تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146681
ڈاؤنلوڈ: 3020


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146681 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

كچھ نہ كہيں ميں خود اس كا جواب دے رہا ہوں ''_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ابن زياد كى طرف رُخ كيا اور فرمايا:'' اے زياد كے بيٹے كيا تم مجھے قتل كرنے كى دھمكى دے رہے ہو كيا تم يہ نہيں جانتے كہ قتل ہوجانا ہمارى عادت اور شہادت ہمارى كرامت ہے؟(۱۴)

شام ميں

ايك ہى رسن ميں اہل بيتعليه‌السلام كے چند دوسرے افراد كے ساتھ امامعليه‌السلام كو بھى باندھا گيا تھا اسى حالت ميں امام كو شام ميں يزيد كے دربار ميں لے جايا گيا_ امامعليه‌السلام نے نہايت شہامت اور دليرى كے ساتھ يزيد سے خطاب فرمايا: اے يزيد اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ كو اس حالت ميں رسن بستہ ديكھ ليں تو، تو ان كے بارے ميں كيا خيال كرتا ہے؟(۱۵) (وہ كيا كہيں گے)_

امام زين العابدينعليه‌السلام كے اس چھوٹے سے جملہ نے حاضرين پر اتنا اثر كيا كہ سب رونے لگے _(۱۶) امامعليه‌السلام نے جب يزيد سے گفتگو كى تو ايك نشست ميں اس نے قتل كى دھمكى دي_ امامعليه‌السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا: اسيرى سے آزاد ہونے والے بنى اميہ جيسے كبھى بھى قتل انبياء و اوصياء كا حكم نہيں دے سكتے مگر يہ كہ اسلام سے خارج ہوجائيں اور اگر تم ايسا ارادہ ركھتے ہو تو كسى صاحب اطمينان شخص كو ميرے پاس بھيجو تا كہ ميں اس سے وصيت كردوں اور اہل حرم كو اس كے سپرد كردوں(۱۷) ايك دن شام كى جامع مسجد ميں يزيد نے ايك اہم نشست كا انتظام كيا اور خطيب سے كہا كہ منبر پر جاكر زين العابدينعليه‌السلام كے سامنے اميرالمؤمنينعليه‌السلام اور امام حسين _كو برا بھلا كہے اس كرايہ كے خطيب نے ايسا ہى كيا_

امام سجادعليه‌السلام نے بلند آواز ميں فرمايا: '' وائے ہو تجھ پر اے خطيب تونے خالق كى ناراضگى كے بدلے مخلوق ( يزيد) كى خوشنودى خريدى اور اس طرح تم دوزخ ميں اپنا ٹھكانہ بنا رہے ہو_ پھر

۱۲۱

يزيد كى طرف مخاطب ہوئے اور فرمايا ''تو مجھے بھى اسى لكڑى ( منبر) پر جانے دے اور ايسى بات كہنے دے جس سے ميں خدا كو خوش كروں اور وہ حاضرين كے لئے اجر و ثواب كا باعث ہے''_ يزيد نے پہلے تو اجازت نہيں دى ليكن لوگوں كے اصرار كے جواب ميں بولا كہ '' اگر يہ منبر پر جائيں گے تو مجھ كو اور خاندان ابوسفيان كو ذليل كئے بغير منبر سے نيچے نہيں اتريں گے'' لوگوں نے كہا كہ :'' يہ كيا كرسكتے ہيں ؟ يزيد نے كہا كہ '' يہ وہ خاندان ہے جس نے علم ودانش كو بچپنے سے دودھ كے ساتھ پيا ہے''_ لوگوں نے بہت اصرار كيا تو يزيد نے مجبوراً اجازت دے دي، امامعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھيجنے كے بعد فرمايا:

'' اے لوگو خدا نے ہم كو علم، بردباري، سخاوت، فصاحت، دليرى اور مؤمنين كے دلوں ميں ہمارى دوستى عطا كى ہے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم ميں سے ہيں _ اس امت كے صديق حضرت اميرالمؤمنين عليعليه‌السلام ہم ميں سے ہيں ،جعفر طيّار ہم ميں سے ہيں ، حمزہ سيدالشہداء ہم ميں سے ہيں ، امام حسن اور امام حسين عليھما السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں نواسے ہم ميں سے ہيں _

ميں فرزند مكہ و منى ، فرزند زمزم و صفا ہوں ، ميں اس كا بيٹا ہوں جس نے حجر اسود كو عبا ميں ركھ كر اٹھايا(۱۸) ميں اس بہترين خلائق شخص كا بيٹا ہوں جس نے احرام باندھا، طواف و سعى كي، حج بجالايا ميں خديجة الكبرى كا بيٹا ہو، ميں فاطمہ زہراءعليه‌السلام كا بيٹا ہو، ميں اس كا بيٹا ہوں جو اپنے خون ميں غوطہ زن ہوا، ميں اس حسينعليه‌السلام كا بيٹا ہوں جس كو كربلا ميں قتل كر ڈالا گيا''_

لوگوں ميں كھلبلى مچ گئي اور امامعليه‌السلام كى طرف ديكھ رہے تھے_ آپعليه‌السلام ہر جملہ كے ساتھ بنى اميہ كى حقيقت سے پردہ اٹھاتے جا رہے تھے اور اموى گروہ كى كثيف ماہيت كو آشكار كرتے اور اپنے خاندان كى عظمت اور شہادت حسين _كى زيادہ سے زيادہ قدر و قيمت لوگوں كے سامنے نماياں كرتے جا رہے تھے، رفتہ رفتہ لوگوں كى آنكھيں آنسووں سے ڈبڈبا گئيں ، گريہ گلو گير ہوگيا_ پھر ہر گوشہ سے بے تابانہ رونے كى آواز بلند ہوئي_ يزيد كو ڈر لگنے لگا اور امامعليه‌السلام كى تقرير كو روكنے كے

۱۲۲

لئے اس نے مؤذن كو آذان دينے كا حكم ديا، مؤذن جب '' الشہد انّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچا تو آپ نے عمامہ سر سے اتارليا اور فرمايا:

'' اے مؤذن اسى محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قسم ذرا ٹھہر جا'' _ پھر يزيد كى طرح رخ كركے فرمايا:'' اے يزيد يہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے جد ہيں يا تيرے؟ اگر تم كہو كہ تمہارے جد ہيں تو سب جانتے ہيں كہ يہ جھوٹ ہے اور اگر تم يہ كہتے ہو كہ ميرے جد ہيں تو پھر ان كى عترت كو تم نے كيوں قتل كيا ان كے اموال كو كيوں تاراج كيا اور ان كے خاندان كو تم نے كيوں اسير كرليا؟

اے يزيد تو ان تمام افعال كے باوجود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پيغمبر خدا جانتا ہے اور قبلہ كى طرف رخ كركے كھڑا ہوتا ہے، نماز پڑھتا ہے، وائے ہو تجھ پر كہ ميرے جد و پدر قيامت ميں تيرا گريبان پكڑيں گے''_

يزيد نے مؤذن كو حكم ديا كہ نماز كے لئے اقامت كہے، ليكن لوگ بہت ناراض تھے يہاں تك كہ كچھ لوگوں نے نماز بھى نہيں پڑھى اور مسجد سے نكل گئے(۱۹) شام ميں امامعليه‌السلام كى تقريريں اس بات كا باعث بنى كہ يزيد قتل امامعليه‌السلام كا قصد ركھنے كے باوجود اس بات پر مجبور ہوا كہ آپعليه‌السلام كو اور تمام اہل بيتعليه‌السلام كو مدينہ واپس كردے_

روح مبارزہ و جہاد كى بيداري

اسيرى كى تمام مدت ميں امام زين العابدينعليه‌السلام بہت سے لوگوں كے تصور كے برخلاف جو كہ آپ كو شكست خوردہ سمجھتے تھے، ہر محفل و مجلس ميں اپنى اور اپنے الد كى كاميابى اور بنى اميہ كے گروہ كى شكست كے بارے ميں تقرير كرتے تھے_

دوسرى طرف آپعليه‌السلام نے اس بات كى كوشش كى كہ اپنے خاندان كى عظمتوں اور خصوصيتوں اور بنى اميہ كے ظلم و جور كے بيان كے ذريعہ مسلمانوں كى انقلابى فكر كو بيدار كريں اور گناہ بنى اميہ سے

۱۲۳

نفرت كا احساس اور انجام پا جانے والے گناہوں كے جبران كى ضرورت كو لوگوں كے ضمير و وجدان ميں زندہ كريں _

ابھى زيادہ دن نہيں گذرے تھے كہ اس مثبت رويّہ كى وجہ سے اموى سلطنت كے خلاف عراق و حجاز ميں انقلاب كا پرچم بلند ہوگيا اور ہزاروں افراد خون حسينعليه‌السلام كا انتقام لينے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

مدينہ واپسى كے بعد

اسيرى كے دن گذرجانے كے بعد امام سجادعليه‌السلام مدينہ واپس آگئے اور معاشرہ پر حكومت كرنے والى سياست كى حالت بھى بدل گئي_ بنى اميہ كى حكومت اور سياسى روش كے مقابل امامعليه‌السلام كا رويہ بھى بدلا_

آپعليه‌السلام كى امامت كا سارا زمانہ اس وقت كے ان ظالم حكمرانوں كے طرح طرح كے اجتماعى بحران و آشوب سے پُر تھا جو مختلف بہانوں سے امامعليه‌السلام پر دباؤ ڈالنے اور ان كى سرگرميوں كو محدود كرنے كى كوشش ميں لگے ہوئے تھے_

زمانہ كے حالات سے واقفيت كے لئے ان ظالموں كے جرائم كے چند گوشے ملاحظہ ہوں :

يزيد كے مرتے ہى(۲۱) عبداللہ بن زبير جو برسوں سے خلافت و حكومت كى لالچ ميں تھا، مكہ ميں اٹھ كھڑا ہوا اور حجاز و يمن، عراق و خراسان كے لوگوں نے بھى ان كى بيعت كر لي، اور شام ميں معاويہ بن يزيد كے ہٹ جانے كے بعد جو بہت تھوڑے دنوں ( يعنى تين مہينہ يا چاليس دن)مسند خلافت پر تمكن رہا اس كے بعد مروان بن حكم نے، سازش كے ذريعہ حكومت تك رسائي حاصل كى اور عبداللہ بن زبير كى مخالفت ميں اٹھ كھڑا ہوا_ شام كے بعد مصر پر اپنا قبضہ مضبوط كيا_ ليكن اس كى حكومت زيادہ دنوں تك باقى نہيں رہى اور تھوڑى ہى مدت ميں مرگيا_ اس كى جگہ

۱۲۴

اس كا بيٹا عبدالملك مسند خلافت پر بيٹھا_ عبدالملك نے شام و مصر ميں اپنى پوزيشن مضبوط ہوجانے كے بعد ۶۵ ھ ميں عبداللہ بن زبير كا مكہ ميں محاصرہ كيا اور ان كو قتل كرديا(۲۲) عبدالملك كے بڑے جرائم ميں حجاج بن يوسف كو بصرہ اور كوفہ كا حاكم بنانا ہے_ حجاج ايك خون خوار اور جرائم پيشہ شخص تھا اس نے لوگوں كو اذيتيں پہنچائيں اور كشت و خون كا بازار گرم كيا_ خاص كر شيعيان عليعليه‌السلام كو ختم كرنے كا اس نے بيڑا اٹھايا اور اپنى حكومت كے زمانہ ميں تقريباً ايك لاكھ بيس ہزار افراد كو قتل كرڈالا(۲۳) عبدالملك بڑى سختى سے امام زين العابدين كى نگرانى كرتا تھا اور اس كوشش ميں تھا كہ آپعليه‌السلام كے خلاف كسى بھى طريقہ سے كوئي بہانہ ہاتھ آجائے تو وہ آپعليه‌السلام پر سخت گيرى كرے يا آپ كى توہين كرے_

اس كو جب يہ اطلاع ملى كہ امام زين العابدينعليه‌السلام نے اپنى آزاد كردہ كنيز سے عقد كر ليا ہے تو اس نے ايك خط ميں اس كام پر آپ كى شماتت كي_ اس نے چاہا كہ اس طرح وہ حضرت كو يہ سمجھا دے كہ ہم آپعليه‌السلام كے تمام امور حتى كہ داخلى اور ذاتى امور سے بھى باخبر ہيں _ اور اس نے اپنى قرابت دارى كو بھى ياد دلايا، تو امامعليه‌السلام نے جواب ميں آئين اسلام كو اس سلسلہ ميں ياد دلاتے ہوئے فرمايا: كہ مسلمان ہوجانا اور خدا پر ايمان لانا ہميشہ دوسرے امتيازات كو ختم كرديتا ہے، امامعليه‌السلام نے طنز كے ذريعہ اس كے آبا و اجداد كى گذشتہ جہالت پر ( اور شايد اس كى موجودہ جہالت حالت پر ) سرزنش كى اور فرمايا:

فلا لوم على امرئ: مسلم: انّما اللّومُ لوم الجاهلية'' (۲۴)

۸۶ ھ ميں عبدالملك كے مرنے كے بعد اس كا بيٹا وليد اس كى جگہ پر مسند خلافت بيٹھا_(۲۵) سيوطى كے بيان كے مطابق وہ ايك ستمگر اور لا پرواہ شخص تھا اودوسرے بنى اميہ كے حكمرانوں كى طرح يہ بھى امامعليه‌السلام كى شہرت اور محبوبيت سے خوف زدہ تھا اور آپعليه‌السلام كى علمى و روحانى شخصيت سے اس كو تكليف تھي، اس وجہ سے وہ شيعوں كے چوتھے پيشوا كا وجود مسلمانوں كے معاشرہ ميں برداشت

۱۲۵

نہيں كر سكتا تھا، اس نے دھوكہ كے ساتھ آپ كو زہر دے ديا(۲۶) ايك طرف تو امام زين العابدينعليه‌السلام اپنے زمانہ كے ايسے ظالم و جرائم كا ارتكاب كرنے والے بادشاہوں اور ان كى شديد نگرانيوں كو برداشت كر رہے تھے، دوسرى طرف اپنے اطراف ميں ايماندار جاں نثاروں اور مجاہد دوستوں كا فقدان محسوس كرتے تھے_ لہذا آپعليه‌السلام نے مخفى مبارزہ اورجہاد شروع كيا_ اپنے دروازہ كو دوسروں كے لئے بند كرديا، اس طرح آپعليه‌السلام نے اپنى اور اپنے كچھ قابل اعتماد اصحاب كى جان بچالى اور اس محاذ پر صاحب امتياز عناصر كى پرورش، صالح افراد كى تيارى اور مخفى مبارزہ كے ذريعہ شيعى افكار كى تعليم ميں مشغول ہوگئے تا كہ اس راستہ كے سلسلہ كو جو بے شك منزل مقصود سے بہت قريب تھا _ اپنے بعد كے امام كے سپرد كرديں _

امام جعفر صادق _اپنى ايك حديث ميں امامعليه‌السلام چہارم كے حالات اور ان كى كردار ساز خدمات كو اس طرح بيان كرتے ہيں :

'' حسين ابن علىعليه‌السلام كے بعد تمام لوگ راستہ سے پلٹ گئے مگر تين افراد: ابو خالد كابلي، يحيى ابن ام طويل اور جبير بن مطعم، اس كے بعد دوسرے لوگ ان سے آملے اور شيعوں كا مجمع بڑھ گيا_ يحيى بن ام طويل مدينہ ميں مسجد پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آئے اور تقرير ميں لوگوں سے كہنے لگے: ہم تمہارے ( راستہ اور آئين كے ) مخالف ہيں اور ہمارے اور تمہارے درميان دشمنى اور كينہ ہے''(۲۷) مكہ كے راستہ ميں ايك شخص نے اعتراض كرتے ہوئے امام سجادعليه‌السلام سے كہا كہ '' آپ نے جہاد اور اس كى سختى كو چھوڑ ديا اور حج جو آسان ہے اس كے لئے جا رہے ہيں ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: اگر باايمان مددگار اور جان نثار اصحاب ہوتے تو جہاد اور مبارزہ حج سے بہتر تھا(۲۸) ابوعمر نہدى كا بيان ہے كہ '' امام زين العابدينعليه‌السلام نے فرمايا: مكہ اور مدينہ ميں ہمارے بيس دوست (حقيقى اور جاں نثار ) نہيں ہيں(۲۹) اس طرح امام زين العابدينعليه‌السلام كا كام بے حد دشوار ہمت شكن اور شجاعت كا كام تھا اور

۱۲۶

آپ نہايت محدوديت كے عالم ميں اس بات ميں كامياب ہوگئے كہ ايك سو ستر ايسے نماياں شاگردوں كى تربيت كرديں جن ميں سے ہر ايك اسلامى معاشرہ ميں روشن چراغ تھا_ جن افراد كے نام رجال كى كتابوں ميں موجود ہيں ان ميں سعيد بن مسيب ،سعيد بن جبير، محمد بن جبير، يحيى بن ام طويل، ابوخالد كابلي، ابوحمزہ ثمالى جيسى شخصيتوں كے نام لئے جاسكتے ہيں _

امام زين العابدينعليه‌السلام نے نماياں شاگردوں كى تربيت اور اسلامى معارف كى نشر و اشاعت كے ذريعہ اسلامى معاشرہ اور اموى حكومت كے صاحب حيثيت افراد كے دلوں ميں ايك مخصوص شكوہ و عظمت پيدا كرلى يہاں تك كہ ايك حج كے موقع پر جب آپعليه‌السلام كا سامنا عبدالملك بن مروان سے ہوا تو نہ صرف يہ كہ آپ نے اس كو سلام نہيں كيا بلكہ اس كے چہرہ پر نظر بھى نہيں ڈالى عبدالملك اس بے اعتنائي پر بڑا ناراض ہوا_ اس نے آہستہ سے امامعليه‌السلام كے ہاتھ كو پكڑ اور كہا:'' اے ابومحمد مجھے ديكھئے ميں عبدالملك ہوں نہ كہ آپ كے باپ كا قاتل يزيد'' امامعليه‌السلام نے جواب ديا:'' ميرے باپ كے قاتل نے اپنے اقدام كے ذريعہ اپنى آخرت خراب كر لى اگر تو بھى ميرے باپ كے قاتل كى طرح ہونا چاہتا ہے تو كوئي حرج نہيں ہے''_

عبدالملك نے غصہ ميں كہا:'' ميں ہرگز ايسا ہونا نہيں چاہتا ليكن مجھے اس بات كى اميد ہے كہ آپعليه‌السلام ہمارے وسائل سے بہرہ مند ہوں گے امامعليه‌السلام نے جواب ميں فرمايا:'' مجھ كو تمہارى دنيا كى اور جو كچھ تمہارے پاس ہے اس كى كوئي ضرورت نہيں(۳۰)

دعائيں

امام زين العابدينعليه‌السلام كے مثبت اقدام ميں ايك قدم اور بنيادى كوشش يہ تھى كہ آپعليه‌السلام _ انفرادى اور اجتماعى _ تربيت و عقائد سے متعلق مسائل كى نشر و اشاعت دعا كے پيرايہ ميں كريں _

۱۲۷

جو آپ كى يادگار كے طور پر محفوظ رہ گئي ہيں _

صحيفہ سجاديہ كے مضامين اور اس ميں بيان كى گئي باتوں پر غور و فكر نے بہت سے مسائل كو ہمارے لئے روشن كرديا ہے، اسلامى معاشرہ بلكہ انسانى معاشرہ كو اس كتاب نے عالم كى معلومات ،خدا كى معرفت، انسان كى معرفت و غيرہ كے ايك سلسلہ كا تعارف كرايا ہے_

ان حالات ميں جب امام _ كو بيان اور گفتگو كى آزادى ميسر نہ تھي، آپ نے دعا اور مناجات كے ذريعہ اعتقادى اور اخلاقى دستور العمل اور اجتماعى زندگى كے لائحہ عمل كو بيان كيا اور مسلمانوں كے درميان اس كو منتشر كرديا_

صيحفہ سجاديہ كى عظمت كو سمجھنے كے لئے مشہور مصرى مفسر طنطاوى كا قول كافى ہے، وہ كہتے ہيں كہ'' صحيفہ سجاديہ وہ تنہا كتاب ہے جس ميں علوم و معارف اور حكمتيں موجود ہيں اس كے علاوہ كسى كتاب ميں ايسا ذخيرہ نہيں ہے اور يہ مصر كے لوگوں كى بد نصيبى ہے كہ وہ ابھى تك اس كى گراں بہا اور جاودانہ باتوں سے واقف نہيں ، ميں اس ميں جتنا بھى غور كرتا چلا جاتا ہوں اس كو مخلوق كے كلام سے بالاتر اور خالق كے كلام سے نيچے ديكھتا ہوں(۳۱) امام گوشہ نشينى اور محدوديت كے باوجود دعاؤں كے ذريعہ مسلمانوں كو قيام اور تحريك كا درس ديتے ہيں اور اپنے خدا سے راز و نياز كى باتيں كرتے ہوئے فرماتے ہيں '' خدايا مجھ كو ايسى طاقت اور دست رسى عطا كر كہ جو لوگ مجھ پر ظلم كرتے ہيں ميں ان پر كاميابى حاصل كروں اور ايسى زبان عنايت فرما كہ مقام احتجاج ميں غلبہ حاصل كرسكوں ، ايسى فكر اور سمجھ عطا فرما كہ دشمن كے حيلوں كو درہم برہم كردوں اور ظالم كے ہاتھ كو ظلم و تعدى سے روك دوں(۳۲) صحيفہ سجاديہ ميں ايسے بہت سارے نمونے موجود ہيں _

۱۲۸

شہادت

امام زين العابدينعليه‌السلام ۵۷ سال تك رنج و مصيبت برداشت كرنے كے بعد وليد بن عبدالملك كے دور حكومت ميں اس كے حكم سے جس نے اپنى خلافت و حكومت كا محور ظلم و جور اور قتل و غارت بنا ركھا تھا، مسموم ہوكر، ۲۵ محرم ۹۵ ھ ق كو شہادت پائي اور قبرستان بقيع ميں امام حسن مجتبىعليه‌السلام كى قبر مطہر كے پہلو ميں سپرد خاك كئے گئے(۳۳)

۱۲۹

سوالات

۱_ امام زين العابدينعليه‌السلام كى تاريخ ولادت بيان فرمايئےور ان كى اخلاقى خصوصيات ميں سے دو نمونے بيان كيجئے_

۲_ پيغام عاشوراء كو پہنچا نے اور اس سے حاصل شدہ نتائج كى نگہبانى كرنے ميں آپ نے كيا كردار ادا كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

۳_ يزيد نے جو نشست شام كى جامع مسجد ميں منعقد كى تھي، امامعليه‌السلام نے اس سے اپنے لئے كس طرح فائدہ حاصل كيا؟

۴_ مدينہ واپسى كے بعد حكومت بنى اميہ كے مد مقابل امامعليه‌السلام كا موقف كيوں تبديل ہوگيا؟ اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۵_ مدينہ واپس آنے كے بعد شہادت كے زمانے تك امام زين العابدينعليه‌السلام كے اہم كام كيا تھے؟

۶_ امام سجادعليه‌السلام كس تاريخ كو اور كيسے شہيد ہوئے؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱ الفصول المہمہ /۲۰۱-

۲ اصول كافى جلد/ ۴۶۶، ارشاد مفيد /۲۵۳، اعيان الشيعہ ( دس جلد والى ) جلد ۱/۶۲۹-

۳ ارشاد مفيد /۲۵۳-

۴ آل عمران /۱۳۴-

۵ ارشاد مفيد /۲۵۷، اعيان الشيعہ جلد ۱/۶۳۲-

۶ ارشاد مفيد/۲۵۹، مناقب جلد ۴/ ۱۶۳ ليكن مناقب ميں زيد بن اسامہ كے بجاے '' محمد بن اسامہ '' لكھا ہے_

۷ تذكرة الخواص ابن جوزى / ۱۸۴، اعيان الشيعہ جلد ۱/۶۳۳، مناقب جلد ۴/۱۵۳-

۸ خصال صدوق مطبوعہ غفارى /۵۱۷، مناقب جلد ۴/۱۵۰-

۹ يہ واقعہ، سانحہ كربلا كے بعد يزيد كى حكومت كے دوسرے سال پيش آيا اس ميں يزيد كے حكم سے سپاہ شام نے مدينہ پر حملہ كيا اور تين دن تك مسلمانوں كى جان، مال،عزت و آبرو كو اپنے اوپر مباح سمجھتے رہے_

۱۰ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۶۳۶، بحار ج ۴۶/۱۳۸،كامل ابن اثير ج ۴/۱۱۲-۱۱۳-

۱۱ استلام _ہاتھ سے لمس كرنا، چھونا، بوسہ دينا_

۱۲ امالى سيد مرتضى جلد ۱/۶۶، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد ۱/۶۳۴، تذكرة الخواص، بحار ج ۴۶/۱۲۷-۱۲۵-

۱۳ احتجاج طبرسى جلد ۲/۳۰، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد۱/۶۱۳، بحار جلد ۴۴/۱۱۲-

۱۴ لہوف سيد ابن طاؤوس /۱۴۴، مقتل خوارزمى جلد ۲/۴۳، بحار جلد ۴۴/۱۱۷-۱۱۸-

۱۵ اما ظنّك برسول اللہ لو راناً موثقين فى الحبال-

۱۶ تذكرة الخواص /۱۴۹، اعيان الشيعہ ( دس جلدي) جلد ۱/۶۱۵، بحار جلد ۴۴/۱۳۲-

۱۷ ذريعة النجاة /۲۳۴-

۱۸ عام الفيل كے ۳۵ سال بعد پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھوں حجر اسود نصب كئے جانے والے واقعہ كى طرف اشارہ ہے_

۱۹ كامل بہائي جلد ۲/۳۰۲، بحار جلد ۴۵/۱۳۷_۱۳۹-

۲۰ امام حسين كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق كے سلسلہ ميں ہم نے بعض شورشوں اور تحريكوں كى طرف اشارہ كيا ہے_

۱۳۱

۲۱ امام حسينعليه‌السلام كى شہادت كے بعد يزيد كى حكومت كے سہ سالہ جرائم كو گذشتہ اسباق ميں بيان كيا گيا ہے اس لئے يہاں پر اس كا تكرار نہيں كيا_

۲۲ كامل ابن اثير جلد ۴/۳۴۸_۳۵۶-

۲۳ كامل ابن اثير جلد ۴/۵۸۷-

۲۴ كافى جلد ۵/۲۴۴، مناقب جلد ۴،۱۶۲_ يعنى مسلمان ميں كوئي پستى اور ذلت نہيں ہے بلكہ صرف جاہليت كى فرمايگى ميں پستى ہے_

۲۵ تاريخ الخلفاء /۲۲۳_

۲۶ مناقب ابن شہر آشوب جلد۴/۱۷۶_

۲۷ بحار جلد ۴۶/۱۴۴، الاختصاص للمفيد /۶۴، رجال كشى /۸۱_

۲۸ احتجاج طبرسى جلد ۲/۴۴،۴۵، اعيان الشيعہ جلد ۱/۶۳۵، مناقب جلد ۴/۱۵۹_

۲۹ بحار جلد ۴۶/۱۴۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۴/۱۰۴_

۳۰ بحار جلد ۴۶/۱۲۰_

۳۱ خاتمہ ترجمہ صحيفہ سجاديہ مطبوعہ آخوندي_

۳۲اللهم صلّ على محمّدو آله و اجعل لى يداً على من ظلمنى و لساناً على من خاصمنى و ظفراً بمَن عاندنى و هب لى مكراً على من كادنى '' صحيفہ سجاديہ دعاء /۲۰''_

۳۳ مصباح كفعمى /۵۰۹، كافى جلد ۱/۴۶۸، بحار جلد ۴۶/۱۵۲_

۱۳۲

آٹھواں سبق :

امام محمد باقرعليه‌السلام كى سوانح عمري

۱۳۳

ولادت اور بچپن كا زمانہ

ہمارے پانچويں پيشوا امام محمد باقرعليه‌السلام جمعہ كے دن پہلى رجب ۵۷ ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے_(۱) آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے_ روايت ہے كہ حضرت رسول مقبول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس لقب سے ملقب فرمايا تھا_ امام محمد باقرعليه‌السلام _ ماں اور باپ _ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے_ اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين _ امام حسينعليه‌السلام كے فرزند تھے_ اور ان كى والدہ گرامى '' ام عبداللہ'' امام مجتبى _كى بيٹى تھيں _ آپ نے امام زين العابدين _جيسے باپ كى پر مہر آغوش ميں پرورش پائي اور با فضيلت ماں كى چھاتى سے دودھ پيا_ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں ، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ماجدہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى _ميں كوئي عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہونچ سكي(۲) امام محمد باقرعليه‌السلام كى عمر چار سال سے كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا_

آپعليه‌السلام اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسينعليه‌السلام كے پاس موجود تھے_ واقعہ كربلا كے بعد ۳۴ برس آپعليه‌السلام نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاري، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوى ميں مشہور تھے اور آئندہ چل كر مسلمانوں كے علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھے جانے لگے_ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كى بلندى كا ذكر ہوتا، آپعليه‌السلام كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے_

۱۳۴

آپعليه‌السلام كى شرافت اور بزرگى كو مندرجہ ذيل حديث ميں پڑھا جاسكتا ہے_ پيغمبر-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ايك نيك صحابي، جابر ابن عبداللہ انصارى سے فرمايا:'' اے جابر تم زندہ رہوگے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسينعليه‌السلام سے كہ جن كا نام توريت ميں '' باقر'' ہے ملاقات كروگے_ ملاقات ہونے پر ميرا سلام پہنچا دينا''_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے_ جابر نے ايك طويل عمر پائي ، ايك دن امام زين العابدينعليه‌السلام كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقرعليه‌السلام كو جو چھوٹے سے تھے ديكھا، ان سے جابر نے كہا: ذرا آگے آيئےامامعليه‌السلام آگے آگئے_ جابر نے كہا: ذرا مڑجايئے امام مڑگئے، جابر نے جسم اور ران كے چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كہا، كعبہ كے خدا كى قسم، يہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ہو بہو آئينہ ہيں _ پھر امام زين العابدينعليه‌السلام سے پوچھا'' يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا: ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقرعليه‌السلام ہے_ جابر اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كہا: اے فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا كا سلام و درود قبول فرمائيں انہوں نے آپ كو سلام كہلو ايا ہے_

امام محمد باقرعليه‌السلام كى آنكھيں ڈبڈ باگئيں اور آپعليه‌السلام نے فرمايا: جب تك آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تك ميرا سلام و درود ہو ميرے جد پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا پر اور تم پر بھى سلام ہو اے جابر تم نے ان كا سلام مجھ تك پہنچايا(۳)

امامعليه‌السلام كے اخلاق و اطوار

حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام ، متواضع، سخي، مہربان اور صابر تھے اور اخلاق و عادات كے اعتبار سے جيسا كہ جابر نے كہا تھا ہو بہو اسلام كے عظيم الشان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئينہ تھے_

شام كا ايك شخص مدينہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور امامعليه‌السلام كے پاس بہت آتارہتا تھا اور كہتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نہيں ہے، تمہارے اور تمہارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نہيں ہوں _ اگر تم يہ ديكھتے ہو كہ ميں تمہارے گھر

۱۳۵

آتاجاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايك سخن ور اور خوش بيان اديب ہو

اس كے باوجود امامعليه‌السلام اس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوااس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقرعليه‌السلام ميرى نماز جنازہ پڑھائيں _

جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امامعليه‌السلام كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں _

امام نے فرمايا: مرا نہيں ہے جلدى نہ كرو يہاں تك كہ ميں پہونچ جاؤں اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تك سر بسجدہ رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سر ہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا_ اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگواكر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے_ ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امامعليه‌السلام كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:'' ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں ...''(۴) اس زمانے كے صوفيوں ميں سے ايك شخص محمد بن مُنكَدر كا بيان ہے كہ ايك دن ميں بہت گرمى ميں مدينہ سے باہر نكلا وہاں ميں نے محمد باقرعليه‌السلام كو ديكھا كہ دو غلاموں پر تكيہ كئے ہوئے ہيں _ ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ قريش كے بزرگوں ميں سے ايك بزرگ ايسے وقت ميں دنيا كى ہوس اور لالچ ميں پڑے ہوئے ہيں ، ميں ان كو كچھ نصيحت كروں _ ميں ان كے قريب گيااور سلام كيا_ ان كے سر اور داڑھى سے پسينہ بہہ رہا تھا_ امامعليه‌السلام نے اسى حالت ميں ميرے سلام كا جواب ديا_ ميں نے عرض كي: خدا آپ كو سلامت ركھے آپ كى جيسى شخصيت والا انسان اس وقت اس حالت ميں دنيا حاصل كرنے ميں لگا ہوا ہے اگر اسى حالت ميں موت آجائے تو آپعليه‌السلام كيا كريں گے؟

۱۳۶

آپ نے فرمايا خدا كى قسم اگر موت آگئي تو خداوند عالم كى اطاعت كى حالت ميں موت واقع ہوگي_اس لئے كہ ميں اس وسيلہ سے اپنے آپ كو تم سے اور دوسروں كى محتاجى سے بچاتا ہوں _ ميں اس حالت ميں موت سے ڈرتا ہوں كہ ميں ( خدا نخواستہ ) گناہ كے كام ميں لگا رہوں _ ميں نے كہا آپ پر خدا كى رحمت ہو، ميں نے چاہاتھا كہ ميں آپ كو نصيحت كروں ليكن آپ نے مجھ كونصيحت كى اور آگاہ فرمايا(۵)

علم امام محمد باقرعليه‌السلام

آپ كا علم بھى دوسرے تمام ائمہ كى طرح چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بہرہ ور ہو تے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ '' اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ بچپن ہى ميں علم خدا سے مالامال ہيں(۶) اہل سنت كے علماء ميں سے ايك بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقرعليه‌السلام كے سامنے اہل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے ميں نے نہيں ديكھا ہے _حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديك جن كا علمى مقام بہت بلند تھا_ امام محمد باقرعليه‌السلام كے سامنے ان كى حالت يہ ہوتى تھى كہ جيسے ايك شاگرد استاد كے سامنے''(۷) آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كہتے تھے '' وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين _نے ايسا كہا ہے ...'' ۸

ايك شخص نے عبداللہ بن عمر سے ايك مسئلہ پوچھا وہ جواب نہ دے سكے اور سوال كرنے والے كو امام محمد باقرعليه‌السلام كا پتہ بتاديا اور كہا كہ اس بچے سے پوچھنے كے بعد جو جواب ملے وہ مجھ كو بھى بتادينا_ اس شخص نے امامعليه‌السلام سے پوچھا اور مطمئن كرنے والا جواب سننے كے بعد عبداللہ بن عمر

۱۳۷

كو جاكر بتاديا_ عبداللہ نے كہا:'' يہ وہ خاندان ہے جس كا علم خدا داد ہے''(۹) حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام نے علوم و دانش كے اتنے رموز و اسرار واضح كئے ہيں كہ سوائے دل كے اندھے كے اور كوئي انكا، انكار نہيں كرسكتا_ اس وجہ سے آپ نے تمام علوم شكافتہ كرنے والے اور علم و دانش كا پرچم لہرانے والے كا لقب پايا(۱۰) انہوں نے مدينہ ميں علم كا ايك بڑا دانشكدہ بتايا تھا جس ميں سينكڑوں درس لينے والے افراد آپ كى خدمت ميں پہونچ كر درس حاصل كيا كرتے تھے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اصحاب ميں سے جو لوگ زندہ تھے، جيسے جابر بن عبداللہ انصارى اور تابعين ميں سے كچھ بزرگ افراد جيسے جابر بن جعفي، كيسان سختيانى اور فقہاء ميں سے كچھ لوگ جيسے ابن مبارك زہري، اوزاعى ، ابوحنيفہ ، مالك ، شافعى اور زياد بن منذر اور مصنفين ميں سے كچھ افراد جيسے طبري، بلاذري، سلامى اور خطيب نے اپنى تاريخوں ميں آپ سے روايتيں لكھى ہيں(۱۱)

امام _اور اموى خلفائ

امام محمد باقرعليه‌السلام كى امامت كا زمانہ _ جو تقريباً ۱۹ سال پر محيط تھا _ اموى حكمرانوں جيسے وليد بن عبدالملك، سليمان بن عبدالملك، عمر بن عبدالعزيز، يزيد بن عبدالملك، ہشام بن عبدالملك كا زمانہ تھا_ ان ميں سے سوائے عمر بن عبدالعزيز كے_ جو نسبتاً عدالت پسند تھا _ سب كے سب ستمگري، استبداد اور مطلق العنانى ميں اپنے اسلاف سے كچھ كم نہ تھے اور آگے چل كر انہوں نے امام محمد باقرعليه‌السلام كے لئے مشكليں پيدا كيں _

امام محمد باقرعليه‌السلام كے زمانہ امامت كے سياسى اور كھٹن حالات سے واقفيت كے لئے ہم يہاں ان ميں سے ہر ايك كے بارے ميں اب اجمالى گفتگو كر رہے ہيں _

وليدنے ۸۶ ھ ق ميں حكومت كى باگ ڈور سنبھالى اور ۱۵، جمادى الآخر ۹۶ ھ ق كو مرگيا_

۱۳۸

مسعودى كا بيان ہے كہ وليد ايك ہٹ دھرم، جابر اور ظالم بادشاہ تھا _ (!۲) اس كے باپ نے اس كو وصيت كى تھى كہ حجاج بن يوسف كا اكرام كرے اور چيتے كى كھال پہنے _(۱۳) تلوار آمادہ ركھے اور جو اس كى مخالفت كرے اس كو قتل كردے(۱۴) اس نے بھى باپ كى وصيت كو پورا كيا اور حجاج كے ہاتھوں كو اپنے باپ كى طرح مسلمانوں كو ستانے اور ان كو قتل كرنے كے لئے آزاد چھوڑ ديا_

عمر بن عبدالعزيز، وليد كى طرف سے مدينہ كا حاكم تھا، حجاج كے ظلم سے تنگ آكر جو بھى بھاگتا تھا اس كے پاس پناہ ليتا تھا_ عمر نے وليد كو ايك خط لكھااور لوگوں كے ساتھ حجاج كے ظلم كى شكايت كى _ وليد نے حاكم مدينہ كى شكايت سننے كى بجائے، حجاج كى خوشنودى كے لئے عمر بن عبدالعزيز كو مدينہ كى گورنرى سے معزول كرديا اور حجاج كو لكھا'' تم جس كو بھى چاہو حجاز كا حاكم بنادو_ حجاج نے بھى خالد بن عبداللہ قسرى كے لئے سفارش كى جو خود اسى جيسا ايك خونخوار شخص تھا وليد نے يہ سفارش قبول كر لي(۱۵) وليد كا حجاج پر اعتماد كرنا اور اپنے باپ عبدالملك كى تائيد، وليد كے طغيان اور اس كى تباہ كارى پر بہترين دليل ہے_

اپنے بھائي كے بعد سليمان بن عبدالملك نے زمام حكومت اپنے ہاتھوں ميں لى اور جمعہ كے دن ۱۰ ماہ صفر ۹۹ ھ كو مرگيا_ وہ بڑا پرخور اور عورتوں كا دلدادہ تھا_ اس كے دور خلافت ميں عياشى اور دربار ميں عيش و نشاط كى محفل اپنے اوج پر تھي_ متعدد خواجہ سراؤں كو اس نے اپنے دربار ميں ركھ چھوڑا تھا اور اور اپنا زيادہ وقت حرم سراء كى عورتوں كے ساتھ گذارتا تھا_ آہستہ آہستہ برى باتيں ملك كے كارندوں ميں بھى سرايت كر گئيں اور يہ باتيں ملك گير پيمانہ پر پھيل گئيں(۱۶) اس نے دو سال چند مہينے حكومت كى _ شروع ميں اس نے نرمى كا مظاہرہ كيا_ عراق كے قيد خانوں كے دروازے كھول ديئے اور بے گناہوں كو آزاد كرديا جبكہ اس كى زندگى كے لمحات ظلم و ستم سے خالى نہ تھے_ اس نے خالد بن عبداللہ قسرى كو جو ظلم اور جرائم ميں حجاج كا ثانى تھا، اس كے

۱۳۹

مقام پر باقى ركھا_

اس كے بعد عمر بن عبدالعزيز مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اس كا انتقال ۲۵ رجب ۱۰۱ ھ ق كو ہوا_ يہ كسى حد تك پريشانيوں اور دشواريوں پر قابو پانے ، برائيوں اور تفريق كے ساتھ جنگ كرنے، اس ننگ و عار كے دھبہ كو جو اس وقت كى حكومت كے دامن پر لگا ہوا تھا _ يعنى على _پر سب و شتم كرنا _ دھونے، فدك كو اولاد فاطمہ عليہا السلام كو واپس دے دينے اور امام محمد باقرعليه‌السلام كے حوالے كرنے ميں كامياب ہوئے_

اس كے بعد يزيد بن عبدالملك ان كى جگہ مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اور اپنے حكام كو مندرجہ ذيل خط لكھ كر اپنى حكومت كا آغاز كيا:

'' عمر بن عبدالعزيز نے دھو كہ كھايا، تم اور تمہارے اطراف كے لوگوں نے اس كو دھو كہ ديا خط ملتے ہى سابق معاونين اور اپنے دوستوں كو جمع كرو اور لوگوں كو ان كى سابقہ حالت پر پلٹا دو، چاہے وہ ماليات كو ادا كرنے كى طاقت ركھتے ہوں يا نہ ركھتے ہوں ، زندہ رہيں يا مرجائيں ، لازم ہے كہ وہ ٹيكس ادا كريں ''(۱۷) يزيد بن عبدالملك كا اپنے ہم نام يزيد بن معاويہ كى طرح سوائے عياشي، جرائم، مستى اور عورتوں كے ساتھ عشق بازى كے اور كوئي دوسرا كام نہ تھا_ وہ اخلاقى اور دينى اصول كا ہرگز پابند نہ تھا_ اس كى خلافت كا زمانہ بنى اميہ كى حكومت كا ايك سياہ ترين اور تاريك ترين دور شمار كيا جاتا ہے اس كے زمانہ ميں قصائد اوراشعار كى جگہ ساز اور آواز نے لے لى تھى اور اس شعبہ كو اتنى وسعت دے دى تھى كہ مختلف شہروں سے گانے بجانے والے دمشق بلائے جاتے تھے اور اس طرح عياشي، ہوس راني، شطرنج اور تاش نے عربى معاشرہ ميں رواج پايا(۱۸) اس كے بعد ہشام بن عبدالملك نے حكومت كى باگ ڈور سنبھالي_ وہ بخيل، بداخلاق، ستمگر اور بے رحم تھا_ نہ صرف يہ كہ اس نے برائيوں كى اصلاح كيلئے كوئي قدم نہيں اٹھايا بلكہ اس نے بنى اميہ كى خطاؤں كو تقويت بخشي_ اپنے گورنروں كو اس نے لكھا كہ شيعوں كے ساتھ سختى كركے ان پر

۱۴۰