تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146718
ڈاؤنلوڈ: 3024


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146718 / ڈاؤنلوڈ: 3024
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: تاريخ اسلام ۴ (حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومينعليه‌السلام كى حيات طيبہ)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: چوتھي

اشاعت: دوسری

تاريخ اشاعت: رجب المرجب ۱۴۲۸ ھ_ق

تعداد: ۳۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

عرض ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب تاريخ اسلام ۴ (حضرت زہرا (س) اور ائمہ معصومينعليه‌السلام كى حيات طيبہ )جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت اطہارعليه‌السلام كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

اب خداوند متعال كے لطف و كرم سے اس نفيس سلسلے كى چوتھى اور آخرى جلد كو نظر ثانى اور تصحيح كے بعد زيور طبع سے آراستہ كركے اردو زبان قارئين كى خدمت ميں پيش كيا جارہاہے_

آخر ميں تمام مترجمين اور تصحيح كرنے والے حضرات كے شكر گزار ہيں اور دعاگو ہيں كہ پروردگار عالم ہم سب كو سيرت معصومين (عليہم السلام) پر عمل پيرا ہونے كى توفيق عنايت فرمائے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۴

پہلا سبق:

حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے حالات (پہلا حصہ)

۵

ائمہ طاہرين اور ان كى تعداد

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشينوں اور لوگوں كے دين و دنيا كے پيشواؤں كى تعداد بارہ ہے اور اس سلسلہ ميں عامہ اور خاصہ دونوں ہى نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سى روايتيں نقل كى ہيں يہاں تك كہ ان ميں سے بہت سى روايتوں ميں ائمہ معصومينعليه‌السلام كے ناموں كى صراحت بھى موجود ہے(۱) _

ان حضرات كى تعداد اور ناموں پر رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نص كے علاوہ ہر امامعليه‌السلام نے خدا كے حكم سے اپنے بعد والے امامعليه‌السلام كا تعارف بھى كراياہے_ جيسا كہ پہلے امام حضرت امير المؤمنين نے شہادت كے وقت اپنے بيٹے امام حسنعليه‌السلام كے نام كى تصريح فرمادى تھى اور امام حسنعليه‌السلام نے بھى اپنى وفات كے وقت اپنے بھائي امام حسينعليه‌السلام كے عہدہ امامت كا اعلان كرديا تھا نيزيہى عمل تمام ائمہ معصومينعليه‌السلام نے انجام ديا_

ائمہ معصومين كے نام:

۱ _ حضرت امير المؤمنين على بن ابيطالبعليه‌السلام

۲ _ حضرت امام حسن مجتبىعليه‌السلام

۳ _ حضرت امام حسينعليه‌السلام

۴ _ حضرت امام سجادعليه‌السلام

۶

۵ _ حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام

۶ _ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام

۷ _ حضرت امام موسى كاظمعليه‌السلام

۸ _ حضرت اما م رضاعليه‌السلام

۹_ حضرت امام محمد تقىعليه‌السلام

۱۰_ حضرت امام على النقىعليه‌السلام

۱۱ _ حضرت امام حسن العسكرىعليه‌السلام

۱۲ _ حضرت امام مہدى (حجة بن الحسن)عليه‌السلام

ائمہ معصومين كى سيرت

ہمارے بارہ امام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كى تعليم و تربيت كا كامل نمونہ تھے، ان حضرات كى سيرت ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى سيرت تھى _

البتہ دو سو پچاس سال كى مدت (يعنى ۱۱ ھ ق سے ليكر ۲۶۰ ھ ق ) تك جب يہ معصومينعليه‌السلام حضرات لوگوں كے درميان موجود تھے اس زمانہ ميں مختلف حالات پيش آتے رہے كہ جن ميں ائمہ معصومينعليه‌السلام كى زندگى مختلف شكلوں ميں جلوہ گر ہوتى رہى ليكن پھر بھى انہوں نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كے اصلى مقصد يعنى اسلام كى نشر و اشاعت اور اصول و فروع كو تغيير و تبديلى اور تحريف سے محفوظ ركھنے نيز ممكنہ حد تك لوگوں كى تعليم و تربيت تا سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ۲۳ سالہ تبليغى دور ميں زندگى كے تين مرحلوں سے گزرے ہيں ، چنانچہ بعثت كے شروع كے تين سال آپ نے پوشيدہ طور پرتبليغ كرنے ميں گزارے، اس كے بعد دس سال تك مسلسل مكہ ميں على الاعلان لوگوں كو دعوت اسلام ديتے رہے جس ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے

۷

پيروكار دونوں ہى دشمنان اسلام كى طرف سے ڈھائے جانے والے سخت مظالم اور آزار كا شكار رہے ، اس دور ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كودين اسلام كى تبليغ كے لئے كسى طرح كى آزادى حاصل نہيں تھى _ پھر آخر كے دس سال اس حالت ميں گزرے كہ حكومت اسلامى كى بنياد ركھى گئي اور اسلام نے اپنى فاتحانہ ترقى اور پيش قدمى كو جارى ركھا اور ہر لحظہ مسلمانوں پر كمال و دانش كے دروازے كھلتے رہے_

ائمہ معصومين گوناگوں حالات سے دوچار تھے_ ان كے زمانے كى صورت حال، پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہجرت كے پہلے والے زمانہ كے ساتھ بہت زيادہ مشابہت ركھتى تھى كبھى توبعثت كے پہلے تين سالوں كى طرح ، كسى صورت سے بھى اظہار حق ممكن نہ تھا اسى وجہ سے يہ حضرات بھى نہايت احتياط كے ساتھ اپنے فرائض پر عمل كرتے رہے ہيں جيسا كہ چوتھے امام حضرت زين العابدينعليه‌السلام نے يہى كيا_

اور كبھى ہجرت سے دس سال پہلے كى طرح صرف نشر احكام اور معارف دين كى تعليم ديتے اور افراد كى تربيت كرتے تھے ادھر حكاّم بھى ايذا رسانى سے باز نہيں آتے تھے اور ہر روز ايك نئي مشكل پيدا كرديتے تھے_

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت كے بعد كے حالات سے كسى حد تك حضرت امام علىعليه‌السلام كے پانچ سالہ دور حكومت كے حالات اور حضرت امام حسنعليه‌السلام كى زندگى كے تھوڑے دنوں كے حالات كے مشابہ تھے_ نيز اسى طرح كى صورت حال حضرت امام حسينعليه‌السلام كى زندگى ميں بھى پيش آئي،جس ميں حق مكمل طور پر جلوہ گر ہوا اور اس نے شفاف آئينہ كى طرح پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ كے عمومى حالات كو پيش كيا_

اس زمانہ كے علاوہ كہ جس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور كسى بھى زمانہ ميں ائمہ معصومين نے آشكارہ طور پروقت كے حكمرانوں كى مخالفت نہيں كى اور نہ ہى ان سے كھلم كھلا برسر پيكار ہوسكے اسى وجہ سے ان كے لئے قول و عمل ميں تقيہ ناگزير تھا _ اس كے باوجود بھى ان كے دشمن، ان كى شمع حيات كو گل كرنے اور ان كے آثار كو مٹانے كى كوششوں ميں لگے رہے_

۸

اختلاف كى اصل وجہ

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد اسلامى معاشرہ ميں مختلف حكومتيں بنيں اور انہوں نے اپنے آپ كو حكومت اسلامى كا نام ديا_ بنيادى طور پر يہ تمام حكومتيں اہل بيت كى مخالف تھيں _

نيز يہ مخالفت اور دشمنى ناقابل آشتى ،بنيادى اور اعتقادى تھي_ يہ صحيح ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى احاديث ميں اپنے اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل و مناقب بيان فرمائے ہيں كہ جن ميں سے ايك اہم ترين سمجھى جانے والى بات يہ ہے كہ اہل بيتعليه‌السلام ،احكام دين ،معارف قرآن اور خدا كى حلال و حرام كردہ چيزوں سے مكمل طور پر آگاہ تھے اور وہ انھيں لوگوں كے لئے بيان فرماتے تھے نتيجہ ميں ان كى تعظيم اور احترام تمام امت پرلازم تھا، ليكن امت نے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اس وصيت كاحق ادا نہيں كيا_

مختلف مقامات خصوصاً غدير خم ميں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنا جانشين معين فرماديا تھا، ليكن اس كے برخلاف كچھ مسلمانوں نے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد دوسروں كو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جانشين چن ليا اوراہل بيتعليه‌السلام كوان كے مسلّم حق سے محروم كرديا_ نتيجہ ميں حكومت وقت ،اہل بيت كوہميشہ اپناخطرناك رقيب شمار كرتى رہى اور مختلف طريقوں سے انہيں ختم كردينے يا گوشہ نشين بنادينے كى كوشش ميں لگى رہى _ائمہ معصومين پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اعظم كى سيرت كوامت اسلامى كے سامنے پيش كرتے تھے، حكومت اسلامى كے فرائض كى رعايت اور اسلام كے تمام احكام كے اجراء كو ضرورى سمجھتے تھے_ ليكن پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد تشكيل پانے والى حكومت ، احكام اسلامى كى مكمل رعايت اور سيرت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى متابعت كى پابندى نہيں كرتى تھى بلكہ ہميشہ اپنى نفسانى اور سياسى خواہشوں كے مطابق احكام اور قوانين كى تفسير كرتى رہى ، اميرالمؤمنين _ان كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ :

'' بيشك يہ دين اشرار كے ہاتھوں ميں اسير، نيز ہوا وہوس اور دنيا طلبى كا ذريعہ ہوگياہے''(۲)

ابن ابى الحديد شرح نہج البلاغہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كى خصوصيات كوبيان كرنے ہوئے فرماتے

۹

ہيں :

''حضرت على _شريعت كے پابند تھے اور جو كچھ دين كے خلاف تھا اس كو يكسر نظر انداز كر ديتے تھے اور اس پر عمل نہيں كرتے تھے_''

اسى طرح حضرت علىعليه‌السلام خود فرماتے ہيں كہ :

'' اگر دين و تقوى مانع نہ ہوتا توميں عرب كا زيرك ترين شخص ہوتا_''

ليكن دوسرے خلفاء نے جو خود بہتر سمجھا اور جوان كى رائے كے مطابق تھا اسى پر عمل كيا، چاہے وہ شرع كے مطابق ہو يا نہ ہو _(۳)

خداوند عالم نے چند آيات ميں امت اسلامى كوحتى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو احكام اسلامى ميں تبديلى كرنے سے منع كيا ہے_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے بھى ان ناقابل تغيير احكام اور قوانين كى روشنى ميں لوگوں كے درميان ايسى روش اختيار كى كہ جس سے قوانين الہى كے اجراء ميں زمان ، مكان اوراشخاص كے اعتبار سے كوئي فرق نہ رہ جاتا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت طيبہ كا مقصد صرف يہ تھا كہ احكام آسمانى ،لوگوں كے درميان عادلانہ اور مساوى طور پر جارى ہوسكيں اوراسلام كے قوانين ميں كوئي تبديلى اور تحريف واقع نہ ہو اسى روش كے ذريعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كے درميان ہر طرح كے امتياز كو ختم كرديا حتى كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خدا كے حكم سے واجب الاطاعت حاكم اور فرمانروا قرار پائے _پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ان كى زندگى ميں بجز اس امتياز كے كہ جو دستور خداوندى كے وجہ سے تھا ذرہ برابر بھى لوگوں كى بہ نسبت كوئي امتياز نہ تھا _

ليكن ائمہ معصومين كے زمانہ ميں برسر اقتدار حكومتوں نے ظاہرى لحاظ سے بھى اپنى سيرت كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت سے منطبق نہيں كيا اور اپنى راہ و روش كو يكسر بدل ڈالا_

۱_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى رحلت كے بعد اسلامى معاشرہ ميں شديدترين اختلافات رونما ہوئے اور امت اسلامي، طاقتور اور كمزور دو دستوں ميں تقسيم ہوگئي _(۴) اور ايك گروہ كى عزت و آبرو اور جان ومال دوسرے گروہ كى ہوا وہوس كا بازيچہ بن گئي _

۱۰

۲_ نام نہاد اسلامى حكومتيں تدريجاً قوانين اسلامى كو بدلنے لگيں اوركبھى اسلامى معاشرہ كى مصلحت كو بالائے طاق ركھتے ہوئے اپنى حكومت اور اقتدار كے تحفظ كى خاطر احكام الہى پر عمل كرنے سے كتراتى تھيں اور اسلامى دستور و قوانين كى مخالفت كرتى تھيں _

يہ روش روز بروز وسعت پاتى گئي اورنوبت يہاں تك پہونچى كہ زمامداران حكومت اور كام كرنے والوں ميں ذرّہ برابر احكام اسلامى اور دينى حدود كى پابندى كا پاس و لحاظ نہ رہا_

ليكن ائمہ معصومين ، قرآن كے حكم كے مطابق احكام اسلام اور سيرت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اجراء كو ہميشہ اور تمام لوگوں كے لئے لازم جانتے تھے، اسى اختلاف اور تضاد كى بناپر اس وقت كى حكومتيں اپنى طاقت كا فائدہ اٹھاتے ہوئے ائمہ معصومين كى حيثيت كوكمزور بنانے اور ان كومعاشرے اور لوگوں سے دور كرنے كى كوششيں كرتى رہيں اور ہر ممكن طريقہ سے ان كے نور كوگل كرنے ميں لگى رہيں _(۵)

اہل بيت شديد مشكلات سے دوچاررہے اور سخت ترين كينہ توز دشمنوں ميں رہنے كے باوجود بھى حقائق دين كى تبليغ كرتے رہے اور صالح افراد كى تربيت سے دست بردار نہ ہوئے_

ان كى مسلسل تعليم و تربيت ہى كا اثر تھا كہ حق كے پيرو كاروں كى تعداد، رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت مختصر ہونے كے باوجود اواخر عصر ائمہعليه‌السلام ميں كثير ہوگئي_

على ابن ابيطالب _

مذكورہ بالا مقدمہ ميں ہم نے ائمہ معصومينعليه‌السلام كى عمومى سيرت اورانكى معاصرحكومتوں كا اجمالى ذكر كيا ہے نيز ان كے درميان اختلاف كے اسباب كى تحقيق پيش كر دى ہے ،اور اب ہم ائمہ معصومينعليه‌السلام كى سوانح عمرى كے بارے ميں بقدر گنجائشے دروس بيان كريں گے يہ توواضح ہے كہ تمام معصوم پيشواؤں كى مكمل علمى ، سياسى اور اجتماعى زندگى كو چند گھنٹوں ميں بيان نہيں كيا جاسكتا_ لہذا

۱۱

مختصر وقت كے پيش نظر، رہبران الہى كى زندگى كا سرسرى جائزہ ہى پيش كيا جارہا ہے_

ابتدا پہلے امام حضرت اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى زندگى سے كى جارہى ہے_ آپعليه‌السلام كى زندگى كو پانچ حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

الف_ ولادت سے بعثت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك

ب_ بعثت سے ہجرت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك

ج_ ہجرت سے رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك

د_ رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خلافت تك

ہ_ خلافت سے شہادت تك

اب ہم ان پانچوں حصوں ميں سے ہر حصہ كے بارے ميں بحث كا نچوڑ پيش كريں گے_

ولادت سے بعثت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك

حضرت على بن ابى طالب _جمعہ كے دن ۱۳ رجب ۳۰ ھ ق عام الفيل (بعثت سے دس سال پہلے) خانہ خدا ميں پيدا ہوئے_(۶) ان كے پدر عاليقدر '' عمران''(۷) ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف تھے اور ان كى والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں _

حضرت على _نے چھ سال كى عمر تك اپنے والدين كے پاس زندگى گزارى اس كے بعد حضرت محمد ابن عبداللہ كى درخواست پر اُن كے پاس چلے آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دامن تربيت ميں رہے_(۸)

حضرت علىعليه‌السلام اپنے اس زمانہ كے بارے ميں يوں فرماتے ہيں :

وَضَعنى فى حجْره وَ اَنا وَلَدٌ يَضُمُنى الى صَدْره وَ يَكْنُفنُى فى فَراشه وَ يُمسُّنّى جَسَدَه وَ يُشمَنّى عَرْفَهُ

۱۲

و كانَ يَمْضَغْ الشيء ثمَّ يُلقمنيه ...وَ لَقَد كُنتُ أتَّبعُهُ أتَّبعُهُ إتّباع الفَضيل أثر اُمّه، يَرفَعُ لى فى كُلّ يوم: من اخلاقه علماً و يا مُرنى بالاقتداء به، وَ لَقَدْ كان يُجاور فى كل سُنَة: بحراء فاراه و لا يراه غيري (۹)

'' بچپن ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے اپنى آغوش ميں ليتے اپنے سينہ سے لگاتے اور اپنى مخصوص آرامگاہ پر جگہ ديتے اپنا جسم اقدس ميرے جسم سے مس كرتے اور اپنى خوشبو سے ميرے مشام جاں كو معطر فرماتے غذا چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے _''

ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس طرح پيروى كرتا تھا كہ جيسے ( اونٹ كا ) شير خوار بچہ اپنى ماں كے پيچھے پيچھے چلتا ہے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز ميرے لئے اپنے اخلاق كا عَلَم بلند كرتے تھے اورمجھے حكم ديتے تھے كہ ميں ان كے كردار كى پيروى كروں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر سال ''غارحرا'' ميں تشريف لے جاتے تھے اور اس وقت ميرے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو،كوئي ديكھ نہيں پاتا تھا_''

خورشيد رسالت كا اعلى كردار، حسن رفتار ، عدالت پسندى ، انسان دوستى اور خدا پرستى حضرت عليعليه‌السلام كى انفرادى اور اجتماعى زندگى كے خطوط معين كرنے كے لئے بہترين نمونہ اور سرمشق عمل ہے_

بعثت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت تك

حضرت على _ ابھى نوجوان تھے اور آپعليه‌السلام كا سن دس سال سے زيادہ نہيں ہوا تھا ليكن پھر بھى آپعليه‌السلام كى فكراور آگاہى اتنى تھى كہ جب حضرت محمد مصطفى صلى اللہ على و آلہ و سلم نے اپنى پيغمبرى كا اعلان فرمايا تو آپعليه‌السلام نے سب سے پہلے ايمان كا اعلان فرمايا(۱۰) اس سلسلہ ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :

لم يجمع بيتٌ واحدٌ يومئذ: فى الاسلام غير رسول و خديجه و انا ثالثهما ارى نور الوحى و الرسالة و اشمّ

۱۳

ريح النبوة _''(۱۱)

اس زمانہ ميں جب اسلام كسى گھر ميں نہيں پہونچا تھا _ فقط پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كى بيوى خديجہ مسلمان تھيں اور تيسرا ميں مسلمان تھا_ ميں نور وحى كو ديكھتا اور نبوت كى خوشبو سونگھتا تھا_''

جب آيہ( و انذر عشيرتك الاقربين ) (۱۲) نازل ہوئي تو حضرت عليعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اپنے رشتہ داروں ميں سے چاليس افراد كو منجملہ اپنے چچا ابولہب ، عباس اور حمزہ و غيرہ كو مہمان بلايا_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كھانے پينے كے بعد فرمايا:

'' اے فرزندان عبدالمطلب ميں جو چيز تمہارے لئے لايا ہوں مجھے نہيں معلوم كہ عرب كے جوانوں ميں سے كوئي بھى اس سے بہتر چيز تمہارے لئے لايا ہو_ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت كى بھلائي نيز خير و سعادت كا تحفہ لايا ہوں _ خدا نے حكم ديا ہے كہ ميں تم كو اس كى طرف بلاؤں تم ميں سے كون ہے جو اس راستہ ميں ميرى مدد كرے تا كہ وہى ميرا بھائي ،ميرا وصى اور ميرا جانشين قرار پائے؟''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تين بار يہ بات دہرائي اور ہر بار تنہا حضرت علىعليه‌السلام ہى كھڑے ہوئے اور انہوں نے اسى امر ميں اپنى آمادگى كا اعلان فرمايا_

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

'' يہ (علىعليه‌السلام ) ہى ميرے بھائي ، ميرے وصى اور ميرے جانشين ہيں ان كى باتوں كو سنو اور ان كى اطاعت كرو_(۱۳) ''

حضرت عليہ _نے مكہ كى پورى تيرہ سالہ زندگى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں گزارى اور وحى الہى كو مكتوب فرماتے رہے_

علىعليه‌السلام ، بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

اظہار اسلام كى بناپر قريش كے سر برآوردہ افراد نے اپنى تسلّط طلب خواہشوں كى راہ ميں

۱۴

وجود پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خطرناك تصور كيا_ اسى وجہ سے '' دارالندوہ'' ميں جمع ہوئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے برسر پيكارہونے كے لئے آپس ميں مشورہ كرنے لگے_ آخر ميں يہ طے پايا كہ ہر قبيلہ سے ايك ايك آدمى چنا جائے تا كہ رات كو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پر حملہ كيا جائے اور سب مل كر ان كو قتل كرديں _ پيغمبراكرم ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحى الہى كے ذريعہ كى ان سازشوں سے آگاہ ہوگئے اور يہ حكم ملا كہ راتوں رات مكہ كى طرف ہجرت كرجائيں _(۱۴) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام سے فرمايا: كہ '' آپعليه‌السلام ميرے بستر پر اس طرح سوجاؤ كہ كسى كو يہ معلوم نہ ہونے پائے كہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جگہ كون سورہا ہے_''

حضرت علىعليه‌السلام كى يہ فدا كارى اتنى اہميت اور قدر و منزلت كى حامل تھى كہ مختلف روايات(۱۵) كى بناپر خدا نے يہاں پر يہ آيت نازل كى :

( و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله و الله رؤف بالعباد ) (۱۶)

لوگوں ميں سے كچھ ايسے ہيں جو رضائے خدا كى راہ ميں اپنا نفس بيچ ديتے ہيں اور خدا، اپنے بندوں پر مہربان ہے_

ہجرت سے رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك

الف_ علىعليه‌السلام ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے امين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب ہجرت كا حكم ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان كے افراد اور قبيلہ كے درميان حضرت علىعليه‌السلام سے زيادہ كسى كو امانت دار نہيں پايا_ اسى وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اپنا جانشين بناياتا كہ وہ لوگوں كى امانتيں ان تك پہنچاديں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا قرض ادا كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دختر حضرت فاطمہ زہراءعليه‌السلام اور دوسرى عورتوں كو مدينہ پہنچاديں _

حضرت على _، پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر عمل كرنے كے بعد، اپنى والدہ گرامى جناب فاطمہ بنت

۱۵

اسد ، بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا ،زبير كى بيٹى فاطمہ اور كچھ دوسرے لوگوں كے ساتھ مدينہ روانہ ہوئے اور مقام '' قبا''(۱۷) ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم سے جاملے_(۱۸)

ب_ علىعليه‌السلام اور راہ خدا ميں جہاد

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مدينہ ہجرت كرنے كے بعد راہ حق ميں اپنى جان كى بازى لگانے والوں اور جان كى پروا، نہ كرنے والوں ميں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اصحاب كے درميان حضرت علىعليه‌السلام بے نظير تھے _ آپعليه‌السلام غزوہ تبوك كے علاوہ _ كہ جس ميں آپعليه‌السلام ، پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے مدينہ ميں رك گئے تھے_ تمام غزوات ميں موجود رہے_ اور زيادہ تر آپعليه‌السلام كى فداكارى وايثار كے سبب ،لشكر اسلام نے لشكر كفر و شرك پر غلبہ حاصل كيا_ آپعليه‌السلام نے ہميشہ اپنے دشمن و مد مقابل كو شكست دى اور كبھى بھى دشمن كو پيٹھ نہيں دكھائي اور فرمايا كہ اگر تمام عرب ايك كے پيچھے ايك مجھ سے لڑيں تو ميں اس جنگ ميں پيٹھ پھير نے والا نہيں ہوں _(۱۹)

بلاخوف و ترديد يہ بات كہى جاسكتى ہے كہ اگر اس جانباز اسلام كى جانبازياں اور فداكارياں نہ ہوتيں تو بعيد نہيں تھا كہ بدر ،احد ، خندق اورخيبر يا كسى بھى جنگ ميں كفار و مشركين، چراغ رسالت كوبا آسانى گل كر كے پرچم حق كو سرنگوں كرديتے_

اس مقام پرمولا علىعليه‌السلام كى جنگ خندق و خيبر كے دو ميدانوں كى فداكاريوں كو بيان كرتے ہوئے اب ہم آگے بڑھيں گے_

۱_ اسلام دشمن مختلف گروہوں نے ايك دوسرے سے ہاتھ ملاليا تا كہ يك بيك مدينہ پر حملہ كركے اسلام كوختم كرديں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے جناب سلمان فارسى كى پيشكش پر حكم ديا كہ مدينہ كى ان اطراف ميں خندق كھود دى جائے كہ جہاں سے دشمن كے داخل ہونے كا خطرہ ہے_

خندق كے دونوں طرف دونوں لشكر ٹھہرے ہوئے تھے ، كہ عرب كا نامى گرامى جنگجو '' عمروبن عبدود'' دشمن كے لشكر سے خندق كو پاركر كے رجز پڑھتااور مبارزہ طلبى كرتا ہوا آيا_حضرت عليعليه‌السلام نے

۱۶

قدم آگے بڑھائے دونوں ميں گفتگو كے بعد ''عمرو'' گھوڑے سے اتر پڑا اور اس نے گھوڑے كو پے كرديا ، تلوار لے كر حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہواتو امامعليه‌السلام نے دشمن كے وار كو اپنى ڈھال پر روكا اور اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ايك ضرب سے اس كو زمين پرگراديا پھر قتل كرڈالا_ ''عمرو'' كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ ميدان سے بھاگ كھڑے ہوئے اور جورہ گئے وہ امام كى تلوار ذوالفقار كے لقمہ بن گئے(۲۰) _ جب امام _فاتحانہ واپس آئے تو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمايا: '' اگر تمہارى آج كى جنگ كو امت اسلام كے تمام پسنديدہ اعمال سے تو لاجائے تو تمہارا يہ عمل سب سے برتر ہے _(۲۱) ''

۲_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم نے يہوديوں كے مركز، خيبر كا محاصرہ كيا اس غزوہ ميں آنكھوں كے درد كے سبب حضرت عليعليه‌السلام جنگ ميں شامل نہ تھے_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو مسلمانوں كو پرچم ديا اور وہ دونوں ہى كاميابى حاصل كرنے سے پہلے ہى واپس آگئے ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: '' پرچم ان كاحق نہيں تھا علىعليه‌السلام كو بلاؤ '' لوگوں نے عرض كياكہ '' ان كى آنكھوں ميں درد ہے'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: '' ان كو بلا لاؤ وہ، وہ ہيں جن كو خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست ركھتا ہے اور وہ بھى خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دوست ركھتے ہيں

جب حضرت على _تشريف لائے تو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: '' عليعليه‌السلام كيا تكليف ہے؟'' تو حضرت علىعليه‌السلام نے كہا: '' آنكھوں ميں تكليف ہے_''

اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كے لئے دعا فرمائي اور ان كى آنكھوں پر اپنا لعاب دہن لگايا_ كہ جس سے حضرت علىعليه‌السلام كى آنكھوں كا درد ختم ہوگيا،جب حضرت عليعليه‌السلام نے سفيد پرچم لہرايا_تو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمايا: '' جبرئيل تمہارے ساتھ ہيں اوركاميابى تمہارے آگے آگے ہے ، خدا نے ان لوگوں كے دلوں ميں خوف وہراس ڈال ديا ہے ...''

حضرت علىعليه‌السلام ميدان ميں گئے توسب سے پہلے مرحب سے سامنا ہوا كچھ باتيں ہوئيں اور آخر كار اس كوزمين پرگراديا _يہودى قلعہ كے اندر چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا_ امام _دروازہ

۱۷

كے پيچھے آئے اور جس دروازہ كو بيس آدمى بند كرتے تھے اس كو اكيلے كھولا اور اس كو اپنى جگہ سے اكھاڑ اور يہوديوں كى خندق پرڈال ديا يہاں تك كہ مسلمان اس كے اوپر سے گزر كر كامياب ہوئے_(۲۲)

ج_ عليعليه‌السلام اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشيني

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد ،مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور ولايت كے مسئلہ ميں صرف اپنى پوشيدہ دعوت اور اعلان پرہى اكتفا نہيں كياتھا بلكہ جس طرح كہ ہم ذكر كرچكے ہيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت اورتبليغ كے پہلے ہى دن سے مسئلہ ولايت كو توحيد و نبوت كے ساتھ صريحاً بيان فرمادياتھا_ اور پھر خصوصيات و فضائل كے مجموعہ حضرت على _كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس، خدا كا يہ فرمان موجود تھا كہ دين و دنيا كے امور ميں عليعليه‌السلام كى ولايت و سرپرستى اور اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلان فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كام كو مختلف مواقع پر منجملہ ''غديرخم'' ميں انجام ديا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۱۰ھ فريضہ حج كى انجام دہى كے لئے مكہ كا قصد فرمايا، مورخين نے اس سفر ميں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھيوں كى تعداد ايك لاكھ چو بيس ہزار لكھى ہے _(۲۳) حج سے واپسى پر ۱۸ذى الحجہ كو صحراء جحفہ كى ''غدير خم '' نامى جگہ پر پہنچے_ منادى نے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اعلان كيا '' الصلوة جامعة'' سب لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے گرد جمع ہوگئے_ اونٹوں كے پالانوں سے ايك بلند جگہ منبربنايا گيا اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر تشريف لے گئے، حمد خدا اور مفصل خطبہ كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: اے لوگو مؤمنين پر ولايت و سرپرستى كا زيادہ حق كون ركھتا ہے؟ تو لوگوں نے كہا: خدا اوراس كا پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زيادہ بہتر جانتے ہيں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :ميرا ولى خدا ہے اور ميں مومنين پر خود ان كے نفسوں سے زيادہ حق ركھتا ہوں اور پھر فرمايا''من كنت مولاه فهذا عليٌ مولا'' (۲۴) جس كا ميں سرپرست و ولى ہوں يہ عليعليه‌السلام بھى اس كے سرپرست وولى ہيں خدايا ان كے دوستوں كو دوست ركھ اور ان كے

۱۸

دشمنوں كودشمن قرار دے_ ابھى لوگ پراكندہ نہيں ہوئے تھے كہ يہ آيت نازل ہوئي :

( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ) (۲۵)

'' آج تمہارے دين كوميں نے كامل كرديا اور اپنى نعمتيں تم پر تمام كرديں ، اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كرليا_

۱۹

سوالات

۱_ ائمہ معصومينعليه‌السلام كى عمومى سيرت كياتھى اور كيا ائمہ معصومينعليه‌السلام اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ميں كوئي فرق تھا ؟ اور اگرتھا تو وہ كيسا فرق تھا؟

۲_ ائمہ معصومينعليه‌السلام اور ان كى معاصر حكومتوں كے درميان ،اختلاف كى اصل وجہ كياتھي؟

۳_ اميرالمؤمنين كا بچپن كيسے گزرا اورخود آپعليه‌السلام نے اس بارے ميں كيا فرماياہے؟

۴_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب پہلى بار اپنے بعد اميرالمؤمنين كى جانشينى كے مسئلہ كى تصريح كى تو وہ كون سا وقت اور كونسا موقع تھا؟

۵_ جنگوں ميں اميرالمؤمنين كى فداكارى كا ايك نمونہ بيان فرمائيں ؟

۲۰