تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146737
ڈاؤنلوڈ: 3024


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146737 / ڈاؤنلوڈ: 3024
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

ولادت اور بچپن كا زمانہ

۲۰ جمادى الثانى بروز جمعہ، بعثت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پانچويں سال خانہ وحى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دختر گرامى حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہانے ولادت پائي _(۱) آپ كى والدہ ماجدہ جناب خديجہ بنت خويلد تھيں _

جناب خديجہ قريش كے ايك شريف و نجيب خاندان ميں پيدا اور زيور تربيت سے آراستہ ہوئيں _ان كے خاندان كے تمام افراد حليم و انديشمند اور خانہ كعبہ كے محافظ تھے _ جب يمن كے بادشاہ'' تبّع'' نے حجراسود كو مسجد الحرام سے نكال كر يمن لے جانے كا ارادہ كيا توجناب خديجہ كے والد خويلد دفاع كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے آپ كى جنگ اور فداكاريوں كے نتيجہ ميں '' تبّع'' اپنے ارادہ كوعملى جامہ نہ پہنا سكا_(۲)

جناب خديجہ كے چچا '' ورقہ'' بھى مكہ كے ايك دانش مند اور علم دوست شخص تھے_ تاريخ كے مطابق جناب خديجہ پر انكا بڑا اثر تھا _

والد كے ساتھ

حضرت فاطمہ صلوة اللہ و سلامہ عليہا كى ولادت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وخديجہ كا گھر اور بھى زيادہ مہر ومحبت كا مركز بن گيا جس زمانہ ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم مكہ ميں بڑے رنج و الم ميں مبتلا تھے ، اس زمانہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيٹى ،نسيم آرام بخش كى طرح ماں باپ كى تھكان كو صبح و شام اپنى محبت سے دور كرتى تھيں

۴۱

اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كى پر مشقت زندگى كے رنج و غم كے دنوں ميں تسكين بخش تھيں _

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا بچپن، صدر اسلام كے بحرانى اوربہت ہى خطرناك حالات ميں گذرا جبكہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سخت مشكلات اور خطرناك حوادث سے دورچار تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تن تنہا كفر و بت پرستى سے مقابلہ كرنا چاہتے تھے _ چند سال تك آپ پوشيدہ طور پر تبليغ كرتے رہے جب خدا كے حكم سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كھلم كھلا دعوت اسلام كا آغاز كيا تودشمنوں كى اذيّت اورايذا رسانى نے بھى شدت اختيار كرلي_

جب كفار نے يہ ديكھا كہ اذيت و آزار سے اسلام كى بڑھتى ہوئي ترقى كو نہيں روكا جاسكتا توانہوں نے ايك رائے ہوكر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كرڈالنے كا منصوبہ بنايا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى جان كے تحفظ كے لئے جناب ابوطالب نے بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ ''شعب ابى طالب'' نامى درّہ ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو منتقل كرديا_ مسلمانوں نے تين سال تك اس تپتے ہوئے درّہ ميں نہايت تنگى ، تكليف اوربھوك كے عالم ميں زندگى گذارى اور اسى مختصر غذا پر گذارہ كرتے رہے جو پوشيدہ طور پروہاں بھيجى جاتى تھى _

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا تقريباً دوسال تك كفار قريش كے اقتصادى بائيكاٹ ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ رہيں اور تين سال تك ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں كے ساتھ بھوك اور سخت ترين حالات سے گذريں _

۱۰ بعثت ميں '' شعب'' سے نجات كے تھوڑے دنوں بعد آپ اس ماں كى شفقتوں سے محروم ہوگئيں جنھيں دس سال كى مجاہدت كے رنج و غم خصوصاً اقتصادى نا كہ بدى كى دشواريوں نے رنجور كرديا تھا_(۳)

ماں كا اٹھ جانا ہر چند كہ جناب فاطمہ زہراء كے لئے رنج آور اور مصيبت كا باعث تھا اور آپ كى حساس روح كو اس مصيبت نے افسردہ كرديا تھا ليكن اس كے بعد آپ كو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دامن تربيت ميں رہنے كازيادہ موقع ملا_

۴۲

۱۰ بعثت ميں جناب ابوطالب اورجناب خديجہ كى وفات نے روح پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايسا اثر كيا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سال كا نام ''عام الحزن ''(۴) ( غم واندوہ كا سال) ركھا_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ان دونوں بڑے حاميوں كے اٹھ جانے سے دشمن كى اذيت اور آزار رسانى ميں شدت پيدا ہوگئي ، كبھى لوگ پتھر مارتے كبھى آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے روئے مبارك پر مٹى ڈال ديتے ، كبھى ناسزا كلمات كہتے اكثر اوقات آپ نہايت خستگى كے عالم ميں گھر كے اندر داخل ہوتے _

ليكن يہ فاطمہعليه‌السلام تھيں جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سر اور چہرہ اقدس سے گرد جھاڑتيں ،نہايت ہى پيار و محبت سے پيش آتيں اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے آرام اور حوصلہ كا باعث بنتيں ، جناب فاطمہعليه‌السلام لوگوں كے غصہ اور بے مہرى كى جگہ اپنے باپ سے مہر و محبت سے اس طرح پيش آتى تھيں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے والدگرامى نے آپ كو '' أُم أَبيہا'' كا لقب ديا_

ہجرت كے كچھ دنوں بعد آٹھ سال كى عمر ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ مكہ سے مدينہ تشريف لائيں وہاں بھى باپ كے ساتھ رہيں _ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے مشكلات ميں حضرت فاطمہعليه‌السلام برابر شريك رہيں ، جنگ احد ميں جنگ كے خاتمہ كے بعد جناب فاطمہعليه‌السلام مدينہ سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ گاہ كى طرف دوڑتى ہوئي پہنچيں اور باپ كے خون آلود چہرہ كو دھويا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زخموں كا مداوا كرنے لگيں _(۵)

جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا ، اسلام اور قرآن كے ساتھ ساتھ پروان چڑھيں _ آپ نے وحى ونبوت كى فضا ميں پرورش پائي_ آپ كى زندگى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى سے جدا نہيں ہوئي يہاں تك كہ شادى كے بعد بچوں كے ساتھ بھى آپ كا گھر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر سے متصل تھا اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى ہر جگہ سے زيادہ فاطمہعليه‌السلام كے گھررفت و آمد تھي_ ہر صبح مسجد جانے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہعليه‌السلام كے ديدار كوتشريف لے جاتے تھے _(۶)

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خدمتگار '' ثومان'' بيان كرتے ہيں كہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم سفر پر جانا چاہتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے آخر ميں فاطمہعليه‌السلام سے وداع ہوتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے

۴۳

پہلے فاطمہعليه‌السلام كے پاس جاتے تھے _(۷)

آخر كار پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى لمحات ميں بھى فاطمہعليه‌السلام ان كى بالين پر موجود گريہ فرمارہى تھيں ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو يہ كہہ كردلا سہ دے رہے تھے كہ وہ ہر ايك سے پہلے اپنے باپ سے ملاقات كريں گي_(۸)

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى شادي

۳ ھ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اميرالمؤمنين '' علىعليه‌السلام '' سے فاطمہعليه‌السلام كى شادى كردي_(۹) حقيقت تو يہ ہے كہ يہ خوشگوار رشتہ انہيں كے لائق تھا_ اس لئے كہ معصومينعليه‌السلام كى تصريح كے مطابق حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ كوئي بھى فاطمہعليه‌السلام كا كفو اور ہمسر نہيں ہوسكتاتھا_

اس شادى كى خصوصيتوں ميں سے يہ بات بھى ہے جو ان دونوں بزرگ ہستيوں كى بلند منزلت كا ثبوت ہے كہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قريش كے صاحب نام افراد، بڑى شخصيتوں اور ثروت مندوں كى خواستگارى كوقبول نہيں كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے كہ فاطمہعليه‌السلام كى شادى كا مسئلہ حكم خدا سے متعلق ہے _(۱۰)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فاطمہ زہراء كو علىعليه‌السلام كے لئے روكے ركھا تھا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے مامور تھے كہ نور كونور سے ملا ديں _(۱۱)

اسى وجہ سے جب حضرت علىعليه‌السلام نے رشتہ مانگا توپيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمايا اور كہا: '' تمہارے آنے سے پہلے فرشتہ الہى نے مجھے حكم خد اپہنچايا ہے كہ فاطمہعليه‌السلام كى شادى علىعليه‌السلام سے كردو''(۱۲)

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہعليه‌السلام كى رضايت لينے كے بعدحضرت علىعليه‌السلام سے پوچھا كہ شادى كرنے كے لئے تمہارے پاس كيا ہے ؟ آپعليه‌السلام نے عرض كيا : '' ايك ذرّہ ، ايك شمشير اور پانى لانے كے لئے ايك شتر كے علاوہ ميرے پاس اور كچھ نہيں ہے _ '' علىعليه‌السلام نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق ذرہ بيچ

۴۴

دى اور اس كى قيمت سے ، جو تقريباً پانچ سودرہم تھي، جہيز كا معمولى سامان خريدا گيا ، ضيافت بھى ہوئي اور مسلمانوں كوكھانا بھى كھلايا گيا _ مسرت و شادمانى اور دعائے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ فاطمہ كو علىعليه‌السلام كے گھر لے جايا گيا _(۱۳)

فاطمہعليه‌السلام علىعليه‌السلام كے گھر ميں

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا باپ كے گ۵ھر سے شوہر كے گھر اور مركز نبوّت سے مركز ولايت ميں منتقل ہوگئيں _اور اس نئے مركز ميں فاطمہ كے كاندھوں پر فرائض كا گراں بار آگيا_

آپ چاہتى تھيں كہ اس مركز ميں ايسى زندگى گذاريں كہ جو ايك مسلمان عورت كے لئے مكمل نمونہ بن جائے تا كہ آئندہ زمانہ ميں سارى دنيا كى عورتيں آپعليه‌السلام كے وجود اور آپعليه‌السلام كى روش ميں حقيقت ونورانيت اسلام ديكھ ليں _

گھر كے محاذ ميں جناب فاطمہ كے كردار كے تمام پہلوؤں كو پيش كرنے كے لئے ايك مفصل كتاب كى ضرورت ہے ليكن اختصار كے پيش نظر يہاں چند چيزوں كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

الف_ گھر كا انتظام

حضرت فاطمہ زہراء اگر چہ بڑے باپ اور عظيم پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نور چشم تھيں اوركائنات ميں ان سے بڑى شريف زادى كا وجود نہيں تھا ليكن ان باتوں كے باوجود آپ گھر ميں كام كرتى تھيں اور گھر كے دشوار كاموں سے بھى انكار نہيں كرتى تھيں _

گھر كے اندر آپ اتنى زحمت اٹھاتى تھيں كہ علىعليه‌السلام بھى ان سے ہمدردى كا اظہار كرتے اور ان كى تعريف كرتے ہوئے نظر آتے ہيں _ اس سلسلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ايك صحابى سے

۴۵

فرمايا:كہ تم چاہتے ہو كہ ميں اپنى اور فاطمہعليه‌السلام كى حالت تم كو بتاؤں ؟

... آپ گھر كے لئے اتنا پانى بھر كر لاتى تھيں كہ آپ كے جسم پر مشك كا نشان پڑجاتا تھا اور اسى قدر چكياں چلاتى تھيں كہ ہاتھ ميں چھالے پڑجاتے تھے گھر كو صاف ستھرا ركھنے ، روٹى اور كھانا پكانے ميں اتنى زحمت برداشت كرتى تھيں كہ آپ كا لباس گرد آلود ہوجاتا تھا _(۱۴)

جناب سيدہعليه‌السلام نے گھر كو ، حضرت عليعليه‌السلام اور اپنے بچوں كے لئے مركز آسائشے بنادياتھا اس حد تك كہ جب حضرت علىعليه‌السلام پر رنج و غم ، دشواريوں اور بے سروسامانيوں كا حملہ ہوتا تھا تو آپعليه‌السلام گھر آجاتے اور تھوڑى دير تك جناب فاطمہعليه‌السلام سے گفتگو كرتے تو آپعليه‌السلام كے دل كو اطمينان محسوس ہونے لگتا _

امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ علىعليه‌السلام گھر كى ضرورت كے لئے لكڑى اور پانى مہيا كرتے گھر ميں جھاڑو ديتے اور فاطمہ چكى پيستيں اور آٹاگوندھ كر روٹى پكاتى تھيں _(۱۵)

ب_ شوہر كى خدمت

جناب فاطمہ وہ بى بى ہيں جنہوں نے غريب ليكن انتہائي با فضيلت انسان كے ساتھ عقد فرمايا_ انہوں نے ابتدا ہى سے اسلام اور اپنے شوہر كے حساس حالات كو محسوس كرليا تھا _ وہ جانتى تھيں كہ اگر علىعليه‌السلام كى تلوار نہ ہوتى تو اسلام كو اتنى پيش قدمى حاصل نہ ہوتى او ريہ بھى جانتى تھيں كہ اسلام كا بہادر سپہ سالار اس صورت ميں ميدان جنگ ميں كامياب ہوسكتا ہے جب گھر كے داخلى حالات كے اعتبار سے اس كى فكر آزاد اور وہ بيوى كى مہر و محبت اور تشويق سے مالامال ہو _ جب علىعليه‌السلام ميدان جنگ سے تھك كر واپس آتے تھے تو ان كو مكمل طور پر بيوى كى مہربانياں اور محبتيں ملتى تھيں _ حضرت فاطمہ انكے جسم كے زخموں كى مرحم پٹى كرتيں ، اور ان كے خون آلود لباس كو دھوتى تھيں _چنانچہ جب حضرت علىعليه‌السلام جنگ احد سے واپس لوٹے تو انہوں نے اپنى تلوار فاطمہعليه‌السلام كودى اور فرمايا اس كا خون دھوڈالو_(۱۶)

آپ زندگى كى مشقتوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى ہم فكر اور ان كى شانہ بشانہ تھيں _ آپ ان كے

۴۶

كاموں ميں ان كى مدد كرتيں ، ان كى تعريف اور تشويق فرماتيں ، ان كى فداكارى اور شجاعت كى ستائشے كرتيں اور ان كى كوششوں اور زحمتوں كے سلسلہ ميں بڑى فرض شناس تھيں _ پورى زندگى ميں كوئي موقعہ بھى ايسا نہيں آياكہ جس ميں آپ نے اپنے شوہر سے دل توڑنے والى كوئي بات كہى ہو يا ان كے دل كورنج پہنچايا ہو _ بلكہ ہميشہ آپ اپنى بے لاگ محبت و عنايت سے ان كى دكھى روح اور تھكے ماندہ جسم كو تسكين ديتى رہى ہيں _حضرت علىعليه‌السلام اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں :

'' جب ميں گھر آتا تھا اورميرى نظر فاطمہ زہرا پر پڑتى تو ميرا تمام غم و غصہ ختم ہوجاتا تھا_''(۱۷)

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام سے سوال كيا تھا كہ آپ نے'' فاطمہ كو كيسا پايا؟ '' تو آپعليه‌السلام نے جواب ميں فرمايا تھا كہ '' فاطمہ اطاعت خداوند عالم ميں ميرى بہترين مددگار ہيں _(۱۸)

ج _ تربيت اولاد

جناب فاطمہ كے فرائض ميں سے ايك اہم فريضہ ،بچوں كى پرورش اور ان كى تربيت تھى _ آپ كو خداوند عالم نے پانچ اولاديں عطا كى تھيں ، حسنعليه‌السلام ، حسينعليه‌السلام ، زينبعليه‌السلام ، ام كلثومعليه‌السلام اور محسنعليه‌السلام _ پانچويں فرزند جن كا نام محسن تھا، وہ سقط ہوگئے تھے_ آپ كے تمام بچے پاكباز ، با اخلاص اورخدا كے مطيع تھے_ جناب فاطمہ نے ايسى اولاد كى پرورش كى كہ جو سب كے سب اسلام كے محافظ اور دين كى اعلى اقدار كے نگہبان تھے _ كہ جنھوں نے اس راستہ ميں اپنى جان دينے كى حد تك مقاومت كا مظاہرہ كيا _ ايك نے صلح كے ذريعہ اور دوسرے نے اپنے خونين انقلاب سے نہال اسلام كى آبيارى كى اور دين اسلام كو بچاليا_(۱۹)

ان كى بيٹيوں نے بھى خاص كر واقعہ كربلا ميں اپنے بھائيوں كى آواز اور امام حسينعليه‌السلام كے پيغام كو كوفہ ، شام اور تمام راستوں ميں دوسروں تك پہنچايا_

۴۷

جناب فاطمہ كى معنوى شخصيت

تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہےں _ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومينعليه‌السلام كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے _ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے(۲۰) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميں كيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟

اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے _ اور اب ہم آپ كى خدمت ميں جناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومينعليه‌السلام كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں :

۱_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہعليه‌السلام جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں _(۲۱)

۲_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي)(۲۲)

۳_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' _(۲۳)

۴_ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' _(۲۴)

۵_ امام جعفر صادق _سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے _(۲۵)

۴۸

حضرت فاطمہ سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مہر و محبت

جناب فاطمہعليه‌السلام كے ساتھ پيغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مہر و محبت اتنى شديد تھى كہ اس كوپيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كى تعجب خيز باتوں ميں سمجھنا چاہئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام امور ميں معيار حق اور ميزان عدل و اعتدال تھے ان كى تمام حديثيں اور ان كے تمام اعمال يہاں تك كہ تقرير پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( يعني: ہر وہ كام كہ جس كو ديكھ كر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى خاموشى سے اس كى تصديق كرديتے) بھى شريعت كا حصہ اور حجت ہے ، اور ضرورى ہے كہ يہ چيزيں ، سارى امت كے اعمال كا قيامت تك نمونہ قرار پائيں _ اس نكتہ پر توجہ كر لينے كے بعد ،جناب فاطمہ كى معنوى منزلت اوركرداركى بلندى كو زيادہ بہتر طريقہ سے سمجھا جاسكتا ہے _

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاں اور بھى بيٹياں تھيں(۲۶) اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے خاندان حتى غيروں كے ساتھ بھى بڑى مہربانى اور نيكى سے پيش آتے تھے ليكن فاطمہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خصوصى محبت تھى اور فرصت كے مختلف لمحات ميں اس محبت كا صريحاً اعلان اور اس كى تاكيد فرماتے تھے _ يہ اس بات كى سند ہے كہ فاطمہ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھرانے كى سرنوشت ،اسلام كے ساتھ ساتھ ہے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت فاطمہ كا تعلق صرف ايك باپ اوربيٹى كا ہى نہيں ہے _ بلكہ پورى كائنات كے لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عملى تبليغ كا شبعہ فاطمہ زہرا كى عملى سيرت سے ہى مكمل ہوتا ہے_

اس مقام پر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حضرت فاطمہ سے مہر و محبت كے چند نمونوں كا ذكر كردينا مناسب ہے _ يہ نمونے ان نمونوں كے علاوہ ہوں گے كہ جو پہلے بيان ہوچكے ہيں _

۱_ امام محمد باقرعليه‌السلام اور امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہميشہ سونے سے پہلے فاطمہ كے چہرے كا بوسہ ليتے ، اپنے چہرہ كو آپ كے سينہ پر ركھتے اور فاطمہعليه‌السلام كيلئے دعا فرماتے_(۲۷)

۴۹

۲_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليكر فرمايا:

'' جو انھيں پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا ( وہ پہچان لے كہ ) يہ فاطمہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيٹى ہيں ، يہ ميرے جسم كا ٹكر ااور ميرا قلب و روح ہيں _ جو ان كو ستائے گا وہ مجھے ستائے گا اور جو مجھے ستائے گا وہ خدا كو اذيت دے گا _''(۲۸)

۳_ امام جعفر صادق _فرماتے ہيں :

'' رسول خدا،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ كو بوسہ ديتے تھے ، جناب عائشےہ نے اعتراض كيا ،تو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا ، ميں جب معراج پر گيا اور جنت ميں پہنچا تو ميں نے طوبى كے پھل كھائے اور اس سے نطفہ پيدا ہوا _ اور جب ميں زمين پر پلٹ كر آيا اور خديجہعليه‌السلام سے ہمبستر ہوا تو فاطمہ كا حمل قرار پايا_ اس لئے جب ميں فاطمہ كو بوسہ ليتا ہوں تو مجھے ان سے شجرہ طوبى كى خوشبو محسوس ہوتى ہے_''(۲۹)

ايمان و عبادت فاطمہ

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كے ايمان كے بارے ميں فرمايا كہ : '' ان كے دل كى گہرائي اور روح ميں ايمان اس طرح نفوذ كئے ہوئے ہے كہ عبادت خدا كيلئے وہ اپنے آپ كو تمام چيزوں سے جدا كر ليتى ہيں(۳۰) ''

امام حسن مجتبى _فرماتے ہيں كہ ميں نے اپنى والدہ ماجدہ، حضرت فاطمہعليه‌السلام زہرا كو ديكھا كہ شب جمعہ محراب ميں سپيدہ سحرى تك عبادت' ركوع و سجود ميں مشغول رہتى تھيں _ ميں نے سنا كہ آپ صاحب ايمان مردوں اور عورتوں كے لئے تودعا كرتى تھيں _ مگر اپنے لئے كوئي دعا نہ مانگتى تھيں _ ميں نے ان سے عرض كيا كہ جس طرح آپ دوسروں كے لئے دعا كرتى ہيں ويسے ہى اپنے لئے دعا كيوں نہيں فرماتيں ؟ فرمانے لگيں ميرے لال، پہلے ہمسايہ پھر اپنا گھر(۳۲) _

حسن بصرى كہا كرتے تھے كہ امت اسلامى ميں فاطمہ سے زيادہ عبادت كرنيوالا ،كوئي اور پيدا نہيں ہوا وہ عبادت حق تعالى ميں اس قدر كھڑى رہتى تھيں كہ ان كے پائے مبارك ورم كر جاتے تھے(۳۳) _

۵۰

فاطمہعليه‌السلام باپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے وقت'ان كا سراقدس حضرت عليعليه‌السلام كى گود ميں تھا اور حضرت فاطمہعليه‌السلام اور حسن و حسين آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ اقدس كو ديكھ ديكھ كر رو رہے تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھيں بند اور زبان حق خاموش ہوچكى تھى اور روح عالم ملكوت كو پرواز كر چكى تھي، رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے سبب، حضرت فاطمہ زہراءعليه‌السلام پر سارے جہاں كا غم و اندوہ ٹوٹ پڑا، فاطمہعليه‌السلام جنہوں نے اپنى عمر كو مصيبت و آلام ميں گذارا تھا اور تنہا انكى دلى مسرت باپ كا وجود تھا اس تلخ حادثہ كے پيش آنے كے بعد آپكى سب اميديں اور آرزوئيں تمام ہوگئيں _

''سقيفہ بنى ساعدہ'' ميں مسلمانوں كے ايگ گروہ كے اجتماع كى خبر

ابھى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا جسم اقدس زمين پرہى تھا كہ حضرت ابوبكر كى خلافت و جانشينى كى تعيين كيلئے لوگوں كے اجتماع سے فاطمہعليه‌السلام كے ذہن كو جھٹكا لگا، اس غم و غصہ كى كيفيت ميں تھكے ہوئے اعصاب كو چوٹ پہنچي_

فاطمہ كہ جنہوں نے توحيد و خداپرستي، مظلوم كے دفاع اور ظلم و ستم سے مقابلہ كرنے كے لئے تمام سختيوں ، دشواريوں ، بھوك اور وطن سے دور ہوجانے كى مصيبت كو برداشت كيا تھا وہ اس انحرافى روش كو برداشت نہ كرسكيں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام زہراء كے مبارزات و مجاہدات

فاطمہعليه‌السلام اور علىعليه‌السلام جب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كفن و دفن سے فارغ ہوئے اور مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں انجام شدہ عمل سے دوچار ہوئے تو آپ لوگوں نے مدبرانہ اور زبردست مبارزہ كا ارادہ كيا تاكہ اسلام كو ختم ہونے اور مٹ جانے كے خطرہ سے بچاليا جائے_ ان كے مبارزات كے چند مراحل ،ملاحظہ ہوں _

۵۱

پہلا مرحلہ :

حضرت علىعليه‌السلام نے يہ ارادہ كيا كہ خليفہ وقت كى بيعت نہيں كريں گے اور اس طرح آپعليه‌السلام نے سقيفہ كى انتخابى حكومت كى روش سے اپنى مخالفت كا اظہار كيا_ جناب فاطمہ زہراءعليه‌السلام نے بھى اس نظريہ كى تائيد فرمائي اور اس بات كا مصمم ارادہ كر ليا كہ شوہر پر آنے والے ہر ممكنہ خطرہ اور حادثہ كا واقعى دفاع كريں گي_

انہوں نے اپنى اس روش كے ذريعہ ثابت كرديا كہ تمام جنگيں تير و تلوار سے ہى نہيں ہوتيں ، سب سے پہلے اسلام كا اظہار كرنے والے شخص كے خاندان كے افراد اور قريبى افراد كى بے اعتنائي اور حكومت وقت كى تائيد نہ كرنا اس كے غير قانونى ہونے كى سب سے بڑى اور بہترين دليل ہے_

جناب فاطمہ جانتى تھيں كہ علىعليه‌السلام كے حق كے دفاع ميں اس طرح كى جنگ كا نتيجہ رنج اور تكليف ہے_ ليكن انہوں نے تمام دكھوں اور تكليفوں كو خندہ پيشانى سے قبول كيا اور اس جنگ كو آخرى مرحلہ تك پہنچايا_

دوسرا مرحلہ :

فاطمہ و على عليہما السلام ،جناب امام حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام كى انگلى پكڑے ہوئے مدينہ كے بزرگوں اور نماياں افراد كے پاس جاتے اور ان كو اپنى مدد كى دعوت ديتے اور انہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وصيتوں اور ارشادات كو ياد دلاتے تھے(۳۳) _

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا فرماتى تھيں '' اے لوگو كيا ميرے باپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو خلافت كے لئے معين نہيں فرمايا تھا؟ كيا تم ان كى قربانيوں كوبھول گئے؟ كيا ميرے باپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ نہيں فرمايا تھاكہ ، ميں تمہارے درميان سے جارہا ہوں مگر دو گرانقدر چيزيں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسك كرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ايك كتاب خدا ،اور دوسرے ميرے اہل بيتعليه‌السلام ہيں ، اے لوگو كيا يہ مناسب ہے كہ تم ہم كو تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ اٹھالو؟(۳۴) ''

۵۲

تيسرا مرحلہ:

زمام حكومت سنبھالنے كے بعد حضرت ابوبكر نے جناب فاطمہ زہراء سے ''فدك ''(۳۵) لينے كا ارادہ كيا اور حكم ديا كہ فدك ميں كام كرنے والوں كو نكال باہر كيا جائے اور ان كى بجائے دوسرے كاركنوں كو وہاں مقرر كر ديا(۳۶) _

فدك كو قبضہ ميں كرنے كے وجوہات ميں سے ايك وجہ يہ تھى كہ وہ لوگ اس بات كو بخوبى جانتے تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے ذاتى فضائل و كمالات ،ان كاعلمى مقام اور ان كى فداكارياں قابل انكار نہيں ہيں ، اوران كے بارے ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وصيتيں بھى لوگوں كے درميان مشہور ہيں اگر ان كى اقتصادى حالت بھى اچھى ہوگئي اور ان كے پاس پيسے آگئے تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كے ساتھ ہوجائے اور پھر خلافت كے لئے خطرہ پيدا ہوجائے_ اس نكتہ كو ان باتوں ميں ديكھا جاسكتا ہے جو حضرت ابوبكر كو مخاطب كركے حضرت عمر نے كہى ہيں : '' لوگ دنيا كے بندے ہيں اور سوائے دنيا كے انكا كوئي مقصد نہيں ہے اگر خمس و بيت المال اور فدك كو علىعليه‌السلام سے چھين لو تو پھر لوگ خود بخود ان سے على حدہ ہوجائيں گے(۳۷) _

جب جناب فاطمہعليه‌السلام ، ابوبكر كے اس اقدام سے مطلع ہوئيں تو انہوں نے سوچا كہ اگر اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ يہ سمجھ بيٹھيں گے كہ حق سے چشم پوشى اور ظلم كے بوجھ كے نيچے دب جانا ايك پسنديدہ كام ہے_ يا يہ تصور كريں گے كہ حق ،ابوبكر كے ساتھ ہے_ جيسا كہ اس وقت ان تمام مبارزوں كے باوجود حضرت ابوبكر كے پيروكار، ابوبكر كى اس روش كو حق بنا كر پيش كرتے ہيں _

ان سب باتوں كے پيش نظر ،جناب فاطمہ زہراء س نے ممكنہ حد تك اپنے حق كے دفاع كا ارادہ كيا_

البتہ جس بى بىعليه‌السلام كا باپ تازہ ہى دنيا سے رخصت ہوا ہو اورجس كا بچہ تازہ ہى سقط ہوا ہو نيز جس نے اور بہت سے مصائب برداشت كئے ہوں اس كے لئے يہ سب كام سہل اور آسان نہيں

۵۳

تھے، ان حادثات ميں سے ايك حادثہ ہى ايك عورت كو ہميشہ كيلئے ستمگروں سے مرعوب كرنے كے لئے كافى تھا_ ليكن فاطمہعليه‌السلام ، كہ جنھيں فداكارى اور شجاعت كى خو ماں اور باپ سے وراثت ميں ملى تھيں _ اور جنھوں نے فداكار افراد كے درميان زندگى گذارى تھي، انھيں يہ چھوٹى چھوٹى دھمكياں خو فزدہ نہيں كر سكتى تھيں _

اس مرحلہ ميں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا كے مبارزات كا خلاصہ مندرجہ ذيل ہے_

۱_ بحث و استدلال :

جناب فاطمہ (س) نے حضرت ابوبكر سے گفتگو كے دوران قرآنى آيات كى شہادت وگواہياں پيش كركے برہان و استدلال سے ثابت كيا كہ فدك ان كى ملكيت ہے اورخلفاء كى شيزى كا يہ اقدام غير قانونى ہے_

۲_ مسجد بنويصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں تقرير:

جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے دلائل اور براہين كے ذريعہ خلافت كى مذمت اور اپنى حقانيت ثابت كرنے كے بعد يہ ارادہ كيا كہ مسجد ميں جائيں اور لوگوں كے سامنے حقائق كو بيان كريں _

جناب سيدہ سلام اللہ عليہا نے مسجد ميں مہاجرين و انصار كے كثير مجمع كے درميان ايك مفصل خطبہ ديا آپعليه‌السلام نے لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دي_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كى رسالت كى تعريف كى فلسفہ احكام كے بارے ميں گفتگو فرمائي، ولايت اور رہبر و قائد كى عظمت كى تشريح فرمائي اور دوسرے بہت سے اہم مسائل پر روشنى ڈالنے كے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئيں كہ جو كہنے كى باتيں تھيں ميں نے وہ كہديں _

آخر ميں فرمايا:

'' اے لوگو جو كہنا چاہئے تھا وہ ميں كہہ چكي، باوجود اس كے كہ مجھے معلوم ہے كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے، تمہارے بنائے ہوئے نقشے مجھ سے پوشيدہ نہيں ہيں ليكن ميں كيا كروں يہ ايك درد

۵۴

دل تھا جس كو ميں نے شدت غم كى بنا پر بيان كرديا تا كہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے_(۳۸)

۳_ ترك كلام:

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے مبارزہ كو جارى ركھنے كے لئے ترك كلام كو منتخب فرمايا اور حضرت ابوبكر سے كھلے عام كہديا كہ اگر فدك كو واپس نہ كروگے تو ميں جب تك زندہ رہوں گى تم سے كلام نہيں كرونگى ، جہاں بھى ابوبكر سے سامنا ہوتا اپنا رخ ان كى طرف سے پھير ليتيں اور ان سے بات نہ كر تيں(۳۹) _ اس بى بىعليه‌السلام نے جو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قول كے مطابق رضائے خدا كے بغير كبھى غضبناك نہيں ہوتى تھيں ، اپنى اس روش كے ذريعہ امت كے جذبات و احساسات كى موج كو خلافت كى مشينرى كے خلاف ابھارا_

۴_ رات ميں تدفين:

نہ صرف يہ كہ شہزادى نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات تك مبارزہ كو جارى ركھا بلكہ آپ نے اسے قيامت كى سرحدوں سے ملاديا_ اپنے شوہر حضرت على كو وصيت كرتے ہوئے كہا كہ '' اے علىعليه‌السلام مجھ كو رات ميں غسل دينا، رات ميں كفن پہنانا اور پوشيدہ طور پر سپرد خاك كردينا، ميں اس بات سے راضى نہيں ہوں كہ جن لوگوں نے مجھ پر ستم كيا ہے وہ ميرے جنازہ كى تشييع ميں شريك ہوں _حضرت علىعليه‌السلام نے بھى شہزادى كى وصيت كے مطابق ان كو راتوں رات دفن كرديا اور ان كى قبر كو زمين كے برابر كرديا اور چاليس نئي قبروں كے نشان بناديئےہ كہيں ان كى قبر پہچان نہ لى جائے(۴۰) _

شہادت

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كا رنج اور خلافت اميرالمؤمنينعليه‌السلام غضب كرنے والوں كى روش نے بھى

۵۵

جناب فاطمہعليه‌السلام كے وجود اور ان كے جسم و جان كو سخت تكليف پہنچائي ، آپعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد، مسلسل گريہ كناں اور غمزدہ رہتيں _كبھى با پ كى قبر كى زيارت كو تشريف لے جاتيں اور كبھى شہداء كے مزار پر جاكر گريہ فرماتيں(۴۱) _ نيز گھر ميں گريہ و عزادارى ميں مصروف رہتى تھيں _

آخر كار ، شہزادى دو عالم جاكر كى طاقت كو كم كردينے والے غم اور ديگر پہنچنے والے صدموں نے آپ كو مضمحل اور صاحب فراش بناديا _ بالاخر انہيں صدمات كے نتيجے ميں آپ ۱۳ جمادى الاولى(۴۲) يا سوم جمادى الثانيہ(۴۳) - ۱۱ ھ ق يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے ۷۵ يا ۹۵ دن بعد، دنيا سے رخصت ہوگئيں اورآپ نے اپنى شہادت سے اپنے پيروكاروں كے دلوں كو ہميشہ كيلئے غم والم ميں مبتلا كرديا _

۵۶

سوالات

۱_ جناب فاطمہ زہراءعليه‌السلام كى ولادت كس تاريخ كو ہوئي اور مكہ ميں آپ كا بچپن كيسے ماحول اور كن حالات ميں گذرا؟

۲_جناب خديجہ (عليہا سلام) كے انتقال كے بعد جناب فاطمہ زہراعليه‌السلام كا باپ كے ساتھ كيسا سلوك رہا اور ''ام ابيہا'' آپ كا لقب كيوں پڑا؟

۳_حضرت علىعليه‌السلام سے آپ كى شادى كس سن اور كس تاريخ ميں ہوئي اور اس شادى كى خصوصيت كيا تھي؟

۴_ايك بيوى كے عنوان سے علىعليه‌السلام كے ساتھ جناب معصومہعليه‌السلام كا كيا سلوك رہا؟

۵_جناب سيدہ كى عبادت كا ايك نمونہ كا ذكر كيجئے؟

۶_سقيفہ كى كاروائي اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے مسئلہ ميں جناب فاطمہعليه‌السلام كا كيا رد عمل تھا؟

۷_خلافت كى مشينرى كے ساتھ آپ كے مبارزہ كى كيا روش تھي؟ اس كے دو نمونے بيان فرمايئے

۵۷

حوالہ جات

۱ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۳/ص ۳۵۷، بحارالانوار جلد ۴۳ ص ۶_ دلائل الامامہ ص ۱۰ _ اصول كافى جلد ۱_

۲ الروضہ الانف جلد ۱ ص ۲۱۳، منقول از بانوى نمونہ اسلام مصنفہ ابراہيم امينى ص ۱۸_

۳ و۴ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۱ ص ۱۷۴_

۵ بحارالانوار جلد ۲۰ ص ۸۸، الصحيح من سيرة النبى جلد ۴ ص ۳۲۴_

۶ كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱ ص ۴۵۷_

۷ كشف الغمہ فى معرفة الائمہ جلد ۱ ص ۴۵۷_

۸ امالى طوسى جلد ۲ ص ۱۴_

۹ جناب معصومہ كى شادى كى تاريخ ميں اختلاف ہے سيد ابن طاؤس نے مرحوم شيخ مفيد كى كتاب حدائق الرياض ميں اقبال كے مطابق ازدواج كى تاريخ ۲۱ محرم ۳ ھ نقل كى ہے _ ليكن مصباح ميں اول ذى الحجہ مانتے ہيں _ امالى ميں آيا ہے: فاطمہ كى شادى عثمان كى بيوى رقيہ كى وفات كے سولہ دن بعد اورجنگ بدر سے واپسى پر ہوئي بحار جلد ۴۳/۹۳_ ۹۷_

۱۰ '' امرہا الى ربہا'' كشف الغمہ جلد ۱ ص ۳۵۳ _ مطبوعہ تبريزبحار جلد ۴۳ص ۱ _

۱۱ دلائل الامامہ ص ۱۹_

۱۲ بحار ۴۳/۱۲۷_

۱۳ كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱ ص ۳۶۰_ ۳۶۹_ بحار جلد ۴۳ ص ۱۲۷_ ص ۱۳۳_

۱۴ بحار الانوار جلد ۴۳/۸۲_

۱۵ بحار جلد ۴۳/۱۵۱ منقول از كافى ''... كانَ اَميْرُ الْمُؤمنيْنَ عليه‌السلام يَحْتَطبُ وَ يَسْقيْ وَ يَكنُسُ وَ كانَتْ فاطمَةُ عليه‌السلام تَطْحَن و تَعْجنُ و تَخْبزُ''

۱۶ سيرة ابن ہشام جلد ۳ ص ۱۰۶، الصحيح من سيرة النبى جلد ۴ ص ۳۲۴_ بحار جلد ۲ ص ۸۸_

۱۷ مناقب خوارزمى ، ص ۲۵۶_

۱۸ بحار الانوار جلد ۴۳/۱۱۱ '' نعم الصون على طاعة اللہ''_

۱۹ يہ حصہ كتاب '' بانوى نمونہ اسلام '' مصنفہ ابراہيم امينى كا اقتباس ہے_

۵۸

۲۰ بحار الانوار جلد ۳۴/۱۹_ و۲۶كشف الغمہ جلد ۱مطبوعہ تبريز /۴۵۸، الغدير جلد ۳/۲۰ _

۲۱ امالى مفيد ص ۳، امالى طوسى جلد ۱ ص ۸۳، كشف الغمہ جلد ۱ ص ۴۵۶_

۲۲ بحار جلد ۴۳/۹_ ۲۶ ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد۳ ص ۳۲۲_

۲۳ بحار جلد ۴۳/۹_ كشف الغمہ جلد ۱ ص ۴۶۷ _

۲۴ بحار جلد ۴۳/۱۹_ ۲۶ ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص ۴۷۲_

۲۵ بحار جلد ۴۳ ص۱۲، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص ۱۸۱ ''قال : سئلت ابا عبدالله عن فاطمه ، لمَ سميّت زهرائ؟ فقال: لانّها كانت اذ اقامت فى محرابها زهر نورها لاهل السماء كما يزهر نور الكواكب لاهل الارض'' _

۲۶ فاطمہ كے علاوہ پيغمبركى ديگر بيٹيوں كا ثبوت اہل سنت كى كتابوں سے ملتا ہے جبكہ اكثر شيعہ علماء نے تفصيلى تحقيق كے بعد يہ سمجھا ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صرف ايك ہى بيٹى فاطمہ تھيں _

۲۷ بحار الانوار جلد ۴۳/۴۲ ، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۳/۳۳۴ '' كان النّبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لا ينام حتّى يقبل عرض وَجہ فاطمةعليه‌السلام يَضَعُ وَجَہَہْ بين ثديى فاطمة و يدعولہا ...'' _

۲۸ كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱ / ۴۶۷، فصول المہمہ /۱۴۶، بحار جلد ۴۳/۵۲، الغدير جلد ۳/۲۰ ''من عرف هذه فقد عرفها و من لم يعرفها فهى فاطمة ينت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و هى بضعة منّى و هى قلبى الذى بين جنبى فمن آذاها فقد آذانى و من آذانى فقد آذى الله _

۲۹ بحار الانوار جلد ۴۳/۶ منقول از تفسير على بن ابراہيم ، كشف الغمہ جلد ۱ ص ۴۵۹_

۳۰ بحار ج ۳۳/ ۴۶_

۳۱ بحار الانوار جلد ۴۳/ ۸۲، كشف الغمہ مطبوعہ تبريزى جلد ۱ ص ۴۶۸ '' فقالت يا بنى الجار ثم الدار''_

۳۳ بحار الانوار جلد ۴۳/ ۷۶، ۸۴ ''ما كان فى هذه الامة اعبد من فاطمة كانت تقوم حتى تورّم قدماها'' _

۳۳ الامامة و السياسة جلد ۱ ص ۱۹_

۳۴ ''بانوئے نمونہ اسلام'' مصنفہ ابراہيم امينى ص ۱۴۴_

۳۵ ''فدك'' مدينہ سے چند فرسخ كے فاصلہ پر ايك ديہات تھا جو ۷ ھ ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور يہوديوں كے درميان صلح كے معاہدہ ميں بغير كسى خونريزى كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ملا تھا اور يہ صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

۵۹

خدا كے حكم كے مطابق فدك كو اپنى بيٹى فاطمہ (س) كو بخش ديا تھا_

۳۶ تفسير نور الثقلين جلد ۳/ ۱۵۴ مطبوعہ حكمت قم اصول مالكيت جلد ۲_ موضوع فدك و الاحصہ ملاحظہ ہو_

۳۷ ناسخ التواريخ ج زہراء / ۱۲۲_

۳۸ كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱ ص ۴۹۱ ، احتجاج طبرسى جلد ۱ ص ۱۴۱''ألاقد قلت ما قلت هذا على معرفة منى بالجذلة التى خامرتكم و العذرة التى استشعرتها قلوبكم ولكنّها فيضة النفس و نفثة الغيظ ...'' _

۳۹ شرح ابن ابى الحديد جلد ۶/ ۴۶ ، كشف الغمہ جلد ۱/ ۴۷۷_

۴۰ دلائل الامة طبرى /۴۶، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۳/۳۶۳_ يہ حصہ ابراہيم امينى كى كتاب ''بانوى نمونہ اسلام'' كا اقتباس ہے_

۴۱ بحار الانوار جلد ۴۳/۱۹۵_

۴۲ بحار الانوار ج ۴۳ /۱۹۵_

۴۳ كشف الغمہ جلد ۱/۵۰۳ دلائل الامامہ / ۴۵ ، بحار ۴۳/۱۹۶ منقول ا ز اقبال الاعمال_

۶۰