تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 146683
ڈاؤنلوڈ: 3020


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146683 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

ولادت

تين شعبان ۴ھ _ق كو علىعليه‌السلام و پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دختر گرامى كے دوسرے بيٹے كى پيدائشے ہوئي_(۱)

ان كانام ركھنے كى رسم بھى ان كے بھائي حسنعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام كى طرح پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعہ انجام پائي، رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا كے حكم كے مطابق اس نومولود كا نام حسين ركھا _(۲)

ولادت باسعادت كے ساتويں دن جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے اپنے فرزند كے لئے ايك بھيڑ عقيقہ كے عنوان سے قربان كى اور ان كے سركے بالوں كو تراش كر بالوں كے وزن كے برابر چاندى صدقہ ميں دي_(۳)

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دامن ميں

حسينعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام نے ا پنے بچپن كے چھ سال اور چند ماہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دامن ميں پرورش پائي اور منبع فياض رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے علم و معرفت حاصل كيا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، امام حسينعليه‌السلام سے جو اظہار محبت و لطف فرماتے تھے وہ شيعوں كے تيسرے رہنما كى عظمت و بلندى كو بيان كرتا ہے_

حضرت سلمان فارسى فرماتے ہيں كہ ميں نے ديكھا كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے حسينعليه‌السلام كو اپنے زانو پر بيٹھا ركھا ہے اور بوسے دے رہے ہيں اور فرماتے ہيں كہ تو سيد و سردار ہے، بڑے سردار كا بيٹا ہے ، بڑے سرداروں كا باپ ہے، تو امام ، فرزند امام اور ابوالائمہ ہے _ تو حجت خدا فرزند حجت خدا

۸۱

اور جو نو افراد حجت خدا ہيں انكا باپ ہے انكا خاتم ان كا قائم ہوگا_(۴)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا گيا كہ آپ اپنے اہل بيتعليه‌السلام ميں سے كس كو زيادہ دوست ركھتے ہيں تو فرمايا: حسن و حسين عليہما السلام كو _(۵)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بار بار حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام كو سينہ سے لگاتے ، ان كى خوشبو سونگھتے، بوسہ ديتے اور فرماتے تھے حسن و حسين( عليہما السلام)جوانان بہشت كے سردار ہيں _(۶)

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امام حسينعليه‌السلام كے درميان معنوى اور وراثتى رابطہ كو بيان كرنے كے لئے بلندترين قريب ترين اور واضح ترين جملہ، اس جملہ كو كہا جاسكتا ہے جس ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ حسينعليه‌السلام مجھ سے ہے اور ميں حسين سے ہوں _''(۷)

والد ماجد كے ساتھ

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى آنكھيں بند ہوجانے كے بعد امام حسينعليه‌السلام نے اپنى عمر مبارك كے تيس سال اپنے پدربزرگوار كے ساتھ گذارے _اس پورى مدت ميں آپ دل و جان سے پدر عاليقدر كى اطاعت كرتے رہے اور باپ كى پانچ سالہ حكومت كے زمانہ ميں امام حسينعليه‌السلام اسلام كے مقاصد كو آگے بڑھانے ميں ايك جاں باز فداكار كى طرح اپنے بڑے بھائي كى مانند كوشش كرتے رہے اور جمل و صفين و نہروان كى جنگوں ميں شريك رہے_(۸)

بھائي كے ساتھ

حضرت علىعليه‌السلام كى شہادت كے بعد، علىعليه‌السلام كے بڑے بيٹے حسن بن على عليہما السلام كى طرف امامت و رہبرى منتقل ہوگئي_ امام حسينعليه‌السلام جو مكتب رسالت و ولايت كے پروردہ تھے، اپنے بھائي كے ساتھ ہم فكر تھے _ جب اسلام اور مسلمانوں كے معاشرہ كے مصالح كے پيش نظر امام حسن _معاويہ كى

۸۲

صلح كى پيشكش كو قبول كرنے كے لئے مجبور ہوئے تو اس وقت امام حسينعليه‌السلام بھائي كے غموں ميں شريك تھے _ اور چونكہ آپ جانتے تھے كہ يہ صلح، اسلام اور مسلمانوں كى بھلائي كيلئے ہوئي ہے اس لئے آپ نے ہرگز اعتراض نہيں كيا اور ہميشہ امام حسنعليه‌السلام كے موقف كا دفاع كرتے رہے_(۹)

ايك دن معاويہ، امام حسن و امام حسين عليہما السلام كے سامنے امام حسنعليه‌السلام اور ان كے پدر بزرگوار اميرالمومنين كى بدگوئي كيلئے لب كشاہوا_ امام حسينعليه‌السلام اٹھے تا كہ اس كى اہانت كا جواب ديں ليكن آپ كے بھائي نے خاموش رہنے كا اشارہ كيا اور پھر خود ہى انہوں نے معاويہ كو بہت مناسب اور جھنجھوڑنے والے بيان كے ذريعہ خاموش كرديا_(۱۰)

اخلاقى فضائل و مناقب

امام حسينعليه‌السلام كى مكمل حق طلب اور خداپرست ۵۶ سالہ زندگى پر اگر اجمالى نظر ڈالى جائے تو ہم كو پتہ چلے گا كہ آپعليه‌السلام كى زندگى ہميشہ پاك دامني، خدا كى بندگي، محمدىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پيغام كى نشر و اشاعت اور انسانيت كى بلند قدروں كى حفاظت ميں گذرى ہے_

آپ كو پروردگار كى نماز و بندگي، قرآن، دعا اور استغفار سے بڑا شغف تھا_ كبھى كبھى شب و روز ميں سينكڑوں ركعت نماز پڑھتے تھے،(۱۱) حتى كہ اپنى زندگى كى آخرى رات ميں بھى عبادت و دعا سے دست بردار نہيں ہوئے اور اس رات آپعليه‌السلام نے دشمنوں سے مہلت مانگى تا كہ خلوت ميں اپنے خدا سے راز و نياز كرسكيں اور فرمايا: خدا جانتا ہے كہ ميں نماز تلاوت قرآن اور دعا و استغفار كو بہت زيادہ دوست ركھتا ہوں _(۱۲)

ابن اثير نے لكھا ہے كہ حسينعليه‌السلام بہت روزے ركھتے_ نمازيں پڑھتے حج كو جاتے، صدقہ ديتے اور تمام اچھے كاموں كو انجام ديتے تھے_(۱۳)

حضرت اباعبداللہ الحسينعليه‌السلام زيارت خانہ خدا كيلئے بارہا پيدل تشريف لے گئے اور حج كا

۸۳

فريضہ ادا كيا_(۱۴)

امام حسينعليه‌السلام كى شخصيت ايسى پر شكوہ اور باعظمت تھى كہ جب آپعليه‌السلام اپنے بھائي امام حسن مجتبى _كے ساتھ حج كے لئے پيدل جارہے تھے تو تمام بزرگ اور اسلام كے نماياں افراد آپعليه‌السلام كے احترام ميں مركب اور سوارى سے اتر پڑتے اور آپعليه‌السلام كے ہمراہ پيدل راستہ طے كرتے_(۱۵)

امام حسينعليه‌السلام كا ا حترام اور ان كى قدردانى كا معاشرہ اس لئے قائل تھا كہ آپعليه‌السلام ہميشہ لوگوں كے ساتھ زندگى بسر كرتے اور دوسروں كى طرح ايك معاشرہ كى نعمتوں اور مصيبتوں ميں شامل رہتے تھے اور خداوند عالم پر پُر خلوص اعيان كى بناپر آپ عوام كے غم خوار اور مددگار تھے_

آپ ايك ايسى جگہ سے گذر ے جہاں كچھ فقير اپنى اپنى چارديں بچھائے ہوئے بيٹھے تھے اور سوكھى روٹيوں كے ٹكڑے كھارہے تھے _ امام حسينعليه‌السلام كو ان لوگوں نے دعوت دى تو آپ نے ان كى دعوت قبول كى اور ان كے پہلو ميں بيٹھ گئے اور پھر آپ نے يہ آيت پڑھي:انَّه لا يحب المستكبرين _(۱۶)

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ : '' ميں نے تمہارى دعوت قبول كى اب تم بھى ميرى دعوت قبول كرو_ وہ لوگ امام حسينعليه‌السلام كے ساتھ ان كے گھر آئے_ امامعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جو كچھ گھر ميں ہے وہ مہانوں كے لئے لايا جائے_(۱۷)

اس طرح آپ نے معاشرہ كو تواضع اور انسان دوستى كا د رس ديا_

اس حصّہ كو علائلى كى اس بات كے خلاصہ كے ساتھ ختم كرتا ہوں جو انہوں نے اپنى كتاب ميں ابا عبداللہ الحسينعليه‌السلام كے بارے ميں كہى ہے وہ فرماتے ہيں كہ : '' تاريخ ميں ہم كو ايسے بزرگ افراد نظر آتے ہيں جن ميں ہر ايك نے كسى نہ كسى جہت اور كسى نہ كسى محاذ پر اپنى عظمت و بزرگى كو عالمى حيثيت دى ہے_ ايك شجاعت ميں تو دوسرا زہد ميں تو تيسرا سخاوت ميں

ليكن ا مام حسين كى عظمت و بزرگى كا ہر پہلو فراز تاريخ كى عظمت كو دوبالا كرنے والا ہے_ گويا آپعليه‌السلام ميں تمام خوبياں اور بلندياں جمع ہوگئي تھيں _(۱۸)

۸۴

امام حسينعليه‌السلام معاويہ كے زمانہ ميں ابوعبداللہ الحسن اپنے پدر بزرگوار كى شہادت كے بعد خدا كے حكم اور اپنے بھائي كى وصيت سے اسلامى معاشرہ كى قيادت اور امامت كے منصب پر فائز ہوئے آپ نے اپنى امامت كے تقريباً دس سال معاويہ كى حكومت كے زمانہ ميں گزارے اس مدت ميں آپ نے امام حسنعليه‌السلام كى روش كو قائم ركھا اور جب تك معاويہ زندہ رہاآپعليه‌السلام نے كوئي مؤثر اقدام نہ كيا_

امام حسين اگر چہ يہ ديكھ رہے تھے كہ معاويہ اسلام ہى كى طاقت سے اسلامى معاشرہ كى بنياد اور قوانين الہى كو بدل ڈالنے كى كوشش كر رہا ہے_ چنانچہ آپ كو قلق بھى تھا _ ليكن جانتے تھے كہ اگر اس كے مقابلہ كے لئے اٹھا جائے تو ہر مفيد اقدام و تحريك ( اور كوئي بھى نتيجہ حاصل ہونے ) سے پہلے آپ كو قتل كرديا جائے گا_

كبھى تو آپعليه‌السلام معاويہ كے حركات و اعمال پر صرف تنقيد كرتے اور لوگوں كو آئندہ كے لئے اميد دلاتے اور اس تمام مدت ميں جب معاويہ ، يزيد كى ولى عہدى كے لئے لوگوں سے بيعت لے رہا تھا امام حسينعليه‌السلام نے شدّت سے مخالفت كى اور يزيد كى بيعت كے لئے ہرگز آمادہ نہيں ہوئے يہاں تك كہ كبھى معاويہ كو سرزنش كرتے اور تنقيدى خط لكھتے تھے_(۱۹)

قيام حسيني

معاويہ كى موت كے بعد خلافت_ جو كہ سلطنت ميں تبديل ہوگئي تھي_ اس كے بيٹے يزيد كى طرف منتقل ہوگئي_ زمام حكومت كو ہاتھوں ميں ليتے ہى يزيد نے اپنے اركان سلطنت كو مضبوط بنانے كيلئے عالم اسلام كى اہم شخصيتوں اور جانے پہچانے لوگوں سے اپنى بيعت لينے كا ارادہ كيا_ اس غرض سے اس نے حاكم مدينہ كے نام خط لكھا اور حكم ديا كہ امام حسينعليه‌السلام سے ميرى بيعت لے اور اگر وہ مخالفت كريں تو ان كو قتل كردو_

۸۵

مدينہ كے گورنر نے حكم كے مطابق بيعت كا سوال امامعليه‌السلام كے سامنے ركھا، امام حسينعليه‌السلام نے فرمايا: ''انالله و انا اليه راجعون و على الاسلام السلام اذا بليت الامة براع: مثل يزيد (۲۰) '' يعنى جب يزيد جيسے لوگ ( شراب خوار، جواري، بے ايمان اور ناپاك) حكومت اسلامى كى مسند پر بيٹھ جائيں تو اسلام پر فاتحہ پڑھ دينا چاہيے_

امامعليه‌السلام نے بيعت كى پيش كش كو ٹھكرانے كے بعد يہ سمجھ ليا كہ اگر مدينہ ميں رہے تو آپعليه‌السلام كو قتل كرديا جائے گا_ لہذا رات كے وقت پوشيدہ طور پر ۲۸ رجب ۶۰ ھ كو اپنے يار و انصار كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(۲۱)

آپ كے مكہ ميں پہنچنے اور يزيد كى بيعت سے انكار كرنے كى خبر مكہ اور مدينہ كے لوگوں كے درميان پھيل گئي اور يہ خبر كوفہ بھى پہنچ گئي _ اس طرح لوگوں كو امام حسينعليه‌السلام كى مدد اور ان كى موافقت كے لئے اپنے كوآمادہ كرنے كا موقع نظر آيا كہ شايد اس طرح بنى اميہ كے ظلم سے نجات مل جائے_

كوفيوں نے_ مندرجہ بالا نكات كے پيش نظر _ مكہ پہنچنے كى خبر سنتے ہى بہت سے خطوط كے ذريعہ آپعليه‌السلام كو دعوت دى كہ آپ كوفہ تشريف لايئےور ہمارى رہنمائي كى ذمہ دارى قبول كرليجئے_

حضرت ابو عبداللہ الحسينعليه‌السلام نے جناب مسلم كو روانہ كرنے كے ساتھ ان تمام خطوط كا جواب مختصر جملوں ميں اس طرح لكھا'' اما بعد يہ خط حسين بن على (عليہما السلام) كى طرف سے عراق كے مسلمانوں اور مؤمنوں كى جماعت كى طرف بھيجا جار ہا ہے_ تم يہ جان لو كہ ہانى اور سعيد جو تمہارے بھيجے ہوئے آخرى افراد تمہارے خطوط لے كر آئے_ ان تمام باتوں كى جو تمہارى تحريروں سے عياں تھيں مجھے اطلاع ملي_ خلاصہ يہ كہ تمہارا مطلب يہ تھا كہ '' ہمارے پاس كوئي لائق رہبر اور امام نہيں ہے ہمارے پاس آجايئےايد خدا ہم كو آپ كے ذريعہ ہدايت تك پہنچا دے_ فورى طور پرميں حضرت مسلم كو جو ميرے چچا كے بيٹے اور ميرے معتمد ہيں ، تمہارے پاس بھيج رہا ہوں اگر انہوں نے لكھا كہ تمہارے آخرى نظريات عملى طور پر اسى طرح ہيں جيسا كہ تم نے

۸۶

خط ميں لكھا ہے تو ميں اسے قبول كر كے تمہارى طرف آؤں گا_ آخر ميں آپعليه‌السلام نے مزيد لكھا _ مجھے اپنى جان كى قسم ، امام و پيشوا صرف وہ ہے جو خود دين كا پابند ہو اورعدل و انصاف كرتا ہو اور خدا كى رضا كے لئے حليم ہو _ ''(۲۲)

حضرت مسلم اس خط كو ليكر كوفہ پہنچے ، ان كے پہنچنے كى خبر بڑى تيزى سے كوفہ ميں پھيل گئي _اہل كوفہ نے پر تپاك طريقہ سے امامعليه‌السلام كے نمائندہ حضرت مسلم بن عقيل كا استقبال كيا _ايسا استقبال پہلے كبھى نہيں ہوا تھا، پھر جناب مسلم بن عقيل كے ہاتھوں بيعت كى اور دن بدن بيعت كرنے والوں كى تعداد ميں اضافہ ہوتا رہا _

كوفہ سے دو خط

امام حسينعليه‌السلام كے حق اور يزيد كى مخالفت ميں انقلابى صورت حال پيدا ہوجانے كے بعد دو خط لكھے گئے_ ايك خط حسينعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام كو لكھا گيا اور دوسرا يزيد كو جناب مسلم نے امام حسينعليه‌السلام كو لكھا:'' اب تك بے شمار لوگوں نے ميرى بيعت كى ہے_ اب آپ كوفہ آجايئے'(۲۳)

يزيد كے پيروكاروں نے اس كو لكھا كہ : '' اگر عراق كى حكومت كو بچانا ہے تو كسى لائق گورنر كو بھيجوتا كہ ان فتنوں كو ختم كردے اس لئے كہ نعمان بن بشير( حاكم كوفہ) ايك كمزور آدمى ہے يا اس نے اپنے آپ كو كمزور بناركھا(۲۴) ہے_

ان دو خطوط كے نتيجہ ميں دو اقدام سامنے آئے_ پہلے خط نے امام حسينعليه‌السلام كى كوفہ كى طرف روانگى كے مقدمات فراہم كئے اور دوسرے خط نے پہلے حاكم كو معزول اور اس كى جگہ پر عبيداللہ ابن زياد كو معين كيا_

امام حسينعليه‌السلام ہر چند كہ كوفيوں كو بخوبى پہچانتے تھے اور ان كى بے وفائي، ان كے عقيدہ كا تزلزل اپنے پدر گرامى اور برادر بزرگ كى حكومت كے زمانہ ميں ديكھ چكے تھے ليكن اتمام حجّت

۸۷

اورخداوند عالم كے اوامر كے اجراء كے لئے آپعليه‌السلام نے كوفہ جانے كا ارادہ كيا_ خصوصاً مكہ ميں چند ماہ قيام كے بعد آپعليه‌السلام نے يہ سمجھ ليا كہ يزيد( لعن) كسى طرح بھى آپ سے دست بردار ہونے كے لئے تيار نہيں ہے اور اگر آپعليه‌السلام بيعت نہيں كرتے تو آپ كا قتل، اور وہ بھى خانہ خدا كے نزديك يقينى ہے_

اس صورت حال ميں امام حسينعليه‌السلام ۸ ذى الحجہ تك _ جس دن تمام حُجّاج منى كى طرف جانے كا ارادہ كر رہے تھے(۲۵) مكہ ميں رہے اور حج تمتع كو عمرہ مفردہ سے بدلنے كے بعد اپنے اہل بيت اور اصحاب كو لے كر مكہ كو ترك كيا اور عراق كى طرف چل پڑے _(۲۶)

امام _كا ايسے زمانہ ميں اور ايسى جگہ سے كوچ كرنا، جہاں لوگ دور دور سے اركان حج بجا لانے كے لئے آتے ہيں ، ايسا بے نظير اقدام تھا كہ جس كى ايك عام مسلمان سے بھى توقع نہيں كى جاسكتى تھى چہ جائيكہ فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ، اسى وجہ سے تھوڑى ہى مدت ميں سارے شہر مكہ ميں امام كے سفر كى خبر گشت كرنے لگي_

امام حسينعليه‌السلام نے اپنے ناگہانى اور آشكار سفر سے اپنے فريضہ پر بھى عمل كيا اور مسلمانوں كو بھى سمجھا ديا كہ فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يزيد كى حكومت كو قانونى نہيں سمجھا اور نہ صرف اس كى بيعت نہيں كى بلكہ اس كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے ہيں _

حضرت مسلم ابن عقيل كى شہادت

حضرت مسلم كے ہاتھ پر اہل كوفہ كى بيعت اور امام حسينعليه‌السلام كى طرف ان كے ميلان كى اطلاع يزيد كو مل چكى تھى _ اس نے ابن زياد كو كوفہ بھيجا ابن زياد نے شيطانى چال كے ذريعہ ايك نيا بھيس بدلا، چہرہ پر نقاب ڈالا اور بنى ہاشم كے كسى شريف اور بڑى شخصيت كے روپ ميں رات كے اندھيرے ميں كوفہ ميں وارد ہوا _ جو لوگ امام حسينعليه‌السلام كے منتظر تھے انہوں نے يہ گمان كيا كہ يہ

۸۸

حسينعليه‌السلام ہيں _

ابن زياد بغير كسى سے كوئي بات كئے اور نقاب ميں منھ چھپائے ہوئے سيدھا دار الامارہ پہنچا_(۲۷)

عبيداللہ ابن زياد نے دارالامارہ ميں مشورہ كيلئے ايك مٹينگ بلائي اور ابتدائي اقدامات كے بعد، كوفہ والوں كے ايمان كى كمزورى ، دوغلہ پن اور ان كے خوف سے فائدہ اٹھايا اور ان كو ڈرا دھمكا كر حضرت مسلم كے اطراف سے منتشر كرديا يہاں تك كہ جب حضرت مسلم نماز كے لئے آئے تو صرف تيس افراد نے ان كے پيچھے نماز پڑھى اور نماز كے بعد وہ بھى متفرق ہوگئے_ جب آپ مسجد سے باہر نكلے تو آپ كے ساتھ كوئي بھى نہيں تھا

حضرت مسلم نے ابن زياد كے لشكر سے اكيلے جنگ كى اور ايك بہادرانہ جنگ كے بعد شہيد ہوگئے_(۲۸)

ظلم كے خلاف عظيم ترين قيام

عراق كے قصد سے ابو عبداللہ الحسينعليه‌السلام نے حجاز كو چھوڑ ديا ليكن در حقيقت آپ اس مقصد كى طرف جا رہے تھے جو صرف عراق ميں نہيں تھا_ يہ عظيم مقصد اسلام اور مسلمانوں كو استعمار كے چنگل اور خاندان بنى اميہ كے استبدادى پنجہ سے چھڑانا تھا_ اسى وجہ سے آپعليه‌السلام دوستوں كى مقدس مآبانہ باتوں اور نصيحتوں كے برخلاف، جو اس سفر كو ترك كرنے پر مبنى تھيں ، اپنے عزم و ارادہ پر جمے رہے اور اسلام كى نجات كے لئے آخرى تحريك شروع كى جس كو بہر قيمت انجام تك پہنچانا تھا_

امام حسينعليه‌السلام راستہ ميں بہت سے لوگوں كو اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے اور جو لوگ ان كے ساتھ تھے ان كو يزيد سے جنگ كے بارے ميں اپنے مصمم ارادہ سے آگاہ كرتے رہے اور اس

۸۹

جنگ كے نتيجے ميں سب كے قتل ہوجانے سے بھى آگاہ كرتے رہے اور اس بات كا اختيار ديا كہ وہ چاہيں تو ساتھ چھوڑ كر جاسكتے ہيں _ '' صفاح'' نام كى ايك جگہ پر كوفہ سے واپس آنے والے فرزدق سے ملاقات ہوگئي، آپعليه‌السلام نے كوفہ كے حالات كے بارے ميں ان سے سوال كيا، فرزدق نے جواب ديا كہ '' لوگوں كے دل تو آپعليه‌السلام كے ساتھ ہيں مگر ان كى تلواريں بنى اميہ كے ساتھ ہيں _(۲۹)

شہادت

امام حسينعليه‌السلام كا قافلہ كوفہ سے پہلے سرزمين كربلا پر ( تقريباً كوفہ سے ۷۰ كيلوميٹر دور) دشمن كے بہت بڑے لشكر سے روبرو ہوا_ آپ كے ساتھ صرف وہى لوگ تھے جو جان كى بازى لگانے والے تھے اور فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نصرت و مدد كے سوا انكا اور كوئي مقصد و مطلوب نہ تھا _

آخر كار يہ لوگ ابن زياد كے تيس ہزار لشكر كے تنگ گھيرے ميں آگئے(۳۰) يہاں تك كہ فرات كا پانى بھى ان پر بند كرديا گيا_

ايسے حالات ميں فرزند زہراء حضرت امام حسينعليه‌السلام كے سامنے دو ہى راستے تھے يا قتل يا بيعت، حسين ابن على (عليہما السلام)جو مكتب وحى محمدى اور ولايت علوى كے پروردہ تھے انہوں نے بيعت نہيں كى اور ان بہتر(۳۱) افراد كے ساتھ ( جو ان كے بہترين اصحاب، وابستگان اور فرزند تھے_ جن ميں سے ہر ايك اخلاص ،جواں مردي، شجاعت، عزت و شرافت انسانى كى اخلاقى قدروں سے آراستہ اور انسانيت كا مكمل نمونہ تھے دس محرم ۶۰ ھ كو صبح سے عصر تك پسر معاويہ كے كثير اور آراستہ لشكر كے مقابلہ ميں ايك شجاعانہ اور قابل فخر جنگ كى _ اور بالآخر شربت شہادت نوش فرمايا_ اور اس زمين كے سينہ پر جب تك انسانيت موجود رہے گى اس وقت تك كے لئے اپنے نام كو جاودانہ بناديا_

۹۰

آپعليه‌السلام كى شہادت كے بعد دشمن كا لشكر آپعليه‌السلام كے پسماندگان كے خيمہ ميں گھس آيا، تمام مال و اسباب لوٹ ليا اور آپعليه‌السلام كے اہل بيت كو اسير كركے شہداء كے كٹے ہوئے سروں كے ساتھ كوفہ اور وہاں سے شام لے گيا_

۹۱

سوالات

۱_ حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كے ساتھ كتنے دنوں تك رہے؟

۲_ صلح كے بارے ميں امام حسينعليه‌السلام كا موقف كيا تھا؟ اس كا ايك نمونہ بيان فرمايئے

۳_ امام حسينعليه‌السلام كى تواضع اور فروتنى كے ايك نمونہ كا ذكر كيجئے_

۴_امام حسينعليه‌السلام كا قيام كس زمانہ ميں اور كس طرح شروع ہوا؟

۵_ امامعليه‌السلام نے مكہ سے كوفہ جانے كا كيوں ارادہ كيا اور كوفہ جانے سے پہلے آپعليه‌السلام نے كون سا اقدام كيا ؟

۶_ دشمن كے لشكر سے امام حسينعليه‌السلام كس جگہ ملے؟ دونوں لشكروں كے حالات اور آپعليه‌السلام كى اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كى تاريخ شہادت بيان كيجئے؟

۹۲

حوالہ جات

۱ اعلام الورى / ۲۱۳، بحار جلد ۴۴/ ۲۰۱_

۲ بحار جلد ۴۳/ ۲۴۱_

۳ فروع كافى جلد ۶/۳۳ بحار جلد ۴۳/ ۲۵۷_

۴ ''انت سيد بن سيد ابوالسادات انت امام ابن امام ابوالائمه ، انت حجة الله بن حجته و ابو حجج تسعة من صلبك و تاسعهم قائمهم'' مقتل خوارزمى جلد ۱ / ۱۴۶، كمال الدين صدوق جلد ۱/ ۲۶۲ بحار جلد ۴۳/ ۲۹۰_

۵ ''سئل رسول الله اى اهل البيت احب اليك ؟ قال : الحسن والحسين ''سنن ترمذى جلد۵/ ۳۲۳ ، بحار جلد ۴۳/ ۲۶۴، ۲۶۵_

۶الحسن والحسين سيد الشباب اهل الجنه ، بحار جلد ۴۳ / ۲۶۴ ، ۲۶۵، سنن ترمذى جلد ۵/ ۳۲۳ بحار جلد ۴۳/۲۹۹_

۷ ''حسين منى و انا من حسين'' سنن ترمذى جلد ۵/ ۳۲۴، بحار جلد ۴۳/ ۲۷۰ _ ۲۷۲ مقتل خوارزمى جلد ۱ / ۱۴۶، انساب الاشراب بلاذرى جلد ۳ / ۱۴۲_

۸ الاصابہ جلد ۱ ص ۳۳۳_

۹ كافى ميں منقول ہے كہ جس نشست ميں امام حسنعليه‌السلام بيٹھے رہتے تھے اس ميں امام حسينعليه‌السلام بھائي كے احترام كى بناپر باتيں نہيں كرتے تھے يہاں تك كہ بخشش و عطا ميں بھى اس بات كا خيال ركھتے تھے كہ امام حسنعليه‌السلام سے ذرا كم ہو_

۱۰ ارشاد مفيد / ۱۷۳ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶ / ۴۷_

۱۱ بحار جلد ۴۴/ ۱۹۶ ، منقول از فلاح السائل و عقد الفريد_

۱۲ ارشاد مفيد / ۲۳۰ مطبوعہ مكبة بصيرتي'' فهو يعلم اَنّى قد كنت احبُّ الصلوة و تلاوة كتابه و كثرة الدعا و الاستغار''

۱۳ اسد الغابہ جلد ۲/۲۰_

۱۴ انساب الاشراف بلاذري_

۹۳

۱۵ سورہ نحل / ۲۳_

۱۶ تفسير سياسى جلد ۲/۲۵۷ ، مناقب جلد ۴/ ۶۶ ، جلاء العيون مرحوم شبر جلد ۲/ ۲۴_

۱۷ سمو المعنى / ۱۰۴_

۱۸ رجال كشى / ۹۴_

۱۹ مقتل خوارزمى جلد ۱ /۱۸۴، لہوف / ۲۰ بحار جلد ۴۴/ ۳۲۶_

۲۰ ارشاد مفيد / ۲۰۱ ، تاريخ طبرى جلد ۳۴۱، بحار جلد ۴۴/ ۳۲۶_

۲۱ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۹۰ ،ارشاد مفيد / ۲۰۴ بحار جلد ۴۴/ ۳۳۴ كامل ابن اثير جلد ۴/۲۱

۲۲ ارشاد مفيد / ۲۰۵ ،بحار جلد ۴۴/ ۳۳۶_

۲۳ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/ ۹۱ ،بحار جلد ۴۴ / ۳۶۶

۲۴ ۸ذى الحجة كو منى جانا ايك مستحب عمل ہے اس زمانہ ميں اس استحبابى حكم پر عمل ہوتا تھا ليكن اس زمانہ ميں حجاج ايك ساتھ عرفات جاتے ہيں _

۲۵ ارشاد مفيد /۲۸۱ ،بحار جلد ۴۴/ ۳۶۳ ،اعلام الوري/ ۲۲۷ ،اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد ۱ / ۵۹۳، نہضت الحسين مصنفہ ہية الذين شہرستانى /۱۶۵ مقتل ابى مخنف / ۶۶ ، ليكن بعض صحيح روايات سے استفادہ ہوتاہے كہ امام حسينعليه‌السلام نے حج تمتع كا احرام نہيں باندھا تھا كہ اس كو عمرہ مفردہ سے تبديل كرديں ملاحظہ ہو وسائل الشيعہ جلد ۱۰ باب ۷ از ابواب عمرہ حديث ۲،۳_

۲۶ ارشاد مفيد / ۲۰۶ ،بحارجلد ۴۴/ ۳۴۰ مقاتل الطالبين /۶۳_

۲۷ ارشاد مفيد / ۲۱۲_

۲۸ ارشاد مفيد / ۲۱۳ _۲۱۶_

۲۹ '' قلوبہم معك و سيوف مع بنى اميہ ...'' تاريخ طبرى جلد ۵/۳۸۴ ، كامل ابن اثير جلد ۴/ ۴۰ ارشاد مفيد / ۶۱۸ بحار ،جلد ۴۴/ ۱۹۵_

۳۰ بحار جلد ۴۴/ ۳۸۶_ البتہ لشكر يزيد كى تعداد كے بارے ميں دوسرى روايتيں بھى ہيں جن ميں سب سے كم بارہ ہزار كى روايت ہے _ مناقب جلد ۴/۹۸پر ۳۵ ہزار افراد كى تعداد بھى لكھى گئي ہے_

۹۴

چھٹاسبق:

امام حسينعليه‌السلام كى سوانح عمري (دوسرا حصّہ )

۹۵

زندہ جاويد روداد

اسلام كے تيسرے رہبر كى اور ان كى اولاد و اصحاب كى دشت كربلا ميں جاں بازي، فداكارى اور شہادت آپ كى زندگى كا اہم ترين واقعہ ہے_ جس نے عقل و خرد كو جھنجوڑ كر ركھ ديا، تمام واقعات كے اوپر چھاگيا_ اور ہميشہ كے لئے تاريخ كے صفحات پر زندہ جاويد و پائيدار بن گيا_

دنياميں پيش آنے والا ہر واقعہ_ چا ہے وہ كتنا ہى بڑا اور عظيم كيوں نہ ہو _ اس كو تھوڑے ہى دن گذرنے كے بعد زندگى كا مدّ و جزر فراموشى كے سپرد كرديتا ہے اور مرور زمانہ اس كے فروغ ميں كمى كرديتاہے اور اوراق تاريخ پر سوائے اس كے نام كے كچھ باقى نہيں بچتا_

ليكن بہت سے واقعات ايسے ہيں كہ زمانہ گذرجانے كے بعد بھى ان كى عظمت گھٹتى نہيں اللہ والوں كى تاريخ اور وہ انقلابات جو آسمانى پيغمبروں اور الہى عظيم رہبروں كے ذريعہ آئے ہيں ، يہ تمام كے تمام واقعات چونكہ خدا سے متعلق و مربو ط ہيں اس لئے ہرگز بھلائے نہيں جاسكيں گے اور مرور زمانہ كا كوئي اثر قبول نہيں كريں گے_

حضرت حسينعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام كى تحريك اور كربلا كا خونين حادثہ و انقلاب ،انسانى معاشرہ كى ايك اہم ترين سرگذشت ہے، اس حقيقت پر تاريخ و تجربہ روشن گواہ ہيں _

عاشور كى خون آلود تاريخ كے تجزيہ ميں دوسرے مطالب سے پہلے چند مطالب توجہ كے قابل اور تاريخى لحاظ سے زبردست تحقيق كے محتاج ہيں جنہيں اختصار سے بيان كيا جارہا ہے:

۹۶

۱) امام حسينعليه‌السلام كے قيام كے اسباب

۲) امام حسينعليه‌السلام كى تحريك و انقلاب كى ماہيت

۳) امام حسينعليه‌السلام كے انقلاب كے اثرات و نتائج

انقلاب حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام كا اہم اور واضح سبب ايك انحرافى سلسلہ تھا جو اس وقت اسلامى حكومت كى مشينرى ميں رونما ہوچكا تھا _ اور لوگوں ميں اموى گروہ كے تسلط كى بنا پر دين سے انحراف اور اجتماعى ظلم و ستم مكمل طور پر نماياں تھا_ يزيد كے خلاف امام حسينعليه‌السلام كا قيام اس بناپر تھا كہ وہ اموى حكومت كا مظہر تھا، وہ حكومت جو ملت كے عمومى اموال كى عياشي، رشوت خورى ، با اثرا فراد كے قلوب كو اپنى طرف كھينچنے اور آزادى دلانے والى تحريكوں كو ختم كرنے ميں خرچ كرتى تھي، وہ حكومت جس نے غير عرب مسلمانوں كا جينا دشوار كر كے ان كو ختم كردينے كى ٹھان لى تھى اور جس نے عرب مسلمانوں كے شيرازہ اتفاق كو بكھير كر ان كے درميان نفاق اور كينہ كا بيج بوديا تھا _

وہ حكومت جس نے اموى خاندان كے مخالفين كو جہاں پايا وہيں قتل كرديا_ ان كے مال كو لوٹ ليا، وہ حكومت جس نے قبائلى عصبيت كى فكر كو برانگيختہ كرديا مسلمانوں كے اجتماعى وجود كيلئے خطرہ بن گئي تھى _

وہ حكومت جو كہ اسلام كے پيغام كے تحقق، قوانين و حدود اور اجتماعى عدالت كے اجراء كى بجائے ايك ايسے پليد شخص كے ہاتھ كا كھلونہ تھى جو كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور ان پر وحى كے نزول كا انكار كر رہا تھا_ يزيد اپنے دادا ابوسفيان كى طرح تھا ، جس كا كہنا تھا '' اب حكومت بنى اميہ كے قبضہ ميں آگئي ہے خلافت كو گيند كى طرح گھماتے رہو اور ايك دوسرے كى طرف منتقل كرتے رہو ميں قسم كھا كر كہتا ہوں كہ نہ كوئي جنّت ہے نہ جہنّم''(۱) يزيد بھى ان تمام باتوں كو ايك خيال سے زيادہ نہيں سمجھتا تھا_(۲)

امام حسينعليه‌السلام نے ايسے حالات ميں انقلاب كے لئے ماحول كو سازگار پايا آپعليه‌السلام نے خود اس وصيت ميں جو اپنے بھائي محمد حنفيہ كو كى تھي، اپنے قيام كے بارے ميں لكھا كہ '' ميرے قيام كى وجہ

۹۷

ہوا و ہوس اور بشرى ميلانات نہيں ہيں ، ميرا مقصد ستمگرى اور فتنہ و فساد پھيلانا نہيں ہے _ بلكہ ميرا مقصد تو اپنے جد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى امت كى خراب حالت كى اصلاح كرنا ہے_ ميرا مقصد امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ہے ميں چاہتا ہوں كہ اپنے جد رسول خدا كى سيرت اور اپنے باپعليه‌السلام على كے راستہ پرچلوں ...''(۳)

اسى طرح حر بن يزيد رياحى سے ملاقات كے بعد اپنى ايك تقرير ميں آپعليه‌السلام نے اپنے قيام كى تصريح كى اور فرمايا : '' اے لوگو پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ہے كہ جو كسى ايسے ظالم فرمان روا كو ديكھے جو حرام الہى كو حلال شمار كرتا ہوخدا سے كيے گئے عہد و پيمان كو توڑتا ہو اس كے پيغمبر كى سنت كى مخالفت كرتاہو، خدا كے بندوں پرظلم و ستم كرتا ہو ا ور ان تمام باتوں كے باوجود زبان و عمل سے اپنى مخالفت كا اظہار نہ كرے تو خدا اس كو اسى ظالم فرمان روا كے ساتھ ايك ہى جگہ جہنّم ميں ركھے گا_

اے لوگو انہوں نے ( يزيد اور اس كے ہمنواؤں نے) شيطان كى اطاعت كا طوق اپنى گردن ميں ڈال ليا ہے اور خدائے رحمن كى پيروى ترك كردى ہے فساد پھيلاركھا ہے اور قوانين الہى كو معطل كرركھا ہے، بيت المال كو انہوں نے اپنے لئے مخصوص كرليا_ حلال خدا كو حرام اور حرام الہى كو حلال سمجھ ليا ہے_ ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كے لئے تمام لوگوں سے زيادہ حق دار ہوں اور ان مفاسد سے جنگ اور ان خرابيوں كى اصلاح كے لئے سب سے پيش پيش ہوں ...''(۴)

امام حسينعليه‌السلام نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كيوں نہيں كيا؟

ممكن ہے كہ يہاں يہ سوال پيش آئے كہ معاويہ كے زمانہ ميں متعدد عوامل ايسے پيدا ہوگئے تھے جو قيام و انقلاب كا تقاضا كرتے تھے اور حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام ان تمام عوامل سے آگاہ تھے اور آپ نے ان خطوط ميں جو معاويہ كے جواب ميں لكھے تھے ان اسباب كو بيان بھى كيا ہے_(۵) پھر آپعليه‌السلام نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرنے سے كيوں گريز كيا؟

۹۸

جواب: تمام وہ عوامل و مسائل جنہوں نے امام حسنعليه‌السلام كو معاويہ سے صلح كرنے كے لئے مجبور كيا وہى عوامل امام حسينعليه‌السلام كے لئے بھى قيام سے باز رہنے كا سبب بنے_(۶) عراقى معاشرہ پر مسلط حاكم كى حقيقت كو پہچاننے ميں امام حسينعليه‌السلام اپنے بھائي حسنعليه‌السلام سے كم نہ تھے_ وہ بھى اپنے بھائي كى طرح لوگوں كى كاہلى اور اسلامى معاشرہ كى افسوسناك صورت حال ديكھ رہے تھے كو اس وقت آپ نے عراق كے لوگوں قيام كرنے كى ترغيب دلانے كے بجائے عظيم مقصد كے لئے آمادہ اور مستعد كرنے كو ترجيح دي_

عراق كے شيعوں نے ايك خط ميں امام حسينعليه‌السلام سے درخواست كى كہ وہ معاويہ كے خلاف قيام كرنے كے سلسلہ ميں ان كى قيادت كريں _ حسين ابن علىعليه‌السلام نے موافقت نہيں كى اور جواب ميں لكھا:

'' ليكن ميرى رائے يہ ہے كہ انقلاب كا وقت نہيں ہے جب تك معاويہ زندہ ہے، اپنى جگہ بيٹھے رہو_ اپنے گھر كے دروازوں كو اپنے لئے بندركھو اور اتہام كى جگہ سے دور رہو _''(۷)

معاويہ اور يزيد كى سياست ميں فرق

معاويہ كے زمانہ ميں امام حسينعليه‌السلام كا انقلاب برپا كرنے كے لئے نہ اٹھنے اور يزيد كے زمانہ ميں اٹھ كھڑے ہونے كا اصلى سبب ان دونوں كى سياسى روش كے اختلاف ميں ڈھونڈھنا چاہيے_

دين و پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تضاد ميں معاويہ كى منافقانہ روش بہت واضح اور اعلانيہ تھي_ وہ اپنے كوصحابى اور كاتب وحى كہتا تھا اور خليفہ دوم كى ان پر بے پناہ توجہ اور عنايت تھي، اس كے علاوہ ان اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اكثريت كو جن كى لوگ تعظيم و احترام كرتے تھے ( جيسے ابوہريرہ، عمرعاص، سمرة، مغيرہ بن شعبہ و غيرہ ...) كو حكومت و ولايت او رملك كے تمام حساس كاموں كى انجام دہى كے لئے مقرر

۹۹

كيا تا كہ لوگوں كے حسن ظن كا رخ اپنى طرف موڑليں ، لوگوں كے درميان صحابہ كے فضائل اور ان كے دين كے محفوظ رہنے كى بہت سى روايتيں اور ايسى روايتيں _ كہ وہ جو بھى كريں معذور ہيں _ گھڑ لى گئيں ، نتيجہ ميں معاويہ جو كام بھى كرتا تھا اگر وہ تصحيح او ر توجيہ كے قابل ہوتا تھا تو كيا كہنا ورنہ بہت زيادہ بخششوں اور عنايتوں كے ذريعہ معترض كے منہ كو بند كرديا جاتا تھا اور جہاں يہ وسائل موثر نہيں ہوتے تھے انہيں خواہش كے پرستاروں كے ذريعہ ان كو ختم كرديا جاتا تھا_ جيسا كہ دسيوں ہزار حضرت علىعليه‌السلام كے بے گناہ چاہنے والوں كے ساتھ يہى رويہ اختيار كيا گيا:

معاويہ تمام كاموں ميں حق كا رخ اپنى طرف موڑ لينا چاہتا تھا اور امام حسنعليه‌السلام اور امام حسينعليه‌السلام كا ظاہرى احترام كرتا تھا وہ بہت زيرك اور دور انديش تھا اسے يہ معلوم تھا كہ حسين ابن علىعليه‌السلام كا انقلاب اور ان كا لوگوں كو قيام كے لئے دعوت دينا ميرى پورى حكومت اور اقتدار كے لئے خطرہ بن سكتا ہے_ اس لئے كہ اسلامى معاشرہ ميں حسينعليه‌السلام كى عظمت او ران كے مرتبہ سے معاويہ بخوبى واقف تھا_

اگر حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرتے تو اس بات كا قوى امكان تھا كہ معاويہ آپعليه‌السلام كے انقلاب كو ناكام كرنے كے لئے ايسى روش اختيار كرتا كہ جو اسى جگہ كامياب ہوجاتى اور امامعليه‌السلام كے انقلاب كو عملى شكل دينے سے پہلے ہى زہر كے ذريعہ شہيد كرديا جاتا اور اس طرح معاويہ اپنے كو خطرہ سے بچاليتا جيسا كہ حسنعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام ، سعد ابن وقاص اور مالك اشتر كو قتل كرنے ميں اس نے يہى رويہ اختيار كيا تھا_

ليكن يزيد كى سياسى روش اس كے باپ كى سياسى روش سے كسى طرح بھى مشابہ نہ تھى وہ ايك خود فريب اور بے پروا نوجوان تھا اس كے پاس زور زبردستى كے علاوہ كوئي منطق نہ تھى وہ عمومى افكار كو ذرہ برابر بھى اہميت نہيں ديتا تھا_

وہ اعلانيہ طور پر اسلام كى مقدس باتوں كو اپنے پيروں كے نيچے روند تا تھا اور اپنى خواہشات پورى كرنے كے لئے كسى چيز سے باز نہيں رہتا تھا، يزيد كھلے عام شراب پيتا، راتوں كو نشست اور

۱۰۰