تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79028 / ڈاؤنلوڈ: 5340
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

امير المومنين نے قران اس جوان كے حوالے كيا ، اور و ہ دشمن كى طرف روانہ ہو گيا ، اس نے عائشه كے فوجيوں كو قران ہاتھ ميں ليكر دعوت دى اس حال ميں لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كا ہاتھ جسم سے جدا كر كے زمين پر ڈال ديا _

اس جوان نے بھر پور حوصلے كے ساتھ قران بائيں ہاتھ ميں لے ليا اور انھيں تبليغ كرتا رہا ، لوگوں نے پھر اس پر حملہ كر كے بائياں ہاتھ كاٹ ڈالا ، وہ اس حالت ميں كہ قران اس كے سينے پر تھا اور خون اس كے دونوں ہاتھوں سے جارى تھا اپنى جان جاں افريں كے سپرد كر دى(۱۵)

طبرى نے يہ داستان اس طرح لكھى :

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا: كہ كون ہے جو اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كے سامنے جائے اور انھيں اطاعت فرمان كى دعوت دے اور ايسى استقامت و فدا كارى كا مظاہرہ كرے كہ اگر ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دوسرے ہاتھ ميں ليلے ، اور اگر دوسرا ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دانتوں سے دبا لے اور لوگوں كو اس كے حقائق كى تبليغ كرے _

اس موقعہ پر ايك نو جوان كھڑا ہوكر بولا يا على ، ميں

_ ہاں ، اے امير المومنين يہ ذمہ دارى مجھے ديجئے

على نے اپنى پيشكش دوبارہ سب كے سامنے ركھى ليكن اس غيرتمند جوان كے سوا كوئي بھى اس ذمہ دارى كيلئے امادہ نہيں ہوا كہ جس ميں لازمى طور سے موت تھى _

حضرت علىعليه‌السلام نے اس وارفتہ جوان سے فرمايا كہ: دشمن كى طرف جائو اور ان كے سامنے يہ قران پيش كرو ، ان سے كہو كہ يہ قران ہمارے اور تمھارے درميان فيصلہ كرنے والا اور حاكم ہے ، اسميں جو بھى حكم ہو ہميں اسى كے مطابق عمل كرتے ہوئے خونريزى اور برادر كشى سے پرہيز كرنا چاہيئے _

وہ جوان گيا اور اپنى ذمہ دارى اچھى طرح نبھائي يہاںتك كہ دعوت قران كى راہ ميں اس كے ہاتھ كٹ گئے اس نے قران كو دانتوں سے دبا ليا اور تبليغ كرتا رہا يہاں تك كہ اپنى جان ديدى _

اس واقعہ كے بعد امير المومنين نے فرمايا ، اب ان لوگوں پر ہر حيثيت سے حجت تمام ہو گئي اور ہمارے لئے ان سے جنگ واجب ہوگئي(۱۶)

____________________

۱۵_ كنز العمال ج۶ ص ۸۵ ، طبرى ج۵ ص ۲۰۵ ، ابن اثير

۱۶_ طبرى ج۵ ص ۲۴ ، كامل ابن اثير ج۲ ص ۱۰۴ ، شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۴۳۱ ، بحوالہ ابن اعثم و ابو مخنف

۱۰۱

غمزدہ مادر نے اس پيارے جوان فرزند كے سوگ ميں كچھ اشعار كہے جس كا مضمون يہ ہے _

لاهم ان مسلماً دعاهم

يتلو كتا ب الله لا يخشاهم

وامهم قائمة تراهم

يا تمرون الغى لا تنهاهم

قد خضبت من علق لحاهم

ترجمہ -:اے خدا تو گواہ رہنا كہ اس مسلمان جوان نے انھيں تيرى طرف دعوت دى اور ان كى تلواروں كا خيال كئے بغير قران پڑھتا رہا ، اور انكى ماں (عائشه ) بھى ان كے درميان موجود تھى ، ان كے برے كرتوت ديكھ رہى تھى ، ظلم و تعدى پر انكھيں پھر ا رہى تھى ، اس ماں نے اپنے بيٹوں كو اس راستے سے روكا نہيں جو بد بختى و ہلاكت كيطرف جارہا تھا بلكہ وہ انھيں اس ظلم و ستم پر ابھار رہى تھى ، انھيں مہندى كے بجائے خون سے خضاب كر رہى تھى _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: ان اشعار كو ام ذريح نے اس جوان كے سوگ ميں كہے تھے _

ابن اعثم بھى كہتا ہے كہ: وہ جوان كوفے كا باشندہ خاندان مجاشع سے تھا _

جس شخص نے اس كے ہاتھ قطع كئے وہ عائشه كا قريبى خدمتكار تھا اسى نے اسے قتل كيا _

عمار ياسر نے عائشه اور سرداران لشكر سے بات كي

ايك دن رسو ل خدا (ص) نے عمار ياسر سے فرمايا :

اے عمار تمھيں ظالم اور باغى گروہ قتل كرے گايا عمار تقتلك الباغية

۱۰۲

جس دن سے رسول خدا (ص) نے يہ مختصر اور تاريخى جملہ عمار كے بارے ميں فرمايا تھا وہ مسلمانوں كے درميان معيار حق بن گئے تھے ، عمار جس لشكر ميں بھى ہوتے اس لشكر كى حقانيت كا ثبوت بن جاتے ، اور انھيں كے ذريعہ سے مخالف لشكر كا باطل پر ہونا ظاہر ہو جاتا تھا _

يہى وجہ تھى كہ امير المومنينعليه‌السلام نے عمار ياسر كو عائشه اور سرداران لشكر كے پاس ملاقات كيلئے بھيجا تاكہ انھيں موعظہ و نصيحت فرمائيں شايد يہ لوگ ان كى باتيں سنكر اثر قبول كريں ، ورنہ كم از كم ان پر حجت تو تمام ہى ہو جائے گى _

مسعودى نے يہ واقعہ يوں لكھا ہے :

جنگ جمل ميں عائشه كيلئے لكڑى كا ھودج بنايا گيا ، اور مضبوط اور موٹا تختہ ديا گيا ، اس كے اوپر گائے كى كھال اور كمبل بچھايا گيا اس كے بعد ہر قسم كے خطروں سے محفوظ رہنے كيلئے بہت سى زرہوں سے ڈھانپ كر ايك اھنى ديوار كھينچ دى گئي تھى ، يہ ھودج ايسا مضبوط قلعہ بن گيا تھا ، اسے مشہور اونٹ عسكر پر ركھا گيا جسے يعلى ابن اميہ نے خريد ا تھا عائشه كا يہ اونٹ فوج كے ا گے اگے چل رہا تھا ،جب عمار ياسر نے يہ حالت ديكھى تو دونوں لشكر كے سامنے كھڑے ہو كر عائشه كے فوجيوں سے فرمايا :

اے لوگو تم نے اپنے پيغمبر(ص) كے ساتھ انصاف نہيں كيا كہ اپنى عورتوں كو تو پردے ميں بيٹھا ركھا ہے اور ان كى زوجہ كو ميدان جنگ ميں شمشيروں كے سامنے كھينچ لائے ہو _

پھر عائشه كے ھودج كے پاس پہنچ كر كہا :

اے عائشه تو ہم سے كيا چاہتى ہے

عائشه نے جواب ديا ، عثمان كا انتقام

عمار نے كہا ، اللہ ان ظالم اور باغيوں كو قتل كرے جو بغير معمولى سا حق ركھتے ہوئے انتقام كا نعرہ لگائے اس كے بعد عمار نے لوگوں سے خطاب فرمايا ، كہ تم لوگ انھيں خوب پہچان رہے ہو جو خون عثمان ميں شريك رہے ہيں ،

۱۰۳

اچھى طرح جانتے ہو كہ ان دونوں لشكر ميں وہ كون لوگ ہيں جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ، ہاں تم پورى طرح جانتے ہو كہ عثمان كے قاتل وہى لوگ ہيں جو آج انتقام كے بہانے سے يہ جنگ اور اختلاف پيدا كر رہے ہيں _

اتنے ميں بارش كے قطروں كى طرح دشمن كى طرف سے عمار پر تير برسنے لگے اس وقت آپ نے يہ اشعار پڑھے

ومنك البداء و منك الغير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

اے عائشه تم ہى نے جنگ شروع كى اور تم ہى سے خونريزى ہوئي

يہ تمام ہنگامہ اور حادثے تيرى وجہ سے پيدا ہوئے

تونے ہى خليفہ كے قتل كا فرمان صادر كيا

اور تونے ہى اس كے كافر ہونے كا فتوى ديا

عمار كيطرف مسلسل تير اتے رہے ، انھوں نے بھى اپنے گھوڑے كو تازيانہ لگا كر اپنے كو لشكر سے علحدہ كر ليا ، حضرت على كے پاس اكر آپ نے عرض كيا ، اے امير المومنين _

كب تك صبر كيا جائے اور كہاں تك انتظار كيا جائے ؟

ميں نے تو يہى ديكھا كہ يہ گروہ آپ سے بالكل جنگ پر امادہ ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے ا خرى بار اتمام حجت فرمايا

حضرت علىعليه‌السلام نے جہاں تك ممكن ہوا صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمنوں پر مختلف طريقوں سے اتمام حجت فرماكر كوئي عذر اور بہانا نہيں چھوڑا _

۱۰۴

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے دشمن كے سرداران لشكر كو خط لكھا اور انھيں بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى سے ڈرايا _

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے عائشه اور ان كے سرداران لشكر كو پيغام بھيجوا يا اور صلح و صفائي كى دعوت دى _

۳_ حضرت علىعليه‌السلام بذات خود لشكر مخالف كے بزرگوں سے ملاقات كر كے انھيں موعظہ و نصيحت فرمائي_

۴_ حضرت علىعليه‌السلام نے دشمنوں كے سامنے قران پيش كر كے دعوت دى اور اس كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كو ايك جنگى پروگرام مرتب كر كے انھيں سمجھايا جس كے دفعات ميں محبت ، مہربانى ، اور صلح و صفائي تھى ، اس پروگرام ميں جن باتوں كو پيش كيا گيا تھا ان ميں انسانى ہمدردى كا عنصر زيادہ تھا اور اپنے بد ترين دشمنوں سے بھى نرمى كا برتائو كرنے كا حكم تھا _

۶_ اخر كار عمار ياسر كو جو حديث رسول(ص) كے مطابق ميزان حق و عدالت تھے حضرت علي(ع) نے انھيں لشكر عائشه كى طرف بھيجا كہ وہ انھيں حق كى دعوت ديں اس طرح دوبارہ آپ نے ان پر حجت تمام كى _

ان تمام مطالب كو گذشتہ فصلوں ميں معتبر تاريخى مدارك سے ثابت كيا گيا ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے اخرى بار اس طرح اتمام حجت فرمايا كہ جب لشكر عائشه نے حضرت على كے ساتھيوں پر تير بارانى كى تو آپ نے اپنى فوج كو صبر كى وصيت فرمائي اورا نھيں جنگ سے روكتے ہوئے فرمايا :

اللھم اشھد اعذروا الى القوم اے اللہ ، اے انصاف كرنے والے خدا تو گواہ رہنا _

اے ميرے ساتھيو صبر اور بردبارى كا مظاہرہ كرو اور چھوڑ دو كہ دشمن پر اس سے زيادہ حجت تمام ہو جائے اور ان كيلئے كوئي عذر اور بہانے كى گنجائشے نہ رہ جائے _

ہاں ، حضرت علىعليه‌السلام نے اس حد تك صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمن پر حجت تمام كى ليكن جتنى آپ كى صلح و صفائي كى كوشش بڑھتى گئي آپ كے دشمن جنگ و خونريزى پر اتنا ہى اصرار كرتے رہے ، اب حضرت على كا اخرى اتمام حجت بھى ملاحظہ فرمايئے ، اسے معتبر مورخين نے لكھا ہے _

حاكم نے اپنى كتاب مستدرك ميں بيان كيا كہ:

زبير نے عائشه كے لشكر والوں سے جو تير اندازى پر مامور تھے حكم ديا (ارموهم برشق ) تم سب ايك ساتھ ان لوگوں پر تير بارانى كرو حاكم اگے لكھتے ہيں كہ يہ جملہ در اصل اعلان جنگ تھا جو لشكر عائشه كے سردا ر كى طرف سے صادر ہوا تھا _

۱۰۵

ابن اعثم اور زيادہ تر مورخين نے لكھا ہے كہ :

جس طرح رسول خدا (ص) نے جنگ حنين ميں ايك مٹھى خاك ليكر دشمنوں كى جانب پھينكتے ہوئے فرمايا تھا شاھت الوجوہ ، ان كے چہرے سياہ ہو جائيں _

عائشه نے بھى اس عمل رسول (ص) سے سوء استفادہ كيا اور اسے مسلمانوں كے خلاف جنگ جمل ميں برتا ، ايك مٹھى خاك اٹھائي اور چلا كر كہا شاھت الوجوہ ، اور وہ خاك حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى طرف پھينك دى _

اس موقعہ پر حضرت على كے ايك فوجى نے عائشه كى سرزنش كرتے ہوئے كہا ،'' و ما رميت اذ رميت و لكن ا لشيطان رمى ''

اے عائشه تم نے يہ مٹى حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى جانب نہيں پھينكى بلكہ يہ شيطان كا ہاتھ تھا ،جس سے يہ نا پسند يدہ حركت ہوئي(۱۷)

يہ تمام اقدامات اصل ميں جنگ شروع كرنے كا فرمان تھا اس كے فوراً بعد عائشه كے فوجيوں كيطرف سے باقاعدہ جنگ شروع ہوگئي _

ابو مخنف اور دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ:

لشكر عائشه كى طرف سے تير اندازى شروع ہو گئي اور اتنى شدت سے على كى طرف پے در پے تير ارہے تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے فوجى صدائے فرياد بلند كرنے لگے _

اے امير المومنين ، دشمن نے ہمارے امان كو پارہ پارہ كر ديا ہمارے صبر كا دامن چاك كر ديا _

آپ بھى فرمان دفاع صادر فرمايئے

اس وقت ايك شخص كا جنازہ جو تيروں سے چھلنى تھا حضرت علىعليه‌السلام كے خيمے كے پاس لايا گيا ، اور كہا گيا كہ اے امير المومنين يہ فلاں شخص كا جنازہ ہے آپ كا وفادار ساتھى تھا ، اسے دشمن نے قتل كيا ہے ، امام نے اسمان كى طرف رخ كر كے دعا كى ، اے انصاف ور خدا تو گواہ رہنا اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے فرمايا ، صبر كرو ، تاكہ دشمن پر كچھ اور حجت تمام كى جائے _

ايك دوسرا جنازہ بھى لاكر كہا :

اے امير المومنين ، يہ بھى فلاں شخص ہے جو دشمن كى تيروں سے اپنے خون ميں نہا گيا ہے _

____________________

۱۷_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۱ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۵

۱۰۶

حضرت علىعليه‌السلام نے پھر اسمان كى طرف رخ كيا كہا اے خدا وند قہار تو ناظر اور ميرے حق كا گواہ ہے ، اور اس بار بھى جنگ كى اجازت نہيں دى ، اپنے ساتھيوں سے فرمايا :

تمھيں دشمن كى زيادتيوں كے مقابلے ميں اور بھى زيادہ صبر كا مظاہرہ كرنا چاہيئے ، جانے بھى دو تمھارى حقانيت اور حسن نيت جتنى زيادہ ثابت ہو گى ان لوگوں پر اتنى ہى حجت تمام ہو گى _

اسى درميان رسول (ص) كے صحابى عبداللہ ابن بديل خزاعى اپنے بھائي عبدالرحمن كى خون الودہ لاش لائے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے زمين پر ركھ كر كہا :

يا على يہ ميرا بھائي ہے جسے دشمنوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كيا _

حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف طريقوں سے دشمن پر اتمام حجت فرمايا تھا، اب يہاں اپنے كو مجبور پا رہے تھے آپ كيلئے جنگ كے سوا كوئي چارہ نہيں رہ گيا تھا ، آپ نے كلمہ ،''انا للہ و انا اليہ راجعون '' زبان پر جارى فرمايا اوررسول خد(ص) ا كى زرہ پہنى جس كا نام ذات الفضول تھا ، سر پر عمامہ ركھا اور رسو ل خدا (ص) كے خچر پر سوار ہوئے جس كا نام دلدل تھا ، پھر اپنى مشہور تلوار جس كا نام ذوالفقار تھا كمر ميں حمائل كى اور عقاب نام كے پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا ، امام حسن و حسين سے فرمايا :

ميرے بيٹو چونكہ تم لوگوں سے رسو ل خدا (ص) بہت زيادہ محبت فرماتے تھے اور تم انھيں سے منسوب ہو يہى وجہ ہے كہ ميں نے علم تمہارے حوالے نہيں كيا ، اور يہ علم تمہارے بھائي محمد كے حوالے كيا _

امام اس صورت سے امادہ جنگ ہوئے اور پھر آپ نے اپنے سپاہيوں كى سمت رخ كر كے يہ آیت تلاوت فرمائي

كيا تم لوگوں نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ يوںہى جنت كا داخلہ تمہيں مل جائيگا (حالانكہ ابھى تم پر وہ سب كچھ نہيں گذرا ہے جو تم سے پہلے ايمان لانے والوں پر گذر چكا ہے )ان پر سختياں گذريں ، مصيبتيں ائيں ، ہلا مارے گئے ، يہاں تك كہ اس وقت كا رسول اوراسكے ساتھى اہل ايمان چيخ اٹھے كہ اللہ كى مدد كب ائيگى ، اس وقت انھيں تسلى دى گئي كہ ہاں اللہ كى مدد اور كاميابى بہت جلد واقع ہو گى سورہ بقر آیت ۲۱۴

امير المومنين نے يہ آیت تلاوت فرماكر جنگ كا عزم كر ليا آپ جنگ كيلئے بڑھتے ہوئے يہ دعا كر رہے تھے

اے خدا ہم سب كو صبر و تحمل اور استقامت عطا كر ، اپنى تائيد اور كامرانى سے سرفراز فرما ، اور اگر حساس موقعہ پيش ائيں يا خطرناك حالات سامنے ائيں تو ہمارى مدد و نصرت فرما _

۱۰۷

حضرت علىعليه‌السلام كى زبير سے ملاقات

دونوں طرف كى فوجيں امنے سامنے امادہ جنگ تھيں اسى وقت حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر سے عائشه كے لشكر كى طرف حركت كى اور زبير كو اپنے پاس بلا كر كہا :

_ اے زبير تم نے كس مقصد سے اور كيا سونچكر اتنے بڑے لشكر كو اس سرزمين پر كھينچ بلايا ہے ؟

_چونكہ ميں نے تمھيں خلافت كے لائق نہيں سمجھا اس لئے اس فوج كے ساتھ ايا ہوں كہ تمھيں خلافت سے علحدہ كردو _

_اے زبير جو كچھ تم كہہ رہے ہو يہ صرف بہانہ ہے كيونكہ ميں عثمان سے كمتر نہيں ہوں ، كہ خلافت كے لائق نہ رہو ں_

اے زبير تم تو خاندان عبد المطلب كے اچھے لوگوں ميں سے اور ہمارے خاندان كى فرد سمجھے جاتے تھے ، ليكن جب سے تمھارا بيٹا عبداللہ بر سر كا ر ہوا تو ہمارے اور تمہارے درميان جدائي ڈال دى _

اے زبير مجھے تعجب ہے كہ تم خود قاتل عثمان ہو ليكن اس كا بدلہ مجھ سے چاہتے ہو _

خداوند عالم ہم دونوں ميں سے جس نے بھى عثمان سے زيادہ عداوت كا مظاہرہ كيا اسے دردناك عذاب ميں ڈالے ، اور سخت افت سے دو چار كرے _

يہاں تك كہاكہ اے زبير تمھيں ياد ہوگا كہ ايك دن ميں اور تم ايك ساتھ تھے رسو ل خدا(ص) بھى ہمارے ساتھ چل رہے تھے انھوں نے مجھ سے فرمايا ، اے على ، ايك دن ايسا ہوگا كہ يہ تمھارى پھوپھى كا بيٹا نا حق تم سے جنگ كريگا _

زبير كو فوراً حديث رسول ياد اگئي اور انھوںنے كہا :

اے على ، خدا كى قسم ميں آج كے بعد تم سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ، يہ كہا اور اپنے بيٹے عبداللہ كى طرف

۱۰۸

وآپس جا كر كہا :

اے عبداللہ ميں جس راہ جارہا ہوں اس سے بہت زيادہ فكر مند ہوں ، نتيجہ محل سے خوفزدہ ہوں ، ميں صاف صاف كہتا ہوں كہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كرنا ميرے نظريہ كے موافق نہيں ہے _

عبداللہ نے كہا : اے بابا ،آپ نے پہلے دن اس راہ ميںمضبوط ايمان اور عقيدے كے ساتھ قدم بڑھايا تھا ، آپ كے چہرے پر كسى قسم كا اضطراب نہيں محسوس كيا گيا ، ليكن آج آپ نے اپنا ارادہ بدل ديا ، آپ كو آپ كے دل ميں تشويش بھر گئي ،لازمى طور سے يہ كھلے ہوئے پرچم اور اٹھى ہوئي حضرت علىعليه‌السلام كى تلواروں نے رعب و وحشت ميں مبتلا كر ديا ہے اور دل ميں اضطراب بھر ديا ہے _

ہاں اے بابا ، حقيقت يہ ہے كہ آپ موت كو اپنى انكھوں سے ديكھ كر علحدہ ہو رہے ہيں ، ورنہ ہمارے مقصد كى تقديس ميں كوئي شك نہيں _

عبداللہ نے اسى طرح كى مہمل باتيں بآپ سے كہيں يہاں تك كہ بآپ نے غصہ ميں چلا كر كہا: تيرا جيسا بيٹا ہونا ميرے لئے افسو س ناك ہے جو بآپ كو ہلاكت اور بد بختى ميں جھونك رہا ہے ، اے بيٹا ، تم مجھے حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ پر ابھار رہے ہو ،حالانكہ ميں نے قسم كھائي ہے كہ ميں ان سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ميں اس قسم كا كيا كروں ؟

عبداللہ نے كہا: بابا يہ بہت اسان ہے ، آپ اپنى قسم توڑ ديجئے اور قسم توڑنے كے كفارے ميں اپنے غلام سرجس كو خدا كى راہ ميں ازاد كر ديجئے _

زبير نے اپنے فرزند كى ہدآیت كے مطابق غلام كو اپنا كفارہ قسم ميں ازاد كر كے دوبارہ صف لشكر ميں اكر امادہ جنگ ہو گئے _

ابن اعثم كوفى نے بھى حضرت علىعليه‌السلام اور زبير كى ملاقات كا واقعہ اس طرح لكھا ہے كہ :

حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے كہا :

زبير ، تم نے ميرى مخالفت كا علم كس لئے بلند كيا ہے ؟ خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے

۱۰۹

تم اور تمھارے دوست طلحہ نے عثمان كو قتل كيا ، ان كا خون تم دونوں كى گردن پر ہے اگر واقعى سچ كہہ رہے ہو تو اپنے كو عثمان كے بيٹوں كے حوالے كر دو تاكہ وہ بآپ كے انتقام ميں تم لوگوں كو قتل كرے يا ان سے بآپ كا خون بہا لے لے _

واقعہ كى تفصيل

طبرى نے اس واقع كو دوسرى جگہ زيادہ تفصيل سے لكھا ہے ، وہاں اضافہ كيا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام دونوں لشكر كے درميان اس طرح قريب ہوئے كہ گھوڑوں كى گردنيں ايك دوسرے كے امنے سامنے تھيں ، اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے ان دونوں سے كہا :

اے طلحہ و زبير تم لوگوں نے ايك بڑا لشكر جمع كر كے زبر دست طاقت فراہم كر لى ہے ، ہر طرح كى جنگى تيارى اور اسلحہ فراہم كر ليا ہے ، حالانكہ خدائے عادل كے سامنے تم لوگوں كے پاس كو ئي عذر اور حجت نہيں ہے ، لازمى طور سے اسى كى بارگاہ ميں لا جواب ہو خدا سے ڈرو ،اس كے غضب كا خوف كرو ، تم نے خدا كى راہ ميں اسلام اور كلمہ توحيد كى بلندى كيلئے مقدس جھاد كئے ہيں ان تمام بہترين خدمات كے مقابلے ميں يہ فتنہ و فساد اور داخلى اختلاف تم لوگوں نے پيدا كر ديا ہے ، اب مسلمانوں كو موت كے منھ ميں مت جھونكو ،ان تمام اجر اور ثواب كو اس گناہ كے بدلے ميں عذاب جہنم سے مت بدلو ، اس بوڑھيا كے مانند نہ ہو جائو كہ جس نے بڑى محنت سے مضبوط رسى بٹى پھر انھيں اتنى ہى كوشش سے دوبارہ پارہ پارہ كر ديا (ولا تكونا كا لتى نقضت غزلھا من بعد قوة انكاثا )_

اس كے بعد فرمايا: اے طلحہ و زبير كيا ہم تم بھائي بھائي نہيں تھے كہ ايك دوسرے پر ذرا بھى زيادتى كو جائز نہيں سمجھتے تھے ، آج كيا ہوا ہے كہ مجھ پر ايسى شورش پيدا كى ہے اور ميرا خون مباح ہونے كا اعلان كر ديا ہے _

طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى ان نصيحتوں كو سن كر كہا : اے على ، تمھارا جرم و گناہ يہ ہے كہ تم لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايا اور ان كا نا حق خون بہايا _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے جواب ميں يہ آیت تلاوت فرمائي ،يومئذ يوفيهم الله دينهم الحق ، قيامت كے دن ہر شخص كو حق كے خلاف اقدامات كى سزا دى جائيگى _

حضرت علىعليه‌السلام كامقصد يہ تھا كہ جس شخص نے بھى عثمان كا خون بھايا ہے اسے سزادى جائيگى وہ اپنے كئے كا بدلہ پائيگا، اسے نہيں جس پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے _

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے مزيد فرمايا :

اے طلحہ ميں بنيادى طور سے خون عثمان ميں شريك نہيں تھا تم مجھ سے اس خون كا مطالبہ كيسے كر رہے ہو

۱۱۰

خدا لعنت كرے اس شخص پر كہ جس كى گردن پر خون عثمان ہے _

اس كے بعد زبير سے فرمايا :

اے زبير تمھيں يا د ہے كہ ايك دن رسول (ص) خداميرے پاس سے گذرے انھوں نے جب ديكھا كہ تم مجھ سے انتہائي محبت كا برتائو كر رہے ہو اور ميں مسكرا رہا ہوں تو تم نے كہا كہ يا رسول(ص) اللہ فرزند ابو طالب اپنى خود نمائي سے باز نہيں ائے _

رسول خدا تمھارى بات سے غضبناك ہوئے اور سر زنش كرتے ہوئے فرمايا :

اے زبير ، جس طرح آج تم حضرت علىعليه‌السلام پر ناحق اعتراض كر رہے ہو ، خدا كى قسم وہ دن بھى ائيگا كہ نا حق ان سے جنگ كروگے _

اس موقعہ پر حديث رسول (ص) ياد ائي اور ندامت سے سر جھكا كر كہا كہ اگر يہ حديث مجھے ياد ہوتى تو ہرگز تم سے جنگ كا اقدام نہ كرتا ، اب جبكہ ميں جنگ كے ارادے سے گھر سے باہر نكل چكا ہوں ، ميں اپنے اس ارادے سے باز اتا ہوں ، خدا كى قسم اب ميں تم سے جنگ نہيں كرونگا _

طبرى كا بيان ہے كہ:

اس گفتگو كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر ميں وآپس اگئے ، آپ نے اپنے سپاہيوں سے فرمايا ، زبير نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہم سے جنگ نہ كريں گے _

زبير بھى عائشه كے پاس گئے اور كہا ، اے عائشه ، ميں نے جس دن سے ہوش سنبھالا ہے كبھى ايسا اقدام نہيں كيا كہ جس كے نتيجے كے بارے ميں ميں نے غور نہ كر ليا ہو ، سوائے اس جنگ كے جس كا نتيجہ ميرے اوپر مبہم تھا ، ميں اس كے انجام سے بہت خوفزدہ ہوں _

عائشه نے كہا : اے زبير اپنى پورى بات كہو اور جو كچھ ارادہ كيا ہے صاف صاف بيان كرو

_ميں چاہتا ہوں كہ اس لشكر سے علحدہ ہو جائوں اور اپنے گھر وآپس جائوں

زبير كا بيٹا وہاں موجود تھا ، اس نے اپنے بآپ كى سخت ملامت كرتے ہوئے كہا :

بابا اب جبكہ دونوں لشكر كو ايك دوسرے كے امنے سامنے كھڑا كر ديا ہے ، اور كسى وقت بھى جنگ شروع ہونے كا

۱۱۱

احتمال ہے ايسے حساس اور خطرناك موقعہ پر انہيں اپنے حال پر چھوڑ رہے ہو فرار كو ثبات پر ترجيح دے رہے ہو ؟

اے بابا حتمى طور سے على كى تلوار اور فوج دشمن كے بہادر شہسواروں كے ہاتھ ميں پرچم ديكھ كر ايسا خوف و ہراس تمھارے دل ميں پيدا ہو گيا ہے اور اب تم نے لشكر سے كنارہ كشى كا ارادہ كر ليا ہے _

زبير نے جواب ديا ، اے عبد اللہ ، خدا كى قسم ، كہ خوف اور وحشت كى بات نہيں ہے ليكن ميں نے قسم كھا لى ہے كہ على سے جنگ نہيں كروں گا _

عبد اللہ نے جواب ميں پيشكش كي

اے بابا ، اس كى تدبير اسان ہے كہ آپ قسم توڑ ديجئے اور اس كا كفارہ ادا كر كے جنگ شروع كر ديجئے

زبير نے بيٹے كى بات مان لى اور قسم توڑ كر كفار ے ميں اپنے غلام مكحول كو ازاد كر ديا اور دوبارہ صف لشكر ميں شامل ہوگئے

عبدالرحمن ابن سليمان تميمى نے اس واقعے كو نظم كيا ہے

لم اركا ليوم اخا الا خوان

اعجب من مكفر الايمان

بالعتق فى معصية الرحمن

يعتق مكحولا يصون دينه

كفارة للّه عن يمينه

والنكث قد لا ح على جبينه

ميں نے سارى عمر ميں ايسا دن كبھى نہيں ديكھا اس شخص نے مجھے حيرت ميں ڈالا ہے ، اس شخص نے اپنى قسم توڑى اور اپنا غلام كفارے كے طور پر ازاد كيا ، تاكہ قسم توڑنے كا گناہ اس كے دامن سے پاك ہو جائے ، ليكن اپنے اس عمل سے كہيں زيادہ بد تر گناہ كا مرتكب ہوا _

ايك دوسرے شاعر نے جو زبير كا فوجى تھا اس سلسلے ميں كچھ اشعار كہے ہيں

زبير نے اپنے غلام مكحول كو كفارئہ قسم كے طور پر ازاد كيا تاكہ وہ دينى لحاظ سے عہد شكن نہ كہا جائے ليكن اس كا كيا فائدہ ؟ كيونكہ اس كفارے كو ادا كرنے كے بعد اس پر عہد شكن كا داغ اور بھى زيادہ نماياں ہو گيا _

۱۱۲

زبير كى سر گذشت

مسعودى كا بيان ہے:

جس وقت دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے ،حضرت علىعليه‌السلام نے جنگى ہتھيار زمين پر ركھے ، پھر رسول خدا (ص) كے مخصوص خچر استر پر سوار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف چلے ، وہاں آپ نے زبير كو بلايا زبير جنگى ہتھيار بدن پر سجائے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے ائے جب يہ خبر عائشه كے كان ميں پڑى تو اپنى بہن كے شوہر اور سپہ سالار لشكر زبير كے بارے ميں خوفزدہ ہو كر بے اختيار صدائے فرياد بلند كى (واحر باه باسماء )ہائے ميرى بہن اسماء بيوہ ہوگئي _

لوگوں نے كہا : اے عائشه غم نہ كرو ، كيونكہ على كے بدن پر ہتھيار نہيں ، وہ زبير سے جنگ كرنے يہاں نہيں ائے ہيں ، عائشه نے سنكر ذرا سكون كى سانس لى _

جس وقت زبير حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے پہونچے تو باہم بغلگير ہوگئے ، دونوں نے ايك دوسرے كے اغوش ميںبھينچ ليا اور والہانہ بوسے لينے لگے _

پھر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: اے زبير تم پر افسوس ہے ، اخر كس غرض سے اس خطرناك لشكر كے ساتھ اس سر زمين پر ائے ہو ؟ اور اخر كيا وجہ ہوئي كہ ميرے خلاف علم بغاوت بلند كر ديا ہے ؟

زبير نے كہا: خون عثمان كا بدلہ لينے كيلئے ميں نے اس جنگ اور لشكر كشى كى تيارى كى ہے

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: خدا اسكو قتل كرے جس كا حصہ قتل عثمان ميں زيادہ ہے ، اے زبير كيا تمھيں ياد ہے ايك دن رسول خد(ص) ا نے تم سے كہا تھا اے زبير ايك دن تم نا حق على سے جنگ كروگے _

زبير نے كہا: استغفراللہ اے خدا ميں اپنے اس عمل پر شرمندہ ہوں ، اب اپنے كئے پر توبہ كرتا ہوں ، خدايا ميرى تقصير معاف فرما ، پھر حضرت على كى طرف رخ كر كے كہا :

خدا وند عالم ميرے دلى راز سے اگاہ ہے ، اور ميرى صداقت بيانى پر گواہ ، كہ اگر يہ حديث رسول(ص) ياد ہوتى تو كبھى اس منحوس بغاوت پر امادہ نہ ہوتا ، نہ اپنے گھر سے جنگ كے لئے نكلتا _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے زبير دير نہيں ہوئي ہے ، اب بھى تم جنگ سے دستبردار ہوسكتے ہو اور ابھى سے اپنے گھر وآپس جا سكتے ہو _

زبير نے كہا: ليكن اب ميںيہ كيسے كر سكتا ہوں كيسے اس بڑے ننگ و عار پر امادہ ہو جائوں ، اب تو دونوں لشكر امنے سامنے جنگ پر تيار ہيں ، اب تو فرار كا راستہ بھى بند ديكھ رہا ہوں _

۱۱۳

حضرت علىعليه‌السلام فرمايا: اے زبير اگر آج تم نے ننگ وعار كو قبول كر ليا تو اس سے كہيں بہتر ہے كہ كل بھى تمھيں ننگ وعار كا سامنا كرنا پڑے گا ، كل قيامت ميں عار بھى ہے اور اتش جہنم بھى _

اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كى باتوں سے زبير بہت زيادہ متاثر ہوئے ، حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ پر سخت نادم و پشيمان ہو كر ارادہ جنگ سے باز ائے ، انھوں نے اس سلسلے ميں كچھ اشعار بھى كہے

_ميں اپنے لئے عار و ننگ كو قبول كر رہا ہو ں تاكہ ذليل كرنے والى اتش جہنم سے نجات پا سكوں

_ميرا كمزور جسم اتش جہنم كى تاب كيسے لاسكے گا ؟ على نے ايسى بات ياد دلا دى جسے ميں خود جانتا تھا ليكن بھول گيا تھا

_ہاں على سے جنگ دين و دنيا دونوں كو تباہ كر نے والى ہے ، اور ننگ و عار سمجھے جانے والى اسى وجہ سے ميں نے على سے كہا :

اے ابو الحسن اب اس سے زيادہ ملامت نہ كرو

آپ نے اتنا ہى جو كچھ بيان كيا ہے يہى ميرى اگاہى كيلئے كافى ہے _

اخترت عاراً على نار مو ججة

ما ان يقوم لها خلق من الطين

نادى على بامر لست اجهله

عار لعمرك فى الدنيا و فى الدين

فقلت حسبك من عذل ابا حسن

بعض الذى قلت منذ اليوم يكفيني

ترجمه: _ ميں اپنے لئے عاروننگ کوقبول کرر باہوں تا که ذليل کرنے والى آتش جہنم سے نجات پاسکوں

ميرا گزورجسم آتش جہنم کى تاب کيسے لا سکے گا ؟ علي نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں خود جا نتاتها ليکن بهول گياتها.

بال على سے جنگ دين و دنيا دونون کوتباه کرنے والى ہے ، اورنگ و عارسمجهے جانے والى اسى وجه سے ميں نے على سے کہا :

اے ابوالحسن ! اب اس سے زياده ملامت نه کرو.

آپ نے اتناهى جوکچھ بيان کيا هے يہى ميرى آگاہى کيلئے کافى ہے -

مسعودى نے اگے لكھا ہے :

جب عبد اللہ بن زبير كو بآپ كے ارادے كى اطلاع ہوئي تو اس نے كہا :

اے بابا اس حساس موقع پر مجھے كيسے چھوڑ رہے ہيں ، اور خود فرار كر رہے ہيں

۱۱۴

زبير نے كہا : اے بيٹا على نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں بھول چكا تھا ، اس وجہ سے اب ميں جنگ اگے نہيں بڑھا سكوں گا _

عبد اللہ نے كہا : اے بابا ،نہيں ، جو كچھ آپ كہہ رہے ہيں يہ صرف بہانہ ہے ، بلكہ آپ تيز تلواروں سے ڈر گئے ہيں _

فوج دشمن كے بلند نيزے ، ان كے بہادر اور جنگجو جوان ان سب كو ديكھ كر آپ خوف اور وحشت ميں مبتلا ہو گئے ہيں ، اسى وجہ سے آپ جنگ سے منھ پھرا رہے ہيں

زبير نے كہا ، خدا تيرے جيسے بيٹے كو ذليل و خوار كرے تو بآپ كى بد بختى و ہلاكت كا باعث بن رہا ہے ، بآپ كى ذلت كيلئے كو شاں ہے(۱)

اس جواب كو ابن اعثم نے نقل كيا ہے ، ليكن مسعودى كے بيان كے مطابق زبير نے عبداللہ كو جواب ديا _ عبداللہ نہيں ، ايسا نہيں جيسا تو سمجھ رہا ہے ، ہرگز ايسا نہيں كہ جنگ كا خوف مجھے باز ركھے ، بلكہ آج مجھے وہ بات ياد اگئي جسے عرصے سے بھولا ہوا تھا ، اس واقعے نے مجھے حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ نہ كرنے كى ياد دہانى كرا دى ، اسى لئے ميں نے جنگ نہ كرنے كا عار جہنم كى اگ كے مقابلے ميں قبول كيا ، اور اپنے كو جنگ سے علحدہ كر ليا _

ليكن ميرے بيٹے اب جبكہ تم مجھے بزدل اور ڈر پوك كہہ رہے ہو تو اس دھبے كو بھى دامن سے دھو ڈالو ں گا ، يہ كہہ كر نيزہ ہاتھ ميں سنبھالا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر پر شديد حملہ كيا ، جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زبير كو غضبناك حالت ميں چوكڑى بھرتے ديكھا تو اپنے لشكر كو حكم ديا ، انھيں مہلت دو ، كوئي تكليف نہ پہو نچائو كيونكہ انھيں بھڑكايا گيا ہے ، وہ اپنا فطرى توازن كھو چكے ہيں _ زبير نے دوسرى بار لشكر على كے ميسرہ پر حملہ كيا ، اسكے بعد قلب لشكر پر سخت حملہ كرنے كيلئے بڑھے _ اسكے بعد زور سے چلّائے كيا جو ڈر پوك ہو گا وہ ايسى شجاعت كا مظاہرہ كر سكتا ہے اور اس طرح بے باكانہ طريقے سے سپاہ دشمن پر حملہ كر سكتا ہے ؟ پھر وہ لشكر سے علحدہ ہو كر صحرا كى طرف چلے گئے جس صحرا كا نام وادى السباع تھا _ احنف بن قيس تميمي،اس جنگ جمل سے جانبدارى كا اعلان كر كے بصرہ كو چھوڑ كر اسى وادى ميں اقامت گزيں رہا ، ايك شخص نے اس سے كہا ، اے احنف يہى زبير ہے ، احنف نے كہا ، مجھے زبير سے كيا

____________________

۱_ تاريخ اعثم ، مسعودى ، شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۷۰

۱۱۵

سروكار ؟اس نے مسلمانوں كے دو گروہ ميںجنگ و خونريزى كى حالت پيدا كر دى ہے ، اور اب اپنے كو سلامتى كى غرض سے وہاں سے علحدہ كر كے گھر جارہا ہے ، اسے چھوڑ بھى دو كہ چلا جائے _

زبير وہيں گھوڑے سے اترے اور نماز پڑھنے لگے ، اسى وقت ايك شخص جس كا نام عمر و بن جرموز تھا(۲) ،

اس نے پيچھے سے تلوار چلائي اور انھيں قتل كركے لشكر عائشه كے سپہ سالار كى زندگى كا خاتمہ كر ديا ، زبير كے بعد لشكر عائشه كى حكمرانى طلحہ كے ہاتھ ميں اگئي(۳) _

طلحہ كى سر گذشت

ابن عساكر كا بيان ہے :

جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ كو اپنے پاس بلا كر پوچھا اے طلحہ تجھے خدا كى قسم ہے كيا تو نے رسول خدا (ص) كا يہ ارشاد نہيں سنا كہ من كنت مولاہ فھذا على مولاہ، جس كا ميں مولا ہوں اسكے يہ على مولا ہيں ، خدا يا جو اسے دوست ركھے تو بھى اسے دوست ركھ اور جو اسے دشمن ركھے تو بھى دشمن ركھ

____________________

۲_ مسعودى اور ابو مخنف لكھتے ہيں كہ جب عمر و بن جرموز نے زبير كو قتل كيا تو انعام كى لالچ ميں تلوار لئے حضرت على كے پاس ايا ، امام نے واقعہ سے مطلع ہو كر فرمايا ، بخدا صفيہ كا بيٹا ڈر پوك نہيں تھا ، ليكن آج اسكى ايك غفلت و لغزش نے اسے ہلاك كر ديا ، پھر زبير كى تلوار ہاتھ ميں ليكر حركت دى اور فرمايا ، ہائے اس تلوار نے رسول كے دل سے كيسے كيسے غم دور كئے حريم رسالت كا كيا كيا دفاع كيا ابن جرموز نے كہا ، ميں نے آپ كے سخت دشمن كو قتل كيا ہے انعام ديجئے ، آپ نے فرمايا ، اے ابن جرموز ميں نے رسول خدا سے سنا ہے كہ قاتل زبير جہنمى ہے ، مايوس ہو كر ابن جرموز يہ اشعار پڑھتا چلا گيا ميں زبير كا سر تن سے جدا كر كے على كى خدمت ميں ايا تاكہ انكى خوشنودى حاصل كروں ليكن توقع كے خلاف على نے مجھے جہنمى بنا ديا ، ہائے ، كسقدر خطرناك انعام مجھے ديا ، حالانكہ قتل زبير ميرے نزديك بكرى كے رياح كى طرح تھا ،

۳_ زبير كے حالات كيلئے طبرى ، اغانى ، ابو مخنف بحوالہ شرح نہج البلاغہ ، تاريخ اعثم ، اصابہ ، مروج الذھب ، تاريخ بن كثير ، عقد الفريد ، مستدرك ، كنزل العمال ، النبلاء ذھبى اور يعقوبى سے استفادہ كيا گيا ہے

۱۱۶

طلحہ نے كہا : ہاں ميں نے بھى سنا ہے اور مجھے اچھى طرح ياد ہے _

حضرت على نے فرمايا: تعجب ہے ، اسكے باوجود تو مجھ سے جنگ كر رہا ہے ؟

اس بارے ميں طبرى يوں لكھتا ہے :

جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ سے ملاقات كى اور اس سے كہا :

تو وہ شخص ہے جس نے اپنى زوجہ كو گھر ميں بيٹھا ركھا ہے اور زوجہ رسول (ص) كو ميدان جنگ ميں گھسيٹ لايا ہے ، ميرى بيعت بھى توڑ دى ہے _

طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے ان تمام اعتراضات كے جواب ميں صرف ايك بات پر اكتفا كى _

يا على ميں نے آپ كى بيعت اپنے اختيار سے نہيں كى تھى بلكہ طاقت اور تلوار نے مجھے بيعت پر مجبور كيا تھا _

ابن عساكر اور ذہبى لكھتے ہيں كہ :

ابو رجا كا بيان ہے : ميں نے طلحہ كو ديكھا كہ گھوڑے پر سوار ہو كر سپاہيوں كے درميان چلّا رہا تھا _

اے لوگو خاموش رہو اے لوگو ميرى بات سنو ، طلحہ جتنا بھى چلّا رہا تھا ، اتنا ہى ہائو ہو اور ھنگامہ بڑھتا جا رہا تھا ، كوئي اسكى بات سننے پر امادہ نہ تھا ، طلحہ نے لوگوں كى بے اعتنائي پر غصے ميں كہا ، تف ہے ان بھيڑيا صفت لوگوں پر جو اتش جہنم كے پروانے ہيں _

تاريخ بن اعثم ميں ہے كہ :

طلحہ نے اپنے لشكر والوں سے چلا كر كہا ، يا عباد اللہ اصبرو، اے بند گان خدا صبر كرو، صبر و استقامت كا مظاہرہ كرو كيو نكہ صبر و ظفر دونوں قديم زمانے سے ايك دوسرے كے دوست ہيں ، استقامت اور كامرانى ہميشہ ايك دوسرے كے ساتھى رہى ، فتح اسى كو حاصل ہوتى ہے جس كے پاس صبر و استقامت ہو ، جو لوگ سختيوں اور مصيبتوں ميں صبر كرتے ہيں وہى بہترين اجر سے سرفراز ہوتے ہيں _

ابو مخنف لكھتا ہے كہ: جندب بن عبداللہ كا بيان ہے كہ ميں نے جنگ جمل ميں طلحہ اور اسكے ساتھيوں كو حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كرتے ہوئے ديكھا ، ان كے جسم پر بہت زيادہ زخم تھے ، وہ لوگ بھاگنے پر امادہ تھے ايك ايك كر كے طلحہ كے سپاہى فرار كرنے لگے ، پيچھے ہٹنے لگے ، طلحہ كو سب سے زيادہ زخم ائے تھے ، تلوار ہاتھ ميں لئے چلّا رہا تھا _

اے بند گان خدا ، استقامت دكھائو ، صبر و شكيب كا مظاہرہ كرو كاميابى صبر سے وابستہ ہے ، اجر و ثواب استقامت ميں ہے _

۱۱۷

طلحہ كيسے قتل ہوئے ؟

يعقوبى ، ابن عساكر، ابن عبد ربہ ، ابن عبد اللہ استيعاب ميں اور ابن اثير كامل ميں اور ابن حجر عسقلانى اس طرح لكھتے ہيں كہ ، جب حضرت على اور طلحہ كا لشكر مشغول كار زار تھے لشكر عائشه كا ايك سردار مروان بولا _

ميں اگر آج موقع سے فائدہ اٹھا كر ، قاتل عثمان سے انتقام نہ لوں تو كب يہ موقع حاصل كر سكوں گا ؟

يہ كہہ كر اس نے ايك تير اپنے سپہ سالار طلحہ كى طرف چلايا جو ٹھيك طلحہ كے زانو پر لگا اور پير كى رگ ميں پيوست ہو گيا ، اور فوارے كى طرح خون بہنے لگا ، اور اسطرح مروان كے ہاتھوں طلحہ كى ہنگاموں سے بھر پور زندگى كا خاتمہ ہو گيا _

طبقات بن سعد ميں ہے :

طلحہ خود بھى يہ خاص بات (نكتہ)سمجھ گئے تھے كہ وہ كارى اور قاتل زخم خود انھيں كے ساتھيوں كى طرف سے ايا تھا ، زندگى كے اخرى لمحوں ميں كہنے لگے

خدا كى قسم جو تير ميرے پائوں ميں پيوست ہوا وہ لشكر على كى طرف سے نہيں ايا تھا _

مسعودى قتل طلحہ كے سلسلے ميں لكھتا ہے :

مروان نے اثنائے جنگ ميں طلحہ كو اپنے سے غافل ديكھا تو اسے انتقام عثمان كا خيال ايا ، وہ بولا كہ خدا كى قسم ميرے لئے كوئي فرق نہيں كہ ميں لشكر على كى طرف تير اندازى كروں يا طلحہ كے سپاہيوں كى طرف _

يہ كہہ كر اس نے اپنے ساتھى طلحہ كى طرف تير چلايا جس سے طلحہ كے بازو كى رگ كٹ گئي ، اس سے خون كا فوارہ بہنے لگا ، اسى زخم كى وجہ سے طلحہ كى جان گئي _

ابن سعد نے بھى اس واقعہ كى يوں تشريح كى ہے _

مروان كى انكھ نے جنگجو سواروں كے درميان ديكھا كہ طلحہ كى زرہ ميں شگاف ہے ، اس سے اسى كو نشانہ بنا كر تير چلاديا ، اس تيرنے اپنا كام كيا اور وہ قتل ہو گئے _

بعض مورخين نے لكھا ہے :

مروان نے طلحہ كو درميان لشكر انتہائي حساس حالت ميں ديكھ كر كہا خدا كى قسم ، يہ شخص عثمان كا بد ترين دشمن اور قاتل تھا ، ميں تو عثمان كے خون كا بدلہ لے رہا ہوں ، كيا اچھا ہو كہ اصلى قاتل كو قتل كر دوں اور جن لوگوں

۱۱۸

پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے انھيں نظر انداز كر دوں ، يہ كہكر تير كمان ميں جوڑكر طلحہ كى طرف چلايا اور اسے قتل كرديا _

مستدرك حاكم ، تاريخ بن عساكر اور اسد الغابہ ميں ہے

جس وقت مروان نے طلحہ كو قتل كيا ، اس نے عثمان كے فرزند ابان كى طرف رخ كر كے كہا :

اے ابان تمہارے بآپ كے ايك قاتل كو كيفر دار تك پہونچا كر تمھارا دل ٹھنڈا كر ديا _

ابن اعثم نے قتل طلحہ كى داستان ذرا تفصيل سے بيان كى ہے ، جنگ كے درميان مروان نے اپنے غلام سے كہا ، مجھے بڑى حيرت ہے كہ يہ طلحہ ايك دن بد ترين دشمن عثمان تھا ، لوگوں كو ان كے قتل پر ابھارتا تھا ، ان كا خون بہانے ميں كوشاں تھا ، يہاں تك كہ انھيں قتل كر ڈالا اور آج انكى طرفدارى اور انتقام كيلئے كھڑا ہے ، ان كے دوستوں اور فرزندوں كے ساتھ ہے _

پھر كہا : ميں اس متلون اور منافق كو قتل كرنا چاہتا ہوں تاكہ مسلمان اس كى شرارت سے نجات پائيں ، ان بيچارے لوگوں كے سر سے اس كا منحوس سايہ كم ہو _

اے غلام ، تو ميرے سامنے اكر مجھے اپنى اڑ ميں لے لے اگر تو نے اچھى طرح يہ كام نبھايا تو تيرا بہت شكر گذار ہوں گا ، اور اس كے بدلے تجھے ازاد كر دوں گا _

مروان كے غلام كو اپنى ازادى سب سے زيادہ پيارى تھى ، اس نے اپنے كو مروان اور طلحہ كى اوٹ ميں كر ليا ، اسى وقت مروان نے ايك زہر ميں بجھائے ہوئے تير كو كمان ميں جوڑ كر طلحہ كا نشانہ بنايا اور انكى ران زخمى كر دى _

مورخين كا بيان ہے كہ: جب طلحہ نے اس زخم سے اپنى كمزورى بڑھتى ديكھى تو اپنے غلام سے كہا ، كم سے كم مجھے ايك درخت كے سائے ميں ليكر چل تاكہ سورج كى تيز گرمى سے نجات ملے ، غلام نے كہا ، اے امير ، اس بيا بان ميں دور دور تك كہيں سايہ نہيں ، ميں آپ كو كہاں اٹھا كر ليجائوں ، اس وقت طلحہ نے بجھى بجھى حالت ميں حسرت سے كہا ، سبحان اللہ ، قبيلہ قريش ميں مجھ سے زيادہ بيچارہ كوئي نہ ہو گا ، ہائے ميرا خون رائگاں گيا ، اور ميرا قاتل لا معلوم ہے ، اے خدا ،يہ منحوس اور سوزش سے بھر پورتير كدھر سے ايا تھا ؟اس نے تو ميرى دنيا اندھير اور زندگى تباہ كر دى ، يہ تير دشمن كى طرف سے نہيں ايا تھا ، كيا كروں كہ ميرى تقدير ميں يہى لكھا تھا

۱۱۹

مدائنى كا بيان ہے :جب مروان كا تيرطلحہ كے پير ميں لگا تو اس نے اپنے كو ميدان سے علحدہ كر ليا ، اور ايك مناسب اور محفوظ جگہ پر اپنے كو ڈال ديا كہ وہاں ارام كر سكے ، وہاں وہ كسى على كے سپاہى كو ديكھتا تو اس سے امان طلب كرتا ، بڑى عاجزى سے كہتا ، ميں طلحہ ہوں ، ميں تمہارى امان ميں ہوں ، كيا تم ميں كوئي جو اں مرد ہے جو مجھے امان دے ، مجھے قتل سے نجات بخشے _

حسن بصرى كو جب طلحہ كے امان طلب كرنے كى بات ياد اتى تو كہتے انھيں امان كى ضرورت نہيں تھى كيونكہ وہ پہلے ہى دن سے ايك عمومى امان ميں تھے حضرت على نے اپنے سپاہيوں سے قبل جنگ ہى عام اعلان كر ديا تھا كہ زخميوں كو قتل نہ كيا جائے _

مورخين كا بيان ہے:

كہ طلحہ اپنے ساتھى مروان كے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان كا جسد ميدان بصرہ كے مقام سبخہ ميں دفن ہوا _

ابن عبدربہ ، ابن عبدالبر اور ذھبى كا بيان ہے ، لشكر عائشه ميں سب سے پہلے طلحہ قتل ہوئے ، طلحہ ہى زبير كى كنارہ گيرى كے بعد لشكر كے سپہ سالار تھے _

جى ہاں ، لشكر عائشه كے دوسرے سپہ سالار اسطرح قتل ہوئے ، ليكن اس سپہ سالار كے قتل كے بعد بھى فوج عائشه ميں ذرا ہراس نہ تھا كيونكہ اس فوج كا پرچم وہ اونٹ تھا جس پر عائشه كا ہودج ركھا ہوا تھا ، لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، قتل طلحہ كے بعد لشكر كى توجہ زيادہ مركوز ہو گئي ، اور جنگ ميں شدت بھى اگئي(۴) _

اخرى جنگ شروع ہوئي

جنگ جمل چند چھوٹى بڑى جھڑپوں سے تشكيل پائي ہے

۱_ لشكر عائشه بصرہ ميں وارد ہوا تو اس كے اور گورنربصرہ كے درميان جنگ ہوئي ، اس جنگ ميں گورنر

____________________

۴_ طبرى ج۵ ص۲۰۴ ، يعقوبى ج۲ ص ۱۵۸ ، تاريخ بن اعثم ، تھذيب ، تاريخ بن عساكر ، استيعاب ، اصابہ ج۲ ص۲۲۲ ، عقد الفريد ج۴ ص۳۲۱، مدائنى بحوالہ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص۴۲۱

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198