تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه36%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87174 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

شيخ ابو يعقوب نے اس طرح كہا :

فاطمہ كى سوتيلى ماں

پہلى بار عائشه و فاطمہ كے درميان كينہ و دشمنى اسطرح شروع ہوئي كہ رسول خدا نے خديجہ كے انتقال كے بعد عائشه سے عقد فرمايا ، خديجہ كى جگہ عائشه كو ملى حالانكہ فاطمہ حضرت خديجہ كى بيٹى تھيں اور يہ بات ظاہر ہے كہ جس بيٹى كى ماں مر جائے اور اسكا باپ دوسرى شادى كرلے تو اس بيٹى سے باپ كى دوسرى زوجہ سے تعلقات ٹھيك نہيں رہتے ، اور يہ بات فطرى اور مسلم ہے ، كيونكہ ہر عورت اپنے شوہر كى پہلى زوجہ كى اولاد سے دشمنى كا برتائو كرتى ہے ، خاص طور سے ايسى حالت ميں كہ جب شوہر كى پہلى زوجہ سے شديد وابستگى كا مظاہرہ ہو

اسى طرح اگر بيٹى باپ كو دوسرى عورت كى طرف توجہ كرے اسكى سوتيلى ماں ہو تو غمگين اور نگراں رہتى ہے ، باوجود يكہ خديجہ دنيا سے گذر چكى تھيں ليكن بہر حال عائشه حضرت فاطمہ كى سوتيلى ماں تھيں ، اگر خديجہ زندہ ہوتيں اور عائشه كے قدم پيغمبر كے گھر ميں ائے ہوتے تو دشمنى اور لڑائي سخت اور شديد ہوتى ، ليكن جبكہ ماں كا انتقال ہو چكا تھا تو يہ دشمنى وراثت ميں فاطمہ كو ملى تھى _

دوسرى طرف ديكھئے كہ كہا جاتا ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا عائشه سے بہت محبت فرماتے تھے(۱۳) انكى بہت مراعات فرماتے ، يہ بنيادى چيز كہ رسول جس قدر عائشه سے زيادہ محبت فرماتے اسى قدر حضرت فاطمہ كا رنج و اندوہ بڑھتا جاتا ، احساسات مجروح ہوتے رہتے_

فاطمہعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پياري

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنى بيٹى فاطمہ كو لوگوں كى توقع سے زيادہ پيار كرتے اور تعظيم فرماتے ، اور عام ادمى جسقدر اپنى بيٹى سے اظہار محبت كرتا ہے اسى سے كہيں زيادہ محبت فرماتے ، يہ پدرانہ شفقت و محبت حد سے زيادہ اور كہيں زيادہ نظر اتى ہے _

____________________

۱۳_ عائشہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى محبت كے سارے افسانے تنہا عائشہ سے مروى ہيں اور ميں انشاء ا اگلے صفحات ميں ان پر تبصرہ كروں گا _

۶۱

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا چاہے وہ عام نشست ہو يا خاص ، مختلف موقعوں پر بارہا فرما چكے تھے ، فاطمہ تمام عالمين كى عورتوں كى سردار ہے ، وہ مريم بنت عمران كى مانند ہے(۱۴)

جب فاطمہ عرصہ محشر سے گذرينگى تو عرش كى جانب سے منادى پكارے گا اپنى انكھيں بند كر لو كہ فاطمہ تمھارے درميان سے گذرنے والى ہيں(۱۵)

اس قسم كى تمام احاديث ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كيا جا سكتا فاطمہ اور على سے شادى بھى خدا وند عالم نے مقرب فرشتوں كو گواہ بنا كر اسمان پر فرمائي تھى(۱۶)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اكثر فرمايا كہ جو چيز فاطمہ كو رنج پہونچاتى ہے وہ مجھے رنج پہونچاتى ہے ، جو كچھ اسے غضبناك كرتى ہے مجھے غضبناك كرتى ہے(۱۷)

وہ ميرى پارہ جگر ہے اسكى نگرانى سے ميں رنجيدہ و ملول ہوتا ہوں(۱۸)

اس قسم كى احاديث سے رسول كى زوجہ عائشه كيلئے اس بات كا سبب بنا كہ وہ فاطمہ سے حسد كريں ، جس قدر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنى بيٹى فاطمہ كا احترام فرماتے ان كا كينہ و عناد تيز سے تيز تر ہوتا ، حالانكہ ہم جانتے ہيں كہ اس سے بھى كمتر حسن سلوك بھى سوتيلى ماں كے كينہ و عناد كو بڑھاديتا ہے _

ليكن رسول كے اعزاز و اكرام فاطمہ سے جس قدر عائشه كے دل ميں كينہ و عناد تيز ہوتا ، حضرت على كے دل ميں خوشى بڑھتى اور فاطمہ كا احترام ان كے دل ميں زيادہ ہوتا اكثر ايسا ہوتا ہے كہ عورتيں اپنے شوہروں كے دل ميں عداوت و دشمنى پيدا كر ديتى ہيں كيو نكہ مثل مشہور ہے راتوں كى ہمدم (محدثات الليل )

____________________

۱۴_ كنزل العمال ج۶ ص۲۱۹ حديث شمارہ ۳۸۵۳_۳۸۵۴_۳۸۵۵

۱۵_مستدرك ج۳ ص۱۵۳_۱۵۶

۱۶_ مستدرك ج۳ ص۱۵۸ _۱۵۹ وكنز ج۶ص۲۱۸حديث ۳۸۳۴

۱۷_ مصدر سابق

۱۸_ كنزالعمال _ اسد الغابہ _ استيعاب _ حليہ ابو نعيم و خلاصہ تہذيب الكمال

۶۲

حضرت فاطمہعليه‌السلام عائشه كى بہت شكايت كرتيں اور مدينے كى ہمسايہ عورتيں كبھى كبھى اپ كے پاس اكر عائشه كى باتيں ان سے بيان كرتيں ، پھر حضرت فاطمہعليه‌السلام كا رد عمل عائشه سے بيان كرتيں جس طرح فاطمہ اپنا درد دل اپنے شوہر علىعليه‌السلام سے كہتى تھيں اسى طرح عائشه اپنے باپ سے اسكى شكايت كرتى تھيں كيو نكہ وہ جانتى تھيں كہ شوہر سے شكايت كرنے سے ان كے شوہر نہيں مانيں گے _

عناد كے كئي رخ

يہ معاملہ بجائے خود ابوبكر كے دل ميں نا پسند يدہ اثرات مرتب كرتا تھا ، وہ اس سے رنجيدہ ہوتے تھے ، اور جب وہ ديكھتے تھے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا على كى تعريف و ستائشے كا كوئي موقع فرو گذاشت نہيں كرتے انھيں اپنے سے مخصوص قرار ديا ہے ، مقرب بنا ليا ہے تو ان كے دل ميں كينہ و عناد كى اگ بھڑك اٹھتى ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك على كا مرتبہ و مقام ديكھ كر انھيں رشك اتا ، جبكہ وہ اپنے كو سسر ہونے كى حيثيت سے على سے زيادہ اسكا مستحق سمجھتے _

يہ حسد اور نفسياتى كسك عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ كے دل ميں بھى تھى عائشه اپنے باپ ابو بكر اور بھائي طلحہ كے پاس جاكر انكى توقعات كو سنتى تھيں ان كے دلى درد پر توجہ كرتيں ، وہ دونوں بھى اظہار ہمدردى كرتے ، اسطرح على و فاطمہ سے كينہ وعداوت كا تبادلہ ہوتا ، ان لوگوں كے دل ميں جس قدر بھى على سے عداوت سخت تر ہونے كى بات ہو ميں اسكى صفائي نہيں دے سكتا ، ادھر علىعليه‌السلام و عائشه كے درميان حيات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ايسے واقعے پيش ائے ، گفتگو كے

۶۳

تبادلے ہوئے جو ان كے پوسيدہ احساسات اور فتنے ابھارنے كيلئے كافى تھے _

جيسے كہ روايت ہے ، ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على سے راز دار انہ بات كى اور يہ رازدارى كافى طويل ہوئي(۱۹) عائشه اس بات كى فكر ميں لگى ہوئي تھيں اپنے كو اچانك ان دونوں كے درميان پہونچا ديا اور كہا كہ اخر كون سى اہم بات ہے كہ اپ دونوں اتنى دير سے گفتگو كر رہے ہيں ، كافى دير لگا دى ؟

بيان كيا جاتا ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس ناگہانى امد سے سخت غضبناك ہوئے اسى كے ساتھ يہ بھى روايت كى جاتى ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كيلئے كھانا بھيجا گيا تھا انھوں نے اپنے نوكر كو حكم ديا كہ انتظار ميں رہے ، جيسے ہى كھانا ائے اسے پھينك دے اس قسم كے معاملات عام طور سے عورت اور شوہر كے گھر والوں كے درميان پيش اتے ہيں _

فرزندان فاطمہ سے رسول كا والہانہ پيار :

فاطمہ كو كئي لڑكے اور لڑكياں ہوئيں ، حالانكہ عائشه اولاد سے محروم رہيں اور عائشه كے بے اولاد ہونے كا بد ترين اور دردناك ترين پہلو يہ تھا كہ رسول خدا نے فرزندان فاطمہ كو اپنى اولاد كہا ،ہميشہ انھيں اپنا فرزند كہكے خطاب فرماتے مثلافرماتے ، ميرے فرزند كو لائو ...ميرے فرزند كو مت روكو ...اور يا ميرے فرزند كے ساتھ كيا كر رہا ہے؟

ان حالات ميں جب اپنے شوہر كو ايك بے اولاد عورت ديكھتى ہے كہ اپنے بيٹى كے فرزندوں كو اپنا فرزند كہہ رہا ہے اور ان كے ساتھ ايك شفيق اور مہربان باپ كى طرح برتائو كر رہا ہے ، اپنى جان سے زيادہ عزيز ركھتا ہے انكى قدر و منزلت بڑھا رہا ہے تو كيا سوچے گى ؟

كيا وہ ان بچوں اور انكى ماں سے محبت كريگى يا ان سے نفرت كريگى ؟كيا يہ مسلسل سلگنے والى بھٹى مہربانى اور صفائي چاہے گى يا زوال كى ارزو كريگى ، اس سے بھى زيادہ دردناك تر بات يہ تھى كہ رسول نے حكم ديا _

____________________

۱۹_ اس راز و نياز كو مورخوں نے جنگ طائف كے موقع پر بتايا ہے _ كہتے ہيں كہ جب راز و نياز كافى دير ہوا تو لوگوں نے كہنا شروع كيا كہ رسول نے اپنے چچيرے بھائي سے دير تك راز و نياز كيا ايك روايت ہے كہ يہ بات ابو بكر نے كہى تھى _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا كہ ميں نے راز و نياز نہيں كيا بلكہ يہ خدا كى جانب سے راز و نياز تھا _ صحيح ترمذى ج۲ ص ۲۰۰ _ تاريخ خطيب ج۷ ص ۴۰۲_ كنز العمال _ اسد الغابہ

۶۴

مسجد كى طرف كھلنے والے تمام دروازے بند كئے جائيں ، اسى وقت حكم ديا كہ ان كے داماد على كا دروازہ مسجد كى طرف كھلا رہے ؟(۲۰)

اور يہ كہ پہلے ابو بكر كو سورہء برائة كى تبليغ كے لئے ديا كہ مكہ جا كر مشركين كو سنائيں پھر انھيں اس عہدے سے بر طرف كر كے اپنے داماد على كو ديديا(۲۱) يہ بات بھى عائشه كيلئے بڑى ناگوار تھى جب خدا نے ماريہ كو ابراہيم جيسا فرزند عطا فرمايا ، على اپنى مسرت روك نہيں سكے ، جس طرح اپ دوسرى ازواج رسول كے ساتھ تعاون فرماتے تھے ، ماريہ كے ساتھ بھى تمام توجہ كے ساتھ كمك اور تعاون فرمايا _

جب ماريہ پر الزام لگايا گيا تو يہ على تھے جنھوں نے دل و جان سے انكى صفائي كى كوشش كى ، اس الزام كو بے بنياد ثابت كرنے كا عملى اقدام فرمايا يا اس سے بہتر لفظوں ميں كہا جائے كہ خدا نے على كے ہاتھوں حق ظاہر كيا اور الزام كا بطلان يوںظاہر كيا كہ انكھوں سے ديكھا جاسكے ، اور اس بارے ميں ذرا بھى چون و چرا كى گنجائشے نہ رہ جائے _

ان تمام باتوں نے عائشه كے دل ميں كينہ و نفرت بھر ديا ، ان كے خلاف تمام كينہ توزيوں كےلئے راسخ كر ديا _

جب ابراہيم كا انتقال ہوا تو ماريہ كے غم و اندوہ ميں طعنوں اور زبان كے زخموں نے بھى سر ابھارے يہ على و فاطمہ كو بھى جھيلنا پڑا كيونكہ يہ دونوں ماريہ كو اہميت ديتے تھے ، اور چاہتے تھے كہ ماريہ كو صاحب اولاد ہونے كى وجہ سے دوسرى ازواج خاص كر عائشه پر برترى حاصل ہو جائے ،ليكن تقدير نہ تو ان لوگوں كى ارزو كے مطابق تھى نہ ماريہ كى خواہش كے مطابق _

على اور مسئلہ خلافت

على كو ذرا بھى شك نہ تھا كہ بعد رسول خلافت انھيں كو ملے گى ، دوسرا كوئي بھى ان كا رقيب نہيں(۲۲) يہى اطمينان قلب تھا كہ جس وقت ان كے چچا عباس نے غسل پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كہا :

____________________

۲۰_ مسند احمد كنز ج۶ ص ۱۵۲ حديث ۲۴۹۵ و منتخب كنز ج۵ ص ۲۹ _ مستدرك ج۳ ص ۱۲۵ _ صحيح ترمذى ج۱۳ ص ۱۷۶

۲۱_ مسند احمد ج۱ ص ۳۳۱ و مستدرك ج۳ ص ۵۱ _۵۲ _ مسند احمد ج۱ ص ۲ بطريق ابو بكر و على خصائص نسائي

۲۲_ يہ ابن ابى الحديد كے استاد كى بات صحيح نہيں _ كتاب عبد اللہ بن سبا ج۱ ص ۱۰۶ _ فصل خلافت ملاحظہ ہو

۶۵

ہاتھ بڑھائو تاكہ تمہارى بيعت كر لوں تاكہ لوگ كہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا نے اپنے بھتيجے كى بيعت كر لى ، يہ تمہارے حق ميں مفيد ہو گا پھر كسى كو تمھارى مخالفت كا يا رانہ نہ ہو گا _

على نے جواب ديا :

اے چچا كيا ميرے علاوہ بھى كوئي ہے جسے خلافت كى طمع ہو ؟

تم جلدہى ديكھ لو گے

مجھے پسند نہيں كہ مسئلہ خلافت پچھلے دروازے سے ظاہر ہو ، بلكہ ميں يہ چاہتا ہوں كہ تمام لوگ اشكار طريقے سے شريك ہوں اور خلافت كے بارے ميں رائے ديں ، يہ كہا اور خاموش ہو گئے _

اور جب رسول كى بيمارى نے شدت پكڑى تو رسول نے جيش اسامہ كو حركت كا حكم ديا(۲۳) اور ابو بكر اور دوسرے اكابر قريش مہاجر و انصار كو حكم ديا كہ جيش اسامہ كے ساتھ اسامہ كى ما تحتى ميں چلے جائيں ، اگر يہ بات مان لى جاتى اور پيغمبر كى وفات ہوئي تو على كى خلافت مسلّم اور قطعى تھي_

خود على كا خيال تھا كہ اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات ہو جائے تو مدينے ميں خلافت كا جھگڑا نہ ہو گا ، اس صورتحال ميں لوگ اسانى سے انكى بيعت كر ليں گے اور اس بيعت كا فسخ يا ان كا حريف ہونا ممكن ہى نہ تھا ، لا محالہ تمام لوگ انكى بيعت كريں گے _

ليكن ابو بكر نے عائشه كے اس پيغام كى بنياد پر كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كا ہنگام اگيا ہے، لشكر اسامہ سے علحدہ ہو كر مدينے پلٹ ائے _

ليكن جہاں تك لوگوں كو نماز پڑھانے والى ابو بكر كى بات ہے تو ميرى دانست ميں حضرت على نے اس كا ماحول تيار كرنے كيلئے عائشه كو متعارف كرايا ہے _

____________________

۲۳_ طبقات بن سعد ميں ہے كہ تمام مہاجرين و انصار كے سربراوردہ حضرات حكم رسول سے مامور تھے كہ لشكر اسامہ ميں شريك ہوں ان ميں ابو بكر عمر ابو عبيد ہ جراح سعد بن ابى وقاص وغيرہ تھے ، بعض نے اس حكم پر اعتراض كرتے ہوئے كہا كہ بڑے بڑے مہاجرين و انصار پر اس چھوكرے كو سردار بنا ديا ہے ، جب يہ خبر رسول كو ہوئي تو غصے ميں منبر پر گئے اور حمد و ثنائے الہى كے بعد فرمايا ، يہ كيسى باتيں ہيں جو لشكراسامہ كے بارے ميں سن رہا ہوں ، روز شنبہ انحضرت نے اس اعتراض كا جواب ديا اور تيسرے دن دو شنبہ كو انتقال فرمايا ، طبقات بن سعد ، تہذيب بن عساكر ، كنز العمال ملاحظہ فرمايئے

۶۶

جيسا كہ لوگ كہتے ہيں كہ رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے فرمايا كہ كوئي جا كر لوگوں كو نماز پڑھا دے اور كسى معين شخص كا نام نہيں ليا ، وہ صبح كى نماز كا وقت تھا ، ليكن يہ حكم دينے كے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ذاتى طور سے اخرى لمحے ميں على اور فضل بن عباس كے كاندھوں كا سہارا لئے ہوئے باہر ائے اور محراب ميں بيٹھ گئے پھر اپ نے خود ہى نماز پڑھائي اور گھر واپس اگئے ، سورج نكل ايا تھا كہ دنيا سے تشريف لے گئے _

عمر نے اسى امادگى اور ابو بكر كا لوگوں كو نماز پڑھانا ان كے استحقاق خلافت كى دليل بنايا ہے ، وہ كہتے ہيں كہ :

تم ميں كون اپنے لئے جائز سمجھتا ہے كہ جسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے نماز پڑھانے كيلئے مقدم قرار ديا اس سے مقدم سمجھے؟

اور يہ بات كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا گھر سے باہر ائے اور خود ہى نماز پڑھائي اس پر حمل نہيں كيا ہے كہ اس سے ابوبكر كى امامت روكنا تھا ، بلكہ كہتے ہيں كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مائل تھے كہ جہاں تك ممكن ہو خود ہى يہ كام انجام ديں اس واقع اور اس مسئلے كا سہارا ليتے ہوئے لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى حالانكہ اس سازش كا الزام على نے عائشه پر لگايا ہے كہ يہ پورا ماحول انھوں ہى نے تيار كيا تھا ، اپ نے بارہا اس بات كو اپنے اصحاب سے جو اپ كے اردگرد تھے فرمايا :

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه و حفصہ سے اس معاملے ميں فرمايا ، تم دونوں يوسف والى عورتيں ہو ، اپ اس كاروائي سے اپنى نفرت اور ناپسنديدگى فرما رہے تھے _

خاص طور سے اپ نے عائشه سے اپنى برہمى ظاہر فرمائي ، كيو نكہ يہ عائشه اور حفصہ ہى تھيں جنھوں نے حكم رسول سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے اپنے باپ كو نماز پڑھانے كى پيش دستى كى اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو جب اس نيابت كى اگاہى ہوئي تو رنجيدہ ہو كر بذات خود باہر ائے اور ابو بكر كو اس امامت سے روك كر زندگى كے اخرى لمحے ميں عملى طور سے عائشه كے اقدام كو ناكام بنايا _

اس صورتحال ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسيع تر ماحول تيار كئے ہوئے حالات ميں اس سے زيادہ كر بھى نہيں سكتے تھے كيونكہ عمر و ابوبكر نے ماحول پر پورے طور سے قبضہ كر كے لوگوں كو اسكے لئے تيار كر ليا تھا ، اس سلسلے ميں مہاجرين و انصار كے سربراوردہ افراد ان كے شريك تھے ، گردش زمانہ اور تقدير اسمانى نے بھى ان لوگوں كى مدد كى تھى _

يہ حادثے على كے لئے تمام دردوں سے اذيتناك تھے ، عظيم مصيبت اور بڑى افت تھى جو اپ كى روح كو تكليف پہونچاتى تھى ، اسكا ذمہ دار وہ صرف عائشه كو قرار ديتے تھے ، اس بات كو بار ہا اپ نے اصحاب سے كہہ كر خدا سے انصاف كا مطالبہ كيا _

۶۷

اس سے بڑھكر يہ كہ علىعليه‌السلام نے بيعت ابو بكر سے اس وقت تك ركے رہے جب تك اپ كو مجبور نہيں كيا گيا(۲۴) اپ نے كيا كيا مصائب جھيلے يہ سارى باتيں مشھور ہيں _

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتقال فرمايا ، اور جب تك طويل بيمارى كے بعد فاطمہعليه‌السلام نے انتقال فرمايا ، برابر عائشه كى طرف جناب فاطمہ كو طعنوں بھرى باتوں كا سامنا كرنا پڑا جس سے اپ كى روح لرزاٹھى تھى ، جناب فاطمہ اور حضرت علىعليه‌السلام كے لئے سوائے صبر كے چارہ نہ تھا ، وہ اپنے غم و اندوہ كى شكايت خدا ہى سے كر سكتے تھے _

عائشه اپنے باپ كى حمايت اور خلافت كى چكى پھرانے والوں ميں سر فہرست تھيں مرتبہ و مقام روز بروز بڑھتا رہا ، جبكہ حضرت فاطمہعليه‌السلام اور حضرت علىعليه‌السلام شكست خوردہ كى طرح طاقت و اقتدار سے الگ ركھے گئے ،فدك فاطمہ سے چھين ليا گيا ، اپ نے بارہا اسے واپس لينے كى كوشش كى ليكن تمام كوششوں كا كوئي نتيجہ نہ نكلا _(۲۵)

اس درميان جو اپ كے پاس امد و رفت كرتيں عائشه كى طعنوں سے بھر پور باتيں اپ سے بيان كرتيں ، اس طرح اپ كے دل كو سخت تكليف پہونچتى اور انكى اور انكے شوہر كى باتيں عائشه سے بيان كر كے اتش كينہ و عداوت كو ان دونوں كے درميان بھڑكا تى تھيں _

ليكن ان دونوں گروہوں كے درميان انتہائي بد تر اختلاف موجود تھا ، ايك گروہ كامياب تھا اور دوسرا گروہ شكست خوردہ ، ايك حكمراں تھا دوسرا محكوم ، يہى وہ حالت ہے كہ غالب گروہ كى باتيں شكست خوردہ كو بڑى تكليف پہونچاتى ہيں ، اور يہ بات طئے ہے كہ دشمن كى ملامت سے ادمى كو جو روحانى اذيت ہوتى ہے وہ تمام مصيبتوں سے دردناك ہوتى ہے _

يہاں تك ميرے استاد كى بات پہونچى تھى كہ ميں نے عرض كى كيا اپ بھى كہتے ہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كسى معين شخص كو نماز پڑھانے كا حكم نہيں ديا تھا ، يہ صرف عائشه تھيں جنھوں نے خود سرانہ طريقے سے اپنے باپ كو اس كام پر مامور كيا تھا _

____________________

۲۴_ تفصيلات كيلئے كتاب عبد اللہ بن سبا فصل سقيفہ ملاحظہ فرمائيں

۲۵_ طبقات بن سعد ج۲ _ صحيح بخارى _ المغازى باب غزوئہ خيبر ج۳ ص ۳۸ _ صحيح مسلم ج۱ ص ۷۲ _ ج۳ ص ۱۵۳ _ طبرى _ ابن كثير _ مسند احمد بن حنبل ج۱ ص ۴ _ ج ۶ ص۹

۶۸

استاد نے جواب ديا ، ميں يہ نہيں كہتا ، يہ بات على نے كہى ہے ، اور ظاہر ہے كہ انكى ذمہ دارى الگ ہے اور ميرى ذمہ دارى الگ ہے ، وہ خود جائے واقعہ پر موجود تھے اور تمام باتوں كو اپنى انكھوں سے ديكھا تھا ، ليكن مجھے جو حديثيں ملى ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول خدا نے ابوبكر كو نماز پڑھانے پر مامور كيا تھا ، جبكہ على كا مدرك علم و اطلاع ہے ، انھوں نے تمام سرگرميوں كو خود ديكھا تھا ،يا كم سے كم اپ اس پر ظن قوى ركھتے تھے _

اسكے بعد استاد اپنى بات اگے بيان كرنے لگے_

بالاخر فاطمہعليه‌السلام نے انتقال فرمايا ، اپ كے انتقال ميں تما م خواتين نے شركت كى سوائے عائشه كے جنھوں نے نہ صرف يہ كہ سستى دكھائي اور بنت نبى كى ماتم پرسى ميں نہيں گئيں بلكہ اس كے بر عكس اپنى خوشى اور شادمانى كا اظہار كيا جو على تك پہونچائي گئي _

على نے فاطمہ كے انتقال كے بعد ابوبكر كى بيعت كر لى ،اور جيسا كہ كہتے ہيں عائشه نے بيعت على كے بعد چونكہ كوئي انكے باپ كا حريف خلافت نہيں تھا نہ خلافت كا دعويدار تھا بہت زيادہ خوشى كا اظہار كيا ،يہى صورتحال خلافت عثمان كے زمانے تك رہى ، جبكہ پرانے كينے سينوں ميں موجيں مار رہے تھے ، اور خون بھڑك رہے تھے ،زمانہ جيسے جيسے گذرتا على پر مصائب بڑھتے ہى جاتے ، اپ كى روحانى اذيت ميں اضافہ ہى ہوتا ، دل كا درد بڑھتا جاتا يہاں تك كہ عثمان قتل كر دئے گئے ،عثمان كو قتل كرانے ميں عائشه نے خود ہى موثر كردار ادا كيا ، لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكا يا ، وہ عثمان كى سب سے بڑى مخالف تھيں ، قتل عثمان كے سلسلے ميں لوگوں سے كہتيں ، خدا عثمان كو قتل كرے _

عائشه نے اسلئے عثمان كو خون بہانے كى بات كہى كہ وہ چاہتى تھيں كہ عثمان خاندان بنى اميہ سے ہيں ، ان سے چھين كر ان كے خاندان تيم ميں پھر واپس اجائے ، اور اس سلسلے ميں انھوں نے اپنے چچيرے بھائي طلحہ كو اگے اگے كر كے خلافت كا اميد وار بھى بنا ديا تھا ،ليكن جب عثمان قتل كر دئے گئے تو لوگوں نے عائشه كى توقع كے خلاف على بن ابى طالب كو خلافت كے لئے چن ليا ،_ انكى بيعت كر لى ، جب يہ خبر عائشه كو ملى تو بے اختيار انہ فرياد كرنے لگيں ،ہائے افسوس عثمان پر ، عثمان مظلوم قتل كئے گئے _

ا س طرح عائشه نے دوسرى بار فرزند ابو طالب سے اپنى پرانى دشمنى ظاہر كى ، اور اس راہ ميں اتنى كوشش كى كہ لوگوں كو علىعليه‌السلام كى خلاف اس قدربھڑكايا كہ جنگ جمل ہوگئي ، اور پھر بعد ميں وہى راہ اپنائي جسے ميں نے شروع ميں بيان كيا ،يہ شيخ ابو يعقوب كے بيان كا خلاصہ تھا جو نہ تو مذہب اہلبيت پر تھے نہ شيعہ كى طرح جانبدارى برتنے والے تھے _

ہم نے خطبہء امير المومنين كا بڑا حصہ پاشالى طريقے سے بيان كيا جسے بن ابى الحديد نے نقل كيا ہے ، اس سے ام

۶۹

المومنين عائشه كى على سے كينہء ديرينہ كى وضاحت ہوتى ہے ، بن ابى الحديد كے استاد نے اپنے بيان ميں عائشه كى زندگى كے پيچيدہ اور مبہم گوشوں كى اچھى طرح تشريح كى ہے ، اسميں انھوں نے ازدواج كے دوران اہلبيت سے روابط كے حالات ، بعد وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہلبيتعليه‌السلام كے خلاف كا روائيوں كى مكمل تشريح كى ہے ، ہم نے بھى جہاں تك ان كى زندگى كے رخوں كے اشارے كئے ہيں اسى پر اكتفا كرتے ہيں ، كيونكہ اگر انكى زندگى كے ادوار كا اس سے زيادہ تحقيقى تجزيہ كريں جس نے اسلامى معاشرے كو متاثر كيا ...جو بجائے خود ايك مستقل كتاب كى متقاضى ہے ، تو خوف ہے كہ ہم اپنے مقصد اصلى سے ہٹ جائيں گے ، ہمارا تو صرف يہ مقصد ہے كہ ام المومنين كى احاديث كا تجزيہ كريں _

خلاصہ

جو كچھ ہم نے قارئين تك پہونچايا اس كا خلاصہ يہ ہے كہ ، ام المومنين سخت متعصب خاتون تھيں ، طبيعت ميں حسد بھرا ہوا تھا جسے حيات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں دوسرى ازواج رسول سے ان كے برتائو اور اہلبيت كے ساتھ سلوك كو ديكھ كر معلوم كيا جاسكتا ہے _

اس كے علاوہ جب كہ ہم نے تھوڑا حصہ نقل كيا اور ائندہ تفصيل سے بيان كريں گے ، ام المومنين اپنى گرمئي مزاج خاندان والوں كے مفادات كے تحفظ ، اپنى پارٹى كى مصلحتوں(۲۶) كے بارے بڑى غيرت مند اور متعصب تھيں ، اپنى طبيعى سختى كى صفت ہى كى وجہ سے انھوں نے سخت اور اہم كارستانياں اور سنگين افعال كے لئے اپنى تلخ و تند اور انقلابى باتوں كا جال بچھايا_

____________________

۲۶_ ام المومنين عائشہ نے رسول خدا كے گھر ميں اپنى پارٹى بنا لى تھى ، جيسا كہ خود اس بارے ميں كہتى ہيں ، ازواج رسول دو گروہوں ميں بٹ گئيں ، ايك پارٹى ميں عائشہ حفصہ اور سودہ تھيں اور دوسرى پارٹى ميں ام سلمہ اور دوسرى ازواج تھيں ، بقيہ حديث سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب فاطمہ اسى دوسرى پارٹى ميں تھيں جو مخالف عائشہ تھى ، اس سلسلے ميں صحيح بخارى ملاحظہ فرمايئے ليكن رسول خدا كے گھر كے باہر ام المومنين نے اپنے خاندان تحفظ كے مفادات اور اپنى پارٹى كى ترقى كيلئے برابر كام كرتى رہيں _

۷۰

فصل دوم

شيخين

۱_ ابو بكر كا لقب صديق اور عتيق تھا ، نام عبد اللہ تھا ، ابو قحافہ عثمان كے فرزند تھے قبيلہ تيم كى فرد تھے جو قريش كا قبيلہ تھا ،ان كى ماں كا نام ام الخير تھا ، جو سلمى يا ليلى كے نام سے موسوم تھيں ، عامر كى بيٹى تھيں ، يہ بھى تيم كے قرشى قبيلے كى تھيں _

ابو بكر عام الفيل كے دو يا تين سال بعد مكہ ميں پيدا ہوئے ، يہ ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے خديجہ ، على زيد اور جعفر كے بعد اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى _

ابو بكر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ہمراہ مكہ سے مدينہ ہجرت كى ، جنگ بدر اور بعد كى جنگوں ميں شريك ہوئے ، وفات پيغمبر كے بعد اس سے پہلے كہ جنازہ رسول دفن ہو سقيفہ بن ساعدہ ميں اپنے ديرينہ ساتھى عمر كے تعاون سے ايك اسان انقلاب كے سھارے زمام امور اپنے ہاتھ ميں لى _

ابو بكر نے ۲۲ جمادى الثانيہ ۱۳ كو انتقال كيا ، ان كا جنازہ رسول كے پہلو ميں دفن كيا گيا ، عمر ۶۳ سال پائي ، انكى خلافت كا زمانہ دو سال تين مہينے اور چھبيس يا دس دن تك رہا _

۲_ ابو حفص ، فاروق ، عمر بن خطاب ، قريشى قبيلہ عدى كى فرد نفيلى كى نسل سے تھے ، انكى ماں كا نام حنتمہ تھا جو مغيرہ كے فرزند ھشام يا ہاشم كى بيٹى كہى جاتى ہيں _

عمر نے پچاس لوگوں كے بعد اسلام قبول كيا اور مسلمان ہوئے ، كچھ دن بعد مكہ سے مدينے ہجرت كى ، جنگ بدر اور دوسرى جنگوں ميں شريك رہے _

ابو بكر نے بستر مرگ پر انھيں اپنا جانشين بنايا ، ايام خلافت عمر ہى ميں اسلامى فتوحات جزيرة العرب كے باہر شروع ہوئيں ، عمر نے ۵۵ سال يا بقولے ۶۳ سال عمر پائي ، ۲۶ ذى الحجہ ۲۳ ميں مغيرہ كے غلام ابو لولو كے خنجر سے زخمى ہوئے _

پہلى محرم ۲۴ ھ كو جوار ابو بكر ميں دفن كئے گئے ، زمانہء خلافت دس سال چھہ مہينے پانچ روز ہے ، ابو بكر و عمر صدر اسلام ميں ايك دوسرے كے جگرى دوست تھے ، ہميشہ دونوں كا نام ايك ساتھ اتا ہے اسى لئے انھيں شيخين كہا جاتا ہے _

۷۱

سكھ چين كا زمانہ

صدر اسلام كى اكيلى خاتون مفتي

ام المومنين عائشه كى تمام زندگى سوائے ابو بكر اور ان كے دوست عمر كے زمانہ خلافت كے ، شديد سياسى كشمكش اور ناقابل شكست سر گرميوں ميں گذرى ، تاكہ يہ خلافت جو خاندان تيم سے نكل گئي ہے ، پھر واپس اكر ان كے عزيزوں اور رشتہ داروں كو حكمراں بنا سكے _

ليكن جيسا كہ ہم نے بتايا خلافت شيخين (ابو بكر و عمر )كے زمانے ميں اس خيال سے كہ ان كے گروہ نے دوسرے گروہوں پر بنام مدينہ پيش دستى كر كے زمام حكومت قبضے ميں كر ليا تھا ، بہت خوش تھيں اورذہن ودماغ كو بڑا سكون و اطمينان نصيب ہوا تھا كيونكہ اس زمانے ميں جو شخص خليفہ ہے يا جو اس كے حوالى موالى ہيں انكے نزديك ان كا مرتبہ و مقام سارى دنيا ميں اور دنيائے اسلام ميں بہت بڑھ گيا تھا ، اسكى وجہ سے دنيا بھر كى اور سارے مسلمان كى توجہ انھيں كى طرف مڑ گئي تھى ، تمام ازواج رسول كے مقابلے ميں صرف انھيں كى طرف گردن جھكتى تھى ، رسول خدا كى دوسرى تمام خواتين سے ان كا مرتبہ بلند تر ہو گيا تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائي تو اپ كى ازواج قيد حيات ميں تھيں ، ليكن تاريخ ہميں يہ نہيں بتاتى كہ عمر و ابو بكر نے عائشه كے علاوہ كسى بھى زوجہ ء رسول كو خاص مرتبہ و مقام عطا كيا ہو ، كيا معاملات كے تصفيے ميں يا فتوى كے سلسلے ميں ان كے علاوہ كسى كى طرف رجوع كيا جاتا ہو _

ہمارى اس دليل كو طبقات بن سعد ميں ملاحظہ كيا جاسكتا ہے جنھوں نے محمد بن ابى بكر كے فرزند قاسم كا قول نقل كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں :

عائشه زمانہ حكومت ابو بكر ، عمر اور عثمان ميں اكيلى وہ خاتون تھيں جو فتوى صادر كرتيں تھيں ، اور يہ صورتحال زندگى كے اخرى لمحے تك رہى(۲۷)

__________________

۲۷_ طبقات بن سعد ج۸ ص۳۷۵

۷۲

دوسرى جگہ محمود بن لبيد كا قول لكھا ہے :

عائشه زمانہ حكومت ابوبكر و عمر و عثمان ميں فتوى صادر كرتيں اور احكام نافذ كرتى تھيں ، اور اخرى عمر تك يہ سلسلہ جارى رہا _

ابو بكر اور عمر كے علاوہ تمام صحابائے كبار ان سے مراجعہ فرماتے ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى سنت اور مختلف مسائل ان سے پوچھتے اور انھيں سے حكم حاصل كرتے _

ان تمام باتوں كو جانے ديجيئے ، عمر نے جس وقت تمام ازواج رسول كا وظيفہ مقرر كيا تو عائشه كو سب پر مقدم ركھا ان كے حقوق دوسروں سے زيادہ قرار دئے

يہ معاملہ طبقات بن سعد ميں مصعب بن سعد كا قول اس طرح نقل كيا ہے _ عمر نے ازواج رسول كا ماہانہ وظيفہ دس ہزار مقرر كيا اور عائشه كو سب پر مقدم كر كے بارہ ہزار مقرر كيا ، عمر كى دليل يہ تھى كہ عائشه رسول خدا كى سب سے زيادہ چہيتى بيوى تھيں(۲۸)

عائشه حج كے لئے گئيں

اس صورتحال كے با وجود خليفہ وقت عمر بن خطاب تمام ازواج رسول پر انھيں مقدم قرار دينے فتوى حاصل كرنے ، سنت رسول معلوم كرنے ، تمام مسلمانوں ميں ان كا مرتبہ و مقام بڑھانے ، دوسروں كے مقابل ان كا زيادہ وظيفہ مقرر كرنے كے با وجود ام المومنين عائشه كو دوسرى ازواج رسول كى طرح مدينے سے باہر جانے كى اجازت نہيں ديتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرہ كى بھى اجازت نہيں ديتے تھے _

عمر كى سياست يہ تھى كہ بڑے اور مشھور صحابہ مدينے سے باہر نہ جائيں اسى بنياد پر جب زبير نے جنگ ميں شركت كرنے كى اجازت چاہى تو جواب ديا(۲۹) نہيں ، مجھے اتفاق نہيں ہے ،

____________________

۲۸_ طبقات بن سعد ج۸ ص۶۷ ، اجابہ ۷۱ _۷۵،كنز العمال ج۷ ص۱۱۶ منتخب كنز ،اصابہ ج۴ س۲۴۹ ، طبرى ج۴ ص۱۶۱ ، ابن كثير ج۲ ص۲۴۷ _مستدرك ج۴ ص ۸ _ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۵۴ _ بلاذرى ص ۴۵۴ _ ۴۵۵ احكام السلطانيہ ماوردى ص ۲۲۲_ واضح ہو كہ يہ خلافت كا سياسى مقتضا تھا كہ عائشہ كو رسول كى چہيتى بيوى كى حيثيت سے متعارف كرايا جائے ليكن حقيقت ايسى نہيں تھى ، بلكہ خلافت نے اپنے زمانے ميں اس بات كو مشھور كيا

۲۹_ ابن ابى الحديد ج۴ ص۴۵۷ ،تاريخ خطيب بغدادى ج۷ ص۴۵۳

۷۳

كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہوں كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان پھيل جائيں گے تو گمراہى پھيلائيں گے(۳۰)

ليكن عمر نے اپنى عمر كے اخرى سال ازواج رسول كو مدينے سے باہر جانے كى پاليسى بدل دى تھى ، يہ بات طبقات بن سعد ميں اس طرح ہے _

عمر بن خطاب ازواج رسول كو مدينے كے باہر جانے سے روكتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرے كيلئے بھى جانے سے روكتے ، ليكن ۲۳ ھ ميں جبكہ انھوں نے اخرى حج كيا تمام ازواج نے سوائے زينب اور سودہ كے ان سے اجازت چاہى كہ حج كيلئے مدينے سے باہر جائيں سودہ اور زينب نے حج كيلئے بھى گھر سے قدم باہر نہ نكالا ، وہ كہتى تھيں _

ہم وفات رسول كے بعد ہرگز اونٹ كى پشت پر سوار نہيں ہوئے ، يہ اس بات كا كنايہ تھا كہ انھوں نے كبھى سفر نہيں كيا _(۳۱)

خود سودہ كہتى ہيں ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى حيات ميں حج و عمرہ كيا اب حكم رسول كے مطابق گھر ميں بيٹھى ہوں _

بہر حال عمر نے ازواج رسول كى درخواست منظور كى اور حكم ديا كہ ان كے لئے ھودج تيار كئے جائيں ، ان پر سبز رنگ كى محمليں سجائي گئيں تاكہ ازواج رسول لوگوں كى انكھوں سے پوشيدہ رہيں ،

پھر ان كى نگرانى ميں عثمان اور عبد الرحمن بن عوف(۳۲) كو معين كر كے ضرورى احكامات صادر كئے گئے ا ور اسطرح انھوں نے مدينے سے مكہ سفر كيا _

____________________

۳۰_ واقعى عمر كس بات سے ڈرتے تھے اور لوگوں كے گمراہى كا انديشہ كيوں تھا ؟ كيا انھيں اسكا ڈر تھا كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان جا كر حلال و حرام اور قوانين اسلام متغير كر كے گمراہى پھيلائيں گے ؟يا اس سے ڈر تے تھے كہ بعض اكابر صحابہ كے بارے ميں اصحاب رسول كى لوگوں كو جانكارى ہو جائے گى ، اور لوگ خلافت كے افراد سے بد ظن ہو جائيں گے ؟ يا بعض كو مدينے سے اسلئے جا نے نہيں ديتے تھے كہ انكى مخالفت كا انديشہ تھا ؟ بہر حال يہ مسئلہ الگ سے علمى استدلال كے ساتھ مطالع كا مستحق ہے ، عمر جيسے ھوشمند اور زيرك كى بات كو يو نہى نہيں اڑ ايا جا سكتا ، ان كے اقدام كو عوامى رنگ دنيا انصاف سے بعيد ہے انكى دور انديشى اور سياسى بصيرت پر ظلم ہے (سردار نيا )

۳۱_ زينب اور سودہ كے گھر سے نہ نكلنے كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا نے اخرى حج ميں انھيں ازواج سے فرمايا تھا ، اس حج كے بعد تم سب كو گھر ميں بيٹھى رہنا ہے ، يہ بھى فرمايا كہ ميرے بعد تم ميں سے جو بھى تقوى اختيار كرے اور حكم كى مخالفت نہ كرے اور اپنے گھروں ميں نچلى بيٹھى رہے گى ، گھر سے قدم باہر نہ نكالے گى ، وہ قيامت ميں بھى ميرى زوجہ رہے گى طبقات بن سعد ۸/ ۲۰۸

۳۲_ ابو محمد ، عبد الرحمن بن عوف قريش كے بنى زھرہ سے تھے ، انكى ماں شفا بھى اسى قبيلے سے تھيں ، عام الفيل كے دس سال بعد پيدا ہوئے ، جاہلى زمانے ميں عبد عمر يا عبد كعبہ نام تھا ، رسول خدا نے ان كے اسلام قبول كرنے كے بعد عبد الرحمن نام ركھا ، انھوں نے حبشہ اور مدينے مين ہجرت كى ، جنگ بدر ميں اور تمام جنگوں ميںشركت كى ، عمر نے انھيں شورى كى ايك فرد نامزد كيا تھا ، عبد الرحمن نے ۳۱ھ يا يا۳۲ھ مدينے ميں انتقال كيا اور بقيع ميں دفن كئے گئے ، اصابہ ۲/ ۴۰۸ _ ۴۱۰ استيعاب در حاشيہ اصابہ ، اسد الغابہ ۳/ ۳۱۳ _ ۳۱۷ ملاحظہ ہو

۷۴

عثمان اگے اگے سوارى ہانك رہے تھے ، كبھى كبھى بلند اواز سے اعلان كرتے ، خبر دار ، كسى كو حق نہيں كہ محمل كے قريب ائے اور خواتين رسول كو ديكھے _

پھر وہ خود بھى كسى كو ان سے قريب انے سے روكتے ، چنانچہ راستے ميں ايك شخص محمل كے قريب ايا تو اسے للكارا _

دور رہو ، دور رہو _

عبد الرحمن سوارى كے پيچھے پيچھے تھے ، انھوں نے بھى ہانك لگائي ، الگ رہو _

مسور بن مخرمہ(۳۳) كا بيان ہے:

اتفاق سے اگر كوئي شخص اپنى سوارى ٹھيك كرنے كيلئے راستے ميں ٹھر گيا اور اونٹ بيٹھا ديا تو عثمان جو قافلے كے اگے اگے چل رہے تھے ، اسكے قريب جا كر كنارے كرديتے اور اگر راستہ وسيع ہوتا تو حكم ديتے كہ قافلہ اپنا راستہ بدل كر اس مرد سے كنارے ہو جائے ، اور داہنے يا بائيں راستے سے نكل جائے ، اگر اس كے علاوہ صورتحال ہوتى تو قافلے كو حكم ديتے كہ قافلہ ٹھر جائے تاكہ اس شخص كا كام ختم ہو جائے اور اپنى سوارى پر سوار ہو كر اگے بڑھ جائے ، اسكے بعد عثمان حكم ديتے كہ قافلہ اگے چلے ، ميں خود گواہ ہوں كہ انھوں نے مكے سے چلنے والے لوگوں كو جو مخالف سمت سے سامنے ائے تھے ، حكم ديا كہ راستے كے داہنے يا بائيں جانب اپنے اونٹوں كو بٹھا ئيں تاكہ قافلے پر نگاہ پڑنے كا فاصلہ دور ہو جائے _

عمر راستے ميں جہاں بھى منزل قرار ديتے ازواج رسول وہيں اترتى تھيں ، انھيں اكثر گھاٹى كے اندر ركھا جا تا اور وہ خود گھاٹى كے دہانے پر قيام كرتے ، يا بعض روايات كى بنا پر ان ازواج رسول كو گھاٹى كے انتہائي حصے پر ركھا جاتا جہاں تك پہونچنے كا راستہ نہيں ہوتا ، يہ بھى كہتے ہيں كہ ان كى منزل درختوں كے سائے ميں ركھى جاتى اور كسى حال ميں بھى لوگوں كو اجازت نہيں تھى كہ ان كے پاس سے گذرے_

____________________

۳۳_ ابو عبد الرحمن كنيت تھى ، مسوربن مخرمہ بن نوفل نام تھا ، قبيلہ قريش كے بنى زھرہ كى فرد تھے ، انكى ماں عاتكہ بنت عوف ، عبد الرحمن بن عوف كى بہن تھيں ، مسور ہجرت كے دوسرے سال پيدا ہوئے ، اور جس سال شاميوں نے ابن زبير پر چڑھائي كى اور خانہ كعبہ پر منجنيق سے گولے برسائے ، يہ مسور وماں حجر اسماعيل ميں نماز پڑھ رہے تھے ايك پتھر انھيں لگا اور مر گئے ، انكى موت ربيع الاول ۶۴ ھ ميں ہوئي ، اسد الغابہ ۴/ ۳۶۵ ، طبقات بن سعد ، استيعاب اور اصابہ ديكھى جائے

۷۵

ام المومنين عائشه نے صرف اسى حج ميں مدينے سے قدم باہر نكالا ، پھر تمام زمانہ خلافت عمر ميں كبھى مدينے سے باہر نہيں گئيں ، وہ بڑے سكھ چين سے احترام كے ساتھ اپنے ہى گھر ميں زندگى گذارتى رہيں ارباب حكومت و اقتدار بعض معاملات ميں انھيں فتوى كے سلسلے ميں رجوع كرتے اور ان كے احكام پر عمل كرتے _

وہ بھى ان كے جواب ميں مناسب حال حديث رسول سناتى تھيں ، وظيفہ كے امتياز كے علاوہ يہى ايك بات كہ ارباب اقتدار صرف انھيں سے فتوى اور احكام حاصل كرتے اس كا ثبوت ہے كہ وہ حكومت كى نظر ميں تعظيم و احترام كى مستحق تھيں ، جس خاتون كى خود خليفہ تعظيم كرے اسكى دوسرے افراد كس قدر تعظيم كرتے ہوں گے يہ ہر شخص سمجھ سكتا ہے _

اب يہ

اس فصل كو ايك واقعے پر ختم كيا جاتا ہے ، جس سے اندازہ ہو تا ہے كہ خليفہ عمران كا كسقدر احترام كرتے تھے _

ازاد كردہء عائشه ذكوان كا بيان ہے كہ مال غنيمت كى ايك ٹوكرى فتح عراق كے بعد خليفہ عمر كى خدمت ميں پيش كى گئي ، اسميں ايك موتى تھا عمر نے اپنے ساتھيوں سے پوچھا ، جانتے ہو اس موتى كى قيمت كيا ہے ؟

سب نے كہا ، جى نہيں ، وہ لوگ يہ بھى نہيں سمجھ پا رہے تھے كہ اسے مسلمانوں ميں كسطرح سے تقسيم كيا جائے _

عمر نے كہا ، كيا تم لوگ اجازت ديتے ہو كہ موتى عائشه كو ديديا جا ئے ، كيونكہ رسول خدا ان كو بہت پيار كرتے تھے ؟

سب نے كہا ، جى ہاں

عمر نے وہ موتى عائشه كے پاس بھيجوا ديا

عائشه نے كہا ،خدا نے عمر كو كتنى عظيم فتح عطا كى ہے ؟(۳۴) _

____________________

۳۴_ سير النبلاء ج۲ ص ۱۳۳ _ مستدرك حاكم و تلخيص ذھبي

۷۶

احاديث عائشه تقويت خلافت كے بارے ميں

حديث گڑھنے كے مواقع

قريب قريب يقين كے ساتھ يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ ام المومنين عائشه كى احاديث ان كے باپ ابوبكر كے زمانے ميں اور اسى طرح عمر كے زمانے ميں بہت كم گڑھى گئيں ، كيونكہ ان ايام ميں لوگوں كى تمام توجہ فتوحات كى طرف تھى بار بار لشكر كشى كى وجہ سے مال غنيمت حاصل ہو رہا تھا _

دوسرے يہ كہ عام طور سے فكرى ہم اہنگى اور عدم اختلاف تھا ، سبھى لوگوں نے پورے طور سے ان لوگوں كى خلافت مان لى تھى ، اور يہ كہ تمام مدينے كے باشندے كم و بيش صحبت رسول سے فيضياب تھے يا اصحاب كے ہم عصر تھے ، اسلئے بطور كلى حديث كى مقدار عددى اعتبار سے بہت كم تھى ، اور اس وقت زيادہ حديثيں گڑھنے كى ضرورت بھى نہيں تھى _

ليكن ان تمام حالات كے باوجود اس زمانے ميں بھى عائشه كى احاديث نقل كى گئيں ہيں ، جو حكومت وقت (ابو بكر و عمر ) كے اثبات ميں ہيں ، كيونكہ عائشه كى شخصيت اپنے باپ اور ان كے جگرى دوست عمر كى حكومت كے سخت ترين طرفداروں ميں سے تھى ، لوگوں كے دل ميں بہتر اور گہرے انداز ميں ثابت و راسخ كرنے كيلئے اس سے بہتر كيا تھا كہ ان كے مرتبہ و مقام كے بارے ميں رسول خدا كے ارشادات بيان كئے جائيں ، انھيں پيغمبر كى نظر ميں بلند مقام اور اہم ترين بتايا جائے _

اب يہاں بطور نمونہ اس قسم كى چند حديثيں نقل كى جاتى ہيں جنھيں حكومت ابو بكر و عمر كے زمانے كى سمجھنا زيادہ مناسب ہے _

يہ حديث مسلم نے اپنى صحيح ميں قول عائشه نقل كيا ہے جو اسى قسم كى ہے توجہ فرمايئے

عائشه كہتى ہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جسوقت بستر بيمارى پر تھے ، مجھ سے فرمايا ، اپنے باپ اور بھائي سے كہو كہ ميرے پاس ائيں تاكہ ميں ايك وصيت لكھ دوں ، كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہو ں كہ كوئي خام طمع اميد لگائے يا كہے كہ ميں خلافت كا زيادہ حقدار ہوں ، حالانكہ خدا و مومنين سوائے ابوبكر كے كسى دوسرے كو اسكا حقدار نہيں سمجھتے(۳۵)

____________________

۳۵_ صحيح مسلم باب فضائل ابو بكر ج۷ ص۱۱۰ ، مسند احمد ج۶ ص۴۷_۱۴۴،و طبقات بن سعد ، و كنز العمال _ منتخب كنز

۷۷

بخارى بھى ابو مليكہ سے ايسى ہى روايت نقل كرتے ہيں :

عائشه نے كہا كہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى بيمارى شدت پكڑگئي تو عبد الرحمن بن ابى بكر سے فرمايا ، شانے كى ہڈى(۳۶) يا كوئي تختى ميرے لئے فراہم كرو كہ ابو بكر كے بارے ميں وصيت ان كے نام كے ساتھ لكھ دوں تاكہ كوئي انكى مخالفت نہ كرے(۳۷)

ليكن جيسے ہى عبد الرحمن اٹھے كہ حكم رسول بجالائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے ابو بكر خدا و مومنين ہرگز اجازت نہ ديں گے كہ تمھارے خلاف نزاع بڑھے (اور چونكہ پيغمبر كے ارشاد كے مطابق خدا و مومنين خلافت و حكومت ابوبكر كے بارے ميں اج تك كسى قسم كے اختلاف كى اجا زت نہيں دے رہے ہيں اسلئے وصيت لكھنے كى ضرورت نہيں )

يہ بھى صحيح مسلم ميں ابو مليكہ كا قول مروى ہے، كہ عائشه سے پوچھا گيا ، اگر فرض كيا جائے كہ رسول خدا اپنا جا نشين معين كريں تو كس كا انتخاب فرمائيں گے ؟

عائشه نے جواب ديا ، ابو بكر كو

ابو بكر كے بعد كس كو خلافت كے لئے نامزد كريں گے ؟

عمر كو

ان كے بعد ؟

ابو عبيدہ جراح كو(۳۸)

اس طرح كى روايات جنھيں ام المومنين عائشه سے فضائل شيخين ميںروايت كى گئيں ہيں بہت زيادہ ہيں ، ہم ان روايات كو تحقيق كے باب ميں انكا تجزيہ كريں گے ، يہاں اسے بطور نمونہ پيش كيا گيا _

____________________

۳۶_ اس زمانے ميں كاغذ كى جگہ شانے كى ہڈى استعمال كى جاتى تھى

۳۷_ صحيح مسلم ج۷ ص۱۱۰ ، طبقات بن سعد ،مسند احمد ، مستدرك ، كنزل العمال منتخب _ مستدرك ميں ابو عبيدہ نام ملتا ہے

۳۸_ ابو عبيدہ جراح كا نام عامر بن عبد اللہ قرشى فہرى تھا ، سابقين اسلا م ميں تھے ، دونوں ہجرت ميں شريك ہوئے ، عمر كى طرف سے حاكم شام ہوئے ۱۸ھ ميں وہيں مرض طاعون ميں انتقال كيا ، اور بعد ميں اردن ميں دفن كئے گئے ، استيعاب ، اصابہ اسد الغابہ

۷۸

ان احاديث كى پيدائشی كا زمانہ

يہ احتمال زيادہ ہے كہ اس قسم كى احاديث كى روايت اور شہرت ابو بكر اور عمر كے زمانہ ء خلافت ميں ہوئي ، كيونكہ ان دونوں خلفاء راشدين كا نام ايك كے بعد دوسرے كا ترتيب سے ليا گيا ہے ، ليكن يہ كہ اگر رسول كسى كو خليفہ بنانا چاہتے تو اسى ترتيب سے خليفہ بنا تے _

ہم اس قسم كى احاديث كو چار حصوں ميں تقسيم كرتے ہيں

پہلى قسم ان احاديث كى ہے جن ميں چاروں خلفاء كے نام اسى ترتيب سے على ابن ابى طالب تك لئے گئے ہيں _

جس ترتيب سے خليفہ بنے ہيں ، ميرے خيال ميں ايسى حديثيں حضرت على بن ابى طالب كے بعد بنائي گئي ہيں ، جبكہ چاروں خلفاء كا زمانہ ختم ہو چكا تھا _

محب طبرى نے رياض النضرہ ميں حديث رسول كو نقل كيا ہے وہ اسى قسم ميں اتى ہيں _

رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے فرمايا: ميں اور ابو بكر ، عمر ، عثمان اور على حضرت ادم كى خلقت سے ہزار سال پہلے انوار كى شكل ميں عرش كے دا ہنى جانب تھے ، جب ادم خلق ہوئے تو خدا وند عالم نے ہميں انكى پشت ميں قرار ديا اور اسى طرح پاكيزہ اصلاب ميں منتقل ہوتے رہے ، يہاں تك كہ مجھے صلب عبد اللہ ميں ابو بكر كو صلب ابو قحافہ ميں عمر كو صلب خطاب ميں ، عثمان كو صلب عفان اور على كو صلب ابو طالب ميں منتقل كيا _

پھر خدا وند عالم نے ان سب كو ميرے لئے چن ليا ، نتيجے ميں ابو بكر كو صديق اور عمر كو فاروق ، عثمان كو ذوالنورين اور على كو ميرا وصى قرار ديا ،پس جو شخص بھى ميرے اصحاب كى برائي كرے وہ ايسا ہے جيسے اس نے ميرى برائي كى ، اور جو شخص بھى مجھے دشنام دے اس نے خدا كو دشنام ديا ، اور جو شخص خدا كو دشنام ديگا اسے اوندھے منھ جہنم ميں جھونك ديا جائے گا

اس حديث كا وضعى زمانہ خود بخود روشن ہے

۱_ اس قسم كى احاديث كا گڑ ھا جانا اور شائع ہونے كا زمانہ اس وقت كو سمجھنا چاہيئے جب چاروں خلفاء كى خلافت ختم ہو چكى تھى ، بلكہ بہت بعد ميں ہونا چاہيئے كيونكہ ميرى بيان كى ہوئي باتوں كے علاوہ اس حديث ميں دشنام دينا اور برا بھلا كہنے كى بات ہے ، اور ہم جانتے ہيں كہ سب و شتم كى رسم حكومت معاويہ كے زمانے ميں اور اسكے بعد

جارى ہوئي ، اور اسكا حكم اسى نے ديا تھا ، رسول خدا كے زمانے ميں يہ رسم نہيں تھى كہ كوئي كسى صحابى كو دشنام دے اور اس حكم كا خدا و رسول كى جانب سے مستحق قرار پائے _

۷۹

۲_ اگر چہ اس حديث ميں چاروں خلفاء كا نام ترتيب خلافت كے لحاظ سے ايا ہے ، اس قسم كى احاديث امام كے زمانے ميں نہ گڑھى جا سكتى ہے نہ مشھور كى جا سكتى ہے كيونكہ جس وقت امام نے خلافت قبول فرمائي تو تمام لوگ پورے طور سے دو گروہوں ميں بٹ گئے تھے ، ايك گروہ شدت سے عثمان كو برا بھلا كہہ رہا تھا ، دوسرا گروہ بھى حضرت علىعليه‌السلام ولى كو اچھا نہيں سمجھ رہا تھا ، انھيں اچھائيوں كے ساتھ ياد نہيں كرتا تھا ،، اس صورتحال ميں كون شخص ايسى حديث وضع كر سكتا ہے ؟

۳_ حكو مت معاويہ ميں بھى اگر چہ سب و شتم كا بازار ہر جگہ گرم تھا حديثيں گڑھنے ميں لوگ ايك دوسرے سے بازى ليجانے كى كوشش كر رہے تھے ، ليكن بنيادى حيثيت سے اس كو صرف على اور انكى اولاد اور بنى ہاشم كے خلاف مخصوص ركھا گيا تھا ، اور اموى سياست اس بات كى متقاضى تھى كہ حضرت على كو ديگر خلفاء راشدين سے الگ كر ديا جائے ، ان كا نام اس ستون سے حذف كر ديا جائے ، ان تينوں كو ہر حقيقت سے على پر برترى دى جائے ، اور ہم جانتے ہيں كہ يہى سياست اخرى حكومت بنى اميہ تك جارى رہى _

۴_ ان تمام باتوں كے بعد ہم يہ كہے بغير نہيں رہ سكتے كہ اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ اس عہد ميں متعين ہوتا ہے جب بنى اميہ كا زوال ہو رہا تھا اور بنى عباس كو اقتدار ملنے كے اثار نماياں تھے _

اسكى دليل يہ ہے كہ خلفاء بنى عباس بھى جنھوں نے اپنے چچا كے فرزندوں علويين كے نام پر اقتدار حاصل كيا تو اپنے سلف بنى اميہ كى طرح معمولى بہانوں سے علويوں كا بے رحمانہ خون بہايا _

ان باتوں كى بنياد پر اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ يہى متعين ہوتا ہے كہ بنى اميہ كا دور ختم ہو رہا تھا اور اہلبيت كے نام پر لوگوں كو دعوت دى جا رہى تھى ، كيو نكہ يہى موقع تھا جب بنى ہاشم كے دونوں خاندان علوى اور عباسى مل كر اموى اقتدار كو اكھاڑ پھينكنے كى سعى كر رہے تھے اور بنى عباس كى سياست اس موقع پر ايسى تھى كہ اموى سياست كو ذكر دينے كيلئے نام على كو خلفاء ثلثہ كے نام كے ساتھ شائع كيا جائے در انحاليكہ ہم جانتے ہيں كہ خلفاء بنى اميہ ان تينوں خلفاء كو ہٹا كر صرف على ہى پر سب و شتم كرتے تھے ، حضرت علىعليه‌السلام كے نام كو خلفاء راشدين كى فہرست سے حذف كر ديا تھا _

ايسا گمان ہوتا ہے كہ بنى عباس اتنے ہى پر مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے قدم اگے بڑھايا اور بنى اميہ كى

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216