تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87161 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ہے كہ حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علاوہ اصحاب ميں سے كوئي بھى اس بلند مرتبہ انسانيت و كمال تك نہيں پہونچا تھا ،

كيونكہ خود انھوں نے دل كى گہرائيوں سے ،اور جاوداں فقرہ ارشاد فرمايا تھا ،يا دنيا غرّى غيري

اے دنيا ميرے سوا دوسرے كو دھوكہ دينا

على اور مسند خلافت

ميں نہيں سمجھتا كہ كوئي صحابى ايسا ہو گا جس كے فتوى و اجتہاد ميںجائے تامل اور اعتراض كى گنجائشے نہ ہو ،سوائے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ،كيو نكہ ان كے اجتہاد ميں ذرا بھى شك وشبہ اور اعتراض نہيں كيا جا سكتا ،اس بات كو ميںپورى بےباكى سے كہہ رہا ہوں ، اور تمام دقيق سياسى معا ملات جو پيش ائے وہ اس دعوى كا ثبوت ہيں _

عمر نے معاملہ خلافت ميں مداخلت كيانتيجے ميںابوبكر مسند خلافت پر بيٹھ گئے ،انہوں نے اپنے فتوى ميں اس دليل پر زور ديا كہ فتنہ و اشوب ديكھ كر اس پر لگام چڑھائي گئي ہے ،ابوبكر كے بعد انھوں نے خود اس ذمہ دارى كاسنگين بوجھ اٹھا ليا اوربارہا اس بات كا اعتراف كيا كہ ابوبكر كے زمانے ميں غلطياں ہوئيں ،جس وقت بعض اصحاب نے ان كے فرزندعبداللہ كى بيعت كے بارے ميں ان سے بات كى تو انھوں نے جواب ديا ،خاندان عمر كے لئے يہى كافى ہے كہ ان كا ايك فرد اس كا ذمہ دار ہو ،اور عدل الہى كى بارگاہ ميں امت محمد كے بارے اس سے جواب طلب كيا جائے_

ليكن حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شيخين كے مقابلے ميں معاملہء خلافت كے سلسلے ميںيہ دليل دى كہ اس اھم كام كى مشغوليت تھى وہ جسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دفن و كفن ميں مشغول تھے(۱)

يہ سب سے بڑ ا اعتراض ابو بكر و عمر پر تھا ،اور حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں كے مقابل حقدار نظر ائے ہيں _

عمر كے بعد على و عثمان كے درميان خليفہ كے انتخاب ميں عبدالرحمن بن عوف بھى جوان چھ افراد ميں تھے جنھيں عمر نے خليفہ منتخب كرنے كيلئے مجلس شورى بنائي تھى ،انھوں نے اپنى راے دى اور خليفہ كى ذمہ دارى كو اپنے فتوى سے متعين كيا ،اپنے اسى متعين فتوى كو ان دونوں كے سامنے پيش كيا حالانكہ وہ جانتے تھے كہ حضرت على ان كے اجتہاد

____________________

۱_ اس وجہ سے حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سقيفہ بنى ساعدہ ميں مو جود نہيں تھے ، اور ابو بكر و عمر نے انكى غير موجودگى ميں جلدى سے خليفہ چن ليا اگر انھوں نے اتنا صبر كيا ہوتا كہ رسول كو سپرد لحد كر ديا جائے اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى وہاں سب كے ساتھ اجايئں تو شايد يہ واقعات پيش نہ ائے اور تاريخ اسلام كا دوسرا ہى نقشہ ہوتا_

۲۱

كے پابند نہيں ہو سكتے ، خلافت قبول كرنے كيلئے پہلے حضرت على كے سامنے شرط پيش كي_

حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے فرزند عوف نے جو شرطيں پيش كى تھيں ان ميں رضائے خدا و رسول اور مسلمانوں كے مفاد ات كى حد تك تو حريص تھے منصب خلافت حاصل ہوتا اور حكمرانى كرنا انكى نظر ميں ہيچ تھا ،جبكہ عثمان كى زيادہ توجہ منصب خلافت حاصل كرنے كى تھى وہ دل سے يہى چاہتے تھے ،دوسرے امور كى ان كى نظر ميں اہميت نہيں تھى ،اور خدا اس بات كو بہتر جانتا ہے كہ شروع ہى سے وہ جس بات پر، ہوئے تھے اسميں انھيں پورى سوجھ بوجھ كہاں تك تھى ، يا خلافت حاصل كرنے كے بعد ان ميں پيدا ہوئي ،كيو نكہ يہ باتيں نفسانيت كے امور سے تعلق ركھتى ہيں ،اورہم اس بارے ميں كوئي فيصلہ بھى نہيں كر سكتے ، كيو نكہ ھمارا استدلال صرف ظاہرى حالات كى روشنى ميں ہے_

''عائشه كا تاريخى فتوى ''

عائشه نے حضرت عثمان كى خلافت كے ابتدائي ايام ميں تو موافقت اور انكى تائيد كى ،پھر ان سے منحرف ہو كر ان كے خلاف فتوى دےديا ،اس وجہ سے ان كا اجتہاد قابل اطمينان نہيں ہے _

خلافت كے سلسلے مين انكے رقيب ہوتے ہوئے بھى دليل و بر ہان كے با وجود حضرت عائشه كى طرف عثمان سے جنگ اور مخالفت نہيں كى ،جب عثمان قتل ہو گئے تو حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طلحہ و زبير اور ديگر تمام لوگوں كى بيعت قبول نہيں كى جس وقت تمام لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تو اپ نے مسجد ميں كھڑے ہو كر يہ فرمايا ، ميں تمہارى خلافت سے بيزار تھا ،ليكن تم ہو كہ ميرے سوا كسى كى حكومت پر راضى نہيں ہو ،اس بات كو سمجھ لو كہ ميں كوئي بھى كام بغير تمہارى صوابديدہ اور صلاح كے انجام نہيں دوں گا ،تمہارے بيت المال كى كنجى ميرے پاس ہے ليكن ايك درھم بھى بغير تمہارى مرضى كے نہيں چھوئوں گا _

پھر پوچھا ،كيا تم اس بات پر راضى ہو ؟

تمام لوگوں نے چلّاكر كہا ہاں

اسوقت اپ نے فرمايا :

بار الہا ان لوگوں پر تو گواہ رہنا

اس كے بعد اپ نے خلافت قبول فرمائي

۲۲

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رائے صائب تھى اپ نے اس طرح لوگوں كيلئے كسى بہانے كى گنجائشے نہيں چھوڑى كيو نكہ ان لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تھا نہ يہ كہ اپ نے خود خلافت كى خواہش كى ، لہذا جس نے بھى اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچا اور علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت كى وہ خود دغاباز اور مجرم ہے ،اور جو شخص اپ كا وفادار رہا وہ مومن اور سچا ہے _

عائشه نے دوسرى بار اجتہاد كا پرچم لہرايا يہ اس وقت كى بات ہے جب قاتلان عثمان سے انتقام لينے كيلئے انھيں اور طلحہ و زبير جنہوں نے علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پيمان توڑا اور اپنى بيعت كچل ڈالى با قاعدہ ساتھ دينے پر امادہ ہوئے يہ مفاد پرستانہ اقدام بتاتا ہے كہ حضرت عائشه كى نيت انديشہ مفاد سے خالى نہيں تھى ،تمام لوگ كہنے لگے كہ يہ عثمان كا بدلہ لينے كيلئے نہيں اٹھى ہيں بلكہ مقصد صرف يہ ہے كہ مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف پيدا كيا جائے اور جو لوگ حضرت علىعليه‌السلام سے وابستہ ہيں ان ميں انتشار پيدا كيا جائے يہاں تك كہ اگر حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سوا كوئي اور ہوتا تو كبھى ايسا اقدام نہ كرتيں _

ام سلمہ كا تاريخى خط عائشه كے نام

حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف معاملہ خلافت كے سلسلے مين عمر كے اقدام كے بعد عائشه كا اقدام دوسرا رخنہ تھا جو بنياد اسلام ميں پڑا ،ميںيہ بات اپنى طرف سے نہيں كہ رہا ہوں اور اس سے ميرى كوئي خاص غرض بھى نہيں ہے بلكہ يہ حقائق نا قابل انكار ہيںجن پر بزرگان قوم اور مشھور مورخين متفق ہيں _

عائشه كى كار وائي صحابہ كے زمانے سے اج تك تمام لوگ ان لوگون كے لئے نفرت كا سبب بنى جو حق اور حقيقت كے طرفدار ہيں ،اس دعوى كى گواہى حضرت ام سلمہ ہين جو دوسرى زوجہء رسول ہيں ، انھوں نے پند ونصيحت بھرا خط عائشه كو لكھا اور اس اقدام سے باز رہنے كى خواہش ظاہر كى ،خاص طور سے انھيں مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف سے روكا _ خط

۲۳

زوجہء رسول ام سلمہ كى طرف سے ام المومنين كو

ميں خدا كى حمد و ثنا ء كرتى ہوں اور اس كى وحدانيت كا اقرار كرتى ہوں

امابعد تم نے اس اقدام سے اپنے احترام كا پردہ چاك كيا جو رسول خدا اور ان كى امت كے درميان تھا ،اور ان كے

حرم كا حجاب پارہ پارہ كيا قران نے تمہارا دامن جمع كيا ہے ،اسے خود سرا خاك ميں نہ ملاو ،تمھارا مقام مرتبہ محفوظ ہے ،اسے بلاوجہ ضائع نہ كرو ،اس خدا ئے واحد سے ڈرو و جو اس امت كا نگہبان ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عورتوں كى جہاد كا طريقہ متعين كيا ہے ،بلا شبہ اس سلسلے مين حكم صادر كيا ہے كيا تم نہيں جانتى ہو كہ انہوں نے تمہيں جنگ سے منع كيا ہے ؟ كيو نكہ اگر دين كے ستون ميں ٹيڑھا ہو جائے تو عورتوں كى طاقت سے كبھى سيدھا نہيںہو سكتا ،اور اسكى خرابى عورتوں سے اصلاح پزير ہرگز نہيں ہو سكتى ، عورتوں كا جہاد اپنے كو لئے ديئے ركھنا ،پاك دامنى اور قناعت ہے _

اگر تم اس طرح بيابانوں مين اپنے اونٹ كو اس گھاٹ اور اس گھاٹ ہاكتى رہو اور رسول خدا تمھين ديكھ ليں تو تو انھيں كيا جواب دو گى حا لا نكہ تمہيں جلد يا دير ان كے سامنے حاضر ہونا ہے _

ميںبے باكانہ قسم كھاتى ہون كہ اگر ميں اس حال ميں رسول سے ملاقات كروں كہ ان كى حرمت ضائع كى ہو اور مجھ سے كہاجائے كہ اے ام سلمہ جنت ميں اجاو تو ميں شرم سے پانى پانى ہو جاو ں گى _

اس لئے اپنے پروردگار كى حفاظت كرو اور گھر ميں بيٹھى رہو اگر تم اس امت سے سروركار نہ ركھو تو يہ بجائے خود ان كے حق ميں بہترين خدمت ہے ،اور ميںجانتى ہوں كہ رسول خدا سے جو باتيںميںنے سنى ہيںاگر اس سے تمہيں خبردار كروں تو تم سانپ كاٹے شخص كى طرح تڑپنے لگو گي، والسلام

خود يہ خط دوسرى دليل ہے كہ عائشه كا اجتہاد غلط تھا

اس خط ميں اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ انھيں مسلمانوں كى جماعت ميں ھم اھنگى كى فكر نہيں تھى ، نيز يہ بات بھى معلوم ہوتى ہے كہ ازواج رسول ميں سے دوسرى كوئي بھى عائشه كے اس اقدام كے ساتھ نہيں تھيں اور نہ انھوں نے عائشه كى مدد كى ،

۲۴

اس كتاب كے مولف كا مقصد

اقائے عسكرى ، خداوند عالم انہيں حقيقت بيانى كى جزا دے ميں نے اپنے دقيق علمى بحث ميں ھرگز اس بات كا قصد نہيں كيا ہے كہ لوگوں كو عائشه نے اپنے اجتہاد دو فتوى ميں جو اشتباہات كئے ہيں ان كے خلاف لوگوں كو بھڑكائيں ،اور مسلمانوں كے احساسات ابھاريں بلكہ انھوں نے اپنے بيان كے درميان صرف خشنودى خدا كيلئے اس بات كى فكر كى ہے كہ تاريخى حالات كے مفاہيم جو زيادہ تر لوگوں كے ذہن اصحاب رسول ہونے كى وجہ سے پہچان نہيں پائے ہيں اور

تاريخ صحيح كى تفہيم نہ ہونے كى وجہ سے عظمت شريعت اسلام كى تفہيم سے محروم ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں، كہ اوضاع تاريخى كے مفہوم سے عام لوگ جو محروم ہيں اور اصحاب رسول كو پہچان نہيں سكتے ہيں اور ان كى باتوں ميں تميز نہيں كر سكے ہيں ،اور نتيجے ميں صحيح تاريخ سمجھنے اور ان كى شريعت اسلام ميں حيثيت كو پہچان نہيں سكے ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں ، انھوں نے اس راہ ميں جو سعى كى ہے اس كا مقصد صرف يہ ہے كہ لوگ احاديث رسول خدا كو بغير اپنے احساسات و جذبات كى مداخلت جزوى فوائد و تعصب كے راويان حديث كے بارے ميں علم و دانش كى روشنى ميں ادراك كر سكيں _

كيونكہ اگر لوگ تمام يا كچھ حصئہ حديث رسول كو سمجھ ليں تو بڑى اسانى سے اسلامى فرقوں اور مذاہب كے درميان كا اختلاف كا سرا سمجھ ميں اجائے گا ،اور انہيں معلوم ہو جائے گا كہ كس حد تك يہ اختلاف مصنوعى اور حكمرانوں كا خاص غرض سے پيدا كيا ہو ا ہے انھوں ہى نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر ترجيح دى ہے حكومت چلانے اور اپنى پار ٹى مضبوط كرنے كيلئے جن حديث كو ضرورى سمجھا بنا ليا يا اكثر صحابہ كى بيان كردہ حديث كو من كے مطابق بدل ليا ، صحيح بات يہ ہے كہ انھوں نے حكومت كے استحكام كيلئے صحابہ پر دروغ بافى كى اور اپنى غرض كے لئے من پسند باتيں گڑھ ليں _

۲۵

اس سے پہلے كہ اپنى علمى بحث كو ختم كروں جسے صرف خشنودى خدا كيلئے معرض تحرير ميں لائي گئي ہے ، مناسب سمجھتا ہوں كہ دانشور محقق اقائے عسكرى كے كان ميں اہستہ سے ڈال دوں كہ وہ اپنے ان علمى مطالب كو جس كا بلند مقصد مذاہب اسلامى كو ايك دوسرے كے قريب لانا ہے اسے جارى ركھيں ،اپنے متين اور محكم اساس پر استوار اسلوب كو اس طرح قرار ديں كہ ارباب علم و دانش او ر اسكالروں كيلئے پسنديدہ ہوتاكہ اس طرح مسلمانوں ميںباہمى اتحاد و ہم اہنگى پيدا ہو ،اور كيا ہى اچھا ہوتا كہ تمام وجود جو بحث و تحقيق ميں مستغرق ہے ميرى اس پيش كش كو عملى شكل ديدے_

كيونكہ بنيادى طور سے اختلاف اور ذاتى دھڑا بندى ايك شيعہ اور سنى كے درميان سمجھ ميں انے والى بات نہيں ہے اور اسميں شك نہيں كہ يہ دونوں فرقے جب تك مقاصد اور وجوہات دونوں كے خالص ہيں تو ايك دوسرے كے نقائص دور كرنے اور درستگى لانے ميں دل وجان سے كوشش كريں _

ڈاكٹر حامد حفنى دائود

۱۷ شوال ۱۳۸۱

۲۳ مارچ ۱۹۹۲

۲۶

كتاب كا مقصد تاليف

زيادہ تر ارباب تحقيق رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى احاديث كى طرف دير سے متوجہ ہوئے ہيں كہ احاديث كا ايك دوسرے سے ربط يا ان احاديث اور ايات قران كے درميان گھناونا اختلاف موجود ہے ،يہ امر اس بات كا سبب بنا كہ سلف كے دانشوروں نے رسول خدا پر اعتراضات اپ كى احاديث كى توجيہ و تاويل پر مشتمل كتابيں لكھيں ،ان ميں تاويل مختلف الاحاديث اور بيان مشكل الحديث اور بيان مشكل الاثار وغيرہ كتابيں لكھيں_

اس طرح نقادوںاور عيب جوئي كر نے والے ملحدوں اور عيسائي مبلغوں كے ساتھ كچھ مستشرقين كو بھى اس بات پر ابھارا كہ دشمنى وعناد كى راہ سے اس قسم كى احاديث كے استناد ميں اختلاف و تضاد دكھا كر پيغمر اسلام اور ان كے دين پر اعتراض كيا اور مذاق اڑايا،حالانكہ يہ دونوں گروہ اس بات سے غافل تھے كہ ان احاديث كے مجموعے كا بہت بڑاسرمايہ، خاص طور سے جن ميں باہم اختلاف ہے يہ سبھى ايك ہى روش اور ايك ہى سياق سے مربوط نہيں ہيں كہ انھيں اطمينان كے ساتھ سبھى كو رسول خدا كى واقعى حديث سمجھ كر يكجا بحث و تحليل كى جائے بلكہ يہ تمام احاديث خود ہى چند مختلف احاديث كا مجموعہ ہيں جنھيں مختلف راويوں اور بيان كرنے والوں كے طريقے سے ھم تك پہونچا ہے_

ارباب تحقيق كو سب سے پہلے يہ چاہيئے كہ راويان حديث كى دستہ بندى كريں مثلاوہ احاديث جو ام المومنين عائشه سے منسوب ہيں ياانس سے ابو ھريرہ يا عبداللہ بن عمر سے ان تمام كو الگ الگ جمع كر كے دوسرے ايسے راويان حديث جنہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت زيادہ احاديث روايت كى ہيں ( ان كے حالات زندگى ،انكا انداز فكر اوران كا عقيدہ ) ان پر الگ الگ بحث و تحقيق كى جائے تاكہ حقيقت امر واضح ہو سكے _

مجھے يہ بات اس وقت معلوم ہوئي ،جب ميں صدر اسلام كے تاريخى حوادث كے ذيل ميں احاديث كے بحث و تحقيق ميں مشغول تھا ،خاص طور سے ان احاديث پر جو ام المومنين عائشه سے نقل كى گئي ہيں ،اس موقعہ پر ميرى نگاہ جذب ہو كر رہ گئي اور مجھے يقين حاصل ہو گيا كہ تاريخ اسلام ابتدائے بعثت سے بعثت يزيد كے زمانے تك كو اچھى طرح نہيں سمجھا گيا ہے _

۲۷

يہ اسى وقت ممكن ہے كہ پہلے احاديث ام المومنين كو جو بجائے خود اكيلا تاريخ صدر اسلام كا اھم ترين سر چشمہ ہے حقيقت فہمى كيلئے اس كا غير جانبدارانہ مطالعہ كيا جائے

اس طرح مجھے يقين ہے كہ بعض ايات قرانى كو سمجھنا نيز وہ اسلامى فقہ جو اكيلى احاديث ام المومنين كى سند سے مروى ہيں ان كو بھى اسى اساس پر مطالعہ كرنا چاہيے _

جب ميں اسلام كے پہلے دور كى تاريخى تنظيم كا تجزيہ كر رہا تھا ،ميرے لئے نا گزير ہو گيا كہ اسى تقسيم يعنى حديث كى قدر وقيمت كے بارے ميں بحث كو تمام مبا حث كو مقدم قرار ديكر اسى كا تحليل و تجزيہ كروں _

اس قسم كے واردات كى اس حيثيت سے كہ صدر اسلام كے سر كردہ افراد ميں بڑى مشكل بات ہے اس وادى ميں قدم ركھنا كسى مسلمان محقق كيلئے كوئي اسان بات نہيں ہے ( غير جانبدارانہ تحقيق كريں )

پہلى زحمت دشوارى جو مشرق كے مسلمان اديبو ں كو پيش اتى ہے وہ خود ان كے عقائد ہيں جنكى انھوں نے عادت ڈال لى ہے اور ان كى زندگى ميں نشو و نما پاتا رہا اور ان كى نفسيات اور رگوں ميں رچ بس گيا ہے اور يہى عقائد اسلامى معاشرے ميں بھى رائج ہيں _

يہ لوگ صدر اسلام كے مسلمانوں كو عام ادميوں سے بر تر خيال كرتے ہيں اس عہد كو اور اس زمانے كے افراد كو مقدس سمجھتے ہيں اور جو كچھ ان كے اور اس زمانے كے بارے ميں سمجھ بيٹھے ہيں ،وہ دوسرے عہد كے مسلمانوں كے بارے ميں باور نہيں كرتے_

چنانچہ اس طرح كے اديب ،قلمكار متذكرہ الجھن كوبحث و تحقيق ميں نظر انداز نہيں كرتے ، تلاش حق و حقيقت كے بجائے ان كى باتيں اپنے معتقدات كے دفاع ميں لگ جاتى ہيں _

جب ميں نے يہ حقيقت سمجھ لى تو پكا ارادہ كر ليا كہ اس موضوع پر اپنے جذبات كو جو ام المومنين عائشه كى زوجہ ء رسول كى حيثيت سے قائل ہوں ،انھيں اڑے نہ انے دوں ، اور اسلام كى محترم شخصيات كو جو نظر انداز كر ديا جاتاہے انھيں دوسرے عام لوگوں كے مقابل فرق نہ قرار دوں اور انہيں اس نقطہء نظر سے پہچانوں كہ وہ بھى عام لوگوں كى طرح گونا گوں احساسات و جذبات ركھتے تھے ،اس طرح ميں حيات ام المومنين كے ادوار ميں جو حوادث پيش ائے حقيقت معلوم كرنے كيلئے صرف اسى كو موضوع بحث و تنقيد قرار دوں _

۲۸

اگر چہ دعوى نہيں كرتا كہ ميں اپنے اس ارادے ميں پورى طرح كامياب ہو گيا ہوں ، ليكن اس سلسلے ميں اپنى بھر پور تلاش و كو شش كر ڈالى ہے اس كا جو كچھ فيصلہ ہے وہ دوسروں كو كر نا ہے ، ليكن خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ صرف صدر اسلام كى تاريخ ،قران اور اس كے احكام كى تحقيق كرنے والوں كو فائدہ پہونچانے كيلئے ميںنے يہ سارے پاپڑ بيلے ہيں ،_

اسلام يا ايمان و عقيدہ

دوسرى بات يہ كہ جيسے ہى كوئي قلمكار پكا ارادہ كر كے اس مشكل كو اپنى بحث و تحقيق سے اٹھاليتاہے تودوسرى مشكل گلے پڑ جاتى ہے كہ اس قسم كے مطالب كى نشر و اشاعت مسلمانوں كى ھم اہنگى كو متاثر كرتى ہے يہ سوال كھڑا ہو جاتا كہ اج جبكہ بہت سے مجاہدين اور مصلحين كى مسلسل مساعى سے خدا وند عالم نے مختلف گروہ ميں بٹے ہوئے مسلمانوں كى ارزو ں اور ميلا نات كو ايك دوسرے سے قريب كر ديا ہے ،ان ميں برادرى كے اسباب فراہم كر دئے ہيں كيا ايسى حالت ميں مناسب ہے كہ اسقدر طويل زمانے كے بيتے دور كے بارے ميں لكھا جائے كہ صرف يہى نہيں كہ باہمى ترديد و اعتراض كى ہو ا بن جائے بلكہ سوئے ہوئے جذبات بھڑك اٹھيں اور اپس ميں نفرت و عناد پيدا ہو جائے؟

ليكن اسى سوال كے مقابل ميں مسئلہ بھى سامنے اجاتا ہے كہ جسے اسانى سے نظر انداز نہيں كيا جاسكتا _

اگر خير انديش اصلاح پسندوں كى كوشش بيكار كرنے كا نام ديكر ايسى بحث و تحقيق پسنديدہ نہ سمجھى جائے تو اس صورت ميں تمام لو گوں پر علمى تحقيقات كے دروازے بند ہو جائيں گے اور يہ دانش و معرفت پر ايسا ظلم ہو گا جو معاف كرنے كے قابل نہيں ،كيونكہ اس نتيجے مين اسلامى حقائق پر گذرتے عہدوں اور زمانوں پر جمود فكر ى اور تعصب كى جمى دھول سے مختلف فرقوں ميں اختلاف و تفرقہ زيادہ پيدا ہو گا ،اور يہ مسلم ہے كہ كوئي بھى اصلاح پسند اورہم اہنگى كار سيا اس كى تائيد و تصديق نہ كرے گا _

اس سبب سے ہم پورے دلى خلوص كے ساتھ مسلمان بھائيوں كے درميان سے اصلاح پسند وں كى اواز كا جواب ديتے ہوئے خدا سے دعا كرتے ہيں كہ تفرقہ و اختلاف جڑ سے ختم كرنے كى توفيق عطا ہو _

ہم دانش و معرفت كے مرتبہ كى نسبت سے احترام خاص كے قائل ہيں اس كا معا ملہ دوسرے معا ملوں سے الگ سمجھتے ہيں _

۲۹

كيونكہ جن لوگوں نے مسلمانوں ميں اتحاد و يكجہتى كى مسلسل كوشش كى بنياد ركھى ہے مقدس اسلام كے پر چم تلے يكجہتى كى اواز بلند كر رہے ہيں حالانكہ خود اسلام بين الاقوامى سياست كا انگيزہ نہيں ہے بلكہ وہ ايمان و عقيد ہ سے عبارت ہے بلكہ وہ واقعات كا ايسا تسلسل ہے جو بحث و تحقيق اور بھر پور علمى تنقيد سے پيدا ہونے والى چيز ہے ،ان حقائق كو مختلف بہانوں اور عنوانوں سے چھپانے سے ايمان و عقيدہ پر استوار وحدت وجود پزير نہيں ہو سكتى ،اور اسلام كى صحيح و مستقيم راہ گمراھى و ضلالت كے كنويں سے برا مد نہيں ہو سكتى _

خدا وند عالم سے دعا كرتا ہوں كہ متوا زن اور سيدھى راہ پر گامزن ہونے كى توفيق كرامت فرمائے كہ وہى سب كو سيدھى راہ دكھانے والا ہے _

عميق اسلامى يكجہتي،

تيسرى مشكل دل كى گہرائيوں سے نكلى ہوئي اواز ہے جسكا اصلى محرك ايمان ہے ،اس بات كا ايمان كہ اسلامى معاشرے ميں صرف اسلام كى حكومت ہونى چاہئے اور اسى بنياد پر ھمارى يكجہتى واستوار ہونا چاہيے اس بنا پرہم سب لوگوں كى تمام تر كوششيں اس بات كيلئے ہونى چاہئے كہ اسلام زندہ ہو اور اسى ذھن ميں رہنا چايئے ،اسى راہ سے اپنے كو مصروف ركھنا چاہيئے ،

اے راہ حق كے مجاہدو خدا اپ حضرات كو توفيق عطا كرے كيا اپ مسلمانوں كو اسلام كى طرف واپسى و خود سپردگى اور اسلامى قوانين كے نفاذ كى دعوت نہيں دے رہے ہيں ؟ كيا اس كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل اور حقيقى احاديث رسول اور حديث بيان كرنے والوں كے حال و مال كے تجزيے و مطالع كے سوا بھى كوئي راستہ ہے ؟ تاكہ اسى كے واسطے سے اايات قران كى شان نزول معلوم كريں اور اسى روشنى ميں احكام اسلام حاصل كر كے اسكى پيروى كريں اور دوسروں كو بھى عمل كرنے كى دعوت ديں اور چونكہ اسلامى احكام پر عمل ناگزير ہے اس لئے لا محالہ اس كا علم حاصل كرنا ھمارے لئے لازم ہے اور يہ بات مسلّم ہے كہ بغير علم حاصل كئے عمل انجام پذير نہيں ہو سكتا_ پورے وثوق كے ساتھ كہا جا سكتا ہے كہ اسلامى يك جہتى اور معاشرے كو اسلام كى طرف واپس لانے كيلئے مستقل سعى ميں اور تاريخ كى بحث و تحقيق نيز احاديث رسول كى چھان پٹك كے درميان كوئي تضاد نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى يك جہتى كيلئے اسكى حيثيت بنياد كى ہے ايك دوسرے كى متمم ہے كونكہ مسلمانوںكو اسلام كى طرف واپس لانا اسى وقت ممكن ہے جب باھم فكرى يك جہتى پيدا ہو ايات قرانى اور احاديث رسول و تاريخ اسلام كو اچھى طرح سمجھا جائے _

۳۰

اسى طرح جب تك اسلامى معاشرے ميں ايمان واپس نہيں لايا جائيگا اس وقت تك مسلمانوں كے درميان دوستى و برادرى قائم نہيں ہو گى ،كيونكہ اگر اس كے سوا كچھ ہے تو مسلمان كى ھم اہنگى كى بنياد كا پرچم ہے ؟

اور كون سى چيز ہے جو انہيں ايك دل اور ايك جہت عطا كرے گى ، اس طرح بھائي چارگى اسى و قت قائم ہو سكتى ہے

جبكہ مسلمانوں كو ايك دوسرے كى حقيقت حاصل كرنے اور حقيقت كى پيروى كرنے كيلئے مسلمانوں كو ايك دوسرے كى رائيں سجھنے اور صحيح تنقيد عطا كى جائے ،تاكہ خدا كے ارشاد قرانى (ميرے بندے وہ ہيں جو ميرى بات سنتے ہيں اور سب سے بہتر كى پيروى كرتے ہيں(۲) صادق اسكے_ يہى ہمارى اواز ہے_

خداوندعالم كى بارگاہ ميں دعاہے كہ ھميں اور تمام مسلمان بھائيوں كو اسى عظيم ارشاد كى پيروى كى توفيق عنايت كرے_

يہاں تك جتنے اعتراضات گنائے گئے يہ مسلمانوں سے مخصوص تھے _

بزرگوں كى پرستش

تمام قوموں اور ملتوں كى تاريخ كى طرح ان متذكر ہ باتوں كے انداز پر تاريخ اسلام ميں بھى تين بڑى ركاوٹ اور مشكل برابر موجود رہى ،جو اكثر حقائق كے متلاشى اور تاريخ نگارشوں كے سد راہ رہى اور لوگوں كو علم و حقيقت كى پيروى سے روكتى رہي،

انكى اولين اور اھم ترين ركاوٹ پاك بزرگوں كے احترام كى عادت اس حد تك كہ جسے پرستش كہا جاسكتاہے ، كسى بھى بشر كى ابتدائے تاريخ سے عادت رہى كہ اپنے اسلاف كى حد سے زيادہ تعظيم كرتے ، بت پرستى يہيں سے پيدا ہوئي ہے ، چنانچہ _نسر، يغوث،يعوق، ود، سواع(۳) ماضى ميں نيك اور صالح تھے ان كے زمانے كے لوگ ان كا احترام كرتے تھے ،مرنے كے بعد ان كا احترام اتنا بڑھا كہ ان كى پوجا كى جانے لگي_

مزہ يہ ہے كہ ھم اپنے صالح اسلاف كو ان كى زندگى كے زمانے ميں ديكھتے ہيں كہ ان پر اس قدر تنقيد و ترديد كى جاتى ہے كہ ايك دوسرے كو قتل كا فتوى تك ديديتے ہيں ، ان كو ان كے عزيزوں اور ماننے والوں كا خون بہانا بھى جائز جانتے ہيں ، ليكن ان كے مرنے كے چند سال بعد اج كى نسل ميںان كى تعظيم و تكريم اتنى بڑھ گئي ہے كہ اب ان كى رفتار و گفتار پر تنقيد و تجزيہ بھى جائز نہيں سمجھتے نہ اجازت ديتے اور اس رہگذر پر دانش و نظر ميں اپنے اور دوسروں كو سناٹا كر ديا ہے _

____________________

۲_سورہ زمر ۱۸

۳_يہ پانچ بت قريش كے تھے جن كا ذكر قران ميں ہے تفسير در منثور سورئہ نوح اية ۲۴ اور تمام تفاسير ديكھى جاسكتى ہے _

۳۱

اندھا تعصب

دوسرى تعصب كى ركاوٹ ہے يہ ايسى ركاوٹ ہے كہ اس پر برتى ہے اور خود يہ ركاوٹ ايسى ہے كہ ادمى كو جہالت و بے خبرى و نادانى كے اندھيرے ميں ڈال ديتى ہے ،يہ ايسى قربانگاہ ہے كہ طول تاريخ بشريت ميں ہر ملك اور ہر عہد ميں جہاں ديكھئے بے شمار قربانياں بكھرى پڑى ہيں _

رے كا شھر ساتويں صدى ھجرى كے اوائل ميں تعصب مذہبى كى وجہ سے دو بار ويرانے ميں بدلا،(۴) پہلے تو حنفيوں اور شافعيوں نے شيعوں كے خلاف ھنگامہ ارائي كى ، ان كا بے رحمانہ قتل عام كيا ، پہر شافعيوں نے حنفيوں پر دھاوا بولا اور انہيں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليا ، نتيجے ميں گھر ويران ہوئے ، شھر ويرانے ميں بدل گيا ، يہ قربانگاہ بے جا تعصب كے اثر كى معمولى سى جھلكى ہے ، حالا نكہ ايسى ھزاروں قربانياں تاريخ ميں بھرى پڑى ہيں جو مذموم تعصب كى وجہ سے واقع ہوئيں ،ان مضحكہ خيز قربانيوں كى نشاندہى كى جا سكتى ہے_

عوام فريب لوگ

تيسرى ركاوٹ تو سب سے زيادہ نفرت انگيز ہے، وہ راسخ اعمال ہيں جو ارباب اقتدار و طاقت نے مختلف عہد تاريخ ميں اس كى نمائشےكى ہے

يہ لوگ تھے جو بندوق كى نوك اور اپنے اثر سے جو چاہتے كر ڈالتے تھے ، جيسا كہ مقتدر شخصيات نے عوام فريبى كا جال بچھاتے ہوئے بحث و تحقيق كى باگ روك لى اور سن۶۵۵ھ ميں با قاعدہ طريقے سے اجتہاد كا دروازہ قوم كے فقہاپر بند كر ديا(۵)

نہ معلوم اب جبكہ اٹھ صدى بعد باب اجتہاد كھلنے كے مقدمات فراہم ہوئے ہيں اس راہ ميں كس حد تك انہوں نے ترقى كى ہے ، كيا اب بھى وقت نہيں ايا ہے كہ مسلمانوں كو بحث و تحقيق كى اجازت دى جائے ؟ اب تو پھانسى كى سزا صرف تقليد سلف ميں منحصر ہو كر رہ گئي ، كسى دوسرے معاملے ميں گردن نہيں مارى جاتي_

____________________

۴_ياقوت،لغت (ري) ۴_۵۵ ۳

۵_بيپرس بند قدادى نے ۶۶۵ھ ميں با قاعدہ مصر كے اندر باب اجتہاد بند كيا خطط مقريزى ص۱۶۱ ديكھى جا سكتى ہے كسقدر ہے كہ خود مصر ميں صديوں بند ركھنے كے بعد خود ہى كھولا ہے_

۳۲

نہيں____ ايسا ھرگز نہيں ہو گا ، كيونكہ اصلاح پسندوں كى مسلسل كوششوں سے عكس دانش سے چہرئہ حقيقت اسقدر صاف نظر انے لگا ہے كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا ، بہت جلد ايسا وقت ارہا ہے كہ اس وقت كے لوگ بحث و تحقيق كى اجازت نہ ہونے سے جو زحمت اٹھانى پڑ رہى ہے اس پر ہنسيں گے ، جس طرح اج ھم تعصب بے جا كے مظاھرے كى وجہ سے شہر رے پر ہنس رہے ہيں _

ان متذكرہ ركاوٹوں كو جانے ديجئے ہم نے اصولى طور سے عادت بنالى ہے كہ جب بھى كسى كى تعريف و ستائشے سنتے ہيں اس كے عيوب سننے كے روا دار نہيں ہوئے نہ تنقيد برداشت كرتے ہيں ،اور اگر اس كى عيب گيرى پر امادہ ہوتے ہيں تو پھر تعريف نہيں سنتے_

ليكن ميں نے ام المومنين عائشه كے بارے ميں جو كچھ احاديث و تاريخ سے حاصل كيا ہے ،انھيں پيش كر رہا ہوں چاہے يہ تعارف ان كے حق ميں عيب جوئي تعارف كے بطور يا تنقيد ہو يا تعريف و ستائشے ہو _

اگر كوئي شخص اس پر مطمئن نہ ہو اور متذكرہ مشكلات پر قابو نہ پا سكتا ہو ،كيونكہ يہ ركاوٹيں قلمكار اور قارى كے درميان مشترك ہيں ، تو كتاب كو اس كے حوالے كر دے جو ان ركاوٹوں پر قابو پا سكتا ہو جى ہاں _ جو شخص ام المومنين عائشه كو تاريخ و حديث كے درميان سے پہچاننے كا خواہشمند ہے اسے احاديث مين تحقيق كا ميدان ممكن بن گيا ہے وہ تحليل و تجزيہ كر سكتا ہے ، صدر اسلام كى خاتون كے ادوار اس كے سامنے ہيں اور حقيقت كى پيروى كرنا نا شائستہ تر ہے ، اور سيدھى راہ چلنے والوں پر صلوات_

سيد مرتضى عسكرى ، بغداد، دانشكدئہ اصول الدين

۳۳

(فصل اول)

ازواج رسول (ص)

زينب بنت جحش

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ازدواج كے يہاں تك جتنے واقعات بيان كئے گئے ان ميں زيادہ تر كى حكمت واضح ہے ليكن زينب سے ازدواج كى حكمت دوسرى ہى ہے اس حكمت كو بيان كرنے كے لئے ايك مقدمے كى ضرورت ہے ، وہ يہ كہ جہاں تك ميرى واقفيت ہے دنيا كے اصلاح پسند اپنے معاشرتى اصلاح كے منصوبے نافذ كرنے كے لئے دوسروں سے پہلے خود ہى اس پر عمل كرتے ہيں _

اپنا اصلاحى اقدام خود اور اپنے خاندان والوں سے شروع كرتے ہيں اس سلسلے ميں ہر طرح كى فدا كارى جو مقصد كيلئے ضرورى ہے ، اٹھا ئيں ركھتے ، اس كے بعد وہ اپنے قريبى لوگوں ، رشتہ داروں اور بعد ميں دوسرے افراد بشر كو اس پر عمل كرنے كى دعوت ديتے ہيں _

پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يكتا مصلح عالم بشريت تھے ، وہ بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، انھوں نے معاشرے كى اصلاح اور جاہليت كے نا پسند يدہ عادات و رسوم كو ختم كرنے كيلئے ، بحكم خدا پہلے اپنوں ہى سے تبليغ شروع كى ، اسى بنياد پر انہوں نے حجةالوداع كے موقع پر فرمايا تھا ، سب سے پہلا سود جسے ميں كالعدم قرار ديتا ہوں ،وہ ميرے چچا عباس كا سود ہے _(۶)

ہر خون جو جاہليت كے زمانے ميں بہايا گيا وہ باطل ہے اور سب سے پہلا خون جسے ميں باطل كر رہا ہوں وہ ربيعہ كے فرزند كا ہے اور يہ خاندان عبد المطلب كى فرد ہے _(۷)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ميں اس مفہوم كے تاريخى شواہد بہت زيادہ ہيں زينب بنت جحش كے ازدواج كا واقعہ اسى قسم كا ايك نمونہ ہے ، جسے رسول خدا نے جہالت و نادانى كى بنياد پر استوار اس رسم جاہليت كو ختم كرنے كيلئے انجام ديا ، اس ازدواج سے رسول خدا كے دو بنيادى مقاصد تھے _

____________________

۶_رسول خدا كے چچا عباس زمانہء جاہليت ميں مشھور سود خوار تھے

۷_ خاندان عبد المطلب كى فرد ربيعہ كا شير خوار فرزند قبيلہ بنى ليث ميں تھا جسے قبيلہ ھذيل كے افراد نے غلطى سے قتل كر ديا تھا ، بنى ہاشم اس تاريخ تك جبكہ رسول نے يہ اعلان فرمايا اس شير خوار كے اس قبيلے كے لوگوں سے قصاص كے خواہاں تھے

۳۴

۱_ طبقاتى نا برابرى ختم كرنا

۲_ منھ بولے بيٹے كے بارے ميں احكام توڑنا(۸)

زيد بن حارثہ رسول خدا كے منھ بولے بيٹے تھے ، بچپن ميں كچھ عربوں كے ہجوم ميں پھنس كر اغوا كر لئے گئے ، پھر وہ مكہ ميں بيچنے كيلئے لائے گئے جس وقت زيد بيچے جا رہے تھے وہاں رسول خدا موجود تھے ، اپ نے انھيں پسند كر كے اپنى زوجہ خديجہ كے لئے خريد ليا ، زيد كو خديجہ نے رسول خدا ہى كو بخش ديا _

زيدكے ماں باپ اپنے جگر گوشے كے غائب ہونے سے سخت غم و اندوہ ميں مبتلا ہوئے ، ان لوگوں كو زيد كى كچھ خبر نہيں تھى ، ايك دن اچانك ٹكرائو ہو گيا اور زيد كے افراد قبيلہ كى نظر زيد پر پڑ گئي ، دونوں نے ايك دوسرے كو پہچان ليا ، زيد نے ان لوگوں كے ذريعہ كچھ اشعار لكھ كر اپنے ماں باپ كے پاس يہ پيغام بھيجا _

اپ لوگ ميرے بارے ميں رنجيدہ نہ ہوں ميں عرب كے سب سے شريف قبيلے ميں زندگى بسر كر رہا ہوں ، يہاں مجھے تمام قسم كى اسائشے ميّسرہے _

زيد كے باپ اور چچا كو جب زيد كے حال و مقام كى اطلاع ہوئي تو بھارى رقم ليكر مكے كى طرف چلے ، اس اميد پر كہ زيد كو خريد ليں گے ، جب يہ لوگ رسول خدا كى خدمت ميں ائے تو اپنے انے كا مقصد بيان كيا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : اگر زيد مجھ سے جدا ہونا چاہيں تو مجھے كوئي اعتراض نہيں پھر اپ نے زيد كو بلايا ، جب زيد ائے تو اپنے باپ اور چچا كو پہچان ليا اور تصديق كى كہ يہى ميرے باپ اور چچا ہيں ، اس وقت رسول خدا نے زيد سے ان كے باپ اور چچا كے انے كا مقصد بيان كيا اور فرمايا كہ تم ازاد ہو چاہے ميرے ساتھ رہو يا اپنے باپ كے ساتھ جائو ، زيد نے جواب ديا ميں ہرگز كسى شخص كو بھى اپ كے اوپر ترجيح نہيں دوں گا _

____________________

۸_ رسم جاہليت تھى كہ كوئي شخص اگر كسى كو اپنا بيٹا كہہ ديتا اور وہ لڑكا بھى اس پر راضى ہوتا تو اسے تمام لوگ اسى كا بيٹا كہتے اور صلبى فرزند كے تمام احكام اسكے لئے ثابت رہتے

۳۵

زيد كے باپ نے زيد كا جواب سن كر كہا :

بيٹا تم باپ كے سامنے غلامى كو ازادى پر ترجيح دے رہے ہو _

زيد نے جواب ديا ، جى ہاں ، اس عظيم شخصيت كے مقابلے ميں اور رسول خدا كى طرف اشارہ كيا ، اس وقت رسول خدا نے زيد كا ہا تھ تھاما اور حجر اسماعيل كے پاس اكر بلند اواز سے فرمايا :

اے موجود لوگو گواہ رہو ، زيد ميرا بيٹا ہے ، وہ ميرا وارث ہوگا ميں اسكا وارث ہوں گا (يا من حضراشهد واان زيدا ابنى يرثنى وارثه )

يہ ديكھ كر زيد كے باپ اور چچا خوشى سے پھولے نہيں سمائے ، اور وہ واپس ہو گئے ، اس تاريخ سے زيد جو ازاد كردئہ رسول خدا تھے تمام لوگ انھيں زيد بن محمد كہنے لگے _

زينب بنت جحش رسول خدا كى پھوپھى زاد بہن تھى انحضرت ہى انكى كفالت فرماتے تھے ، ان سے شادى كے بہت سے لوگوں نے پيغامات دئے تھے انھوں نے يہ معاملہ رسول خدا كے حوالے كر ديا تھا ، ا نحضرت نے ان سے فرمايا كہ تم زيد سے شادى كرو _

زينب نے يہ سنا تو بھڑك اٹھيں ، كہنے لگيں ، ميں اپ كى پھوپھى زاد بہن ہوں ، اور اپ مجھے اپنے ازاد كردہ شخص كے حوالے كر رہے ہيں ؟زينب كے بھائي بہن بھى طبقاتى اختلاف كى وجہ سے اس بات پر راضى نہيں تھے ، اسى وقت خدا كى طرف سے يہ حكم نازل ہوا _

كسى مومن مرد يا عورت كو يہ اختيار نہيں كہ جب خدا ورسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كر ديں تو وہ بھى اپنے امركے بارے ميں صاحب اختيار ہو جائے اور جو بھى خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا وہ بڑى كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہو گا

اس آيت نے تينوں كے بارے ميں اعلان كر ديا كہ وہ خاموشى سے رسول كے فيصلے كو مان ليں ، زينب نے زيد سے اپنى شادى كى امادگى ظاہر كر دى ، رسول خدا نے اپنے اسى مقصد كے ماتحت جسميں طبقاتى نا برابرى اور اشراف گيرى كا زعم ختم كرنا تھا زينب كى زيد سے شادى كر دى

۳۶

زيد كے گھر زينب چلى گئيں ، وہيں ايك دوسرى عورت ام ايمن جو ازاد كردئہ رسول خدا تھيں اور ان كے فرزند كے ساتھ رہنے لگيں ، مانى بات ہے كہ يہ طرز زندگى زينب كو رنجيدہ كرنے والى تھى ، اسى وجہ سے زيد كے ساتھ بد سلوكى ہونے لگى _

بات يہاں تك بڑھى كہ زيد نے رسول خدا سے شكايت كى اور اجازت مانگى كہ زينب كو طلاق ديديں ، ليكن رسول خدا نے فرمايا :

امسك عليك زوجك و اتق اللہ ، خدا سے ڈرو ، اور اپنى زوجہ كو طلاق مت دو ، ليكن زينب كى بد سلوكى نے زيد كو اسقدر پريشان كيا كہ انكے اصرار كى وجہ سے رسول خدا بھى زينب كو طلاق دينے پر رضا مند ہو گئے اور زيد نے زينب كو طلاق ديدى _

جب زينب كے عدہء طلاق كى مدت ختم ہوئي تو رسول خدا كو حكم خدا وندى ہوا كہ ايك دوسرى رسم جاہليت ختم كرنے كيلئے ، زينب سے شادى كر ليں تاكہ لوگ عملى حيثيت سے ديكھ ليں كہ منھ بولے بيٹے كيلئے و صلبى فرزند كے احكا م ثابت نہيں ہيں ،اگر كسى كا منھ بولا بيٹا طلاق ديدے تو وہ اس سے شادى كر لے ، اس معاملے كو نافذ كرنا رسول خدا كيلئے بڑا مشكل تھا ، وہ لوگوں كى ياوہ گوئيوں كو ديكھ رہے تھے ، يہاں تك يہ آيت نازل ہوئي جس سے انحضرت كى روحانى حالت اور شديد بے چينى ظاہر ہوتى ہے _

تم لوگوں سے ڈرتے ہو ؟حالا نكہ خدا اسكا زيادہ سزاوار ہے كہ اس سے ڈراجائے ؟جب زيد نے اپنى حاجت پورى كر لى تو ہم نے اس عورت كا عقد تم سے كر ديا تاكہ مومنين كے لئے منھ بولے بيٹوں كى بيويوں سے عقد كرنے ميں كوئي ہرج نہ رہے(۱)

اس واضح آيت كے بعد رسول خدا نے زينب سے شادى كر لي ان تمام باتوں سے معلوم ہو گيا كہ رسول خدا كى زيادہ تر شاديوں كى حكمت و مصلحت يہ تھى كہ معاشرے ميں احكام الہى كا نفاذ ہو اور جاہليت كے زمانے سے چلى رہى ناپسنديدہ رسموں كو ختم كيا جائے اسميں اپ كى خواہش نفس اور جنسى شھوت ذرا بھى دخل نہ تھا _

وہ خواتين جنھوں نے بے مھر اپنے كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كيلئے پيش كيا

كچھ دوسرى عورتيں بھى تھيں جنھوں نے بغير مھر اپنے كو رسول خدا كى خدمت ميں پيش كيا ، اس پيشكش كو قران نے لفظ (وھبت)سے تعبير كيا ہے اسكى غرض يہ تھى كچھ عورتوں نے خود ہى اپنے كو بغير مہر كے پيش كيا تھا كہ اپ انھيں اپنے حيالہء عقد ميں لے ليں ، سيرت و تاريخ كى كتابوں ميں ان چند عورتوں كا نام ملتا ہے ، ان ميں ايك خولہ بنت حكيم بھى تھيں _

____________________

۱_ حيلہ ابو نعيم جلد ۲/۵۳ حالات زينب و تفسير ايہ كيلئے مجمع البيان ملاحظہ ہو

۳۷

خولہ بنت حكيم ہلاليہ

خولہ ان خواتين ميں تھيں جنھوں نے اپنے كو پيغمبر كے لئے ہبہ كيا ، رسول خدا نے جواب ميں ٹال مٹول دكھائي ، وہ پيغمبر كے گھر ميں خدمت كرتى تھيں ، يہاں تك اپ نے ان كا نكاح عثمان بن مظنون سے كر ديا وہ عثمان كى وفات تك انھيں كے گھر رہيں(۱) _

دوسرى خواتين

سہل ساعدى كى روايت ہے كہ ايك عورت خدمت رسول ميں ائي اور اپنے كو اپ كے حوالے كرتے ہوئے پيش كيا ، رسول نے جواب ميں سكوت فرمايا ، وہاں ايك مسلمان موجود تھا ، اس نے عرض كى ، يا رسول اللہ ، اگر اپ كو اس عورت كى حاجت نہيں ہے تو اسكى شادى ميرے ساتھ كر ديجئے ، انحضرت نے فرمايا اس عورت كو كيا مہر دو گے ؟

اس نے عرض كى ، يہى لباس جو ميرے بدن پر ہے

انحضرت نے فرمايا : اگر يہ لباس جو پہنے ہوئے ہو اسے ديدوگے تو تم خود برہنہ ہو جائو گے ، كوئي دوسرى چيز دواس نے عرض كى ،اسكے سوا تو ميرے پاس كچھ بھى نہيں

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :چاہے ايك لوہے كى انگوٹھى ہى ہو

اس نے عرض كى ، ميرے پاس وہ بھى نہيں

انحضرت نے فرمايا : كيا تمھيں كچھ قران كے سورے ياد ہيں _

اس نے كہا : جى ہاں ،مجھے فلاں فلاں سورے ياد ہيں اس نے كئي سوروں كا نام ليا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: ميں اس عورت كى شادى تم سے انھيں قرانى سوروں كے بدلے كرتا ہوں جو تمھيں ياد ہيں _

سيرت كى كتابوں ميں دوسرى چند خواتين كے نام بھى ملتے ہيں جنھوں نے اپنے كو رسول كيلئے ہبہ كيا ان ميں ام شريك اور ام ليلى كا نام ہے يہ خواتين خدمت رسول ميں جسطرح پہونچيں ان كى دل خراش داستان كتابوں ميں ملتى ہے ليكن رسول خدا نے ان ميں كسى سے بھى شادى نہيں كى _

۳۸

رسول كے لئے حكم خصوصي

گذشتہ صفحات ميں ان با ايمان خواتين كے كچھ حالات بيان كئے گئے جو اس وقت مدينے ميں تھيں ، ہم نے يہ بھى ديكھا كہ كسطرح اسلام كى بلند مصلحتوں كے پيش نظر رسول خدا نے مختلف سركش قبايل سے اپنائيت اور ازدواج كا سلوك اپنايا ، اسى كے ساتھ يہ بھى قابل توجہ ہے كہ ہر مسلمان كو چار شادياں كرنے كى اجازت ہے ،ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حكم سے مستثنى ہيں ، يہ استثناء سورہء احزاب كى آيت ۵۰_۵۲ميں اسطرح ہے _

اے پيغمبر ہم نے اپ كے لئے اپ كى بيويوں كو جن كا مہر ديديا ہے اور كنيزوں كو جنھيں خدا نے جنگ كے بغير عطا كر ديا ہے اور اپ كے چچا كى بيٹيوں كو اور اپ كى پھوپھى كى بيٹيوں كو اور اپ كے ماموں كى بيٹيوں كو اور اپ كے خالہ كى بيٹيوں كو جنھوں نے اپ كے ساتھ ہجرت كى ہے اور اس مومنہ كو جو اپنا نفس نبى كو بخش دے ،اگر نبى اس سے نكاح كرنا چاہے تو حلال كر ديا ہے ، يہ صرف اپ كے لئے ہے باقى دوسرے مومنين كے لئے نہيں ہے ، ہميں معلوم ہے كہ ہم نے ان لوگوں پر ان كى بيويوں اور كنيزوں كے بارے ميں كيا فريضہ قرار ديا ہے تاكہ اپ كے لئے كوئي زحمت اور مشقت نہ ہو _

ان ميں سے جسكو اپ چاہيں كر ليں اور جس كو چاہيں اپنى پناہ ميں ركھيں اور جن كو الگ كر ديا ہے ان ميں سے بھى كسى كو چاہيں تو كوئي ہرج نہيں ہے ، يہ سب اسلئے ہے تاكہ ان كى انكھيں ٹھنڈى رہيں اور يہ رنجيدہ نہ ہوں ، اور جو كچھ اپ نے ديديا ہے اس سے خوش رہيں اور اللہ تمھارے دلوں كا حال خوب جانتا ہے ، اور وہ ہر شئے كا جاننے والا اور صاحب حكمت ہے ، اس كے بعد اپ كے لئے دوسرى عورتيں حلال نہيں ہيں اور نہ يہ جائز ہے كہ ان بيويوں كو بدل ليں چاہے دوسرى عورتوں كا حسن كتنا ہى اچھا كيوں نہ لگے ، علاوہ ان عورتوں كے جو اپ كے ہاتھوں كى ملكيت ہيں اور خدا ہر شئے كى نگرانى كرنے والا ہے_

خود يہى حكم خدا تھا جسكى ايات ميں وضاحت كى گئي ، اور نتيجے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے راہيں كھول دى گئيں كہ وہ خود ہى جس بات كى صلاح ديكھيں اقدام فرمائيں،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى جيسى مصلحت ديكھى ، اقدام فرمايا يہاں تك اپ كى وفات كے وقت اپ كى ازدواج كى تعداد نو تك پہنچ گئي ، ليكن يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ رسول خدا كے لئے نو عورتوں كى اجازت ہے اور دوسرے تمام مسلمانوں كو چار كى اجازت ہے _

۳۹

گذشتہ ايات ميں پيغمبر كى حدود ازادى بيان كى گئي اسميں حسن و زيبائي كو الگ كر كے خواتين معين كرنے كا حكم ديا گيا ، يہ مصلحت انديشى كے سوا كوئي دوسرا پہلو نہيں ہے ، شايد اسى دليل سے موجو د خواتين كو چھوڑ كر دوسرى اختيار كرنے كى اجازت نہيں دى گئي ، جبكہ مرد مسلمان كيلئے يہ بات جائز ہے كہ چار عورتوں كو چھوڑ كر دوسرى چار عورتوں سے عقد كرنے كيلئے طلاق كى اجازت ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس اختيار سے انسانى ضرورتوں كے انتظام كے لئے اسلام كے بلند مصالح اور معنوى سياسى ہدايت كے لئے عزت دار عورتوں سے استفادہ فرمايا ، ليكن جب فتح مكہ كے بعد اسائشے فراہم ہو گئي تو اسكے بعد رسول خدانے كسى بھى خاتون سے ازدواج نہيں فرمايا ، كيونكہ اس حكم خاص سے استفادہے كى كوئي ضرورت باقى نہيں تھى _

نتيجہ تحقيق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حالات ازدواج سے يہ بات روشن ہو جاتى ہے كہ انحضرت نے اپنى پچاس سال كى عمر تك جو انسان كى طبيعى توانائي كا حد كمال ہے صرف ايك خاتون سے شادى كى جو اپ سے پندرہ سال بڑى تھيں اور انھوں نے پينسٹھ سال كى عمر ُ،پائي تھى ، اپ اسى طرح مكہ ميں رہے يہاں تك كہ مدينے ميں ہجرت فرمائي اور بے سہارا مسلمان معاشرے كے انتظامى امور كى سنگين ذمہ دارى اپڑى _

جس زمانے ميں اوارہ وطن مومنوں كا گروہ اپ كى خدمت ميں اتا تھا كبھى انكى تعداد اسّى ہوتى جو مسجد كے صفّہ پر رہتے تھے ، بعض ان ميں شرمگاہ چھپانے بھر كے لباس سے بھى ٹھيك سے نہيں ركھتے تھے ، اسى زمانے ميں ايسى بے سہارا عورتيں بھى ہو گئيں جنكے شوہر جنگوں ميں مارے گئے ، وہ اپنے باپ كے گھروں ميں بھى واپس نہيں جا سكتى تھيں ، كيونكہ وہ ان كو خدا و رسول كا دشمن اور نجس سمجھتى تھيں ، خود وہاں ايسے حادثے معاشرے ميں گذر رہے تھے كہ اساس حيثيت سے عورتوں كا وجود بھارى بوجھ سمجھا جاتا تھا كيونكہ باپ اپنى بچيوں كو فاقے كے ڈر سے زندہ دفن كر ديتے تھے ، رسول خدا سے جنگ كے زمانے ميں بھى اپ كو شكست دينے كيلئے انكى بيٹيوں كو طلاق كى پيشكش كرتے تھے ، اخر كار نوبت يہاں تك پہونچى تھى كہ اگر بيوہ عورتوں كے باپ ہوتے تو اپنے ساتھيوں سے اصرار كرتے تھے كہ شادى كر ليں جيسے عمر كى بيٹى حفصہ كے ساتھ ايسا ہى ہوا _

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216