تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 198
مشاہدے: 65999
ڈاؤنلوڈ: 3005


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65999 / ڈاؤنلوڈ: 3005
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد 2

مؤلف:
اردو

انہوں نے عائشه كا جواب ديا _ اے عائشه _ اس دن آپ عبد اللہ بن زبير جيسے لوگوں كے قبضے ميں تھيں _ آپ كے خيال پر ان كا خيال اس طرح مسلط تھا كہ آپ كو ان كے خلاف سوچنے كى اور مخالفت كرنے كى طاقت نہيں تھى _ ان كے مقابلے ميں ميرى بات كا آپ پر كوئي اثر نہ ہو گا آپ ميرے منع كرنے سے ہرگز نہ مانتى _

عائشه نے كہا : جو ہونا تھا ہو گيا _ ليكن سمجھ لو كہ اگر تم منع كرتے تو ميں ہرگز اقدام نہ كرتى _ اپنے گھر اور اپنے شہر سے باہر نہ نكلتى _(۲۱)

امير المومنين نے بھى شروع جنگ جمل ميں عائشه كو يہ خط لكھا تھا اے عائشه كہيں تمہيں بن زبير اور خاندان كى فرد طلحہ سے شديد محبت ايسى راہ پر نہ ڈال دے جس كا نتيجہ عذاب جہنم ہو _

مورخين كا بيان ہے كہ : عائشه جب مقام حوا ب پر پہونچيں اور كتوں كے بھونكنے كى اواز انے لگى تو انہيں رسول خدا (ص) كى بات ياد ائي كہ ايك دن آپ نے اس واقع كو بيان كيا تھا اور ابيان ميں تعريض عائشه كى طرف تھى _ جس پر انہوں نے پكا ارادہ كر ليا كہ لشكر كو نہيں چھوڑ كر اپنے گھر وآپس چلى جائيں _

جب ابن زبير كو اس كى اطلاع ہوئي تو فورا خود كو عائشه كے پاس پہونچكر ان سے كہا اے عائشه جن لوگوں نے اس كو حوا ب كا مقام بتايا ہے انہوں نے غلطى كى ہے كيونكہ ہم حوا ب كو تو پيچھے چھوڑ ائے ہيں _ عائشه كو چونكہ ان سے والہانہ لگاو تھا اس لئے اس سے متاثر ہو كر ابن زبير كى بات مان لى _

جى ہاں _ عائشه اپنى تمام سياست ، فكرى قدرت اور معاملہ فہمى كے اس جگہ كمزورى دكھائي ، عبد اللہ كے سامنے بالكل بے بس ہو گئيں _

ليكن ابن زبير نے اسى پر قناعت نہيں كى _ بلكہ اس ڈر سے كہ كہيں كوئي عائشه پر حقيقت حال منكشف كر كے وآپس نہ كر دے ان سے علحدہ نہيں ہوئے سائے كى طرح ساتھ چلتے رہے يہاں تك كہ بصرہ پہونچكر جنگ برپا كرا دى _

ليكن اگر بن زبير نے عائشه كو دھوكہ نہ ديا ہوتا اور اپنى ديرينہ عداوت ظاہر نہ كى ہوتى تو ہرگز جنگ جمل نہ ہوتى _ اور نہ مسلمانوں كا اس طرح خون بہتا اسى لئے كہا گيا كہ جنگ جمل كى سلسلہ جنبياتى ابن زبير نے كى _

___________________

۲۱_ استيعاب شرح حال ابن زبير ، شرح نہج البلاغہ ج۴ ص ۲۸۱

۱۸۱

جى ہاں قارئين كرام پر واضح ہو گيا كہ تاريخى واقعات سے معولم ہوتا ہے كہ جنگ جمل كے اصلى محرك بن زبير ہى تھے _ نہ كہ عبد اللہ بن سبا جس كا ہزار سال سے مورخين نام لے رہے ہيں اور اس افسانہ ابن سبا كو واقعى تاريخى شخصيت سے سمجھے بيٹھے ہيں _ ہم بن سبا كا افسا اگے بيان كرتے ہيں _

افسانہ عبد اللہ بن سبا

يہاں ہم نے جو جنگ جمل كے حالات لكھے ہيں ان كا مدرك اور اعتماد وہ احاديث و روايات تھيں جن پر تمام مورخوں كو اعتماد سے ہم نے اس تجزيہ و تحليل ميں جن كتابوں سے مطالب لئے ہيں ان كے تمام راويوں كو ، علماء رجال نے توثيق كى ہے اور ان كى باتوں كى تائيد و تصديق كى ہے _

ليكن ان معتبر تاريخى روايات اور اصيل سر چشموں كے مقابل ايسى روايات بھى پائي جاتى ہيں جن كا تمام سرا ايك جھوٹے اور جعلى شخص كے ہاتھ ميں ہے _ جى ہاں _ ان جھوٹى روآیتوں كے لئے حديث سازى كے كارخانے سے ايك شخص باہر نكلتا ہے جسے تمام علماء رجال اور تذكرہ نگاروں نے جھوٹا _ زنديق اور بے دين كہا ہے _ ليكن اس كے باوجود قلم كاروں اور مورخوں نے ان جھوٹى روايات كو بعد ميں انے والوں كے لئے اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے _

واضح لفظوں ميں كہا جائے كہ ان تمام جعلى روايات كا سلسلہ اور ان جعلى روآیتوں كو گڑھنے والے كا نام سيف بن عمر تميمى كوفى ہے جسے بيان كيا جاتا ہے كہ اس نے لگ بھگ ايك سو ستّر ۱۷۰ھ ميں وفات پائي _

اس نے اپنے دوران زندگى ميں جھوتى روآیتيں اور اپنى طرف سے گرھى ہوئي ڈھير سارى داستانيں كتب تاريخ كے حوالے كر دى ہيں _ انہيں ميں ايك يہ كہ سيف بن عمر نام كا جھوٹا اور حديث ساز راوى اپنے خيالى كا رخانے سے پيدا كيا پھر اسے لباس ھستى پنھا كر واقعيت كا جامہ چڑھا ديا_ اس كا نام اس نے عبد اللہ بن سبا ركھا ہے _

جى ہاں _ عبد اللہ بن سبا كى حيثيت ايك خيالى شخص سے زيادہ نہيں ہے _ خدا وند عالم نے ايسے شخص كو ابھى تك پيدا ہى نہيں كيا _

ان خصوصيات و صفات كا مرد ابھى دنيا ميں ايا ہى نہيں _

۱۸۲

اس كى تخليق سيف بن عمر نے كى ہے جس كى فكر بناوٹ اور خيال سازى ميں بڑى مہارت ركھتى تھى _ اس نے يہ حركت اس لئے كى تاكہ ہر قسم كا جھوٹ اور افسانہ اس كے نام سے شائع كر ديا جائے كہ جھوٹ اپنے ہاتھ پاو ں پھيلاتا رہے _ دروغ سازى كا دروازہ كھلا رہے _

سيف بن عمر نے اپنى جعل ساز فكر كے سہارے عبد اللہ بن سبا كو پيدا كيا _ پھر جہاں گنجائشے ديكھى اپنى طرف سے داستان عجيب گڑھ كے اس كے سر تھوپ ديا _ سارى باتيں خيالى عبدا للہ بن سبا كے نام سے مسلمانوں كے درميان مشہور كر ديں _

ايسا ہى اس كا ايك افسانہ بطور خلاصہ يہ ہے كہ سيف بن عمر كا بيان ہے كہ : يمن كے صنعاء سے عبد اللہ بمن سبا نام كا ايك شخص عثمان كے زمانے ميں نمودار ہوا جسے ابن سودا بھى كہا جاتا تھا اس نے اپنے اسلام كا اظہار كيا ليكن حقيقت ميں وہ يہودى تھا يعنى دو اتشہ تھا _ خود وہ شخص انتہائي مكار و حيلہ گر تھا _ اس نے اسلامى معاشرے ميں فتنہ و فساد بر پا كرنے كا ارادہ كيا تاكہ دو پارٹى بنا كر اسلامى طاقت كو توڑ ا جائے _ اتحاد پارہ پارہ كيا جائے اسى مقصد سے اس نے اسلام قبول كيا _ اور مسلمانوں كو دھوكہ ديا _ اس كے بعد اس نے اپنے اس خطر ناك منصوبے پر كام كرنا شروع كيا _

اس نے اہم اسلامى شہروں كا سفر كيا _ مدينہ ، مصر ، شام ، كوفہ ، بصرہ دندناتا پھرا _وہ ان شہروں ميں ايك بشارت دہندہ كى حيثيت سے لوگوں كے سامنے اپنے كو نماياں كرتا رہا _ اس نے مسلمانوں كو خوشخبرى سنائي كہ رسول خدا (ص) رجعت فرمائيں گے _ وہ بہت جلد زندہ ہو كر لوگوں كے درميان تشريف لائيں گے _ اسى ضمن ميں اس نے لوگوں كو يہ بھى تلقين و تبليغ كى كہ رسول كے بلا فصل جانشين اور وصى حضرت علىعليه‌السلام ہيں ، عثمان نے ان كا حق غصب كر ليا ہے _ مكارى كر كے ان كا حق خلافت ہڑپ ليا ہے _ عبد اللہ بن سبا نے بظاہر اپنا ميلان حضرت على كى طرف دكھا كر ان كى طرفدارى كى _ اكثر اصحاب رسول اور مسلمان اس كے فريد ميں اگئے _ اور اس كى باتيں مان ليں _ عمار ياسر ، ابو ذر ، ابو حذيفہ ، محمد بن ابى بكر ، مالك اشتر اور حجر بن عدى جيسے بزرگ ترين اور مشہور اصحاب و تابعين ان دھوكہ كھانے والوں ميں سر فہرست ہيں _ يہ لوگ اس كى پيروى كرنے كے لئے اس كے گرد جمع ہو گئے _ وہ گمنام يہودى اپنى ان باتوں سے بہت

۱۸۳

سے اصحاب اور مسلمانوں كو اپنى طرف متوجہ كرنے ميں كامياب ہو گيا _ اور اسلام ميں ايك مضبوط پارٹى حزب سبائي كے نام سے قائم كر لى _ اسى پارٹى كے لوگوں نے مسلمانوں كے خليفہ عثمان كے گھر كا محاصرہ كر كے انہيں قتل كر ديا _

جى ہاں _ سيف بن عمر كے خيال كے مطابق عبد اللہ بن سبا يہودى نے مكارى دكھا كر مسلمانوں كى صيف ميں شامل ہو گيا اور بظاہر اپنے كو حضرت على كا طرفدار مشہور كر كے مشہور اصحاب رسول پر مشتمل ايك سبائي پارٹى بنا كر مسلمانوں كے خليفہ كو قتل كر ديا _

سيف بن عمر نے اپنے اس تخليفى افسانے ميں تاريخى حوادث كو اگے بڑھاتے ہوئے جنگ جمل كى بات چھيڑى _ وہاں اس نے اپنے خلّاق دماغ سے ايك دوسرے عبد اللہ بن سبا كو پيدا كيا جس كا نام قعقاع بن عمر و ركھا ہے _ اور اسے صحابى رسول بھى بتايا ہے _ اس شخص كے ذمے اس نے سفارتى كام لگاتے ہوئے اس كا نام كبوتر صلح ركھا ہے _ يہاں سے پھر اپنا شروع كرتے ہوئے بات اگے بڑھاتا ہے _

جنگ جمل ميں قعقاع بن عمر و صلح و صفائي كى بہت كوشش كى كبھى حضرت على سے ملا اور كبھى عائشه سے ملاقات كى اور كبھى طلحہ و زبير سے ملاقات كر كے انہيں صلح كى دعوت دى _ انہيں جنگ و خونريزى نے ڈرايا _ اخر كار وہ كبوتر صلح قعقاع اپنے مقصد ميں كامياب ہو گيا _ اس كى كوشش نے دونوں لشكر كو صلح پر امادہ كر ليا _ اور دونوں طرف كى چھاو نى ميں سكون پيد ا ہو گيا _ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے ماننے والے سبائي اس صلح كے نتيجے سے سخت تشويش ميں مبتلا ہو گئے انہيں اپنے مجوزہ تخريب كارى كا نقشہ خراب ہوتے ديكھ كر بڑى تكليف ہوئي _ انہوں نے رات كى تاريكى ميں ايك جگہ جمع ہو كر مشورہ كيا اور اس صلح كو پارہ پارہ كرنے كے لئے ايك منصوبہ تيار كيا _ خود عبد اللہ ابن سبا جو اس داستان كا ہيرو ہے اس نے نقشہ يوں مرتب كيا كہ اس كى پيروى كرنے والے دو حصوں ميں تقسيم ہو جائيں _ ايك گروہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں چلا جائے اور اپنے كو اس كا سپاہى بتائے اور دوسرا گروہ عائشه كے لشكر سے چپك جائے اور عائشه كا طرفدار بتائے اور ايك معين وقت ميں اندھيرى رات كو ايك دوسرے پر حملہ اور ہو جائيں _ يہ شور مچاتے ہوئے كہ ادھر سے حملہ ہو گيا اس طرح ناگہانى طور سے جنگ كى اگ بھڑك اٹھے گى اور جو صلح قعقاع كے ذريعہ سے طے پا گئي ہے جنگ ميں بدل جائيگى _

اس تخريب كا ر گروہ نے عبد اللہ بن سبا كى تجويز كو پسند كيا اور خوشى خوشى اسے مان ليا اور اندھيرى رات ميں

۱۸۴

اس كو بڑے اچھے ڈھنگ سے نافذ كر ديا اس طرح دونوں لشكر كے افسران كے ميلان كے خلاف بغير اطلاع كے مسلمان ايك دوسرے كے خلاف بھڑك اٹھے اور اتش جنگ خاموش ہونے كے بعد دوبارہ شعلہ ور ہو گئي اس طرح تخريب كار عبد اللہ بن سبا كى پارٹى نے مسلمانوں كے درميان جنگ جمل كرا دى _

يہ تھى جنگ جمل واقع ہو نے كى داستان جسے سيف ابن عمر نے گڑھى ہے اور جس كى صحت اور واقعيت كى كوئي بنياد نہيں ہے _ كيونكہ اس داستان كے دونوں ہيرو يعنى عبد اللہ بن سبا اور قعقاع ابن عمرو كا اصلاً آج تك كوئي وجود ہى نہيں ہے _ آج نا كل _ يہ كبھى پيدا ہى نہيں ہوئے _ اس صورت حال ميں اس داستان كو افسانہ سے زيادہ كچھ نہيں كہا جا سكتا _ سن ۱۷۰ھ سے پہلے سيف ابن عمر و نے يہ افسانہ گڑھا اور تاريخ لكھنے والوں نے بھى اس افسانہ كو اسى سے حاصل كر كے اپنى كتابوں ميں لكھ مارا اس طرح بتدريج جيسے جيسے زمانہ گذرتا گيا اس كو واقعى تاريخ كى حيثيت سے شہرت حاصل ہو گئي _ بعد ميں اسے معتبر كتابوں ميں بھى جگہ ملتى گئي _ اس طرح قارئين نے اس حادثہ كے مقابل گڑھے ہوئے واقعے كو يہ سوچ كر مان ليا كہ مشہور كتابوں ميں لكھا ہوا ہے اور اب تو انہيں ذرا سا بھى شك نہيں ہوتا اور اس كى واقعيت ميں وہ شك بھى نہيں كرتے چنانچہ زيادہ تر اسلامى مورخين اور مستشرقين نے بھى اس حقيقت سے واقف نہيں ہيں كہ يہ داستان افسانہ سے زيادہ نہيں اور اس افسانے كا تخليق كار جھوٹے سيف ابن عمر كے علاوہ كوئي نہيں _

''واقعہ كا سرا اكيلے سيف كے ہاتھ ميں ہے ''

مذكورہ داستان كا ناقل اور راوى سيف كے علاوہ كوئي نہيں جس شخص نے بھى اپنى كتاب ميں يہ واقعہ لكھا ہے اسى سيف سے روآیت كى ہے _ اخرى سرا سيف ہى تك پہنچتا ہے اس كے علاوہ دوسرے كسى كا نام درميان ميں نہيں ہے كيونكہ طبرى ( م ۳۱۰ھ) اس داستان كو اسى ايك راوى سے حاصل كر كے اپنى كتاب ميں لكھا ہے اور ابن عساكر نے ( م ۵۷۱ھ ) اپنى تاريخ مدينہ و دمشق اور ابن ابى بكر (۷۴۱ھ ) نے بھى اپنى كتاب التمھيد والبيان ميں اور ذہبي( م ۷۴۷ھ) اپنى تاريخ كى كتاب ميں اس افسانہ كو اسى سيف ابن عمر سے حاصل كر كے اپنى كتاب ميں لكھا ہے _

بعد كے تمام تاريخ نگاروں ميں آج تك جس نے بھى يہ داستان لكھى ہے وہ طبرى كے حوالے سے لكھى ہے

۱۸۵

اور طبرى نے بھى اسى ايك جھوٹے اور افسانہ ساز راوى سے نقل كيا ہے

اور ہم نے اپنى كتاب عبد اللہ ابن سبا ميں اس حقيقت سے پردہ اٹھايا ہے اور سارى باتوں كو بيان كر كے يہ نشاندہى كى ہے كہ كس طرح بعد كے تاريخ نويسوں نے يہ افسانہ نقل كرنے ميں اكيلے طبرى سے سندنى ہے اور اپنى تحقيق ميں صرف اسى پر بھروسہ كيا ہے يہاں نمونے كے طور پر ماضى كے دو مورخوں كى طرف اشارہ كيا جا رہا ہے _

۱_ گذشتہ تاريخ نگاروں ميں ابن خلدون كا يا يہ بہت بلند ہے وہ اپنى كتاب المبتداء و الخبر ميں قتل عثمان كے بعد جنگ جمل كا واقعہ لكھتے ہوئے اس كى چند باتوں كو نقل كرتا ہے اور دوسرى جلد ميں صفحہ ۴۲۵ ميں وہ كہتا ہے كہ يہ تھى جنگ جمل كى داستان جسے ہم نے تاريخ طبرى سے نقل كيا ہے اور چونكہ ہميں اس كتاب پر وثوق و اطمينان ہے اس لئے جنگ جمل كى تاريخ لكھنے ميں ہم نے اسى ايك كتاب پر اكتفا كى _ وہ اسى كتاب كے صفحہ ۲۴۷ پر كہتا ہے كہ ميں نے ان تمام تاريخى حوادث كو محمد ابن جرير طبرى كى تاريخ كبير سے لكھا ہے اور بطور خلاصہ اپنى كتاب ميں صرف اسى سے نقل كيا ہے كيونكہ كتب تاريخ كے درميان ہم نے اسے دوسرى كتابوں كے مقابل محكم تر پايا ہے اس لئے صرف اسى پر اعتماد و اطمينان كيا ہے ،كيونكہ اس كتاب ميں بزرگ اصحاب رسول پر تنقيد و طعن كم پايا جاتا ہے _

۲_ اور ابن ہم مورخوں ميں آج سعيد افغانى كا نام لے رہے ہيں انہوں نے اپنى كتاب عائشه و سياست كى مختلف مصلوں ميں

اجتماع عثمان و تتابع الحوادث ص ۳۲_ ۳۵

ابن سبا البطل الحنفى المخيف ص ۴۸_ ۵۲

الاشراف على الصلح ص ۱۴۵_ ۱۴۷

المو امرة و الدسيسہ ص ۱۵۵_ ۱۵۸ميں اس جھوٹى داستان عبد اللہ ابن سبا اور اس كے پيرو كاروں كى لكھ مارى ہے پھر اپنى اس كتاب كے مدرك كو صفحہ ۵ پر اس طرح واضح كيا ہے _

ان تاريخى حوادث كے نقل ميں ميں نے تاريخ طبرى پر اعتماد كيا ہے اور تاريخى مطالب كو صرف اسى سے حاصل كيا ہے كيونكہ تاريخ طبرى دوسرى تمام كتابوں كے مقابل حوادث تاريخى كے عہد سے نزديك ہے اور تاريخى تاليف كى حيثيت سے بھى تمام كتب تاريخ پر مقدم ہے ان باتوں كے علاوہ اس كتاب كے مو لف نے دوسرے

۱۸۶

مورخين سے زيادہ حفظ و امانت تاريخى ميں عرق ريزى كى ہے بعد كے مو رخين نے بھى نقل تاريخ ميں اسى پر زيادہ اعتماد كيا ہے _ مجھے بھى اس كتاب سے بہت عقيدت ہے اسى لئے ميں نے اس كى عبارتوں كے عين الفاظ بھى نقل كئے ہيں _

پھر سعيد افغانى اپنے صفحہ ۴۷ پر لكھتے ہيں كہ ہم نے زيادہ تر واقعات تاريخ طبرى پر اعتماد كرتے ہوئے نقل كئے ہيں _

قرئين كرام جيسا كہ آپ ملاحظہ كر رہے ہيں كہ طبرى نے اس افسانہ كو اكيلے سيف ابن عمر سے اپنى كتاب پر نقل كيا بعد كے تمام مورخين نے طبرى كى عظمت و جلالت پر بھروسہ كرتے ہوئے اس افسانہ كو بغير غور و فكر كئے اسى سے نقل كر ڈالا اور اپنى كتابوں ميں جگہ ديدى اس طرح ايك جعلى اور جھوٹى داستان ايك واقعى تاريخى حيثيت سے لوگوں كے درميان شائع ہو گئي اور ايك جھوٹا افسانہ ايك نا قابل انكار حقيقت كا روپ ليكر ظاہر ہو گيا _

اب ميں قارئين كى توجہ اس جدول كى طرف موڑنا چاہتا ہوں يہ جدول عبد اللہ ابن سبا كے افسانہ كو نقل كرنے كا سلسلہ اول سے اخر تك كل سے آج تك پورے طور سے واضح كر ديتا ہے _ يہ جدول واضح كرتا ہے كہ اس افسانہ كا ناقل صرف جھوٹے سيف ابن عمر كے علاوہ كوئي نہيں ہے آج اور كل كے تمام مورخين كى طعن صرف اسى پر ٹوٹتى ہے اور سيف ابن عمر كى دروغ بيانى حديث سازى تمام علم رجال كے علماء كے درميان روشن اور مسلم ہے_

پردہ اٹھتا ہے

جنگ جمل كے بعد جو حضرت علىعليه‌السلام كى فتح كى صورت ميں ختم ہوئي تھى عائشه شكستہ بال و پر اور سخت غم وغصہ كے ساتھ اپنے گھر وآپس اگئيں وہ اس صورت ميں گھر وآپس ارہى تھيں كہ شكست بھى كھائي تھى اور اپنے چيچيرے بھائي طلحہ سے ہاتھ دھو بيٹھى تھيں يہ وہى طلحہ تھے جن كے لئے عائشه نے بہت زيادہ اميديں باندھ ركھى تھيں كہ انہيں كرسي خلافت پر بيٹھا ديں اور مسلمانوں كى حكومت ان كے حوالے كر ديں اسى جنگ ميں نہ صرف يہ كہ ان كے چچيرے بھائي طلحہ قتل ہوئے بلكہ ان كے بيٹے محمد ابن طلحہ بھى قتل كئے گئے جو خاندان ميں سب سے قريب تھے اس جنگ ميں اپنى بہن اسماء(۲۲) كے شوہر كو بھى ہاتھ سے ديديا تھا جو جنگ كے سپہ سالار تھے _

____________________

۲۲_ اسماء بنت ابى بكر عا ئشہ كى بڑى بہن تھيں ان كى ماں كا نام قيلہ يا قتيلہ تھا اسماء كو ذات نظاقين بھى كہتے ہيں يعنى دازار بند والى كيونكہ انہوں نے رسول اللہ (ص) كى ہجرت كے دن اپنى كمر كا پٹكہ ادھا پھاڑ كر رسول اللہ (ص) كے سفر كا كھانا باندھا تھا وہ زبير كى زوجہ تھيں جن سے تين بيٹے ہوئے _ عبد اللہ _ عروہ _ منذر _ اس كے بعد زبير نے انہيں طلاق دے دى _ ان كے فرزند عبد اللہ ۷۳ ہجرى ميں قتل كئے گئے حالانكہ اسماء زندہ تھيں _ اسى كے چند روز بعد ۱۰۰ سال كى عمر ميں اسماء وفات پا گئيں _ اسد الغابہ ج۵ ص ۲۶۸

۱۸۷

يہ وجہ تھى كہ جنگ ختم ہونے كے بعد ڈھير سارا دكھ درد لئے حيرت و ندامت كے ساتھ كہ ہم نے نصيحتوں پر توجہ كيوں نہ كى خير خواہوں كى باتيں كيون نہ مانيں وہ اپنى گھر وآپس اگئيں _ وہ اس حالت ميں مدينہ وآپس ہوئيں كہ ان كا سينہ حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف كينہ و عناد سے بھرا ہوا تھا _ جيسے ديگچى ميں پانى جوش مارتا ہے _ ليكن اس كے سوا كوئي چارہ نہيں تھا كہ جب تك حضرت علىعليه‌السلام زندہ ہيں اور مسلمانوں كى قيادت كر رہے ہيں اتنى تمام دشمنى كو اپنے سينے ميں چھپائے رہيں اور ايك وقت كت كے لئے اپنے سينے كو خاكستر بنائے رہيں _

اسى وجہ سے جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كے موت كى خبر ان كے كان ميں پڑى تو سجدہ شكر بجالائيں اور بہت زيادہ خوش اور مسرت كا مظاہرہ كرتے ہوئے يہ دو شعر پڑھے

فالقت عصا ها و استقر بها النوى

كما قر عيناً بالاياب المسافر

فان يك نائياً فلقد نعاه

غلام ليس فى فيه التراب

على گزرگئے اور ابن ان كى وآپس نہيں ہو گى مجھے ان كى موت سے اپنے دل كو اتنى خوشى ہو رہى ہے جيسے خاندان كا كوئي مسافر اپنا عزيز تر رشتہ دار گھر وآپس انے سے خوشى ہوتى ہے _ ہاں _ على كى موت سے ميرى انكھيں ٹھنڈى ہو گئيں _

عا ئشہ نے يہ اشعار پڑھے اور پوچھا كہ علىعليه‌السلام كا قاتل كون ہے _ ان سے كہا گيا كہ قبيلہ مراد كا ايك شخص _

۱۸۸

يہ سن كر عائشه نے يہ اشعار پڑھے _ وہ ( على ) اگر چہ موت كے وقت ہم سے دور تھے ليكن اس جوان كو زندہ باد جس نے ہميں موت كى خوشخبرى سنا كر ہميں خوش كر ديا جس ان شعروں كى خبر ام سلمى كى بيٹى زينب(۲۳) كو ہوئي تو انہوں نے عائشه پر اعتراض كيا اور كہا كہ اے عائشه كيا تم حضرت علىعليه‌السلام جيسے عظيم انسان كے لئے يہ بے ہودہ باتيں بك رہى ہو كيا تم ان كے قتل كى خبر كو مسرت كى خبر سمجھتى ہو _ عائشه نے معذرت كرتے ہوئے كہا ميں ذرا سٹھيا گئي تھى جب بھى ايسى حالت ہو تو ہميں چونكا ديا كرو _(۲۴)

ابو الفرج اصفہانى كے مطابق عائشه نے زينب كا يہ جواب ديكر يہ شعر پڑھے

مازال اهداء القائد بيننا

باسم الصديق و كثرة الالقاب

حتى تركت و كان قولك فيهم

فى كل مجتمع طنين ذباب

ہمارے درميان يہ رسم تھى كہ ہم دوستوں كو القاب اور بہت تعريف كے ساتھ ياد كرتے تھے ان كى مدح ميں قصيدے اور اشعار پڑھتے تھے ليكن وہ زمانہ بيت گيا _ وہ وقت گذر گيا _ اب تو تعريف و توصيف ان لوگوں كى مگس كى اوازيں كر رہ گئي ہے _ جن كا تھوڑا سا بھى اثر باقى نہيں ہے _

عائشه كا مطلب يہ تھا كہ يہ دشمنى عداوت اور كينے جو عائشه سے مختلف اوقات ميں على كے بارے ميں ظاہر

____________________

۲۳_ زينب زوجہ رسول حضرت ام سلمى كى بيٹى تھيں ان كے بآپ كا نام عبد الاسد قريشى تھا چونكہ وہ قبيلہ مخزوم سے تھيں اس لئے مخزومى كہى جاتى ہيں _

۲۴_ طبرى ج۷ ص ۸۸ ، طبقات ج۳ ص ۴۰ ، مقاتل الطالبين ص ۴۲ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۱۵۷

۱۸۹

ہوئے ان سے بہت سے راز نہانى ظاہر ہوتے ہيں _

فرزندان علىعليه‌السلام سے عائشه كى عداوت

عائشه كى عداوت صرف حضرت علىعليه‌السلام سے ہى مخصوص نہيں تھى بلكہ اس كى جڑيں بہت عميق اور بہت وسيع تر تھى اس كا دائرہ حضرت علىعليه‌السلام كے پورے خاندان ميں پھيلا ہوا تھا _

مورخين لكھتے ہيں كہ عائشه حضرت علىعليه‌السلام كے فرزند حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام سے پردہ كرتى تھيں اور ان سے نامحرموں كا سا برتاو كرتى تھيں حالانكہ ابن عباس ان پر اعتراض كرتے ہوئے كہتے تھے كہ حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام كو عائشه سے محرم ہونے كى حيثيت حاصل ہے ابن سعد نے عائشه كے اس سلوك كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ ابو حنيفہ اور مالك سے نقل كيا گيا ہے كہ ہر شخص كى زوجہ اپنے فرزندوں كى نسبت سے خاندان كے دوسرے افراد كے مقابل اور اسى طرح اس كى بيٹى كے بيٹوں كى بن بست محرم رہيں گے اور ان ميں سے كسى كو اس عورت سے شادى كى اجازت نہيں اب يہ مسئلہ تمام مسلمانوں كا متفقہ مسئلہ ہے _

اور ہم يہ كہتے ہيں كہ يہ مسئلہ جو تمام مسلمانوں ميں متفقہ ہے _

اور ابن عباس ابو حنفيہ اور مالك بھى اسى كے قابل ہيں يہ ايسى بات نہيں تھى كہ عائشه سے چھپى ہوئي ہو اور اس حكم كو نہ جانتى ہوں _ عائشه كا مقصد تو اس برتاو سے دوسرا ہى تھا وہ چاہتى تھيں كہ اپنے اس سلوك سے حسنينعليه‌السلام كے فرزند رسول ہونے كا انكار كريں اور انہيں فرزند رسول (ص) نہ سمجھا جائے _

عائشه دوسرى جنگ كى تيارى كرتى ہيں

جس دن سے عائشه نے لوگوں كو بھڑ كا كر ايك عظيم انقلاب بر پا كيا اسى دن سے بنى اميہ ميں اور ان ميں سخت نفرت اختلاف تھا كيونكہ بنى اميہ عثمان كا خاندان اور ان كا طرفدار تھا _

ليكن جس دن سے يہ دونوں حضرت علىعليه‌السلام خليفہ ہوئے اور عائشه نے ان كے خلاف قيام كيا اسى دن سے يہ

۱۹۰

دونوں قطب مخالف يعنى عائشه اور بنى اميہ تين باہم صلح و صفائي ہو گئي اور دونوں ايك دوسرے كے قريب ہو گئے _

حالانكہ عائشه اور بنى اميہ ايك دوسرے كى ضد تھے اور دشمن بھى تھے ليكن اس معاملے ميں _ جى ہاں _ صرف اسى معاملے ميں دونوں كا مقصد ايك تھا كيونكہ دونوں ہى حضرت علىعليه‌السلام كے سخت مخالف تھے يہ مشترك ھدف اس بات كا سبب بنا كر يہ دونوں مخالف قطب ايك دوسرے كے ساتھ اتحاد كا ہاتھ بڑھا كر ايك ہو جائيں _

بنى اميہ عائشه كے پرچم كے نيچے اگئے اور انہوں نے عداوت كو دوستى اور اتحاد ميں بدل ديا اپنى توانائياں ايك جگہ مركوز كر ديں تاكہ علىعليه‌السلام كو خلافت سے معذول كيا جا سكے _اسى وجہ سے جنگ جمل واقع ہوئي ليكن اس كے اس اميد كے برخلاف علىعليه‌السلام نے اس جنگ ميں فتح پائي اور عائہش كو ان كے گھر وآپس كر ديا _

عائشه نے اگر چہ جنگ ميں اپنى طاقت و توانائي ختم كردى تھى ليكن وہ اپنى فعاليت كو ختم كر كے چين سے نہيں بيٹھ سكتى تھيں وہ اپنى پوشيدہ دشمنى كو اور دكھ رنج كو برداشت كر كے ارام سے خاموش نہيں بيٹھ سكتى تھيں يہى وجہ تھى كہ اس وقت كے سردار معاويہ سے اور تمام بنى اميہ سے ارتباط و تحاد زيادہ سے زيادہ محكم تر كرنے لگيں اور ايك ہماھنگى كا معاہدہ سا ہو گيا كہ دونوں ہى حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت ميں كمر بستہ تھے _

وہ ايك دوسرى جنگ كے كا ماحول تيار كرنے ميں جٹ گئيں _اور نتيجہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ايك دوسرى جنگ واقع ہوئي جو جنگ جمل سے سخت تر تھى اور اس كے نتائج و اثار اس سے بھى زيادہ خطرناك اور نقصان دہ تھے _

جى ہاں عائشه مخالفت علىعليه‌السلام ختم كرنے پر امادہ نہيں تھيں انہوں نے جنگ جمل كے بعد ايك سرد جنگ چھيڑ دى يہ زبان كى جنگ تھى _ جو جنگ حضرت علىعليه‌السلام كے قتل ہونے كے بعد بھى ختم نہيں ہوئي اور اس كا دائرہ عائشه كى اخرى سانسوں تك پھيلتا رہا _

ہاں _ جب تك عائشه زندہ تھيں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف حديث سازى كى جنگ تھى اور بڑے افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ اس جنگ كے نقصانات آج تك تاريخ اسلام ميں جارى ہيں اور صديوں بعد بھى اس جنگ كے اثار دامن اسلام سے ختم نہيں ہوئے ہيں _

معاويہ جو ہميشہ حضرت علىعليه‌السلام سے بر سر پيكار رہے اور انہوں نے اس راہ ميں اپنى تمام طاقت و قوت كو رف كر

۱۹۱

ڈالا حيلہ و فريب كے تمام راستے اختيار كئے اخر كار جو كچھ ان كے اختيار ميں دولت و توا نائي تھى مخالفت علىعليه‌السلام ميں صرف كر ڈالى _ عائشه اس راہ ميں آپ سے اور بلا معاوجہ معاويہ كى طاقتور معاون بن گئيں جسے آپ اسى كتاب كى تيسرى جلد ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

خدا يا _ اس كتاب كو مسلمانوں كے لئے فائدہ بخش قرار دے اور ہمارے لئے ذخيرہ اخرت _

و الحمد للّه رب العالمين و صلى الله على سيد نا محمد و اله الطيبين الطاهرين_

۱۹۲

فہرست

مقدمہ مترجم ۴

مقدمہ مولف ۶

بيعت كے بعد ۸

حساس ترين فراز ۸

جب فرمان قتل ، انتقام ميں بدل گيا ۱۲

بيعت توڑ نے والے ۱۷

طلحہ و زبير نے بيعت توڑي ۱۹

لشكر كى تيّاري ۲۵

عراق كى طرف ۲۶

ام سلمہ نے عائشه كو سمجھايا ۲۷

راستے كى باتيں ۲۸

پيش نمازى پر اختلاف ۲۹

انتظامى معاملات كا اختلاف ۲۹

تيسرا اختلاف ۳۰

حوا ب كا واقعہ ۳۱

سرداران لشكر كى وضاحت ۳۲

سردار ان لشكر نے تقريريں كيں ۳۶

مقرروں پر اعتراض ۳۹

جنگ جمل ۴۴

۱۹۳

پہلى جنگ شروع ہوئي ۴۴

دوسرى جنگ شروع ہوئي ۴۶

داخلى جنگ شروع ہوگئي ۴۸

جب حقيقت روشن ہوئي ۴۹

طلحہ و زبير اپنے مقصد ميں مشكوك تھے ۵۱

عائشه كے پاس دو خط ۵۳

۱_زيد ابن صوحان كو خط ۵۳

۲_ حفصہ كو خط ۵۴

على كا لشكر مدينے سے چلا ۵۶

لشكر على عليه‌السلام ربذہ ميں ۵۸

لشكر على عليه‌السلام ذى قار ميں ۶۰

ذيقار ميں حضرت على عليه‌السلام كى دوسرى تقرير ۶۳

لشكر على عليه‌السلام زاويہ ميں ۶۵

گورنر بصرہ كو طلحہ و زبير كا خط ۶۸

امير المومنين كا خط اپنے گورنر بصرہ كے نام ۷۰

شعلہ بار تقريريں ۷۳

مرد جشمى نے تقرير كي ۷۳

طلحہ كى تقرير ۷۴

زبير كى تقرير ۷۵

عائشه كى تقرير ۷۵

۱۹۴

پہلى جنگ ۷۷

صلح اور صلحنامہ ۸۰

صلحنامہ كا متن ان پانچ دفعات پر مشتمل تھا ۸۱

دوسرى جنگ ۸۲

طلحہ و زبير نے دوسرى بار پيمان شكنى كي ۸۲

دوسرى جنگ شروع ہوئي ۸۳

جنگى قيديوں كى سر گذشت ۸۴

محافظوں كى سر گذشت ۸۵

گورنر بصرہ كى سر گذشت ۸۶

تيسرى جنگ ۸۷

داخلى اختلافات ۸۸

ايك دوسرا اختلاف ۸۹

خطوط و پيغامات ۸۹

طلحہ و زبير كو خط ۹۰

زبير كو پيغام ۹۱

عائشه كو پيغام ۹۳

طلحہ و عائشه كا جواب ۹۴

ہيجان انگيز تقريريں ۹۵

عبداللہ بن زبير كى تقرير ۹۵

امام حسن عليه‌السلام نے جواب ديا ۹۵

۱۹۵

حضرت على عليه‌السلام كى اخرى تقرير ۹۷

حضرت على عليه‌السلام نے اپنے جنگى پروگرام كا اعلان فرمايا ۹۸

حضرت على عليه‌السلام نے قرآن كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا ۱۰۰

عمار ياسر نے عائشه اور سرداران لشكر سے بات كي ۱۰۲

حضرت على عليه‌السلام نے ا خرى بار اتمام حجت فرمايا ۱۰۴

حضرت على عليه‌السلام كى زبير سے ملاقات ۱۰۸

واقعہ كى تفصيل ۱۱۰

زبير كى سر گذشت ۱۱۳

طلحہ كى سر گذشت ۱۱۶

طلحہ كيسے قتل ہوئے ؟ ۱۱۸

اخرى جنگ شروع ہوئي ۱۲۰

كعب بن سور كون ہے ؟ ۱۲۳

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں ۱۲۵

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں ۱۲۶

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں ۱۲۷

ايك عجيب داستان ۱۲۸

رجز خوانياں ۱۲۹

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ ۱۳۳

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي ۱۳۶

دو لشكر كا شعار ۱۳۸

۱۹۶

جنگ كا خاتمہ ۱۳۹

عائشه سے كچھ باتيں ۱۴۰

حضرت على نے عائشه سے گفتگو كى ۱۴۱

عمار نے عائشه سے بات كي ۱۴۲

فتح كے بعد معافي ۱۴۳

عام معافي ۱۴۳

اعتراض اور على عليه‌السلام كا جواب ۱۴۴

حضرت على عليه‌السلام نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟ ۱۴۹

عائشه ، مدينہ وآپس ہوئيں ۱۵۰

جنگ جمل كے بدترين نتائج ۱۵۶

بعد كے نتائج ۱۵۷

نظرياتى اختلافات كى پيدائشے ۱۵۸

عائشه كى واقعى شخصيت كا تعارف ۱۶۱

عائشه كى دلى قوت ۱۶۲

عائشه ، دنيا كى عظيم ترين سياست داں ۱۶۳

عائشه كى تقريرى صلاحيت ۱۶۶

اپنى حيثيت سے استفادہ ۱۷۱

عائشه دنيا كى عظيم ترين سياست داں ۱۷۳

عائشه كے معاشرتى اثرات ۱۷۵

قصہ عبد اللہ بن زبير كا ۱۷۷

۱۹۷

عائشه كى نظر ميں سب سے پيارا ۱۷۷

عبد اللہ بن زبير كى بنى ہاشم سے دشمني ۱۷۸

جنگ جمل ميں ابن زبير كى شعلہ افروزي ۱۸۰

افسانہ عبد اللہ بن سبا ۱۸۲

''واقعہ كا سرا اكيلے سيف كے ہاتھ ميں ہے '' ۱۸۵

پردہ اٹھتا ہے ۱۸۷

فرزندان على عليه‌السلام سے عائشه كى عداوت ۱۹۰

عائشه دوسرى جنگ كى تيارى كرتى ہيں ۱۹۰

۱۹۸