تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 797
مشاہدے: 141430
ڈاؤنلوڈ: 3582


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141430 / ڈاؤنلوڈ: 3582
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 3

مؤلف:
اردو

آیت(۳)

( وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَی فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ )

اور اگر يتيموں كے بارے ميں انصاف نہ كرسكنے كا خطرہ ہے تو جو عورتيں تمھيں پسند ہيں دو ، تين ، چار ان سے نكاح كرلو او راگر ان ميں بھى انصاف نہ كرسكنے كاخطرہ ہے تو صرف ايك _ يا جو كنيزيں تمھارے ہاتھ كى ملكيت ہيں ، يہ بات انصاف سے تجاوز نہ كرنے سے قريب تر ہے _

١_ اگر يتيم لڑكيوں سے ناانصافى كا خوف ہو تو ان كے ساتھ ازدواج كرنے كى ممانعت_و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي فانكحوا ما طاب لكم من النّسائ '' ان خفْتم''كى جزا حذف ہوگئي ہے اور ''فانكحوا''اس كا قائم مقام ہے يعني: ''ان خفتم الا ّ تقسطوا فى اليتامي فلاتنكحوھن و انكحوا''اوراس كے شان نزول ميں جو كچھ ذكر ہوا ہے اسكے مطابق يہ نہي، اس نكاح سے متعلق ہے جو مناسب مہر ادا كئے بغيربعض لوگ يتيم لڑكيوں سے كرتے ہيں _

٢_ يتيم لڑكيوں كے مال ميں خيانت كے خوف كي صورت ميں ان سے ازدواج كرنے كى ممانعت_

و آتوا اليتامي اموالهم و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي فانكحوا جملہ ''ان خفتم ...''سے استفادہ ہوتا ہے كہ ناانصافى كے خوف كى صورت ميں يتيم لڑكيوں سے نكاح كرنا ممنوع ہے اور گذشتہ آيت كے قرينے سے ناانصافى (الا تقسطوا) سے مراد، ان كے اموال ميں انصاف اور عدل كى رعايت نہ ہونا ہے_

٣_ يتيم لڑكيوں كے ساتھ شادى كرنے ميں ، ان كے اموال ميں خيانت اور عدل و انصاف سے انحراف كا خطرہ _

۳۶۱

و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي

٤_ ايسى بيوياں انتخاب كرنى چاہيں جو اچھى لگيں اور پسنديدہ ہوں _فانكحوا ما طاب لكم من النسآئ

٥_ بيويوں كى تعداد كا چار تك محدود ہونا_فانكحوا مثني و ثلث و رباع

٦_ تعدد زوجات كى مشروعيت، ان كے درميان عدل و انصاف قائم ركھنے كے اطمينان سےمشروط ہے_

فانكحوا ما طاب لكم من النّساء مثني و ثلث و رباع فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٧_ گھريلو روابط ميں عدل و انصاف كا خيال ركھنے كى اہميت_و ان خفتم الاّ تقسطوا فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٨_ تعدد زوجات سے، ناانصافى كا خطرہ_فانكحوا مثني و ثلث و رباع فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٩_ متعدد كنيزوں كے مالك ہونے اور ان سے جنسى لذت حاصل كرنے كا جواز_

فواحدة او ما ملكت ايمانكم نكاح كے ليے آزاد عورتوں ميں عددتعين كرنے كے مقابلے ميں كنيزوں ميں عدد تعين نہ كرنے سے ان سب سے جنسى لذت كا جواز ملتا ہے_

١٠_ متعدد كنيزوں سے ازدواج كى مشروعيت_فواحدة او ما ملكت ايمانكم صدر آيت كے قرينے سے '' فواحدة ''، ''انكحوا''كيلئے مفعول ہے_ يعنى ''فانكحوا واحدة''اور عطف كے پيش نظر''ما ملكت''بھى اس كا مفعول ہوگا_ ياد ر ہے كہ اس بناپر ''ايمانكم'' كا مخاطب وہ شخص نہيں ہے جو ازدواج كا ارادہ ركھتا ہے_

١١_ ايك بيوى پر اكتفا يا كنيزوں سے استفادہ، عورتوں كے بارے ميں عدل و انصاف سے منحرف نہ ہونے كا بہترين اور آسان ترين راستہ ہے_فواحدة او ما ملكت ايمانكم ذلك ادني الاّ تعولوا '' ذلك '' ، '' واحدة او ما ملكت ايمانكم''كى طرف اشارہ ہے _ اور ''الاّ تعولوا''مادہ ''عول''سے ہے_ جس كا معنى كجروى اور ستم ہے_

١٢_ كنيزوں كے مالكوں كيلئے ضرورى نہيں كہ وہ ان كے درميان مساوات كى رعايت كريں _فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة او ماملكت

۳۶۲

ايمانكم ذلك ادني الاّ تعولوا مساوات سے مراد وہ عدل و انصاف ہے جسے شوہر كو اپنى متعدد بيويوں كے درميان قائم ركھنا ضرورى ہے_

١٣_ متعدد شاديوں كا جواز، بيويوں كے نفقہ ميں عدل و انصاف كى رعايت كرنے سے مشروط ہے_

فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود''فان خفتم الاّ تعدلوا'' كے بارے ميں فرمايا: يعنى فى النفقة_(١)

احكام: ١، ٢، ٥، ٩، ١٠، ١٣

ازدواج: ازدواج كے احكام ١، ٢، ٥، ١٠، ١٣;ازدواج ميں عدل و انصاف٦، ١١; حرام ازدواج ١،٢

بيوي: بيوى كے انتخاب كا معيار ٤; بيويوں كا تعدد ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١٣

خيانت: خيانت كا پيش خيمہ ٣

روايت: ١٣

عدل: عدل كى اہميت ١، ٧، ٨، ١٣

كنيز: كنيز سے ازدواج ٩، ١٠، ١١;كنيز سے معاشرت ١٢

گمراہي: گمراہى كے موانع ١١

گھرانہ: گھرانے ميں عدالت ٧

لغزش: لغزش كا پيش خيمہ ٣; لغزش كے اسباب ٨

نفقہ: نفقہ ميں عدل و انصاف ١٣

يتيم: يتيم سے خيانت ٢، ٣ ; يتيم كا مال ٢; يتيم كے حقوق كى اہميت ١;يتيم لڑكى سے شادى ١، ٢، ٣

____________________

١)كافى ج٥ ص٣٦٣ ح١ نورالثقلين ج١ ص٤٣٩ ح٣٦.

۳۶۳

آیت(۴)

( وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ) عورتوں كو ان كامہر عطا كردو پھر اگر وہ خوشى خوشى تمھيں دينا چاہيں توشوق سے كھالو _

١_ عورتوں كا مہر ادا كرنا واجب ہے_و آتوا النّساء صدقاتهنّ كلمہ ''صدقات'' ، ''صدقة ''كى جمع ہے جس كا معني مہر ہے_

٢_ عورتيں ، اپنے مہر كى خود مالك ہيں _و آتوا النّساء صدقاتهنّ

٣_ گھريلونظام ميں عورت كا مالى استقلال_و آتوا النّساء صدقاتهنّ

٤_ مہر خود عورتوں كو دينا ضرورى ہے نہ كہ كسى دوسرے فرد كو_و آتوا النّساء صدقاتهن نحلة ''اتوا صدقات النسائ'' كى بجائے''و آتوا النساء صدقاتھن'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ عورتوں كا مہر خود انہى كو دينا چاہيئے نہ كہ ان كے باپ يا بھائي وغيرہ كو جيساكہ ايام جاہليت ميں مرسوم تھا_

٥_ مہر، مردوں كى جانب سے اپنى بيويوں كيلئے ايك قسم كا ہديہ ہے_و آتوا النّساء صدقاتهن نحلة كلمہ ''نحلة'، ''صدقاتھنّ''كيلئے حال ہے اور اس كا معنى ہے بغيركسى عوض كے عطيہ دينا_

٦_ مہر، مردوں كے ذمہ، عورتوں كا قرض ہے_و آتوا النساء صدقاتهن نحلة بعض مفسرين كے بقول ''نحلة'' كا معنى فريضہ ہے_ مندرجہ بالامطلب ميں اسے ''دصين''سے تعبير كيا گيا ہے چونكہ مالى فريضہ در حقيقت ''دصيْن'' ہے _

٧_ مہر، رغبت و رضايت كے ساتھ اور بغيركسى احسان

۳۶۴

اورغرض و لالچ كے ادا كرنا چاہيئے_و آتوا النّساء صدقاتهنّ نحلة اسمطلب ميں كلمہ ''نحلة''كو ايك محذوف، مفعول مطلق كيلئے صفت كے طور پر اخذ كيا گيا ہے_ ''اتوھنّ ايتاء نحلة''يعنى يہ ادائيگى بغيركسى احسان و لالچ كے ہونى چاہيئے_

٨_ عورت اپنے مہر كا كچھ حصہ اپنے شوہر كو بخش سكتى ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً

٩_ عورتوں كى مكمل رضايت حاصل كئے بغير، ان كے مہر ميں شوہروں كے تصرف كاحرام ہونا_

و اتوا النّساء فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه جملہ ''فان طبن لكم ...''(وہ اگر اس ميں سے كچھ تمہيں خوشى سے دے ديں تو اسے لے لو اور تصرف كرو) كے معنى سے، بغيررضايت كے تصرف كى حرمت ظاہر ہوتى ہے_

١٠_ عقد ازدواج ميں مہر كا مقرر كيا جانا، ملكيت كے اسباب ميں سے ہے_و اتوا النّساء صدقاتهنّ

١١_ ہبہ كا ملكيت كے اسباب ميں سے ہونا_فان طبن لكم فكلوه ''كلوہ''مكمل تسلط سے كنايہ ہے اور وہ ملكيت ہے_

١٢_مالك كى رضايت،اسكے مال ميں دوسروں كے تصرف كے جواز كى شرط ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه هنيا ً مريئاً

١٣_ جو مال، عورت اپنے مہر سے شوہر كو بخشتى ہے وہ اس كيلئے حلال ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه هنياً مريئاً

١٤_ خداوند متعال كا، عورتوں كو اپنا سارا مہر شوہروں كو نہ بخشنے كى ہدايت كرنا_

فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه ''من'' تبعيضيہ سے ظاہر ہوتا ہے كہ مہر كا كچھ حصہ بخشنے كى بات كرنا اورا سكى تصريح كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عورتوں كو اپنا سارا مہر ہبہ نہيں كرنا چاہيئے_

١٥_ شوہر، عورت كے راضى ہونے كى صو رت ميں اسكے مال سے استفادہ كرنے كا مجاز ہے_

فان طبن لكم عن ش منه امام صادق(ع) ياامام كاظم(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں پوچھے گئے سؤال كے جواب ميں فرمايا:يعنى بذلك اموالهن التى فى ايديهن مما ملكن _(١) ان سے مراد وہ اموال ہيں جن كى وہ مالك ہيں _

____________________

١)تفسير عياشى ج١ص٢١٩ ، ح١٦ نورالثقلين ج١ ص٤٤١، ح٤٦.

۳۶۵

١٦_ عورت كا ولى و سرپرست، اس كا مہر اپنے لئے نہيں لے سكتا_و اتوا النّساء صدقاتهن امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:هذا خطاب للاولياء لانّ الرّجل منهم كان اذا زوجّ ايّمة اخذ صداقها دونها فنهاهم الله عن ذلك _(١) يہ اولياء سے خطاب ہے كيونكہ جب كوئي شخص بيوہ عورت سے شادى كرتا تو اس كا مہر اس كے بجائے اس كا سرپرست لے ليتا_ اللہ تعالى نے اولياء كو اس سے منع كيا_

احكام: ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى نصيحتيں ١٤

خانوادہ : خانوادہ كا نظام ٣

روايت: ١٥، ١٦

عورت: عورت كا مال ١٥; عورت كى مالكيت ٢، ٣; عورت كے اختيارات ٨;عورت كے حقوق ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩، ١٥; عورت كے سرپرست ١٦

غصب: غصب كى حرمت ٩

مالكيت: ذاتى مالكيت، ٢مالكيت كے احكام ١٢;مالكيت كے اسباب ١٠، ١١

مرد: مرد كے اختيارات ١٥

مہر: مہر كا مالك ٢;مہر كا ہبہ كرنا ١٣، ١٤;مہر كى حقيقت ٥;مہر كے احكام ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٦

واجبات: ١٠

ہبہ: ١١

____________________

١)تفسير تبيان ج٣ ص١١٠، مجمع البيان ج٣ ص١٢.

۳۶۶

آیت(۵)

( وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا )

اور ناسمجھ لوگوں كو ان كے وہ اموال جن كو تمھارے لئے قيام كاذريعہ بنا يا گيا ہے نہ دو _ اس ميں ان كے كھانے كپڑے كا انتظام كردو اور ان سے مناسب گفتگو كرو_

١_ مال و ثروت، سفيہہ افراد كے اختيار ميں نہيں دينا چاہيئے_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

٢_ سفيہہ كا مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہونا_و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

٣_ سفيہہ افراد پر خرچ كرتے وقت، مال ان كے ہاتھ ميں نہيں دينا چاہيئے_*و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

بعض كى رائے ہے كہ ''ايتائ''سے مراد ان پر خرچ كرنا ہے_ يعنى ان پر اپنا مال خرچ كرتے وقت، مال ان كے ہاتھ ميں نہيں دينا چاہيئے بلكہ ان كے مفاد و منافع ميں استعمال كرنا چاہيئے_

٤_ سفيہہ ا فراد كے كم قيمت مال كو ان كے اختيار ميں دينے كا جواز_ ولاتؤتوا السّفهاء اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً

اس احتمال كى بنا پر كہ ''التّى جعل ...''ايك قيد احترازى ہے_ لہذا اس بنا پر جس مال كى اقتصادى اہميت زيادہ نہيں ہے وہ سفيہ افراد كے ہاتھ ميں ديا جاسكتا ہے_

٥_ سفيہہ كا مال، اسكے ولى وسرپرست كے اختيار ميں ہونا چاہيئے_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

جملہ ''لاتؤتوا ''(مال، سفيہہ افراد كو نہ دو) سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا مال كسى دوسرے كے اختيار ميں ہونا چاہيئے اور چونكہ آيت كے مخاطبين ہر سفيہہ كے سلسلے ميں تمام مسلمان نہيں

۳۶۷

ہوسكتے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ خطاب (سفيہہ كے سرپرست) سے ہے_

٦_ افراد كے ذاتى مال كے بارے ميں معاشرے كے كچھ حقوق ہيں _و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

سفيہہ افراد كے ذاتى مال كى نسبت، معاشرے كى طرف دينے سے ظاہر ہوتا ہے كہ معاشرہ، افراد كے ذاتى اموال كے بارے ميں كچھ حقوق ركھتا ہے_

٧_ معاشرے كے اقتصادى امور، سفيہہ افراد كے اختيار ميں نہ ديئے جائيں _و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

٨_ مال و ثروت كا حقيقى مالك، خداوند متعال ہے_اموالكم التى جعل الله لكم قياماً

٩_ مال و ثروت، معاشرے كے قائم و برقرار رہنے كا وسيلہ ہے_اموالكم التى جعل الله لكم قياماً

كلمہ '' قياماً ''كامعنى برقرار و قائم كرنے والا ہے_ (لسان العرب)_

١٠_ جو لوگ اپنا مال و دولت، معاشرے كى مصلحتوں كے خلاف، خرچ كرتے ہيں ، دين كى نظر ميں سفيہہ ہيں _*

اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً جملہ''لاتؤتوا السّفهاء اموالكم التى قياماً'' سے ظاہر ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے اسلئے سفيہہ افراد كو مال دينے كى ممانعت كى ہے كہ وہ اس مال كو معاشرے كى مصلحتوں اور اسكے قيام اور برقرارى و استحكام كے خلاف استعمال كرتے ہيں _ بنابرايں معاشرے كى مصلحت كے خلاف مال صرف كرنا،سفيہانہ عمل ہے اور صرف كرنے والا سفيہہ ہے_

١١_ مال و ثروت كو معاشرے كى اقتصادى و معاشى ترقى كيلئے استعمال كرنا چاہيئے_

اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً يہ كہ خداوند متعال نے مال و ثروت كو معاشرے كے قائم و برقرار ركھنے كيلئے عطا كيا ہے اور اسى وجہ سے اس كا بيوقوف لوگوں كو دينا ممنوع قرار ديا ہے_ اس سے پتہ چلتا ہے كہ مال و ثروت، اقتصادى ترقى كيلئے استعمال ہونا چاہيئے كہ جس سے معاشرہ برقرار و قائم ر ہے_

١٢_ سفيہہ افراد كى خوراك و پوشاك (مخارج زندگي) كى فراہمى معاشرے كى ذمہ دارى ہے_و ارزقوهم فيها و اكسوهم

۳۶۸

١٣_ سفيہہ افراد كے سرمائے سے، كاروبار كرنے اور اسكے منافع سے ان كے اخراجات پورے كرنا ضرورى ہے_

و ارزقوهم فيها و اكسوهم خداوند متعال نے سفيہہ افراد كى روزى ان كے اموال ميں قرار دى ہے نہ ان كے اموال سے_ لہذا فرمايا ہے ''و ارزقوھم فيہا''يہ نہيں فرمايا ''منھا'' اور اس كا واحد راستہ يہ ہے كہ ان كا سرمايہ تجارت ميں لگايا جائے اور اسكے منافع سے ان كے مخارج پورے كئے جائيں _

١٤_ سفيہہ افراد كے ساتھ رفتار و گفتار ميں اچھا اور تعميرى اندازاپنانا ضرورى ہے_و قولوا لهم قولاً معروفاً اس مطلب ميں كلمہ ''قولاً'' اپنے كنائي معنى يعنى مطلق معاشرت (رفتار و گفتار) ميں ليا گيا ہے_

١٥_شراب خور كو اسكى سفاہت كى وجہ سے مال و ثروت دينے كى ممانعت_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے شراب خور كو امين بنانے كى ممانعت كرتے ہوئے فرمايا: ان الله يقول: ''ولاتؤتوا السّفھاء اموالكم''فاُّى سفيہ اسفہ من شارب الخمر؟(١) يعنى شارب الخمر سے بڑھ كر اور كون سفيہہ ہوگا_

١٦_ مال و ثروت كو تباہى و بردبارى سے بچانے كى خاطر اسے سفيہہافراد كے سپرد نہيں كرنا چاہيئے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام باقر(ع) :انّ الله نهى عن و فساد المال انّ الله عزوجل يقول و لاتؤتوا السفهاء اموالكم ..(٢) اللہ تعالى نے مال و ثروت كو تباہ و برباد كرنے سے منع فرمايا ہے _ بےشك اللہ تعالى كا ارشاد ہے اور سفہاء كو اپنے اموال نہ دو

١٧_ ناقابل اعتماد لوگوں كو مال و ثروت دينے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں ''السفھائ'' كے بارے ميں فرمايا: ''من لا تثق به '' جس پر تمہيں اعتماد نہ ہو_(٣)

١٨_ يتيموں كے بلوغ و رشد كے مرحلے تك پہنچنے سے پہلے انہيں ان كا مال و ثروت دينے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں كئے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا:'' لا تعطوهم

____________________

١)كافى ج٥ ص٢٩٩ ح١ نورالثقلين ج١ص ٤٤٣ ح٥٢. ٢)كافى ج٥ ص٣٠٠ ح٢ ،نورالثقلين ج١ص ٤٤٢ ح٥٥

٣)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٠ ح٢٠،نورالثقلين ج١ ص٤٤١ ، ح ٤٨.

۳۶۹

اموالهم حتى تعرفوا منهم الرشد (١) ان سے مراد يتيم ہيں ، انہيں ان كا مال اس وقت تك نہ دو جب تك وہ رشد و بلوغ تك نہ پہنچ جائيں _

احكام: ١، ٢، ٤، ٥، ١٣، ١٥، ١٦، ١٨

اقتصاد: اقتصادى ترقي، ١١ اقتصادى نظام: ١، ٦، ٧، ١٦،١٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى مالكيت ٨

انفاق: سفيہہ پر انفاق ٣

روايت: ١٥، ١٦ ، ١٧، ١٨

سخن : سخنميں ادب ١٤

سرمايہ: سرمايہ كى اہميت ١١

سفيہہ: ١٠، ١٥ سفيہہ كا مال ٤،٥، ١٣ ;سفيہہ كا ممنوع التصرف ہونا ٥; سفيہہ كى ضروريات پورى كرنا ١٢، ١٣; سفيہہ كى ممانعت ٢، ٣ ; سفيہ كى كفالت ٥;سفيہہ كے احكام ١، ٤، ٥، ٧، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦ ;سفيہہ كے ساتھ معاشرت١٤

شراب خور: شراب خور كى سفاہت ١٥; شراب خور كے احكام ١٥

مال: مال كا كردار ٩، ١٠; مال كى حفاظت ١٦;مال كے احكام ٢، ٣، ١٧

معاشرہ: معاشرے كى ترقى كے اسباب ١١; معاشرے كى تشكيل كے اسباب ٩;معاشرے كى ذمہ دارى ٦، ١٢ ; معاشرے كى مصلحتيں ١٠

ممنوع التصرف لوگ: ٢، ٣

يتيم: يتيم كا مال ١٨;يتيم كے احكام ١٨

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٠ ح٢٣، نورالثقلين ج١ ص ٤٤٢ ، ح ٥٠.

۳۷۰

آیت(۶)

( وَابْتَلُواْ الْيَتَامَی حَتَّیَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأ ْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَی بِاللّهِ حَسِيبًا )

او ريتيموں كا امتحان لو اور جب وہ نكاح كے قابل ہوجائيں تو اگر ان ميں رشيد ہونے كا احساس كرو تو ان كے اموال ان كے حوالے كردو اورزيادتى كے ساتھ يااس خوف سے كہ كہيں وہ بڑے نہ ہوجائيں جلدى جلدى نہ كھا جاؤ _ او رتم ميں جوغنى ہے وہ ان كے مال سے پرہيز كرے او رجو فقير ہے وہ بھى صرف بقدر مناسب كھائے _ پھرجب انكے اموال ان كے حوالے كرو تو گواہ بنالو اور خداتو حساب كے لئے خود ہى كافى ہے _

١_ يتيموں كے اقتصادى بلوغ كى تشخيص كيلئے، نكاح و بلوغ كى عمر تك ان كى آزمائش كاضرورى ہونا_

و ابتلوا اليتامي حتّي اذا بلغوا النكاح رشداً

٢_ يتيموں كو ان كا مال سپرد كرنے كى دو شرطيں ہيں ايك جنسى بلوغ كے مرحلہ تك پہنچنا اور دوسرا اقتصادى رشد _

حتّى اذا بلغوا النّكاح فان انستم منهم رشداً فادفعوا اليهم اموالهم

٣_ يتيموں كے اپنے مال ميں تصرف كا جواز، جنسى بلوغ كے مرحلے تك پہنچنے اور اقتصادى رشد سے مشروط ہے_

و ابتلوا اليتامي فادفعوا اليهم اموالهم

۳۷۱

٤_ يتيموں ميں اقتصادى رشد كے معلوم ہوجانے اور جنسى بلوغ كے مرحلے تك پہنچنے كے بعد، ان كا مال انہيں واپس كرنے كا وجوب_و ابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشدا فادفعوا اليهم اموالهم

مندرجہ بالامطلبكى تائيد امام صاوق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے جو آپ(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:ايناس الرشد حفظ المال _(١) ''ايناس الرشد'' سے مراد مال كى حفاظت ہے_

٥_( نابالغ ) بچے اور جو لوگ اقتصادى رشد (فہم) نہيں ركھتے، وہ اپنے مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہيں _*

وابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشداً فادفعوا

٦_ مالكيت كا لازمہ تصرّف كا جواز نہيں ہوتا_و ابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشداً فادفعوا

نابالغ يتيم، اپنے مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہيں ، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فقط مالك ہونے كا لازمہ، مال ميں تصرف كا جواز نہيں ہے_

٧_ ولى و سرپرست كى نگرانى ميں اور اجازت كے ساتھ يتيم بچوں كا اپنے مال ميں تصرف صحيح ہے_

وابتلوا اليتامى حتى اذا بلغوا النكاح كيونكہ آزمائش اسى وقت ہوسكتى ہے جب يتيم اپنے اموال ميں تصرف كرے اور اس كا ولى و سرپرست اس كے تصرفات كى نگرانى كرے_

٨_ بچوں كى ذاتى مالكيت_و ابتلوا اليتامي فادفعوا اليهم اموالهم

٩_ يتيموں كے مال ميں ، اولياء كے اسراف اور سوء استفادہ كى حرمت_اموالهم و لاتاكلوها اسرافاً و بداراً ان يكبروا

١٠_ يتيم كى خدمت كے عوض اسكے مال سے، مالدار ولى كيلئے (كچھ) لينا حرام ہے_و من كان غنيا فليستعفف بعض كى رائے ہے كہ يتيم كے مال سے استفادہ كرنے اور اس ميں تصرف كرنے سے مراد وہ استفادہ و تصرف ہے جو يتيموں كا ولى و سرپرست كام كے عوض اور مزدورى كے عنوان سے يتيم كے مال سے ليتا ہے_

١١_ مالدار ولى وسرپرست كا يتيموں كے مال سے ان كى خدمت كے بدلے عوض نہ لينا، ايك پسنديدہ (مستحب) عمل ہے_و من كان غنياً فليستعفف

____________________

١)من لايحضرہ الفقيہ ج٤ ص١٦٤ ح٧ ب ١١٣، نورالثقلين ج١ ص٤٤٤ ح٦٠.

۳۷۲

مندرجہ بالا مطلب (اسے چاہيئے كہ يتيم كا مال كھانے سے پرہيز كرے) سے استحبابى معنى مراد لياگيا ہے_چونكہ اسكے مقابل ''فلياكل'' ہے كہ جو وجوب پر دلالت نہيں كرتا_

١٢_ ولى و سرپرست كے فقيرہونے كى صورت ميں ، يتيم كى خدمت كے عوض، اسكے مال سے معمول كے مطابق استفادہ كرنے كا جواز_و من كان فقيراً فلياكل بالمعروف

١٣_ كام كى قدرو قيمت مقرر كرنے ميں عرف عام كا معتبر ہونا_فلياكل بالمعروف كلمہ ''بالمعروف'' يعنى جو عام لوگوں كى رائے ميں قابل قبول ہو _

١٤_ يتيموں كو ان كا مال سپرد كرتے وقت اس پر شاہد (گواہ) بنانا ضرورى ہے_فاذا دفعتم اليهم اموالهم فاشهدوا عليهم

١٥_ دوسروں كا مال، ان كے سپرد كرتے وقت اس پر گواہ بنانا ضرورى ہے_فاذا دفعتم اليهم اموالهم فاشهدوا عليهم بظاہر گواہ بنانے كا معيار فقط يتيم كا مال نہيں _ لہذا يہ آيت ہر قسم كا مال اور دين ادا كرتے وقت اس پر گواہ بنانے كے ضرورى ہونے كى دليل بن سكتى ہے_

١٦_ اعمال كا حساب لينے ميں خداوند متعال كا كافى ہونا_و كفي بالله حسيباً

١٧_ خداوند متعال كے دقيق حساب لينے كا اعتقاد (دينى وجدان) دوسروں كے حقوق كى رعايت كرنے كى بنياد بنتا ہے_

و كفي بالله حسيباً

١٨_ خداوند متعال كا يتيموں كے سرپرستوں كو، ان كے حقوق كى رعايت نہ كرنے كے سلسلے ميں خبردار كرنا_

فان انستم منهم رشداً و كفي بالله حسيباً

١٩_ يتيم كے ولى و سرپرست كا اسكے مال سے معمول كے مطابق استفادہ كرنے كا جواز اس بات سے مشروط ہے كہ وہ يتيم كى مصلحت كيلئے اپنا وقت صرف كرے اور يتيم كا مال بھى كم نہ ہو (كافى ہو)_و من كان فقيراً فلياكل بالمعروف

مذكورہ آيت كے بارے ميں امام صادق(ع) فرماتے ہيں :ذلك رجل يحبس نفسه عن المعيشة فلا با س ان يا كل بالمعروف اذا كان يصلح لهم اموالهم فان كان المال قليلاً فلا يا كل منه شيئاً (١) يہاں مراد وہ شخص ہے جس نے يتيموں كى خاطر ان كے مال كى اصلاح اور مصلحت كيلئے خود كو مصروف كرديا ہو اور اپنے كام كاج سے رہ جائے تو وہ

____________________

١)كافى ج٥ ص١٣٠ ح٥، نورالثقلين ج١ص ٤٤٥ ح٦٩.

۳۷۳

ضرورت اور معمول كے مطابق مال يتيم ميں سے لے سكتا ہے_ اور اگر مال يتيم كم ہو تو پھر نہيں لے سكتا ہے_

٢٠_ سخت ضرورت كے وقت، ولى و سرپرست يتيم كے مال سے استفادہ كرسكتا ہے_فلياكل بالمعروف

مذكورہ آيت كے بارے ميں امام صادق(ع) فرماتے ہيں :المعروف هو القوت و انما عنى الوصّى او القيم فى اموالهم و ما يصلحهم _(١) ''المعروف'' سے مراد ضرورى اخراجات ہيں اور (وہ شخص جسے اخراجات لينے كا حق ہے) مراد وصى يا وہ شخص ہے جو يتيموں كے اموال اور ان كے امور كا سرپرست ہے_

٢١_ ضرورت كے وقت، يتيم كا سرپرست اسكے مال ميں سے قرض لے سكتا ہے_فلياكل بالمعروف اما م باقر(ع) مذكورہ آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں :معناه من كان فقيراً فليا خذ من مال اليتيم قدر الحاجة و الكفاية على جهة القرض ثم يردّ عليه ما ا خذ اذاوجد (٢) اس سے مراد يہ ہے كہ فقير بقدرضرورت يتيم كے مال ميں سے لے سكتا ہے_ پھر جب اس كے پاس مال آجائے تو وہ قرض كو لوٹا دے_

احكام: ٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٤، ١٥، ١٩ احكام ثانوى ٢٠، ٢١

اسراف: اسراف كى حرمت ٩ ;اسراف كے احكام ٩

اقتصاد: اقتصادى ترقى ١، ٢، ٣، ٤

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا خبردار كرنا ١٨ ; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١٦، ١٧

امانتداري: امانتدارى كے احكام ١٥; امانت دارى ميں گواہى ١٥

امتحان: امتحان كا فلسفہ ١

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ١٧

بچہ : بچے كا ممنوع التصرف ہونا ٥;بچے كى مالكيت ٨;بچے كے تصرفات ٥، ٧

روايت: ٤، ١٩،٢٠، ٢١

عرف: عرف عام كى اہميت١٣

عمل: عمل صالح١١ ; عمل كا حساب ١٦

قدر و قيمت: قدر و قيمت كا معيار ١٣

____________________

١)كافى ج٥ ص١٣٠ ح٣، نورالثقلين ج١ص ٤٤٦ ح٦٧. ٢)مجمع البيان ج٣ص١٧تفسير برھان ج١ص٣٤٥ح٢٠.

۳۷۴

كام: كام كى قدر و قيمت١٣

لوگ: لوگوں كے حقوق كى رعايت كرنا ١٧

مالكيت: ذاتى مالكيت ٨ ;مالكيت كے احكام ٦

مال ميں تصرف: مال ميں تصرف كى شرائط ٦

محرمات: ٩، ١٠

ممنوع التصرف لوگ: ٥

واجبات: ٤

وجدان: دينى وجدان ١٧

ولى : ولى كے اختيارات ١٢، ١٩، ٢٠، ٢١

يتيم: يتيم كا امتحان ١; يتيم كا تصرف ٢ ، ٣ ،٧;يتيم كا مال ٢، ٧، ٩، ١٤;يتيم كى ترقي١، ٢، ٣ ;يتيم كى خدمت ١٠، ١٢ ، ١٩;يتيم كى كفالت ٧، ٢٠، ٢١;يتيم كى مصلحت١٩ ;يتيم كے احكام ٢، ٣، ٤، ١٩; يتيم كے حقوق ١٨; يتيم كے سرپرست ٩، ١٠، ١٢، ١٨; يتيم كے مال سے استفادہ ١٠، ١١، ١٢، ١٩، ٢٠، ٢١

آیت(۷)

( لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا )

مردوں كے لئے ان كے والدين او راقربا كے تركہ ميں ايك حصہ ہے اور عورتوں كے لئے بھى ان كے والدين اور اقربا كے تركہ ميں حصہ ہے وہ مال بہت ہو يا تھوڑا يہ حصہ بطور فريضہ ہے_

١_ تمام مرد اور عورتيں اپنے ماں باپ اور قريبى رشتہ داروں سے ارث ليتے ہيں _

للرّجال نصيب ممّا ترك الوالدان والاقربونص وللنسآء نصيب

۳۷۵

٢_ ماں باپ اور قريبى رشتہ داروں كے وارثوں كا، ميراث ميں معين حصہ _للّرجال نصيب ما ترك و للنساء نصيب نصيباً مفروضاً

٣_ ميراث ميں حصہ دار بننے كا معيار، وارث كا ميت كے ساتھ رشتہ دار ہونا ہے_للرّجال نصيب والاقربون و للنساء والاقربون

٤_ ميت كے قريبى رشتہ داروں كا ارث لينے ميں مقدم ہونا_للرّجال نصيب ممّا ترك الوالدان والاقربون

''الاقربون''كا معنى ہے، قريبى ترين رشتہ دار _ (لسان العرب) لہذا جو وارث تمام رشتہ داروں سے زيادہ ميت كے نزديك ہو وہى ارث لينے ميں مقدم ہے_

٥_ عورتوں كو ارث سے محروم كرنے والى جاہلانہ رسم كا ختم كيا جانا_و للنساء نصيبٌ

مرحوم طبرسى نقل كرتے ہيں كہ عرب جاہليت ميں عورتوں كو ارث سے محروم كرديتے تھے اور يہ آيت اسى رسم كو ختم كرنے كيلئے نازل ہوئي ہے_

٦_ ميت كى ميراث سے عورتوں اور مردوں كے حصے كا متفاوت ہونا_للّرجال نصيبٌ و للنساء نصيبٌ

عورت اور مرد كيلئے ، كلمہ ''نصيب'' كا تكرار ارث سے ان دونوں كے حصہ كے متفاوت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

٧_ ارث كا مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_للرّجال نصيب و للنساء نصيبٌ مما ترك الوالدان والاقربون

٨_ ميراث ميں مقرر شدہ حصہ، وارثوں كا حق ہے، خواہ ميت كا تركہ تھوڑا ہو يا زيادہ_للرّجال نصيب ممّا قل منه او كثر نصيباً مفروضاً

٩_ارث كى تقسيم ميں دقت كرنا اور وارثوں كے حقوق ضائع نہ كرنا ضرورى ہے_للرّجال نصيب و للنساء نصيب مما قلّ او كثر نصيبا مفروضا اس بات كى تصريح كہ تركہ جتنا بھى كم ہو وارثوں كو اس ميں سے حصہ لينا چاہيئے اور حصہ دار بننا چاہيئے_ يہ مسئلہ ارث كى اہميت اور حصہ داروں كو ان كا حصہ دينے ميں دقت كرنے كى ضرورت پر دلالت كرتا ہے_

۳۷۶

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨

ارث: ارث كا كردار ٧;ارث كى تقسيم ٩;ارث كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨;ارث كے اسباب ١، ٣; ارث كے طبقات ٢، ٤ ; ايام جاہليت ميں ارث ٥

جاہليت: جاہليت كى رسوم٥

عورت: عورت كى ارث ٦

مالكيت: مالكيت كے اسباب ٧

مرد: مرد كى ارث ٦

وارث: وارث كے حقوق ٨، ٩

آیت(۸)

( وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا ) اوراگر تقسيم كے وقت ديگر قرابتدار ، ايتام، مساكين بھى آجائيں تو انھيں بھى اس ميں سے بطور رزق دے دو اور ان سے نرم اور مناسب گفتگو كرو_

١_ ارث تقسيم كرتے وقت اگر ضرورت مند قريبى رشتہ دار، يتيم اور مساكين موجود ہوں تو انہيں ميت كے مال سے بہرہ مند كرنا ضرورى ہے_و اذا حضر القسمة اولوا القربي واليتامي والمساكين فارزقوهم منه يتيم و مسكين كے ساتھ''اولوا القربي'' كا ذكر اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ''اولوا القربي'' سے مراد ضرورت مند رشتہ دار ہيں نہ كہ مالدار رشتہ دار كہ جو يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ كسى قسم كا تناسب نہيں ركھتے_ آيت كے ذيل ميں ان كے ساتھ اچھا اور محبت بھرا سلوك كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے اس سے بھى مذكورہ معنى كى تائيد ہوتى ہے_

۳۷۷

٢_ رشتہ داروں ، يتيموں اور مسكينوں كو ميراث سے بہرہ مند كرتے وقت، ان كے ساتھ نيك اور محبت بھرا سلوك كرنا ضرورى ہے_و اذا حضر القسمة فارزقوهم منه و قولوا لهم قولاً معروفاً

٣_ رشتہ داروں ، يتيموں اور مسكينوں كى ضروريات كى طرف توجّہ اور ان كے ساتھ نيك سلوك كرنا ضرورى ہے_

اولوا القربي واليتامي والمساكين فارزقوهم منه و قولوا لهم قولاً معروفاً

٤_ بات چيت كرتے وقت ادب كا لحاظ ركھنا ضرورى ہے_و قولوا لهم قولاً معروفاً ''قول معروف''كا معنى وہ قول ہے جو عرف و شرع ميں پسنديدہ ہو_ اس كو مؤدبانہ گفتگو بھى كہتے ہيں _

احكام: ١

ارث: ارث كے احكام ١

رشتہ دار: رشتہ داروں سے سلوك ٢، ٣;رشتہ داروں كى ضروريات پورى كرنا ٣; رشتہ داروں كے حقوق ١، ٢

سخن: سخن ميں ادب، ٤

ضرورت مند لوگ: ضرورت مندوں كى ضرورت پورى كرنا ١، ٣

مساكين: مساكين سے سلوك ٢;مساكين كى ضروريات پورى كرنا ٢

معاشرت: آداب معاشرت ٤

يتيم: يتيم سے سلوك ٢، ٣;يتيم كى ضرورت پورى كرنا ٣

۳۷۸

آیت(۹)

( وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا )

اور ان لوگوں كو اس بات سے ڈرنا چاہئے كہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعيف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو كس قدر پريشان ہوتے لہذا خدا سے ڈريں اورسيدھى سيدھى گفتگو كريں _

١_ جو لوگ معاشرے كى طرف سے اپنے يتيم بچوں كے حقوق كى رعايت كے خواہاں ہيں انہيں چاہيئے كہ وہ دوسروں كے يتيم بچوں كے حقوق كا خيال ركھيں _و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذريّة ضعافاً خافوا عليهم فليتّقُوا الله

پہلے جملے (لو تركوا من خلفهم ذريّة ضعافاً ) كے قرينے سے جملہ''فليتقوا الله ''كا معنى اس طرح ہوگا:''فليتّقوا الله فى امر الذّريّة الضعاف ''يعنى جو لوگ اپنى موت كے بعد اپنے يتيم بچوں كے حقوق كے بارے ميں پريشان ہيں ان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دوسرے لوگوں كے يتيم بچوں كے بارے ميں تقوائے الہى اختيار كريں _

٢_ اپنى اولاد كے انجام كے بارے ميں سرپرستوں كى ذمہ داري_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيةً ضعافاً

اولاد كے مستقبل كے بارے ميں پريشانى اور ان كى نسبت احساس ذمہ داري، انسان كى ايك قدرتى حالت ہے كہ جس كى تائيد خداوند متعال نے بھى كى ہے اور اپنے حكم كى بنا، تقوائے الہى (فليتقّوا الله ) كى رعا يت كو قرار ديا ہے_

٣_ انسانى احساسات ،معاشرے كے يتيموں كے حقوق كا خيال ركھنے كے بارے ميں احساس ذمہ دارى كا پيش خيمہ ہيں _و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذريّةً ضعافاً خافوا عليهم

٤_ دوسروں كے حقوق كا خيال ركھنے كى ترغيب دلانے كيلئے احساسات كى تحريك، ايك قرآنى طريقہ

۳۷۹

ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً خافوا عليهم

٥_ يتيموں كے حقوق كا خيال نہ ركھنے كے بارے ميں خداوند متعال كا خبردار كرنا_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً فليتقوا الله

٦_ كردار و عمل ميں عمل اور ردّ عمل كا قانون حكم فرما ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّهً ضعافاً خافوا عليهم

چونكہ آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر تم دوسروں كے يتيموں كے حقوق كا خيال نہيں ركھوگے تو تمہارے يتيموں كے حقوق كا خيال بھى نہيں ركھا جائے گا_

٧_ دوسروں كے يتيموں كے حقوق كے بارے ميں تقوي اختيار نہ كرنے سے معاشرے كى طرف سے اپنے يتيموں كے حقوق پائمال ہونے كا راستہ ہموار ہوتا ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً خافوا عليهم فليتّقوا الله اس مطلب كى تائيد امام صادق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے : يعنى ليخش ان اخلفہ فى ذريّتہ كما صنع بھؤلاء اليتامي_(١) انسان اس بات سے ڈرے كہ اس كے يتيموں كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو اس نے دوسرے يتيموں كے ساتھ كيا ہے_

٨_ خداوند متعال كا ان لوگوں كو خبردار كرنا جو يتيموں كو ان كى ميراث سے محروم كرتے ہيں _للرّجال نصيب و للنساء نصيب و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً فليتّقوا الله گذشتہ آيت كے ساتھ اس آيت كے ارتباط كے مطابق، يتيموں كے بارے ميں خوف اور وحشت كا مورد نظر مصداق، انہيں ارث سے محروم كرنا ہے_

٩_ يتيموں كے حقوق پائمال كرنے والوں كيلئے دنيوى اور اخروى سزا و عقوبت كا منتظر ہونا_

و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم فليتّقوا الله جملہ ''و ليخش ...''دنيوى كيفر و سزا كى طرف اشارہ ہے اور جملہ ''فليتّقوالله ''(خدا سے ڈرو)، اخروى عقوبت و عذاب پر دلالت كر رہا ہے_

١٠_ كيفر الہى كى جانب توجّہ، دوسروں كے حقوق كا خيال ركھنے كى راہ ہموار كرتى ہے_و ليخش فليتّقوا الله

____________________

١)كافى ج٥ ص ١٢٨ ح ١ ، تفسير عياشى ج ١ ص ٢٣٨ ح ٣٨.

۳۸۰