تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 20%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79148 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اسلام انسان کو انسانی زندگی گزارنے کی ترغیب اور حیوانوں کی طرح زندگی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں حیوانوں کے زمرے میں زندگی گذارنے والے افراد نظام اسلام کو سلب آزادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اس روایت میں ایسی خام خیالی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر کسی وقت مادی لذت اور معنوی اور روحی لذتوں کا آپس میں ٹکراؤہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ عشق انسانی عشق خدا کے ساتھ ٹکراجائے تو عشق الٰہی کو عشق انسانی پر مقدم کیا جائے کہ جس کے نتیجہ میں خدا وند ابدی زندگی میں خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے گا لہٰذا نمازی اور اسلام کے اصولوں کی پابندرہنے والے کسی مادی لذت سے محروم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اگر کوئی شخص آدھا گھنٹہ کے ارام کو چھوڑدے اور نماز شب انجام دے تو خدا قیامت کے دن اس کے بدلے میں دائمی لذت عطا فرمائے گا لہٰذا اس مختصر وقت کی مادی لذت کا قیامت کی دائمی لذت کے حصول کی خاطر ترک کرنا لذت مادی سے محروم نہیں ہے ۔

٧۔نماز شب پڑھنے کا ثواب

انسان روز مرہ زندگی میں جو کام انجام دیتا ہے وہ دوطرح کا ہے۔

١۔ نیک ۔

٢۔ بد ۔

نیک عمل کو قرآن وسنت میں عمل صالح سے یادکیا گیا ہے جب کہ بداوربرُے اعمال کو غیر صالح اور گناہ سے یاد کیا گیا ہے مندرجہ زیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کا نتیجہ ثواب ہے اورہر بُرے اعمال کا نتیجہ عقاب ہے لیکن ثواب اور عقاب کا استحقاق اور کمیت وکیفیت کے بارے میں محققین اور مجتہدین کے مابین اختلاف نظر ہے علم اصول اور علم کلام میں تفصیلی بحث کی گئی ہیں اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے ۔

ثواب وعقاب کے بارے میں تین نظرئیے ہیں:

١) ثواب وعقاب اور جزاء وعذاب جعل شرعی ہے۔

٢)عقاب وثواب جعل عقلائی ہے ۔

٣) دونوں عقلی ہے یہ بحث مفصل اور مشکل ترین مباحث میںسے ایک ہے۔

۶۱

جس کا اس مختصر کتاب میں نقدوبررسی کی گنجائش نہیں ہے فقط اشارہ کے طور پر ثواب وعقاب کے بارے میں استاد محترم حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کا نظریہ قابل توجہ ہے کہ آپ نے درس اصول کے خارج میں فرمایا کہ ثواب وعقاب کا استحقاق عقلی ہے لیکن ثواب وعقاب کا اہدٰی اور اعطا امر شرعی ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو انجام دے تو عقلا عمل کرنے والا مستحق ثواب ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی برے کام کا مرتکب ہو تو عقاب وسزا کا عقلا مستحق ہے لیکن ان کا اہدی کرنا اور دنیا امر شرعی ہے یعنی اگر مولٰی دنیا چاہے تو دے سکتا ہے نہ دنیا چاہے تو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہے لہٰذا ثواب وعقاب کا مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا ہے پس ثواب وعقاب ہر نیک اور بد عمل کا نتیجہ ہے کہ جس کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے :

''مامن عمل حسن یعمله العبد الا وله ثواب فی القرآن الاصلوة اللیل فان الله لم یبین ثوابها لعظیم خطرها عنده فقال تتجا فاجنوبهم عن المضاجع فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة اعین جزاء بما کا نو یکسبون ''(٣)

یعنی ہر نیک کام جیسے بندہ انجام دیتا ہے تو اس کا ثواب بھی قرآن میں مقرر کیا گیا ہے مگر نماز شب کا ثواب اتنازیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے قرآن میں اس کا ثواب مقرر نہیں ہوا ہے (لہٰذا )خدا نے (نماز شب کے بارے میں ) فرمایا کہ( تتجافا جنوبهم عن المضاجع ) یعنی نماز شب پرھنے والے اپنے پہلوں کو رات کے وقت بستروں سے دور کیا کرتے ہیں اور اس طرح فرمایا :( فلا تعلم نفس ما اخفی من قرة عین بما کا نو ایکسبون ) یعنی اگر کوئی شخص نماز شب انجام دے تو اس کا مقام اور ثواب مخفی ہے اسے وہ نہیں جانتے ۔

____________________

(٣)بحارج ٨ ص٣٨٢

۶۲

توضیح وتفسیر

توضیح اس حدیث شریف میں فرمایا کہ ہر نیک کام کرنے کے نتیجہ میں ثواب ہے اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں کیا گیا ہے صرف نماز شب کے ثواب کو قرآن میں مقرر نہیں کیا گیا ہے اس کی علت یہ ہے کہ اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ جیسے خالق نے پردہ راز میں رکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب تمام مشکلات کو دور کرنے کا ذریعہ کامیابی کا بہترین وسیلہ اور سعادت دنیا وآخرت کے لیے مفید ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہم سب اس نعمت سے مالامال ہوں پس مذکورہ آیات وروایات سے نماز شب کی اہمیت اور عظمت قرآن وسنت کی روشنی میں واضح ہوگئی ۔

ج۔نماز شب اور چہاردہ معصومین )ع( کی سیرت

الف: پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت

مذہب تشیع کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء وائمہ علیہم السلام کے علاوہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) جیسی ہستی کو بھی معصوم مانتے ہیں کہ جو ہماری کتابوں میں چہاردہ معصومین کی عنوان سے مشہورہیں جن میں سے پہلی ہستی حضرت پیغمبر اکرم )ص(ہے اور پیغمبر اکرم )ص( اور باقی انسانوں کے مابین کچھ احکام الہیہ میں فرق ہے یعنی خدا کی طرف سے کچھ احکام پیغمبر اکرم )ص( پر واجب ہے جبکہ یہی احکام دوسرے انسانوں کے لئے مستحب کی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسے نماز شب پس اسی مختصر تشریح سے بخوبی یہ علم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(کی سیرت میں نماز شب کا کیا نقش واثر تھا لہٰذا پیغمبر اکرم کی سیرت طیبہ پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کو نماز شب ہمیشہ انجام دینا ہوگا کیونکہ آنحضرت بطور واجب ہمیشہ انجام دیتے تھے

ب۔حضرت علی کی سیرت

چہاردہ معصومین میں سے دوسری ہستی حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں اگر ہم نماز شب کے بارےے میں علی کی سیرت جاننا چاہے تو علی کے ذرین جملات سے آگاہ ہونا صروری ہے آپ نے فرمایا جب پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا نماز شب نورہے تو میں نے اس جملہ کے سننے کے بعد کبھی بھی نماز شب کو ترک نہیں کیا اس وقت ابن کویٰ نے آپ سے پوچھا یاعلی کیا آپ نے لیلۃ الھریر کو بھی نہیں چھوڑی ؟ جی ہاں.

۶۳

توضیح :

لیلۃ الہریر سے مراد جنگ صفین کی راتوں میں سے ایک رات ہے کہ جس رات امرالمومنین کے لشکر نے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور خود حضرت علی نے دشمنوں کے پانچ سو تئیس (٥٢٣) افراد کو واصل جہنم کیا اس فضا اورماحول میں بھی حضرت علی نے نماز شب کو ترک نہیں فرمایا(١)

یہی نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کی بہترین دلیل ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود قرآن وسنت کی حفاظت کی خاطر بہتر (٧٥) جنگہوں میں شرکت کی اور ہر وقت اصحاب سے تاکید کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہماری کامیابی صرف واجبات کی ادائیگی میں نہیں ہے بلکہ نماز شب جیسے نافلہ میں پوشیدہ ہے اسی لئے آپ سے منقول ہے کہ ایک دن ایک گروہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے جارہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ماننے والے ہیں آپ نے فرمایا تو پھر کیوں ہمارے ماننے والوں کی علامات تم میں دیکھائی نہیں دیتی۔

تو انہوں نے پوچھا آپ کے ماننے والوںکی علامت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ان کے چہرے کثرت عبادت سے زرد اور بدن کثرت عبادت کی وجہ سے کمزور ،زبان ہمیشہ ذکر الہی کے نتیجہ میں خشک اور ان پر ہمیشہ خوف الہی غالب آنا ہمارے پیروکاروں کی علامتیں ہیں کہ جو تم میں نہیں پائی جاتی ،(۲)

پس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت علی کی سیرت نماز شب کے بارے میں وہی ہے جو حضور اکرم اور باقی انبیاء علیہم السلام کی تھی

____________________

(١)کتاب صفات الشیعہ

(۲)بحارالانوار ج ٢١

۶۴

ج۔حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت

چہاردہ معصومین )ع( میںسے تیسری ہستی حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) ہے کہ جو عبادات اور تہجد میں ایسی سیرت کے مالک ہے کہ جس کے پیغمبر اکرم )ص( اورعلی علیہ السلام تھے لہٰذا جب آپ محراب عبادت میں مشغول عبادت ہوتی تھی تو فرشتے دولت سراء میں حاضر ہوجاتے تھے اور آپ کے گھریلوکاموں کو انجام دیتے تھے کہ اس مطلب کو حضور اکرم کے مخلص صحابی جناب ابوذر غفاری نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم نے مجھے حضرت علی کو بلانے کے لئے بھیجا تو میں نے دیکھا کہ علی اور زہرا (سلام اللہ علیہا ) مصلی پر عبادت الہٰی میں مشغول ہیں اور چکی بغیر کسی پسینے والے کے حرکت کر ر ہی تھی میں نے اس منظرکو پیغمبر ؐکی خدمت میں عرض کیا تو پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا اے ابوذر تعجب نہ کیجئے کیونکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ) کی اتنی عظمت اور شرافت خدا کی نظر میں ہے کہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھریلو ذمہ داریوں میں سے ایک چکی چلانا بھی ہے لیکن جب زہرا (سلام اللہ علیہا ) خدا کی عبادت میںمصروف ہوجاتی ہے تو خدا ان کی مدد کےلئے فرشتے مأمور فرما تے ہیں لہٰذا چکی کو چلانے والے فرشتے ہیں نیز امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے فرمایا جب ہماری والدہئ گرامی شب جمعہ کو شب بیداری کرتی تھی تو نماز شب انجام دینے کے بعد جب صبح نزدیک ہوجاتی تو مؤمنین کے حق میں دعائیں کرتی تھی لیکن ہمارے حق میں نہیں کرتی تھی میں نے پوچھا ہمارے حق میں دعا کیوں نہیں فرماتیں تو آپ نے فرمایا پہلے ہمسائے کے حق میں دعا کرنا چاہیئے پھر خاندان پس حضرات زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو چاہے کہ نماز شب نہ بھولے کیونکہ نماز شب ہی میں تمام سعادتیں پوشیدہ ہے ۔

۶۵

د۔حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی سیرت

جس طرح جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا )کی معرفت وعظمت سے ابھی تک اہل اسلام بخوبی آگاہ نہیں ہوسکے اسی طرح جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا ) کی انقلاب ساز شخصیت سے آشنا ئی نہیں رکھتے لہٰذا بی بی زینب (سلام اللہ علیہا ) زندگی کے ہر میدان میں انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ عمل ہے یہی وجہ ہے کہ آپ (سلام اللہ علیہا ) ہمیشہ اپنی والدہ گرامی کی طرح رات کی تاریکی میں محراب عبادت میںخدا سے راز ونیاز میں مشغول رہتی تھی۔

اس امر کا انکشاف تاریخ کر تی ہے کہ کربلا ء کوفہ اور شام میں درپیش عظیم مصائب کے باوجود بی بی تلاوت قرآن اور نماز شب انجام دیتی تھی اور ساتھ اپنے اہل بیت اور رشتہ داروں کو بھی اس کی تلقین فرماتی تھی اسی طرح نماز شب کا انجام دینا نہ صرف بی بی زہرا (سلام اللہ علیہا اور زینب (سلام اللہ علیہا ) کی سیرت ہے بلکہ زہرا (سلام اللہ علیہا کی خادمہ فضہ کی بھی سیرت تھی۔

پس خواتین اگر جناب زہرا (سلام اللہ علیہا ) جناب زینب (سلام اللہ علیہا ) اور فضہ خادمہ کی سیرت پر چلنا چاہتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ نماز شب فراموش نہ کریں ۔

ز۔نماز شب اور باقی ائمہ )ع(کی سیرت

آئمہ علیہم السلام میں سے دوسرا اور چہاردہ معصومین میںسے چوتھی ہستی حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہے اگر آپ کی سیرت کا مطالعہ نماز شب کے حوالے سے کیا جائے تو وہی سیرت ہے جو پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت طبیہ تھی لہٰذا آپ ہمیشہ رات کے آخری وقت میں نماز شب انجام دیتے تھے اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس پر آشوب فضاء اور ماحول میں اسلام اور قرآن اور خاندان رسالت کے نام زندہ رہنا نا ممکن تھا لیکن آپ کی عبادت اور شب بیداری کے نتیجہ میں قرآن واسلام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی حقانیت کو بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے نیز حضرت امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی عبادت الہی اور قرآن وسنت کی حفاظت میں گزری۔

۶۶

لہٰذا کہا جاتاہے کہ آپ کی سیرت طیبہ میں اہم ترین سیرت نماز شب ہے آپ رات کو خدا سے راز ونیاز کرنے کے اتنے عاشق تھے کہ جب کربلاء میں پہنچے تو آپ اپنے بھائی جناب عباس سے تاسوعا( نویں) محرم کے دن کہنے لگے کہ آپ دشمنوں سے ایک رات کی مہلت لیجئے تاکہ آخری شب قرآن کی تلاوت اور عبادت الہی میں گزار سکوں کیونکہ خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز شب اور تلاوت قرآن سے کتنی محبت ہے نیز امام سجاد علیہ السلام کی سیرت بھی عبادت الہی کے میدان میں کسی سے مخفی نہیں ہے کیونکہ آپ کو دوست ودشمن دونوں سیدالساجدین اور زین العاہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے لہٰذا آپ کی پوری زندگی یزید (لعنۃ اللہ علیہ) کی سختیوں کے باوجود سجدے اور شب بیداری میں گذاری چنانچہ اس کا اندازہ ہم ان سے منقول ادعیہ جو صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے کرسکتے ہیں یہ آپ کی شب بیداری کا نتیجہ تھا کہ جس سے دشمنوں کو ناکام ہونا پڑا اسی لئے آپ کی شب بیداری اور عبادت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے :

''وکان علی ابن الحسین یقول العفو تلاثماة مرة فی الوترفی السحر ۔''

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ وتر کے قنوت میں سحر کے وقت تین سو مرتبہ العفو کا ذکر کہا کرتے تھے۔

لہٰذا ہر سختی ومشکل کے موقع پر کام آنے والا واحد ذریعہ نماز شب ہے جو تمام انبیاء اور ائمہ کی تعلیمات سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس عظیم وسیلہ سے مددلی ہے اور دوسروں کو اس کی دعوت دی ہے اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت کا اندازہ ان سے منقول روایات سے بخوبی کرسکتے ہیں نیز امام موسی کاظم باب الحوائج علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام امام حسن العسکری علیہ السلام اور امام زمان علیہ السلام ان تمام حضرات کی سیرت میں بھی نماز شب واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جو ہر سختی کے لئے کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

۶۷

د۔علماء کی سیرت اور نماز شب

علم ومعنویت کے میدان میں ہماری ناکامی کی دووجہ ہوسکتی ہیں:

١) قرآنی تعلیمات اور چہاردہ معصومین کی سیرت کو اپنی روز مرہ زندگی کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دینا۔

٢) بزرگ علمائے دین حضرات کی سیرتوں پر نہ چلنا جس سے انسان اخلاقی اور اصول وفروع کے مسائل سے بے خبر رہ جاتا ہے لہٰذا اگر انسان ان کی سیرت پر نہ چلے تو دنیوی زندگی میں ناکام اور شقاوت سے ہمکنار اوراخروی زندگی میں بد بختی اور نابودی کے علاوہ کچھ نہیں پا سکتا لہٰذا نماز شب کے بارے میں علماء اور مجتہدین کی سیرت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ تہجد گزار حضرات کے لئے اطمنان قلب اور تشویق کا باعث بنے کیونکہ مجتہدین، عصر غیبت میں ائمہ علیہم السلام کے نائب اور حجت خدا ہیں تب ہی تو قرآن میں فرمایا:

''انما یخشی الله من عباده العلمائ ۔''

اور ائمہ علیہم السلام نے فرمایا:

''العلماء امنا العلماء ورثة الانبیاء ۔''

الف )نماز شب اورامام خمنی کی سیرت :

دور حاضر کے مجتہدین میں سے ایک آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی ہے جنہوں نے اسلام کے پرچم کو بیسویں صدی کے اواخر میں بلند کرکے مذہب تشیع کے اس نظرئیے کی ایک بار پھر تجدید کردی کہ علمائے ربانی ہی ائمہ علیہم السلام کے حقیقی وارث اور نائب ہیں اور انہیں کی پیروی، چاہے دنیوی امور میں ہو یا دینی تمام میں لازم ہے ان کی زندگی آنحضرت ؐاور ائمہ اطہار کی سیرت کے مطابق تھی یہی وجہ ہے کہ وہ تمام انسانوں میں ایک بڑے مقا م پر فائز ہوئے اور دنیا ان کے عظیم کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور دنیاء کے اہل علم حضرات کو چاہئے کہ وہ ان کہ اسلامی اورانقلابی افکار کو ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنائیں وہ عالم باالزمان تھے اسی لیئے انہوں نے معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اور شرق وغرب کے طاغوت کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے رکھ دیا یہ تمام طاقت اور مدد اسلام کے انسان ساز عبادی پہلوںسے کما حقہ فیض اٹھانے کی وجہ سے حاصل ہوئی چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فرعون ایران کے سپاہی آپ کوگرفتار کرکے تہران لے جارہے تھے

۶۸

تو انہوں نے مامورین سے نماز شب انجام دینے کی اجازت مانگی اسی طرح جب وہ ایک روز بیمار ہوئے تو ہسپتال میں مرض کی حالت میں بھی نماز شب کو قضا نہ ہونے دیا.تیسرا موقع وہ ہے کہ جب امام خمینیؒ نجف اشرف سے کویت جانے پر مجبورہوئے توسفر کے باوجود انھوں نے نمازشب انجام دی اسی طرح اوربھی متعد دموارد ا ن کی حالات زندگی میں ملتے ہیں اسی لئے آج اکیسویں صدی کی دنیا حیران ہے کہ ایک عمررسیدہ ناتواں انسان نے اڈھائی ہزار سالہ شہنشا ہیت کے بت کو اس طرح سر نگون کر کے رکھ دیا اس کی وجہ کیا تھی؟جبکہ وہ کسی خاص سیاسی ترتیب گاہ کے ترتیب یا فتہ نہ تھے اورنہ ہی کسی سیاسی گھرانے میں پرورشںپائی تھی۔اس کا راز نماز شب جیسی انسان ساز عبادت اور اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوناہے اسی لیے انہوں نے اس دنیا میںاپنے جانے سے پہلے اس فکرکو چھوڑا کہ اسلام کانظام ہی فقط دنیاء کے قوانین پرحاکم ہے اورکسی شرق وغرب کے قوانین کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ عوام پرحکومت کرلے.

(ب) شہیدمطہری کی سیرت

چنانچہ آپ جانتے ہیںکہ شریعت اسلام میںجام شہادت نوش کرنے کی فضیلت اوراہمیت کیاہے جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ہرانسان کونہیںملتی تب ہی تو خداوندنے فرمایا(بل احیاء عند ربھم یرزقون) لہٰذا جام شہادت نوش کرنے کیلےئ کچھ خاص اسباب در کار ہیں شہید مطہری کو بار گاہ ایزدی میں سجدہ زیر ہونے کی توفیق حاصل ہوئی تھی اس لیے شہادت نصیب ہوئی شہید ہونے کا سبب ان کی نماز شب اور خدا سے راز ونیاز اوردیگرمستحبات کو انجام دنیا تھا کہ جس کوپابندی کے ساتھ انجام دینے کا سلسلہ طالب علمی کے زمانہ ہی سے شروع کررکھا تھاچنانچہ اس مطلب کو ان کے ساتھیوں میں سے کچھ نے یوں نقل کیا ہے کہ شہید مطہری مدرسہ میں نماز شب کے سختی سے پابند تھے اور ہمیں بھی تہّجد انجام دینے کی نصیحت کرتے تھے لیکن ہم شیطان کے فریب اور دھوکے کی وجہ سے بہانے کیا کرتے تھے جیساکہ کہاایک دن کسی دوست کو نماز شب انجام دینے کی نصیحت فرمائی لیکن انہوں نے کہا مدرسہ کاپانی میرے لیے مضرہے لہٰذا میںوضوء نہیں کرسکتا کیونکہ مدرسہ کاپانی نمکین ہے جومیری آنکھ کے لیے نقصان دہ ہے.شہیدمطہری نے دوست کے اس عذر کے پیش نظر آدھی رات کے وقت مدرسہ سے دورایک نالہ بہتا تھااس سے پانی لے آئے تاکہ ان کادوست نمازشب جیسی نعمت سے محروم نہ رہے۔

۶۹

اسی طرح شہیدکے بارے میںرہبر نے نقل کیا کہ شہیدمطہری نماز شب کے بے حدپابند تھے یہی وجہ ہے کہ آج کل محققین پریشان نظرآتے ہیںکہ مطہری کے افکار کیوںاس قدرمعاشرے میںزیادہ مئوثر ہیں؟جبکہ ان کے نظریہ دوسرے محققین کے نظریات سے ذیادہ مستدل نہیں ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نماز شب اورشب بیداری کے ساتھ نظریات کو جمع کیئے ہوئے تھے اس کے نتیجہ میں معاشرے پران کے افکارذیادہ مؤثر ہیں.

(ج) نماز شب اورعلاّمہ طباطبائی کی سیرت:

دنیاکاہردانشمند جانتاہے کہ علاّمہ طبا طبایئ دینی اورفلسفی مسائل میں اکیسویں صدی کے تمام محققین سے آگے تھے چنانچہ شہیدمطہری نے علاّمہ طباطبائی کے بارے میں یوں فرمایا علاّمہ طباطبائی کی شخصیت اوران کے عمیق نظریات کولوگ مزیدایک صدی کے بعد سمجھ سکیںگے کہ جس کی تائیدالمیزان جیسی تفسیرقرآن کے مطالعہ سے ہوتی ہے کہ اتنی توفیق ہمّت اورفہم وادراک کسی عام انسان کوحاصل ہونا محال عادی ہے۔

اسی لیئے سوال کیا جاتا ہے کیوں اتنی مالی مجبوری ہونے کے باوجودکوئی اورپشت پناہ نہ ہونے کے علاوہ علم کے سمندراوربے بہاگوہرآج حوزہ علمیہ قم اوردیگر جہاںکے گوشے میں علاّمہ طباطبائی کے نام سے منّورہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ علوم دینی کے حصول کی خاطر نجف اشرف تشریف لے گےئ تو کھبی کہبار مرحوم عارف زمان قاضی کی زیارت کو جاتے تھے انہوں نے ان کے حوالے دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن قاضی نے مجھ سے فرمایا:

.اے طباطبائی دنیاچاہتے ہویاآخرت؟اگر آخرت کے خواہاںہو تو نماز شب انجام دو کیونکہ آخرت کی زندگی نمازشب میں مخفی ہے اس بات نے مجھ پراتنا اثر کیاکہ نجف سے ایران آنے تک شب وروز قاضی کی مجلس میں جاتاتھا تاکہ ایسے مؤثرنصائح سے زیادہ متفید ہوسکوں اس وقعہ میں علاّمہ نے صریحاً نہیں کہا کہ میں ایران واپس آنے تک ہمیشہ ان کی نصیحت کی وجہ سے پابندی کے ساتھ نماز شب انجام دیتا رہا ہوںلیکن اشارتاً مطلب روشن ہے لہذا آپ کی تہجدّاور تقویٰ کانتیجہ ہے کہ آج ان کی عملی تالئیفات پر حوزے کے تمام دانشمدناز کرتے ہو ئے نظرآتے اور ان کے تربیت یافتہ شاگرد علم تقویٰ میں دوسروں سے آگے نظر آتے ہیںپس توفیق اور ہمّت کا عظیم سر چشمہ نماز شب ہے کہ جس سے ہمیں کھبی فراموش نہیں کرناچاہےئ.

۷۰

(د) نمازشب اور شہید قدّوسی کی سیرت

شہیدقدّوسی مستحبّات کی انجام دہی اورمکروہات کو ترکرنے میں خاصہ پابندتھے.وہ نمازشب کی اہمیت کے اس قدر قائل تھے کہ مدارس دینیہ طلاّب اور علمائے کرام کے لیئے نمازشب کوپابندی کے ساتھ انجام دینا لازم سمجھتے تھے یعنی اگر کویئ طالب علم نماز شب انجام دینے میںکوتاہی کرے توان کی نظر میںطالب علم شمار نہیں ہوتا تھا اسی طرح بہت سی علماء اور مجتہدین کی سیرت نماز شب اوررات کو خداسے رازونیاز کرناہی رہی لہٰذااگر خلاصہ کہا جائے تویہ نتیجہ نکلتا ہے جتنے بھی مجتہدین گزرے ہیں یا اس وقت زندہ ہیں ان تمام حضرات کی زندگی نمازشب میںخلاصہ ہو جاتا ہے اور محترم اساتذہئ کرام مرحوم آیۃ اﷲ العظمیٰ بروجردی کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آقای بروجردی نے کہا مرحوم آیۃاﷲ محمدباقرآیۃاﷲمیرزا آیۃاﷲقوچانی وغیرہ نماز شب کے قنوت میں قیام کی حالت میں دُعائے ابوحمزہ ثمالی پڑھاکرتے تھے۔

(ر)نماز شب اور مرحو م شیخ حسن مہدی آبادی کی سیرت:

ہمارے استاد محترم مؤ سس مدارس دینیہ و مراکز علمیہ محسن ملت مرحوم شیخ مہدی آبادی کی سیرت ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے کیونکہ آپ ہمیشہ طلباء اور علماء سے تہجد کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ پابند رہتے تھے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بلتستان جیسے پسماندہ علاقہ میں علوم آل محمد کے شمع جلائے اور بیسیوں مدارس سیکڑوں دینیات سینٹر ز مساجد امام بارگاہیں اور دینی مراکز قائم کر کے مذہب اہل البیت ؑ کی ترویج کا ایسا وسیلہ فراہم کیا جو رہتی دنیا تک جاری رہے گا اللہ تعالیٰ ان کو تہجد گذاروں کے ساتھ محشور فرمائیں۔

۷۱

دوسری فصل

نمازشب کے فوائد

جب کسی فعل کے نتائج اور فوائدکے بارے میںگفتگوہوتی ہے تو ہر انسان کے ذہن میںفوراًیہ تصور پیداہوتا ہے کہ کیا چیز ہے کہ جس کے خاطرانسان ہرقسم کی زحمات کوبرداشت کرتاہے تاکہ اس فائدہ اورنتیجہ سے محروم نہ رہے لہٰذاضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے فائدہ کی حقیقت اورنتیجے کاخاکہ ذہن میںڈالیں تاکہ ہمیں اپنے کاموں میں زیادہ مطمئن ہوفائدہ اور نتیجہ کی دواصطلاح ہیں:

١)اصطلاح فقہی۔

٢)اصلاح عوامی وعرفی ۔

اصطلاح فقہی میںفائدہ اس چیزکو کہا جاتا ہے جوفعل کے مقدار سے ذیادہ ہو جیسے ایک شخص کسی کے ہاں مزدوری کرتاہے تواس کی اجرت کام کے گھنٹوں کی مقدارسے زیادہ ہو تواس وقت فائدہ کہا جاتا ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کام کرتاہو لیکن اجرت کی مقدارگھنٹوںکی مقدار سے کم ہوتواس کونقصان اورخسارہ کہاجاتا ہے.اسی طرح اگرکسی چیزکی اُجرت وقت کے مقدارکے برابرہو تواس وقت فائدہ اورنقصان دونوںتعبیراستعمال نہں ہوتے.

لیکن عرف اورعوامی اصطلاح میں فعل کے نتیجے کو فائدہ کہا جاتاہے چاہے وہ نتیجہ فعل کے مقدار سے کم ہویازیادہ ہویابرابرہواسی لیے عوامی اصطلاح میں فائدہ کا مفہوم فقہی اصطلاح سے زیادہ وسیع ہے اور ہماراموردبحث نمازشب کے فوائدکواصطلاح عرف میں بیان کرنامقصدہے کہ جس کوبیان کرنے سے عاشقین الٰہی کواطمینان حاصل ہواورفائدے کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو ، لہٰذااس مختصرکتاب میں نماز شب کے فوائدکے اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے.

نماز شب کے اہم فائدے تین طرح کے ہیں:

۷۲

١)دنیامیںنمازشب کے آثاراورفوائد۔

٢)نمازشب کے فوائدبرزخ میں۔

٣)نمازشب کے فوائداورنتائج آخرت میں۔

البتہ ان تین قسموں کوبعض علماء اورمحققین نے دوقسموں میں تقسیم کیئے ہیں:

نمازشب کے مادی فوائدیعنی دینوی فوائد کومادی کہا جاتا ہے اور اخروی فوائد۔

لہٰذااس تقسیم کے بنا پرعالم برزخ اورعالم آخرت سے مربوط فوائد کو معنوی کہاجاتا ہے۔لیکن وہ فوائدجودینوی اورمادی ہیںان کی خود متعددقسمیں ہیں۔

(١)نمازشب باعث صحت

اگرآپ نمازشب پڑھیں گے تو نماز شب آپ کی تندرستی اورصحت بدن کا باعث بنتا ہے کہ دنیا میںتندرستی اورصحت اتنااہم اوردوررس موضوع ہے جس کو ہرانسان شخصی اوراجتماعی طورپر سرمایہ اورنعمت سمجھتا ہے۔نیزدنیا کے ہرنظام خواہ اسلامی ہویاغیر اسلامی اسے ضروری اورمحبوب قرار دیتاہے لہٰذا اگرہم کڑی نظر سے دیکھیںاوردقت کریںتومعلوم ہوتا ہے کہ دنیاکے کسی گوشے میںایسی کوئی حکومت اورملک نہیں ہے کہ جس میںاس معاشرے کے صحت اور تندرستی کہ خاطر کوئی پروگرام اورشعبہ مقررنہ کیا گیا ہولہٰذاہرحکومت اورنظام کی کوشش یہی رہی ہے کہ معاشرہ ہر قسم کے امراض اور بیماریوںسے پاک ہواورا مراض سے روک تھام کی خاطر ایک ماہر شخص کو وزیر صحت کے نام سے مقررکیا جاتا ہے اور وزیر تعلیم کی کوشش اور جدو جہد بھی یہی رہی ہے کہ سائنس اور علم الطب میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ معاشرہ کے امراض اور بیماریوں کو صحیح طریقے سے ٹھیک کرسکیں لہٰذا ہر گورنمنٹ اور حکومت اپنی درآمدات کے حساب سے سب سے زیادہ رقم تندرستی کے لوازمات کو فراہم اور مہلک امراض سے تحفظ کرنے کی خاطر مقرر کرتی ہے تاکہ تندرستی اور صحت یابی سے معاشرہ محروم نہ رہے ۔

اس طرح ہر حکومت اور نظام انسان کی صحت اور تندرستی کو بحال رکھنے کی خاطر کھیلوں اور دیگر مفید تفریحی پروگرام کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے تاکہ معاشرہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت سے مالامال ہو ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں تمام موضوعات سے اہم موضوع صحت اور تندرستی کا موضوع ہے لہٰذا اس موضوع میں کامیاب ہونے کی خاطرہر انسان ہزاروں زحمات اور تکالیف برداشت کرتا ہے اور کروڑوں روپیہ امراض سے بچنے اور تندرست رہنے کے لئے خرچ کرتا ہے چونکہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت دنیا میں کمیاب ہے لیکن نظام اسلام اور باقی نظاموں میں صحت کے حوالے سے ایک فرق ہے وہ فرق یہ ہے

۷۳

کہ غیر اسلامی نظاموں میں صرف مادی صحت اور تندرستی مورد نظر ہے لیکن اسلامی نظام کی نگاہ انسان کے دونوں پہلؤں کی طرف ہے یعنی روح اور بدن دونوں کی تندرستی اور صحت یابی مورد نظر ہے صحت کے اصولوں کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جس کی رعایت کرنے سے انسان روحی اور جسمی تندرستی سے مالامال ہوسکتا ہے لہٰذا فقہ میں مستقل ایک بحث ہے کہ اگر کوئی شخص مریض ہو تو کیا علاج کروانا واجب ہے یا نہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب خمسہ کے آپس میں نظریات مختلف ہیں۔

١۔امام احمد نے اس مسئلہ کے بارے میں کہا ہے کہ علاج رخصۃٌ و ترکہ درجۃٌ اعلیٰ۔ یعنی علاج کرنا جائز ہے لیکن نہ کرنا بہتر ہے ۔

٢۔ شافعی نے کہاہے کہ التداوی افضل من ترکہ یعنی علاج کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے۔

٣۔ ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ التداوی مؤاکد یعنی علاج کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

٤۔مالک نے کہا ہے کہ التداوی یستوی فعلہ و ترکہ یعنی علاج کرنا اور نہ کرنا مساوی ہے۔

٥۔ امامیہ کانظر یہ ہے کہ علاج کرنا واجب ہے۔(١)

لہٰذاعلاج کے بارے میں جتنی روایات امام رضاعلیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جن کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صحّت اورتندرستی کے موضوع کوکتنااہم اورضروری قراردیاگیاہے لہٰذاصحت اورتندرستی کوہمیشہ برقراررکھنے کے طریقوں میں سے ایک شب بیداری اورنمازشب کاانجام دیناہے کہ جس کے بارے میںپیغمبر اکرم)ص(نے فرمایا:

____________________

(١)المسائل الطیبہ استاد:محسنی دامت عزہ.

۷۴

''علیکم وصلوٰة اللّیل فانّهاسنّةنبیکم ودأب الصالحین فعلیکم و مطرة الداء عن اجسادکم ۔''(١)

آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نمازشب پڑھوکیونکہ نمازشب تمھارے نبی کی سیرت اورسنت ہے اورتم سے پہلے والے صالحین کی بھی سیرت ہے اورنمازشب پڑھنے سے تمھارے بدن کی بیماریاںدوراورٹھیک ہوجاتی ہے۔

تفسیروتحلیل روایت:

دنیامیںانسان کی عادت ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے توفوراًکسی ڈاکٹرسے مراجعہ کرتاہے تاکہ علاج کرسکے لیکن بسااوقات کچھ امراض ایسے ہیںکہ جن کاعلاج ڈاکٹروںکی قدرت اورتجربے سے خارج ہے لہٰذاان امراض کولاعلاج امراض سے تعبیرکرتے ہیںچنانچہ یہ مطلب تجربے اور مشاہدات میںآچکاہے یعنی بہت سارے بیمارافرادکوڈاکٹروںنے لاعلاج قراردیاہے لیکن قوانین اسلام اورنظام اسلامی نے تمام امراض کے لےئ علاج اور دوائیوںکی نشاندہی کی ہے جسے نمازشب،دعاء وصدقات اوردیگرکارخیرکوانجام دینا۔

لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوتاہے اگرانسان کے بدن پرکوئی مرض ہوجوڈاکٹروںکے نزدیک قابل علاج ہویاقابل علاج نہ ہو،نمازشب ہرایک

____________________

(١)علل الشرائع.

۷۵

بیماریوںکے علاج کاذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف یوںاشارہ فرمایا:نمازشب مطرۃ الداء عن اجسادکم یعنی نمازشب بدن سے امراض کے ٹھیک ہونے کاوسیلہ ہے لہٰذاآپ اگرصحّت بدن اورتندرستی جسمی کے جوا ہاں ہیں اور لاعلاج امراض کے علاج کوبغیرکسی خرچ اورزحمت کے کرناچاہتے ہیںتونمازشب پڑھیںکہ جس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے بدن کوتندرست اورنفسیاتی امراض کوٹھیک کرتی ہے اسی طرح دوسری روایت۔

مولیٰ امیرؑکایہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا:شب بیداری صحت یابی بدن اورتندرستی جسمی کاذریعہ ہے :

''قیام اللیل مصححة للبدن'' ( ١)

اگرچہ اس روایت میںنمازشب کوصریحاً باعث صحت اورتندرستی قرار نہیں دیابلکہ مطلق شب بیداری کے فوائدمیںسے ایک صحّت بدن قراردیاہے لیکن دوقرینوںسے معلوم ہوتاہے کہ قیام اللیل سے مراد نماز شب ہے. ایک قرینہ یہ ہے کہ اگر ہر قیام اللیل بدن کے تندرست اور صحت کا ذریعہ ہو تو نماز شب کے لئے قیام اللیل کرنا بطریق اولیٰ صحت اور تندرستی بدن کا ذریعہ ہے ۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دوسری روایت میں قیام اللیل کی وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد نماز شب ہے لہٰذا ان دونوں قرینوں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(١)۔کتاب الدعوات للراوندی ص٧٦.

۷۶

اس روایت میں قیالم اللیل سے مراد نماز شب ہے کہ جس کے فوائد دنیوی میں سے ایک فائدہ صحت بدن اور تندرستی ہے ۔

تیسری روایت:

امام المسلمین والمتقین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' قیام اللیل مصححة للبدن و مرضاة للرب عزوجلّ وتعرض للرحمة وتمسک باخلاق اللنبیین'' (١)

آپ نے فرمایا کہ شب بیداری صحت بدن اور تندرستی انسان کا ذریعہ اور خداوند تبارک وتعالیٰ کی رضایت حاصل ہونے ، رحمت پرورگار سے مالامال ہونے اور سارے انبیاء کے رفتار و کردار سے منسلک ہونے کا سبب ہے ۔

توضیح وتفسیر:

اس روایت میں مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب کے چار فوائد کا ذکر فرمایا.

١۔ نماز شب پڑھنے سے صحت ٹھیک اور تندرستی بحال ہوتی ہے کہ اس مطلب کی طرف تین روایات میں اشارہ فرمایا

٢۔دوسرا مطلب کہ نماز شب رضایت الٰہی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے

____________________

(١)۔ بحار الانوار ج ٨٧.

۷۷

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک آسان کام ہے کیونکہ پورے کائنات کے مخلوقات کی خلقت کا ہدف ہی رضایت الٰہی کو حاصل کرنا اور خدا کی بندگی کا شرف حاصل کرنا ہے لہٰذا رضایت خداوند حاصل کرنا بہت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مشکل کام کو باآسانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو نماز شب انجام دے کیونکہ نماز شب رضایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا نماز شب کو نہ چھوڑیں تاکہ اس کے فوائد سے محروم نہ ہو.

٣۔تیسرا فائدہ :

جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے اچھے اور صالحین کی سیرت پر گامزن ہوتا ہے کیونکہ نماز شب سارے صالحین کی سیرت ہے لہٰذا دنیا میں ہر انسان اچھے اور نیک حضرات کی سیرت کو اپنانے کی کوشش میں ہوتا ہے اور ان کی سیرت پر چلنے کی خاطر ہر قسم کے حربے مادی ہو یا معنوی اور دیگر وسائل سے کمک لیتے ہیں تاکہ ان کی سیرت پر گامزن ہو لہٰذا ہر معاشرہ میں اگر کوئی شخص اس معاشرہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہو امانتدار ہو اور دیگر ہر قسم کے عیب و نقص سے ظاہراً مبرّیٰ ہو تو دوسرے لوگ نہ صرف اس کو قابل احترام سمجھتے بلکہ اس کی سیرت کو اپنے لئے نمونہئ عمل قرار دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں

۷۸

لہٰذا نماز شب صالحین کی سیرت ہے کہ صالحین کے مصداق اتم انبیاء اور اوصیاء ہے پس نماز شب کا تیسرا فائدہ صالحین کی سیرت پر گامزن رہنا یعنی خود کو دوسروں اور آئندہ آنے والوں کے لئے نمونہئ عمل بنانا کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت اور مقام انسان کے لئے قابل تصور نہیں چنانچہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم)ص( نے اشارہ فرمایا:

'' علیکم قیام اللیل فإنّه دأب الصالحین فیکم وإنّ قیام اللیل قربة الیٰ اﷲ ومنهاة عن الاثم'' (٣)

یعنی تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ نماز شب نیکی کرنے والوں کی سیرت اور خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ اور گناہوں سے بچنے کا وسیلہ ہے نیز اسی مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوںنقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''علیکم بصلاة اللیل فإنّها سة نبیکم و دأب الصالحین و مطرة الدّاء عن اجسادکم ۔ ''

جس کا ترجمہ اور تفصیل پہلے گذر چکی ہے لہٰذا پہلی روایت کی تحلیل اور حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم)ص(نے اس روایت میں نماز شب کے فوائد میں سے تین فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا :

١۔نماز شب صالحین کی سیرت پر گامزن ہونے کا وسیلہ ہے

٢۔ نماز شب خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے کہ خدا سے قریب ہونےکی

____________________

(٣) کنز العمال.

۷۹

چاہت ہر انسان کی فطرت میں مخفی ہے لیکن عوامل خارجی کی وجہ سے کبھی بظاہر یہ چاہت مردہ نظر آتی ہے لہٰذا صرف مسلمانوں کی چاہت سمجھا جاتا ہے لیکن خدا سے قریب ہونے سے مراد قرب مکانی اور زمانی نہیں ہے بلکہ معنوی مراد ہے کیونکہ خدا مکان و زمان کا خالق ہے لہٰذا خدا زمان و مکان سے بالاتر ہے یعنی خدا من جمیع الجہات مجرد محض ہے اور نماز شب پڑھنے والے حضرات کا رتبہ بلند ہوتاہے اور خدا کے نزدیک وہ عزیز ہے

٢۔نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ

دوسرا فائدہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے یعنی اگر نمازشب انجام دینگے تو خدا آپ کو نافرمانی سے نجات دیتا ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خدا نے قرآن میں اشارہ فرمایا ہے :

( انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء والمنکر )

بیشک نماز ہی برائی اور نافرمانی سے نجات دیتی ہے کہ گناہ اور نافرمانی خدا اور انسان کے درمیان حجاب ہے کہ جس کی وجہ سے خالق حقیقی مخلوق سے دور اور مخلوق کو خالق حقیقی نظر نہیں آتا لہٰذا عبد اور مولا کے آپس کارابطہ ٹوٹ جانے کا سبب گناہ اور نافرمانی ہے لیکن اگر نماز شب انجام دی جائے تو یہ رابطہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے کیونکہ گناہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی زندگی کو تباہ کرتی ہے اور اس کی عمر میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے جبکہ گناہ سے پرہیز کرنے سے زندگی آباد اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح نفسیاتی امراض کو ٹھیک کرنے کا بھی ذریعہ ہے تب بھی تو معصوم نے ایک روحی طبیب کی حیثیت سے فرمایا :(ومطرۃ ا لد اء عن اجسادکم) یعنی نماز شب بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قابل معافى ہے ،كيونكہ يہ لوگ مجتہد تھے اور مجتہد اپنے اجتہاد ميں غلطى سے دوچار ہو ہى جاتا ہے _(۹)

اس طرح حضرت على اور عائشه كے لشكر والوں كے بارے بھانت بھانت كے عقائد و نظريات پيدا ہو گئے جو ايك دوسرے سے قطعى مختلف ہيں_

ان نظريات ميں بعض تو سرحد كفر تك پہنچا ديتے ہيں اور بعض انھيں نجات يا فتہ قرار ديتے ہيں بہشتى كہتے ہيں اور بعض اس غلطى كو ايسا گناہ قرار ديتے ہيں جو ہر گز بخشے جانے كے قابل نہيں ليكن اس بارے ميں ہمارا عقيدہ بہت موزوں اور متوازن ہے اور يہ حضرت على كے اس ارشاد سے ماخوذ ہے _

آپ نے فرمايا :

عائشه نے اگر چہ ہر طرح اختلاف و خونريزى پيدا كى ليكن پھر بھى وہ ہمارى ماں ہيں اور تمام مسلمانوں كى ماں ہيں اور ان كے اعمال كا حساب خدا كے ذمے ہے(۱۰)

(ولما بعد حرمتها الاولى و الحساب على الله)

عائشه كى واقعى شخصيت كا تعارف

ہم نے جنگ جمل كى تاريخ بيان كرنے ميں قارئين كرام كے سامنے صرف وہى باتيں بيان كى ہيں جو براہ راست يا بالواسطہ طور سے احاديث عائشه كى حيثيت سمجھنے ميں معاون ہوں _ اور يہى ہمارا مقصد بھى ہے _ مطلب يہ ہے كہ ہم نے ايسے حوادث بيان كئے ہيں جن سے عائشه كے روحانى و اخلاقى امتيازات اور ان كے عقائد و افكار كا پتہ لگايا جاسكے _ ہم نے تاريخى كتابوں كے معتبر ماخذ سے شواہد تلاش كر كے قارئين كے سامنے پيش كئے ہيں تاكہ اس كے ذريعے عائشه كى واقعى شخصيت اور سياسى و معاشرتى رسوخ كا پتہ چل سكے _ اسى كے ساتھ يہ كہ ان كى روحانى و نظرياتى و اخلاقى خصوصيات معلوم ہو سكيں كيونكہ يہى باتيں عائشه كى احاديث و روايات سمجھنے ميں معاون ہو سكتى ہيں اور يقين حقيقت كو اسان و ہموار بنا سكتى ہيں

اور اب عائشه كے بارے ميں جو تاريخى مدارك حاصل ہوئے ہيں انھيں چند فصلوں ميں بطور خلاصہ پيش

____________________

۹_الملل و النحل ج۱ ص ۴۴ ، المفصل ج۴ ص ۱۵۳

۱۰_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۶۳ ، كنز العمال ج۸ ص ۲۱۵ ، منتخب كنز ج۵ ص ۳۱۵ _ ۳۳۱

۱۶۱

كئے جا رہے ہيں ، ليكن ہم اس فصل ميں صرف عائشه كى دلى قوت ہى كو بيان كريں گے جس كى وجہ سے وہ اپنى ہم جنسوں ميں ممتاز ہوئيں _

عائشه كى دلى قوت

عائشه اپنى جگر دارى اور قوت كے اعتبار سے تمام دنيا كى عورتيں ميں بے نظير تھيں ، يہاں تك كہ تاريخ ميں آج تك ان سے زيادہ جگر دار عورت كى نشاندہى نہيں ہو گى ،ہر وہ كاميابى كے ساتھ اپنے نسوانى جذبات و احسات پر اسقدر مسلط تھيں كہ كسى عورت كے لئے ايسے تسلط كا مظاہرہ بہت بعيد ہے _

انہوں نے پہلے ہلّے ميں بصرہ پر قبضہ كر كے وہاں كے بيت المال كے محافظوں كو اسير كر كے نہآیت بے رحمى كے ساتھ حكم ديا كہ ان سب كو قتل كر ديا جائے _ اور اس عورت كے حكم سے دسيوں مسلمانوں كو ان كى انكھ كے سامنے بھيڑ بكريوں كى طرح قتل كر ڈالا گيا _

پھر اس كے بعد جنگ شروع ہوئي تو اس اتشيں اور وحشت انگيز ميں خود شريك رہيں _ اور ذرا بھى خوف و ہراس كو راہ دئے پورے دلى اطمينان كے ساتھ ايك سپہ سالار كى طرح حكم چلا رہى تھيں _ حالانكہ خزاں كے پتوں كى طرح سر اڑ رہے تھے ، يہ سارا تماشہ وہ اپنى انكھوں ديكھ رہى تھيں _ ذرا ماتھے پر شكن نہ تھى ، پہاڑ كى طرح جمى تھيں ہودج ميں بيٹھ كر لگاتار فوجى احكامات صادر كر رہى تھيں _ ان كے دل ميں ذرا بھى گھبراہٹ ، كمزورى اور پريشانى كا اثر نہ تھا _ جى ہاں _ يہ امتياز و خصوصيت عائشه كے علاوہ دنيا كى كسى عورت ميں نظر نہيں اسكتى ، نہ تاريخ كسى ايسى عورت كى نشاندہى كر سكتى ہے ہم نے اسے ام المومنين كى قوت قلب كيا ہے _ قارئين اسے قساوت و بے رحمى كا نام دے سكتے ہيں يا جگر دارى كہہ سكتے ہيں _

ہم نے قارئين كے سامنے تاريك بيان كى ہے فيصلہ انھيں كو كرنا ہے _

۱۶۲

عائشه ، دنيا كى عظيم ترين سياست داں

گذشتہ فصلوں ميں جو باتيں پيش كى گئيں ان سے استفادہ ہوتا ہے كہ عائشه ايك مجير العقول شخصيت كى حامل تھيں ، وہ ذاتى حيثيت سے سحر انگيز اور چمتكارى توانائي ركھتى تھيں ، اس عظيم توانائي كى وجہ سے ان كے لئے يہ بات بہت سہل و اسان تھى كہ حق كو باطل كى صورت ميں اور باطل كو حق كى صورت ميں پيش كرديں _ يا جن باتوں كى واقعى كوئي اصليت نہيں ہے اسے اپنى لچھے دار باتوں سے زنگ ھستى عطا كر ديں_

انہوں نے ميدان تيار كرنے اور سياسى مہارت كى بحر العقول صلاحيت پيدا كى تھى _ اور انہيں اس كا خاص شوق بھى تھا اپنى اسى توانائي كى وجہ سے انہوں نے بيعت على كے بعد پيمان شكنى كے لئے ايك بڑى جمعيت كو تيار كر ليا _ پھر انہيں اس طرح بھڑكايا كہ وہ انتقام خون عثمان پر امادہ ہو گئے جبكہ عثمان كو انھيں كے حكم سے قتل كيا گيا تھا _ حضرت على سے جنگ كے لئے بہت بڑى فوج محاذ پر كھڑى كر دى _

حيرتناك بات تو يہ ہے كہ عائشه نے اپنى اسى تحير خيز سياست و صلاحيت كو بروئے كا ر لاتے ہوئے متضاد و نظريات كو ياك جگہ جمع كر ديا _ اور ايك دوسرے سے قطعى جدا گانہ ہدف ركھنے والے گروہوں كو ايك نقطے پر سميٹ ليا _ پھر سب كو ايك ہى صف ميں كھڑا بھى كر ديا _ اس طرح اختلافات سے بھر پور لشكر تيار كر ليا _

اس سے بھى زيادہ حيرتناك بات يہ ہے كہ طلحہ و زبير كو جو عثمان كے سخت ترين مخالف تھے ، اور وہى واقعى عثمان كے قاتل بھى تھے ، اپنى لچھے دار اور كشادہ بيانى سے عثمان كا طرفدار اور خون كا بدلہ لينے والا بنا ديا _ انہيں على سے بيعت كے با وجود بيعت شكنى پر امادہ كيا اور انہيں ايسے لشكر كا امير بنا ديا جو حضرت على كے خلاف بغاوت پر كمر بستہ تھا _

عائشه نے صرف اتنا ہى نہيں كہ قاتلان عثمان سے اظہار بيزارى كيا بلكہ حضرت على پر قتل عثمان كا الزام تھوپ ديا انہيں قاتل عثمان كى حيثيت سے مشہور كيا ، حالانكہ واضح اور زندہ گواہى تاريخ كى ہے كہ حضرت على نے قتل عثمان ميں ذرا بھى شريك نہيں ہوئے ، يہاں چند تاريخى شواہد نقل كئے جاتے ہيں _

۱_ طلحہ و زبير كى بيعت ، بيعت شكنى اور يہ كہ حضرت على نے قتل عثمان ميں شركت نہيں كى ، بلكہ خود طلحہ و زبير كے ہاتھ خون عثمان ميں رنگين ہيں ، ان حقائق كو حضرت على نے بار با ر بيان كيا _ اپنى واضح بيانى اور زندہ شواہد كے ذريعے

۱۶۳

اس راز سے پردہ اٹھايا _

كبھى آپ فرماتے َ طلحہ و زبير نے ميرى بيعت كى پھر ذرا ہى دير بعد مجھ سے زيارت خانہ كعبہ كى اجازت طلب كى ليكن وہاں سے بصرہ اكر بغاوت كى اگ بھڑكانے لگے ، مسلمانوں كو قتل كيا ، ميرى بيعت توڑ دى ، ميرے دشمنوں كو ميرے خلاف ابھارا اور جو كچھ كرنا تھا كيا _

اور كبھى خود طلحہ و زبير سے خطاب كر كے فرماتے :

تم نے مجھ سے بيعت كى _ پھر ميرى بيعت توڑ دى ہم سے جو عہد و پيمان كيا تھا اسے پس پشت ڈالكر ميرے اوپر قتل عثمان كا الزام تھوپ ديا ، تم كہہ رہے ہو كہ قاتل عثمان ولى ہے اور ميں كہتا ہوں كہ اس كا فيصلہ غير جانبدار صحابہ كے حوالے كر ديا جائے ايسے لوگوں كے حوالے كيا جائے كہ وہ نہ ميرے ہو نہ تمہارے _

ہاں _ وہى ہمارے تمہارے درميان فيصلہ كر ديں ، ہم ہى سے جو بھى قاتل عثمان ہے اسے وہى بتا ديں _ جرم كے مطابق سزا ديں _

حضرت على مسلمانوں كے اجتماع ميں ايسى باتيں بہت زيادہ كہتے اور اس طرح قتل عثمان سے اظہار بيزارى فرماتے _

ان سب كو جانے ديجئے ، جس دن لوگوں نے حضرت على كى بيعت كى اسى دن قتل عثمان ميں حضرت على كا شريك نہ ہونا اور طلحہ و زبير كا شريك ہونا ثابت ہو گيا _

ليكن ان تمام پچھلے واضح شواہد كے ساتھ كہ حضرت علىعليه‌السلام خون عثمان سے پاك تھے اورانہوں نے اس سے اظہار بيزارى بھى كيا پھر بھى لوگوں نے آپ كى باتوں پر توجہ نہيں دى اور ان كى اظہار بيزارى كو نہ مانا _ ليكن عائشه نے جو آپ پر الزام لگايا تھا اپنے تما جھوٹ كے با وجود ان كى لوگوں نے تائيد كى يہ صرف اس وجہ سے ہوا كہ عائہش كو سياست ميں حيرتناك اور خاص مہارت حاصل تھى كہ وہ حقائق كو بالكل الٹ ديں اور چونكہ معاشرے ميں ان كى حيثيت پسنديدہ تھى اور شيخين كے زمانے ہى سے انہيں خاص مقام حاصل تھا اس لئے وہ اپنى اس مہارت كا مظاہرہ كر سكيں _

۲_ ابن سيرين نے حضرت امير المومنين نے خون عثمان سے اظہار بيزارى كے سلسلے ميں كہنا ہے كہ جب

۱۶۴

تك لوگوں نے على كى بيعت نہيں كى تھى ان پر قتل عثمان كا الزام نہيں لگايا تھا ليكن جس دن ان كى بيعت كى گئي ان پر الزام لگايا جانے لگا اور انہيں قاتلان عثمان كى فہرست ميں شامل كر ليا گيا_

۳_ ابو الاسود دئيلى نے جنگ جمل ميں طلحہ و زبير سے كہا تھا -:

تم دونوں اور عائشه عثمان كے سخت ترين دشمن تھے لوگوں كو سب سے زيادہ قتل عثمان پر ابھارتے تھے تم لوگوں نے انہيں موت كے گھاٹ تك پہچايا اور اب ان كے انتقام قتل پر اس لئے امادہ ہو كہ تمہيں واقعى قاتل عثمان ہو_

اور تم جو كہتے ہو كہ خلافت شورى كے ذريعہ متعين ہونى چاہيئے تو يہ گستاخى تم كيسے اپنى زبان پر لا تے ہو ؟ كيا تمہيں نے راضى خوشى اور بغير كوئي دبائو كے حضرت على كى بيعت نہيں كى تھى _

۴_ عمار ياسر نے بھى جنگ جمل شروع ہونے سے پہلے عائشه سے ملاقات كى اور ان سے كہا ( فمنك الرياح و منك المطر ) يعنى اے عائشه يہ تمام فتنے تمہيں نے شروع كئے اور ہر حادثہ اور ہر واقعے ميں تمہارى انگليوں كے نشانات نماياں ہيں _ يہانتك كہ قتل عثمان بھى تمہارے اشارے سے اور تمہارے حكم سے انجام پايا _

۵_ جنگ جمل كى ابتداء ميں صحابى رسول عبد اللہ ابن حكيم نے طلحہ كو ايك خط لكھ كر كہا :

اے طلحہ_ كيا يہ خط تم نے نہيں لكھا تھا ؟

طلحہ نے پوچھا _ كيوں _ يہ خط ہم نے ہى لكھا تھا :

عبد اللہ نے پوچھا _ ہم كو سخت تعجب ہے كہ كل اپنى خطوط كے مطابق ہميں تم نے دعوت دى تھى كہ ہم عثمان كے خلاف بغاوت كريں اور انہيں ختم كر ديں _ يا خلافت سے علحدہ كر ديں ليكن ہم نے تمہارى يہ دعوت قبول نہيں كى _ تمہارے موافق جواب نہيں ديا _ يہاں تك كہ اس ميں تم نے خود ہاتھ ڈالا انہيں قتل كر ڈالا اور آج پھر تم ان كے خون كا انتقام لينے كے لئے ہمارے پاس ائے ہو اور ہم بت خبر اور بے گناہ لوگوں سے ان كے خون كا انتقام لے رہے ہو _

۶_ جب مكہ ميں عائشه كے لشكر نے خروج كيا اور سعيد ابن عاص اموى نے مروان سے كہا :

اے مروان _ كہاں جا رہے ہو ؟ اور خون عثمان كا كس سے مطالبہ كر رہے ہو خون عثمان تو يہ تمہارى فوج ميں اونٹ كى پشت پر ہے اگر واقعى تمہارا مقصد خون خواہى ہے تو اپنے اس ساتھى كو قتل كر كے اپنے گھر وآپس جائو _

سعيد كا مطلب يہ تھا كہ طلحہ زبير اور عائشه عثمان كے قاتل ہيں جو لشكر كے دونوں طرف اونٹ پر بيٹھ كر بصرہ كى

۱۶۵

طرف جا رہے ہيں اور طلحہ و زبير ہى كى وجہ سے جنگ جمل ہوئي جب دونوں طرف كے لشكر امنے سامنے ہوائے اور مروان كو موقع ہاتھ ايا تو اس نے تير چلا كر طلحہ كو قتل كر ڈالا _

يہ مستحكم اور واضح دلائل و شواہد ہيں كہ حضرت علىعليه‌السلام با لكل سے خون عثمان سے اور عائشه ، طلحہ و زبير اس خون ميں شامل تھے ، يہ بات جب ظاہر تھى _ ليكن ان كے با وجود عائشه نے اپنى خاص مہارت كا مظاہرہ كرتے ہوئے اپنے ان ساتھيوں كو خون عثمان سے برى كر ديا اور حضرت علىعليه‌السلام كے بے گناہ ساتھيوں پر ان كے قتل كا الزام تھوپ ديا جبكہ ان كا اس سے كوئي تعلق نہيں تھا پھر خون عثمان كا انتقام لينے كے لئے ان لوگوں كے خلاف لشكر تيار كيا اور ايك زبر دست تاريخى جنگ پيدا كر دى _

يہ انتہائي حيرت انگيز حركت تھى جو كسى دوسرے شخص سے نہيں ہو سكتى تھى ، اسى وجہ سے كہا جا سكتا ہے كہ :

عائشه دنيا كى ايك بہترين سياست داں خاتون تھيں _

عائشه كى تقريرى صلاحيت

عائشه كو تقرير ميں بھى حيرتناك مہارت تھى وہ خطابت كے امور سے پورى طرح اشنا تھيں اس حيثيت سے انہيں دنيا كى نامہ ور خطيب بھى كہا جا سكتا ہے _ كتب تاريخ ميں جو ان كى اتشيں تقرير منقول ہيں _ واقعى حيرتناك ہيں يہاں اس كے چند نمونے ثبوت كے طور پر پيش كئے جاتے ہيں _

۱_ عائشه كى خطابت كا ايك نمونہ حضرت ام سلمى كے جواب دينے ميں بھى پيش كيا جا سكتا ہے جس وقت وہ حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كا ارادہ كر چكيں تھيں ام سلمى نے ان كى سرزنش اور ملامت كرتے ہوئے فرمايا :

اے عائشه تم نے جو راستہ اختيار كيا ہے وہ انحراف اور گناہ كا راستہ ہے ،خدا سے ڈرو جو تمہارے تمام اعمال كا نگراں ہے _

عائشه نے ام سلمى كا جواب ديا _

اے ام سلمى مجھے بہت مبارك سفر در پيش ہے اس لئے كہ ميں مسلمانوں كے دو گروہوں كے اندر شديداختلافات كى حكمرانى ہے ميں اس كى اصلاح كروں گى _ ان كى دشمنى اور نفاق كو خلوص و برادرى سے بدل دوں گى

۱۶۶

اور اس طرح مجھے خداوند عالم كى خوشنودى حاصل ہو گى _ (نفصم المطلع اصلحت بين الفئيتين متاخرتين )

يہاں عائشه نے اپنى پناہ خطيبانہ صلاحيت سے جنگ كى بات كو مغالطے ميں ڈال كر اپنے گناہ اور فساد كو اصلاح اور خوشنودي خدا كا رنگ ديديا دشمنى اور اختلاف كو اختلاف ختم كرنے اور اتحاد دو برادرى پيدا كرنے كا رنگ ديديا _

ليكن يہاں ايك سوال باقى رہ جاتا ہے كہ اگر عائشه اپنے گھر ميں بيٹھى رہتى اور حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كے لئے مكہ سے نہ نكلتيں تو مسلمانوں كے دو گرہوں ميں نفاق اور دشمنى كہاں سے پيدا ہوتى _

دو مخالف گروہ جو ايك دوسرے سے لڑ رہے تھے اور جس كا اظہار خود عائشه نے كيا تھا كہ ان دونوں ميں صلح كراو ں گى وہ كہاں تھا ، عائشه كى بغاوت اور ان كے بصرہ انے سے پہلے اختلاف كا كہيں پتہ اور نشان نہيں تھا _ كاش انہوں نے مسلمانوں كے درميان اصلاح كے خيال سے مكہ سے بصرہ نہ گئيں ہوتيں اور يہ تمام جنگ و خونريزى و برادركشى مسلمانوں ميں پيدا نہ ہوتى _

۲_ ايك دوسرى عائشه كى تقرير ان كى مشہور خطابت ہے جو مربد ميں ہوئي تھى _

جس وقت طلحہ و زبير نے بصرہ والوں كے سامنے تقرير يں كيں اور لوگوں نے ان كى باتوں پر توجہ نہيں دى بلكہ ان دونوں پر اعتراض كرنے لگے لوگوں ميں ايسا شور اور ہنگامہ پيدا ہوا كہ طلحہ وزبير اس كو خاموش كرنے سے عاجز رہ گئے اس موقع پر عائشه نے اپنى تند اور اتشيں تقرير شروع كى _ كہ لوگ خاموش ہو گئے اور سارى چيخ پكار ختم ہو گئي _

عائشه نے اپنى تقرير ميں كہا :

بصرہ والو _ يہ صحيح ہے كہ عثمان گناہگار تھے _ ان سے غلطياں بھى ہوئيں _ ليكن جب ہم نے انہيں ٹوكا تو انہوں نے ہمارى بات مان لى اور اپنے گناہوں سے توبہ كى _ اپنى غلط حركتوں سے بعض ائے ليكن تم لوگوں نے ان كى توبہ كو نظر انداز كيا اور ان پر چڑھائي كر كے بے گناہ اور مظلومى كے ساتھ قتل كر ديا _ بے رحمى سے ان كا خون زمين پر بہا ديا اس كے بعد على كو مسلمانوں كى رضا و صلاح كے بغير خلافت پر بيٹھا ديا اسى لئے ميں مظلوم و بے گناہ عثمان كى طرفدارى اور خونخواہى كے لئے كھڑى ہو گئي ہوں _ ميں نے اس لئے قيام كيا ہے كہ على كو خلافت سے معزول كر دوں گا

۱۶۷

كہ وہ مسلمانوں پر حكومت نہ كريں _

يہ عائشه كى خطابت كا ايك چھوٹا سا ٹكڑا تھا جو ميدان مربد ميں پيش كيا گيا اسے سنتے ہيں شور مچانے والے لوگ خاموش ہو گئے اور اس كا لوگوں كے دل پر مخصوص اثر ہوا حالانكہ وہ لوگ جاتنے تھے كہ عائشه اپنى باتوں سے لوگوں كو مغالطے ميں ڈال رہى ہيں_ليكن سبھى پورى توجہ سے سنا رہے تھے اور دل وجان سے ان كى باتوں كو مان رہے تھے اور يہ ان كى قوت و خطابت ہى كا اثر تھا كيونكہ وہ بہت موقعہ شناس تھيں اور تقرير كے رموز سے پورى طرح اشنائي ركھتى تھيں _ ليكن نہيں _ ان كى باتوں ميں جھوٹ اور مغالطے كے اثار نماياں تھے كيونكہ اگر انہوں نے قتل عثمان كا فتوى نہيں ديا ہوتا تو كسى كو قتل كرنے كى جرا ت نہ ہوتى _ انہوں نے اور ان كے خاندان نے عثمان كو قتل كيا پھر ان كى مظلوميت پر گھڑيال كے انسو بہانے لگيں _

عائشه نے اس تقرير كے بعد _ تقرير كا دوسرا حصہ شروع كيا اس ميں سبھى حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں باتيں تھيں _ اور آپ سے اپنے پچھلے عناد كو اشكار كيا اور اپنے دلى راز سے پردہ اٹھا تے ہوئے يہ كہا كہ :

اے لوگو_ تم نے ابو طالب كے بيٹے كى بيعت مسلمانوں كو خبرديئےغير كر ڈالى اور لوگوں كى خوشنودى كے بغير غاصبانہ طريقے سے انہيں كرسي خلافت پر بيٹھاديا _(۱۱) عائشه نے اپنى تقرير جارى ركھى _ اگے كہا كہ :

اے لوگو_ سمجھ لو عثمان مظلوم اور بے گناہ قتل كئے گئے تم لوگوں پر واجب ہے كہ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو اور جہاں بھى پاو انہيں قتل كر ڈالو _ اس كے بعد معاملہ خلافت كو اسى طرح شورى كے حوالہ كر دوجيسے عمر نے كيا تھا وہى اركان شورى خلافت كے لئے كسى كو منتخب كر ليں ليكن يہ خيال رہے كہ جو لوگ قتل عثمان ميں شريك ہوئے ہيں انہيں مجلس شورى ميں شامل نہيں كيا جائے اور خليفہ معين كرنے ميں ان كى رائے نہ مانى جائے چاہے وہ عمر كے اركان شورى ہى ميں موجود ہوں _(۱۲)

عائشه نے اپنى تقرير كے پہلے حصہ ميں بيعت و خلافت على كو فسخ كيا پھر خلافت كو اركان شورى كے حوالے كيا اور اس ميں بھى على كى شركت كو روكتے ہوئے كہا كہ جو لوگ خون عثمان ميں شريك ہوئے ہيں انہيں مسئلہ خلافت ميں دخل نہيں دينا چاہئے چاہے وہ عمر كے چھہ اركان شورى ہى كى فرد ہو ں _

____________________

۱۱_ يہاں بھى عا ئشہ نے مغالطہ سے كام ليا ہے كيونكہ طلحہ و زبير نے بصرہ والوں سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام سے بيعت كى تھي

۱۲_ اس سے عا ئشہ كى مراد صرف حضرت علىعليه‌السلام ہيں ، كيونكہ ان كے خيال ميں قتل عثمان ميں حضرت علىعليه‌السلام كے سوا اركان شورى كى كوئي فرد شريك نہيں تھى _

۱۶۸

اگر ہم عائشه كى تقرير كا تحليل و تجزيہ كريں تو پہلى ہى نظر ميں يہ بات ہميں سمجھ ميں اجاتى ہے كہ طلحہ و زبير كے علاوہ دوسرا كوئي شخص بھى خلافت كا حق نہيں ركھتا اور صرف انہيں دونوں ميں سے كسى ايك وك خليفہ منتخب ہونا چاہئے _ كيونكہ ہم جانتے ہيں كہ عمر كے اركان شورى ميں سے عثمان اور عبد الرحمن زندہ نہيں ہيں ، حضرت علىعليه‌السلام بھى عائشه كى نظر ميں قتل عثمان سے متہم ہيں اس لے معاملہ شورى ميں انہيں كسى قسم كى مداخلت كا حق نہيں ہے نہ رائے دينے كا حق ہے _ چوتھى فرد سعد كى ہے عائشه كے لئے بہت اسان تھا كہ ان پر بھى قتل عثمان كا الزام لگا كر حريم شورى سے نكال باہر كرديتيں _ اب صرف دو ہى شخص طلحہ و زبير رہ جاتے ہيں جو عائشه كى نظر ميں قتل عثمان سے برى تھے اور ان كے قتل ميں ان دونوں نے كسى قسم كى شركت نہيں كى تھى اس لئے وہ ہر طرح خلافت اور شورى كے شرائط ركھتے تھے _

اس تحليل و تجزيہ سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ عائشه بہت چالاكى اور لچھہ دار گفتگو سے يہ بات ثابت كرنا چاہتى ہيں كہ مسئلہ خلافت كے لئے طلحہ و زبير ميں سے كسى ايك كو منتخب كر ليا جائے اصل ميں قتل عثمان اور بغاوت على كا پرچم بلند كرنے سے ان كا مقصد يہى تھا _

۳_ لوگوں كے دل ميں عائشه كے بھر پور اثر ہونے كا ايك ثبوت اور لوگوں كے جذبات سے بخوبى اگاہ ہونے كا ايك ثبوت ان كى وہ تقرير بھى ہے جسے انہوں نے قبيلہ بنى ناجيہ والوں كے سامنے ظاہر كيا _ وہ لوگ اونٹ كى مار اپنے ہاتھ ميں تھامے ہوئے تھے _ انہوں نے انتہائي ہيجان انگيز انداز ميں كہا كہ :

اے ناجيہ كے شريف خاندان والو استقامت دكھاو اور صبر كا مظاہرہ كرو كيونكہ ميں تم لوگوں كے چہرے پر قريش كى غيرت و استقامت كا مشاہدہ كر رہى ہوں _

صبر ا ً يا بنى ناجيه فانى اعرف فيكم شمائل قريش

عائشه نے اپنى اس تقرير ميں قبيلہ ناجيہ كو قريش كے با وقار خاندان سے جو ڑ ديا جو شجاعت و شہامت سے مشہور تھا اس طرح ناجيہ والوں ميں فدا كارى كا جذبہ بڑھ گيا كہ وہ اپنى اخرى سانسوں تك حضرت علىعليه‌السلام كى فوج كے

۱۶۹

سامنے ڈٹے رہے اور ايك كے بعد ايك قتل ہوتے رہے _

اپنے اس مو ثر فقرے سے عائشه نے اپنا مطلب حاصل كيا كيونكہ قبيلہ ناجيہ كے قبيلہ قريش كى شاخ ہونے ميں متہم تھا لوگ اسے قريش كى شاخ نہيں سمجھتے تھے _ رسول خدا (ص) نے سامہ كے بارے ميں جو اپنے كو قريش كى فرد سمجھتا فرمايا تھا كہ : ميرے چچا سامہ سے كوئي فرزند پيدا نہيں ہوا تھا يعنى بنى ناجيہ سامہ سے نہيں تھے اور ان كا قريش سے انتصاب صحيح نہيں ہے _ ابو بكر و عمر بھى بنى ناجيہ كوقبيلہ قريش كى فرد نہيں سمجھتے تھے _(۱۳)

عائشه كى موقعہ شناسى كا ايك نمونہ وہ جملے ہيں جو قبيلہ ازد والوں سے كہے جس وقت ازديوں نے اونٹ كى مہار تھامى اور پورى طاقت سے جنگ كرنے لگے تو ان كى طرف رخ كر كے كہا :

اے قبيلہ ازد والو _ صبر و استقامت كا مظاہرہ كرو كيونكہ صبر و استقامت ازاد مردوں كى پہچان ہے _ جب تك بنى ضبہ ميرے لشكر كے درميان رہے ميں اپنے لشكر ميں اثار كامرانى كا مشاھدہ كرتى رہى اور اپنى فتح كى اميد وار رہى _صبراً فنما يصبر الاحرار

عائشه كے اس فقرے سے قبيلہ ازد ميں ايسا جوش پيدا ہوا كہ انہوں نے پورى طاقت سے جنگ كى اور ايك كے بعد ايك اونٹ كے سامنے خاك و خون ميں لوٹنے لگے تاكہ خاندان ضبہ كى جو تعريف عائشه نے كى ہے اسے يہ بھى حاصل كر سكيں _

۵_عائشه كى موقعہ شناسى كا نمونہ وہ بھى ہے جسے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے كہا تھا_ جنگ جمل كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے جب عائشه پر قابو پا كر ان كى ملامت كرتے ہوئے فرمايا :

اے عائشه _ تم نے لوگوں كو ميرے خلاف جنگ پر ابھارا _ بغاوت كى تحريك چلائي يہاں تك كہ خون سے زمين لالہ زار ہو گئي بھائي نے بھائي كو قتل كيا رسول خدا (ص) نے يہى حكم ديا تھا كيا انحضرت (ص) نے تمہيں يہ حكم نہيں ديا تھا كہ اپنے گھر سے باھر نہ نكلنا اور اپنے حجرے ميں بيٹھى رہنا _

____________________

۱۳_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۳ ص ۱۲۶

۱۷۰

عائشه جو موقعہ شناسى اور نقطہ سنجى ميں ماہر تھيں طويل اور حساس خطابت كا تجربہ تھا _ ايسے موقعہ پر علىعليه‌السلام سے صرف ايك _ جى ہاں _ صرف چھوٹے سے ايك جملے پر قناعت كى ليكن وہ جملہ بہت حساس تھا جس نے حضرت علىعليه‌السلام جيسے مہربان اور جذباتى شخص كو رام كر ديا اور علىعليه‌السلام كو اپنى تمام كينہ و عناد كے باوجود عفو و بخشش پر مجبور كر ديا اس حساس موقع پر كہا :

اے علىعليه‌السلام اب جب كہ تم نے ہمارے اوپر قابو پا ليا ہے تو عفو و بخشش سے كام لو ملكت فا سجح _ تم نے قابو پا ليا ہے اب عفو كو راہ دو _ يہ چھوٹا سا فقرہ كتنا بليغ ہے اس ميں ايك طرح كا فرمان بھى ہے ليكن باطن ميں انسانى جذبات كو اپنى طرف محبت كے لئے كھينچتا ہے _ يہ ايسا فقرہ تھا كہ كوئي بھى كريم شخص عفو و بخشش سے كام ليتا _

اپنى حيثيت سے استفادہ

تمام مسلمان _ رسول اكرم (ص) كى ازواج كوام المومنين يعنى مومنو كى ماں كہتے ہيں _ مسلمانوں ميں يہ لقب مشہور تھا _ ليكن عائشه نے اس عنوان كا تمام ازواج رسول سے زيادہ استفادہ كيا اس كے ذريعہ انہوں نے لوگوں كى توجہ اپنى سمت كھينچى اور اس سے استفادہ كرنے لے لئے ناقابل فراموش اور حيرتناك موقعہ استعمال كئے _ وہ اپنے اس عنوان سے لوگوں ميں كپكپى پيدا كر ديتى تھيں لوگ ان كے سامنے جھك جاتے تھے اور انتہائي احترام كے ساتھ ان كى پيروى كرنے لگتے تھے _

يہ بات واضح ہے كہ يہ اختيار اور مسلمانوں كے معاشرے ميں ان كا يہ اثر شيخين ( عمر و ابو بكر ) كے زمانہ ہى ميں حاصل ہو چكا تھا حضرت علىعليه‌السلام كے زمانہ ميں يہ اثر باقى تھا اس لئے انہوں نے تما م مرحلوں ميں ام المومنين كے عنوان سے بھر پور استفادہ كيا اور اس طرح لوگوں كو اپنى طرف متوجہ كيا _ چنانچہ انہوں نے جنگ جمل سے پہلے زيد ابن صوحان كو خط لكھتے ہوئے سر نامہ ميں اسى لقب كو استعمال كيا پھر انہيں اپنى مدد و نصرت كى دعوت دى _

خط كا متن يہ ہے _

يہ خط ام المومنين عائشه بنت ابو بكر زوجہ رسول (ص) كا اپنے نيك فرزند زيد ابن صوحان كو _ خدا كى حمد و ثنا كے بعد

اے زيد يہ خط پاتے ہى ميرے پاس اجاو اور اس جنگ ميں ميرى مدد كرو اگر ہمارا حكم نہيں مانتے اور ميرى مدد نہيں كرتے تو كم

۱۷۱

سے كم علىعليه‌السلام سے الگ رہو اور ان كى كسى طرح بھى مدد و نصرت نہ كرو _(۱۴)

پھر عائشه نے اپنے اسى عنوان كو كعب ابن سور كى طرف كھينچا اور اس كے خيالات كو با لكل پلٹ ديا _ جس وقت كعب نے اپنى غير جانبدارى كا اعلان كيا اور لوگوں سے علحدگى اختيار كر كے خانہ نشين ہو كر گھر كا دروازہ بند كر ليا عائشه اپنے خچر پر سوار ہو كر سور كے پاس ائيں اور بات كرنے لگيں _ كعب كسى طرح بھى مثبت جواب نہيں دے رہے تھے اخر عائشه نے مايوس ہو كر كعب سے كہا :

اے كعب كيا ميں تمہارى ماں نہيں ہوں _ كيا تمہارى گردن پر ميرى ممتا كا حق نہيں ہے _ يا كعب الست امك ولى عليك حق _

اس فقرے نے كعب ميں طوفاں كا جوش كر ديا وہ بہت زيادہ متاثر ہوئے اور ان كى سارى صلابت ہوا ہو گئي پھر وہ عائشه سے مثبت گفتگو كرنے لگے اور ميدان جنگ ميں پہنچ گئے _ اگر يہ ہيجان انگيز بات نہ ہوتى اور كعب كو حضرت علىعليه‌السلام سے بغاوت پر نہ ابھارتى تو بصرہ كے سب سے اہم قبائل ازد كى حمآیت سے محروم ہو جاتيں _

جى ہاں _ خانہ نشينى سے ميدان جنگ كا بہت فاصلہ ہے عائشه كى موقعہ شناسى اور ان كے ام المومنين كے عنوان نے اس فاصلہ كو ختم كر ديا اور خانہ نشينى كو جنگ و جدل سے بدل ديا _ ام المومنين كے عنوان سے استفادہ كا تيسرا ثبوت وہ موقعہ ہے كہ جب جنگ جمل ميں لوگ عاشئہ كے اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے اور اپنى جان نچھاور كر رہے تھے اور اپنے جعلى اشعار اور رجز ميں ان كے ام المومنين ہونے كا اعلان كرتے ہئے دفاع حريم ام المومنين پر لوگوں كو ابھارتے ہوئے كہہ رہے تھے _

اے قبيلہ ازد والو _ اپنى ماں كا دفاع كرو كيونكہ ان كا دفاع نماز روزے كى طرح واجب ہے ، اور ان بزرگ ماں كے احترام كا تحفظ تم ميں سے ہر ايك پر واجب ہے _

ايك دوسرا چلّا رہا تھا _ اے لوگو _ يہ ہيں تمہارى ماں ان كى حمآیت كرو ان كا دفاع تمہارى دينى ذمہ دارى ہے ان كى نصرت و حمآیت كو پامال كرنا مادرى حق كو ضايع كرنے كے مترادف ہے اور عاق ہو جانا اور حق مادرى كو پامال

____________________

۱۴_ طبرى ج۵ ص ۱۸۴_ ۱۸۳

۱۷۲

كرنا بہت بڑا گناہ ہے _

قبيلہ ازد عائشه كے اونٹ كا دفاع كر رہا تھا اور اس كى مينگنى كو اٹھا كر سونگتا تھا اور كہتا تھا _

يہ اماں جان كى اونٹ كى مينگنى عطر سے زيادہ خوشگوار ہے كيا شاندار ہے يہ مينگني_

يہ اقدامات حضرت عائشه كے مخصوص امتيازات ميں شامل ہيں يہاں تك كہ رسول اللہ كے بارے ميں تھى اسى شخص نے ان احساسات كو رقم نہيں كيا ہے _

عائشه دنيا كى عظيم ترين سياست داں

عائشه صرف فصيح و بليغ خطابت ہى كے اعتبار سے سب سے بڑى اور مشہور ترين عالمى خاتون قرار نہيں پاتى ہيں بلكہ اقتدار اور سياسى و فكرى اعتبار س بھى تحير خيز صلاحيتوں كى مالك بھى تھيں _ اپنى اسى سياسى و فكرى توانائي كى وجہ سے انہوں نے اپنے لشكر ميں پيدا اختلاف و تضاد كو برطرف كيا اور اسى صلاحيت كے بل بوتے پر آپ كا اختلاف و عناد جو قتل و غارت گرى پر ختم ہونے والا تھا سے دوستى اور باہمى تعاون ميں بدل ديا _

جى ہاں جس دن لشكر عائشه نے مكے سے كوچ كيا سى دن سے لشكر كے درميان اختلاف نماياں ہو گيا _ مروان كى حيثيت لشكر ميں اہم تھى اور وہ لشكر عائشه كى مشہور شخصيت تھا _ اس نے پھوٹ ڈالنے كى ہم ممكن كو شش كى _ كيونكہ جس طرح وہ حضرت علىعليه‌السلام سے دشمنى ركھتا تھا اسى طرح قتل عثمان ميں شريك ہونے كى وجہ سے طلحہ و زبير سے شديد عداوت ركھتا تھا _

لشكر عائشه مكہ سے عراق كى طرف جا رہا تھا كہ نماز كا وقت اگيا مروان نے موقع غنيمت ديكھ كر ايسى حركتيں شروع كر ديں كہ لشكر والوں كے درميان پھوٹ پڑ جائے _ اسى مقصد سے اس نے طلحہ و زبير سے كہا _ يہ ديكھو نماز كا وقت اگيا _ صف قائم ہو گئي ہے لوگ اقامت كا انتظار كر رہے ہيں _ تم دونوں ميں كون امامت كرے گا تم دونوں ميں اس كى صلاحيت ہے ميں كس كى امامت كا اعلان كروں ؟

خود طلحہ و زبير اس اچانك سوال كا جواب نہيں دے پا رہے تھے ، نہ وہ اپنے دل كا راز ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ علانيہ اہنے كو اس عہدے كے لئے پيش كريں _ دونوں نے سكوت اختيار كيا اور مروان كا كوائي جواب نہيں ديا _

ليكن عبد اللہ بن زبير نے كہا :

ميرے والد زبير موجود ہيں _ وہ اس عہدے كى صلاحيت ركھتے ہيں كيونكہ سپہ سالار لشكر ہيں

۱۷۳

طلحہ كے فرزند محمد نے بھى كہا نہيں _ يہ عہدہ ميرے والد سے مخصوص ہے _ يہ ان سے زيادہ صلاحيت ركھتے ہيں _

اس طرح مروان نے لشكر ميں اختلاف كا بيج بو ديا _ ان لوگوں ميں اتش اختلاف اتنى بھڑكى ، اس قدر پھيل گئي كہ قريب تھا اس كے اثرات سارے لشكر ميں پھيل جائيں _ اور سارا نقشہ نقش بر اب ہو جائے _

واقعہ كى خبر عائشه كو ہوئي تو انہوں نے مضبوط ارادے كے ساتھ اپنى مخصوص زير كى و مہارے كو بروئے كار لاتے ہوئے اس ہنگامے كو يكسر ختم كرنے كا ارادہ كر ليا _

انہوں نے اس مضمون كا پيغام مروان كو بھيجا

اے مروان يہ كيا كر رہے ہو ؟ كيا ہمارے ھدف سے روكنا چاہتے ہو ؟ ہمارے لشكر ميں اختلاف كيوں پيدا كر رہے ہو _

اگر واقعى تمہارا مقصد نماز پڑھنا ہے تو لو يہ ميرا بھانجہ عبد اللہ موجود ہے اس كى اقتدا كر كے نماز پڑھو اور نفاق سے ڈرو _

عائشه نے اس فقرے سے ايك طرف تو اختلاف ختم كر كے سارے لشكر كو اپنے بھانجے كى اقتدا ميں نماز پڑھوا دى _ خود طلحہ و زبير كو صف اول ميں ركھا اور دوسرى طرف مروان كو انتباہ ديا كہ ميں تمہارى سازشوں سے بے خبر نہيں ہوں _ تمہارى ايك ايك حركت پر نظر ركھ رہى ہوں _ مروان بھى ہر قسم كے اختلاف سے بچنے پر مجبور ہو گيا _ اور ايك فدا كار سپاہى كى طرح سپہ سالار كے سامنے سر تعظيم جھكا ديا _

عائشه نے يہ طريقہ بصرہ ميں اپنا يا _ جس وقت طلحہ و زبير بصرہ پر كاميابى سے قابض ہو گئے _ تو كاميابى كے بعد كے جتن ميں جٹ گئے _ وہاں بھى مسئلہ امامت نماز ميں باہم اختلاف پيدا ہو گيا _ يہ كشمكش طول پكڑتى گئي _ يہاں تك خود عائشه نے مداخلت كى اور اسانى كے ساتھ فوراً رفع دفع كيا _ ان خطر ناك نتائج كا قلع قمع كرنے كے لئے دوسرى بار بھى اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبير ہى كو پيشنمازى كے لئے معين كيا _ اور ايك سياسى نكتے كا بھى اضافى كيا كہ

۱۷۴

مكمل كاميابى حاصل كرنے كے بعد تمام امو ر انہيں كے اختيار ميںہيں مسلمانوں كى سر پرستى اور خلافت وہى معين كرينگى _

اس نكتے سے يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ عائشه صرف يہى نہيں كہ خود كو تنہا امير لشكر سمجھتى تھيں بلكہ تمام مملكت اسلاميہ كى حكومت بھى اپنى ذات سے مخصوص قرار ديتى تھيں _ جسے چاہيں حكومت سے سرفراز كر ديں اور جسے چاہيں معزول كر ديں _

عائشه كے معاشرتى اثرات

عائشه كى ايك امتيازى خصوصيت يہ بھى تھى كہ انہيں معاشرے ميں بے پناہ رسوخ و اختيارحاصل تھا _ اجتماع كے دل ميں ان كا نفوذ تھا اور مسلمانوں كے قلب پر ان كى حكومت تھى لوگ ان كے فرمان پر پورى توجہ ديتے تھے _ دوسروں سے كہيں زيادہ ان كى پيروى كى جاتى تھى _

معاشرے ميں ان كے بھر پور رسوخ كى حالت يہ تھى كہ حكومت وقت بھى ڈرتى تھيں _ اس كے خلاف فتنہ و ھنگامہ كھڑا كر سكتى تھيں _

ان كى اسى بے پناہ صلاحيت نے انہيں ہر بغاوت اور ہر جنگ ميں مدد كى بغاوت و جنگ كو اگے بڑھانے اور كاميابى سے جو كفار كرنے ميں گہرے اثرات ڈالے _ تاريخ ميں اس كے واضح شواہد موجود ہيں _

۱_ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنے كو خون عثمان سے برى قرار ديتے تھے واضح دلائل كے ساتھ قتل عثمان ميں اپنے كو غير جانبدار ثابت فرماتے تھے _ آپ كے اس سلسلے ميں دقيع بيانات ہيں _

لوگ بھى اس كى پورى اطلاع ركھتے تھے ،ليكن اس كے باوجود آپ كى باتوں كو نہيں مانتے تھے _ ليكن عائشه اپنى باتوں سے حضرت علىعليه‌السلام كو قتل عثمان ميں شريك ہونے كا اعلان كرتى تھيں _ ان كى اس بات كو لوگ جان و دل سے مانتے تھے _ كہتے تھے جى ہاں _ صحيح ہے _ حالانكہ عائشه لوگوں كو مغالطہ ديتى تھيں _ يہ بہت بڑا ثبوت ہے اس بات كا كہ وہ حقائق كو بالكل پلٹ دينے كى صلاحيت ركھتى تھيں _

۲_ عائشه كے فوجى جنگ جمل ميں ان كے اونٹ كے گرد پروانہ وار گھيرا ڈالے ہوئے تھے _ اسى اونٹ كو اپنا

۱۷۵

محور جنگ اور اپنى فتح كا قطب قرار دے رہے تھے _ پروانہ وار اس كے گرد چكر لگا كر گہار مچا رہے تھے _

اے مسلمانو اپنى ماں عائشه كى جان و دل سے مدد و نصرت كرو ان كى حفاظت كرو _ يہ اقدام روزہ نماز كى طرح تم پر فرض ہے _ يہ تمہارى دينى و جذباتى ذمہ دارى ہے _ اس معاملے ميں سستى اور ٹال مٹول جرم و گناہ ہے _

عائشه كے لئے يہ جذبات انگيز ماحول اور لوگوں كا جوش احساس اس كا ثبوت ہے كہ وہ اپنے بے پناہ معاشرتى اثرات كو كام ميں لاتى تھيں ورنہ ہر شخص كے لئے ايسى مقبوليت ممكن نہيں ہے _

۳_ معاشرہ اور قومى محاذ پر عائشه كا يہى رسوخ تھا كہ وہ كعب بن سور جيسے اہم قاض كو جس كا بصرہ پر بڑا اثر تھا گھر سے ميدان جنگ ميں كھنچ لائيں _ اس كے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھما دى اسے اپنى جنگ كا پہلا تبرك بنا ديا _

۴_ جنگ جمل ميں قبيلہ ازد كے لوگ اونٹ كى مينگنى كو عطر كى طرح سونگھتے تھے _ اس كى بد بو كو تمام قسم كى خوشبوو ں سے بہتر سمجھتے تھے _ وہ چلّا رہے تھے _

ہمارى اماں عائشه كے اونٹ كى مينگنى سے كتنى اچھى عطر كى خوشبو پھبك رہى ہے ( بو جمل امنا ريحہ ريح مسك ) حالانكہ اس قسم كا والہانہ پن رسول خدا (ص) كے مركب كے ساتھ بھى نہيں ديكھا گيا _

۵_ تمام جنگوں ميں ايك پرچم ہوتا ہے _ ليكن معمول كے خلاف جنگ جمل ميں كوئي پرچم نہيں تھا _ اس جنگ ميں پرچم وہى اونٹ تھا جس پر عائشه بيٹھى ہوئي تھيں _ وہ لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا _ جب تك يہ جاندار پرچم حركت ميں تھا يعنى اپنے اعتدال كا تحفظ كرتے ہوئے كھڑا تھا _ عائشه كے تمام فوجى اپنى شكستوں كو خاطر ميں نہيں لا رہے تھے پہاڑ كى طرح حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے سامنے كھڑے تھے _ زبير نے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كى اس كا بھى فوج عائشه پر كوئي اثر نہيں ہوا _ طلحہ قتل ہوئے عبد اللہ بن زبير زخمى ہو كر گر پڑے ان باتوں كا لشكر عائشه پر كوئي اثر نہيں ہوا _ليكن جيسے ہى عائشه كا اونٹ پئے كيا گيا اور وہ زمين پر گرا لشكر پر زبردست شكست كے اثار مرتب ہو گئے _ تمام لشكر والے ادھر ادھر بھاگ نكلے _

محترم قارئين _

يہ تھى عائشه كى سياسى و معاشرتى حيثيت ، نبوغ فكرى اور حيرتناك استعداد _ ميدان مارنے اور لوگوں كو مغالطہ دينے كى صلاحيت يہ تھى كہ عائشه كى واقعى شخصيت اور روحانى شخصيت كا رخ_ ان كا اخلاق جسے گذشتہ صفحات

۱۷۶

ميں پيش كيا گيا _ ليكن واضح رہے كہ عائشه اپنى اس محبر العقول اور عجيب شخصيت كے باوجود جس نے كبھى ہار نہيں مانى ليكن بڑى اسانى سے عبد اللہ بن زبير كے جھانسے ميں اگئيں _ ابن زبير سے انہوں نے كيا دھوكہ كھايا اسے ائندہ صفحات ميں ملاحظہ فرمايئے

قصہ عبد اللہ بن زبير كا

عائشه كى نظر ميں سب سے پيارا

عائشه جس طرح اپنے روحانى اوصاف و خصوصيات ميں اپنے زمانے كى مشھور ترين تھيں ;اپنے گھرانے اور قوام قبيلے سے جس قدر شديد وابستگى ركھتى تھيں وہ بھى تاريخ ميں لا جواب ہے _ اپنے قوم قبيلے اور گھرانے ميں سب سے زيادہ عبد اللہ بن زبير سے اظہار محبت كرتى تھيں جو ان كى بہن اسماء كے بيٹے تھے _ ايك خالہ كے بجائے ايك مہربان ماں كى طرح جو اپنے فرزند سے بہت زيادہ جذباتى لگاو ركھتى ہو _ وہ عبد اللہ كو ٹوٹ كے پيار كرتى تھيں _ اسى حد سے زيادہ محبت كى وجہ سے اپنى كنيت ام عبد اللہ ركھ لى تھى _ لوگوں ميں اسى كنيت سے مشہور بھى تھيں _(۱۵)

ہشام بن عروہ كا بيان ہے كہ : ميں نے نہيں ديكھا كہ جنگ كے موقع پر عبد اللہ سے زيادہ كسى كى سلامتى اور كاميابى كے لئے خدا سے دعا كرتى ہوں _ جنگ ختم ہونے كے بعد جب عبد اللہ كے زندہ بچے جانے كى خبر سنائي گئي تو حد سے زيادہ خوش ہوئي اور سجدئہ شكر بجا لائيں _ جس شخص نے سلامتى كى خوشخبرى دى تھى اسے دس ہزار درھم انعام ديئے

عائشه بيمار ہوئيں _ سبھى بھانجے ان كے ارد گرد عيادت كے لئے موجود تھے _ انہيں ميں عبد اللہ بھى تھے _ عبد اللہ نے خالہ كو بستر بيمارى پر نقاہت كى حالت ميں ديكھا تو بے اختيار ان كے رخسار پر انسو بہانے لگے _ عائشه نے سر اٹھا يا كہ بھانجہ رو رہا ہے تو وہ بھى پھوٹ پھوٹ كر رونے لگيں _ روتے ہوئے كہا كہ :

اے عبد اللہ ميرے لئے يہ بڑا سخت و سنگين مرحلہ ہے كہ ميں تم كو دكھى اور روتا ہوا ديكھ رہى ہوں _ ميرے

__________________

۱۵_ اغانى ج ۹ ص ۱۴۲

۱۷۷

لعل_ تم ميرے پيارے اور خاندان ميں سب سے پيارے ہو _ ميرے پيارے _ ميں واضح طور سے كہہ رہى ہوں كہ رسول خدا (ص) ، ماں اور بآپ كے بعد ميں كسى ايسے كو نہيں جانتى جو مجھے تم سے زيادہ محبوب ہو _ تم سے زيادہ ميرے دل ميں كسى نے محبت كى گنجا ئشے پيدا نہيں كى ہے _

اس كے بعد عائشه نے وصيت كى كہ ميرى موت كے بعد مخصوص گھر اور حجرہ عبد اللہ كو ديا جائے گا _(۱۶)

عبد اللہ بن زبير كى بنى ہاشم سے دشمني

عبد اللہ بن زبير پر عائشه كى اتنى شديد مہر و محبت كى بارش تھى جب كہ وہ خاندان رسول كا انتہائي بد ترين دشمن سمجھا جاتا تھا _ وہ اہلبيتعليه‌السلام سے كينہ و عداوت كے ماحول ميں پلا بڑھا اس طرح اس كى رگ رگ ميں اہلبيت سے عناد بھر گيا تھا _

عبد اللہ جوان ہوا اور اس نے ہاتھ پاو ں پھيلائے تو حضرت علىعليه‌السلام سے جو كچھ اسے شديد دشمنى تھى ، اپنے بآپ زبير كو على دشمنى سے بھر ديا _ زبير اپنے فرزند ہى كى وجہ سے اپنے بھائي على كے دشمن ہو گئے جب كہ وہ ان كے خالہ زاد بھائي تھے _ دشمنى اس قدر بڑھ گئي كہ وہ على كے دشمنوں كى صف ميں ہو گئے اور جنگ و جدال پر امادہ ہو گئے _

خود حضرت على نے بھى اس واقعيت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمايا ہے :

زبير ہمارے دوست اور طرفدار تھے يہاں تك كہ وہ ہمارے خاندان كى فرد سمجھے جاتے تھے يہاں تك كہ ان كا منحوس اور نا لائق بيٹا عبد اللہ جوان ہوا پھر تو زبير ہمارے سخت ترين دشمنوں اور مخالفوں ميں سمجھے جانے لگے _(۱۷)

عبد اللہ كى اہلبيت سے دشمنى اتنى تھى كہ چاليس ہفتہ تك متواتر نماز جمعہ كے خطبے ميں رسول خدا (ص) كا تذكرہ اور صلوات سے باز رہے _ جب ان سے صلوات روكنے پر اعتراض كيا گيا تو جواب ديا كہ :

مجھے رسول خدا (ص) كے ذكر اور صلوات سے انكار نہيں ہے ليكن چونكہ وہ لوگ جو اپنے كو خاندان رسول سے سمجھتے ہيں

___________________

۱۶_ تہذيب بن عساكر ج۷ ص ۴۰۰ ، شرح نہج البلاغہ ج۴ ص ۴۸۲

۱۷_ شرح نہج البلاغہ ج۴۴ ص ۳۶۰ ،تہذيب ج۷ ص ۳۶۳ ، استيعاب ، نہج البلاغہ

۱۷۸

وہ ذكر رسول سے فخر و مباحات كرتے ہيں _ ان كى ناك رگڑ نا چاہتا ہوں اور ان كا فخر و مباحات كرتے ہيں _ ان كى ناك رگڑ نا چاہتا ہوں اور ان كا فخر و مباحات ختم كرنا چاہتا ہوں _ ميں مسلسل صلوات سے پرہيز كروں گا اور خطبے ميں رسول خدا (ص) كا نام نہيں لوں گا _ اس واقعے كو عمر بن شبہ ، ابن كلبى ، اوقدى اور دوسرے تمام مورخوں نے لكھا ہے _

محمد بن حبيب ، ابو عبيدہ اور معمر بن مثنى عبد اللہ كا جواب يوں نقل كرتے ہيں كہ انہوں نے لوگوں كے اعتراض پر كہا تم لوگوں كے درميان رسول خدا (ص) كے كچھ خاندان والے ہيں _ جو نا اہل ہيں ميں ذكر رسول سے اس لئے پرہيز كر رہا ہوں كہ وہ فخر و مباحات كرتے ہيں ميں ان كى ناك رگڑ نے كے لئے صلوات نہيں پڑھتا خود ابن زبير نے عبد اللہ بن عباس سے كہا كہ :

چاليس سال سے تمہارے خاندان كى عداوت ميرے دل ميں جاگزيں ہے ميں اس دشمنى كو اپنے سينے ميں چھپائے رہا _(۱۸)

يوں تو ابن زبير كے دل ميں عام طور سے بنى ہاشم كى عداوت موجزن تھى ليكن حضرت على سے عداوت سب سے زيادہ تھى _ كبھى كبھى اپنى عداوت كو شنام و حشى گوئي كے ذريعے ظاہر كرتا رہا _(۱۹)

بنى ہاشم اور اہلبيت سے اس كى دشمنى كا نمونہ يہ واقعہ بھى ہے كہ محمد بن حنفيہ عبد اللہ بن عباس _ حسن مثنى بن امام حسن كے علاوہ سترہ افراد بنى ہاشم كو مكہ سے ايك تنگ و تاريك درّے ميں جسے درّہ بنى ہاشم كہا جاتا تھا _ اس ميں قيد كر ديا _ پھر حكم ديا كہ ڈھير سارى لكڑياں درّے كے دہانے پر جمع كرو _ جس دن تك ان لوگوں كو مہلت دى گئي تھى اسى سب كو جلا ديا جاتا _ مختار كو اس واقع كى اطلاع ہوئي تو انہوں نے چار ہزار جنگجوو ں كو تيار كر كے حكم ديا جس قدر سرعت ممكن ہو پہونچكر بنى ہاشم كو ابن زبير كے الاو سے نجات ديں _

اس واقعے كو تمام مورخين نے اسى طرح نقل كيا ہے ليكن ابو الفرج نے ابن زبير كى بنى ہاشم كے افراد سے شديد عداوت كى اس طرح تشريح كى ہے _

عبد اللہ زبير كو بنى ہاشم سے شديد اور گہرائي دشمنى لمبے زمانے سے تھى ان كسى قسم كى تہمت اور برائي سے باز

____________________

۱۸_ مروج الذھب ج۱ ص ۶۳ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۵۴

۱۹_ مروج الذھب ، شرح نہج البلاغہ

۱۷۹

نہيں اتا تھا _ لوگوں كو ان سے عداوت پر ابھارتا رہتا تھا _ وہ ہميشہ ان لوگوں كے درميان فتنہ و فساد برپا كرنے پر امادہ رہتا تھا _ بر سر منبر كبھى اشارے ميں اور كبھى صاف لفظوں ميں ان كى مذمت كرتا تھا _ بعض موقعوں پر ابن عباس اور دوسرے معززين بنى ہاشم نے اس كا جواب ديكر اس كى ناك بھى رگڑ ى _

ابو الفرج اگے لكھتا ہے كہ :

ابن زبير نے ايك مرتبہ موقعہ پا كر محمد حنفيہ اور ديگر سر كردہ بنى ہاشم كو اسير كر كے زندان عازم ميں قيد كر ديا _ اسى درميان اسے بتايا گيا كہ ابو عبد اللہ جدلى اور دوسرے عقيدتمندوں نے محمد حنفيہ كى گلو خلاصى و مدد كے لئے مكہ كى طرف چل پڑے ہيں _ ابن زبير نے يہ خبر سنتے ہى حكم ديا كہ قيد خانے كے پھاٹك پر لكڑياں جمع كى جائيں اور اگ لگا دى جائے ، اس كا ارادہ تھا كہ كہ محمد حنفيہ كے ساتھ سب كو اگ سے جلا ديا جائے _

ابو عبد اللہ كو بھى اس واقعے كى خبر ہو گئي _ وہ بہت زيادہ تيزى سے چلتے ہوئے ٹھيك اسى وقت پہونچے جب دروازے پر اگ كے شعلے بھڑك رہے تھے ،انہوں نے اپنے ساتھيوں كى مدد سے اگ بجھائي اور محمد حنفيہ كو ازاد كرايا _(۲۰)

جنگ جمل ميں ابن زبير كى شعلہ افروزي

يہ ابن زبير جو دشمنى ميں بنى ہاشم كو اگ سے جلا كر مارنا چاہتا تھا يہى عبد اللہ جس نے اپنے بآپ كو ان كے ماموں بھائي على سے بد ظن كر كے ان كا نظريہ بد لوايا _ خلوص و محبت كو عداوت و دشمنى ميں بدل ديا اسى ابن زبير عائشه كو اپنے قبضے ميں كر ليا تھا _ انہيں پہلے ہى سے حضرت على سے كينہ و عناد تھا _ بھڑكا كر جنگ و خونريزى ہر امادہ كر ديا _ اس طرح مسلمانوں ميں جنگ جمل ہو گئي _ يہ دعوى بلا دليل نہيں ہے _ بلكہ بے شمار تاريخى شواہد موجود ہيں _

ابن عبد البر نقل كرتا ہے كہ : ايك دن عائشه نے كہا : جب بھى عبد اللہ بن عمر كو ديكھنا مجھے خبر كرنا اور اسے ميرے پاس بلانا _ ميں اس سے ايك بات كہنا چاہتى ہوں _

ايك دن انہيں عائشه كے پاس لايا گيا _ عائشه نے كہا :

اے ابو عبد الرحمن _ جس نے ميں نے بصرہ كا ارادہ كيا تھا _ تم نے مجھے اس سفر سے منع كيوں نہيں كيا _

____________________

۲۰_ اغانى ج ۹ ص ۶

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198