تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 72458
ڈاؤنلوڈ: 2962


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72458 / ڈاؤنلوڈ: 2962
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

جو امور مدينے سے متعلق ہيں ان ميں مہلت كى ضرورت نہيں ، ليكن ديگر تمام شہروں ميں جتنے دن كے اندر كام ہو سكے اتنے دن كى وہ لوگ مہلت ديدينگے _

عثمان نے جواب ديا :

_ٹھيك ہے ، ليكن اسكے باوصف مدينے سے متعلق معاملات كيلئے بھى تين دن كا موقع ما ن گئے _

_بہت ٹھيك ہے ، اس وقت حضرت باہر ائے اور تمام لوگوں سے سارى روئداد بيان كي، پھر اپ نے عثمان اور ان لوگوں كے درميان عہد نامہ لكھا كہ تين روز كے اندر عثمان مظلوموں كى داد كو پہونچيں اور وہ تمام كارستانياں جن سے قوم بيزار ہے اب ان سے باز ايئں اور اس عہد نامہ ميں خدا كا محكم ترين واسطہ جو اسكے بند ے سے ہو سكتا ہے قرار ديں ، عثمان كے اس وفائے عہد پر تمام مہاجرين و انصار كے سر براوردہ حضرات نے گواہياں ثبت كيں ، نتيجے ميں مسلمانوں نے عثمان سے ہاتھ اٹھاليا اور اس اميد ميں كہ عثمان اپنا عہد پورا كريں گے سب لوگ واپس چلے گئے _

ليكن لوگوں كے واپس ہونے كے بعد عثمان بيكار نہيں بيٹھے ، بجائے اسكے كہ عوامى مطالبات پورے كرنے كى سبيل كريں وہ جنگى تياريوں ميں لگ گئے ، اسلحے فراہم كرنے لگے تاكہ لوگوں سے مقابلہ كر سكيں ، حكومت كے قيديوں كو اچھى توانائياں سميٹنے لگے _

جب تين دن كى مہلت گذرگئي ،اور عہد پورا كرنے كا عثمان كا وعدہ دور دور تك نظر نہيں ايا لوگوں كى چارہ جوئي نہيں كى گئي كسى كارندے كو برطرف نہيں كيا گيا تو عوام نے دوبارہ ان كے اوپر چڑھائي كردى ،صحابى رسول عمرو بن حزم انصارى نے ذى خشب ميں جمع مصريوں كو جاكر خبر دى كہ عثمان نے كوئي وعدہ پورا نہيں كيا اسلئے دوبارہ انقلاب كيلئے امادہ ہو جائو ، وہ لوگ بھى عمرو كے ساتھ مدينے ائے ، پھر اپنى طرف سے نمائندوں كو عثمان كے پاس بھيجا ، نمائندوں نے ان سے جاكر كہا :

_كيا تم نے اپنے گذشتہ كرتوتوں پر توبہ نہيں كى تھى اور زبان نہيں دى تھى خدا كو گواہ نہيں بنايا تھا كہ جن باتوں سے عوام ناراض ہيں اب ان سے ہاتھ اٹھالوں گا ؟

۱۸۱

_ہاں ، ميں اب بھى اس عہد پر باقى ہوں

_اگر ايسا ہى ہے تو يہ خط كيسا ہے ، جسے تم نے اپنے گورنر مصر عبداللہ كو لكھا ہے ، ہم نے اسے تمھارے قاصد سے حاصل كيا ہے ؟

_ميں نے ايسا كوئي كام نہيں كيا ہے ، مجھے اسكى كوئي اطلاع نہيں _تمہارا قاصد تمھارے خاص اونٹ پر سوار تھا ، تمھارا خط تمھارے ہى سكريٹرى نے لكھا تھا ، تمھارى ہى مہر ہے ، خلافت كى مہر _جہاں تك اونٹ كى بات ہے تو ممكن ہے كہ چرا ليا گيا ہو ، ادھر يہ ہے كہ دو خط ممكن ہے يكساں شباہت ركھتے ہوں ، ميرى مہر بھى ہو سكتا ہے كہ جعلى ہو _ ہم تمھارے معاملے ميں جلدى نہيں كريں گے ،اگر چہ ہم لوگوں كے نزديك تمھارى غلطى ثابت ہے ، اسكے باوجود اپنے بد كا رگورنروں كو ہمارے سروں سے ہٹائو اور كسى ايسے كو حكومت دو جسكا ہاتھ ہمارے جان مال سے رنگا ہوا نہ ہو ، ہمارے ساتھ انصاف

كرو ، ہمارا حق واپس كرو اگر ايسا گورنر جسے ميں نے معين كيا ہے تم اس سے خوش نہيں ہو اور ميں اسے ہٹادوں اور تمہارى خواہش كے مطابق گورنر بنا دوں تو اخر ميں كس كام كا ہوں ؟اسوقت تو ميرى نہيں تمھارى حكومت ہوگى ، ميرى كوئي حقيقت نہيں رہ جائے گي _قسم خدا كى ، يا تو يہ كام كرو يا خلافت سے دستبردار ہو جائو اگر تم نے مقابلہ كيا توہم تمہيں قتل كر ديں گے ، اچھى طرح سوچ كر اپنى زندگى كے بارے ميں فيصلہ كرو يہ خيال اپنے دماغ سے نكال دو كہ ميں خلافت سے دستبردار ہو جائونگا ،ميں ہر گز اس لباس كو نہيں اتار سكتا جسے خداوند عالم نے مجھے پنھايا ہے _

۱۸۲

حيرتناك خط !!

اب ذرا ہم لوگ اس خط كو بھى ديكھيں جسكى طرف مصر والوں نے اشارہ كيا ہے ، اور اسے خليفہ كى خيانت كا نا قابل ترديد ثبوت بنا كر گھسيٹتے پھر رہے ہيں ، پيش كيا ہے ، وہ خط كيا تھا ، اسے لوگوں نے كس طرح حاصل كيا تھا ؟

ہم بھول نہيں گئے كہ پہلى بار جب عثمان مصريوں كے محاصرے ميں تھے اور حضرت على نے صلح و صفائي كر كے انھيں چھڑايا تھا ، انھوں نے پچھلے كرتوتوں پر توبہ كى تھى تو مصريوں نے بھى انھيں اس شرط پر چھوڑ ديا تھا كہ ان كى داد كو پہونچيں گے اور گورنر مصر عبداللہ بن سعدابن ابى سرح كو معزول كرديں گے _

عثمان نے حكومت مصر كا فرمان محمد بن ابى بكر كے نام لكھ ديا اور كچھ مہاجرين و انصار كو عوام كى شكايت دور كرنے كيلئے ان كے ساتھ بھيجا تھا مصر كے باشندے اصحاب كى زير نگرانى عثمان كے اصلاحى اقدامات نافذ كرنے كيلئے مصر جانے پر تيار ہو گئے ، وہ سبھى مصر كى طرف رواں دواں تھے ، جب وہ ايلہ(۷) يا اسكے ايك منزل كے اس پاس پہونچے تو اپنے پيچھے ايك سوار كو اتے ديكھا جو مصر كى طرف جارہا تھا ، لوگوں نے اسكا پتہ نشان پوچھا ، وہ سوار سياہ صورت تھا ، اپنے كو اميرالمومنين عثمان كا غلام بتايا اس نے كہا كہ اميرالمومنين كا پيغام ليكر عبداللہ بن ابى سرح گورنر مصر كے پاس جارہا ہے _ تمام مصر والوں نے باہم مشورہ كر كے بھلائي اسى ميں ديكھى كہ اس غلام كى تلاشى لى جائے ، ممكن ہے عثمان نے ان لوگوں كے توقع كے خلاف عبداللہ كو كوئي حكم ديا ہو ، ليكن پورى تلاشى كے بعد بھى جب كچھ بر امد نہ ہوا تو

____________________

۷_ انساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۲۶ ، تاريخ طبرى ج۵ ص۱۹۹ ، رياض النفرہ ج۲ ص۱۲۳ ، عقد الفريد ج۲ ص ۲۶۳

۱۸۳

طئے كر ليا كہ اسے چھوڑ ديں اور راستہ نہ روكيں ، اسى درميان كنانہ بن بشير نے كہا :

خدا كى قسم ، جب تك مشك كے اندر كى بھى تلاشى نہ لے لوں گا اسے نہيں چھوڑوں گا ، تم لوگ پورى احتياط نہيں كر رہے ہو سب نے كہا :

سبحان اللہ ، كيا يہ بھى ممكن ہے كہ مشك كے اندر خط ہو _

كنانہ نے كہا ، انسان كى مكارى رنگارنگ ہوتى ہے ، اسكے مكر سے بے خوف نہيں ہونا چاہيئے _

اسكے بعد مشك كا دہانہ كھول كر سارا پانى بہا ديا گيا ،اچانك اسميں ايك سر بمہر شيشى بر امد ہوئي ، اس شيشى ميں ايك نلكى ركھى گئي تھى جب وہ نلكى كھولى گئي تو اسميں سے اس مضمون كا خط بر امد ہوا _

اما بعد ، جب عمرو بن بديل تمہارے پاس ائے تو اسے پكڑ كر گردن مار دو ، اور ابن عديس اور كنانہ اور عروہ كے ہاتھوں كو كاٹ ڈالو ، پھر ان سب كو خون ميں تڑ پتا ہوا چھوڑدو كہ ان كى جان نكل جائے ، جب يہ مر جايئں تو ان سب كى لاش شاخ خرما پر لٹكا دينا _

جب مصر والوں نے خط پڑھا تو بيك اواز چلّائے _

خون عثمان حلال ہے ، پھر سفر روك ديا اور مدينے پلٹ ائے ، حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كر كے سارا ماجرا بيان كيا پھر اپ كى خدمت ميں وہ خط پيش كيا _

حضرت علىعليه‌السلام اس خط كے بارے ميں عثمان سے پوچھا ،عثمان نے قسم كھا كر كہا كہ وہ خط ان كا نہيں ہے نہ اسكے بارے ميں كچھ جانتے ہيں اور كہا كہ :

_ يہ خط ميرے سكريٹرى كا لكھا ہوا ہے ، اسميں مہر بھى ميرى ہى ہے ، پھر كس كے بارے ميں گمان ہے ؟ اسكا الزام تم كس پر ديتے ہو ، عثمان نے جواب ديا _

۱۸۴

_ميں تمھارے اوپر الزام ديتا ہوں ، كيو نكہ يہ سبھى لوگ تمھارے حكم پر عمل كر رہے ہيں اور تم انھيں مجھ سے منتشر نہيں كر رہے ہو ، حضرت على غصّے ميں بھرے ہوئے عثمان كے گھر سے چلے ائے اپ عثمان كى طرف رخ كركے فرمايا :

_نہيں يہ تمھارے حكم سے لكھا گيا ہے

يہ بھى روايت ہے كہ اس وقت بنى اميہ نے حضرت على سے كہا ، اے على ، تم نے ہمارے معاملات كو بر باد كيا ، لوگوں كو ہمارے خلاف بھڑكايا ، حضرت على نے ان كا جواب ديا

_اے بے وقوف نادانو مجھ پر كيسے الزام لگارہے ہو ، جبكہ ميں نے لوگوں كو عثمان سے پراكندہ كيا ، بارہا ان كے حالات سدھارنے كى كوشش كى ، اب اس سے زيادہ كيا كر سكتا تھا _ پھر ان سے منھ موڑ كر باہر نكل ائے ، اپ فرماتے جاتے تھے _

خدا يا ، تو جانتا ہے كہ ميرا دامن ان باتوں سے پاك ہے جسكا يہ بنى اميہ ميرے اوپر الزام لگا رہے ہيں ، اگر اس درميان عثمان كا خون بہے تو

ميں اسكا ذمّہ دار نہيں ہوں

واضح رہے كہ مہر خلافت پہلے حمران كے پاس تھي(۸) جب عثمان نے اسكو بصرہ جلا وطن كيا تو اس سے ليكر خلافت كى مہر مروان كے حوالے كردى تھى _ كہا جاتا ہے كہ مصريوں نے جو خط حاصل كيا تھا ، مروان بن حكم مستقل طور سے مہر اپنے پاس ركھتا تھا ، اس نے عثمان كو خبر كئے بغير خط پر مہر لگا دى تھى _

جب مصريوں نے عثمان كو خط دكھايا تو عثمان نے انكار كرتے ہوئے كہا :

يہ خط جعلى اور بناوٹى ہے ، مصر والوں نے كہا :

_ليكن خط كى رائيٹنگ تو تمھارے سكريٹرى كى نہيں ہے

_ٹھيك ہے ، ليكن اس نے بغير ميرے حكم كے لكھا ہے

_تمھارا غلام اس خط كا قاصد ہے

____________________

۸_ حمران كى جلا وطنى كا حال وليد بن عقبہ كے حالت ميں گذر چكا ہے يہ عثمان كا ازاد كردہ تھا

۱۸۵

_صحيح ہے ، ليكن وہ بھى ميرى اجازت كے بغير مدينے سے نكلا

_ليكن وہ تو تمھارے خاص اونٹ پر سوار تھا

_ہوسكتا ہے ، وہ اونٹ مجھ سے پوچھے بغير اور ميرى اجازت كے بغير لے گيا ہو گا

_اب دو ہى صورت ہے ، يا تم صحيح كہہ رہے ہو اور حقيقت بھى يہى ہے ، يا تم جھوٹ بول رہے ہو اور سارى كاروائي تمہارى ہے _

چنانچہ يہ خط تمھارے حكم سے عبداللہ كو لكھا گيا ، اور ہم لوگوں سے تم جھوٹ بول كر خلافت سے دستبردارى كے مستحق ہو گئے ہو كيونكہ تم نے بغير كسى وجہ كے ہمارا خون بہانے كا حكم ديا _

اگر يہ بات ہے كہ تم سچ بول رہے ہو اور خط غلام اور اونٹ كے مسئلے سے بالكل پاك اور بے خبر ہو تو تمھارى نفسياتى كمزورى اور غفلت كى وجہ تمھارے گھنائونے رشتہ دار مسلمانوں كے معاملات ميں دخل دے رہے ہيں ، اسطرح تم خلافت سے ہٹائے جانے كے مستحق ہو ، كيونكہ تم ہرگز خلافت كے لائق نہيں ہو ، كيونكہ دوسرے لوگ تمھارى بے خبرى سے فائدہ اٹھا رہے ہيں ، تمھارى طرف سے ايسے فرمان صادر كر رہے ہيں ، كيا ايسے كو ہم اپنا اميرو پيشوا سمجھيں انھوں نے يہ بھى كہا كہ :

تم نے اپنى خلافت كے زمانے ميں بہت سے اصحاب رسول اور ديگر مسلمانوں كو صرف اس جرم ميں برى طرح مارا پيٹا كہ وہ تمھيں اچھى راہ دكھا رہے تھے ،تمہيں حق و عدالت كى طرف واپس لانا چاہتے تھے ، اب وہ وقت اگيا ہے قصاص كيلئے اپنے كو تيار كرو ، عثمان نے جواب ديا :

پہلى بات تو يہ كہ ہو سكتا ہے كہ امام اور پيشوا اشتباہ كا شكار ہو جائے ، اور ميں كسى حالت ميں بھى قصاص كے لئے اپنے كو تمھارے حوالے نہيں كروں گا ، كيونكہ ميں اكيلے سب كا قصاص بھگتنے كيلئے تيار ہو جائوں تو تباہ ہو جائوں گا(۹)

____________________

۹_رسول خدا نے اپنى زندگى كے اخرى ايام ميں مسجد ميں منبر پر تشريف لے گئے اور خطبہ ميں فرمايا ، جس شخص كو بھى مجھ سے اذيت پہونچى ہو اٹھے اور مجھ سے قصاص لے قيامت كے دن پر اٹھا نہ ركھے ايك صحابى اٹھے اور كہا كہ ايك جنگ كے موقع پر ہم لوگ جارہے تھے اور اپ اونٹ پر سوار تھے اپكا تازيانہ ميرے شكم پر لگ گيا تھا ميں اسكى تلافى چاہتا ہوں ، رسول خدا نے حكم ديا كہ وہى تازيانہ لا كر صحابى كو ديا جائے ، اس شخص نے كہا كہ اس وقت ميرا پيٹ برہنہ تھا رسول خدا نے اپنا پيٹ برہنہ كر ديا اور اپنے كو قصاص كے لئے تيار كرليا ، مسجد ميں سناٹا چھا يا ہوا تھا ، لوگوں كى سانسيں ركى ہوئي تھيں ، رسول خدانے مرض تپ ميں اپنے كو قصاص كے لئے امادہ كيا تھا ، ٹھيك اسى وقت صحابى نے اپنے كو رسول كے شكم مبارك پر ڈال ديا اور بوسے لينے لگا ، اور كہا جسم رسول سے قصاص لينے كى ميرى ہمت ميں خدا كى پناہ طلب كرتا ہوں ، عثمان اسى رسول كے خليفہ تھے

۱۸۶

مصر والوں نے كہا :

تم نے ڈھير سارى غلطياں كى ہيں ، تمھارے كرتوت بڑے بھيانك اور سنگين ہيں ، ان ميں سے ہر ايك تمھارى بر طرفى اور خلع خلافت كے لئے كافى ہے ، جب ان باتوں كو تمھارے كان ميں ڈالا گيا تو تم نے توبہ كى ، اظہار ندامت و شرمندگى كيا ليكن توقع كے خلاف انھيں باتوںكو كر كے اپنى توبہ توڑدى جب ہم لوگ تمھارے پاس داد خواہى كيلئے اے تو تم نے توبہ و استغفار سے ہميں موہ ليا _

محمد مسلمہ نے اس موقع پر تمہارے خلاف ہمارے اقدامات پر سخت سر زنش كى ، دوسرى طرف تمھارے وعدوں كى انھوں نے ضمانت لى اور جب اس بار تم نے انھيں ہمارے اور اپنے درميان وساطت كيلئے بلايا تو تم سے منھ پھير ليا ، تم سے علحدگى اختيار كرتے ہوئے كہا :

اب ميں كبھى ان كے معاملے ميں مداخلت نہيں كروں گا _

بہر حال ہم پہلى بار كم تعداد ميں ائے تھے اور واپس چلے گئے تاكہ تمھارے لئے كوئي بہانہ باقى نہ رہے ، اور خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے جو تم پر گواہ ہے تمھارا وعدہ پورا ہونے كى اميد ميں بيٹھے رہے ، ليكن ان تمام توبہ و دلجوئي كے باوجود تمھارا حيرتناك خط ہميں حاصل ہو گيا جسے تم نے اپنے گورنر كو لكھا تھا كہ ہميں قتل كردو ، ہاتھ پير كاٹ دو ، پھانسى پر لٹكا دو ، اور اب تم ڈھكو سلہ كر رہے ہو كہ تمھيں اسكى كوئي اطلاع نہيں ، حالانكہ وہ فرمان تمھارے غلام كے ہاتھ ميں تھا جو

تمھارى خاص سوارى پر تھا ، اس خط ميں تمھارے سكريٹرى كى تحرير تھى ، تمھارى خلافت كى مہر تھى _ اور اب تمھارى گذشتہ باتوں كو ديكھتے ہوئے كہ تمھارے كارندے ہم پر ظلم و ستم كررہے ہيں ، تم نے بيت المال كو اپنى ذاتى ملكيت بنا لياہے ، تمھارے رشتہ داروں نے اسے اپنى چيز سمجھ ليا ہے _

ان تمام سنگين معاملات كو تم نے بڑى سادگى سے ليا ، پھر تم نے توبہ و شرمندگى كا اظہار كيا ، اسكے بعد تم نے توبہ توڑ كر ان غلطيوں كو دہرا يا ، يہ سب سوائے تمھارے كوئي بھى ايسى گھنائونى اور خلافت حق باتيں نہيں كر سكتا_

۱۸۷

ہم نے پہلى بار تم سے ہاتھ اٹھاليا ، جبكہ يہ مناسب نہيں تھا اسى وقت تمہيں بر طرف كر دينا چاہيئے تھا اور كسى دوسرے ايسے صحابى رسول كو جسكا دامن تمھارى طرح الزامات سے الودہ نہ ہو تمھارى جگہ پر بٹھا دينا چاہيئے تھا _

اب بھى موقع ہے ، خلافت سے كنارہ كش ہو جائو ، كيو نكہ علحدگى ہى سب سے زيادہ صلح پسندى كى راہ ہے ، اسميں ہم دونون كا فائدہ ہے_

عثمان نے جواب ديا :

كچھ اور تو نہيں كہنا چاہتے ہو ، تم نے اپنى سارى باتيں كہہ ڈاليں ؟

مصر والوں نے جواب ديا ،ہاں

پس از حمد خدا ، اما بعد ، تم لوگوں نے اپنى باتوں ميں عدل و انصاف كى رعايت نہيں كى ، جلدى بازى ميں ايسا فيصلہ كيا جو انصاف سے بعيد ہے _

تم كہتے ہو كہ ميں خلافت سے دستبردار ہو جائوں ، تو سمجھ لو كہ ميں ہر گز اس لباس كو نہيں اتاروں گا جسے خدا نے ميرے بدن پر پنھايا ہے ، اور جس اقتدار سے خدا نے مجھے نوازا ہے ، تمام لوگوں ميں مجھے منتخب كيا ہے ، اسے ہرگز نہيں چھوڑوں گا ، ليكن ميں توبہ كرتا ہوں ، اور برائيوں سے باز اتا ہوں اب ہرگز ايسے كام نہيں كروں گا ، جسے مسلمان نا پسند كرتے ہيں ، كيونكہ خدا كى قسم ميں رحمت حق كا طلبگار ہوں ، اسكے غضب سے ترساں ہوں _

مصريوں نے كہا :

اگر يہ پہلى بار ہوتا كہ تم غلطى كرتے پھر توبہ كرتے اور توبہ پر ثابت قدم رہتے اور گذشتہ غلط كاموں كو نہ دہراتے تو ہم پر لازم تھا كہ تمھارى پيشكش قبول كر ليں ، اور تمھيں چھوڑ ديں ، اور جيسا كہ تم جانتے ہو باوجود اسكے كہ تم نے ڈھير سارى غلطياں كى تھيں ہم نے پہلى دفعہ كى توبہ پر تمھيں چھوڑ ديا حالانكہ ذرا بھى ہميں انديشہ نہيں تھا كہ تم اپنے گورنر كو ہمارے خلاف خط لكھ كر ہمارے قتل كا فرمان جارى كرو گے ، اب جبكہ تم نے يہ كام كر ہى ڈالا ہے اور ہميں وہ خط

۱۸۸

بھى دستياب ہو گيا ہے تواب دوبارہ تمھارى توبہ پر كيسے اطمينان كر ليں ، تمھارى توبہ كيسے مان ليں ؟

ہم نے تو تمھيں ازما ليا ہے كہ تم توبہ شكن ہو ، تم گناہو ں سے توبہ كر كے پھر اسكا ارتكاب كرتے ہو ، اب تم سمجھ لو كہ ہم كسى قيمت پر واپس نہيں ہوں گا ، تمھارى جگہ پر كسى دوسرے كا انتخاب كريں گے ، اگر تمھارے حمايتى ، رشتہ دار اور ماننے والے ہم سے جنگ پر امادہ ہوں گے تو ہم لوگ بھى جان پر كھيل جايئں گے ، ان سے جنگ كريں گے تاكہ تم پر قابو حاصل كريں اور تمھيں قتل كريں يا خود اس راہ ميں قتل ہو جائيں _

عثمان نے جواب ديا :

_ليكن حكومت سے دستبردا ر ہونا تو قطعى محال ہے

كيونكہ اگر مجھے پھانسى بھى ديدى جائے تو يہ ميرے لئے اس بات سے اسان ہے كہ جس اقتدار خلافت كو خدا نے مجھے عطا كيا ہے ميں اس سے دستبردار ہو جائوں _

_اور تم جو يہ كہتے ہو كہ جو لوگ ميرى حمايت ميں بوليں گے تم ان سے جنگ كرو گے تو ميں كسى كو حكم نہيں دوں گا كہ وہ تم سے جنگ كرے ، اگر اس درميان كوئي شخص بھى تم سے مقابلہ كرے تو وہ ميرے حكم سے نہيں ہو گا ، كيونكہ ميرى جان كى قسم اگر تم سے جنگ كا ارادہ ركھتا تو اسى بارے ميں ميں لكھ كر حكم ديتا اور مدينے كو پيادوں اور سواروں سے بھر ديتا ، يا پھر عراق و مصر پناہ ليتا ، ان باتوں كے ہوتے تم لوگ اپنے بارے ميں سوچو ، اگر ميرى جان پر رحم نہيں كرتے تو خود اپنى جان سے ڈرو ، كيونكہ اگر تم نے ميرا خون بہا ديا تو بڑے خون بہيں گے _

جب مصر كے نمائندے نكل گئے تو عثمان نے محمد بن مسلمہ كو بلايا اور حكم ديا كہ مصر والوں كو واپس كرديں ، محمد نے جواب ديا :

_خدا كى قسم ، ميں ايك سال ميں دوبار جھوٹ نہين بولوں گا

۱۸۹

بلاذرى لكھتا ہے(۱۰)

مصر والے مدينے سے تين منزل پر تھے كہ خليفہ كا قاصد ديكھا گيا جو مصر كى طرف تيزى سے جارہا ہے ، جب انھوں نے خليفہ كا خط حاصل كيا تو محمد بن ابى بكر نے تمام مہاجرين و انصار جو ساتھ ميں جارہے تھے انكے سامنے خط كھول كر پڑھا ، خط كا متن يہ تھا _

جب فرزند ابوبكر اور فلاں و فلاں تمھارے پاس ايئں تو جو حيلہ اپنا سكو انھيں قتل كر ڈالو ، اور محمد بن ابى بكر كا فرمان ليكر پھاڑ ڈالنا اور تا حكم ثانى تم اپنے منصب پر باقى رہو ، اور جو بھى تمھارى شكايت ليكر ميرے پاس انا چاہے اسے قيد كر لو _

جب مصريوں كو مضمون خط كى اطلاع ہوئي تو جوش و خروش كے ساتھ تيزى سے مدينے واپس ائے ، فرزند ابو بكر نے اس خط پر پہلے اپنے چند ساتھيوں كى مہر لگوالى ، جب وہ مدينے پہونچے توحضرت علىعليه‌السلام ، طلحہ ، زبير ،سعد اور ديگر تمام اصحاب رسول كو جمع كيا اور غلام كے خط حاصل كرنے كا سارا واقعہ بيان كيا ، پھر انھيں كے سامنے خط كھو ل كر پڑھا _ جلسہ ختم ہونے كے بعد مدينہ كا كوئي بھى شخص ايسا نہ تھا جسے عثمان سے شديد نفرت نہ ہو گئي ہو ، اس مسئلے نے واقعہ ابن مسعود ، عمار ياسر اور ابوذر كے غمناك تاثر ميں مزيد اضافہ كرديا _

تمام اصحاب رسول اپنے گھر چلے گئے ، وہ عثمان كے اس خط سے اپنے دل ميں شديد رنج و افسوس محسوس كررہے تھے _

لوگوں نے عثمان كا محاصرہ كرليا ، اور محمد بن ابى بكر نے طلحہ اور دوسرے بنى تيم كے افراد كى مدد طلب كى ، عائشه نے بھى اپنى زبان سے عثمان كے دل ميں كچو كے لگائے _

البدء والتاريخ ميں ہے كہ(۱۱) محمد بن ابى بكر اور طلحہ و زبير و عائشه عثمان كے زبر دست مخالف تھے ، مہاجرين و انصار نے بھى انھيں ان كے حال پر چھوڑ كر كوئي سروكار نہيں ركھا تھا ، جو حالات پيش ارہے تھے اس پر كوئي توجہ نہيں كر رہے تھے _

____________________

۱۰_ انساب الاشراف بلا ذرى ج۵ ص ۶۷_۶۸

۱۱_ البدء و التاريخ ج۵ ص ۲۰۵

۱۹۰

عائشه نے مسجد ميں عثمان پر اعتراض كيا ، اور انكے كرتوتوں كوگنايا ، رسول خدا كے بال ، لباس اور جوتيوں كو باہر نكال كر فرمايا كہ:

كتنى جلدى تم نے رسول كى سنت اور سيرت كو پس پشت ڈال ديا اور فراموش كر ڈالا _

عثمان نے جب يہ باتيں سنيں تو ابوبكر كے خاندان كو برا بھلا كہنے لگے وہ غصے ميں اس قدر اپے سے باہر تھے كہ جومنھ ميں ارہا تھا بك رہے تھے _ عثمان كے زبردست مخالفين ميں قبيلہ تيم كے اہم ترين افراد تين تھے ، ام المومنين عائشه ، ان كے بھائي محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ ، اور جيسا كہ مورخين لكھتے ہيں كہ عائشه اور

عثمان كے درميان بارہا توتو ميں ميں ہوئي ، چنانچہ تاريخ يعقوبى ميں ہے(۱۲)

عثمان منبر رسول پر تقرير كررہے تھے كہ ناگہاں عائشه نے رسول خدا كا پير اہن اپنے سر پر ركھا اور لہراتے ہوئے چلانے لگيں _

اے مسلمانو يہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا لباس ہے ، ابھى يہ پرانا بھى نہيں ہوا ہے كہ عثمان نے اسقدر جلدسنت رسول كو فراموش كرديا ہے ، بالكل مليا ميٹ كر ديا ہے_

عثمان نے جو يہ خلاف توقع حملہ ديكھا تو قران كا سہارا پكڑنے كے سوا چارہ نہيں ديكھا ، وہ جواب ميں قران كى يہ آيت پڑھنے لگے ;

پروردگار ، عورتوں كى مكارى و عيارى سے مجھے بچا كيو نكہ ان عورتوں كى مكارى بہت عظيم ہوتى ہے(۱۳)

____________________

۱۲_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۷۵

۱۳_ سورہ يوسف آيت ۲۳و الا تصرف عن كيد هن

۱۹۱

عائشه كا تاريخى فتوي

عائشه جن كے دل عثمان سے خونم خون تھا ، اور سر ميں اپنے چچيرے بھائي طلحہ كى تمنائے حكومت كروٹيں لے رہى تھى ، لوگوں كى بغاوت اور محاصرے سے بھر پور استفادہ كيا ، انكى موت كا تاريخى فتوى صادر كرديا _

اس بارے ميں ابن اعثم كوفى لكھتاہے(۱۴)

ام المومنين عائشه كو جب معلوم ہو گيا كہ يہ تمام لوگ عثمان كے قتل كا مصمم ارادہ كئے ہوئے ہيں تو چلّا كر بوليں_

اے عثمان تم نے مسلمانوں كے بيت المال كو اپنى ذاتى ملكيت بناليا ہے ، بنى اميہ كے ہاتھوں كو مسلمانوں كے جان ومال پر مسلط كرديا ہے ، انھيں اقتدار سونپ ديا ہے ، اسطرح تم نے سارے مسلمانوں كو مصائب و الام ميں جھونك ديا ہے؟خدا وند عالم زمين و اسمان كى بركت تم سے اٹھا لے ، اگر ايسا نہ ہو تا كہ تمام مسلمانوں كى طرح تم بھى نماز پڑھتے ہو تے تو تمہيں اونٹ كى طرح قتل كر ڈالا جاتا(۱۵)

جب عثمان نے عائشه كى يہ باتيں سنيں تو قران كى يہ آيت پڑھنے لگے _

كافروں كے لحاظ سے اللہ نے مثال پيش كى ہے نوح كى بيوى اور لوط كى بيوى كى جو ہمارے بندوں ميں سے دونيك بندوں كى زوجيت ميں تھيں تو انھوں نے ان سے غدارى كى تو ان دونوں نے ان دونوں كو خدا كے عذاب سے كچھ بھى نہيں بچايا ، اور كہا گيا كہ داخل ہو جائو دونوں اگ ميں داخل ہونے والوں كے ساتھ(۱۶)

جى ہاں يہ حقير كرنے والى آيت پيش كركے عثمان نے عائشه كا جواب ديا عائشه جنكا مزاج سخت متعصب اور تند و سر كش تھا ، وہ ايسى خاتون تھيں كہ غصے كے عالم ميں وہ اپنے اپ ميں نہيں رہتى تھيں _

يہ جواب سنكر اور وہ خط جسے ان كے بھائي محمد نے مصر كے راستے ميں حاصل كيا تھا اور جسميں محمد كے قتل كا فرمان تھا ، ام المومنين اپنے خاندان پر جان ديتى تھيں ، ايسى منقلب اور غضبناك ہوئيں كہ كسى قسم، كى پرواہ كئے بغير واضح لفظوں ميں فتوى صادر كرديا _

___________________

۱۴_تاريخ بنى اعثم ۱_۱۵۵

۱۵_ممكن ہے كہ يہ سرزنش ام المومنين اس سے قبل ہو گى جب ان كے بھائي محمد بن ابى بكر كو مصريوں كے ساتھ قتل كا خط حاصل كيا تھا ، ام المومنين نے پھر اس خط كے بعد عثمان كے نماز كى طرف كوئي توجہ نہيں كى اور قتل عثمان كا فتوى صادر كر ديا

۱۶_ مفسرين كے مطابق اساس سورہ تحريم عائشہ اور ايك دوسرى زوجہ كے اقدامات كا نتيجہ تھا ، انھيں دونوں كے بارے ميں يہ سورہ نازل ہوا ، عثمان نے مقام معارضہ ميں سورہ تحريم كى دسويں آيت پڑھي'' اقتباس امرا ة نوح و امرا ة لوط ''

۱۹۲

انھو ں نے چلّا كر كہا ،اس نعثل كو قتل كردو يہ كافر ہو گيا ہے(۱۷)

جيسے ہى يہ فتوى ام المومنين كى زبان سے نكلا تو جيسے خشك خرمن ميں چنگارى بھڑك اٹھے ، تيزى كے ساتھ ايك سے دوسرے منھ تك پہونچى ، جنگل كى اگ كى طرح تمام زبانوں پر پھيل گئي ، مدينہ كا كوئي معزز شخص بھى ايسى بات نہيں كہہ سكتا تھا بلكہ اسكا تصور بھى نہيں كر سكتا تھا _

ايئےب ذرا نعثل كا مطلب بھى سمجھ ليں

نعثل كا مطلب لغت ميں مندرجہ ذيل ہے(۱۸)

۱_تيندوا، لكڑ بگھا

۲_بد حواس بڈھا ، احمق ، نادان ،ناسمجھ

۳_مصر ميں ايك لمبى داڑھى والا اسى نام سے پكارا جاتا تھا

۴_ مدينے ميں ايك يہودى كا يہى نام تھا ، عثمان كو اسى سے تشبيہ دى گئي

ليكن سچى بات تو يہ ہے كہ ام المومنين كى نظر ميں جو اپنى فراست اور ہوشمندى سے سر شار تھيں ، انھوں نے كسى ايك معنى پر اكتفا نہيں كى تھى ، انكى نظر ميں يہ تمام معانى تھے ، انھوں نے اپنى فطرى قدرت بيان اور فصاحت و بلاغت كو بروئے كار لاتے ہوئے ان تمام معانى كو اس مختصر اور حتمى جملے ميں سميٹ ليا تھا ، اور پھر سنساتے تير كى طرح اپنے دشمن عثمان پر چلا ديا ، جو ٹھيك ان كے سينہ ميں پيوست ہو گيا اور ہميشہ كيلئے ان كے دامن پر باقى رہ گيا _

يہى مختصر جملہ ضرب المثل كى طرح عثمان كے دشمنوں كى زبان پر چڑھ گيا ، يہاں تك كہ اس فتوى كى بنياد پر خليفہ اپنے مخالفوں كے ہاتھوں قتل كردئے گئے ، يہ نام اپنے تمام معانى كے ساتھ مدتوں ان كے دشمنوں كى زبان پر جارى رہا ، اور ہميشہ كے لئے تاريخ ميں ثبت ہو گيا ، اعورشنى اپنے شعروں ميں لكھتا ہے _

____________________

۱۷ _ تاريخ طبرى ج۴ ص۴۷۷ ، تاريخ بن اعثم ج۱ ص۱۵۵ ابن اثير ج۳ ص۸۷ ، ابن ابى الحديد ج۲ ص۷۷نھايہ ج۴ ص۱۵۶

۱۸_ لغت ميں نعثل كا مطلب ديكھنے كيلئے نہايہ ابن اثير قاموس ، تاج العروس لسان العرب اور المنجد ديكھئے

۱۹۳

برئت الى الرحمن من دين نعثل

ودين ابن صخرايها الرجلان (۱۹)

ميں دين نعثل عثمان سے اور صخر كے بيٹے معاويہ كے دين سے بيزار ہوں _

محمد بن سيرة بن ابى زھير قرشى كا يہ شعر ہے

نحن قتلنا نعثلا بالسيرة

اذ صد عن اعلامنا المنيرة

ہم نے بنام سنت نعثل كو قتل كيا ہے ، جبكہ وہ ہمارے درخشاں پرچم كى پيش رفت ميں ركاوٹ بن گيا _

جب عمر و عاص نے جنگ صفين ميں بعض شعر پڑھتے ہوئے يہ مصرع كہا ،ردوا علينا شيخنا كما كان(۲۰)

ہمارے بزرگ اور ہمارے سردار (عثمان )كو جيسا كہ وہ تھا ہميں واپس كردو _

تو عراقى لشكر سے جواب ملا _

ابت سيوفنا مذ حج و همدان

بان ترد نعثلا كما كان (۲۱)

(قبيلہ مذحج و ہمدان كى تلوار يں انكار كر رہى ہيں كہ نعثل عثمان صحيح و سالم واپس كيا جاسكے)

____________________

۱۹_ انساب الاشراف ج۵ ص ۱۰۵

۲۰_ كتاب صفين ص۴۵۶ _ ۲۵۶_۲۵۷_۴۵۴

۲۱_ كتاب صفين ص ۴۵۶_۲۵۶_۲۵۷_۴۵۴

۱۹۴

عمرو عاص نے دوبارہ گہار مچائيردوا علينا شيخنا ثم بجل (۲۲)

ہمارا شيخ و سردار ہميں واپس كردو يہى ہمارے لئے كافى ہے _

عراقيوں نے جواب ميں كہا ،

كيف نرد نعثلا و قد قحل (۲۳)

نعثل كو ہم كيسے واپس كريں ، وہ تو سڑ گل گيا ہے _

عائشه كے تاريخ فتوى كا تجزيہ

اگر چہ عائشه كے فتوى صادر كرنے سے قبل تك لوگوں اور عثمان كے درميان صلح و صفائي كا تھوڑا بہت روشندان كھلا ہوا تھا ، كيونكہ حضرت على اور دوسرے لوگ بيچ بچائو كر رہے تھے ، ليكن ام المومنين كى طرف سے فتوى صادر ہوتے ہى ، وہ روشندان پورے طور سے بند ہوگيا ، عثمان كى موت يقينى ہو گئي ، پھر جو ہونا تھا ہوا _ ام المومنين كو شيخين كے زمانے ميں جو مرتبہ و مقام حاصل ہو گيا تھا اسے اپ نے گذشتہ صفحات ميں ملاحظہ كيا ، انھيں دونوں نے مسلمانوں كى نگاہ ميں ام المومنين كى عظمت بڑھانے كا سامان كيا اور اسقدر احترام كيا كہ انھيں سے فتوے اور احكامات حاصل كرتے تھے _

ادھر عائشه كے فتوے اور احكامات كى تاثير اتنى بڑھائي گئي اور وہ بھى اسقدر موقع شناس تھيں فتوى كا نفاذ فوراََ ہو جاتا ، جيسا كہ _ ليفہ كے بارے ميں ان كا فرمان قتل صادر ہوتے ہى سرداران بنى اميہ جو اقتدار كے مالك تھے وہ ايك طرف ہو گئے اور مسلمانو ں كے سارے طبقے دوسرى طرف ، ان دونوں پارٹيوں ميں شديد اختلاف و كشمكش كا بازار گرم ہو گيا ، فتنہ و اشوب كے شرارے تمام اطراف مملكت ميں راجدھانى سے ليكر دور دراز علاقوں ميں پھيل گئے ، ہم نے ان كى تفصيلات كى طرف گذشتہ صفحات ميں اشارہ كيا اگر چہ زيادہ تر كو اختصار كے پيش نظر بيان نہيں كيا _ ام المومنين كے اس فتوى پر عمل كر نے كيلئے تمام مسلمان امادہ اور كمر بستہ ہو گئے ، چاہے وہ اصحاب رسول ہوں يا دوسرے ، انھوں نے پكا ارادہ كرليا

____________________

۲۲_ كتاب صفين ص۴۵۶ _ ۲۵۶_۲۵۷_۴۵۴

۲۳_ كتاب صفين ص ۴۵۶_۲۵۶_۲۵۷_۴۵۴

۱۹۵

كہ يہ فتوى بہر حال عملى جامہ پہنے گا اب دو ہى راستے تھے ، جنگ يا عثمان كى برطرفي خود جنگ كى بھى دوصورت تھى ، يا تو خود خليفہ جوبلوائيوں كے محاصرے ميں ہے اسكى طرف سے جنگ كرے اور انقلابيوں كے خلاف تلوار اٹھائے يا لوگوں كى صف ميں شامل ہو جائے ، اور خلافت كے خلاف شورش و انقلاب برپا كرنے والوں كے ساتھ ہو كر جنگ كرے _ حضرت علىعليه‌السلام اور سعد وقاص جو اصحاب شورى ميں تھے _ يہ دونوں خاموشى اختيار كئے ہوئے تھے ، گوشہ نشين تھے ، ليكن طلحہ و زبير انقلابيوں كے ساتھ تھے ، ان لوگوں نے شورش پسندوں كى قيادت سنبھال ركھى تھى _

عثمان كو نعثل پكارنے والے لوگ

نعثل كا نام لوگوں كى زبان پر چڑھ گيا ، ام المومنين كا فرمان كہ نعثل كو قتل كردو ، ايك دوسرے كى زبان پر چڑھتے چڑھتے عام ہو گيا ، اگرچہ ام المومنين كى پہلى ذات ہے جس نے عثمان كا نام نعثل ركھا ، اور انكى طرف سے عثمان كا يہ نام علم كى شكل اختيار كر گيا ، ليكن عثمان كى حيات ہى ميں بعض اور لوگ بھى تھے جنكا دل عثمان كى زيادتيوں كى وجہ سے خون ہو گيا تھا ، انھوں نے انكے منھ پر يہ نام دہرايا ، ان ميں جبلہ بن عمر و ساعدى(۲۴) بھى ہيں _

طبرى لكھتا ہے كہ :

جبلہ اپنے گھر پر زنجير در پكڑ ے كھڑے تھے اتنے ميں ادھر سے عثمان گذرے تو جبلہ نے كہا :

اے نعثل ، خدا كى قسم ميں تجھے قتل كروں گا پھرتجھے اونٹ پر سوار كر كے جہنم رسيد كردوں گا _

بلاذرى لكھتا ہے :

جبلہ اپنے دروازے كى زنجير تھامے كھڑے تھے ، عثمان گذرے تو كہا ، يہ زنجير ديكھتا ہے ؟يہ زنجير گردن ميں ڈال دونگا ورنہ اپنے حمايتوں سے ہاتھ اٹھا لے ، تو نے بازار مدينہ كو حارث بن حكم كے نام قبالہ لكھ ديا ہے ، اور تو نے يہ يہ كرتوت كئے ہيں _

____________________

۲۴_ ان كے نسب كے بارے ميں اختلاف ہے ليكن سب نے لكھا ہے كہ يہ اصحاب رسول ميں صاحب علم و فضل تھے ، حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ جنگ صفين ميں شريك ہوئے ، اخر عمر ميں مصر سكونت اختيار كر لى تھى ، اسد الغابہ ج۱ ص۲۶۹ ملاحظہ ہو

۱۹۶

جبلہ كا اعتراض اس بات پر تھا كہ عثمان نے بازار مدينہ كا سارا انتظام اپنے چچيرے بھائي حارث بن حكم كے ہاتھ ميں ديديا تھا ، اسكى حالت يہ تھى كہ تمام اجناس اور اہم سامان بظاہر عثمان كے نام خريد كر جس بھائو چاہتا لوگوں كو بيچتا تھا اسطرح وہ اكيلے بازار كا سارا منافع خود كھاتا تھا اور كسى كو اعتراض كى ہمت نہ تھى _

حارث كو جانے ديجئے ، حكم اسكا بھائي خلافت ميں حد سے زيادہ رسوخ ركھتا تھا ، بازار والوں سے ٹيكس ليتا ، خلاف شرع اور انسانيت سے گرى ہوئي حركتيں كرتا تھا _

بازار والوں نے بارہا عثمان سے شكايت كى ، حارث كى عياريوں سے انھيں مطلع كيا ليكن اپنے چچيرے بھائي حارث كى عزت اس قدر زيادہ تھى كہ بازاريوں كى بات پر توجہ ديكر اسے روك نہيں سكتے تھے ، اسے ہٹا كر اس مصيبت كو دفع بھى نہيں كرتے تھے ، نہ حارث كے خلاف كاروائي كرتے ،عثمان كے بہى خواہوں نے اور ان تمام لوگوں نے جو عوام كو خلافت كى تمام باتيں بے چون و چرا ماننے كا مشورہ ديتے ، يہ سبھى عثمان كى مطلق العنانى كو ديكھتے ہو ئے بارہا جبلہ سے اصرار كرتے كہ اپنى مخالفت سے بازائيں ، ليكن انھوں نے سب كى باتيں پورى طاقت سے ٹھكرا ديں ، بار بار كے اصرار اور دبائو پر انھوں نے كہا :

نہيں خدا كى قسم ، ميں ہرگز اس بات پر تيار نہيں ہوں كہ اج تمھارى بات مان كر كل قيامت كے دن عدل خدا وندى كى بارگاہ ميں اوندھے منھ گر كر پريشان حالى سے كہوں _

بار الہا ، ميرا كوئي بس نہيں تھا ، ميرا كوئي اختيار نہيں تھا _

ميں نے بزرگوں اور رئيسوں كا حكم سنا اور فرماں بردارى كى ، انھوں نے ہى ہميں بد بختى اور گمراہى ميں جھونكا _

طبرى ايك دوسرى جگہ لكھتے ہيں ;

ايك دن عثمان كچھ لوگوں كے سامنے سے گذرے ، اور لوگوں كو سلام كيا ، انھوں نے سلام كاجواب ديا ، جبلہ نے ان لوگوں سے كہا ، ايسے شخص كا جواب كيوں ديتے ہو جس نے ايسا اور ايسا كيا ، پھر عثمان كى طرف رخ كر كے كہا :

خدا كى قسم ، ميں اسى لوہے كى زنجير كو تمھارى گردن ميں ڈال دوں گا ، ورنہ اپنے طرفداروں كو اپنے پاس سے دھتكار و _

عثمان نے پوچھا ، كن طرفداروں كے بارے ميں كہہ رہے ہو؟خدا كى قسم ميں نے كسى كو اپنے سے قريب نہيں كيا ہے نہ كسى كو خاص اہميت دى ہے _

۱۹۷

تم ايسا دعوى كررہے ہو ،جبكہ تم نے مروان ، معاويہ ،عبداللہ بن عامر بن كريز ، عبداللہ بن سعد جيسوں كو اپنا مقرب بنا ليا ہے ، جن كے بارے ميں قران مذمت كرتا ہے ، رسول خدا ان كا خون مباح قرار دے چكے ہيں _

عثمان كا خالہ زاد بھائي تھا عبداللہ بن عامر ، كيونكہ عثمان كى ماں كا نام اروى بنت كريز تھا ، عبداللہ كو عثمان نے كيسے مصر كى حكومت بخشى خود يہ داستان بڑى دلچسپ ہے _

ايك دن زياد بن ابيہ كا مادرى بھائي شبلى بن خالد عثمان كے پاس ايا ، جبكہ ان كے اردگرد بنى اميہ كے بہت سے سر كردہ افراد بيٹھے ہوئے تھے ، اس نے اتے ہى كہا :

كيا تمھارے درميان ايسا غريب نہيں ہے جسكے دل ميں مالدارى كى تمنا ہو ؟

كيا تمھارے درميان ايسا گمنام شخص نہيں ہے جس كے دل ميں شھرت كى ارزو كروٹيں ليتى ہو ؟

كيا تمھارے درميان كيا تمھارے درميان كيا تمھارے درميان جبكہ عراق كا قبالہ اسطرح ابو موسى اشعرى كے نام لكھ ديا گيا ہے جبكہ وہ نہ تو قريش سے ہے نہ قبيلہ مضرسے ہے بلكہ وہ يمن كے قبيلے كا ہے(۲۵) عثمان پر شبلى كى ان باتوں كا بڑا اثر ہوا ، جھٹ سے اپنے سولہ سالہ خالہ زاد بھائي عبداللہ بن عامر كو بصرے كى حكومت بخش دى اور ابو موسى اشعرى كو برطرف كرديا(۲۶)

طبرى نے حاطب كا بيان نقل كيا ہے(۲۷)

ميں خود اس دن مسجد ميں موجود تھا ، عثمان وہى عصائے رسول لئے ہوئے تھے جسے ابوبكر و عمر تقرير كےوقت لئے رہتے تھے ، وہ عصا كے سھارے تقرير كررہے تھے ، اتنے ميں جھجاہ نے بلند اواز سے چلّا كر كہا ، او نعثل ، اس منبر سے اتر_ ابوحبيبہ كا بيان ہے كہ جھجاہ غفارى كھڑے ہو كر چلّائے اے عثمان ، ميں نے اونٹ ، عبا اور زنجير تمھارے واسطے مہيا كر ركھى ہے ، تم منبر سے اتر و تو عبا سے تمھارى گردن باندھ دوں ، تمھيں زنجير ڈال كر اونٹ پر سوار كردوں اور كوہ اتش فشاں (جبل الدخان )ميں پہونچا دوں _

____________________

۲۵_ جاننا چاہيئےہ شبلى قبيلہ مضر كا تھا اسكو يہ بات سخت ناگوار تھى كہ بصرہ كى گورنرى ايك يمنى شخص كو ديدى گئي ہے

۲۶_ استيعاب و اسد الغابہ و اصابہ ديكھئے

۲۷_ تاريخ طبرى ج۵ ص۱۱۴ ، ابن اثير ج۳ ص۷۰ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۶۵ ، ابن كثير ج۷ ص ۱۵۷ ، اصابہ ج۱ ص۲۵۳ وغيرہ

۱۹۸

عثمان نے جھجاہ كا جواب ديا

خدا تيرا ناس مارے ، اور وہ بھى تباہ كرے جسے تو نے مہيا كيا ہے _

راوى كا بيان ہے :

جھجاہ نے يہ بات اكيلے اور تنہائي ميں نہيں كہى ، بلكہ تمام لوگوں كى موجودگى ميں ان كے سامنے كہى اس موقع پر تمام بنى اميہ كے طرفداروں اور عزيزوں نے عثمان كو اپنے حلقے ميں ليكر انھيں گھر تك پہونچا ديا ، يہ اخرى موقع تھا جب ميں نے عثمان كو ديكھا ، كہتے ہيں كہ اس واقعہ كے بعد عثمان ايك يا دوبار سے زيادہ گھر سے نہيں نكلے ، كيو نكہ اسكے بعد وہ بلوائيوں كے محاصرے ميں اگئے اور اخر كار قتل كئے گئے _

عثمان اور عائشه كا امنا سامنا

جب عثمان نے لوگوں كى خواہش ٹھكرا دى اور ام المومنين نے قتل كا فتوى صادر كر ديا تو لوگوں نے انكا محاصرہ كر ليا ، اس درميان دوسرے شھروں كے لوگ بھى عثمان كے كارندوں سے تنگ تنگ تھے ، جس وقت ان لوگوں كے پاس ام المومنين كے فتوى كا خط پہونچا كہ عثمان كے خلاف بغاوت كردو تو وہ بھى عائشه كے اس حكم پر عمل كرنے كيلئے مدينہ پہونچنے لگے(۲۸) عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ نے بلوايئوں كى قيادت سنبھال ركھى تھى ، اور ہر وقت واجبى احكام ديتے رہتے تھے(۲۹) خليفہ كيلئے اب كوئي پناہ گاہ نہيں رہ گئي تھى ، خاص طور سے عائشه كے فتوى كے بعد چھٹكارے كى تمام راہيں بند ہو گئي تھيں _

جب عثمان نے حالات سخت ديكھے تو مروان اور عبدالرحمن بن عتاب اموى كو حكم ديا كہ عائشه سے ملاقات كريں جو امادئہ سفر حج ہيں ، تاكہ صلح و صفائي كى راہ نكلے ، يہ دونوں عائشه كى خدمت ميں پہونچے ااور اس طرح عرض كيا _

اگر اپ اپنا سفر روك ديں اور مدينے ہى ميں رہيں تو اميد بند ھتى ہے كہ اپ كے وجود كى بركت سے اس شخص (عثمان)

كى زندگى بچ جائے _

____________________

۲۸_ بلا ذرى ۵_ ۱۸

۲۹_عبد الرحمن بن عتاب اموى نے عائشہ كى طرف سے جنگ جمل ميں شركت كى ، كہتے ہيں كہ اس جنگ ميں ان كا ہاتھ كٹ گيا اور ايك گدھ اٹھا لے گيا ، يمامہ ميں ليجا كر اس ہاتھ كو ڈال ديا ، وہاں كے باشندوں نے اس كى انگوٹھى سے پتہ لگايا اور اسكا ہاتھ پہچانا ، نسب قريش ۱۸۷ تا ۱۹۳

۱۹۹

اس پر مروان نے اضافہ كيا

اور خليفہ نے زبان دى ہے كہ سفر كے اخراجا ت كے لئے اپ نے اگر ايك درہم فراہم كيا ہے تو دو درہم اسكے بدلے پيش كيا جائے گا _

عائشه نے جواب ديا :

ميں نے سامان سفر باندھ ليا ہے اور اپنے اوپر حج لازم كر ليا ہے ، خدا كى قسم ميں تمھارى خواہش كے مطابق عمل نہين كرونگى ، عبدالرحمن اور مروان نا اميد ہو كر اپنى جگہ سے اٹھے اس موقع پر مروان نے يہ شعر پڑھا _

و حرق قيس على البلاد فلما اضطر مت احجما

(قيس نے ميرے شھر ميں اگ لگا ئي ، اور جب شعلے اسمان سے باتين كرنے لگے تو مجھے چھوڑ كر چلتا بنا )

عائشه نے مروان سے يہ كنايہ سنكر بڑے درشت لہجے ميں كہا :

اے مروان ، تو نے سمجھ ركھا ہے كہ ميں تيرے اقا (عثمان) كے بارے ميں كسى شك و ترديد ميں مبتلا ہوں ؟بخدا ميرى ارزو ہے كہ اسے اپنے كسى بنڈل ميں ٹھونس كر ، جسكى مجھے طاقت بھى ہے ، اسے سمندر ميں ليجا كر پھينك ائوں _

ام المومنين مدينے سے مكّے كى طرف نكل گيئں ، اس سال عثمان كے حكم سے عبداللہ بن عباس امير الحاج تھے _

ابن عباس سے عائشه كى مقام صلصل ميں ملاقات ہوئي تو ام المومنين نے ان سے كہا ، ابن عباس تمھيں خدا كى قسم ديتى ہوں كہ جيسى تم تيز و طرّار زبان ركھتے ہو ، جو لوگ اس شخص (عثمان ) كے خلاف جو شورش بر پا كئے ہوئے ہيں اسے ٹھنڈا نہ كرو ، لوگوں كو اس خود خوا ہ اور سر كش كے بارے شك و ترديد ميں مبتلا نہ كرو عوام اپنے كام ميں خود ہى صاحب نظر اور اپنى راہ انھوں نے خود طئے كى ہے ، اور دوسرے شہروں سے ان باتوں كے لئے جو گروہ گروہ لوگ ائے ايك پليٹ فارم پر جمع ہو گئے ہيں ، ميں نے خود طلحہ كو ديكھا ہے كہ خزانے كى چابى ان كے ہاتھ ميں ہے ، اگر وہ اپنے ہاتھ ميں زمام حكومت لے ليں تو بلاشبہ اپنے چچيرے بھائي ابوبكر كى روش كے مطابق چليں گے _

۲۰۰