تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79041 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _

۲_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _

۳_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _

۴_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _

اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا(۵) جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ صورتحال ديكھى تو آپ نے بھى عمامہ مشكى(۶) كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، آپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں

____________________

۵_ تاريخ بن اعثم ص۱۷۶ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج۲ ص۸۱ ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عا ئشہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں

۶_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے

۱۲۱

عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _

اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _

عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _

عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے(۷)

كہانى كعب بن سور كى عائشه كے اولين لجام بردار

(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )

جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _

يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا(۱) ،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

____________________

۷_ انت الذى قد غرك منى الحسنا

يا عيش ان القوم قوم اعدا

والخفض خير من قتال الابنا

۱۲۲

كعب بن سور كون ہے ؟

كعب بن سور(۸) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے

جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ آپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمآیت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمآیت پر امادہ ہو گئے_

____________________

۸_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت آپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ آپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے

۱۲۳

ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _

ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمآیت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :

اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمآیت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمآیت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير وآپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمآیت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _

انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمآیت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمآیت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ آپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد آپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر آپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _

طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _

مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار

۱۲۴

بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب

على فتية من خيار العرب

و مالهم غير حين النفو

س اى امير قريش غلب(۹)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے

ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _

على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟

ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں

جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _

ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _

اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول

والموت عند الجمل المجلل

____________________

۹_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج۵ ص۲۱۹ ، استيعاب ص۲۲۱ ، اسد الغابہ ج۳ ص۲۴۲ _ اصابہ ج۳ ص۲۹۷ ، نہج البلاغہ ج۲ ص۸۱ ، طبقات بن سعد ج۷ ص۹۴ ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص۱۵۶ ، كامل بن اثير ج۳ ص۲۴۲

۱۲۵

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _

عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں

قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_

جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(۱۰) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ

____________________

۱۰_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا بآپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ آپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين وآپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:۱۰/۲۰۳_۲۰۵، شرح نہج البلاغہ :۳/۱۲۰_ ۱۲۱

۱۲۶

موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں

خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :

عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _

عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _

قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _

اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا آپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ آپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم آپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، آپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں

(يا امنا يا خير ام نعلم اما ترين كم شجاعاً يكلم و تختلى ها مته و المعصم )

اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي آپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،

اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى(۱۱)

____________________

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۲۱۱ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۹۸

۱۲۷

ايك عجيب داستان

مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :

راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _

اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _

ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _

ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمآیت كى ضرورت نہيں رہى _

ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا

فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امه

و شيعتها مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة

و هل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _

۱۲۸

اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟

ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :

مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _

ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟

اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى(۱۲)

طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _

بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا(۱۳)

رجز خوانياں

ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمآیت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند

____________________

۱۲_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج۵ ص ۱۹۹ ، كامل بن اثير ج۳ ص ۱۰۰

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۲۱۳

۱۲۹

نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _

اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ آپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _

اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے آپ كو اكيلا كر سكتا ہے _

اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر آپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_

قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _

اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمآیت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و

۱۳۰

ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے(۱۴)

يا امنا يكفيك منا دنوه ---لن يوخذ الدهر الخطام عنوه

و حولك اليوم رجال شنوه ---وحى همدان رجال الهبوه

والما لكيون القليلوا الكبوة ---والازد حى ليس فيهم نبوه

يا معشر الازد عليكم امكم ---فانها صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم ---فاحضروها جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم ---ان العدو ان علا كم زمكم(۱۴)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _

اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر علىعليه‌السلام تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر علىعليه‌السلام تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور علىعليه‌السلام سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _

طبرى كا بيان:

جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس

____________________

۱۴_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۲_۲۵۶

۱۳۱

اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _

ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _

دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه آپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ آپ كے توانا اور شجاع بيٹے آپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول آپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، آپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں(۱۵)

۴_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _

اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _

يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _

اگر آج علىعليه‌السلام ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں(۲) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _

____________________

۱_ نحن بنو ضنبة لا نفر ---حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر ---كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى ---يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى

۲_ يا ام يا ام خلاعنى الوطن ---لاابتغى القبرولا ابغى الكفن

من ها هنا محشر عوف ابن قطن ---ان فاتنا اليوم على فالغبن

او فاتنا ابناه حسين و حسن ---اذا ام بطول هم و حزن

۱۵_ شرح نهج البلاغه ج۱, ص, ۲۶۱,۲۶۲ تاريخ ابن اعشم

۱۳۲

۵_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت علىعليه‌السلام كو للكارتے ہوئے بولا _

اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں(۱) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا(۱۶)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ

طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:

جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميں نے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟

ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _

چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_

____________________

۱_ ابا تراب ادن منى فترا ---و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا

۱۶_شرح نهج البلغه ج۱, ۲۶۱,و فتوح ابن اعشم

۱۳۳

عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر

عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_

مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_

داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _

ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_

اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _

صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا(۱۷)

____________________

۱۷_ عبد الله كے بآپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا

۱۳۴

طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے بآپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_

ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _

ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہونآپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _

۱۳۵

طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _

جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _

ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _(۱۸)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے(۱۹)

ابو مخنف كابيان ہے :

حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى

____________________

۱۸_ طبرى ۵ _ ۲۱۰ _ ۲۱۱ _ ;۴ ;۲ شرح نہج البلا غہ ۸۷۱ شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير ۳_۹۹ عقدالفريد ۴_ ۳۲۶ لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۲۰۷

۱۳۶

سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي(۲۰)

مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ

لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_

ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت علىعليه‌السلام كى اواز بلند ہوئي _ آپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرماياويلكم اعقرواالجمل فانه شيطان _

تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _

تم پر افسوس ہے _ ان كآپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ [

____________________

۲۰_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۸۸

۱۳۷

منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _

تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمآیت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _ اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ آپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _ اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار

جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت(۲۱) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو(۲۲)

____________________

۲۱_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں

۲۲_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد ۱ _ ۸۷

۱۳۸

جنگ كا خاتمہ

لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :

جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھنآپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا(۲۳)

اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :

صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _

ابو مخنف كہتا ہے : جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو آپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے(۲۴)

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:

ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق آپ كے ايك جرى سپاہى نے صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _ اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو آپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود آپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير

____________________

۲۳_طبرى ج۵ ص ۲۱۸

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱

۱۳۹

يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى نعرہ لگايا _

اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ آپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ آیت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :

اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر آپ نے اس آیت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _

ونظر الى الهك (۲۵)

ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _

جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے(۲۶)

عائشه سے كچھ باتيں

عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟

____________________

۲۵_ سورئہ طہ آیت ۹۰

۲۶_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۹

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198