تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146738
ڈاؤنلوڈ: 3024


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146738 / ڈاؤنلوڈ: 3024
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

باپ كى خدمت ميں

امام موسى كاظم _نے بچپن ہى سے باپ كى نگراني، اور خاص تربيت كے تحت اور مہربان ماں كى نوازشوں كے سايہ ميں مراحل كمال و رشد طئے كئے _ اپنى زندگى كے بيس سال آپ نے اپنے پدر عاليقدر كى با فيض خدمت اور حيات كى تعمير كرنے والے مكتب فكر ميں گذارے اور اس تمام مدت ميں تمام جگہوں پر اپنے والد بزرگوار كے بلند اور بيش قيمت كاموں سے الہام ليتے اور ان كے علم و دانش سے بہرہ ور ہوتے رہے_ بہت كم مدت ميں اس درس گاہ ميں جسكى بنياد آپعليه‌السلام كے والد كے ہاتھوں ركھى گئي تھي، آپعليه‌السلام نے ايسا بلند مقام پاليا كہ اس عظيم جعفرى يونيورسٹى كى توسيع اور تكميل ميں اپنے والد كى مدد كرنے لگے_

اخلاقى فضائل

جناب موسى ابن جعفرعليه‌السلام نے نہ صرف يہ كہ علمى اعتبار سے اپنے زمانہ كے تمام دانش مندوں اور علمى شخصيتوں كو تحت الشعاع قرار دے ديا بلكہ اخلاقى فضائل اور نماياں اور امتيازى صفات كى بنا پر ہر شخص كى زبان پر آپكا نام تھا_ تمام وہ افراد جو آپ كى پر افتخار زندگى سے واقفيت ركھتے ہيں آپ كى اخلاقى عظمت اور ممتاز فضيلت كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہيں _

ابن حجر عسقلاني_ اہل سنت كے ايك بہت بڑے دانش مند اور محدث_ لكھتے ہيں كہ موسى كاظمعليه‌السلام اپنے باپ كے علوم كے وارث اور صاحب فضل و كمال تھے آپ نے جب بہت زيادہ بردبارى اور درگذر ( جو سلوك آپ نادان لوگوں كے ساتھ كرتے تھے) كا اظہار كيا تو كاظم كا لقب ملا_ آپ كے زمانہ ميں معارف علمى اور علم و سخاوت ميں كوئي بھى شخص آپ كے پايہ كو نہيں پہنچ سكا_۷

۱۸۱

امامت حضرت موسى ابن جعفرعليه‌السلام

امام جعفر صادقعليه‌السلام كے اصحاب ميں سے كچھ لوگ آپ كے بڑے بيٹے اسماعيل كو خاندان كا چشم و چراغ شمار كئے جانے كى بنا پر آئندہ كيلئے اپنا پيشوا اور امام سمجھتے تھے ليكن جوانى ہى ميں اسمعيل كى موت نے انتظار كرنے والوں كو نااميد كرديا چھٹے امام نے بھى انكى موت كى خبر كا اعلان كيا يہاں تك كہ بزرگان قوم كو ان كا جنازہ بھى دكھايا تا كہ (انكى امامت والے) عقيدہ كو اپنے دل سے نكال ديں(۸) امام جعفر صاق _نے اسماعيل كى موت كے بعد عباسى حكومت كے دباؤ كے باوجود مناسب موقع پر مختلف انداز سے اپنے بعد ہونے والے امام، موسى ابن جعفرعليه‌السلام كى طرف اپنے اصحاب كى رہنمائي فرمائي ان كے دو نمونے پيش كئے جارہے ہيں _

۱_ على ابن جعفر نقل كرتے ہيں كہ ميرے والدامام جعفر صادقعليه‌السلام نے اپنے اصحاب كى ايك جماعت سے كہا ''ميرے بيٹے موسى كے بارے ميں ميرى وصيت قبول كرو اس لئے كہ وہ ميرے تمام بيٹوں اور ان لوگوں سے جو ميرے بعد ميرى يادگار رہ جائيں گے، برتر ہيں اور ميرے بعد ميرے جانشين اور خدا كے تمام بندوں پر اس كى حجت ہيں(۹)

۲_ منصور بن حازم نقل كرتے ہيں كہ '' ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے عرض كيا كہ : اگر آپ كو كوئي حادثہ پيش آجائے تو ہمارا امام كون ہوگا؟ امام نے اپنے بيٹے موسى كے داہنے شانہ پر ہاتھ ركھ كر فرمايا: اگر مجھ كو كوئي حادثہ پيش آجائے تو مير ا يہ بيٹا تمہارا امام ہوگا(۱۰)

امامت كا زمانہ

موسى بن جعفرعليه‌السلام نے اپنے والد كى رحلت كے بعد ۱۴۸ ھ ق ميں ۲۰ سال كى عمر ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كى ذمہ دارى سنبھالي_آپ اپنے امامت كے زمانہ ميں جو ۲۵ سال كى

۱۸۲

طويل مدت پر محيط ہے _ اپنے عہد كے خلفاء منصور دوانقي، مہدي، ہادى اور ہارون الرشيد كے معاصر رہے_

امام موسى كاظم _كے جہاد كى شكل اورروش، اس روش كے سلسلہ كى اگلى كڑى تھى جو امام جعفر صادق _نے معاشرہ كے حالات سے روبرو ہونے اور مخالفين كى محاذ آرائي پر اختيار كى تھي_

اس زمانہ كے اسلامى معاشرہ پر حكومت كرنے والے حالات كے تجزيہ كى بنياد پر امام موسى كاظم _كے جہاد كے اصلى محور كو مورد تحقيق قرار ديں گے_

الف_امام موسى كاظم _كى علمى تحريك كى تحقيق

اپنے والد بزرگوار كى رحلت كے بعدامام موسى كاظم _نے اس عظيم درسگاہ كى علمى اور فكرى رہبرى كو اپنے ذمہ ليا جس كى بنياد مدينہ ميں پڑچكى تھى اور آپ نے بہت سے محدثين ، مفسرين، فقہاء متكلمين اور تمام اسلامى دانشمندوں كى اپنے تربيتى مكتب فكر ميں پرورش كى اور وسيع فقہ اسلامى كو اپنے جديد خيالات و نظريات سے غنى اور مالامال كرديا_

منصور كى جابرانہ حكومت اور سياسى حالات كے تقاضا كے تحت امامعليه‌السلام نے پہلے مرحلہ ميں اپنے جہاد كو معارف كى نشر و اشاعت اور باطل عقائد كى روك تھام كى صورت ميں نبھايا_ مندرجہ ذيل واقعہ اس كے جبر كے اس گوشہ كو بيان كرتا ہے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام كو جب منصور دوانقى نے زہر دے ديا تو اس كے بعد اس نے امكانى مخالفين كو راستہ سے ہٹانے كا يہ مناسب موقع سمجھا_ اس وجہ سے اس نے مدينہ كے حاكم محمد بن سليمان كو لكھا كہ اگر جعفر بن محمد نے كسى كو اپنا جانشين مقرر كيا ہو تو اس كو حاضر كرو اور اسكى گردن اڑادو حاكم مدينہ نے جواباً لكھا '' جعفر ابن محمد نے وصيت نامہ ميں پانچ آدميوں كو اپنا وصى اور

۱۸۳

جانشين قرار ديا ہے ان كے نام ہيں : ۱_ منصور دوانقى ۲_محمد ابن سليمان (حاكم مدينہ)۳_ عبداللہ بن جعفر (امام جعفر صادق كے بڑے بيٹے) ۴_ موسى ابن جعفر ۵_ حميدہ امام كى بيوي'' اور خط كے آخر ميں حاكم مدينہ نے خليفہ سے پوچھا كہ ان ميں سے كس كى گردن اڑادوں ؟

منصور كے وہم و گمان ميں بھى يہ بات نہيں تھى كہ ايسے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اس كو بہت غصہ آيا اوركہا: ان ميں سے تو كسى كو بھى قتل كيا نہيں جاسكتا(۱۱) امام جعفر صادق _نے ايسا سياسى وصيت نامہ لكھ كر امام موسى كاظم _كو قتل سے بچاليا_ اس كے علاوہ دوسرى كسى بھى صورت ميں امام موسى كاظمعليه‌السلام كا قتل يقينى تھا_

امام موسى كاظمعليه‌السلام كى علمى اور ثقافتى كوششوں ميں سے دو اہم مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ ايسى علمى اور فكرى آمادگى كا ہونا كہ جس سے مختلف فكرى اور اجتماعى مكاتب سے مقابلہ ہوسكے ان مكاتب فكر ميں سب سے زيادہ خطرناك الحادى شعوبيہ(۱۲) مكتب فكر تھا جو اسلام كى بنياد كو چيلنج كر رہا تھا_

ايك مذہبى پيشہ ہونے كے ناطے ان عقيدتى خطرات اور آفتوں كے مقابلہ ميں امامعليه‌السلام كا كردار يہ تھا كہ مضبوط دلائل كے ساتھ اصولى راستوں كى رہنمائي كركے ان افكار كے سامنے ديوار بن كر كھڑے ہوجائيں اور ان كے بے مايہ ہونے كو ثابت كركے اسلامى ماحول كو كفر، زندقہ اور شعوبيوں و غيرہ سے پاك كرديں _

اس جہاد كى مشكلات ميں جو اضافہ كا سبب بنا وہ مسلمانوں كا نظرياتى اختلاف تھا اور اس وقت كى حكومتوں نے بھى لوگوں كے افكار كا رخ موڑنے كے لئے ان اختلافات كو پيدا كيا_

الفاظ قرآن كے قديم ہونے والے نظريہ كى پيدائشے، مكتب معتزلہ اور اشاعرہ كا ظہور اور چار فقہوں كا قانونى شكل اختيار كرنا اس كے بڑے واضح نمونے ہيں _

امام كا يہ اقدام خلافت عباسى كے لئے بڑا گراں تھا_ امام كے مكتب فكر ميں تربيت پانے والے افراد جو اس سلسلہ ميں بڑى مہارت اور فعاليت كے حامل تھے سختى ميں مبتلا كرديئے گئے اور

۱۸۴

عقيدہ كے بارے ميں ان كو زبان كھولنے سے روكا گيا_ يہاں تك كہ ہشام ابن حكم كى جان كى حفاظت كے لئے_ جو مختلف جماعتوں اور مكتب فكر كے لوگوں سے بحث و مناظرہ ميں يد طولى ركھتے تھے، خود امامعليه‌السلام نے كسى شخص كو ان كے پاس بھيج كر وقتى طور پر ان كو بحث و مناظرہ سے روك ديا_ ہشام نے بھى مہدى عباسى كى موت تك كوئي بات نہيں كہي(۱۳)

۲_ علم فقہ، حديث، كلام، تفسير اور ديگر علمى شعبوں ميں بزرگ اور بافضيلت شاگردوں كا پرورش پانا: سيد ابن طاؤس نقل كرتے ہيں كہ امامعليه‌السلام كے قريبى اصحاب مجلس درس ميں حاضر ہوتے اور جو كچھ بھى حضرتعليه‌السلام سے سنتے اس كو اس لوح ميں جو آستينوں ميں ركھتے تھے لكھتے جاتے تھے(۱۴)

يہ سب كچھ ان حالات ميں ہورہا تھا جب كہ عباسى حكومت نے امامعليه‌السلام كى علمى سرگرميوں پرپابندى لگادى تھى _ آپ كے شاگردوں پر سختى كى جا رہى تھي_ ظاہر ہے كہ اس صورت ميں وہ كھلم كھلا امامعليه‌السلام كا نام بھى نہيں لے سكتے تھے بلكہ ابوابراہيم، عبدصالح، عالم، صابر اور امين ايسے ناموں سے ياد كرتے تھے_

ان تمام باتوں كے باوجود امامعليه‌السلام علمي، اسلامى اور ثقافتى تحريك كى ارتقا ميں بہت بڑا قدم اٹھانے اور سينكڑوں دانشمند اور علمى شخصيتوں كى تربيت ميں كامياب ہوگئے_(۱۵) محمد ابن ابى عمير، على بن يقطين، ہشام ابن حكم، ہشام ابن سالم، يونس بن عبدالرحمن اور صفوان ابن يحيى كا نام بطور نمونہ ليا جاسكتا ہے_

امامعليه‌السلام كے شاگردوں كى روحانى عظمت اور انكى علمى اور مجاہدانہ شخصيت نے مخالفين، خصوصاً حكومت وقت كى آنكھوں كو خيرہ كرديا ان كو يہ خطرہ لاحق ہوگيا كہ يہ كہيں اپنى اس حيثيت و محبوبيت كى بناء پر جو لوگوں كے درميان ہے انقلاب برپا نہ كرديں _ اس لئے وہ ہميشہ ايسے افراد كو معين كرتے رہتے تھے جو ان كى كاركردگى كى نگرانى كرتے رہيں _ نمونہ كے طور پر پيش ہے_

ابن ابى عمير امام موسى كاظم _كے ممتاز صحابى تھے وہ اس بات ميں كامياب ہوئے كہ مختلف مباحث ميں اپنى پچاس جلد كتا بيں يادگار چھوڑيں _

۱۸۵

ہارون جس كو امام موسى كاظمعليه‌السلام كے نزديك محمد ابن ابى عمير كے موقف كى اجمالى اطلاع تھى اس نے محمد ابن ابى عمير كى فعاليت اور كاركردگى پر نظر ركھنے كے لئے جاسوسوں كو معين كرديا_ انہوں نے اطلاع دى كہ عراق كے تمام شيعوں كے نام محمد كے پاس ہيں _ اس خبر كے ملتے ہى ابن ابى عمير ہارون كے حكم سے گرفتار كركے قيد ميں ڈال ديئے گئے اور شيعوں كے نام اور راز كو بتانے كے لئے ان پر سختى كى جانے لگى ليكن وہ راز اگلنے پر تيار نہيں ہوئے(۱۶)

ب_ امامت كا تحفظ اور عمومى انقلاب كيلئے ميدان كى توسيع

امامت كے تحفظ كے لئے موسى ابن جعفرعليه‌السلام كا مجاہدانہ منصوبہ كچھ اس طرح تھا:

۱_ اپنے طرفداروں كى مدد اور ان كى نگرانى كرنا اورحكومت عباسى كے مقابل منفى موقف اختيار كرنے كے لئے ان كو ہم آہنگ بنانا_

۲_ امام اپنے طرفداروں كو حكم ديتے تھے كہ حكومت عباسى سے ہر سطح كا ہر معاملہ اور رابطہ منقطع كرليں _

صفوان بن مہران سے امامعليه‌السلام كى گفتگو امامعليه‌السلام كے اس صريحى نظريہ اور موقف كو بيان كرتى ہے_ جناب موسى بن جعفرعليه‌السلام نے صفوان سے فرمايا: تمہارى ہر بات اچھى سے سوائے ايك بات كے اور وہ يہ كہ تم اپنے اونٹ ہارون كو كرايہ پر ديتے ہو_ صفوان نے عرض كيا ميں ان كو سفر حج كے لئے كرايہ پر ديتا ہوں اور خود ان كے ساتھ نہيں جاتا، آپ نے فرمايا_ كيا كرايہ پر دينے كے بعد_ تمہارى يہ خواہش نہيں رہتى ہے كہ كم از كم مكہ سے لوٹ آنے تك ہارون زندہ رہے، تا كہ تمہارا كرايہ ادا كردے؟ صفوان نے كہا كيوں نہيں _ امامعليه‌السلام نے فرمايا: جو ستمگروں كى بقا كو دوست ركھتا ہو وہ انہيں ميں سے شمار كيا جاتا ہے_ اور جو ان كے ساتھ ہو اس كى جگہ جہنم ہے(۱۷) امام موسى كاظمعليه‌السلام اپنے دوستوں كو ہر اس منصب اور عہدہ كو قبول كرنے سے منع فرماتے تھے جو ظالم حكومت كى تقويت كا باعث ہو_ آپ نے زياد ابن سلمہ سے فرمايا:'' اے زياد اگر ميں كسى

۱۸۶

بلندى سے گر كر ٹكڑے ٹكڑے ہوجاؤں تو يہ ميرے لئے اس سے بہتر ہے كہ ميں ظالم حكومت كے كسى منصب كو قبول كروں يا اس كى كسى ايك بساط پر بھى قدم ركھوں(۱۸) موسى بن جعفرعليه‌السلام نے ايسى روش اختيار كركے يہ چاہا كہ خلافت عباسى كى مشينرى كى مشروعيت پر خط نسخ كھينچے كے ساتھ ساتھ ان كو گوشہ گير بناديں اور عوامى مركز بننے سے ان كو محروم كرديں _

ايك استثنى

امام نے عباسى ستمگر حكومت كے تعاون كو حرام كردينے كے باوجود اپنے لائق اور معتمد اصحاب كے اہم عہدوں پر باقى رہنے كى مخالفت نہيں كى اس لئے كہ ايك طرف تو يہ كام حكومت كى مشينرى ميں نفو ذكا باعث بنا دوسرى طرف اس بات كا باعث بنا كہ لوگ خصوصاً امامعليه‌السلام كے چاہنے والے ان كى حمايت كے زير سايہ آجائيں _

على ابن يقطين كا حكومت كى مشينرى ميں قوت حاصل كرلينا اسى منصوبہ كا ايك جزء تھا_

على ابن يقطين جو امام ہفتم كے ممتاز شاگردوں ميں سے تھے ايك پاكيزہ نفس اور امامعليه‌السلام كے لئے مورد اطمينان شخصيت كے مالك تھے، عباسيوں سے انہوں نے رابطہ قائم كيا اور ہارون كى طرف سے وزارت كے لئے چنے گئے اور على ابن يقطين نے امامعليه‌السلام كى حمايت سے اس منصب كو قبول كيا(۱۹) بعد ميں آپ نے كئي بار يہ چاہا كہ استعفى ديديں ليكن امامعليه‌السلام نے ان كو روك ديا(۲۰) ايك دن امام موسى كاظم _نے ان سے فرمايا كہ : ايك كام كا وعدہ كرو تو ميں تمہارے لئے تين چيزوں كى ضمانت ليتا ہوں ۱_ تم قتل نہيں كئے جاؤگے۲_فقر ميں مبتلا نہيں ہوگے۳_ قيدى نہيں كئے جاؤگے_

على ابن يقطين نے كہا كہ جس كام كے مجھے پابند ہونا ہے وہ كيا ہے؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا: '' وہ كام

۱۸۷

يہ ہے كہ جب ہمارے دوستوں ميں سے كوئي تمہارے پاس آئے تو اس كى ضرورت پورى كرو اور اس كا اكرام كرو_ على ابن يقطين نے قبول كيا(۲۱) آپ جب تك اس عہدہ پر باقى رہے شيعوں كے لئے ايك مضبوط قلعہ اور ايك قابل اطمينان پناہ گاہ شمار كئے جاتے رہے_ اور ان دشوار حالات ميں زندگى كى حفاظت كے لئے ضرورى اعتبار قائم كرنے اور امامعليه‌السلام كے دوستوں كو اقتصادى طور پر آزاد بنانے ميں آپ نے بڑا موثر كردار ادا كيا_

۲_ خلافت كى مشينرى كے مقابل امامعليه‌السلام كا صريحى اور آشكار موقف جو اس بات پر مبنى تھا كہ خلافت انكا حق ہے اور وہ اس مقام كو بچانے ميں تمام لوگوں پر برترى ركھتے تھے_

امام كے اس موقف كو واضح كرنے والا ايك نمونہ

ہارون رشيد حج سے واپسى پر رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قبر مطہر كے پاس حاضر ہوا_ اور اس نے قريش اور دوسرے قبائل كے بہت سے لوگوں كے سامنے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس طرح سلام كيا'' السلام عليك يابن عم'' سلام ہو آپ پر اے چچا كے بيٹے( چچيرے بھائي) اور اس نے نبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنى نسبت پر فخر كا اظہار كيا _ امام موسى كاظم _نے_ جو وہاں موجود تھے _ جب اس كى بات سنى تو ضريح مقدس كے پاس كھڑے ہو كر آپ نے كہا: ''السلام عليك يا ابة ''سلام ہو آپ پر اے پدر_ ہارون اس بات پر سخت ناراض ہوا_ اتنا ناراض كہ اس كے چہرہ كا رنگ بدل گيا_ ليكن ردّ عمل كے طور پر كچھ نہ كرسكا(۲۲) يہاں تك كہ ايك دن اس نے امامعليه‌السلام سے كہا كہ آپ لوگ كيسے يہ دعوى كرتے ہيں كہ فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں جبكہ آپ كے باپ تو علىعليه‌السلام ہيں ؟ امام نے فرمايا اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہوتے اور تمہارى بيٹى كا رشتہ مانگتے تو تم قبول كر ليتے؟ اس نے كہا، سبحان اللہ كيوں نہيں ؟ ايسى صورت ميں ، ميں عرب عجم اور

۱۸۸

قريش پر فخركرتا_

حضرت نے فرمايا: كہ اگر رسول خدا زندہ ہوتے تو ہمارى بيٹى كا رشتہ نہ مانگتے اور ميں بھى يہ رشتہ قبول نہ كرتا، ہارون نے پوچھا كيوں ؟ آپ نے فرمايا: اس لئے كہ وہ ہمارے باپ ہيں (ہرچند ماں كى طرف سے) ليكن تمہارے باپ نہيں ہيں(۲۳) امت كے انقلابى وجدان كو بيدار كرنا اور انقلابى تحريكوں كى پشت پناہي: منصور كے زمانہ ميں اور اس كے بعد بہت سے سادات متقى اور حق طلب علوى جن كو آئمہ سے قريبى نسبت تھي، ظلم و ستم كے ختم ہونے، عدالت اور امربالمعروف و نہى عن المنكر كى نشر و اشاعت كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے نتيجتاً شہيد ہوگئے_

بہت سے انقلابى پوشيدہ طور پر امامعليه‌السلام سے ملحق تھے اور آپ سے رہنمائي حاصل كرتے رہتے تھے، نمونہ كے طور پر حسين ابن على جو مدينہ كے علويوں(۲۴) ميں سے تھے_ اپنے ہى قول كے مطابق _امام موسى كاظمعليه‌السلام سے مشورہ(۲۵) كے بعد ہادى عباس كے خلاف قيام كيا اور تقريباً تين سو افراد كے ايك گروہ كے ساتھ مدينہ سے مكہ كى طرف چل پڑے، سرزمين '' فخ'' پر خليفہ كے سپاہيوں كا سامنا ہوا_ شديد جنگ كے بعد علوى شكست كھا گئے اور واقعہ كربلا كى طرح عباسيوں نے تمام شہداء كے سر كاٹے اور مدينہ لے آئے اور ايك ہى نشست ميں جس ميں فرزندان اميرالمؤمنين كى ايك جماعت منجملہ ان كے امام موسى كاظم _تشريف فرماتھے ان سروں كو دكھانے كے لئے لے آئے، سوائے موسى ابن جعفرعليه‌السلام كے كسى نے كچھ نہيں كہا_ آپ نے جب حسين ابن علي_ قيام فخ كے رہبر_ كا سر ديكھا تو فرمايا:انّا لله و انا اليه راجعون _ خدا كى قسم وہ اس حالت ميں درجہ شہادت پر فائز ہوئے كہ مسلمان اور صحيح كام كرنے والے تھے، بہت روزے ركھتے تھے، بڑے شب زندہ دار تھے، امربالمعروف اور نہى عن المنكر كرتے تھے_ ان كے خاندان ميں ان جيسا كوئي نہيں تھا_(۲۶)

ہادى عباسى كو جب معلوم ہوا كہ علويين امام ہفتم كے ايما پر عمل كرتے ہيں تو حادثہ ''فخ'' كے

۱۸۹

بعد بہت ناراض ہوا_ اور آپ كے قتل كا اس نے ارادہ كرليا_ اس نے كہا : خدا كى قسم حسين نے موسى ابن جعفرعليه‌السلام كے حكم سے ميرے خلاف قيام كيا ہے_ اس لئے كہ اس خاندان كا امام سوائے موسى ابن جعفر كے اور كوئي نہيں ہے_ اگر ميں ان كو زندہ چھوڑ دوں تو خدا مجھے قتل كرے_(۲۷)

امامعليه‌السلام كى جو رپورٹيں خلفاء كے پاس پہنچى تھيں نيز وہ اعترافات جو خلفاء كو تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت حكومت كى مشينرى كى كمين ميں بڑے شد و مد سے تھے اور اس كى سرنگونى كى فكر كر رہے تھے_

لوگوں نے لكھا ہے كہ مہدى عباسى نے امامعليه‌السلام سے كہا كہ '' كيا آپ ہم كو اپنے خروج سے محفوظ ركھيں گے ...؟(۲۸)

نيز ہارون نے اپنے اس اقدام كى توجيہ ميں جو اس نے امامعليه‌السلام كو گرفتار كرنے كے لئے كيا تھا_ كہا '' ميں ڈرتا ہوں كہ يہ فتنہ برپا كريں گے اور خون بہے گا''_(۲۹)

ج_ خلفاء كے عيش و نشاط كے خلاف جنگ

خلفاء بنى اميہ و بنى عباس اور ان سے وابستہ افراد كى زندگى كى نماياں خصوصيت عيش و نشاط اور تجمل پرستى تھى وہ لوگ جو ٹيكس اور پيسے عوام سے وصول كرتے تھے ان كو اسلامى وسيع و عريض ملك كى آبادكارى اور ترقى ميں استعمال كرنے اور لوگوں كے رفاہ اور آرام كے كاموں ميں خرچ كرنے كے بجائے بزم سلطنت كى تشكيل ،بساط عيش و نشاط بچھانے اور خوشنما محل بنانے ميں خرچ كرتے تھے_

ہارون كى زندگى ميں دوسرے خلفاء كى بہ نسبت يہ خصوصيت زيادہ نظر آتى ہے_ ہارون نے بغداد ميں بڑا خوشنما محل بنوايا_ اپنى عظمت اور ظاہرى شان و شوكت كو واضح كرنے كيلئے موسى ابن جعفرعليه‌السلام كو وہاں لے گيا_ طاقت كے نشے ميں مست تكبر آميزلہجہ ميں اس نے پوچھا، يہ قصر كيسا ہے؟ آپ نے فرمايا: فاسقوں كا گھر ہے وہى لوگ جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا : '' جو لوگ روئے

۱۹۰

زمين پر ناحق تكبر كرتے ہيں _ ہم جلد ہى اپنى آيات پر ايمان سے ان كو منصرف كرديں گے ( اس طرح كہ ) جب وہ كسى آيت يا نشانى كو ديكھيں گے تو ان پر ايمان نہيں لائيں گے اور اگر ہدايت كے راستہ كو ديكھيں گے تو اپنے راستہ كے عنوان سے اس كا انتخاب نہيں كريں گے ( يہ سب اس لئے ہے كہ ) انہوں نے ہمارى آيات كى تكذيب كى ہے اور اس سے غافل ہوگئے ہيں _(۳۰)

ہارون جو اس جواب سے سخت ناراض تھا اس نے غضبناك ہوكر پوچھا كہ پھر يہ گھر كس كا ہے؟

يہ گھر ايك زمانہ كے بعد ہمارے شيعوں كا ہوگا ليكن ( اس وقت ) فتنہ كى جڑ اور دوسروں كے لئے آزمائشے ہے_

( اگر يہ شيعوں كا ہے ) تو صاحب خانہ اس كو كيوں نہيں لے ليتا؟

آبادى ہونے كے بعد اس كو اس كے مالك سے لے ليا جائيگا اور جب تك آباد نہيں ہوگا واپس نہيں ليا جائے گا_(۳۱)

شہادت

ہارون كے جبر كے مقابلہ ميں امام موسى كاظم _كے رويہ نے اس كو اس بات پر اكسايا كہ وہ امام _كو نظر بند كرے اور لوگوں سے ان كے رابطہ كو منقطع كردے اس وجہ سے اس نے امامعليه‌السلام كو گرفتار كيا اور زندان بھيج ديا_ ليكن مدينہ سے باہر لے جانے كے لئے ہارون نے مجبور ہو كر كہا دو كجاوے بنائے جائيں اور ہر كجاوہ كو مدينہ كے الگ الگ دروازوں سے باہر نكالا جائے اور ہر ايك كے ساتھ كچھ شہ سوارفوجى چليں _(۳۲) صرف امام كے عقيدتمندوں كے خوف سے يہ انتظام نہں گيا گيا تھا بلكہ ہارون كو يہ فكر تھى كہ ان كے پاس كچھ افراد اور كچھ گروہ تيار ہيں جو ايسے موقع پر حملہ كركے امامعليه‌السلام كو اس كے مزدوروں كے چنگل سے چھڑالے جائيں گے_ اس وجہ سے اس نے

۱۹۱

ايسى احتياطى تدبير اختيار كى تھيں _

حضرت موسى ابن جعفرعليه‌السلام پہلے بصرہ كے زندان ميں لے جائے گئے اور ايك سال كے بعد ہارون كے حكم سے بغداد منتقل كرديئے گئے اور كسى كو ملاقات كى اجازت ديئے بغير كئي سال تك قيد ميں ركھے گئے_(۳۳)

آخر كار ۴۵ رجب ۱۸۳ ھ ق كو ''سندى بن شاہك'' كے قيد خانے ميں ہارون كے حكم سے زہر ديا گيا، تين دن كے بعد شہيد ہوگئے اور بغداد ميں قريش كے مقبرہ ميں سپرد لحد كئے گئے_(۳۵)

شہادت كے بعد ہارون كے آدميوں نے بہت اصرار كيا كہ لوگ اس بات كو قبول كرليں اور گواہى ديں كہ موسى ابن جعفرعليه‌السلام كو زہر نہيں ديا گيا اور وہ طبيعى موت سے دنيا سے رخصت ہوئے ہيں _ تا كہ اس بہانہ سے اپنے دامن كو ايسے سنگين جرم كے داغ سے بچاليں اور لوگوں كى ممكنہ شورش بھى روك ديں _

اور يہ ايك دوسرا گواہ ہے جو عباسى حكومت سے امام كے ٹكراؤ كى طرف ہمارى رہنمائي كرتا ہے_

آپ كى عملى اور اخلاقى سيرت كے نمونے

الف: عبادت

خدا كى خصوصى معرفت آپ كو مزيد عبادت اور پروردگار سے عاشقانہ راز و نياز كى طرف كھينچتى تھى اس وجہ سے اجتماعى كاموں سے فراغت كے بعد آپ عبادت ميں اپنا وقت گذارتے تھے_

جب ہارون كے حكم سے آپ كو زندان ميں ڈال ديا گيا تو آپ نے خدا كى بارگاہ ميں عرض كيا پروردگارا مدتوں سے ميں يہ چاہتا تھا كہ تو اپنى عبادت كے لئے مجھے فرصت ديدے اب ميرى خواہش پورى ہوگئي لہذا ميں تيرا شكر ادا كرتا ہوں _(۳۵)

۱۹۲

جب آپ قيد خانہ ميں تھے اس وقت جب كبھى ہارون كوٹھے سے زندان كى طرف ديكھتا تھا تو يہ ديكھتاتويہى لباس كى طرح كى كوئي چيز زندان كے ايك گوشہ ميں پڑى ہے_ ايك بار اس نے پوچھ ليا كہ يہ كس كا لباس ہے؟ ربيع نے كہا: يہ لباس نہيں ہے، يہ موسى ابن جعفرعليه‌السلام ہيں جو زيادہ تر سجدہ كى حالت ہيں رہتے ہيں _ ہارون نے كہا سچ ہے وہ بنى ہاشم كے بڑے عبادت گزار افراد ميں سے ہيں _ ربيع نے پوچھا، تو پھر ان پر اتنى سختى كيوں كرتا ہے ہارون نے كہا: افسوس اس كے سوا كوئي چارہ نہيں ہے(۳۶) امام _اس دعا كو بہت پڑھتے تھے''اللهم انى اسئلك الراحة عند الموت و العفو عند الحساب ''(۳۷) خدايا ميں تجھ سے موت كے وقت آرام اور حساب كے وقت بخشش كا طلبگار ہوں _

آپ كى عبادت كو بيان كرنے كے لئے وہ جملہ كافى ہے جو ہم آپ كى زيارت ميں پڑھتے ہيں كہ '' درود ہو موسى ابن جعفرعليه‌السلام پر جو پورى رات مسلسل عبادت اور استغفار ميں گذارتے تھے، سجدہ ريز رہتے ، بہت زيادہ مناجات اور نالہ و زارى فرماتے تھے_(۳۸)

ب_ درگذر اور بردباري

امام موسى كاظم _كا درگذر اور ان كى بردبارى بے نظير اور دوسروں كيلئے نمونہ عمل تھي، آپ كے لئے '' كاظم'' كا لقب اسى خصلت كو بيان كرنے والا اور درگذر كى شہرت كى نشان دہى كرنيوالا ہے_

مدينہ ميں ايك شخص تھا وہ ہميشہ امام كو_ دشنام اور توہين_ كے ذريعہ تكليف پہنچا تا رہتا تھا_ امامعليه‌السلام كے كچھ صحابيوں نے يہ پيشكش كى كہ اس كو درميان سے ہٹا ديا جائے_

امامعليه‌السلام نے ان لوگوں كو اس كام سے منع كيا پھر اس كے بعد اس كے گھر كا پتہ پوچھ كر_ جو مدينہ سے باہر ايك كھيت ميں تھا_ تشريف لے گئے آپعليه‌السلام چوپائے پر سوار تھے جب اس كے كھيت ميں

۱۹۳

داخل ہوئے، وہ شخص چلانے لگا كہ ہمارے كھيت كو پامال نہ كريں حضرت نے كوئي پروا نہيں كى اور سوارى ہى كى حالت ميں اس كے پاس پہنچے اور سوارى سے اترنے كے بعد اس سے ہنس كر پوچھا: اس زراعت كے لئے كتنے پيسے تم نے خرچ كئے ہيں ؟ اس نے جواب ديا سو دينار_ آپ نے فرمايا : كتنے فائدے كى اميد ہے اس نے جواب ديا ''دوسو دينا'' _ آپ نے اس كو تين سو دينار مرحمت فرمائے اور كہا:'' زراعت بھى تيرى ہے، جس كى تو اميد لگائے ہوئے ہے خدا تجھكو اتنا ہى دے گا_ وہ شخص اٹھا اور اس نے امامعليه‌السلام موسى كاظم _كے سر كو بوسہ ديا اور اس نے اپنے گناہوں سے درگذر كرنے كى خواہش ظاہر كي_ امام مسكرائے اور پلٹ گئے اس كے بعد ايك دن وہ شخص مسجد ميں بيٹھا ہوا تھا كہ حضرت موسى ابن جعفرعليه‌السلام وہاں وارد ہوئے جب امامعليه‌السلام پر اس شخص كى نظر پڑى تو اس نے كہا: خدا بہتر جانتا ہے كہ اپنى رسالت كو كس خاندان ميں قرار دے_(۳۹) اس كے دوستوں نے اس سے تعجب سے پوچھا: كيا بات ہے؟ تم تو اس سے پہلے ان كو بہت برا بھلا كہتے تھے اس نے دوبارہ امام كے لئے دعا كى اور دوستوں سے الجھ پڑا_

امامعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے_ جو پہلے اس كو قتل كرنے كا ارادہ ركھتے تھے_ كہا كيا بہتر ہے، تمہارى نيت يا ہمارا سلوك جو اس كو راہ راست پر لانے كا باعث بنا؟(۴۰)

ج_ كام اور كوشش

امام موسى كاظم _كے پاس زراعت اور كھيتى تھى آپ خود اس كے كام ميں لگے رہتے تھے، حسن ابن علي_ آپ كے صحابى اور شاگرد_ اپنے باپ كا قول نقل كرتے ہيں ميں نے امام موسى ابن جعفرعليه‌السلام سے ان كے كھيت ميں اس حالت ميں ملاقات كى كہ وہ محنت و مشقت كى وجہ سے قدموں تك پسينے سے بھيگے ہوئے تھے_ ميں نے ان سے كہا: ميں آپ پر قربان جاؤں آپ كے آدمى (كام كرنے والے) كہاں ہيں ، آپ خود كيوں مشغول ہيں ؟

آپ نے فرمايا: مجھ سے اور ميرے والد سے بھى زيادہ بزرگ افراد اپنے كھيت ميں كام

۱۹۴

كرتے تھے ميں نے عرض كيا وہ كون لوگ ہيں ؟ آپ نے فرمايا: ميرے جد رسول خدا اور اميرالمؤمنينعليه‌السلام اور ہمارے آباء ، اس كے بعد آپ نے فرمايا: كھيتى باڑى پيغمبروں مرسلين اور صالحين كا كام ہے_(۴۱)

د_ سخاوت و كرم

جود و كرم، ساتويں امامعليه‌السلام كى صفتوں ميں سے ايك بڑى نماياں صفت تھي_ آپ نے اپنے مالى امكانات كو_ جو كھيتى باڑى كے ذريعہ آپ نے حاصل كئے تھے_ اس طرح ضرورت مندوں كے حوالہ كر ديتے تھے كہ مدينہ ميں ضرب المثل كے طور پر لوگ آپس ميں كہا كرتے تھے '' اس شخص پر تعجب ہے جس كے پاس موسى ابن جعفرعليه‌السلام كى بخشش و عطا كى تھيلى پہنچ چكى ہو ليكن وہ پھر بھى تنگ دستى كا اظہار كرے_(۴۲)

آپعليه‌السلام كى سخاوت و كرم كے بارے ميں ابن صباغ مالكى تحرير فرماتے ہيں : موسى كاظم _اپنے زمانہ كے لوگوں ميں سب سے زيادہ عابد، دانا اور پاك نفس شخص تھے_ آپعليه‌السلام پيسے اور كھانے پينے كا سامان مدينہ كے ستم رسيدہ افراد تك پہنچاتے اور كسى كو خبر بھى نہيں ہوتى تھى كہ يہ چيزيں كہاں سے آئي ہيں _ مگر آپ كى رحلت كے بعد پتہ چلا_(۴۳)

ايك شخص جس كا نام '' محمد ابن عبداللہ بكري'' تھا اپنے مطالبات كو وصول كرنے كے لئے مدينہ آيا ليكن اس كو كچھ نہيں ملا_ واپسى پر امام _سے ملاقات ہوئي اس نے اپنا ماجرا آپ كو سنايا_ امامعليه‌السلام نے حكم ديا كہ اس كو تين سو دينار سے بھرى تھيلى دى جائے تا كہ وہ خالى ہاتھ اپنے وطن واپس نہ جائے(۴۴)

ھ_ تواضع اور فروتني

امام موسى ابن جعفرعليه‌السلام ايك كالے چہرہ والے كريہہ المنظر شخص كے پاس سے گذرے آپعليه‌السلام نے اس كو سلام كيا اور اس كے پاس بيٹھ گئے اس سے باتيں كيں اور پھر اس كى حاجت پورى

۱۹۵

كرنے كے لئے اپنى آمادگى كا اظہار فرمايا آپ سے كہا گيا كہ اے فرزند رسول كيا آپ ايسے شخص كے پاس بيٹھتے ہيں اور اس كى حاجتيں پوچھتے ہيں ؟

آپ نے فرمايا: وہ خدا كے بندوں ميں سے ايك بندہ ہے اور خدا كى كتاب ميں وہ ايك بھائي ہے، اور خدا كے شہروں ميں وہ ہمسايہ ہے، حضرت آدمعليه‌السلام جو بہترين پدر ہيں ، اس كے باپ ہيں اور آئين اسلام جو تمام دينوں ميں برترين دين ہے اس نے ہم كو اور اس كو باہم ربط ديا ہے(۴۵)

۱۹۶

سوالات

۱_ امام موسى كاظم _كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور آپ نے اپنے والد بزرگوار كے ساتھ كتنے دن زندگى گذارى آپ كے والد و والدہ كا نام اور آپ كى سب سے مشہور كنيت اور لقب بيان كيجئے_

۲_ امام جعفر صادق _كے ارشادات ميں سے ايك قول جو آپ كے فرزند موسى ابن جعفر_ كى امامت كے بارے ميں ہے بيان فرمايئے

۳_ امام موسى كاظم _نے اپنے باپ كى علمى تحريك كو كن حالات ميں جارى ركھا_ اس زمانہ ميں اسلامى معاشرہ پر حكومت كرنے والے حاكم كے رويہ كا ايك نمونہ بيان فرمايئے

۴_ امام موسى كاظمعليه‌السلام كى علمى اور ثقافتى كوششوں كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ امامت كے محاذ كى نگہبانى كے لئے امام موسى كاظم _كے جہاد كا محور كيا چيزيں تھيں _

۶_ امام موسى كاظم _كس تاريخ كو كس طرح اور كہاں شہيد ہوئے؟

۱۹۷

حوالہ جات

۱ ابواء مكہ اور مدينہ كے درميان ايك جگہ كا نام ہے_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى والدہ گرامى جناب آمنہ بنت وہب كى قبر اسى جگہ ہے_

۲ بحار الانوار جلد ۴۸/ ۱_مناقب جلد ۴/۳۲۳ _

۳ بحار جلد ۴۸/۶، كافى جلد ۱/۳۹۸_

۴ انوار البھيتہ/۱۶۳_

۵ بحار جلد ۴۸/۳_

۶ بحار جلد ۴۸/۱۱_

۷ الصواعق المحرقہ /۲۰۳_

۸ بحار جلد ۴۸/۲۱_

۹ اعلام الوري/ ۲۹۱، ارشاد مفيد /۲۹۰، بحار جلد ۴۸/۲۰_

۱۰ بحار جلد ۴۸/۱۸_

۱۱ بحار جلد ۴۷/۳، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۳۲۰_

۱۲ شعوبيہ غير عرب لوگوں كے ايك گروہ كا نام ہے جو عمر كے زمانہ خلافت ميں نيشنلسٹ مخالف فكر كے ساتھ ظاہر ہوا اور اموى و عباسى دور حكومت ميں اس كو زيادہ رونق ملي_ يہ لوگ مسلمان معاشرہ ميں اختلاف اور شگاف ڈالنے كا اہم سبب بنے ''ك'' حياة الامام موسى ابن جعفرعليه‌السلام ج ۲/ ۱۱۰_ ۱۱۷ اور واہ نامہ اجتماعى و سياسى مضقہ حسين رہجو /۱۱۴۰_

۱۳ رجال كشى /۲۶۶، معجم رجال الحديث جلد ۱۹/۲۷۹_ ۲۷۸_

۱۴ انوار البھيّة/ ۱۷۰_ ۱۶۹_

۱۵ مرحوم شيخ طوسى نے اپنى ( كتاب) رجال ميں موسى ابن جعفرعليه‌السلام كے شاگردوں كى تعداد دو سو بہتر ۲۷۲ لكھى ہے ليكن حياة الامام موسى ابن جعفرعليه‌السلام كے مؤلف محترم نے امام كے تين سو اكيس ۳۲۱ شاگردوں كے تفصيلى حالات درج كئے ہيں حياة الامام موسىعليه‌السلام جلد ۲/۳۷۴_ ۲۲۴_

۱۶ رجال كشى /۵۹۱_

۱۹۸

۱۷ من احبّ بقائہم فہو منہم من كان منہم كان وَرَدَ النار رجال كشي/۴۴۱ ، معجم رجال الحديث جلد ۹/۱۲۲_

۱۸يا زياد لان اسقط من شاهق فاتقطّع قطعةً قطعةً احبُّ اليَّ من ان التوّلى منهم عملاً او اطا بساط رجل: منهم '' مكاسب شيخ مرتضى انصارى باب ولايت جائر/ ۴۸ و تنقيح المقال مامقانى ج ۱/۴۵۳_

۱۹ رجال كشى /۴۳۳_

۲۰ بحار ۴۷/۱۳۶_

۲۱ رجال كشى /۴۳۳، بحار جلد ۴۸/۱۳۶_

۲۲ ارشاد مفيد /۲۹۸، تاريخ بغداد جلد ۱۳/۳۱، مناقب جلد ۴/۳۲۰، اعلام الورى /۱۹۷، الصواعق المحرقہ/۲۰۴، تذكرة الخواص/۳۱۴، بحار جلد ۴۸/۱۰۳، احتجاج طبرسى جلد ۲/۱۶۷_

۲۳ عيون اخبار الرضا جلد ۱/۶۸، احتجاج طبرسى جلد ۲/۱۶۳، بحار جلد ۴۸/۱۲۹_ ۱۲۵_

۲۴ يہ حسين ابن على ابن حسن ابن حسين ابن على ابن ابيطالب ہيں چونكہ سرزمين ''فخ'' ميں جو مكہ سے ايك فرسخ كے فاصلہ پر واقع ہے_ عباسى سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے اس لئے '' صاحب فخ'' يا '' شہيد فسخ''كے نام سے مشہور ہوئے_

۲۵ مقاتل الطالبين /۴۵۷ نشر دار المعرفة بيروت تحت عنوان ذكر من خرج مع الحسين _ حسين ابن على اور يحى ابن عبداللہ كى باتوں كا متن ملاحظہ ہو ''ما خرجنا حتى شاورنا اهل بيتنا و شاورنا موسى ابن جعفر فامرنا بالخروج'' _

۲۶ مقاتل الطالبين''مضى و اللہ مسلماً صالحاً صوّاماً قوّاماً آمراً بالمعروف ناہيا عن المنكر ما كان من اہل بيتہ مثلہ ''_

۲۷ بحار جلد ۴۸/۱۵۱ ''و الله ما خرج حسين الا عن امره و لا عن امره و لا اتبع الا محبته لانه صاحب الوصيته فى اهل هذا البيت قتلنى الله ان ابقيتُ عليه'' _

۲۸ وفيات الاعيان جلد ۲/۲۵۶_

۲۹ بحار الانوار جلد ۴۸/۲۱۳،۲۳۲،ارشاد مفيد/۳۰۰، مقاتل الطالبين/۳۳۴_

۳۰ساصرفٌ عن آياتى الذين يتكبرون فى الارض بغيرالحق و ان يروا كل آية: لا يؤمنوا بها و ان يروا سبيل الرشد لا يتخذه سبيلا و ان يروا سبيل الغى يتخذه سبيلا ذلك بانّهم كذّبوا باآياتنا و كانوا عنها غافلون _

۱۹۹

۳۱ ''اُخذَت منه آمرةً و لا ياخذهاالا معمورة'' بحار جلد ۴۸/۱۳۸ ،تفسير عياشى جلد ۲/۳۰، تفسير برہان جلد ۲/۳۷ شايد اس آخرى جملہ سے امام كى مراد يہ ہو كہ جب تك گھر كو آبادكرنے كا امكان نہ ہو اس وقت تك اس كو واپس نہيں ليں گے اور اس وقت اس كا وقت نہيں ہے_

۳۲ الفصول المھمة /۲۳۹ ، مناقب جلد ۴/۳۲۷، ارشاد مفيد/۳۰۰، اعلام الورى /۲۹۹، مقاتل الطالبين /۳۳۴_

۳۳ ہارون كے زندان ميں امام كتنے دنوں تك رہے اس ميں اختلاف ہے چارسال، دس سال، بھى مذكور ہے_ تذكرة الخواص/۳۱۴ سيرة الائمة الاثنى عشر جلد ۲/۳۵۱، بحار جلد ۴۸/۲۰۶_ ۲۲۸ ، مہدى عباسى كى قيد ميں جتنے دنوں رہے يہ مدت اس كے علاوہ ہے_

۳۴ الفصول المہمہ /۲۴۱، انوار البھيہ /۱۸۱، تاريخ ابوالفداء جلد ۲/۱۶ يہ بتا دينا ضرورى ہے كہ امام موسى كاظم اور مام جواد عليہما السلام كے مرقد اطہر آج كل كاظمين كے نام سے مشہور ہيں _

۳۵اللهم انّى طالماً كُنتُ اَسئَلُكَ اَن تُفَرّغَنى لعبادتك وَ قَد استَجَبتَ منّى فلك الحمد على ذالك'' مناقب جلد ۴/۳۱۸ ، بحار جلد ۸، ارشاد مفيد /۳۰۰، الفصول المہمہ /۲۴۰_ تھوڑے سے فرق كے ساتھ_ امام كا يہ جملہ زندان جانے سے پہلے آپ كے اجتماعى كام ميں مشغوليت كى شدّت كو بيان كرتا ہے_

۳۶ بحار جلد ۴۸/۱۰۸، حياة الامام موسى بن جعفرعليه‌السلام جلد ۱/۱۴۲_ ۱۴۰_ عيون اخبار الرضا جلد ۱/۷۸_ ۷۷_

۳۷ ارشاد مفيد /۲۹۶، مناقب جلد ۴/۳۱۸، اعلام الورى /۲۹۶_

۳۸الصلوة على موسى بن جعفر عليه‌السلام الذى يحيى الليل بالسهر الى السّحر بمواصلة الاستغفار حليف السجدة و الدموع الغزيرةَ و المناجاتَ الكثيرة الضّراعات و الضراعات المتصلة _ انوار البہيہ مرحوم شيخ عباس قمي/۱۸۸_

۳۹ اللہ اعلم حيث يجعل رسالتہ _

۴۰ ارشاد مفيد/۲۹۷، تاريخ بغداد جلد ۱۳/۲۸، مناقب جلد۴/۳۱۹، دلائل الامامہ /۱۵۱ _ ۱۵۰، بحار ج ۴۸/۱۰۳_۱۰۲، اعلام الورى /۲۹۶، مقاتل الطالبين /۳۳۲_

۲۰۰