تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146704
ڈاؤنلوڈ: 3021


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146704 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى شہادت

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ،نے اپنے والد كى شہادت كے بعد ۲۶۰ھ ق ميں امامت كى ذمہ دارى سنبھالى _

امام حسن عسكرى _كى بيمارى كے زمانہ ميں ان كے بيٹے كى تلاش كى كوشش كو جب معتمد نے بے نتيجہ پايا تو ان كى شہادت كے بعد اس نے ''ابوعيسى متوكل''كو معين كيا كہ وہ امام حسن عسكريعليه‌السلام كے جنازہ پر نماز پڑھائے اس نے بھى بنى ہاشم اور بقيہ حاضرين كو امامعليه‌السلام كا چہرہ دكھايا تا كہ لوگوں كے سامنے ظاہر كرسكے كہ امامعليه‌السلام اپنى طبيعى موت سے دنيا سے رخصت ہوئے ہيں پھر اس نے آپ كے جنازہ پر نماز پڑھائي اور حكم ديا كہ جنازہ اٹھايا جائے _(۱۴)

البتہ اس سے پہلے امامعليه‌السلام كے گھر ميں بغير كسى ظاہرى دكھاوے كے ايك اور نماز چند خاص افراد كى شركت ميں پڑھى جاچكى تھى اور اس كا واقعہ يہ ہے كہ جعفر ابن على ،جو اس زمانہ تك سياست كے ميدان ميں ظاہر نہيں ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنا حقيقى چہرہ ظاہر نہيں كيا تھا ،صرف يہ ديكھ كر كہ امام حسن عسكرىعليه‌السلام كا كوئي شرعى وارث اور جانشين نہيں ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے كو امام كى شہادت كے بعد وارث اور جانشين كے عنوان سے نماياں كرنے كے لئے امامعليه‌السلام كے سلسلہ ميں لوگوں كى تعزيت اور اپنى امامت كى مبارك باد قبول كرنے كے لئے گھر كے دروازہ پر كھڑاہوگيا،نماز كے لئے جنازہ تيار ہوتے ہى جعفر آگے بڑھا تا كہ اپنے بھائي كے جنازہ پر نماز پڑھانے تا كہ وہ نئي حيثيت جو ظاہر كى تھى نماز پڑھانے سے اور مستحكم ہوجائے(۱۵)

اتفاقاًايك بچہ گندمى رنگ،بال پريشان،گشادہ دندان مبارك و الاظاہر ہوا اور اس نے جعفر كى عباكھينچى اور كہا:''چچا جان آپ پيچھے كھڑے ہوں ميں اپنے باپ پر نماز پڑھانے كے لئے زيادہ حقدار ہوں _(۱۶) جعفر بلاچون و چرا پيچھے ہٹ گئے_ ان كے چہرہ كا رنگ اڑاہواتھاامامعليه‌السلام آگے كھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنے اپنے والد ماجد كے جنازہ پر نماز پڑھائي(۱۷) اس طرح

۳۰۱

آپ نے اپنے چچا كو رسوا كيا اور ان كے بنائے ہوئے نقشہ كو باطل كرديا _آپ نے اپنے باپ كے مقام امامت اور جانشينى كے لئے اپنى وراثت اور لياقت كو حاضرين كے سامنے ثابت كيا _

امامعليه‌السلام عصر اپنے والد كے جنازہ پر نماز پڑھانے اور اپنے حق كو واضح كرنے كے بعد لوگوں كى نظروں سے غائب ہوگئے _

مسئلہ غيبت:

خلافت بنى عباس كى مشينرى جب اس بات كى طرف متوجہ ہوئي كہ حكومت كى تمام كوشش اور پابندى كے باوجود وارث امام پيدا ہوگيا تو اس نے حضرت كو گرفتار كرنے كے لئے پورا زور لگايا _ اس غرض سے حكومت كے مامور كردہ افراد امام حسن عسكرى _كے گھر پر حملہ آور ہوئے ليكن امام _كو گرفتار كرنے ميں كامياب نہ ہوسكے(۱۸)

يہ كوششيں بتارہى ہيں كہ بارہويں امام كى جان كو جو خطرات لاحق تھے وہ واقعى تھے_

كيونكہ ضرورى تھا كہ زمين پر امامت اور حجت خدا كے باقى ماندہ سلسلہ كى نگرانى كے لئے كوئي واقعى اقدام كيا جائے _

امام عصر كى غيبت كے مسئلہ اور اس كى وجوھات كے بارے ميں بہت سى باتيں ہيں _ ان ميں سے جو مسّلم ہيں وہ يہ ہيں كہ آپ كى غيبت حكمت اور مشيت الہى كى بنياد پرہے اور ہم ان حكمتوں كے تمام اسرار سے واقف نہيں ہيں _

ليكن ممكن ہے كہ ظاہرى اور محسوس وجوہات ميں سے مندرجہ ذيل نكتہ ايك طرف بنى عباس كى حكومت كى مشينرى كا امام مھدىعليه‌السلام كى تلاش ميں گھر پر حملہ اور چھان بين كرنا اور دوسرى طرف امامت ''عسكريين'' عليہما السلام كے زمانہ ميں لوگوں كى امامت سے روگردانى اور عدم حمايت نے غيبت كيلئے زمين ہموار كردى تھي_اگر لوگ حكومت الہى كو قبول كرنے كے لئے آمادہ ہوتے اور

۳۰۲

اپنے رہبروں اور اماموں كى حمايت كرتے تو كيا تعجب كہ امامعليه‌السلام پردہ غيبت ميں نہ جاتے اور قانون الہى كو جارى كرنے ميں مشغول ہو جاتے جيسا كہ غيبت كے زمانہ كے ختم ہوجانے كے بعد بہت سے لوگ اپنے كو تيار كرليں گے تو پھر امام _ان كے سامنے ظاہر ہوں گے _(۱۹) ''ان الله لا يغير ما بقوم: حتى يُضيّروا ما بانفسهم'' (۲۰)

مرحوم خواجہ نصير الدين طوسى اپنے رسالہ ميں جوانہوں نے امامت كے بارے ميں لكھاہے تحرير فرماتے ہيں :غيبت حضرت مھدىعليه‌السلام كے لئے تو يہ سزاوار ہے كہ وہ خداوند سبحانہ كى طرف سے ہوا ور نہ ہى يہ سزاور ہے كہ امام _كى طرف سے ہو ، بس اس بات ميں غيبت منحصر ہے كہ مكلفين اور لوگوں كى طرف سے ہو_اور غيبت كا سبب خوف غالب اور عدم تمكين ہے _جب غيبت كا سبب زائل ہوجائے گا ظہور ہوگا_(۲۱)

غيبت صغرى :

بارہويں امام _كى غيبت كے دومرحلے ہيں : ايك كم مدت كا مرحلہ (غيبت صغرى )اور دوسرا لمبى مدت كا مرحلہ (غيبت كبري)غيبت صغرى زمانہ كے اعتبار سے بھى محدود تھى اور لوگوں سے رابطہ كے اعتبار بھى محدود_زمانہ كے اعتبار سے ستر(۷۰) سال سے زيادہ يہ غيبت نہيں تھى _ گيا رہويں امامعليه‌السلام كى شہادت كے بعد ۲۶۰ھ ق سے ۳۲۹ھ ق كا زمانہ ہے _(۲۲)

غيبت صغرى كے زمانہ ميں لوگوں سے امامعليه‌السلام كا رابطہ بہت محدود تھا يہ رابطہ بالكل منقطع نہيں ہواتھا كچھ لوگ تھے جن كا آپ سے رابطہ تھا _اور ان كوامامعليه‌السلام كے ''نواب خاص '' كے نام سے جاناجاتا تھا_شيعوں ميں سے ہر ايك ان''نواب ''كے ذريعہ اپنے مسائل اور مشكلات امامعليه‌السلام تك پہنچاتا تھا اور ان ہى كے ذريعہ اپنا جواب حاصل كرسكتا تھا اور كبھى كبھى ان كو امامعليه‌السلام كى زيارت كا بھى شرف حاصل ہوتا _

۳۰۳

غيبت كبري:

غيبت صغرى كا زمانہ گذر جانے كے بعد غيبت كبرى كا آغاز ہوا جوا بھى تك جارى ہے يہ غيبت دنيا ميں انسانوں كے امتحان كا ذريعہ اور ايمان و عمل كے لئے ميزان قرار پائي_غيبت كے دونوں زمانوں كے بارے ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ غيبت كبرى كا زمانہ اچانك اور ناگہانى آجاتا تو ممكن ہے كہ افكار كے انحراف كا سبب بن جاتا اور اذہان اس كو قبول كرنے كے لئے آمادہ نہ ہوتے ليكن ''نواب خاص ''كے توسط سے شيعوں كا امامعليه‌السلام سے رابطہ اور ان ميں سے بعض كى ''غيبت صغري''كے زمانہ ميں امام كى بارگاہ ميں شرفيابى نے آپ كى ولادت اور حيات كے مسئلہ كو زيادہ مستحكم اور افكار كو غيبت كبرى كے قبول كرنے كيلئے آمادہ كرديا(۲۳)

غيبت صغرى ميں امام _كے معجزات:

غيبت صغرى كے زمانہ ميں امامعليه‌السلام كى طرف سے ان كے خاص نائبين كے ذريعہ بہت سے كرامات و معجزات ظاہر ہوئے جو آپ كے شيعوں اور پيروؤں كے ايمان كے استحكام كا سبب بنے يہ معجزات كثرت سے ہيں كہ شيخ طوسى كے بقول ان كو شمار نہيں كيا جا سكتا(۲۴)

بطور نمونہ چند معجزات ملاحظہ ہوں

۱_ ''عيسى ابن نصر'' نقل كرتے ہيں كہ '' على ابن زياد صميرى '' نے امامعليه‌السلام كے لئے خط لكھا اور آپ سے كفن كى درخواست كى ، تو جواب آيا تم كو ۸۰ سال ميں ( ۲۸۰ ہجرى ميں يا ۸۰ سال كى عمر ميں ) اس كى ضرورت پڑے گي_ اور انہوں نے اسى سال انتقال فرمايا جس سال كا امامعليه‌السلام نے فرمايا تھا _ ان كے انتقال سے پہلے امامعليه‌السلام نے ان كے لئے كفن بھيجا(۲۵) ۲_ '' محمد بن شاذان'' نقل فرماتے ہيں كہ ۴۸۰ درہم مال امامعليه‌السلام (خمس) ميرے پاس تھا_ اس ميں اپنے مال سے بيس درہم ميں نے اور شامل كرديئےور محمد ابن جعفر ۲۶ كے ذريعے امامعليه‌السلام كى

۳۰۴

خدمت ميں ارسال كرديئے_ ليكن بيس درہم كا اضافہ كرنے كے بارے ميں ، ميں نے كچھ نہيں لكھا امامعليه‌السلام كے پاس سے پيسوں كى رسيد ميرے پاس پہنچى اس ميں لكھا تھا_ پانچ سو درہم جس ميں ۲۰ درہم تمہارے مال سے تھے مجھ تك پہنچ گئے(۲۷) ۳_ '' على ابن محمد سمري'' نقل فرماتے ہيں كہ امام كى طرف سے ايك فرمان پہنچا اس ميں آپ نے شيعوں كو كربلا اور كاظمين ميں ائمہ كى قبروں كى زيارت سے منع فرمايا تھا_ ابھى كچھ دن نہيں گذرے تھے كہ خليفہ كے وزير نے '' باقطاني'' كو بلايا اس سے كہا كہ بنى فرات سے _ جو وزير كے وابستگان ميں سے تھے سے كہے كہ اہل بَرَس سے ملاقات كريں اور ان سے كہيں كہ وہ لوگ مقابر قريش كى زيارت نہ كريں اس لئے كہ خليفہ نے حكم ديا ہے كہ مامور افراد ہوشيار رہيں اور جو بھى ائمہعليه‌السلام كى زيارت كے لئے جائے اس كو گرفتار كرليں(۲۸)

امام عصرعليه‌السلام كے نائبين

غيبت صغرى يا كبرى كسى دور ميں بھى امامعليه‌السلام كا لوگوں سے رابطہ بالكل ختم نہيں ہوا تھا بلكہ سفراء اور '' نواب'' كے ذريعہ شيعوں سے آپ كا رابطہ برقرار تھا اور ہے_

جس طرح غيبت امامعليه‌السلام كے دو حصے ہيں اسى طرح آپ كى نيابت كى بھى دو صورتيں ہيں ، غيبت صغرى ميں نيابت خاصہ اور غيبت كبرى ميں نيابت عامہ_

نيابت خاصہ يہ ہے كہ امامعليه‌السلام خاص افراد كو اپنا نائب قرار ديتے ہيں اور ان كے نام و علامت كا تعارف كرديتے ہيں _ اور نيابت عامہ يہ ہے كہ امامعليه‌السلام ايك ايسا كلى ضابطہ ہمارے ہاتھوں ميں دے ديتے ہيں كہ ہم ہر زمانہ ميں ايك يا كئي افراد جن پر ہر جہت سے وہ ضابطہ صادق آتا ہے، نائب امامعليه‌السلام كى حيثيت سے پہنچانے جاتے ہيں _

۳۰۵

الف _ نائبين خاص

امامعليه‌السلام عصر كے خاص نائبين چار تھے(۲۹)

۱_ عثمان ابن سعيد

ابوعمرو، عثمان ابن سعيد عمري، حضرت مہدى (عج) كے پہلے خاص نائب اور عسكريين عليہما السلام كے مورد وثوق اصحاب ميں سے تھے اور ان دونوں كے وكيل بھى تھے_ امام ہادىعليه‌السلام اور امام حسن عسكرىعليه‌السلام دونوں ہى كى طرف سے ان كى توثيق و تمجيد ہوچكى ہے_

احمد ابن اسحاق قمى نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام ہادىعليه‌السلام سے عرض كيا كہ ميں كبھى حاضر رہتا ہوں اور كبھى غائب، جب حاضر رہتا ہوں اس وقت بھى ميں ہميشہ آپ كى خدمت ميں نہيں پہنچ سكتا تو ايسى صورت ميں كس كى بات كو قبول كيا جائے اور كس كے حكم كى اطاعت كى جائے آپ نے فرمايا: '' ابوعمرو'' '' عثمان ابن سعيد'' ثقہ اور امين ہيں يہ جو كچھ بيان فرمائيں گے ميرى طرف سے بيان فرمائيں گے اور جو كچھ تم تك پہنچائيں گے، ميرى طرف سے پہنچائيں گے_''

احمد ابن اسحاق فرماتے ہيں : ميں امام ہادىعليه‌السلام كى رحلت كے بعد امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے پاس گيا اور ميں نے وہى بات كہى ( جو اس سے پہلے عرض كرچكا ہوں ) آپ نے پھر فرمايا:'' ابوعمرو، ميرے اور ميرے والد كے لئے امين ہيں ميرى زندگى ميں اور ميرے مرنے كے بعد قابل اطمينان ہيں _ يہ جو كہيں گے وہ ميرى طرف سے كہيں گے اور جو پہونچائيں وہ ميرى طرف سے پہنچائيں گے(۳۰) گيارہويں امامعليه‌السلام كى رحلت كے بعد اور مسئلہ غيبت پيش آنے سے پہلے '' عثمان ابن سعيد'' امام مہدى كے طرف سے نيابت كے عہدہ پر فائز ہوئے امام _اور شيعوں كے درميان رابط بنے(۳۱)

۳۰۶

۲_ محمد ابن عثمان

۲۶۰ ھ ق ميں اپنے انتقال سے پہلے عثمان بن سعيد نے اپنے بيٹے '' محمد '' كو امامعليه‌السلام زمانہ كے حكم سے اپنے جانشين اور نائب امامعليه‌السلام كى حيثيت سے پہچنوايا(۳۲)

ابوجعفر محمد ابن عثمان بھى اپنے والد كى طرح امام حسن عسكرى اور امام مہدى عليہما السلام كے لئے مورد اطمينان تھے_

'' عبداللہ ابن جعفر حميرى '' نقل فرماتے ہيں كہ جب عثمان ابن سعيد كا انتقال ہوگيا تو امامعليه‌السلام كا خط آيا جس ميں ابوجعفر '' محمد ابن عثمان'' اپنے والد كى جگہ امام كے نائب مقرر كئے گئے تھے(۳۳)

محمد ابن عثمان نے اپنى وفات سے پہلے اپنى موت كى خبر دى ۳۴اور بزرگان شيعہ كے ايك گروہ كى موجودگى ميں انہوں نے حسين ابن روح نوبختى كو امام كے امور كے لئے اپنے جانشين كے عنوان سے تعارف كرايا اور كہا :'' وہ ميرے قائم مقام ہيں تم ان كى طرف رجوع كرو'' _

محمد ابن عثمان ۳۰۵ ھ ق ميں انتقال فرما گئے ۳۵ اور ان كى نيابت كى مدت ۴۵ سال رہي_

۳_ حسين ابن روح

امام كے تيسرے سفير '' ابوالقاسم حسين ابن روح نوبختى '' تھے جو كہ بزرگى اور مخصوص عظمت كے حامل تھے نيز عقل و بينش و تقوى و فضيلت ميں مشہور تھے_

يہ محمد ابن عثمان كے مورد اعتماد اور ان كى جانب سے كچھ امور كے ذمہ دار تھے(۳۶)

'' محمد ابن عثمان'' كے لئے قابل اطمينان افراد ميں سے ايك جعفر ابن احمد قمى '' تھے جو دوسروں سے زيادہ محمد سے متعلق رہے_ اتنے قريب تھے كہ كچھ لوگوں نے يہ سمجھ ركھا تھا كہ '' محمد ابن عثمان '' كے بعد انہيں كو نائب بنايا جائے گا(۳۷)

جب '' محمد ابن عثمان'' كے انتقال كا وقت قريب پہونچا تو ان كے سرہانے '' جعفر ابن احمد''

۳۰۷

اور پائنتى '' حسين ابن روح'' بيٹھے ہوئے تھے محمد ابن عثمان نے جعفر ابن احمد كى طرف رخ كيا اور كہا كہ '' مجھے اس بات كا حكم ديا گيا ہے كہ تمام امور كو ابوالقاسم حسين ابن روح كے حوالہ كردوں _

'' جعفر ابن احمد'' اپنى جگہ سے اٹھے انہوں نے حسين ابن روح كے ہاتھوں كو پكڑ كر محمد كے سرہانے بٹھايا اور خود پائنتى بيٹھ گئے(۳۸)

حسين ابن روح نے تقريباً ۲۱ سال نيابت كے منصب كى ذمہ دارى بنھائي اور اپنى وفات سے پہلے انہوں نے امامعليه‌السلام كے حكم سے نيابت كے امور كو '' على ابن محمد سمري'' كے حوالہ كرديا اور ۳۲۶ ھ ق ميں انتقال فرماگئے(۳۹)

۴_ على ابن محمد سمري

امام زمانہ كے چوتھے اور آخرى سفير ابوالحسن على ابن محمد سمرى بزرگ اور جليل القدر تھے كہ صاحب '' تنقيح المقال'' كے قول كے مطابق محتاج توصيف نہيں _''۴۰

انہوں نے بزرگوں كى ايك جماعت سے فرمايا:'' خدا تم كو على ابن بابويہ قمى '' كى مصيبت پر اجر عنايت فرمائے، ان كا انتقال ہو چكا ہے_

ان لوگوں نے اس وقت دن اور مہينہ ياد ركھا اور ۱۷ يا ۱۸ روز بعد خبر پہنچى كہ اسى وقت على ابن بابويہ'' كا انتقال ہوا تھا(۴۱)

'' على ابن محمد'' ۳۲۹ ھ ق ميں انتقال فرماگئے ان كى وفات سے پہلے شيعوں كا ايك گروہ ان كے پاس آيا اور ان كے جانشين كے بارے ميں سوال كيا، آپ نے فرمايا: مجھے اس كے متعلق كوئي وصيت نہيں كى گئي ہے_۴۲ اس كے بعد انہوں نے اس توقيع مبارك كے بارے ميں بتايا جو امامعليه‌السلام كى طرف سے صادر ہوئي تھي_ اس كا مضمون كچھ اس طرح تھا_

'' بسم اللہ الرحمن الرحيم _ اے على ابن محمد سمرى خداتمہارے غم ميں تمہارے بھائيوں كو جزائے

۳۰۸

عظيم عطا كرے، تم چھ روز كے بعد مرجاؤگے لہذا اپنے امور سے جلد فارغ ہونے كى كوشش كرو اور كسى كےابارے ميں وصيت نہ كرنا كہ تمہارے بعد وہ تمہارا جانشين ہو، اب غيبت كبرى كا زمانہ آگيا ہے اور اس وقت تك ظہور نہيں ہوگا جب تك خداوند متعال اجازت نہ دے ...''

چھٹے دن جناب سمرى اس دنيا سے رخصت ہوگئے(۴۳)

ب_ عام نائبين

امامعليه‌السلام كے آخرى سفير '' على ابن محمد سمري'' كے انتقال كے بعد غيبت كبرى كا زمانہ شروع ہوا ہرچند كہ امام مہدي(عج) كى طرف سے كوئي خاص نائب معين نہيں تھا_ ليكن آپ كى اور بقيہ ائمہ كى طرف سے ضوابط اور معيار كا ايك سلسلہ موجود ہے تا كہ لوگ اس معيار سے آگاہى حاصل كركے ہرزمانہ ميں اس فرد سے رجوع كركے اپنے مسائل كے جوابات معلوم كريں جس كے اندر شرطيں پائي جاتى ہوں اس لئے كہ ان كى نظر مہارت اور روايات كى بنا پر حجت ہے_

مرحوم شيخ طوسى و صدوق و طبرى نے اسحاق ابن يعقوب سے نقل كيا ہے كہ حضرت مہدي_نے ( غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كے فرائض كے بارے ميں ) فرمايا ;

'' اما الحوادث الواقعه فارجعوا فيها الى رواة حديثنا فانّهم حجتى عليكم و انا حجة الله عليهم'' (۴۴)

آنيوالے حوادث و واقعات ميں ہمارى حديثيں بيان كرنے والوں كى طرف رجوع كرو _ اس لئے كہ وہ لوگ تمہارے اوپر ہمارى حجت اور ہم ان كے اوپر خدا كى حجت ہيں _

نيز امام حسن عسكرىعليه‌السلام ، امام جعفر صادقعليه‌السلام سے ايك روايت كے ضمن ميں بيان فرماتے ہيں :

'' اما من كان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظاً لدينه مخالفاً لهواه مطيعاً لامر مولاه فللعوام ان يقلّدوه ''(۴۵)

'' فقہاء ميں سے جو اپنے نفس كو بچانيوالا اپنے دين كا نگہبان اپنے ہوا و ہوس كا مخالف اپنے مولا ( ائمہ ) كے فرمان كا مطيع ہو تو لوگوں پر لازم ہے كہ اس كى تقليد كريں _''

۳۰۹

اس طرح اسلامى معاشرہ كى رہبرى اور مسلمانوں كے امور كا حل اور ان كا فيصلہ '' غيبت كبرى '' كے زمانہ ميں '' ولى فقيہ'' كے ہاتھوں ميں آيا_ ولى فقيہ امام زمانہ كى نيابت ميں '' ولايت شرعيہ'' كا مالك ہے_ اسلامى معاشرہ كى مشروعيت اور حكومت ذمے قانون كا لازم الاجراء ہونا اس كى تائيد او ر نفاذ سے متعلق ہے اس كے حكم كى مخالفت امامعليه‌السلام كے حكم كو رد كرنا ہے اور امام _ كے حكم كو رد كرنا خدا اور حكم خدا كو رد كرنا ہے(۴۶)

ديدار مہدى _

غيبت صغرى كے زمانہ ميں ان چار مخصوص نائبين كے علاوہ جو امام كى خدمت ميں پہنچتے رہتے تھے كچھ دوسرے افراد بھى تھے جو ان چاروں كے توسط سے آپ كى خدمت ميں زيارت كا شرف پاتے تھے_

شيعہ بزرگ علماء نے اپنى كتابوں ميں ان لوگوں ميں سے بہت سے افراد كا نام بيان فرمايا ہے جنہوں نے غيبت صغرى كے زمانہ ميں امامعليه‌السلام كو ديكھا اور ان كے معجزات كو درك كيا ہے_ علماء نے ان ملاقات كرنے والوں ميں سے ہر ايك كے واقعہ اور قضيہ كو مختلف اسناد كے ساتھ ذكر كيا ہے_

اسى طرح ان بزرگوں ميں سے بعض افراد نے ان لوگوں كى داستان كو اپنى كتابوں ميں بيان كيا ہے جو '' غيبت كبرى '' كے زمانہ ميں آپ كى خدمت ميں پہنچے يا آپ كى كرامات و معجزات كو _ بيدارى يا خواب كے عالم ميں _ مشاہدہ كيا ہے ليكن چونكہ اس وقت اختصار مد نظر ہے اس لئے ان كے ذكر سے چشم پوشى كى جاتى ہے(۴۷)

۳۱۰

سوالات:

۱_ بارہويں امامعليه‌السلام كس تاريخ كو اور كہاں پيدا ہوئے؟

۲_ امامعليه‌السلام عصر كى ولادت كو كيوں چھپايا گيا؟

۳_ خواص سے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كا اپنے بيٹے كى ولادت كو بتانے كا مقصد كيا تھا؟ ان ميں سے ايك نمونہ بيان كيجئے_

۴_ غيبت صغرى و كبرى كى مدت، دونوں غيبتوں كے درميان تفاوت اور رابطہ كو بيان فرمايئے

۵_ غيبت صغرى كے زمانہ كا امامعليه‌السلام عصر كا ايك معجزہ بيان فرمايئے

۶_ غيبت صغرى كے زمانہ كے امامعليه‌السلام كے نائبين كا نام اور ان كى مدت نيابت بيان فرمايئے

۷_ غيبت كبرى كے زمانہ ميں امامعليه‌السلام عصر كى نيابت كے مسئلہ كى نوعيت بتايئےور توضيح ديجئے_

۳۱۱

حوالہ جات

۱ كافى جلد ۱/۴۳۱'ارشاد مفيد/۳۴۶'كمال الدين صدوق جلد۲/۴۳۰'بحار جلد۱ باب ۳ص ۳۱'منتخب الاثر/۳۲۰'الفصول المہمة/۲۹۲'اعلام الوري/۲۹۳'غيبت شيخ/۲۵۸'اعيان الشيعہ جلد۲/۴۴

۲ منتخب الاثر ۱۸۳_۱۸۲'كافى جلد ۱/۲۶۸

۳ آپ كا نام سوسن 'صيقل اور ريحانہ بھى بتا يا گيا ہے _بحار جلد ۵۱/۵_۱۵كمال الدين ۲/۳۲

۴ ''انت سيدتى و سيدة اھلى ''بحار جلد ۵۱/۲''بل اخذمك على بصري''بحار جلد ۵۱/۱۲_منتخب الاثر /۳۲۵'كمال الدين صدوق /۴۲۴/۴۲۷'اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۶_

۵ بحار جلد ۵۱/۱۰_۸غيبت شيخ طوسى /۱۲۸_۱۲۴_كمال الدين صدوق جلد ۲/۴۲۳_ ۴۱۷_ دلائل الامامہ طبرى /۲۶۷/۲۶۲_

۶''اللهم انجزلى وعدى واتمم لى امرى و ثبت وطئتى و املا الارض بى عدلا و قسطاً'' بحار جلد ۵۱/۱۴_۱۲_۲۶_۲۵،كمال الدين صدوق جلد ۲/۲۴۷_۴۳۸_

۷ ان احاديث سے واقفيت كے لئے منتخب الاثر فصل دوم باب ۲۵_۳۴ملاحظہ ہو_

۸ امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے ايك حديث كے ضمن ميں اہل بيت سے بنى اميہ و بنى عباس كى مخالفت كى ايك وجہ اس مسئلہ كو قرار ديا ہے _

۹''يا احمد ابن اسحاق لو لا كرامتك على الله و على حججه ما عرضت عليك ابنى هذا انّه سمّى رسول الله و كنّيه الذى يملا الارض قسطا و عدلا كما ملئت ظلماًو جوراً'' _بحار جلد ۵۲/۲۴_۲۳_كمال الدين صدوق جلد ۲/۳۸۴،كشف الغمہ مطبوعہ تبريزجلد۲/۵۲۶_

۱۰ بحار جلد ۵۲/۲۶_۲۵كمال الدين جلد ۲/۴۳۵،منتخب الاثر ۳۵۵،كشف الغمہ جلد ۳/۵۲۷

۱۱ منتخب الاثر /۳۴۴_۳۴۳،كمال الدين صدوق جلد ۲/۴۳۴_۴۳۳_

۱۲ خصوصيات حضرت مھدى كے بارے ميں زيادہ معلومات كے لئے ملاحظہ ہو منتخب الاثر از باب چہارم تا باب ۲۵، اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۴،غيبت نعمانى باب ۱۳/۳۱۲كشف الغمہ جلد ۳/۴۶۴_۳۷۰_

۱۳ ''يسيل شعرہ على منكبيہ ''اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۴،منتخب الاثر /۱۸۵،كشف الغمہ مطبوعہ تبريزجلد۲/۴۶۴_

۳۱۲

۱۴ ارشاد مفيد /۳۴۰كمال الدين صدوق جلد۱/۴۳،بحار الانوارجلد ۵۰/۳۲۸_

۱۵ يہ جعفر وہى ہيں جو بعد ميں جعفر كذاب كے نام سے مشہور ہوئے_

۱۶ ''تاخر يا عم فا نا احق بالصلوة على ابي''

۱۷ بحار جلد ۵۰/۳۳۲_۳۳۳_

۱۸ كمال الدين مرحوم صدوق جلد ۱/ ۴۳ مطبوعہ جامعہ مدرسين_

۱۹ بہ ياد دلادينا ضرورى ہے كہ اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ تمام لوگ اس گناہ ميں آلودہ ہيں بلكہ اس سے مراد نصاب كى وہ حدہے جو امامعليه‌السلام كے ظہور كے لئے ضرورى ہے _ ورنہ بہت سے نيك افراد ہميشہ ظہور كے لئے آمادہ رہے ہيں اور آج بھى آمادہ ہيں _

۲۰ سورہ رعد /۱۱_

۲۱''اما سبب غيبته فلا يجوز ان يكون من الله سبحانه و لا منه كما عرفت فيكون من المكلفين و هو الخوف الغالب الغالب و عدم التمكين و الظهور يجب عند زوال السبب'' رسالہ امامت فصل سوم ص ۲۵ منقول از نويد امن و امان ۱۹۰ چونكہ غيبت ولى عصر كے اسرار و علل كى بحث عقيدہ كى بحث ہے اس لئے اس كے اسرار و علل كى تحقيق اس رسالہ كى ذمہ دارى سے الگ ہے يہاں جس كى طرف اشارہ ہوا ہے، وہ اس عہد كے سياسى اور تاريخى حالات تھے_

۲۲ شيخ مفيد اپنى كتاب ارشاد ص ۳۴۶ پرغيبت صغرى كے آغاز كو ولادت كے موقع سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ '' غيبت صغرى ولادت مہدىعليه‌السلام كے زمانہ سے سفارت كے زمانہ كے اختتام اور آخرى سفير كى رحلت تك ہے اس حساب سے غيبت صغرى كا زمانہ ۷۵ سال ہوتاہے _

۲۳ بلكہ كہا جاسكتاہے كہ غيبت كبرى كيلئے لوگوں كو آمادہ كرنے كا كام امام ہادىعليه‌السلام بلكہ امام جوادعليه‌السلام كے زمانہ سے شروع ہوچكا تھا اور وہ لوگ زيادہ تر خط و كتابت كے ذريعہ شيعوں سے رابطہ ركھتے تھے اور ان كا ارتباط غيبت صغرى كے زمانہ كے ارتباط كے مشابہ تھا تا كہ لوگ غيبت كبرى كيلئے ضرورى آمادگى پيدا كرليں _

۲۴ غيبت شيخ / ۱۷۰_

۲۵ بحار جلد ۵۱/ ۳۱۲، ارشاد مفيد /۳۵۶، غيبت شيخ /۱۷۲، منتخب الاثر /۳۹۰ كشف الغمہ مطبوعة تبريز جلد ۲/۴۵۶

۲۶ شيخ نے اپنى رجال ميں ايك باب كے عنوان ميں ان كا نام ليا ہے'' رجال طوسى باب لم يروعن الائمہ /۴۹۶ / مجمع الرجال جلد ۵/۱۷۷_

۳۱۳

۲۷ بحار جلد ۵۱/۳۲۵، ارشاد مفيد /۳۵۶_۳۵۵ دلائل الائمہ طبرى /۲۸۶، منتخب الاثر /۳۸۲_ غيبت شيخ /۲۵۸، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۲/۴۵۶_

۲۸ وزير كا نام ابوالفتح فضل بن جعفر فرات تھا اور وہ بنى عباس كے وزراء ميں سے تھا_ ''برس'' حلہ اور كوفہ كے درميان ايك قريہ ہے، مقابر قريش سے مراد '' كاظمين'' ہے بحار جلد۵۱/۳۱۲ غيبت شيخ /۱۷۲، ارشاد مفيد /۳۵۶، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۲/۴۵۶_

۲۹ البتہ ان چار افراد كے علاوہ دوسرے وكلاء بھى مختلف شہروں ميں تھے جو ان ہى چار افراد كے ذريعہ لوگوں كے مسائل كو امام كى خدمت ميں پہنچاتے تھے اور مرحوم سيد محسن امين كے اقوال كے مطابق ان چار افراد كى سفارت عام اور مطلق تھى ليكن دوسرے افراد بھى جيسے محمد ابن جعفر اسدي، احمد ابن اسحاق اشعري، ابراہيم ابن محمد ہمداني، احمد ابن حمزہ بن اليسع كو خاص موارد ميں نيابت حاصل تھي_ اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۸_

۳۰ بحار جلد ۵۱/۳۴۴، غيبت شيخ /۲۱۵، اعيان الشيعہ ج ۲/۴۷ ، منتخب الاثر /۳۹۳، الكنى و الالقاب جلد۳/۲۶۷_۲۶۶، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين /۱۳۹_

۳۱ بحار جلد ۵۱/۳۴۶_

۳۲ بحار جلد ۵۱/۳۴۹، غيبت شيخ /۲۲۰، ۲۱۸_اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۷_

۳۳ بحار جلد ۵۱/۳۴۹، غيبت شيخ /۲۲۰، ۲۱۸، اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۷_

۳۴ بحار جلد ۵۱/۳۵۲، الكنى و الالقاب جلد ۳/۲۶۸، غيبت شيخ /۲۲۲، اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۷_

۳۵ بحار جلد ۵۱/۳۵۲، غيبت شيخ /۲۲۳، اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۷، الكنى و الالقاب جلد ۳/۲۶۸_

۳۶ اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۸، غيبت شيخ /۲۲۷_

۳۷ بحار ج ۵۱/۳۵۴_ ۳۵۳، غيبت شيخ /۲۲۶، اعيان الشيعہ ج ۲/۴۸_۴۷_

۳۸ بحار جلد ۵۱/۳۵۴_ ۳۵۳، غيبت شيخ /۲۲۶، اعيان الشيعہ ج ۲/۴۸_۴۷ ، اس سلوك سے پتہ چلتا ہے كہ يہ لوگ معرفت، ايمان اور تسليم و رضا ميں ايسے كامل تھے كہ ہميشہ اور تمام امور ميں اپنے امام كے سامنے سر تسليم خم كرديتے تھے_

۳۹ بحار ج ۵۱/۳۵۸، اعيان الشيعہ ج ۲ ص ۴۸_

۴۰ تنقيح المقال جلد ۲/۳۰۵، ''ثقتہ و جلالتہ اشہر من ان يذكر و اظہر من ان يحرّر''_

۴۱ بحار جلد ۵۱/۳۶۱، جلد ۵۲/۱۵۱، غيبت شيخ /۲۴۳، الكنى و الالقاب جلد ۳/۲۶۶، اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۸،

۳۱۴

منتخب الاثر /۳۹۹، تنقيح المقال جلد ۲/۳۰۵_

۴۲ بحار جلد ۵۱/۳۶۰، منتخب الاثر /۴۰۰_

۴۳ اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۷، بحار جلد ۵۱/۳۶۱، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۲/۵۳۰، منتخب الاثر /۹۹، تنقيح المقال جلد ۲/۳۰۵_

۴۴ كمال الدين جلد ۲/۴۸۴، غيبت شيخ /۱۷۷، احتجاج طبرسى جلد ۲/۴۷۰، مطبوعہ بيروت ،وسائل الشيعہ جلد ۱۸/۱۰۱، كتاب البيع للامام الخمينى جلد ۲/۴۷۴، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۲/۵۳۱، بحار جلد ۵۳/۱۸۱، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين/۱۳۹_

۴۵ احتجاج طبرسى بيروت جلد ۲/۴۵۸، وسائل الشيعہ جلد ۱۸/۱۹۵، سفينة البحار جلد ۲/۳۸۱، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين /۱۴۱_

۴۶ مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے ذيل ميں امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ :''فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانما استخف بحكم الله و علينا ردّ و الراد علينا الرّاد على الله و هو على حد الشرك بالله'' وسائل جلد ۱۸/۹۹، كافى جلد ۱/۵۴، كتاب فضل العلم باب اختلاف الحديث حديث ۱۰ ، تہذيب جلد ۶/۲۱۸ و ۳۰۱ ، كتاب لبيع للامام الخمينى جلد ۲/۴۷۶، فروع كافى جلد ۷/۴۲ حديث ۵ باب كراھية ''الارتفاع الى قضاة الجور''_

۴۷ تفصيلى معلومات كے لئے ملاحظہ ہو، اعلام الورى /۴۲۵، النجم الثاقب /۲۱۱_۲۰۹، بحار جلد ۵۱ باب اول، جلد ۵۲، باب ۱۸،۱۹،۲۳ و جلد ۵۳/۲۰۰ _ ۳۳۵_ منتخب الاثر فصل چہارم باب اول و فصل پنجم باب دوم و كتاب تبصرة الولى فيمن را ى القائم المہدى تاليف علامہ سيد ہاشم بحراني، كشف الغمہ جلد ۲/۵۳۳، دلائل الامامہ طبري/۳۰۶_۲۹۵_

۳۱۵

سولہواں سبق :

مہدىعليه‌السلام موعود كا عقيدہ -دوسرا حصہ;

۳۱۶

آخرى زمانہ ميں ايك مصلح الہى كا ظہور، پرانے زمانہ سے لوگوں كا بنيادى عقيدہ رہا ہے_ نہ صرف شيعہ بلكہ اہل تسنّن يہاں تك كہ دوسرے اديان كے ماننے والے '' جيسے يہود و نصارى '' زردشتى اور ہندو بھى ايك بڑے الہى مصلح كے ظہور كا عتقاد ركھتے ہيں اور اس كے انتظار ميں ہيں _

وہ بشارتيں اور پيشين گوئياں جو حضرت مہدىعليه‌السلام اور ان كے ظہور كے بارے ميں مقدس كتابوں اور اسلاف كے دوسرے آثار ميں ہيں اسى طرح اسلامى ماخذ ميں موجود ہيں اور وہ بہت زيادہ ہيں _

اس مقام پر ان بشارتوں ميں سے ہم چند بشارتوں كا ذكر كر رہے ہيں _

الف_ تمام اديان كى نظر ميں

زردشتيوں كى كتابوں ميں آخرى زمانہ اور ظہور مہدىعليه‌السلام موعود كے بارے ميں بہت سى باتيں مذكور ہيں _

منجملہ ان كے كتاب '' جاماسب ''(۲) ميں مرقوم ہے كہ زمين عرب اور خاندان ہاشم سے ايك شخص بڑے جسم اور بڑى پنڈلى والا نكلے گا وہ اپنے جد كے دين پر ہوگا، بہت زيادہ لشكر كے ساتھ وہ ايران كى طرف رخ كرے گا اور اس كو آباد كرے گا_ اور زمين كو انصاف سے بھر دے گا اور اس كى عدالت كى بناء پر بھيڑيا، بھيڑ كے ساتھ پانى پيے گا''(۳)

ہندؤں نے بھى اپنى كتاب مقدس ويد ميں لكھا ہے كہ '' دنيا كى خرابى كے بعد آخرى زمانہ ميں

۳۱۷

ايك بادشاہ پيدا ہوگا جو خلائق كا پيشوا ہوگا_ اس كا نام '' منصور '' ہوگا_(۴) وہ سارى دنيا كو اپنے قبضہ ميں كركے اپنے دين پر لے آئے گا_ اور مومن و كافر ميں سے ہر ايك كو پہچانتا ہوگا، وہ جو كچھ خدا سے مانگے گا وہ اس كو ملے گا_

'' توريت''(۵) سفر پيدائشے ميں نسل اسماعيل سے پيدا ہونے والے بارہويں امام كے بارے ميں گفتگو موجود ہے'' اور خاص كر اسماعيل كے بارے ميں ، ميں نے تيرى دعا قبول كى اب اس كو بركت ديكر بار آور كرونگا اور اس كو بہت زيادہ كردونگا اور اسى سے بارہ سردار پيدا ہوں گے اور ايك عظيم امت اس سے پيدا كروں گا_(۶)

'' داؤد'' كى زبور ميں بھى لكھا ہے كہ اور صالحين كى خدا تائيد كرتا ہے صالحين وارث زمين ہوں گے اور اس ميں ابد تك سكونت اختيار كريں گے_(۷)

عيسائيوں كى كتاب مقدس ميں موعود آخر الزمان كے بارے ميں زيادہ واضح بشارتيں موجود ہيں _ منجملہ ان كے پھر تم انسان كے بيٹے كو ديكھو گے كہ جو عظيم قوت اور جلالت كے ساتھ بادلوں پر آرہا ہوگا اس وقت فرشتے چاروں طرف سے زمين كى انتہا اور آسمان كے آخرى سرے سے اپنے كو جمع كريں گے ليكن باپ ( خدا) كے علاوہ اس دن كى كسى كو خبر نہيں ہے_ نہ فرشتوں كو آسمان ميں اور نہ بيٹے كو لہذا ہوشيار اور بيدار ہو كر دعا كرو اس لئے كہ تم كو نہيں معلوم كہ وقت كيسا آنے والا ہے اور كس وقت گھر والا آئے گا_(۸)

ب_ اسلامى مآخذ و مصادرميں

مہدىعليه‌السلام موعود كا عقيدہ اسلام كا ايك بنيادى اور اس كى حيات كا مسئلہ شمار كيا جاتا ہے_

اسلامى مذاہب ميں سے كسى خاص مذہب _ حتى كہ فقط شيعہ مذہب _ ميں ہى نہيں بلكہ مسلمانوں كے تمام فرقوں نے مستند اور معتبر مدارك اور روايتوں سے اس كو نقل كيا ہے_ اس سلسلہ ميں ايك دو روايت نہيں بلكہ بہت سے اقوال اور متواتر روايتيں موجود ہيں(۹)

۳۱۸

استاد على محمد على دخيّل نے اپنى كتاب ميں اہل سنت كے بزرگ علماء كى ۲۰۶ كتابوں كا نام لكھا ہے جن ميں سے ۳۰ افراد نے حضرت مہديعليه‌السلام كے بارے ميں مستقل كتاب لكھى ہے اور ۳۲ افراد نے اپنى كتاب كى ايك فصل كو حضرت مہدىعليه‌السلام كے بارے ميں پائي جانے والى روايات اور ان كى شرح احوال كيلئے مخصوص كيا ہے اور بقيہ افرد نے مختلف مناسبت سے امام عصر( عج) سے مربوط احاديث كو نقل كيا ہے اور آپ كے خصائص كے بارے ميں گفتگو كى ہے(۱۰)

شيعہ مذہب ميں بھى پيغمبر اكرم اور ائمہ معصومين _سے بہت سى حديثيں مرقوم ہيں جن ميں بارہا حضرت مہدىعليه‌السلام ان كى غيبت ، ظہور اور قيام سے متعلق گفتگو ہوئي ہے_

شيعوں سے امام زمانہعليه‌السلام كے سلسلے ميں جو روايتيں نقل ہوئي ہيں وہ اس قدر زيادہ ہيں كہ مسائل اسلامى كے كم موضوعات اس پايہ كو پہنچيں گے اور شيعہ علماء ميں سے بہت ہى كم لوگ ايسے مليں گے جنھوں نے آپ كے بارے ميں كتاب نہ لكھى ہويا كوئي بات نہ كہى ہو_

كتاب '' امام مہدىعليه‌السلام '' كے مؤلف تحرير فرماتے ہيں : حضرت مہدى _كے بارے ميں جو روايتيں شيعہ اور سنى طريقوں سے پہنچى ہيں وہ چھ ہزار سے زيادہ ہيں(۱۱)

ان اخبار كى كثرت اور شہرت كى بنا پر آپ كى ولادت سے پہلے ہى كچھ لوگوں نے مہدويت كا جھوٹا دعوى كيا ہے يا ان كى طرف ايسے دعوے كى نسبت دى گئي ہے نمونہ كے طور پر ملاحظہ ہو امام زمانہعليه‌السلام كى ولادت سے دو سو سال پہلے ۱۲ '' كيسانيہ فرقہ'' محمد حنفيہ كو مہدى منتظر تصور كرتا تھا اور اس بات كا مقصد يہ تھا كہ وہ نظروں سے پنہان ہوگئے ہيں اور ايك دن ظہور كريں گے _ وہ لوگ اپنے دعوے كى دليل ميں ان روايتوں سے تمسك كرتے تھے جو غيبت قائم كے بارے ميں منقول ہيں(۱۳)

منصور ، خليفہ عباسى نے اپنے بيٹے كا نام '' مہدي'' ركھا تا كہ لوگوں كے انتظار سے فائدہ حاصل كرے(۱۴)

اسى شہرت كى بنا پر بہت سے شيعہ اور سنى علماء نے غيبت كے زمانہ سے پہلے حتى كہ امام

۳۱۹

عصر_كى پيدائشے سے پہلے ان بزرگوار كے بارے ميں كتاب لكھى ہے علماء اہل سنت ميں سے '' عباد ابن يعقوب رواجني'' متوفى ۲۵۰ ھ ق اور مؤلف كتاب '' اخبار المہدي'' كا نام ليا جاسكتا ہے(۱۵)

كتاب مسند احمد، مولفہ احمد ابن حنبل شيساني، متوفى ۲۴۱ ھ اور صحيح بخارى مؤلفہ محمد اسماعيل بخارى متوفى ۲۵۶ھ اہل سنت كى ان معتبر كتابوں ميں سے ہيں جو امامعليه‌السلام زمانہ كى ولادت سے پہلے لكھى گئي ہيں اور ان لوگوں نے آپ سے متعلق احاديث كو نقل كيا ہے(۱۶)

كتاب '' مشيخہ '' تاليف '' حسن ابن محبوب'' بھى منجملہ مؤلفات شيعہ ميں سے ہے جو امام زمانہعليه‌السلام كى غيبت كبرى سے ايك صدى سے زيادہ پہلے لكھى گئي ہے_ اس ميں امامعليه‌السلام سے متعلق اخبار درج ہيں(۱۷)

اسى شہرت اور كثرت روايات كى بنا پر مسلمان صدر اسلام ہى سے قيام مہدى موعود( عج) سے آشنا تھے، خاص كر شيعہ اس حقيقت پر راسخ اعتقاد ركھتے تھے اور مناسب موقع پر اسكو مختلف انداز سے بيان كرتے تھے_

'' كميت'' شيعہ اور انقلابى شاعر متوفى ۱۲۶ ھ نے امام محمد باقرعليه‌السلام كى خدمت ميں امام موعود(عج) كے بارے ميں شعر پڑھا اور آپ كے قيام كے زمانہ كے بارے ميں سوال كيا(۱۸)

'' اسماعيل حميري'' اہل بيتعليه‌السلام كا چاہنے والا ايك شاعر متوفى ۱۷۳ ھ ق نے امام جعفر صادقعليه‌السلام كے حضور ميں ايك طولانى قصيدہ پڑھا اس كے بعض اشعار كا موضوع اس طرح ہے كہ '' ميں پروردگار كو گواہ قرار ديتا ہوں كہ آپ (امام جعفر صادقعليه‌السلام ) كا قول مطيع اور گناہگار سب پر حجت ہے ولى امر اور قائم كہ ميرا دل جس كا مشتاق ہے وہ يقيناً غائب ہوگا_

درود و سلام ہو ايسے غائب پر يہ كچھ دنوں تك پردہ غيبت ميں رہے گا پھر ظہور كرے گا اور دنيا كے مشرق و مغرب كو عدل و انصاف سے پر كردے گا(۱۹)

ايك زبردست انقلابى شاعر دعبل خزاعى ، متوفى ۲۴۶ ھ ق نے ايك قصيدہ كے ضمن ميں

۳۲۰