تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87143 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ہے كہ حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علاوہ اصحاب ميں سے كوئي بھى اس بلند مرتبہ انسانيت و كمال تك نہيں پہونچا تھا ،

كيونكہ خود انھوں نے دل كى گہرائيوں سے ،اور جاوداں فقرہ ارشاد فرمايا تھا ،يا دنيا غرّى غيري

اے دنيا ميرے سوا دوسرے كو دھوكہ دينا

على اور مسند خلافت

ميں نہيں سمجھتا كہ كوئي صحابى ايسا ہو گا جس كے فتوى و اجتہاد ميںجائے تامل اور اعتراض كى گنجائشے نہ ہو ،سوائے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ،كيو نكہ ان كے اجتہاد ميں ذرا بھى شك وشبہ اور اعتراض نہيں كيا جا سكتا ،اس بات كو ميںپورى بےباكى سے كہہ رہا ہوں ، اور تمام دقيق سياسى معا ملات جو پيش ائے وہ اس دعوى كا ثبوت ہيں _

عمر نے معاملہ خلافت ميں مداخلت كيانتيجے ميںابوبكر مسند خلافت پر بيٹھ گئے ،انہوں نے اپنے فتوى ميں اس دليل پر زور ديا كہ فتنہ و اشوب ديكھ كر اس پر لگام چڑھائي گئي ہے ،ابوبكر كے بعد انھوں نے خود اس ذمہ دارى كاسنگين بوجھ اٹھا ليا اوربارہا اس بات كا اعتراف كيا كہ ابوبكر كے زمانے ميں غلطياں ہوئيں ،جس وقت بعض اصحاب نے ان كے فرزندعبداللہ كى بيعت كے بارے ميں ان سے بات كى تو انھوں نے جواب ديا ،خاندان عمر كے لئے يہى كافى ہے كہ ان كا ايك فرد اس كا ذمہ دار ہو ،اور عدل الہى كى بارگاہ ميں امت محمد كے بارے اس سے جواب طلب كيا جائے_

ليكن حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شيخين كے مقابلے ميں معاملہء خلافت كے سلسلے ميںيہ دليل دى كہ اس اھم كام كى مشغوليت تھى وہ جسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دفن و كفن ميں مشغول تھے(۱)

يہ سب سے بڑ ا اعتراض ابو بكر و عمر پر تھا ،اور حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں كے مقابل حقدار نظر ائے ہيں _

عمر كے بعد على و عثمان كے درميان خليفہ كے انتخاب ميں عبدالرحمن بن عوف بھى جوان چھ افراد ميں تھے جنھيں عمر نے خليفہ منتخب كرنے كيلئے مجلس شورى بنائي تھى ،انھوں نے اپنى راے دى اور خليفہ كى ذمہ دارى كو اپنے فتوى سے متعين كيا ،اپنے اسى متعين فتوى كو ان دونوں كے سامنے پيش كيا حالانكہ وہ جانتے تھے كہ حضرت على ان كے اجتہاد

____________________

۱_ اس وجہ سے حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سقيفہ بنى ساعدہ ميں مو جود نہيں تھے ، اور ابو بكر و عمر نے انكى غير موجودگى ميں جلدى سے خليفہ چن ليا اگر انھوں نے اتنا صبر كيا ہوتا كہ رسول كو سپرد لحد كر ديا جائے اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى وہاں سب كے ساتھ اجايئں تو شايد يہ واقعات پيش نہ ائے اور تاريخ اسلام كا دوسرا ہى نقشہ ہوتا_

۲۱

كے پابند نہيں ہو سكتے ، خلافت قبول كرنے كيلئے پہلے حضرت على كے سامنے شرط پيش كي_

حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے فرزند عوف نے جو شرطيں پيش كى تھيں ان ميں رضائے خدا و رسول اور مسلمانوں كے مفاد ات كى حد تك تو حريص تھے منصب خلافت حاصل ہوتا اور حكمرانى كرنا انكى نظر ميں ہيچ تھا ،جبكہ عثمان كى زيادہ توجہ منصب خلافت حاصل كرنے كى تھى وہ دل سے يہى چاہتے تھے ،دوسرے امور كى ان كى نظر ميں اہميت نہيں تھى ،اور خدا اس بات كو بہتر جانتا ہے كہ شروع ہى سے وہ جس بات پر، ہوئے تھے اسميں انھيں پورى سوجھ بوجھ كہاں تك تھى ، يا خلافت حاصل كرنے كے بعد ان ميں پيدا ہوئي ،كيو نكہ يہ باتيں نفسانيت كے امور سے تعلق ركھتى ہيں ،اورہم اس بارے ميں كوئي فيصلہ بھى نہيں كر سكتے ، كيو نكہ ھمارا استدلال صرف ظاہرى حالات كى روشنى ميں ہے_

''عائشه كا تاريخى فتوى ''

عائشه نے حضرت عثمان كى خلافت كے ابتدائي ايام ميں تو موافقت اور انكى تائيد كى ،پھر ان سے منحرف ہو كر ان كے خلاف فتوى دےديا ،اس وجہ سے ان كا اجتہاد قابل اطمينان نہيں ہے _

خلافت كے سلسلے مين انكے رقيب ہوتے ہوئے بھى دليل و بر ہان كے با وجود حضرت عائشه كى طرف عثمان سے جنگ اور مخالفت نہيں كى ،جب عثمان قتل ہو گئے تو حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طلحہ و زبير اور ديگر تمام لوگوں كى بيعت قبول نہيں كى جس وقت تمام لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تو اپ نے مسجد ميں كھڑے ہو كر يہ فرمايا ، ميں تمہارى خلافت سے بيزار تھا ،ليكن تم ہو كہ ميرے سوا كسى كى حكومت پر راضى نہيں ہو ،اس بات كو سمجھ لو كہ ميں كوئي بھى كام بغير تمہارى صوابديدہ اور صلاح كے انجام نہيں دوں گا ،تمہارے بيت المال كى كنجى ميرے پاس ہے ليكن ايك درھم بھى بغير تمہارى مرضى كے نہيں چھوئوں گا _

پھر پوچھا ،كيا تم اس بات پر راضى ہو ؟

تمام لوگوں نے چلّاكر كہا ہاں

اسوقت اپ نے فرمايا :

بار الہا ان لوگوں پر تو گواہ رہنا

اس كے بعد اپ نے خلافت قبول فرمائي

۲۲

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رائے صائب تھى اپ نے اس طرح لوگوں كيلئے كسى بہانے كى گنجائشے نہيں چھوڑى كيو نكہ ان لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تھا نہ يہ كہ اپ نے خود خلافت كى خواہش كى ، لہذا جس نے بھى اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچا اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت كى وہ خود دغاباز اور مجرم ہے ،اور جو شخص اپ كا وفادار رہا وہ مومن اور سچا ہے _

عائشه نے دوسرى بار اجتہاد كا پرچم لہرايا يہ اس وقت كى بات ہے جب قاتلان عثمان سے انتقام لينے كيلئے انھيں اور طلحہ و زبير جنہوں نے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پيمان توڑا اور اپنى بيعت كچل ڈالى با قاعدہ ساتھ دينے پر امادہ ہوئے يہ مفاد پرستانہ اقدام بتاتا ہے كہ حضرت عائشه كى نيت انديشہ مفاد سے خالى نہيں تھى ،تمام لوگ كہنے لگے كہ يہ عثمان كا بدلہ لينے كيلئے نہيں اٹھى ہيں بلكہ مقصد صرف يہ ہے كہ مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف پيدا كيا جائے اور جو لوگ حضرت علىعليه‌السلام سے وابستہ ہيں ان ميں انتشار پيدا كيا جائے يہاں تك كہ اگر حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سوا كوئي اور ہوتا تو كبھى ايسا اقدام نہ كرتيں _

ام سلمہ كا تاريخى خط عائشه كے نام

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف معاملہ خلافت كے سلسلے مين عمر كے اقدام كے بعد عائشه كا اقدام دوسرا رخنہ تھا جو بنياد اسلام ميں پڑا ،ميںيہ بات اپنى طرف سے نہيں كہ رہا ہوں اور اس سے ميرى كوئي خاص غرض بھى نہيں ہے بلكہ يہ حقائق نا قابل انكار ہيںجن پر بزرگان قوم اور مشھور مورخين متفق ہيں _

عائشه كى كار وائي صحابہ كے زمانے سے اج تك تمام لوگ ان لوگون كے لئے نفرت كا سبب بنى جو حق اور حقيقت كے طرفدار ہيں ،اس دعوى كى گواہى حضرت ام سلمہ ہين جو دوسرى زوجہء رسول ہيں ، انھوں نے پند ونصيحت بھرا خط عائشه كو لكھا اور اس اقدام سے باز رہنے كى خواہش ظاہر كى ،خاص طور سے انھيں مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف سے روكا _ خط

۲۳

زوجہء رسول ام سلمہ كى طرف سے ام المومنين كو

ميں خدا كى حمد و ثنا ء كرتى ہوں اور اس كى وحدانيت كا اقرار كرتى ہوں

امابعد تم نے اس اقدام سے اپنے احترام كا پردہ چاك كيا جو رسول خدا اور ان كى امت كے درميان تھا ،اور ان كے

حرم كا حجاب پارہ پارہ كيا قران نے تمہارا دامن جمع كيا ہے ،اسے خود سرا خاك ميں نہ ملاو ،تمھارا مقام مرتبہ محفوظ ہے ،اسے بلاوجہ ضائع نہ كرو ،اس خدا ئے واحد سے ڈرو و جو اس امت كا نگہبان ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عورتوں كى جہاد كا طريقہ متعين كيا ہے ،بلا شبہ اس سلسلے مين حكم صادر كيا ہے كيا تم نہيں جانتى ہو كہ انہوں نے تمہيں جنگ سے منع كيا ہے ؟ كيو نكہ اگر دين كے ستون ميں ٹيڑھا ہو جائے تو عورتوں كى طاقت سے كبھى سيدھا نہيںہو سكتا ،اور اسكى خرابى عورتوں سے اصلاح پزير ہرگز نہيں ہو سكتى ، عورتوں كا جہاد اپنے كو لئے ديئے ركھنا ،پاك دامنى اور قناعت ہے _

اگر تم اس طرح بيابانوں مين اپنے اونٹ كو اس گھاٹ اور اس گھاٹ ہاكتى رہو اور رسول خدا تمھين ديكھ ليں تو تو انھيں كيا جواب دو گى حا لا نكہ تمہيں جلد يا دير ان كے سامنے حاضر ہونا ہے _

ميںبے باكانہ قسم كھاتى ہون كہ اگر ميں اس حال ميں رسول سے ملاقات كروں كہ ان كى حرمت ضائع كى ہو اور مجھ سے كہاجائے كہ اے ام سلمہ جنت ميں اجاو تو ميں شرم سے پانى پانى ہو جاو ں گى _

اس لئے اپنے پروردگار كى حفاظت كرو اور گھر ميں بيٹھى رہو اگر تم اس امت سے سروركار نہ ركھو تو يہ بجائے خود ان كے حق ميں بہترين خدمت ہے ،اور ميںجانتى ہوں كہ رسول خدا سے جو باتيںميںنے سنى ہيںاگر اس سے تمہيں خبردار كروں تو تم سانپ كاٹے شخص كى طرح تڑپنے لگو گي، والسلام

خود يہ خط دوسرى دليل ہے كہ عائشه كا اجتہاد غلط تھا

اس خط ميں اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ انھيں مسلمانوں كى جماعت ميں ھم اھنگى كى فكر نہيں تھى ، نيز يہ بات بھى معلوم ہوتى ہے كہ ازواج رسول ميں سے دوسرى كوئي بھى عائشه كے اس اقدام كے ساتھ نہيں تھيں اور نہ انھوں نے عائشه كى مدد كى ،

۲۴

اس كتاب كے مولف كا مقصد

اقائے عسكرى ، خداوند عالم انہيں حقيقت بيانى كى جزا دے ميں نے اپنے دقيق علمى بحث ميں ھرگز اس بات كا قصد نہيں كيا ہے كہ لوگوں كو عائشه نے اپنے اجتہاد دو فتوى ميں جو اشتباہات كئے ہيں ان كے خلاف لوگوں كو بھڑكائيں ،اور مسلمانوں كے احساسات ابھاريں بلكہ انھوں نے اپنے بيان كے درميان صرف خشنودى خدا كيلئے اس بات كى فكر كى ہے كہ تاريخى حالات كے مفاہيم جو زيادہ تر لوگوں كے ذہن اصحاب رسول ہونے كى وجہ سے پہچان نہيں پائے ہيں اور

تاريخ صحيح كى تفہيم نہ ہونے كى وجہ سے عظمت شريعت اسلام كى تفہيم سے محروم ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں، كہ اوضاع تاريخى كے مفہوم سے عام لوگ جو محروم ہيں اور اصحاب رسول كو پہچان نہيں سكتے ہيں اور ان كى باتوں ميں تميز نہيں كر سكے ہيں ،اور نتيجے ميں صحيح تاريخ سمجھنے اور ان كى شريعت اسلام ميں حيثيت كو پہچان نہيں سكے ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں ، انھوں نے اس راہ ميں جو سعى كى ہے اس كا مقصد صرف يہ ہے كہ لوگ احاديث رسول خدا كو بغير اپنے احساسات و جذبات كى مداخلت جزوى فوائد و تعصب كے راويان حديث كے بارے ميں علم و دانش كى روشنى ميں ادراك كر سكيں _

كيونكہ اگر لوگ تمام يا كچھ حصئہ حديث رسول كو سمجھ ليں تو بڑى اسانى سے اسلامى فرقوں اور مذاہب كے درميان كا اختلاف كا سرا سمجھ ميں اجائے گا ،اور انہيں معلوم ہو جائے گا كہ كس حد تك يہ اختلاف مصنوعى اور حكمرانوں كا خاص غرض سے پيدا كيا ہو ا ہے انھوں ہى نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر ترجيح دى ہے حكومت چلانے اور اپنى پار ٹى مضبوط كرنے كيلئے جن حديث كو ضرورى سمجھا بنا ليا يا اكثر صحابہ كى بيان كردہ حديث كو من كے مطابق بدل ليا ، صحيح بات يہ ہے كہ انھوں نے حكومت كے استحكام كيلئے صحابہ پر دروغ بافى كى اور اپنى غرض كے لئے من پسند باتيں گڑھ ليں _

۲۵

اس سے پہلے كہ اپنى علمى بحث كو ختم كروں جسے صرف خشنودى خدا كيلئے معرض تحرير ميں لائي گئي ہے ، مناسب سمجھتا ہوں كہ دانشور محقق اقائے عسكرى كے كان ميں اہستہ سے ڈال دوں كہ وہ اپنے ان علمى مطالب كو جس كا بلند مقصد مذاہب اسلامى كو ايك دوسرے كے قريب لانا ہے اسے جارى ركھيں ،اپنے متين اور محكم اساس پر استوار اسلوب كو اس طرح قرار ديں كہ ارباب علم و دانش او ر اسكالروں كيلئے پسنديدہ ہوتاكہ اس طرح مسلمانوں ميںباہمى اتحاد و ہم اہنگى پيدا ہو ،اور كيا ہى اچھا ہوتا كہ تمام وجود جو بحث و تحقيق ميں مستغرق ہے ميرى اس پيش كش كو عملى شكل ديدے_

كيونكہ بنيادى طور سے اختلاف اور ذاتى دھڑا بندى ايك شيعہ اور سنى كے درميان سمجھ ميں انے والى بات نہيں ہے اور اسميں شك نہيں كہ يہ دونوں فرقے جب تك مقاصد اور وجوہات دونوں كے خالص ہيں تو ايك دوسرے كے نقائص دور كرنے اور درستگى لانے ميں دل وجان سے كوشش كريں _

ڈاكٹر حامد حفنى دائود

۱۷ شوال ۱۳۸۱

۲۳ مارچ ۱۹۹۲

۲۶

كتاب كا مقصد تاليف

زيادہ تر ارباب تحقيق رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى احاديث كى طرف دير سے متوجہ ہوئے ہيں كہ احاديث كا ايك دوسرے سے ربط يا ان احاديث اور ايات قران كے درميان گھناونا اختلاف موجود ہے ،يہ امر اس بات كا سبب بنا كہ سلف كے دانشوروں نے رسول خدا پر اعتراضات اپ كى احاديث كى توجيہ و تاويل پر مشتمل كتابيں لكھيں ،ان ميں تاويل مختلف الاحاديث اور بيان مشكل الحديث اور بيان مشكل الاثار وغيرہ كتابيں لكھيں_

اس طرح نقادوںاور عيب جوئي كر نے والے ملحدوں اور عيسائي مبلغوں كے ساتھ كچھ مستشرقين كو بھى اس بات پر ابھارا كہ دشمنى وعناد كى راہ سے اس قسم كى احاديث كے استناد ميں اختلاف و تضاد دكھا كر پيغمر اسلام اور ان كے دين پر اعتراض كيا اور مذاق اڑايا،حالانكہ يہ دونوں گروہ اس بات سے غافل تھے كہ ان احاديث كے مجموعے كا بہت بڑاسرمايہ، خاص طور سے جن ميں باہم اختلاف ہے يہ سبھى ايك ہى روش اور ايك ہى سياق سے مربوط نہيں ہيں كہ انھيں اطمينان كے ساتھ سبھى كو رسول خدا كى واقعى حديث سمجھ كر يكجا بحث و تحليل كى جائے بلكہ يہ تمام احاديث خود ہى چند مختلف احاديث كا مجموعہ ہيں جنھيں مختلف راويوں اور بيان كرنے والوں كے طريقے سے ھم تك پہونچا ہے_

ارباب تحقيق كو سب سے پہلے يہ چاہيئے كہ راويان حديث كى دستہ بندى كريں مثلاوہ احاديث جو ام المومنين عائشه سے منسوب ہيں ياانس سے ابو ھريرہ يا عبداللہ بن عمر سے ان تمام كو الگ الگ جمع كر كے دوسرے ايسے راويان حديث جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت زيادہ احاديث روايت كى ہيں ( ان كے حالات زندگى ،انكا انداز فكر اوران كا عقيدہ ) ان پر الگ الگ بحث و تحقيق كى جائے تاكہ حقيقت امر واضح ہو سكے _

مجھے يہ بات اس وقت معلوم ہوئي ،جب ميں صدر اسلام كے تاريخى حوادث كے ذيل ميں احاديث كے بحث و تحقيق ميں مشغول تھا ،خاص طور سے ان احاديث پر جو ام المومنين عائشه سے نقل كى گئي ہيں ،اس موقعہ پر ميرى نگاہ جذب ہو كر رہ گئي اور مجھے يقين حاصل ہو گيا كہ تاريخ اسلام ابتدائے بعثت سے بعثت يزيد كے زمانے تك كو اچھى طرح نہيں سمجھا گيا ہے _

۲۷

يہ اسى وقت ممكن ہے كہ پہلے احاديث ام المومنين كو جو بجائے خود اكيلا تاريخ صدر اسلام كا اھم ترين سر چشمہ ہے حقيقت فہمى كيلئے اس كا غير جانبدارانہ مطالعہ كيا جائے

اس طرح مجھے يقين ہے كہ بعض ايات قرانى كو سمجھنا نيز وہ اسلامى فقہ جو اكيلى احاديث ام المومنين كى سند سے مروى ہيں ان كو بھى اسى اساس پر مطالعہ كرنا چاہيے _

جب ميں اسلام كے پہلے دور كى تاريخى تنظيم كا تجزيہ كر رہا تھا ،ميرے لئے نا گزير ہو گيا كہ اسى تقسيم يعنى حديث كى قدر وقيمت كے بارے ميں بحث كو تمام مبا حث كو مقدم قرار ديكر اسى كا تحليل و تجزيہ كروں _

اس قسم كے واردات كى اس حيثيت سے كہ صدر اسلام كے سر كردہ افراد ميں بڑى مشكل بات ہے اس وادى ميں قدم ركھنا كسى مسلمان محقق كيلئے كوئي اسان بات نہيں ہے ( غير جانبدارانہ تحقيق كريں )

پہلى زحمت دشوارى جو مشرق كے مسلمان اديبو ں كو پيش اتى ہے وہ خود ان كے عقائد ہيں جنكى انھوں نے عادت ڈال لى ہے اور ان كى زندگى ميں نشو و نما پاتا رہا اور ان كى نفسيات اور رگوں ميں رچ بس گيا ہے اور يہى عقائد اسلامى معاشرے ميں بھى رائج ہيں _

يہ لوگ صدر اسلام كے مسلمانوں كو عام ادميوں سے بر تر خيال كرتے ہيں اس عہد كو اور اس زمانے كے افراد كو مقدس سمجھتے ہيں اور جو كچھ ان كے اور اس زمانے كے بارے ميں سمجھ بيٹھے ہيں ،وہ دوسرے عہد كے مسلمانوں كے بارے ميں باور نہيں كرتے_

چنانچہ اس طرح كے اديب ،قلمكار متذكرہ الجھن كوبحث و تحقيق ميں نظر انداز نہيں كرتے ، تلاش حق و حقيقت كے بجائے ان كى باتيں اپنے معتقدات كے دفاع ميں لگ جاتى ہيں _

جب ميں نے يہ حقيقت سمجھ لى تو پكا ارادہ كر ليا كہ اس موضوع پر اپنے جذبات كو جو ام المومنين عائشه كى زوجہ ء رسول كى حيثيت سے قائل ہوں ،انھيں اڑے نہ انے دوں ، اور اسلام كى محترم شخصيات كو جو نظر انداز كر ديا جاتاہے انھيں دوسرے عام لوگوں كے مقابل فرق نہ قرار دوں اور انہيں اس نقطہء نظر سے پہچانوں كہ وہ بھى عام لوگوں كى طرح گونا گوں احساسات و جذبات ركھتے تھے ،اس طرح ميں حيات ام المومنين كے ادوار ميں جو حوادث پيش ائے حقيقت معلوم كرنے كيلئے صرف اسى كو موضوع بحث و تنقيد قرار دوں _

۲۸

اگر چہ دعوى نہيں كرتا كہ ميں اپنے اس ارادے ميں پورى طرح كامياب ہو گيا ہوں ، ليكن اس سلسلے ميں اپنى بھر پور تلاش و كو شش كر ڈالى ہے اس كا جو كچھ فيصلہ ہے وہ دوسروں كو كر نا ہے ، ليكن خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ صرف صدر اسلام كى تاريخ ،قران اور اس كے احكام كى تحقيق كرنے والوں كو فائدہ پہونچانے كيلئے ميںنے يہ سارے پاپڑ بيلے ہيں ،_

اسلام يا ايمان و عقيدہ

دوسرى بات يہ كہ جيسے ہى كوئي قلمكار پكا ارادہ كر كے اس مشكل كو اپنى بحث و تحقيق سے اٹھاليتاہے تودوسرى مشكل گلے پڑ جاتى ہے كہ اس قسم كے مطالب كى نشر و اشاعت مسلمانوں كى ھم اہنگى كو متاثر كرتى ہے يہ سوال كھڑا ہو جاتا كہ اج جبكہ بہت سے مجاہدين اور مصلحين كى مسلسل مساعى سے خدا وند عالم نے مختلف گروہ ميں بٹے ہوئے مسلمانوں كى ارزو ں اور ميلا نات كو ايك دوسرے سے قريب كر ديا ہے ،ان ميں برادرى كے اسباب فراہم كر دئے ہيں كيا ايسى حالت ميں مناسب ہے كہ اسقدر طويل زمانے كے بيتے دور كے بارے ميں لكھا جائے كہ صرف يہى نہيں كہ باہمى ترديد و اعتراض كى ہو ا بن جائے بلكہ سوئے ہوئے جذبات بھڑك اٹھيں اور اپس ميں نفرت و عناد پيدا ہو جائے؟

ليكن اسى سوال كے مقابل ميں مسئلہ بھى سامنے اجاتا ہے كہ جسے اسانى سے نظر انداز نہيں كيا جاسكتا _

اگر خير انديش اصلاح پسندوں كى كوشش بيكار كرنے كا نام ديكر ايسى بحث و تحقيق پسنديدہ نہ سمجھى جائے تو اس صورت ميں تمام لو گوں پر علمى تحقيقات كے دروازے بند ہو جائيں گے اور يہ دانش و معرفت پر ايسا ظلم ہو گا جو معاف كرنے كے قابل نہيں ،كيونكہ اس نتيجے مين اسلامى حقائق پر گذرتے عہدوں اور زمانوں پر جمود فكر ى اور تعصب كى جمى دھول سے مختلف فرقوں ميں اختلاف و تفرقہ زيادہ پيدا ہو گا ،اور يہ مسلم ہے كہ كوئي بھى اصلاح پسند اورہم اہنگى كار سيا اس كى تائيد و تصديق نہ كرے گا _

اس سبب سے ہم پورے دلى خلوص كے ساتھ مسلمان بھائيوں كے درميان سے اصلاح پسند وں كى اواز كا جواب ديتے ہوئے خدا سے دعا كرتے ہيں كہ تفرقہ و اختلاف جڑ سے ختم كرنے كى توفيق عطا ہو _

ہم دانش و معرفت كے مرتبہ كى نسبت سے احترام خاص كے قائل ہيں اس كا معا ملہ دوسرے معا ملوں سے الگ سمجھتے ہيں _

۲۹

كيونكہ جن لوگوں نے مسلمانوں ميں اتحاد و يكجہتى كى مسلسل كوشش كى بنياد ركھى ہے مقدس اسلام كے پر چم تلے يكجہتى كى اواز بلند كر رہے ہيں حالانكہ خود اسلام بين الاقوامى سياست كا انگيزہ نہيں ہے بلكہ وہ ايمان و عقيد ہ سے عبارت ہے بلكہ وہ واقعات كا ايسا تسلسل ہے جو بحث و تحقيق اور بھر پور علمى تنقيد سے پيدا ہونے والى چيز ہے ،ان حقائق كو مختلف بہانوں اور عنوانوں سے چھپانے سے ايمان و عقيدہ پر استوار وحدت وجود پزير نہيں ہو سكتى ،اور اسلام كى صحيح و مستقيم راہ گمراھى و ضلالت كے كنويں سے برا مد نہيں ہو سكتى _

خدا وند عالم سے دعا كرتا ہوں كہ متوا زن اور سيدھى راہ پر گامزن ہونے كى توفيق كرامت فرمائے كہ وہى سب كو سيدھى راہ دكھانے والا ہے _

عميق اسلامى يكجہتي،

تيسرى مشكل دل كى گہرائيوں سے نكلى ہوئي اواز ہے جسكا اصلى محرك ايمان ہے ،اس بات كا ايمان كہ اسلامى معاشرے ميں صرف اسلام كى حكومت ہونى چاہئے اور اسى بنياد پر ھمارى يكجہتى واستوار ہونا چاہيے اس بنا پرہم سب لوگوں كى تمام تر كوششيں اس بات كيلئے ہونى چاہئے كہ اسلام زندہ ہو اور اسى ذھن ميں رہنا چايئے ،اسى راہ سے اپنے كو مصروف ركھنا چاہيئے ،

اے راہ حق كے مجاہدو خدا اپ حضرات كو توفيق عطا كرے كيا اپ مسلمانوں كو اسلام كى طرف واپسى و خود سپردگى اور اسلامى قوانين كے نفاذ كى دعوت نہيں دے رہے ہيں ؟ كيا اس كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل اور حقيقى احاديث رسول اور حديث بيان كرنے والوں كے حال و مال كے تجزيے و مطالع كے سوا بھى كوئي راستہ ہے ؟ تاكہ اسى كے واسطے سے اايات قران كى شان نزول معلوم كريں اور اسى روشنى ميں احكام اسلام حاصل كر كے اسكى پيروى كريں اور دوسروں كو بھى عمل كرنے كى دعوت ديں اور چونكہ اسلامى احكام پر عمل ناگزير ہے اس لئے لا محالہ اس كا علم حاصل كرنا ھمارے لئے لازم ہے اور يہ بات مسلّم ہے كہ بغير علم حاصل كئے عمل انجام پذير نہيں ہو سكتا_ پورے وثوق كے ساتھ كہا جا سكتا ہے كہ اسلامى يك جہتى اور معاشرے كو اسلام كى طرف واپس لانے كيلئے مستقل سعى ميں اور تاريخ كى بحث و تحقيق نيز احاديث رسول كى چھان پٹك كے درميان كوئي تضاد نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى يك جہتى كيلئے اسكى حيثيت بنياد كى ہے ايك دوسرے كى متمم ہے كونكہ مسلمانوںكو اسلام كى طرف واپس لانا اسى وقت ممكن ہے جب باھم فكرى يك جہتى پيدا ہو ايات قرانى اور احاديث رسول و تاريخ اسلام كو اچھى طرح سمجھا جائے _

۳۰

اسى طرح جب تك اسلامى معاشرے ميں ايمان واپس نہيں لايا جائيگا اس وقت تك مسلمانوں كے درميان دوستى و برادرى قائم نہيں ہو گى ،كيونكہ اگر اس كے سوا كچھ ہے تو مسلمان كى ھم اہنگى كى بنياد كا پرچم ہے ؟

اور كون سى چيز ہے جو انہيں ايك دل اور ايك جہت عطا كرے گى ، اس طرح بھائي چارگى اسى و قت قائم ہو سكتى ہے

جبكہ مسلمانوں كو ايك دوسرے كى حقيقت حاصل كرنے اور حقيقت كى پيروى كرنے كيلئے مسلمانوں كو ايك دوسرے كى رائيں سجھنے اور صحيح تنقيد عطا كى جائے ،تاكہ خدا كے ارشاد قرانى (ميرے بندے وہ ہيں جو ميرى بات سنتے ہيں اور سب سے بہتر كى پيروى كرتے ہيں(۲) صادق اسكے_ يہى ہمارى اواز ہے_

خداوندعالم كى بارگاہ ميں دعاہے كہ ھميں اور تمام مسلمان بھائيوں كو اسى عظيم ارشاد كى پيروى كى توفيق عنايت كرے_

يہاں تك جتنے اعتراضات گنائے گئے يہ مسلمانوں سے مخصوص تھے _

بزرگوں كى پرستش

تمام قوموں اور ملتوں كى تاريخ كى طرح ان متذكر ہ باتوں كے انداز پر تاريخ اسلام ميں بھى تين بڑى ركاوٹ اور مشكل برابر موجود رہى ،جو اكثر حقائق كے متلاشى اور تاريخ نگارشوں كے سد راہ رہى اور لوگوں كو علم و حقيقت كى پيروى سے روكتى رہي،

انكى اولين اور اھم ترين ركاوٹ پاك بزرگوں كے احترام كى عادت اس حد تك كہ جسے پرستش كہا جاسكتاہے ، كسى بھى بشر كى ابتدائے تاريخ سے عادت رہى كہ اپنے اسلاف كى حد سے زيادہ تعظيم كرتے ، بت پرستى يہيں سے پيدا ہوئي ہے ، چنانچہ _نسر، يغوث،يعوق، ود، سواع(۳) ماضى ميں نيك اور صالح تھے ان كے زمانے كے لوگ ان كا احترام كرتے تھے ،مرنے كے بعد ان كا احترام اتنا بڑھا كہ ان كى پوجا كى جانے لگي_

مزہ يہ ہے كہ ھم اپنے صالح اسلاف كو ان كى زندگى كے زمانے ميں ديكھتے ہيں كہ ان پر اس قدر تنقيد و ترديد كى جاتى ہے كہ ايك دوسرے كو قتل كا فتوى تك ديديتے ہيں ، ان كو ان كے عزيزوں اور ماننے والوں كا خون بہانا بھى جائز جانتے ہيں ، ليكن ان كے مرنے كے چند سال بعد اج كى نسل ميںان كى تعظيم و تكريم اتنى بڑھ گئي ہے كہ اب ان كى رفتار و گفتار پر تنقيد و تجزيہ بھى جائز نہيں سمجھتے نہ اجازت ديتے اور اس رہگذر پر دانش و نظر ميں اپنے اور دوسروں كو سناٹا كر ديا ہے _

____________________

۲_سورہ زمر ۱۸

۳_يہ پانچ بت قريش كے تھے جن كا ذكر قران ميں ہے تفسير در منثور سورئہ نوح اية ۲۴ اور تمام تفاسير ديكھى جاسكتى ہے _

۳۱

اندھا تعصب

دوسرى تعصب كى ركاوٹ ہے يہ ايسى ركاوٹ ہے كہ اس پر برتى ہے اور خود يہ ركاوٹ ايسى ہے كہ ادمى كو جہالت و بے خبرى و نادانى كے اندھيرے ميں ڈال ديتى ہے ،يہ ايسى قربانگاہ ہے كہ طول تاريخ بشريت ميں ہر ملك اور ہر عہد ميں جہاں ديكھئے بے شمار قربانياں بكھرى پڑى ہيں _

رے كا شھر ساتويں صدى ھجرى كے اوائل ميں تعصب مذہبى كى وجہ سے دو بار ويرانے ميں بدلا،(۴) پہلے تو حنفيوں اور شافعيوں نے شيعوں كے خلاف ھنگامہ ارائي كى ، ان كا بے رحمانہ قتل عام كيا ، پہر شافعيوں نے حنفيوں پر دھاوا بولا اور انہيں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليا ، نتيجے ميں گھر ويران ہوئے ، شھر ويرانے ميں بدل گيا ، يہ قربانگاہ بے جا تعصب كے اثر كى معمولى سى جھلكى ہے ، حالا نكہ ايسى ھزاروں قربانياں تاريخ ميں بھرى پڑى ہيں جو مذموم تعصب كى وجہ سے واقع ہوئيں ،ان مضحكہ خيز قربانيوں كى نشاندہى كى جا سكتى ہے_

عوام فريب لوگ

تيسرى ركاوٹ تو سب سے زيادہ نفرت انگيز ہے، وہ راسخ اعمال ہيں جو ارباب اقتدار و طاقت نے مختلف عہد تاريخ ميں اس كى نمائشےكى ہے

يہ لوگ تھے جو بندوق كى نوك اور اپنے اثر سے جو چاہتے كر ڈالتے تھے ، جيسا كہ مقتدر شخصيات نے عوام فريبى كا جال بچھاتے ہوئے بحث و تحقيق كى باگ روك لى اور سن۶۵۵ھ ميں با قاعدہ طريقے سے اجتہاد كا دروازہ قوم كے فقہاپر بند كر ديا(۵)

نہ معلوم اب جبكہ اٹھ صدى بعد باب اجتہاد كھلنے كے مقدمات فراہم ہوئے ہيں اس راہ ميں كس حد تك انہوں نے ترقى كى ہے ، كيا اب بھى وقت نہيں ايا ہے كہ مسلمانوں كو بحث و تحقيق كى اجازت دى جائے ؟ اب تو پھانسى كى سزا صرف تقليد سلف ميں منحصر ہو كر رہ گئي ، كسى دوسرے معاملے ميں گردن نہيں مارى جاتي_

____________________

۴_ياقوت،لغت (ري) ۴_۵۵ ۳

۵_بيپرس بند قدادى نے ۶۶۵ھ ميں با قاعدہ مصر كے اندر باب اجتہاد بند كيا خطط مقريزى ص۱۶۱ ديكھى جا سكتى ہے كسقدر ہے كہ خود مصر ميں صديوں بند ركھنے كے بعد خود ہى كھولا ہے_

۳۲

نہيں____ ايسا ھرگز نہيں ہو گا ، كيونكہ اصلاح پسندوں كى مسلسل كوششوں سے عكس دانش سے چہرئہ حقيقت اسقدر صاف نظر انے لگا ہے كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا ، بہت جلد ايسا وقت ارہا ہے كہ اس وقت كے لوگ بحث و تحقيق كى اجازت نہ ہونے سے جو زحمت اٹھانى پڑ رہى ہے اس پر ہنسيں گے ، جس طرح اج ھم تعصب بے جا كے مظاھرے كى وجہ سے شہر رے پر ہنس رہے ہيں _

ان متذكرہ ركاوٹوں كو جانے ديجئے ہم نے اصولى طور سے عادت بنالى ہے كہ جب بھى كسى كى تعريف و ستائشے سنتے ہيں اس كے عيوب سننے كے روا دار نہيں ہوئے نہ تنقيد برداشت كرتے ہيں ،اور اگر اس كى عيب گيرى پر امادہ ہوتے ہيں تو پھر تعريف نہيں سنتے_

ليكن ميں نے ام المومنين عائشه كے بارے ميں جو كچھ احاديث و تاريخ سے حاصل كيا ہے ،انھيں پيش كر رہا ہوں چاہے يہ تعارف ان كے حق ميں عيب جوئي تعارف كے بطور يا تنقيد ہو يا تعريف و ستائشے ہو _

اگر كوئي شخص اس پر مطمئن نہ ہو اور متذكرہ مشكلات پر قابو نہ پا سكتا ہو ،كيونكہ يہ ركاوٹيں قلمكار اور قارى كے درميان مشترك ہيں ، تو كتاب كو اس كے حوالے كر دے جو ان ركاوٹوں پر قابو پا سكتا ہو جى ہاں _ جو شخص ام المومنين عائشه كو تاريخ و حديث كے درميان سے پہچاننے كا خواہشمند ہے اسے احاديث مين تحقيق كا ميدان ممكن بن گيا ہے وہ تحليل و تجزيہ كر سكتا ہے ، صدر اسلام كى خاتون كے ادوار اس كے سامنے ہيں اور حقيقت كى پيروى كرنا نا شائستہ تر ہے ، اور سيدھى راہ چلنے والوں پر صلوات_

سيد مرتضى عسكرى ، بغداد، دانشكدئہ اصول الدين

۳۳

(فصل اول)

ازواج رسول (ص)

زينب بنت جحش

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ازدواج كے يہاں تك جتنے واقعات بيان كئے گئے ان ميں زيادہ تر كى حكمت واضح ہے ليكن زينب سے ازدواج كى حكمت دوسرى ہى ہے اس حكمت كو بيان كرنے كے لئے ايك مقدمے كى ضرورت ہے ، وہ يہ كہ جہاں تك ميرى واقفيت ہے دنيا كے اصلاح پسند اپنے معاشرتى اصلاح كے منصوبے نافذ كرنے كے لئے دوسروں سے پہلے خود ہى اس پر عمل كرتے ہيں _

اپنا اصلاحى اقدام خود اور اپنے خاندان والوں سے شروع كرتے ہيں اس سلسلے ميں ہر طرح كى فدا كارى جو مقصد كيلئے ضرورى ہے ، اٹھا ئيں ركھتے ، اس كے بعد وہ اپنے قريبى لوگوں ، رشتہ داروں اور بعد ميں دوسرے افراد بشر كو اس پر عمل كرنے كى دعوت ديتے ہيں _

پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يكتا مصلح عالم بشريت تھے ، وہ بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، انھوں نے معاشرے كى اصلاح اور جاہليت كے نا پسند يدہ عادات و رسوم كو ختم كرنے كيلئے ، بحكم خدا پہلے اپنوں ہى سے تبليغ شروع كى ، اسى بنياد پر انہوں نے حجةالوداع كے موقع پر فرمايا تھا ، سب سے پہلا سود جسے ميں كالعدم قرار ديتا ہوں ،وہ ميرے چچا عباس كا سود ہے _(۶)

ہر خون جو جاہليت كے زمانے ميں بہايا گيا وہ باطل ہے اور سب سے پہلا خون جسے ميں باطل كر رہا ہوں وہ ربيعہ كے فرزند كا ہے اور يہ خاندان عبد المطلب كى فرد ہے _(۷)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ميں اس مفہوم كے تاريخى شواہد بہت زيادہ ہيں زينب بنت جحش كے ازدواج كا واقعہ اسى قسم كا ايك نمونہ ہے ، جسے رسول خدا نے جہالت و نادانى كى بنياد پر استوار اس رسم جاہليت كو ختم كرنے كيلئے انجام ديا ، اس ازدواج سے رسول خدا كے دو بنيادى مقاصد تھے _

____________________

۶_رسول خدا كے چچا عباس زمانہء جاہليت ميں مشھور سود خوار تھے

۷_ خاندان عبد المطلب كى فرد ربيعہ كا شير خوار فرزند قبيلہ بنى ليث ميں تھا جسے قبيلہ ھذيل كے افراد نے غلطى سے قتل كر ديا تھا ، بنى ہاشم اس تاريخ تك جبكہ رسول نے يہ اعلان فرمايا اس شير خوار كے اس قبيلے كے لوگوں سے قصاص كے خواہاں تھے

۳۴

۱_ طبقاتى نا برابرى ختم كرنا

۲_ منھ بولے بيٹے كے بارے ميں احكام توڑنا(۸)

زيد بن حارثہ رسول خدا كے منھ بولے بيٹے تھے ، بچپن ميں كچھ عربوں كے ہجوم ميں پھنس كر اغوا كر لئے گئے ، پھر وہ مكہ ميں بيچنے كيلئے لائے گئے جس وقت زيد بيچے جا رہے تھے وہاں رسول خدا موجود تھے ، اپ نے انھيں پسند كر كے اپنى زوجہ خديجہ كے لئے خريد ليا ، زيد كو خديجہ نے رسول خدا ہى كو بخش ديا _

زيدكے ماں باپ اپنے جگر گوشے كے غائب ہونے سے سخت غم و اندوہ ميں مبتلا ہوئے ، ان لوگوں كو زيد كى كچھ خبر نہيں تھى ، ايك دن اچانك ٹكرائو ہو گيا اور زيد كے افراد قبيلہ كى نظر زيد پر پڑ گئي ، دونوں نے ايك دوسرے كو پہچان ليا ، زيد نے ان لوگوں كے ذريعہ كچھ اشعار لكھ كر اپنے ماں باپ كے پاس يہ پيغام بھيجا _

اپ لوگ ميرے بارے ميں رنجيدہ نہ ہوں ميں عرب كے سب سے شريف قبيلے ميں زندگى بسر كر رہا ہوں ، يہاں مجھے تمام قسم كى اسائشے ميّسرہے _

زيد كے باپ اور چچا كو جب زيد كے حال و مقام كى اطلاع ہوئي تو بھارى رقم ليكر مكے كى طرف چلے ، اس اميد پر كہ زيد كو خريد ليں گے ، جب يہ لوگ رسول خدا كى خدمت ميں ائے تو اپنے انے كا مقصد بيان كيا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : اگر زيد مجھ سے جدا ہونا چاہيں تو مجھے كوئي اعتراض نہيں پھر اپ نے زيد كو بلايا ، جب زيد ائے تو اپنے باپ اور چچا كو پہچان ليا اور تصديق كى كہ يہى ميرے باپ اور چچا ہيں ، اس وقت رسول خدا نے زيد سے ان كے باپ اور چچا كے انے كا مقصد بيان كيا اور فرمايا كہ تم ازاد ہو چاہے ميرے ساتھ رہو يا اپنے باپ كے ساتھ جائو ، زيد نے جواب ديا ميں ہرگز كسى شخص كو بھى اپ كے اوپر ترجيح نہيں دوں گا _

____________________

۸_ رسم جاہليت تھى كہ كوئي شخص اگر كسى كو اپنا بيٹا كہہ ديتا اور وہ لڑكا بھى اس پر راضى ہوتا تو اسے تمام لوگ اسى كا بيٹا كہتے اور صلبى فرزند كے تمام احكام اسكے لئے ثابت رہتے

۳۵

زيد كے باپ نے زيد كا جواب سن كر كہا :

بيٹا تم باپ كے سامنے غلامى كو ازادى پر ترجيح دے رہے ہو _

زيد نے جواب ديا ، جى ہاں ، اس عظيم شخصيت كے مقابلے ميں اور رسول خدا كى طرف اشارہ كيا ، اس وقت رسول خدا نے زيد كا ہا تھ تھاما اور حجر اسماعيل كے پاس اكر بلند اواز سے فرمايا :

اے موجود لوگو گواہ رہو ، زيد ميرا بيٹا ہے ، وہ ميرا وارث ہوگا ميں اسكا وارث ہوں گا (يا من حضراشهد واان زيدا ابنى يرثنى وارثه )

يہ ديكھ كر زيد كے باپ اور چچا خوشى سے پھولے نہيں سمائے ، اور وہ واپس ہو گئے ، اس تاريخ سے زيد جو ازاد كردئہ رسول خدا تھے تمام لوگ انھيں زيد بن محمد كہنے لگے _

زينب بنت جحش رسول خدا كى پھوپھى زاد بہن تھى انحضرت ہى انكى كفالت فرماتے تھے ، ان سے شادى كے بہت سے لوگوں نے پيغامات دئے تھے انھوں نے يہ معاملہ رسول خدا كے حوالے كر ديا تھا ، ا نحضرت نے ان سے فرمايا كہ تم زيد سے شادى كرو _

زينب نے يہ سنا تو بھڑك اٹھيں ، كہنے لگيں ، ميں اپ كى پھوپھى زاد بہن ہوں ، اور اپ مجھے اپنے ازاد كردہ شخص كے حوالے كر رہے ہيں ؟زينب كے بھائي بہن بھى طبقاتى اختلاف كى وجہ سے اس بات پر راضى نہيں تھے ، اسى وقت خدا كى طرف سے يہ حكم نازل ہوا _

كسى مومن مرد يا عورت كو يہ اختيار نہيں كہ جب خدا ورسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كر ديں تو وہ بھى اپنے امركے بارے ميں صاحب اختيار ہو جائے اور جو بھى خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا وہ بڑى كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہو گا

اس آيت نے تينوں كے بارے ميں اعلان كر ديا كہ وہ خاموشى سے رسول كے فيصلے كو مان ليں ، زينب نے زيد سے اپنى شادى كى امادگى ظاہر كر دى ، رسول خدا نے اپنے اسى مقصد كے ماتحت جسميں طبقاتى نا برابرى اور اشراف گيرى كا زعم ختم كرنا تھا زينب كى زيد سے شادى كر دى

۳۶

زيد كے گھر زينب چلى گئيں ، وہيں ايك دوسرى عورت ام ايمن جو ازاد كردئہ رسول خدا تھيں اور ان كے فرزند كے ساتھ رہنے لگيں ، مانى بات ہے كہ يہ طرز زندگى زينب كو رنجيدہ كرنے والى تھى ، اسى وجہ سے زيد كے ساتھ بد سلوكى ہونے لگى _

بات يہاں تك بڑھى كہ زيد نے رسول خدا سے شكايت كى اور اجازت مانگى كہ زينب كو طلاق ديديں ، ليكن رسول خدا نے فرمايا :

امسك عليك زوجك و اتق اللہ ، خدا سے ڈرو ، اور اپنى زوجہ كو طلاق مت دو ، ليكن زينب كى بد سلوكى نے زيد كو اسقدر پريشان كيا كہ انكے اصرار كى وجہ سے رسول خدا بھى زينب كو طلاق دينے پر رضا مند ہو گئے اور زيد نے زينب كو طلاق ديدى _

جب زينب كے عدہء طلاق كى مدت ختم ہوئي تو رسول خدا كو حكم خدا وندى ہوا كہ ايك دوسرى رسم جاہليت ختم كرنے كيلئے ، زينب سے شادى كر ليں تاكہ لوگ عملى حيثيت سے ديكھ ليں كہ منھ بولے بيٹے كيلئے و صلبى فرزند كے احكا م ثابت نہيں ہيں ،اگر كسى كا منھ بولا بيٹا طلاق ديدے تو وہ اس سے شادى كر لے ، اس معاملے كو نافذ كرنا رسول خدا كيلئے بڑا مشكل تھا ، وہ لوگوں كى ياوہ گوئيوں كو ديكھ رہے تھے ، يہاں تك يہ آيت نازل ہوئي جس سے انحضرت كى روحانى حالت اور شديد بے چينى ظاہر ہوتى ہے _

تم لوگوں سے ڈرتے ہو ؟حالا نكہ خدا اسكا زيادہ سزاوار ہے كہ اس سے ڈراجائے ؟جب زيد نے اپنى حاجت پورى كر لى تو ہم نے اس عورت كا عقد تم سے كر ديا تاكہ مومنين كے لئے منھ بولے بيٹوں كى بيويوں سے عقد كرنے ميں كوئي ہرج نہ رہے(۱)

اس واضح آيت كے بعد رسول خدا نے زينب سے شادى كر لي ان تمام باتوں سے معلوم ہو گيا كہ رسول خدا كى زيادہ تر شاديوں كى حكمت و مصلحت يہ تھى كہ معاشرے ميں احكام الہى كا نفاذ ہو اور جاہليت كے زمانے سے چلى رہى ناپسنديدہ رسموں كو ختم كيا جائے اسميں اپ كى خواہش نفس اور جنسى شھوت ذرا بھى دخل نہ تھا _

وہ خواتين جنھوں نے بے مھر اپنے كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كيلئے پيش كيا

كچھ دوسرى عورتيں بھى تھيں جنھوں نے بغير مھر اپنے كو رسول خدا كى خدمت ميں پيش كيا ، اس پيشكش كو قران نے لفظ (وھبت)سے تعبير كيا ہے اسكى غرض يہ تھى كچھ عورتوں نے خود ہى اپنے كو بغير مہر كے پيش كيا تھا كہ اپ انھيں اپنے حيالہء عقد ميں لے ليں ، سيرت و تاريخ كى كتابوں ميں ان چند عورتوں كا نام ملتا ہے ، ان ميں ايك خولہ بنت حكيم بھى تھيں _

____________________

۱_ حيلہ ابو نعيم جلد ۲/۵۳ حالات زينب و تفسير ايہ كيلئے مجمع البيان ملاحظہ ہو

۳۷

خولہ بنت حكيم ہلاليہ

خولہ ان خواتين ميں تھيں جنھوں نے اپنے كو پيغمبر كے لئے ہبہ كيا ، رسول خدا نے جواب ميں ٹال مٹول دكھائي ، وہ پيغمبر كے گھر ميں خدمت كرتى تھيں ، يہاں تك اپ نے ان كا نكاح عثمان بن مظنون سے كر ديا وہ عثمان كى وفات تك انھيں كے گھر رہيں(۱) _

دوسرى خواتين

سہل ساعدى كى روايت ہے كہ ايك عورت خدمت رسول ميں ائي اور اپنے كو اپ كے حوالے كرتے ہوئے پيش كيا ، رسول نے جواب ميں سكوت فرمايا ، وہاں ايك مسلمان موجود تھا ، اس نے عرض كى ، يا رسول اللہ ، اگر اپ كو اس عورت كى حاجت نہيں ہے تو اسكى شادى ميرے ساتھ كر ديجئے ، انحضرت نے فرمايا اس عورت كو كيا مہر دو گے ؟

اس نے عرض كى ، يہى لباس جو ميرے بدن پر ہے

انحضرت نے فرمايا : اگر يہ لباس جو پہنے ہوئے ہو اسے ديدوگے تو تم خود برہنہ ہو جائو گے ، كوئي دوسرى چيز دواس نے عرض كى ،اسكے سوا تو ميرے پاس كچھ بھى نہيں

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :چاہے ايك لوہے كى انگوٹھى ہى ہو

اس نے عرض كى ، ميرے پاس وہ بھى نہيں

انحضرت نے فرمايا : كيا تمھيں كچھ قران كے سورے ياد ہيں _

اس نے كہا : جى ہاں ،مجھے فلاں فلاں سورے ياد ہيں اس نے كئي سوروں كا نام ليا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: ميں اس عورت كى شادى تم سے انھيں قرانى سوروں كے بدلے كرتا ہوں جو تمھيں ياد ہيں _

سيرت كى كتابوں ميں دوسرى چند خواتين كے نام بھى ملتے ہيں جنھوں نے اپنے كو رسول كيلئے ہبہ كيا ان ميں ام شريك اور ام ليلى كا نام ہے يہ خواتين خدمت رسول ميں جسطرح پہونچيں ان كى دل خراش داستان كتابوں ميں ملتى ہے ليكن رسول خدا نے ان ميں كسى سے بھى شادى نہيں كى _

۳۸

رسول كے لئے حكم خصوصي

گذشتہ صفحات ميں ان با ايمان خواتين كے كچھ حالات بيان كئے گئے جو اس وقت مدينے ميں تھيں ، ہم نے يہ بھى ديكھا كہ كسطرح اسلام كى بلند مصلحتوں كے پيش نظر رسول خدا نے مختلف سركش قبايل سے اپنائيت اور ازدواج كا سلوك اپنايا ، اسى كے ساتھ يہ بھى قابل توجہ ہے كہ ہر مسلمان كو چار شادياں كرنے كى اجازت ہے ،ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حكم سے مستثنى ہيں ، يہ استثناء سورہء احزاب كى آيت ۵۰_۵۲ميں اسطرح ہے _

اے پيغمبر ہم نے اپ كے لئے اپ كى بيويوں كو جن كا مہر ديديا ہے اور كنيزوں كو جنھيں خدا نے جنگ كے بغير عطا كر ديا ہے اور اپ كے چچا كى بيٹيوں كو اور اپ كى پھوپھى كى بيٹيوں كو اور اپ كے ماموں كى بيٹيوں كو اور اپ كے خالہ كى بيٹيوں كو جنھوں نے اپ كے ساتھ ہجرت كى ہے اور اس مومنہ كو جو اپنا نفس نبى كو بخش دے ،اگر نبى اس سے نكاح كرنا چاہے تو حلال كر ديا ہے ، يہ صرف اپ كے لئے ہے باقى دوسرے مومنين كے لئے نہيں ہے ، ہميں معلوم ہے كہ ہم نے ان لوگوں پر ان كى بيويوں اور كنيزوں كے بارے ميں كيا فريضہ قرار ديا ہے تاكہ اپ كے لئے كوئي زحمت اور مشقت نہ ہو _

ان ميں سے جسكو اپ چاہيں كر ليں اور جس كو چاہيں اپنى پناہ ميں ركھيں اور جن كو الگ كر ديا ہے ان ميں سے بھى كسى كو چاہيں تو كوئي ہرج نہيں ہے ، يہ سب اسلئے ہے تاكہ ان كى انكھيں ٹھنڈى رہيں اور يہ رنجيدہ نہ ہوں ، اور جو كچھ اپ نے ديديا ہے اس سے خوش رہيں اور اللہ تمھارے دلوں كا حال خوب جانتا ہے ، اور وہ ہر شئے كا جاننے والا اور صاحب حكمت ہے ، اس كے بعد اپ كے لئے دوسرى عورتيں حلال نہيں ہيں اور نہ يہ جائز ہے كہ ان بيويوں كو بدل ليں چاہے دوسرى عورتوں كا حسن كتنا ہى اچھا كيوں نہ لگے ، علاوہ ان عورتوں كے جو اپ كے ہاتھوں كى ملكيت ہيں اور خدا ہر شئے كى نگرانى كرنے والا ہے_

خود يہى حكم خدا تھا جسكى ايات ميں وضاحت كى گئي ، اور نتيجے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے راہيں كھول دى گئيں كہ وہ خود ہى جس بات كى صلاح ديكھيں اقدام فرمائيں،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى جيسى مصلحت ديكھى ، اقدام فرمايا يہاں تك اپ كى وفات كے وقت اپ كى ازدواج كى تعداد نو تك پہنچ گئي ، ليكن يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ رسول خدا كے لئے نو عورتوں كى اجازت ہے اور دوسرے تمام مسلمانوں كو چار كى اجازت ہے _

۳۹

گذشتہ ايات ميں پيغمبر كى حدود ازادى بيان كى گئي اسميں حسن و زيبائي كو الگ كر كے خواتين معين كرنے كا حكم ديا گيا ، يہ مصلحت انديشى كے سوا كوئي دوسرا پہلو نہيں ہے ، شايد اسى دليل سے موجو د خواتين كو چھوڑ كر دوسرى اختيار كرنے كى اجازت نہيں دى گئي ، جبكہ مرد مسلمان كيلئے يہ بات جائز ہے كہ چار عورتوں كو چھوڑ كر دوسرى چار عورتوں سے عقد كرنے كيلئے طلاق كى اجازت ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس اختيار سے انسانى ضرورتوں كے انتظام كے لئے اسلام كے بلند مصالح اور معنوى سياسى ہدايت كے لئے عزت دار عورتوں سے استفادہ فرمايا ، ليكن جب فتح مكہ كے بعد اسائشے فراہم ہو گئي تو اسكے بعد رسول خدانے كسى بھى خاتون سے ازدواج نہيں فرمايا ، كيونكہ اس حكم خاص سے استفادہے كى كوئي ضرورت باقى نہيں تھى _

نتيجہ تحقيق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حالات ازدواج سے يہ بات روشن ہو جاتى ہے كہ انحضرت نے اپنى پچاس سال كى عمر تك جو انسان كى طبيعى توانائي كا حد كمال ہے صرف ايك خاتون سے شادى كى جو اپ سے پندرہ سال بڑى تھيں اور انھوں نے پينسٹھ سال كى عمر ُ،پائي تھى ، اپ اسى طرح مكہ ميں رہے يہاں تك كہ مدينے ميں ہجرت فرمائي اور بے سہارا مسلمان معاشرے كے انتظامى امور كى سنگين ذمہ دارى اپڑى _

جس زمانے ميں اوارہ وطن مومنوں كا گروہ اپ كى خدمت ميں اتا تھا كبھى انكى تعداد اسّى ہوتى جو مسجد كے صفّہ پر رہتے تھے ، بعض ان ميں شرمگاہ چھپانے بھر كے لباس سے بھى ٹھيك سے نہيں ركھتے تھے ، اسى زمانے ميں ايسى بے سہارا عورتيں بھى ہو گئيں جنكے شوہر جنگوں ميں مارے گئے ، وہ اپنے باپ كے گھروں ميں بھى واپس نہيں جا سكتى تھيں ، كيونكہ وہ ان كو خدا و رسول كا دشمن اور نجس سمجھتى تھيں ، خود وہاں ايسے حادثے معاشرے ميں گذر رہے تھے كہ اساس حيثيت سے عورتوں كا وجود بھارى بوجھ سمجھا جاتا تھا كيونكہ باپ اپنى بچيوں كو فاقے كے ڈر سے زندہ دفن كر ديتے تھے ، رسول خدا سے جنگ كے زمانے ميں بھى اپ كو شكست دينے كيلئے انكى بيٹيوں كو طلاق كى پيشكش كرتے تھے ، اخر كار نوبت يہاں تك پہونچى تھى كہ اگر بيوہ عورتوں كے باپ ہوتے تو اپنے ساتھيوں سے اصرار كرتے تھے كہ شادى كر ليں جيسے عمر كى بيٹى حفصہ كے ساتھ ايسا ہى ہوا _

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216