تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 20%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79035 / ڈاؤنلوڈ: 5340
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _

۲_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _

۳_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _

۴_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _

اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا(۵) جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ صورتحال ديكھى تو آپ نے بھى عمامہ مشكى(۶) كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، آپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں

____________________

۵_ تاريخ بن اعثم ص۱۷۶ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج۲ ص۸۱ ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عا ئشہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں

۶_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے

۱۲۱

عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _

اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _

عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _

عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے(۷)

كہانى كعب بن سور كى عائشه كے اولين لجام بردار

(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )

جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _

يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا(۱) ،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

____________________

۷_ انت الذى قد غرك منى الحسنا

يا عيش ان القوم قوم اعدا

والخفض خير من قتال الابنا

۱۲۲

كعب بن سور كون ہے ؟

كعب بن سور(۸) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے

جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ آپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمآیت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمآیت پر امادہ ہو گئے_

____________________

۸_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت آپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ آپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے

۱۲۳

ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _

ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمآیت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :

اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمآیت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمآیت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير وآپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمآیت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _

انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمآیت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمآیت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ آپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد آپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر آپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _

طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _

مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار

۱۲۴

بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب

على فتية من خيار العرب

و مالهم غير حين النفو

س اى امير قريش غلب(۹)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے

ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _

على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟

ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں

جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _

ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _

اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول

والموت عند الجمل المجلل

____________________

۹_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج۵ ص۲۱۹ ، استيعاب ص۲۲۱ ، اسد الغابہ ج۳ ص۲۴۲ _ اصابہ ج۳ ص۲۹۷ ، نہج البلاغہ ج۲ ص۸۱ ، طبقات بن سعد ج۷ ص۹۴ ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص۱۵۶ ، كامل بن اثير ج۳ ص۲۴۲

۱۲۵

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _

عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں

قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_

جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(۱۰) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ

____________________

۱۰_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا بآپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ آپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين وآپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:۱۰/۲۰۳_۲۰۵، شرح نہج البلاغہ :۳/۱۲۰_ ۱۲۱

۱۲۶

موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں

خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :

عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _

عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _

قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _

اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا آپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ آپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم آپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، آپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں

(يا امنا يا خير ام نعلم اما ترين كم شجاعاً يكلم و تختلى ها مته و المعصم )

اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي آپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،

اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى(۱۱)

____________________

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۲۱۱ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۹۸

۱۲۷

ايك عجيب داستان

مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :

راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _

اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _

ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _

ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمآیت كى ضرورت نہيں رہى _

ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا

فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امه

و شيعتها مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة

و هل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _

۱۲۸

اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟

ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :

مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _

ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟

اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى(۱۲)

طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _

بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا(۱۳)

رجز خوانياں

ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمآیت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند

____________________

۱۲_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج۵ ص ۱۹۹ ، كامل بن اثير ج۳ ص ۱۰۰

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۲۱۳

۱۲۹

نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _

اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ آپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _

اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے آپ كو اكيلا كر سكتا ہے _

اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر آپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_

قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _

اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمآیت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و

۱۳۰

ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے(۱۴)

يا امنا يكفيك منا دنوه ---لن يوخذ الدهر الخطام عنوه

و حولك اليوم رجال شنوه ---وحى همدان رجال الهبوه

والما لكيون القليلوا الكبوة ---والازد حى ليس فيهم نبوه

يا معشر الازد عليكم امكم ---فانها صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم ---فاحضروها جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم ---ان العدو ان علا كم زمكم(۱۴)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _

اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر علىعليه‌السلام تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر علىعليه‌السلام تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور علىعليه‌السلام سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _

طبرى كا بيان:

جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس

____________________

۱۴_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۲_۲۵۶

۱۳۱

اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _

ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _

دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه آپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ آپ كے توانا اور شجاع بيٹے آپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول آپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، آپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں(۱۵)

۴_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _

اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _

يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _

اگر آج علىعليه‌السلام ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں(۲) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _

____________________

۱_ نحن بنو ضنبة لا نفر ---حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر ---كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى ---يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى

۲_ يا ام يا ام خلاعنى الوطن ---لاابتغى القبرولا ابغى الكفن

من ها هنا محشر عوف ابن قطن ---ان فاتنا اليوم على فالغبن

او فاتنا ابناه حسين و حسن ---اذا ام بطول هم و حزن

۱۵_ شرح نهج البلاغه ج۱, ص, ۲۶۱,۲۶۲ تاريخ ابن اعشم

۱۳۲

۵_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت علىعليه‌السلام كو للكارتے ہوئے بولا _

اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں(۱) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا(۱۶)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ

طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:

جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميں نے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟

ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _

چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_

____________________

۱_ ابا تراب ادن منى فترا ---و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا

۱۶_شرح نهج البلغه ج۱, ۲۶۱,و فتوح ابن اعشم

۱۳۳

عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر

عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_

مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_

داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _

ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_

اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _

صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا(۱۷)

____________________

۱۷_ عبد الله كے بآپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا

۱۳۴

طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے بآپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_

ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _

ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہونآپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _

۱۳۵

طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _

جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _

ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _(۱۸)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے(۱۹)

ابو مخنف كابيان ہے :

حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى

____________________

۱۸_ طبرى ۵ _ ۲۱۰ _ ۲۱۱ _ ;۴ ;۲ شرح نہج البلا غہ ۸۷۱ شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير ۳_۹۹ عقدالفريد ۴_ ۳۲۶ لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۲۰۷

۱۳۶

سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي(۲۰)

مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ

لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_

ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت علىعليه‌السلام كى اواز بلند ہوئي _ آپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرماياويلكم اعقرواالجمل فانه شيطان _

تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _

تم پر افسوس ہے _ ان كآپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ [

____________________

۲۰_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۸۸

۱۳۷

منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _

تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمآیت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _ اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ آپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _ اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار

جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت(۲۱) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو(۲۲)

____________________

۲۱_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں

۲۲_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد ۱ _ ۸۷

۱۳۸

جنگ كا خاتمہ

لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :

جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھنآپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا(۲۳)

اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :

صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _

ابو مخنف كہتا ہے : جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو آپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے(۲۴)

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:

ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق آپ كے ايك جرى سپاہى نے صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _ اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو آپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود آپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير

____________________

۲۳_طبرى ج۵ ص ۲۱۸

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱

۱۳۹

يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى نعرہ لگايا _

اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ آپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ آیت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :

اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر آپ نے اس آیت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _

ونظر الى الهك (۲۵)

ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _

جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے(۲۶)

عائشه سے كچھ باتيں

عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟

____________________

۲۵_ سورئہ طہ آیت ۹۰

۲۶_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۹

۱۴۰

محمد ابن ابى بكرحكم پاتے ہى اپنى بہن كے پاس ائے اور سر كو ہودج ميں ڈالا

عائشه نے پوچھا تم كون ہو _ ؟

ميں ہوں محمد _ تمہارا قريبى رشتہ دارليكن تمھاراخاندانى سخت ترين دشمن

عائشه نے كہا _ تم خثعميہ عورت كے فرزند ہو ؟

محمد نے كہاہاں

عائشه نے كہا _ ميرے ماں بآپ تم پر قربان ہوجائيں _ خدا كاشكر ہے كہ اس جنگ ميں تمہارى جان سلامت رہى _

مسعودى كہتا ہے :

عائشه نے پوچھا كہ تم كون ہو ؟تو محمد نے جواب دياكہ ميں محمد ہوں _و ہ محمد جو تمھارا قريب ترين رشتہ دار ہے ليكن تمھارا بد ترين دشمن اس كے بعد كہا اے عائشه اميرالمومنين حضرت على تمہارا حال پوچھ رہے ہيںاور دلجوئي كے طور پر پوچھا ہے كہ اس جنگ ميں تمھيں كوئي زخم تو نہيں لگا ہے ؟

عائشه نے كہا كہ اس جنگ ميں صرف ايك تير مجھے لگا اور وہ بھى كارى اور موثر نہيں _

حضرت على نے عائشه سے گفتگو كى

محمد ابن ابى بكر كے بعد حضرت على عائشه كے خيمہ كى طرف چلے اور ھودج كے سامنے پہنچ كر اس عصا سے جو آپ كے ہاتھ ميں تھا ھودج كى طرف اشارہ كر كے فرمايا

اے حميرا كيا رسول خدا (ص) نے اس فتنہ انگيزى اور مسلمانوں كا خون بہانے كاحكم ديا تھا ؟

كيا ايسا نہيں ہے كہ تمہارے شوہر رسول خدا (ص) نے حكم نہيں ديا تھاكہ اپنے گھر سے باہر نہ نكلنا ؟

۱۴۱

اے عائشه جو لوگ تمہيں يہاں تك لائے ہيں انھو ں نے رسول خدا(ص) كے ساتھ بڑى ناانصافى كى ہے كہ اپنى عورتوں كو تو گھر ميں بٹھا ركھاہے ليكن تيرے جيسى زوجہ رسول كو جو اسلام كى خاتون اول ہے ميدان جنگ ميں گھسيٹ لائے ہيں _

اس موقع پر طبرى كا بيان ہے :

محمد ابن ابى بكر نے اپنى بہن عائشه كولشكر سے علحدہ ايك خيمہ لگايا _ حضرت علىعليه‌السلام اس خيمہ كى پشت پر ائے اور عائشه سے كچھ باتيں كى _ منجملہ ان كے _يہ بھى فرمايا اے عائشه تم نے لوگوں كو ميرے خلاف بھڑكايا كہ مجھ سے جنگ پر امادہ ہوگئے _ اور انھيں ہيجان ميں لاكر ميرى دشمنى ان كے دلوں ميں ڈال دى كہ وہ خونريزى اور ھنگامہ پر امادہ ہوگئے _

حضرت علىعليه‌السلام كى باتوں پر عائشه با لكل خاموش رہيں اور كوئي جواب نہيںديا صرف اتنا كہاكہ ياعلى اب جبكہ تم نے ميرے اوپر قابو پالياہے _ اب تو تم صاحب اختيار ہو معاف كر دينابہتر ہے _

عمار نے عائشه سے بات كي

طبرى اور ابن اثير كہتے ہيںكہ جنگ ختم ہونے كے بعد عمار نے عائشه سے ملاقات كى _

عمار نے كہااے عائشه تم حكم خدا سے كتنى دور ہو گئي ہو رسول خدا (ص) سے تم نے عہد كياتھاكہ گھر ميں بيٹھو گى اور تم نے مخالفت ميں ميدان جنگ كاراستہ اختيار كياكہاں گوشہء خانہ اور كہاں ميدان جنگ ؟ ؟

عائشه نے كہا _ كيا تم ابو يقظان ہو ،تم تو مجھ سے بہت سختى اور صفائي سے باتيں كر رہے ہو

عمار نے كہا ہاں

عائشه نے كہا _ خداكى قسم جب سے تم پہچانے گئے ہو تم نے كبھى حق كے سوا كوئي بات نہيں كى عمار نے كہا _ اس خدا كاشكر ہے كہ جس نے تمھارى ز بان پرميرے بارے ميں كلمہ حق جارى كيا_

۱۴۲

فتح كے بعد معافي

عام معافي

حضرت علىعليه‌السلام كى فوج كامياب ہو گئي اور دشمن كى فوج پر پورا قابو حاصل كرليا _ دشمن كى فوج كى ہريمت وفرار كا راستہ اختيار كيا _ ا س مو قع پر حضرت علىعليه‌السلام نے وہى حكم ديا جو جنگ سے پہلے اپنے سپاہيوں كو پہنچايا تھا _ دوسرى بار بھى وہى متن پڑھ كر سناياآپ كے نمائندہ نے ميدان جنگ ميں بلند اواز سے لوگوں كو اس اعلانيہ كا متن پڑھ كر سنايا _

اے لوگو دشمن كے كسى زخمى كو قتل نہ كرو بھاگنے والوں كا پيچھانہ كرو ، شرمندہ لوگوں كى سرزنش نہ كرو _ دشمن كا كوئي فرد اگر جنگى ہتھيار پھينك دے تو وہ امان ميں ہے اسے ہرگزتكليف نہ پہنچاو جو شخص اپنے گھر ميں داخل ہوكر دروازہ بند كر لے اس كا خون اور جان محفوظ ہے اسے اذيت مت دو _

اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياجو اگر چہ جملہ بہت مختصرہے ليكن بہت جامع اور جذباتى ہے ، اپنے سب كو سناتے ہوئے اعلان فرماياكہ تمام دشمن كے سپاہى چاہے وہ سياہ ہوںياسفيدچھوٹے ہوں يابڑے عورت ہوں يا مرد سبھى كو امان دى جاتى ہے _كسى كو ان سے تعرض كاحق نہيں (ثم امن الاحمر ولاسود )

حضرت علىعليه‌السلام نے اس مختصر جملہ ميں سب كو ازاد فرمايا اور تمام دشمن كے افرادكو عام معافى ديدى اور آپ كى كرامت كاتقاضا بھى يہى تھا صاحب كنزالعمال كہتے ہيں كہ جنگ ختم ہو نے كے بعد بھى وہى جنگ سے پہلے والا فرمان دوبارہ پڑ ھ كر سنايا گياليكن اس بار چند جملہ كا اضافہ كيا گيا _

اے لوگو دشمن كے ناموس واموال تم پر حلال نہيں ہيں تمہيں چايئےہ صرف جنگى ہتھيار ہى لواور ميدان جنگ ميں جو مال لے ائے ہيں انھيں كو حاصل كروبقيہ سارا مال مقتولوں كے پسماندگان كے لئے چھوڑ دو جو شخص ميدان جنگ سے بھاگ گيا ہے اسكو قيدى نہ بنائو انكى دولت كو مال غنيمت سمجھ كر مت لوٹو _ ان كے مال كو حكم قرانى كے مطابق وارثوں ميں تقسيم ہوناچاہيے _ اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے سامنے اعلان فرمايا كہااس جنگ

۱۴۳

ميں جو عورتيں اپنے شوہر سے محروم ہوئي ہيں تم ان سے شادى نہ كرو جب تك وہ دوسرے مسلمانوں كى طرح چار ماہ دس دن كا عدہ وفات پورا نہ كر ليں اس كے بعد تم انھيں عقد ميں لے سكتے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام كا منشاء اس ارشاد سے يہ تھااس جنگ كے بعد دشمنوں كے ساتھ دوسرے مسلمانوں كاسابرتاو كرناچاہيے _ ہاں _ يہ لوگ حضر ت علىعليه‌السلام كى نظر ميں كافروں اور مشركوں سے الگ تھے ا ن پر كفار كا حكم لاگو نہيں ہوا تھا _

اعتراض اور علىعليه‌السلام كا جواب

حضرت علىعليه‌السلام نے دشمن كى فوج كے بارے ميں جو روش اپنائي تھى ا س پر خود آپ ہى كے لشكر ميں اعتراض ہونے لگا _ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى بارگاہ ميں ا كر اس طرح اعتراض كرنے لگے _

ياعلى ا پ نے كل ا ن لوگوںكا خون ہمارے لئے حلال قرار ديا تھا _ اور آپ ہى آج ا ن لوگو ں كامال ہمارے لئے حرام قراردے رہے ہيں ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا :

اہل قبلہ اور جولوگ زبان سے اسلام كاكلمہ پڑھتے ہيںاپنے اسلام كااظہار كرتے ہيں ا ن كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے نافذ كياہے _

ليكن اكثر معترضين اما م كے اس جواب سے مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے اپنى مخالفت جارى ركھى ، حضر ت علىعليه‌السلام نے انھيں مطمئن كرنے كے لئے فرمايا _

اے لوگو اب جب كہ تم لوگ اصرار كے ساتھ كہہ رہے ہو كہ ان لوگو ںكے ساتھ بھى كفار و مشركين كاسابرتاو كرناچاہيئے_ تواب او سب سے پہلے ام المومنين عائشه كے بارے ميں قرعہ ڈالا جائے كيونكہ وہى اس لشكر كى قيادت كر رہى تھيں _ جس كے نام بھى قرعہ پڑ جائے وہ انہيں كفار كى عور توں كى طرح اپنى كنيز بنالے _

۱۴۴

يہ سن كر تمام معترضين كوحضرت علىعليه‌السلام كے اس برتاو كارازسمجھ ميں ايا اور وہ اپنے اعتراض پر نادم وشرمندہ ہوئے _ اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے ا ن لوگوں كو ايك و جدانى دليل سے خاموش كيا ليكن اس مطلب كو پورى طرح واضح كرنے كے لئے آپ نے ايك دوسرى دليل بھى پيش كى اورفرمايا :

چونكہ عائشه كے فوجى بظاہر خدا پرست ہيں _وحدانيت خداكى گواہى ديتے ہيں _ ان كے اسى عقيدہ كے مطابق كہ وہ زبان سے كلمہ پڑھتے ہيں ميں ان پراحسان كر رہاہوں اور ايك توحيد پرست مسلمان كى طرح برتاو كركے ان كے فر زندوں كو ا ن كے مقتول بآپ كاوارث بنا رہاہوں _

صاحب كنزالعمال نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ :

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر ميں خطبہ ديا اسى درميان عمار ياسر نے كھڑے ہو كر كہا :

اے امير المومنين لوگ دشمن كے مال و دولت كے بارے ميں آپ پر اعتراض كر رہے ہيں وہ كہہ رہے ہيں كہ ہم نے جس سے بھى جنگ كى جس قوم و ملت پر فتحمند ہوئے توہم نے ا ن كا مال غنيمت كى طرح حاصل كيااور ان كے بيوى بچوں كوقيدى بنايا(۲۷)

اس سے پہلے كہ حضرت علىعليه‌السلام عمار ياسر كاجواب ديں آپ كے لشكر سے ايك شخص عباد ابن قيس نام كاجو بكر ابن وائل كے خاندان سے تھااور بہت تيز طراراور خوش بيان تھا _ اپنى جگہ سے كھڑا ہو كرحضرت علىعليه‌السلام سے بولا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے بصرہ والوں كے مال غنيمت كى تقسيم ميں آپ نے ہم لوگو ں كے ساتھ انصاف و مساوات كى رعآیت نہيں كي

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا _تجھ پر افسوس ہے _ميں نے تمہارے بارے ميں مساوات و عدالت كى كيسے رعآیت نہيں كى ؟

اس شخص نے كہا : جب آپ نے بصرہ والوں كے كسى مال و دولت كو جسے وہ ميدان جنگ ميں لائے تھے اس كے علاوہ سارے مال كو ہم لوگو ں پر حرام قرار دياان كى عورتوں كى اسيرى كو بھى حرام كر ديااور ان كے بيٹوں كو غلام بنانے سے بھى

____________________

۲۷_ جاہلى عہد كاطريقہ يہى تھا _ ابو بكر نے بھى يہى روش اپنائي تھى جن لوگوں نے انكى بيعت سے سرتابى كى تھى انكے ساتھ بھى جاہلى عہد كا سا سلوك كيا تھا _ ملاحظہ ہو كتاب عبداللہ بن سبا _ اس طرح جن لوگوں نے ابو بكر كو زكوة دينے سے انكار كيا تھا ان سے جنگ كى اور ان سے كفار مشركين كاسا برتاو كيا _ ان كا مال لشكر والوں ميں تقسيم كيا _ اسى وجہ سے جنگ جمل ميں لشكر والوں كو اشتباہ ہواجس كى وجہ سے انھوں نے حضرت على كے اسلامى وانسانى برتاو پر اعتراض كيا _

۱۴۵

ہميں منع كرديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان تمام اعتراض كرنے والوں كو مطمئن كر نے كے لئے اس مرد بكرى سے خطاب فرماتے ہوئے كہا :

اے بنى بكر كے بھائي كيا تم اسلامى قانون نہيں جانتے ہو _ كيا يہ نہيں جانتے كہ بآپ كے جرم كى وجہ سے ان كے بے گناہ چھوٹے بچوں سے مواخذہ كرنااسلامى نقطہ نگاہ سے جائزنہيں ہے ،صرف اس بہانے سے كہ ان كے بآپ نے ہم سے جنگ كى ہے ہميں ان كے بچوں كو قيدى بنانا اور عورتون كو كنيز بنانا جائز نہيں ہے ليكن يہ جو دشمن كى عور توں اور مال كا معاملہ ہے ،يہ لوگ صرف وہى دولت جو جنگ كے موقع اپنے پاس ركھے ہوئے تھے _ اور مسلمان بھى ہيں ہم سے بر سر جنگ ہيں _

ان كى عورتوں كا نكاح اسلامى حكم كے لحاظ سے ہوا تھاان كے بيٹے فطرت اسلام پر پيدا ہوئے تھے ان خصوصيات كے پيش نظر جن كى ميں نے وضاحت كى ہے ان كى عورتوں بچوں اور دولت كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے بيان كياہے _

تمہيں صرف اتنى اجازت ہے كہ يہ لوگ جتنا مال ميدان جنگ ميں لائے تھے اور تم نے اپنى چھاونى سے انھيں لوٹاہے انھيں كو غنيمت كے طور پر لے لواور اسى پر اكتفاء كرو ، اس مال كے علاوہ بقيہ جتنى دولت ہے وہ ان كے بيٹوں كى وراثت ہے اگر كوئي شخص ہم سے جنگ اور مخالفت كے لئے نكلے تو اكيلے اسى كو ہم سزا دينگے اور ا س كا گناہ دوسرے كے ذمہ ہرگز نہيں لاديں گے ، يہاں تك كہ ان كے بچوں كو بھى بآپ كے كر توت كى سزانہيں دى جائے گى _

اے بنى بكر كے بھائي ميں رسول خدا(ص) كى جگہ پر ہوںيہ بصرہ والے ميرے خلاف بغاوت پرامادہ ہيں انہوں نے اپنے بھائيوں كا خون بہايا ميں نے ان كے ساتھ وہى سلوك كيا ہے جو رسول خدا (ص) نے فتح مكہ كے موقع پر لوگو ں كے ساتھ سلوك كيا تھاآپ نے مكہ والوں كاصرف وہى مال لياجو ساتھ ليكر ائے تھے بقيہ انھيں كے حوالہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے مزيدفرمايا : اے بكرى بھائي كيا تو نہيں جانتا كہ دارالحرب يعنى كافروںكا شہر اور دارالہجرت يعنى مسلمانوں كا شہر ان دونوں كے درميان اسلامى قانون ميں فرق ہے كيونكہ دارالحرب كاہرمال جو كفار سے حاصل ہوپورے طور سے مسلمانوں كاہے ليكن جنگ كے موقع پر دارالہجرت كامال صرف وہى مسلمانوں كاہوگاكہ جو جنگ

۱۴۶

كے موقع پر ساتھ لائے ہيں كيونكہ زبان سے وہ كلمہ توحيد پڑھتے ہيں _

اللہ تم لوگوں پر رحم كرے _ خاموش رہو اور عائشه كے لشكر والوں كى اسيرى پر اصرار نہ كرو ورنہ پھر ميرے ايك سوال كاجواب ديدوكہ تم ميں كون ايسا ہے كہ جنگى اسيروں كى تقسيم كے وقت عائشه كو كنيزى كے طور پراپنے حصہ ميں لے كيا تم ميں كوئي ايسا ہے جو عائشه كو كنيزبنا كر اپنے گھر لے جائے _

حضرت علىعليه‌السلام كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ آپ كے لشكر ميں شور مچ گيا چاروں طرف سے اوازيں انے لگيں يا على ہم ميں سے كوئي بھى ايسى حركت نہيں كر سكتارسول خدا(ص) كى نسبت ايسى گستاخى ہم سے نہيں ہو سكتى كہ ان كى زوجہ كو اپنى كنيز بنائيں اس كے بعد انھوں نے كہا _ يا على آپ اپنے عمل ميں حق كے راستہ پر ہيں _ ہم نے اعتراض كركے سخت غلطى كى ہم نے دھوكا كھايا _ يا على آپ كا عمل علم و دانش كى روش ميں تھاہمارا اعتراض جہالت ونادانى تھى _ا ب ہم اپنے گناہ سے توبہ كرتے ہيں اور اپنے اعتراض پرنادم وپشيمان ہيں _ خداوندے عالم آپ كے وسيلہ سے ہميں ہدآیت و رہبرى عطا كرے _

عمار ياسر دوسرى بار كھڑے ہوئے اور لشكر سے خطاب فرمايا :

اے لوگو على كى پيروى كرو _ان كے احكام بجالائوخداكى قسم وہ سيرت رسول(ص) پر عمل كرتے ہيںاور انكى سنت سے ہر گز انحراف نہيں كرتے على وہى راہ اپناتے ہيں جس راہ پر رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو چلايا تھاانكى مثال ويسى ہى ہے جيسى موسى كے سامنے ہارون كى تھى _ ہارون حضرت موسى كے جانشين تھے ، بس فرق يہ ہے كہ رسول (ص) كے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگااور يہ فضيلت وبزرگى حضرت علىعليه‌السلام سے مخصوص ہے _

عمار ياسركى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ لوگوں سے خطاب فرمايا :

جو كچھ ميں تم سے كہتا ہوں اسے مانو اورميرے حكم كو نافذ كرو كيونكہ اگر تم ميرے كہنے پر عمل كرو گے تو انشا اراہ مستقيم اور سعادت ابدى پا جائو گے ،اگر چہ اس راستہ ميں سختياں ہيں اور ناكامياں و تلخياں ہيں _

اب رہ گئيں عائشه تو انكاعقيدہ اور باطنى نظريہ ميرے بارے ميں دشمنى سے بھرپور ہے اسلئے وہ مجھے تكليف پہنچا رہى ہيں ايسى اذيت وہ كسى كے لئے بھى جائز نہيں سمجھيں گى ليكن اسكے باوجودوہ ميرى نظر ميں سابق كى طرح محترم ہيں _ ان كے كرتوتوں كو ميں اللہ كے حوالے كرتا ہوں _خدا ہى ہر شخص كو اس كے گناہوں كى سزا د ے گا

۱۴۷

يا اسے معاف كرديگا _

ابھى امام كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگو ں كى اوازيں انے لگيں ہاں صحيح ہے جو لوگ اعتراض كر رہے تھے وہ اب نادم و پشيمان ہيں _ان لوگوں نے ايك سخت كشمكش كے بعدامام كے ارشادات كى تصديق و تائيدكى اور ان كے حكم پر سر جھكا ديا _ واضح طور پر اعلان كيا كہ ہم غلطى پر تھے يا واضح طور سے اپنى غلطى كا اعتراف كيا _ انھوں نے معذرت كرتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے فوج دشمن كا مال تقسيم كرنے كے سلسلے ميں حكم خدا كے مطابق عمل كياليكن ہم نے جہالت ونادانى كى روش اپنائي اور آپ كى عدالت پر اعتراض كيا،ابن لساف حضرت علىعليه‌السلام كے فوج كاايك بہت تيز طراراور جيالا شخص تھا _ ا س نے اس سارے واقعے كو نو شعروں ميں نظم كيا ہے _

ان رايا را يتموه سفاها ----لحظاالايرادوالاصدار

ليس زوج النبى تقسيم فيئا ---ذاكزيغ القلوب والابصار

فاقبلوا اليوم مايقول على ---لاتناجوابالاثم فى الاسرار

ليس ماضمت البيوت بفي ---انما الفي ماتضم الاوار

من كراع فى عسكروسلاح ---ومتاع يبيع ايدى التجار

ليس فى الحق قسم ذات نطاق ---لاولااخذكم ذات خمار

ذاك فيئكم خذوه وقولوا ---قد رضينالاخيرفى ا لاكثار

انها امكم وان عظم الخط ---ب وجائت بزلة وعثار

فلهاحرمته النبى وحقا ---علينامن سترها و وقار

اے لوگو تم نے جو بصرہ والوں كے بارے ميںرائے ظاہر كى ہے وہ جہالت و نادانى كى بات تھى ، وہ غلط نظريہ تھا ، كيونكہ رسو ل كى زوجہ مال غنيمت كے طور پر حاصل نہيں كى جاسكتى نہ وہ كنيزى ميں لى جاسكتى ہيں ، كيونكہ يہ عمل وجدان كے اعتبار سے كوتاہ نظرى اور فكرى انحراف ہے اس لئے آج جو كچھ حضرت علىعليه‌السلام ارشاد فرمارہے ہيں اس كومان لواور اپنى بيجا باتيںاور لچر اعتراضات اور سر گوشياں ختم كر دو حضرت على كے فرمان كے مطابق عمل كرو جو مال و دولت

۱۴۸

مقتولوں كے گھر ميں ہے اسے مت لوٹو اور اسپرتصرف مت كروبس وہ جنگى ہتھيار، كپڑے ، اور گھوڑ ے جو ميدان جنگ ميں لائے تھے انھيں كومال غنيمت كے طور پر لے لواور وہ تمھارے اوپر حلال ہے مختصر يہ كہ جو كچھ دشمنوں كى دولت تمھارے لئے حضرت على جائز سمجھيں وہ تمھارا حق ہے تمھيں اس پر مطمئن ہو جانا چاہئے _

اے لوگو عائشه تمھارى ماں ہيں اگر چہ ان كاجرم بہت بڑا اور لغزش زبر دست ہے وہ رسول خدا(ص) كى خاطر سے محترم ہيںہم پر ان كا احترام لازم ہے ہميں ان كى ابرو اور حيثيت كو محفوظ ركھنا چاہئے(۲۸) _

حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟

جيسے ہى ابن يساف نے اشعار پڑھے حضرت على كے لشكر سے ايك دوسراشخص بولا اے اميرالمومنين ، آپ نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟ اس كى وجہ كيا تھى ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب دياكہ ميں نے طلحہ و زبير سے اس لئے جنگ كى كہ انھوں نے ميرى بيعت توڑ دى تھى اور انھوں نے بے گناہ اور پاك نفس لوگوں كو قتل كيا ، انھوں نے حكيم بن جبلہ كا ناحق خون بہايا ،بيت المال كو لوٹا ،يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ بے گناہ لوگوںكاظلم وتعدى سے خون بہايا جائے اور امام و پيشوا ان كا دفاع نہ كرے ؟

جو سلوك ميں نے طلحہ و زبير كے ساتھ كيا ہے يہ مجھ ہى سے مخصوص نہيںہے كيونكہ اگر انھوں نے ابو بكر و عمركى بھى بيعت شكنى كى ہوتى اور لوگوں كا ناحق خون بہايا ہوتاتو وہ بھى دفاع كرتے اور ان سے جنگ كرتے _

اے لوگو يہ تمہارے درميان اصحاب رسول خدا ہيں جو ميرى باتوںكى گواہى ديں گے كہ جو شخص بھى ابوبكر و عمر كى بيعت سے سرتابى كرتاوہ لوگ انھيں تلوار سے سرزنش كرتے اور اپنى بيعت ميںوآپس لاتے اور دوبارہ حكومت كى پيروى پر مجبور كرتے ،جيسا كہ خليفہ او ل كى بيعت كے وقت انصار نے ان كى بيعت سے انكار كياتوانھوں نے سختى كى اورانصاركو مجبوركيا كہ وہ ان كى بيعت كريں _ حالانكہ انصار كى بيعت راضى خوشى سے نہيں تھى ليكن اس كے باوجود بيعت كا احترام كيا گيا اور اس پر اخر تك باقى رہاگيا ليكن ميں كيا كرو ں؟ كہ طلحہ و زبير نے رضا مندى اور پورى ازادى كے

____________________

۲۸_ تاريخ يعقوبى ، كنز العمال ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ميں ان تفصيلات كو ديكھا جا سكتا ہے _

۱۴۹

ساتھ ميرى بيعت كى ليكن دير نہيں گزرى كہ انھوں نے اپناعہد وپيمان توڑ ديا ان

كے دل ميں بصرہ و يمن كى گور نرى كى لالچ بھرى ارزو تھى ليكن چونكہ ميں نے ان كے اندر حرص ولالچ ديكھى اس لئے حكومت بصرہ و يمن نہيں دى _دوسرے يہ كہ انھيں مال و دولت حاصل كرنے كى ہوس تھى _ انھوں نے مسلمانوں كے مال ودولت پر اپنى انكھيں جمادى تھيں وہ مسلمانوں كو اپنا غلام عور توں كو كنيزبناناچاہتے تھے ان كى دولت كومال غنيمت سمجھ كے لوٹناچاہتے تھے يہ تمام باتيں ميرے مشاہدہ ميں ائيں توميں اس پر مجبورہوگياكہ ان سے جنگ كركے ان كے ہاتھوںمسلمانوں كے جان ومال كى طرف بڑھنے نہ دوں ،مسلمانوںكو ان كے شر و فسادسے مطمئن كروں _

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ والوںكى طرف رخ كيااور ان كى كرتوتوں پر سر زنش فرماتے ہوئے كہا :

بصرہ والوں تم ايك بے منھ كے جانور كے سپاہى ہو _ اس نے شور مچاياتو سخت طريقہ سے حملہ اور ہوگئے ،جس و قت وہ جانور قتل ہو گيا زمين پر لوٹنے لگاتو اسے چھوڑ كر فرارہو گئے بصرہ والو تم بڑے بد اخلاق اور عہد شكن ہو _ تمہارابرتاو نفاق سے بھرپور ہے يہ تمہارى سيرت ميں داخل ہے اور اس پر ہميشہ باقى ر ہوگے _ تم ايسے لوگ ہو كہ جوشخص بھى تمہارے درميان زندگى بسر كرے وہ گناہوں اور غلطيوںميںمبتلاہو جائے _جو تمہاراماحول چھوڑ كر الگ ہو جائے اس پر رحمت خداكى بارش ہو _

عائشه ، مدينہ وآپس ہوئيں

جنگ ختم ہو گئي عام معافى كا اعلان كر ديا گيا _ اور جنگ كے درميان جو دشمن كامال غنيمت ہاتھ ايا تھا حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تقسيم كر ديا گيا _ گو مگو كى كيفيت ختم ہو گئي _ پانى كا سيلان بھر گيا ،بھانت بھانت كى اوازيں خاموش ہو گئيں _ حالات معمول پر اگئے ،اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے چچيرے بھائي عبداللہ بن عباس كو اپنے پاس بلوا كر فرمايا _ اے عبداللہ _ تم عائشه كے پاس جاكر انھيں اپنے شہر وآپس جانے كے لئے راضى كرو _

۱۵۰

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميں عائشه كے پاس گيا اور ملاقات كى اجازت طلب كى تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كآپيغام پہنچاو ں _

انھوں نے مجھے اجازت نہيں دى ،ميں بغير اجازت ہى خيمہ كے اندر داخل ہو گيا پاس ميں ركھے گاو تكيہ كو اٹھا كر دبايا اور انھيں كے سامنے بيٹھ گيا عائشه نے كہا اے ابن عباس خدا كى قسم ميں نے تم سے زيادہ حكم رسول كو نظر انداز كرنے والا نہيں ديكھا _ تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں چلے ائے اور ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھ گئے ؟

ايك دوسرى روآیت ہے كہ عائشه نے ابن عباس سے كہا _ تم نے دو غلطياں كركے حكم رسول كى مخالفت كى _ كيو نكہ سب سے پہلے تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں داخل ہوئے دوسرے ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھے _

ابن عباس نے كہا:تم نے احكام ہم ہى سے سيكھے اور اب ہم ہى كو ياد دلارہى ہو ،يہ ديكھوحضرت علىعليه‌السلام تمھيں حكم دے رہے ہيں كہ اپنے شھر وآپس جاو _

عائشه نے كہا _ خداعمر پر رحمت نازل كرے كہ وہ اميرالمومنين تھے

ابن عباس نے كہا: ہاں _ اب حضرت على اميرالمومنين ہيں

عائشه نے كہا : نہيں، نہيں ، ميں انھيں ہرگز اميرالمومنين نہيں جان سكتى ان كے حكم سے وآپس جانے پر تيار نہيں ہوں _

ابن عباس نے كہا _ اے عائشه وہ زمانہ بيت گيا _ تمھارى تقررى اور برخاستگى كاتيا پانچہ ہو گيا _ آج تمھارى رائے اور بات كاكوئي اثر نہيں ہے _ تمھارى موافقت و مخالفت برابر ہے _

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميرى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ عائشه پر گريہ طارى ہو گيا، اس قدرشديد گريہ كہ دہاڑ مار كررونے لگيں ،ان كى ہچكياں سن رہا تھا(۲۹)

____________________

۲۹_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ اعثم كوفى ص ۱۸۱ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۲ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۱

پھر انھوں نے كہا : اے عبداللہ ٹھيك ہے ،ميں اپنے شہر وآپس جاو نگى ،ميں نہيں چاہتى كہ اس شہر ميں رہوں جہاں تم دونوں ہو _ (ان ابغض البلدان الى بلد انتم فيه )

ابن عباس نے كہا: اے عائشه خداكى قسم ہم بنى ہاشم كى نيكى كابدلہ يہ نہيں تھا كہ ہمارے خلاف بغاوت كرو _ ہمارى مخالفت كاراستہ اپناو _ ہم ہى تھے كہ تمہيں ام المومنين بنايا ،ہم نے تمھارے بآپ كو صديق امت بنايا_

عائشه نے كہا : عبداللہ تم رسول خد(ص) اكو ہم سے اپنى طرف گھسيٹ رہے ہو ان كے نام سے ميرے اوپرفخرجتا رہے ہو _

ابن عباس نے كہا: ہاں ہم ايسے خاندان كى فرد ہيں كہ اگر تم بھى اس خاندان سے ہوتى تو ميرى طرح فخر ومباھات كرتي_

ابن عباس كابيان ہے كہ: عائشه سے گفتگو كے بعدوآپس حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا ، سارى باتيں دہرائيں _آپ نے ميرى پيشانى پر بوسہ ديكر فرمايا :

ان خانوادے پر صلوات جو گويائي اور حاضرجوابى ميں ہمارى طرح ہيں (بابى ذرية بعضها من بعض )

اعثم كوفى نے فتوح البلدان ميں نقل كيا ہے كہ:

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام رسول خدا(ص) كے مخصوص خچر دلدل پرسوار ہوكربصرہ ميں اس گھر كى طرف چلے جہاں عائشه عارضى طور سے ٹھہرى ہوئي تھيں ،اجازت لينے كے بعدگھر ميں داخل ہوئے اميرالمومنين نے ديكھاكہ عائشه كچھ بصرہ كى عورتوں كے ساتھ گريہ وزارى كر رہى ہيں ،اس وقت حارث ثقفى كى بيٹى صفيہ اوردوسرى عورتوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر كہا :

يا على آپ نے ہمارے رشتہ داروںاور دوستوں كو قتل كيا ہمارى جميعت كو درہم برہم كيا ، خدا تمہارے بھى بچوں كو يتيم كرے جيسے تم نے عبداللہ خلف كو يتيم كر كے بآپ كى موت پر اس كى انكھيں اشكبار كى ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے صفيہ كو پہچان كر فرمايا :

اے صفيہ ميں تمہيں اس دشمنى اورعنا دپر تجھے ملامت نہيں كرونگاكيونكہ ميں نے ہى جنگ بدر ميں تيرے داداكو اور جنگ احد ميں تيرے چچاكو قتل كيا ہے _ اور اب تيرے شوہر كو موت كے گھاٹ اتاراہے اور اگر ميں رشتہ داروں اور عزيزوںكا قاتل ہوتاتو اس وقت اس گھر جو لوگ چھپے ہوئے ہيں انھيں بھى قتل كر ڈالتا

۱۵۲

اسكے بعد اميرالمومنين نے عائشه سے فرمايا :

اے عائشه اپنى كتيوں كو يہاں سے بھگاتى كيوںنہيں ہو ؟

عائشه سن لو كہ اگر ميں لوگوں كى سلامتى نہيں چاہتاتو ابھى اس گھر ميں چھپے ہوئے لوگو ں كوگھر سے نكالتا اور ايك ايك كى گردن مارديتا _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ :

يہ سنتے ہى عائشه اور تمام عورتوں نے چپ سادھ لى ان سب كى بولتى بند ہو گئي _

اس كے بعد امير امومنين نے عائشه كو مخاطب كر كے سر زنش كى _

اے عائشه _ خدا نے تمہيں حكم ديا تھاكہ اپنے گھر ميں نچلى بيٹھى رہو غيرو ں سے پر دہ كرو ، ليكن تم نے حكم خدا كى مخالفت كي_ اپنا ہاتھ مسلمانوں كے خون سے رنگ ليا ،لوگوںكو ميرے خلاف بھڑكايا اور ظالمانہ طريقہ سے عظيم جنگ كھڑى كردى _ حا لانكہ تم اور تمھارے خاندان نے ہمارے ذريعہ سے عزت و شرف حاصل كياہمارے ہى خاندان كے وسيلہ سے تم ام المومنين بن گئي ہو _

عائشه اب تمہيں چلنے كے لئے تيار ہو جانا چاہئے _ تم اسى گھر ميں جاكر رہو جہاں تمہيں رسول خدا(ص) نے بٹھاياتھا _ وہاںتم زندگى كى اخرى سانسوں تك رہو _

حضرت علىعليه‌السلام اتنا فرماكر وہاں سے چلے ائے _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ: اسى كے دوسرے دن حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندحسن مجتبى كوعائشه كے پاس بھيجا ،امام حسن نے عائشه سے كہا ميرے بابااميرالمومنين فرماتے ہيں كہ :

اس خداكى قسم جس نے دانے كو شگافتہ كيا ، اس خداكى قسم جس نے انسانوں كو پيداكياكہ اگر تم نے اسى وقت مدينہ كے لئے كوچ نہيں كياتواس بارے ميں جسے تم خود جانتى ہو انجام دے دوںگا جيسے ہى يہ پيغام عائشه نے سنا فوراً اٹھ كھڑى ہوئيں اور كوچ كى تيارى كرنے لگيں _

ايك عو رت نے جب اس عجلت كو ديكھا تو سوال كيا كہ اے ام المومنين عبداللہ ابن عباس آپ كے پاس ائے اور آپ سے مدينہ جانے كو كہا ليكن آپ نے انكى بات نہ ماني، بلكہ تم نے تو ان كا كلّہ بہ كلّہ جواب ديا _

ابن عباس تمہارے پاس سے خفا ہو كر چلے گئے ان كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ائے اور تمہارے اندر ذرابھى بے چينى نہيں

۱۵۳

ديكھى گئي ليكن جيسے ہى يہ جوان تمھارے سامنے ايا اور بآپ كا پيغام پہنچايا تمہارے انداز ميں عجيب اضطراب اور بے چينى پيداہو گئي اور اسكى بات كو تم نے فوراً قبول كر ليا ؟

عائشه نے جواب ديا _ ہاں _ميرا اضطراب اسلئے تھا كہ يہ جوان رسول خدا (ص) كى يادگار اور ان كا فرزند ہے رسول كے اوصاف كانمونہ ہے ،اسے ديكھتے ہى مجھے رسول خدا (ص) كا سرآپا ياد اگيا ،جسے بھى رسول خدا كاسرآپاديكھنا ہو وہ اس جوان كو ديكھ لے _ دوسرى طرف يہ بھى كہ يہ جوان اپنے بآپ كاوہ پيغام لاياتھا جسے سن كر ميں خوف زدہ ہو گئي اور كوچ كرنے پر مجبور ہو گئي _

اس عورت نے اخرى بات سنكر كر يدنے كے لئے پوچھا

اے عائشه _ ميں آپ كو قسم ديتى ہوں خدائے تعالى كى كہ بتايئے وہ حضرت علىعليه‌السلام كا پيغام كيا تھا جو آپ ميں اتنااثر ديكھا گيااور آپ اتنا بے چين ہو گئيں ؟

عائشه نے جواب ديا _ تيرا ناس ہو جائے _ ارے ايك جنگ ميں رسول خدا(ص) كو بہت زيادہ مال غنيمت حاصل ہوا تھا _ آپ نے سب كو اپنے اصحاب ميں تقسيم كر ديا _ ہم ازواج نے چاہا كہ ہم لوگوں كو بھى اسميں سے حصہ دياجائے _ ہم نے اپنے مطالبہ ميں بہت اصراركيا اور بڑى اودھم مچائي ،حضرت علىعليه‌السلام ہمارى حركتوں كو ديكھ كر غصہ ميں بھر گئے _ ہميں سر زنش كرنے لگے ،انھوں نے كہاكہ اب بس بھى كرو _ تم نے رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ رنجيدہ خاطر كيايہ سن كر ہم لوگ على سے بھى لڑائي بھڑائي پر تن گئے ،انھيں بھى سخت جواب ديا ،حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ميں يہ آیت پڑھي'' عسى ان طلقكن(۳۰) ''

اگر تمھيں طلاق دياجائے تو خدا وند عا لم تمھارى جگہ تم سے بہتر اور نيك كردار عورتيں انھيں عطا كرے گا ہم نے يہ آیت سن كر سخت غضبناك انداز ميں اور بھى سخت جواب ديئے _ اس وقت رسول خداكے چہرے پر اثار غضب ظاہر ہوئے ا پ نے حضرت علىعليه‌السلام كى طرف رخ كر كے فرمايا :

____________________

۳۰- سوره تحريم آيه ۶۶

۱۵۴

اے على ميں اپنى تمام ازواج كے طلاق كا اختيارتمھيں ديتا ہوں _

جسے بھى تم طلاق دے دو گے اس سے ميرى زوجيت كارشتہ ختم ہو جائے گا _

رسول خدا(ص) نے اس وكالت كو كسى خاص وقت ميں معين نہيں كيا تھا ،يہ اختيار ہميشہ كے لئے على كے پاس محفوظ ہے جب بھى وہ چاہيں رسول(ص) كى طرف سے ان كے ازواج كو طلاق ديديںاور انكى رسول سے جدائي كرديں ،حضرت علىعليه‌السلام نے جو پيغام بھجوايا تھا ا س كامطلب يہى تھا ، كيو نكہ اگر ميں جلدى سے كوچ پر امادہ نہ ہو جاتى تو وہ مجھے طلاق دے ديتے _ ميرى ام المومنين كى حيثيت ختم ہو جاتى(۳۱)

كتاب عقدالفريد كے مولف نے لكھاہے كہ :

اس گفتگو كے بعد جب عائشه نے مدينہ جانے كااعلان كرديا _ حضرت علىعليه‌السلام نے تمام وسائل سفر عائشه كے اختيار ميں ديديئے _ اور انھيں چاليس يا ستّر عورتوں كے ساتھ مدينہ روانہ كرديا_

طبرى كابيان ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عائشه كے لئے بہترين وسائل سفر مھيا كئے ،اور انھيں بارہ ہزار درہم بھى عطا كئے اور انھيں بہت سے عورتوں مردوں كے ہمراہ مدينہ روانہ كيا جب يہ بارہ ہزاركى رقم عبداللہ بن جعفر(۳۲) كو كم معلوم ہوئي تو دوبارہ ايك معتديہ رقم عائشه كو عطا فرمائي _

انھوں نے فرمايا كہ اگر اميرالمومنين نے اجازت نہيں دى تويہ تمام رقم ميں اپنے ذمہ لے لوںگا _

مسعودى نے بھى عائشه كى وآپسى كے بارے ميں لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عبد الرحمن بن ابى بكر كو مامو ر فرمايا كہ اپنى بہن عائشه كو بنى عبدقيس اور ہمدان كى شريف عورتوں كے ہمراہ مدينہ پہنچا ديں _

اس واقعہ كو يعقوبى اور ابن اعثم نے بھى اپنى تاريخوں ميں لكھاہے فرق صرف يہ ہے كہ انھوں نے عبدالرحمن كانام نہيں لكھاہے(۳۳)

ان كى ماں اسماء بنت عميس خثعمى تھيں ، ان كے ماں بآپ دونوںہى اوائل ميں حبشہ ہجرت كى تھى ، وہيں حبشہ ميں عبداللہ پيدا ہوئے ،وہ پہلے مسلمان مولودہيں جو حبشہ ميں پيدا ہوئے اور اپنے بآپ جعفر كے ساتھ مدينہ وآپس ہوئے

____________________

۳۱_ ترجمہ فتوح بن اعثم ج۲ ص ۳۳۹_ ۳۴۰

۳۲_ عبداللہ بن جعفر حضرت علىعليه‌السلام كے بھائي جعفر كے صاحبزادے تھے _ قرشى وہاشمى تھے

۳۳_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۳ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۵

جب ان كے والد كاانتقال ہواتو انكى ماں اسماء نے ابو بكر سے عقد كر ليا _ ا س طرح عبداللہ اور محمد بن ابى بكر مادرى بھائي ہيں _جس طرح محمد اور عائشه پدرى بھائي نہيں تھے عبداللہ دس سال كے تھے كہ رسول خدا (ص) نے انتقال فرمايا_ عبداللہ بڑے كريم حليم اور عرب كے سخى ترين لوگوںميں تھے مشہور ہے كہ ۸۰ ھ يا ۸۴ھ يا ۸۵ھ ميں نوے سال كى عمر ميں انتقال كيا ،ابان بن عثمان جو مدينہ ميں گورنر تھے ، انھوں نے آپكى نماز جنازہ پڑھائي_(۳۴)

جنگ جمل كے بدترين نتائج

جنگ جمل كے بدترين اثار ونتائج جو كچھ مترتب ہوئے اور بتدريج اس كے عواقب سامنے ائے وہ واقعى حيرت ناك ہيں_

مورخين نے اس بارے ميں لكھاہے كہ :

جنگ جمل ميں دونوں طرف سے ا س قدر تير اندازى ہوئي كہ دونوں كے تركش خالى ہو گئے ، دونوںفريق ميں ا س قدر نيزوںكى ردوبدل ہوئي كہ سپاہيوںكے سينے چھلنى ہوگئے _ دونوںلشكر سے ا س قدر افرادزمين پر ڈھير ہوئے كہ اگر سب لاشوںكو ميدان ميں جمع كر كے گھوڑے دوڑائے جاتے تو كسى گھوڑے كآپاو ں زمين پر نہ پڑتا خود ايك شخص جو اس جنگ ميں شريك تھابيان كرتا ہے كہ جنگ جمل كے بعد ميں جب بھى بصرہ دارالوليد دھوبيوں كے گھاٹ سے گزرتا تھا اوردھوبيوں كے كپڑا پيٹنے كى اوازسنائي ديتى تھى تو مجھے جنگ جمل ياد اجاتى تھى ،جس جنگ ميں نيزوںكى باڑھ يوں گونجتى تھى جيسے دھوبى كپڑآپيٹ رہا ہو(۳۵)

ہم نے گزشتہ صفحات ميں اس جنگ كے متعلق مورخين كے بيا نات نقل كئے ہيں كہ اس دن كس طرح بدنوں سے سر جدا ہو رہے تھے ، ہاتھ كٹ رہے تھے ،پيٹ پھٹ رہے تھے _

مصيبت كے ماروں كى تعداداور اس جنگ ميں كٹے ہاتھوں اور پھوٹى انكھوں كى تعدادتصور سے بھى كہيں زيادہ ہے _ مقتولوں كى تعداد طبرى نے چھ ہزار لكھى ہے ، ليكن ابن اعثم نے اپنى تاريخ ميں عائشه كے لشكر كے مقتولوں

____________________

۳۴_اسد الغابة ج ۳۰ ص ۱۳۳ ، استيعاب ص ۴۲۲

۳۵_ طبرى ج۵ ص ۲۱۸ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۲

۱۵۶

كى تعداد نو ہزار لكھى ہے ، اور حضرت علي(ع) كے لشكر سے سات ہزار قتل ہوئے _

ابن عبدربہ عقدالفريدميں لكھتے ہيں كہ جنگ جمل ميں لشكر عائشه كے بيس ہزار افراد قتل ہوئے اور حضرت على كے لشكر كے پانچسوافراد قتل ہوئے _

تاريخ يعقوبى ميں ہے كہ دونوں طرف كے مقتولوں كى تعدادتيس ہزار سے زيادہ ہے(۱)

جى ہاں_ جنگ جمل ميں حد سے زيادہ اقتصادى نقصان پہنچا _جانى اور جسمانى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا _ كتنى ہى مائوں نے اپنے جوانوں كے داغ جھيلے _ كتنى ہى عورتيں بيوہ ہو گئيںاور ڈھير سارے بچّے يتيم ہوئے _

يہ تمام طمانچے ،نقصانات اور خرابياں صرف ايك دن ميں وارد ہوئيں،ہاں اسى دن جب شورش اور جنگ اسلامى معاشرے پر تھوپا گيا _ايك محدود اور معين نقطے پر ،ليكن ان نقصانات اور بدترين نتائج كے علاوہ بعد كے ايام ميں سالوں بعد اسلامى معاشرے پر اس جنگ كى وجہ سے وارد ہونے والے نقصانات اس سے كہيں زيادہ ہيں جو اسلامى ممالك نے جھيلے، ان كا تو اندازہ ہى نہيں كيا جاسكتا _ ہم يہاں كچھ تاريخوں كے تجزيے قارئين كرام كے سامنے پيش كر رہے ہيں_

بعد كے نتائج

ايك جنگ جمل كا تلخ ثمرہ يہ ہوا كہ جنگ صفين كى اگ بھڑك اٹھى _ كيونكہ واقعى بات يہ ہے كہ جنگ صفين اصل ميں جنگ جمل كااختتاميہ اور اسى كا بدترين اثر ہے _ يہ دونوں جنگوں كا باہم مضبوط رشتہ ہے _ جسكى ابتدا ميدان بصرہ ميں اور انتہاميدان صفين ميں ہوئي، اس رشتہ كاسراعائشه كے ہاتھ ميں نظر اتا ہے ، انھوں نے اپنے مضبوط ہاتھوں ميں تھام كر اخر اخر تك اسے حركت ديتى رہيں _

كيونكہ عائشه قبيلہ تيم سے تھيں ان كا عثمان كے خاندان سے كوئي رشتہ نہ تھا _ ان كى بغاوت نے معاويہ كى بغاوت كاراستہ ہموار اور اسان كيا ،انھيں كى وجہ سے معاويہ كو بہانہ ہاتھ ايا،كيونكہ جب عثمان كے غير خاندان كى عورت

____________________

۱_ طبرى ج۵ ص ۲۵ ، عقد الفريد ج۴ ص ۲۲۴ ، تاريخ اعثم كوفى جمل

۱۵۷

خون عثمان كا مطالبہ كر سكتى ہے تو معاويہ بدرجہ اولى اس انتقام كا حق ركھتے ہيں ، چنانچہ انھوں نے خون عثمان كو بہانہ بنا كر جنگ صفين كھڑى كر دى _

۲_ انتقام عثمان كا مطالبہ عائشه اس بات كا سبب بنا كہ معاويہ خلافت كواپنے خاندان بنى اميہ ميں موروثى حيثيت سے قرار ديں كيونكہ خليفہ مقتول انھيں كے خاندان سے تھے _انھوں نے خلافت كو اس طرح موروثى قرار دياكہ كسى دوسرے خاندان ميں منتقل ہونا ممكن نہ ہو _

۳_ جنگ جمل برپاہونے اور ختم ہونے كاسلسلہ جارى رہابلكہ يہ دونوں جنگيں جمل وصفين ايك دوسرے سے ا س قدر پيوست تھيں كہ ايك تيسرى جنگ پيدا ہوئي جسے جنگ نہروان كہا جاتا ہے ، اس جنگ نے بھى بہت سے مسلمانوںكو خون ميں نہلايا _

كيونكہ ان دونوںجنگوںنے بدباطن لوگوںميں تنگ نظرى اور برے نظريات پيداكر ديئےور ايسى كوتاہ فكرى پيدا كردى كہ لوگ تشويش و اضطراب كى زد ميں اگئے _ الزام وجو ا بى الزام كى فضا بن گئي _ عناد كى نظريں ايك دوسرے كو ديكھنے لگيں اكثر مسلمانوں نے تكفير كے فتوے ايك دوسرے كو دئے اور ايك دوسرے كا خون مباح سمجھ ليامسلمانوںميں امن و اسائشے نام كو نہيں رہ گئي ، جنگ و خونريزى كے دروازے كھل گئے جس كا سلسلہ بنى عباس كے عہد تك جارى رہا اس درميان بے شمار مسلمانوںنے اپنى جان سے ہاتھ دھويا اس تجزئے سے معلوم ہوتاہے كہ جنگ جمل صرف بصرہ تك ہى محدود نہيں رہى _ جو ميدان بصرہ ميںمحدود وقت تك برپا رہى بلكہ اس جنگ نے كشش پيداكى اور اسلامى سر زمين كے زيادہ حصہ ميں پھيلتى چلى گئي ، بہت سے مسلمانوں كو متاثر كيا اور ايك طويل مدت تك مسلمانوں ميں اپنى گونج پيداكرتى رہى جنگ جمل كے نام سے تو نہيں بلكہ اسكے نام مختلف تھے اور اسكے عنوان الگ تھے _

نظرياتى اختلافات كى پيدائشے

كسى بھى قوم اور معاشرے ميں جنگ و خونريزى ہونے سے ہر طرح كے اختلافات اور نظرياتى ٹكرائوكے راستے رد عمل كے طور پر كھل جاتے ہيں نظرياتى تضادرہن سہن ميں اختلافات اور عقيدے ميں ٹكرائو كى فضا بن جاتى ہے ،فكرى اختلاف عملى اختلاف كا باعث بنتاہے اسكے برعكس عملى اختلاف نظرياتى اختلاف كو جنم ديتا ہے _

جنگ جمل وصفين ونہروان بھى اس قانون طبيعى سے مستثنى نہيں رہے ہر ايك جنگ نے اپنے مخصوص دائرے ميں مسلمانوںكے افكار ميں اور روح ميں بھى اپنے اثرات چھوڑے _ اس جنگ كے بعدلوگ كئي گروہ وعقيدہ اور طرز تفكر ميں بٹ گئے _

۱۵۸

كچھ تو طر ف دار حضرت علىعليه‌السلام ہوئے انھيں علوى گروہ كہا جانے لگا(۲) كچھ لوگ عثمان كے طرفدارہوگئے انھيں عثمانى پارٹى كہا جانے لگاكچھ ايسے تھے جنھوں نے ان دونوں كو كافر كہہ ديا ، كچھ نے بنيادى طور پر ان دونوں سے ا پنے كوالگ ركھا _ وہ لوگ اخر تك غير جانبدار رہے ، اسى طرح ہر گروہ نے ايك نئي پارٹى بنا لى اور اپنى پارٹى كانيا نام ركھ ليااور اسى نام سے مشہور ہو گيا _

يہى وجہ تھى كہ داخلى جنگوں كے بعد مسلمانوں كے درميان نئے نئے مذاھب،فرقے اور عقيدے پيداہوتے گئے _اس فكرى اختلاف نے جو جنگ كے نتيجے ميں پيدا ہوئے تھے بعد ميں بھى نئي جنگوں كے راستے ہموار كئے جو بڑى شديد اور خونريز ہوئيں اور اگر خونريز جنگ نہيں ہوتى تو سرد جنگ اور گومگو كى كيفيت كى وجہ سے كلامى بحثيںپيدا ہو گئيں ، يہ تمام خرابياں اسى جنگ جمل كے نتيجے ميں پيدا ہوئيں(۳)

جى ہاں_ جنگ جمل سے ان نقصان دہ نتائج كے علاوہ جن كا گزشتہ صفحات ميں تذكرہ كيا گيا بہت بڑے بڑے اختلافات اور شديدكشمكشوں نے بھى مسلمانوں كے گروہ ميں جنم ليا _

خوارج كا عقيدہ تھا كہ طلحہ ،زبير اور عائشه نے حضرت على سے جنگ كى ،انھوں نے اپنے امام كى مخالفت كي، اس وجہ سے يہ سب كے سب مخالفت على كى وجہ سے كافر ہو گئے ان كا اسلام سے كوئي تعلق نہ رہاكيونكہ اس دن حق على كى طرف تھا _ ليكن انھوں نے بھى جنگ صفين ميں تحكيم كو منظور كر ليا ابو موسى اشعرى اور عمروعاص كو كا حاكم مان ليا اس لئے وہ بھى اسلام سے خارج ہو گئے _

خوارج كے كچھ فرقہ جنگ جمل ميں على كو حق پر سمجھتے ہيں،ليكن چونكہ انھوں نے تمام بصرہ كى دولت مال

____________________

۲_ يہ علوى كہے جانے والے لوگ شيعوں كے علاوہ ہيں ، كيونكہ شيعت كى ابتداء زمانہ رسالت ميں ہوئي ہے جن كا نمونہ عمار ياسر ، مالك اشتر جيسے لوگ ہوئے _

۳_ كتاب عثمانيہ جاحظ ج۵۵ ص ۲۵۰ ، ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۵۹

۱۵۹

غنيمت كے طور پر لوٹنے كى اجازت نہيں دى ، ان كے بچوں اور عورتوں كو اسير نہيں كيا اس لئے انھوں نے غلطى كى _ اس غلطى كى وجہ سے وہ حضرت علىعليه‌السلام كو گالى ديتے ہيں اور لعنت كرتے ہيں(۴)

معتزلہ كے بعض فرقے ان دونوں گروہوں كو كافر كہتے ہيں عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام ہر دو لشكر كے افراد كو دائرئہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں ان كاخيال ہے كہ يہ دونوں ہميشہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے(۵)

معتزلہ كے كچھ دوسرے گرو ہ ان دونوںمخالف دھڑوںكو بغير معين كئے فاسق اور جہنمى كہتے ہيں كيونكہ يہ دونوں گروہ فاسق اور گنہگار تھے ليكن ان ميں سے ايك فاسق اور جہنمى ہوگاجسكا فيصلہ خدا كرے گا،اس گروہ كے عقيدہ كے مطابق ان دونوں ميں سے كسى كى بھى شہادت قابل قبول نہيں _ وہ يہ كہتے ہيں كہ على و عائشه كے تمام لشكر والے اگر ايك ہرے پتے كى گواہى ديں تو قبول نہيں كى جا ئے گى نہ اس گواہى پر اعتباركياجائے _(۶)

معتزلہ كے تيسرے گروہ كا عقيدہ لشكر عائشه كے بارے ميں يہ ہے كہ ان ميں سبھى يہا ں تك كہ طلحہ و زبير بھى گنہگار اور جہنمى ہيں ليكن ان ميں وہ لوگ جہنمى نہيں رہيں گے جنھيں اپنے كئے پر احساس پشيمانى ہو ااور انھوں نے توبہ كر لى _ اس گروہ كا خيال يہ ہے كہ عائشه ان لوگوں ميں تھيں جنھوں نے پشيمانى ظا ہر كر كے توبہ كى كيونكہ عائشه جنگ كے بعد امير المومنين كے پاس ائيں اور اپنے گناہ كا اعتراف كيا ان سے معافى مانگى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى انہيں بخش ديا _اور انكى لغز ش ا ور گناہوں سے صرف نظر فرمايا(۷)

جاحظ كہتے ہيں كہ عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بارے ميں بعض لوگوں كا عقيدہ يہ ہے كہ دونوں لشكر كے فوجى افسران تو نجات پا جائيں گے ليكن ان كے فوجى جہنم ميں داخل كئے جائيں گے(۸)

زيادہ تر اشاعرہ كے لوگوں كا لشكر عائشه كے بارے ميں يہ عقيدہ تھا كہ انھوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف خروج كر كے غلطى كى ،مرتكب گناہ ہوئے ليكن ان كا يہ گناہ ايسا نہيں كہ انھيں كافر كہا جا سكے نہ ا ن كا گناہ فسق كا باعث ہے ، ان كى اس غلطى كى وجہ سے عداوت يا دشمنى ركھنا منا سب نہيں ،بلكہ يہ غلطى اشتباہ كى وجہ سے ہوئي اور يہ معمولى غلطى ہے جو

____________________

۴_ الملل ج۱ ص ۱۷۶ ، التبصير ص ۲۷ ، الفرق بين الفرق ص ۵۸

۵_ التبصير ص ۴۲

۶_ التبصير ص ۴۱

۷_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۳ ص ۲۹۶_ ج۲ ص ۴۴۸

۸_ كتاب عثمانيہ جاحظ ص ۲۴۶ ، طبع مصر سال ۱۳۷۴

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198