تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 797
مشاہدے: 142085
ڈاؤنلوڈ: 3628


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 142085 / ڈاؤنلوڈ: 3628
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 3

مؤلف:
اردو

جو كچھ اس آيت كے شان نزول ميں آيا ہے اسكے مطابق مكہ ميں مسلح جنگ سے يہ نہى ہجرت رسول خدا سے پہلے كى گئي تھي_

٢_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كا جہاد اور مسلح جنگ كا حكم صادر ہونے سے پہلے كفار كے ساتھ لڑنے كامطالبہ كرنا_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم فلما كتب عليهم القتال

جملہ '' فلما كتب ''سے معلوم ہوتا ہے كہ ''كفّوا''سے مراد، مسلح جنگ سے روكنا ہے_

٣_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، كفار كے ساتھ جنگ كا راستہ ہموار ہونے سے پہلے ہى ان كے ساتھ لڑنے كے خواہشمند تھے_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم جيساكہ پہلے بھى كہا گيا ہے كہ''فلما كتب ...''كا معنى حكم جہاد كا صادر ہونا ہے_ اور ہوسكتاكہ اس سے مراد، جہاد كى زمينہموار ہونا اور جہاد كى شرائط فراہم ہونا ہو_ يعنى جب پيغمبراكرم (ص) نے مسلمانوں كو جہاد كى دعوت دي

٤_ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا ضرورى ہے_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

٥_ اسلام ميں عبادى و اقتصادى مسائل كا باہمى رابطہ_اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

٦_ ديگر انفرادى و اجتماعى عبادات كى نسبت نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كى زيادہ اہميت ہے_

قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة چونكہ واجبات ميں سے فقط نماز اور زكوة كى طرف اشارہ كيا گيا ہے جبكہ اس وقت يقيناً ديگر امور بھى واجب تھے_

٧_ جہاد كى تشريع پر نماز و زكات كى تشريع كا مقدم ہونا_الم ترى الى الّذين اقيموا الصلوة واتوا الزكوة فلّما كتب عليهم القتال يہ اس بنا پر ہے كہ ''فلما كتب''سے مراد جہاد كااصل وجوب ہو نہ كہ اس كيلئے زمينہموار ہونا_

٨_ جہاد و فداكارى كيلئے آمادگى اور خودسازى ميں زكات كى ادائيگى اور نماز كے قائم كرنے كا كردار_

الم تر الى الّذين قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة و اتوالزكوة فلمّا كتب عليهم القتال

مسلح جنگ سے روكنے كے بعد نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كے بارے ميں حكم خدا وند متعال كا نازل ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ جب تك معاشرے ميں اقامہ نماز اور ادائے زكوة پورى طرح رائج نہ ہوجائے جہاد و مبارزت كى

۶۲۱

شرائط فراہم نہيں ہوتيں _

٩_ جہاد اور مبارزت كى ضرورى شرائط ميں سے ايك دينى معاشرے ميں خدا كى عبادت و بندگى كى روح كو اجاگر كرنا ہے_قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

١٠_ جہاد و مبارزت كيلئے ہر دينى معاشرے ميں مال و دولت كے ايثار اور ناداروں كى اقتصادى حالت درست كرنے كا جذبہ پيدا كرنا ضرورى شرائط ميں سے ہے_كفوا ايديكم و اقيموا الصلوة و اتوا الزكوة

١١_ كفار كے ساتھ لڑنے سے پہلے خودسازى كرنے كى ضرورت_و اقيموا لصلوة و اتوا الزكوة فلما كتب عليهم القتال

١٢_ زكات كى نسبت، نماز كو زيادہ اہميت حاصل ہے_*و اقيموا الصلوة و اتوا الزكوة آيت ميں زكات پر نماز كو مقدم كرنا ہوسكتا ہے نماز كى زيادہ اہميت كى طرف اشارہ ہو_

١٣_ صدر اسلام ميں جہاد و مبارزت كا ادعا كرنے والے بعض افراد كا جہاد كے فرمان سے خوف زدہ ہوجانا_

فلما كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله او اشد خشية

١٤_ صدر اسلام كے بعض مسلمان ،دشمن كے ساتھ جنگ و جہاد سے اس طرح خوف زدہ تھے جس طرح خوف خدا ركھنے والے خدا سے ڈرتے ہيں _اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله مذكورہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ ''كخشية الله ''، ''يخشون''كے فاعل كيلئے حال ہو تو اس صورت ميں ايك مضاف مقدر ہے اور تقدير ميں جملہ يوں ہوگا_ يخشون النّاس مثل اہل خشية الله

١٥_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، خوف خدا ركھنے والوں كے خوف سے بھى زيادہ دشمن كا مقابلہ كرنے سے خوف زدہ تھے_اذا فريق منهم يخشون النّاس او اشدّ خشيةً ''او اشدّ خشية''ميں ''او'' تقسيم كيلئے ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جنگ سے خوف زدہ مسلمانوں كے دو گروہ تھے_

١٦_ صدر اسلام كے بعض مسلمان جس طرح خداوند متعال سے ڈرتے تھے، اسى طرح دشمن كا مقابلہ كرنے سے ڈرتے تھے_

۶۲۲

اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله مذكورہ بالامطلب ميں''كخشية الله ''كو مفعول مطلق محذوف كى صفت كے طور پر ليا گيا ہے اور ''خشية''كا فاعل ايك ضمير ہے جو ''فريق''كى طرف پلٹ رہى ہے يعنى ''يخشون النّاس مثل خشيتھم من الله ''_

١٧_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، خوف الہى سے زيادہ جنگ كے خوف ميں مبتلا تھے_ يخشون النّاس كخشية الله او اشدّ خشية

١٨_ صدر اسلام كے بہت سے مسلمان حكم جہاد كے سامنے سر تسليم خم كرنے اور دشمن كے ساتھ جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے تھے_اذا فريق منهم يخشون النّاس

١٩_ خوف خدا اور دشمن سے نہ ڈرنا، صدر اسلام كے بہت سے مسلمانوں كى خصوصيت تھي_اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله

٢٠_ لوگوں كو جہاد سے روكنے والے عوامل ميں سے ايك غيرخدا سے ڈرنا ہے_يخشون النّاس كخشية الله

٢١_ دشمنوں كا مقابلہ كرنے سے ڈرنے والے مسلمانوں كى سرزنش_فلما كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس

٢٢_ خداوند متعال كى ذات اس قدر بلند و بالا مقام كى حامل ہے كہ جس كے سامنے ہى خوف و خشيت سزاوار ہے_

اذا فريق منهم يخشون الناس كخشية الله او اشدّ خشية تعظيم سے آميختہ خوف كو ''خشية''كہتے ہيں _ يعنى كسى شخص يا چيزكى عظمت اس سے خوف زدہ ہونے كا باعث بن جائے تو كہا جاتا ہے كہ يہ اس سے'' خشيت '' ركھتا ہے اور غيرخدا سے ڈرنے پر خداوند متعال كا مذمت كرنا دلالت كرتا ہے كہ فقط اسى سے ''خشيت ''ركھنى چاہيئے_

٢٣_ بعض مسلمانوں كا فرمان جہاد پر اعتراض كرنا اور اس ميں تاخير كى درخواست كرنا_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لولااخّرتنا الى اجل قريب

٢٤_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كى طرف سے حكم جہاد پر اعتراض كرنے كا سبب ان كا خوف زدہ ہونا تھا_

يخشون النّاس و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال

۶۲۳

٢٥_ جنگ سے ہراساں مسلمانوں كا ،حكم جہاد كو لغو كرنے كا مطالبہ كرنا_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لولااخّرتنا الى اجل قريب بعض كى رائے ہے كہ ''اجل قريب''سے مراد موت كا وقت ہے اور موت كے وقت تك حكم جہاد كى تاخير كا معنى اسے لغو كرنا ہے_

٢٦_ حكم جہاد كے نزول كے ساتھ لوگوں كے ايمان كى حقيقت اور ان كے باطن كا ظاہر ہونا_

فلمّا كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال

٢٧_ آخرت اور اسكى نعمتوں كے مقابلے ميں دنيوى فوائد اور منافع كا ناچيز اور كم اہميت ہونا_قل متاع الدّنيا قليل و الآخرة خير لمن اتّقي

٨ ٢_ انسان كى نظر ميں دنيوى منافع كى قدر قيمت ہونے كى وجہ سے جہاد اور فرامين الہى سے روگردانى و تخلف كا راستہ ہموار ہوتا ہے_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال قل متاع الدنيا قليل چونكہ جملہ ''قل متاع الدنيا''ان كے اعتراض كا جواب ہے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ حكم جہاد سے تخلف كا اصل سبب، دنيا سے ان كى وابستگى ہے_

٢٩_ پرہيزگاروں كيلئے آخرت كا دنيا سے بہتر ہونا_و الآخرة خير لمن اتقي

٣٠_ اخروى سعادت، پرہيزگارى سے مشروط ہے_والآخرة خير لمن اتقي

٣١_ احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنا اور دشمن كا مقابلہ كرنے سے ڈرنا، بے تقوي ہونے كى علامت ہے_

و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لو لااخّرتنا الى اجل قريب والآخرة خير لمن اتقي ہوسكتا ہے ''اتقي''كا مفعول وہ امور ہوں جو آيت ميں جہاد سے تخلف كرنے والوں كى طرف منسوب كئے گئے ہيں مثلاً حكم خدا پر اعتراض كرنا اور جہاد و جنگ سے ڈرنا_

٣٢_ فرائض كے انجام دينے كى ترغيب دلانے كيلئے قرآن كا انسان كى مفاد پرستى كى سرشت سے استفادہ كرنا_

قل متاع الدّنيا قليل و الآخرة خير لمن اتقي

٣٣_ خداوند م متعال اپنے بندوں پر ذرّہ بھر ظلم نہيں كرتا_و لاتظلمون فتيلاً ''فتيل''ايك انتہائي باريك دھاگے كو كہا جاتا

۶۲۴

ہے_ اور بہت ہى چھوٹى چيزوں كو اس سے تشبيہ دى جاتى ہے_

٣٤_ خداوندمتعال، مجاہدين كا اجر بغيركسى كمى و كاستى كے مكمل طور پر ادا كرتا ہے_

فلمّا كتب عليهم القتال و لاتظلمون فتيلا جملہ''لاتظلمون فتيلاً'' كا معنى يہ ہے كہ اجر و ثواب عطا كرنے ميں ان پر ظلم نہيں ہوتا، يعنى وہ اپنا اجر مكمل طور پر حاصل كرتے ہيں _

٣٥_ الہى جزا و سزا كے نظام كا ہر قسم كے ظلم و ستم سے پاك ہونا_فلمّا كتب عليهم القتال و لاتظلمون فتيلا

٣٦_ خداوند متعال كا زمانہ رسول خدا (ص) كے سست عناصر كو جنگ و جہاد كے بارے ميں خالى اور كھوكھلے دعووں سے باز رہنے كى دعوت دينا_الم تر الى الّذين قيل لهم كفّوا ايديكم امام صادق(ع) نے اس آيت كى تفسير ميں فرمايا:يعنى كفّوا السنتكم (١) اپنى زبانوں كو روكو_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى سيرت ١; آنحضرت (ص) مكہ ميں ١

اسلام: اسلام كى خصوصيت ٥; صدر اسلام كى تاريخ ١،١٣، ١٥، ١٦، ١٧ ٨ ١، ١٩، ٣٦

اقتصادى نظام: ٥

اقدار: ١٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى اور ظلم ٣٣، ٣٥; اللہ تعالى كا اجر ٣٥; اللہ تعالى كا خوف ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٩ ; اللہ تعالى كى حدود سے عصيان ٣١; اللہ تعالى كى عطا ٣٤;اللہ تعالى كى عظمت ٢٢

انسان: انسان كى مفاد پرستى ٣٢

ايثار: ايثار كے اثرات ١٠

ايمان: ايمان اور جہاد ٢٦; ايمان كے اثرات ٢٦

بے تقوي ہونا: بے تقوي ہونے كى علامتيں ٣١

تربيت: تربيت كا طريقہ ٣٢

تقوي:

____________________

١_كافى ج٢ ص١١٤، ح٨ نورالثقلين ج١ ص٥١٧ ح٤٠٧، تفسير عياشى ج١ ص٢٥٨ ح١٩٧.

۶۲۵

تقوي كے اثرات ٣٠

جنگ: جنگ كا خوف ١٤، ١٧، ٢٥;جنگ ميں خودسازى ١١

جہاد: جہاد سے تخلف كے ا سباب ٢٠;جہاد كا پيش خيمہ ٨; جہاد كا خوف ١٣;جہاد كا مطالبہ ٢;جہاد كى تشريع ٧;جہاد كى شرائط ٩، ١٠ خشوع: خشوع كى اہميت ٢٢

خودسازي: خودسازى كى اہميت ١١;خودسازى كے اسباب٨

خوف: پسنديدہ خوف ٢٢; خوف كے اثرات ٢٤;خوف كے اسباب ١٣; ناپسنديدہ خوف ١٤، ٢٠، ٢١

دشمن: شمن سے ڈرنا ١٥، ١٦، ٢١، ٣١

دينى تعليمات كا نظام: ٥ روايت: ٣٦ زكات: زكات كى ادائيگى ٤،ا ;زكات كى ادائيگى كى اہميت ٦; زكات كى تشريع٧; زكات كى فضيلت ١٢;زكات كے اثرات ٨

سعادت: اخروى سعادت كے اسباب ٣٠

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ كى طرف تشويق ٣٢

ضرورت مند افراد: ضرورت مند افراد كى ضرورت پورى كرنا ١٠

عبادت: عبادت اور اقتصاد ٥; عبادت كے اثرات ٩

عبوديت: عبوديت كے اثرات ٩

عسكرى آمادگي: ١٨

عصيان: عصيان كا پيش خيمہ ٢٨

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ١٤، ١٥، ١٦

كفار: كفار كے ساتھ جنگ، ٢، ٣، ١١

مبارزت: مبارزت كى شرائط ٩، ١٠

متقين: متقين كى اخروى زندگى ٢٩ متقين كى دنيوى زندگى ٢٩

۶۲۶

مجاہدين: مجاہدين كا صلہ ٣٤

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩; صدر اسلام كے مسلمانوں كا رويہ ٢٣،٢٤ ; صدر اسلام كے مسلمانوں كا مطالبہ ٢، ٣; مسلمان اور جہاد ٢٣، ٢٤، ٢٥;مسلمان اور كفار١;مسلمانوں كا رويہ ٢٣;مسلمانوں كامطالبہ٢٥; مسلمانوں كى سرزنش ٢١

مؤمنين: مؤمنين كى حقيقت ٢٦

عدالتى نظام:٣٥

نعرہ: ناپسنديدہ نعرہ٣٦

نعمت: اخروى نعمات كى قدر و قيمت ٢٧;دنيوى نعمات كى قدر و قيمت ٢٧، ٢٨

نماز: نماز قائم كرنا ٤; نماز قائم كرنے كى اہميت ٦; نماز كى تشريع ٧; نماز كى فضيلت ١٢;نماز كے اثرات ٨

آیت( ۷۸)

( أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلًّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا )

تم جہاں بھى رہو گے موت تمھيں پالے گى چا ہے مستحكم قلعوں ميں كيوں نہ بند ہو جاؤ _ ان لوگوں كا حال يہ ہے كہ اچھے حالات پيدا ہوتے ہيں توكہتے ہيں كہ يہ خدا كى طرف سے ہے او رمصيبت آتى ہے تو كہتے ہيں كہ يہ آپ كى طرف سے ہے توآپ كہہ ديجئے كہ سب خدا كى طرف سے ہے پھر آخر اس قوم كو كيا ہو گيا ہے كہ يہ كوئي بات سمجھتى ہى نہيں ہے _

١_ موت، انسانى انجام كا ايك ناقابل اجتناب مرحلہ ہے_

۶۲۷

اين ما تكونوا يدرككم الموت

٢_ آخرت كى فكر ميں رہنا، موت كے يقينى ہونے كى طرف توجّہ كرنا اور دنيوى مال و دولت كو قليل سمجھنا، ميدان جہاد ميں حاضر ہونے كا راستہ ہموار كرتا ہے_فلمّا كتب عليهم القتال قل متاع الدّنيا قليل والآخرة خير ...اين ما تكونوا يدرككم الموت

٣_ موت سے فرار، جہاد ميں شركت سے مانع بنتا ہے_فلمّا كتب عليهم القتال يخشون النّاس اين ما تكونوا يدرككم الموت

٤_ كوئي بھى چيز حتي محكم و بلند قصر اور قلعے بھى موت سے ركاوٹ نہيں بن سكتے_اين ما تكونوا يدرككم الموت و لو كنتم فى بروج مشيّدة '' مشيدة''كا مصدر ''تشييد'' ہے اور مشيد كا معنى بلند اور مستحكم عمارت ہے_ ''بروج''، ''بُرج''كى جمع ہے جس كا معنى ہے قصر (مفردات راغب) اور قلعہ (لسان العرب)_

٥_ كوئي بھى چيز حتي ستاروں ميں زندگى گذارنا بھى موت كو نہيں ٹال سكتا_*اين ما تكونوا يدرككم الموت و لو كنتم فى بروج مشيّدة يہ اس بناپر ہے كہ آيت ميں ''بروج''سے مراد ستارے اور كواكب ہوں _ جيساكہ ''لسان العرب''نے آيت مجيدہ ''والسماء ذات البروج'' كا يہى معني نقل كيا ہے اور ''لو كنتم'' سے بھى اس معنى كى تائيد ہوتى ہے_

٦_ عصر پيغمبراكرم(ص) كے بعض مسلمان، خير و بھلائي كو خداوند متعال كى طرف سے اور شر و برائي كو پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے خيال كرتے تھے_و ان تصبهم حسنة يقولوا هذه من عندالله و ان تصبهم سيّئة يقولوا هذه من عندك بظاہر ''تصبھم''ميں ضمير سے مراد كمزور ايمان مسلمان ہيں _

ان كا خيال تھا كہ مسلمان ہونے كے بعد جو مشكلات ان پر آپڑى ہيں وہ سب پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے ہيں _

٧_ آنحضرت(ص) كے خلاف يہوديوں اور منافقوں كے پروپيگنڈے اور ايذا رسانى كا ايك طريقہ يہ تھا كہ وہ آپ(ص) كو شر و برائي كے عامل كے عنوان سے متعارف كرواتے تھے_ان تصبهم سيّئة يقولوا هذه من عندك

بعض مفسرين نے آيت كے شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا ہے كہ ''تصبھم'' كى ضمير سے

۶۲۸

مراد منافقين اور يہودى ہيں جوكہ قحط و خشك سالى جيسے حوادث كو پيغمبراكرم(ص) سے منسوب كرتے تھے اور اس طرح آپ(ص) كے خلاف پروپيگنڈا كرتے تھے_

٨_ خداوند متعال تمام امور كا سرچشمہ و منبع ہے_قل كل من عندالله

٩_ كائنات اور اسكے حوادث كيلئے دو مبداء (ثنويت) كا نظريہ ايك بيہودہ اور ناقابل قبول عقيدہ ہے_قل كلّ من عندالله

١٠_ برائيوں كو پيغمبراكرم(ص) كى طرف منسوب كرنا اور اچھائيوں كو خداوند متعال كى جانب (ثنويت ) معارف الہى كو بالكل ہى درك نہ كرنے كى علامت ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً مورد كى مناسبت سے ''حديثاً''سے مراد ''معارف الہي''ہيں _

١١_ ان لوگوں كى مذمت و تحقيرجو خداوند متعال كو كائنات كے تمام حوادث كا محور نہيں سمجھتے اور اسے درك نہيں كرتے، ان كى مذمت كى جانا_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً ''حديثاً''كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك خداوند متعال كو كائنات كے حوادث كا محور جاننا ہے_

١٢_ خداوند متعال كو تمام حوادث كا محور جاننے (توحيد افعالي) كيلئے گہرے غوروفكر كى ضرورت ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٣_ توحيد كو درك نہ كرنا، معارف الہى ميں سے كسى بھى چيز كو درك نہ كرنے كے مترادف ہے_قل كلّ من عندالله فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١_ حكم و موضوع كى مناسبت سے ''حديثاً''سے مراد وہ امور ہيں جو معارف كے باب ميں بيان ہوئے ہيں _

٢_ خداوند متعال نے ان لوگوں كى طرف تمام معارف كو درك نہ كرنے كى نسبت دى ہے جو حوادث كے مبدائے واحد كو درك نہيں كرتے_ لہذا توحيد كے ادراك او ر دوسرے معارف الہى كے ادراك ميں ايك قسم كا تلازم پايا جاتا ہے_

١٤_ خداوند متعال كى طرف سے جہلا كى سرزنش_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٥_ ثنويت كے گمان اور توحيد كو درك نہ كرنے كا لازمہ كسى بھى چيز كو درك نہ كرنا ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٦_ خداوند متعال(سلامتي، امنيت اور وسعت رزق

۶۲۹

جيسي) تمام نعمتوں اور تمام مصائب (و آزمائشوں مثلاً بيماري، خوف اوربھوك وغيرہ) كا سرچشمہ ہے_

و ان تصبهم حسنة يقولوا هذه من عندالله و ان تصبهم سيئة يقولوا هذه من عندك قل كلّ من عندالله آئمہ معصومين(ع) سے مذكورہ بالا آيت ميں سيئات و حسنات كى تفسير ميں منقول ہے كہ:الصحة والسلامة والامن والسعة فى رزق و قدسّما ها الله حسنا ت يعنى بالسيئة ها هنا المرض والخوف والجوع ..(١) صحت و سلامتي، امن و امان اور رزق ميں وسعت كو اللہ تعالى نے حسنات كہا ہے اور '' سيئة'' سے يہاں مراد مرض، خوف اور بھوك ہے_

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) پر افترا ١٠ ; آنحضرت (ص) كو اذيت و آزار ٧

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى اور شر ٨; اللہ تعالى كى طرف سے سرزنش١٤

امن و امان: امن و امان كا سرچشمہ ١٦

انسان: انسان كا انجام ١

بصلا : بصلا كا سرچشمہ١٦

بھوك: بھوك كا سرچشمہ ١٦

بيماري: بيمارى كا سرچشمہ ١٦

تعقل: تعقل كے اثرات ١٢

توحيد: توحيد افعالى ١٢;توحيد كى اہميت ١٣، ١٥

ثنويت: ثنويت كا نظريہ ٩; ثنويت كے اثرات ١٥

جہاد:

____________________

١)تفسير قمى ج١ ص١٤٤ نورالثقلين ج١ ص٥١٩ ح٤١٦.

۶۳۰

جہاد كا پيش خيمہ٢;جہاد كے موانع ٣

جہلا: جہلا كى سرزنش ١٤

حوادث: حوادث كا سرچشمہ ١١

خوف : خوف كا سرچشمہ١٦

خير: خير كا سرچشمہ ٦، ٨، ١٠

دورانديشي: دور انديشى كے اثرات ٢

دين: دين فہمى كا پيش خيمہ١٣; دينى تعليمات سے جہالت ١٠

روايت: ١٦

سلامتي: سلامتى كا سرچشمہ١٦

شر: شر كا سرچشمہ ٦، ٨، ١٠

شرك: شرك افعالى كى مذمت ١١

عقيدہ: باطل عقيدہ ٩، ١٥

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمانوں كا عقيدہ ٦

منافقين: منافقين اور آنحضرت (ص) ٧;منافقين كا رويہ٧

موت: موت سے فرار ٣; موت كا حتمى ہونا ١، ٢، ٤، ٥; موت كے ذكر كے اثرات ٢

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ٢،٣

نعمت: دنيوى نعمتوں كى اہميت ٢;نعمت كا منبع١٦

يہود: يہود اور آنحضرت(ص) ٧; يہود كا رويہ٧

۶۳۱

آیت( ۷۹)

( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَی بِاللّهِ شَهِيدًا ) تم تك جو بھى اچھائي اور كاميابى پہنچى ہے وہ الله كى طرف سے ہے اور جو بھى برائي پہنچى ہے وہ خود تمھارى طرف سے ہے اور اے پيغمبر ہم نے آپ كولوگوں كے لئے رسول بنايا ہے او رخدا گواہى كے لئے كافى ہے _

١_ انسان كو جو بھى بھلائي پہنچتى ہے وہ الله كى طرف سے ہے اور جو بھى بُرائي پہنچتى ہے وہ خود اسكى اپنى جانب سے ہے_ما ا صابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك اگرچہ اس آيت كے مخاطب پيغمبر(ص) ہيں ليكن اس سے تمام انسان مراد ہيں ، كيونكہ پيغمبر اكرم(ص) اور ديگر لوگوں كے درميان حقيقى و واقعى احكام كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں _

٢_ خداوند متعال كى جانب سے وارد ہونے والے مصائب اور مشكلات خود انسانى اعمال كا نتيجہ ہيں _

قل كلّ من عندالله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك گذشتہ آيت ميں خوبيوں اور بديوں كو خداوند متعال كى طرف منسوب كيا گيا ہے_ اور اس آيت ميں سيئات (بديوں ) كا سبب خود انسان كو قرار ديا گيا ہے_اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ انسان كے اعمال ہيں كہ جو خداوند متعال كى طرف سے مشكلات و مصائب ايجاد ہونے كا باعث بنتے ہيں _ بنابرايں يہ ناگوار حوادث ايك جانب سے خداوند متعال كى طرف اور دوسرى جانب سے خود انسان كى طرف منسوب ہيں _

٣_ ناگوار حوادث كے ايك لحاظ سے خداوند متعال كى طرف منسوب ہونے اور دوسرى جانب خود انسان كى طرف انتساب كا عام لوگوں كے فہم سے دو ر ہونا_قل كلّ من عندالله ما ا صابك من حسنة

۶۳۲

فمن الله و ما اصابك من سيّئة فمن نفسك اسكے باوجود كے رسول خدا (ص) اور دوسروں كے درميان، مشكلات و مصائب سے متعلق قوانين كے بارے ميں كوئي فرق نہيں ليكن آيت كا مخاطب پيغمبراكرم(ص) كو قرار ديا گيا ہے تاكہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كيا جائے كہ اس حقيقت كو عام لوگ نہيں سمجھ سكتے_

٤_ تمام انسانوں حتى خود پيغمبراكرم(ص) پر خير و شر سے متعلق نظام تكوينى كا حاكم ہونا_ما اصابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك

٥_ حضرت محمد(ص) ، پيغمبرخدا اور عالمى رسالت كے حامل ہيں _و ارسلناك للنّاس رسولاً

٦_ انبيائے كرام(ع) كى رسالت كا سب لوگوں كيلئے مفيد ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً ''للّناس''ميں ''لام'' حضرت محمد (ص) كى رسالت كے تمام افراد كيلئے باعث بركت اور فائدہ مند ہونے كى طرف اشارہ ہے_ ورنہ اسے ''الي''كے ساتھ متعدى كر كے يہ بھى فرمايا جاسكتا تھا''الى الناس رسولاً'' _

٧_ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كى سعادت و بھلائي كيلئے رسول بن كر آئے ہيں نہ كہ ان كيلئے باعث شر و فساد ہيں _

و ان تصبهم سيئة يقولوا هذه من عندك و ارسلناك للنّاس رسولاً جملہ ''و ارسلناك للنّاس''(ہم نے تجھے لوگوں كيلئے مفيد پيغمبر(ص) بناكر بھيجا) ان لوگوں كے خيال كا ردّ ہے جو آپ(ص) كو شر و بدى كا باعث سمجھتے تھے (يقولوا ھذہ من عندك)_

٨_ پيغمبراكرم(ص) كى رسالت پر، خداوند متعال كى گواہى كا كافى ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً

٩_ قرآن ميں پيش كئے جانے والے معارف كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہي، كافى ہے_

ما اصابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك و كفى بالله شهيداً مذكورہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ: ''شہيداً''ان معارف سے متعلق ہو جن كى وضاحت آيات كے اس حصے ميں كى گئي ہے_

١٠_ انبياء (ع) اور لوگوں كے ايك دوسرے سے متعلق اعمال و روابط پر خداوند متعال كى گواہى و شہادت كا، كافى ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً ''ارسلناك للنّاس رسولاً'' سے دو معانى اخذ ہوتے ہيں _ ايك پيغمبراكرم(ص) كى ذمہ دارى كا بيان يعنى تبليغ رسالت اور دوسرا لوگوں كى ذمہ

۶۳۳

دارى كا بيان، يعنى آنحضرت(ص) كى رسالت كو قبول كرنا_ اور ''كفى بالله شہيداً'' ہو سكتا ہے انجام فرائض ميں پيغمبراكرم(ص) كے اعمال و كردار اور رسالت قبول كرنے ميں لوگوں كے اعمال كى طرف ناظر ہو_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى رسالت٥ ; آنحضرت (ص) كى رسالت پر گواہ ٨; آنحضرت (ص) كے فضائل٧

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى گواہى ٨، ٩،١٠

انبيا(ع) : انبيا ء (ع) اور لوگ ١٠; انبيا (ع) كى رسالت كے اثرات ٦

انسان: انسان كى جہالت ٣

خير: خير كا منبع ١، ٧; خير و بھلائي كى تكوينى حاكميت ٤

سختى : سختى كا منبع ٢

سعادت: سعادت كا سرچشمہ ٧

شر: شركا منبع ١، ٧; شر كى تكوينى حاكميت ٤

عمل: عمل كے اثرات ٢

قرآن كريم : قرآن كريم كے معارف پر گواہ ٩

مصائب: مصائب كا سرچشمہ٢

آیت( ۸۰)

( مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا )

جو رسول كى اطاعت كرے گا اس نے الله كى اطاعت كى او رجو منہ موڑلے گاتو ہم نے آپ كو اس كا ذمہ داربنا كر نہيں بھيجا ہے _

١_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت ہے_

۶۳۴

من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٢_ سنت رسول خدا (ص) كى پيروى كرنا ضرورى ہے_من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٣_ پيغمبراكرم(ص) كے حكومتى اوامر كى اطاعت اور پيروى كرنا ضرورى ہے_من يطع الرسول فقد اطاع الله

آنحضرت (ص) كے فرامين كى اطاعت سے مراد ان اوامر كى اطاعت نہيں ہے جو آپ (ص) خداوند متعال كى جانب سے ابلاغ كرتے ہيں _ چونكہ اس سلسلے ميں واضح ہے كہ اطاعت رسول(ص) اطاعت خدا ہے، جس كيلئے ياددہانى كى ضرورت نہيں ، لہذا يہاں مراد وہ اوامر ہيں جو آنحضرت (ص) خود اپنى جانب سے صادر فرماتے ہيں _

٤_ بارگاہ خداوند متعال ميں پيغمبراكرم(ص) كو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے_من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٥_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت كے بعد ہے_من يطع الرسول فقد اطاع الله

٦_ پيغمبراكرم(ص) ، كفار كے كفر اختيار كرنے اور انسانوں كے آپ(ص) سے روگردانى و اعراض كرنے كے سلسلے ميں كسى قسم كى ذمہ دارى نہيں ركھتے_و من تولّى فما ارسلناك عليهم حفيظاً

٧_ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كے ايمان و عمل كى حفاظت و نگہباني، جبر و سختى كے ساتھ كرنے پر مامور نہيں _

و من تولّى فما ا رسلناك عليهم حفيظاً

٨_ لوگوں كى ہدايت كيلئے پيغمبراكرم(ص) كا سخت جدوجہد كرنا اور ان كے ہدايت يافتہ ہونے كا اشتياق ركھنا_

فما ارسلناك عليهم حفيظاً جملہ ''فما ارسلناك ''اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كى ہدايت كيلئے بہت زيادہ كوشش و سعى فرماتے تھے يہاں تك كہ اپنا فريضہ سمجھتے جس طرح بھى ہوسكے لوگوں كو مؤمن بنايا جائے_

٩_ برحق رہبر (امام) كى مكمل معرفت حاصل كر كے اسكى اطاعت كرنا، خداوند متعال كى اطاعت ہے اور اسكى خوشنودى كا باعث بنتى ہے_و من يطع الرّسول فقد اطاع الله امام باقر(ع) نے فرمايا:رضى الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله تبارك

۶۳۵

و تعالى يقول: ''من يطع الرسول فقد اطاع الله ''(١) ...خدائے رحمان كى رضا امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں ہے بيشك اللہ تعالى فرماتا ہے:''من يطع الرسول فقد اطاع الله ...''

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) اور كفار ٧; آنحضرت(ص) اور لوگ ٧; آنحضرت(ص) كى اطاعت ١، ٤، ٦ ;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كى حدود ٧، ٨ ; آنحضرت(ص) كے رجحانات ٩ ; آنحضرت (ص) كے فضائل ٥

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى اطاعت ١، ٦، ١٠; اللہ تعالى كى رضا١٠

روايت: ١٠

قيادت: قيادت كى اطاعت ١٠

لوگ : لوگوں كى ہدايت ٩

مقرّبين: ٥

آیت( ۸۱)

( وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُواْ مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ وَاللّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی اللّهِ وَكَفَی بِاللّهِ وَكِيلاً )

اوريہ لوگ پہلے اطاعت كى بات كرتے ہيں _ پھر جب آپ كے پاس سے باہر نكلتے ہيں تو ايك گروہ اپنے قول كے خلاف تدبيريں كرتا ہے او رخدا ان كى ان باتوں كو لكھ رہا ہے _ آپ ان سے اعراض كريں اور خدا پر پھر وسہ كريں او رخدا اس ذمہ دار ى كے لئے كافى ہے _

١_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كا رسول خدا(ص) كے حضور اطاعت كامل كا اظہار كرنا اور پھر خفيہ محفلوں ميں آپ(ص) كى مخالفت كيلئے باہمى مشورے كرنا_

____________________

١)كافى ج١ ص١٨٥ ح١_ نورالثقلين ج١ ص٥٢٠، ح٤٢٠، تفسير عياشى ج١ ص٢٥٩ ح ٢٠٢ كافى ج٢ ص١٩ ح٥.

۶۳۶

و يقولون طاعة فاذا برزوا من عندك بيّت طائفةٌ منهم غيرالذى تقول ''طاعة''ايك محذوف مبتدا كيلئے خبر ہے_ يعنى ''امرنا طاعة''( ہمارا كام تيرى اطاعت كرنا ہے) فعل مضارع '' يقولون'' اور ''يبيتون'' استمرار پر دلالت كرتے ہيں اور ان كے طريقہ كار كى حكايت كر ر ہے ہيں ''يبيّتون'' كا مصدر ''تبييت'' ہے جس كا معنى امور كى تدبير كرنا ہے ''غيرالذى تقول''يعنى امر پيغمبر(ص) كى مخالفت_

٢_ مسلمانوں كے ايك گروہ كا دشمنان دين كے ساتھ جنگ كے بارے ميں پيغمبرخدا (ص) كے فرمان كى مخالفت كرنے اور اسے نظر انداز كرنے كيلئے تدابير سوچنا_يقولون طاعة بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول گذشتہ آيات كے پيش نظرجو جہاد كے بارے ميں تھيں ، اس آيت ميں مورد نظر فرمان وہي، دشمنان دين كے خلاف جنگ كرنے كے بارے ميں جہاد كا حكم ہے_

٣_ مدينہ ميں پيغمبراكرم(ص) كے خلاف منافقين كے سازش و غدارى پر مبنى خفيہ اجلاس_يقولون طاعة فاذا برزوا من عندك بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول بعض كے نزديك يہ آيت منافقين كے بارے ميں ہے_

٤_ بعض كمزور ايمان مسلمانوں كے سرداروں كا پيغمبراسلام(ص) كى مخالفت كيلئے تدابير سوچنے كى خاطر راتوں كو خفيہ اجلاس كرنا_بيت طائفة منهم غيرالذى تقول آيت شريفہ كے ظاہر سے يہ پتہ چلتا ہے كہ جو لوگ اطاعت كا اظہار كرتے تھے وہ سب مخالفت كى سعى كرر ہے تھے، نہ كہ فقط ايك گروہ_ لہذا حكم و موضوع كى مناسبت سے ''طائفة''سے ان كے سردار مراد ہيں _

٥_ خداوند متعال كا، تخلف كرنے والےمسلمانوں كى سازش پر مبنى خفيہ سرگرميوں كے بارے ميں غيبى خبريں دينا_

فاذا برزوا من عندك بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول

٦_ خداوند متعال كا خود سازشى گروہ كے سازش پر مبنى قول و فعل كو ان كے نامہ اعمال ميں ثبت كرنا_

والله يكتب ما يبيّتون

٧_ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ص) كے فرامين كے خلاف سازش كرنے والوں كيلئے خداوند متعال كى طرف سے تہديد و مؤاخذہ _

۶۳۷

والله يكتب ما يُبيّتون جملہ ''والله يكتب ...''بنى آدم كے اعمال كے ثبت ہونے كے بيان كے علاوہ سازشى گروہ كى تہديد و مؤاخذہ كى طرف اشارہ بھى ہے_

٨_ بنى آدم كے تمام اعمال و كردار اور اقوال كا ان كے نامہ اعمال ميں ثبت ہونا_والله يكتب ما يُبيّتون

٩_ خداوند متعال كا اپنے پيغمبراكرم(ص) كو دوغلے، اور سازشى مسلمانوں سے بے اعتنائي اختيار كرنے كى نصيحت كرنا_و يقولون طاعة فاعرض عنهم

١٠_ پيغمبراكرم(ص) كا اپنے فرامين كے سلسلے ميں منافقانہ رويہ اختيار كرنے والے مسلمانوں سے مدارا كرنے پر مامور ہونا_و يقولون طاعة فاعرض عنهم مذكورہ بالا مطلب ميں ''اعراض''كو درگذر كے معنى ميں ليا گيا ہے يعنى ان سے انتقام لينے كى كوشش نہ كر_

١١_ سب لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خداوند متعال پر توكل و اعتماد كريں _و توكل على الله

١٢_ خداوند متعال پر توكل تمام مشكلات كيلئے كارساز ہے_و توكل على الله

١٣_ سازشى گروہ سے پيغمبراكرم(ص) كى بے اعتنائي و اعراض كاآپ(ص) كيلئے مشكلات و مسائل كا باعث بننا_

فاعرض عنهم و توكّل على الله اعراض كے حكم كے بعد توكل كا حكم اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ سازشى گروہ سے پيغمبر اكرم(ص) كى بے اعتنائي كے نتيجے ميں آپ (ص) كو مشكلات كا سامنا ہوسكتا ہے كہ جس كيلئے خداوند متعال پر توكل كرنا ضرورى ہے_

١٤_ تخلف كرنے والے مسلمانوں سے بے اعتنائي واعراض كرنے كے نتائج و عواقب سے محفوظ رہنے كيلئے پيغمبراكرم(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ(ص) خداوند متعال پر توكل كريں _و يقولون طاعة فاعرض عنهم و توكل على الله و كفى بالله وكيلاً

١٥_ خداوندمتعال، وكيل ہے_و كفى بالله و كيلاً

١٦_ خداوند متعال توكل كرنے والے انسان كيلئے ايساوكيل ہے جو كافى ہے_و توكلّ على الله و كفى بالله وكيلاً

۶۳۸

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) اور مسلمان ١٠ ; آنحضرت (ص) كى اطاعت ١;

آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ١٠، ١٤; آنحضرت (ص) كى مشكلات ١٣;آنحضرت (ص) كے حكم كى نافرمانى ١; آنحضرت (ص) كے دشمن ٧

اسلام: در اسلام كى تاريخ ١،٢،٤، ٩

اسماء و صفات: وكيل ١٥، ١٦

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم غيب ٥ ; اللہ تعالى كى طرف سے تہديد ٧; اللہ تعالى كى نصيحتيں ٩ ;اللہ تعالى كے افعال ٦

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں سے اجتناب ١٤

توكلّ : توكلّ كى اہميت ١١، ١٤ ;توكل كے اثرات ١٢;خدا پر توكل ١١

دشمن: دشمن كے خلاف مبارزت ٢

سازشى گروہ: سازشى گروہ سے اجتناب ١٣; سازشى گروہ كو تہديد ٧

سختي: سختى كو آسان كرنے كے ذرايع ١٢

عمل: عمل كا ثبت ہونا ٦، ٨

متوكلين: ١٦

مخالفين: مخالفين كا مقابلہ كرنے كى روش ٩

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان ٤;صدر اسلام كے مسلمانوں ميں نفاق ١ ; مسلمان اور آنحضرت(ص) ٤ ;مسلمان اور دشمن ٢;مسلمانوں سے مدارا ١٠;مسلمانوں كا عصيان ٥; مسلمانوں ميں نفاق ٩

منافقين: صدر اسلام كے منافقين ٣;مدينہ كے منافقين ٣; منافقين اور آنحضرت (ص) ٣;منافقين سے اجتناب ٩; منافقين كى سازش ٣

۶۳۹

آیت( ۸۲)

( أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا )

كيا يہ لوگ قرآن ميں غور وفكر نہيں كرتے ہيں كہ اگر وہ غير خدا كى طرف سے ہوتا تو اس ميں بڑا اختلاف ہوتا _

١_ قرآن ميں گہرا غوروفكر اور تدبّر ضرورى ہے_ا فلايتدبّرون القرآن

كسى چيز ميں مسلسل غوروفكر كرنے كو تدبّر كہتے ہيں كہ اسے گہرے غوروفكر سے تعبير كيا جاتا ہے_

٢_ قرآن كريم رسالت پيغمبر(ص) كى حقانيت كى دليل ہے_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً ا فلايتدبرون القرآن آيت نمبر ٧٩ ميں بيان كيا گيا ہے كہ خداوند متعال حقانيت پيغمبراكرم(ص) كا گواہ ہے_ اور اس آيت ميں گواہى و شہادت كى كيفيت كى وضاحت اس طرح كى جاتى ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كو پيغمبر(ص) پر معجزہ كى صورت ميں نازل فرمايا ہے تاكہ آپ(ص) كى حقانيت كا شاہد ہو_

٣_ قرآن كريم ايك ايسى كتاب ہے جو سب كيلئے قابل فہم ہے_افلايتدبّرون القرآن

٤_ قرآن، پيغمبر اكرم(ص) پر نازل ہونے والى آسمانى كتاب كا نام ہے_ا فلايتدبّرون القرآن

٥_ قرآن ميں غوروفكر نہ كرنے پر خداوند متعال كى طرف سے سرزنش _افلايتدبرون القرآن

٦_ قرآن ميں تدبّر سے نفاق اور ايمان كى كمزورى كے بر طرف ہونے كا راستہ ہموار ہوتا ہے_

و يقولون طاعة افلايتدبرون القرآن ضعيف الايمان مسلمانوں اور منافقوں كو قرآن ميں تدبّر كرنے كى ترغيب ہوسكتا ہے ان كيلئے نفاق اور كمزوري ايمان كو بر طرف كرنے كى راہنمائي ہو_

٧_ اگر قرآن خداوند متعال كى جانب سے نہ ہوتا تو اس

۶۴۰