تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 71285
ڈاؤنلوڈ: 2917


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71285 / ڈاؤنلوڈ: 2917
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

ہے كہ حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علاوہ اصحاب ميں سے كوئي بھى اس بلند مرتبہ انسانيت و كمال تك نہيں پہونچا تھا ،

كيونكہ خود انھوں نے دل كى گہرائيوں سے ،اور جاوداں فقرہ ارشاد فرمايا تھا ،يا دنيا غرّى غيري

اے دنيا ميرے سوا دوسرے كو دھوكہ دينا

على اور مسند خلافت

ميں نہيں سمجھتا كہ كوئي صحابى ايسا ہو گا جس كے فتوى و اجتہاد ميںجائے تامل اور اعتراض كى گنجائشے نہ ہو ،سوائے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ،كيو نكہ ان كے اجتہاد ميں ذرا بھى شك وشبہ اور اعتراض نہيں كيا جا سكتا ،اس بات كو ميںپورى بےباكى سے كہہ رہا ہوں ، اور تمام دقيق سياسى معا ملات جو پيش ائے وہ اس دعوى كا ثبوت ہيں _

عمر نے معاملہ خلافت ميں مداخلت كيانتيجے ميںابوبكر مسند خلافت پر بيٹھ گئے ،انہوں نے اپنے فتوى ميں اس دليل پر زور ديا كہ فتنہ و اشوب ديكھ كر اس پر لگام چڑھائي گئي ہے ،ابوبكر كے بعد انھوں نے خود اس ذمہ دارى كاسنگين بوجھ اٹھا ليا اوربارہا اس بات كا اعتراف كيا كہ ابوبكر كے زمانے ميں غلطياں ہوئيں ،جس وقت بعض اصحاب نے ان كے فرزندعبداللہ كى بيعت كے بارے ميں ان سے بات كى تو انھوں نے جواب ديا ،خاندان عمر كے لئے يہى كافى ہے كہ ان كا ايك فرد اس كا ذمہ دار ہو ،اور عدل الہى كى بارگاہ ميں امت محمد كے بارے اس سے جواب طلب كيا جائے_

ليكن حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شيخين كے مقابلے ميں معاملہء خلافت كے سلسلے ميںيہ دليل دى كہ اس اھم كام كى مشغوليت تھى وہ جسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دفن و كفن ميں مشغول تھے(۱)

يہ سب سے بڑ ا اعتراض ابو بكر و عمر پر تھا ،اور حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں كے مقابل حقدار نظر ائے ہيں _

عمر كے بعد على و عثمان كے درميان خليفہ كے انتخاب ميں عبدالرحمن بن عوف بھى جوان چھ افراد ميں تھے جنھيں عمر نے خليفہ منتخب كرنے كيلئے مجلس شورى بنائي تھى ،انھوں نے اپنى راے دى اور خليفہ كى ذمہ دارى كو اپنے فتوى سے متعين كيا ،اپنے اسى متعين فتوى كو ان دونوں كے سامنے پيش كيا حالانكہ وہ جانتے تھے كہ حضرت على ان كے اجتہاد

____________________

۱_ اس وجہ سے حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سقيفہ بنى ساعدہ ميں مو جود نہيں تھے ، اور ابو بكر و عمر نے انكى غير موجودگى ميں جلدى سے خليفہ چن ليا اگر انھوں نے اتنا صبر كيا ہوتا كہ رسول كو سپرد لحد كر ديا جائے اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى وہاں سب كے ساتھ اجايئں تو شايد يہ واقعات پيش نہ ائے اور تاريخ اسلام كا دوسرا ہى نقشہ ہوتا_

۲۱

كے پابند نہيں ہو سكتے ، خلافت قبول كرنے كيلئے پہلے حضرت على كے سامنے شرط پيش كي_

حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے فرزند عوف نے جو شرطيں پيش كى تھيں ان ميں رضائے خدا و رسول اور مسلمانوں كے مفاد ات كى حد تك تو حريص تھے منصب خلافت حاصل ہوتا اور حكمرانى كرنا انكى نظر ميں ہيچ تھا ،جبكہ عثمان كى زيادہ توجہ منصب خلافت حاصل كرنے كى تھى وہ دل سے يہى چاہتے تھے ،دوسرے امور كى ان كى نظر ميں اہميت نہيں تھى ،اور خدا اس بات كو بہتر جانتا ہے كہ شروع ہى سے وہ جس بات پر، ہوئے تھے اسميں انھيں پورى سوجھ بوجھ كہاں تك تھى ، يا خلافت حاصل كرنے كے بعد ان ميں پيدا ہوئي ،كيو نكہ يہ باتيں نفسانيت كے امور سے تعلق ركھتى ہيں ،اورہم اس بارے ميں كوئي فيصلہ بھى نہيں كر سكتے ، كيو نكہ ھمارا استدلال صرف ظاہرى حالات كى روشنى ميں ہے_

''عائشه كا تاريخى فتوى ''

عائشه نے حضرت عثمان كى خلافت كے ابتدائي ايام ميں تو موافقت اور انكى تائيد كى ،پھر ان سے منحرف ہو كر ان كے خلاف فتوى دےديا ،اس وجہ سے ان كا اجتہاد قابل اطمينان نہيں ہے _

خلافت كے سلسلے مين انكے رقيب ہوتے ہوئے بھى دليل و بر ہان كے با وجود حضرت عائشه كى طرف عثمان سے جنگ اور مخالفت نہيں كى ،جب عثمان قتل ہو گئے تو حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طلحہ و زبير اور ديگر تمام لوگوں كى بيعت قبول نہيں كى جس وقت تمام لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تو اپ نے مسجد ميں كھڑے ہو كر يہ فرمايا ، ميں تمہارى خلافت سے بيزار تھا ،ليكن تم ہو كہ ميرے سوا كسى كى حكومت پر راضى نہيں ہو ،اس بات كو سمجھ لو كہ ميں كوئي بھى كام بغير تمہارى صوابديدہ اور صلاح كے انجام نہيں دوں گا ،تمہارے بيت المال كى كنجى ميرے پاس ہے ليكن ايك درھم بھى بغير تمہارى مرضى كے نہيں چھوئوں گا _

پھر پوچھا ،كيا تم اس بات پر راضى ہو ؟

تمام لوگوں نے چلّاكر كہا ہاں

اسوقت اپ نے فرمايا :

بار الہا ان لوگوں پر تو گواہ رہنا

اس كے بعد اپ نے خلافت قبول فرمائي

۲۲

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رائے صائب تھى اپ نے اس طرح لوگوں كيلئے كسى بہانے كى گنجائشے نہيں چھوڑى كيو نكہ ان لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تھا نہ يہ كہ اپ نے خود خلافت كى خواہش كى ، لہذا جس نے بھى اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچا اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت كى وہ خود دغاباز اور مجرم ہے ،اور جو شخص اپ كا وفادار رہا وہ مومن اور سچا ہے _

عائشه نے دوسرى بار اجتہاد كا پرچم لہرايا يہ اس وقت كى بات ہے جب قاتلان عثمان سے انتقام لينے كيلئے انھيں اور طلحہ و زبير جنہوں نے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پيمان توڑا اور اپنى بيعت كچل ڈالى با قاعدہ ساتھ دينے پر امادہ ہوئے يہ مفاد پرستانہ اقدام بتاتا ہے كہ حضرت عائشه كى نيت انديشہ مفاد سے خالى نہيں تھى ،تمام لوگ كہنے لگے كہ يہ عثمان كا بدلہ لينے كيلئے نہيں اٹھى ہيں بلكہ مقصد صرف يہ ہے كہ مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف پيدا كيا جائے اور جو لوگ حضرت علىعليه‌السلام سے وابستہ ہيں ان ميں انتشار پيدا كيا جائے يہاں تك كہ اگر حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سوا كوئي اور ہوتا تو كبھى ايسا اقدام نہ كرتيں _

ام سلمہ كا تاريخى خط عائشه كے نام

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف معاملہ خلافت كے سلسلے مين عمر كے اقدام كے بعد عائشه كا اقدام دوسرا رخنہ تھا جو بنياد اسلام ميں پڑا ،ميںيہ بات اپنى طرف سے نہيں كہ رہا ہوں اور اس سے ميرى كوئي خاص غرض بھى نہيں ہے بلكہ يہ حقائق نا قابل انكار ہيںجن پر بزرگان قوم اور مشھور مورخين متفق ہيں _

عائشه كى كار وائي صحابہ كے زمانے سے اج تك تمام لوگ ان لوگون كے لئے نفرت كا سبب بنى جو حق اور حقيقت كے طرفدار ہيں ،اس دعوى كى گواہى حضرت ام سلمہ ہين جو دوسرى زوجہء رسول ہيں ، انھوں نے پند ونصيحت بھرا خط عائشه كو لكھا اور اس اقدام سے باز رہنے كى خواہش ظاہر كى ،خاص طور سے انھيں مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف سے روكا _ خط

۲۳

زوجہء رسول ام سلمہ كى طرف سے ام المومنين كو

ميں خدا كى حمد و ثنا ء كرتى ہوں اور اس كى وحدانيت كا اقرار كرتى ہوں

امابعد تم نے اس اقدام سے اپنے احترام كا پردہ چاك كيا جو رسول خدا اور ان كى امت كے درميان تھا ،اور ان كے

حرم كا حجاب پارہ پارہ كيا قران نے تمہارا دامن جمع كيا ہے ،اسے خود سرا خاك ميں نہ ملاو ،تمھارا مقام مرتبہ محفوظ ہے ،اسے بلاوجہ ضائع نہ كرو ،اس خدا ئے واحد سے ڈرو و جو اس امت كا نگہبان ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عورتوں كى جہاد كا طريقہ متعين كيا ہے ،بلا شبہ اس سلسلے مين حكم صادر كيا ہے كيا تم نہيں جانتى ہو كہ انہوں نے تمہيں جنگ سے منع كيا ہے ؟ كيو نكہ اگر دين كے ستون ميں ٹيڑھا ہو جائے تو عورتوں كى طاقت سے كبھى سيدھا نہيںہو سكتا ،اور اسكى خرابى عورتوں سے اصلاح پزير ہرگز نہيں ہو سكتى ، عورتوں كا جہاد اپنے كو لئے ديئے ركھنا ،پاك دامنى اور قناعت ہے _

اگر تم اس طرح بيابانوں مين اپنے اونٹ كو اس گھاٹ اور اس گھاٹ ہاكتى رہو اور رسول خدا تمھين ديكھ ليں تو تو انھيں كيا جواب دو گى حا لا نكہ تمہيں جلد يا دير ان كے سامنے حاضر ہونا ہے _

ميںبے باكانہ قسم كھاتى ہون كہ اگر ميں اس حال ميں رسول سے ملاقات كروں كہ ان كى حرمت ضائع كى ہو اور مجھ سے كہاجائے كہ اے ام سلمہ جنت ميں اجاو تو ميں شرم سے پانى پانى ہو جاو ں گى _

اس لئے اپنے پروردگار كى حفاظت كرو اور گھر ميں بيٹھى رہو اگر تم اس امت سے سروركار نہ ركھو تو يہ بجائے خود ان كے حق ميں بہترين خدمت ہے ،اور ميںجانتى ہوں كہ رسول خدا سے جو باتيںميںنے سنى ہيںاگر اس سے تمہيں خبردار كروں تو تم سانپ كاٹے شخص كى طرح تڑپنے لگو گي، والسلام

خود يہ خط دوسرى دليل ہے كہ عائشه كا اجتہاد غلط تھا

اس خط ميں اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ انھيں مسلمانوں كى جماعت ميں ھم اھنگى كى فكر نہيں تھى ، نيز يہ بات بھى معلوم ہوتى ہے كہ ازواج رسول ميں سے دوسرى كوئي بھى عائشه كے اس اقدام كے ساتھ نہيں تھيں اور نہ انھوں نے عائشه كى مدد كى ،

۲۴

اس كتاب كے مولف كا مقصد

اقائے عسكرى ، خداوند عالم انہيں حقيقت بيانى كى جزا دے ميں نے اپنے دقيق علمى بحث ميں ھرگز اس بات كا قصد نہيں كيا ہے كہ لوگوں كو عائشه نے اپنے اجتہاد دو فتوى ميں جو اشتباہات كئے ہيں ان كے خلاف لوگوں كو بھڑكائيں ،اور مسلمانوں كے احساسات ابھاريں بلكہ انھوں نے اپنے بيان كے درميان صرف خشنودى خدا كيلئے اس بات كى فكر كى ہے كہ تاريخى حالات كے مفاہيم جو زيادہ تر لوگوں كے ذہن اصحاب رسول ہونے كى وجہ سے پہچان نہيں پائے ہيں اور

تاريخ صحيح كى تفہيم نہ ہونے كى وجہ سے عظمت شريعت اسلام كى تفہيم سے محروم ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں، كہ اوضاع تاريخى كے مفہوم سے عام لوگ جو محروم ہيں اور اصحاب رسول كو پہچان نہيں سكتے ہيں اور ان كى باتوں ميں تميز نہيں كر سكے ہيں ،اور نتيجے ميں صحيح تاريخ سمجھنے اور ان كى شريعت اسلام ميں حيثيت كو پہچان نہيں سكے ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں ، انھوں نے اس راہ ميں جو سعى كى ہے اس كا مقصد صرف يہ ہے كہ لوگ احاديث رسول خدا كو بغير اپنے احساسات و جذبات كى مداخلت جزوى فوائد و تعصب كے راويان حديث كے بارے ميں علم و دانش كى روشنى ميں ادراك كر سكيں _

كيونكہ اگر لوگ تمام يا كچھ حصئہ حديث رسول كو سمجھ ليں تو بڑى اسانى سے اسلامى فرقوں اور مذاہب كے درميان كا اختلاف كا سرا سمجھ ميں اجائے گا ،اور انہيں معلوم ہو جائے گا كہ كس حد تك يہ اختلاف مصنوعى اور حكمرانوں كا خاص غرض سے پيدا كيا ہو ا ہے انھوں ہى نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر ترجيح دى ہے حكومت چلانے اور اپنى پار ٹى مضبوط كرنے كيلئے جن حديث كو ضرورى سمجھا بنا ليا يا اكثر صحابہ كى بيان كردہ حديث كو من كے مطابق بدل ليا ، صحيح بات يہ ہے كہ انھوں نے حكومت كے استحكام كيلئے صحابہ پر دروغ بافى كى اور اپنى غرض كے لئے من پسند باتيں گڑھ ليں _

۲۵

اس سے پہلے كہ اپنى علمى بحث كو ختم كروں جسے صرف خشنودى خدا كيلئے معرض تحرير ميں لائي گئي ہے ، مناسب سمجھتا ہوں كہ دانشور محقق اقائے عسكرى كے كان ميں اہستہ سے ڈال دوں كہ وہ اپنے ان علمى مطالب كو جس كا بلند مقصد مذاہب اسلامى كو ايك دوسرے كے قريب لانا ہے اسے جارى ركھيں ،اپنے متين اور محكم اساس پر استوار اسلوب كو اس طرح قرار ديں كہ ارباب علم و دانش او ر اسكالروں كيلئے پسنديدہ ہوتاكہ اس طرح مسلمانوں ميںباہمى اتحاد و ہم اہنگى پيدا ہو ،اور كيا ہى اچھا ہوتا كہ تمام وجود جو بحث و تحقيق ميں مستغرق ہے ميرى اس پيش كش كو عملى شكل ديدے_

كيونكہ بنيادى طور سے اختلاف اور ذاتى دھڑا بندى ايك شيعہ اور سنى كے درميان سمجھ ميں انے والى بات نہيں ہے اور اسميں شك نہيں كہ يہ دونوں فرقے جب تك مقاصد اور وجوہات دونوں كے خالص ہيں تو ايك دوسرے كے نقائص دور كرنے اور درستگى لانے ميں دل وجان سے كوشش كريں _

ڈاكٹر حامد حفنى دائود

۱۷ شوال ۱۳۸۱

۲۳ مارچ ۱۹۹۲

۲۶

كتاب كا مقصد تاليف

زيادہ تر ارباب تحقيق رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى احاديث كى طرف دير سے متوجہ ہوئے ہيں كہ احاديث كا ايك دوسرے سے ربط يا ان احاديث اور ايات قران كے درميان گھناونا اختلاف موجود ہے ،يہ امر اس بات كا سبب بنا كہ سلف كے دانشوروں نے رسول خدا پر اعتراضات اپ كى احاديث كى توجيہ و تاويل پر مشتمل كتابيں لكھيں ،ان ميں تاويل مختلف الاحاديث اور بيان مشكل الحديث اور بيان مشكل الاثار وغيرہ كتابيں لكھيں_

اس طرح نقادوںاور عيب جوئي كر نے والے ملحدوں اور عيسائي مبلغوں كے ساتھ كچھ مستشرقين كو بھى اس بات پر ابھارا كہ دشمنى وعناد كى راہ سے اس قسم كى احاديث كے استناد ميں اختلاف و تضاد دكھا كر پيغمر اسلام اور ان كے دين پر اعتراض كيا اور مذاق اڑايا،حالانكہ يہ دونوں گروہ اس بات سے غافل تھے كہ ان احاديث كے مجموعے كا بہت بڑاسرمايہ، خاص طور سے جن ميں باہم اختلاف ہے يہ سبھى ايك ہى روش اور ايك ہى سياق سے مربوط نہيں ہيں كہ انھيں اطمينان كے ساتھ سبھى كو رسول خدا كى واقعى حديث سمجھ كر يكجا بحث و تحليل كى جائے بلكہ يہ تمام احاديث خود ہى چند مختلف احاديث كا مجموعہ ہيں جنھيں مختلف راويوں اور بيان كرنے والوں كے طريقے سے ھم تك پہونچا ہے_

ارباب تحقيق كو سب سے پہلے يہ چاہيئے كہ راويان حديث كى دستہ بندى كريں مثلاوہ احاديث جو ام المومنين عائشه سے منسوب ہيں ياانس سے ابو ھريرہ يا عبداللہ بن عمر سے ان تمام كو الگ الگ جمع كر كے دوسرے ايسے راويان حديث جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت زيادہ احاديث روايت كى ہيں ( ان كے حالات زندگى ،انكا انداز فكر اوران كا عقيدہ ) ان پر الگ الگ بحث و تحقيق كى جائے تاكہ حقيقت امر واضح ہو سكے _

مجھے يہ بات اس وقت معلوم ہوئي ،جب ميں صدر اسلام كے تاريخى حوادث كے ذيل ميں احاديث كے بحث و تحقيق ميں مشغول تھا ،خاص طور سے ان احاديث پر جو ام المومنين عائشه سے نقل كى گئي ہيں ،اس موقعہ پر ميرى نگاہ جذب ہو كر رہ گئي اور مجھے يقين حاصل ہو گيا كہ تاريخ اسلام ابتدائے بعثت سے بعثت يزيد كے زمانے تك كو اچھى طرح نہيں سمجھا گيا ہے _

۲۷

يہ اسى وقت ممكن ہے كہ پہلے احاديث ام المومنين كو جو بجائے خود اكيلا تاريخ صدر اسلام كا اھم ترين سر چشمہ ہے حقيقت فہمى كيلئے اس كا غير جانبدارانہ مطالعہ كيا جائے

اس طرح مجھے يقين ہے كہ بعض ايات قرانى كو سمجھنا نيز وہ اسلامى فقہ جو اكيلى احاديث ام المومنين كى سند سے مروى ہيں ان كو بھى اسى اساس پر مطالعہ كرنا چاہيے _

جب ميں اسلام كے پہلے دور كى تاريخى تنظيم كا تجزيہ كر رہا تھا ،ميرے لئے نا گزير ہو گيا كہ اسى تقسيم يعنى حديث كى قدر وقيمت كے بارے ميں بحث كو تمام مبا حث كو مقدم قرار ديكر اسى كا تحليل و تجزيہ كروں _

اس قسم كے واردات كى اس حيثيت سے كہ صدر اسلام كے سر كردہ افراد ميں بڑى مشكل بات ہے اس وادى ميں قدم ركھنا كسى مسلمان محقق كيلئے كوئي اسان بات نہيں ہے ( غير جانبدارانہ تحقيق كريں )

پہلى زحمت دشوارى جو مشرق كے مسلمان اديبو ں كو پيش اتى ہے وہ خود ان كے عقائد ہيں جنكى انھوں نے عادت ڈال لى ہے اور ان كى زندگى ميں نشو و نما پاتا رہا اور ان كى نفسيات اور رگوں ميں رچ بس گيا ہے اور يہى عقائد اسلامى معاشرے ميں بھى رائج ہيں _

يہ لوگ صدر اسلام كے مسلمانوں كو عام ادميوں سے بر تر خيال كرتے ہيں اس عہد كو اور اس زمانے كے افراد كو مقدس سمجھتے ہيں اور جو كچھ ان كے اور اس زمانے كے بارے ميں سمجھ بيٹھے ہيں ،وہ دوسرے عہد كے مسلمانوں كے بارے ميں باور نہيں كرتے_

چنانچہ اس طرح كے اديب ،قلمكار متذكرہ الجھن كوبحث و تحقيق ميں نظر انداز نہيں كرتے ، تلاش حق و حقيقت كے بجائے ان كى باتيں اپنے معتقدات كے دفاع ميں لگ جاتى ہيں _

جب ميں نے يہ حقيقت سمجھ لى تو پكا ارادہ كر ليا كہ اس موضوع پر اپنے جذبات كو جو ام المومنين عائشه كى زوجہ ء رسول كى حيثيت سے قائل ہوں ،انھيں اڑے نہ انے دوں ، اور اسلام كى محترم شخصيات كو جو نظر انداز كر ديا جاتاہے انھيں دوسرے عام لوگوں كے مقابل فرق نہ قرار دوں اور انہيں اس نقطہء نظر سے پہچانوں كہ وہ بھى عام لوگوں كى طرح گونا گوں احساسات و جذبات ركھتے تھے ،اس طرح ميں حيات ام المومنين كے ادوار ميں جو حوادث پيش ائے حقيقت معلوم كرنے كيلئے صرف اسى كو موضوع بحث و تنقيد قرار دوں _

۲۸

اگر چہ دعوى نہيں كرتا كہ ميں اپنے اس ارادے ميں پورى طرح كامياب ہو گيا ہوں ، ليكن اس سلسلے ميں اپنى بھر پور تلاش و كو شش كر ڈالى ہے اس كا جو كچھ فيصلہ ہے وہ دوسروں كو كر نا ہے ، ليكن خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ صرف صدر اسلام كى تاريخ ،قران اور اس كے احكام كى تحقيق كرنے والوں كو فائدہ پہونچانے كيلئے ميںنے يہ سارے پاپڑ بيلے ہيں ،_

اسلام يا ايمان و عقيدہ

دوسرى بات يہ كہ جيسے ہى كوئي قلمكار پكا ارادہ كر كے اس مشكل كو اپنى بحث و تحقيق سے اٹھاليتاہے تودوسرى مشكل گلے پڑ جاتى ہے كہ اس قسم كے مطالب كى نشر و اشاعت مسلمانوں كى ھم اہنگى كو متاثر كرتى ہے يہ سوال كھڑا ہو جاتا كہ اج جبكہ بہت سے مجاہدين اور مصلحين كى مسلسل مساعى سے خدا وند عالم نے مختلف گروہ ميں بٹے ہوئے مسلمانوں كى ارزو ں اور ميلا نات كو ايك دوسرے سے قريب كر ديا ہے ،ان ميں برادرى كے اسباب فراہم كر دئے ہيں كيا ايسى حالت ميں مناسب ہے كہ اسقدر طويل زمانے كے بيتے دور كے بارے ميں لكھا جائے كہ صرف يہى نہيں كہ باہمى ترديد و اعتراض كى ہو ا بن جائے بلكہ سوئے ہوئے جذبات بھڑك اٹھيں اور اپس ميں نفرت و عناد پيدا ہو جائے؟

ليكن اسى سوال كے مقابل ميں مسئلہ بھى سامنے اجاتا ہے كہ جسے اسانى سے نظر انداز نہيں كيا جاسكتا _

اگر خير انديش اصلاح پسندوں كى كوشش بيكار كرنے كا نام ديكر ايسى بحث و تحقيق پسنديدہ نہ سمجھى جائے تو اس صورت ميں تمام لو گوں پر علمى تحقيقات كے دروازے بند ہو جائيں گے اور يہ دانش و معرفت پر ايسا ظلم ہو گا جو معاف كرنے كے قابل نہيں ،كيونكہ اس نتيجے مين اسلامى حقائق پر گذرتے عہدوں اور زمانوں پر جمود فكر ى اور تعصب كى جمى دھول سے مختلف فرقوں ميں اختلاف و تفرقہ زيادہ پيدا ہو گا ،اور يہ مسلم ہے كہ كوئي بھى اصلاح پسند اورہم اہنگى كار سيا اس كى تائيد و تصديق نہ كرے گا _

اس سبب سے ہم پورے دلى خلوص كے ساتھ مسلمان بھائيوں كے درميان سے اصلاح پسند وں كى اواز كا جواب ديتے ہوئے خدا سے دعا كرتے ہيں كہ تفرقہ و اختلاف جڑ سے ختم كرنے كى توفيق عطا ہو _

ہم دانش و معرفت كے مرتبہ كى نسبت سے احترام خاص كے قائل ہيں اس كا معا ملہ دوسرے معا ملوں سے الگ سمجھتے ہيں _

۲۹

كيونكہ جن لوگوں نے مسلمانوں ميں اتحاد و يكجہتى كى مسلسل كوشش كى بنياد ركھى ہے مقدس اسلام كے پر چم تلے يكجہتى كى اواز بلند كر رہے ہيں حالانكہ خود اسلام بين الاقوامى سياست كا انگيزہ نہيں ہے بلكہ وہ ايمان و عقيد ہ سے عبارت ہے بلكہ وہ واقعات كا ايسا تسلسل ہے جو بحث و تحقيق اور بھر پور علمى تنقيد سے پيدا ہونے والى چيز ہے ،ان حقائق كو مختلف بہانوں اور عنوانوں سے چھپانے سے ايمان و عقيدہ پر استوار وحدت وجود پزير نہيں ہو سكتى ،اور اسلام كى صحيح و مستقيم راہ گمراھى و ضلالت كے كنويں سے برا مد نہيں ہو سكتى _

خدا وند عالم سے دعا كرتا ہوں كہ متوا زن اور سيدھى راہ پر گامزن ہونے كى توفيق كرامت فرمائے كہ وہى سب كو سيدھى راہ دكھانے والا ہے _

عميق اسلامى يكجہتي،

تيسرى مشكل دل كى گہرائيوں سے نكلى ہوئي اواز ہے جسكا اصلى محرك ايمان ہے ،اس بات كا ايمان كہ اسلامى معاشرے ميں صرف اسلام كى حكومت ہونى چاہئے اور اسى بنياد پر ھمارى يكجہتى واستوار ہونا چاہيے اس بنا پرہم سب لوگوں كى تمام تر كوششيں اس بات كيلئے ہونى چاہئے كہ اسلام زندہ ہو اور اسى ذھن ميں رہنا چايئے ،اسى راہ سے اپنے كو مصروف ركھنا چاہيئے ،

اے راہ حق كے مجاہدو خدا اپ حضرات كو توفيق عطا كرے كيا اپ مسلمانوں كو اسلام كى طرف واپسى و خود سپردگى اور اسلامى قوانين كے نفاذ كى دعوت نہيں دے رہے ہيں ؟ كيا اس كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل اور حقيقى احاديث رسول اور حديث بيان كرنے والوں كے حال و مال كے تجزيے و مطالع كے سوا بھى كوئي راستہ ہے ؟ تاكہ اسى كے واسطے سے اايات قران كى شان نزول معلوم كريں اور اسى روشنى ميں احكام اسلام حاصل كر كے اسكى پيروى كريں اور دوسروں كو بھى عمل كرنے كى دعوت ديں اور چونكہ اسلامى احكام پر عمل ناگزير ہے اس لئے لا محالہ اس كا علم حاصل كرنا ھمارے لئے لازم ہے اور يہ بات مسلّم ہے كہ بغير علم حاصل كئے عمل انجام پذير نہيں ہو سكتا_ پورے وثوق كے ساتھ كہا جا سكتا ہے كہ اسلامى يك جہتى اور معاشرے كو اسلام كى طرف واپس لانے كيلئے مستقل سعى ميں اور تاريخ كى بحث و تحقيق نيز احاديث رسول كى چھان پٹك كے درميان كوئي تضاد نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى يك جہتى كيلئے اسكى حيثيت بنياد كى ہے ايك دوسرے كى متمم ہے كونكہ مسلمانوںكو اسلام كى طرف واپس لانا اسى وقت ممكن ہے جب باھم فكرى يك جہتى پيدا ہو ايات قرانى اور احاديث رسول و تاريخ اسلام كو اچھى طرح سمجھا جائے _

۳۰

اسى طرح جب تك اسلامى معاشرے ميں ايمان واپس نہيں لايا جائيگا اس وقت تك مسلمانوں كے درميان دوستى و برادرى قائم نہيں ہو گى ،كيونكہ اگر اس كے سوا كچھ ہے تو مسلمان كى ھم اہنگى كى بنياد كا پرچم ہے ؟

اور كون سى چيز ہے جو انہيں ايك دل اور ايك جہت عطا كرے گى ، اس طرح بھائي چارگى اسى و قت قائم ہو سكتى ہے

جبكہ مسلمانوں كو ايك دوسرے كى حقيقت حاصل كرنے اور حقيقت كى پيروى كرنے كيلئے مسلمانوں كو ايك دوسرے كى رائيں سجھنے اور صحيح تنقيد عطا كى جائے ،تاكہ خدا كے ارشاد قرانى (ميرے بندے وہ ہيں جو ميرى بات سنتے ہيں اور سب سے بہتر كى پيروى كرتے ہيں(۲) صادق اسكے_ يہى ہمارى اواز ہے_

خداوندعالم كى بارگاہ ميں دعاہے كہ ھميں اور تمام مسلمان بھائيوں كو اسى عظيم ارشاد كى پيروى كى توفيق عنايت كرے_

يہاں تك جتنے اعتراضات گنائے گئے يہ مسلمانوں سے مخصوص تھے _

بزرگوں كى پرستش

تمام قوموں اور ملتوں كى تاريخ كى طرح ان متذكر ہ باتوں كے انداز پر تاريخ اسلام ميں بھى تين بڑى ركاوٹ اور مشكل برابر موجود رہى ،جو اكثر حقائق كے متلاشى اور تاريخ نگارشوں كے سد راہ رہى اور لوگوں كو علم و حقيقت كى پيروى سے روكتى رہي،

انكى اولين اور اھم ترين ركاوٹ پاك بزرگوں كے احترام كى عادت اس حد تك كہ جسے پرستش كہا جاسكتاہے ، كسى بھى بشر كى ابتدائے تاريخ سے عادت رہى كہ اپنے اسلاف كى حد سے زيادہ تعظيم كرتے ، بت پرستى يہيں سے پيدا ہوئي ہے ، چنانچہ _نسر، يغوث،يعوق، ود، سواع(۳) ماضى ميں نيك اور صالح تھے ان كے زمانے كے لوگ ان كا احترام كرتے تھے ،مرنے كے بعد ان كا احترام اتنا بڑھا كہ ان كى پوجا كى جانے لگي_

مزہ يہ ہے كہ ھم اپنے صالح اسلاف كو ان كى زندگى كے زمانے ميں ديكھتے ہيں كہ ان پر اس قدر تنقيد و ترديد كى جاتى ہے كہ ايك دوسرے كو قتل كا فتوى تك ديديتے ہيں ، ان كو ان كے عزيزوں اور ماننے والوں كا خون بہانا بھى جائز جانتے ہيں ، ليكن ان كے مرنے كے چند سال بعد اج كى نسل ميںان كى تعظيم و تكريم اتنى بڑھ گئي ہے كہ اب ان كى رفتار و گفتار پر تنقيد و تجزيہ بھى جائز نہيں سمجھتے نہ اجازت ديتے اور اس رہگذر پر دانش و نظر ميں اپنے اور دوسروں كو سناٹا كر ديا ہے _

____________________

۲_سورہ زمر ۱۸

۳_يہ پانچ بت قريش كے تھے جن كا ذكر قران ميں ہے تفسير در منثور سورئہ نوح اية ۲۴ اور تمام تفاسير ديكھى جاسكتى ہے _

۳۱

اندھا تعصب

دوسرى تعصب كى ركاوٹ ہے يہ ايسى ركاوٹ ہے كہ اس پر برتى ہے اور خود يہ ركاوٹ ايسى ہے كہ ادمى كو جہالت و بے خبرى و نادانى كے اندھيرے ميں ڈال ديتى ہے ،يہ ايسى قربانگاہ ہے كہ طول تاريخ بشريت ميں ہر ملك اور ہر عہد ميں جہاں ديكھئے بے شمار قربانياں بكھرى پڑى ہيں _

رے كا شھر ساتويں صدى ھجرى كے اوائل ميں تعصب مذہبى كى وجہ سے دو بار ويرانے ميں بدلا،(۴) پہلے تو حنفيوں اور شافعيوں نے شيعوں كے خلاف ھنگامہ ارائي كى ، ان كا بے رحمانہ قتل عام كيا ، پہر شافعيوں نے حنفيوں پر دھاوا بولا اور انہيں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليا ، نتيجے ميں گھر ويران ہوئے ، شھر ويرانے ميں بدل گيا ، يہ قربانگاہ بے جا تعصب كے اثر كى معمولى سى جھلكى ہے ، حالا نكہ ايسى ھزاروں قربانياں تاريخ ميں بھرى پڑى ہيں جو مذموم تعصب كى وجہ سے واقع ہوئيں ،ان مضحكہ خيز قربانيوں كى نشاندہى كى جا سكتى ہے_

عوام فريب لوگ

تيسرى ركاوٹ تو سب سے زيادہ نفرت انگيز ہے، وہ راسخ اعمال ہيں جو ارباب اقتدار و طاقت نے مختلف عہد تاريخ ميں اس كى نمائشےكى ہے

يہ لوگ تھے جو بندوق كى نوك اور اپنے اثر سے جو چاہتے كر ڈالتے تھے ، جيسا كہ مقتدر شخصيات نے عوام فريبى كا جال بچھاتے ہوئے بحث و تحقيق كى باگ روك لى اور سن۶۵۵ھ ميں با قاعدہ طريقے سے اجتہاد كا دروازہ قوم كے فقہاپر بند كر ديا(۵)

نہ معلوم اب جبكہ اٹھ صدى بعد باب اجتہاد كھلنے كے مقدمات فراہم ہوئے ہيں اس راہ ميں كس حد تك انہوں نے ترقى كى ہے ، كيا اب بھى وقت نہيں ايا ہے كہ مسلمانوں كو بحث و تحقيق كى اجازت دى جائے ؟ اب تو پھانسى كى سزا صرف تقليد سلف ميں منحصر ہو كر رہ گئي ، كسى دوسرے معاملے ميں گردن نہيں مارى جاتي_

____________________

۴_ياقوت،لغت (ري) ۴_۵۵ ۳

۵_بيپرس بند قدادى نے ۶۶۵ھ ميں با قاعدہ مصر كے اندر باب اجتہاد بند كيا خطط مقريزى ص۱۶۱ ديكھى جا سكتى ہے كسقدر ہے كہ خود مصر ميں صديوں بند ركھنے كے بعد خود ہى كھولا ہے_

۳۲

نہيں____ ايسا ھرگز نہيں ہو گا ، كيونكہ اصلاح پسندوں كى مسلسل كوششوں سے عكس دانش سے چہرئہ حقيقت اسقدر صاف نظر انے لگا ہے كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا ، بہت جلد ايسا وقت ارہا ہے كہ اس وقت كے لوگ بحث و تحقيق كى اجازت نہ ہونے سے جو زحمت اٹھانى پڑ رہى ہے اس پر ہنسيں گے ، جس طرح اج ھم تعصب بے جا كے مظاھرے كى وجہ سے شہر رے پر ہنس رہے ہيں _

ان متذكرہ ركاوٹوں كو جانے ديجئے ہم نے اصولى طور سے عادت بنالى ہے كہ جب بھى كسى كى تعريف و ستائشے سنتے ہيں اس كے عيوب سننے كے روا دار نہيں ہوئے نہ تنقيد برداشت كرتے ہيں ،اور اگر اس كى عيب گيرى پر امادہ ہوتے ہيں تو پھر تعريف نہيں سنتے_

ليكن ميں نے ام المومنين عائشه كے بارے ميں جو كچھ احاديث و تاريخ سے حاصل كيا ہے ،انھيں پيش كر رہا ہوں چاہے يہ تعارف ان كے حق ميں عيب جوئي تعارف كے بطور يا تنقيد ہو يا تعريف و ستائشے ہو _

اگر كوئي شخص اس پر مطمئن نہ ہو اور متذكرہ مشكلات پر قابو نہ پا سكتا ہو ،كيونكہ يہ ركاوٹيں قلمكار اور قارى كے درميان مشترك ہيں ، تو كتاب كو اس كے حوالے كر دے جو ان ركاوٹوں پر قابو پا سكتا ہو جى ہاں _ جو شخص ام المومنين عائشه كو تاريخ و حديث كے درميان سے پہچاننے كا خواہشمند ہے اسے احاديث مين تحقيق كا ميدان ممكن بن گيا ہے وہ تحليل و تجزيہ كر سكتا ہے ، صدر اسلام كى خاتون كے ادوار اس كے سامنے ہيں اور حقيقت كى پيروى كرنا نا شائستہ تر ہے ، اور سيدھى راہ چلنے والوں پر صلوات_

سيد مرتضى عسكرى ، بغداد، دانشكدئہ اصول الدين

۳۳

(فصل اول)

ازواج رسول (ص)

زينب بنت جحش

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ازدواج كے يہاں تك جتنے واقعات بيان كئے گئے ان ميں زيادہ تر كى حكمت واضح ہے ليكن زينب سے ازدواج كى حكمت دوسرى ہى ہے اس حكمت كو بيان كرنے كے لئے ايك مقدمے كى ضرورت ہے ، وہ يہ كہ جہاں تك ميرى واقفيت ہے دنيا كے اصلاح پسند اپنے معاشرتى اصلاح كے منصوبے نافذ كرنے كے لئے دوسروں سے پہلے خود ہى اس پر عمل كرتے ہيں _

اپنا اصلاحى اقدام خود اور اپنے خاندان والوں سے شروع كرتے ہيں اس سلسلے ميں ہر طرح كى فدا كارى جو مقصد كيلئے ضرورى ہے ، اٹھا ئيں ركھتے ، اس كے بعد وہ اپنے قريبى لوگوں ، رشتہ داروں اور بعد ميں دوسرے افراد بشر كو اس پر عمل كرنے كى دعوت ديتے ہيں _

پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يكتا مصلح عالم بشريت تھے ، وہ بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، انھوں نے معاشرے كى اصلاح اور جاہليت كے نا پسند يدہ عادات و رسوم كو ختم كرنے كيلئے ، بحكم خدا پہلے اپنوں ہى سے تبليغ شروع كى ، اسى بنياد پر انہوں نے حجةالوداع كے موقع پر فرمايا تھا ، سب سے پہلا سود جسے ميں كالعدم قرار ديتا ہوں ،وہ ميرے چچا عباس كا سود ہے _(۶)

ہر خون جو جاہليت كے زمانے ميں بہايا گيا وہ باطل ہے اور سب سے پہلا خون جسے ميں باطل كر رہا ہوں وہ ربيعہ كے فرزند كا ہے اور يہ خاندان عبد المطلب كى فرد ہے _(۷)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ميں اس مفہوم كے تاريخى شواہد بہت زيادہ ہيں زينب بنت جحش كے ازدواج كا واقعہ اسى قسم كا ايك نمونہ ہے ، جسے رسول خدا نے جہالت و نادانى كى بنياد پر استوار اس رسم جاہليت كو ختم كرنے كيلئے انجام ديا ، اس ازدواج سے رسول خدا كے دو بنيادى مقاصد تھے _

____________________

۶_رسول خدا كے چچا عباس زمانہء جاہليت ميں مشھور سود خوار تھے

۷_ خاندان عبد المطلب كى فرد ربيعہ كا شير خوار فرزند قبيلہ بنى ليث ميں تھا جسے قبيلہ ھذيل كے افراد نے غلطى سے قتل كر ديا تھا ، بنى ہاشم اس تاريخ تك جبكہ رسول نے يہ اعلان فرمايا اس شير خوار كے اس قبيلے كے لوگوں سے قصاص كے خواہاں تھے

۳۴

۱_ طبقاتى نا برابرى ختم كرنا

۲_ منھ بولے بيٹے كے بارے ميں احكام توڑنا(۸)

زيد بن حارثہ رسول خدا كے منھ بولے بيٹے تھے ، بچپن ميں كچھ عربوں كے ہجوم ميں پھنس كر اغوا كر لئے گئے ، پھر وہ مكہ ميں بيچنے كيلئے لائے گئے جس وقت زيد بيچے جا رہے تھے وہاں رسول خدا موجود تھے ، اپ نے انھيں پسند كر كے اپنى زوجہ خديجہ كے لئے خريد ليا ، زيد كو خديجہ نے رسول خدا ہى كو بخش ديا _

زيدكے ماں باپ اپنے جگر گوشے كے غائب ہونے سے سخت غم و اندوہ ميں مبتلا ہوئے ، ان لوگوں كو زيد كى كچھ خبر نہيں تھى ، ايك دن اچانك ٹكرائو ہو گيا اور زيد كے افراد قبيلہ كى نظر زيد پر پڑ گئي ، دونوں نے ايك دوسرے كو پہچان ليا ، زيد نے ان لوگوں كے ذريعہ كچھ اشعار لكھ كر اپنے ماں باپ كے پاس يہ پيغام بھيجا _

اپ لوگ ميرے بارے ميں رنجيدہ نہ ہوں ميں عرب كے سب سے شريف قبيلے ميں زندگى بسر كر رہا ہوں ، يہاں مجھے تمام قسم كى اسائشے ميّسرہے _

زيد كے باپ اور چچا كو جب زيد كے حال و مقام كى اطلاع ہوئي تو بھارى رقم ليكر مكے كى طرف چلے ، اس اميد پر كہ زيد كو خريد ليں گے ، جب يہ لوگ رسول خدا كى خدمت ميں ائے تو اپنے انے كا مقصد بيان كيا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : اگر زيد مجھ سے جدا ہونا چاہيں تو مجھے كوئي اعتراض نہيں پھر اپ نے زيد كو بلايا ، جب زيد ائے تو اپنے باپ اور چچا كو پہچان ليا اور تصديق كى كہ يہى ميرے باپ اور چچا ہيں ، اس وقت رسول خدا نے زيد سے ان كے باپ اور چچا كے انے كا مقصد بيان كيا اور فرمايا كہ تم ازاد ہو چاہے ميرے ساتھ رہو يا اپنے باپ كے ساتھ جائو ، زيد نے جواب ديا ميں ہرگز كسى شخص كو بھى اپ كے اوپر ترجيح نہيں دوں گا _

____________________

۸_ رسم جاہليت تھى كہ كوئي شخص اگر كسى كو اپنا بيٹا كہہ ديتا اور وہ لڑكا بھى اس پر راضى ہوتا تو اسے تمام لوگ اسى كا بيٹا كہتے اور صلبى فرزند كے تمام احكام اسكے لئے ثابت رہتے

۳۵

زيد كے باپ نے زيد كا جواب سن كر كہا :

بيٹا تم باپ كے سامنے غلامى كو ازادى پر ترجيح دے رہے ہو _

زيد نے جواب ديا ، جى ہاں ، اس عظيم شخصيت كے مقابلے ميں اور رسول خدا كى طرف اشارہ كيا ، اس وقت رسول خدا نے زيد كا ہا تھ تھاما اور حجر اسماعيل كے پاس اكر بلند اواز سے فرمايا :

اے موجود لوگو گواہ رہو ، زيد ميرا بيٹا ہے ، وہ ميرا وارث ہوگا ميں اسكا وارث ہوں گا (يا من حضراشهد واان زيدا ابنى يرثنى وارثه )

يہ ديكھ كر زيد كے باپ اور چچا خوشى سے پھولے نہيں سمائے ، اور وہ واپس ہو گئے ، اس تاريخ سے زيد جو ازاد كردئہ رسول خدا تھے تمام لوگ انھيں زيد بن محمد كہنے لگے _

زينب بنت جحش رسول خدا كى پھوپھى زاد بہن تھى انحضرت ہى انكى كفالت فرماتے تھے ، ان سے شادى كے بہت سے لوگوں نے پيغامات دئے تھے انھوں نے يہ معاملہ رسول خدا كے حوالے كر ديا تھا ، ا نحضرت نے ان سے فرمايا كہ تم زيد سے شادى كرو _

زينب نے يہ سنا تو بھڑك اٹھيں ، كہنے لگيں ، ميں اپ كى پھوپھى زاد بہن ہوں ، اور اپ مجھے اپنے ازاد كردہ شخص كے حوالے كر رہے ہيں ؟زينب كے بھائي بہن بھى طبقاتى اختلاف كى وجہ سے اس بات پر راضى نہيں تھے ، اسى وقت خدا كى طرف سے يہ حكم نازل ہوا _

كسى مومن مرد يا عورت كو يہ اختيار نہيں كہ جب خدا ورسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كر ديں تو وہ بھى اپنے امركے بارے ميں صاحب اختيار ہو جائے اور جو بھى خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا وہ بڑى كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہو گا

اس آيت نے تينوں كے بارے ميں اعلان كر ديا كہ وہ خاموشى سے رسول كے فيصلے كو مان ليں ، زينب نے زيد سے اپنى شادى كى امادگى ظاہر كر دى ، رسول خدا نے اپنے اسى مقصد كے ماتحت جسميں طبقاتى نا برابرى اور اشراف گيرى كا زعم ختم كرنا تھا زينب كى زيد سے شادى كر دى

۳۶

زيد كے گھر زينب چلى گئيں ، وہيں ايك دوسرى عورت ام ايمن جو ازاد كردئہ رسول خدا تھيں اور ان كے فرزند كے ساتھ رہنے لگيں ، مانى بات ہے كہ يہ طرز زندگى زينب كو رنجيدہ كرنے والى تھى ، اسى وجہ سے زيد كے ساتھ بد سلوكى ہونے لگى _

بات يہاں تك بڑھى كہ زيد نے رسول خدا سے شكايت كى اور اجازت مانگى كہ زينب كو طلاق ديديں ، ليكن رسول خدا نے فرمايا :

امسك عليك زوجك و اتق اللہ ، خدا سے ڈرو ، اور اپنى زوجہ كو طلاق مت دو ، ليكن زينب كى بد سلوكى نے زيد كو اسقدر پريشان كيا كہ انكے اصرار كى وجہ سے رسول خدا بھى زينب كو طلاق دينے پر رضا مند ہو گئے اور زيد نے زينب كو طلاق ديدى _

جب زينب كے عدہء طلاق كى مدت ختم ہوئي تو رسول خدا كو حكم خدا وندى ہوا كہ ايك دوسرى رسم جاہليت ختم كرنے كيلئے ، زينب سے شادى كر ليں تاكہ لوگ عملى حيثيت سے ديكھ ليں كہ منھ بولے بيٹے كيلئے و صلبى فرزند كے احكا م ثابت نہيں ہيں ،اگر كسى كا منھ بولا بيٹا طلاق ديدے تو وہ اس سے شادى كر لے ، اس معاملے كو نافذ كرنا رسول خدا كيلئے بڑا مشكل تھا ، وہ لوگوں كى ياوہ گوئيوں كو ديكھ رہے تھے ، يہاں تك يہ آيت نازل ہوئي جس سے انحضرت كى روحانى حالت اور شديد بے چينى ظاہر ہوتى ہے _

تم لوگوں سے ڈرتے ہو ؟حالا نكہ خدا اسكا زيادہ سزاوار ہے كہ اس سے ڈراجائے ؟جب زيد نے اپنى حاجت پورى كر لى تو ہم نے اس عورت كا عقد تم سے كر ديا تاكہ مومنين كے لئے منھ بولے بيٹوں كى بيويوں سے عقد كرنے ميں كوئي ہرج نہ رہے(۱)

اس واضح آيت كے بعد رسول خدا نے زينب سے شادى كر لي ان تمام باتوں سے معلوم ہو گيا كہ رسول خدا كى زيادہ تر شاديوں كى حكمت و مصلحت يہ تھى كہ معاشرے ميں احكام الہى كا نفاذ ہو اور جاہليت كے زمانے سے چلى رہى ناپسنديدہ رسموں كو ختم كيا جائے اسميں اپ كى خواہش نفس اور جنسى شھوت ذرا بھى دخل نہ تھا _

وہ خواتين جنھوں نے بے مھر اپنے كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كيلئے پيش كيا

كچھ دوسرى عورتيں بھى تھيں جنھوں نے بغير مھر اپنے كو رسول خدا كى خدمت ميں پيش كيا ، اس پيشكش كو قران نے لفظ (وھبت)سے تعبير كيا ہے اسكى غرض يہ تھى كچھ عورتوں نے خود ہى اپنے كو بغير مہر كے پيش كيا تھا كہ اپ انھيں اپنے حيالہء عقد ميں لے ليں ، سيرت و تاريخ كى كتابوں ميں ان چند عورتوں كا نام ملتا ہے ، ان ميں ايك خولہ بنت حكيم بھى تھيں _

____________________

۱_ حيلہ ابو نعيم جلد ۲/۵۳ حالات زينب و تفسير ايہ كيلئے مجمع البيان ملاحظہ ہو

۳۷

خولہ بنت حكيم ہلاليہ

خولہ ان خواتين ميں تھيں جنھوں نے اپنے كو پيغمبر كے لئے ہبہ كيا ، رسول خدا نے جواب ميں ٹال مٹول دكھائي ، وہ پيغمبر كے گھر ميں خدمت كرتى تھيں ، يہاں تك اپ نے ان كا نكاح عثمان بن مظنون سے كر ديا وہ عثمان كى وفات تك انھيں كے گھر رہيں(۱) _

دوسرى خواتين

سہل ساعدى كى روايت ہے كہ ايك عورت خدمت رسول ميں ائي اور اپنے كو اپ كے حوالے كرتے ہوئے پيش كيا ، رسول نے جواب ميں سكوت فرمايا ، وہاں ايك مسلمان موجود تھا ، اس نے عرض كى ، يا رسول اللہ ، اگر اپ كو اس عورت كى حاجت نہيں ہے تو اسكى شادى ميرے ساتھ كر ديجئے ، انحضرت نے فرمايا اس عورت كو كيا مہر دو گے ؟

اس نے عرض كى ، يہى لباس جو ميرے بدن پر ہے

انحضرت نے فرمايا : اگر يہ لباس جو پہنے ہوئے ہو اسے ديدوگے تو تم خود برہنہ ہو جائو گے ، كوئي دوسرى چيز دواس نے عرض كى ،اسكے سوا تو ميرے پاس كچھ بھى نہيں

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :چاہے ايك لوہے كى انگوٹھى ہى ہو

اس نے عرض كى ، ميرے پاس وہ بھى نہيں

انحضرت نے فرمايا : كيا تمھيں كچھ قران كے سورے ياد ہيں _

اس نے كہا : جى ہاں ،مجھے فلاں فلاں سورے ياد ہيں اس نے كئي سوروں كا نام ليا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: ميں اس عورت كى شادى تم سے انھيں قرانى سوروں كے بدلے كرتا ہوں جو تمھيں ياد ہيں _

سيرت كى كتابوں ميں دوسرى چند خواتين كے نام بھى ملتے ہيں جنھوں نے اپنے كو رسول كيلئے ہبہ كيا ان ميں ام شريك اور ام ليلى كا نام ہے يہ خواتين خدمت رسول ميں جسطرح پہونچيں ان كى دل خراش داستان كتابوں ميں ملتى ہے ليكن رسول خدا نے ان ميں كسى سے بھى شادى نہيں كى _

۳۸

رسول كے لئے حكم خصوصي

گذشتہ صفحات ميں ان با ايمان خواتين كے كچھ حالات بيان كئے گئے جو اس وقت مدينے ميں تھيں ، ہم نے يہ بھى ديكھا كہ كسطرح اسلام كى بلند مصلحتوں كے پيش نظر رسول خدا نے مختلف سركش قبايل سے اپنائيت اور ازدواج كا سلوك اپنايا ، اسى كے ساتھ يہ بھى قابل توجہ ہے كہ ہر مسلمان كو چار شادياں كرنے كى اجازت ہے ،ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حكم سے مستثنى ہيں ، يہ استثناء سورہء احزاب كى آيت ۵۰_۵۲ميں اسطرح ہے _

اے پيغمبر ہم نے اپ كے لئے اپ كى بيويوں كو جن كا مہر ديديا ہے اور كنيزوں كو جنھيں خدا نے جنگ كے بغير عطا كر ديا ہے اور اپ كے چچا كى بيٹيوں كو اور اپ كى پھوپھى كى بيٹيوں كو اور اپ كے ماموں كى بيٹيوں كو اور اپ كے خالہ كى بيٹيوں كو جنھوں نے اپ كے ساتھ ہجرت كى ہے اور اس مومنہ كو جو اپنا نفس نبى كو بخش دے ،اگر نبى اس سے نكاح كرنا چاہے تو حلال كر ديا ہے ، يہ صرف اپ كے لئے ہے باقى دوسرے مومنين كے لئے نہيں ہے ، ہميں معلوم ہے كہ ہم نے ان لوگوں پر ان كى بيويوں اور كنيزوں كے بارے ميں كيا فريضہ قرار ديا ہے تاكہ اپ كے لئے كوئي زحمت اور مشقت نہ ہو _

ان ميں سے جسكو اپ چاہيں كر ليں اور جس كو چاہيں اپنى پناہ ميں ركھيں اور جن كو الگ كر ديا ہے ان ميں سے بھى كسى كو چاہيں تو كوئي ہرج نہيں ہے ، يہ سب اسلئے ہے تاكہ ان كى انكھيں ٹھنڈى رہيں اور يہ رنجيدہ نہ ہوں ، اور جو كچھ اپ نے ديديا ہے اس سے خوش رہيں اور اللہ تمھارے دلوں كا حال خوب جانتا ہے ، اور وہ ہر شئے كا جاننے والا اور صاحب حكمت ہے ، اس كے بعد اپ كے لئے دوسرى عورتيں حلال نہيں ہيں اور نہ يہ جائز ہے كہ ان بيويوں كو بدل ليں چاہے دوسرى عورتوں كا حسن كتنا ہى اچھا كيوں نہ لگے ، علاوہ ان عورتوں كے جو اپ كے ہاتھوں كى ملكيت ہيں اور خدا ہر شئے كى نگرانى كرنے والا ہے_

خود يہى حكم خدا تھا جسكى ايات ميں وضاحت كى گئي ، اور نتيجے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے راہيں كھول دى گئيں كہ وہ خود ہى جس بات كى صلاح ديكھيں اقدام فرمائيں،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى جيسى مصلحت ديكھى ، اقدام فرمايا يہاں تك اپ كى وفات كے وقت اپ كى ازدواج كى تعداد نو تك پہنچ گئي ، ليكن يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ رسول خدا كے لئے نو عورتوں كى اجازت ہے اور دوسرے تمام مسلمانوں كو چار كى اجازت ہے _

۳۹

گذشتہ ايات ميں پيغمبر كى حدود ازادى بيان كى گئي اسميں حسن و زيبائي كو الگ كر كے خواتين معين كرنے كا حكم ديا گيا ، يہ مصلحت انديشى كے سوا كوئي دوسرا پہلو نہيں ہے ، شايد اسى دليل سے موجو د خواتين كو چھوڑ كر دوسرى اختيار كرنے كى اجازت نہيں دى گئي ، جبكہ مرد مسلمان كيلئے يہ بات جائز ہے كہ چار عورتوں كو چھوڑ كر دوسرى چار عورتوں سے عقد كرنے كيلئے طلاق كى اجازت ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس اختيار سے انسانى ضرورتوں كے انتظام كے لئے اسلام كے بلند مصالح اور معنوى سياسى ہدايت كے لئے عزت دار عورتوں سے استفادہ فرمايا ، ليكن جب فتح مكہ كے بعد اسائشے فراہم ہو گئي تو اسكے بعد رسول خدانے كسى بھى خاتون سے ازدواج نہيں فرمايا ، كيونكہ اس حكم خاص سے استفادہے كى كوئي ضرورت باقى نہيں تھى _

نتيجہ تحقيق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حالات ازدواج سے يہ بات روشن ہو جاتى ہے كہ انحضرت نے اپنى پچاس سال كى عمر تك جو انسان كى طبيعى توانائي كا حد كمال ہے صرف ايك خاتون سے شادى كى جو اپ سے پندرہ سال بڑى تھيں اور انھوں نے پينسٹھ سال كى عمر ُ،پائي تھى ، اپ اسى طرح مكہ ميں رہے يہاں تك كہ مدينے ميں ہجرت فرمائي اور بے سہارا مسلمان معاشرے كے انتظامى امور كى سنگين ذمہ دارى اپڑى _

جس زمانے ميں اوارہ وطن مومنوں كا گروہ اپ كى خدمت ميں اتا تھا كبھى انكى تعداد اسّى ہوتى جو مسجد كے صفّہ پر رہتے تھے ، بعض ان ميں شرمگاہ چھپانے بھر كے لباس سے بھى ٹھيك سے نہيں ركھتے تھے ، اسى زمانے ميں ايسى بے سہارا عورتيں بھى ہو گئيں جنكے شوہر جنگوں ميں مارے گئے ، وہ اپنے باپ كے گھروں ميں بھى واپس نہيں جا سكتى تھيں ، كيونكہ وہ ان كو خدا و رسول كا دشمن اور نجس سمجھتى تھيں ، خود وہاں ايسے حادثے معاشرے ميں گذر رہے تھے كہ اساس حيثيت سے عورتوں كا وجود بھارى بوجھ سمجھا جاتا تھا كيونكہ باپ اپنى بچيوں كو فاقے كے ڈر سے زندہ دفن كر ديتے تھے ، رسول خدا سے جنگ كے زمانے ميں بھى اپ كو شكست دينے كيلئے انكى بيٹيوں كو طلاق كى پيشكش كرتے تھے ، اخر كار نوبت يہاں تك پہونچى تھى كہ اگر بيوہ عورتوں كے باپ ہوتے تو اپنے ساتھيوں سے اصرار كرتے تھے كہ شادى كر ليں جيسے عمر كى بيٹى حفصہ كے ساتھ ايسا ہى ہوا _

۴۰