تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78935 / ڈاؤنلوڈ: 5338
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

محمد ابن ابى بكرحكم پاتے ہى اپنى بہن كے پاس ائے اور سر كو ہودج ميں ڈالا

عائشه نے پوچھا تم كون ہو _ ؟

ميں ہوں محمد _ تمہارا قريبى رشتہ دارليكن تمھاراخاندانى سخت ترين دشمن

عائشه نے كہا _ تم خثعميہ عورت كے فرزند ہو ؟

محمد نے كہاہاں

عائشه نے كہا _ ميرے ماں بآپ تم پر قربان ہوجائيں _ خدا كاشكر ہے كہ اس جنگ ميں تمہارى جان سلامت رہى _

مسعودى كہتا ہے :

عائشه نے پوچھا كہ تم كون ہو ؟تو محمد نے جواب دياكہ ميں محمد ہوں _و ہ محمد جو تمھارا قريب ترين رشتہ دار ہے ليكن تمھارا بد ترين دشمن اس كے بعد كہا اے عائشه اميرالمومنين حضرت على تمہارا حال پوچھ رہے ہيںاور دلجوئي كے طور پر پوچھا ہے كہ اس جنگ ميں تمھيں كوئي زخم تو نہيں لگا ہے ؟

عائشه نے كہا كہ اس جنگ ميں صرف ايك تير مجھے لگا اور وہ بھى كارى اور موثر نہيں _

حضرت على نے عائشه سے گفتگو كى

محمد ابن ابى بكر كے بعد حضرت على عائشه كے خيمہ كى طرف چلے اور ھودج كے سامنے پہنچ كر اس عصا سے جو آپ كے ہاتھ ميں تھا ھودج كى طرف اشارہ كر كے فرمايا

اے حميرا كيا رسول خدا (ص) نے اس فتنہ انگيزى اور مسلمانوں كا خون بہانے كاحكم ديا تھا ؟

كيا ايسا نہيں ہے كہ تمہارے شوہر رسول خدا (ص) نے حكم نہيں ديا تھاكہ اپنے گھر سے باہر نہ نكلنا ؟

۱۴۱

اے عائشه جو لوگ تمہيں يہاں تك لائے ہيں انھو ں نے رسول خدا(ص) كے ساتھ بڑى ناانصافى كى ہے كہ اپنى عورتوں كو تو گھر ميں بٹھا ركھاہے ليكن تيرے جيسى زوجہ رسول كو جو اسلام كى خاتون اول ہے ميدان جنگ ميں گھسيٹ لائے ہيں _

اس موقع پر طبرى كا بيان ہے :

محمد ابن ابى بكر نے اپنى بہن عائشه كولشكر سے علحدہ ايك خيمہ لگايا _ حضرت علىعليه‌السلام اس خيمہ كى پشت پر ائے اور عائشه سے كچھ باتيں كى _ منجملہ ان كے _يہ بھى فرمايا اے عائشه تم نے لوگوں كو ميرے خلاف بھڑكايا كہ مجھ سے جنگ پر امادہ ہوگئے _ اور انھيں ہيجان ميں لاكر ميرى دشمنى ان كے دلوں ميں ڈال دى كہ وہ خونريزى اور ھنگامہ پر امادہ ہوگئے _

حضرت علىعليه‌السلام كى باتوں پر عائشه با لكل خاموش رہيں اور كوئي جواب نہيںديا صرف اتنا كہاكہ ياعلى اب جبكہ تم نے ميرے اوپر قابو پالياہے _ اب تو تم صاحب اختيار ہو معاف كر دينابہتر ہے _

عمار نے عائشه سے بات كي

طبرى اور ابن اثير كہتے ہيںكہ جنگ ختم ہونے كے بعد عمار نے عائشه سے ملاقات كى _

عمار نے كہااے عائشه تم حكم خدا سے كتنى دور ہو گئي ہو رسول خدا (ص) سے تم نے عہد كياتھاكہ گھر ميں بيٹھو گى اور تم نے مخالفت ميں ميدان جنگ كاراستہ اختيار كياكہاں گوشہء خانہ اور كہاں ميدان جنگ ؟ ؟

عائشه نے كہا _ كيا تم ابو يقظان ہو ،تم تو مجھ سے بہت سختى اور صفائي سے باتيں كر رہے ہو

عمار نے كہا ہاں

عائشه نے كہا _ خداكى قسم جب سے تم پہچانے گئے ہو تم نے كبھى حق كے سوا كوئي بات نہيں كى عمار نے كہا _ اس خدا كاشكر ہے كہ جس نے تمھارى ز بان پرميرے بارے ميں كلمہ حق جارى كيا_

۱۴۲

فتح كے بعد معافي

عام معافي

حضرت علىعليه‌السلام كى فوج كامياب ہو گئي اور دشمن كى فوج پر پورا قابو حاصل كرليا _ دشمن كى فوج كى ہريمت وفرار كا راستہ اختيار كيا _ ا س مو قع پر حضرت علىعليه‌السلام نے وہى حكم ديا جو جنگ سے پہلے اپنے سپاہيوں كو پہنچايا تھا _ دوسرى بار بھى وہى متن پڑھ كر سناياآپ كے نمائندہ نے ميدان جنگ ميں بلند اواز سے لوگوں كو اس اعلانيہ كا متن پڑھ كر سنايا _

اے لوگو دشمن كے كسى زخمى كو قتل نہ كرو بھاگنے والوں كا پيچھانہ كرو ، شرمندہ لوگوں كى سرزنش نہ كرو _ دشمن كا كوئي فرد اگر جنگى ہتھيار پھينك دے تو وہ امان ميں ہے اسے ہرگزتكليف نہ پہنچاو جو شخص اپنے گھر ميں داخل ہوكر دروازہ بند كر لے اس كا خون اور جان محفوظ ہے اسے اذيت مت دو _

اس موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياجو اگر چہ جملہ بہت مختصرہے ليكن بہت جامع اور جذباتى ہے ، اپنے سب كو سناتے ہوئے اعلان فرماياكہ تمام دشمن كے سپاہى چاہے وہ سياہ ہوںياسفيدچھوٹے ہوں يابڑے عورت ہوں يا مرد سبھى كو امان دى جاتى ہے _كسى كو ان سے تعرض كاحق نہيں (ثم امن الاحمر ولاسود )

حضرت علىعليه‌السلام نے اس مختصر جملہ ميں سب كو ازاد فرمايا اور تمام دشمن كے افرادكو عام معافى ديدى اور آپ كى كرامت كاتقاضا بھى يہى تھا صاحب كنزالعمال كہتے ہيں كہ جنگ ختم ہو نے كے بعد بھى وہى جنگ سے پہلے والا فرمان دوبارہ پڑ ھ كر سنايا گياليكن اس بار چند جملہ كا اضافہ كيا گيا _

اے لوگو دشمن كے ناموس واموال تم پر حلال نہيں ہيں تمہيں چايئےہ صرف جنگى ہتھيار ہى لواور ميدان جنگ ميں جو مال لے ائے ہيں انھيں كو حاصل كروبقيہ سارا مال مقتولوں كے پسماندگان كے لئے چھوڑ دو جو شخص ميدان جنگ سے بھاگ گيا ہے اسكو قيدى نہ بنائو انكى دولت كو مال غنيمت سمجھ كر مت لوٹو _ ان كے مال كو حكم قرانى كے مطابق وارثوں ميں تقسيم ہوناچاہيے _ اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے سامنے اعلان فرمايا كہااس جنگ

۱۴۳

ميں جو عورتيں اپنے شوہر سے محروم ہوئي ہيں تم ان سے شادى نہ كرو جب تك وہ دوسرے مسلمانوں كى طرح چار ماہ دس دن كا عدہ وفات پورا نہ كر ليں اس كے بعد تم انھيں عقد ميں لے سكتے ہو _

حضرت علىعليه‌السلام كا منشاء اس ارشاد سے يہ تھااس جنگ كے بعد دشمنوں كے ساتھ دوسرے مسلمانوں كاسابرتاو كرناچاہيے _ ہاں _ يہ لوگ حضر ت علىعليه‌السلام كى نظر ميں كافروں اور مشركوں سے الگ تھے ا ن پر كفار كا حكم لاگو نہيں ہوا تھا _

اعتراض اور علىعليه‌السلام كا جواب

حضرت علىعليه‌السلام نے دشمن كى فوج كے بارے ميں جو روش اپنائي تھى ا س پر خود آپ ہى كے لشكر ميں اعتراض ہونے لگا _ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كى بارگاہ ميں ا كر اس طرح اعتراض كرنے لگے _

ياعلى ا پ نے كل ا ن لوگوںكا خون ہمارے لئے حلال قرار ديا تھا _ اور آپ ہى آج ا ن لوگو ں كامال ہمارے لئے حرام قراردے رہے ہيں ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا :

اہل قبلہ اور جولوگ زبان سے اسلام كاكلمہ پڑھتے ہيںاپنے اسلام كااظہار كرتے ہيں ا ن كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے نافذ كياہے _

ليكن اكثر معترضين اما م كے اس جواب سے مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے اپنى مخالفت جارى ركھى ، حضر ت علىعليه‌السلام نے انھيں مطمئن كرنے كے لئے فرمايا _

اے لوگو اب جب كہ تم لوگ اصرار كے ساتھ كہہ رہے ہو كہ ان لوگو ںكے ساتھ بھى كفار و مشركين كاسابرتاو كرناچاہيئے_ تواب او سب سے پہلے ام المومنين عائشه كے بارے ميں قرعہ ڈالا جائے كيونكہ وہى اس لشكر كى قيادت كر رہى تھيں _ جس كے نام بھى قرعہ پڑ جائے وہ انہيں كفار كى عور توں كى طرح اپنى كنيز بنالے _

۱۴۴

يہ سن كر تمام معترضين كوحضرت علىعليه‌السلام كے اس برتاو كارازسمجھ ميں ايا اور وہ اپنے اعتراض پر نادم وشرمندہ ہوئے _ اس طرح حضرت علىعليه‌السلام نے ا ن لوگوں كو ايك و جدانى دليل سے خاموش كيا ليكن اس مطلب كو پورى طرح واضح كرنے كے لئے آپ نے ايك دوسرى دليل بھى پيش كى اورفرمايا :

چونكہ عائشه كے فوجى بظاہر خدا پرست ہيں _وحدانيت خداكى گواہى ديتے ہيں _ ان كے اسى عقيدہ كے مطابق كہ وہ زبان سے كلمہ پڑھتے ہيں ميں ان پراحسان كر رہاہوں اور ايك توحيد پرست مسلمان كى طرح برتاو كركے ان كے فر زندوں كو ا ن كے مقتول بآپ كاوارث بنا رہاہوں _

صاحب كنزالعمال نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ :

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر ميں خطبہ ديا اسى درميان عمار ياسر نے كھڑے ہو كر كہا :

اے امير المومنين لوگ دشمن كے مال و دولت كے بارے ميں آپ پر اعتراض كر رہے ہيں وہ كہہ رہے ہيں كہ ہم نے جس سے بھى جنگ كى جس قوم و ملت پر فتحمند ہوئے توہم نے ا ن كا مال غنيمت كى طرح حاصل كيااور ان كے بيوى بچوں كوقيدى بنايا(۲۷)

اس سے پہلے كہ حضرت علىعليه‌السلام عمار ياسر كاجواب ديں آپ كے لشكر سے ايك شخص عباد ابن قيس نام كاجو بكر ابن وائل كے خاندان سے تھااور بہت تيز طراراور خوش بيان تھا _ اپنى جگہ سے كھڑا ہو كرحضرت علىعليه‌السلام سے بولا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے بصرہ والوں كے مال غنيمت كى تقسيم ميں آپ نے ہم لوگو ں كے ساتھ انصاف و مساوات كى رعآیت نہيں كي

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا _تجھ پر افسوس ہے _ميں نے تمہارے بارے ميں مساوات و عدالت كى كيسے رعآیت نہيں كى ؟

اس شخص نے كہا : جب آپ نے بصرہ والوں كے كسى مال و دولت كو جسے وہ ميدان جنگ ميں لائے تھے اس كے علاوہ سارے مال كو ہم لوگو ں پر حرام قرار دياان كى عورتوں كى اسيرى كو بھى حرام كر ديااور ان كے بيٹوں كو غلام بنانے سے بھى

____________________

۲۷_ جاہلى عہد كاطريقہ يہى تھا _ ابو بكر نے بھى يہى روش اپنائي تھى جن لوگوں نے انكى بيعت سے سرتابى كى تھى انكے ساتھ بھى جاہلى عہد كا سا سلوك كيا تھا _ ملاحظہ ہو كتاب عبداللہ بن سبا _ اس طرح جن لوگوں نے ابو بكر كو زكوة دينے سے انكار كيا تھا ان سے جنگ كى اور ان سے كفار مشركين كاسا برتاو كيا _ ان كا مال لشكر والوں ميں تقسيم كيا _ اسى وجہ سے جنگ جمل ميں لشكر والوں كو اشتباہ ہواجس كى وجہ سے انھوں نے حضرت على كے اسلامى وانسانى برتاو پر اعتراض كيا _

۱۴۵

ہميں منع كرديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان تمام اعتراض كرنے والوں كو مطمئن كر نے كے لئے اس مرد بكرى سے خطاب فرماتے ہوئے كہا :

اے بنى بكر كے بھائي كيا تم اسلامى قانون نہيں جانتے ہو _ كيا يہ نہيں جانتے كہ بآپ كے جرم كى وجہ سے ان كے بے گناہ چھوٹے بچوں سے مواخذہ كرنااسلامى نقطہ نگاہ سے جائزنہيں ہے ،صرف اس بہانے سے كہ ان كے بآپ نے ہم سے جنگ كى ہے ہميں ان كے بچوں كو قيدى بنانا اور عورتون كو كنيز بنانا جائز نہيں ہے ليكن يہ جو دشمن كى عور توں اور مال كا معاملہ ہے ،يہ لوگ صرف وہى دولت جو جنگ كے موقع اپنے پاس ركھے ہوئے تھے _ اور مسلمان بھى ہيں ہم سے بر سر جنگ ہيں _

ان كى عورتوں كا نكاح اسلامى حكم كے لحاظ سے ہوا تھاان كے بيٹے فطرت اسلام پر پيدا ہوئے تھے ان خصوصيات كے پيش نظر جن كى ميں نے وضاحت كى ہے ان كى عورتوں بچوں اور دولت كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے بيان كياہے _

تمہيں صرف اتنى اجازت ہے كہ يہ لوگ جتنا مال ميدان جنگ ميں لائے تھے اور تم نے اپنى چھاونى سے انھيں لوٹاہے انھيں كو غنيمت كے طور پر لے لواور اسى پر اكتفاء كرو ، اس مال كے علاوہ بقيہ جتنى دولت ہے وہ ان كے بيٹوں كى وراثت ہے اگر كوئي شخص ہم سے جنگ اور مخالفت كے لئے نكلے تو اكيلے اسى كو ہم سزا دينگے اور ا س كا گناہ دوسرے كے ذمہ ہرگز نہيں لاديں گے ، يہاں تك كہ ان كے بچوں كو بھى بآپ كے كر توت كى سزانہيں دى جائے گى _

اے بنى بكر كے بھائي ميں رسول خدا(ص) كى جگہ پر ہوںيہ بصرہ والے ميرے خلاف بغاوت پرامادہ ہيں انہوں نے اپنے بھائيوں كا خون بہايا ميں نے ان كے ساتھ وہى سلوك كيا ہے جو رسول خدا (ص) نے فتح مكہ كے موقع پر لوگو ں كے ساتھ سلوك كيا تھاآپ نے مكہ والوں كاصرف وہى مال لياجو ساتھ ليكر ائے تھے بقيہ انھيں كے حوالہ كر ديا _

حضرت علىعليه‌السلام نے مزيدفرمايا : اے بكرى بھائي كيا تو نہيں جانتا كہ دارالحرب يعنى كافروںكا شہر اور دارالہجرت يعنى مسلمانوں كا شہر ان دونوں كے درميان اسلامى قانون ميں فرق ہے كيونكہ دارالحرب كاہرمال جو كفار سے حاصل ہوپورے طور سے مسلمانوں كاہے ليكن جنگ كے موقع پر دارالہجرت كامال صرف وہى مسلمانوں كاہوگاكہ جو جنگ

۱۴۶

كے موقع پر ساتھ لائے ہيں كيونكہ زبان سے وہ كلمہ توحيد پڑھتے ہيں _

اللہ تم لوگوں پر رحم كرے _ خاموش رہو اور عائشه كے لشكر والوں كى اسيرى پر اصرار نہ كرو ورنہ پھر ميرے ايك سوال كاجواب ديدوكہ تم ميں كون ايسا ہے كہ جنگى اسيروں كى تقسيم كے وقت عائشه كو كنيزى كے طور پراپنے حصہ ميں لے كيا تم ميں كوئي ايسا ہے جو عائشه كو كنيزبنا كر اپنے گھر لے جائے _

حضرت علىعليه‌السلام كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ آپ كے لشكر ميں شور مچ گيا چاروں طرف سے اوازيں انے لگيں يا على ہم ميں سے كوئي بھى ايسى حركت نہيں كر سكتارسول خدا(ص) كى نسبت ايسى گستاخى ہم سے نہيں ہو سكتى كہ ان كى زوجہ كو اپنى كنيز بنائيں اس كے بعد انھوں نے كہا _ يا على آپ اپنے عمل ميں حق كے راستہ پر ہيں _ ہم نے اعتراض كركے سخت غلطى كى ہم نے دھوكا كھايا _ يا على آپ كا عمل علم و دانش كى روش ميں تھاہمارا اعتراض جہالت ونادانى تھى _ا ب ہم اپنے گناہ سے توبہ كرتے ہيں اور اپنے اعتراض پرنادم وپشيمان ہيں _ خداوندے عالم آپ كے وسيلہ سے ہميں ہدآیت و رہبرى عطا كرے _

عمار ياسر دوسرى بار كھڑے ہوئے اور لشكر سے خطاب فرمايا :

اے لوگو على كى پيروى كرو _ان كے احكام بجالائوخداكى قسم وہ سيرت رسول(ص) پر عمل كرتے ہيںاور انكى سنت سے ہر گز انحراف نہيں كرتے على وہى راہ اپناتے ہيں جس راہ پر رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو چلايا تھاانكى مثال ويسى ہى ہے جيسى موسى كے سامنے ہارون كى تھى _ ہارون حضرت موسى كے جانشين تھے ، بس فرق يہ ہے كہ رسول (ص) كے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگااور يہ فضيلت وبزرگى حضرت علىعليه‌السلام سے مخصوص ہے _

عمار ياسركى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ لوگوں سے خطاب فرمايا :

جو كچھ ميں تم سے كہتا ہوں اسے مانو اورميرے حكم كو نافذ كرو كيونكہ اگر تم ميرے كہنے پر عمل كرو گے تو انشا اراہ مستقيم اور سعادت ابدى پا جائو گے ،اگر چہ اس راستہ ميں سختياں ہيں اور ناكامياں و تلخياں ہيں _

اب رہ گئيں عائشه تو انكاعقيدہ اور باطنى نظريہ ميرے بارے ميں دشمنى سے بھرپور ہے اسلئے وہ مجھے تكليف پہنچا رہى ہيں ايسى اذيت وہ كسى كے لئے بھى جائز نہيں سمجھيں گى ليكن اسكے باوجودوہ ميرى نظر ميں سابق كى طرح محترم ہيں _ ان كے كرتوتوں كو ميں اللہ كے حوالے كرتا ہوں _خدا ہى ہر شخص كو اس كے گناہوں كى سزا د ے گا

۱۴۷

يا اسے معاف كرديگا _

ابھى امام كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگو ں كى اوازيں انے لگيں ہاں صحيح ہے جو لوگ اعتراض كر رہے تھے وہ اب نادم و پشيمان ہيں _ان لوگوں نے ايك سخت كشمكش كے بعدامام كے ارشادات كى تصديق و تائيدكى اور ان كے حكم پر سر جھكا ديا _ واضح طور پر اعلان كيا كہ ہم غلطى پر تھے يا واضح طور سے اپنى غلطى كا اعتراف كيا _ انھوں نے معذرت كرتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا _

اے اميرالمومنين خدا كى قسم آپ نے فوج دشمن كا مال تقسيم كرنے كے سلسلے ميں حكم خدا كے مطابق عمل كياليكن ہم نے جہالت ونادانى كى روش اپنائي اور آپ كى عدالت پر اعتراض كيا،ابن لساف حضرت علىعليه‌السلام كے فوج كاايك بہت تيز طراراور جيالا شخص تھا _ ا س نے اس سارے واقعے كو نو شعروں ميں نظم كيا ہے _

ان رايا را يتموه سفاها ----لحظاالايرادوالاصدار

ليس زوج النبى تقسيم فيئا ---ذاكزيغ القلوب والابصار

فاقبلوا اليوم مايقول على ---لاتناجوابالاثم فى الاسرار

ليس ماضمت البيوت بفي ---انما الفي ماتضم الاوار

من كراع فى عسكروسلاح ---ومتاع يبيع ايدى التجار

ليس فى الحق قسم ذات نطاق ---لاولااخذكم ذات خمار

ذاك فيئكم خذوه وقولوا ---قد رضينالاخيرفى ا لاكثار

انها امكم وان عظم الخط ---ب وجائت بزلة وعثار

فلهاحرمته النبى وحقا ---علينامن سترها و وقار

اے لوگو تم نے جو بصرہ والوں كے بارے ميںرائے ظاہر كى ہے وہ جہالت و نادانى كى بات تھى ، وہ غلط نظريہ تھا ، كيونكہ رسو ل كى زوجہ مال غنيمت كے طور پر حاصل نہيں كى جاسكتى نہ وہ كنيزى ميں لى جاسكتى ہيں ، كيونكہ يہ عمل وجدان كے اعتبار سے كوتاہ نظرى اور فكرى انحراف ہے اس لئے آج جو كچھ حضرت علىعليه‌السلام ارشاد فرمارہے ہيں اس كومان لواور اپنى بيجا باتيںاور لچر اعتراضات اور سر گوشياں ختم كر دو حضرت على كے فرمان كے مطابق عمل كرو جو مال و دولت

۱۴۸

مقتولوں كے گھر ميں ہے اسے مت لوٹو اور اسپرتصرف مت كروبس وہ جنگى ہتھيار، كپڑے ، اور گھوڑ ے جو ميدان جنگ ميں لائے تھے انھيں كومال غنيمت كے طور پر لے لواور وہ تمھارے اوپر حلال ہے مختصر يہ كہ جو كچھ دشمنوں كى دولت تمھارے لئے حضرت على جائز سمجھيں وہ تمھارا حق ہے تمھيں اس پر مطمئن ہو جانا چاہئے _

اے لوگو عائشه تمھارى ماں ہيں اگر چہ ان كاجرم بہت بڑا اور لغزش زبر دست ہے وہ رسول خدا(ص) كى خاطر سے محترم ہيںہم پر ان كا احترام لازم ہے ہميں ان كى ابرو اور حيثيت كو محفوظ ركھنا چاہئے(۲۸) _

حضرت علىعليه‌السلام نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟

جيسے ہى ابن يساف نے اشعار پڑھے حضرت على كے لشكر سے ايك دوسراشخص بولا اے اميرالمومنين ، آپ نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟ اس كى وجہ كيا تھى ؟

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب دياكہ ميں نے طلحہ و زبير سے اس لئے جنگ كى كہ انھوں نے ميرى بيعت توڑ دى تھى اور انھوں نے بے گناہ اور پاك نفس لوگوں كو قتل كيا ، انھوں نے حكيم بن جبلہ كا ناحق خون بہايا ،بيت المال كو لوٹا ،يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ بے گناہ لوگوںكاظلم وتعدى سے خون بہايا جائے اور امام و پيشوا ان كا دفاع نہ كرے ؟

جو سلوك ميں نے طلحہ و زبير كے ساتھ كيا ہے يہ مجھ ہى سے مخصوص نہيںہے كيونكہ اگر انھوں نے ابو بكر و عمركى بھى بيعت شكنى كى ہوتى اور لوگوں كا ناحق خون بہايا ہوتاتو وہ بھى دفاع كرتے اور ان سے جنگ كرتے _

اے لوگو يہ تمہارے درميان اصحاب رسول خدا ہيں جو ميرى باتوںكى گواہى ديں گے كہ جو شخص بھى ابوبكر و عمر كى بيعت سے سرتابى كرتاوہ لوگ انھيں تلوار سے سرزنش كرتے اور اپنى بيعت ميںوآپس لاتے اور دوبارہ حكومت كى پيروى پر مجبور كرتے ،جيسا كہ خليفہ او ل كى بيعت كے وقت انصار نے ان كى بيعت سے انكار كياتوانھوں نے سختى كى اورانصاركو مجبوركيا كہ وہ ان كى بيعت كريں _ حالانكہ انصار كى بيعت راضى خوشى سے نہيں تھى ليكن اس كے باوجود بيعت كا احترام كيا گيا اور اس پر اخر تك باقى رہاگيا ليكن ميں كيا كرو ں؟ كہ طلحہ و زبير نے رضا مندى اور پورى ازادى كے

____________________

۲۸_ تاريخ يعقوبى ، كنز العمال ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ميں ان تفصيلات كو ديكھا جا سكتا ہے _

۱۴۹

ساتھ ميرى بيعت كى ليكن دير نہيں گزرى كہ انھوں نے اپناعہد وپيمان توڑ ديا ان

كے دل ميں بصرہ و يمن كى گور نرى كى لالچ بھرى ارزو تھى ليكن چونكہ ميں نے ان كے اندر حرص ولالچ ديكھى اس لئے حكومت بصرہ و يمن نہيں دى _دوسرے يہ كہ انھيں مال و دولت حاصل كرنے كى ہوس تھى _ انھوں نے مسلمانوں كے مال ودولت پر اپنى انكھيں جمادى تھيں وہ مسلمانوں كو اپنا غلام عور توں كو كنيزبناناچاہتے تھے ان كى دولت كومال غنيمت سمجھ كے لوٹناچاہتے تھے يہ تمام باتيں ميرے مشاہدہ ميں ائيں توميں اس پر مجبورہوگياكہ ان سے جنگ كركے ان كے ہاتھوںمسلمانوں كے جان ومال كى طرف بڑھنے نہ دوں ،مسلمانوںكو ان كے شر و فسادسے مطمئن كروں _

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ والوںكى طرف رخ كيااور ان كى كرتوتوں پر سر زنش فرماتے ہوئے كہا :

بصرہ والوں تم ايك بے منھ كے جانور كے سپاہى ہو _ اس نے شور مچاياتو سخت طريقہ سے حملہ اور ہوگئے ،جس و قت وہ جانور قتل ہو گيا زمين پر لوٹنے لگاتو اسے چھوڑ كر فرارہو گئے بصرہ والو تم بڑے بد اخلاق اور عہد شكن ہو _ تمہارابرتاو نفاق سے بھرپور ہے يہ تمہارى سيرت ميں داخل ہے اور اس پر ہميشہ باقى ر ہوگے _ تم ايسے لوگ ہو كہ جوشخص بھى تمہارے درميان زندگى بسر كرے وہ گناہوں اور غلطيوںميںمبتلاہو جائے _جو تمہاراماحول چھوڑ كر الگ ہو جائے اس پر رحمت خداكى بارش ہو _

عائشه ، مدينہ وآپس ہوئيں

جنگ ختم ہو گئي عام معافى كا اعلان كر ديا گيا _ اور جنگ كے درميان جو دشمن كامال غنيمت ہاتھ ايا تھا حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تقسيم كر ديا گيا _ گو مگو كى كيفيت ختم ہو گئي _ پانى كا سيلان بھر گيا ،بھانت بھانت كى اوازيں خاموش ہو گئيں _ حالات معمول پر اگئے ،اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے چچيرے بھائي عبداللہ بن عباس كو اپنے پاس بلوا كر فرمايا _ اے عبداللہ _ تم عائشه كے پاس جاكر انھيں اپنے شہر وآپس جانے كے لئے راضى كرو _

۱۵۰

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميں عائشه كے پاس گيا اور ملاقات كى اجازت طلب كى تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كآپيغام پہنچاو ں _

انھوں نے مجھے اجازت نہيں دى ،ميں بغير اجازت ہى خيمہ كے اندر داخل ہو گيا پاس ميں ركھے گاو تكيہ كو اٹھا كر دبايا اور انھيں كے سامنے بيٹھ گيا عائشه نے كہا اے ابن عباس خدا كى قسم ميں نے تم سے زيادہ حكم رسول كو نظر انداز كرنے والا نہيں ديكھا _ تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں چلے ائے اور ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھ گئے ؟

ايك دوسرى روآیت ہے كہ عائشه نے ابن عباس سے كہا _ تم نے دو غلطياں كركے حكم رسول كى مخالفت كى _ كيو نكہ سب سے پہلے تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں داخل ہوئے دوسرے ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھے _

ابن عباس نے كہا:تم نے احكام ہم ہى سے سيكھے اور اب ہم ہى كو ياد دلارہى ہو ،يہ ديكھوحضرت علىعليه‌السلام تمھيں حكم دے رہے ہيں كہ اپنے شھر وآپس جاو _

عائشه نے كہا _ خداعمر پر رحمت نازل كرے كہ وہ اميرالمومنين تھے

ابن عباس نے كہا: ہاں _ اب حضرت على اميرالمومنين ہيں

عائشه نے كہا : نہيں، نہيں ، ميں انھيں ہرگز اميرالمومنين نہيں جان سكتى ان كے حكم سے وآپس جانے پر تيار نہيں ہوں _

ابن عباس نے كہا _ اے عائشه وہ زمانہ بيت گيا _ تمھارى تقررى اور برخاستگى كاتيا پانچہ ہو گيا _ آج تمھارى رائے اور بات كاكوئي اثر نہيں ہے _ تمھارى موافقت و مخالفت برابر ہے _

ابن عباس كابيان ہے كہ: ميرى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ عائشه پر گريہ طارى ہو گيا، اس قدرشديد گريہ كہ دہاڑ مار كررونے لگيں ،ان كى ہچكياں سن رہا تھا(۲۹)

____________________

۲۹_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ اعثم كوفى ص ۱۸۱ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۲ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۱

پھر انھوں نے كہا : اے عبداللہ ٹھيك ہے ،ميں اپنے شہر وآپس جاو نگى ،ميں نہيں چاہتى كہ اس شہر ميں رہوں جہاں تم دونوں ہو _ (ان ابغض البلدان الى بلد انتم فيه )

ابن عباس نے كہا: اے عائشه خداكى قسم ہم بنى ہاشم كى نيكى كابدلہ يہ نہيں تھا كہ ہمارے خلاف بغاوت كرو _ ہمارى مخالفت كاراستہ اپناو _ ہم ہى تھے كہ تمہيں ام المومنين بنايا ،ہم نے تمھارے بآپ كو صديق امت بنايا_

عائشه نے كہا : عبداللہ تم رسول خد(ص) اكو ہم سے اپنى طرف گھسيٹ رہے ہو ان كے نام سے ميرے اوپرفخرجتا رہے ہو _

ابن عباس نے كہا: ہاں ہم ايسے خاندان كى فرد ہيں كہ اگر تم بھى اس خاندان سے ہوتى تو ميرى طرح فخر ومباھات كرتي_

ابن عباس كابيان ہے كہ: عائشه سے گفتگو كے بعدوآپس حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا ، سارى باتيں دہرائيں _آپ نے ميرى پيشانى پر بوسہ ديكر فرمايا :

ان خانوادے پر صلوات جو گويائي اور حاضرجوابى ميں ہمارى طرح ہيں (بابى ذرية بعضها من بعض )

اعثم كوفى نے فتوح البلدان ميں نقل كيا ہے كہ:

جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام رسول خدا(ص) كے مخصوص خچر دلدل پرسوار ہوكربصرہ ميں اس گھر كى طرف چلے جہاں عائشه عارضى طور سے ٹھہرى ہوئي تھيں ،اجازت لينے كے بعدگھر ميں داخل ہوئے اميرالمومنين نے ديكھاكہ عائشه كچھ بصرہ كى عورتوں كے ساتھ گريہ وزارى كر رہى ہيں ،اس وقت حارث ثقفى كى بيٹى صفيہ اوردوسرى عورتوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر كہا :

يا على آپ نے ہمارے رشتہ داروںاور دوستوں كو قتل كيا ہمارى جميعت كو درہم برہم كيا ، خدا تمہارے بھى بچوں كو يتيم كرے جيسے تم نے عبداللہ خلف كو يتيم كر كے بآپ كى موت پر اس كى انكھيں اشكبار كى ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے صفيہ كو پہچان كر فرمايا :

اے صفيہ ميں تمہيں اس دشمنى اورعنا دپر تجھے ملامت نہيں كرونگاكيونكہ ميں نے ہى جنگ بدر ميں تيرے داداكو اور جنگ احد ميں تيرے چچاكو قتل كيا ہے _ اور اب تيرے شوہر كو موت كے گھاٹ اتاراہے اور اگر ميں رشتہ داروں اور عزيزوںكا قاتل ہوتاتو اس وقت اس گھر جو لوگ چھپے ہوئے ہيں انھيں بھى قتل كر ڈالتا

۱۵۲

اسكے بعد اميرالمومنين نے عائشه سے فرمايا :

اے عائشه اپنى كتيوں كو يہاں سے بھگاتى كيوںنہيں ہو ؟

عائشه سن لو كہ اگر ميں لوگوں كى سلامتى نہيں چاہتاتو ابھى اس گھر ميں چھپے ہوئے لوگو ں كوگھر سے نكالتا اور ايك ايك كى گردن مارديتا _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ :

يہ سنتے ہى عائشه اور تمام عورتوں نے چپ سادھ لى ان سب كى بولتى بند ہو گئي _

اس كے بعد امير امومنين نے عائشه كو مخاطب كر كے سر زنش كى _

اے عائشه _ خدا نے تمہيں حكم ديا تھاكہ اپنے گھر ميں نچلى بيٹھى رہو غيرو ں سے پر دہ كرو ، ليكن تم نے حكم خدا كى مخالفت كي_ اپنا ہاتھ مسلمانوں كے خون سے رنگ ليا ،لوگوںكو ميرے خلاف بھڑكايا اور ظالمانہ طريقہ سے عظيم جنگ كھڑى كردى _ حا لانكہ تم اور تمھارے خاندان نے ہمارے ذريعہ سے عزت و شرف حاصل كياہمارے ہى خاندان كے وسيلہ سے تم ام المومنين بن گئي ہو _

عائشه اب تمہيں چلنے كے لئے تيار ہو جانا چاہئے _ تم اسى گھر ميں جاكر رہو جہاں تمہيں رسول خدا(ص) نے بٹھاياتھا _ وہاںتم زندگى كى اخرى سانسوں تك رہو _

حضرت علىعليه‌السلام اتنا فرماكر وہاں سے چلے ائے _

اعثم كوفى كابيان ہے كہ: اسى كے دوسرے دن حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزندحسن مجتبى كوعائشه كے پاس بھيجا ،امام حسن نے عائشه سے كہا ميرے بابااميرالمومنين فرماتے ہيں كہ :

اس خداكى قسم جس نے دانے كو شگافتہ كيا ، اس خداكى قسم جس نے انسانوں كو پيداكياكہ اگر تم نے اسى وقت مدينہ كے لئے كوچ نہيں كياتواس بارے ميں جسے تم خود جانتى ہو انجام دے دوںگا جيسے ہى يہ پيغام عائشه نے سنا فوراً اٹھ كھڑى ہوئيں اور كوچ كى تيارى كرنے لگيں _

ايك عو رت نے جب اس عجلت كو ديكھا تو سوال كيا كہ اے ام المومنين عبداللہ ابن عباس آپ كے پاس ائے اور آپ سے مدينہ جانے كو كہا ليكن آپ نے انكى بات نہ ماني، بلكہ تم نے تو ان كا كلّہ بہ كلّہ جواب ديا _

ابن عباس تمہارے پاس سے خفا ہو كر چلے گئے ان كے بعد حضرت علىعليه‌السلام ائے اور تمہارے اندر ذرابھى بے چينى نہيں

۱۵۳

ديكھى گئي ليكن جيسے ہى يہ جوان تمھارے سامنے ايا اور بآپ كا پيغام پہنچايا تمہارے انداز ميں عجيب اضطراب اور بے چينى پيداہو گئي اور اسكى بات كو تم نے فوراً قبول كر ليا ؟

عائشه نے جواب ديا _ ہاں _ميرا اضطراب اسلئے تھا كہ يہ جوان رسول خدا (ص) كى يادگار اور ان كا فرزند ہے رسول كے اوصاف كانمونہ ہے ،اسے ديكھتے ہى مجھے رسول خدا (ص) كا سرآپا ياد اگيا ،جسے بھى رسول خدا كاسرآپاديكھنا ہو وہ اس جوان كو ديكھ لے _ دوسرى طرف يہ بھى كہ يہ جوان اپنے بآپ كاوہ پيغام لاياتھا جسے سن كر ميں خوف زدہ ہو گئي اور كوچ كرنے پر مجبور ہو گئي _

اس عورت نے اخرى بات سنكر كر يدنے كے لئے پوچھا

اے عائشه _ ميں آپ كو قسم ديتى ہوں خدائے تعالى كى كہ بتايئے وہ حضرت علىعليه‌السلام كا پيغام كيا تھا جو آپ ميں اتنااثر ديكھا گيااور آپ اتنا بے چين ہو گئيں ؟

عائشه نے جواب ديا _ تيرا ناس ہو جائے _ ارے ايك جنگ ميں رسول خدا(ص) كو بہت زيادہ مال غنيمت حاصل ہوا تھا _ آپ نے سب كو اپنے اصحاب ميں تقسيم كر ديا _ ہم ازواج نے چاہا كہ ہم لوگوں كو بھى اسميں سے حصہ دياجائے _ ہم نے اپنے مطالبہ ميں بہت اصراركيا اور بڑى اودھم مچائي ،حضرت علىعليه‌السلام ہمارى حركتوں كو ديكھ كر غصہ ميں بھر گئے _ ہميں سر زنش كرنے لگے ،انھوں نے كہاكہ اب بس بھى كرو _ تم نے رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ رنجيدہ خاطر كيايہ سن كر ہم لوگ على سے بھى لڑائي بھڑائي پر تن گئے ،انھيں بھى سخت جواب ديا ،حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ميں يہ آیت پڑھي'' عسى ان طلقكن(۳۰) ''

اگر تمھيں طلاق دياجائے تو خدا وند عا لم تمھارى جگہ تم سے بہتر اور نيك كردار عورتيں انھيں عطا كرے گا ہم نے يہ آیت سن كر سخت غضبناك انداز ميں اور بھى سخت جواب ديئے _ اس وقت رسول خداكے چہرے پر اثار غضب ظاہر ہوئے ا پ نے حضرت علىعليه‌السلام كى طرف رخ كر كے فرمايا :

____________________

۳۰- سوره تحريم آيه ۶۶

۱۵۴

اے على ميں اپنى تمام ازواج كے طلاق كا اختيارتمھيں ديتا ہوں _

جسے بھى تم طلاق دے دو گے اس سے ميرى زوجيت كارشتہ ختم ہو جائے گا _

رسول خدا(ص) نے اس وكالت كو كسى خاص وقت ميں معين نہيں كيا تھا ،يہ اختيار ہميشہ كے لئے على كے پاس محفوظ ہے جب بھى وہ چاہيں رسول(ص) كى طرف سے ان كے ازواج كو طلاق ديديںاور انكى رسول سے جدائي كرديں ،حضرت علىعليه‌السلام نے جو پيغام بھجوايا تھا ا س كامطلب يہى تھا ، كيو نكہ اگر ميں جلدى سے كوچ پر امادہ نہ ہو جاتى تو وہ مجھے طلاق دے ديتے _ ميرى ام المومنين كى حيثيت ختم ہو جاتى(۳۱)

كتاب عقدالفريد كے مولف نے لكھاہے كہ :

اس گفتگو كے بعد جب عائشه نے مدينہ جانے كااعلان كرديا _ حضرت علىعليه‌السلام نے تمام وسائل سفر عائشه كے اختيار ميں ديديئے _ اور انھيں چاليس يا ستّر عورتوں كے ساتھ مدينہ روانہ كرديا_

طبرى كابيان ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عائشه كے لئے بہترين وسائل سفر مھيا كئے ،اور انھيں بارہ ہزار درہم بھى عطا كئے اور انھيں بہت سے عورتوں مردوں كے ہمراہ مدينہ روانہ كيا جب يہ بارہ ہزاركى رقم عبداللہ بن جعفر(۳۲) كو كم معلوم ہوئي تو دوبارہ ايك معتديہ رقم عائشه كو عطا فرمائي _

انھوں نے فرمايا كہ اگر اميرالمومنين نے اجازت نہيں دى تويہ تمام رقم ميں اپنے ذمہ لے لوںگا _

مسعودى نے بھى عائشه كى وآپسى كے بارے ميں لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عبد الرحمن بن ابى بكر كو مامو ر فرمايا كہ اپنى بہن عائشه كو بنى عبدقيس اور ہمدان كى شريف عورتوں كے ہمراہ مدينہ پہنچا ديں _

اس واقعہ كو يعقوبى اور ابن اعثم نے بھى اپنى تاريخوں ميں لكھاہے فرق صرف يہ ہے كہ انھوں نے عبدالرحمن كانام نہيں لكھاہے(۳۳)

ان كى ماں اسماء بنت عميس خثعمى تھيں ، ان كے ماں بآپ دونوںہى اوائل ميں حبشہ ہجرت كى تھى ، وہيں حبشہ ميں عبداللہ پيدا ہوئے ،وہ پہلے مسلمان مولودہيں جو حبشہ ميں پيدا ہوئے اور اپنے بآپ جعفر كے ساتھ مدينہ وآپس ہوئے

____________________

۳۱_ ترجمہ فتوح بن اعثم ج۲ ص ۳۳۹_ ۳۴۰

۳۲_ عبداللہ بن جعفر حضرت علىعليه‌السلام كے بھائي جعفر كے صاحبزادے تھے _ قرشى وہاشمى تھے

۳۳_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۲ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۳ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۹۷

۱۵۵

جب ان كے والد كاانتقال ہواتو انكى ماں اسماء نے ابو بكر سے عقد كر ليا _ ا س طرح عبداللہ اور محمد بن ابى بكر مادرى بھائي ہيں _جس طرح محمد اور عائشه پدرى بھائي نہيں تھے عبداللہ دس سال كے تھے كہ رسول خدا (ص) نے انتقال فرمايا_ عبداللہ بڑے كريم حليم اور عرب كے سخى ترين لوگوںميں تھے مشہور ہے كہ ۸۰ ھ يا ۸۴ھ يا ۸۵ھ ميں نوے سال كى عمر ميں انتقال كيا ،ابان بن عثمان جو مدينہ ميں گورنر تھے ، انھوں نے آپكى نماز جنازہ پڑھائي_(۳۴)

جنگ جمل كے بدترين نتائج

جنگ جمل كے بدترين اثار ونتائج جو كچھ مترتب ہوئے اور بتدريج اس كے عواقب سامنے ائے وہ واقعى حيرت ناك ہيں_

مورخين نے اس بارے ميں لكھاہے كہ :

جنگ جمل ميں دونوں طرف سے ا س قدر تير اندازى ہوئي كہ دونوں كے تركش خالى ہو گئے ، دونوںفريق ميں ا س قدر نيزوںكى ردوبدل ہوئي كہ سپاہيوںكے سينے چھلنى ہوگئے _ دونوںلشكر سے ا س قدر افرادزمين پر ڈھير ہوئے كہ اگر سب لاشوںكو ميدان ميں جمع كر كے گھوڑے دوڑائے جاتے تو كسى گھوڑے كآپاو ں زمين پر نہ پڑتا خود ايك شخص جو اس جنگ ميں شريك تھابيان كرتا ہے كہ جنگ جمل كے بعد ميں جب بھى بصرہ دارالوليد دھوبيوں كے گھاٹ سے گزرتا تھا اوردھوبيوں كے كپڑا پيٹنے كى اوازسنائي ديتى تھى تو مجھے جنگ جمل ياد اجاتى تھى ،جس جنگ ميں نيزوںكى باڑھ يوں گونجتى تھى جيسے دھوبى كپڑآپيٹ رہا ہو(۳۵)

ہم نے گزشتہ صفحات ميں اس جنگ كے متعلق مورخين كے بيا نات نقل كئے ہيں كہ اس دن كس طرح بدنوں سے سر جدا ہو رہے تھے ، ہاتھ كٹ رہے تھے ،پيٹ پھٹ رہے تھے _

مصيبت كے ماروں كى تعداداور اس جنگ ميں كٹے ہاتھوں اور پھوٹى انكھوں كى تعدادتصور سے بھى كہيں زيادہ ہے _ مقتولوں كى تعداد طبرى نے چھ ہزار لكھى ہے ، ليكن ابن اعثم نے اپنى تاريخ ميں عائشه كے لشكر كے مقتولوں

____________________

۳۴_اسد الغابة ج ۳۰ ص ۱۳۳ ، استيعاب ص ۴۲۲

۳۵_ طبرى ج۵ ص ۲۱۸ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۲

۱۵۶

كى تعداد نو ہزار لكھى ہے ، اور حضرت علي(ع) كے لشكر سے سات ہزار قتل ہوئے _

ابن عبدربہ عقدالفريدميں لكھتے ہيں كہ جنگ جمل ميں لشكر عائشه كے بيس ہزار افراد قتل ہوئے اور حضرت على كے لشكر كے پانچسوافراد قتل ہوئے _

تاريخ يعقوبى ميں ہے كہ دونوں طرف كے مقتولوں كى تعدادتيس ہزار سے زيادہ ہے(۱)

جى ہاں_ جنگ جمل ميں حد سے زيادہ اقتصادى نقصان پہنچا _جانى اور جسمانى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا _ كتنى ہى مائوں نے اپنے جوانوں كے داغ جھيلے _ كتنى ہى عورتيں بيوہ ہو گئيںاور ڈھير سارے بچّے يتيم ہوئے _

يہ تمام طمانچے ،نقصانات اور خرابياں صرف ايك دن ميں وارد ہوئيں،ہاں اسى دن جب شورش اور جنگ اسلامى معاشرے پر تھوپا گيا _ايك محدود اور معين نقطے پر ،ليكن ان نقصانات اور بدترين نتائج كے علاوہ بعد كے ايام ميں سالوں بعد اسلامى معاشرے پر اس جنگ كى وجہ سے وارد ہونے والے نقصانات اس سے كہيں زيادہ ہيں جو اسلامى ممالك نے جھيلے، ان كا تو اندازہ ہى نہيں كيا جاسكتا _ ہم يہاں كچھ تاريخوں كے تجزيے قارئين كرام كے سامنے پيش كر رہے ہيں_

بعد كے نتائج

ايك جنگ جمل كا تلخ ثمرہ يہ ہوا كہ جنگ صفين كى اگ بھڑك اٹھى _ كيونكہ واقعى بات يہ ہے كہ جنگ صفين اصل ميں جنگ جمل كااختتاميہ اور اسى كا بدترين اثر ہے _ يہ دونوں جنگوں كا باہم مضبوط رشتہ ہے _ جسكى ابتدا ميدان بصرہ ميں اور انتہاميدان صفين ميں ہوئي، اس رشتہ كاسراعائشه كے ہاتھ ميں نظر اتا ہے ، انھوں نے اپنے مضبوط ہاتھوں ميں تھام كر اخر اخر تك اسے حركت ديتى رہيں _

كيونكہ عائشه قبيلہ تيم سے تھيں ان كا عثمان كے خاندان سے كوئي رشتہ نہ تھا _ ان كى بغاوت نے معاويہ كى بغاوت كاراستہ ہموار اور اسان كيا ،انھيں كى وجہ سے معاويہ كو بہانہ ہاتھ ايا،كيونكہ جب عثمان كے غير خاندان كى عورت

____________________

۱_ طبرى ج۵ ص ۲۵ ، عقد الفريد ج۴ ص ۲۲۴ ، تاريخ اعثم كوفى جمل

۱۵۷

خون عثمان كا مطالبہ كر سكتى ہے تو معاويہ بدرجہ اولى اس انتقام كا حق ركھتے ہيں ، چنانچہ انھوں نے خون عثمان كو بہانہ بنا كر جنگ صفين كھڑى كر دى _

۲_ انتقام عثمان كا مطالبہ عائشه اس بات كا سبب بنا كہ معاويہ خلافت كواپنے خاندان بنى اميہ ميں موروثى حيثيت سے قرار ديں كيونكہ خليفہ مقتول انھيں كے خاندان سے تھے _انھوں نے خلافت كو اس طرح موروثى قرار دياكہ كسى دوسرے خاندان ميں منتقل ہونا ممكن نہ ہو _

۳_ جنگ جمل برپاہونے اور ختم ہونے كاسلسلہ جارى رہابلكہ يہ دونوں جنگيں جمل وصفين ايك دوسرے سے ا س قدر پيوست تھيں كہ ايك تيسرى جنگ پيدا ہوئي جسے جنگ نہروان كہا جاتا ہے ، اس جنگ نے بھى بہت سے مسلمانوںكو خون ميں نہلايا _

كيونكہ ان دونوںجنگوںنے بدباطن لوگوںميں تنگ نظرى اور برے نظريات پيداكر ديئےور ايسى كوتاہ فكرى پيدا كردى كہ لوگ تشويش و اضطراب كى زد ميں اگئے _ الزام وجو ا بى الزام كى فضا بن گئي _ عناد كى نظريں ايك دوسرے كو ديكھنے لگيں اكثر مسلمانوں نے تكفير كے فتوے ايك دوسرے كو دئے اور ايك دوسرے كا خون مباح سمجھ ليامسلمانوںميں امن و اسائشے نام كو نہيں رہ گئي ، جنگ و خونريزى كے دروازے كھل گئے جس كا سلسلہ بنى عباس كے عہد تك جارى رہا اس درميان بے شمار مسلمانوںنے اپنى جان سے ہاتھ دھويا اس تجزئے سے معلوم ہوتاہے كہ جنگ جمل صرف بصرہ تك ہى محدود نہيں رہى _ جو ميدان بصرہ ميںمحدود وقت تك برپا رہى بلكہ اس جنگ نے كشش پيداكى اور اسلامى سر زمين كے زيادہ حصہ ميں پھيلتى چلى گئي ، بہت سے مسلمانوں كو متاثر كيا اور ايك طويل مدت تك مسلمانوں ميں اپنى گونج پيداكرتى رہى جنگ جمل كے نام سے تو نہيں بلكہ اسكے نام مختلف تھے اور اسكے عنوان الگ تھے _

نظرياتى اختلافات كى پيدائشے

كسى بھى قوم اور معاشرے ميں جنگ و خونريزى ہونے سے ہر طرح كے اختلافات اور نظرياتى ٹكرائوكے راستے رد عمل كے طور پر كھل جاتے ہيں نظرياتى تضادرہن سہن ميں اختلافات اور عقيدے ميں ٹكرائو كى فضا بن جاتى ہے ،فكرى اختلاف عملى اختلاف كا باعث بنتاہے اسكے برعكس عملى اختلاف نظرياتى اختلاف كو جنم ديتا ہے _

جنگ جمل وصفين ونہروان بھى اس قانون طبيعى سے مستثنى نہيں رہے ہر ايك جنگ نے اپنے مخصوص دائرے ميں مسلمانوںكے افكار ميں اور روح ميں بھى اپنے اثرات چھوڑے _ اس جنگ كے بعدلوگ كئي گروہ وعقيدہ اور طرز تفكر ميں بٹ گئے _

۱۵۸

كچھ تو طر ف دار حضرت علىعليه‌السلام ہوئے انھيں علوى گروہ كہا جانے لگا(۲) كچھ لوگ عثمان كے طرفدارہوگئے انھيں عثمانى پارٹى كہا جانے لگاكچھ ايسے تھے جنھوں نے ان دونوں كو كافر كہہ ديا ، كچھ نے بنيادى طور پر ان دونوں سے ا پنے كوالگ ركھا _ وہ لوگ اخر تك غير جانبدار رہے ، اسى طرح ہر گروہ نے ايك نئي پارٹى بنا لى اور اپنى پارٹى كانيا نام ركھ ليااور اسى نام سے مشہور ہو گيا _

يہى وجہ تھى كہ داخلى جنگوں كے بعد مسلمانوں كے درميان نئے نئے مذاھب،فرقے اور عقيدے پيداہوتے گئے _اس فكرى اختلاف نے جو جنگ كے نتيجے ميں پيدا ہوئے تھے بعد ميں بھى نئي جنگوں كے راستے ہموار كئے جو بڑى شديد اور خونريز ہوئيں اور اگر خونريز جنگ نہيں ہوتى تو سرد جنگ اور گومگو كى كيفيت كى وجہ سے كلامى بحثيںپيدا ہو گئيں ، يہ تمام خرابياں اسى جنگ جمل كے نتيجے ميں پيدا ہوئيں(۳)

جى ہاں_ جنگ جمل سے ان نقصان دہ نتائج كے علاوہ جن كا گزشتہ صفحات ميں تذكرہ كيا گيا بہت بڑے بڑے اختلافات اور شديدكشمكشوں نے بھى مسلمانوں كے گروہ ميں جنم ليا _

خوارج كا عقيدہ تھا كہ طلحہ ،زبير اور عائشه نے حضرت على سے جنگ كى ،انھوں نے اپنے امام كى مخالفت كي، اس وجہ سے يہ سب كے سب مخالفت على كى وجہ سے كافر ہو گئے ان كا اسلام سے كوئي تعلق نہ رہاكيونكہ اس دن حق على كى طرف تھا _ ليكن انھوں نے بھى جنگ صفين ميں تحكيم كو منظور كر ليا ابو موسى اشعرى اور عمروعاص كو كا حاكم مان ليا اس لئے وہ بھى اسلام سے خارج ہو گئے _

خوارج كے كچھ فرقہ جنگ جمل ميں على كو حق پر سمجھتے ہيں،ليكن چونكہ انھوں نے تمام بصرہ كى دولت مال

____________________

۲_ يہ علوى كہے جانے والے لوگ شيعوں كے علاوہ ہيں ، كيونكہ شيعت كى ابتداء زمانہ رسالت ميں ہوئي ہے جن كا نمونہ عمار ياسر ، مالك اشتر جيسے لوگ ہوئے _

۳_ كتاب عثمانيہ جاحظ ج۵۵ ص ۲۵۰ ، ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۵۹

۱۵۹

غنيمت كے طور پر لوٹنے كى اجازت نہيں دى ، ان كے بچوں اور عورتوں كو اسير نہيں كيا اس لئے انھوں نے غلطى كى _ اس غلطى كى وجہ سے وہ حضرت علىعليه‌السلام كو گالى ديتے ہيں اور لعنت كرتے ہيں(۴)

معتزلہ كے بعض فرقے ان دونوں گروہوں كو كافر كہتے ہيں عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام ہر دو لشكر كے افراد كو دائرئہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں ان كاخيال ہے كہ يہ دونوں ہميشہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے(۵)

معتزلہ كے كچھ دوسرے گرو ہ ان دونوںمخالف دھڑوںكو بغير معين كئے فاسق اور جہنمى كہتے ہيں كيونكہ يہ دونوں گروہ فاسق اور گنہگار تھے ليكن ان ميں سے ايك فاسق اور جہنمى ہوگاجسكا فيصلہ خدا كرے گا،اس گروہ كے عقيدہ كے مطابق ان دونوں ميں سے كسى كى بھى شہادت قابل قبول نہيں _ وہ يہ كہتے ہيں كہ على و عائشه كے تمام لشكر والے اگر ايك ہرے پتے كى گواہى ديں تو قبول نہيں كى جا ئے گى نہ اس گواہى پر اعتباركياجائے _(۶)

معتزلہ كے تيسرے گروہ كا عقيدہ لشكر عائشه كے بارے ميں يہ ہے كہ ان ميں سبھى يہا ں تك كہ طلحہ و زبير بھى گنہگار اور جہنمى ہيں ليكن ان ميں وہ لوگ جہنمى نہيں رہيں گے جنھيں اپنے كئے پر احساس پشيمانى ہو ااور انھوں نے توبہ كر لى _ اس گروہ كا خيال يہ ہے كہ عائشه ان لوگوں ميں تھيں جنھوں نے پشيمانى ظا ہر كر كے توبہ كى كيونكہ عائشه جنگ كے بعد امير المومنين كے پاس ائيں اور اپنے گناہ كا اعتراف كيا ان سے معافى مانگى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى انہيں بخش ديا _اور انكى لغز ش ا ور گناہوں سے صرف نظر فرمايا(۷)

جاحظ كہتے ہيں كہ عائشه اور حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بارے ميں بعض لوگوں كا عقيدہ يہ ہے كہ دونوں لشكر كے فوجى افسران تو نجات پا جائيں گے ليكن ان كے فوجى جہنم ميں داخل كئے جائيں گے(۸)

زيادہ تر اشاعرہ كے لوگوں كا لشكر عائشه كے بارے ميں يہ عقيدہ تھا كہ انھوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف خروج كر كے غلطى كى ،مرتكب گناہ ہوئے ليكن ان كا يہ گناہ ايسا نہيں كہ انھيں كافر كہا جا سكے نہ ا ن كا گناہ فسق كا باعث ہے ، ان كى اس غلطى كى وجہ سے عداوت يا دشمنى ركھنا منا سب نہيں ،بلكہ يہ غلطى اشتباہ كى وجہ سے ہوئي اور يہ معمولى غلطى ہے جو

____________________

۴_ الملل ج۱ ص ۱۷۶ ، التبصير ص ۲۷ ، الفرق بين الفرق ص ۵۸

۵_ التبصير ص ۴۲

۶_ التبصير ص ۴۱

۷_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۳ ص ۲۹۶_ ج۲ ص ۴۴۸

۸_ كتاب عثمانيہ جاحظ ص ۲۴۶ ، طبع مصر سال ۱۳۷۴

۱۶۰

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198