تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 797
مشاہدے: 139196
ڈاؤنلوڈ: 3436


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139196 / ڈاؤنلوڈ: 3436
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 3

مؤلف:
اردو

آیت(۲۱)

( وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُكُمْ إِلَی بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ) او ر آخر كس طرح تم مال كو واپس لوگے جب كہ ايك دوسرے سے متصل ہو چكا ہے او ران عورتوں نے تم سے بہت سخت قسم كا عہد ليا ہے _

١_ عورتوں سے ان كامہر واپس لينا، انسانيت سے بعيد اور انصاف كے خلاف ہے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الى بعض گذشتہ آيت ميں مہر كو واپس لينا، ظلم و گناہ شمار كيا گيا ہے اور يہ آيت سواليہ انداز ميں ، انسانى وجدان كو عدل و انصاف كى دعوت دے رہى ہے_

٢_ ہمبسترى كے بعد مہر ميں سے معمولى سا حصہ بھى واپس لينا، حرام ہے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الى بعض

يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''وقد افضي'' مباشرت سے كنايہ ہو_

٣_ مياں بيوى كے ازدواجى تعلقات اور ان كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى ہم دلى و يگانگت پر توجّہ اور غوروفكر مانع بنتا ہے كہ انسان اپنى بيوى پر ظلم كرے اور اس سے مہر واپس لے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الي بعض

''افضي''كا مصدر ''افضائ'' ہے جس كا معنى اتصال ہے_ اور آيت ميں ہوسكتا ہے يہ زوجين كے اتحاد و يگانگت سے كنايہ ہو نہ مباشرت سے ورنہ خداوند متعال يہ فرماتا ''و قد افضيتم اليهنّ'' _

٤_ بيوى كے ساتھ ماضى كيمعاشرت كا احترام اور اس كى طرف توجہ كا لحاظ ركھنا ضرورى ہے_

و قد ا فضى بعضكم الي بعض يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''قد ا فضي''سے مراد پيوند معاشرت ہو_

۴۲۱

٥_ ظلم اور گناہ سے روكنے كيلئے انسانى احساسات اور عواطف كو ابھارنا، قرآنى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_

اثماً مبيناً و كيف تاخذونه و قد افضى بعضكم الى بعض

٦_ جنسى مسائل بيان كرنے كے سلسلے ميں قرآن كا ادب و احترام كا لحاظ ركھنا_

و قد افضى بعضكم الى بعض مباشرت اور دخول كا معنى بيان كرنے كيلئے كلمہ ''افضي''كا استعمال ( يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''افضي''كا معنى مباشرت ليا جائے) كلام كى ادائيگى ميں قرآنى ادب كو ظاہر كرتا ہے_

٧_ جنسى مسائل بيان كرتے وقت صراحت گوئي سے پرہيز كرنا ايك اچھا اور پسنديدہ طريقہ ہے_و قد افضى بعضكم الى بعض

٨_ عہد و پيمان كى پابندى كرنا ضرورى ہے_و كيف تاخذونه و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

٩_ عورتوں كا مہر واپس لينا، اس محكم عہد و پيمان كو توڑنا ہے جو بيويوں نے اپنے شوہروں سے لے ركھا ہے_

و كيف تاخذونه و قد افضى بعضكم الى بعض و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

١٠_ ازدواجى تعلقات پر مبنى عہد و پيمان كى رعايت كرنے كے سلسلے ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كيلئے قرآنى طريقوں ميں سے ايك انسانى وجدان كو بيدار كرنا ہے_و كيف تاخذونه و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

١١_ مہر، ہمبسترى اور ازدواجى عہد و پيمان كے مقابلے ميں عورت كا حق ہے _و كيف تاخذونه و قد افضي

جملہ ''و قد افضي''كہ جو مباشرت سے كنايہ ہے اور جملہ ''اخذن منكم''كہ جو عقد ازدواج پر دلالت كرتا ہے، دونوں سے ظاہر ہوتا ہے كہ عورت ان دونوں چيزوں كے بدلے مہر كى مالك بن جاتى ہے_

١٢_ عقد نكاح وہ محكم و پكا عہد و پيمان ہے جو عورت نے مرد سے لے ركھا ہے_و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود ميثاق كے بارے ميں فرمايا:''الميثاق''الكلمة التى عقد بها النكاح (١) ميثاق سے مراد عقد نكاح ہے

____________________

١)كافى ج٥ ص٥٦٠ ح١٩ تفسير برھان ج١ص٣٥٥ ح٨.

۴۲۲

١٣_ ازدواج كے وقت عورت مرد سے يہ عہدو پيمان ليتى ہے كہ يا تو وہ بيوى كے ساتھ نيك و پسنديدہ سلوك كرتے ہوئے زندگى بسر كرے يا نيك سلوك كرتے ہوئے اسے آزاد چھوڑ دے_

و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً امام باقر(ع) سے مذكورہ آيت ميں موجود ''ميثاق''كے بارے ميں منقول ہے''الميثاق الغليظ'' هو العهد الماخوذ على الزوّج حالة العقد من امساك بمعروف او تسريح باحسان _(١) ''ميثاق غليظ''سے مراد وہ عہد و پيمان ہے جو عقد كى حالت ميں شوہر سے ليا جاتا ہے كہ يا وہ اچھے انداز سے بيوى كے ساتھ زندگى گذارے يا نيك سلوك كرتے ہوئے اسے چھوڑ دے_

احكام: ١، ٢

ازدواج: ازدواج كى حقيقت١٢

انسان: انسانى احساسات ٥

تحريك : تحريك كى اہميت ٥، ١٠

تربيت: تربيت كا طريقہ ٥، ١٠

خانوادہ: خانوادگى روابط كى اہميت ٣

ذكر: ذكر كے اثرات ٣

رُشد: رُشد كے اسباب ٥

روايت: ١٢، ١٣

سخن: آداب سخن ٧

ظلم: ظلم كے موانع ٥ عمل: پسنديدہ عمل ٧;ناپسنديدہ عمل ١

عورت : عورت كے حقوق ١، ٢، ١١ عہد: عہد وفا كرنے كى اہميت ١٠

عہد شكني:

____________________

١)مجمع البيان ج٣ص٤٢ تفسير برھان ج١ص٣٥٦ ح١١.

۴۲۳

عہد شكنى كے اسباب ٩

قرآن كريم: قرآن كريم كى خصوصيت ٦

گناہ: گناہ كے موانع ٥

محرّمات: ٢

معاشرت: سابقہ معاشرت، ٤

معاہدے: معاہدوں پر عمل كرنا ٨

مہر: مہر كا كردار ١١; مہر كے احكام ١، ٢;مہر واپس لينا ١، ٢، ٣، ٩

مياں بيوى : بيوى كے ساتھ معاشرت ١٣;مياں بيوى كا عہد و پيمان ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣

وجدان: وجدان كا كردار ١٠

آیت( ۲۲)

( وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً )

او رخبردار جن عورتوں سے تمھارے باپ دادانے نكاح (جماع) كيا ہے ان سے نكاح نہ كرنا مگر وہ جواب تك ہو چكا ہے _يہ كھلى ہو ئي برائي او رپروردگا ركا غضب او ربدترين راستہ ہے _

١_ جو عورت باپ كى بيوى رہ چكى ہو اس سے ا زدواج كرنے كى حرمت_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النسائ

يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''ما نكح اباؤكم''ميں نكاح سے مراد عقد ازدواج ہو نہ كہ مباشرت_

٢_ جس عورت سے باپ نے مباشرت كى ہو اس سے ازدواج كرنے كى حرمت_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم يہ اس بناپر ہے كہ نكاح سے مراد مباشرت ہو نہ عقد نكاح_

٣ _ اجداد كى بيويوں سے ازدواج كرنے كى حرمت_

۴۲۴

و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم كلمہ ''آبائ'' لغت قرآن ميں ، باپ، دادا اور اجداد كو شامل ہے_ مندرجہ بالا مفہوم كى تائيد امام باقر(ع) كے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے:ولا يصلح للرجل ان ينكح امراة جدّہ(١) مرد كيلئے اجداد كى بيويوں سے نكاح كرنا جائز نہيں ہے_

٤_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا زمانہ جاہليت كى رسوم ميں سے ہے_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الاّ ما قد سلف

٥_ باپ كى منكوحہ سے جو شادياں ، حرمت كا حكم بيان ہونے سے پہلے انجام پاچكى تھيں وہ باطل نہيں ہوئيں _

و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الّا ما قد سلف

٦_ قانون كا اطلاق ماسبق پر نہيں ہوتا_ولاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الّاص ما قد سلف

٧_ باپ كى منكوحہ (يا وہ عورت جس سے باپ نے مباشرت كى ہو) سے ازدواج كا ناپسنديدہ ہونا اور خداوند متعال كے غضب كا باعث بننا_و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم انّه كان فاحشةً و مقتاً و سصائص سبيلاً ''مقت''كا معنى غضب ہے_

٨_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا، ايام جاہليت كے لوگوں كى نظروں ميں بھى قابل نفرت تھا_

انّه كان فاحشة و مقتاً ہوسكتا ہے جملہ ''انہ كان مقتاً''اس عمل كى تاريخى قباحت كى طرف اشارہ ہو جو زمانہ جاہليت كے عربوں ميں رائج تھي_ چونكہ وہ لوگ باپ كى بيوى سے شادى كو ''نكاح مقت'' كہتے تھے_

٩_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا زنا ہے_*و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم انّه كان فاحشة

يہ اس لحاظ سے كہ ''فاحشة'' قرآن ميں بہت سے مقامات پر زنا سے كنايہ كے طور پر استعمال ہوا ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٥

ازدواج: ازدواج كے احكام١، ٢، ٣، ٥;ايام جاہليت ميں ازدواج ٤;حرام ازدواج ١، ٢، ٣، ٩;ناپسنديدہ ازدواج ٧، ٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا غضب ٧

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسوم ٤، ٨

____________________

١)كافى ج٥ ص٤٢٠،ح ١، نورالثقلين ج١ ص٤٦٠ ح١٤٣.

۴۲۵

زنا: زنا كے موارد٩

عمل: ناپسنديدہ عمل ٧

قانون: قانون كى حدود ٥، ٦

آیت(۲۳)

( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّ تِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا )

تمھارے او پر تمھارى مائيں ، بيٹياں ،بہنيں ،پھوپھياں ، خالائيں ، بھتيجياں ، بھانجياں وہ مائيں جھنوں نے تم كو دودھ پلا يا ہے ،تمھارى رضاعى (دود ھ شريك )بہنيں ،تمھارى بيويوں كى مائيں ، تمھارى پروردہ عورتيں جو تمھارى آغوش ميں ہيں او ران عورتوں كى اولاد ، جن سے تم نے دخول كيا ہے ہاں اگر دخول نہيں كيا ہے تو كوئي حرج نہيں ہے او رتمھارے فرزندوں كى بيوياں جو فرزند تمھارے صلب سے ہيں او ردو بہنوں كا ايك ساتھ جمع كرنا سب حرام كرديا گيا ہے علاوہ اس كے جو اس سے پہلے ہو چكا ہے خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے _

١_ ماؤں ، بيٹيوں ، بہنوں ، پھوپھيوں ، خالاؤں ، بھتيجيوں اور بھانجيوں سے ازدواج كرنے كى

۴۲۶

حرمت_حرمت عليكم امّهاتكم و بناتكم و اخواتكم و عمّاتكم و خالاتكم و بنات الاخ و بنا ت الاخت

گذشتہ آيات كى مناسبت سے كہ جن ميں ازدواج كى بات ہورہى تھى اس آيت ميں بھى حرمت سے مراد، اس قسم كى خواتين سے ازدواج كى حرمت ہے_

٢_ رضاعى ماں ، رضاعى بہن اور ساس سے ازدواج كرنے كى حرمت_حرمت عليكم و امهاتكم اللاتى ارضعنكم و اخواتكم من الرّضاعة و امّهات نسائكم

٣_ اس بيوى كى بيٹى سے ازدواج كرنے كى حرمت جس كے ساتھ ہم بسترى كى گئي ہے_حرّمت و ربائبكم اللاتى فى حجوركم من نسائكم التى دخلتم بهنّ چونكہ ''اللاتى دخلتم بھنّ''كا مفہوم ''ان لم تكونوا دخلتم بھنّ'' بيان كيا گيا ہے ليكن''اللاتى فى حجوركم' 'كا مفہوم بيان نہيں كياگيا_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ربيبہ كے ساتھ ازدواج كى حرمت ''فى حجوركم''سے مقيد نہيں _

٤_ انسان كيلئے اپنى لے پالك (بيوى كى بيٹي) سے شادى كرنا اس صورت ميں جائز ہے كہ جب اسكى ماں سے ہم بسترى نہ كى ہو_فان لم تكونوا دخلتم بهنّ فلا جناح عليكم

٥_ بيوى كى بيٹى (ربيبہ) كے ساتھ شادى كے جواز كى شرائط ميں سے ايك بيوى (يعنى لے پالك كى ماں ) كى موت يا اس كو طلاق دينا ہے_حرّمت امّهات نسائكم ربائبكم فان لم تكونوا دخلتم بهنّ ساس كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت سے ظاہر ہوتا ہے كہ ربيبہ كے ساتھ ازدواج كرنے كى شرط يہ ہے كہ اسكى ماں ، ازدواج كرنے والے كى بيوى نہ ر ہے _

٦_ مرد كيلئے اپنى بہو سے شادى كرنے كى حرمت_حرّمت و حلائل ابنائكم الذين من اصلابكم

٧_ منہ بولے يا رضاعى بيٹے كى بيوى سے ازدواج كا جواز_حرّمت و حلائل ابنائكم الذين من اصلابكم

٨_ نسبي، رضاعى اور سببى محارم سے ہر قسم كى جنسى لذت كى حرمت_حرّمت عليكم امّهاتكم و حلائل ابنائكم خود '' امہات و ''كى طرف حرمت كى نسبت سے ظاہر ہوتا ہے نہ فقط ازدواج بلكہ مذكورہ خواتين سے ہر قسم كى لذت و جنسى استفادہ حرام ہے_

۴۲۷

٩_ بيك وقت دو بہنوں سے شادى كرنے كى حرمت_حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين

١٠_ بيوى سے (طلاق ، موت يا ...كے ذريعے) جدا ہونے كى صورت ميں اسكى بہن سے شادى كرنے كا جواز_

حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين چونكہ بيك وقت دو بہنوں كے ساتھ ازدواج كرنے كى حرمت ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ايك بہن سے جدا ہوجانے كى صورت ميں دوسرى بہن كے ساتھ شادى كى جاسكتى ہے_

١١_ دو بہنوں سے ايك ساتھ شادى كرنے كى حرمت، ان شاديوں كو شامل نہيں جو آيت كے نزول سے پہلے انجام پاچكى نہيں _حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف

١٢_ آيہ مجيدہ ''حرّمت ...الا ما قد سلف''كے نزول كى وجہ سے دو بہنوں كے ساتھ كى گئي شاديوں كاباطل ہوجانا اور اس آيت كے نزول كے وقت تك ان كا صحيح ہونا_و ان تجمعوا بين الاختين الاّ ما قدسلف چونكہ بيك وقت دو بہنوں اور دوسرى محارم كے ساتھ ازدواج كى حرمت سے ان كے باطل ہونے كا بھى پتہ چلتا ہے_ لہذا كہہ سكتے ہيں كہ استثناء ''الا ما قد سلف''سے مراد يہ ہے كہ ايسے نكاح (آيت كے نزول سے پہلے تك) صحيح تھے ليكن اس كے بعد ان كے بطلان كا حكم جارى ہوگا_

١٣_ دو بہنوں كے ساتھ ازدواجى تعلقات پر مبنى زندگى كو جارى ركھنے كا جواز اس صورت ميں ہے كہ جب ان كے ساتھ شادى آيت مجيدہ ''ان تجمعوا ...''كے نزول سے پہلے انجام پائي ہو_*الاّ ما قدسلف ''حرّمت ان تجمعوا''ميں تحريم، حال اور مستقبل دونوں كو شامل ہے_ چونكہ گذشتہ افعال كو تحريم نہيں كيا جاسكتا_ لہذا استثناء يعنى ''الاّ ما قد سلف''دو بہنوں كے درميان حال اور مستقبل ميں جمع كرنے كى حليت كا بيان ہے_ البتہ اس شرط كے ساتھ كہ ان دونوں كے ساتھ شادي، آيت كے نزول سے پہلے انجام پاچكى ہو_

١٤_ سببي، نسبى اور رضاعى محارم كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت ان شاديوں كو شامل نہيں كہ جو آيت مجيدہ ''حرمت عليكم''كے نازل ہونے سے پہلے انجام پاچكى تھيں _حرّمت الّا ما قد سلف

يہ اس بنا پر ہے كہ جب جملہ''الاّ ما قد سلف'' آيت ميں مذكور تمام محرمات سے استثناء ہو_

١٥_ محارم اور دو بہنوں كے ساتھ بيك وقت شادى كرنا، ايام جاہليت كى رسوم ميں سے تھا_

۴۲۸

حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف

١٦_ قانون كا اطلاق ماسبق پر نہيں ہوتا_حرّمت عليكم الاّ ما قد سلف

١٧_ خداوند متعال ہميشہ غفور (بہت بخشنے والا) اور رحيم (بہت مہربان) ہے_انّ الله كان غفوراً رحيماً

١٨_ خداوند متعال كا دو بہنوں كے ساتھ بيك وقت اور محارم كے ساتھ ازدواج كى حرمت كا حكم بيان كرنے سے پہلے انہيں صحيح قرار دينا، اپنے بندوں كى نسبت اسكى رحمت كا ايك جلوہ ہے_و ان تجمعوا بين الاختين الاّص ما قد سلف ان الله كان غفوراً رحيماً

١٩_ تحريم كے حكم سے پہلے محارم كے ساتھ انجام پانے والى شاديوں كے نتيجے ميں پيدا ہونے والے نقصانات كى تلافى كرنے والا خود خداوند متعال ہے_حرّمت انّ الله كان غفوراً رحيماً

٢٠_ ساس كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت خواہ اسكى بيٹى كے ساتھ ہم بسترى نہ بھى كى گئي ہو_وامّهات نسائكم امير المؤمنين(ع) فرماتے ہيں :اذا تزوّج الابنة فدخل بها او لم يدخل بها فقد حرّمت عليه الاّم (١) اگر كسى لڑكى سے شادى كرے تو اس كى ماں حرام ہوجاتى ہے چا ہے لڑكى سے ہمبسترى كرے يا نہ كرے_

٢١_ جو لڑكي، مرد كى سابقہ بيوى يا كنيز سے پيدا ہوئي ہو اسكے ساتھ شادى كرنے كى حرمت_و ربائبكم اللاتى فى حجوركم امام صادق(ع) سے سوال كيا گيا كہ مرد كا ايسى لڑكى سے شادى كرنا كيسا ہے جو اسكى سابقہ كنيز سے كسى دوسرے مرد كے ساتھ شادى كرنے كے بعد متولد ہوئي ہو_ آپ(ع) نے جواب ميں فرمايا: ھى عليہ حرام و ھى ابنتہ و الحرّة والمملوكة فى ھذا سوائ،(٢) يہ اس پر حرام ہے كيونكہ يہ اس كى بيٹى ہے اور اس حكم ميں آزاد عورت اور لونڈى ميں كوئي فرق نہيں ہے_اسكے بعد امام (ع) نے مذكورہ آيت كى تلاوت فرمائي

٢٢_ مرد كيلئے اپنى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كى حرمت، اگرچہ وہ اسكے گھر ميں نہ ہو_و ربائبكم اللاتى فى حجوركم

امير المؤمنين (ع) فرماتے ہيں :الربائب عليكم حرام مع الامّهات اللاتى قد دخلتم بهنّص، هُنّ فى الحجور و غيرالحجور

____________________

١)تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٣ ح٢ ب ٢٥ مسلسل ١١٦٦، نورالثقلين ج١ ص٤٦٤ ح١٥٦.

٢)كافى ج٥ ص٤٣٣ ح١٠_ تفسير برھان ج١ ص٣٥٨، ح١٥، ١٦.

۴۲۹

سوائ (١) بيويوں كى بيٹياں تم پر حرام ہيں اگر تم نے بيويوں كےساتھ مباشرت كى ہو، چا ہے ان كى بيٹياں تمہارى لے پالك ہوں يا نہ ہوں _

٢٣_ مرد كيلئے اپنى غيردائمى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كى حرمت_ امام رضا(ع) سے مرد كيلئے اپنى غيردائمى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كے جواز كے بارے ميں پوچھا كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا: جائز نہيں(٢) _

٢٤_ مرد كيلئے اپنے نواسے كى بيوى سے شادى كرنے كى حرمت_و حلائل ابنائكم الّذين من اصلابكم

ا مام باقر(ع) فرماتے ہيں :انهما (حسن (ع) و حسين(ع) ) من صلب رسول الله ، قال الله تعالى ''و حلائل ابنائكم الّذين من اصلابكم''فسلهم يا ابا الجارود هل كان يحلّ لرسول الله نكاح حليلتيهما؟ فان قالوا: نعم كذبوا و فجروا و ان قالوا: لافهما ابناه لصلبه (٣) بے شك حسن(ع) و حسين (ع) رسول اللہ كى صلب سے ہيں _ اللہ تعالى فرماتا ہے '' تمہارے اوپر صلبى بيٹوں كى بيوياں حرام ہيں تو اے ابوالجارود ان سے سوال كرو كہ كيا رسول اللہ (ص) كيلئے حلال تھا كہ وہ حسن (ع) و حسين (ع) كى بيويوں سے نكاح كريں اگر وہ كہيں كہ ہاں تو انہوں نے جھوٹ بولا اور فسق و فجور كا ارتكاب كيا اور اگر وہ كہيں نہيں تو پھر يہ دونوں (حسن (ع) و حسين (ع) ) رسول اللہ (ص) كے صلبى بيٹے ہيں _

٢٥_ جو مسلمان، اسلام لانے سے پہلے، بيك وقت دو بہنوں كا شوہر تھا_ اس كا فريضہ ہے كہ ان دونوں ميں سے كسى ايك كو، اپنى مرضى كے مطابق طلاق ديدے_و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف رسول خدا (ص) نے اس شخص سے كہ جس نے مسلمان ہونے سے پہلے ايك ساتھ دو بہنوں سے شادى كى ہوئي تھي، فرمايا:طلّق ايتهما شئت (٤) دونوں ميں سے جسے چا ہے طلاق دے دے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

____________________

١)تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٣ ح١ب٢٥ مسلسل،١١٦٥ ;نورالثقلين ج١ ص٤٦٤ ح١٥٥.

٢)كافى ج٥ ص٤٢٢ ح٢;نورالثقلين ج ١ ص٤٦٣ ح١٥٣ تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٧ ح١١ ب ٢٥.

٣)كافى ج٨ ص٣١٨ ح٥٠١ نورالثقلين ج١ ص٤٦١ ح١٤٧.

٤)الدرالمنثور ج٢ ص٤٧٥.

۴۳۰

ازدواج: ازدواج كى شرائط ٥; ازدواج كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥ ; بہو سے ازدواج ٦، ٧، ٢٤;حرام ازدواج ١، ٢، ٣، ٦، ٩، ١١، ١٢، ١٤، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥;دو بہنوں سے ازدواج ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٥، ١٨، ٢٥;ربيبہ سے ازدواج ٣، ٤، ٥، ٢٢، ٢٣;محارم سے ازدواج ١٤، ١٥، ١٨، ١٩

اسماء و صفات: رحيم ١٧;غفور ١٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى رحمت١٨; اللہ تعالى كى مغفرت ١٩

بہن: رضاعى بہن ٢

بيٹا: رضاعى بيٹا ٧

روايت: ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسومات١٥

قانون: قانون كى حدود ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ١٩، ٢٥

لذائذ: حرام لذائذ ٨

ماں : رضاعى ماں ٢

محارم: رضاعى محارم ٨، ١٤;سببى محارم ٨، ١٤;نسبى محارم ٨، ١٤

محرّمات: ١، ٢، ٨، ١٤، ٢٠، ٢٢، ٢٣، ٢٤

آیت( ۲۴)

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا )

او رتم پر حرام ہيں شادى شدہ عورتيں _ علاوہ ان كے جو تمھارى كنيزيں بن جائيں _ يہ خدا كا كھلا ہوا قانون ہے او ران سب عورتوں كے علاوہ تمھارے لئے حلال ہے كہ اپنے اموال كے ذريعہ عورتوں سے رشتہ پيدا كر و عفت و پاك دامنى

۴۳۱

كے ساتھ ، سفاح وزنا كے ساتھ نہيں پس جو بھى ان عورتوں سے تمتع كرے ان كى اجرت انھيں بطور فريضہ ديدے او رفريضہ كے بعد آپس ميں رضامندى ہو جائے تو كوئي حرج نہيں ہے بيشك الله عليم بھى ہے اور حكيم بھى _

١_ شوہردار عورت خواہ مسلمان نہ بھى ہو، پھر بھى اس سے جنسى لذت حاصل كرنے اور اسكے ساتھ شادى كرنے كى حرمت_حرّمت والمحصنات من النّسائ ''محصنة''مسلمان، عفيف، آزاد يا شوہردار عورت كو كہتے ہيں اور حكم و موضوع كى مناسبت سے آيت ميں اس سے مراد شوہردار عورت ہے_ ''المحصنات''كيلئے ''من النسائ''كى قيد، تاكيد كيلئے ہے_ اور يہ غيرمسلمان عورت كے شمول پر دلالت كررہى ہے_

٢_ شوہردار كنيز سے اسكے مالك كيلئے، جنسى لذت حاصل كرنے كا جواز_حرّمت والمحصنات من النّساء الاّ ما ملكت ايمانكم ياد ر ہے كہ مذكورہ حكم، چند شرائط كا حامل ہے جو فقہ ميں بيان كى گئي ہيں _

٣_ غلاموں كى نسبت، انسان كى مالكيت كا تائيد شدہ ہونا_ما ملكت ايمانكم

٤_ محارم ، شوہردار عورتوں اور بيك وقت دوبہنوں كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت، خداوند متعال كے قطعى اور ناقابل تغير احكام ميں سے ہے_حرّمت كتاب الله عليكم

٥_ خداوند متعال كا ازدواج اور جنسى تعلقات كے بارے ميں الہى احكام و قوانينكى پابندى كرنے كى ضرورت پر تاكيد كرنا_حرّمت كتاب الله عليكم مندرجہ بالا مطلبميں ''كتاب الله ''كو فعل مقدر (الزموا) كا مفعول بنايا گيا ہے_ يعنى احكام الہى كى پابندى كرتے ر ہو_

٦_ شوہردار ، محارم اور سالى كے علاوہ دوسرى تمام عورتوں سے شادى كرنے اور مباشرت كرنے كا جواز_

حرّمت عليكم امّهاتكم و احلّ لكم ماوراء ذلكم ''ذلكم''ان تمام موارد كى طرف اشارہ ہے جو اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت ميں بيان ہوئے ہيں _ ٧

_ اسلام ميں شادى اور جنسى روابط سے متعلق احكام و قوانين كا دوسرے تمام الہى اديان كے احكام و قوانين سے مختلف ہونا_*

۴۳۲

و احلّ لكم ماوراء ذلكم كلمہ ''لكم'' ہوسكتا ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہوكہ اس آيت اور گذشتہ آيات ميں جتنے بھى احكام و قوانين بيان ہوئے ہيں وہ سب تمہارے لئے مخصوص ہيں اور دوسرے سابقہ اديان كيلئے كسى دوسرے انداز ميں پيش كئے گئے ہيں _

٨_ ازدواجى تعلقات اور شادى كيلئے عقد نكاح كى شرائط ميں سے ايك، مہر كے عنوان سے كچھ مال كى تعيين ہے_

ان تبتغوا باموالكم محصنين ''باموالكم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ شادى اور جنسى تعلقات كيلئے بيوى كا انتخاب مہر كى تعيين كے ساتھ ہوگا_ ياد ر ہے كہ ''ان تبتغوا'' كا مفعول بہ حذف ہوگيا ہے اور وہ نامحرمعورتيں ہيں _

٩_ فحشاء (زنا وغيرہ) اور بے حيائي كے كاموں ميں مال و ثروت خرچ كرنے كى حرمت_

احلّ لكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غيرمسافحين ''محصنين''، ''ان تبتغوا''كے فاعل كيلئے حال ہے اور جس طرح يہ ''ابتغائ'' كو عفو و پاكدامنى سے مقيد كرسكتا ہے، اموال كے مصرف كو بھى اس سے مقيد كرسكتا ہے_

١٠_ مردوں كيلئے عفت و پاكدامنى اختيار كرنااور جنسى مسائل ميں حدود الہى كى حفاظت كرناضرورى ہے_

محصنين غيرمسافحين ''محصنين''، ''ابتغائ''كے فاعل كيلئے حال ہے_ يعنى ازدواج اور جنسى روابط كيلئے بيوى كا انتخاب، حلال صورت ميں ہوناچاہيئے نہ كہ زنا اور بے حيائي كى صورت ميں _ ياد ر ہے كہ ''سفاح''كا معنى بے حيائي اور زنا ہے_ اور غيرمسافحين''محصنين كيلئے تاكيد ہے_

١١_ ازدواج موقت (متعہ) كى مشروعيت_فما استمتعتم به منهنّ مہر كى ادائيگي، استمتاع سے مشروط كى گئي ہے_ اور استمتاع سے مراد ازدواج موقت (متعہ) ہے_ كيونكہ عقد دائمى ميں اجرت و مہر كى ادائيگى استمتاع اور جنسى لذت سے مشروط نہيں _ مندرجہ بالا مطلب كى تائيد امام باقر(ع) كے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے كہ جس ميں آپ(ص) نے ازدواج موقت كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا :نزلت فى القرآن '' فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة ..(١)

١٢_ ازدواج موقت (متعہ) ميں مہر كى مقدار معين كرنا واجب ہے_فما استمتعتم به منهنّ فاتوهُنّ اجورهن فريضة من بعد الفريضة ''فريضة''كہ جو فعيل بمعنى مفعول ہے ''اجور''كيلئے حال ہے يعنى معين شدہ اجرت_

____________________

١)كافى ج٥ ص٤٤٨ ح١، نورالثقلين ج١ ص٤٦٧ ح١٧١، تفسير برھان ج١ ص٣٦٠ ح١.

۴۳۳

١٣_ ازدواج موقت (متعہ) ميں عورتوں سے جنسى لذت حاصل كرنے كے عوض اجرت (مہر) ادا كرنا واجب ہے_

فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة

١٤_ ازدواج موقت ميں صحت عقد كى شرط، مہر كى مقدار معين كرنا ہے_فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة عقد ميں مہر كى مقدار تعيين كرنے كا ضرورى ہونا، ظاہر كرتا ہے عقد كى صحت اس مہر سے مشروط ہے_

١٥_ اسلام كا عورتوں كے اقتصادى حقوق كى حمايت كرنا_ان تبتغوا باموالكم فاتوهنّ اجورهنّ

١٦_ طرفين كى رضامندى سے مہر كى مقدار ميں تبديلى (كم و زيادہ) كرنے يا اسے بخش دينے كا جواز_

و لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة

١٧_ خداوند متعال عليم (بہت زيادہ جاننے والا) اور حكيم (حكمت والا) ہے_انّ الله كان عليماً حكيماً

١٨_ خداوند متعال حكيم عالم ہے_انّ الله كان عليماً حكيماً يہ اس بنا پر ہے كہ جب '' حكيماً ''، ''عليماً'' كيلئے صفت ہو_

١٩_ جنسى مسائل اور ازدواج سے متعلق احكام و قوانين كا سرچشمہ علم و حكمت الہى ہے_

والمحصنات انّ الله كان عليماً حكيماً

٢٠_ ازدواج موقت (متعہ) اور اسكے احكام كى تشريع كا منبع علم و حكمت الہى ہے_فما استمتعتم به منهن انّ الله كان عليماً حكيماً

٢١_ قانونساز كيلئے علم و حكمت، دو ضرورى عُنصر ہيں _والمحصنات انّ الله كان عليماً حكيماً

احكام و قوانين مقرر كرنے كے بعد، علم و حكمت الہى كا بيان، اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ قانونساز كو علم و حكمت كا حامل ہونا چاہيئے اور قانون كو ان دو بنيادوں پر وضع كيا جانا چاہيئے_

٢٢_ جو غيرمسلم شوہردار عورتيں جنگ ميں اسير ہوگئي ہوں ان كے ساتھ شادى كرنے كا جواز_حرّمت الاّ ما ملكت ايمانكم

۴۳۴

امير المؤمنين (ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:من سبى من كان لها زوج _(١) يعنى قيد ہونے والى شوہر دار عورتيں

٢٣_ مرد كيلئے اپنى بيوى كى بھانجى و بھتيجى كے ساتھ ازدواج كرنے كا جواز_و احلّ لكم ماوراء ذلكم

امام كاظم (ع) نے بيوى كى بھتيجى و بھانجى كے ساتھ مرد كى شادى كے بارے ميں فرمايا:لابأس لانّ الله عزوجل قال: ''و احل لكم ماوراء ذلكم'' (٢) كوئي حرج نہيں كيونكہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے: '' و احل لكم و راء ذلكم''كافى ج٥ ص ٤٢٤ روايت نمبر١ميں ايسى شادى كو بيوى كى اجازت سے مشروط قرار دياگيا ہے_

٢٤_ ازدواج موقت ميں اسكى مدت ختم ہونے كے بعد، مدت (عقد) اور عورت كا مہر بڑھانے كا جواز_

فما استمتعتم به منهنّ لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت كى تفسير ميں فرمايا:لابا س بان تزيدها وص تصزيدصك اذا انقطع الاجل فيما بينكما يقول استحللتك باجل آخر برضى منهما (٣) اس ميں كوئي حرج نہيں كہ مدت ختم ہوجانے كے بعد آپس ميں باہمى توافق سے مہر و مدت ميں اضافہ كرليں باين طور كہ مرد ك ہے'' استحللت باجل آخر'' _

٢٥_ طرفين كى رضا مندى سے ازدواج كے بعد، مياں بيوى كے درميان ہر قسم كى قرار داد كا جواز_

و لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:ما تراضوا به من بعد النكاح فهو جائز (٤) نكاح كے بعد باہمى رضامندى سے ہر قرار داد جائز ہے _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨، ٩، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥ احكام كى تشريع ٢٠

ازدواج: اديان الہى ميں ازدواج ٧;ازدواج كى اہميت ٥; ازدواج كى شرائط ٨;ازدواج ميں عہد و پيمان ٢٥; ازدواج ميں مہر٨; ازدواج كے احكام ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ١٤، ١٩، ٢٢، ٢٣، ٢٥; ازدواج موقت كے احكام ١١، ١٢، ١٣، ٢٠، ٢٤;اسلام ميں ازدواج ٧; حرام ازدواج ١، ٤ ;دو بہنوں سے ازدواج ٤;صحت ازدواج كى شرائط ١٤;

غيرمسلم سے ازدواج ٢٢;محارم كے ساتھ ازدواج ٤

____________________

١)مجمع البيان ج٣ص ٥١ نورالثقلين ج١ ص٤٦٦ ح١٦٥. ٢)نورالثقلين ج١ ص٤٦٦، ح ١٦٦.

٣)تفسير عياشى ج١ ص٢٣٣ ح٨٢ نورالثقلين ج١ ص٤٦٨ ح١٧٥. ٤) كافى ج ٥ ص٤٥٦ ح٢ نورالثقلين ج١ ص٤٦٧ ح١٧٣تفسير برہان ج١ ص٣٦٠ ح٦.

۴۳۵

اسماء و صفات: حكيم ١٧، ١٨;عليم ١٧، ١٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ١٨، ١٩، ٢٠ اللہ تعالى كى حدود ١٠; اللہ تعالى كى حكمت ١٩، ٢٠; اللہ تعالى كے اوامر٥

انسان: انسان كا مملوك ہونا ٣

جنسى روابط: جنسى روابط كى حدود ٥

حكمت: حكمت كى اہميت ١٢

روايت: ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

عفت: عفت كى اہميت ١٠

علم: علم كى اہميت ٢١

عورت : عورت كے حقوق ١٥

قانونسازي: قانونسازى كى شرائط ٢١; قانونسازى ميں حكمت ٢١; قانونسازى ميں علم ٢١

كنيز: كنيز سے استمتاع ٢

لذائذ: حرام لذائذ ١; جائز لذائذ ٢

مال كا مصرف: حرام مال كا مصرف ٩

محرمات: ١، ٤، ٩

مہر: مہر كے احكام ١٢، ١٣، ١٤، ١٦

۴۳۶

آیت( ۲۵)

( وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) او رجس كے پاس اس قدرمالى وسعت نہيں ہے كہ مومن آزاد عورتوں سے نكاح كرے تو وہ مومنہ كنيز عورت سے عقد كرلے _ خدا تمھارے ايمان سے باخبر ہے تم سب ايك دوسرے سے ہو_ ان كنيزوں سے ان كے اہل كى اجازت سے عقد كرو او رانھيں ان كى مناسب اجرت (مہر) دے دو_ ان كنيزوں سے عقد كرو جو عفيفہ اورپاك دامن ہوں نہ كہ كھلم كھلا زنا كار ہوں نہ چورى چھپے دوستى كرنے والى ہوں پھر جب عقد ميں آگئيں تو اگر زنا كرائيں تو ان كے لئے آزاد عورتوں كے نصف كے برابرسزا ہے _ يہ كنيزوں سے عقد ان كے لئے ہے جو بے صبرى كا خطرہ ركھتے ہوں ورنہ صبر كرو تو تمھارے حق ميں بہتر ہے اورالله غفور و رحيم ہے _

١_ مسلمان كنيزوں كے ساتھ ازدواج كرنے كا جواز_فمن ما ملكت ايمانكم من فتياتكم المؤمنات

٢_ اگر آزاد مؤمن عورت كے ساتھ شادى كرنے كيلئے مالى قدرت نہ ہو تو كنيزوں كے ساتھ شادى كرنا

۴۳۷

جائز ہے_و من لم يستطع منكم طولاً ان ينكح المحصنات المؤمنات فمن ما ملكت ايمانكم اس مطلب كى تائيد امام باقر(ع) كا يہ فرمان كرتا ہے كہ جس ميں آپ(ع) نے ''طولا''كے معنى كے بارے ميں فرمايا:من لم يجد منكم غني _(١) اس سے مراد وہ ہے جو تونگر نہ ہو_

٣_ غيرمؤمن كنيزوں كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں _فمن ما ملكت ايمانكم من فتياتكم المؤمنات

٤_ غيرمسلم عورتوں سے شادى كرنے كى ممانعت_ *المحصنات المؤمنات فمن فتياتكم المؤمنات

چونكہ مذكورہ جملہ ميں آزاد عورتوں كے ساتھ كنيز كو بھى اہل ايمان كى قيد سے مقيد كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے غيرمؤمن عورتوں سے ازدواج جائز نہيں _

٥_ خداوند متعال كا انسانوں كے ايمان سے كاملاً آگاہ ہونا_والله اعلم بايمانكم

٦_ كنيزيں اگر ايمان كا اظہار كريں تو ان كے ساتھ شادى كرنا جائز ہے_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

انسانوں كے ايمان كے بارے ميں خداوند متعال كے كامل علم كى ياددہانى وہ بھى كنيزوں كے ساتھ ازدواج كو ايمان سے مشروط قرار دينے كے بعد، اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ كنيزوں كے ساتھ شادى كيلئے ان كا، ظاہرى ايمان ہى كافى ہے_

٧_ ايمان سے مشروط احكام و قوانين، فقط اظہار ايمان پر مبنى ہيں ، نہ كہ ايمان واقعى پر_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

٨_ انسان كا بعنوان مسلمان قبول ہونا، اسكے اظہار ايمان سے مربوط ہے نہ كہ ايمان واقعى سے_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

٩_ انسانوں كا ايك دوسرے سے ہونا، ان كے انسان ہونے ميں برابرى كى علامت ہے_بعضكم من بعض

١٠_ غلاموں كے انسانى مقام و مرتبہ كا دوسرے تمام انسانوں كے ساتھ يكساں ہونا_من فتياتكم المؤمنات بعضكم من بعض

١١_ اسلام كا كنيزوں كى تحقير كرنے اور ان كے ساتھ ازدواج كو ننگ و عار سمجھنے كے خلاف جنگ كرنا_

____________________

١)مجمع البيان /ج٣ ص٥٤، نورالثقلين ج١ ص٤٦٩ ح١٨٣.

۴۳۸

فمن ما ملكت ايمانكم بعضكم من بعض

١٢_ كنيز كے ساتھ ازدواج كيلئے اسكے مالك كى اجازت شرط ہے_فانكحوهنّ باذن اهلهنّ ''اہل كنيز''سے مراد اس كا مالك ہے_

١٣_ غلاموں كى انسانى حيثيت و منزلت كى حفاظت كا ضرورى ہونا اورانہيں مالك كے گھرانے كا ايك فرد شمار كيا جانا_

فانكحو هن باذن اهلهنّ خداوند متعال نے كنيز كے مالك كو اہل كے عنوان سے تعبير كيا ہے_ تاكہ اس بات كى طرف متوجہ كرائے كہ غلام اور كنيز مالك كے گھرانے كا حصہ ہيں اور خاندان كے دوسرے افراد كى طرح ہيں _

١٤_ معاشرے كے عام رواج كے مطابق كنيزوں كو بھى اجرت (مہر) ادا كرنا واجب ہے_و اتوهُنّ اُجورهنّ بالمعروف

١٥_ كنيز اپنے مہر كى خود مالك ہے_فمن ما ملكت ايمانكم و اتوهنّ اجورهنّ خداوند متعال تصريح كر رہا ہے كہ كنيز كا مہر خود اسے ديا جائے (اتوھنّ اجورھنّ ) نہ كہ يہ فرما رہا ہے كہ: اتوا اجورھنّ، اس سے معلوم ہوتا ہے مہر كى مالك خود كنيز ہے نہ كہ اس كا مالك_

١٦_ غلاموں كے اجتماعى و اقتصادى حقوق كى حفاظت كرنا ضرورى ہے_بعضكم من بعض اتوهنّ اجورهنّ

١٧_ كاموں كى اُجرت كى مقدار كے تعين كا معيار، عرف عام ہے_اتوهنّ اجورهن بالمعروف

١٨_ كنيز كے ساتھ شادى كرنے كا جواز، اسكى پاكدامنى سے مشروط ہے_فمن ما ملكت ايمانكم محصنات غير مسافحات بظاہر كلمہ '' محصنات'' ، ''ماملكت ايمانكم'' كيلئے حال ہے بنابرايں ، كنيز كے ساتھ ازدواج كو اس كى پاكدامنى سے مشروط كيا گيا ہے_

١٩_ زناكار كنيزوں سے شادى كرنا جائز نہيں _فانكحوهنّ غيرمسافحات

٢٠_ يار باز ، كنيز كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں _فانكحوهنّ غيرمسافحات و لامتخذات اخدان

''اخدان'، ''خدْن''كى جمع ہے جس كا معنى يار و دوست ہے_

۴۳۹

٢١_ عورت كو بيوى بنانے كيلئے منتخب كرنے كا معيار اسكى پاكدامنى ہے_فانكحوهنّ محصنات غيرمسافحات و لامتخذات اخدان

٢٢_ كنيز كو عام رواج كے مطابق اجرت ادا كرنے كے ضرورى ہونے كى شرط يہ ہے كہ وہ شادى كے بعد پاكدامن ر ہے *اتوهنّ اجورهنّ بالمعروف محصنات غيرمسافحات و لامتّخذات اخدان يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''محصنات غير مسافحات'' ، ''اتوھنّ''كے مفعول اول كيلئے حال ہو_ اس صورت ميں ''محصنات'، ''اتوا'' كيلئے قيد ہے_

٢٣_ مسلمان شوہردار كنيزوں كى حد زنا، آزاد عورتوں كى حد سے نصف ہے_فاذا احصنّ فان اتين بفاحشة فعليهنّ نصف ما على المحصنات من العذاب چونكہ فعل ''احْصنّص'' مجہول ہے_ اس سے، شوہردار ہونا مراد ہے_ كيونكہ اسكى ضمير ''مؤمنات''كى طرف لوٹتى ہے اس سے دو نوں شرائط، يعنى مسلمان اور شوہردار ہونا، ظاہر ہوتا ہے_ مندرجہ بالامطلب ميں ''احصنّ''كيلئے ذكر شدہ معنى كى تائيد امام صادق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے كہ آپ(ع) نے اسكے بارے ميں فرمايا:يعنى نكاحهنّ ..._(١)

٢٤_ شوہردار كنيز، ہر قسم كے فحشاء (بے حيائي) كے ارتكاب كى صورت ميں ، آزاد عورت كى سزا كے نصف كى مستحق ہے_فاذا احصنّ فان اتين بفاحشة فعليهنّ نصف ما على المحصنات اس مطلبميں ''فاحشة''سے مراد ہر برا اور بے حيائي كا فعل ہے نہ كہ ''زنا'' _

٢٥_ جنسى مشكلات اور مسائل ميں مبتلا ہونے كا خوف كنيزوں كے ساتھ شادى كا جواز فراہم كرتا ہے_

فانكحوهنّ ذلك لمن خشى الْعنت منكم ''عنت''بمعنى مشقت ہے اور موردكى مناسبت سے اس سے مراد وہ مشقتيں اور مشكلات ہيں جو انسان پر جنسى دباؤ كى وجہ سے ہوتى ہيں _ ''ذلك''كنيزوں سے ازدواج كرنے كى طرف اشارہ ہے_

٢٦_ زنا اور فحشاء (بے حيائي) ميں مبتلا ہونے كا خوف، كنيزوں سے شادى كرنے كا جواز فراہم كرتا ہے_*

ذلك لمن خشى العنت منكم بہت سے مفسرين كى كا كہنا ہے كہ آيت شريفہ ميں ''عنت''سے مراد زنا ہے_

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٣٥ ح٩٦ نورالثقلين ج١ ص٤٧٠ ح١٩٠.

۴۴۰