تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87159 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (1) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص118 میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص222 میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص36 میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر40 سورہ نمبر33( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر36 سور نمبر33( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر85 سورہ نمبر4(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(1) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر35 سورہ نمبر16 (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر83 سورہ نمبر4(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر48 سورہ نمبر29( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب56 میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (30) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص391 میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ911ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص81 سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ1044ھ کے ص39 پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ21 میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(1)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے 12 مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر120 سورہ نمبر9(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں 12 مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب 29 ص119 مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب 62 میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ12 مترجم)

(2) آیت نمبر34 سورہ نمبر39 ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عمار كو گرفتار كر كے خليفہ كے گھر لے جايا گيا ، جب خليفہ ائے تو فرمان صادر كيا كہ عمار كو حاضر كر كے ميرے سامنے كھڑا كيا جائے پھر انھيں اتنا مارا كہ بيہوش ہو كر زمين پر ڈھير ہو گئے ، پھر اسى بيہوشى كى حالت ميں عثمان كے گھر سے باہر نكال ديا گيا ، دوسرے لوگوں نے انھيں اٹھا كر زوجہ رسول ام سلمہ كے گھر پہونچا ديا _

ظہر عصر اور مغرب كى نماز كا وقت نكل گيا ليكن عمار بيہوش تھے جب ہوش ميں ا ئے تو وضو كر كے نماز پڑھى ، اس وقت كہا :

الحمد للہ ، يہ پہلا دن نہيں ہے كہ خشنودى خدا كى راہ ميں مجھے شكنجہ و عذاب ديا گيا _

ہم يہ جانتے ہيں كہ عمار ياسر قبيلہ بنى مخزوم كے ہم پيمان تھے جب ھشام بن وليد مخزومى كو عمار ياسر پر ڈھا ئے گئے مصائب كى خبر ملى تو انھوں نے عثمان پر اعتراض كيا _

تم على اور بنى ہاشم كو تو ٹالتے ہو ، انھيں چھيڑتے بھى نہيں ليكن ہمارے اوپر زيادتى كرتے ہو ، ميرے بھائي كو مارتے مارتے ادھ موا كرديا ہے خداكى قسم اگر عمار مرگئے تو اس گندے پيٹ والے ( عثمان ) كو قتل كر دوں گا _

عثمان نے غصے ميں انھيں گالى ديتے ہوئے كہا :

اے قسريہ كے بيٹے(۱۲) تيرى اتنى ہمت بڑھ گئي ہے؟

ھشام نے جواب ديا _

اچھا تو سمجھ لو كہ ميں دو مائوں سے قسريہ تك پہونچتا ہوں _

عثمان نے حكم ديا كہ ھشام كو گھر سے نكال ديا جائے ، ھشام خليفہ كے گھر سے سيد ھے ام سلمہ كے گھر گئے ، انھيں معلوم ہوا كہ ام سلمہ بھى عمار پر ڈھائے گئے ظلم و ستم سے سخت برہم ہيں _

____________________

۱۲_قسريہ عرب كا ايك قبيلہ تھا جسے قريش سے نہيں سمجھا جاتا ،اسى لئے عثمان نے انھيں ماں كى طرف سے سرزنش كى ، ليكن ھشام كے باپ قريش سے سادات بنى مخزوم كى فرد تھے ، جواب ميں كہنا چاہتے تھے كہ قسريہ كى طرف نسبت باعث ننگ نہيں، ميرى ماں اور نانا دونوں قسريہ ہيں اسى لئے كہا كہ ميں دو مائوں سے قسريہ ہوں

۱۴۱

عمار كى مدد ميں عائشه

جب عائشه كو عمار كے واقعہ كى خبر ملى تو سخت برھم ہوئيں اور عثمان كى روش پر اعتراض كرتے ہوئے رسول خدا كا بال ، لباس اور جوتياں نكاليں ، ہاتھ ميں ليكر چلّانے لگيں _

كتنى جلدى تم لوگوں نے اس بال ، لباس اور جوتيوں والے رسول كى سنت نظر انداز كردى ،حالانكہ رسول خدا كے يہ اثار ابھى پرانے بھى نہيں ہوئے ليكن تم لوگوں نے انكى سنت ترك كردي_

مسجد ميںعوام كا موجيں مارتا سمندر امنڈ پڑا ،اور سبحان اللہ كى صدائيں بلندكرنے لگا _

عمرو عاص ، جنھيں عثمان حكومت مصر سے معزول كركے عبداللہ بن ابى سرح كو حكومت ديدى تھى اسوجہ سے وہ سخت برہم تھے ، دوسروں سے زيادہ سبحان اللہ كى صدائيں بلند كررہے تھے ،تعجب اور حيرت كے عجيب عجيب كرتب دكھا رہے تھے اسى درميان عثمان غصے ميں اسقدر بد حواس ہو گئے كہ سمجھ ميں نہيں اتا تھا وہ كيا كہيں(۱۳)

ابن مسعود اور مقداد كى تدفين

عبداللہ بن مسعود كى تدفين كا واقعہ بھى عمار سے برہمى كا سبب بنا بن مسعود نے مرتے وقت وصيت كى تھى كہ عمار ان كى نماز جنازہ پڑھائيں اور عثمان كو خبر نہ كى جائے كہ وہ نماز جنازہ ميں حاضر ہو جائيں ، عمار نے وصيت پر عمل كيا جب عثمان كو اس واقعے كى خبر ملى تو عمار پر بہت غصہ ہوئے _

ليكن دير نہيں گذرى كہ مقداد نے بھى انتقال كيا ، انھوں نے بھى ابن مسعود كى طرح وصيت كى تھى كہ عثمان ميرى نماز جنازہ نہ پڑھائيں عمار نے مقداد كى نماز جنازہ پڑھائي اور دفن كر ديا ، عثمان كو خبر نہيں كى ،اب تو عثمان اور بھى زيادہ عمار سے غصہ ہوئے ، حالت يہ ہوئي كہ چلّانے لگے ، مجھ پر افسوس جو اس كنيز زادے سے جھيلا ، ميں نے اسكو خوب اچھى طرح پہچان ليا(۱۴)

____________________

۱۳_ بلاذرى ج۵ ص ۴۸

۱۴_ بلاذرى ج۵ ص ۴۹ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۷

۱۴۲

ان تمام واقعات ميں جو بات سب سے زيادہ اپنى طرف متوجہ كرتى ہے وہ يہ كہ عثمان نے عمار ياسر كو گالياں ديں ، يابن المتكاء يا عاض ايرابيہ ، كتب صحاح و مسانيد ميں ام المومنين عائشه كى حديث نقل كى گئي ہے كہ عثمان بہت شرميلے ، با حيا اور مہذب ہيں ، يہ بھى حديث ہے كہ خدا كى قسم ، عثمان كے سامنے فرشتے بھى شرم و حيا كا لحاظ كرتے ہيں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قسم ، عثمان كے شرم وحيا كى وجہ سے ان سے بہت حيا فرماتے اسطرح كى اور بھى باتيں جو ان كے شرم و حيا كا ڈھنڈورا پيٹتى ہيں _

ضمنى طور سے ہم نے ام المومنين عائشه كو ديكھا كہ عقلمند حكمراں كى طرح مشتعل عوام كو عثمان كے خلاف بھڑكاتى ہيں وہ اچھى طرح سمجھ رہى ہيں كہ كن باتوں سے عوام كے احساسات و جذبات بھڑكيں گے _

انھوں نے پہلى بار عثمان كے خلاف عوامى جذبات بھڑكاتے ہوئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں دكھا كر انھيں چونكايا ، پھر جيسا وہ چاہتى تھيں لوگوں كے جذبات كو اپنے كنٹرول ميں كيا وہ اچھى طرح جانتى تھيں كہ وہ سادہ انداز دوسرى بار لوگوں كے جذبات بھڑكانے ميں اتنا كار گر نہيں ہو گا _

ليكن اس بار انھوں نے اس سے اگے بڑھكر لباس ، بال اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں بھى نكال ليں ،يہ رسول كى تين سادہ يادگار يں لوگوں كے جذبات كو مشتعل كرنے اور عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجانے كيلئے كافى تھيں _

يہ دوسادے انداز بڑے اہم ثابت ہوئے ، ام المومنين عائشه نے اپنى مہارت و زيركى سے عثمان كا تيّا پانچہ كرديا جبكہ وہ اہم ترين اسلامى شخصيت تھے ، مسلمانوں كى نگاہ ميں رسول كے جانشين كى حيثيت سے محترم تھے _

عائشه نے بڑا اچھا ذريعہ اپنايا جسميں دليل و برہان كى ضرورت نہيں تھى ،انھوں نے خليفہ كى شخصيت كو ايك جانب اور سنت رسول اور انكى ياد گاروں نيز ازواج رسول كو دوسرى جانب كر كے بالكل محاذ پر كھڑا كر ديا ، اس طرح انھوں نے معاشرے كى نظر سے خليفہ كو اس قدر گراديا كہ عوام كو ان كے خلاف بغاوت كرنے ميں ذرا دقت نہيں ہوئي _

خليفہ كا ذليل ہونا يا محترم ہونا خود خليفہ كى ذاتى چيز نہيں تھى ، بلكہ وہ خلافت كے حدود سے تجاوز كر بيٹھے تھے ، ان زيادتيوں كى وجہ سے ان كا احترام ختم ہوگيا ، وہ بہت كمتر اور ذليل سمجھے جانے لگے اسى وجہ سے لوگوں كى جسارت اور زيادتى عثمان كے بعد خلفاء سے زيادہ تر ديكھى گئي _

۱۴۳

اسى طرح ان حوادث سے واضح ہوتا ہے كہ دن بدن ام المومنين عائشه اور عثمان كے تعلقات خراب تر ہوتے جاتے رہے تھے _

وہ ايك دن عثمان كى شديد حمايتى سمجھى جاتى تھيں ، اور اج مضبوط ترين دشمنوں كى صف ميں نظر اتى ہيں ، جيسے جيسے وقت گذرتا گيا ، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے ، دشمنى كى اگ دونوں كے دامن كو زيادہ بھڑكاتى گئي _

شايد يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان دونوں كا لفظى جھگڑا اسى وقت شروع ہو گيا تھا جب عثمان نے ان كے وظيفے ميں كٹوتى كى تھى _

بعد ميں جيسے جيسے حالات اور حوادث پيدا ہوتے گئے ، اعتراضات عائشه اور عثمان كے جوابى الزام كا لہجہ بھى تلخ و تند ہوتا گيا ، اخر كار وہى ام المومنين جو عثمان كى دوسروں سے زيادہ دفاع كرتى تھيں انھيں اپنے كينہ و عناد كى زد پر ركھ ليا ،ان كو خليفہ كے زبردست دشمنوں ميں شمار كيا جانے لگا _

اس بار ام المومنين عائشه كا عثمان سے پيكار و مخالفت كا مسئلہ صرف اپنے يہ مفادات و مصالح كے لئے نہ تھا ، بلكہ ان كى عظمت اور شخصيت زيادہ سے زيادہ ہمارى نظر كو موہ ليتى ہے_

۱۴۴

فصل چھارم

عائشه نے انقلاب كى قيادت كي

يہاں تك جو كچھ بيان كيا گيا وہ اہم ترين عوامل تھے جنھيں ام ا لمومنين عائشه نے عثمان كى مخالفت اور لوگوں كو ان كے خلاف شورش بر پا كرنے كيلئے ہتھيار كے طور پر استعمال كيا ورنہ عثمان اور ان كے حاشيہ نشينو ں كے خدا سے غافل غير شرعى حركات اور نا پسنديدہ اعمال ان سے كہيں زيادہ ہيں جنھيں بيان كيا گيا ، ان ميں سے ہر ايك روش بجائے خود اقتدار و خلافت اور شخصيت عثمان كے خلاف انقلاب اور شورش بر پا كرنے كيلئے لوگوں كے دلوں ميں جمى ہوئي تھى واضح بات ہے كہ يہ تمام عوامل لوگوں كو شورش سے ابھارنے اور اصحاب كو ان سے بد ظن كرنے كيلئے بہت موثر تھے _

ليكن وہى عوام (شايد انھيں كى ساختہ پر داختہ احاديث كى وجہ سے )خود اپنے اندر اتنى جرات نہيں ركھتے تھے كہ خود كو ايسى شخصيت كے خلاف جسے جانشين رسول اور خليفہ كيلئے پكارتے ہيں ،اعتراض كريں ، تلوار اٹھانے كى بات تو بہت دور كى ہے _

ليكن يہ جسارت و جرات ابن مسعود ، عمار ياسر ، ابوذر غفارى اور جندب جيسے عظيم اصحاب رسول كى شديد مخالفت اور شجاعانہ اقدامات نے پيدا كى ، بنابر يں عوامى انقلاب كيلئے با رودكا ڈھير بس ايك چنگارى كا منتظر تھا يہ اگ ام المومنين كے تاريخى فتوے نے بھڑكا دى اور اخر كار عثمان اپنے تمام اقتدار و عظمت كے ساتھ زميں بوس ہو گئے ، خاك و خون ميں غلطاں ہوگئے _

عائشه كے پاس بڑى ذہانت و فراست تھى انھوں نے اپنى صلاحيتوں سے عثمان كے خلاف عوامى شورش برپا كركے سب كچھ اپنے مفاد ميں كرنے كيلئے بھر پور استفادہ كيا ، كيونكہ انھوں نے ديكھا كہ لوگ عثمان كى ناكام حكومت سے تنگ اگئے ، ان كے مطلق العنان حاشيہ نشينوں كا ظلم عوام كى ہڈيوں ميں سرايت كر گيا تھا ، يہى وہ بات تھى جس پر توجہ كرتے ہوئے انھوں نے اپنى سيادت كا تحفظ كرتے ہوئے تمام لوگوں كو ہيجان ميں لانے اور عثمان كے خلاف بغاوت پر امادہ كرنے كى قيادت خود انھوں نے سنبھال لى ،اور وہ بھى اسطرح كہ جيسا وہ خود چاہيں ويسا ہى نتيجہ نكلے _

عوام عثمان كے ظلم و ستم كى وجہ سے انقلاب كے پياسے تھے ام المومنين عائشه كى تقريروںاور كاروائيوں نے نشاط تازہ بخشى _ انہيں كاميابى كى اميدوں سے نہال كيا عثمان كے كرتوتوں كے خلاف ام المومنين عائشه كا نام اور تقرير

۱۴۵

يں نہ صرف مدينہ اور اسكے مضافات ميں ، بلكہ حجاز كے باشندوں اور پھر تمام مملكت اسلامى كے عوام كى زبان پر تھا خاص طور سے اس لئے كہ ان كا خاندان تيم بھى ان كى حمايت ميں تھا اور يہ انقلاب حساس ترين كردار نبھا رہا تھا _

بلاذرى جو خود مكيت خلفاء كا وقيع عالم ہے ، اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتا ہے _

خاندان تيم كے افراد محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ كى حمايت ميں عثمان كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے _

عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر نے تيميوں كى استقامت كے لئے مصر سے بغاوت كا اغاز كيا اور يہ اس وجہ سے ہوا كہ محمد بن ابى بكر اور محمد بن ابى حذيفہ نے گورنر مصر عبداللہ بنابى سرح كى چند غير شرعى باتوں كى وجہ سے بغاوت كى اخر مصر يوں نے وہاں اپنا قبضہ جما ليا اب يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ان تينوں تاريخى چہروں كا تعارف كرايا جائے جو اس عہد كے سيا سى حالات كے حساس كردار ہيں _

تين چہرے

۱_ عبد اللہ بن سعد بن ابى سرح

عبداللہ بن سعد قريش كے قبيلہ عامر كے اس خانوادے سے تعلق ركھتا تھا جو ابى سرح كاتھا اسكى ماں نے عثمان كودودھ پلايا تھا اس بناء پر عثمان اور عبداللہ رضاعى بھائي تھے _

عبداللہ فتح مكہ سے پہلے اسلام لايا ،اور مدينہ ہجرت كى اسے رسول كے كاتبوں ميں شمار كيا جاتا ہے ،ليكن كچھ دن بعد مرتد ہو كر مكہ واپس چلا گيا ،اس نے وہاں سرداران قريش سے كہا _ محمد ميرى خواہشات اور ارادوں كے پابند تھے ميں جو كچھ كہتا وہ عمل كرتے مثلا وہ كہتے لكھو عزيز حكيم ميں ان سے پوچھتا ، كيا لكھ دوں عليم حكيم ،وہ جواب ديتے _

كوئي ہرج نہيں ، دونون ٹھيك ہے _

۱۴۶

خدا وند عالم نے عبداللہ بن ابى سرح كے بارے ميں يہ آيت نازل كى _

ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا سورة انعام آيت ۹۳

اور اس شخص سے بڑا ظالم اور كون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گڑے ،يا كہے كہ مجھ پر وحى ائي ہے حالانكہ اس پر كوئي وحى نازل نہيں كى گئي ہو ،يا جو اللہ كى نازل كردہ چيز كے مقابلے ميں كہے كہ ميں بھى ايسى چيز نازل كركے دكھا دوں گا _

كاش تم ظالموں كو اس حالت ميں ديكھ سكو جبكہ وہ سكرات موت ميں ڈبكياں كھا ر ہے ہوتے ہيںاور فرشتے ہاتھ

بڑھا بڑھا كر كہہ رہے ہوتے ہيں لائو نكالو اپنى جان ، اج تمہيں ان باتوں كى پاداش ميں ذلت كا عذاب ديا جائے گا _

جو تم اللہ پر تہمت ركھ كر نا حق بكاكرتے تھے ،اور اسكى ايات كے مقابلے مين سركشى دكھاتے تھے _ جب مكہ مسلمانو ںكے ہاتھوں فتح ہوا تو رسول خدا نے عبداللہ بن ابى سرح كے قتل كا فرمان صادر كيا ،اور حكم ديا چاہے وہ لباس كعبہ ہى سے چپكا ہوا ہو اسے قتل كردو _ عبداللہ اپنى موت سے ڈرا اور عثمان كى پناہ پكڑى ،عثمان نے اسے چھپا ديا ، پھر اسے خدمت رسول ميں لائے اور اسكے لئے امان طلب كى _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك خاموش رہے ، اپ نے اپنا سر بلند نہيں كيا اخر اپ نے عثمان كى تائيد كردى جب عثمان چلے گئے تو انحضرت نے لوگوں كى طرف رخ كر كے فرمايا :

ميں اس لئے خاموش تھا كہ تم ميں سے كوئي اٹھكر اسكا سر تن سے جدا كر ديتا _ جواب ديا گيا ، اپ نے ہميں ذرا بھى اشارہ كيا ہوتا ،رسول خدا نے فرمايا ،پيغمبر كيلئے انكھ كا اشارہ مناسب نہيں _ جب عثمان خليفہ ہوئے تو ايسا پاپى شخص برادرى كے حوالے سے ۲۵ھ ميں وہاں كے گورنر عمر وعاص كو معزول كر كے مصر كى حكومت ديدى گئي _ عبداللہ نے افريقہ كے بعض علاقے فتح كئے ، عثمان نے اسكے انعام ميں افريقہ كى غنيمت كا تما م خمس اسى كو بخش ديا _ وہ ۳۴ھ تك حكومت مصر پر باقى تھا ، محمد بن ابى بكر اور ابن ابى حذيفہ كى شورش سے عسقلان بھاگ گيا ، وہ وہيں تھا كہ عثمان قتل كردئے گئے ، عبداللہ كى موت ۵۷ھ ميں ہوئي(۱۵)

____________________

۱۵_ استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، ا نساب الاشراف ، مستدرك ،تفسير قرطبى وديگر تفاسير ، ابن ابى الحديد

۱۴۷

۲_ محمد بن ابى بكر

محمد خليفہ اول ابو بكر كے فرزند تھے ، انكى ماں اسماء بنت عميس قبيلہ خثعم سے تھيں ،ان كے پہلے شوہر جعفربن ابى طالب تھے انكى شھادت كے بعد ابوبكر كے عقد ميں ائيں ، ان سے محمد كى پيدائشی مكّے كے راستے ميں حجة الوداع كے موقع پر ہوئي _

جب ابوبكر نے انتقال كيا حضرت علىعليه‌السلام نے اسماء سے شادى كى اسطرح محمد كى نشو ونما حضرت علىعليه‌السلام كے گھر پر ہوئي ،حضرت علىعليه‌السلام ہى نے انكى تربيت فرمائي ، نتيجے ميں وہ حضرت علىعليه‌السلام كے جاں باز اور ثابت قدم صحابى تھے ، محمد نے حضرت عليعليه‌السلام كے ركاب ميں جنگ جمل ميں اپنى بہن عائشه كے خلاف جنگ كى ، پھر امام نے حكومت مصر كيلئے ان كا انتخاب فرمايا _

محمدپندرہ رمضان ۳۵ھ ميں وارد مصر ہوئے اور وہاں كے انتظامى امور سنبھالے ليكن ۳۸ھ ميں معاويہ نے عمر وعاص كى سر كر دگى ميں ايك بڑى فوج بھيجى ، عمرو نے محمد پر غلبہ پايا اور مصر فتح كر ليا ، اور معاويہ بن خديج نے انھيں قتل كيا پھر عمروعاص كے حكم سے گدھے كى كھال ميںانكى لاش ركھ كر جلا دى گئي(۱۶)

۳_ محمد بن ابى حذيفہ

ابو القاسم كنيت تھى ، محمد نام تھا ، ابو حذيفہ بن عتبہ كے فرزند تھے ، قريش كے قبيلہ عبد الشمس سے تھے ، انكى ماں سھلہ بنت سھيل بن عمر قبيلہ عامر سے تھيں ، محمد كے ماں اور باپ دونوں ہى حبشہ كے مہاجر تھے ، محمد وہيں حبشہ ميں پيدا ہوئے ، ابوحذيفہ جنگ يمامہ ميں مسيلمہ كذاب كے ہاتھوں شھيد ہوئے اور عثمان نے محمد كو اپنى فرزندى ميں لے كر انكى تربيت كى ، وہ عثمان ہى كے سايئہ عاطفت ميں پلے اور بڑھے _

____________________

۱۶_ حالات محمد بن ابى بكر كيلئے استيعاب ج۳ ص۳۲۸ ، اصابہ ج۳ ص۴۵۱ اور ديگر تاريخيں ديكھى جا سكتى ہيں

۱۴۸

جب عثمان خليفہ ہوئے تو محمد نے عثمان سے اجازت مانگى كہ كفار سے جھاد كيلئے مصر جائيں ، عثمان نے ان كا مطالبہ مان ليا محمد مصر چلے گئے ، جس زمانے ميں مسلمانوں نے عثمان كے خلاف شورش بر پا كى تو وہ بھى لوگوں كو حساس ترين لہجے ميں عثمان كے خلاف بھڑكانے لگے ،اخر كا رايك حملے ميں عبداللہ بن سرح پر قابو پا ليا اور اسے مصر سے بھگا ديا اور وہاں كے حكمراں بن گئے _ مصريوں نے محمد كى حكومت كو جان و دل سے مان ليا ، انكى بيعت كى اسطرح مصر كى زمام امور ان كے ہاتھ اگئي _ جب حضرت علىعليه‌السلام خلافت كى مسند پر بيٹھے تو انھيں مصر پر باقى ركھا وہ حضرت على كى طرف سے بھى مصر كے انتظامى كام كاج ديكھتے رہے جب معاويہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كيلئے صفين كى طرف چلا تو ان كا سامنا ہوا ،محمد معاويہ سے مقابلے كيلئے نكلے ، اور اسے شام كى طرف سے مصر كے پہلے شھر فسطاط ہى ميں روكا ، ليكن انھوں نے معاويہ سے مقابلے كى تاب نہيں ديكھى اسلئے اس سے صلح كر لى _ صلح كى شرائط ميں ايك شرط يہ بھى تھى كہ محمد اور ان كے ساتھى مصر سے نكل جائيں اور يہ لوگ امان ميں رہيں گے ، ليكن جب محمد اپنے تيس ساتھيوں كے ساتھ مصر سے نكلے تو معاويہ نے بزدلانہ طريقے سے اپنے معاہد ے كے خلاف انھيں قيد كر ليا اور دمشق كے زندان ميں بھيج ديا اخر كار معاويہ كے غلام رشديں نے انھيں قتل كرديا _ محمد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صحبت بھى پائي تھى(۱۷)

____________________

۱۷_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۰۸

۱۴۹

اب اس سے پہلے كہ ہم فرزند ابو بكر اور محمد بن حذيفہ كى شورش كا تذكرہ كريں يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ عمر وعاص جو خود فاتح مصر اور عمر كے زمانے سے وہاں كے گورنر تھے وہاں انكى ذمہ داريوں ميں امور ماليات اور امام جماعت دونوں باتيں شامل تھيں ، ليكن اسطرح انكى حكمرانى دير تك باقى نہيں رہى ، عثمان نے ماليات كے امور ميں ان كے ہاتھ كوتاہ كر ديئے اور يہ عہد ہ عبداللہ بن ابى سرح كو ديديا ، اور عمر وعاص كو حكم ديا كہ صرف لوگوں كو نماز پڑھائيں ليكن دير نہيں گذرى كہ يہ بھى ان سے چھين ليا ، اور يہ عہدہ بھى عبداللہ كو ديكر دونوں عہدے اپنے رضاعى بھائي كو ديديئے ، اسطرح ايك بار انھوں نے عمروعاص كے ہاتھ سے مصر كا اقتدار چھين ليا(۱۸)

مصريوں كى شورش

بلاذرى لكھتا ہے :

اسكے بعد كہ تمام مملكت اسلاميہ اور اس پاس كے علاقے عثمان كے خلاف ايك رائے ہو گئے ،چاروں طرف سے اعتراض كى اواز يں بلند ہونے لگيں ،اسى زمانے ميں جبكہ عبداللہ سرح عثمان كى طرف سے مصر كا حكمراں تھا ،محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر مصر ميں وارد ہوئے اور محمد بن طلحہ كے ساتھ اپنے منصوبے ميں ايك رائے ہوگئے ،ان كے مصر ميں انے كى پہلى صبح تھى كہ محمد بن ابى حذيفہ نماز جماعت ميں تاخير سے انے كى وجہ سے مجبور ہو كر اس نے بلند اواز سے كہا ، عبداللہ سرح وہاں موجود تھا ، جب اس نے فرزند ابو حذيفہ كى اواز نماز سنى ، فرمان صادر كيا كہ جس وقت يہ نما ز پڑھ لے ميرے پاس حاضر كيا جائے _

جب محمد كو عبداللہ كے سامنے بٹھا يا گيا تو اس نے فرزند ابو حذيفہ سے پو چھا ،يہاں كيوں ائے ہو ؟

_ كفار سے جنگ ميں شركت كى غرض سے تمہارے ساتھ كون كون ہے ؟

_محمد بن ابى بكر

____________________

۱۸_ استيعاب ج۳ ص۳۲۱ ، اسد الغابہ ج۴ ص ۳۱۵ ، اصابہ ج۳ ص۵۴ اور تاريخ طبرى ابن اثير در ذكر حوادث سال ۳۰ تا۳۶ھ

۱۵۰

ميں قسم كھاتا ہوں كہ ايسا نہيںہے ، بلكہ تم لوگ بلوہ اور فساد كرانے ائے ہو ، پھر حكم ديا كہ دونوں كو قيد خانے ميں ڈال ديا جائے _ مجبور ہو كر ان دونوں نے محمد بن طلحہ كا ذريعہ پكڑ ا اور اس سے تقاضہ كيا كہ حاكم كے پاس سفارش كرے كہ ہميں كفار كے خلاف جنگ سے نہ رو كے _ اس تركيب سے عبداللہ نے ان دونوں كو ازاد كر ديا _ اور خود جنگ كيلئے روانہ ہو گيا ، ليكن چونكہ يہ دونوں مشكوك تھے اسلئے حكم ديا كہ ان كے لئے الگ كشتى تيار كى جائے ، اور اسلئے بھى كہ لوگوں سے ان كا ميل جول نہ بڑھے اس سے بھى روكنا تھا _ ليكن فرزند ابو بكر بيمار پڑ گئے ،اور وہ اس موقع پر حاكم مصر كے ساتھ نہيں جاسكے ،مجبورا محمد بن حذيفہ بھى انكى عيادت ميں رك گئے ، جب محمد بن ابى بكر شفاياب ہو گئے تو يہ دونوں مسلمانوں كے ايك گروہ كے ساتھ جھاد كيلئے نكلے _

اس مدت ميں سپاہيوں سے مسلسل ميل جول كى وجہ سے ان سے بات چيت ہوئي ،سپاھيوں نے انھيں ضرورى اطلاعات فراہم كرديں ،اسطرح يہ لوگ خارجى دشمنوں سے جنگ كرنے كے بعد واپس ہوں تو لوگوں كے دلوں ميں عثمان كے خلاف نفرت پيدا كريں ان كے كر توت بيان كر كے غم و غصہ بھر ديں(۱۹)

بلاذرى دوسرى جگہ لكھتا ہے :

جس وقت حاكم مصر نے محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كو حراست ميں ليا تھا ، محمد بن حذيفہ نے لوگوں كو مخاطب كر كے تقرير كى مصر والوں كو جان لينا چايئے كہ ہم نے جہاد فى سبيل اللہ يعنى عثمان كے خلاف جنگ كو ملتوى كر ديا ہے _

تاريخ طبرى ميں ہے _

اسى سال كہ جب عبداللہ كفار سے جنگ كيلئے نكلا ، محمد بن حذيفہ اور محمد بن ابى بكر بھى اسكے ساتھ جنگ كرنے نكلے ،راستے ميں انھوں نے عثمان كى خلاف شرع حركتوں اور برے اعمال كے لوگوں سے تذكرے كرتے رہے _

كہ كس طرح انھوں نے سنت ابو بكر و عمر كو بھى پس بدل ڈالا ہے اب يہى ديكھئے كہ عبداللہ جيسا شخص جسكا خون رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباح قرار ديا تھا ، قران نے اسكے كفر كى گواہى دى ہے ، ايسے شخص كو عثمان نے مسلمانوں كے جان و مال كا حكمراں بنا ديا ہے ، پھر يہ كہ طريد رسول كو اپنى پناہ ميں لے ليا ہے (جسے رسول نے دھتكار ديا تھا اسے انھوں نے پناہ ديدى ہے )رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جسے جلا وطن كيا تھا اپنے پاس بلايا ہے ، انھيں بنيادوں پر عثمان كا خون حلال ہے ، اور اسى طرح كى باتيں اسلامى

____________________

۱۹_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۵۰ و تاريخ طبرى در بيان غزوہ ذات الصوارى سال ۳۱

۱۵۱

سپاہيوں سے كہہ ڈاليں تاكہ ان كے دل سے حكومت كى ہمدردى ختم ہو جائے _

نيز يہ بھى لكھا ہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے كہا :

خدا كى قسم ،ہم نے حقيقى جھاد چھوڑ ديا ہے ، پوچھا گيا ، كس جھاد كو كہہ رہے ہو ؟ جواب ديا ، عثمان سے جنگ اور جہاد پھر ان سے بيان كيا كہ عثمان كى كارستانياں كيا كيا ہيں ، يہاں تك كے ان كے دل خلافت سے اسقدر منحرف كر ديئےہ جب جہاد سے واپس اكر اپنے شہر و دربار ميں گئے تو تمام لوگ عثمان كے كرتوتوں كى ايسى ايسى برائياں بيان كرنے لگے كہ اس سے پہلے كبھى نہيں كى تھى(۲۰)

محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كے پر چار ميںاسقدر تاثير تھى كہ لوگ عبداللہ سرح كى حكومت اور اسكے كرتوتوں كے سخت مخالف ہو گئے جو انھيں مصريوں پر حكومت كر رہا تھا ، اس نے كوئي ظلم باقى ، نہيں ركھا تھا ، يہاں تك كہ عبداللہ نے مصر كے بعض ايسے معزز حضرات جنھوں نے عبداللہ سرح كى شكايت عثمان سے كى تھى انھيں اسقدر مارا تھا كہ ہلاك ہو گئے تھے _

مصريوں نے عثمان سے عبداللہ سرح كى جو داد فرياد كى تھى طبرى اور ديگر تاريخ نگاروں نے اسكى تما م تفصيل لكھى ہے منجملہ ان كے مصر والوں نے اپنى شكايت ميں عثمان كے سامنے ابن عديس كو بات كرنے كيلئے اگے كيا _

اس نے بھى عثمان كے سامنے عبداللہ كے خلاف بيان ديا ، اور ياد دلايا كہ كسطرح مسلمانوں اور ديگر اقليتوں كے ساتھ يہ شخص مظالم ڈھاتا ہے ، مال غنيمت كى تقسيم ميں انصاف نہيں كرتا ، خود اپنے پاس ركھ ليتا ہے ، جب اسكى نا انصافيوں پر اعتراض كيا جاتا ہے تو امير المومنين كا خط دكھاتا ہے كہ خليفہ نے ايسا ہى حكم ديا ہے(۲۱)

اتش فتنہ بجھانے كيلئے امام كى مساعي

ابن اعثم اپنى تاريخ ص۴۶ ميں لكھتا ہے :

مصر كے كچھ معزز افراد عبداللہ بن سعد بن سرح كى شكايت ليكر مدينہ ميں ائے اور مسجد رسول خدا ميں اترے

____________________

۲۰_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۷۰_ ۷۱

۲۱_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۱۸ و ابن اثير ج۳ ص ۷۰

۱۵۲

وہاں انھوں نے مہاجر ين و انصار كے گروہ سے ملاقات كى ، اصحاب نے جب ان كے مدينے انے كى وجہ پوچھيں تو انھوں نے كہا :

اپنے گورنر كى شكايت ليكر ائے ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے كہا :

اپنے كاموں اور انصاف طلب كرنے ميں جلدى نہ كرو اپنى شكايت خليفہ كے سامنے پيش كرو ، سارا واقعہ ان سے بيان كرو كيونكہ ممكن ہے كہ مصر كے حكمراں نے خليفہ كے حكم كے بغير يہ سارے كام كئے ہوں ،تم لوگ خليفہ كے پاس جائو ، اور اپنے مصائب ان كے سامنے دہرائو تو عثمان اسكى سختى سے باز پرس كريں گے اسے معزول كرديں گے ، اسطرح تمہارا مقصد حاصل ہو جاے گا ، اگر عثمان نے ايسا نہ كيا اور عبداللہ كے كر توتوں كى تائيد كى تو تم خود سمجھ جائو گے _

مصر والوں نے ان كا شكريہ ادا كيا اور دعائے خير كے بعد كہا صحيح يہى ہے جسے اپ نے بيان كيا ، ليكن ہمارى استدعا ہے كہ اپ خود ہم لوگوں كے ہمراہ وہا ں چليں _ حضرت على نے جواب ديا ، وہاں ميرى موجودگى كى ضرورت نہيں ، تم لوگ خود جائو اور سارا واقعہ ان سے بيان كرو يہى كافى ہے مصر والوں نے كہا :

اگر چہ يہى ہے ليكن ہمارى خواہش ہے كہ اپ بھى ہمراہ چليں اور جو كچھ پيش ائے اسكے گواہ رہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا :

جو ذات ہم سب سے قوى تر ہے تمام خلاق پر مسلط ہے اور بند و ں پر سب سے زيادہ مہربان ہے وہ تم سب كا گواہ اور نگراں ہو گا _

اشراف مصر عثمان كے گھر گئے اور اندر انے كى اجازت طلب كى ،جب يہ عثمان كے سامنے پہونچے تو عثمان نے ان كا بڑا احترام كيا ،انھيںاپنے پہلو ميں بٹھايا ، پھر پوچھا _

كس لئے ائے ہو ؟ كون سى مصيبت اپڑى كہ تم بغير ميرے گورنر يا ميرى اجازت كے مصر سے نكل پڑے _

ہم اسلئے ائے ہيں كہ ا پ كے كاموں كى شكايت كريں اور اپ كا گورنر جو ہمارے اوپر ظلم ڈھارہا ہے اسكا مداوا چاہيں _

اسكے بعد ابن اعثم نے اس گروہ كے دلائل جو عبداللہ كے خلاف عثمان كے سامنے پيش كئے اور جو كچھ عثمان اور ان كے درميان واقعہ پيش ايا سارى تفصيل لكھى ہے _

۱۵۳

عثمان كے خلاف مدينے والوں كى شورش

عثمان اور ان كے كارمندوں اور حاشيہ نشينوں كى غلط حركات بڑھتى ہى گئيں ،لوگوں كى شكايات اور اعتراض كى كوئي شنوائي نہيں تھى مخالفت و اعتراض كا سيلاب تمام اسلامى مملكت ميں پھيل گيا اخر اس سيلاب نے مدينے كو بھى اپنى لپيٹ ميں لے ليا _

بلاذرى ان حوادث كى اسطرح تشريح كرتا ہے_

جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو اكثر اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان سے خوش نہيں تھے ، كيو نكہ عثمان ميں اقربا پرورى بہت زيادہ تھى ، اپنى بارہ سالہ مدت خلافت ميں اپنے خاندان كے اكثر ايسے لوگوں كو ولايت و حكومت ديدى تھى ، جنھوں نے رسول كى صحبت بھى نہيں پائي تھى ، ان سے خلاف توقع كام سرزد ہوئے ، اسلئے اصحاب رسول خفا ہوتے اور اعتراض كرتے ، ليكن عثمان ان تمام باتوں كو نظرانداز كرتے ، كسى كا رندے كى سر زنش نہيں كرتے نہ انھيں معزول كرتے تھے ،خليفہ نے اپنے اخر چھہ سالہ دور حكومت ميں اپنے چچيرے بھائي كو تمام مسلمانوں پر برترى ديدى تھى ، انھيں حكومت ديكر لوگوں كى گردنوں پر مسلط كر ديا تھا _

منجملہ ان كے عبداللہ بن ابى سرح كو مصر كى حكومت ديدى تھى اس نے كئي سال مصر پر حكومت كى وہاں كے باشندوں نے بار بار اسكے ظلم و ستم كى شكايت كر كے داد چاہى ،يہاں تك كہ عثمان نے مجبور ہو كر عبداللہ كو خط لكھا اور ڈرايا دھمكايا ، ليكن عبداللہ نے نہ صرف يہ كہ اپنى گھنائو نى حركتيں نہيں چھوڑيں بلكہ ايك شكايت كرنے والے كو اسقدر مارا كہ وہ ہلاك ہو گيا(۲۲)

جب مصائب حد سے زيادہ بڑھ گئے كہ مسلمانوں كو عثمان اور اسكے كارندوں كى غلط حركات برداشت سے باہر ہو گيا تو مدينے كے اصحاب رسول نے تمام شہروں كے مسلمان بھائيوں كو خطوط لكھے اور انھيں عثمان كے خلاف جھاد كرنے پر ابھارا _

طبرى نے اس خط كا متن يوں درج كيا ہے _

تم لوگ جھاد فى سبيل اللہ اور تبليغ دين كے لئے مدينے سے باہر ہو حالانكہ جو شخص تم پر حكومت كررہا ہے وہى دين محمد كو تباہ كر رہا ہے _

____________________

۲۲_ انساب الاشراف بلاذرى ج ۵ ص ۲۵ _ ۲۶

۱۵۴

ابن اثير كى روايت ميں خط كا فقرہ يہ ہے ،تمھارا خليفہ دين محمد كو تباہ كر چكاہے _

شرح بن ابى الحديد ميں ہے كہ خط كے اخر ميں لكھا گيا تھا ، اسكو خلافت سے خلع كردو (اسكى خلافت كا جوا اتار پھينكو )اسكے بعد تو چاروں طرف سے ناراض لوگوں كا ہجوم پہونچ گيا اور اخر كار انھيں قتل كر ڈالا(۲۳) بلاذرى لكھتا ہے : ۳۴ھ ميں كچھ اصحاب رسول نے اپنے تمام صحابہ دوستوں كو خط لكھ كر عثمان كى روش بيان كى يہ كہ انھوں نے قوانين اور سنت رسول كو بدل ڈالا ہے اس كے كارندوں نے جو مظالم ڈھائے ہيں انكى چاروں طرف سے شكايتيں ارہى ہيں اگر تم راہ خدا ميں جہاد كے خواہاں ہو توجلد مدينے پہونچو _ اس سال اصحاب رسول ميں ايك شخص بھى عثمان كى طرف سے صفائي دينے والا اور جانبدارى كرنے والا نہيں تھا ،سوائے زيد بن ثابت(۲۴) ابو اسيد انصارى اور حسان بن ثابت(۲۵) اور كعب بن مالك كے_

____________________

۲۳_ طبرى ج۵ ص۵۱ ،ابن اثير ج۵ ص۷۰ ، شرح بن ابى الحديد ج۱ ص۱۶۵

۲۴_زيد بن ثابت بن ضحاك انصارى ، انكى ماں كا نام نوار بنت مالك تھا ، يہ پہلے كاتب رسول تھے ، پھر يہى خدمت عمرو ابوبكر كى بھى كى ، جب عمر و عثمان مدينے سے مكہ جاتے تو انھيں كو جانشين بناتے زيد عثمان كے زمانے ميں بيت المال كے خزانچى تھے ، ايك دن عثمان زيد سے ملنے گئے تو زيد كا غلام وھيب گيت گارہا تھا ، عثمان كو اواز پسند ائي اسكا ہزار درہم سالانہ وظيفہ مقرر كر ديا ، زيد عثمان كے شديد حمايتى تھے ، انكى موت كى تاريخ ميں اختلاف ہے ۴۲،سے ۵۵ تك لكھا گيا ہے ، مروان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي ، ابو اسيد ساعدى اور كعب بن مالك بھى ان اصحاب ميں ہيں جنھوں نے بدر اولى اور ديگر غزوات ميں شركت كى ، صرف تبوك اور بدر ميں شركت نہيں كى ، ابو اسيد قتل عثمان سے پہلے اندھے ہو گئے تھے ، انكى تاريخ انتقال كے بارے ميں اختلاف ہے

۲۵ _ حسان بن ثابت انصارى كى كنيت ابو عبدالرحمن تھى ، مشھور شاعر قبيلہ خزرج سے تھے ، ان كى ماں كا نام فريعہ بنت خالد انصارى تھا ، حسان كے بارے ميں رسول خدا نے فرمايا تھا ، خدا حسان كى اسوقت تك تائيد كرے جب تك وہ رسول كى مدح كرتا رہے ، حسان نے خوبصورت اسلوب ميں اشعار كہے رسول كى تعريف كى ، اور كفار كى ہجو كى ، حسان بہت بزدل تھے ، جنگ خندق كے موقع پر رسول خدا نے حسان كو بچو ں اور عورتوں كا نگراں بنايا تھا تاكہ دشمنوں كى نظر سے پوشيدہ رہيں ، عورتوں ميں صفيہ بھى تھيں ، اسى درميان ايك يہودى قلعہ كى ديوار سے جاسوسى كرنے لگا ، صفيہ نے حسان سے كہا اسے موقع نہ دو كہ ہمارى خبر ہو ، رسول خدا ھم سے مطمئن ہو كر جھاد كر رہے ہيں جاكر اس يہودى كو قتل كر دو ، حسان نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب ، تم خوب جانتى ہو كہ ميں اس ميدان كا انسان نہيں ہوں ، ميرے پاس حوصلہ نہيں ، صفيہ نے يہ سنكر خيمے كا ستون ليا اور قلعہ سے نكل كر يہودى كے سر پر مارا اور فاتحانہ قلعے ميں داخل ہوئيں ، حسان سے كہا ، اب جاكر اسكے كپڑے اتار لو ، حسان كو جيسے ڈر لگ رہا تھا كہ يہودى مقتول كے ساتھى ہجوم كركے اجائيں ، انھو ں نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب مجھے ان كپڑوں كى ضرورت نہيں حسان اسى بزدلى كى وجہ سے كسى جنگ ميں شريك نہيں ہوئے اور اس سعادت سے محروم رہے رسول خدا نے ماريہ كى بہن شيريں حسان كو بخش دى تھى جس سے عبدالرحمن تولد ہوئے ،يہ عبدالرحمن رسول خدا كے فرزند ابراہيم كے خالہ زاد بھائي تھے ، حسان نے اپنے باپ دادا كى طرح طويل عمر پائي ۴۰ يا ۵۰ يا۵۴ ،ميں ايكسوبيس سال كى عمر ميں مرے ، اسد الغابہ استيعاب اصابہ ديكھئے كعب بن مالك انصارى قبيلہ خزرج سے تھے ، كنيت ابو عبداللہ يا ابو عبد الرحمن تھى ، ماں كا نام ليلى بنت زيد بن ثعلبيہ خزرجى تھا ، كعب نے عقبہ كى رات مكّے ميں (بيعت عقبہ ) كے موقع پر بيعت كرتے ہوئے رسول خدا كا ہاتھ دبايا تھا كعب نے تما م غزوات ميں شركت كى سوائے بدر و تبوك كے ، يہ ان تين افراد ہى تھے جنھوں نے تبوك نہ جانے ميں پشيمانى جھيلى اور توبہ كى اور قبوليت توبہ كى آيت اترى ، كعب شاعروں كى بڑى عزت كرتے ، بيت المال سے بخشش زيادہ كرتے بلا سبب مسلمانوں كا مال دے ڈالتے ، اسى لئے يہ دونوں عثمان كے زبردست حمايتى تھے

۱۵۵

تما م مہاجرين اور دوسرے لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوئے اور ان سے مطالبہ كيا كہ عثمان سے گفتگوكريں اور وعظ و نصيحت كر كے انھيں راہ راست پر لائيں _

حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس گئے اور انھيں نصيحت كى _

لوگ ميرے پاس اكر تمھارے بارے ميں باتيں كرتے ہيں ، خدا كى قسم ميں نہيں جانتا كہ تم سے كيا كہوں، كوئي بات تم سے ڈھكى چھپى نہيں ، جسے ميں بتائوں ، تمھيں راستہ سو جھانے كى ضرورت نہيں جو كچھ ميں جانتا ہوں تم بھى جانتے ہو تم سے زيادہ نہيں جانتا كہ تمھيں اگاہ كروں _

تم نے رسول كى صحبت پائي ہے ، ان سے باتيں سن كر اور ديكھ كر ميرى طرح بہرہ حاصل كيا ہے ، ابو قحافہ اور خطاب كے بيٹے تم سے زيادہ نيك اور شائستہ تر نہيں تھے ، كيو نكہ تم رسول سے دامادى اور رشتہ دارى كى قربت ركھتے ہو ، تم رسول كے داماد ہو اسلئے اپنے اپ ميں ائو اور اپنى جان سے ڈرو تم اسطرح اندھے ہو كر چل رہے ہو كہ تمھيں بينا كرنا بہت مشكل ہے ، اور اسطرح جہالت و نادانى كے كنو يں ميں گر چكے ہو كہ تمھيں باہر نكالنا مشكل ہے _

عثمان نے جواب ديا _

خدا كى قسم ، اگر تم ميرى جگہ پر ہوتے تو اپنے رشتہ داروں كو نوازنے اور صلہ رحم كرنے كى بنا پر ميں تمھيں سر زنش نہيں كرتا ، اگر تم اپنے پريشان حالوں كو پناہ ديتے اور جنھيں عمر نے كاموں پر لگايا تھا انھيں ہٹا كر انھيں مقرر كرتے تو ميں تمھارى ملامت نہ كرتا _

تمھيں خدا كى قسم ہے ، اخر تمھيں بتائو كيا مغيرہ بن شعبہ كو جو كسى طرح بھى لائق نہ تھا ، عمر نے حكومت نہيں دى تھى _

كيوں صحيح ہے

تب اخر كيو ں اب جبكہ ميں نے اپنے رشتہ دارفرزند عامر كو گورنر ى ديدى ہے تو مجھے ملامت كررہے ہو ؟

۱۵۶

تمھيں يہ بتا نا ضرورى ہے كہ جب عمر كسى كو حكومت ديتے تھے تو پورے طور سے اس پر حاوى رہتے تھے ، پہلے اسے اپنے پائوں تلے روند ليتے تھے ، جب اسكے خلاف شكايت ملتى تو اس پر سختى كرتے ، اسے حاضر ہونے كا نوٹس ديتے، اور اس بار ے ميں سخت كاروائي كا مظاہرہ كرتے تھے ، ليكن تم نے يہ سب كچھ نہيں كيا ، بلكہ اپنے رشتہ داروں كے سامنے ضعف نفس اور نرمى كا مظاہرہ كر رہے ہو _

كيا يہ لوگ ميرے رشتہ دا ر تمھارے بھى رشتہ دار اور اپنے نہيں ہيں (بيان كيا جا چكا ہے كہ بنى اميہ اور بنى ہاشم چچيرے بھائي ہيں )

ہاں ، اپنى جان كى قسم ، يہ ميرے قريبى رشتہ دار ہيں ليكن ان كے پاس فضيلت و تقوى نام كى چيز نہيں _

ان كے مقابل دوسر و ں كو ميرے نزديك امتياز حاصل ہے _

كيا عمر نے معاويہ كو حكومت نہيں دى تھى ؟

معاويہ اپنے سارے وجود سے عمر سے لرزتا تھا ، ان كا مطيع و فرمان بر دار تھا ، وہ عمر كے غلام ير فا سے اتنا ڈرتا تھا جتنا عمر سے نہيں ڈرتا تھا ليكن وہ بھى اج كل من مانى كررہا ہے ، كاموں ميں بے اعتنائي برت رہا ہے جدھر چاہتا ہے خواہشات كے گھوڑے دوڑاتا ہے اور تمھارى اطلاع كے بغير جو چاہتا ہے كر ڈالتا ہے اور لوگوں سے كہتا ہے كہ يہى عثمان كا حكم ہے اس كسمپرسى كى عوام شكايت كرتے ہيں تو تم ميں ذرا بھى جنبش نہيں ہو تى ، اور نہ كوئي اقدام كرتے ہو(۲۶)

____________________

۲۶_قارئين كى توجہ ان دونوں سابقين اسلام كى باتوں كى طرف موڑنا چاہتا ہوں ، خاص طور سے عثمان كے دلائل كى طرف جو مسلمانوں كے خليفہ ہيں اورحضرت على كے اعتراضات كے جواب ميں كہتے ہيں كہ مغيرہ بن شعبہ نا لائق تھا ليكن اسے عمر نے حكومت دى ، فرزند عامر كو خود عثمان اور دوسرے تمام لوگ نالائق سمجھ رہے ہيں ، ليكن اسے حكومت ديدى ، معذرت ميں صلہء رحم كا حوالہ دے رہے ہيں ، معاويہ كو حكومت ديدى جبكہ پورے طور سے جانتے ہيں كہ مسلمان كے بيت المال كو لوٹ رہا ہے ، مسلمانوں پر ظلم و تعدى كر رہا ہے (سردار نيا )

۱۵۷

حضرت علىعليه‌السلام نے يہ فرمايا اور عثمان كے پاس سے اٹھكر چلے گئے ،حضرت على كے جانے كے بعد عثمان منبر پر گئے اور تقرير كے درميان كہا ، ہر چيز كے لئے افت ہے اور ہر كام كے لئے نقصان ہے ، اس امّت كى افت اور نقصان ہے پارٹى بندى اور عيب جوئي كرنے والے لوگ جو ظاہر دارى ميں وہ كام كرتے ہيں جو تم پسند كرتے ہو اور چھپے چورى ايسى حركتيں كرتے ہيں جسے تم پسند نہيں كرتے ، شتر مرغ كى طرح ہر اواز پر دور پڑتے ہيں اور بہت دور كے گھاٹ كو پسند كرتے ہيں _

خدا كى قسم تم لوگ ايسے ہو كہ انھيں چيزوں كوعمر كے زمانے ميں مان ليتے تھے ميرے زمانے ميں تنقيد كرتے ہو ، اور حكم سے سر تابى كرتے ہو ، حالا نكہ عمر تمھيں پيروں سے روند تے تھے ، اپنے ہاتھو ں سے تمھارے سر كو ٹتے تھے ، اپنى زبان كى تيزى سے تمھارى جڑ اكھا ڑ پھينكتے تھے تم لوگ بھى جان كے خوف سے ان كے فرماںبردار رہتے _

ليكن ميں ہوں كہ تمھارے ساتھ نرمى اور ملائمت كا برتائو كرتا ہوں ، اپنى زبان اور ہاتھ كوتاہ كر لئے ہيں ، تو ميرے اوپر سختى كررہے ہو ميرى نا فرمانى كررہے ہو_

اس موقع پر مروان نے بھى كچھ كہنا چاہا ليكن عثمان نے كہا ، چپ رہو(۲۷)

مروان حكم

چونكہ ان تفصيلات ميں مروان كا نام كئي جگہوں پر ايا ہے اسلئے مناسب ہے كہ اس مشھور شخصيت كا تعارف كر ديا جائے كيو نكہ اسكے بعد بنى اميہ كى سلطنت اسى كو ملى _

يہ مروان اس حكم بن ابى العاص كا بيٹا ہے جسكا ہم نے ( وليد كى گورنرى ) كے ذيل ميں تعارف كرايا ہے ، مروان كى كنيت ابو عبدالملك تھى ، جب اسكے باپ حكم كو فرمان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق طائف جلا وطن كيا گيا يہ بچہ ہى تھا ، يہ اپنے باپ اور بھائيوں كے ساتھ عثمان كى خلافت كے زمانے تك جلا وطنى كى زندگى گذارتا رہا ، ليكن جب عثمان خليفہ ہوئے تو ان سب كو مدينہ بلا ليا ، مروان كو اپنے سے قريب كر ليا اور كتابت ديوان (سكر يٹرى ) كا عہدہ بھى ديديا مروان كا خليفہ كے يہاں رسوخ ہى اصل وجہ ہے عثمان كى بد بختى اور لوگوں كى رنجش كى ، بالا خر لوگوں نے بغاوت كر دى _

____________________

۲۷_ بلاذرى ج۵ ص۶۰ ، تاريخ طبرى ج۵ ص۹۶ ، ابن اثير ج۳ ص۶۳ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص۳۰۳ ، ابن كثير ج۷ ص۱۶۸

۱۵۸

جس زمانے ميں بلوائيوں نے عثمان كا محاصرہ كر ركھا تھا ، مروان باغيوں سے نرمى كے بجائے پيكار پر امادہ ہو گيا ، اس جھڑپ ميں اسكى گردن پر شديد چوٹ ائي اور گردن كى ايك رگ ٹوٹ گئي وہ اخر عمر تك اس چوٹ كى وجہ سے گردن كى كجى جھيلتا رہا ، لوگ تمسخر كے طور پر خيط باطل كہتے تھے _

اسكے بھائي نے مروان كى بيوى كيلئے يہ اشعار كہے ہيں :

فوالله ما ادرى وافى لسائل

حليلة مضروب القفا كيف تصنع

لجا الله قوما امر و اخيط باطل

على الناس يعطى ما يشاء و يمنع

ايك دن حضرت علىعليه‌السلام نے مروان كو ديكھ كر فرمايا :

( تجھ پر افسوس ہے ، او ر امت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو كچھ تيرے بچوں سے جھيلے گى اس پر افسوس ہے )

مروان جنگ جمل ميں ، حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف لشكر عائشه ميں شامل تھا جب معاويہ كو حكومت ملى تو اسے مدينہ مكّہ اور طائف كا گورنر بنا ديا ، ليكن ۴۸ھ ميں اس كو ہٹا كر سعد بن ابى العاص كو گورنر بنا ديا _

جس وقت معاويہ بن يزيد بن معاويہ كا شام ميں انتقال ہو گيا اور اس نے كسى كو اپنا جانشين نہيں بنايا تو شام والوں نے مروان كى بيعت كر لي، ليكن ضحاك بن قيس فہرى اور اسكے دوستوں نے عبداللہ بن زبير كى بيعت كرلى ، نتيجے ميں مروان اور ضحاك كے درميان ( مرج راھط دمشق)ميں گھمسان كى جنگ ہوئي ضحاك قتل كيا گيا اور شام و مصر مروان كے زير نگين اگئے ، اسكے بعد تمام مملكت اسلامى پر قبضہ كرنے كيلئے اس نے يزيد كى زوجہ سے شادى كر لي

۱۵۹

ايك دن مروان نے يزيد كے بيٹے خالد كو غصہ ميں ( يا ابن رطبتہ الاست(۲۸) )كہكے پكارا ، خالد نے جواب ديا تو امانت ركھنے والوں كے لئے خائن ہے ، پھر جا كر اپنى ماں سے شكايت كر كے سارا مسئلہ بيان كيا خالد كى ماں نے اسكو خود اپنى توہين سمجھ كر بيٹے سے كہا:

يہ بات اپنے ہى تك ركھو ، خاص طور سے مروان نہ سمجھے كہ تم نے مجھ سے كہا ہے اس نے گالى كے بدلے ميں اپنى كنيز وں سے تنہائي ميں منصوبہ بيان كر كے ان سے مدد چاہى اور انتظار كرنے لگى ، جيسے مروان كمرے كے دروازے پر ايا اس نے زمين پر پٹك ديا ، خالد كى ماں نے خود كمبل اسكے منھ پر ڈال ديااور بيٹھ گئي ، اتنى دير بيٹھى رہى كہ مروان مر گيا _

مورخوں نے لكھا ہے كہ مروان ان چند لوگوں ميں ہے جو بيوى كے ہاتھوں مارا گيا(۲۹) اسكے اخلاق ، معتقد ات اور طرز تفكر كى سارى باتيں اگلے صفحات ميں ائينگي_

___________________

۲۸_ انتہائي غير مہذب اور گندى گالى ہے

۲۹_ حالات مروان كے لئے اسد الغابہ ج۴ ص۳۸۴ اور اسيتعاب و اصابہ ديكھئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216