تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87128 / ڈاؤنلوڈ: 4298
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار جلد اول

دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مولف : سيد مرتضى عسكرى

مترجم : علامہ سيد على اختر رضوى گوپالپوري طاب ثراہ

۳

مولف كتاب پر ايك اجمالى نظر.

مولف كتاب علامہ سيد مرتضى عسكرى جمادى الثانى ۱۳۳۳ھ (مطابق ۱۹۱۴ ئ) ميں شہر سامرا عراق ميں پيدا ہوئے ، اپ كے والد سيد محمد اسماعيل جو عالم دين اور اية اللہ مرزا محمد شريف تہرانى عسكرى كے داماد تھے ايران كے شہر ساوہ سے ہجرت كر كے سامرا ميں مقيم ہو گئے تھے _

بچپن ہى ميں علامہ سيدمرتضى عسكرى كے سر سے باپ كا سايہ اٹھ گيا تھا _ اپ نے دس سال كى عمر ميں دروس حوزہى كا اغاز كيا ، ۱۳۵۰ھ ميں قم تشريف لائے اور يہاں درس كا سلسلہ شروع كيا اور اپنے كچھ ساتھيوں سے صلاح و مشورہ كے بعد تفسير و علوم قران احاديث غير فقہى اور كلامى كتابوں كے تدريس كى تحريك چلائي مگر اس ميں ناكامى كى وجہ سے دل برداشتہ ہو كر ۱۳۵۳ھ ميں دوبارہ سامرا واپس چلے گئے _

جب اية اللہ بروجردى كى مرجعيت كا اغاز ہوا تو اپنى ديرينہ خواہش كو عملى جامہ پہنانے كے لئے دوبارہ قم تشريف لائے _ مگر اس وقت كے سياسى حالات نے پھر عراق جانے پر مجبور كيا مگر اس بار اپ نے شہر بغدادكا انتخاب كيا اور چونكہ اية اللہ حكيم كى پورى پشت پناہى حاصل تھى لہذا عراق كے مختلف شہروں ميں شيعوں كے لئے ہاسپٹل ، لون دينے كے ادارے اور كتب خانے بنوائے ، بغداد ميں بہت بڑا ہاسپٹل اور اصول دين كالج قائم كئے _

علمى اور رفاہى فعالتيوں كے ساتھ ساتھ اپ كى سياسى فعاليت بھى بہت زيادہ تھى چنانچہ حكومت وقت كا مقابلہ كرنے كى خاطر علماء كى كميٹى بنام '' جماعة علماء بغداد الكاظميہ '' كى راہنمائي كرتے تھے _

اسى وجہ سے ۱۹۶۸ ھ ميں بعثى حكومت نے گرفتار كرنا چاہا مگر اپ مخفى طور سے بيروت چلے گئے ، اپ كے اساتيذ ميں اية اللہ اقا ميرزا حبيب اللہ اشتہاردى اور امام حمينى قابل ذكر ہيں _ اپ كے علمى فيوض كا سلسلہ اب بھى جارى ہے خدا اپ كو طول عمر عنايت فرمائے_امين

۴

تاليفات

۱_ احاديث ام المومنين عائشه ۴ج

۲_ خمسون ومئة صحابى مختلق ۳ج

۳_ عبد اللہ بن سبار اساطير اخرى ۲ج

۴_ معالم المستدرستين ۳ج

۵_ القران الكريم و روايات المدرستين ۳ج

۶_ عقائد الاسلام من القران الكريم ۳ج

۷_ قيام الائمة باحياء الدين ۱۴ج

۸_ دور الائمہ فى احياء السنة

۹_ مقدمہ '' مرا ةالعقول فى شرح اخبار ال الرسول ۲ج

۱۰_ مع ابى الفتوح التليدى فى كتابہ '' الانوار الباھرة ''

۱۱_ مع الدكتور الوردى فى كتابہ '' وعاظ السلاطين ''

۱۲_ اراء و اصداء حول عبد اللہ بن سبا و روايات يسف بن عمر

۱۳_ طب الرضا و طب الصادق

۱۴_ مصطلحات اسلاميہ

۱۵_ على مائدة الكتاب و السنة _ يہ كتاب درج ذيل ۱۹ رسالوں كا مجموعہ ہے _ السجدة على التربتہ ، البكاء على الميت ( اس كا اردو ترجمہ مولانا سيد على اختر صاحب طاب ثراہ نے كيا تھا جو شائع ہو چكا ہے )زيارة قبور الانبياء و الائمه و الصلحاء ، التوسل با لنبى و التبرك باثار ه، الصلاة على محمد و اله ، يكون لهذه الامة اثنا عشر قيماً، عدالة الصحابة، عصمة الانبياء ،البناء على قبور الانبياء و الاولياء ، الشفاعة ، البداء ، الجبر و التفويض و القضا ء و القدر ، صلاة ابى بكر ، المتعة او الزواج المو قت، حديث الكساء من طرق الفريقين ، تعليم الصلاة ، المصحف فى روايات الفريقين ، صفات الله جل ّجلاله فى روايات الفريقين ، اية التطهير فى مصادر الفريقين ، ان ميں كے اكثر رسالوں كے مو لف نے فارسى كا بھى ملبوس ديا ہے _ فارسى ميں اديان اسمانى و مسئلہ تحريف اور نقش ائمہ در احياء دين تحرير كى ہيں _

۵

كتاب حاضر

زير نظر كتاب '' احاديث ام المومنين عائشه '' كا ترجمہ ہے _ يہ كتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے شروع كى تين جلديں حضرت عائشه كے حيات و كارنامے سے متعلق ہيں اور چوتھى جلد ان سے مروى احاديث سے متعلق ہے جس كا اردو ترجمہ مولانا سيد محمد باقر صاحب مرحوم سابق مدير اصلاح كھجوا بہار نے كيا تھا اور وہ اسى ادارے سے شائع ہوئي تھى _

علامى مرتضى عسكرى نے اس كتاب ميں اس بات كى وضاحت كى ہے كہ بہت سارى احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں تناقض ہے اور ان ميں كى بعض حديثيں قرانى مفاہيم سے مطابقت نہيں ركھتى ہيں بلكہ ايسى بھى حديثيں ہيں جو عقل و منطق سے بہت دور ہيں كہ انہى سے دشمنان اسلام سوء استفادہ كرتے ہيں _

مو لف نے اس بات كى نشاندہى كى ہے كہ دور يزيد تك كى صحيح تاريخ اسلام كو سمجھنے كے لئے ضرورى ہے كہ حضرت عائشه كى روايتوں اور حديثوں كى پورى چھان بين كى جائے كيونكہ صدر اسلام ميں رونما ہونے والے حوادث ميں انہوں نے كليدى رول ادا كيا ہے ، اسى وجہ سے ان كى حديثوں پر تحقيق كرنے سے پہلے مو لف نے ان كے حالات تحرير كئے ہيں تاكہ اس روشنى ميں ان كى حديثوں پر ايك نظر كى جائے كيونكہ ان كى سيرت عام ازواج سے مختلف نہيں ہے _

نيز مو لف نے بڑے ٹھوس دلائل سے ثابت كيا ہے كہ حضرت عثمان كے قاتل حضرت عائشه ہيں كيونكہ خليفہ اول و دوم كى طرح حضرت عثمان كى بھى انہوں نے تائيد كى مگر بعض وجوہات كى بناء پر ان سے روٹھ گئيں اور لوگوں كو ان كے خلاف ورغلانے لگيں يہاں تك كہ ان كے قتل كا حكم دے ديا _

حضرت عثمان كے قتل كے بعد وہ حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت پر اتر ائيں اور اس سلسلے ميں كسى چيز سے دريغ نہيں كيا يہاں تك كہ نوبت جنگ جمل تك پہونچى اور اپ بہ نفس نفيس اس ميں شريك ہوئيں ، حضرت علىعليه‌السلام سے ان كا بغض اس حد تك پہونچ گيا تھا كہ جب شہادت حضرت علىعليه‌السلام كى خبر ان تك پہونچى تو وہ بوليں '' اج عائشه كى ديرينہ خواہش پورى ہو گئي''

حقيقت يہ ہے كہ حضرت عائشه كى حيات اور كارناموں سے متعلق اس سے جامع كتاب ديكھنے ميں نہيں ائي ، اسى وجہ سے مولانا سيد على اختر صاحب قبلہ گوپالپورى مترجم '' الغدير '' نے اس كا ترجمہ شروع كيا مگر ابھى تيسرى جلد كے ابتدائي چند صفحوں سے اگے ان كا ترجمہ نہيں پہونچا تھا كہ اجل نے مہلت نہيں دى اور چند دنوں كى علالت كے بعد اس دارفانى سے كوچ كر گئے خدا مرحوم كو جوار معصومينعليه‌السلام ميں جگہ عنايت فرمائے _ مرحوم كے بعد اس كتاب كا ترجمے كى تكميل كى ذمہ دارى پھر ميرے سر ائي ميں نے اس ارادے سے كہ ترجمہ ناقص نہ رہ جائے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ميں كتاب كو اردو كاملبوس دے ديا ہے خدا اس كو قبول فرمائے _

والسلام

سيد كرار حسين رضوى گوپالپوري

۶

پيشگفتار

درد اور درمان مرض

مسلمانوں كى لا چارى ، اپس كا تفرقہ و اختلاف اور اسلامى معاشرے كى الٹے پاو ں واپسى كا سب سے بڑا سبب تعصب شديد اور اندھى تقليد ہے اصطلاحى حيثيت سے جن لوگوں كو صلحائے قوم كہا جاتا ہے ان كا حد سے زيادہ احترام كيا جاتا ہے ان كى اخلاقى زندگى اور نفسياتى حالت كو تاريخ كے اوراق سے تلاش كرنے كى جرا ت نہيں جنكا مظاہرہ تمام جہات عصر ہى ميں ہوا _

تاريخ اسلام كى چودہ صدياں بيت گيئں ليكن مختلف سياسى عوامل كى وجہ سے حساس واقعات اور اہم حادثے جو اسلام كے اس تاريخى رفتار كے اصل محرك ہيں ; تمام مسلمانوں كے كانوں تك نہيں پہونچے جبكہ انكا ربط انھيں سے ہے_

اج كسى سے پوشيدہ نہيں كہ ہر معاشرے ميں اور ہر قوم كے درميان دين كے راستے سے غرضمند انہ كاروائي و نفوذ ;شخصى مفادات كى پيش رفت بہت اسان اور قطعى نتيجے سے قريب ہے _ اسى بنياد پر مطالب اور مفاہيم ميں تحريف كى جاتى رہى جھوٹى داستانيں گڑھ كے نشر كى گيئں _ حقيقت سے عارى مسائل بنا سنوار كر پھيلا يا جاتا رہا حقائق فہمى ميں الٹى چكى چلائي گئي _ خلاف واقع، واقعات گڑھے گئے_ ايسے ہى اور بہت سے طريقے تھے جو شخصى مفادا ت كى ترقى اور سياسى اھداف كى پيش رفت كے لئے ہر عہد اور ہر مملكت ميں برتے گئے_

ان وسيلوں سے مسلمانوں كے درميان جہاں تك ممكن ہوا اختلاف و تفرقہ كے ستو ن زيادہ سے زيادہ مستحكم كئے گئے اور ارباب اقتدار نے اپنے سياسى مقاصد كو چمكانے كيلئے پھوٹ ڈالنے كا ہر جتن كر ڈالا اور اختلاف كو مزيد جاندار بنانے ميں كوئي كسر نہيں اٹھا ركھي_

گذرتى صديوں كے ساتھ وہ مضا مين اور داستانيں; گڑھے ہوئے تحريف شدہ مسائل كو ذہنوں ميں راسخ كيا گيا ان كو نظريات و عقائد كى شكل ذہنوں ميں اتارا گيا سينہ بہ سينہ ، نسل در نسل منتقل كيا گيا _اخر كار اوضاع

۷

و احوال ايسے سامنے ائے كہ صديوں سے قوميں جسكى شاہد اور ناظر ہيں _

ايسى تاريخ وجود ميں ائي كہ صحت مند فكر يں سر بہ گريباں ہيں اور حقائق كى يا زيابى كيلئے حيران و پريشان ہيں_

علاج

يہ انحراف حقيقت محض تاريخ اسلام ہى سے مخصوص نہيں ہر مذہب وملت ميں تاريخ كا يہى حال ہے _ ليكن يہ بات طئے شدہ ہے كہ حقائق كو يكسرختم نہيں كيا جا سكتا ، انحرافى وسائل جسقدر بھى قومى ہوں انھيں پورے طور سے مليا ميٹ نہيں كيا جا سكتاليكن اس درميان جو چيز عام حالات سے زيادہ اھميت ركھتى ہے وہ يہ ہے كہ ان حقائق كو واپس لانے كى ہمت كى جائے ہزاروں باطل ميں سے حق كو پا ليا جائے_ قطعى دليلوں كے ساتھ جسے دنيا پسند كرے اسكا اعلان كيا جاے ا ور اسى كا پر چار كيا جائے _

عظيم دانشور جناب سيد مرتضى عسكرى نے اپنى مشھور كتاب احاديث ام المومنين عائشه كى تاليف كے ذريعے عظيم كام انجام ديا ہے_ اپ نے وادى حق و حقيقت كے پياسوں كو نئي راہ سجھائي ہے_ مولف نے تاريخ وحديث كى ڈھير سارى ايسى كتابوں سے جنكى صحت پر تمام دنيا كے مسلمانوں كو اتفا ق ہے ايسى قطعى دليلوں سے جسميں ذرا بھى شك اور ترديد كى گنجائشے نہيں صدر اسلام كے تاريخى حقائق پر مشتمل موجودہ كتاب تاليف كى ہے تاكہ عام لوگ اسكو پڑھكرخود ہى فيصلہ كريں_

ميں نے زير نظر كتاب كو (نقش عائشه در تاريخ اسلام )كے نام سے اس وقت جب بغداد ميں اپنى ذمہ داريوں پر مامور تھا_ مولف كے اشارے پر لكھا ليكن كئي سال تك اسكى اشاعت ملتوى رہى جيسے اس التواہى ميں بھلائي تھى كيونكہ اس عرصے ميں موجود ہ كتاب كئي حيثيتوں سے اصل عربى سے ممتاز ہو گئي _

ميرى خواہش سے اتفاق كرتے ہوئے مندرجہ ذيل باتيں شامل كر ديں _

۱_استاد حفنى دائودنے تقريظ كے عنوان سے جو تشريح كى اس كا ترجمہ كر كے گفتار مترجم كے بعد شامل كيا گيا _

۲_تعدد ازواج رسول كى حكمت پر مولف كے قلم نے اضافہ كيا

۳_زيادہ تر اشخاص پر اختصار كے ساتھ حواشى لكھے گئے تھے انكى بھر پور تفصيل و تشريح كى گئي_ ۴_ بعض نماياں افراد كا تعارف چونكہ تاريخ اسلام كى روش ميں نماياں كردار نبھا تا ہے اس لئے ان كوشرح كے ساتھ حاشيے كے بجائے متن ميں جگہ دى گئي ہے_ ۵_ سورئہ تحريم كامل طريقے سے شامل كيا گيا ہے اسكى شان نزول اور ماريہ كا واقعہ اختصار سے بڑھايا گيا ہے _

۸

اس كتاب كا ترجمہ بھى مولف محترم كى پسنديدہ روش كى پيروى ميں ہر قسم كے تعصب اور جذبات كى مداخلت سے عارى ہو كر انجام ديا گيا ہے اور تاريخى حقائق كو دخل وتصرف يا محبت ونفرت سے بھرى رائے ظاہر كئے بغير پيش كيا گيا ہے_ہوسكتا ہے كہ يہ نا چيز خدمت جو بڑى حد تك حقائق اور علل تاريخ اسلام كى رفتار سے اشنا كرانے والى ہے بار گاہ حضرت احديت اور ارباب علم وتحقيق كى نظر ميں شرف قبوليت حاصل كر لے_

اب جبكہ اس كتاب كى پہلى جلد عام قارئين كے فيصلے كيلئے ان كے ہاتھوں ميں پہونچ رہى ہے _اميد قوى ہے كہ صاحبان بصيرت وكمال اور ارباب نظر فرقہ بندى كى متعصبانہ اور جانبدارانہ رائے سے الگ ہو كر صحيح علمى بنياد سے سر شار اپنى استدلاتى تنقيد سے ناشر كو ضرور مطلع فرمائيں گے جو انشا ء اللہ بعض جلدوں ميں شائع كى جائيگي_

عطا محمد سردار نيا

تہران ۱۳۶۶ھ ش

۹

حقائق

ابن مسعود كا طريقہ نصيحت

صحيح ترين قول كتاب خدا ہے اور نجات كى راہ وہى ہے جسكى نشاندھى ہمارے سردار محمد مصطفےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كى ہے اور بد ترين عمل بدعت اپنانا ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے گمراہى كا نتيجہ اتش جہنم ہے_

عبداللہ بن مسعود اپنے عہد كے صحابہ اور شاگرد و تابعين كے سامنے انھيں باتوں سے اپنى گفتگو شروع كرتے اور دين كى علامتى باتيں سمجھاتے جس وقت وہ عالمانہ بات كرتے تو انكى نيت كا ہدف بہت بلند ہوتا تھا_

كيونكہ علماء دين طالبان حقيقت صرف حقائق سے سروكار ركھتے اور گمراہى اور غلط باتوں سے علحدگى اختيار كرتے ہيں--- وہ فرماتے ،حق پانے اور مقدس اسلام كا راستہ معلوم كرنے كا بنيادى طريقہ دو ہى طرح سے ممكن ہے_

كتاب خدا اور ا حا ديث رسول اس ميں پہلى چيز بلند اور مقدس ترين حقيقت ہے جس سے بہتر تو ماضى ميں حاصل كيا جا سكا نہ حال ميں ،نہ ايندہ ممكن ہے اسكا اعتبار نہ تو كچلا جا سكتا ہے نہ پامال كيا جا سكتا _اور نہ ايندہ پامال كيا جا سكے گا _

اور ايسا كيوں نہ ہو ؟جبكہ خدائے تعالے كى طرف سے نازل ہوئي ہے اسكى فصاحت و بلاغت اور تابناك حقائق كا جواب پيش كرنے سے تمام انسانوں نے عاجزى كا اقرار كيا_يہ قران حضرت محمد مصطفےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى نا قابل ترديد دليل بھى ہے _

دوسرى بنيادى چيز رسول خدا كى حديث ہے جنہوں نے كسى كے سامنے زانوء ے تلمذ تہ نہيں كيا انھيں كى زبان مبارك سے دنيا والوں نے اسمانى كتاب سنى اپ نے اپنى طرف سے كوئي بات نہيں كہى ،نہ كوئي حكم ديا ، اپ نے جو كچھ فرمايا ، جو بھى حكم ديا وہ وحى الہى كے سرچشمے سے شاداب تھا_

اپ كا ارشاد گرامى دلوں ميں اتر جاتا ،اور يہ صرف اسلئے تھا كہ خدائے پاك اپ كے قلب ميں سروش اسمانى القا كرتا تھا ،خدا وند عالم نے اپكى ستائشے كرتے ہوئے سيرت پر مہر كى ہے _

انك لعلى خلق عظيم ،_______اپ بلند ترين ا خلاق كے مرتبے پر فائز ہيں _

اس بنا ء پر جو كچھ ان دو معتبر سر چشموں سے حاصل كيا جائے وہ حقيقى اور واقعى ہے بہت وا ضح ہے اسميں كسى قسم كے شك وشبہ كى گنجائشے نہيں ،اور جو كچھ ان دوسرچشموں كے علاوہ كہيں سے حاصل كيا جاے وہ غير معتبر ہے اسے تنقيدى معيار

۱۰

پر پركھنا ضرورى ہے ،اسے جرح و تعديل كے مرحلے سے گذار كر اچھا برا الگ كرنا چاہيے _

شايد صاحب نظر قارئين نے اس جليل القدر صحابى كے حكيمانہ ارشاد كو نقل كرنے سے ہمارا مقصد سمجھ ليا ہو گا ،وہ مقدس اسلام كے معالم دين اور تشريح قوانين كے ذريعے سننے والوں كى توجہ كو براہ راست قران اور سنت رسول كى طرف مركوز كر كے انھيں دونوں چيزوں كى پيروى پر ابھارتے تھے كتاب خدا ، جسكے الفاظ ،عبارات وترتيب اور اسكى ظاہرى صورت پر سبھى متفق ہيں كسى قسم كا اختلاف نہيں، اور سنت وسيرت جو پاك نفس اور صالح افرادكے توسط سے متواتر طريقے پر رسول خدا سے حاصل كى گئي ہو ، ايسے معتبر لوگوں سے جن كے بارے ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دروغ بافى اور غلط بيانى كا شبہ نہ كيا جا سكے _

ہم حق اور اس كے طرفداروں كو پہچانيں

دوسرا مطلب جو اس حكيمانہ و صادقانہ گفتار سے ہميں ہاتھ لگتا ہے وہ يہ ہے كہ دونوں سر چشمے اسى كيفيت كے ساتھ ہر چون و چرا سے محفوظ قرار دئے گئے ہيں _ان دونوں پر تنقيد اور جرح وتعديل كى راہيں بند كر دى گئي ہيں حالانكہ بغير اسكے قدر وقيمت متعين كرنا، عقل وفرد كى مدد اور رہنمائي كے بغير اس كے بارے ميں كوئي فيصلہ صادر كرنا خوش فہمى كے سوا كچھ نہيں ،ہميں بحث و انتقاد اور چھان پٹك كرنا چاہيئے تاكہ غلط سے صحيح اور ٹھكرے سے موتى كو الگ كيا جاسكے اور جھوٹ كى تہوں سے حقيقت كى شناخت كى جا سكے ، اسكے مصادر اور راويوں كے بارے ميں كسى قسم كا خوف ظاہر كئے بغير رائے دينى چاہيے، چاہے وہ اسلامى معاشرے ميں كيسے ميں مرتبہ و مقام پر فائز ہو لوگوں كى نظر ہى كتنى ہى شان و شوكت والا ہو_

چاہے وہ صحابى رسول ہى ہو ، كيونكہ ہمارا مقصد اور ہدف صرف اور صرف حق اور حقيقت كا پتہ لگانا ہے_

بات يہ ہے كہ اصحاب رسول عدالت اور ياد داشت كے لحاظ سے يا رسول خدا كے الفاظ و عبارات كى حفا ظت و نگہدارى كے سلسلے ميں سب كے سب ايك ہى سطح كے نہيں تھے چونكہ تمام انسان بھول چوك يا غلطى و لغزش سے دو چار ہو جاتے ہيں اسلئے اكثر صحابہ سنت وقول وبيان كرنے ميں غلطى ولغزش كا شكار ہوئے ہيںبعض كا حافظہ قوى تھا ليكن ان سے چوك ہو گئي اكثر با ايمان اور مستحكم عقيدے والے تھے اور ايك گروہ سست عقيدہ اور پرا كندہ خيال تھا كچھ

۱۱

رسول خدا كے مخلص اور خدائي تھے اور دوسرے كچھ ان كے مقابل منافق اور دوسرے كردار والے تھے _

قران بھى اس نكتے كى تائيد كرتا ہے اسكا فرمان ہے

بعض ديہاتى بدو جو تمہارے ارد گرد ہيں، يہ منافق ہيں اور بعض اہل مدينہ بھى نفاق ميں ڈوبے ہوئے ہيں، تم ان كو نہيں پہچانتے ،ہم انھيں پہچانتے ہيں، انھيںہم دوہرا عذاب ديں گے پھر وہ درد ناك عذاب ميں كھينچے جائيں گے(سورہ توبہ ۱۰۱)

جب صدر اسلام كى يہ صورتحال ہے تو ہم تمام اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ايك نظر سے نہيں ديكھ سكتے اور صدر اسلام كے علمبر دار وں كے بارے ميں پاك صاف ہونے كا عقيدہ نہيں ركھ سكتے_

كيونكہ انسان نے جب سے روئے زمين پر نمودار ہو كر معاشرہ تشكيل ديا ،اس نے اعلى درجے كى پاك دامنى اور عدل گسترى كا مظاہرہ كيا اور اس كے ساتھ ادنى درجے كے نفاق اور دوغلاپن سے بھى خالى نہيں رہا ،تاريخى قرائن اور مختلف معاشرتى تجزيے جو ہاتھ لگے ہيں ان سے معلوم ہوتا كہ پيدائشی ادم سے اجتك اسى نظر يئے كى تايئد ہوتى ہے ،ليكن اتنا ضرور ہے كہ راہ حق كے لئے انداز تبليغ كى گونا گون نيك نامى حضرت محمد مصطفيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے اصحاب ميں درجہ كمال تك پہونچى ہوئي تھى كيونكہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زيادہ وسيع اور استوار قانون كسى نے پيش نہيں كيا ،اور اپ سے زيادہ كسى پيغمبر كو دين كے سلسلے ميں پھر ارشاد ہوا اپ ياد دہانى فرمايئے ان لوگوں كو ،كيونكہ اپ كا دم ہى لوگوں كو ياد دہانى كراتا ہے (اعلى ۹)

اس قسم كى دسيوں ايات ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ بشريت كا عظيم مصلح تمام لوگوں كى ہدايت ورہنمائي كے سلسلے ميں شديد ارزو مند تھا ،انحضرت اپنى شفقت ورحمت سے گمراہى ميں سر گرداں تمام لوگوں كى عمومى ہدايت كے خواہاں تھے ليكن سبھى كو راہ حق نہ مل سكى اور كچھ لوگ رہروان طريق حق سے الگ رہ گئے_

تكيہ گاہ اسلام

اس تقسيم كے تمام مراتب ہمارى نظر ميں واضح نقشہ پيش كرتے ہيں كہ اسلام كى عظمت وجلالت اسكى تعليمات وقوانين پر استوار ہے اپنے ماننے والوں پر نہيں ،اور يہ شان و عظمت لوگوں كى پيروى و تايئد سے نہيں پيدا ہوئي ہے كہ جب

۱۲

موقع پائيں اسلام كو نقصان پہونچاديں اور معاشرے سے اسلام كو اكھاڑ پھينكنے كا اقدام كريں _

خود ميرا عقيدہ ہے كہ اگر تمام دنيا والے اسلام سے جنگ وجدال پر امادہ ہو جائيں اور اسے مليا ميٹ كرنے كيلئے اپنى كمرچست كر ليں اور ايك اواز ہو جائيں تب بھى اسلام كو ذرہ برابر نقصان نہيں پہونچا سكتے اور نہ اسلام كى معنوى عظمت وجلالت كو ذرا بھى كم كر سكتے ہيں ثبات قدم دكھانے والے اتنى بڑى تعداد ميںاصحاب حاصل نہيں ہوئے_

ليكن يہ افتخار كہ انحضرت كے ساتھ تنہا مصاحبت اورہمدمى بہرحال اپكے اصحاب كے شامل حال ہے اور اسى وسيلے سے انہوںنے با عظمت مقام حاصل كيا يہ اس بات ميں ركاوٹ نہيں بنتا كہ انھيںاصحاب ميں ايسے لوگ بھى موجود ہوں جو انحضرت كے قوانين ميں خلل ڈاليں ،اور اپ كى شريعت كى پا بندى نہ كريں اسى بناء پر اسكى كوئي دليل نہيں كہ بزرگان اسلام يا جو لوگ پہلے گذر چكے انھيں صرف اسلئے نقد و تحقيق كے قانون كلى سے مستثنى قرار ديديا جائے كہ وہ رسول كے صحابى تھے ،كيونكہ تمام صحابى عدالت كے اعتبار سے مساوى درجہ نہيں ركھتے تھے ،اسى طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ارزو ں كے بر خلاف اور انكى سخت كوششوں كے با وجود كہ تمام لوگ شاہراہ ہدايت و كمال پر گامزن ہو جائيں _

ان ميں ايسے لوگ بھى پائے جاتے تھے جن كے دلوں ميں اسلام كى ہوا بھى پہونچنے نہيں پائي تھي، خاص طور سے ايسے افراد بھى تھے جنھوں نے كفر و نفاق كو اسلام كى اڑ ميں چھپا ركھا تھا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس بلند فكر اور سچى شديد وابستگى كا رد عمل قران نے مختلف مواقع پر بيان كيا ہے_ ايك جگہ ارشاد ہوا اپ نصيحت كئے جايئے كيونكہ اپ كا كام صرف نصيحت كرنا ہے اپ لوگوں پر مسلط نہيں ہيں (غاشيہ ۲۱)

دوسرى جگہ ارشاد ہوا ،اپ جسے پسند كريں اسے ہدايت نہيں كر سكتے بلكہ خدا ہى جسے چاہتا ہے ہدايت فرماتا ہے(قصص ۱۵۶) اسى طرح اگر تمام دنيا والے اسلام كى عظمت بڑھانے پر ايك رائے ہو جائےں، تو بھى ذرہ برابر عظمت ميں اضافہ نہ ہوگا كيونكہ رمز اسلام خود اسلام كے بلند اصولوں ميں ،اور اصولوں كا راز خود اسلام ميں پوشيدہ ہے اسلام ماننے والوں كى صورت و شكل ميں نہيں ہے اور يہ ايسا نكتہ ہے جسے صرف حقيقى علماء اور دانشور ہى سمجھ سكتے ہيں اسلئے ، اگر سلف كے بزرگوں اور اصحاب رسول كے بارے ميں بحث و تنقيد كى جائے، محققين انكى زندگى اور رفتار و گفتار كا تجزيہ كريں تاكہ اچھے برے كو عالم اسلام سے متعارف كرائيں تو كسى حيثيت سے بھى اسلام اور اسكى حقيقت معنوى كو نقصان نہيں پہونچے گا، بلكہ اسلام تو اسكو جائز سمجھتا ہے كيونكہ وہ خود احكام ميں عدالت كا نقيب ،اور تمام افراد بشر كو قانونى اعتبار سے يكساں سمجھتا ہے خاص طور سے حقيقت كى تلاش اور لوگوں كى رہبرى كے سلسلے ميں اس

۱۳

قسم كى بحث و تحقيق اور تنقيد كا اصرار كے ساتھ حكم ديتا ہے _

ہم دور كيوں جائيں ، عالم انسانيت كے عظيم مصلح حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى حكيمانہ ہدايت كے ضمن ميں براہ راست اور بالواسطہ ہميں تشويق فرماتے ہيں كہ ہم نفس حقيقت كے در پئے رہيں ، صرف اس حيثيت سے كہ حق ہے اسے مانيں اور اسكى حمايت كريں اس بارے ميں افراد كو نظر انداز كر ديں چاہے وہ كم مايہ اورپست ہو _

اور باطل كے خلاف ہوں ،اسكو مليا ميٹ كرنے كيلئے قيام كريں چاہے وہ شريف اور معزز شخص كى زبان سے جارى ہو حدود الہى كے نفاذ ميں شريف اور رذيل كے درميان فرق نہ كريں_

محمد مصطفى اور نفاذ عدالت

احاديث صحيحہ ميں ايا ہے كہ اسامہ بن زيد يہ دونوں ہى باپ بيٹے رسول خدا كى نظر ميں بلند مرتبہ تھے انھوں نے انحضرت سے قريش كے ايك شريف ،عورت كے بارے ميں رسول اكرم سے سفارش كى جس نے چورى كى تھى اسامہ نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں عرض كى كہ حد شرعى نافذ نہ كيا جائے ليكن مصلح بزرگ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت پر حد شرعى جارى نہ ہونے كى سفارش مسترد كر دى اپ نے اس سلسلے ميں مشھور فقرہ فرمايا :

اے لوگو تمہارے گذرے لوگوں نے اپنى تمام باتوں كو نظر انداز كيا ان لوگوں كا اگر شريف اور عزت دار چورى كرتا تھا تو چھوڑ ديئے اور كمزور ،گمنام شخص كو سخت سزا ديتے تھے خدا كى قسم اگر محمد كى بيٹى نے بھى چورى كى تو ميں اسكے ہاتھ كاٹوں گا _

ان لا جواب بيانات كے ساتھ عدالت و مساوات كے بانى رسول خدا نے اس شريف مخزومى خاتون كے بارے قوانين الہى كے حدود معطل كرنے سے انكار كر ديا باوجود اسكے كہ وہ اپنى قوم و قبيلے ميں بلند نسب اور معزز تھى _

ا س طر ح سے رسول خدا نے اشتراكى فلسفيوں كے طبقاتى اختلافات ختم كرنے كى جد وجہد كے سيكڑوں سال پہلے اسے ختم كر ديا _انحضرت نے جس وقت عدل ومساوات كے قانون كا اعلان فرمايا ، سب كو قانون كى نظر ميں يكساں بتايا ،خود اپ نے توانا اور مقتدر ظالموں كے خلاف دبے كچلے بے پناہ تقوى شعاروں كى مدد كى _

يہ قانون بہت واضح طريقے سے قران و احاديث ميں بيان كيا گيا ہے_قران فرماتا ہے_

اے لوگو ہم نے تمہيں ايك مرد اور ايك عورت سے پيدا كيا ہے اور پھر تمہارى قوميں اور برادرياں بنا ديں

۱۴

تاكہ تم ايك دوسرے كو پہچان سكو در حقيقت اللہ كے نزديك تم ميں سب سے زيادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زيادہ پرہيز گار ہے (حجرات ۴۹ايت ۱۳)

اور حديث قدسى ميں ہے

جو شخص بھى ميرے احكام پر عمل كرے اسكا ٹھكانا بہشت ہے چاہے وہ حبشى غلام ہى ہو، اور جو شخص نا فرمانى كرے اسكا ٹھكانا اتش دوزخ ہے ، چاہے وہ قريش كا با عزت ہى ہو _

رسول خدا كى زيادہ تر احاديث ميں اس كمال انسانيت و عدالت كے شاندار نمونے موجود ہيں _

محمد مصطفى كے قريب و بعيد ساتھي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں ايندہ كے بارے ميں پيش گوئي فرمائي ہے اور مستقبل كے چہرے سے پردہ اٹھايا ہے تو اپنے بعد كے اصحاب كى اسطرح تو صيف فرمائي ہے _

بہت سے لوگ پسنديدہ طريقے سے راہ حق پر گامزن رہيں گے اور اكثر منحرف ہو جائيں گے ، كچھ حق كے خلاف قيام كريں گے اور ايك گروہ ظلم و سركشى كا طريقہ اپنائے گا _

عمار ياسر كو مخاطب كر كے فرمايا ،اے عمار تمہيں ظالم اور باغى گروہ قتل كرے گا _

حضرت علىعليه‌السلام سے فرمايا اے عليعليه‌السلام كيا تم اولين و اخرين كے سب سے بد بخت انسان كو پہچانتے ہو ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا خدا و رسول بہتر جانتے ہيں

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اولين ميں شقى ترين وہ شخص تھا جس نے قوم ثمود كا ناقہ پئے كيا اور اخرين شقى ترين وہ ہو گا جو تمہيں قتل كرے گا(۱)

ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے كہ بغير شك اور ترديد كے انحضرت كے اصحاب مرتبہ و مقام كے اعتبار سے عام لوگوں كى طرح فرق مراتب ركھتے ہيں كچھ انسانيت كے اعلى مرتبہء كمال و تقوى پر فائز ہوئے اور كچھ پستى اور تباہى كے گڑھے ميں رہ گئے، تمام اصحاب رسول كو انحضرت كى صحبت كا شرف پانے سے يكساں افتخار حاصل نہ ہو سكا وہ حقيقت و كمال كى راہ پانے ميں ايك دوسرے كے برابر نہيں ہيں _

۱۵

جب يہ صورتحال ہے تو كيا يہ قانون كہ اصحاب اور تمام لوگ دين اسلام كى نظر ميں برابر ہيں ،اور فضيلت و بزرگى انہيںلوگوں كو حاصل ہے جو پرہيز گار ہيں اور قوانين اسلام پر عمل كرتے ہيں ،كيا يہ ان لوگوں كيلئے بھر پور ترين دليل نہيں ہے جن سے ابھى احتياط كا طريقہ نہيں چھوٹا ہے كہ اصحا ب رسول كى شخصيا ت كے بارے ميں بحث و تنقيد كى جائے ؟

صحابى نے جب تك راہ حق نہيں چھوڑا اور مقدس قانون اسلام سے انحراف نہيں كيا ہے صرف اسلئے كہ وہ صحا بى رسول ہے ،اسے كسى طرح بھى مفيد نہيں ،جسطرح اج كے لوگ جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كافى زمانى فاصلہ ركھتے ہيں ،اگر وہ اسلام كے مقدس قانون پر عمل كريں اوراسلام ان كے رگ وپئے ميں رچ وبس گيا ہے تو ان كا صحابى رسول نہ ہونا كسى طرح بھى نقصان رساں نہيں ،واقعيت يہ ہے كہ بہت سے ايسے افراد ہيں جو بظاہر نزديك ہيں ليكن معنوى حيثيت سے دور ہيںاور بہت سے افراد ہيں جو بظاہر دور ہيں ليكن بباطن نزديك ہيں ،ميرا تو عقيدہ يہ ہے كہ ہم اور اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعوت حق اور تبليغ دين وشريعت كے معاملے ميں يكساں اور برابر ہيں ،ہاں اصحاب رسول نے سب سے بڑا امتياز جو انحضرت كى صحبت سے حا صل كيا وہ ہے رسول خدا كے ديدار كا فايدہ ،اور مستقيم قانون كو صاحب شريعت سے حاصل كرنا _

يہ بات پيش نظر رہنى چاہيے كہ يہ امتياز دو صورتوں سے خالى نہيں ،ايك تو عظيم نعمت يہ كہ انہوں نے صحبت كا فيض اٹھايا ،اور مستقيم قانون بے واسطہ طريقے سے رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل كيا اور دوسرے يہ كہ اس صحابى كے لئے يہ چيز لا جواب دليل و حجت ہے _

چنا نچہ اگر صرف رسول اكرم كى صحبت بروز قيامت سرمايہ حصول شفاعت ،يا صحابى كو بحث و تنقيد سے بچا كر مسلمانوں كو ان كے موافق يا مخالف فيصلہ كرنے سے روكنے والى ہوتى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر گز اپنى پارئہ جگر كے بارے ميں وہ تاريخى اور ابد اثار خطاب نہ فرماتے كہ اے فاطمہ اے دختر رسول ،تو جو كچھ چاہتى ہے مجھ سے سوال نہ كر كيو نكہ عدل الہى كى بارگاہ ميں رسول كى بيٹى ہوناكچھ بھى مفيد نہيں(۱)

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ تاريخى بيان اپنى بيٹى سے اس دن فرمايا ،جب ايہوانذ ر عشيرتك الاقربين (اے رسول ،اپنے قريبى رشتہ دار وں كو ڈرايئے ) نازل ہوئي تھي

۱۶

جى ہاں ،رسول خدا نے عدل و مساوات كا جو بلند اصول لوگوں كيلئے پيش كيا تھا وہ احكام و حدود كے نفاذ ميں سب كو ايك نظر سے ديكھتا ہے_

حفنى دائود كى نظر ميں مولف كتاب

كچھ دن پہلے مرد فاضل و محقق جناب مرتضى عسكرى نے اپنى كتاب ( احاديث ام المومينين عائشه كو علماء و حق اگاہ محققين كے سامنے پيش كيا تھا ، انھو ں نے خاص طور سے اپنى كتاب كو دو جلد وں ميں ايسے قارئين كے سامنے پيش كيا جن كا سراپا وجود حقيقت كا متلاشى اور سچے دل سے فلسفہء تاريخ اسلام اور اس كے علل اور تاريخ تشريع كے ساتھ اس كے اصول سمجھنے كے خواہشمند ہيں

بات اجاگر كے درميان ايسا مشاہدہ كيا كہ جناب ام المومنين عائشه كے گردا گردنا قابل ترديد مدار ك و ماخذ ہيں ،كہ اگر صرف انھيں مدارك پر توجہ كى جائے تو حق وحقيقت كے بارے ميں اپنے افكار و عقائد كے سلسلے ميں ازادانہ رائے قائم كى جا سكتى ہے _

اگر چہ يہى حق گوئي حقيقت طلبى بجائے خود كوتاہ فكروں كى نظر ميں نا قابل معافى جرم ہے اگر اصحاب ميں سے كسى كے خلاف جو انھوں نے ان كا مقام متعين كرديا ہے اس كا تحليل و تجزيہ كيا جاے تو كبھى معاف نہيں كر سكتے _

اقائے عسكرى نے اس كتاب ميں بھر پور طريقے سے محققين اور تجزيہ نگار وں كى روش اپناتے ہوئے تنظيم و ترتيب ميں عرق ريزى كى ہے اور اس كے مقدمہ ميںان تمام مشكلات اور ركاوٹوں كى تشريح كى ہے جو حقائق و اشگاف كرنے ميں حق كے متلاشى كى راہ ميں پيش اتى ہيں _

منجملہ يہ كہ ممكن ہے كوئي محقق اپنے احساسات و جذبات كا پابند ہو ، اور ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر ايك شخصيت كو دوسرى شخصيت پر متعصبانہ طريقے سے برترى ديدے ، حالانكہ حقيقت اس كے بر خلاف ہو ،اس كے ساتھ وہ خاص مقصد كو پيش نظر ركھتا ہو ،اور حق كو يہ طريقہ بعض اہل قلم نے اپنايا ہے جو چاہتے ہيں كہ دو مخالف راويوں كے درميان مطابقت پيدا كريں ،ممكن ہے يہ مطابقت بظاہر خوش ايندہو ، ليكن يہ بات طئے شدہ ہے كہ حق دو متخالف اور متناقض ارا كے درميان جمع نہيں ہو سكتا ہے ،،

۱۷

اقاى عسكرى نے ہر ممكن كوشش كى ہے كہ اپنے سلسلئہ مباحث ميں اس قسم كے عيوب سے جو ہر محقق كى تحقيق ميںسامنے اتى ہے دور رہيں ان كا مقصد متعين ہے ،اور وہ اسى كے تعاقب مين موضوع سے باہر نہيں نكلتے ہيں انھوں نے اپنے دائرئہ كار كو اشخاص اور مقامات كا پابند نہيں بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد اصلى صرف حق اور حقيقت معلوم كرنا ہے اور اسى كے ا رد گرد رہے ہيں_

اس كے علاوہ انھوں نے اپنے ذاتى احساسات و جذبات سے الگ رہنے كى ہر ممكن كوشش كى ہے انھوں نے صرف عقل كو جج بنايا ہے،،

انھوں نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر فضيلت دينے كا ذرا بھى پتہ نشان نہيں ،ذرا بھى مبالغہ نہيں ،، اگر كہا جائے كہ اقاى عسكرى بحث و تحقيق كى ڈگر ميں، اس كتاب جو چيزمحققين كو اپنى طرف مائل اور تعريف و تحسين پر امادہ كرنے والى ہے وہ يہ كہ انھوں نے كوشش كى ہے كہ اس علمى بحث ميں قانون كلى كى رعايت كريں ،اور احاديث ام المو منين مكمل حزم و احتياط كے ساتھ تحليل و تجزيہ كر كے حقيقت كو اشكار كيا ہے _

قتل على اور شكر عائشه،،

تاريخى قرائن ہميں مجبور كرتے ہيں كہ ام المومنين كى احاديث پر شك اور ترديد كريں جسے وہ احاديث جن ميں خلافت شيخين كا تذكرہ ہے اور حضرت عليعليه‌السلام كا نام نہيں ليا گيا ہے اسى طرح وہ احاديث جن ميں فضائل شيخين و عثمان اور حضرت عليعليه‌السلام روشن مذكور ہے ان ميں بلا شك وشبہ جذبات اور جانبدارى برتى گئي ہے ،، كيو نكہ ابو بكر اور ان كى نسبت باپ اور بيٹى كى ہے اسى طرح انھوں نے عمر كى باتيں كہى ہيں اور عليعليه‌السلام كا تذكرہ كيا ہے جو ابوبكر وعمر كے رقيب تھے ،ان ميں بد ترين فرق ہے _

پھر عثمان كے خلاف ان كى جد جہد لوگوں كو قتل عثمان پر ابھارنا اور پھر انھيں كے قتل كا انتقام لينے كے لئے قيام كرنا بھى مضبوط دليل ہے جو ہميں اس بات پر مجبور كرتى ہے كہ ان كى تمام احاديث كو شك اور ترديد كى نگاہ سے ديكھيں،اسى طرح وہ اقدامات جو انھوں نے حضرت على كے خلاف كيں علىعليه‌السلام كے دشمنوں كى كمك ،طلحہ و زبير كہ جنھوں نے عليعليه‌السلام كى بيعت توڑ دى تھى ،ايك پليٹ فارم پر لانا،جنگ جمل كى اگ بھڑ كانا _ يہ تمام باتيں بجائے خود اس بات كا واضح ثبوت ہيں كہ انھيں على جيسے پرہيز گار سے ديرينہ عداوت تھى اور اسى وجہ سے مسلمانوں كے گروہ ميں تفرقہ و اختلاف پيدا ہو ا ان كے دل ميں على كى ايسى نفرت تھى جو كبھى چين سے بيٹھنے نہيں ديتى تھى ،يہا ں تك كہ قتل على كى خبر سن كر سجدئہ شكر ادا كيا اور يہ شعر بطور تمثيل پڑھا،،

۱۸

فالقت عصاها و استقر نها النوي كما قر عينا بالاباب المسافر

اس نے دوڑ دھوپ ختم كر دى اور چين پاليا جسطرح مسافر كى اپنے ٹھكانے پر پہونچكر انكھيں ٹھنڈى ہوتى ہيں _

انكى تمام احاديث اسى قسم كے اہم ترين تاريخى وقائع سے وابستہ ہيں جن پر بڑى حزم و احتياط برتنى چاہيئے انكى شخصيت اور ان كے ميلانات سے قطع نظر كركے حقائق دريافت كرنے كى كوشش كرنى چاہيئے _

حجابيت كے رخ سے بھى دوسروں كى طرح صحيح يہ ہے كہ وہ فتوى و اجتہاد ميں لغزش و خطا سے دوچارہوئي ہوں كيو نكہ ادمى چاہے وہ كوئي بھى ہو جب تك اپنى رائے اور سليقے پر عمل كر رہا ہے ممكن ہے كہ خطا و صواب كا نشانہ بنے ليكن محقق يہ حق نہيں ركھتا كہ عقل و درايت كو كنارے ركھ كر بزرگوں كى شخصيت كے مقابلے ميں اپنے كو چھوٹا بنا لے اور حقائق چھپا ئے_

اس بات كى اجازت نہيں ہے كہ نظريات و اجتہاد كے خطا وصواب كو اہميت ديكر سب كو يكساں شمار كرے بلكہ ضرورى ہے كہ تمام مفہوم حقيقت كو بيان كرے

اسى طرح جب تك ہم حق ديںہر مجتہد ميں امكان ہے كہ وہ لغزش و خطا سے دوچارہو جائے اور عدل الہى كى بارگاہ ميں باز پرس كى جائے ،ام المومنين بھى اس قاعدے سے مستثنى نہيں ہيں ان پر ظلم نہيں ہے ،بلكہ علمى و تحقيقى نقطئہ نظر سے ستم يہ ہو گا كہ عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عائشه كے بارے ميں ہم جانبدارانہ فيصلہ كريں اور دونوں كو عدالت ميں يكساں سمجھ ليں ،اور حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اجتہاد ميں صحيح و صواب راستہ اختيار كيا(۱) ان دوسرے لوگوں كے مقابل جنہوں نے اجتہاد ميں غلطى كى جيسے عائشه و معاويہ اور دوسرے اصحاب جنہوں نے حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كى اور مخالف كا راستہ اپنايايكساں سمجھ ليا جائے_

حضرت علىعليه‌السلام خدا كو حاضر و ناظر جانتے تھے

حضرت على اس جہت سے كہ اپ باب مدينتہ العلم اور وصى محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں اسى طرح سے نہ اس حيثيت سے كہ بھر پور قدرت بيان اور واضح لہجے ميں حق بات كہتے تھے اور اس پر وہ جم بھى جاتے تھے اور يہ دين انھيں سے توانا ہوا اور حيثيت تشكيل پائي ،_نہيں_ ان تمام باتوں سے قطع نظر وہ ہر حيثيت سے تمام صفات كمال كے جامع تھے_

جس چيز نے على كو ان تمام امور سے بالا تر قرار ديا يہ تھا كہ وہ برابر اپنے كردار و گفتار ميں خدا كو حاضر و ناظر جانتے تھے ،

۱۹

اور مسلمانوں كى مصلحتوں كے مقابل اپنى ذات ميں شدت پسند تھے ،وہ مسلمان معاشرے كے عام دنياوى فائدوں كو اپنے دنياوى فائدے پر ترجيح ديتے تھے_

اپ كے دوران خلافت ميں بلند ترين مراتب انسانيت ايك ذات ميں سمٹے ہوئے نظر اتے ہيں _

وہ اپنے اس دور ميںخاص طور سے لباس اور خوراك، احكام ميں عدالت، فريبى دنيا كے مظاھرات سے كنارہ كشى كا كامل نمونہ تھے_

دوسروں نے عہد ئہ خلافت حاصل كرنے كى كوششيں كر ڈاليں ،جبكہ خلافت خود حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف دوڑى ائي ،دوسروں نے اپنے اور رشتہ داروں كے فائدوں كو مصالح عامہ پرترجيح دى ، جبكہ اپ نے عام لوگوں كے فائدوںكو اپنے اور رشتہ داروں پر ترجيح دى _

عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت كوفے ميں تھے ،عقيل بن ابى طالبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بھائي كى خدمت ميں ائے حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے كہا :

اے بھائي بڑے اچھے ائے ،كس لئے كوفہ ائے ہو؟

جو مشاہرہ مجھے ملتا ہے وہ ميرى معيشت كےلئے نا كافى ہے ، زيادہ خرچ كا بو جھ ہے جسكى وجہ سے بہت زيادہ قرض لد گيا ہے ميں اس لئے ايا ہوں كہ ميرى مدد كيجئے _

خدا كى قسم اپنے مشاہرہ كے علاوہ ميرے پاس كچھ نہيں ،صبر كيجئے مال غنيمت تقسيم كرنے كا وقت ايئگا تو ميں اپ كو دوں گا _

ميں حجاز سے يہاں تك صرف اسى اميد پر ايا ہوں كہ كچھ نقد حاصل كر لوں گا اپ كا مشاہرہ ميرے درد كى دوا كيا كر سكے گا ، اور ميرا كون سابوجھ ہلكا كرے گا ،امام نے بھائي كو جواب ديا ،

كيا اپ اس كے علاوہ بھى ميرے گھر ميں مال دنيا سے كوئي چيز ديكھ رہے ہيں ،؟ يا اپ اس اميد پر بيٹھے ہيں كہ ميں مسلمانوں كا مال اپ كو دے دوں گا اور ميرا خدا اس صلئہ رحم كے بدلے اتش جہنم ميں جلائے گا _

كسى ترديد كے بغير ،علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جسے پرہيز گار كے عدل و انصاف كو برداشت كرنے كى عقيل ميں طاقت نہيں تھى ،وہ معاويہ كى خدمت ميں پہونچ گئے جس كے يہاں حلال و حرام كا فرق نہيں تھا ،وہ مسلمانوں كے بيت المال كو ذاتى ملكيت سمجھتا تھا _

يہ واقعہ خود ہى ھمارى رہنمائي كر تا ہے كہ حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شخصيت كيا تھى وہ كس قدر پر ہيز گار تھے ،اور عمومى منافع كو خود اور اپنے سے وابستہ افراد كے مصالح پر ترجيح دينے ميں ان كا پا يہ كس قدر بلند تھا، بے باكانہ قسم كھائي جا سكتى

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216