تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 20%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79141 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

امير المومنين نے قران اس جوان كے حوالے كيا ، اور و ہ دشمن كى طرف روانہ ہو گيا ، اس نے عائشه كے فوجيوں كو قران ہاتھ ميں ليكر دعوت دى اس حال ميں لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كا ہاتھ جسم سے جدا كر كے زمين پر ڈال ديا _

اس جوان نے بھر پور حوصلے كے ساتھ قران بائيں ہاتھ ميں لے ليا اور انھيں تبليغ كرتا رہا ، لوگوں نے پھر اس پر حملہ كر كے بائياں ہاتھ كاٹ ڈالا ، وہ اس حالت ميں كہ قران اس كے سينے پر تھا اور خون اس كے دونوں ہاتھوں سے جارى تھا اپنى جان جاں افريں كے سپرد كر دى(۱۵)

طبرى نے يہ داستان اس طرح لكھى :

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا: كہ كون ہے جو اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كے سامنے جائے اور انھيں اطاعت فرمان كى دعوت دے اور ايسى استقامت و فدا كارى كا مظاہرہ كرے كہ اگر ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دوسرے ہاتھ ميں ليلے ، اور اگر دوسرا ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دانتوں سے دبا لے اور لوگوں كو اس كے حقائق كى تبليغ كرے _

اس موقعہ پر ايك نو جوان كھڑا ہوكر بولا يا على ، ميں

_ ہاں ، اے امير المومنين يہ ذمہ دارى مجھے ديجئے

على نے اپنى پيشكش دوبارہ سب كے سامنے ركھى ليكن اس غيرتمند جوان كے سوا كوئي بھى اس ذمہ دارى كيلئے امادہ نہيں ہوا كہ جس ميں لازمى طور سے موت تھى _

حضرت علىعليه‌السلام نے اس وارفتہ جوان سے فرمايا كہ: دشمن كى طرف جائو اور ان كے سامنے يہ قران پيش كرو ، ان سے كہو كہ يہ قران ہمارے اور تمھارے درميان فيصلہ كرنے والا اور حاكم ہے ، اسميں جو بھى حكم ہو ہميں اسى كے مطابق عمل كرتے ہوئے خونريزى اور برادر كشى سے پرہيز كرنا چاہيئے _

وہ جوان گيا اور اپنى ذمہ دارى اچھى طرح نبھائي يہاںتك كہ دعوت قران كى راہ ميں اس كے ہاتھ كٹ گئے اس نے قران كو دانتوں سے دبا ليا اور تبليغ كرتا رہا يہاں تك كہ اپنى جان ديدى _

اس واقعہ كے بعد امير المومنين نے فرمايا ، اب ان لوگوں پر ہر حيثيت سے حجت تمام ہو گئي اور ہمارے لئے ان سے جنگ واجب ہوگئي(۱۶)

____________________

۱۵_ كنز العمال ج۶ ص ۸۵ ، طبرى ج۵ ص ۲۰۵ ، ابن اثير

۱۶_ طبرى ج۵ ص ۲۴ ، كامل ابن اثير ج۲ ص ۱۰۴ ، شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۴۳۱ ، بحوالہ ابن اعثم و ابو مخنف

۱۰۱

غمزدہ مادر نے اس پيارے جوان فرزند كے سوگ ميں كچھ اشعار كہے جس كا مضمون يہ ہے _

لاهم ان مسلماً دعاهم

يتلو كتا ب الله لا يخشاهم

وامهم قائمة تراهم

يا تمرون الغى لا تنهاهم

قد خضبت من علق لحاهم

ترجمہ -:اے خدا تو گواہ رہنا كہ اس مسلمان جوان نے انھيں تيرى طرف دعوت دى اور ان كى تلواروں كا خيال كئے بغير قران پڑھتا رہا ، اور انكى ماں (عائشه ) بھى ان كے درميان موجود تھى ، ان كے برے كرتوت ديكھ رہى تھى ، ظلم و تعدى پر انكھيں پھر ا رہى تھى ، اس ماں نے اپنے بيٹوں كو اس راستے سے روكا نہيں جو بد بختى و ہلاكت كيطرف جارہا تھا بلكہ وہ انھيں اس ظلم و ستم پر ابھار رہى تھى ، انھيں مہندى كے بجائے خون سے خضاب كر رہى تھى _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: ان اشعار كو ام ذريح نے اس جوان كے سوگ ميں كہے تھے _

ابن اعثم بھى كہتا ہے كہ: وہ جوان كوفے كا باشندہ خاندان مجاشع سے تھا _

جس شخص نے اس كے ہاتھ قطع كئے وہ عائشه كا قريبى خدمتكار تھا اسى نے اسے قتل كيا _

عمار ياسر نے عائشه اور سرداران لشكر سے بات كي

ايك دن رسو ل خدا (ص) نے عمار ياسر سے فرمايا :

اے عمار تمھيں ظالم اور باغى گروہ قتل كرے گايا عمار تقتلك الباغية

۱۰۲

جس دن سے رسول خدا (ص) نے يہ مختصر اور تاريخى جملہ عمار كے بارے ميں فرمايا تھا وہ مسلمانوں كے درميان معيار حق بن گئے تھے ، عمار جس لشكر ميں بھى ہوتے اس لشكر كى حقانيت كا ثبوت بن جاتے ، اور انھيں كے ذريعہ سے مخالف لشكر كا باطل پر ہونا ظاہر ہو جاتا تھا _

يہى وجہ تھى كہ امير المومنينعليه‌السلام نے عمار ياسر كو عائشه اور سرداران لشكر كے پاس ملاقات كيلئے بھيجا تاكہ انھيں موعظہ و نصيحت فرمائيں شايد يہ لوگ ان كى باتيں سنكر اثر قبول كريں ، ورنہ كم از كم ان پر حجت تو تمام ہى ہو جائے گى _

مسعودى نے يہ واقعہ يوں لكھا ہے :

جنگ جمل ميں عائشه كيلئے لكڑى كا ھودج بنايا گيا ، اور مضبوط اور موٹا تختہ ديا گيا ، اس كے اوپر گائے كى كھال اور كمبل بچھايا گيا اس كے بعد ہر قسم كے خطروں سے محفوظ رہنے كيلئے بہت سى زرہوں سے ڈھانپ كر ايك اھنى ديوار كھينچ دى گئي تھى ، يہ ھودج ايسا مضبوط قلعہ بن گيا تھا ، اسے مشہور اونٹ عسكر پر ركھا گيا جسے يعلى ابن اميہ نے خريد ا تھا عائشه كا يہ اونٹ فوج كے ا گے اگے چل رہا تھا ،جب عمار ياسر نے يہ حالت ديكھى تو دونوں لشكر كے سامنے كھڑے ہو كر عائشه كے فوجيوں سے فرمايا :

اے لوگو تم نے اپنے پيغمبر(ص) كے ساتھ انصاف نہيں كيا كہ اپنى عورتوں كو تو پردے ميں بيٹھا ركھا ہے اور ان كى زوجہ كو ميدان جنگ ميں شمشيروں كے سامنے كھينچ لائے ہو _

پھر عائشه كے ھودج كے پاس پہنچ كر كہا :

اے عائشه تو ہم سے كيا چاہتى ہے

عائشه نے جواب ديا ، عثمان كا انتقام

عمار نے كہا ، اللہ ان ظالم اور باغيوں كو قتل كرے جو بغير معمولى سا حق ركھتے ہوئے انتقام كا نعرہ لگائے اس كے بعد عمار نے لوگوں سے خطاب فرمايا ، كہ تم لوگ انھيں خوب پہچان رہے ہو جو خون عثمان ميں شريك رہے ہيں ،

۱۰۳

اچھى طرح جانتے ہو كہ ان دونوں لشكر ميں وہ كون لوگ ہيں جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ، ہاں تم پورى طرح جانتے ہو كہ عثمان كے قاتل وہى لوگ ہيں جو آج انتقام كے بہانے سے يہ جنگ اور اختلاف پيدا كر رہے ہيں _

اتنے ميں بارش كے قطروں كى طرح دشمن كى طرف سے عمار پر تير برسنے لگے اس وقت آپ نے يہ اشعار پڑھے

ومنك البداء و منك الغير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

اے عائشه تم ہى نے جنگ شروع كى اور تم ہى سے خونريزى ہوئي

يہ تمام ہنگامہ اور حادثے تيرى وجہ سے پيدا ہوئے

تونے ہى خليفہ كے قتل كا فرمان صادر كيا

اور تونے ہى اس كے كافر ہونے كا فتوى ديا

عمار كيطرف مسلسل تير اتے رہے ، انھوں نے بھى اپنے گھوڑے كو تازيانہ لگا كر اپنے كو لشكر سے علحدہ كر ليا ، حضرت على كے پاس اكر آپ نے عرض كيا ، اے امير المومنين _

كب تك صبر كيا جائے اور كہاں تك انتظار كيا جائے ؟

ميں نے تو يہى ديكھا كہ يہ گروہ آپ سے بالكل جنگ پر امادہ ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے ا خرى بار اتمام حجت فرمايا

حضرت علىعليه‌السلام نے جہاں تك ممكن ہوا صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمنوں پر مختلف طريقوں سے اتمام حجت فرماكر كوئي عذر اور بہانا نہيں چھوڑا _

۱۰۴

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے دشمن كے سرداران لشكر كو خط لكھا اور انھيں بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى سے ڈرايا _

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے عائشه اور ان كے سرداران لشكر كو پيغام بھيجوا يا اور صلح و صفائي كى دعوت دى _

۳_ حضرت علىعليه‌السلام بذات خود لشكر مخالف كے بزرگوں سے ملاقات كر كے انھيں موعظہ و نصيحت فرمائي_

۴_ حضرت علىعليه‌السلام نے دشمنوں كے سامنے قران پيش كر كے دعوت دى اور اس كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كو ايك جنگى پروگرام مرتب كر كے انھيں سمجھايا جس كے دفعات ميں محبت ، مہربانى ، اور صلح و صفائي تھى ، اس پروگرام ميں جن باتوں كو پيش كيا گيا تھا ان ميں انسانى ہمدردى كا عنصر زيادہ تھا اور اپنے بد ترين دشمنوں سے بھى نرمى كا برتائو كرنے كا حكم تھا _

۶_ اخر كار عمار ياسر كو جو حديث رسول(ص) كے مطابق ميزان حق و عدالت تھے حضرت علي(ع) نے انھيں لشكر عائشه كى طرف بھيجا كہ وہ انھيں حق كى دعوت ديں اس طرح دوبارہ آپ نے ان پر حجت تمام كى _

ان تمام مطالب كو گذشتہ فصلوں ميں معتبر تاريخى مدارك سے ثابت كيا گيا ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے اخرى بار اس طرح اتمام حجت فرمايا كہ جب لشكر عائشه نے حضرت على كے ساتھيوں پر تير بارانى كى تو آپ نے اپنى فوج كو صبر كى وصيت فرمائي اورا نھيں جنگ سے روكتے ہوئے فرمايا :

اللھم اشھد اعذروا الى القوم اے اللہ ، اے انصاف كرنے والے خدا تو گواہ رہنا _

اے ميرے ساتھيو صبر اور بردبارى كا مظاہرہ كرو اور چھوڑ دو كہ دشمن پر اس سے زيادہ حجت تمام ہو جائے اور ان كيلئے كوئي عذر اور بہانے كى گنجائشے نہ رہ جائے _

ہاں ، حضرت علىعليه‌السلام نے اس حد تك صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمن پر حجت تمام كى ليكن جتنى آپ كى صلح و صفائي كى كوشش بڑھتى گئي آپ كے دشمن جنگ و خونريزى پر اتنا ہى اصرار كرتے رہے ، اب حضرت على كا اخرى اتمام حجت بھى ملاحظہ فرمايئے ، اسے معتبر مورخين نے لكھا ہے _

حاكم نے اپنى كتاب مستدرك ميں بيان كيا كہ:

زبير نے عائشه كے لشكر والوں سے جو تير اندازى پر مامور تھے حكم ديا (ارموهم برشق ) تم سب ايك ساتھ ان لوگوں پر تير بارانى كرو حاكم اگے لكھتے ہيں كہ يہ جملہ در اصل اعلان جنگ تھا جو لشكر عائشه كے سردا ر كى طرف سے صادر ہوا تھا _

۱۰۵

ابن اعثم اور زيادہ تر مورخين نے لكھا ہے كہ :

جس طرح رسول خدا (ص) نے جنگ حنين ميں ايك مٹھى خاك ليكر دشمنوں كى جانب پھينكتے ہوئے فرمايا تھا شاھت الوجوہ ، ان كے چہرے سياہ ہو جائيں _

عائشه نے بھى اس عمل رسول (ص) سے سوء استفادہ كيا اور اسے مسلمانوں كے خلاف جنگ جمل ميں برتا ، ايك مٹھى خاك اٹھائي اور چلا كر كہا شاھت الوجوہ ، اور وہ خاك حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى طرف پھينك دى _

اس موقعہ پر حضرت على كے ايك فوجى نے عائشه كى سرزنش كرتے ہوئے كہا ،'' و ما رميت اذ رميت و لكن ا لشيطان رمى ''

اے عائشه تم نے يہ مٹى حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى جانب نہيں پھينكى بلكہ يہ شيطان كا ہاتھ تھا ،جس سے يہ نا پسند يدہ حركت ہوئي(۱۷)

يہ تمام اقدامات اصل ميں جنگ شروع كرنے كا فرمان تھا اس كے فوراً بعد عائشه كے فوجيوں كيطرف سے باقاعدہ جنگ شروع ہوگئي _

ابو مخنف اور دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ:

لشكر عائشه كى طرف سے تير اندازى شروع ہو گئي اور اتنى شدت سے على كى طرف پے در پے تير ارہے تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے فوجى صدائے فرياد بلند كرنے لگے _

اے امير المومنين ، دشمن نے ہمارے امان كو پارہ پارہ كر ديا ہمارے صبر كا دامن چاك كر ديا _

آپ بھى فرمان دفاع صادر فرمايئے

اس وقت ايك شخص كا جنازہ جو تيروں سے چھلنى تھا حضرت علىعليه‌السلام كے خيمے كے پاس لايا گيا ، اور كہا گيا كہ اے امير المومنين يہ فلاں شخص كا جنازہ ہے آپ كا وفادار ساتھى تھا ، اسے دشمن نے قتل كيا ہے ، امام نے اسمان كى طرف رخ كر كے دعا كى ، اے انصاف ور خدا تو گواہ رہنا اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے فرمايا ، صبر كرو ، تاكہ دشمن پر كچھ اور حجت تمام كى جائے _

ايك دوسرا جنازہ بھى لاكر كہا :

اے امير المومنين ، يہ بھى فلاں شخص ہے جو دشمن كى تيروں سے اپنے خون ميں نہا گيا ہے _

____________________

۱۷_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۱ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۵

۱۰۶

حضرت علىعليه‌السلام نے پھر اسمان كى طرف رخ كيا كہا اے خدا وند قہار تو ناظر اور ميرے حق كا گواہ ہے ، اور اس بار بھى جنگ كى اجازت نہيں دى ، اپنے ساتھيوں سے فرمايا :

تمھيں دشمن كى زيادتيوں كے مقابلے ميں اور بھى زيادہ صبر كا مظاہرہ كرنا چاہيئے ، جانے بھى دو تمھارى حقانيت اور حسن نيت جتنى زيادہ ثابت ہو گى ان لوگوں پر اتنى ہى حجت تمام ہو گى _

اسى درميان رسول (ص) كے صحابى عبداللہ ابن بديل خزاعى اپنے بھائي عبدالرحمن كى خون الودہ لاش لائے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے زمين پر ركھ كر كہا :

يا على يہ ميرا بھائي ہے جسے دشمنوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كيا _

حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف طريقوں سے دشمن پر اتمام حجت فرمايا تھا، اب يہاں اپنے كو مجبور پا رہے تھے آپ كيلئے جنگ كے سوا كوئي چارہ نہيں رہ گيا تھا ، آپ نے كلمہ ،''انا للہ و انا اليہ راجعون '' زبان پر جارى فرمايا اوررسول خد(ص) ا كى زرہ پہنى جس كا نام ذات الفضول تھا ، سر پر عمامہ ركھا اور رسو ل خدا (ص) كے خچر پر سوار ہوئے جس كا نام دلدل تھا ، پھر اپنى مشہور تلوار جس كا نام ذوالفقار تھا كمر ميں حمائل كى اور عقاب نام كے پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا ، امام حسن و حسين سے فرمايا :

ميرے بيٹو چونكہ تم لوگوں سے رسو ل خدا (ص) بہت زيادہ محبت فرماتے تھے اور تم انھيں سے منسوب ہو يہى وجہ ہے كہ ميں نے علم تمہارے حوالے نہيں كيا ، اور يہ علم تمہارے بھائي محمد كے حوالے كيا _

امام اس صورت سے امادہ جنگ ہوئے اور پھر آپ نے اپنے سپاہيوں كى سمت رخ كر كے يہ آیت تلاوت فرمائي

كيا تم لوگوں نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ يوںہى جنت كا داخلہ تمہيں مل جائيگا (حالانكہ ابھى تم پر وہ سب كچھ نہيں گذرا ہے جو تم سے پہلے ايمان لانے والوں پر گذر چكا ہے )ان پر سختياں گذريں ، مصيبتيں ائيں ، ہلا مارے گئے ، يہاں تك كہ اس وقت كا رسول اوراسكے ساتھى اہل ايمان چيخ اٹھے كہ اللہ كى مدد كب ائيگى ، اس وقت انھيں تسلى دى گئي كہ ہاں اللہ كى مدد اور كاميابى بہت جلد واقع ہو گى سورہ بقر آیت ۲۱۴

امير المومنين نے يہ آیت تلاوت فرماكر جنگ كا عزم كر ليا آپ جنگ كيلئے بڑھتے ہوئے يہ دعا كر رہے تھے

اے خدا ہم سب كو صبر و تحمل اور استقامت عطا كر ، اپنى تائيد اور كامرانى سے سرفراز فرما ، اور اگر حساس موقعہ پيش ائيں يا خطرناك حالات سامنے ائيں تو ہمارى مدد و نصرت فرما _

۱۰۷

حضرت علىعليه‌السلام كى زبير سے ملاقات

دونوں طرف كى فوجيں امنے سامنے امادہ جنگ تھيں اسى وقت حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر سے عائشه كے لشكر كى طرف حركت كى اور زبير كو اپنے پاس بلا كر كہا :

_ اے زبير تم نے كس مقصد سے اور كيا سونچكر اتنے بڑے لشكر كو اس سرزمين پر كھينچ بلايا ہے ؟

_چونكہ ميں نے تمھيں خلافت كے لائق نہيں سمجھا اس لئے اس فوج كے ساتھ ايا ہوں كہ تمھيں خلافت سے علحدہ كردو _

_اے زبير جو كچھ تم كہہ رہے ہو يہ صرف بہانہ ہے كيونكہ ميں عثمان سے كمتر نہيں ہوں ، كہ خلافت كے لائق نہ رہو ں_

اے زبير تم تو خاندان عبد المطلب كے اچھے لوگوں ميں سے اور ہمارے خاندان كى فرد سمجھے جاتے تھے ، ليكن جب سے تمھارا بيٹا عبداللہ بر سر كا ر ہوا تو ہمارے اور تمہارے درميان جدائي ڈال دى _

اے زبير مجھے تعجب ہے كہ تم خود قاتل عثمان ہو ليكن اس كا بدلہ مجھ سے چاہتے ہو _

خداوند عالم ہم دونوں ميں سے جس نے بھى عثمان سے زيادہ عداوت كا مظاہرہ كيا اسے دردناك عذاب ميں ڈالے ، اور سخت افت سے دو چار كرے _

يہاں تك كہاكہ اے زبير تمھيں ياد ہوگا كہ ايك دن ميں اور تم ايك ساتھ تھے رسو ل خدا(ص) بھى ہمارے ساتھ چل رہے تھے انھوں نے مجھ سے فرمايا ، اے على ، ايك دن ايسا ہوگا كہ يہ تمھارى پھوپھى كا بيٹا نا حق تم سے جنگ كريگا _

زبير كو فوراً حديث رسول ياد اگئي اور انھوںنے كہا :

اے على ، خدا كى قسم ميں آج كے بعد تم سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ، يہ كہا اور اپنے بيٹے عبداللہ كى طرف

۱۰۸

وآپس جا كر كہا :

اے عبداللہ ميں جس راہ جارہا ہوں اس سے بہت زيادہ فكر مند ہوں ، نتيجہ محل سے خوفزدہ ہوں ، ميں صاف صاف كہتا ہوں كہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كرنا ميرے نظريہ كے موافق نہيں ہے _

عبداللہ نے كہا : اے بابا ،آپ نے پہلے دن اس راہ ميںمضبوط ايمان اور عقيدے كے ساتھ قدم بڑھايا تھا ، آپ كے چہرے پر كسى قسم كا اضطراب نہيں محسوس كيا گيا ، ليكن آج آپ نے اپنا ارادہ بدل ديا ، آپ كو آپ كے دل ميں تشويش بھر گئي ،لازمى طور سے يہ كھلے ہوئے پرچم اور اٹھى ہوئي حضرت علىعليه‌السلام كى تلواروں نے رعب و وحشت ميں مبتلا كر ديا ہے اور دل ميں اضطراب بھر ديا ہے _

ہاں اے بابا ، حقيقت يہ ہے كہ آپ موت كو اپنى انكھوں سے ديكھ كر علحدہ ہو رہے ہيں ، ورنہ ہمارے مقصد كى تقديس ميں كوئي شك نہيں _

عبداللہ نے اسى طرح كى مہمل باتيں بآپ سے كہيں يہاں تك كہ بآپ نے غصہ ميں چلا كر كہا: تيرا جيسا بيٹا ہونا ميرے لئے افسو س ناك ہے جو بآپ كو ہلاكت اور بد بختى ميں جھونك رہا ہے ، اے بيٹا ، تم مجھے حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ پر ابھار رہے ہو ،حالانكہ ميں نے قسم كھائي ہے كہ ميں ان سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ميں اس قسم كا كيا كروں ؟

عبداللہ نے كہا: بابا يہ بہت اسان ہے ، آپ اپنى قسم توڑ ديجئے اور قسم توڑنے كے كفارے ميں اپنے غلام سرجس كو خدا كى راہ ميں ازاد كر ديجئے _

زبير نے اپنے فرزند كى ہدآیت كے مطابق غلام كو اپنا كفارہ قسم ميں ازاد كر كے دوبارہ صف لشكر ميں اكر امادہ جنگ ہو گئے _

ابن اعثم كوفى نے بھى حضرت علىعليه‌السلام اور زبير كى ملاقات كا واقعہ اس طرح لكھا ہے كہ :

حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے كہا :

زبير ، تم نے ميرى مخالفت كا علم كس لئے بلند كيا ہے ؟ خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے

۱۰۹

تم اور تمھارے دوست طلحہ نے عثمان كو قتل كيا ، ان كا خون تم دونوں كى گردن پر ہے اگر واقعى سچ كہہ رہے ہو تو اپنے كو عثمان كے بيٹوں كے حوالے كر دو تاكہ وہ بآپ كے انتقام ميں تم لوگوں كو قتل كرے يا ان سے بآپ كا خون بہا لے لے _

واقعہ كى تفصيل

طبرى نے اس واقع كو دوسرى جگہ زيادہ تفصيل سے لكھا ہے ، وہاں اضافہ كيا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام دونوں لشكر كے درميان اس طرح قريب ہوئے كہ گھوڑوں كى گردنيں ايك دوسرے كے امنے سامنے تھيں ، اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے ان دونوں سے كہا :

اے طلحہ و زبير تم لوگوں نے ايك بڑا لشكر جمع كر كے زبر دست طاقت فراہم كر لى ہے ، ہر طرح كى جنگى تيارى اور اسلحہ فراہم كر ليا ہے ، حالانكہ خدائے عادل كے سامنے تم لوگوں كے پاس كو ئي عذر اور حجت نہيں ہے ، لازمى طور سے اسى كى بارگاہ ميں لا جواب ہو خدا سے ڈرو ،اس كے غضب كا خوف كرو ، تم نے خدا كى راہ ميں اسلام اور كلمہ توحيد كى بلندى كيلئے مقدس جھاد كئے ہيں ان تمام بہترين خدمات كے مقابلے ميں يہ فتنہ و فساد اور داخلى اختلاف تم لوگوں نے پيدا كر ديا ہے ، اب مسلمانوں كو موت كے منھ ميں مت جھونكو ،ان تمام اجر اور ثواب كو اس گناہ كے بدلے ميں عذاب جہنم سے مت بدلو ، اس بوڑھيا كے مانند نہ ہو جائو كہ جس نے بڑى محنت سے مضبوط رسى بٹى پھر انھيں اتنى ہى كوشش سے دوبارہ پارہ پارہ كر ديا (ولا تكونا كا لتى نقضت غزلھا من بعد قوة انكاثا )_

اس كے بعد فرمايا: اے طلحہ و زبير كيا ہم تم بھائي بھائي نہيں تھے كہ ايك دوسرے پر ذرا بھى زيادتى كو جائز نہيں سمجھتے تھے ، آج كيا ہوا ہے كہ مجھ پر ايسى شورش پيدا كى ہے اور ميرا خون مباح ہونے كا اعلان كر ديا ہے _

طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى ان نصيحتوں كو سن كر كہا : اے على ، تمھارا جرم و گناہ يہ ہے كہ تم لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايا اور ان كا نا حق خون بہايا _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے جواب ميں يہ آیت تلاوت فرمائي ،يومئذ يوفيهم الله دينهم الحق ، قيامت كے دن ہر شخص كو حق كے خلاف اقدامات كى سزا دى جائيگى _

حضرت علىعليه‌السلام كامقصد يہ تھا كہ جس شخص نے بھى عثمان كا خون بھايا ہے اسے سزادى جائيگى وہ اپنے كئے كا بدلہ پائيگا، اسے نہيں جس پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے _

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے مزيد فرمايا :

اے طلحہ ميں بنيادى طور سے خون عثمان ميں شريك نہيں تھا تم مجھ سے اس خون كا مطالبہ كيسے كر رہے ہو

۱۱۰

خدا لعنت كرے اس شخص پر كہ جس كى گردن پر خون عثمان ہے _

اس كے بعد زبير سے فرمايا :

اے زبير تمھيں يا د ہے كہ ايك دن رسول (ص) خداميرے پاس سے گذرے انھوں نے جب ديكھا كہ تم مجھ سے انتہائي محبت كا برتائو كر رہے ہو اور ميں مسكرا رہا ہوں تو تم نے كہا كہ يا رسول(ص) اللہ فرزند ابو طالب اپنى خود نمائي سے باز نہيں ائے _

رسول خدا تمھارى بات سے غضبناك ہوئے اور سر زنش كرتے ہوئے فرمايا :

اے زبير ، جس طرح آج تم حضرت علىعليه‌السلام پر ناحق اعتراض كر رہے ہو ، خدا كى قسم وہ دن بھى ائيگا كہ نا حق ان سے جنگ كروگے _

اس موقعہ پر حديث رسول (ص) ياد ائي اور ندامت سے سر جھكا كر كہا كہ اگر يہ حديث مجھے ياد ہوتى تو ہرگز تم سے جنگ كا اقدام نہ كرتا ، اب جبكہ ميں جنگ كے ارادے سے گھر سے باہر نكل چكا ہوں ، ميں اپنے اس ارادے سے باز اتا ہوں ، خدا كى قسم اب ميں تم سے جنگ نہيں كرونگا _

طبرى كا بيان ہے كہ:

اس گفتگو كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر ميں وآپس اگئے ، آپ نے اپنے سپاہيوں سے فرمايا ، زبير نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہم سے جنگ نہ كريں گے _

زبير بھى عائشه كے پاس گئے اور كہا ، اے عائشه ، ميں نے جس دن سے ہوش سنبھالا ہے كبھى ايسا اقدام نہيں كيا كہ جس كے نتيجے كے بارے ميں ميں نے غور نہ كر ليا ہو ، سوائے اس جنگ كے جس كا نتيجہ ميرے اوپر مبہم تھا ، ميں اس كے انجام سے بہت خوفزدہ ہوں _

عائشه نے كہا : اے زبير اپنى پورى بات كہو اور جو كچھ ارادہ كيا ہے صاف صاف بيان كرو

_ميں چاہتا ہوں كہ اس لشكر سے علحدہ ہو جائوں اور اپنے گھر وآپس جائوں

زبير كا بيٹا وہاں موجود تھا ، اس نے اپنے بآپ كى سخت ملامت كرتے ہوئے كہا :

بابا اب جبكہ دونوں لشكر كو ايك دوسرے كے امنے سامنے كھڑا كر ديا ہے ، اور كسى وقت بھى جنگ شروع ہونے كا

۱۱۱

احتمال ہے ايسے حساس اور خطرناك موقعہ پر انہيں اپنے حال پر چھوڑ رہے ہو فرار كو ثبات پر ترجيح دے رہے ہو ؟

اے بابا حتمى طور سے على كى تلوار اور فوج دشمن كے بہادر شہسواروں كے ہاتھ ميں پرچم ديكھ كر ايسا خوف و ہراس تمھارے دل ميں پيدا ہو گيا ہے اور اب تم نے لشكر سے كنارہ كشى كا ارادہ كر ليا ہے _

زبير نے جواب ديا ، اے عبد اللہ ، خدا كى قسم ، كہ خوف اور وحشت كى بات نہيں ہے ليكن ميں نے قسم كھا لى ہے كہ على سے جنگ نہيں كروں گا _

عبد اللہ نے جواب ميں پيشكش كي

اے بابا ، اس كى تدبير اسان ہے كہ آپ قسم توڑ ديجئے اور اس كا كفارہ ادا كر كے جنگ شروع كر ديجئے

زبير نے بيٹے كى بات مان لى اور قسم توڑ كر كفار ے ميں اپنے غلام مكحول كو ازاد كر ديا اور دوبارہ صف لشكر ميں شامل ہوگئے

عبدالرحمن ابن سليمان تميمى نے اس واقعے كو نظم كيا ہے

لم اركا ليوم اخا الا خوان

اعجب من مكفر الايمان

بالعتق فى معصية الرحمن

يعتق مكحولا يصون دينه

كفارة للّه عن يمينه

والنكث قد لا ح على جبينه

ميں نے سارى عمر ميں ايسا دن كبھى نہيں ديكھا اس شخص نے مجھے حيرت ميں ڈالا ہے ، اس شخص نے اپنى قسم توڑى اور اپنا غلام كفارے كے طور پر ازاد كيا ، تاكہ قسم توڑنے كا گناہ اس كے دامن سے پاك ہو جائے ، ليكن اپنے اس عمل سے كہيں زيادہ بد تر گناہ كا مرتكب ہوا _

ايك دوسرے شاعر نے جو زبير كا فوجى تھا اس سلسلے ميں كچھ اشعار كہے ہيں

زبير نے اپنے غلام مكحول كو كفارئہ قسم كے طور پر ازاد كيا تاكہ وہ دينى لحاظ سے عہد شكن نہ كہا جائے ليكن اس كا كيا فائدہ ؟ كيونكہ اس كفارے كو ادا كرنے كے بعد اس پر عہد شكن كا داغ اور بھى زيادہ نماياں ہو گيا _

۱۱۲

زبير كى سر گذشت

مسعودى كا بيان ہے:

جس وقت دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے ،حضرت علىعليه‌السلام نے جنگى ہتھيار زمين پر ركھے ، پھر رسول خدا (ص) كے مخصوص خچر استر پر سوار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف چلے ، وہاں آپ نے زبير كو بلايا زبير جنگى ہتھيار بدن پر سجائے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے ائے جب يہ خبر عائشه كے كان ميں پڑى تو اپنى بہن كے شوہر اور سپہ سالار لشكر زبير كے بارے ميں خوفزدہ ہو كر بے اختيار صدائے فرياد بلند كى (واحر باه باسماء )ہائے ميرى بہن اسماء بيوہ ہوگئي _

لوگوں نے كہا : اے عائشه غم نہ كرو ، كيونكہ على كے بدن پر ہتھيار نہيں ، وہ زبير سے جنگ كرنے يہاں نہيں ائے ہيں ، عائشه نے سنكر ذرا سكون كى سانس لى _

جس وقت زبير حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے پہونچے تو باہم بغلگير ہوگئے ، دونوں نے ايك دوسرے كے اغوش ميںبھينچ ليا اور والہانہ بوسے لينے لگے _

پھر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: اے زبير تم پر افسوس ہے ، اخر كس غرض سے اس خطرناك لشكر كے ساتھ اس سر زمين پر ائے ہو ؟ اور اخر كيا وجہ ہوئي كہ ميرے خلاف علم بغاوت بلند كر ديا ہے ؟

زبير نے كہا: خون عثمان كا بدلہ لينے كيلئے ميں نے اس جنگ اور لشكر كشى كى تيارى كى ہے

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: خدا اسكو قتل كرے جس كا حصہ قتل عثمان ميں زيادہ ہے ، اے زبير كيا تمھيں ياد ہے ايك دن رسول خد(ص) ا نے تم سے كہا تھا اے زبير ايك دن تم نا حق على سے جنگ كروگے _

زبير نے كہا: استغفراللہ اے خدا ميں اپنے اس عمل پر شرمندہ ہوں ، اب اپنے كئے پر توبہ كرتا ہوں ، خدايا ميرى تقصير معاف فرما ، پھر حضرت على كى طرف رخ كر كے كہا :

خدا وند عالم ميرے دلى راز سے اگاہ ہے ، اور ميرى صداقت بيانى پر گواہ ، كہ اگر يہ حديث رسول(ص) ياد ہوتى تو كبھى اس منحوس بغاوت پر امادہ نہ ہوتا ، نہ اپنے گھر سے جنگ كے لئے نكلتا _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے زبير دير نہيں ہوئي ہے ، اب بھى تم جنگ سے دستبردار ہوسكتے ہو اور ابھى سے اپنے گھر وآپس جا سكتے ہو _

زبير نے كہا: ليكن اب ميںيہ كيسے كر سكتا ہوں كيسے اس بڑے ننگ و عار پر امادہ ہو جائوں ، اب تو دونوں لشكر امنے سامنے جنگ پر تيار ہيں ، اب تو فرار كا راستہ بھى بند ديكھ رہا ہوں _

۱۱۳

حضرت علىعليه‌السلام فرمايا: اے زبير اگر آج تم نے ننگ وعار كو قبول كر ليا تو اس سے كہيں بہتر ہے كہ كل بھى تمھيں ننگ وعار كا سامنا كرنا پڑے گا ، كل قيامت ميں عار بھى ہے اور اتش جہنم بھى _

اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كى باتوں سے زبير بہت زيادہ متاثر ہوئے ، حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ پر سخت نادم و پشيمان ہو كر ارادہ جنگ سے باز ائے ، انھوں نے اس سلسلے ميں كچھ اشعار بھى كہے

_ميں اپنے لئے عار و ننگ كو قبول كر رہا ہو ں تاكہ ذليل كرنے والى اتش جہنم سے نجات پا سكوں

_ميرا كمزور جسم اتش جہنم كى تاب كيسے لاسكے گا ؟ على نے ايسى بات ياد دلا دى جسے ميں خود جانتا تھا ليكن بھول گيا تھا

_ہاں على سے جنگ دين و دنيا دونوں كو تباہ كر نے والى ہے ، اور ننگ و عار سمجھے جانے والى اسى وجہ سے ميں نے على سے كہا :

اے ابو الحسن اب اس سے زيادہ ملامت نہ كرو

آپ نے اتنا ہى جو كچھ بيان كيا ہے يہى ميرى اگاہى كيلئے كافى ہے _

اخترت عاراً على نار مو ججة

ما ان يقوم لها خلق من الطين

نادى على بامر لست اجهله

عار لعمرك فى الدنيا و فى الدين

فقلت حسبك من عذل ابا حسن

بعض الذى قلت منذ اليوم يكفيني

ترجمه: _ ميں اپنے لئے عاروننگ کوقبول کرر باہوں تا که ذليل کرنے والى آتش جہنم سے نجات پاسکوں

ميرا گزورجسم آتش جہنم کى تاب کيسے لا سکے گا ؟ علي نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں خود جا نتاتها ليکن بهول گياتها.

بال على سے جنگ دين و دنيا دونون کوتباه کرنے والى ہے ، اورنگ و عارسمجهے جانے والى اسى وجه سے ميں نے على سے کہا :

اے ابوالحسن ! اب اس سے زياده ملامت نه کرو.

آپ نے اتناهى جوکچھ بيان کيا هے يہى ميرى آگاہى کيلئے کافى ہے -

مسعودى نے اگے لكھا ہے :

جب عبد اللہ بن زبير كو بآپ كے ارادے كى اطلاع ہوئي تو اس نے كہا :

اے بابا اس حساس موقع پر مجھے كيسے چھوڑ رہے ہيں ، اور خود فرار كر رہے ہيں

۱۱۴

زبير نے كہا : اے بيٹا على نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں بھول چكا تھا ، اس وجہ سے اب ميں جنگ اگے نہيں بڑھا سكوں گا _

عبد اللہ نے كہا : اے بابا ،نہيں ، جو كچھ آپ كہہ رہے ہيں يہ صرف بہانہ ہے ، بلكہ آپ تيز تلواروں سے ڈر گئے ہيں _

فوج دشمن كے بلند نيزے ، ان كے بہادر اور جنگجو جوان ان سب كو ديكھ كر آپ خوف اور وحشت ميں مبتلا ہو گئے ہيں ، اسى وجہ سے آپ جنگ سے منھ پھرا رہے ہيں

زبير نے كہا ، خدا تيرے جيسے بيٹے كو ذليل و خوار كرے تو بآپ كى بد بختى و ہلاكت كا باعث بن رہا ہے ، بآپ كى ذلت كيلئے كو شاں ہے(۱)

اس جواب كو ابن اعثم نے نقل كيا ہے ، ليكن مسعودى كے بيان كے مطابق زبير نے عبداللہ كو جواب ديا _ عبداللہ نہيں ، ايسا نہيں جيسا تو سمجھ رہا ہے ، ہرگز ايسا نہيں كہ جنگ كا خوف مجھے باز ركھے ، بلكہ آج مجھے وہ بات ياد اگئي جسے عرصے سے بھولا ہوا تھا ، اس واقعے نے مجھے حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ نہ كرنے كى ياد دہانى كرا دى ، اسى لئے ميں نے جنگ نہ كرنے كا عار جہنم كى اگ كے مقابلے ميں قبول كيا ، اور اپنے كو جنگ سے علحدہ كر ليا _

ليكن ميرے بيٹے اب جبكہ تم مجھے بزدل اور ڈر پوك كہہ رہے ہو تو اس دھبے كو بھى دامن سے دھو ڈالو ں گا ، يہ كہہ كر نيزہ ہاتھ ميں سنبھالا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر پر شديد حملہ كيا ، جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زبير كو غضبناك حالت ميں چوكڑى بھرتے ديكھا تو اپنے لشكر كو حكم ديا ، انھيں مہلت دو ، كوئي تكليف نہ پہو نچائو كيونكہ انھيں بھڑكايا گيا ہے ، وہ اپنا فطرى توازن كھو چكے ہيں _ زبير نے دوسرى بار لشكر على كے ميسرہ پر حملہ كيا ، اسكے بعد قلب لشكر پر سخت حملہ كرنے كيلئے بڑھے _ اسكے بعد زور سے چلّائے كيا جو ڈر پوك ہو گا وہ ايسى شجاعت كا مظاہرہ كر سكتا ہے اور اس طرح بے باكانہ طريقے سے سپاہ دشمن پر حملہ كر سكتا ہے ؟ پھر وہ لشكر سے علحدہ ہو كر صحرا كى طرف چلے گئے جس صحرا كا نام وادى السباع تھا _ احنف بن قيس تميمي،اس جنگ جمل سے جانبدارى كا اعلان كر كے بصرہ كو چھوڑ كر اسى وادى ميں اقامت گزيں رہا ، ايك شخص نے اس سے كہا ، اے احنف يہى زبير ہے ، احنف نے كہا ، مجھے زبير سے كيا

____________________

۱_ تاريخ اعثم ، مسعودى ، شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۷۰

۱۱۵

سروكار ؟اس نے مسلمانوں كے دو گروہ ميںجنگ و خونريزى كى حالت پيدا كر دى ہے ، اور اب اپنے كو سلامتى كى غرض سے وہاں سے علحدہ كر كے گھر جارہا ہے ، اسے چھوڑ بھى دو كہ چلا جائے _

زبير وہيں گھوڑے سے اترے اور نماز پڑھنے لگے ، اسى وقت ايك شخص جس كا نام عمر و بن جرموز تھا(۲) ،

اس نے پيچھے سے تلوار چلائي اور انھيں قتل كركے لشكر عائشه كے سپہ سالار كى زندگى كا خاتمہ كر ديا ، زبير كے بعد لشكر عائشه كى حكمرانى طلحہ كے ہاتھ ميں اگئي(۳) _

طلحہ كى سر گذشت

ابن عساكر كا بيان ہے :

جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ كو اپنے پاس بلا كر پوچھا اے طلحہ تجھے خدا كى قسم ہے كيا تو نے رسول خدا (ص) كا يہ ارشاد نہيں سنا كہ من كنت مولاہ فھذا على مولاہ، جس كا ميں مولا ہوں اسكے يہ على مولا ہيں ، خدا يا جو اسے دوست ركھے تو بھى اسے دوست ركھ اور جو اسے دشمن ركھے تو بھى دشمن ركھ

____________________

۲_ مسعودى اور ابو مخنف لكھتے ہيں كہ جب عمر و بن جرموز نے زبير كو قتل كيا تو انعام كى لالچ ميں تلوار لئے حضرت على كے پاس ايا ، امام نے واقعہ سے مطلع ہو كر فرمايا ، بخدا صفيہ كا بيٹا ڈر پوك نہيں تھا ، ليكن آج اسكى ايك غفلت و لغزش نے اسے ہلاك كر ديا ، پھر زبير كى تلوار ہاتھ ميں ليكر حركت دى اور فرمايا ، ہائے اس تلوار نے رسول كے دل سے كيسے كيسے غم دور كئے حريم رسالت كا كيا كيا دفاع كيا ابن جرموز نے كہا ، ميں نے آپ كے سخت دشمن كو قتل كيا ہے انعام ديجئے ، آپ نے فرمايا ، اے ابن جرموز ميں نے رسول خدا سے سنا ہے كہ قاتل زبير جہنمى ہے ، مايوس ہو كر ابن جرموز يہ اشعار پڑھتا چلا گيا ميں زبير كا سر تن سے جدا كر كے على كى خدمت ميں ايا تاكہ انكى خوشنودى حاصل كروں ليكن توقع كے خلاف على نے مجھے جہنمى بنا ديا ، ہائے ، كسقدر خطرناك انعام مجھے ديا ، حالانكہ قتل زبير ميرے نزديك بكرى كے رياح كى طرح تھا ،

۳_ زبير كے حالات كيلئے طبرى ، اغانى ، ابو مخنف بحوالہ شرح نہج البلاغہ ، تاريخ اعثم ، اصابہ ، مروج الذھب ، تاريخ بن كثير ، عقد الفريد ، مستدرك ، كنزل العمال ، النبلاء ذھبى اور يعقوبى سے استفادہ كيا گيا ہے

۱۱۶

طلحہ نے كہا : ہاں ميں نے بھى سنا ہے اور مجھے اچھى طرح ياد ہے _

حضرت على نے فرمايا: تعجب ہے ، اسكے باوجود تو مجھ سے جنگ كر رہا ہے ؟

اس بارے ميں طبرى يوں لكھتا ہے :

جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ سے ملاقات كى اور اس سے كہا :

تو وہ شخص ہے جس نے اپنى زوجہ كو گھر ميں بيٹھا ركھا ہے اور زوجہ رسول (ص) كو ميدان جنگ ميں گھسيٹ لايا ہے ، ميرى بيعت بھى توڑ دى ہے _

طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے ان تمام اعتراضات كے جواب ميں صرف ايك بات پر اكتفا كى _

يا على ميں نے آپ كى بيعت اپنے اختيار سے نہيں كى تھى بلكہ طاقت اور تلوار نے مجھے بيعت پر مجبور كيا تھا _

ابن عساكر اور ذہبى لكھتے ہيں كہ :

ابو رجا كا بيان ہے : ميں نے طلحہ كو ديكھا كہ گھوڑے پر سوار ہو كر سپاہيوں كے درميان چلّا رہا تھا _

اے لوگو خاموش رہو اے لوگو ميرى بات سنو ، طلحہ جتنا بھى چلّا رہا تھا ، اتنا ہى ہائو ہو اور ھنگامہ بڑھتا جا رہا تھا ، كوئي اسكى بات سننے پر امادہ نہ تھا ، طلحہ نے لوگوں كى بے اعتنائي پر غصے ميں كہا ، تف ہے ان بھيڑيا صفت لوگوں پر جو اتش جہنم كے پروانے ہيں _

تاريخ بن اعثم ميں ہے كہ :

طلحہ نے اپنے لشكر والوں سے چلا كر كہا ، يا عباد اللہ اصبرو، اے بند گان خدا صبر كرو، صبر و استقامت كا مظاہرہ كرو كيو نكہ صبر و ظفر دونوں قديم زمانے سے ايك دوسرے كے دوست ہيں ، استقامت اور كامرانى ہميشہ ايك دوسرے كے ساتھى رہى ، فتح اسى كو حاصل ہوتى ہے جس كے پاس صبر و استقامت ہو ، جو لوگ سختيوں اور مصيبتوں ميں صبر كرتے ہيں وہى بہترين اجر سے سرفراز ہوتے ہيں _

ابو مخنف لكھتا ہے كہ: جندب بن عبداللہ كا بيان ہے كہ ميں نے جنگ جمل ميں طلحہ اور اسكے ساتھيوں كو حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كرتے ہوئے ديكھا ، ان كے جسم پر بہت زيادہ زخم تھے ، وہ لوگ بھاگنے پر امادہ تھے ايك ايك كر كے طلحہ كے سپاہى فرار كرنے لگے ، پيچھے ہٹنے لگے ، طلحہ كو سب سے زيادہ زخم ائے تھے ، تلوار ہاتھ ميں لئے چلّا رہا تھا _

اے بند گان خدا ، استقامت دكھائو ، صبر و شكيب كا مظاہرہ كرو كاميابى صبر سے وابستہ ہے ، اجر و ثواب استقامت ميں ہے _

۱۱۷

طلحہ كيسے قتل ہوئے ؟

يعقوبى ، ابن عساكر، ابن عبد ربہ ، ابن عبد اللہ استيعاب ميں اور ابن اثير كامل ميں اور ابن حجر عسقلانى اس طرح لكھتے ہيں كہ ، جب حضرت على اور طلحہ كا لشكر مشغول كار زار تھے لشكر عائشه كا ايك سردار مروان بولا _

ميں اگر آج موقع سے فائدہ اٹھا كر ، قاتل عثمان سے انتقام نہ لوں تو كب يہ موقع حاصل كر سكوں گا ؟

يہ كہہ كر اس نے ايك تير اپنے سپہ سالار طلحہ كى طرف چلايا جو ٹھيك طلحہ كے زانو پر لگا اور پير كى رگ ميں پيوست ہو گيا ، اور فوارے كى طرح خون بہنے لگا ، اور اسطرح مروان كے ہاتھوں طلحہ كى ہنگاموں سے بھر پور زندگى كا خاتمہ ہو گيا _

طبقات بن سعد ميں ہے :

طلحہ خود بھى يہ خاص بات (نكتہ)سمجھ گئے تھے كہ وہ كارى اور قاتل زخم خود انھيں كے ساتھيوں كى طرف سے ايا تھا ، زندگى كے اخرى لمحوں ميں كہنے لگے

خدا كى قسم جو تير ميرے پائوں ميں پيوست ہوا وہ لشكر على كى طرف سے نہيں ايا تھا _

مسعودى قتل طلحہ كے سلسلے ميں لكھتا ہے :

مروان نے اثنائے جنگ ميں طلحہ كو اپنے سے غافل ديكھا تو اسے انتقام عثمان كا خيال ايا ، وہ بولا كہ خدا كى قسم ميرے لئے كوئي فرق نہيں كہ ميں لشكر على كى طرف تير اندازى كروں يا طلحہ كے سپاہيوں كى طرف _

يہ كہہ كر اس نے اپنے ساتھى طلحہ كى طرف تير چلايا جس سے طلحہ كے بازو كى رگ كٹ گئي ، اس سے خون كا فوارہ بہنے لگا ، اسى زخم كى وجہ سے طلحہ كى جان گئي _

ابن سعد نے بھى اس واقعہ كى يوں تشريح كى ہے _

مروان كى انكھ نے جنگجو سواروں كے درميان ديكھا كہ طلحہ كى زرہ ميں شگاف ہے ، اس سے اسى كو نشانہ بنا كر تير چلاديا ، اس تيرنے اپنا كام كيا اور وہ قتل ہو گئے _

بعض مورخين نے لكھا ہے :

مروان نے طلحہ كو درميان لشكر انتہائي حساس حالت ميں ديكھ كر كہا خدا كى قسم ، يہ شخص عثمان كا بد ترين دشمن اور قاتل تھا ، ميں تو عثمان كے خون كا بدلہ لے رہا ہوں ، كيا اچھا ہو كہ اصلى قاتل كو قتل كر دوں اور جن لوگوں

۱۱۸

پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے انھيں نظر انداز كر دوں ، يہ كہكر تير كمان ميں جوڑكر طلحہ كى طرف چلايا اور اسے قتل كرديا _

مستدرك حاكم ، تاريخ بن عساكر اور اسد الغابہ ميں ہے

جس وقت مروان نے طلحہ كو قتل كيا ، اس نے عثمان كے فرزند ابان كى طرف رخ كر كے كہا :

اے ابان تمہارے بآپ كے ايك قاتل كو كيفر دار تك پہونچا كر تمھارا دل ٹھنڈا كر ديا _

ابن اعثم نے قتل طلحہ كى داستان ذرا تفصيل سے بيان كى ہے ، جنگ كے درميان مروان نے اپنے غلام سے كہا ، مجھے بڑى حيرت ہے كہ يہ طلحہ ايك دن بد ترين دشمن عثمان تھا ، لوگوں كو ان كے قتل پر ابھارتا تھا ، ان كا خون بہانے ميں كوشاں تھا ، يہاں تك كہ انھيں قتل كر ڈالا اور آج انكى طرفدارى اور انتقام كيلئے كھڑا ہے ، ان كے دوستوں اور فرزندوں كے ساتھ ہے _

پھر كہا : ميں اس متلون اور منافق كو قتل كرنا چاہتا ہوں تاكہ مسلمان اس كى شرارت سے نجات پائيں ، ان بيچارے لوگوں كے سر سے اس كا منحوس سايہ كم ہو _

اے غلام ، تو ميرے سامنے اكر مجھے اپنى اڑ ميں لے لے اگر تو نے اچھى طرح يہ كام نبھايا تو تيرا بہت شكر گذار ہوں گا ، اور اس كے بدلے تجھے ازاد كر دوں گا _

مروان كے غلام كو اپنى ازادى سب سے زيادہ پيارى تھى ، اس نے اپنے كو مروان اور طلحہ كى اوٹ ميں كر ليا ، اسى وقت مروان نے ايك زہر ميں بجھائے ہوئے تير كو كمان ميں جوڑ كر طلحہ كا نشانہ بنايا اور انكى ران زخمى كر دى _

مورخين كا بيان ہے كہ: جب طلحہ نے اس زخم سے اپنى كمزورى بڑھتى ديكھى تو اپنے غلام سے كہا ، كم سے كم مجھے ايك درخت كے سائے ميں ليكر چل تاكہ سورج كى تيز گرمى سے نجات ملے ، غلام نے كہا ، اے امير ، اس بيا بان ميں دور دور تك كہيں سايہ نہيں ، ميں آپ كو كہاں اٹھا كر ليجائوں ، اس وقت طلحہ نے بجھى بجھى حالت ميں حسرت سے كہا ، سبحان اللہ ، قبيلہ قريش ميں مجھ سے زيادہ بيچارہ كوئي نہ ہو گا ، ہائے ميرا خون رائگاں گيا ، اور ميرا قاتل لا معلوم ہے ، اے خدا ،يہ منحوس اور سوزش سے بھر پورتير كدھر سے ايا تھا ؟اس نے تو ميرى دنيا اندھير اور زندگى تباہ كر دى ، يہ تير دشمن كى طرف سے نہيں ايا تھا ، كيا كروں كہ ميرى تقدير ميں يہى لكھا تھا

۱۱۹

مدائنى كا بيان ہے :جب مروان كا تيرطلحہ كے پير ميں لگا تو اس نے اپنے كو ميدان سے علحدہ كر ليا ، اور ايك مناسب اور محفوظ جگہ پر اپنے كو ڈال ديا كہ وہاں ارام كر سكے ، وہاں وہ كسى على كے سپاہى كو ديكھتا تو اس سے امان طلب كرتا ، بڑى عاجزى سے كہتا ، ميں طلحہ ہوں ، ميں تمہارى امان ميں ہوں ، كيا تم ميں كوئي جو اں مرد ہے جو مجھے امان دے ، مجھے قتل سے نجات بخشے _

حسن بصرى كو جب طلحہ كے امان طلب كرنے كى بات ياد اتى تو كہتے انھيں امان كى ضرورت نہيں تھى كيونكہ وہ پہلے ہى دن سے ايك عمومى امان ميں تھے حضرت على نے اپنے سپاہيوں سے قبل جنگ ہى عام اعلان كر ديا تھا كہ زخميوں كو قتل نہ كيا جائے _

مورخين كا بيان ہے:

كہ طلحہ اپنے ساتھى مروان كے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان كا جسد ميدان بصرہ كے مقام سبخہ ميں دفن ہوا _

ابن عبدربہ ، ابن عبدالبر اور ذھبى كا بيان ہے ، لشكر عائشه ميں سب سے پہلے طلحہ قتل ہوئے ، طلحہ ہى زبير كى كنارہ گيرى كے بعد لشكر كے سپہ سالار تھے _

جى ہاں ، لشكر عائشه كے دوسرے سپہ سالار اسطرح قتل ہوئے ، ليكن اس سپہ سالار كے قتل كے بعد بھى فوج عائشه ميں ذرا ہراس نہ تھا كيونكہ اس فوج كا پرچم وہ اونٹ تھا جس پر عائشه كا ہودج ركھا ہوا تھا ، لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، قتل طلحہ كے بعد لشكر كى توجہ زيادہ مركوز ہو گئي ، اور جنگ ميں شدت بھى اگئي(۴) _

اخرى جنگ شروع ہوئي

جنگ جمل چند چھوٹى بڑى جھڑپوں سے تشكيل پائي ہے

۱_ لشكر عائشه بصرہ ميں وارد ہوا تو اس كے اور گورنربصرہ كے درميان جنگ ہوئي ، اس جنگ ميں گورنر

____________________

۴_ طبرى ج۵ ص۲۰۴ ، يعقوبى ج۲ ص ۱۵۸ ، تاريخ بن اعثم ، تھذيب ، تاريخ بن عساكر ، استيعاب ، اصابہ ج۲ ص۲۲۲ ، عقد الفريد ج۴ ص۳۲۱، مدائنى بحوالہ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص۴۲۱

۱۲۰

بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _

۲_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _

۳_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _

۴_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _

اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا(۵) جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ صورتحال ديكھى تو آپ نے بھى عمامہ مشكى(۶) كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، آپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں

____________________

۵_ تاريخ بن اعثم ص۱۷۶ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج۲ ص۸۱ ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عا ئشہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں

۶_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے

۱۲۱

عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _

اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _

عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _

عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے(۷)

كہانى كعب بن سور كى عائشه كے اولين لجام بردار

(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )

جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _

يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا(۱) ،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

____________________

۷_ انت الذى قد غرك منى الحسنا

يا عيش ان القوم قوم اعدا

والخفض خير من قتال الابنا

۱۲۲

كعب بن سور كون ہے ؟

كعب بن سور(۸) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے

جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ آپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمآیت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمآیت پر امادہ ہو گئے_

____________________

۸_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت آپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ آپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے

۱۲۳

ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _

ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمآیت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :

اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمآیت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمآیت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير وآپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمآیت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _

انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمآیت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمآیت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ آپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد آپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر آپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _

طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _

مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار

۱۲۴

بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب

على فتية من خيار العرب

و مالهم غير حين النفو

س اى امير قريش غلب(۹)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے

ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _

على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟

ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں

جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _

ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _

اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول

والموت عند الجمل المجلل

____________________

۹_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج۵ ص۲۱۹ ، استيعاب ص۲۲۱ ، اسد الغابہ ج۳ ص۲۴۲ _ اصابہ ج۳ ص۲۹۷ ، نہج البلاغہ ج۲ ص۸۱ ، طبقات بن سعد ج۷ ص۹۴ ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص۱۵۶ ، كامل بن اثير ج۳ ص۲۴۲

۱۲۵

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _

عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں

قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_

جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(۱۰) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ

____________________

۱۰_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا بآپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ آپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين وآپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:۱۰/۲۰۳_۲۰۵، شرح نہج البلاغہ :۳/۱۲۰_ ۱۲۱

۱۲۶

موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں

خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :

عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _

عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _

قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _

اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا آپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ آپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم آپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، آپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں

(يا امنا يا خير ام نعلم اما ترين كم شجاعاً يكلم و تختلى ها مته و المعصم )

اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي آپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،

اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى(۱۱)

____________________

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۲۱۱ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۹۸

۱۲۷

ايك عجيب داستان

مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :

راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _

اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _

ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _

ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمآیت كى ضرورت نہيں رہى _

ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا

فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امه

و شيعتها مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة

و هل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _

۱۲۸

اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟

ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :

مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _

ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟

اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى(۱۲)

طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _

بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا(۱۳)

رجز خوانياں

ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمآیت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند

____________________

۱۲_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج۵ ص ۱۹۹ ، كامل بن اثير ج۳ ص ۱۰۰

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۲۱۳

۱۲۹

نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _

اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ آپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _

اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے آپ كو اكيلا كر سكتا ہے _

اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر آپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_

قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _

اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمآیت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و

۱۳۰

ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے(۱۴)

يا امنا يكفيك منا دنوه ---لن يوخذ الدهر الخطام عنوه

و حولك اليوم رجال شنوه ---وحى همدان رجال الهبوه

والما لكيون القليلوا الكبوة ---والازد حى ليس فيهم نبوه

يا معشر الازد عليكم امكم ---فانها صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم ---فاحضروها جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم ---ان العدو ان علا كم زمكم(۱۴)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _

اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر علىعليه‌السلام تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر علىعليه‌السلام تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور علىعليه‌السلام سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _

طبرى كا بيان:

جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس

____________________

۱۴_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۲_۲۵۶

۱۳۱

اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _

ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _

دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه آپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ آپ كے توانا اور شجاع بيٹے آپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول آپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، آپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں(۱۵)

۴_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _

اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _

يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _

اگر آج علىعليه‌السلام ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں(۲) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _

____________________

۱_ نحن بنو ضنبة لا نفر ---حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر ---كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى ---يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى

۲_ يا ام يا ام خلاعنى الوطن ---لاابتغى القبرولا ابغى الكفن

من ها هنا محشر عوف ابن قطن ---ان فاتنا اليوم على فالغبن

او فاتنا ابناه حسين و حسن ---اذا ام بطول هم و حزن

۱۵_ شرح نهج البلاغه ج۱, ص, ۲۶۱,۲۶۲ تاريخ ابن اعشم

۱۳۲

۵_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت علىعليه‌السلام كو للكارتے ہوئے بولا _

اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں(۱) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا(۱۶)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ

طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:

جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميں نے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟

ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _

چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_

____________________

۱_ ابا تراب ادن منى فترا ---و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا

۱۶_شرح نهج البلغه ج۱, ۲۶۱,و فتوح ابن اعشم

۱۳۳

عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر

عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_

مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_

داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _

ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_

اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _

صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا(۱۷)

____________________

۱۷_ عبد الله كے بآپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا

۱۳۴

طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے بآپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_

ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _

ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہونآپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _

۱۳۵

طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _

جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _

ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _(۱۸)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے(۱۹)

ابو مخنف كابيان ہے :

حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى

____________________

۱۸_ طبرى ۵ _ ۲۱۰ _ ۲۱۱ _ ;۴ ;۲ شرح نہج البلا غہ ۸۷۱ شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير ۳_۹۹ عقدالفريد ۴_ ۳۲۶ لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۲۰۷

۱۳۶

سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي(۲۰)

مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ

لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_

ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت علىعليه‌السلام كى اواز بلند ہوئي _ آپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرماياويلكم اعقرواالجمل فانه شيطان _

تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _

تم پر افسوس ہے _ ان كآپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ [

____________________

۲۰_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۸۸

۱۳۷

منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _

تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمآیت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _ اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ آپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _ اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار

جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت(۲۱) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو(۲۲)

____________________

۲۱_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں

۲۲_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد ۱ _ ۸۷

۱۳۸

جنگ كا خاتمہ

لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :

جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھنآپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا(۲۳)

اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :

صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _

ابو مخنف كہتا ہے : جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو آپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے(۲۴)

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:

ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق آپ كے ايك جرى سپاہى نے صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _ اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو آپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود آپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير

____________________

۲۳_طبرى ج۵ ص ۲۱۸

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱

۱۳۹

يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى نعرہ لگايا _

اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ آپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ آیت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :

اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر آپ نے اس آیت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _

ونظر الى الهك (۲۵)

ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _

جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے(۲۶)

عائشه سے كچھ باتيں

عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟

____________________

۲۵_ سورئہ طہ آیت ۹۰

۲۶_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۹

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198