تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه36%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87136 / ڈاؤنلوڈ: 4299
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

سياست اور ان كے دعوے كو باطل كرنے كيلئے خاص طور سے عثمان كا نام خلفاء كى فہرست سے حذف كر ديا ، درج ذيل حديث ميرے اس دعوے كى واضح دليل ہے كہ اسى عہد ميں بنائي گئي ہو گى _

جابر بن عبد اللہ انصارى روايت كرتے ہيں كہ ہم رسول خدا كے ساتھ مدينے كے ايك باغ ميں تھے ، اچانك اپ نے ميرى طرف رخ كر كے فرمايا ، ابھى تمھارے پاس ايك شخص ائے گا جو جنتى ہو گا _

ہم نے گردن اٹھا ئي كہ اس جنتى شخص كو ديكھيں اتنے ميں ابوبكر اگئے ، ہم نے انھيں اس بشارت كى مباركباد دى _

ذرا دير نہ گذرى تھى كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے دوسرى بار فرمايا :

ايك جنتى شخص ابھى تمھارے پاس ائے گا _

ہم نے سر اٹھايا تو ديكھا كہ عمر پہونچے ، ہم نے انھيں اس بشارت كى تہنيت پيش كى ذرا دير بعد تيسرى بار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ايك جنتى شخص تمہارے پا س ائے گا اور پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے درخت خرما كى شاخ كے نيچے اپنے ہاتھ اسمان كى طرف بلند كر كے فرمايا :

خدا وند كيا اچھا ہو كہ تو ارادہ فرمادے كہ وہ شخص على ہو اتنے ميں على پہونچے ، ہم نے اس عظيم موھبت پر انھيں تہنيت پيش كى _

ہم جو اس حديث كے صحيح نہ ہونے كى بات كہہ رہے يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ ہم رسول خدا اور ان ذريت طاہرہ اور تقوى شعار صحابہ كے فضائل كا انكار كر رہے ہيں ، نہيں ، ہر گز ايسا نہيں ، ہم ہرگز ان كے فضائل كے منكر نہيں ، ليكن يقين نہيں اتا كہ خدا نے صرف انھيں گروہ صحابہ كو جو مسند خلافت پر برا جمان ہوئے ، اور جو لوگ اس مرتبے پر فائز نہيں ہوئے ان كے درميان اس حد تك فرق كے قائل ہو جائيں كہ انكى طينت كو نور سے اور انكى طينت كو مٹى سے خلق كيا جائے_

ان باتوں كے علاوہ اور دوسرے دلائل جو ائندہ بيان كئے جائيں گے خود ہى حق ديتے ہيں كہ اس قسم كى احاديث كو صحيح و درست ماننے ميں جو خلفاء راشدين كا انكى خلافت كى ترتيب سے پئے در پئے ايا ہے شك اور ترديد كى نظر ڈاليں _

دوسرے قسم كى احاديث ميں وہ حديثيں اتى ہيں جن ميں تينوں خلفاء كا نام اول سے عثمان تك يكے بعد ديگرى ايا ہے _

۸۱

ہمارے عقيدے كے مطابق اور پہلے قسم كى احاديث كے بارے ميں جو كچھ عرض كيا گيا اس كى روشنى ميں اس قسم كى احاديث بھى عثمان كى حكومت كے زمانے ميں گڑھى گئي ہيں ان سے پہلے نہيں گڑھى گئي ہيں ، چنانچہ ان ميں سے كچھ احاديث ميں عثمان كے قتل ہونے كا بھى بيان ہے ، اس سے يہى اندازہ لگايا جا سكتا ہے كہ عثمان كے قتل كے بعد يہ

حديثيں گڑھى گئي ہيں ، تاريخ قتل سے پہلے نہيں _

تيسرے قسم كى احاديث وہ ہيں جن ميں فقط شيخين كا نام ہے ، ايك كے بعد دوسرے كانام ايا ہے ، ہمارا تو اس بارے ميں عقيدہ يہ ہے كہ اس قسم كى احاديث عمر كے بر سر اقتدار انے كے بعد گڑھى گئي ہيں ، انكى خلافت سے پہلے نہيں _

چوتھے قسم كى احاديث وہ ہيں جن ميں صرف خلافت ابوبكر كا نام ہے اور چونكہ ان ميں صرف ابوبكر كا نام ہے عمر كا نام درميان ميں نہيں ہے اسلئے گمان قوى ہے كہ عمر كى حكومت سے پہلے ان كو گڑھا گيا ہے ، اس بنا ء پر احتمال يہ پيدا ہوتا ہے كہ ابو بكر كے نام سے وصيت لكھنے كى حديث ان كے خليفہ ہو جانے كے بعد روايت كى گئي ہے كيو نكہ ان ميں عمر كا نام نہيں ہے _

ليكن يہ حديث كہ (اگر يہ بات طئے كى جاتى كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كسى كو اپنا جانشين بنائيں تو پہلے ابو بكر كو معين كر تے ، ان كے بعد عمركو اور ان كے بعد ابو عبيدہ جراح كو )گمان قوى ہے كہ يہ حديث عمر كى حكومت كے زمانے ميں عثمان سے پہلے گڑھى گئي ہے ، كيونكہ عمر خود ابو عبيدہ كے بارے ميں كہتے تھے كہ اگر ابو عبيدہ زندہ ہوتے تو انھيں كو خليفہ بناتا _

ہم نے بعض ان احاديث عائشه كو يہاں بيان كيا جنكى اشاعت خلافت شيخين كے زمانے ميں ہوئي حا لانكہ اس قسم كى ڈھير سارى احاديث موجود ہيں ، جنھيں ہم خلافت شيخين كا زمانہ ختم ہونے كے وقت سمجھنے پر مجبور ہيں انہيں ميں يہ حديث ہے كہ جناتوں نے عمر كى نوحہ سرائي كى اس حديث كى اشاعت قتل عمر كے بعد يا شايد بہت بعد ميں شائع ہوئي ہو گي_

عمر كے لئے جناتوں كا نوحہ

ہم نے اس سے پہلے كى فصل ميں بيان كيا كہ عائشه نے اپنے باپ ابو بكر اور ان كے پرانے ساتھى عمر كى حكو مت كى تائيد اور استحكا م كے لئے احاديث رسول بيان كيں ان ميں بعض كا تجزيہ كر كے كہا ہے كہ ان احاديث كى پيدائشی اور اشاعت كسى طرح بھى ابو بكر و عمر كے زمانے سے ميل نہيں كھاتيں ، بلكہ كئي سال بعد ان دونوں كى حكومتيں ختم ہو نے كے بعد زبانوں پر اتى ہيں ، انھيں ميں ايك حديث ہے جناتوں كى نوحہ خوانى عمر كے سوگ ميں ، جس كے بارے ميں احتمال قوى ہے كہ عمر كے موت كے كافى دنوں بعد يہ گڑھى گئي ہے ، متذكرہ حديث اس طرح ہے _

۸۲

ام المومنين عائشه سے روايت كى گئي ہے كہ عمر كے قتل ہونے كے تين دن پہلے جناتوںنے مجلس عزا منعقد كى اور نوحہ خوانى كرتے ہوئے يہ اشعار پڑھے _

ابعد قتيل بالمدينہ اظلمت لہ الارض ، تھتز العضاہ يا سوق جزى اللہ خيراً من امام و باركت يد اللہ ، فى ذاك الاديم الممزق فمن يسع او يركب،جناحى نعامة ليد رك ما قدمت بالامس، ليسبق قضيت اموراً ، ثم غادرت بعدھا بوائق فى اكمامھا لم تفتق فما كنت اخشى ان يكون وفاتہ بكفى سبتى ازرق العين مطرق

استيعاب ج۲ص ۲۴۱ _كتاب الاغانى ج۸ص ۱۹۲

كيا اس مقتول كے بعد جو مدينہ ميں اپنے خون ميں نہايا اور دنيا تيرہ و تار ہو گئي ، روئے زمين پر دوبارہ بھى سبزہ اگے گا ؟

خدا وند عالم ہم سب كى طرف سے تمہارے جيسے امام كو جزائے خير دے ، اور تيرے شكم دريدہ كو اپنى رحمت اور كرم كا مورد قرار دے _

كوئي شخص بھى ہو لاكھ فكر كرے كہ تيرى طرح كارنامے انجام دے جو تو كر گيا اسے انجام دے ڈالے ہرگز عہدہ بر انہ ہو سكے گا ، اپنى حكمرانى كے زمانے ميں كاموں كو بڑے اچھے ڈھنگ سے انجام ديا ليكن تيرے بعد كتنے ہى فتنوں نے سر ابھارا ہے _

كبھى خواب و خيال ميں بھى نہ سوچا گيا تھا ، وہ يہ ديكھنے كو ملا كہ ايسے امام كى موت ايسے بد خصلت دشمن نيلى انكھ والے بھڑيئے كے ہاتھوں انجام پائے گى ہمارے خيال ميں يہ اشعار عمر كى موت كے بہت بعد كى پيدا وار ہيں _

كيونكہ

۱_ متذكرہ اشعار ميں اٹھے ہوئے فتنوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے جو عثمان كى خلافت كے نصف اخر ميں پيش ائے ، نہ كہ عمر كے اخرى زمانے ميں يا عثمان كے اوائل حكومت ميں ذرا اس مصر عے پر توجہ فرمايئے ...ليكن تمہارے بعد كيسے كيسے سوئے ہوئے فتنے ظاہر ہوئے_

۲_ اگر ہم مان بھى ليں كہ فتنہ ظاہر ہونا غير واضح كنايہ ہے ، پھر قاتل عمر كا تعارف اسقدر واضح كيسے ، وہ بھى جرم كے تين دن يا كچھ پہلے يہ ايسا معاملہ ہے كہ حادثہ واقع ہو جانے كے بعد ہونا چاہيئے نہ كہ اس سے پہلے _

۸۳

۳_ ام المومنين عائشه كے قول كى بناء پر جناتوں نے پاپ بھرے واقعے كے تين روز قبل اور وہ بھى نيلى انكھ والا بھيڑيا صفت كے ہاتھوں ، يہ ايسا معاملہ ہے جو قران كے واضح نص كے خلاف ہے كيونكہ كلام خدا كے بموجب ان جناتوں كو داستان سليمان پيغمبر ميں دو قدم بعد كى خبر نہ تھى ، تين روز پہلے كى بات تو دور كى ہے ، وہ سليمان پيغمبر كى موت كو نہ سمجھ سكے يہى جنات پورے ايك سال رنج و عذاب جھيلتے رہے ، حضرت سليمان كى موت ان كے چند قدم كے فاصلے پر ہوئي تھى ليكن وہ بے خبر رہے ، سليمان مرنے كے بعد ايك سال اپنے عصا كے سہارے ٹكے رہے وہ سليمان كو چند قدم كے فاصلے

سے ديكھتے رہے ، رات دن قصر بنانے ميں اپنى جان كھپاتے رہے ، اخر ايك سال بعد جب ديمك نے عصا كھا ليا تو عصا ٹوٹ گيا ، اور سليمان كا جسد بے جان زمين پر گرا ، اسوقت جناتوں كو معلوم ہوا كہ ہم نے ايك سال تك بلا وجہ جا ن كھپائي ، اس حساب سے اپ ہى بتايئےہ اس وحشتناك راز يعنى موت عمر كى تين دن پہلے سے انھيں اطلاع ہو گئي ، اور حصباء كى سر زمين پر ام المومنين كے سامنے انھو ں نے خليفہ كے سوگ ميں مجلس عزا منعقد كى ؟ بہر حال يہ حديث عمر كى وفات كے بعد روايت ہوئي ہو گى اس سے پہلے نہيں ، پھر يہ كہ اسے ام المومنين عائشه كے ابيات سمجھيں تب تو يہ صورتحال بنتى ہے _

جبكہ ہم ديكھتے ہيں كہ ابو الفرج نے اغانى(۳۹) ميں شماخ شاعر كے حالات لكھتے ہوئے بتايا ہے كہ اس كے دو بھائي تھے دونوں ہى شاعر تھے ، ايك كا نام مزرد تھا اور دوسرے كا جزء ، اسى نے عمر كا مرثيہ كہا ہے ،

عليك سلام من امير و باركت ...يد اللہ فى ذاك الاديم الممزق _

اسكے بعد وہ تمام اشعار ہيں جنھيں شروع ميں نقل كيا گيا _

اور اشتقاق ميں كہتا ہے(۴۰) كہ ضرار كے تين فرزند تھے جنھوں نے اسلام كا زمانہ پايا ، ان ميں ايك كا نام جزء تھا ، اسى نے عمر كا مرثيہ كہا _

عليك سلام الله اخر تك تمام اشعار

بہر حال ايسا معلوم ہوتا ہے كہ ان اشعار كو شماخ يا اسكے بھائي جزء سے اسى زمانے ميں منسوب كيا گيا _

____________________

۳۹_ اغانى ج ۸ص ۱۹۴ شماخ اور اسكے بھائيوں نے جاہليت اور اسلام دونوں زمانہ پايا ، ان ميں سب سے مشھور شاعر شماخ ہے ، جسكا شعر ى ديوان بھى مرتب كيا گيا ہے ، اس نے عثمان كے زمانے كى بعض جنگوں ميں شركت كى ہے ، اصابہ ۲/ ۱۵۲ ، اسد الغابہ ۴/ ۳۵۱

۴۰_ اشتقاق ص ۲۸۶ _ اسد الغابہ حالات عمر ، ديوان حماسہ ص ۱۰۹ ديكھى جائے

۸۴

ايك دوسرى روايت كى بنياد پر ام المومنين نے اپنى بہن ام كلثوم بنت ابى بكر كيلئے جو واقعہ گذرا اسے يوں بيان كيا ہے _ عمر نے جو اخرى حج كيا اسميں ازواج رسول كو اجازت دى كہ وہ بھى حج كريں ، اس سفر ميں عمر نے جب حصباء سے كوچ كيا تو ميں نے ايك شتر سوار كو ديكھا جو اپنا پورا چہرہ چھپائے ہوئے تھا صرف اسكى انكھيں نظر اتى تھيں ، اس نے پوچھا ، كيا وہ (عمر ) يہاں ٹھرے تھے ؟

ايك شخص نے جواب ديا ، ہاں اس جگہ وہ ٹھہرے تھے _

يہ سنكر شتر سوار نے اپنا اونٹ بٹھايا اور بلند اواز سے عمر كے ماتم ميں يہ اشعار پڑھنے لگا ،(ابعد قتيل ...اخر اشعار تك )

ميں نے اپنے ايك ساتھى كو حكم ديا كہ نوحہ پڑھنے والے كو پہچان كر مجھے بتائے ، وہ گيا ليكن نا كام واپس ايا كيونكہ اس نے منھ چھپائے ہوئے شتر سوار كو وہاں نہيں پايا ، حالانكہ وہ ميرے سامنے عمر پر نوحہ پڑھ رہا تھا ، خدا كى قسم ميں سمجھتى ہوں كہ وہ جناتوں ميں سے تھا _

اسكے بعد حديث ميں يہ ہے كہ :

جب عمر قتل كرديئےئے تو لوگوں نے ان اشعار كو فرزند ضرار كى طرف منسوب كر ديا _

اس روايت كو ابو الفرج نے اغانى ميں شماخ كے حالات زندگى بيان كرتے ہوئے لكھا ہے ، ابن عبد البر نے استيعاب ميں حالات عمر كے ذيل ميں لكھا ہے ، ليكن طبقات بن سعد ميں ذرا سى لفظى تبديلى كے ساتھ دونوں روايتيں ہيں ،ليكن تينوں روايتوں كا مفہوم ايك ہى ہے _

ابن حجر نے اصابہ ميں صحت سند پر زور ديتے ہوئے اس روايت كو عائشه كى بہن ام كلثوم كے واسطے سے نقل كيا ہے _

جس حديث كى سند كو ابن حجر صحيح سمجھتے ہيں وہ اس طرح مروى ہے كہ ان شعروں كى شھرت شماخ يا اسكے بھائيوں كى طرف سمجھى جا سكتى ہے _

۸۵

وجہ يہ ہے كہ اس حديث ميں وضاحت ہے كہ ام المومنين خود ہى عمر كے ساتھ اخرى حج بجالاتے ہوئے مشعر الحرام ميں خود ديكھا كہ جناتوں نے عمر كے سوگ ميں نوحہ خوانى كى ، اسميں ذرا بھى شك اور ترديد كى گنجائشے نہيں ، اور جب ام المومنين عائشه نے ايسا فرمايا ہے تو يقينى طور سے جناتوں نے عمر كے قتل سے تين روز قبل عمر كے سوگ ميں نوحہ خوانى كى ، خليفہ اسى سفر سے واپسى كے بعد مدينے ميں قتل كئے گئے ، اس واقعے كے بعد لوگوں نے اپنى زبانوں پر دہرايا ، اور نا دانستہ طور پر ضرار كے فرزندوں كى طرف منسوب كر ديا _

ام المومنين نے خود ديكھا كہ شتر سوار منھ چھپائے قيام گاہ عمر سے اسى وقت جبكہ انھوں نے كوچ كيا تھا تلاش كرنے لگا ، ايك دوسرے مجھول الحال نے انكى قيام گاہ بتائي پھر نقاب دار شخص نے اپنا اونٹ بيٹھايا اور عمر كى موت كا مرثيہ پڑھنے لگا ، ٹھيك اسى وقت ام المومنين نے اپنے قافلے كے ساتھى كو وہاں بھيجا كہ نقاب پوش كا پتہ لگائے ليكن وہ

ادمى غائب ہو چكا تھا ، اس بنا ء پر ذرا بھى شك نہيں رہ جاتا كہ وہ نقاب پوش جنات تھا ، ورنہ وہ كيسے انكھوں سے پنہاں ہو جاتا ، اور كسى نے اسكو نہيں ديكھا ؟ اسى وجہ سے ام المومنين نے قسم كھائي (فواللہ انى لا حسبہ من الجن )خدا كى قسم ميرا تو يہى گمان ہے كہ وہ جنات تھا ، اب جبكہ ام المومنين نے اپنى انكھوں سے ديكھا اور قسم كے ذريعے بات ميں مزيد تاكيد پيدا كى تو كيا كسى كے لئے شك اور ترديد كى گنجائشے رہ جاتى ہے كہ ان اشعار كو جنات كے سوا كسى نے عمر كے قتل سے تين دن پہلے پڑھا ہو ؟

اس قسم كے بعد جو بھى دعوى كرے كہ يہ اشعار ضرار نے موت عمر كے بعد كہے ہيں اسے نہ مانيئے ، كيونكہ اسكا دعوى باطل ہو جائے گا ، وجہ يہ ہے كہ يقين حاصل ہو جاتا ہے كہ ان اشعار كو جناتوں نے موت عمر سے پہلے پڑھا ہے ، منى ميں پڑھا ہے اور عمر كے مدينہ پہونچنے سے پہلے پڑھا ہے _

۸۶

اوپر جو كچھ كہا گيا اس كے علاوہ جو چيز مجھے اس حديث كى صحت كے بارے ميں مشكوك بناتى ہے يہ ہے كہ بالفرض اگر ہم مان ليں كہ جنات كو ديكھنا اور نوحہ پڑھنا صرف ام المومنين نے ديكھا تو ہميں ماننا پڑے گا كہ ہزاروں حاجيوں نے جو منى ميں موجود تھے اس جنات كو ديكھنے سے محروم رہے ، وہاں اكيلى ام المومنين ہى تو موجود نہيں تھيں ، بلكہ دوسرى ازواج رسول بھى تھيں ، زينب اور سودہ ہر منزل پر ان كے ساتھ ساتھ رہيں ، جہاں ٹھہرتيں يہ بھى ٹھہر جاتيں ، جہاں سے كوچ كرتيں يہ بھى كوچ كرتيں ، پھر ان ازواج رسول نے واقعہ كا مشاہدہ كيوں نہ كيا كہ سوگ عمر ميں جناتوں كے نوحے كى روايت صرف ام المومنين عائشه نے كى ہے ، اس مرثيے كو ادمى سے منسوب ہونے كى ترديد ميں اور بقول ام المومنين عائشه جناتوں كے ہونے كى تاكيد ميں طبقات بن سعد ميں ہے جو بطريق موسى بن عقبہ روايت كى گئي ہے (عائشه نے پوچھاكہ يہ شعر پڑھنے والا كون ہے ؟)

جزى الله خير ا من امام و باركت

لوگوں نے جواب ديا ضرار كا فرزند

عائشه كا بيان ہے كہ يہ سننے كے بعد ميں نے ضرار كے بيٹے سے ملاقات كى اور يہ بات اس سے پوچھى ، اس نے قسم كھا كر كہا كہ ميں اس موقع پر منى ميں تھا ہى نہيں _

ميرے لئے فرق نہيں كہ اس روايت كى سند گذشتہ حديث ام المومنين كے مانند صحيح ہے يا ابن حجر كے بقول

ضعيف ہے(۴۱) ، يہاں بات صرف اتنى ہے كہ مجھے اس حديث سے يہى سمجھ ميں اتا ہے كہ ان اشعار كے بارے ميں كہ وہ ادمى تھا يا جنات تھا ، اس وقت كے حاضر ين كو بھى شك اور ترديد تھا _

اسى بنياد پر اخرى حديث كا شبہ ختم كرنے كيلئے اسى كے گرد ا گرد دو حديث صحيح سند كے ساتھ ام المومنين سے روايت كى گئي _

____________________

۴۱_ اابہ ج۳ ص ۳۸۵ _ ۳۸۶

۸۷

احترامات متقابل

ام المومنين خلافت شيخين كے تمام زمانے ميں خلافت كى طرف سے خاص توجہ و احترام كى مستحق سمجھى جاتى تھيں ، وہ بھى اسكے مقابلے ميں خلافت كے خصو صى احترام كو ملحوظ ركھتيں خليفہ كى عظمت نماياں كرتيں ، ان كا مرتبہ لوگوں كى نظر ميں بڑھاتى تھيں ، مرتبہ خلافت كے حضور اپنى فروتنى سے تمام مسلمانوں كى خود سپردگى كا ماحول تيار كرتيں _

خلافت بھى عائشه كى شخصيت كا احترام ، انكى رضا جوئي اور بزرگى دو بالا كرنے اور دوسرى ازواج انھيں ترجيح دينے سے غفلت نہيں برتتى تھيں_

اس متقابل احترامات كى تمام زمانہ خلافت شيخين ميں رعايت كى گئي خاص طور سے عمر كى موت كے وقت تك قائم رہا ، احترام و الفت نيز دونوں طرف سے جھك كر ملنے كا نمونہ عمر اور عائشه كے مكالمہ سے ظاہر ہے_

بخارى نے فضائل اصحاب نبى كے باب ميں ، اور ابن سعد نے طبقات ميں عمر وبن ميمون كے طويل بيان كے ضمن ميں لكھا ہے كہ :

عمر نے اپنے بيٹے عبد اللہ كو حكم ديا كہ ام المومنين عائشه كى خدمت ميں جائو ، اور ميرى طرف سے يہ پيغام پہونچا ئو كہ عمر سلام عرض كرتا ہے اور استدعا كرتا ہے كہ مجھے مرنے كے بعد رسول اور ابو بكر كے پہلو ميں دفن ہونے كى اجازت مرحمت فرمائيں _

عبد اللہ اسى وقت ام المومنين كى خدمت ميں پہونچے تو ديكھا كہ وہ بيٹھى ہوئي رورہى ہيں ، عبد اللہ نے باپ كا پيغام ديا تو عائشه نے جواب ميں كہا ، ميں نے وہ جگہ خود اپنے لئے مخصوص ركھى تھى ، ليكن خليفہ كو اپنے اوپر ترجيح ديتى ہوں _

عبد اللہ اثبات ميں جواب پاكر خدمت خليفہ ميں پہونچے ، عمر نے پوچھا كيا خبر ہے ؟

نتيجہ اپ كى توقع كے مطابق ہے ، ام المومنين نے اجازت ديدى _

خدا كا شكر ، ميں اس مسئلے ميں بہت فكر مند تھا _

۸۸

عائشه كا گھر دار الشوري

ابن عبد ربہ عقد الفريدميں لكھتے ہيں كہ :

عمر نے اپنى باتوں كے درميان چھ ادميوں كو خلافت كا نمائندہ بناتے ہوئے كہا ، عائشه كى اجازت اور رائے سے ان كے گھر ميں ا نا اور باہم ايك دوسرے سے مشورہ كر كے ايك شخص كو خليفہ مقرر كر لينا _

جب عمر مر گئے تو انھيں دفن كر ديا گيا ، مقداد بن اسود جو اس شورى كميٹى كے ممبر تھے انھوں نے سب كو عائشه كے گھر ميں انكى اجازت ليكر جمع كيا ، اسى وقت عمر و بن عاص اور مغيرہ بن شعبہ ائے اور عائشه كے دروازے پر بيٹھ گئے ،سعد بن وقاص نے ان دونوں كو سنگريزے مار كر وہاں سے بھگا ديا اور كہا :

تم ہم سے يہ كہنا چاہتے ہو كہ ہم بھى خليفہ مقرر كرنے كيلئے شورى كميٹى كے ايك ممبر تھے اور عائشه كے گھر ميں موجود تھے ، اسطرح تم دونوں اپنے كو ہم لوگوں كے ہم پلہ قرار دينا چاہتے ہو ؟

اب جبكہ بات ان چار كى ہوتى ہے ، ان كا تعارف فائدے سے خالى نہيں _

مقداد

مقداد بن اسود كندى _ عمر بن ثعلبہ كے فرزند تھے ، ليكن انھوں نے جاہلى زمانے ميںكسى خاندان كى فرد كو قتل كر ديا تھا اسلئے حضر موت كى طرف بھاگ گئے تھے ، وہيں قبيلہ كندہ كے ہم پيمان بن گئے ، پھر وہاں ابو شمر سے جھگڑا ہو ا ، اسكى پنڈلى كو تلوار سے زخمى كر ديا جسكى وجہ سے مكہ بھاگنا پڑا وہيں اسود بن عبد يغوث كے ہم پيمان ہوگئے ، انھيں كے فرزند كہے جانے لگے اس تاريخ سے انھيں مقداد بن اسود كہا جانے لگا ، جب خدا نے آيت نازل كر كے حكم ديا كہ ادعوھم لابائھم (لوگوں كو ان كے باپ كے نام سے پكارو )تو انھيں مقداد بن عمر و كہكے پكارا جانے لگا ، مقداد كا انتقال ۳۳ھ ميں ہوا _

۸۹

عمر و عاص

انكى كنيت ابو عبد اللہ يا ابو محمد تھى ، عمر وعاص قريش كے قبيلہ بنى سھم سے تھے ان كى ماں كا نام نابغہ بنت حرملہ تھا ، جو ايك جنگ ميں غنيمت كى شكل ميں بازار عكاظ ميں بكنے ائي ، اسے مغيرہ كے بيٹے وفا نے خريد كر پہلے عبد اللہ بن جد عان اور بعد ميں عاص بن وائل كو ديديا ، اخر نابغہ سے عمرو عاص پيدا ہوئے ،(عمر و عاص كى ماں نابغہ دور جاہليت كى مشھور ترين رنڈى تھى )

قريش نے عمر و عاص كو حبشہ بھيجا تاكہ نجاشى كى رائے جعفربن ابى طالب اور دوسرے ان مسلمانوں كے بارے ميں بدل سكے جنھوں نے حبشہ ہجرت كى تھى ، اور ان سب كو مكہ واپس لا سكے ، نتيجے ميں نجاشى نے عمر و كو اپنى بارگاہ سے دھتكار ديا _

عمر و عاص ۶ھ ميں فتح مكہ سے چھ مہينے قبل اسلام لائے ، اور خليفہ عمر كے زمانے ميں مصر ان كے ہاتھوں فتح ہوا تو عمر كے حكم سے وہاں كے گورنر بن گئے ، خلافت عثمان كے چوتھے سال تك وہ وہاں كے گورنر رہے ، پھر عثمان نے انھيں معزول كر ديا ، اسى وجہ سے عمر و عاص اس گروہ ميں شامل تھے جنھوں نے عثمان كى شديد مخالفت كى ، ان كے خلاف پر چار كر كے لوگوں كو ابھارتے ، يہاں تك كہ عثمان قتل كر دئے گئے _

اسكے بعد عمر وعاص معاويہ سے مل گئے اور انتقام خون عثمان كا نعرہ لگا كر على سے جنگ كي، انھيں كى عيارى سے جنگ صفين ميں قران نيزوں پر بلند كيا گيا ، جنگ اپنے اخرى مرحلے ميں تھى اور معاويہ كا كام تمام ہونا ہى چاہتا تھا كہ جنگ كا نقشہ پلٹ گيا _

جب حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنى جانب سے ابو موسى اشعرى كو حكم بنايا تو معاويہ نے اپنى طرف سے عمر و عاص كو حكم بنايا ، اخر كا ر عمر و عاص نے ابو موسى كو دھوكا ديا كہ على كو خلافت سے معزول كر ديا جائے ، اور ذرا موقع دئے بغير انھوں نے معاويہ كو خليفہ نامزد كر ديا ، اس حسن خدمت كے بدلے اور پہلے سے طئے شدہ معاہد ے كے مطابق انھيں مصر كى حكومت مل گئي ، محمد بن ابى بكر كے قتل ہونے كے بعد ۴۳ھ تك يا كچھ بعد تك مصر كے حكمراں رہے ، وہيں ان كا انتقال ہوا اور وہيں دفن كئے گئے استيعاب ، اسد الغابہ ، اور طبقات ديكھى جائے _

۹۰

مغيرہ بن شعبہ

مغيرہ بن شعبہ بن ابو عامر بن مسعود ثقفى ، جنگ خندق كے زمانے ميں اسلام لائے اسكے بعد مدينہ ہجرت كى ، جنگ حديبيہ ميں شريك تھے ، رسول خدا نے ان كو ابو سفيان كے ساتھ بنى ثقيف كے بتوں كو توڑنے كيلئے بھيجا ، مغيرہ كى انكھ جنگ ير موك ميں چلى گئي ، وہ عمر كى طرف سے بصرہ كے گورنر مقرر كئے گئے اور جب ان پر زنا كا الزام لگايا گيا اور لوگوں نے گواہى دى تو انھيں معزول كر ديا ، ليكن كچھ دن بعد كوفے كى گورنرى ديدى ، اخر كار جب وہ معاويہ كى طرف سے كوفے كے گورنر تھے انتقال كيا ، كہتے ہيں كہ انكى تين سو بيوياں تھيں اور بعض روايات ميں ہے كہ ايك ہزار عورتوں سے مسلمان ہونے كے بعد شادى كى(۱)

سعد بن ابى وقاص

ابو اسحق كنيت تھى ، سعد نام تھا جوابى وقاص كے بيٹے تھے ، ابى وقاص كا نام مالك بن اھيب تھا جو قريش كے قبيلہ زھرہ سے تھے _

سبقت اسلامى ميں ان كا ساتواں نمبر ہے ، وہ مسلمانوں ميں پہلے تير انداز تھے جنگ بدر اور تمام غزوات ميں شركت كى ،فتح عراق كے موقع پر وہ سپہ سالار اسلام تھے ، انھوں ہى نے وہاں شھر كھولا اور شہر كوفہ كى بنياد ڈالى ، پھر عمر كى طرف سے وہاں كے گورنر ہوئے ، عمر نے انھيں مجلس شورى كا ايك ركن مقرر كيا تھا سعد نے قتل عثمان كے بعد گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى ، اخر كا ر ۵۰ھ ميں اس زھرسے جسے معاويہ نے عيارى سے انھيں كھلا ديا تھا انتقال كيا انھيں بقيع ميں دفن كيا گيا(۲)

____________________

۱_ استيعاب درحاشيہ اصابہ ج۲ ص۱۸ _ ۲۵ ، اصابہ ج۲ ص۳۰ _ ۳۲

۲_ عمر نے بستر مرگ سے چھ بزرگ نامور صحابہ كو خلافت كے لئے نامزد كيا ، اور طئے كيا كہ يہ لوگ تين روز كے اندر كسى ايك كو خليفہ منتخب كر ليں ، اگر ان ميں اكثريت كسى كو منتخب كر لے اور دوسرے مخالفت كريں تو انكى گردن مار دى جائے ، اور اگر تين تين دونوں طرف ہوں تو جدھر عبد الرحمن ہوں اسى كو خليفہ بنايا جائے ، عبد الرحمن نے موت عمر كے بعد خود كو خلافت سے دستبردار كر ليا اس شرط سے كہ جسكى وہ بيعت كريں سب لوگ اسے مان ليں ، عبد الرحمن اچھى طرح حضرت على كو پہچانتے تھے كہ وہ جاہ طلب سيرت شيخين كو ہرگز قبول نہ كريں گے ، چند روز حكومت كيلئے تئيس (۲۳)سالہ رسول كى محنت برباد نہ كريں گے ، بلكہ عمر بھى اس بات كو جانتے تھے ،كيسے معلوم ہوا كہ انھوں نے عبد الرحمن كو اسكا حكم نہيں ديا ہوگا

انھيں باتوں كے پيش نظر عبد الرحمن نے على سے كہا ميں كتاب اللہ و سنت رسول اور سيرت شيخين كى شرط پر اپ كى بيعت كرتا ہوں ليكن على نے دين كے بدلے دنيا نہيں بيچى ، وہ جانتے تھے كہ اگر قبول نہ كيا تو حكومت نہ ملے گى ، اپ نے فرمايا كہ خدا و رسول كى روش پر بيعت قبول كرتا ہوںليكن سيرت شيخين پر عمل قبول نہيں ، ميں خود اپنى سيرت پر چلوں گا ، اگر عبد الرحمن نے يہ شرط على كے علاوہ كسى سے كى ہوتى تو وہ مان ليتا ، ليكن انھوں نے صرف اپنے داماد عثمان كے سامنے پيش كى ، اور عثمان نے بغير كے اسے قبول كر ليا ، واقعى سوچنے كى بات ہے كہ اخر سيرت شيخين كيا تھى كہ جسے عبد الرحمن نے پيش كيا اور على نے اسے مسترد كر ديا

۹۱

اب ہم پھر اپنے مطلب پر واپس اتے ہوئے خليفہ عمر اور ام المومنين عائشه كے احترامات متقابل كا تجزيہ كرتے ہيں

جس نے قيصر و كسرى كو زير نگين كيا ، انكى حكومت قبضے سے نكال كر اينٹ سے اينٹ بجادى ، جس نے اصحاب رسول پر كوڑے برساكر اپنى مطلق العنانى كا مظاہرہ كيا ، جس شخص كا نام سنتے ہى طاقتور سلا طين اور فرماں روا كانپ جاتے ، ہم ديكھتے ہيں كہ اپنے كو ام المومنين عائشه جيسى خاتون كے سامنے كسقدر حقير سمجھتا ہے ، عاجزى و انكسارى كا مظاہرہ كرتا ہے _

اپنى اخرى ارامگاہ كو انكى اجازت پر منحصر سمجھتا ہے

اسكا گھر شورى كا محل و مقام قرار ديتا ہے تاكہ وہيں عائشه كے گھر ميں مقتدر اسلامى حكومت و خلافت طئے پائے اور مسلمانوں كا حكمراں معين ہو ، اور اس ذريعے سے مسلمانوں كى نظر ميں ان كا مرتبہ و مقام زيادہ سے زيادہ بڑھے انھوں نے اپنے اس اقدام سے تمام دنيائے اسلام كى توجہ ان كے اور انكے گھر كى طرف موڑ دى اور خاص موقع شناسى كے ماتحت ان كا مرتبہ و مقام اسقدر بلند كيا كہ زندگى كى اخرى گھڑيوں ميں كوشش يہى رہى كہ مسلمانوں اور اسلامى معاشرے كى نظر ميں ان كا مرتبہ بلند تر رہے ، اس اقدام اور ان جيسے اقدامات سے عمر نے اپنى خلافت كے زمانے ميں ام المومنين كو اپنے ہمعصروں اور تمام مسلمانوں كے اسقدر ممتاز اور بر تر قرار ديا كہ انكى عظمت كے سامنے اسلامى معاشرہ حقير بن گيا ، اسكى وجہ سے وہ اسقدر طاقتور بن گئيں كہ ان كے بعد دو خلفاء سے انھوں نے شديد اختلاف كيا اور جنگ كرنے كيلئے نكل ائيں _

جى ہاں _ انھوں نے رسول كے دو دامادوںعثمان اور على سے اسقدر شديد اختلاف كيا كہ مسلمانوں كو ان كا خون بہانے كا حكم ديديا ، حالانكہ يہ دونوں اصحاب رسول اور مسلمانوں كے خليفہ تھے ، رسول خدا كے جانشين سمجھے جاتے تھے ، انھوں نے اپنے اثرات اور طاقت سے ايسے حوصلہ مندانہ اقدامات كئے ، اس بار بھى انھوں نے تاريخ اسلام كى رفتارپر اپنى ذہانت كى مدد سے حساس نقوش قائم كئے _

۹۲

بكھرى نكھرى باتيں يہاں تك كہ جو كچھ بيان كيا گيا اسكا خلاصہ يہ ہے كہ جب حكومت وقت ، خاص طور سے خلافت شيخين كے زمانے ميں ام المومنين عائشه سے فتوى اور احكام حاصل كرتى ، انكى اہميت كو تمام ازواج رسول سے بڑھا چڑھا كر پيش

كرتى ، ان كا نام سب سے اوپر ليا جاتا ، ان كے نام كے درميان كسى دوسرى خاتون كا نام نہيں تھا ، اسكى تہ ميں يہ علت كار فرما تھى كہ خلافت اپنے تمام مرتبہ و مقام كے ساتھ ان كى طرف اپنى عنايات مركوز ركھتى تھى ، اور اسى راستے سے حكومت وقت اپنے مقاصد حاصل كرتى ، انكى ذاتى بلند پروازى كا ماحول تيار كرتى اور اج تك مسلمانوں اور اسلامى معاشرے ميں ان كا اسى وجہ سے رتبہ بلند ہے _

تمام ازواج رسول كے مقابل صرف انھيں كا مدينے سے نكلنا روكا گيا ، ان كے ساتھ دوسرے اصحاب كا ملنا جلنا بند كيا گيا ، اس زمانے ميں احاديث رسول كى روايت كم ہونے كى بنيادى وجہ يہى ہے ، كيونكہ زيادہ تر ان كے ہم عصر ، خاص طور سے مدينے كے باشندوں كو صحبت رسول كا شرف حاصل تھا ، اسى وجہ سے انكى احاديث ، دوسروں كى حديثوں كے مقابل حكومت شيخين كے زمانے ميں تعداد كے لحاظ سے بہت كم اور احتمال قوى ہے كہ سيكڑوں تك بھى نہيں پہونچتى ، يہ بھى احتمال ہے كہ اس مقدار كى حديثيں جو اس دور ميں روايت كى گئيں وہى احاديث ہيں جن سے ان كے باپ ابو بكر اور عمر كى خلافت كى تائيد ہوتى ہے ، ان ميں عثمان كا نام نہيں ہے جبكہ وہ خلافت شيخين كے زبردست حمايتى تھے ، اسى طرح فضائل ابوبكر و عمر كى حديثيں ان كے زمانہ حكومت ميں بطور نص كہى گئيں ، اسى عہد كى ہيں بلكہ ان لوگوں كے مرنے كے بعد انھوں نے تمام عمر ان كے فضائل و مناقب ميں حديثيں بيان كيں _

اور بالاخر ہم نے ديكھا كہ اس عہد كے ختم ہونے كے بعد عمر جو صحابى رسول تھے سلاطين زمان ان كے سامنے جھكتے تھے ، مختلف قوموں نے گردن جھكا دى تھى ، وہى عمر نے عائشه كى اسقدر جلالت قدر ظاہركرتے ہيں كہ انكى اجازت سے اپنى اخرى ارامگاہ قرار ديتے ہيں اور ان كے گھر كو دار الشورى بناديا ، اسى لئے ان كا وظيفہ تمام ازواج رسول سے زيادہ تھا ، مختلف موقعوں پر صرف انھيں سے سنت رسول دريافت كر كے شرعى ذمہ دارى حاصل كى گئي ، اكيلى انھيں كى شخصيت كو عالم اسلام ميں برترى دى گئي اور اپنے بعد عالم اسلام كے حاكم كى حيثيت سے متعارف كرايا گيا _

انھيں اتنى طاقت عطا كر دى گئي كہ ان كے بعد دونوں خليفہ سے مخالفت پر كمر بستہ ہو گئيں اور لوگوں كو ان كے قتل پر ابھارا اور اسطرح انھوں نے تاريخ اسلام كى رفتار متعين كرنے ميںحساس اور اہم ترين رول نبھايا_

۹۳

فصل سوم

عائشه حكومت عثمان كے زمانے ميں

عثمان كون تھے ؟

ابو عبد اللہ اور ابوعمر و كنيت تھى ، عثمان بن عفان نام تھا ، قريش كے اموى خاندان ميں ابو العاص كى نسل سے تھے _

انكى ماں كا نام اروى تھا جو كريزبن ربيعہ بن عبد شمس كى بيٹى تھيں اروى كى ماں كا نام بيضاء بنت عبد المطلب تھا جو رسول كى پھوپھى تھيں ، عثمان ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے بہت پہلے اسلام قبول كيا _

انكى شادى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى بيٹى رقيہ سے ہوئي ، ان كے ساتھ حبشہ ہجرت كى وہاں سے واپسى كے بعد مدينہ ہجرت كى _

عثمان نے اپنى بيوى رقيہ كى عيادت كے بہانے جنگ بدر ميں شركت نہيں كى ،

جب رقيہ مر گئيں تو رسول كى دوسرى بيٹى ام كلثوم سے شادى كى ، ام كلثوم نے بھى باپ كى زندگى ہى ميں انتقال كيا ،

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى ان دونوں بيٹيوں سے عثمان كى كوئي اولاد نہيں ہوئي ; غلام مغيرہ ابو لولو كے ہاتھوں جب عمر زخمى ہوئے تو انھوں نے شورى كميٹى ميں عثمان كا نام بھى شامل كيا ،

ليكن اخرى مرحلے ميں شورى كميٹى كى ايك فرد عبد الرحمن كے انتخاب پر معاملہ منحصر ہو گيا ، اس ميں عبد الرحمن نے اعلان كيا كہ ميں خود خلافت سے دستبردار ہوتا ہوں اس شرط سے كہ ميں جسكى خلافت مان لوں تم لوگ بھى اسكو تسليم كر لو ،

جب انكى پيشكش مان لى گئي تو انھوں نے اعلان كيا كہ ميں اسى كى بيعت كروں گا جو كتاب اللہ اور

سنت رسول اور سيرت شيخين كى پيروى كرنے كا عہد كرے ،

پہلے يہ پيشكش على كے سامنے ركھى گئي ، على نے اخرى شرط (سيرت شيخين پر عمل ) قبول نہيں كى(۲) نتيجے ميں عبد الرحمن عثمان كے ہاتھ پر بيعت كر لى كيونكہ انھوں نے عبد الرحمن كى تينوں شرطيں مان لى تھيں ، ان كے بعد عثمان كى بيعت بروز شنبہ پہلى محرم ۲۴ھ سب نے كر لى _

۹۴

عثمان خليفہ ہو گئے ، انھوں نے بارہ سال حكومت كى ، ہم انكى حكومت كا زمانہ دو حصوں ميں تقسيم كرتے ہيں ، ايك تائيد و حمايت كا دوسرا غصہ و بغاوت كا اخر كار وہى غصہ اور بغاوت يا ملك كى لا چاريوں كے خلاف عوامى قيام اور عثمان كے خاندان والوں كے كرتوت تھے ، جس نے عثمان كو تخت حكومت سے تختہ ء تابوت تك پہونچا ديا ، خليفہ بڑى اسانى سے قتل كر دئے گئے _

جيسا كہ ہم نے حالات ام المومنين كے ذيل ميں بيان كيا كہ عثمان كے قتل ميں عائشه نے بڑا اہم رول نبھايا ، عثمان كى تاريخ قتل ميں اختلاف ہے ، بارہ سے اٹھائيس ماہ ذى الحجہ ۳۵ھ تك كے اقوال ہيں اسى طرح انكى عمر بھى ۸۲سے ۹۲ سال تك لكھى گئي ہے _

عثمان كا جنازہ تين روز بعد جنت البقيع كے باہر يہوديوں كے قبر ستان جس كا نام حش كوكب تھا ، اور بقيع اور اسكے درميان ديوار حائل تھى ، دفن كيا گيا ، جب معاويہ خليفہ ہوئے تو حش كوكب كى ديوار منہدم كر كے جنت البقيع ميں شامل كر ديا _

عائشه اور عثمان

تائيد و حمايت كا زمانہ

خلافت عثمان كا ابتدائي زمانہ ابو بكر و عمر كى حكومت كى طرح گذرا ، اور عائشه ايسا سمجھ رہى تھيں كہ پہلے كى طرح خليفہ عثمان بھى ميرا احترام كريں گے ، اور دوسرى ازواج رسول پر ان كا امتياز محفوظ ہے ، ان كا اقتدار جيسا پہلے تھا اج بھى ہے ، يہى وجہ تھى كہ عائشه بھى قريش كے دوسرے سربر اوردہ افراد كى طرح عثمان كى تائيد و حمايت ميں امادہ تھيں ، انھوں نے عثمان كے بارے ميں بے دريغ احاديث بيان كيں ، انكى شخصيت و خلافت كى حمايت كا اعلان كيا _

جو احاديث عثمان كى مدح و ستائشے ميں مروى ہيں ان ميں عثمان كے قتل ہونے كى بات نہيں ہے ، زيادہ احتمال يہ ہے كہ يہ احاديث اسى مختصر زمانے ميں روايت كى گئيں ہيں جس زمانے ميں وہ تائيد و حمايت كرتى تھيں ، اس قسم كى احاديث كے نمونے مسند احمد بن حنبل سے نقل كئے جاتے ہيں _

۹۵

عائشه كا بيان ہے كہ ميں اور پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك لحاف ميں ليٹے ہوئے تھے ، اتنے ميں ابو بكر نے اندر انے كى اجازت مانگى ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسى حالت ميں كہ وہ ميرى اغوش ميں زير لحاف تھے ، اجازت ديدى كہ اندر اجائيں ، ابو بكر اندر ائے اور اپنى باتيں كہنے كے بعد باہر چلے گئے ، ابو بكر كے بعد عمر نے انے كى اجازت مانگى ، اس بار بھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسى حالت ميں بلاليا اور باتيں پورى كر كے روانہ كر ديا ، جب عمر باہر گئے تو عثمان نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بار اٹھكر اپنے كپڑے درست كئے ، پھر اندر انے كى اجازت دى ، عثمان اپنے كام كے بعد واپس گئے ، اس موقع پر ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا ، ابوبكر و عمر كو اپ سے ملنا تھا اپ نے اسى حالت ميں ان سے ملاقات كى ، نہ اٹھكر بيٹھے نہ كپڑے ٹھيك ٹھاك كئے ، ليكن جس وقت عثمان ائے تو اپ نے خود كو ا س طرح ٹھيك ٹھاك كيا جيسے اپ ان سے شرم كرتے ہيں ؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: عثمان بہت زيادہ شرميلے اور حيا دار ہيں ، ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں ميرے پاس ائے تو شرم و حيا كى وجہ سے اپنے مطالبات نہ بيان كريں گے _

ايك دوسرى روايت كى بناء پر(۳) عائشه كا بيان ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بستر پر سوئے ہوئے ميرى چادر تانے ہوئے تھے ، يہاں تك كہ جب عثمان نے ملاقات كيلئے اجازت مانگى تو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے حكم ديا ، اپنے كپڑے پہن لو _

عائشه نے كہا ، اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ابوبكر و عمر كى امد پر اپ اتنے بے حواس نہيں ہوئے اب اپ عثمان كے انے پر اتنى تيارى كر رہے ہيں كہ اپنے كپڑے پہن رہے ہيں ؟

ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :

اے عائشه ميں ايسا كيوں نہ كروں اور اسكا احترام نہ كروں حالانكہ خدا كى قسم فرشتے بھى عثمان سے شرم وحيا كرتے ہيں(۴)

____________________

۳_ صحيح مسلم ج۷ ص۱۱۷ ، باب فضائل عثمان _ مسند احمد ج ۶ ص۱۵۵

۴_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۱۶ ، كنز العمال ج۶ ص۳۷۶ _ تاريخ بن عساكر _ النساب الاشراف بلاذري

۹۶

ميرے خيال ميں اس حديث كو خلافت عثمان كے زمانے ميں بيان كيا گيا ہے ، كيونكہ جيسا كہ ہم اس حديث ميں ديكھ رہے ہيں ، اس حديث ميں بھى خلفاء ثلثہ كے نام اسى ترتيب سے لئے گئے ہيں جس ترتيب سے وہ ہوئے ہيں ، يہ چيز بجائے خود ہميں سمجھاتى ہے كہ شيخين كے بعد جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے ہيں تو اسے بيان كيا گيا ہے _

نيز يہ بھى واضح ہوتا ہے كہ حديث بالا اس وقت بيان كى گئي ہے جب ابھى عائشه كو عثمان سے اختلاف نہيں ہوا تھا ، نہ رنجش ہوئي تھى ، بلكہ قتل عثمان سے بہت پہلے بيان ہوئي ہے ، بلكہ اس سے بھى بہت پہلے جب عائشه انتقام خون عثمان كيلئے كھڑى ہوئي تھيں ، روايت ہوئي ہے

كيو نكہ اگر اس كے علاوہ بات ہو تو اسميں دوسرى احاديث كے مانند ان كے قتل ہونے كا بھى تذكرہ ہوتا ، ان تمام باتوں كو نظر انداز بھى كر ديا جا ئے تو يہ بات بہت واضح ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا خود ادب و اخلاق كا سمندر تھے ، اخلاق كے مربى تھے ، بنا بريں يہ حديث رسول كو اپنى زوجہ كے ساتھ لحاف ميں بتا رہى ہے ، بغير كسى شرم و حيا كے ايك كے بعد دوسرے صاحب كمرے ميں اتے ہيں ، اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر كوئي اثر نہيں ہوتا ،ليكن عثمان كے اتے ہى كپڑے درست ہوئے ، اپنى زوجہ عائشه كو بھى كپڑے درست كرنے كا حكم ديا ، پھر يہ كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان تينوں صحابہ ميں فرق مراتب كيوں قرار ديا ؟ اور كيا بات ہے كہ صرف عثمان ہى سے فرشتے شرم كرتے ہيں ؟

برہمى و بغاوت كا زمانہ

عثمان كى خلافت كے نصف اول ميں عائشه نے انكى حمايت كى ، خود بھى فرماں بردار تھيں اور ذرا بھى مخالفت و نافرمانى كى ہوا نہيں بنائي _

يہاں تك كہ اس موقع پر بھى كہ جب تمام ازواج رسول نے حج كا ارادہ كيا تو پہلے انھيں سے اجازت مانگى ، عائشه كا اس مرتبہ بيان ہے _

جب عمر مر گئے اور عثمان حكمراں ہوئے تو ميں نے ام سلمہ اور ميمونہ و ام حبيبہ سے ايك شخص كو عثمان كے پاس بھيج كر حج كى اجازت طلب كى _

۹۷

عثمان نے جواب ديا ، سيرت عمر كا لحاظ كرتے ہوئے ميں بھى انھيں كى طرح حج كيلئے بھيجوں گا ، اسلئے تمام ازواج رسول ميں جو بھى ادائے حج كى خواہشمندہے ، ميں تيار ہوں _

عثمان نے اپنا وعدہ پورا كيا ، اورہمارے ساتھ سب ازواج كو بڑے اہتمام و حجاب كے ساتھ حج كے لئے روانہ كيا ، صرف زينب نہيں تھيںكيونكہ وہ زمانہ ء عمر ہى ميں مر چكى تھيں اور سودہ بنت زمعہ جنھوں نے وفات رسول كے بعد كبھى گھر سے قدم باہر نہيں نكالا(۵)

اس سال عثمان نے ازواج رسول كے ساتھ حج كيا ، اور تحفظ و نگرانى كى تمام ذمہ دارى عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن زيد كے حوالے كى _

يہ صفائي اور خلوص زيادہ دير نہ ٹك سكا ، گذرتے زمانے كے ساتھ عائشه اور عثمان كے درميان اختلاف ظاہر ہوگئے ،اخر كا ر عثمان نے عائشه كے وظيفہ كا دو ہزار اضافى حصہ كا ٹ ليا

تاريخ يعقوبى ميں ہے(۶) عائشه و عثمان كے درميان رنجش ہوگئي اور عثمان نے وہ دو ہزار دينار جو عمر نے تمام ازواج كے مقابلے عائشه كو امتياز ى اضافہ كيا تھا كاٹ ليا ، اور دوسرى ازواج كى طرح ان كا بھى وظيفہ معين كيا _

عائشه و عثمان كے درميان اختلاف كى صحيح تاريخ ہميں معلوم نہيں ، بس ہم اتناہى جانتے ہيں كہ ان دونوں كا اختلاف نصف اخر ميں ظاہر ہواہم يہ بھى جانتے ہيں كہ يہ اختلاف كسى ايك واقعہ كے تحت نہيں ہوا بلكہ رفتہ رفتہ سلگتا ہوا شدت پكڑ گيا ، سنگين سے سنگين تر ہوتا گيا ، پھر عائشه اور عثمان كے درميان دراڑ عميق تر ہو گيا _

اسى طرح ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ عائشه پہلى شخص ہيں جنھوں نے پرچم بغاوت بلند كيا ، اور ناراض لوگوں كو اپنے گرد جمع كيا ، انكى قيادت كى يہاں تك كہ خليفہ قتل كر ڈالے گئے(۷)

____________________

۵_ طبقات بن سعد ج ۸ ص ۲۰۹

۶_ تاريخ بن اعثم كوفى ص ۱۵۵ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۳۲

۷_ طبرى ج۵ ص ۱۷۲

۹۸

اور يہ بھى طئے ہے كہ جس وقت عثمان كے خلاف كشمكش و مخالفت كى اگ اور لوگوں كى شورش بھڑك رہى تھى ، اسوقت مسلمانوں كا كوئي بھى خاندان يا قبيلہ ابو بكر كے خاندان تيم سے زيادہ مخالفت ميں اگے نہ تھا(۸) منجملہ ان امور كے جن سے عائشه اور عثمان كے درميان اختلاف زيادہ سے زيادہ بڑھتا گيا ، انجام كا ر دشمنى و نفاق ان دونوں ميں اشكار تر ہوا ان ميں وليد بن عقبہ كا مسئلہ ، ابن مسعود صحابى كے مسئلے پر عام طور سے لوگوں كو توجہ ہوئي ، ہم يہاں ہر ايك كے بارے ميں الگ الگ تجزيہ كريں گے _

وليد بن عقبہ اور كوفے كى گورنري

ہم نے بتايا كہ عثمان كى فرماں روائي كے ابتدا ئي زمانے ميں ام المومنين عائشه كى زبر دست حمايت حاصل تھى ، وہ چھ سال تك خاتون صدر اسلام كى حمايت سے سرفراز رہے عثمان بھى عائشه كے احترام ميں كمى نہيں كرتے تھے ، ليكن گذرتے زمانے كے ساتھ رفتہ رفتہ ان دونوں كے درميان اختلاف ابھرتا گيا ، گروہ بندى اور محاذ ارائي شروع ہو گئي _

ام المومنين لوگوں ميں اپنے اثرات عثمان كو دكھانے كيلئے ہر حادثے سے بيش از بيش استفادہ كرتى تھيں ، عثمان كے خلاف لوگوں كے جذبات ابھارنے ميں ہر مسئلے سے فائدہ اٹھاتيں ، يہ عناد اور اختلاف اسقدر بڑھ گيا كہ دونوں ايك دوسرے كى جان كے دشمن ہو گئے

عثمان نے اپنے رضاعى بھائي وليد بن عقبہ كو حكومت كوفہ حوالے كر دى جو بد كار ، شرابخوار و كمينہ تھا ، كوفے كے باشندے ايسے حكمراں كى شكايت ليكر مجبور اً ائے ، يہ ام المومنين كو بڑا اچھا بہانہ ہاتھ لگا كہ عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجا دى جائے _

اب ميں بھى تاريخ كے دريچے سے اس زمانے ميں وليد كے كرتوتوں پر لوگوں كے رد عمل اور عائشه كے احكامات پر ايك نظر ڈال رہا ہوں _

وليد بن عقبہ ، يہ شخص خاندان ابى معبط بن ابى عمرو كى فرد تھا جسكا نام ذكوان تھا ، ذكوان كو اميہ بن عبد الشمس نے خريد اتھا بعد ميں اپنا بيٹا بنا ليا وليد كى ماں كانام اروى بنت كريز بن ربيعہ تھا ، جو عثمان كى ماں تھى ، اس بناء پر وليد عثمان كامادرى بھائي تھا وليد باپ عقبہ مكے ميں رسول خدا كا پڑوسى تھا ، بعثت كے ابتدائي زمانے ميں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مجلس ميں اكثر اتا جاتا رہتا تھا _

____________________

۸_ انساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۶۸

۹۹

ايك دن عقبہ كے يہاں كچھ مہمان ائے اور انحضرت سے خواہش كى كہ اس نشست ميں اپ بھى تشريف لائيں ، رسول خدا نے اسكى خواہش قبول فرمائي اسكے مہمان ہو گئے ، ليكن اپ نے اسكا كھانا نہيں كھايا اور شرط لگادى كہ اگر تم خدا كى وحدانيت اور ميرى رسالت پر ايمان لے ائو تو ميں تمھارا كھانا كھائوں گا ، عقبہ نے اپ كى بات مان كر ايمان كا اقرار كر ليا ، اسطرح وہ مسلمان سمجھا جانے لگا ، جب قريش كو يہ بات معلوم ہوئي تو كہنے لگے عقبہ بھى اپنے باپ دادا كے دين سے پھر گيا _

عقبہ كا ايك دوست تھا ، وہ اس واقعے كے وقت مكے ميں نہيں تھا شام كى طرف سفر ميں گيا تھا ، جس رات وہ شام سے واپس ايا تو اپنى بيوى سے بات چيت كے درميان پوچھا _

_محمد اور ان كے ماننے والوں كا كيا حال ہے ؟

_وہ لوگ سخت جد وجہد كى وجہ سے روز بروز ترقى كر رہے ہيں _

_ميرا دوست عقبہ كيا كر رہا ہے ؟

_وہ بھى باپ دادا كے دين سے پھر گيا ہے اور محمد كا دين قبول كر ليا ہے _

_عقبہ كا دوست جسكا نام بعض روايات ميں ابى بن خلف اور بعض ميں اميہ بن خلف ہے يہ ماجرا سنكر سخت پريشان اور بے چين ہوا اس نے رات بے چينى ميں گذارى ، صبح كو جب عقبہ اس سے ملنے ايا اور سلام كيا تو اس نے سر نہيں اٹھايا ، نہ اسكى طرف ديكھا ، اسے كوئي جواب نہيں ديا ، عقبہ نے پوچھا :

_كيا بات ہے كہ ميرے سلام كا جواب بھى نہيں ديتے _

_كيسے سلام كا جواب دوں ، تم تو باپ دادا كے دين سے پھر گئے ہو ؟

_قريش بھى ميرے بارے ميں يہى كہتے ہيں ؟

_ہاں

_ميں كيا كام كروں كہ ان كے دلوں كى صفائي ہو جائے ؟

_بہت اسان ہے ، محمد كى بزم ميں جاكر منھ ميں پانى بھر كے ان كے اوپر كلّى كرو اور جتنى گندى گالى ہو سكتى ہے انھيں دے ڈالو _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216