تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79040 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ان كے اختيارات حوالے كيلئے جائيں(۱۲)

طبرى اس سلسلے ميں يوں لكھتا ہے :

طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام سے مطالبہ كيا كہ كوفہ اور بصرہ كى حكومت انھيں ديديں ، حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا كہ اگر تم دونوں ميرے پاس رہو اور خلافت و حكومت كو رونق بخشو تو اس سے كہيں زيادہ بہتر ہے كہ دور دراز علاقوں ميں جائو اور مجھ سے جدار ہو ، كيونكہ ميں تم لوگوں كے فراق سے احساس تنہائي اور دكھ محسوس كرونگا(۱۳)

جيسا كہ كہا گيا حضرت على نے طلحہ و زبير كى خواہش كے مطابق عہدہ و منصب ان كے حوالہ نہيں كيا اور معاملہ خلافت ميں اپنے ساتھ حصّہ دار اور شريك بھى قرارنہيں ديا ، يہ پہلى وجہ تھى كہ طلحہ و زبير خلافت سے ناراض ہو گئے اور اسى بات نے انھيں حكومت سے رنجيدہ بنايا كہ نتيجہ ميں انھوں نے بيعت توڑ دى اور اخرى جنگ جمل واقع ہوتى _

دوسرى وجہ جو طلحہ و زبير كے بيعت توڑنے كى باعث ہوئي اور انھيں ميدان جنگ ميں كھينچ لائي ، يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام بيت المال كو تمام مسلمانوں كے درميان مساويانہ تقسيم كرتے تھے ، اور كسى شخص كے بھى خصوصى امتياز كے قائل نہيں تھے يہاں تك كہ طلحہ و زبير بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، ليكن يہ مساوات كى روح اور عادلانہ رويّہ ان دونوں كو ہضم نہ ہوسكا اور يہ لوگ بات كو برداشت نہ كرسكے ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام پر شدّت كے ساتھ اعتراضات كئے اور مساوات كے خلاف ريشہ دوانيوں پر امادہ كيا _

_ابن الحديد كہتا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اور ہر شخص كو تين دينار عطا كيا ، زمانہ خلافت عمر اور عثمان كے بر خلاف حضرت علىعليه‌السلام نے تمام عرب و عجم كے مسلمانوں كو برابر و يكساں قرار ديا _

_طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس مساوات پر اعتراض كرتے ہوئے اس عادلانہ بٹوارے كى مخالفت كى ، اور اپنا حصہ نہيں ليا _

_حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا بلاكر پوچھا اللہ كو حاضر و ناظر جان كر بتائو كہ تم ہى لوگ ميرے پاس

____________________

۱۲_ رسول اللہ نے بھى حريص اور رياست طلب افراد كو كوئي منصب اور عہدہ حوالہ نہيں كيا ، صحيح بخارى ج۴ ص ۱۵۶ ، صحيح مسلم ج۵ ص ۶

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۱۵۳ ، تاريخ ابن كثير ج۷ ص ۱۲۷ _ ۱۲۸

۲۱

نہيں ائے تھے اور مجھ سے مطالبہ نہيں كيا تھا كہ خلافت كى باگ دوڑ اپنے ہاتھ ميں لے ليجئے حالانكہ ميں اسے قبول كرنے سے انكار كر رہا تھا اور ميں نے سخت نا پسند يدگى كا مظاہرہ كيا _

_جى ہاں

_كيا تم لوگوں نے بغير زور زبر دستى كے خود اپنے ہى اختيار سے ميرى بيعت نہيں كى تھى اور خلافت و حكومت كے معاملات ميرے حوالے نہيں كئے تھے

_جى ہاں

_پھر اخر كون سى ميرے اندر نا پسنديدہ بات تم نے ديكھى كہ ميرے اوپر اعتراض كر رہے ہو اور ميرى مخالفت كررہے ہو

_يا على آپ خود بہتر جانتے ہيں كہ ميں تمام مسلمانوں كے مقابلے ميں سابق الاسلام ہوں اور صاحب فضيلت ہوں ، ہم نے اس اميد پر آپ كى بيعت كى تھى كہ ميرے مشورہ كے بغير معاملات حكومت كے اہم كام نہيں كيجئے گا ليكن اب ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ ہمارے مشورہ كے بغير اہم كام كررہے ہيں اور بغير ہمارى اطلاع كے بيت المال مساويانہ تقسيم كر رہے ہيں

_اے طلحہ و زبير ؟ تم چھوٹى چھوٹى باتوں پر اعتراض كررہے ہو اور اہم امور و مصالح سے چشم پوشى كررہے ہو ، اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو شايد اللہ تمھارى توبہ قبول كر لے _

_اے طلحہ و زبير مجھے بتائو تو كہ كيا ميں نے جو تمھارا واجبى حق ہے ، اس سے محروم ركھا ہے ، تم پر ظلم و ستم روا ركھا ہے _

_معاذاللہ آپ سے كوئي ظلم نہيں ہوا ہے _

_ كيا بيت المال كى يہ دولت ميں نے اپنے لئے مخصوص كر لى ہے _

_كيا دوسروں سے زيادہ حق لے ليا ہے _

_نہيں ، خدا كى قسم ايسا كام آپ سے نہيں ہوا ہے _

_كيا كسى مسلمان كے بارے ميں تمھيں ايسى بات معلوم ہوئي ہے كہ جو ميں نہيں چاہتا ہوں يا اسے نافذ

۲۲

كرنے ميں سستى اور كمزورى دكھائي ہے _

_نہيں خدا كى قسم

_پھر تم نے ميرى حكومت ميں كيا بات ديكھى كہ مخالفت كررہے ہو اور اپنے كو مسلمانوں كے معاشرے سے الگ تھلگ كررہے ہو _

_ايك ہى چيز نے ہميں آپ سے رنجيدہ خاطر كيا ، اور حكومت سے بد ظن بنايا ہے كہ آپ نے خليفہ ء دوم عمر بن خطاب كى روش كى مخالفت كى ہے ، وہ بيت المال كى تقسيم كے وقت سابق الاسلام افراد اور صاحبان فضيلت لوگوں كا خيال ركھتے تھے ، اور ہر شخص كو اس كے مرتبہ و مقام كے لحاظ سے حصہ ديتے تھے _

ليكن آپ ہيں كہ تمام مسلمانوں كو مساوى قرار ديديا ہے اور ہمارے امتياز كو نظر انداز كيا ہے ، حالانكہ يہ مال و دولت ہمارى ہى تلواروں سے اور ہمارى ہى كوششوں اور جانبازيوں سے حاصل ہوا ہے ، كيسے جائز ہو گا كہ جن لوگوں نے ہمارى تلواروں كے خوف سے اسلام قبول كيا وہ ہمارے برابر ہو جائيں ؟

_تم نے معاملات خلافت ميں مشورے كى بات كہى توسن لو كہ مجھے خلافت سے ذرا بھى رغبت نہيں تمہيں نے مجھے اس كى طرف بلايا اور مجھے زبردستى مسند خلافت پر بيٹھا يا ميں نے بھى مسلمانوں كے اختلاف اور بكھرائو كے ڈر سے اس ذمہ دارى كو قبول كيا ، جس وقت ہم يہ ذمہ دارى قبول كررہے تھے تو عہد كيا تھا كہ كتاب خدا (قران ) اور سنت رسول ہى پر عمل كرونگا ہر مسئلہ كا حكم انھيں دونوں سے حاصل كرونگا مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت نہيں ہے تاكہ تمھارے خيالات سے امور خلافت ميںمدد حاصل كروں اسى قران و سنت نے مجھے دوسرے لوگوں كے استنداد سے بے نياز بنا ديا ہے ، ہاں ، اگر كسى دن كوئي اہم معاملہ پيش ائيگا كہ جس كے بارے ميں كوئي حكم قران و سنت ميں نہ ہو ، اور اپنے مشورے كا محتاج سمجھوں گا، تو تم سے مشورہ كرونگا ، اب رہى بيت المال كے مساويانہ تقسيم كى بات ، تو يہ بھى ميرى خاص روش نہيں ہے ميں پہلا شخص نہيں ہو ں كہ يہ رويّہ اپنايا ہو ، ميں اور تم رسول خدا كے زمانے ميں تھے ہم نے ان كا رويّہ ديكھا كہ ہميشہ بيت المال كو مساويانہ تقسيم كرتے تھے اور كسى شخص كے لئے ذرہ برابر امتياز كے قائل نہيں تھے _

۲۳

اس كے علاوہ اس مسئلہ كا حكم قران ميں بھى ايا ہے كہ ہم مساوات اور برابر كا برتائو كريں اور مہمل امتيازات كوٹھكرا ديں ، يہ قران تمھارے درميان ہے ، اس كے احكام ابدى ہيں اس ميں ذرہ برابر بھى باطل اور نا روابات شامل نہيں ہوئي ہے _

تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ يہ بيت المال تمھارى تلواروں سے حاصل ہوا اس طرح تمھارے امتياز كا لحاظ كيا جائے ، پچھلے زمانہ ميں ايسے لوگ تھے كہ جنھوں نے اپنے جان و مال سے اسلام كى مدد كى انھوں نے مال غنيمت حاصل كيا ، اس كے باوجود رسول خدا(ص) نے بيت المال كى تقسيم ميں ان كے لئے كوئي امتياز نہيں برتا ، ان كى سبقت اسلامى اور سخت جدوجہد اس كا باعث نہيں ہوتى كہ انھيں زيادہ حصہ ديديا جائے ، ہاں ، يہ جانبازى حتمى طور سے ان لوگوں كو اللہ كى بارگاہ ميں لائق توجہ قرار ديتى ہے وہ قيامت كے دن اپنے اس عمل كى جزا پائيں گے ، خدا جانتا ہے كہ ميں اس بارے ميں تمھارے اور تمام مسلمانوں كيلئے اتنا ہى جانتا ہوں ، خدا وند عالم ہم سب كو راہ راست كى ھدآیت كرے ، ہميں صبر عطا كرے ہمارى مددو نصرت كرے ، خدا وند عالم ان لوگوں پر رحمت نازل كرے جو حق كى حمآیت كرتے ہيں ظلم و ستم سے پر ہيز كرتے ہيں اور اس كيلئے برابر كو شاں ہيں _(۱)

طبرى نے بھى اس سلسلہ ميں لكھا ہے :

جب طلحہ تمام قسم كے امتياز سے مايوس ہو گئے تو يہ مشہور كہاوت زبان پر جارى كى _

مالنا من هذا الامر الا كلحسة الكلب انفه (ہميں تو اس كام ميں بس اتنا ہى فائدہ حاصل ہوا جتنا كتّا اپنى زبان سے چاٹنے ميں فائدہ محسوس كرتا ہے )(۲) ہاں ، ہم على كى خلافت سے نہ تو پيٹ بھر سكے اور نہ كوئي منصب پا سكے _

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كرنے كے بعد كسى منصب اور عہدہ كے منتظر تھے انھوں نے چار مہينے تك اس كا انتظار كيا وہ اس عرصے ميں حضرت على كى روش ديكھتے رہے كہ شايد وہ اپنا رويّہ بدل ديں ليكن انھوں نے كسى قسم كى نرمى يا اس رويّہ سے انحراف محسوس نہيں كيا كوئي تبديلى نہيں پائي اس طرح وہ عہدے اور منصب كے حصول سے قطعى مايوس ہوگئے ، ادھر انھيں اطلاع ملى كہ عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كا پرچم مكّہ ميں لہرا ديا ہے تو انھوں نے پكا ارادہ كر ليا كہ عائشه كى مدد كرنے كيلئے مكہ جائيں ، وہ دل ميں يہى خيال لئے ہوئے حضرت امير المومنين كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور زيارت خانہء كعبہ كيلئے سفر كى اجازت چاہى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى بظاہر ان سے اتفاق كيا اور سفر كى اجازت تو ديدى ليكن اپنے دوستوں سے فرمايا ، خدا كى قسم ان لوگوں كے

____________________

۱_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۷ ص ۳۹

۲_ طبرى ج۵ ص ۵۳

۲۴

سفر كا مقصد خانہ كعبہ كى زيارت نہيں ہے بلكہ انھوں نے زيارت كو بہانہ بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد صرف بيعت توڑنا (غدارى اور بے وفائي كرنا ہے )

بہر صورت جب حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كو سفر كى اجازت ديدى تو انھوں نے دوبارہ بيعت كى ، اور مكہ كى طرف جانے لگے وہاں مكہ ميں پہونچ كر حضرت كے مخالف گروہ عائشه كے لشكر ميں مل گئے(۳) _

لشكر كى تيّاري

جب مدينہ كے راستے ميں عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے حضرت على كى بيعت كر لى ہے تو وہ مخالفت كا پكا ارادہ كر كے مكہ وآپس چلى گئيں اور وہاں مخالفت على كا پرچم لہرايا ، كھلم كھلا لوگوں كو آپ كى مخالفت پر ابھارا جب حضرت علىعليه‌السلام كى مخا لف پارٹيوں كو اس كى اطلاع ملى تو چاروں طرف سے عائشه كى طرف پہچنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير جو حضرت علىعليه‌السلام كى مساوات كے سخت مخالف تھے ، جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا ، حضرت علىعليه‌السلام سے بيعت توڑ كر اور ان كى صحبت چھوڑ كر مكہ چل پڑے پھر وہ عائشه كے لشكر ميں شامل ہوگئے(۴)

ادھر بنى اميہ كو حضرت علىعليه‌السلام سے پرانى دشمنى تھى وہ اس موقعے كے انتظار ميں تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بغاوت كريں جب انھيں مخالفت عائشه كى خبر ملى تو وہ بھى مدينے سے مكہ گئے اور اس پرچم كے سايہ ميں پہنچ گئے جسے عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كيلئے لہرايا تھا _

ادھر ان گورنروں اور عاملوں كى ٹولى تھى جو عثمان كے زمانہ ميں عہدہ پائے ہوئے تھے ، ان سب كو حضرت علىعليه‌السلام نے ايك كے بعد ايك معزول كيا اور معزول كر كے عہدوں سے ہٹا ديا يہ بھى مختلف شہروں سے بڑى بڑى دولت ليكر جو مسلمانوں كے بيت المال سے حاصل كى گئي تھى ، عائشه كے لشكر ميں جمع ہونے لگے ، اخر كا ر يہ تمام مختلف الخيال گروہ جن كے دماغ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف ايك مخصوص مقصد تھا چاروں طرف سے عائشه كے لشكر ميں شامل ہونے لگے _

____________________

۳_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۷ ، تاريخ ابن اعثم ص ۱۶۶ _ ۱۶۷

۴_ يہ دونوں عا ئشہ كے رشتہ دار تھے كيونكہ طلحہ ان كے خاندانى تھے اور زبير ان كى بہن كے شوہر تھے

۲۵

طبرى نے زہرى كا بيان نقل كيا ہے كہ :

طلحہ و زبير عثمان كے قتل ہونے كے چار مہينہ كے بعد مكہ ائے اور عبداللہ ابن عامر(۱) بھى ايا جو عثمان كى طرف سے بصرہ كا گورنر تھا اورحضرت علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا وہ ايك بہت بڑى دولت ليكر مكہ ايا ، ادھريعلى بن اميہ(۲) وہ بے حساب دولت ليكر چار سو اونٹوں كے ساتھ مكہ ميں وارد ہوا عبداللہ بن عامر نے بھى لشكر كى تيارى ميں چار لاكھ دينار زبير كو ديئے سپاہيوں كے ہتھيار كا انتظام كيا اور وہ مشہور اونٹ جس كو عسكر كہا جاتا ہے ، اور جسے اسّى دينار يا بقول مسعودى دو سو دينار ميں خريدا تھا ، عائشه كو ديا تاكہ جنگ ميں وہ اس پر سوار ہوں_

عائشه كا ھودج اسى اونٹ پر باندھا گيا ، عائشه كو اس پر بٹھايا گيا اس طرح على كى مخالفوں كى ٹولى مكہ ميں جمع ہوئي اور ايك زبر دست لشكر تيار ہوگيا اور لڑنے كيلئے چلا _

عراق كى طرف

طبرى كا بيان ہے كہ: عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہ كو مكہ ميں اپنے گرد جمع كر ليا اور اس طرح ايك بہت بڑا اور وسائل سے اراستہ لشكر بنا ليا اس كے بعد سرداران لشكر بھى جمع ہو كر گہار مچانے لگے _

ان ميں سے كچھ لوگوں نے كہا كہ ہميں سيدھے مدينے كيطرف چلنا چاہيئے اور اپنى اس طاقت اور لشكر سے على كے

____________________

۱_ عثمان كا خالہ زاد بھائي

۲_يعلى بن اميہ كى كنيت ابو صفوان اور ابو خالد تھى ، فتح مكہ ميں اسلام لايا جنگ حنين طائف اور تبوك ميں شركت كى عمر نے اس كو يمن كے ايك شہر كا حاكم بنا ديا تھا يعلى نے ايك چراگاہ وہا ں اپنے لئے مخصوص كر لى تھى عمر نے اس جرم كى باز پرس كيلئے مدينہ طلب كيا ليكن مدينہ پہونچنے سے پہلے ہى عمر قتل ہو گئے ، پھر عثمان نے اس كو صنعاء كا حكمراں بنايا اور حساس عہدہ حوالہ كيا اس طرح اس نے اس سے شديدوابستگى ظاہر كى جب مسلمانوں نے عثمان سے بغاوت كى تو وہ يہ مدد كرنے كيلئے صنعاء سے چلا راستہ ميں اپنى سوارى سے گرا اور اس كا گھٹنا ٹوٹ گيا ، عثمان كے قتل كے بعد وہ مكہ پہونچا اور اعلان كيا كہ جو بھى عثمان كے انتقام ميں اٹھے گا ميں اس كے ہتھيار اور اخراجات كا ذمہ دار بنوں گا اسى عہد كے مطابق اس نے چار ہزار درہم زبير كو ديئے اور قريش كے ستر سپاہيوں كو مسلح كيا مسلح كركے گھوڑے اور اونٹ ديئے اسى نے عا ئشہ كو وہ اونٹ حوالہ كيا تھا كہ جس پر وہ جنگ جمل ميں سوار ہوئي تھيں ، يعلى نے جنگ جمل سے ان اخراجات كے علاوہ خود بھى شركت كى ليكن جنگ كے بعد توبہ كر كے حضرت على كے صف ميں شامل ہو گيا وہ جنگ صفين ميں حضرت على كے لشكر ميں تھا ، يہ مطلب ہے اسكے ابن الوقت ہونے كا

۲۶

خلاف جنگ كرنا چاہيئے _

كچھ دوسروں نے رائے دى كہ ہم اس كمزور طاقت اور كم افراد كے ساتھ حضرت على كے لشكر كا مقابلہ نہيں كر سكتے اور نہ مركز اور اسلامى راجدھانى پر حملہ كر كے حكومت وقت سے جنگ كر سكتے ہيں (ہميں چاہيئے كہ پہلے شام كى طرف چليں اور معاويہ سے مدد طلب كريں ان سے فوجى كمك اور جنگى سازوسامان حاصل كريں اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كريں )

كچھ دوسروں نے يہ پيش كش كى كہ ہميں پہلے عراق كى طرف كوچ كرنا چاہيئے اور دو عراق كے بڑے شہروں كوفہ اور بصرہ كى طاقت جمع كرنى چاہيئے ، جہاں طلحہ اور زبير كے حمآیتى ہيں اس طرح ہم وسائل جنگى سے زيادہ تيار ہو جائينگے اس كے بعد ہم لوگوں كو مدينہ چل كر على سے جنگ كرنى چاہيئے _

سبھى اركان شورى نے اس رائے كو پسند كر كے تائيد كى ، اسى پر عائشه نے امادگى ظاہر كر كے اپنے فوجيوں كو تيار ہونے كا حكم ديا اور وہ سات سو جنگى سپاہيوں كے ساتھ مكہ سے عراق كيطرف چليں ، ليكن اثنائے راہ ميں چاروں طرف سے لوگ ان كے گرد جمع ہو كر ان كے لشكر ميں شامل ہونے لگے اخر كار اس فوج كى تعداد تين ھزار تك پہونچ گئي(۵)

ام سلمہ نے عائشه كو سمجھايا

ابن طيفوركا بيان ہے :

جس دن عائشه نے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كى طرف حركت كى ام سلمى نے ان سے ملاقات كر كے كہا :

اے عائشه اللہ نے تمھيں پابند بنايا ہے اس كے حكم سے سرتابى نہ كرو اللہ نے اپنے پيغمبر(ص) اور تمھارے درميان اور لوگوں كے درميان حجاب كا احترام قرار ديا ہے ، وہ پردہ پھاڑ كر رسول(ص) كا احترام مت برباد كرو ، اللہ نے تمھيں گھر ميں بيٹھنے كا حكم ديا ہے اسے صحرا نوردى ميں مت بدل دو _

اے عائشه رسول(ص) خدا تمھيں بہت اچھى طرح پہچانتے تھے _

____________________

۵_طبرى ج۵ ص ۱۶۷

۲۷

تمھارى حيثيت سے بھر پور واقفيت ركھتے تھے اگر ايسے معاملات ميں تمہارى مداخلت بہتر ہوتى تو لازمى طور سے تمھيں كوئي حكم ديتے اور تم سے كوئي معاھدہ كرتے ،ليكن صورت حال يہ ہے كہ صرف يہى نہيں كہ انھوں نے اس بارے ميں تم كو كوئي حكم نہيں ديا ہے بلكہ ايسے اقدامات سے تمھيں منع كيا ہے _

اے عائشه اگر رسول خدا (ص) تمھيں اس طرح سفر كى حالت ميں ديكھيں تو انھيں تم كيا جواب دوگى ؟ خدا سے ڈرو ، اور خدا كے رسول سے حيا كرو كيونكہ خداوند عالم تمھارى اس روش كو ديكھ رہا ہے وہ تمھارے سارے اعمال كا نگراں ہے اور تمھارا چھوٹا سا عمل بھى رسول خدا(ص) سے پوشيدہ نہيں ہے _

اے عائشه تم نے جو راستہ اپنايا ہے يہ انسانيت سے گرا ہوا راستہ ہے كہ اگر ميں تمھارى جگہ پر ہوتى اور مجھے حكم ديا گيا ہوتا كہ جنت ميں جائوں تو مجھے شرم اتى كہ وہاں ميں رسول خدا(ص) سے ملاقات كروں گى ، تم بھى اپنى شرم و حيا ختم نہ كرو اور مرتے دم تك ايك گھر كے كونے ميں بيٹھى رہو تاكہ رسول اللہ تم سے راضى رہيں _

بعض مورخين كے بيان كے مطابق ام سلمى نے اخرميں يہ فرمايا كہ:

اے عائشه تمہارے بارے ميں جو كچھ ميں نے رسول اللہ سے سنا ہے ، اگر انھيں دہرائوں تو تم اس طرح تڑپنے لگوگى جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے ، اور تم صدائے فرياد بلند كرنے لگوگى _

عائشه نے ام سلمى كا جواب ديا اے ام سلمى اگر چہ ميں نے ہميشہ تمھارى نصيحت مانى ہے ليكن ميں اس معاملہ ميں تمھارى بات نہيں مان سكتى ، كيونكہ يہ بہت مبارك سفر ہے جس كا ميں نے ارادہ كيا ہے ، ديكھو مسلمانوں كى دو پارٹيوں ميں اختلاف ہے اب ان ميں صلح و صفائي ہو جايئگى ، ميں ان اختلافات كو ختم كركے دم لونگى ،

نعم المطلع مطلعاًاصلحت فيه بين فئتين متناجزتين (۶) _

راستے كى باتيں

عائشه نے اپنے اس لشكر كو كوچ كا حكم ديا كہ جو حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہوں او ر پارٹيوں سے تشكيل پايا تھا اور عراق كى طرف چليں اس طويل راستے ميں بصرہ پہچنے تك ايسے واقعات و حوادث پيش ائے جنھيں يہاں پيش كيا جاتا ہے _

____________________

۶_ فائق زمخشرى ج۱ ص ۲۹۰ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۷۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۶۹ ، تاريخ يعقوبي

۲۸

پيش نمازى پر اختلاف

طبرى لكھتاہے :

جس وقت عائشه كا لشكر مكہ سے چلا شھركے باہر مروان نے نماز كيلئے اذان دى ، اس كے بعد طلحہ و زبير كے سامنے اكر بولا _

ميں تم دونوں ميں سے كس كو امير سمجھوں كہ جسے لوگوں كے سامنے پيش نمازى كيلئے متعارف كرائوں چونكہ طلحہ و زبير اپنے نظريہ كو ايك دوسرے كے سامنے واضح طور سے بيان نہيں كر سكتے تھے كہ اپنے كو اس مقام كيلئے پيش كريں ، ان دونوں كے بيٹوں نے اپنى رائے ظاہر كى ہر ايك اپنے بآپ كو پيش كرنے لگا عبداللہ نے اپنے بآپ زبير كو اور محمد نے بھى اپنے بآپ طلحہ كو پيش كيا ، اس طرح دونوں كے درميان اختلاف پيدا ہوگيا جب عائشه كو اس واقعہ كى اطلاع ملى تو وہ سمجھ گئيں كہ پيش نمازى كے بہانے سے نفاق اور اختلاف كا بيج لشكر كے درميان بويا جارہا ہے انھوں نے مروان كو اپنے پاس بلاكر كہا اے مروان تو كيا چاہتا ہے ؟اپنى اس حركت سے لشكر ميں اختلاف كيوں پيدا كررہا ہے نماز ميرے بھائي كا بيٹا عبداللہ ابن زبير پڑھائيگا عائشه كے فرمان كے مطابق جب تك لشكر بصرہ پہنچے عبداللہ نماز پڑھاتے رہے اور تمام لوگ انھيں كے پيچھے نماز پڑھتے رہے _

معاذ ابن عبداللہ نے جب پيش نمازى كے مسئلے ميں طلحہ و زبير كے درميان اختلاف ديكھا تو كہا :

خدا كى قسم ، اگر فتح اور كاميابى ہمارے حصہ ميں ائي تو مسئلہ خلافت ميں ہم لوگ سخت اختلاف كا شكار ہو جائيں گے

كيونكہ نہ تو زبير اس منصب سے دستبردار ہونگے كہ وہ طلحہ كو ديديں اور نہ طلحہ يہ منصب زبير كو دينگے(۷) _

انتظامى معاملات كا اختلاف

طبرى كا بيان ہے كہ جب عائشه كا لشكر ذات عرق پر پہنچا تو سعيدابن عاص(۸) جو بنى اميہ كے اشراف قريش ميں تھا اور عائشه كے لشكر كا فوجى تھا اس نے مروان اور اس كے ساتھيوں سے كہا كہ اگر واقعى تم خون عثمان كا انتقام لينا چاہتے ہو تو كہاں جارہے ہو ؟چونكہ عثمان كے قاتل تو اسى لشكر ميں موجود ہيں(۹)

____________________

۷_طبرى ص۱۶۸

۸_ سعيد ابن عاص يہ شخص بنى اميہ كا تيز طرار ادمى سمجھا جاتا تھا اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس كے بآپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا تھا ، يہ عثمان كا منشى تھا اور عثمان كى طرف سے كوفے كا حكمراں تھا علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا

۹_ اس كا مطلب طلحہ زبير اور عا ئشہ سے تھا

۲۹

انھيں كو قتل كردو اور اپنے گھروں كو وآپس چلو ، حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كر كے اپنے كو موت كے منھ ميں كيوں جھونكا جائے ؟

مروان اور اسكے ساتھيوں نے جواب ديا ، ہم اس لئے جا رہے ہيں كہ طاقت حاصل كر سكيں اس طرح ہم عثمان كے تمام قاتلوں كو قتل كر سكيں گے _

اس كے بعد سعيد نے طلحہ و زبير سے ملاقات كى اور كہا ميرے ساتھ سچائي كے ساتھ ائو صحيح صحيح بات كہو كہ اگر اس جنگ ميں تمھيں فتح ملى تو حكومت و خلافت كو كس شخص كے حوالے كرو گے ؟

انھوں نے كہا ہم دونوں ميں سے جس كو بھى عوام چن ليں _

سعيد نے كہا :سچ ، اگر تم خون عثمان كے انتقام ميں اٹھے ہو تو كيا اچھا ہوتا كہ اس خلافت كو بھى انھيں كے بيٹوں كے حوالے كردو _

ان لوگوں نے جواب ديا ہم مہاجر ين كے بوڑھوں اور بزرگوں كو الگ كر ديں اور نا تجربہ كار جوانوں كو اس كام ميں لگا ديں ؟

سعيد نے كہا : ہم بھى نہيں چاہتے كہ خلافت خاندان عبد مناف سے ليكر دوسروں كے اختيار ميں ديديں(۱۰) يہ كہكر

وہاں سے چلا ايا _

عبداللہ ابن خالد اسيد بھى بنى اميہ سے تھا وہ لشكر سے الگ ہوگيا ، مغيرہ ابن شعبہ جو قبيلہ سقيف سے تھا ، جب اس نے اس حادثہ كا مشاہدہ كيا تو اپنے قبيلہ كے افراد سے پكار كر كہا جو بھى قبيلہ ثقيف كا ہے وہ وآپس ہو جائے ، وہ لوگ بھى جو راستے ميں ائے تھے وآپس ہوگئے(۱۱) اور بقيہ لشكر اگے بڑھتا رہا _

تيسرا اختلاف

طبرى اپنى بات اگے بڑھاتے ہوئے لكھتا ہے كہ امارت كے اس اختلاف كے بعد اور چند افرادكى وآپسى كے بعد عثمان كے دونوں فرزند وليد اور ابان بھى عائشه كے لشكر ميں تھے منزل ذات سے اگے بڑھے _

____________________

۱۰_ خاندان عبد مناف كى فرد ميں بنى ہاشم اور بنى اميہ شامل ہيں اس وقت علىعليه‌السلام خليفہ تھے اس لئے بنى اميہ كى فرد سعيد اس بات پر راضى نہيں تھا كہ خلافت بنى ہاشم سے نكل كر خاندان تيم ميں پہنچے اور طلحہ كو حاصل ہو يا زبير كو ملے كہ جو بنى اسد كے خاندان سے تھا

۱۱_ طبرى ج۵ ص۱۶۸ _ طبقات ج۵ ص۲۳

۳۰

ليكن لشكر ميں تيسرى بار بھى اختلاف پيدا ہو گيا كہ كچھ لوگ كہنے لگے كہ ہميں شام كيطرف چلنا چاہيئے اور كچھ لوگ عراق كى رائے دے رہے تھے اس بارے ميں زبير نے اپنے بيٹے عبداللہ اور طلحہ نے اپنے بيٹے علقمہ كو مجلس شورى ميں نامزد كيا ان دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے كيا كہ ہم لوگوں كو عراق كى جانب چلنا چاہيئے ، اس طرح نظر ياتى اختلاف اور فوجى كشا كش ختم ہوئي(۱۲)

حوا ب كا واقعہ

چوتھا بھى پيش ايا ، جب عراق كے راستے ميں عائشه كا لشكر تھا اسى وقت اثنائے رائے ميں طلحہ و زبير كو معلوم ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام مدينہ سے چل چكيں ہيں اور وہ منزل ذيقار ميں پہنچ گئے ہيں ، اور كوفے كا راستہ ان پر بند ہو چكا ہے ،طلحہ و زبير نے كوفہ جانے كا خيال بدل ديا اور بے راہہ سے استفادہ كرتے ہوئے بصرے كى طرف چلنے لگے يہاں تك كہ وہ اس جگہ پہچے جس كا نام حوا ب تھا ، وہاں عائشه كے كانوںميں كتّوں كے بھونكنے كى اواز پہنچى _ انھوں نے پوچھا اس جگہ كا كيا نام ہے _

____________________

۱۲_ طبرى ج۵ ص ۱۶۸ ، طبقات ج۵ ص ۲۳

۳۱

لوگوں نے جواب ديا ، حوا ب

فوراً عائشه كو حضرت رسول (ص) اللہ كى حديث ياد اگئي كہ آپ نے اپنى ازواج سے كہا تھا كہ تم ميںسے ايك كو حوا ب كے كتّے بھونكيں گے اور ان ازواج كو منع كيا تھا _

عائشه كو اس حادثہ نے بے چين كر ديا كيونكہ انھيں حديث رسول ياد تھى وہ گھبراہٹ ميں كہنے لگيں انا للہ و انااليہ راجعون ، ہائے ميں وہى عورت ہوں كہ جس كى رسول خدا(ص) نے خبر دى تھى _

عائشه اس خيال كے اتے ہى اس سفر سے پلٹنے لگيں انھوں نے پكّا ارادہ كر ليا كہ ميں وآپس جائوں گى _

جب عبداللہ ابن زبير كو عائشه كے وآپسى كى اطلاع ہوئي تو ان كے پاس اكر حوا ب كے بارے ميں گفتگو كى اور يہ ظاہر كيا كہ جن لوگوں نے آپ كو بتايا ہے انھيں دھوكا ہوا ہے ، اس جگہ كا نام حوا ب نہيں ہے _

عبداللہ ابن زبير اس واقعے كے بعد ہميشہ عائشه كى نگرانى كرتے رہے كہ مبادا دوبارہ بھى كوئي شخص ان سے ملكر اس سفر سے موڑدے _

جى ہاں ، فرزند زبير نے حوا ب كے بعد سے عائشه كے ھودج كے پاس سائے كيطرح چلتے رہے يہاں تك كہ بصرہ وارد ہو گئے(۱۳) _

سرداران لشكر كى وضاحت

طبرى كا بيان ہے كہ :

عائشه كا لشكر مكے سے چل كر بصرہ كے نزديك پہنچا اور وہاں ايك مقام جس كا نام حفر ابو موسى تھا اتر پڑا عثمان ابن حنيف انصارى حضرت علىعليه‌السلام كى طرف سے بصرہ كے گورنر تھے جب انھيں واقعہ كى اطلاع ملى تو ابوالاسود دئيلى كو مامور كيا كہ لشكر عائشه ميں جاكر ان كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كى خواہش و مقصد كى تحقيق كريں _

ابو الاسود نے اپنے كو عائشه كے لشكر ميں پہونچايا ، پہلے انھوں نے خود عائشه سے ملاقات كى اور پوچھا _

اے عائشه بصرہ انے كا مقصد كيا ہے _

عائشه نے جواب ديا عثمان كے خون كا ان كے قاتلوں سے انتقام لينے يہاں ائي ہوں

____________________

۱۳_ طبرى ج۵ ص۱۷۸ ، عبد اللہ بن سبا ج۱ ص ۱۰۰

۳۲

ابوالاسود نے كہا اے عائشه بصرہ ميں كوئي بھى عثمان كا قاتل نہيں ہے كہ آپ ان سے انتقام ليں _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود تم ٹھيك كہتے ہو ، عثمان كے قاتل بصرے ميں نہيں ہيں اور ہم بھى يہاں اس لئے نہيں ا ئے ہيں كہ قاتلوں كو بصرہ ميں تلاش كريں بلكہ اس لئے ائے ہيں كہ اس شہر كے لوگوں سے مدد طلب كريں اور ان لوگوں كى مدد و حمآیت سے مدينہ كے قاتلان عثمان سے انتقام ليں جوحضرت علىعليه‌السلام كے ارد گرد ہيں _

اے ابو الاسود جس دن عثمان نے تمہيں تازيانے سے اذيت دى تھى تو مجھے دكھ ہوا تھا اور ميں نے صاف طور سے ان كے اوپر سخت اعتراض كيا ليكن تم لوگوں نے تو انھيں تلواروں سے قتل كيا يہ كيسے مناسب ہے كہ ميں خاموش رہ جائوں اور ان كى مظلوميت پر فرياد نہ كروں ، ان كا انتقام نہ لوں ؟

اے ابوالاسود نہيں ، ميں ہرگز خاموش نہيں رہونگى _

_ ابوالاسود نے كہا :اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار آپ تو رسول(ص) خدا كے حكم كے مطابق پردہ نشين ہيں آپ كى صرف يہى تكليف ہے كہ اپنے گھر ميں بيٹھى رہيں قران كى تلاوت كريں ، اور پروردگار كى عبادت بجالائيں ، اے عائشه اسلام ميں عورتوں پر جھاد نہيں ہے ، اس كے علاوہ خون عثمان كا انتقام تو تمھارا حق بھى نہيں ، حضرت على خون عثمان كے انتقام كا زيادہ حق ركھتے ہيں كيونكہ وہ رشتہ كے لحاظ سے تم سے زيادہ عثمان كے قريب ہيں كيونكہ دونوں ہى خاندان عبد مناف سے ہيں ، ليكن تم قبيلہ تيم سے ہو _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ميں اپنا ارادہ بدلوں گى نہيں ، اب اس راہ سے وآپس نہيں جائوں گى جب تك اپنا مقصد نہ حاصل كر لوں اور اپنے قيام كے نتيجہ تك نہ پہونچ جائوں _

اے ابوالاسود تم نے كہا عوتوں پر جنگ و جھاد نہيں ، كون سى جنگ ؟ اور كيسا جھاد ؟ كيا اس معاملے ميں جنگ و جھاد كى بھى بات ہے ، ميرى جو حيثيت ہے (كيا كسى كو جرائت ہو سكتى ہے كہ مجھ سے جنگ كرے )

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو دھوكا تو يہيں ہوا ہے كيونكہ آپ سے ايسى جنگ ہوگى كہ اس كا اسان ترين ميدان شعلوں سے بھرا ہوا اور كمر شكن ہوگا _

ابوالاسود نے يہيں بات ختم كردى ، پھر انھوں نے زبير سے ملاقات كى اور كہا:

۳۳

اے زبير وہ دن بھولا نہيں ہے جب لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى تھى ، اور آپ قبضہ شمشير پر ہاتھ ركھ كر نعرہ لگا رہے تھے _

( كوئي شخص خلافت كيلئے على سے بہتر اور لائق نہيں ہے ، خلافت كا لباس صرف على كيلئے موزوں ہے ان كے علاوہ كسى كو زيب نہيں ديتا ، ليكن آج وہى شمشير آپ نے ہاتھ ميں ليكر انھيں على كے خلاف قيام كيا ہے _

اے زبير كہاں وہ دلسوزى اور طرفدارى ، اور كہاں يہ عداوت و مخالفت ؟

زبير نے ابوالاسود كے جواب ميں قتل عثمان كا مسئلہ پيش كيا _

_ابو الاسود نے كہا :ہم نے تو جيسا كہ سنا ہے قتل عثمان ميں آپ ہى لوگ شريك ہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كو ذرہ برابر بھى اس كے قتل ميں دخل نہيں زبير نے كہا اے ابوالاسود ذرا طلحہ كے پاس جائو ، ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _

ابوالاسود كا بيان ہے: كہ ميں طلحہ كے پاس گيا ليكن وہ بہت تند مزاج اور فتنہ انگيز تھے ، وہ بہت زيادہ جنگ كى باتيں كرتے رہے ميرى تمام نصيحتيں اور باتيں بے اثر رہيں(۱۴)

دوسرى روآیت كے مطابق ابوالاسود كا بيان ہے كہ ميں اور عمران ابن حصين بصرہ كے گورنر عثمان ابن حنيف كى طرف سے عائشه كے پاس گئے اور ان سے يہ وضاحت چاہى كہ _

اے عائشه كيا وجہ ہوئي كہ آپ يہاں تك پہنچ گئيں ، كيا آپ كے اس قيام اور سفر كے بارے ميں رسول(ص) خدا كا فرمان ہے يا آپ نے اپنى ذاتى رائے سے يہ اقدام كيا ہے _

عائشه نے كہا: اس بارے ميں ميرے پاس رسول(ص) خدا كا كوئي فرمان يا حكم نہيں ہے بلكہ جس دن سے عثمان قتل كئے گئے ميں نے ذاتى طور سے ان كے خون كا انتقام لينے كى ٹھان لى ، كيونكہ ہم عثمان كے زمانے ميں واضح طور سے ان پر اعتراض كيا كرتے تھے كہ مسلمانوں پر كيوں ظلم ڈھا رہے ہو ، انھيں تازيانے كيوں لگا رہے ہو ، عام زمينوں اور چرا گاہوں كو اپنے اور خاندان والوں كے مويشيوں كيلئے كيوں مخصوص كر لى ہے ، اس سفّاك اور ظالم وليد كو

____________________

۱۴_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۷ ، شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۳۴

جسے رسول(ص) خدا نے جلا وطن كيا تھا اور قران نے فاسق كا نام ديا(۱۵) ايسے شخص كو مسلمانوں كا حكمراں بنا ديا ، ہاں ، ہم نے يہ تمام باتيں اس كے كان ميں ڈاليں اس نے ميرى تمام باتيں مان ليں اپنے كارندوں كى حركات پر شر مندہ بھى ہوا ، اور اپنے توبہ سے اپنے كو پاك كر كے غلطيوں كى تلافى كى _

ليكن تم لوگوں نے اس كے توبہ كو ذرہ برابربھى اہميت نہيں دى ، تلواريں كھينچے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كے گھر ميںاسے مظلوم اور بے گناہ قتل كرديا ، تم لوگ اسلامى سر زمين مدينہ كى عظمت اور خلافت كى شان و شوكت ، ماہ ذى الحجہ كى حرمت ان تمام چيزوں كو اسلام نے محترم قرار ديا ہے تم نے ان سبكو روند ڈالا ، كيسے اور كيوں ميں اس ظلم و ستم كے مقابلہ ميں خاموش رہوںاور اس سركشى اور زيادتى كے مقابلے ميںچپ بيٹھ جائوں_

ابو الاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار ؟ كيا رسو ل (ص) خدا نے آپ كو ايسے معاملات ميں مداخلت سے منع نہيں كيا تھا ؟

انھوں نے آپ كے لئے گھر كى كوٹھى پسند نہيں كى تھى آپ اپنے شوہر كے حكم كے خلاف اپنے گھر سے باہر كيوں نكل ائيں اور مسلمانوں كے درميان فتنہ و ہنگامہ كھڑا كيا ؟

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ، كون سا فتنہ و فساد ؟كيا كوئي ايسا بھى ہے جو مجھ سے جنگ كرے ؟ يا ميرے خلاف زبان كھولے كہ فتنہ و فساد پيدا ہو ؟ ہرگز ايسا واقعہ پيش نہيں ائيگا ميرے مقابلہ ميں ايسى حركت كى كسى كو جرائت نہيں ہو گى _

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه اگر يہ مخالفت اور ہنگامہ ارائي اگے بڑھتى رہى تو لوگ آپ سے جنگ كرينگے اور ايك عظيم فتنہ برپا ہو جائيگا _

عائشه نے كہا: اے ابو الاسود ، اے قبيلہ عامر كے پست فطرت ، اے بنى عامر كے چھو كر ے بات كم كر ، كون شخص ہے جو زوجہ رسول سے جنگ كر سكے(۱۶)

____________________

۱۵_ سورہ حجرات آیت ۶

۱۶_ بلاغات النساء ص ۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۹۸ ، البيان والتبيين جاحظ ج۲ ص ۲۰۹

۳۵

ابو الاسود اور عائشه سے يہيں پر بات ختم ہو گئي ، ليكن عائشه نے ابو الاسود كى بات كا ذرا بھى اثر نہيں ليا ، اپنا ارادہ نہيں بدلا ، انھوں نے اپنے لشكر والوں كے ساتھ حفر ابو موسى سے اگے بڑھكر بصرہ كے نزديك ايك جگہ پڑا ئو ڈال ديا _

سردار ان لشكر نے تقريريں كيں

لشكر عائشه بصرہ پہنچ گيا اور شہر كے وسيع ميدان --''مربد''كو اپنى چھائونى بنايا _

عثمان ابن حنيف انصارى جوحضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ كے حكمراں تھے ، دوبارہ كچھ لوگوں كو مربدبھيجا ، تاكہ لشكر عائشه كا انتہائي مقصد دريافت كريں _

عائشه نے جب اپنى فوج ميں ايك بڑا اجتماع ديكھا اور بصرے والوں كو بھى ايك جگہ ديكھا تو موقعہ غينمت خيال كركے ان كے سامنے اس طرح تقرير كى _

اے لوگو امير المومنين عثمان اگر چہ حق و عدالت كے راستے سے منحرف ہوگئے تھے ، انھوں نے رسو ل خد(ص) ا كے اصحاب كو اذيت دى ، ناتجربہ كار اور فاسد جوانوں كو حكومت ديدى ، ايسے لوگوں كى حمآیت كى جن پر رسول خدا (ص) غضبناك تھے اور انھوں نے مسلمانوں كى ابادى سے جلا وطن كيا تھا ، عمومى چراگاہوں كو اپنے لئے اور بنى اميہ كيلئے خاص كر ليا تھا ليكن ان تمام باتوں كے با وجود جب لوگوں نے ان پر اعتراض كيا اور اس كے انجام گوش زد كئے تو انھوں نے لوگوں كى نصيحتوں سے سبق ليا اپنے خراب كرتوتوں سے پشيمانى كا اظہار كيا اور اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں سے پاك كر ليا _

ليكن كچھ لوگوں نے ان كے توبہ كو وقعت نہيں دى ان كى پشيمانى پر اعتنا نہيں كيا اور انھيں قتل كر ڈالااور اس پاكيزہ شخص اور بے گناہ شخص كا خون بہا ڈالا اسے قتل كر كے بہت سے بڑے گناہوں سے اپنے كو الودہ كيا كيونكہ وہ خلافت كا مقدس لباس پہنے ہوئے تھے ، جس مہينے ميں جنگ اور خونريزى حرام ہے اسى ماہ ذى الحجہ ميں ، اور اس شہر ميں كہ جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے ، اسى شہر ميں قربانى كے اونٹ كى طرح انھيں قتل كر ڈالا ان كا خون زمين پر بہا ديا _

اے لوگو جان لو كہ قريش قتل عثمان كے اصل مجرم ہيں انھيں قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بنا ليا ہے اور اپنے مكّے خود اپنے منھ پر مارے ہيں قتل عثمان سے وہ اپنا مقصد نہ پائيں ان كى حالت كو كوئي فائدہ نہ ہو ، خدا كى قسم ان

۳۶

لوگوں كو افت گھير لے گى جو انھيں نيست و نابود كر ديگى انگاروں سے بھر پور افت ، انھيں جڑ سے اكھاڑنے والى ، ايسى افت كہ سوئے لوگوں كو جگا ديگى اور بيٹھے لوگوں كو اٹھا ديگى _

ہاں ، خدا ئے عادل اس بے حد ظلم كے مقابلے ميں ايسے لوگوں كو ان پر مسلط كر ديگا كہ ان پر ذرا بھى رحم نہ كرينگے اور انھيں بد ترين اور سخت عذابوں سے انھيں اذيت ديگا _

اے لوگو عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا جو ان كے قتل كو جائز بنادے پھر يہ كہ تم لوگوں نے ان سے توبہ كرنے كو كہا اس كے بعد ان كى توبہ كو وقعت ديئے بغير (ٹوٹ پڑے اور بے گناہ ان كا خون بہا ڈالا اس كے بعدتم نے لوگوں كے مشورہ كئے بغير على كى بيعت كر لى اور غاصبانہ طريقے سے انھيں كر سى خلافت پربٹھاديا ) تم لوگ سونچو كہ ميں تمھيں لوگوں كے فائدہ كيلئے عثمان كے حق ميں تمہارى ان شمشيروں سے جوان پر برسائي گئيں غضبناك نہيں ہو جائوں اور خاموش رہوں ؟

اے لوگو ہوش ميں ائو كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اب تم لوگ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو ،جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو ، اس كے بعد ان لوگوں ميں سے جنھيںعمر نے خلافت كيلئے نامزد كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ منتخب كر لو ، ليكن ايسا نہيں ہونا چاہيئے كہ جس شخص نے عثمان كو قتل كيا(۱۷) وہ خلافت كے بارے ميں يا شورى ميں خليفہ معين كرنے كيلئے شامل ہو اور ذرا بھى مداخلت كرے(۱۸) زھرى كا بيان ہے كہ عائشه كى تقرير ختم ہوتے ہى طلحہ و زبيرنے بھى اٹھ كر لوگوں كے سامنے يہ تقرير كى _

اے لوگوں ، ہر گناہ كى توبہ ہے اور ہر گنہگار پشيمان ہونے كے بعد وہ پلٹتا ہے جس كے اثر سے وہ پاك اور مغفور ہو جاتا ہے ، عثمان بھى اگر چہ گنہگار تھے ليكن انكا گناہ توبہ اور امرزش كے قابل تھا ہم بھى كسى حيثيت سے ان كے قتل كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ہم صرف يہ چاہتے تھے كہ ان كى سرزنش كريں اور اس طرح انھيں توبہ پر مجبور كريں ، ليكن كچھ نادان اور ھنگامہ پسند ادميوں نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا اور ہمارے جيسے صلح و پسند (ملائم اور حليم لوگوں پر حاوى ہو گئے اور نتيجہ ميں انھيں قتل كر ڈالا )ابھى طلحہ و زبير كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ بصرہ والے چاروں طرف

____________________

۱۷_قاتل عثمان سے ان كى مراد حضرت على ہيں

۱۸_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۴۹۹

۳۷

سے اعتراض كرنے لگے اور چلانے لگے _ اے طلحہ تمھارا خط ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس كا لہجہ بہت سخت تھا ، آج كى تمھارى بات سے اور اس خط كے مضمون سے كوئي مناسبت اور ميل نہيں ہے ،اس موقعہ پر زبير نے لوگوں كو مطمئن اور خاموش كرنے كيلئے كھڑے ہو كر تقرير شروع كر دى ، اور كہا اے لوگو :

ميں نے عثمان كے بارے ميں تمھيں كوئي خط نہيں لكھا اگر تمھارے پاس اس بارے ميں كوئي خط پہنچا ہے تو وہ دوسروں نے لكھا ہو گا _

اپنى پہلى بات كو زيادہ اب و تاب سے بيان كرنے لگے اور عثمان كى مظلوميت لوگوں كے سامنے زيادہ وضاحت سے بيان كى اس ضمن ميں حضرت على اور ان كے ماننے والوں كى شدت كے ساتھ تنقيد اور مذمت كى _(۱۹) _

__________________

۱۹_ طبرى ج۲ ص ۱۷۸

۳۸

مقرروں پر اعتراض

عائشه اور ان كے سرداران لشكر كى اتشيں تقريروں كے بعد جو مربد ميں ہوئي تھيں كچھ سامعين كھڑے ہو گئے اور انھوں نے واضح لفظوں ميں اعتراضات كئے _

طبرى نے ان تقريروں كو نقل كرنے كے بعد لكھا ہے كہ اسى موقعہ پر خاندان عبدالقيس كا ايك شخص كھڑا ہو كر بولا ، اے زبير خاموش ہو جا ، ميں بھى كچھ كہنا چاہتا ہوں اور جو كچھ لازم ہے وہ لوگوں تك پہونچانا چاہتا ہوں _

عبداللہ ابن زبير اس پر بپھر كر بولے ، اے مرد عبدى تيرى كيا حيثيت كہ بات كرے ليكن اس شخص نے ابن زبير كى سرزنش پر كوئي توجہ نہيں كى اور عائشه كے لشكر والوں سے كہنے لگا تم مہاجر ين كے گروہ ميںہو تم نے زندگى ميں عظيم فضيلت و افتخار حاصل كيا كيونكہ تم ہى تھے جنھوں نے رسول اكرم (ص) كى پہلى اواز پر لبيك كہى ، اور تمام لوگ تمھارے بعد تمھارى پيروى ميں اسلام سے وابستہ ہوئے ، اسے جان و دل سے قبول كيا اور جس وقت رسول(ص) خدا لقائے الہى سے جا ملے تمھيں لوگ تھے جنھوں نے آپنوں ميں سے ايك كا انتخاب كيا اور اسكى بيعت كى ، باوجود اس كے كہ تم نے اس انتخاب ميںہم سے مشورہ نہيں كيا اور ہمارى اطلاع كے بغيريہ اقدام كر ڈالا ، پھر بھى ہم نے تمھارى

۳۹

مخالفت نہيں كى ، تم جس بات كو پسند كرتے تھے ہم اس پر راضى رہے ان كى زندگى ختم ہوئي اور كسى شخص كو تمھارے درميان سے خلافت كيلئے چن ليا گيا تم لوگوں نے ہميں اطلاع ديئے بغير اس كى بيعت كرلى ہم نے بھى اسے مان ليا ، اور تمھارى خوشنودى خاطر كيلئے ہم نے اسكى بيعت كرلى ، اس نے بھى جب دنيا سے رخت سفر باندھا تو امارت و خلافت كو چھہ ادميوں كے درميان ڈال كر معاملہ شورى كے حولے كر ديا ، ان چھہ افراد ميں سے عثمان كو منتخب كر كے تم نے بيعت كر لى ليكن دير نہيں گذرى كہ تم نے اسكى روش كو نآپسند كيا ، اس كے كرتوتوں پر اعتراض كيا ، يہاں تك كہ تم نے اس كے خون سے اپنا ہاتھ رنگين كيا حالانكہ تم نے نہ اسكى خلافت ميں ہم سے مشورہ كيا تھا اور نہ قتل ميں ، وہيں تم لوگ على كے گھر پر چڑھ دوڑے ان سے حد سے زيادہ اصرار كيا يہاں تك كہ انكو زبردستى اس كام پر امادہ كيا اور انكى بيعت كرلى ، پيمان خلافت باندھ ليا ، يہ تمام باتيں تو ا ن لوگوں نے ہمارى اطلاع كے بغير اور ہمارے مشورے كے بغير انجام ديا ليكن اب ہم نہيں جانتے كہ كس دليل سے اسكے خلاف تم نے فتنہ ابھارا ہے اور ان سے امادہء جنگ ہو گئے ہو ؟

كيا حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے مال و دولت ميں خيانت اور زيادتى كى ہے يا خلاف حق كوئي كام كيا ہے يا تم لوگوں كى پسند كے خلاف كسى عمل كے مرتكب ہوئے ہيں _

نہيں ، ہر گز نہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كا دامن ان تمام باتوں سے پاك ہے _

پھر ہم لوگ ان پر كيا اعتراض كريں ؟ اور كيوں ان سے جنگ كريں ؟

ابھى اس شخص كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ لشكر عائشه سے كچھ لوگ اسكى حق گوئي پر بھڑك اٹھے اور اسكے قتل كا ارادہ كيا اس شخص كے خاندان كے لوگ اور رشتہ دار اسكى مدد ميں كھڑے ہو گئے ، اسكى طرف سے دفاع كرنے لگے ، يہاں تك كہ وہ اپنى جان بچا كر لشكر كے درميان سے بھاگ گيا _

ليكن حادثہ يہيں پر ختم نہيں ہو گيا ، اور دوسرے دن عائشه كے لشكر اور اس شخص كے قبيلہ كے درميان جنگ ہوگئي اس شخص كے قبيلے كے ستر ادميوں كو ان لوگوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كر ديا(۲۰)

جس وقت يہ واقعہ امام نے سنا توبہت زيادہ غمگين ہوئے آپ نے ان لوگوں كى تعزيت ميں شعر اس مضمون

____________________

۲۰_ طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198