تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 198
مشاہدے: 65997
ڈاؤنلوڈ: 3004


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65997 / ڈاؤنلوڈ: 3004
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد 2

مؤلف:
اردو

محمد ابن ابى بكرحكم پاتے ہى اپنى بہن كے پاس ائے اور سر كو ہودج ميں ڈالا

عائشه نے پوچھا تم كون ہو _ ؟

ميں ہوں محمد _ تمہارا قريبى رشتہ دارليكن تمھاراخاندانى سخت ترين دشمن

عائشه نے كہا _ تم خثعميہ عورت كے فرزند ہو ؟

محمد نے كہاہاں

عائشه نے كہا _ ميرے ماں بآپ تم پر قربان ہوجائيں _ خدا كاشكر ہے كہ اس جنگ ميں تمہارى جان سلامت رہى _

مسعودى كہتا ہے :

عائشه نے پوچھا كہ تم كون ہو ؟تو محمد نے جواب دياكہ ميں محمد ہوں _و ہ محمد جو تمھارا قريب ترين رشتہ دار ہے ليكن تمھارا بد ترين دشمن اس كے بعد كہا اے عائشه اميرالمومنين حضرت على تمہارا حال پوچھ رہے ہيںاور دلجوئي كے طور پر پوچھا ہے كہ اس جنگ ميں تمھيں كوئي زخم تو نہيں لگا ہے ؟

عائشه نے كہا كہ اس جنگ ميں صرف ايك تير مجھے لگا اور وہ بھى كارى اور موثر نہيں _

حضرت على نے عائشه سے گفتگو كى

محمد ابن ابى بكر كے بعد حضرت على عائشه كے خيمہ كى طرف چلے اور ھودج كے سامنے پہنچ كر اس عصا سے جو آپ كے ہاتھ ميں تھا ھودج كى طرف اشارہ كر كے فرمايا

اے حميرا كيا رسول خدا (ص) نے اس فتنہ انگيزى اور مسلمانوں كا خون بہانے كاحكم ديا تھا ؟

كيا ايسا نہيں ہے كہ تمہارے شوہر رسول خدا (ص) نے حكم نہيں ديا تھاكہ اپنے گھر سے باہر نہ نكلنا ؟

۱۴۱

اے عائشه جو لوگ تمہيں يہاں تك لائے ہيں انھو ں نے رسول خدا(ص) كے ساتھ بڑى ناانصافى كى ہے كہ اپنى عورتوں كو تو گھر ميں بٹھا ركھاہے ليكن تيرے جيسى زوجہ رسول كو جو اسلام كى خاتون اول ہے ميدان جنگ ميں گھسيٹ لائے ہيں _

اس موقع پر طبرى كا بيان ہے :

محمد ابن ابى بكر نے اپنى بہن عائشه كولشكر سے علحدہ ايك خيمہ لگايا _ حضرت علىعليه‌السلام اس خيمہ كى پشت پر ائے اور عائشه سے كچھ باتيں كى _ منجملہ ان كے _يہ بھى فرمايا اے عائشه تم نے لوگوں كو ميرے خلاف بھڑكايا كہ مجھ سے جنگ پر امادہ ہوگئے _ اور انھيں ہيجان ميں لاكر ميرى دشمنى ان كے دلوں ميں ڈال دى كہ وہ خونريزى اور ھنگامہ پر امادہ ہوگئے _

حضرت علىعليه‌السلام كى باتوں پر عائشه با لكل خاموش رہيں اور كوئي جواب نہيںديا صرف اتنا كہاكہ ياعلى اب جبكہ تم نے ميرے اوپر قابو پالياہے _ اب تو تم صاحب اختيار ہو معاف كر دينابہتر ہے _

عمار نے عائشه سے بات كي

طبرى اور ابن اثير كہتے ہيںكہ جنگ ختم ہونے كے بعد عمار نے عائشه سے ملاقات كى _

عمار نے كہااے عائشه تم حكم خدا سے كتنى دور ہو گئي ہو رسول خدا (ص) سے تم نے عہد كياتھاكہ گھر ميں بيٹھو گى اور تم نے مخالفت ميں ميدان جنگ كاراستہ اختيار كياكہاں گوشہء خانہ اور كہاں ميدان جنگ ؟ ؟

عائشه نے كہا _ كيا تم ابو يقظان ہو ،تم تو مجھ سے بہت سختى اور صفائي سے باتيں كر رہے ہو

عمار نے كہا ہاں

عائشه نے كہا _ خداكى قسم جب سے تم پہچانے گئے ہو تم نے كبھى حق كے سوا كوئي بات نہيں كى عمار نے كہا _ اس خدا كاشكر ہے كہ جس نے تمھارى ز بان پرميرے بارے ميں كلمہ حق جارى كيا_

۱۴۲

فتح كے بعد معافي

عام معافي

حضرت علىعليه‌السلام كى فوج كامياب ہو گئي اور دشمن كى فوج پر پورا قابو حاصل كرليا _ دشمن كى فوج كى ہريمت وفرار كا راستہ اختيار كيا _ ا س مو قع پر حضرت علىعليه‌السلام نے وہى حكم ديا جو جنگ سے پہلے اپنے سپاہيوں كو پہنچايا تھا _ دوسرى بار بھى وہى متن پڑھ كر سناياآپ كے نمائندہ نے ميدان جنگ ميں بلند اواز سے لوگوں كو اس اعلانيہ كا متن پڑھ كر سنايا _

اے لوگو دشمن كے كسى زخمى كو قتل نہ كرو بھاگنے والوں كا پيچھانہ كرو ، شرمندہ لوگوں كى سرزنش نہ كرو _ دشمن كا كوئي فرد اگر جنگى ہتھيار پھينك دے تو وہ امان ميں ہے اسے ہرگزتكليف نہ پہنچاو جو شخص اپنے گھر ميں داخل ہوكر دروازہ بند كر لے اس كا خون اور جان محفوظ ہے اسے اذيت مت دو _

اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياجو اگر چہ جملہ بہت مختصرہے ليكن بہت جامع اور جذباتى ہے ، اپنے سب كو سناتے ہوئے اعلان فرماياكہ تمام دشمن كے سپاہى چاہے وہ سياہ ہوںياسفيدچھوٹے ہوں يابڑے عورت ہوں يا مرد سبھى كو امان دى جاتى ہے _كسى كو ان سے تعرض كاحق نہيں (ثم امن الاحمر ولاسود )

حضرت علىعليه‌السلام نے اس مختصر جملہ ميں سب كو ازاد فرمايا اور تمام دشمن كے افرادكو عام معافى ديدى اور آپ كى كرامت كاتقاضا بھى يہى تھا صاحب كنزالعمال كہتے ہيں كہ جنگ ختم ہو نے كے بعد بھى وہى جنگ سے پہلے والا فرمان دوبارہ پڑ ھ كر سنايا گياليكن اس بار چند جملہ كا اضافہ كيا گيا _

اے لوگو دشمن كے ناموس واموال تم پر حلال نہيں ہيں تمہيں چايئےہ صرف جنگى ہتھيار ہى لواور ميدان جنگ ميں جو مال لے ائے ہيں انھيں كو حاصل كروبقيہ سارا مال مقتولوں كے پسماندگان كے لئے چھوڑ دو جو شخص ميدان جنگ سے بھاگ گيا ہے اسكو قيدى نہ بنائو انكى دولت كو مال غنيمت سمجھ كر مت لوٹو _ ان كے مال كو حكم قرانى كے مطابق وارثوں ميں تقسيم ہوناچاہيے _ اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے سامنے اعلان فرمايا كہااس جنگ

۱۴۳

ميں جو عورتيں اپنے شوہر سے محروم ہوئي ہيں تم ان سے شادى نہ كرو جب تك وہ دوسرے مسلمانوں كى طرح چار ماہ دس دن كا عدہ وفات پورا نہ كر ليں اس كے بعد تم انھيں عقد ميں لے سكتے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام كا منشاء اس ارشاد سے يہ تھااس جنگ كے بعد دشمنوں كے ساتھ دوسرے مسلمانوں كاسابرتاو كرناچاہيے _ ہاں _ يہ لوگ حضر ت علىعليه‌السلام كى نظر ميں كافروں اور مشركوں سے الگ تھے ا ن پر كفار كا حكم لاگو نہيں ہوا تھا _

اعتراض اور علىعليه‌السلام كا جواب

حضرت علىعليه‌السلام نے دشمن كى فوج كے بارے ميں جو روش اپنائي تھى ا س پر خود آپ ہى كے لشكر ميں اعتراض ہونے لگا _ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى بارگاہ ميں ا كر اس طرح اعتراض كرنے لگے _

ياعلى ا پ نے كل ا ن لوگوںكا خون ہمارے لئے حلال قرار ديا تھا _ اور آپ ہى آج ا ن لوگو ں كامال ہمارے لئے حرام قراردے رہے ہيں ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا :

اہل قبلہ اور جولوگ زبان سے اسلام كاكلمہ پڑھتے ہيںاپنے اسلام كااظہار كرتے ہيں ا ن كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے نافذ كياہے _

ليكن اكثر معترضين اما م كے اس جواب سے مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے اپنى مخالفت جارى ركھى ، حضر ت علىعليه‌السلام نے انھيں مطمئن كرنے كے لئے فرمايا _

اے لوگو اب جب كہ تم لوگ اصرار كے ساتھ كہہ رہے ہو كہ ان لوگو ںكے ساتھ بھى كفار و مشركين كاسابرتاو كرناچاہيئے_ تواب او سب سے پہلے ام المومنين عائشه كے بارے ميں قرعہ ڈالا جائے كيونكہ وہى اس لشكر كى قيادت كر رہى تھيں _ جس كے نام بھى قرعہ پڑ جائے وہ انہيں كفار كى عور توں كى طرح اپنى كنيز بنالے _

۱۴۴

يہ سن كر تمام معترضين كوحضرت علىعليه‌السلام كے اس برتاو كارازسمجھ ميں ايا اور وہ اپنے اعتراض پر نادم وشرمندہ ہوئے _ اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے ا ن لوگوں كو ايك و جدانى دليل سے خاموش كيا ليكن اس مطلب كو پورى طرح واضح كرنے كے لئے آپ نے ايك دوسرى دليل بھى پيش كى اورفرمايا :

چونكہ عائشه كے فوجى بظاہر خدا پرست ہيں _وحدانيت خداكى گواہى ديتے ہيں _ ان كے اسى عقيدہ كے مطابق كہ وہ زبان سے كلمہ پڑھتے ہيں ميں ان پراحسان كر رہاہوں اور ايك توحيد پرست مسلمان كى طرح برتاو كركے ان كے فر زندوں كو ا ن كے مقتول بآپ كاوارث بنا رہاہوں _

صاحب كنزالعمال نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ :

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر ميں خطبہ ديا اسى درميان عمار ياسر نے كھڑے ہو كر كہا :

اے امير المومنين لوگ دشمن كے مال و دولت كے بارے ميں آپ پر اعتراض كر رہے ہيں وہ كہہ رہے ہيں كہ ہم نے جس سے بھى جنگ كى جس قوم و ملت پر فتحمند ہوئے توہم نے ا ن كا مال غنيمت كى طرح حاصل كيااور ان كے بيوى بچوں كوقيدى بنايا(۲۷)

اس سے پہلے كہ حضرت علىعليه‌السلام عمار ياسر كاجواب ديں آپ كے لشكر سے ايك شخص عباد ابن قيس نام كاجو بكر ابن وائل كے خاندان سے تھااور بہت تيز طراراور خوش بيان تھا _ اپنى جگہ سے كھڑا ہو كرحضرت علىعليه‌السلام سے بولا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے بصرہ والوں كے مال غنيمت كى تقسيم ميں آپ نے ہم لوگو ں كے ساتھ انصاف و مساوات كى رعآیت نہيں كي

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا _تجھ پر افسوس ہے _ميں نے تمہارے بارے ميں مساوات و عدالت كى كيسے رعآیت نہيں كى ؟

اس شخص نے كہا : جب آپ نے بصرہ والوں كے كسى مال و دولت كو جسے وہ ميدان جنگ ميں لائے تھے اس كے علاوہ سارے مال كو ہم لوگو ں پر حرام قرار دياان كى عورتوں كى اسيرى كو بھى حرام كر ديااور ان كے بيٹوں كو غلام بنانے سے بھى

____________________

۲۷_ جاہلى عہد كاطريقہ يہى تھا _ ابو بكر نے بھى يہى روش اپنائي تھى جن لوگوں نے انكى بيعت سے سرتابى كى تھى انكے ساتھ بھى جاہلى عہد كا سا سلوك كيا تھا _ ملاحظہ ہو كتاب عبداللہ بن سبا _ اس طرح جن لوگوں نے ابو بكر كو زكوة دينے سے انكار كيا تھا ان سے جنگ كى اور ان سے كفار مشركين كاسا برتاو كيا _ ان كا مال لشكر والوں ميں تقسيم كيا _ اسى وجہ سے جنگ جمل ميں لشكر والوں كو اشتباہ ہواجس كى وجہ سے انھوں نے حضرت على كے اسلامى وانسانى برتاو پر اعتراض كيا _

۱۴۵

ہميں منع كرديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان تمام اعتراض كرنے والوں كو مطمئن كر نے كے لئے اس مرد بكرى سے خطاب فرماتے ہوئے كہا :

اے بنى بكر كے بھائي كيا تم اسلامى قانون نہيں جانتے ہو _ كيا يہ نہيں جانتے كہ بآپ كے جرم كى وجہ سے ان كے بے گناہ چھوٹے بچوں سے مواخذہ كرنااسلامى نقطہ نگاہ سے جائزنہيں ہے ،صرف اس بہانے سے كہ ان كے بآپ نے ہم سے جنگ كى ہے ہميں ان كے بچوں كو قيدى بنانا اور عورتون كو كنيز بنانا جائز نہيں ہے ليكن يہ جو دشمن كى عور توں اور مال كا معاملہ ہے ،يہ لوگ صرف وہى دولت جو جنگ كے موقع اپنے پاس ركھے ہوئے تھے _ اور مسلمان بھى ہيں ہم سے بر سر جنگ ہيں _

ان كى عورتوں كا نكاح اسلامى حكم كے لحاظ سے ہوا تھاان كے بيٹے فطرت اسلام پر پيدا ہوئے تھے ان خصوصيات كے پيش نظر جن كى ميں نے وضاحت كى ہے ان كى عورتوں بچوں اور دولت كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے بيان كياہے _

تمہيں صرف اتنى اجازت ہے كہ يہ لوگ جتنا مال ميدان جنگ ميں لائے تھے اور تم نے اپنى چھاونى سے انھيں لوٹاہے انھيں كو غنيمت كے طور پر لے لواور اسى پر اكتفاء كرو ، اس مال كے علاوہ بقيہ جتنى دولت ہے وہ ان كے بيٹوں كى وراثت ہے اگر كوئي شخص ہم سے جنگ اور مخالفت كے لئے نكلے تو اكيلے اسى كو ہم سزا دينگے اور ا س كا گناہ دوسرے كے ذمہ ہرگز نہيں لاديں گے ، يہاں تك كہ ان كے بچوں كو بھى بآپ كے كر توت كى سزانہيں دى جائے گى _

اے بنى بكر كے بھائي ميں رسول خدا(ص) كى جگہ پر ہوںيہ بصرہ والے ميرے خلاف بغاوت پرامادہ ہيں انہوں نے اپنے بھائيوں كا خون بہايا ميں نے ان كے ساتھ وہى سلوك كيا ہے جو رسول خدا (ص) نے فتح مكہ كے موقع پر لوگو ں كے ساتھ سلوك كيا تھاآپ نے مكہ والوں كاصرف وہى مال لياجو ساتھ ليكر ائے تھے بقيہ انھيں كے حوالہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے مزيدفرمايا : اے بكرى بھائي كيا تو نہيں جانتا كہ دارالحرب يعنى كافروںكا شہر اور دارالہجرت يعنى مسلمانوں كا شہر ان دونوں كے درميان اسلامى قانون ميں فرق ہے كيونكہ دارالحرب كاہرمال جو كفار سے حاصل ہوپورے طور سے مسلمانوں كاہے ليكن جنگ كے موقع پر دارالہجرت كامال صرف وہى مسلمانوں كاہوگاكہ جو جنگ

۱۴۶

كے موقع پر ساتھ لائے ہيں كيونكہ زبان سے وہ كلمہ توحيد پڑھتے ہيں _

اللہ تم لوگوں پر رحم كرے _ خاموش رہو اور عائشه كے لشكر والوں كى اسيرى پر اصرار نہ كرو ورنہ پھر ميرے ايك سوال كاجواب ديدوكہ تم ميں كون ايسا ہے كہ جنگى اسيروں كى تقسيم كے وقت عائشه كو كنيزى كے طور پراپنے حصہ ميں لے كيا تم ميں كوئي ايسا ہے جو عائشه كو كنيزبنا كر اپنے گھر لے جائے _

حضرت علىعليه‌السلام كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ آپ كے لشكر ميں شور مچ گيا چاروں طرف سے اوازيں انے لگيں يا على ہم ميں سے كوئي بھى ايسى حركت نہيں كر سكتارسول خدا(ص) كى نسبت ايسى گستاخى ہم سے نہيں ہو سكتى كہ ان كى زوجہ كو اپنى كنيز بنائيں اس كے بعد انھوں نے كہا _ يا على آپ اپنے عمل ميں حق كے راستہ پر ہيں _ ہم نے اعتراض كركے سخت غلطى كى ہم نے دھوكا كھايا _ يا على آپ كا عمل علم و دانش كى روش ميں تھاہمارا اعتراض جہالت ونادانى تھى _ا ب ہم اپنے گناہ سے توبہ كرتے ہيں اور اپنے اعتراض پرنادم وپشيمان ہيں _ خداوندے عالم آپ كے وسيلہ سے ہميں ہدآیت و رہبرى عطا كرے _

عمار ياسر دوسرى بار كھڑے ہوئے اور لشكر سے خطاب فرمايا :

اے لوگو على كى پيروى كرو _ان كے احكام بجالائوخداكى قسم وہ سيرت رسول(ص) پر عمل كرتے ہيںاور انكى سنت سے ہر گز انحراف نہيں كرتے على وہى راہ اپناتے ہيں جس راہ پر رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو چلايا تھاانكى مثال ويسى ہى ہے جيسى موسى كے سامنے ہارون كى تھى _ ہارون حضرت موسى كے جانشين تھے ، بس فرق يہ ہے كہ رسول (ص) كے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگااور يہ فضيلت وبزرگى حضرت علىعليه‌السلام سے مخصوص ہے _

عمار ياسركى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ لوگوں سے خطاب فرمايا :

جو كچھ ميں تم سے كہتا ہوں اسے مانو اورميرے حكم كو نافذ كرو كيونكہ اگر تم ميرے كہنے پر عمل كرو گے تو انشا اراہ مستقيم اور سعادت ابدى پا جائو گے ،اگر چہ اس راستہ ميں سختياں ہيں اور ناكامياں و تلخياں ہيں _

اب رہ گئيں عائشه تو انكاعقيدہ اور باطنى نظريہ ميرے بارے ميں دشمنى سے بھرپور ہے اسلئے وہ مجھے تكليف پہنچا رہى ہيں ايسى اذيت وہ كسى كے لئے بھى جائز نہيں سمجھيں گى ليكن اسكے باوجودوہ ميرى نظر ميں سابق كى طرح محترم ہيں _ ان كے كرتوتوں كو ميں اللہ كے حوالے كرتا ہوں _خدا ہى ہر شخص كو اس كے گناہوں كى سزا د ے گا

۱۴۷

يا اسے معاف كرديگا _

ابھى امام كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگو ں كى اوازيں انے لگيں ہاں صحيح ہے جو لوگ اعتراض كر رہے تھے وہ اب نادم و پشيمان ہيں _ان لوگوں نے ايك سخت كشمكش كے بعدامام كے ارشادات كى تصديق و تائيدكى اور ان كے حكم پر سر جھكا ديا _ واضح طور پر اعلان كيا كہ ہم غلطى پر تھے يا واضح طور سے اپنى غلطى كا اعتراف كيا _ انھوں نے معذرت كرتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے فوج دشمن كا مال تقسيم كرنے كے سلسلے ميں حكم خدا كے مطابق عمل كياليكن ہم نے جہالت ونادانى كى روش اپنائي اور آپ كى عدالت پر اعتراض كيا،ابن لساف حضرت علىعليه‌السلام كے فوج كاايك بہت تيز طراراور جيالا شخص تھا _ ا س نے اس سارے واقعے كو نو شعروں ميں نظم كيا ہے _

ان رايا را يتموه سفاها ----لحظاالايرادوالاصدار

ليس زوج النبى تقسيم فيئا ---ذاكزيغ القلوب والابصار

فاقبلوا اليوم مايقول على ---لاتناجوابالاثم فى الاسرار

ليس ماضمت البيوت بفي ---انما الفي ماتضم الاوار

من كراع فى عسكروسلاح ---ومتاع يبيع ايدى التجار

ليس فى الحق قسم ذات نطاق ---لاولااخذكم ذات خمار

ذاك فيئكم خذوه وقولوا ---قد رضينالاخيرفى ا لاكثار

انها امكم وان عظم الخط ---ب وجائت بزلة وعثار

فلهاحرمته النبى وحقا ---علينامن سترها و وقار

اے لوگو تم نے جو بصرہ والوں كے بارے ميںرائے ظاہر كى ہے وہ جہالت و نادانى كى بات تھى ، وہ غلط نظريہ تھا ، كيونكہ رسو ل كى زوجہ مال غنيمت كے طور پر حاصل نہيں كى جاسكتى نہ وہ كنيزى ميں لى جاسكتى ہيں ، كيونكہ يہ عمل وجدان كے اعتبار سے كوتاہ نظرى اور فكرى انحراف ہے اس لئے آج جو كچھ حضرت علىعليه‌السلام ارشاد فرمارہے ہيں اس كومان لواور اپنى بيجا باتيںاور لچر اعتراضات اور سر گوشياں ختم كر دو حضرت على كے فرمان كے مطابق عمل كرو جو مال و دولت

۱۴۸

مقتولوں كے گھر ميں ہے اسے مت لوٹو اور اسپرتصرف مت كروبس وہ جنگى ہتھيار، كپڑے ، اور گھوڑ ے جو ميدان جنگ ميں لائے تھے انھيں كومال غنيمت كے طور پر لے لواور وہ تمھارے اوپر حلال ہے مختصر يہ كہ جو كچھ دشمنوں كى دولت تمھارے لئے حضرت على جائز سمجھيں وہ تمھارا حق ہے تمھيں اس پر مطمئن ہو جانا چاہئے _

اے لوگو عائشه تمھارى ماں ہيں اگر چہ ان كاجرم بہت بڑا اور لغزش زبر دست ہے وہ رسول خدا(ص) كى خاطر سے محترم ہيںہم پر ان كا احترام لازم ہے ہميں ان كى ابرو اور حيثيت كو محفوظ ركھنا چاہئے(۲۸) _

حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟

جيسے ہى ابن يساف نے اشعار پڑھے حضرت على كے لشكر سے ايك دوسراشخص بولا اے اميرالمومنين ، آپ نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟ اس كى وجہ كيا تھى ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب دياكہ ميں نے طلحہ و زبير سے اس لئے جنگ كى كہ انھوں نے ميرى بيعت توڑ دى تھى اور انھوں نے بے گناہ اور پاك نفس لوگوں كو قتل كيا ، انھوں نے حكيم بن جبلہ كا ناحق خون بہايا ،بيت المال كو لوٹا ،يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ بے گناہ لوگوںكاظلم وتعدى سے خون بہايا جائے اور امام و پيشوا ان كا دفاع نہ كرے ؟

جو سلوك ميں نے طلحہ و زبير كے ساتھ كيا ہے يہ مجھ ہى سے مخصوص نہيںہے كيونكہ اگر انھوں نے ابو بكر و عمركى بھى بيعت شكنى كى ہوتى اور لوگوں كا ناحق خون بہايا ہوتاتو وہ بھى دفاع كرتے اور ان سے جنگ كرتے _

اے لوگو يہ تمہارے درميان اصحاب رسول خدا ہيں جو ميرى باتوںكى گواہى ديں گے كہ جو شخص بھى ابوبكر و عمر كى بيعت سے سرتابى كرتاوہ لوگ انھيں تلوار سے سرزنش كرتے اور اپنى بيعت ميںوآپس لاتے اور دوبارہ حكومت كى پيروى پر مجبور كرتے ،جيسا كہ خليفہ او ل كى بيعت كے وقت انصار نے ان كى بيعت سے انكار كياتوانھوں نے سختى كى اورانصاركو مجبوركيا كہ وہ ان كى بيعت كريں _ حالانكہ انصار كى بيعت راضى خوشى سے نہيں تھى ليكن اس كے باوجود بيعت كا احترام كيا گيا اور اس پر اخر تك باقى رہاگيا ليكن ميں كيا كرو ں؟ كہ طلحہ و زبير نے رضا مندى اور پورى ازادى كے

____________________

۲۸_ تاريخ يعقوبى ، كنز العمال ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ميں ان تفصيلات كو ديكھا جا سكتا ہے _

۱۴۹

ساتھ ميرى بيعت كى ليكن دير نہيں گزرى كہ انھوں نے اپناعہد وپيمان توڑ ديا ان

كے دل ميں بصرہ و يمن كى گور نرى كى لالچ بھرى ارزو تھى ليكن چونكہ ميں نے ان كے اندر حرص ولالچ ديكھى اس لئے حكومت بصرہ و يمن نہيں دى _دوسرے يہ كہ انھيں مال و دولت حاصل كرنے كى ہوس تھى _ انھوں نے مسلمانوں كے مال ودولت پر اپنى انكھيں جمادى تھيں وہ مسلمانوں كو اپنا غلام عور توں كو كنيزبناناچاہتے تھے ان كى دولت كومال غنيمت سمجھ كے لوٹناچاہتے تھے يہ تمام باتيں ميرے مشاہدہ ميں ائيں توميں اس پر مجبورہوگياكہ ان سے جنگ كركے ان كے ہاتھوںمسلمانوں كے جان ومال كى طرف بڑھنے نہ دوں ،مسلمانوںكو ان كے شر و فسادسے مطمئن كروں _

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ والوںكى طرف رخ كيااور ان كى كرتوتوں پر سر زنش فرماتے ہوئے كہا :

بصرہ والوں تم ايك بے منھ كے جانور كے سپاہى ہو _ اس نے شور مچاياتو سخت طريقہ سے حملہ اور ہوگئے ،جس و قت وہ جانور قتل ہو گيا زمين پر لوٹنے لگاتو اسے چھوڑ كر فرارہو گئے بصرہ والو تم بڑے بد اخلاق اور عہد شكن ہو _ تمہارابرتاو نفاق سے بھرپور ہے يہ تمہارى سيرت ميں داخل ہے اور اس پر ہميشہ باقى ر ہوگے _ تم ايسے لوگ ہو كہ جوشخص بھى تمہارے درميان زندگى بسر كرے وہ گناہوں اور غلطيوںميںمبتلاہو جائے _جو تمہاراماحول چھوڑ كر الگ ہو جائے اس پر رحمت خداكى بارش ہو _

عائشه ، مدينہ وآپس ہوئيں

جنگ ختم ہو گئي عام معافى كا اعلان كر ديا گيا _ اور جنگ كے درميان جو دشمن كامال غنيمت ہاتھ ايا تھا حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تقسيم كر ديا گيا _ گو مگو كى كيفيت ختم ہو گئي _ پانى كا سيلان بھر گيا ،بھانت بھانت كى اوازيں خاموش ہو گئيں _ حالات معمول پر اگئے ،اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے چچيرے بھائي عبداللہ بن عباس كو اپنے پاس بلوا كر فرمايا _ اے عبداللہ _ تم عائشه كے پاس جاكر انھيں اپنے شہر وآپس جانے كے لئے راضى كرو _

۱۵۰

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميں عائشه كے پاس گيا اور ملاقات كى اجازت طلب كى تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كآپيغام پہنچاو ں _

انھوں نے مجھے اجازت نہيں دى ،ميں بغير اجازت ہى خيمہ كے اندر داخل ہو گيا پاس ميں ركھے گاو تكيہ كو اٹھا كر دبايا اور انھيں كے سامنے بيٹھ گيا عائشه نے كہا اے ابن عباس خدا كى قسم ميں نے تم سے زيادہ حكم رسول كو نظر انداز كرنے والا نہيں ديكھا _ تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں چلے ائے اور ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھ گئے ؟

ايك دوسرى روآیت ہے كہ عائشه نے ابن عباس سے كہا _ تم نے دو غلطياں كركے حكم رسول كى مخالفت كى _ كيو نكہ سب سے پہلے تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں داخل ہوئے دوسرے ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھے _

ابن عباس نے كہا:تم نے احكام ہم ہى سے سيكھے اور اب ہم ہى كو ياد دلارہى ہو ،يہ ديكھوحضرت علىعليه‌السلام تمھيں حكم دے رہے ہيں كہ اپنے شھر وآپس جاو _

عائشه نے كہا _ خداعمر پر رحمت نازل كرے كہ وہ اميرالمومنين تھے

ابن عباس نے كہا: ہاں _ اب حضرت على اميرالمومنين ہيں

عائشه نے كہا : نہيں، نہيں ، ميں انھيں ہرگز اميرالمومنين نہيں جان سكتى ان كے حكم سے وآپس جانے پر تيار نہيں ہوں _

ابن عباس نے كہا _ اے عائشه وہ زمانہ بيت گيا _ تمھارى تقررى اور برخاستگى كاتيا پانچہ ہو گيا _ آج تمھارى رائے اور بات كاكوئي اثر نہيں ہے _ تمھارى موافقت و مخالفت برابر ہے _

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميرى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ عائشه پر گريہ طارى ہو گيا، اس قدرشديد گريہ كہ دہاڑ مار كررونے لگيں ،ان كى ہچكياں سن رہا تھا(۲۹)

____________________

۲۹_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ اعثم كوفى ص ۱۸۱ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۲ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۱

پھر انھوں نے كہا : اے عبداللہ ٹھيك ہے ،ميں اپنے شہر وآپس جاو نگى ،ميں نہيں چاہتى كہ اس شہر ميں رہوں جہاں تم دونوں ہو _ (ان ابغض البلدان الى بلد انتم فيه )

ابن عباس نے كہا: اے عائشه خداكى قسم ہم بنى ہاشم كى نيكى كابدلہ يہ نہيں تھا كہ ہمارے خلاف بغاوت كرو _ ہمارى مخالفت كاراستہ اپناو _ ہم ہى تھے كہ تمہيں ام المومنين بنايا ،ہم نے تمھارے بآپ كو صديق امت بنايا_

عائشه نے كہا : عبداللہ تم رسول خد(ص) اكو ہم سے اپنى طرف گھسيٹ رہے ہو ان كے نام سے ميرے اوپرفخرجتا رہے ہو _

ابن عباس نے كہا: ہاں ہم ايسے خاندان كى فرد ہيں كہ اگر تم بھى اس خاندان سے ہوتى تو ميرى طرح فخر ومباھات كرتي_

ابن عباس كابيان ہے كہ: عائشه سے گفتگو كے بعدوآپس حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا ، سارى باتيں دہرائيں _آپ نے ميرى پيشانى پر بوسہ ديكر فرمايا :

ان خانوادے پر صلوات جو گويائي اور حاضرجوابى ميں ہمارى طرح ہيں (بابى ذرية بعضها من بعض )

اعثم كوفى نے فتوح البلدان ميں نقل كيا ہے كہ:

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام رسول خدا(ص) كے مخصوص خچر دلدل پرسوار ہوكربصرہ ميں اس گھر كى طرف چلے جہاں عائشه عارضى طور سے ٹھہرى ہوئي تھيں ،اجازت لينے كے بعدگھر ميں داخل ہوئے اميرالمومنين نے ديكھاكہ عائشه كچھ بصرہ كى عورتوں كے ساتھ گريہ وزارى كر رہى ہيں ،اس وقت حارث ثقفى كى بيٹى صفيہ اوردوسرى عورتوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر كہا :

يا على آپ نے ہمارے رشتہ داروںاور دوستوں كو قتل كيا ہمارى جميعت كو درہم برہم كيا ، خدا تمہارے بھى بچوں كو يتيم كرے جيسے تم نے عبداللہ خلف كو يتيم كر كے بآپ كى موت پر اس كى انكھيں اشكبار كى ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے صفيہ كو پہچان كر فرمايا :

اے صفيہ ميں تمہيں اس دشمنى اورعنا دپر تجھے ملامت نہيں كرونگاكيونكہ ميں نے ہى جنگ بدر ميں تيرے داداكو اور جنگ احد ميں تيرے چچاكو قتل كيا ہے _ اور اب تيرے شوہر كو موت كے گھاٹ اتاراہے اور اگر ميں رشتہ داروں اور عزيزوںكا قاتل ہوتاتو اس وقت اس گھر جو لوگ چھپے ہوئے ہيں انھيں بھى قتل كر ڈالتا

۱۵۲

اسكے بعد اميرالمومنين نے عائشه سے فرمايا :

اے عائشه اپنى كتيوں كو يہاں سے بھگاتى كيوںنہيں ہو ؟

عائشه سن لو كہ اگر ميں لوگوں كى سلامتى نہيں چاہتاتو ابھى اس گھر ميں چھپے ہوئے لوگو ں كوگھر سے نكالتا اور ايك ايك كى گردن مارديتا _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ :

يہ سنتے ہى عائشه اور تمام عورتوں نے چپ سادھ لى ان سب كى بولتى بند ہو گئي _

اس كے بعد امير امومنين نے عائشه كو مخاطب كر كے سر زنش كى _

اے عائشه _ خدا نے تمہيں حكم ديا تھاكہ اپنے گھر ميں نچلى بيٹھى رہو غيرو ں سے پر دہ كرو ، ليكن تم نے حكم خدا كى مخالفت كي_ اپنا ہاتھ مسلمانوں كے خون سے رنگ ليا ،لوگوںكو ميرے خلاف بھڑكايا اور ظالمانہ طريقہ سے عظيم جنگ كھڑى كردى _ حا لانكہ تم اور تمھارے خاندان نے ہمارے ذريعہ سے عزت و شرف حاصل كياہمارے ہى خاندان كے وسيلہ سے تم ام المومنين بن گئي ہو _

عائشه اب تمہيں چلنے كے لئے تيار ہو جانا چاہئے _ تم اسى گھر ميں جاكر رہو جہاں تمہيں رسول خدا(ص) نے بٹھاياتھا _ وہاںتم زندگى كى اخرى سانسوں تك رہو _

حضرت علىعليه‌السلام اتنا فرماكر وہاں سے چلے ائے _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ: اسى كے دوسرے دن حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندحسن مجتبى كوعائشه كے پاس بھيجا ،امام حسن نے عائشه سے كہا ميرے بابااميرالمومنين فرماتے ہيں كہ :

اس خداكى قسم جس نے دانے كو شگافتہ كيا ، اس خداكى قسم جس نے انسانوں كو پيداكياكہ اگر تم نے اسى وقت مدينہ كے لئے كوچ نہيں كياتواس بارے ميں جسے تم خود جانتى ہو انجام دے دوںگا جيسے ہى يہ پيغام عائشه نے سنا فوراً اٹھ كھڑى ہوئيں اور كوچ كى تيارى كرنے لگيں _

ايك عو رت نے جب اس عجلت كو ديكھا تو سوال كيا كہ اے ام المومنين عبداللہ ابن عباس آپ كے پاس ائے اور آپ سے مدينہ جانے كو كہا ليكن آپ نے انكى بات نہ ماني، بلكہ تم نے تو ان كا كلّہ بہ كلّہ جواب ديا _

ابن عباس تمہارے پاس سے خفا ہو كر چلے گئے ان كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ائے اور تمہارے اندر ذرابھى بے چينى نہيں

۱۵۳

ديكھى گئي ليكن جيسے ہى يہ جوان تمھارے سامنے ايا اور بآپ كا پيغام پہنچايا تمہارے انداز ميں عجيب اضطراب اور بے چينى پيداہو گئي اور اسكى بات كو تم نے فوراً قبول كر ليا ؟

عائشه نے جواب ديا _ ہاں _ميرا اضطراب اسلئے تھا كہ يہ جوان رسول خدا (ص) كى يادگار اور ان كا فرزند ہے رسول كے اوصاف كانمونہ ہے ،اسے ديكھتے ہى مجھے رسول خدا (ص) كا سرآپا ياد اگيا ،جسے بھى رسول خدا كاسرآپاديكھنا ہو وہ اس جوان كو ديكھ لے _ دوسرى طرف يہ بھى كہ يہ جوان اپنے بآپ كاوہ پيغام لاياتھا جسے سن كر ميں خوف زدہ ہو گئي اور كوچ كرنے پر مجبور ہو گئي _

اس عورت نے اخرى بات سنكر كر يدنے كے لئے پوچھا

اے عائشه _ ميں آپ كو قسم ديتى ہوں خدائے تعالى كى كہ بتايئے وہ حضرت علىعليه‌السلام كا پيغام كيا تھا جو آپ ميں اتنااثر ديكھا گيااور آپ اتنا بے چين ہو گئيں ؟

عائشه نے جواب ديا _ تيرا ناس ہو جائے _ ارے ايك جنگ ميں رسول خدا(ص) كو بہت زيادہ مال غنيمت حاصل ہوا تھا _ آپ نے سب كو اپنے اصحاب ميں تقسيم كر ديا _ ہم ازواج نے چاہا كہ ہم لوگوں كو بھى اسميں سے حصہ دياجائے _ ہم نے اپنے مطالبہ ميں بہت اصراركيا اور بڑى اودھم مچائي ،حضرت علىعليه‌السلام ہمارى حركتوں كو ديكھ كر غصہ ميں بھر گئے _ ہميں سر زنش كرنے لگے ،انھوں نے كہاكہ اب بس بھى كرو _ تم نے رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ رنجيدہ خاطر كيايہ سن كر ہم لوگ على سے بھى لڑائي بھڑائي پر تن گئے ،انھيں بھى سخت جواب ديا ،حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ميں يہ آیت پڑھي'' عسى ان طلقكن(۳۰) ''

اگر تمھيں طلاق دياجائے تو خدا وند عا لم تمھارى جگہ تم سے بہتر اور نيك كردار عورتيں انھيں عطا كرے گا ہم نے يہ آیت سن كر سخت غضبناك انداز ميں اور بھى سخت جواب ديئے _ اس وقت رسول خداكے چہرے پر اثار غضب ظاہر ہوئے ا پ نے حضرت علىعليه‌السلام كى طرف رخ كر كے فرمايا :

____________________

۳۰- سوره تحريم آيه ۶۶

۱۵۴

اے على ميں اپنى تمام ازواج كے طلاق كا اختيارتمھيں ديتا ہوں _

جسے بھى تم طلاق دے دو گے اس سے ميرى زوجيت كارشتہ ختم ہو جائے گا _

رسول خدا(ص) نے اس وكالت كو كسى خاص وقت ميں معين نہيں كيا تھا ،يہ اختيار ہميشہ كے لئے على كے پاس محفوظ ہے جب بھى وہ چاہيں رسول(ص) كى طرف سے ان كے ازواج كو طلاق ديديںاور انكى رسول سے جدائي كرديں ،حضرت علىعليه‌السلام نے جو پيغام بھجوايا تھا ا س كامطلب يہى تھا ، كيو نكہ اگر ميں جلدى سے كوچ پر امادہ نہ ہو جاتى تو وہ مجھے طلاق دے ديتے _ ميرى ام المومنين كى حيثيت ختم ہو جاتى(۳۱)

كتاب عقدالفريد كے مولف نے لكھاہے كہ :

اس گفتگو كے بعد جب عائشه نے مدينہ جانے كااعلان كرديا _ حضرت علىعليه‌السلام نے تمام وسائل سفر عائشه كے اختيار ميں ديديئے _ اور انھيں چاليس يا ستّر عورتوں كے ساتھ مدينہ روانہ كرديا_

طبرى كابيان ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عائشه كے لئے بہترين وسائل سفر مھيا كئے ،اور انھيں بارہ ہزار درہم بھى عطا كئے اور انھيں بہت سے عورتوں مردوں كے ہمراہ مدينہ روانہ كيا جب يہ بارہ ہزاركى رقم عبداللہ بن جعفر(۳۲) كو كم معلوم ہوئي تو دوبارہ ايك معتديہ رقم عائشه كو عطا فرمائي _

انھوں نے فرمايا كہ اگر اميرالمومنين نے اجازت نہيں دى تويہ تمام رقم ميں اپنے ذمہ لے لوںگا _

مسعودى نے بھى عائشه كى وآپسى كے بارے ميں لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عبد الرحمن بن ابى بكر كو مامو ر فرمايا كہ اپنى بہن عائشه كو بنى عبدقيس اور ہمدان كى شريف عورتوں كے ہمراہ مدينہ پہنچا ديں _

اس واقعہ كو يعقوبى اور ابن اعثم نے بھى اپنى تاريخوں ميں لكھاہے فرق صرف يہ ہے كہ انھوں نے عبدالرحمن كانام نہيں لكھاہے(۳۳)

ان كى ماں اسماء بنت عميس خثعمى تھيں ، ان كے ماں بآپ دونوںہى اوائل ميں حبشہ ہجرت كى تھى ، وہيں حبشہ ميں عبداللہ پيدا ہوئے ،وہ پہلے مسلمان مولودہيں جو حبشہ ميں پيدا ہوئے اور اپنے بآپ جعفر كے ساتھ مدينہ وآپس ہوئے

____________________

۳۱_ ترجمہ فتوح بن اعثم ج۲ ص ۳۳۹_ ۳۴۰

۳۲_ عبداللہ بن جعفر حضرت علىعليه‌السلام كے بھائي جعفر كے صاحبزادے تھے _ قرشى وہاشمى تھے

۳۳_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۳ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۵

جب ان كے والد كاانتقال ہواتو انكى ماں اسماء نے ابو بكر سے عقد كر ليا _ ا س طرح عبداللہ اور محمد بن ابى بكر مادرى بھائي ہيں _جس طرح محمد اور عائشه پدرى بھائي نہيں تھے عبداللہ دس سال كے تھے كہ رسول خدا (ص) نے انتقال فرمايا_ عبداللہ بڑے كريم حليم اور عرب كے سخى ترين لوگوںميں تھے مشہور ہے كہ ۸۰ ھ يا ۸۴ھ يا ۸۵ھ ميں نوے سال كى عمر ميں انتقال كيا ،ابان بن عثمان جو مدينہ ميں گورنر تھے ، انھوں نے آپكى نماز جنازہ پڑھائي_(۳۴)

جنگ جمل كے بدترين نتائج

جنگ جمل كے بدترين اثار ونتائج جو كچھ مترتب ہوئے اور بتدريج اس كے عواقب سامنے ائے وہ واقعى حيرت ناك ہيں_

مورخين نے اس بارے ميں لكھاہے كہ :

جنگ جمل ميں دونوں طرف سے ا س قدر تير اندازى ہوئي كہ دونوں كے تركش خالى ہو گئے ، دونوںفريق ميں ا س قدر نيزوںكى ردوبدل ہوئي كہ سپاہيوںكے سينے چھلنى ہوگئے _ دونوںلشكر سے ا س قدر افرادزمين پر ڈھير ہوئے كہ اگر سب لاشوںكو ميدان ميں جمع كر كے گھوڑے دوڑائے جاتے تو كسى گھوڑے كآپاو ں زمين پر نہ پڑتا خود ايك شخص جو اس جنگ ميں شريك تھابيان كرتا ہے كہ جنگ جمل كے بعد ميں جب بھى بصرہ دارالوليد دھوبيوں كے گھاٹ سے گزرتا تھا اوردھوبيوں كے كپڑا پيٹنے كى اوازسنائي ديتى تھى تو مجھے جنگ جمل ياد اجاتى تھى ،جس جنگ ميں نيزوںكى باڑھ يوں گونجتى تھى جيسے دھوبى كپڑآپيٹ رہا ہو(۳۵)

ہم نے گزشتہ صفحات ميں اس جنگ كے متعلق مورخين كے بيا نات نقل كئے ہيں كہ اس دن كس طرح بدنوں سے سر جدا ہو رہے تھے ، ہاتھ كٹ رہے تھے ،پيٹ پھٹ رہے تھے _

مصيبت كے ماروں كى تعداداور اس جنگ ميں كٹے ہاتھوں اور پھوٹى انكھوں كى تعدادتصور سے بھى كہيں زيادہ ہے _ مقتولوں كى تعداد طبرى نے چھ ہزار لكھى ہے ، ليكن ابن اعثم نے اپنى تاريخ ميں عائشه كے لشكر كے مقتولوں

____________________

۳۴_اسد الغابة ج ۳۰ ص ۱۳۳ ، استيعاب ص ۴۲۲

۳۵_ طبرى ج۵ ص ۲۱۸ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۲

۱۵۶

كى تعداد نو ہزار لكھى ہے ، اور حضرت علي(ع) كے لشكر سے سات ہزار قتل ہوئے _

ابن عبدربہ عقدالفريدميں لكھتے ہيں كہ جنگ جمل ميں لشكر عائشه كے بيس ہزار افراد قتل ہوئے اور حضرت على كے لشكر كے پانچسوافراد قتل ہوئے _

تاريخ يعقوبى ميں ہے كہ دونوں طرف كے مقتولوں كى تعدادتيس ہزار سے زيادہ ہے(۱)

جى ہاں_ جنگ جمل ميں حد سے زيادہ اقتصادى نقصان پہنچا _جانى اور جسمانى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا _ كتنى ہى مائوں نے اپنے جوانوں كے داغ جھيلے _ كتنى ہى عورتيں بيوہ ہو گئيںاور ڈھير سارے بچّے يتيم ہوئے _

يہ تمام طمانچے ،نقصانات اور خرابياں صرف ايك دن ميں وارد ہوئيں،ہاں اسى دن جب شورش اور جنگ اسلامى معاشرے پر تھوپا گيا _ايك محدود اور معين نقطے پر ،ليكن ان نقصانات اور بدترين نتائج كے علاوہ بعد كے ايام ميں سالوں بعد اسلامى معاشرے پر اس جنگ كى وجہ سے وارد ہونے والے نقصانات اس سے كہيں زيادہ ہيں جو اسلامى ممالك نے جھيلے، ان كا تو اندازہ ہى نہيں كيا جاسكتا _ ہم يہاں كچھ تاريخوں كے تجزيے قارئين كرام كے سامنے پيش كر رہے ہيں_

بعد كے نتائج

ايك جنگ جمل كا تلخ ثمرہ يہ ہوا كہ جنگ صفين كى اگ بھڑك اٹھى _ كيونكہ واقعى بات يہ ہے كہ جنگ صفين اصل ميں جنگ جمل كااختتاميہ اور اسى كا بدترين اثر ہے _ يہ دونوں جنگوں كا باہم مضبوط رشتہ ہے _ جسكى ابتدا ميدان بصرہ ميں اور انتہاميدان صفين ميں ہوئي، اس رشتہ كاسراعائشه كے ہاتھ ميں نظر اتا ہے ، انھوں نے اپنے مضبوط ہاتھوں ميں تھام كر اخر اخر تك اسے حركت ديتى رہيں _

كيونكہ عائشه قبيلہ تيم سے تھيں ان كا عثمان كے خاندان سے كوئي رشتہ نہ تھا _ ان كى بغاوت نے معاويہ كى بغاوت كاراستہ ہموار اور اسان كيا ،انھيں كى وجہ سے معاويہ كو بہانہ ہاتھ ايا،كيونكہ جب عثمان كے غير خاندان كى عورت

____________________

۱_ طبرى ج۵ ص ۲۵ ، عقد الفريد ج۴ ص ۲۲۴ ، تاريخ اعثم كوفى جمل

۱۵۷

خون عثمان كا مطالبہ كر سكتى ہے تو معاويہ بدرجہ اولى اس انتقام كا حق ركھتے ہيں ، چنانچہ انھوں نے خون عثمان كو بہانہ بنا كر جنگ صفين كھڑى كر دى _

۲_ انتقام عثمان كا مطالبہ عائشه اس بات كا سبب بنا كہ معاويہ خلافت كواپنے خاندان بنى اميہ ميں موروثى حيثيت سے قرار ديں كيونكہ خليفہ مقتول انھيں كے خاندان سے تھے _انھوں نے خلافت كو اس طرح موروثى قرار دياكہ كسى دوسرے خاندان ميں منتقل ہونا ممكن نہ ہو _

۳_ جنگ جمل برپاہونے اور ختم ہونے كاسلسلہ جارى رہابلكہ يہ دونوں جنگيں جمل وصفين ايك دوسرے سے ا س قدر پيوست تھيں كہ ايك تيسرى جنگ پيدا ہوئي جسے جنگ نہروان كہا جاتا ہے ، اس جنگ نے بھى بہت سے مسلمانوںكو خون ميں نہلايا _

كيونكہ ان دونوںجنگوںنے بدباطن لوگوںميں تنگ نظرى اور برے نظريات پيداكر ديئےور ايسى كوتاہ فكرى پيدا كردى كہ لوگ تشويش و اضطراب كى زد ميں اگئے _ الزام وجو ا بى الزام كى فضا بن گئي _ عناد كى نظريں ايك دوسرے كو ديكھنے لگيں اكثر مسلمانوں نے تكفير كے فتوے ايك دوسرے كو دئے اور ايك دوسرے كا خون مباح سمجھ ليامسلمانوںميں امن و اسائشے نام كو نہيں رہ گئي ، جنگ و خونريزى كے دروازے كھل گئے جس كا سلسلہ بنى عباس كے عہد تك جارى رہا اس درميان بے شمار مسلمانوںنے اپنى جان سے ہاتھ دھويا اس تجزئے سے معلوم ہوتاہے كہ جنگ جمل صرف بصرہ تك ہى محدود نہيں رہى _ جو ميدان بصرہ ميںمحدود وقت تك برپا رہى بلكہ اس جنگ نے كشش پيداكى اور اسلامى سر زمين كے زيادہ حصہ ميں پھيلتى چلى گئي ، بہت سے مسلمانوں كو متاثر كيا اور ايك طويل مدت تك مسلمانوں ميں اپنى گونج پيداكرتى رہى جنگ جمل كے نام سے تو نہيں بلكہ اسكے نام مختلف تھے اور اسكے عنوان الگ تھے _

نظرياتى اختلافات كى پيدائشے

كسى بھى قوم اور معاشرے ميں جنگ و خونريزى ہونے سے ہر طرح كے اختلافات اور نظرياتى ٹكرائوكے راستے رد عمل كے طور پر كھل جاتے ہيں نظرياتى تضادرہن سہن ميں اختلافات اور عقيدے ميں ٹكرائو كى فضا بن جاتى ہے ،فكرى اختلاف عملى اختلاف كا باعث بنتاہے اسكے برعكس عملى اختلاف نظرياتى اختلاف كو جنم ديتا ہے _

جنگ جمل وصفين ونہروان بھى اس قانون طبيعى سے مستثنى نہيں رہے ہر ايك جنگ نے اپنے مخصوص دائرے ميں مسلمانوںكے افكار ميں اور روح ميں بھى اپنے اثرات چھوڑے _ اس جنگ كے بعدلوگ كئي گروہ وعقيدہ اور طرز تفكر ميں بٹ گئے _

۱۵۸

كچھ تو طر ف دار حضرت علىعليه‌السلام ہوئے انھيں علوى گروہ كہا جانے لگا(۲) كچھ لوگ عثمان كے طرفدارہوگئے انھيں عثمانى پارٹى كہا جانے لگاكچھ ايسے تھے جنھوں نے ان دونوں كو كافر كہہ ديا ، كچھ نے بنيادى طور پر ان دونوں سے ا پنے كوالگ ركھا _ وہ لوگ اخر تك غير جانبدار رہے ، اسى طرح ہر گروہ نے ايك نئي پارٹى بنا لى اور اپنى پارٹى كانيا نام ركھ ليااور اسى نام سے مشہور ہو گيا _

يہى وجہ تھى كہ داخلى جنگوں كے بعد مسلمانوں كے درميان نئے نئے مذاھب،فرقے اور عقيدے پيداہوتے گئے _اس فكرى اختلاف نے جو جنگ كے نتيجے ميں پيدا ہوئے تھے بعد ميں بھى نئي جنگوں كے راستے ہموار كئے جو بڑى شديد اور خونريز ہوئيں اور اگر خونريز جنگ نہيں ہوتى تو سرد جنگ اور گومگو كى كيفيت كى وجہ سے كلامى بحثيںپيدا ہو گئيں ، يہ تمام خرابياں اسى جنگ جمل كے نتيجے ميں پيدا ہوئيں(۳)

جى ہاں_ جنگ جمل سے ان نقصان دہ نتائج كے علاوہ جن كا گزشتہ صفحات ميں تذكرہ كيا گيا بہت بڑے بڑے اختلافات اور شديدكشمكشوں نے بھى مسلمانوں كے گروہ ميں جنم ليا _

خوارج كا عقيدہ تھا كہ طلحہ ،زبير اور عائشه نے حضرت على سے جنگ كى ،انھوں نے اپنے امام كى مخالفت كي، اس وجہ سے يہ سب كے سب مخالفت على كى وجہ سے كافر ہو گئے ان كا اسلام سے كوئي تعلق نہ رہاكيونكہ اس دن حق على كى طرف تھا _ ليكن انھوں نے بھى جنگ صفين ميں تحكيم كو منظور كر ليا ابو موسى اشعرى اور عمروعاص كو كا حاكم مان ليا اس لئے وہ بھى اسلام سے خارج ہو گئے _

خوارج كے كچھ فرقہ جنگ جمل ميں على كو حق پر سمجھتے ہيں،ليكن چونكہ انھوں نے تمام بصرہ كى دولت مال

____________________

۲_ يہ علوى كہے جانے والے لوگ شيعوں كے علاوہ ہيں ، كيونكہ شيعت كى ابتداء زمانہ رسالت ميں ہوئي ہے جن كا نمونہ عمار ياسر ، مالك اشتر جيسے لوگ ہوئے _

۳_ كتاب عثمانيہ جاحظ ج۵۵ ص ۲۵۰ ، ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۵۹

۱۵۹

غنيمت كے طور پر لوٹنے كى اجازت نہيں دى ، ان كے بچوں اور عورتوں كو اسير نہيں كيا اس لئے انھوں نے غلطى كى _ اس غلطى كى وجہ سے وہ حضرت علىعليه‌السلام كو گالى ديتے ہيں اور لعنت كرتے ہيں(۴)

معتزلہ كے بعض فرقے ان دونوں گروہوں كو كافر كہتے ہيں عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام ہر دو لشكر كے افراد كو دائرئہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں ان كاخيال ہے كہ يہ دونوں ہميشہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے(۵)

معتزلہ كے كچھ دوسرے گرو ہ ان دونوںمخالف دھڑوںكو بغير معين كئے فاسق اور جہنمى كہتے ہيں كيونكہ يہ دونوں گروہ فاسق اور گنہگار تھے ليكن ان ميں سے ايك فاسق اور جہنمى ہوگاجسكا فيصلہ خدا كرے گا،اس گروہ كے عقيدہ كے مطابق ان دونوں ميں سے كسى كى بھى شہادت قابل قبول نہيں _ وہ يہ كہتے ہيں كہ على و عائشه كے تمام لشكر والے اگر ايك ہرے پتے كى گواہى ديں تو قبول نہيں كى جا ئے گى نہ اس گواہى پر اعتباركياجائے _(۶)

معتزلہ كے تيسرے گروہ كا عقيدہ لشكر عائشه كے بارے ميں يہ ہے كہ ان ميں سبھى يہا ں تك كہ طلحہ و زبير بھى گنہگار اور جہنمى ہيں ليكن ان ميں وہ لوگ جہنمى نہيں رہيں گے جنھيں اپنے كئے پر احساس پشيمانى ہو ااور انھوں نے توبہ كر لى _ اس گروہ كا خيال يہ ہے كہ عائشه ان لوگوں ميں تھيں جنھوں نے پشيمانى ظا ہر كر كے توبہ كى كيونكہ عائشه جنگ كے بعد امير المومنين كے پاس ائيں اور اپنے گناہ كا اعتراف كيا ان سے معافى مانگى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى انہيں بخش ديا _اور انكى لغز ش ا ور گناہوں سے صرف نظر فرمايا(۷)

جاحظ كہتے ہيں كہ عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بارے ميں بعض لوگوں كا عقيدہ يہ ہے كہ دونوں لشكر كے فوجى افسران تو نجات پا جائيں گے ليكن ان كے فوجى جہنم ميں داخل كئے جائيں گے(۸)

زيادہ تر اشاعرہ كے لوگوں كا لشكر عائشه كے بارے ميں يہ عقيدہ تھا كہ انھوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف خروج كر كے غلطى كى ،مرتكب گناہ ہوئے ليكن ان كا يہ گناہ ايسا نہيں كہ انھيں كافر كہا جا سكے نہ ا ن كا گناہ فسق كا باعث ہے ، ان كى اس غلطى كى وجہ سے عداوت يا دشمنى ركھنا منا سب نہيں ،بلكہ يہ غلطى اشتباہ كى وجہ سے ہوئي اور يہ معمولى غلطى ہے جو

____________________

۴_ الملل ج۱ ص ۱۷۶ ، التبصير ص ۲۷ ، الفرق بين الفرق ص ۵۸

۵_ التبصير ص ۴۲

۶_ التبصير ص ۴۱

۷_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۳ ص ۲۹۶_ ج۲ ص ۴۴۸

۸_ كتاب عثمانيہ جاحظ ص ۲۴۶ ، طبع مصر سال ۱۳۷۴

۱۶۰