ، قريش كے قبيلہ عبد الشمس سے تھے ، انكى ماں سھلہ بنت سھيل بن عمر قبيلہ عامر سے تھيں ، محمد كے ماں اور باپ دونوں ہى حبشہ كے مہاجر تھے ، محمد وہيں حبشہ ميں پيدا ہوئے ، ابوحذيفہ جنگ يمامہ ميں مسيلمہ كذاب كے ہاتھوں شھيد ہوئے اور عثمان نے محمد كو اپنى فرزندى ميں لے كر انكى تربيت كى ، وہ عثمان ہى كے سايئہ عاطفت ميں پلے اور بڑھے _

____________________

۱۶_ حالات محمد بن ابى بكر كيلئے استيعاب ج۳ ص۳۲۸ ، اصابہ ج۳ ص۴۵۱ اور ديگر تاريخيں ديكھى جا سكتى ہيں

۱۴۸

جب عثمان خليفہ ہوئے تو محمد نے عثمان سے اجازت مانگى كہ كفار سے جھاد كيلئے مصر جائيں ، عثمان نے ان كا مطالبہ مان ليا محمد مصر چلے گئے ، جس زمانے ميں مسلمانوں نے عثمان كے خلاف شورش بر پا كى تو وہ بھى لوگوں كو حساس ترين لہجے ميں عثمان كے خلاف بھڑكانے لگے ،اخر كا رايك حملے ميں عبداللہ بن سرح پر قابو پا ليا اور اسے مصر سے بھگا ديا اور وہاں كے حكمراں بن گئے _ مصريوں نے محمد كى حكومت كو جان و دل سے مان ليا ، انكى بيعت كى اسطرح مصر كى زمام امور ان كے ہاتھ اگئي _ جب حضرت علىعليه‌السلام خلافت كى مسند پر بيٹھے تو انھيں مصر پر باقى ركھا وہ حضرت على كى طرف سے بھى مصر كے انتظامى كام كاج ديكھتے رہے جب معاويہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كيلئے صفين كى طرف چلا تو ان كا سامنا ہوا ،محمد معاويہ سے مقابلے كيلئے نكلے ، اور اسے شام كى طرف سے مصر كے پہلے شھر فسطاط ہى ميں روكا ، ليكن انھوں نے معاويہ سے مقابلے كى تاب نہيں ديكھى اسلئے اس سے صلح كر لى _ صلح كى شرائط ميں ايك شرط يہ بھى تھى كہ محمد اور ان كے ساتھى مصر سے نكل جائيں اور يہ لوگ امان ميں رہيں گے ، ليكن جب محمد اپنے تيس ساتھيوں كے ساتھ مصر سے نكلے تو معاويہ نے بزدلانہ طريقے سے اپنے معاہد ے كے خلاف انھيں قيد كر ليا اور دمشق كے زندان ميں بھيج ديا اخر كار معاويہ كے غلام رشديں نے انھيں قتل كرديا _ محمد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صحبت بھى پائي تھى(۱۷)

____________________

۱۷_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۰۸

۱۴۹

اب اس سے پہلے كہ ہم فرزند ابو بكر اور محمد بن حذيفہ كى شورش كا تذكرہ كريں يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ عمر وعاص جو خود فاتح مصر اور عمر كے زمانے سے وہاں كے گورنر تھے وہاں انكى ذمہ داريوں ميں امور ماليات اور امام جماعت دونوں باتيں شامل تھيں ، ليكن اسطرح انكى حكمرانى دير تك باقى نہيں رہى ، عثمان نے ماليات كے امور ميں ان كے ہاتھ كوتاہ كر ديئے اور يہ عہد ہ عبداللہ بن ابى سرح كو ديديا ، اور عمر وعاص كو حكم ديا كہ صرف لوگوں كو نماز پڑھائيں ليكن دير نہيں گذرى كہ يہ بھى ان سے چھين ليا ، اور يہ عہدہ بھى عبداللہ كو ديكر دونوں عہدے اپنے رضاعى بھائي كو ديديئے ، اسطرح ايك بار انھوں نے عمروعاص كے ہاتھ سے مصر كا اقتدار چھين ليا(۱۸)

مصريوں كى شورش

بلاذرى لكھتا ہے :

اسكے بعد كہ تمام مملكت اسلاميہ اور اس پاس كے علاقے عثمان كے خلاف ايك رائے ہو گئے ،چاروں طرف سے اعتراض كى اواز يں بلند ہونے لگيں ،اسى زمانے ميں جبكہ عبداللہ سرح عثمان كى طرف سے مصر كا حكمراں تھا ،محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر مصر ميں وارد ہوئے اور محمد بن طلحہ كے ساتھ اپنے منصوبے ميں ايك رائے ہوگئے ،ان كے مصر ميں انے كى پہلى صبح تھى كہ محمد بن ابى حذيفہ نماز جماعت ميں تاخير سے انے كى وجہ سے مجبور ہو كر اس نے بلند اواز سے كہا ، عبداللہ سرح وہاں موجود تھا ، جب اس نے فرزند ابو حذيفہ كى اواز نماز سنى ، فرمان صادر كيا كہ جس وقت يہ نما ز پڑھ لے ميرے پاس حاضر كيا جائے _

جب محمد كو عبداللہ كے سامنے بٹھا يا گيا تو اس نے فرزند ابو حذيفہ سے پو چھا ،يہاں كيوں ائے ہو ؟

_ كفار سے جنگ ميں شركت كى غرض سے تمہارے ساتھ كون كون ہے ؟

_محمد بن ابى بكر

____________________

۱۸_ استيعاب ج۳ ص۳۲۱ ، اسد الغابہ ج۴ ص ۳۱۵ ، اصابہ ج۳ ص۵۴ اور تاريخ طبرى ابن اثير در ذكر حوادث سال ۳۰ تا۳۶ھ

۱۵۰

ميں قسم كھاتا ہوں كہ ايسا نہيںہے ، بلكہ تم لوگ بلوہ اور فساد كرانے ائے ہو ، پھر حكم ديا كہ دونوں كو قيد خانے ميں ڈال ديا جائے _ مجبور ہو كر ان دونوں نے محمد بن طلحہ كا ذريعہ پكڑ ا اور اس سے تقاضہ كيا كہ حاكم كے پاس سفارش كرے كہ ہميں كفار كے خلاف جنگ سے نہ رو كے _ اس تركيب سے عبداللہ نے ان دونوں كو ازاد كر ديا _ اور خود جنگ كيلئے روانہ ہو گيا ، ليكن چونكہ يہ دونوں مشكوك تھے اسلئے حكم ديا كہ ان كے لئے الگ كشتى تيار كى جائے ، اور اسلئے بھى كہ لوگوں سے ان كا ميل جول نہ بڑھے اس سے بھى روكنا تھا _ ليكن فرزند ابو بكر بيمار پڑ گئے ،اور وہ اس موقع پر حاكم مصر كے ساتھ نہيں جاسكے ،مجبورا محمد بن حذيفہ بھى انكى عيادت ميں رك گئے ، جب محمد بن ابى بكر شفاياب ہو گئے تو يہ دونوں مسلمانوں كے ايك گروہ كے ساتھ جھاد كيلئے نكلے _

اس مدت ميں سپاہيوں سے مسلسل ميل جول كى وجہ سے ان سے بات چيت ہوئي ،سپاھيوں نے انھيں ضرورى اطلاعات فراہم كرديں ،اسطرح يہ لوگ خارجى دشمنوں سے جنگ كرنے كے بعد واپس ہوں تو لوگوں كے دلوں ميں عثمان كے خلاف نفرت پيدا كريں ان كے كر توت بيان كر كے غم و غصہ بھر ديں(۱۹)

بلاذرى دوسرى جگہ لكھتا ہے :

جس وقت حاكم مصر نے محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كو حراست ميں ليا تھا ، محمد بن حذيفہ نے لوگوں كو مخاطب كر كے تقرير كى مصر والوں كو جان لينا چايئے كہ ہم نے جہاد فى سبيل اللہ يعنى عثمان كے خلاف جنگ كو ملتوى كر ديا ہے _

تاريخ طبرى ميں ہے _

اسى سال كہ جب عبداللہ كفار سے جنگ كيلئے نكلا ، محمد بن حذيفہ اور محمد بن ابى بكر بھى اسكے ساتھ جنگ كرنے نكلے ،راستے ميں انھوں نے عثمان كى خلاف شرع حركتوں اور برے اعمال كے لوگوں سے تذكرے كرتے رہے _

كہ كس طرح انھوں نے سنت ابو بكر و عمر كو بھى پس بدل ڈالا ہے اب يہى ديكھئے كہ عبداللہ جيسا شخص جسكا خون رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباح قرار ديا تھا ، قران نے اسكے كفر كى گواہى دى ہے ، ايسے شخص كو عثمان نے مسلمانوں كے جان و مال كا حكمراں بنا ديا ہے ، پھر يہ كہ طريد رسول كو اپنى پناہ ميں لے ليا ہے (جسے رسول نے دھتكار ديا تھا اسے انھوں نے پناہ ديدى ہے )رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جسے جلا وطن كيا تھا اپنے پاس بلايا ہے ، انھيں بنيادوں پر عثمان كا خون حلال ہے ، اور اسى طرح كى باتيں اسلامى

____________________

۱۹_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۵۰ و تاريخ طبرى در بيان غزوہ ذات الصوارى سال ۳۱

۱۵۱

سپاہيوں سے كہہ ڈاليں تاكہ ان كے دل سے حكومت كى ہمدردى ختم ہو جائے _

نيز يہ بھى لكھا ہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے كہا :

خدا كى قسم ،ہم نے حقيقى جھاد چھوڑ ديا ہے ، پوچھا گيا ، كس جھاد كو كہہ رہے ہو ؟ جواب ديا ، عثمان سے جنگ اور جہاد پھر ان سے بيان كيا كہ عثمان كى كارستانياں كيا كيا ہيں ، يہاں تك كے ان كے دل خلافت سے اسقدر منحرف كر ديئےہ جب جہاد سے واپس اكر اپنے شہر و دربار ميں گئے تو تمام لوگ عثمان كے كرتوتوں كى ايسى ايسى برائياں بيان كرنے لگے كہ اس سے پہلے كبھى نہيں كى تھى(۲۰)

محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كے پر چار ميںاسقدر تاثير تھى كہ لوگ عبداللہ سرح كى حكومت اور اسكے كرتوتوں كے سخت مخالف ہو گئے جو انھيں مصريوں پر حكومت كر رہا تھا ، اس نے كوئي ظلم باقى ، نہيں ركھا تھا ، يہاں تك كہ عبداللہ نے مصر كے بعض ايسے معزز حضرات جنھوں نے عبداللہ سرح كى شكايت عثمان سے كى تھى انھيں اسقدر مارا تھا كہ ہلاك ہو گئے تھے _

مصريوں نے عثمان سے عبداللہ سرح كى جو داد فرياد كى تھى طبرى اور ديگر تاريخ نگاروں نے اسكى تما م تفصيل لكھى ہے منجملہ ان كے مصر والوں نے اپنى شكايت ميں عثمان كے سامنے ابن عديس كو بات كرنے كيلئے اگے كيا _

اس نے بھى عثمان كے سامنے عبداللہ كے خلاف بيان ديا ، اور ياد دلايا كہ كسطرح مسلمانوں اور ديگر اقليتوں كے ساتھ يہ شخص مظالم ڈھاتا ہے ، مال غنيمت كى تقسيم ميں انصاف نہيں كرتا ، خود اپنے پاس ركھ ليتا ہے ، جب اسكى نا انصافيوں پر اعتراض كيا جاتا ہے تو امير المومنين كا خط دكھاتا ہے كہ خليفہ نے ايسا ہى حكم ديا ہے(۲۱)

اتش فتنہ بجھانے كيلئے امام كى مساعي

ابن اعثم اپنى تاريخ ص۴۶ ميں لكھتا ہے :

مصر كے كچھ معزز افراد عبداللہ بن سعد بن سرح كى شكايت ليكر مدينہ ميں ائے اور مسجد رسول خدا ميں اترے

____________________

۲۰_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۷۰_ ۷۱

۲۱_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۱۸ و ابن اثير ج۳ ص ۷۰

۱۵۲

وہاں انھوں نے مہاجر ين و انصار كے گروہ سے ملاقات كى ، اصحاب نے جب ان كے مدينے انے كى وجہ پوچھيں تو انھوں نے كہا :

اپنے گورنر كى شكايت ليكر ائے ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے كہا :

اپنے كاموں اور انصاف طلب كرنے ميں جلدى نہ كرو اپنى شكايت خليفہ كے سامنے پيش كرو ، سارا واقعہ ان سے بيان كرو كيونكہ ممكن ہے كہ مصر كے حكمراں نے خليفہ كے حكم كے بغير يہ سارے كام كئے ہوں ،تم لوگ خليفہ كے پاس جائو ، اور اپنے مصائب ان كے سامنے دہرائو تو عثمان اسكى سختى سے باز پرس كريں گے اسے معزول كرديں گے ، اسطرح تمہارا مقصد حاصل ہو جاے گا ، اگر عثمان نے ايسا نہ كيا اور عبداللہ كے كر توتوں كى تائيد كى تو تم خود سمجھ جائو گے _

مصر والوں نے ان كا شكريہ ادا كيا اور دعائے خير كے بعد كہا صحيح يہى ہے جسے اپ نے بيان كيا ، ليكن ہمارى استدعا ہے كہ اپ خود ہم لوگوں كے ہمراہ وہا ں چليں _ حضرت على نے جواب ديا ، وہاں ميرى موجودگى كى ضرورت نہيں ، تم لوگ خود جائو اور سارا واقعہ ان سے بيان كرو يہى كافى ہے مصر والوں نے كہا :

اگر چہ يہى ہے ليكن ہمارى خواہش ہے كہ اپ بھى ہمراہ چليں اور جو كچھ پيش ائے اسكے گواہ رہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا :

جو ذات ہم سب سے قوى تر ہے تمام خلاق پر مسلط ہے اور بند و ں پر سب سے زيادہ مہربان ہے وہ تم سب كا گواہ اور نگراں ہو گا _

اشراف مصر عثمان كے گھر گئے اور اندر انے كى اجازت طلب كى ،جب يہ عثمان كے سامنے پہونچے تو عثمان نے ان كا بڑا احترام كيا ،انھيںاپنے پہلو ميں بٹھايا ، پھر پوچھا _

كس لئے ائے ہو ؟ كون سى مصيبت اپڑى كہ تم بغير ميرے گورنر يا ميرى اجازت كے مصر سے نكل پڑے _

ہم اسلئے ائے ہيں كہ ا پ كے كاموں كى شكايت كريں اور اپ كا گورنر جو ہمارے اوپر ظلم ڈھارہا ہے اسكا مداوا چاہيں _

اسكے بعد ابن اعثم نے اس گروہ كے دلائل جو عبداللہ كے خلاف عثمان كے سامنے پيش كئے اور جو كچھ عثمان اور ان كے درميان واقعہ پيش ايا سارى تفصيل لكھى ہے _

۱۵۳

عثمان كے خلاف مدينے والوں كى شورش

عثمان اور ان كے كارمندوں اور حاشيہ نشينوں كى غلط حركات بڑھتى ہى گئيں ،لوگوں كى شكايات اور اعتراض كى كوئي شنوائي نہيں تھى مخالفت و اعتراض كا سيلاب تمام اسلامى مملكت ميں پھيل گيا اخر اس سيلاب نے مدينے كو بھى اپنى لپيٹ ميں لے ليا _

بلاذرى ان حوادث كى اسطرح تشريح كرتا ہے_

جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو اكثر اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان سے خوش نہيں تھے ، كيو نكہ عثمان ميں اقربا پرورى بہت زيادہ تھى ، اپنى بارہ سالہ مدت خلافت ميں اپنے خاندان كے اكثر ايسے لوگوں كو ولايت و حكومت ديدى تھى ، جنھوں نے رسول كى صحبت بھى نہيں پائي تھى ، ان سے خلاف توقع كام سرزد ہوئے ، اسلئے اصحاب رسول خفا ہوتے اور اعتراض كرتے ، ليكن عثمان ان تمام باتوں كو نظرانداز كرتے ، كسى كا رندے كى سر زنش نہيں كرتے نہ انھيں معزول كرتے تھے ،خليفہ نے اپنے اخر چھہ سالہ دور حكومت ميں اپنے چچيرے بھائي كو تمام مسلمانوں پر برترى ديدى تھى ، انھيں حكومت ديكر لوگوں كى گردنوں پر مسلط كر ديا تھا _

منجملہ ان كے عبداللہ بن ابى سرح كو مصر كى حكومت ديدى تھى اس نے كئي سال مصر پر حكومت كى وہاں كے باشندوں نے بار بار اسكے ظلم و ستم كى شكايت كر كے داد چاہى ،يہاں تك كہ عثمان نے مجبور ہو كر عبداللہ كو خط لكھا اور ڈرايا دھمكايا ، ليكن عبداللہ نے نہ صرف يہ كہ اپنى گھنائو نى حركتيں نہيں چھوڑيں بلكہ ايك شكايت كرنے والے كو اسقدر مارا كہ وہ ہلاك ہو گيا(۲۲)

جب مصائب حد سے زيادہ بڑھ گئے كہ مسلمانوں كو عثمان اور اسكے كارندوں كى غلط حركات برداشت سے باہر ہو گيا تو مدينے كے اصحاب رسول نے تمام شہروں كے مسلمان بھائيوں كو خطوط لكھے اور انھيں عثمان كے خلاف جھاد كرنے پر ابھارا _

طبرى نے اس خط كا متن يوں درج كيا ہے _

تم لوگ جھاد فى سبيل اللہ اور تبليغ دين كے لئے مدينے سے باہر ہو حالانكہ جو شخص تم پر حكومت كررہا ہے وہى دين محمد كو تباہ كر رہا ہے _

____________________

۲۲_ انساب الاشراف بلاذرى ج ۵ ص ۲۵ _ ۲۶

۱۵۴

ابن اثير كى روايت ميں خط كا فقرہ يہ ہے ،تمھارا خليفہ دين محمد كو تباہ كر چكاہے _

شرح بن ابى الحديد ميں ہے كہ خط كے اخر ميں لكھا گيا تھا ، اسكو خلافت سے خلع كردو (اسكى خلافت كا جوا اتار پھينكو )اسكے بعد تو چاروں طرف سے ناراض لوگوں كا ہجوم پہونچ گيا اور اخر كار انھيں قتل كر ڈالا(۲۳) بلاذرى لكھتا ہے : ۳۴ھ ميں كچھ اصحاب رسول نے اپنے تمام صحابہ دوستوں كو خط لكھ كر عثمان كى روش بيان كى يہ كہ انھوں نے قوانين اور سنت رسول كو بدل ڈالا ہے اس كے كارندوں نے جو مظالم ڈھائے ہيں انكى چاروں طرف سے شكايتيں ارہى ہيں اگر تم راہ خدا ميں جہاد كے خواہاں ہو توجلد مدينے پہونچو _ اس سال اصحاب رسول ميں ايك شخص بھى عثمان كى طرف سے صفائي دينے والا اور جانبدارى كرنے والا نہيں تھا ،سوائے زيد بن ثابت(۲۴) ابو اسيد انصارى اور حسان بن ثابت(۲۵) اور كعب بن مالك كے_

____________________

۲۳_ طبرى ج۵ ص۵۱ ،ابن اثير ج۵ ص۷۰ ، شرح بن ابى الحديد ج۱ ص۱۶۵

۲۴_زيد بن ثابت بن ضحاك انصارى ، انكى ماں كا نام نوار بنت مالك تھا ، يہ پہلے كاتب رسول تھے ، پھر يہى خدمت عمرو ابوبكر كى بھى كى ، جب عمر و عثمان مدينے سے مكہ جاتے تو انھيں كو جانشين بناتے زيد عثمان كے زمانے ميں بيت المال كے خزانچى تھے ، ايك دن عثمان زيد سے ملنے گئے تو زيد كا غلام وھيب گيت گارہا تھا ، عثمان كو اواز پسند ائي اسكا ہزار درہم سالانہ وظيفہ مقرر كر ديا ، زيد عثمان كے شديد حمايتى تھے ، انكى موت كى تاريخ ميں اختلاف ہے ۴۲،سے ۵۵ تك لكھا گيا ہے ، مروان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي ، ابو اسيد ساعدى اور كعب بن مالك بھى ان اصحاب ميں ہيں جنھوں نے بدر اولى اور ديگر غزوات ميں شركت كى ، صرف تبوك اور بدر ميں شركت نہيں كى ، ابو اسيد قتل عثمان سے پہلے اندھے ہو گئے تھے ، انكى تاريخ انتقال كے بارے ميں اختلاف ہے

۲۵ _ حسان بن ثابت انصارى كى كنيت ابو عبدالرحمن تھى ، مشھور شاعر قبيلہ خزرج سے تھے ، ان كى ماں كا نام فريعہ بنت خالد انصارى تھا ، حسان كے بارے ميں رسول خدا نے فرمايا تھا ، خدا حسان كى اسوقت تك تائيد كرے جب تك وہ رسول كى مدح كرتا رہے ، حسان نے خوبصورت اسلوب ميں اشعار كہے رسول كى تعريف كى ، اور كفار كى ہجو كى ، حسان بہت بزدل تھے ، جنگ خندق كے موقع پر رسول خدا نے حسان كو بچو ں اور عورتوں كا نگراں بنايا تھا تاكہ دشمنوں كى نظر سے پوشيدہ رہيں ، عورتوں ميں صفيہ بھى تھيں ، اسى درميان ايك يہودى قلعہ كى ديوار سے جاسوسى كرنے لگا ، صفيہ نے حسان سے كہا اسے موقع نہ دو كہ ہمارى خبر ہو ، رسول خدا ھم سے مطمئن ہو كر جھاد كر رہے ہيں جاكر اس يہودى كو قتل كر دو ، حسان نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب ، تم خوب جانتى ہو كہ ميں اس ميدان كا انسان نہيں ہوں ، ميرے پاس حوصلہ نہيں ، صفيہ نے يہ سنكر خيمے كا ستون ليا اور قلعہ سے نكل كر يہودى كے سر پر مارا اور فاتحانہ قلعے ميں داخل ہوئيں ، حسان سے كہا ، اب جاكر اسكے كپڑے اتار لو ، حسان كو جيسے ڈر لگ رہا تھا كہ يہودى مقتول كے ساتھى ہجوم كركے اجائيں ، انھو ں نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب مجھے ان كپڑوں كى ضرورت نہيں حسان اسى بزدلى كى وجہ سے كسى جنگ ميں شريك نہيں ہوئے اور اس سعادت سے محروم رہے رسول خدا نے ماريہ كى بہن شيريں حسان كو بخش دى تھى جس سے عبدالرحمن تولد ہوئے ،يہ عبدالرحمن رسول خدا كے فرزند ابراہيم كے خالہ زاد بھائي تھے ، حسان نے اپنے باپ دادا كى طرح طويل عمر پائي ۴۰ يا ۵۰ يا۵۴ ،ميں ايكسوبيس سال كى عمر ميں مرے ، اسد الغابہ استيعاب اصابہ ديكھئے كعب بن مالك انصارى قبيلہ خزرج سے تھے ، كنيت ابو عبداللہ يا ابو عبد الرحمن تھى ، ماں كا نام ليلى بنت زيد بن ثعلبيہ خزرجى تھا ، كعب نے عقبہ كى رات مكّے ميں (بيعت عقبہ ) كے موقع پر بيعت كرتے ہوئے رسول خدا كا ہاتھ دبايا تھا كعب نے تما م غزوات ميں شركت كى سوائے بدر و تبوك كے ، يہ ان تين افراد ہى تھے جنھوں نے تبوك نہ جانے ميں پشيمانى جھيلى اور توبہ كى اور قبوليت توبہ كى آيت اترى ، كعب شاعروں كى بڑى عزت كرتے ، بيت المال سے بخشش زيادہ كرتے بلا سبب مسلمانوں كا مال دے ڈالتے ، اسى لئے يہ دونوں عثمان كے زبردست حمايتى تھے

۱۵۵

تما م مہاجرين اور دوسرے لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوئے اور ان سے مطالبہ كيا كہ عثمان سے گفتگوكريں اور وعظ و نصيحت كر كے انھيں راہ راست پر لائيں _

حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس گئے اور انھيں نصيحت كى _

لوگ ميرے پاس اكر تمھارے بارے ميں باتيں كرتے ہيں ، خدا كى قسم ميں نہيں جانتا كہ تم سے كيا كہوں، كوئي بات تم سے ڈھكى چھپى نہيں ، جسے ميں بتائوں ، تمھيں راستہ سو جھانے كى ضرورت نہيں جو كچھ ميں جانتا ہوں تم بھى جانتے ہو تم سے زيادہ نہيں جانتا كہ تمھيں اگاہ كروں _

تم نے رسول كى صحبت پائي ہے ، ان سے باتيں سن كر اور ديكھ كر ميرى طرح بہرہ حاصل كيا ہے ، ابو قحافہ اور خطاب كے بيٹے تم سے زيادہ نيك اور شائستہ تر نہيں تھے ، كيو نكہ تم رسول سے دامادى اور رشتہ دارى كى قربت ركھتے ہو ، تم رسول كے داماد ہو اسلئے اپنے اپ ميں ائو اور اپنى جان سے ڈرو تم اسطرح اندھے ہو كر چل رہے ہو كہ تمھيں بينا كرنا بہت مشكل ہے ، اور اسطرح جہالت و نادانى كے كنو يں ميں گر چكے ہو كہ تمھيں باہر نكالنا مشكل ہے _

عثمان نے جواب ديا _

خدا كى قسم ، اگر تم ميرى جگہ پر ہوتے تو اپنے رشتہ داروں كو نوازنے اور صلہ رحم كرنے كى بنا پر ميں تمھيں سر زنش نہيں كرتا ، اگر تم اپنے پريشان حالوں كو پناہ ديتے اور جنھيں عمر نے كاموں پر لگايا تھا انھيں ہٹا كر انھيں مقرر كرتے تو ميں تمھارى ملامت نہ كرتا _

تمھيں خدا كى قسم ہے ، اخر تمھيں بتائو كيا مغيرہ بن شعبہ كو جو كسى طرح بھى لائق نہ تھا ، عمر نے حكومت نہيں دى تھى _

كيوں صحيح ہے

تب اخر كيو ں اب جبكہ ميں نے اپنے رشتہ دارفرزند عامر كو گورنر ى ديدى ہے تو مجھے ملامت كررہے ہو ؟

۱۵۶

تمھيں يہ بتا نا ضرورى ہے كہ جب عمر كسى كو حكومت ديتے تھے تو پورے طور سے اس پر حاوى رہتے تھے ، پہلے اسے اپنے پائوں تلے روند ليتے تھے ، جب اسكے خلاف شكايت ملتى تو اس پر سختى كرتے ، اسے حاضر ہونے كا نوٹس ديتے، اور اس بار ے ميں سخت كاروائي كا مظاہرہ كرتے تھے ، ليكن تم نے يہ سب كچھ نہيں كيا ، بلكہ اپنے رشتہ داروں كے سامنے ضعف نفس اور نرمى كا مظاہرہ كر رہے ہو _

كيا يہ لوگ ميرے رشتہ دا ر تمھارے بھى رشتہ دار اور اپنے نہيں ہيں (بيان كيا جا چكا ہے كہ بنى اميہ اور بنى ہاشم چچيرے بھائي ہيں )

ہاں ، اپنى جان كى قسم ، يہ ميرے قريبى رشتہ دار ہيں ليكن ان كے پاس فضيلت و تقوى نام كى چيز نہيں _

ان كے مقابل دوسر و ں كو ميرے نزديك امتياز حاصل ہے _

كيا عمر نے معاويہ كو حكومت نہيں دى تھى ؟

معاويہ اپنے سارے وجود سے عمر سے لرزتا تھا ، ان كا مطيع و فرمان بر دار تھا ، وہ عمر كے غلام ير فا سے اتنا ڈرتا تھا جتنا عمر سے نہيں ڈرتا تھا ليكن وہ بھى اج كل من مانى كررہا ہے ، كاموں ميں بے اعتنائي برت رہا ہے جدھر چاہتا ہے خواہشات كے گھوڑے دوڑاتا ہے اور تمھارى اطلاع كے بغير جو چاہتا ہے كر ڈالتا ہے اور لوگوں سے كہتا ہے كہ يہى عثمان كا حكم ہے اس كسمپرسى كى عوام شكايت كرتے ہيں تو تم ميں ذرا بھى جنبش نہيں ہو تى ، اور نہ كوئي اقدام كرتے ہو(۲۶)

____________________

۲۶_قارئين كى توجہ ان دونوں سابقين اسلام كى باتوں كى طرف موڑنا چاہتا ہوں ، خاص طور سے عثمان كے دلائل كى طرف جو مسلمانوں كے خليفہ ہيں اورحضرت على كے اعتراضات كے جواب ميں كہتے ہيں كہ مغيرہ بن شعبہ نا لائق تھا ليكن اسے عمر نے حكومت دى ، فرزند عامر كو خود عثمان اور دوسرے تمام لوگ نالائق سمجھ رہے ہيں ، ليكن اسے حكومت ديدى ، معذرت ميں صلہء رحم كا حوالہ دے رہے ہيں ، معاويہ كو حكومت ديدى جبكہ پورے طور سے جانتے ہيں كہ مسلمان كے بيت المال كو لوٹ رہا ہے ، مسلمانوں پر ظلم و تعدى كر رہا ہے (سردار نيا )

۱۵۷

حضرت علىعليه‌السلام نے يہ فرمايا اور عثمان كے پاس سے اٹھكر چلے گئے ،حضرت على كے جانے كے بعد عثمان منبر پر گئے اور تقرير كے درميان كہا ، ہر چيز كے لئے افت ہے اور ہر كام كے لئے نقصان ہے ، اس امّت كى افت اور نقصان ہے پارٹى بندى اور عيب جوئي كرنے والے لوگ جو ظاہر دارى ميں وہ كام كرتے ہيں جو تم پسند كرتے ہو اور چھپے چورى ايسى حركتيں كرتے ہيں جسے تم پسند نہيں كرتے ، شتر مرغ كى طرح ہر اواز پر دور پڑتے ہيں اور بہت دور كے گھاٹ كو پسند كرتے ہيں _

خدا كى قسم تم لوگ ايسے ہو كہ انھيں چيزوں كوعمر كے زمانے ميں مان ليتے تھے ميرے زمانے ميں تنقيد كرتے ہو ، اور حكم سے سر تابى كرتے ہو ، حالا نكہ عمر تمھيں پيروں سے روند تے تھے ، اپنے ہاتھو ں سے تمھارے سر كو ٹتے تھے ، اپنى زبان كى تيزى سے تمھارى جڑ اكھا ڑ پھينكتے تھے تم لوگ بھى جان كے خوف سے ان كے فرماںبردار رہتے _

ليكن ميں ہوں كہ تمھارے ساتھ نرمى اور ملائمت كا برتائو كرتا ہوں ، اپنى زبان اور ہاتھ كوتاہ كر لئے ہيں ، تو ميرے اوپر سختى كررہے ہو ميرى نا فرمانى كررہے ہو_

اس موقع پر مروان نے بھى كچھ كہنا چاہا ليكن عثمان نے كہا ، چپ رہو(۲۷)

مروان حكم

چونكہ ان تفصيلات ميں مروان كا نام كئي جگہوں پر ايا ہے اسلئے مناسب ہے كہ اس مشھور شخصيت كا تعارف كر ديا جائے كيو نكہ اسكے بعد بنى اميہ كى سلطنت اسى كو ملى _

يہ مروان اس حكم بن ابى العاص كا بيٹا ہے جسكا ہم نے ( وليد كى گورنرى ) كے ذيل ميں تعارف كرايا ہے ، مروان كى كنيت ابو عبدالملك تھى ، جب اسكے باپ حكم كو فرمان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق طائف جلا وطن كيا گيا يہ بچہ ہى تھا ، يہ اپنے باپ اور بھائيوں كے ساتھ عثمان كى خلافت كے زمانے تك جلا وطنى كى زندگى گذارتا رہا ، ليكن جب عثمان خليفہ ہوئے تو ان سب كو مدينہ بلا ليا ، مروان كو اپنے سے قريب كر ليا اور كتابت ديوان (سكر يٹرى ) كا عہدہ بھى ديديا مروان كا خليفہ كے يہاں رسوخ ہى اصل وجہ ہے عثمان كى بد بختى اور لوگوں كى رنجش كى ، بالا خر لوگوں نے بغاوت كر دى _

____________________

۲۷_ بلاذرى ج۵ ص۶۰ ، تاريخ طبرى ج۵ ص۹۶ ، ابن اثير ج۳ ص۶۳ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص۳۰۳ ، ابن كثير ج۷ ص۱۶۸

۱۵۸

جس زمانے ميں بلوائيوں نے عثمان كا محاصرہ كر ركھا تھا ، مروان باغيوں سے نرمى كے بجائے پيكار پر امادہ ہو گيا ، اس جھڑپ ميں اسكى گردن پر شديد چوٹ ائي اور گردن كى ايك رگ ٹوٹ گئي وہ اخر عمر تك اس چوٹ كى وجہ سے گردن كى كجى جھيلتا رہا ، لوگ تمسخر كے طور پر خيط باطل كہتے تھے _

اسكے بھائي نے مروان كى بيوى كيلئے يہ اشعار كہے ہيں :

فوالله ما ادرى وافى لسائل

حليلة مضروب القفا كيف تصنع

لجا الله قوما امر و اخيط باطل

على الناس يعطى ما يشاء و يمنع

ايك دن حضرت علىعليه‌السلام نے مروان كو ديكھ كر فرمايا :

( تجھ پر افسوس ہے ، او ر امت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو كچھ تيرے بچوں سے جھيلے گى اس پر افسوس ہے )

مروان جنگ جمل ميں ، حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف لشكر عائشه ميں شامل تھا جب معاويہ كو حكومت ملى تو اسے مدينہ مكّہ اور طائف كا گورنر بنا ديا ، ليكن ۴۸ھ ميں اس كو ہٹا كر سعد بن ابى العاص كو گورنر بنا ديا _

جس وقت معاويہ بن يزيد بن معاويہ كا شام ميں انتقال ہو گيا اور اس نے كسى كو اپنا جانشين نہيں بنايا تو شام والوں نے مروان كى بيعت كر لي، ليكن ضحاك بن قيس فہرى اور اسكے دوستوں نے عبداللہ بن زبير كى بيعت كرلى ، نتيجے ميں مروان اور ضحاك كے درميان ( مرج راھط دمشق)ميں گھمسان كى جنگ ہوئي ضحاك قتل كيا گيا اور شام و مصر مروان كے زير نگين اگئے ، اسكے بعد تمام مملكت اسلامى پر قبضہ كرنے كيلئے اس نے يزيد كى زوجہ سے شادى كر لي

۱۵۹

ايك دن مروان نے يزيد كے بيٹے خالد كو غصہ ميں ( يا ابن رطبتہ الاست(۲۸) )كہكے پكارا ، خالد نے جواب ديا تو امانت ركھنے والوں كے لئے خائن ہے ، پھر جا كر اپنى ماں سے شكايت كر كے سارا مسئلہ بيان كيا خالد كى ماں نے اسكو خود اپنى توہين سمجھ كر بيٹے سے كہا:

يہ بات اپنے ہى تك ركھو ، خاص طور سے مروان نہ سمجھے كہ تم نے مجھ سے كہا ہے اس نے گالى كے بدلے ميں اپنى كنيز وں سے تنہائي ميں منصوبہ بيان كر كے ان سے مدد چاہى اور انتظار كرنے لگى ، جيسے مروان كمرے كے دروازے پر ايا اس نے زمين پر پٹك ديا ، خالد كى ماں نے خود كمبل اسكے منھ پر ڈال ديااور بيٹھ گئي ، اتنى دير بيٹھى رہى كہ مروان مر گيا _

مورخوں نے لكھا ہے كہ مروان ان چند لوگوں ميں ہے جو بيوى كے ہاتھوں مارا گيا(۲۹) اسكے اخلاق ، معتقد ات اور طرز تفكر كى سارى باتيں اگلے صفحات ميں ائينگي_

___________________

۲۸_ انتہائي غير مہذب اور گندى گالى ہے

۲۹_ حالات مروان كے لئے اسد الغابہ ج۴ ص۳۸۴ اور اسيتعاب و اصابہ ديكھئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216